تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت27%

تفسیر انوار الحجّت مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 217

تفسیر انوار الحجّت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 154990 / ڈاؤنلوڈ: 5697
سائز سائز سائز
تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف:
اردو

نام کتاب : قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں

مولف : آی ت اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ

مترجم: ہادی حسن فیضی ہندی

تصحیح : کلب صادق خان اسدی

نظر ثانی: سید شجاعت حسین رضوی

پیشکش: معاونت فرہنگی ،ادارۂ ترجمہ

کمپوزنگ : ابو النورین

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت (ع)

طبع اول : 1427ھ 2006 ء

تعداد : 3000

مطبع : لیلا

۱

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۲

اگرچہ رسول اسلام کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے،

خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

۳

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتو رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علّام آیة اللہ محمد تقی مصباح یزدی کی گرانقدر کتاب'' قرآن در آئینۂ نہج البلاغہ'' کو فاضل جلیل مولانا ہادی حسن فیضی ہندی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۴

مقدمہ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلامُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ آلِهِ الطَّاهِرِیْنَ.

اگر چہ ہم معتقد ہیں کہ قرآن کریم انسانوں کے لئے خدا کا عظیم ترین ہدیہ اور مسلمانوں کے پاس حضرت نبی اکرم کی نہایت قیمتی میراث ہے، لیکن امت اسلامیہ کو جس شائستہ طریقہ سے اس عظیم میراث سے استفادہ کرنا چاہئے تھا اس طرح اس نے استفادہ نہیں کیا اور نہ کر رہی ہے۔

اسلامی معاشرہ نبی اکرم کی وفات کے بعد اس الٰہی حبل متین سے تمسک کرنے سے محروم رہا ہے، جبکہ آنحضرت نے اس بات پر بہت زیادہ تاکید کی تھی کہ ثقل اکبر کے عنوان سے قرآن کی طرف رجوع اور اس پر عمل کرنا، اور ثقل اصغر کے عنوان سے اہلبیت (ع) سے قرآن کے علوم کو حاصل کرنا واجب ہے۔

نتیجہ میں اسلامی معاشرہ اپنے اس اصلی مرتبہ تک نہیں پہنچ سکا جس کی قرآن مجید نے اسے بشارت دی ہے اور فرمایا ہے:(وَ أَنتُمُ الأَعْلَوْنَ ِنْ کُنتُمْ مُؤمِنِینَ) 1

........ ............ ....

(1)سورۂ آل عمران، آیت 139۔

۵

(اور تم بلند ہو اگر مومن ہو) ۔ اور آج ہمیں اس تلخ حقیقت کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اسلامی معاشرہ قرآن کی حقیقت اور علوم اہلبیت سے دور رہنے کے سبب ناقابل تلافی نقصان سے دو چار ہوا ہے۔

لیکن قرآن کی حقیقت سے مسلمانوں کی دوری اور اس آسمانی گوہر اور خدائی عطیہ کے متروک ہونے کے باوجود کبھی کبھی قرآن کے ظاہر نے مسلمانوں کے درمیان بہت رواج پایا ہے۔

تمام مسلمان قرآن کو ایک مقدس اور آسمانی کتاب سمجھتے ہیں جو کہ شب قدر میں پیغمبر کے قلب مبارک پر نازل ہوا ہے، عہد حاضر میں قرآن کو بہترین کاغذ پر چھاپا جاتا ہے اس کو سنہری جلد سے مزیّن کیا جاتا ہے، اس کی تلاوت کی جاتی ہے، اس کو حفظ کیا جاتا ہے اور اس کے ظاہر سے اخذ کئے گئے علوم جیسے تجوید وغیرہ میں مہارت حاصل کرنا مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت میں بہت اہم سمجھا جاتا ہے، چنانچہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ قرآن کریم کے حفظ و قرائت کے مقابلے کا پروگرام اسلامی ممالک میں عالمی پیمانے پر منعقد ہوتا ہے اور یہ بہت اچھی بات ہے۔

البتہ اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ تمام اسلامی ممالک میں قرآن کریم کا رونق پانا بھی بڑی حد تک حضرت امام خمینی اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کا مرہون منت ہے، اس لئے کہ حضرت امام خمینی نے جب حرمین شریفین کے نظم و نسق کے متعلق یہ پیغام دیا کہ ان کا انتظام تمام اسلامی ممالک کے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی کے ہاتھ میں ہونا چاہئے، تو سعودی حکومت اسی وقت سے حرمین شریفین کی تعمیر و توسیع میں مشغول ہوئی اور ساتھ ہی قرآن کی نشر و اشاعت اور اس کو حاجیوں کے درمیان تقسیم کرنے کا کام شروع کیا تاکہ اس کے ذریعے اپنے کو اسلام و قرآن کا بڑا مبلغ ثابت کرسکے اور ایران کی طرف مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روک سکے۔

۶

بہرحال، قرآن کے ظاہر پر توجہ دینا اور اس کی حقیقت سے دور رہنا، ان عظیم المیوں میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے اسلامی معاشروں کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ واضح سی بات ہے کہ جب تک مسلمان قرآن کے ظاہر کے ساتھ اس کے باطن کی طرف توجہ نہیں دیں گے اور قول کے ساتھ عمل کی منزل میں نہیں آئیں گے، اس وقت تک وہ قرآن سے ہدایت نہیں لے سکیں گے۔

اس کتاب میں نبی اکرم کی وفات کے بعد قرآن و عترت سے مسلمانوں کے دور ہو جانے کے عوامل و اسباب کو بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس میں قرآن مجید کی حقیقت کو نہج البلاغہ اور خود قرآن کریم کی نظر سے بیان کیا گیا ہے، تاکہ قاری، قرآن کو امیر المؤمنین کی نظر سے پہچانے اور اس کی عظمت سے آشنا ہو اور مخالفین کے بعض شبہوں کو ان کے جواب کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ آخر میں قرآن ناطق حضرت علی ـ کی زبان سے، اس طرح کے شبہات پیش کرنے کے شیطانی اسباب و علل بھی بیان ہوئے ہیں۔

اس بات کا ذکر کردینا ضروری ہے کہ یہ کتاب آیة ا... مصباح یزدی دام ظلہ العالی کی ان چند تقریروں کا مجموعہ ہے جو آپ نے اور ہجری شمسی کے ماہ رمضان میں قم میں کی تھیں، ہم نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ جو مطالب استاد موصوف نے بیان کئے ہیں ان میں کسی قسم کی رد و بدل اور کمی و بیشی نہ ہو نیز تقریر کو تحریر سے قریب کرنے کی کوشش کی گئی ہے لہٰذا واضح سی بات ہے کہ تحریر اور ترتیب و تنظیم کی عام باریکیاں مکمل طور پر اس کتاب میں دکھائی نہیں دیتیں۔

آخر میں ہم محقق معظم جناب حجة الاسلام محمدی صاحب کے شکر گزار ہیں کہ موصوف نے اس کتاب کی تدوین کی، نیز جناب حجة الاسلام نادری صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے تنظیم و ترتیب کا کام انجام دیا ہے اور خداوند منان کی بارگاہ میں ان دونوں حضرات کے لئے مزید توفیقات کی دعا کرتے ہیں۔

ناشر

ادارۂ تعلیم و تحقیق امام خمینی

۷

پہلی فصل

دینی معاشرہ میںقرآن کا مرتبہ

انسان کے اختیار میں صرف قرآن آسمانی کتاب ہے

قرآن کے بارے میں جو کچھ نہج البلاغہ میں ذکر ہوا ہے ، اگر اسے بیان کریں تو گفتگو کا سلسلہ طویل ہو جائے گا۔ کیونکہ امام علی ـ نے نہج البلاغہ کے بیس سے زیادہ خطبوں میں قرآن اور اس کے مرتبہ کا تعارف کرایا ہے اور کبھی کبھی نصف خطبہ سے زیادہ قرآن کے مرتبہ، مسلمانوں کی زندگی میں اس کے اثر اور اس آسمانی کتاب کے بارے میں مسلمانوں کے فریضہ سے مخصوص کیا ہے۔ ہم یہاں پر قرآن کریم سے متعلق نہج البلاغہ کی صرف بعض تعریفوں کی توضیح پر اکتفا کرتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ ویں خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

''وَ کِتَابُ اللّٰهِ بَینَ اَظْهُرِکُمْ نَاطِق لایَعْییٰ لِسَانُه''

یعنی قرآن تمھارے سامنے اور تمھاری دسترس میں ہے۔ دوسرے ادیان کی آسمانی کتابوں جیسے حضرت موسیٰ ـ اور حضرت عیسیٰ ـکی کتابوں کے برخلاف، قرآن تمھارے اختیار میں ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ امتوں میں خصوصاً بنی اسرائیل کے یہودیوں میں مقدس کتاب عام لوگوں کے اختیار میں نہیں تھی، بلکہ توریت کے صرف چند نسخے علماء یہود کے پاس تھے اور تمام لوگوں کے لئے توریت کی طرف رجوع کرنے کا امکان نہیں پایا جاتا تھا۔

حضرت عیسیٰ ـ کی آسمانی کتاب کی حالت تو اس سے بھی زیادہ تشویشناک تھی اور ہے، اس لئے کہ جو کتاب آج انجیل کے نام سے عیسائیوں کے درمیان پہچانی جاتی ہے، یہ وہ کتاب نہیں ہے جو حضرت عیسیٰ ـ پر نازل ہوئی تھی۔ بلکہ یہ ان مطالب کا مجموعہ ہے جن کو کچھ افراد نے جمع کیا ہے اور وہ اناجیل اربعہ (چار انجیلوں) کے نام سے مشہور ہیں ۔

۸

اس بنا پر گزشتہ امتوں کی دسترس آسمانی کتابوں تک نہیں تھی، لیکن قرآن مجید کی حالت اس سے مختلف ہے۔ قرآن مجید کے نزول کی کیفیت اور نبی اکرم کی طرف سے اس کی قرائت و تعلیم کا طریقہ ایسا تھا کہ لوگ اسے سیکھ سکتے تھے اور اس کی آیتیں حفظ کرسکتے تھے اور قرآن مکمل طور پر ان کی دسترس میں تھا اور ہے۔

اس آسمانی کتاب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ خداوند متعال نے امت اسلام پر احسان کیا ہے اور قرآن کریم کو ہر طرح کے خطرہ سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری خود لی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت نبی اکرم مسلمانوں کے یاد کرنے اور آیات الٰہی کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کرتے تھے کہ رسول خدا ہی کے زمانہ میں بہت سے مسلمان حافظ قرآن ہوگئے تھے اور نازل ہونے والی آیات کے نسخے اپنے پاس رکھتے تھے وہ بتدریج ان کو یاد کرتے تھے، بہرحال ان نسخوں سے نسخہ برداری کے ذریعہ یا ایک حافظ سے دوسرے حافظ کی طرف سینہ در سینہ نقل کے ذریعے قرآن کریم تمام لوگوں کے پاس ہوتا تھا۔

حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:''کِتَابُ اللّٰهِ بَینَ اَظْهُرِکُمْ'' کتاب خدا تمھارے درمیان ہے، تمھاری دسترس میں ہے۔''نَاطِق لایَعییٰ لِسَانُه'' اس جملہ پر تاکید کرنا ضروری ہے۔

حضرت علی فرماتے ہیں: ''یہ کتاب گویا (بولنے والی) ہے اور اس کی زبان کند نہیں ہوتی، بولنے سے تھکتی نہیں ہے نیزکبھی اس میں لکنت نہیں ہوتی، وہ ایسی عمارت ہے جس کے ستون گر نہیں سکتے اور ایسی کامیاب ہے کہ جس کے دوست شکست نہیں کھا سکتے۔

۹

قرآن کا بولنا

حضرت امام علی ـ نہج البلاغہ میںایک طرف قرآن کے اوصاف کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ: یہ کتاب، کتاب ناطق ہے، خود بولتی ہے، بولنے سے تھکتی نہیں، اپنی بات اور اپنا مطلب خود واضح طور سے بیان کرتی ہے۔اور دوسری طرف، ارشاد فرماتے ہیں : یہ قرآن ناطق نہیں ہے، اسے قوت نطق و گویائی دینی چاہئے اور میں ہی ہوں جو اس قرآن کو تمھارے لئے گویا کرتا ہوں ۔ اور بعض عبارتوں میں اس طرح آیا ہے : ''قرآن، صَامِت نَاطِق'' قرآن صامت بھی ہے اور ناطق بھی ۔ اس بات کے صحیح معنی کیا ہیں؟

معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعبیر اس آسمانی کتاب سے متعلق دو مختلف نظریوں کو بیان کر رہی ہے کہ ایک نظر یہ کی رو سے قرآن ایک مقدس کتاب ہے جو کہ خاموش ہے اور ایک گوشہ میں رکھی ہوئی ہے، نہ وہ کسی سے بولتی ہے اور نہ کوئی اس سے ارتباط رکھتا ہے، اور

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 147، یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس کتاب میں نہج البلاغہ سے دیئے گئے تمام حوالے ، نہج البلاغۂ فیض الاسلام کی بنیاد پر ہیں۔

۱۰

دوسرے نظریہ کے لحاظ سے قرآن ایک گویا (بولنے والی) کتاب ہے جس نے تمام انسانوں کو اپنا مخاطب قرار دیا ہے اور ان کو اپنی پیروی کی دعوت دی ہے اور اپنے پیروؤں کو سعادت و نیک بختی کی خوشخبری دی ہے۔

واضح ہے کہ وہ قرآن جس کی صفت صرف تقدس ہو اور بس، جس کی آیتیں صرف کاغذ کے صفحوں پرنقش ہوں اور مسلمان اس کا احترام کرتے ہوں، اس کو چومتے ہوں اور اس کو اپنے گھر کی بہترین جگہ پر محفوظ رکھتے ہوں اور کبھی کبھی محافل و مجالس میں اس کی حقیقت اور اس کے معانی کی طرف توجہ کئے بغیر اس کی تلاوت کرتے ہوں۔ اگر اس نگاہ سے قرآن کو دیکھیں تو قرآن ایک صامت (خاموش) کتاب ہے جو کہ محسوس آواز کے ساتھ نہیں بولتی، جو شخص ایسا نظریہ قرآن کے متعلق رکھے گا وہ ہرگز قرآن کی بات نہ سن سکے گا اور قرآن کریم اس کی مشکل کو حل نہیں کرے گا۔

اس بنا پر ہمارا فریضہ ہے کہ ہم دوسرے نظریئے کو اپنائیں، یعنی قرآن کو ضابطۂ حیات سمجھیں، اور خدائے متعال کے سامنے اپنے اندر تسلیم و رضا کی روح پیدا کر کے خود کو قرآن کریم کی باتیں سننے کے لئے آمادہ کریں کہ قرآن کی باتیں زندگی کا دستور ہیں اسی صورت میں قرآن، ناطق اور گویا ہے، انسانوں سے بات کرتا ہے اور تمام شعبوں میں ان کی رہنمائی کرتا ہے۔

اس توضیح کے علاوہ جو کہ ہم نے قرآن کے صامت و ناطق ہونے کے متعلق بیان کی ہے، اس کے اس سے بھی زیادہ عمیق معنی پائے جاتے ہیں اور وہی معنی حضرت علی ـ کے مد نظر تھے اور ان ہی معنی کی بنیاد پر آپ نے فرمایا ہے کہ قرآن صامت ہے اور اسے ناطق و گویا کرنا چاہئے اور یہ میں ہوں جو کہ قرآن کو تمھارے لئے گویا کرتا ہوں۔

۱۱

اب ہم قرآن کے صامت و ناطق ہونے کی توضیح دوسرے معنی کے اعتبار سے (یعنی حقیقت میں اس کے حقیقی معنی کی توضیح) پیش کر رہے ہیں:

اگرچہ قرآن کریم خداوند متعال کا کلام ہے اور اس کلام الٰہی کی حقیقت اور اس کے صادر اور نازل ہونے کا طریقہ ہمارے لئے قابل شناخت نہیں ہے، لیکن اس وجہ سے کہ اس کے نزول کا مقصد انسانوں کی ہدایت ہے، اس کلام الٰہی نے اس قدر تنزل کیا ہے کہ لفظوں، جملوں اور آیتوں کی صورت میں انسان کے لئے پڑھنے اور سننے کے قابل ہوگیا، لیکن اس کے باوجود ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کی تمام آیتوں کے مضامین عام انسانوں کے لئے سمجھنے اور دسترس میں رکھنے کے قابل ہوں اور لوگ خود نبی اکرم اور ائمۂ معصومین (ع) (جو کہ راسخون فی العلم ہیں) کی تفسیر و توضیح کے بغیر آیتوں کے مقاصد تک پہنچ سکیں۔

مثال کے طور پرشرعی احکام و مسائل کے جزئیات کی تفصیل و توضیح قرآن میں بیان نہیںہوئی ہے، اسی طرح قرآن کریم کی بہت سی آیتیں مجمل ہیں اور توضیح کی محتاج ہیں۔ اس بنا پر قرآن بہت سی جہتوں سے ''صامت'' ہے، یعنی عام انسان اس کو ایسے شخص کی تفسیر و توضیح کے بغیر نہیں سمجھ سکتے جو غیب سے ارتباط رکھتا ہے اور خدائی علوم سے آگاہ ہے۔

۱۲

پیغمبر اور قرآن کی توضیح و تفسیر

نبی اکرم کے فرائض میں سے ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ امت کے لئے، آیات الٰہی کی توضیح و تفسیر فرمائیں۔

قرآن کریم پیغمبر کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:(وَ أَنزَلنَا اِلیَکَ الذِّکرَ لِتُبَیِّنَ لِلنِّاسِ مَا نُزِّلَالیهِم) 1 ہم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا اور آپ کا فریضہ ہے کہ لوگوں کے لئے قرآن کی تلاوت کریں اور ان کے سامنے اس کے معارف کو بیان کریں، جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ قرآن کلام الٰہی ہے اور اس نے بہت تنزل کیا ہے یہاں تک کہ الفاظ و آیات کی صورت میں آگیا ہے اور مسلمانوں کے اختیار میں ہے، پھر بھی اس کے معارف اتنے عمیق اور گہرے ہیں کہ عام انسانوں کے لئے قابل فہم نہیں ہیں۔ لہٰذا قرآن اس اعتبار سے عام انسانوں کے لئے صامت ہے اور نبی اکرم اور ائمۂ معصومین (ع) کی تفسیر کا محتاج ہے ۔اسی بنا پر خداوند متعال پیغمبر کو مخاطب کر کے فرما رہا ہے: ''ہم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اس کی تفسیر و توضیح فرمائیں''۔

اس بنا پر قرآن کی آیتوں کی ایک خاص تفسیر ہے جس کا علم نبی اکرم اور ائمۂ معصومین (ع) کے پاس ہے، ان حضرات نے بھی قرآن کے معارف کو مسلمانوں کے اختیار میں دیا اور قرآن کے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا۔ لہٰذا قرآن اس اعتبار سے ناطق ہے اور نبی اکرم اور ائمۂ معصومین (ع) نے قرآن کے معارف کو بیان فرمایا، لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن اپنی بات مخاطب کی پسند سے بہتر بیان کرتا ہے، خواہ انسان کے دل کی خواہش کے موافق ہو یا مخالف ۔ نیز شیطان نما انسانوں کو یہ حق نہیں ہے

(1)سورۂ نحل، آیت 44۔

۱۳

کہ قرآن پر اپنی خواہشوں کو لادیں اور اپنی رائے سے کلام الٰہی کی تفسیر کریں ،اس کے متعلق ہم آئندہ تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔

قرآن کے صامت و ناطق ہونے کی بنا پر حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:''نَاطِق لا یَعییٰ لِسَانُه'' 1 قرآن ایسا بولنے والا ہے کہ بولنے سے تھکتا نہیں، وہ اپنے پیغام لوگوں تک پہنچاتا ہے اور مسلمانوں پر حجت تمام کرتاہے۔

لہذا حضرت علی ـ مذکورہ جملہ میں قرآن کا تعارف اس طرح کراتے ہیں :

کلام الٰہی، قرآن تمھارے درمیان ہے اور ہمیشہ فصیح و بلیغ اور گویا زبان سے فلاح و نجات کی طرف بلاتا ہے، اپنے پیروؤں کو سعادت و کامیابی کی خوشخبری دیتا ہے اور اپنی ذمہ داری پورا کرنے سے نہیں تھکتا ۔

خطبہ میں حضرت علی ـ قرآن کے متعلق اس طرح ارشاد فرماتے ہیں:

''ذٰلِکَ الْقُرآنُ فَاسْتَنْطِقُوهُ وَ لَن یَّنطِقَ وَ لٰکِنْ أُخْبِرُکُمْ عَنْهُ، أَلا إنّ فِیهِ عِلْمَ مَا یَأتِی، وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِیْ، وَ دَوَائَ دَائِکُم، وَ نَظْمَ مَا بَینَکُمْ''،

ہاں! یہ قرآن ہے، پس اس سے چاہو کہ تم سے بولے اس حال میں کہ ہرگز قرآن (نبی اور ائمۂ معصومین (ع) کی تفسیر کے بغیر) نہیں بولے گا۔ تمھیں چاہئے کہ نبی اکرم اور ائمۂ معصومین (ع) کی زبان کے ذریعے قرآن کے معارف سے آشنا ہو اور قرآن کے علوم کو انھیں سے دریافت کرو۔

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 143۔

۱۴

قرآن الٰہی علوم و معارف کا ایسا سمندر ہے کہ اس گہرے اور اتھاہ سمندر میں غواصی اور اس کے انسان ساز موتیوں کا حصول فقط انہی حضرات کا نصیب ہے جو عالم غیب سے ارتباط رکھتے ہیں، خداوند متعال نے بھی لوگوں سے یہی چاہا ہے کہ نبی اکرم اور ائمۂ معصومین (ع) کے دامن سے متمسک ہو کر، علوم اہلبیت سے استفادہ کر کے اور ان حضرات کی ہدایت و رہنمائی سے قرآن کے بلند معارف حاصل کریں، اس لئے کہ قرآن کے علوم اہلبیت کے پاس ہیں۔ نتیجہ میں ان حضرات کی بات قرآن کی بات ہے، اور جب ایسا ہے تو نبی اکرم اور اہلبیت (ع) قرآن ناطق ہیں۔

مذکورہ بنیاد پر حضرت علی ـ فرماتے ہیں:''ذٰلِکَ الْقُرآنُ فَاسْتَنْطِقُوْهُ وَ لَن یَّنْطِقَ '' یہ قرآن ہے اور دیکھو! تم امام معصوم کی تفسیر و توضیح کے بغیر قرآن سے استفادہ نہیں کرسکتے، یہ امام معصوم ـ ہی ہے جو تمھارے لئے قرآن کی تفسیر بیان کرتا ہے اور تمھیں قرآن کے علوم و معارف سے آگاہ کرتا ہے۔

حضرت علی ـ اس مقدمہ کو بیان کر کے قرآن کو ایک دوسرے زاویئے سے قابل توجہ قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو قرآن کی طرف رجوع اور اس میں تدبر اور تفکر کی دعوت دیتے ہیں، حضرت فرماتے ہیں کہ امام معصوم ـ ہی قرآن کے علوم و معارف کو مسلمانوں کے لئے بیان کرتا ہے اور خود قرآن نہیں بولتا اور لوگ خود بھی قادر نہیں ہیں کہ براہ راست الٰہی پیغاموں کو حاصل کریں، تو اب:أُخْبِرُکُمْ عَنْهُ ، میں تمھیں قرآن سے آگاہ کرتا ہوں اور قرآن کے علوم و معارف کی تمھیں خبر دیتا ہوں، جان لو! کہ جو کچھ تمھاری ضرورت کی چیزیں ہیں وہ سب قرآن کریم میں موجود ہیں،أَلا إنّ فِیْهِ عِلْمَ مَا یأتِی وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِی وَ دَوَائَ دَائِکُمْ وَ نَظْمَ بَینِکُمْ، گزشتہ و آئندہ کا علم قرآن میں ہے اور تمھارے درد کی دوا اور تمھارے تمام امور کا نظم و نسق قرآن میں ہے، یہ تم پر لازم ہے کہ قرآن کریم اور علوم اہلبیت سے استفادہ کر کے اپنے امور کو منظم کرو!

۱۵

دو نکتوں کی یاد دہانی

ـ:قرآن کریم مسلمانوں اور اس آسمانی کتاب کے پیروؤں کے لئے ایک ا ہم تاریخی سند ہے چونکہ قرآن تاریخی واقعات بیان کرتا ہے، نیز گزشتہ قوموں اور ملتوں کے افکار و عقائد اور ان کے حالات اور ان کے طرز زندگی کو بیان کرتا ہے، (اس لئے) سب سے زیادہ معتبر تاریخی سند ہے اس کے مقابل ان تاریخی حالات اور کتابوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے جو کہ قرآنی سند نہیں رکھتیں، اگر چہ تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہوں، لہٰذا گزشتہ افراد کے حالات ، انبیاء اور گزشتہ قوموں کے واقعات کو قرآن سے سننا چاہئے اور ان سے نصیحت حاصل کرنی چاہئے۔

ہمارا فریضہ ہے کہ قرآن سے رجوع کر کے، پچھلی قوموں اور ملتوں کی داستان زندگی کا مطالعہ کر کے ان سے درس عبرت حاصل کریں، اپنی زندگی کو حق کی بنیاد اور صحیح روش پر سنواریں۔

ـ:قرآن کریم اس بات کے علاوہ کہ گزشتہ قوموں کی تاریخ ہمارے لئے نقل کرتا ہے اور ان حوادث کو بیان کر کے جو ان قوموں میں رونما ہوئے تھے ، ہم کو ان کی زندگی کے ماحول میں پہنچا دیتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ ہم ان سے درس عبرت لیں، وہ آئندہ کی بھی خبر دیتا ہے۔ واضح ہے کہ آئندہ اور مستقبل کے متعلق علمی اور یقینی بات کہنا خداوند متعال اور ان (معصوم) افراد کے علاوہ جو اس کے اذن سے آئندہ کی خبر رکھتے ہیں، کسی اور کا کام نہیں ہے ۔خدا کے لئے ماضی، حال، مستقبل کوئی معنی نہیں رکھتے اور وہ آئندہ کے متعلق خبر دے سکتا ہے، وہی ہے جو اپنے بندوں کے لئے راستے کو واضح و روشن کرسکتا ہے کہ کیسے چلیں تاکہ سعادت تک پہنچ جائیں۔ یہ قرآن کریم ہے جو کہ گزشتہ و آئندہ کی خبر دیتا ہے اور انسانوں کو ان کے ماضی و مستقبل سے آگاہ کرتا ہے، لہٰذا حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:''أَلا إنّ فِیهِ عِلْمَ مَا یَأتِیْ وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِیْ'' آگاہ ہو جاؤ! کہ مستقبل اور ماضی کا علم قرآن کریم میں ہے۔

۱۶

زندگی میں قرآن کا اثر

امیر المومنین حضرت علی ـ تمام مشکلات کا حل قرآن کو بتاتے ہیں اور اس کے بارے میں فرماتے ہیں:''وَ دَوَائَ دَائِکُمْ وَ نَظمَ مَا بَینَکُمْ'' تمھارے درد کی دوا، تمھارے مشکلات کا حل اور تمھارے امور کے نظم و نسق کا ذریعہ قرآن ہے۔ قرآن ایسی شفا بخش دوا ہے جو تمام امراض کا علاج ہے اور قرآن کے ذریعے تمام درد و الم دور ہو جاتے ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ اس شفا بخش نسخہ کو پڑھیں، اس کا غور و خوض کے ساتھ مطالعہ کریں اور تمام فردی و اجتماعی مشکلات اوردردوں کے علاج کے طریقے سے آگاہ ہوں۔

یہ بات واضح ہے کہ درد کے احساس اور مشکل کو پہچاننے سے پہلے دوا بتانا فطری اصول سے خارج ہے، اس لئے کہ پہلے فردی اوراجتماعی دردوں کو پہچاننا چاہئے اور قرآن کی آیات کریمہ کے مطالعہ اور ان میں غور و خوض کے ذریعہ ان دردوں سے آگاہ ہونا چاہئے، پھر اس شفا بخش نسخہ سے استفادہ کر کے ان کا علاج کرنا چاہئے۔

آج ہمارے معاشرہ اور سماج میںبہت سے مشکلات پائے جاتے ہیں خواہ وہ فردی ہوں یا اجتماعی، اور ان مشکلات کا حل سبھی چاہتے ہیں اور باوجودیکہ مختلف شعبوں میں بہت سی ترقیاں ہوئی ہیں، لیکن بہت ساری مشکلیں باقی رہ گئی ہیں، ذمہ دار افراد ہمیشہ اس کوشش میں ہیں کہ کسی صورت سے ان کو حل کریں۔

حضرت علی ـ اس خطبہ میں فرماتے ہیں:''وَ دَوَائَ دَائِکُم وَ نَظمَ مَا بَینَکُمْ'' قرآن تمھارے دردوں اور مشکلوں کے علاج کا نسخہ ہے، اور خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:''وَ دَوَائً لَیسَ بَعدَهُ دَائ'' یعنی قرآن ایسی دوا ہے کہ جس کے بعد کوئی درد باقی نہیں رہ جاتا۔

۱۷

ہر چیز سے پہلے جس بات پر توجہ رکھنا لازم ہے، وہ حضرت علی ـ کے ارشاد پر ایمان رکھنا ہے، یعنی ہمیں پوری طرح سے اعتقاد و یقین رکھنا چاہئے کہ ہمارے درد اور مشکلات کا صحیح علاج خواہ وہ فردی ہوں یا اجتماعی، قرآن میں ہے۔

ہم سب اس بات کا اقرار کرتے ہیں، لیکن ایمان و یقین کے مرتبوں کے اعتبار سے ہم سب مختلف ہیں، اگر چہ ایسے بھی افراد ہیں جو بھر پور طریقہ سے ایمان و یقین رکھتے ہیں کہ اگر قرآن کی طرف توجہ دیں اور اس کی ہدایتوں پر عمل کریں، تو قرآن تمام بیماریوں کا بہترین شفا بخش نسخہ ہے، لیکن ایسے افراد بہت کم ہیں، شاید ہماری مشکلات کی ایک بڑی وجہ ایمان کی کمزوری ہو اور یہ چیز اس بات کا سبب بنی ہے کہ بہت سے مشکلات لاینحل ہی رہیں ۔ کبھی کبھی کچھ لوگ لاعلمی یا کج فکری کی بنا پر ممکن ہے یہ گمراہ کن نظریہ پیش کریں کہ باوجودیکہ قرآن ہمارے پاس ہے اور ہم اس کی پیروی کے دعویدار ہیں لیکن کیوں ہماری مشکلات حل نہیں ہوئیں اور لوگ اسی طرح اقتصادی مشکلات سے دو چار ہیں، جیسے مہنگائی اور کرنسی کے ہلکا ہونے سے ،نیز فردی، اجتماعی، اخلاقی اور ثقافتی مشکلات سے رنج اٹھارہے ہیں؟ اس سوال کے جواب کے لئے یہاں پر ہم چند توضیحات بیان کر رہے ہیں۔

۱۸

قرآن، کلی طور پر راہنمائی کرتا ہے

یہ بات معقول نہیں معلوم ہوتی کہ کوئی شخص یہ امید رکھے کہ قرآن مسائل کو حل کرنے والی کتاب کی طرح تمام فردی و اجتماعی درد اور مشکلات کوایک ایک کر کے بیان کرے اورپھر ترتیب کے ساتھ ان کے حل کے طریقہ کی وضاحت کرے۔ قرآن کا سرو کار انسان کی ابدی سرنوشت سے ہے اور قرآن کا مقصد دنیا و آخرت میں انسان کی فلاح و نجات ہے۔ اسی لحاظ سے قرآن کریم ہمیںاصلی اور کلی راستوں کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان پر چل کر ہم کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ کلی خطوط اور راستے ایسے چراغ ہیں جو چلنے اور آگے بڑھنے کی سمت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس بات کی طرف بھی توجہ رکھنی چاہئے کہ دنیا و آخرت میں سعادت و کامیابی حاصل کرنے کے لئے، مشکلات کو برطرف کرنے کے لئے، ترقی یافتہ اور اسی کے ساتھ ساتھ دینی او ر اسلامی معاشرہ کے تحقق کے لئے خداوند متعال نے دو وسیلے انسان کے اختیار میں قرار دیئے ہیں:()دین ()عقل۔

قرآن انسانی تکامل و ترقی کے اصلی خطوط اور شاہراہوں کو روشن کرتا ہے اور اسلامی سماج کا فریضہ ہے کہ تفکر و تدبر کے ذریعہ اور انسانی علمی تجربوں سے استفادہ کر کے قرآن کے بلند مقاصد کے تحقق کا مقدمہ فراہم کرے، نہ صرف قرآن دوسروں (حتی غیر مسلمین) کے علمی تجربوں سے استفادہ کو منع نہیں کرتا، بلکہ علم کوالٰہی امانت سمجھتا ہے اور مسلمانوں کو اس کے سیکھنے کی تشویق کرتا ہے۔

۱۹

نبی اکرم علوم حاصل کرنے کے بارے میں مسلمانوں کی ترغیب و تشویق کے لئے ارشاد فرماتے ہیں: ''اُطْلُبُوْا العِلمَ وَ لَو بِالصِّیْنِ'' 1 علم حاصل کرو اور دوسروں کے علمی تجربوں سے استفادہ کرو اگر چہ اس مقصد کے پورا کرنے کے لئے دور دراز اور طولانی راستے طے کرنا پڑیں۔

البتہ آج عالمی رابطے بہت ہی سمٹ گئے ہیں اور استکباری ممالک اور سامراجی قوتیں مختلف حیلوں سے اور طرح طرح کی ٹکنالوجی اور اقتصادی سازوسامان سے نیز کلی طور سے انسان کے علمی تجربوں کے نتیجہ میں ایجاد ہونے والے تمام آلات و وسائل کے ذریعے اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ ایسے سامراجی رابطوں کو قوی بنایا جائے جن کے ذریعہ دوسروں پر تسلط پالیا جائے، لیکن ہمارا فریضہ ہے کہ نہایت ذہانت و ہوشیاری سے اور اپنے اسلامی و قرآنی مقاصد سے ذرہ برابر پیچھے ہٹے بغیر، مختلف شعبوں میں انسانی علوم کے نتائج سے لوگوں کے اقتصادی حالات کی بہتری اور معاشی مشکلات کو برطرف کرنے کے لئے استفادہ کریں۔

(1)بحار الانوار، ج1، ص177۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

(ب)نقصان دہ تجارت

قرآن مجید ہدایت فطری،فہم کی قدرت اور انسانی زندگی اور اس کے کام کرنے کی طاقت کو تجارت کا سرمایہ شمار کرتا ہے اگر یہ سرمایا صحیح عقائد اور معارف الہی کے حصول اور عمل صالح کی راہ میں استعمال ہو تو یہ نفع بخش تجارت ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ )

بے شک اللہ نے صاحبان ایمان سے ان کے جان و مال کو جنت کے عوض خرید لیا ہے۔(۲)

لیکن اگر یہ سرمایہ ضلالت اور گمراہی کی راہ میں خرچ کیا ہو تو یہ نقصان دہ تجارت ہے جیسا کہ اسی آیت میں اللہ تعالی منافقوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ انہوں نے فطرت،عقل اور ہدایت کو فروخت کر کے ضلالت و گمراہی کو خرید کر لیا ہے یہ نادان تاجر ہیں تاریک بیابان میں ہدایت کے چراغ کے بغیر حیران و سرگردان ہیں۔

انہیں دنیا نے فائدہ نہیں پہنچایا ہے کیونکہ ہمیشہ فائدہ سرمایا سے زیادہ ہو اکرتا ہے اور ہدایت الہی کی بدولت انہیں جو اجتماعی اور انفرادی مفادات حاصل ہو سکتے تھے وہ بھی انہیں میسر نہ آسکے اور ان مفادات کے مساوی بھی انہیں کچھ نہ مل سکا اور اس ہدایت سے بھی محروم رہے جو آخروی نجات کی ذمہ دار تھی لہذا ان کی یہ تجارت انہیں فائدہ نہ دے سکی بلکہ یہ ان کی نقصان دہ تجارت ہے لہذا انہیں قیامت والے دن دردناک عذاب دیا جائے گا۔

( مَثَلُهُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَائَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَکَهُمْ فِی ظُلُمَاتٍ لاَیُبْصِرُونَ )

ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ سلگائی مگر جب اس آگ سے ہر طرف ورشنی پھیل گئی تو خدا نے ان کی روشنی لے لی اور ان کو انھیروں میں چھوڑ دیا کہ اب انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

__________________

(۲) سورہ توبہ آیت ۱۱۱

۱۰۱

خصوصیات

سب سے پہلی مثال :

یہ قرآن مجید کی سب سے پہلی مثال ہے جس کے ذریعے منافقین کی حالت کو اشکار اور واضح کیا گیا ہے۔

ضرب المثل کی اہمیت

گذشتہ آیات میں منافقوں کی اصلیت بیان کی جا چکی ہے اب ان کی حقیقت کو زیادہ واضح انداز میں بیان کرنے کے لئے ضرب المثل کے ساتھ ان کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ہمیشہ جب کوئی چیز زیادہ مشکل ہو اور اس کا سمجھنا آسان نہ ہو تو اسے مثال کے ذریعہ بیان کیا جاتا یعنی ضرب المثل ایسا نور جس کی عظمت کسی سے مخفی پوشیدہ نہیں ہے یہ حقائق سے اس طرح پردے دور کرتی ہے کہ غائب بھی حاضر کی طرح معلوم ہوتا ہے۔

عظیم علمی معارف کو مثال کی شکل میں بیان کرنا سابقہ کتابوں کا شیوا بھی رہا ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( ذَلِکَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاة وَمَثَلُهُمْ فِي الاِنْجِیْلِ )

ان کی یہ مثال تورات اور انجیل میں بھی ہیں۔(۱) سورہ فتح آیت ۲۹

مثال کی خاصیت یہ ہے کہ علمی معارف کو اس سطح پر لے آتی ہے جس کی وجہ سے تمام افراد اسے سمجھ سکتے ہیں اس کی وجہ سے عظیم اورعلمی مطالب کے نقطہ عروج تک سب کی دسترس ہوتی ہے اور قرآن مجید کا بھی مثال بیان کرنے کا ہدف یہ ہے کہ عام آدمی بھی حقائق تک پہنچ سکیں اور ان کے لئے علمی مطالب کی معرفت کا حصول آسان اور سادہ ہو اور بات کو اچھی طرح سمجھ لیں۔

___________________

(۱)بحارالانوار ج۲۴ ص۲۶۸

۱۰۲

تاریک زندگی

قرآن مجید نے ایک سادہ اور عام فہم مثال کے ذریعے یہ بیان کیا ہے کہ منافقین کی زندگی تاریک ہے ان کا مستقبل بھی تاریک ہے اور اندھیری رات میں،بیا باں میں آگ سلگائی ہے تاکہ اسے راہ سجھائی دے سکے یعنی انہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کے پاس آکراظہار اسلام کیا ہے جس کی وجہ سے اس نور حقیقت کے قریب آگئے ہیں جو دین ودنیا کی ہدایت کا ذریعہ ہے۔

انہوں نے ایک آگ سلگائی جس سے فائدہ اٹھانا ان کے لئے آسان تھا۔اس آگ کی گرد وپیش میں پھیل گئی سینکڑوں لوگ اس نور سے منور ہوئے اور دنیا اورآخرت کی کامیابی پر فائز ہوئے لیکن منافقوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اللہ نے اس شعلہ کو خاموش کر دیا اور انہیں اس تاریکی میں تنہا چھوڑ دیا ان کی زندگی تا ریک سے تاریک تر ہو گئی اس کے سوء احثار کی وجہ سے توفیقات الہی سلب ہو گئیں اب انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا اور تاریکی ان کامقدر بن گئی ہے۔

نور رسالت وامامت سے محروم

منافقین کی تاریکی اور گمراہی کی وجہ یہ ہے کہ لوگ نور رسالت اور نور امامت سے محروم ہیں کیونکہ اس کائنات میں حضرت محمد وآل محمد علیہم السلام کے وجود سے نور اور روشنی ہے جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

اضاء ت الارض بنور محمد کما تضئیالشمس فضرب الله مثل محمد الشمس مثل الوصی القمر

خدا وند عالم نے روئے زمین کو آفتاب کی طرح محمد(ص) کے نور سے روشنی بخشی ہے حضرت محمد (ص) کو آفتاب اور ان کے وصی ( علی) کوچاند سے تشبیہ دی ہے۔( نورالثقلین ج ۱ ص ۳۶)

منافقین حضرت محمد مصطفی (ص) کے دار فانی کی طرف کوچ کرنے کے بعد امامت کے نور سے فیض حاصل نہ کیا یہ لوگ آنحضرت (ص)کے زمانہ میں بھی تاریک زندگی بسر کر رہے تھے اور حضرت (ص) کے بعد بھی اہل بیت کے نور امامت سے روشنی نہ لے سکے اور ظلمت و تاریکی میں ڈوبے رہے۔

۱۰۳

جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

قبض محمد مظهرت الظلم فلم یبصروا فضل اهل بیته ۔

حضرت محمد (ص) کی وفات کے بعد تاریکی چھا گئی تب بھی ان لوگوں نے اہل بیت علیہم السلام کے فضل سے بصیرت حاصل نہ کی۔

( صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لاَیَرْجِعُونَ )

وہ بہرے،گونگے اور اندھے ہیں اور اب گمراہی سے پلٹ کر آنے والے نہیں۔

بد ترین مخلوق

آنکھ،کان زبان اور دوسرے ادراک کرنے والے حواس انسان کے لئے بہت عظیم سرمایہ ہیں انہی کے ذریعے انسان علمی اور عملی سعادت حاصل کرتا ہے لیکن منافقین نے حق سے رو گردانی کر کے اس عظیم سرمایہ کو کھو دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی اس بد ترین مخلوق کی گونگے بہرے اور اندھے کے عنوان سے پہچان کرورہاہے یہ لوگ کلا م حق کو نہیں سنتے اسے زبان پر نہیں لاتے ان کے معانی اور مفاہیم میں غور وفکر کرنے کی زحمت نہیں کرتے یہ اللہ،رسول،آئمہ اطہار معجزات اور اسلامی اصولوں کو نہیں مانتے۔

۱۰۴

یعنی یہ اوامر الہیہ،حجج بنیہ اور واضح دلائل میں تفکر نہیں کرتے،خدا نے انہیں جو فہم کی قوت عطا ء فرنائی ہے یہ عناد اور حق دشمنی میں استعمال نہیں کر سکتے جیسا کہ خدا وندعالم فرماتا ہے

( لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ) ( اعراف آیت ۱۷۹)

ان کے پاس دل تو ہیں مگر ان سے سمجھتے نہیں،ان کی آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں ان کے کان ہیں مگر اس سے سنتے نہیں ہیں۔

یعنی وہ اس معنی میں بہرے نہیں ہیں کہ ان میں سننے کی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ ان کانوں سے صدائے حق سننے کا کام نہیں لیتے اس لئے وہ بہرے ہیں ان کی زبانیں ہیں مگر تعصب،عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کلمہ حق کے ساتھ گویا نہیں ہوتیں اس عنوان سے یہ گونگے ہیں،ان کے دیکھنے والی آنکھیں بھی ہیں لیکن ان سے آیات بینات کو نہیں دیکھتے تعصب کی وجہ سے انہیں جلوہ حق نظر نہیں آتا اس لحاظ سے یہ اندھے ہیں۔

یعنی یہ لوگ اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اب ان کا ایمان کی طرف پلٹنا ممکن نہیں رہا کیونکہ انہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے میں خرید لیا تھا لہذا ضلالت نفاق سے یقینی ہدایت کی طرف ان کا لوٹنا محال ہے انہوں نے معرفت الہی جیسا اساسی سرمایا اپنے ہاتھ سے دے دیا ہے لہذا اب ان کا ہدایت کی طرف لوٹنے کا راستہ بند ہو گیا ہے اور یہ کائنات کی بد ترین مخلوق کہلوانے کے حقیقی حقدار ہیں۔

( أَوْ کَصَیِّبٍ مِنْ السَّمَاءِ فِیهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ یَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِی آذَانِهِمْ مِنْ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللهُ مُحِیطٌ بِالْکَافِرِینَ ) ( ۱۹)

یا (ان کی مثال) آسمان کی اس بارش کی ہے کہ جس میں تاریکیاں اور گرج چمک ہو موت کے ڈر سے اس کی کڑک دیکھ کر کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں حالانکہ اللہ کافروں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔

۱۰۵

خوف و ہراس پر مشتمل زندگی

خداوندعالم اس آیة مجیدہ میں منافقین کی زندگی کی اس طرح تصویر کشی کر رہا ہے کہ ان کی پوری زندگی خوف و ہراس پر مشتمل ہے یہ لوگ انتہائی وحشت اور سرگردانی میں مبتلا ہیں۔

ان کی مثال ایسے مسافر کی مانند ہے جس پر گرج چمک اور بجلیوں کی کڑک کے ساتھ سخت بارش برس رہی ہے بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک اتنی وحشت ناک اور مہیب ہے کانوں کے پردے چاک کیے دیتی ہے وہ اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونسے ہوئے ہیں کہیں اس خطرناک آواز سے ان کی موت واقع نہ ہو جائے۔

اس وقت ان کی کوئی پناہ گاہ نہیں ہے وسیع اور تاریک بیابان میں حیران و سرگردان ہیں تاریکی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ان پر عجیب قسم کا خوف و ہراس حاوی ہے اسلام کے غلبہ سے ان کی دنیا سیاہ ہو گئی ہے اس خطرناک زندگی میں ان کا دل دھلا جا رہا ہے۔اسلامی فتوحات کی وجہ سے ہلاکت سامنے نظر آرہی ہے دل لرز رہے ہیں اس کے متعلق کچھ نہیں سننا چا ہتے اس لیئے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں تا کہ حق کو نہ سن سکیں اور ہلاکت سے بچ جائیں لیکن اللہ ہر طرف سے انہیں گھیرے ہوئے ہے اور ان کے بچ نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے۔

عذاب خدا کا احاطہ

خداوندمتعال اس آیة مجیدہ میں ارشاد فرما رہا ہے کہ میرا ان پر مکمل احاطہ ہے یہ لوگ کسی صورت مین بھی میرے عذاب سے نہ بچ سکیں گے۔اس مقام پر ان الفاظ میں ارشاد فرمارہا ہے کہ میرا کافروں پر مکمل احاطہ ہے یعنی ہر وہ شخص جو قلبا اسلامی اصولوں کو نہیں مانتا وہ حقیقت میں کافر ہے اب ایک شخص زبانی کلامی تو اسلامی عقائد کا اظہار کرتا ہے اور باطن میں اس کا نکار کرتا ہے تو یہ باطنی کفر ہے۔

۱۰۶

خداوندعالم اس آیت میں ارشاد فرما رہا ہے کہ کافر خواہ اپنے کفر کو ظاہر کرتا ہو یا کفر اس کے دل میں ہو اور زبان سے اسلام کا اظہار کرتا ہو وہ عذاب الہی سے ہرگز نہیں بچ سکتا میرا عذاب اس پر محیط ہے اور وہ اس سے نہیں بچ سکتے۔

( یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ کُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِیهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوا وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ( ۲۰)

قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھوں کو خیرہ کردے جب بھی بجلی چمکتی ہے تو وہ چلنے لگتے ہیں اور جب اندھیر ا ہو جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں اگر خدا چاہتا تو ان کی سماعت وبصارت کو ختم کردیتا بلا شبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

مضطرب زندگی

خداوندعالم منافقین کی مضطرب اور مردد زندگی کو بیان کر رہا ہے جب بجلی چمکتی ہے تو یہ چند قدم چل لیتے ہیں لیکن جونہی اندھیرا چھا جاتا ہے اور تا ریکی مسلط ہو جاتی ہے تو یہ اپنی جگہ پر رک جاتے ہیں۔

یعنی جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ اسلام کو فتح نصیب ہو رہی ہے تو کچھ دیر کے لئے انہیں اسلام بھلا معلوم ہو تا ہے اس وقت انہیں یہ خیال آتا ہے کہ ہمیں اسلام کے نور کی روشنی میں چلنا چاہیے اور مسلمانوں سے تعلقات استوار رکھنے چاہیے لیکن اگر اتفاق سے فتح کامرانی کا سلسلہ رک جائے اور مسلمانوں کو وقتی شکست اور زحمت کا سامنا کرنا پڑے تو فورا ان کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں۔ یہ متحیر ومضطرب و مردد، ہو کر کھڑے ہو جاتے ہیں یہ صرف دنیاوی مفاد کے تحفظ میں ہیں یہ لوگ دل سے اسلام کی حقانیت پر غور نہیں کرتے اسی وجہ سے مضطرب ہیں۔

قرآن مجید ان کی کیفیت و حالت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ جب روشنی دیکھتے ہیں تو چل پڑتے ہیں اور جب تاریکی ہو جاتی ہے یعنی عارضی طور پر فتح کا سلسلہ رک جاتا ہے تو بد گمان ہو جاتا ہے منافقین میں حق طلبی کا جذبہ نہیں ہے دین اسلام کی کامیابیوں سے انہیں تکلیف ہوتی ہے،جس کے نتیجے میں ان فتوحات کو نظر بھر دیکھنے کی تاب نہیں رکھتے لہذا قریب ہے کہ یہ چمک ان کی نگاہوں کو خیرہ کردے۔

۱۰۷

انتخاب ہدایت کی مہلت

خدا وند عالم نے سماعت اور بصارت جیسی نعمت ہدایت اور کامیابی حاصل کرنے کے لئے عنایت فرمائی ہے لیکن منافقین نے کفران نعمت کرتے ہوئے ان نعمتوں سے استفادہ نہ کیا انہوں نے حقائق دیکھنے کی بجائے اپنی آنکھیں بند رکھیں،حق سننے کی بجائے اپنے کانوں میں انگکیاں ٹھونس لیں لہذا ان کے آنکھ اور کان اس قابل نہ تھے کہ ان کے پاس رہیں لیکن اللہ تعالی نے ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں سماعت اور بصارت کی نعمت سے مکمل طور پر محروم نہیں کیا۔ خدا چاہتا تو ان کی یہ صلاحیتیوں کو سلب کر لیتا اس نے ان صلاحیتوں کو سلب نہیں کیا اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا تا کہ ہدایت کے انتخاب میں انہیں مزید مہلت دے اگر کوئی شخص قلبی اعتقاد کے ساتھ اسلام قبول کرنا چاہتا ہے تو قبول کر لے،اس کے پاس مکمل مہلت ہے لیکن انہوں نے سوء اختیار کی وجہ سے حق کی راہ کو طھوڑ دیا اورضلالت وگمراہی کی راہ مسافر بنے ہدایت کے انتخاب کی مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا حالانکہ اللہ قادر مطلق ہے وہ چاہتا تو شروع سے ہی یہ نعمتیں سلب کر لیتا۔

( یَاأَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ) ( ۲۱)

اے لوگو اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا شاید تم متقی بن جاؤ۔

خصوصیات

اس آیت کی دو اہم خصوصیات ہیں جو کسی اور آیت میں نہیں ہیں۔

پہلا خطاب

اس آیت میں یا ایھا الناس سے انسانوں کو پکارا گیا ہے۔قرآن مجید کا یہ سب سے پہلا خطاب ہے یہ پہلا مقام ہے جہاں خداوندعالم نے کسی واسطہ کے بغیر فرمایا ہے۔

۱۰۸

اے لوگو ! اس خطاب انسان کو عزت و عظمت دی گئی ہے اور انسان کو اس سے تسکین ملی ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

لذة ما فی النداء ازال تعجب العبادة والعناء ۔

ندا الہی میں خطاب کی ایسی لذت ہے جو عبادت کی تکلیف اور تھکاوٹ کو دور کر دیتی ہے۔

خداوند عالم انسان پر کسی واسطہ کے بغیر لطف کرتا ہے لیکن انسان اپنی غفلت،جہالت اور سواختیار کی وجہ سے اس رابطہ کو منقطع کر بیٹھتا ہے اور لطف الہی سے محروم ہو جاتا ہے۔حالانکہ یا ایھا الناس اس بات کی علامت ہے کہ یہ عبد اور معبود کے درمیان نہ ٹوٹنے والا رابطہ ہے۔

پہلا فرمان الہی

قرآن مجید نے سب سے پہلا فرمان الہی یہ جاری کیا کہ تم اپنے پروردگار کی عبادت کرو اس سے پہلے کوئی فرمان الہی صادر نہیں ہوا۔

دعوت عمومی

گزشتہ آیات میں اس نقطہ کو بیان کیا گیا تھا قرآن مجید کتاب ہدایت ہے اور قرآن مجید نے تین گروہوں متقین کافرین اور منافقین کے اوصاف اور مقام کو بیان کیا کہ متقین ہدایت الہی سے نوازے گئے ہیں اور قرآن ان کا رہنما ہے جبکہ کافروں کے دلوں پر جہل و نادانی کی مہر لگا دی گئی ہے اور منافقین کو کبھی بھی ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی۔

اس آیت میں خداوندعالم نے ایک جامع اور عمومی خطاب کے ساتھ بتایا ہے کہ قرآنی ہدایت کسی ایک گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کی دعوت عام ہے اور یہ سب انسانوں کو یگانہ خدا کی عبادت کی طرف دعوت دے رہا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی عبادت کریں یعنی متقین اپنی عبادت کو جاری رکھیں اور کافرین اپنے کفر کو چھوڑ کر پروردگار عالم کی بندگی اختیار کریں۔

۱۰۹

منافقین اپنی منافقت کو چھوڑ کر اپنی عبادت میں خلوص پیدا کریں۔دعوت قرآن سب انسانوں کے لیئے ہے یہی وجہ کہ لفظ انسان،مسلم،متقی، مومن اور بنی آدم کی نسبت زیادہ استعمال ہوا ہے قرآن مجید میں ۲۴۱ مرتبہ لفظ انسان استعمال ہوا ہے۔(۱)

زیر نظر پانچوں آیات میں خداوندعلام عمومی دعوت دے رہا ہے کہ یہ دعوت کسی ایک گروہ کے لیئے خاص نہیں ہے اس دعوت عمومی کے وقت لوگ دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں بعض اس دعوت پر لبیک کہتے ہیں انہیں جنت کی بشارت دی گئی ہے اور بعض لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کرتے انہیں جہنم کا ایندھن قرار دیا گیا ہے۔

عبودیت پروردگار

الف، معرفت خداوندی

قرآن مجید عبادت اور پروردگار کے ساتھ مستحکم رابطہ کو انسانی زندگی کی نجات اور سعادت ابدی قرار دیتا ہے خداوندعالم کی معرفت ہی عبادت ہے جیسا کہ حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

اول عبادة الله و اصل معرفته الله توحیده

سب سے پہلی عبادت اللہ تعالی کی معرفت ہے اور اللہ تعالی کی بہترین معرفت اس کی وحدانیت کا اقرار کرنا ہے۔(۲)

___________________

(۱)فرقان ج ۱ ص ۱۲۴۔۰۰۰۰(۲)نور الثقلین ج ۱ ص ۳۹۔

۱۱۰

ب،صحیح عقیدہ

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اعبدو اربکم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ صحیح عقیدہ رکھنا چا ہیے۔

اجیبوا ربکم من حیث امرکم،ان تعقدوا ان لا اله الا الله،وحده لا شریک له ولاشبیه ولا مثله،عدل لا یجوز،جوادلا ینحل حلم لا یغطل،وان محمد اعبده و رسوله صلی الله علیه و آله الطیبین وبان آل محمد افضل آل النبین وان علیا افضل آل محمد و ان اصحاب محمدالمومنین منهم افضل الصحابه المرسلین وبان امته محمد افضل امم المرسلین ۔(۱)

اپنے پروردگار کی اس طرح اطاعت و عبادت کریں جس طرح اس نے حکم دیا ہے اور یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معباد نہیں ہے وہ وحدہ لاشریک ہے اس کی کوئی شبیہ و مثل نہیں ہے وہ منبع عدل ہے اس کے متعلق ظلم کا تصور نہیں ہے۔وہ ایسا سخی ہے جس کے متعلق بخل کا سوچا بھی نہیں جا سکتا ایسا حکیم ہے جیسے امور میں خلل نہیں ہے

اور عبادت سے مراد یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس کے عبد اور رسول ہیں آل محمد تمام انبیا ء (اور ان) کی آل سے افضل ہیں۔حضرت علی (ع) حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی آل میں افضل ترین ہستی ہیں اور اصحاب حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)مومنین ہیں اور ان میں بعض صحابہ تمام انبیا ء کے اصحاب سے افضل ہیں،حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی امت تمام انبیاء کی امتوں سے افضل ہے۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج ۶۵ ص ۲۸۶۔

۱۱۱

(ج) احترام اہل بیت علیہم السلام

اہلبیت اطہار علیہم السلام کا احترام کرنا عبادت ہے کا احترام کرنا عبادت جیسا کہ روایت میں ہے کہ بریدہ نے حضرت رسول (ص) سے اس کے متعلق سوال کیا تو حضرت نے ارشاد فرمایا :

یا بریده ان من یدخل النار ببعض علی اکثر من حصی انحذف یرمی عند الحجمرات، فایاک ان تکون منهم، فذلک قوله تبارک وتعالیٰ، اعبدوا ربکم خلقکم، اعبدوه بتعظیم محمد و علی ابن ابی طالب ۔(۱)

اے بریدہ جہنم میں اکثر لوگ بغض علی کی وجہ سے جائیں گے اور ان کی تعداد حج کے موقع پر شیطانوں کو مارے جانے والوں پتھروں سے بھی زیادہ ہوگی،پس تم ان جیسا بننے سے ڈرو یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اعبدوا ربکم الذی خلقکم فرمایا ہے یعنی محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور علی ابن ابی طالب کی تکریم ہی عبادت ہے۔

انسان کو عبادت خداوندی بجا لانے کیلئے اس کے اوامر، نواہی کا خیال رکھنا چاہیے ولایت اہل بیت اصل عبادت ہے۔اگر کسی کو ولایت نصیب نہ ہوئی تو اسکی عبادت نہیں ہے(۲)

____________________

(۱)بحار الانوار جلد ۳۸ ص ۶۹

(۲) حضرت رسول اعظم ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بیسوں فرامین اسی مطلب پر دلالت کرتے ہیں جیسا کے آپ کا فرمان ہے۔

من مات علی بغض آل محمد لم یشم رائحة الجنة

آل محمد کا بغض رکھ کر مرنے والا جنت کی بو تک نہیں سونگھ سکتا۔

۱۱۲

اسی طرح مومنین کے ہر عمل کے قابل قبول ہونے کیلئے،حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت ضروری ہے جیسا کہ حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

یا علی لو ان عبدا عبد الله مثل ما قام نوح فی قومه و کان له مثل جبل احد ذهبا، فا نففته فی سبیل الله و مد فی عمره حتی حج الف عام علی قدمیه ثم قتل بین الصفاء و المراة مظلوم، ثم لم یوالک یا علی لم یشم رائحة الجنة و لم یدخلها

البتہ ولایت اہل بیت کا صحیح دعوایدار وہی جو فرائض کا تارک نہ ہو جیسا کہ حضرت امیرالمئومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

لا عبادة کادا الفرائض (۱)

فرائض کی ادائیگی جیسی کوئی عبادت نہیں ہے۔لہذا انسان کو ہر حال میں فرائض کا خیال رکھنا چاہیے اگر کسی مقام پر مستحب اور واجب کا ٹکراو ہوجائے تو اس وقت فرائض کو بجا لانا ضروری ہے بلکہ اس وقت مستحب کی بدولت انسان تقریب الہی بھی حاصل نہیں کر سکتا جیسا کہ مولا متقیان حضرت امیرالمئومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

لا قربته بالنوافل اذا اضرب بالفرائض ۔

ان مستحبات (نوافل)سے قرب الہی حاصل نہیں ہوسکتا جو واجبات کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا کریں۔(۲)

یا علی اگر کوئی حضرت نوح کی عمر جتنی زندگی اللہ کی عبادت کرتا رہے اور اس کے پاس پہاڑ احد جتنا سونا ہو اور وہ اسے اللہ کی راہ میں دے دے اور اس کی زندگی اتنی طویل ہو کہ وہ ایک ہزار پیدل چل کر حج کرے حالت میں قتل ہو جائے لیکن یا علی اگر وہ تیری ولایت و محبت کا قائل نہیں ہے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکتا چہ جائیکہ وہ جنت میں داخل ہو۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۱۱۳۔(۲)نہج البلاغہ حکمت ۳۹۔

۱۱۳

خالق اولین و آخرین کی عبادت

ہمیں اس پروردگار عالم کی عبادت کرنا چاہیے جو ہمیں اپنی کامل قدرت اور حکمت کے ساتھ عدم سے وجود میں لایا ہے یہ خدا کی قدرت،حکمت اور رحمت کی نشانی ہے۔ قرآن مجید تمام انسانوں کو توحید کی طرف دعوت دے رہا ہے کہ تم ذرا غور کرو تو یہی تمہارا حقیقی رب ہے اس نے تمہیں بھی خلق کیا ہے اور تم سے پہلے تمہارے آباؤ اجداد کا بھی وہی خالق ہے بلکہ پوری کائنات خالق وہی ہے اس ذات کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے لہذاعبادت بھی صرف اسی کیساتھ مختص ہے، تم اپنے خود ساختہ خداؤں کو پوجنا چھوڑ دو کسی چیز ہر بھی قادر نہیں ہیں۔اگر تم اپنے اور اباؤ اجداد کی خلقت پر غور کرو اور لا تعداد نعمتوں کے متعلق فکر کرو تو معلوم ہوگا کہ یہ سب اس ذات کی رحمت ہے جسکا ولم و قدرت لامتناہی ہے اس وقت یقینا تم اسے ہر لحاظ سے یکتا مانو گئے اور اس کے علاوہ کسی کی عبادت کا نہیں سوچو گئے۔

فلسفہ عبادت تقویٰ ہے

تقویٰ ایک نفسانی ملکہ، یہ اعمال صالحہ کی مکمل ادائیگی سے حاصل ہوتا ہے اسی وجہ سے تقویٰ کو عبادت کا فلسفہ کر دیا ہے انسان عبادت کے ذریعے تقویٰ کی منزل تک پہنچ سکتا ہے اور تقویٰ چاہیے والی کی صف میں اپنا ستمار کروا سکتا ہے،عبادت ہی موجد تقویٰ ہے۔ اگر عبادت کرنے کے باوجود بھی انسان میں تقویٰ پیدا نہ ہوسکے تو وہ عبادت نہیں ہے کیونکہ اس کائنات کی خلقت و افرنیش کا مقصد انسانیت کی تکمیل ہے جبکہ انسان کی خلقت عبادت کیلئے ہے اور عبادت کا اصلی ہدف تقویٰ ہے لہذا ہم خدائی دستورات اور فرامین کے مطابق زندگی بسر کریں تو ہم پرہیز گار کہلواسکتے البتہ ہمیں اپنی عبادت میں مفرور بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ غرور اور ریا ہمیں تقویٰ سے بہت دور لیجاتی ہے۔

( الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ فَلاَتَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) ( ۲۲)

جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمہاری روزی کے لئے زمین سے پھل نکالے پس تم کسی کو اس کا ہمسر نہ بناؤ حالانکہ تم خوب جانتے ہو۔

۱۱۴

آفرینش کائنات انسان کیلئے ہے۔

یہ آیت گذشتہ آیت کا تتمہ ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی نعمتوں کا احساس دلاتے ہوئے فرما رہا ہے کہ اس پوری کائنات کی خلقت تیرے لئے ہے تجھے متعدد نعمتوں سے نوزا گیا ہے۔

اس آیت میں بیان کی جانے والی ہر نعمت کئی دوسری نعمتوں کا سرچشمہ ہے زمین کے ساتھ اتنی نعمتیں موجود ہیں جن کا احصی ممکن نہیں ہے اس طرح آسمانی نعمتوں کا شمار انسانی طاقت سے باہر ہے یہ سب کچھ انسان کے لیئے بنایا گیا ہے لہذا اسے خدا حقیقی کی بندگی کرنا چاہیے عبادت میں خلوص پیدا کرنا چاہیے ان سب نعمتوں کا موجود ہونا اللہ کی حقیقی معرفت کا راستہ ہے۔

اللہ کی ذات واحد ویکتا ہے انسان کو خدا کی آیات آفاقی میں غور و فکر کرنا چاہیے تاکہ اسے یہ معلوم ہوسکے کہخدا نے اس پوری کائنات کی افرینش اس کے لیئے کیوں فرمائی ہے جب وہ اس میں غور کرے گا تو اسے معلوم ہو گا کہ وہی ذات ہی عبادت کے لائق ہے، وہ و احد و یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

نعمت زمین

خداوندعالم نے اس آیت مجیدہ میں اپنی کئی نعمتوں کو بیان کیا ہے انسان ان نعمتوں کے متعلق غور کرے کہ خدا نے کس طرح زمین کو بچھونا قرار دیا ہے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اسے بچھونا کس ذات نے قرار دیا ہے اس طرح آسمان کو ہمارے لیئے چھت قرار دینے والی ذات بھی وہی ہے، پوری کائنات کا خالق بھی وہی ہے اس نے ہر چیز کو ہماری طبیعت کے مطابق بنایا ہے تاکہ ہم اس سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں۔

۱۱۵

اس آیت مجیدہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت امام سجاد علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

جعلها ملائمه لطباعکم موافقته لاجسامکم ولم یجعلها شدید الحمی والحراره متحرتکم ولا شدیدةالبردمتحمدکم ولا شدیده طیب الرسیح متصدع ها ماتکم ولا شدیدة النتن متعطبکم ولا شدیدة اللین کالما ء فتغرقکم ولا شدیدةالصلابه متمنع علیکم فی دورکم انبیتکم و قبور موتاکم فلذا جعل الارض فراشا

خدا نے زمین کو تمہاری طبیعت اور مزاج کے مطابق خلق فرمایا ہے تمہارے جسم کی وجہ سے اسے زیادہ گرم اور جلا کر راکھ کر دینے والی نہیں بنایا کہ اس کی حرارت سے تم جل کر راکھ نہ بن جاؤ اور اسے زیادہ ٹھنڈا بھی پیدا نہیں کیا ہے کہ کہیں تم منجمد نہ ہو جاؤ۔

اسے زیادہ معطر اور خوشبودار بھی نہیں بنایا ہے کہ کہیں اس کی تیز خوشبو تمہارے دماغ کو تکلیف پہنچائے اور اسے بدبودار بھی نہیں بنایا کہ کہیں تمہاری ہلاکت کا سبب نہ بن جائے اس زمین کو پانی کی طرح بھی نہیں بنایا کہیں تم غرق نہ ہوجاؤ اور اسے اس قدر سخت بھی نہیں بنایا تاکہ تم گھر نہ بنا سکو مردوں کو دفن نہ کر سکو لہذا خدا نے تمہارے لیئے اس زمین کو ایک بچھونا بنایا ہے۔

نعمت آسمان

خداوندعالم نے انسانوں کو آسمان جیسی بہت عظیم نعمت سے نوازا ہے یہ بظاہر تو ایک نعمت ہے لیکن یہ بھی زمین کی طرح کئی نعمتوں کا سرچشمہ ہے خداوندعالم نے اسے ہمارے سروں پر چھت بنایا ہے جیسا کہ خداوندعالم دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے۔۔

( وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوظًا )

ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا ہے۔

۱۱۶

ہمیں آسمان کے ساتھ گوناگوں نعمتیں میسر آتی ہیں،حتی کہ اس کا آبی رنگ ہونا بھی ایک نعمت ہے جیسا کہ حضرت امام جعفر صاق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

اے مفضل آسمان کے رنگ میں غور وفکر کرو خدا نے اسے آبی رنگ میں پیدا کیا ہے یہ رنگ انسانی آنکھ کے لیئے بہت مفید ہے اس کی طرف دیکھنا بینائی کو تقویت پہنچاتا ہے۔

آسمان کی نعمتوں میں ایک بہت بڑی نعمت ااسمان سے بارش برسنا ہے اس کے فوائد کا احصی ناممکن ہے حضرت امام سجاد علیہ السلام بارش کے آسمان سے نازل ہونے کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں۔

یعنی المطر ینزله من اعلی لیبلغ قلل جبالکم و تلالکم وهضالکم و اوهادکم ثم فرقه زذاذا و وابلا و هطلا لتنشفه ارضوکم و لم یجعل ذلک المطر نازلا علیکم قطعة واحدة فیفسد ارضیکم و اشجارکم و زروعکم و ثمارکم

خداوندعالم بارش کو آسمان سے نازل کرتا ہے تاکہ پہاڑوں کی تمام،چوٹیوں ٹیلوں،گڑہوں اور تمام بلند مقامات پر پہنچ جائے یہ بارش کبھی تو نرم اور کبھی سخت دانوں کی شکل میں اور کبھی قطرات کی شکل میں برستی ہے تا کہ پوری طرح زمین میں جذب ہو جائے اور زمین اس سے سیراب ہو جائے۔

اسے سیلاب کی صورت میں نہیں بھیجاکہیں زمینوں درختوں،کھیتوں،اور تمہارے پھلوں کو بہا کر ویران نہ کردیاس بارش کی برکت سے قسم قسم کی چیزیں پیدا ہوتی ہیں یہ سب انسانوں کی روزی بنتی ہیں یعنی ہمیں اس خدا کی وحدانیت کی طرف غور کرنا چاہیے جس نے بے رنگ پانی سے ہزاروں رنگوں کے میوے انسان کے لیئے پیدا کیے ہیں۔(۱)

____________________

(۱)نور الثقلین ج ۱ ص ۴۱۔

۱۱۷

شرک کی نفی

خداوندعالم انسانوں کو متنبہ کر رہا ہے کہ تم عقیدہ توحید اور عبادت میں خلوص پیدا کرو کسی کو اس وحدہ لا شریک زات کا شریک نہ بناؤ سرف اسی کی عبادت کرو جو تمہارا خالق اور رازق ہے تمہاری عبادت تب عبادت ہے جب اس میں شرک نہیں ہے۔

عبادت میں جتنا خلوص زیادہ ہو گا عبادت کا انتہائی درجہ بلند ہو گا اور خلوص کا بہترین درجہ یہی ہے کہ عبادت کرنے والے کے دل میں خدا کے علاوہ کچھ نہ ہو جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

القلب السلیم الذی یلقی ربه، لیس فیه احد سواه

قلب سلیم وہ ہے کہ یا دالہی کے وقت اللہ تعالی کے علاوہ کسی کا تصور تک نہ ہو۔(۱)

تورات،زبور اور دوسرے صحیفوں میں بھی یہ واضح ہو چکا ہے کہ خدا کی کوئیمثل نہیں ہے حالانکہ تحت الشعور میں تم جانتے ہو کہ اللہ کے علاوہ یہ نعمتیں کوئی بھی نہیں دے سکتا صرف اور صرف وہی ذات ہی زمین و آسمان کی خالق ہے جیسا کہ قرآن فرما رہا ہے۔

( وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ )

اگر ان سے پوچھو کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے کہ یقینا اللہ نے پیدا کیا ہے۔

لہذا عبادت کے وقت بھی صرف اسی اللہ کے سامنے جھکو اس میں کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ صرف وصرف وہی ذات لائق عبادت ہے۔

_____________________

(۱)بحار الانوار ج ۶۷ ص ۲۳۹۔

۱۱۸

( وَإِنْ کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَائَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ )

اگر تمہیں اس کلام کے بارے میں شک ہے جسیے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسا ایک سورہ ہی لے آؤ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو اللہ کے علاوہ جتنے تمہارے مددگار ہیں ان سب کو (بھی ) بلا لو۔

گزشتہ آیات کے ساتھ ربط

سورہ بقرہ کے آغاز میں فرمایا گیا تھا کہ ذلک الکتاب لا ریب فیہ یعنی اس کتاب میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کے متعلق کسی نے شک بھی نہیں کیا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ ایسی واضح کتاب ہے جس میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔

منافقین کے متعلق بتایا جا چکا ہے کہ یہ لوگ شک و تردید کی بیماری مین مبتلا ہیں اب انہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے اس میں کسی قسم کا شک ہے تو اس جیسا ایک سورہ ہی لے آؤ۔

اسی طرح چوتھی آیت میں مومنین کی نشانی ہی یہ بتائی گئی ہے کہ جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے اس پر ایمان لانے والے ہیں اسی طرح ۲۱ ویں آیت میں کہا گیا ہے کہ اپنے رب کی عبادت کریں یہ کتاب ہمیں رہنمائی کرتی ہے کہ ہم نے کس طرح عبادت بجا لانی ہے جو شرک جیسے گناہ سے پاک ہو اور اس سے پہلے والی آیت میں اپنی ایک نعمت آسمان سے پانی نازل ہونا بیان کیا ہے۔

۱۱۹

جس طرح آسما ن سے پانی نازل ہوتا ہے اس کی وجہ سے ہماری روزی کا سامان ہوتا ہے اور ہمیں جسمانی طور پر غذا میسر ہوتی ہے اور اسی کے دم سے ہم زندہ ہیں بالکل اسی طرح آسمان سے نازل ہونے والی ایک نعمت قرآن مجید ہے یہ ہماری روحانی غذا کے عنوان سے ہے۔ اسی قرآن سے قومیں زندہ ہیں اور ان کی روح کو غذا میسر آتی ہے یعنی ہماری جسمانی پرورش آسمان کا پانی کرتا ہے اور ہمیں صحت و سلامتی حاصل ہوتی ہے جبکہ ہماری روحانی پرورش قرآن مجید کرتا ہے ا س کی وجہ سے ہماری روح کی سلامتی اور مقصد پیدائش کی تکمیل ہوتی ہے۔( ۱)

قرآن مجید کا تعارف

خداوندمتعال اپنی کتاب کا تعارف اس انداز سے کرا رہا ہے کہ اللہ تعالی کی اس کتاب میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور اللہ تعالی نے اسے آسمان سے پیغمبر اسلام پر نازل فرمایا ہے یہ سب لوگوں کی ہدایت کا سر چشمہ ہے،ہمیں راہنمائی کر رہی ہے کہ ہم نے کس طرح اللہ کی عبادت کرنی ہے۔ اس میں شک کرنے والا پوری کائنات کو اپنی مدد کے لیئے بلا لے تب بھی اس کا مثل نہیں لا سکتا ہے اور وہ کافروں کے لیئے بنائی گئی جہنم کا ایندھن بنے گا۔

____________________

( ۱) جیسے خداوندعالم کا فرمان ہے

( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ )

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217