تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت18%

تفسیر انوار الحجّت مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 217

تفسیر انوار الحجّت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 154947 / ڈاؤنلوڈ: 5693
سائز سائز سائز
تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

فساد فی الارض

فاسقون کی تیسری صفت یہ ہے کہ یہ لوگ زمین مین فساد برپا کرتے ہین یعنی خداوندعالم نے انہیں اس دنیا کو قبول کرنے ضروریات پر عمل پیرا ہونے اور توحید انبیاء اور قیامت پر صحیح عقیدہ رکھنے کا حکم دیا ہے یہ اس دین کے مقابلہ میں اپنا غلط عقیدہ رکھتے ہیں لوگوں کو اسلام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے روکتے ہیں حق و حقیقت کا استہزاء کرتے ہیں مومنین کو اذیتیں دیتے ہیں اس نظام ہستی میں موجود اصلاح سے سبق حاصل نہیں کرتے بلکہ خلق خدا کی گمراہی کا سامان پیدا کرتے ہیں یعنی یہ لوگ اپنے طرز عمل سے زمین خدا پر فساد برپا کرتے ہیں تا کہ لوگوں کے عقائد حقہ میں تزلزل پیدا ہو جائے۔

فاسق خسارے میں ہیں

اس آیت کے آخر میں خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ مندرجہ بالا صفات کے مالک ہیں وہ خسارے اور نقصان میں ہیں یعنی جو لوگ ہدایت فطری کا سرمایا اپنے ہاتھوں سے دے دیتے ہیں،حقوق اللہ اور حقوق الناس کا خیال نہیں رکھتے بانی شریعت کو تکلیف میں مبتلا کرنے میں کوشاں رہتے ہیں اسلامی احکام پر عمل پیرا نہیں ہوتے فساد کا موجب بنتے ہیں۔

یہ اس دنیا میں بھی خسارے میں ہیں کیونکہ ان پر کوئی اعتماد نہیں کرتا انہیں قلبی سکون میسر نہیں ہوتا،ہر وقت پریشانی انہیں دامن گیر رہتی ہے،ساری زندگی منافقت اور غلط کاری میں گزار دیتے ہیں اپنی تمام سعادتیں بدبختی اور سیاہ کاری میں خرچ کرتے ہیں اور دین الہی سے کارج ہو جاتے ہیں اور آخرت میں بھی یہ لوگ خسارے میں ہوں گے اور جہنم کا ابدی عذاب نہ صرف ان کا بلکہ ان کے خاندان کا بھی مقدر ہو گا،جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ ) (۱)

فسق کی راہ اختیار کرنے والے خود بھی خسارے اور گھاٹے میں ہیں اور اپنے خاندان کو بھی قیامت تک اس خسارے اور نقصان میں مبتلا کر دیں گے۔

___________________

۰۰۰ زمر آیت ۱۵ ۰۰۰

۱۴۱

( کَیْفَ تَکْفُرُونَ بِاللهِ وَکُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیکُمْ ثُمَّ إِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ) ( ۲۸)

تم کس طرح اللہ کا انکار کر سکتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی دی پھر وہی تمہیں موت دے گا اور وہی تمہیں زندگی دے گا اور پھر اس کی طرف لٹا ئے جاؤ گے۔

توحید شناسی۔

خدا کی سر زنش

یہ اور اس کے بعد آنے والی آیت انسان کو خدا کی عظمت اور توحید شناسی کی طرف متوجہ کر رہی ہے گویا خدا وند عالم نے۔ ۱۲،۲۲ آیت میں تو حید شناسی کے حوالہ سے جو دلائل بیان کیے تھے ان کی تکمیل کرتے ہوئے انسانوں کو سر زنش کر رہا ہے کہ میں نے تمہیں اس قدر نعمتیں عطا کیں ہیں اس کے باوجود تم کیونکر انکار کرتے ہو۔اس آیت میں خدا بیک وقت کافر،منکر اور مسلمان سب کو مخاطب ہے کافروں کے لئے یہ برھان اور حکمت کے عنوان سے ہے۔

جبکہ تمہارا اور اس پوری کائنات کا خالق میں ہوں تو پھر انکار کیسا؟ لیکن جو لوگ اللہ کو خالق مانتے ہیں لیکن شرک کرتے ہیں ان کے لئے یہ آیت جدال ہے کہ جو حقیقی خالق ہے موت وحیات بھی اس کے قبضہ قدرت میں ہے وہی پوری کائنات کو مدبر ہے۔

اس کے علاوہ کوئی رب نہیں ہوسکتا تم صرف اسی کے سامنے سر تسلیم خم کرسکتے ہو،جب وہی سب کچھ ہے تو پھر انکار کیسا؟اور جو لوگ خدا کی خالقیت اور ربوبیت کے قائل ہیں لیکن معصیت اور سرکشی کر بیٹھے ہیں اور خود کو مسلمان کہلوانے کے باوجود بد عملی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

۱۴۲

ان کو وعظ و نصیحت اور سرزنش کی جا رہی ہے کہ خود کو سنبھال لو۔موت وحیات سب اس کے قبضہ قدرت میں ہے تمہیں اس کی بارگاہ میں لوٹ کر جانا ہے تو پھر صراط مستقیم سے منحرف کیوں ہو جاتے ہو کیوں خدا کی اطاعت اور پیروی میں سستی سے کام لیتے ہو۔

بہرحال اتنے واضح اور روشن دلائل کے بعد اس ہستی کا انکار یا اس کے احکام پر عمل کرنے میں کوتاہی درست نہیں ہے انہیں تو اپنی خلقت اور موت حیات کے متعلق غور فکر کرنا چاہیے۔شاید اس کی وجہ سے اللہ کی طرف متوجہ ہو جائیں۔

دنیاوی زندگی

خداوند عالم انسان کو اس کی حقیقت یاد دلا رہا ہے کہ خدا نے جو کچھ تجھے عطا کیا ہے وہ اس کا لطف ہے تم کچھ بھی نہ تھے ہم نے تمہیں خلق کیا جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا ) (۱)

یعنی تم کچھ بھی نے تھے ہم نے تمہیں پیدا کیا۔

خداوند متعال اس مقام پر فرما رہا ہے کہ تم مردہ تھے ہم نے تمہیں نعمت حیات سے نوازا ہے اگر تم صحیح معنوں میں اپنے متعلق غور فکر کرو تو تمہیں خدا کی وحدانیت کا یقین پیدا ہو جائے گا۔

___________________

( ۱) مریم ۹ ۔

۱۴۳

یہ جملہ انسانی وجود کی حقیقت کو بیان کر رہا ہے انسان اپنے سفر کا آغاز نقص سے شروع کرتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ راستہ طے کرتا چلا جاتا ہے اور نقطہ کمال تک جا پہنچتا ہے۔

اس دنیا میں آنے سے پہلے یہ مردہ تھا پھر نجانے کتنے مراحل طے کرنے کے بعد اس دنیا میں آیا خدا نے اسے نعمت حیات سے سرفراز کیا پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ اسے اس دنیا سے جانا پڑا پھر اسے قیامت والے دن دوبارہ زندگی ملی حساب کتاب ہوا گویا اس کی زندگی آغاز سے انجام تک تغیرات سے پر ہے۔

خدا اس انسان سے مخاطب ہو کر ارشاد فرما رہا ہے تم کس طرح کفر اختیار کرتے ہو کیوں خدا کی طرف نہیں آتے حالانکہ تم مردہ تھے تمہیں زندگی ملی اور تم جانتے ہو تم کن کن مراحل سے گزرے ہوئے کیسی کیسی تبدیلیوں کا تمہیں سامنا کرنا پڑا تم کتنے حجابوں اور پردوں میں پوشیدہ تھے ہم نے تمہیں حیات دی اور تمہارے بے جان جسم میں روح پھونکی۔یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ تم عدم سے وجود میں آئے لہذا اس نعمت حیات کا قدر دان کبھی بھی جنت کے علاوہ کسی اور چیز سے اس کا معاملہ نہیں کرے گا جو لوگ ایسی عظیم نعمت دینے والی ہستی سے غافل ہیں انہیں بہت جلد اس نعمت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور آخرت کا دردناک عذاب ان کا ٹھکانہ ہو گا۔

جیسا کہ خدا کا فرمان ہے۔

( لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ ) ۔

اگر تم میرا شکر بجا لائے تو میں تمہیں انعامات سے نوازوں گا اور اگر تم نے کفر کیا تو میراعذاب بھی شدید تر ہے۔

لہذا انسان کو اپنے اس زندگی کے ابتدائی مرحلے میں اپنے اختیار کی وجہ سے ایسی راہ کا انتخاب کرنا ہو گا جس میں سعادت ہی سعادت ہو اور وہ اگر اپنے سوء اختیار کی وجہ سے اس دنیا میں بد کاری اور غلط کاری میں مصروف رہے،اصول دین پر اس کا صحیح اعتقاد نہ ہو،فروع دین کی بناآوری میں کوتاہی کرتا رہے تو اس نے اپنی زندگی کے اس مرحلے میں اپنے لئے کچھ مہیا نہیں کیا لہذا اس کی سزا بھی اس کے اپنے سوء اختیار کی وجہ سے ہے اور جہنم کی آگ اس کا ٹھکانہ ہو گی۔

۱۴۴

عالم برزخ کی زندگی

قرآن مجید کی یہ آیت عالم دنیا میں اور عالم آخرت کے درمیانی عالم،عالم برزخ کی زندگی پر ایک واضح دلیل ہے کیونکہ اس آیت میں ایک اور اس کے بعد زندہ کرنا ہے۔پھر موت اور زندگی ہے اور تیسرے مقام پر خدا کی طرف لوٹنا ہے کیونکہ اس آیت میں صرف الیہ یرجعون نہیں ہے بلکہ ثم الیہ یرجعون ہے،ثم فاصلے پر دلالت کرتا ہے یہ ایک فاصلے کا زمانہ عالم برزخ ہے

اس دنیا سے جانے کے بعد اور آخرت سے پہلے انسان کو عالم برزخ کا سامنا کرنا ہو گا،عالم برزخ کا سفر قبر میں شروع ہو جاتا ہے اس پر تمام مذاہب اسلام متفق ہیں کہ انسان سے قبر میں منکر نکیر آکر سوالات کرتے ہیں اور انہیں جوابات دینا ہو ں گے عالم برزخ انسان سے اس کے اعتقادات کے متعلق سوال کیے جاتے ہیں اگر وہ اس کا درست جواب دے دیں تو اس کی قبر روشن ہو جائے گی اور اس کے لئے جنت کا دروازہ کھل جائے گا تاکہ نسیم بہشت سے بہر مند ہوسکیاور اگر جواب نہ دے سکے تو اس کی قبر میں آگ لگ جائے گی اور عذاب اس کا مقدر ہو گا۔

جیسا کہ حضرت رسول اعظم کا ارشاد ہے۔

القبر روضة الجنة او حفرة من حفر النیران

قبر یا تو جنت کے باغات میں ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہوتی ہے۔

۱۴۵

قبر کے سوالات

انسان کا عالم برزخ کے لئے سفر کا آغاز قبر سے ہی شروع ہو جاتا ہے،اس عالم میں انسان کے اعتقادات کے متعلق سوالات ہو تے ہیں،اصول دین کے متعلق پوچھا جاتا ہے فروع دین کے متعلق سوالات عالم آخرت میں ہو ں گے یہاں اسے تو حید،عدل،نبوت،امامت اور قیامت کے متعلق جواب دینا ہوں گے۔جیسا کہ صحیح اورمستند روایات میں موجود ہے کہ جب حضرت فاطمہ بنت اسد کی وفات ہوئی تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کی تجھیز،تکفین اور تدفین میں شریک ہوئے آپ نے اپنی ردا مبارک سے بی بی کو کفن پہنایا،آپ کو دفن کرنے سے پہلے حضرت آپ کی قبر میں لیٹے اور اس کے بعد،بی بی کو دفن کیا تعویض قبر بند کرنے کے بعد قبر کے نزدیک ہی بیٹھ رہے اور پھر بلند آواز سے ارشاد فرمایا۔

ابنک،ابنک،ابنک،

آپکا بیٹا،آپکا بیٹا،آپکا بیٹا،

جب آپ واپس تشریف لائے تو اصحاب نے سوال کیا

یا رسول اللہ آپ نے کسی کے ساتھ لطف و کرم نہیں فرمایا جتنا آپ نے بی بی کے لئے کیا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ بی بی میری ماں کا رتبہ رکھتی ہے اس نے اولاد سے بڑھ کر میرا خیال رکھا ہے میں نے اسے اپنی چادر میں اس لئے کفن دیا ہے تاکہ اس کی حرمت و بزرگی کو محفوظ رکھ سکوں اور قبر میں اس لئے لیٹا تھا تاکہ حشرات الارض اسے اذیت نہ دے سکیں۔

اصحاب نے سوال کیا قبر بند ہونے کے بعد آپ نے ابنک،ابنک،ابنک فرمایا تھا،اسکا کیا معنی ہے؟

۱۴۶

حضرت نے فرمایا جب تعویض قبر بند ہوا تو منکر نکیر آگئے اور انہوں نے سوال کیا:

من ربک

تیرا رب کون ہے؟

جواب ملاالله ربی ۔

اللہ تبارک و تعالی میرا رب ہے۔

پھر سوال ہوا

من امامک،

فاطمہ بنت اسد خاموش ہوگئیں تو میں نے انہیں تلقین کی

ابنک،ابنک،ابنک، آپکا بیٹا،آپکا بیٹا،آپکا بیٹا،آپ کا امام ہے

یہ سننے کے بعد منکر نکیر وہاں سے چلے گئے۔

روایات میں ہے کہ جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے اس کے بعد اللہ تبارک و تعالی اسے زندہ کرتا ہے اسے دوبارہ حیات ملتی ہے،اسکے حواس پلٹ آتے ہیں بدن میں روح وآپس آجاتی ہے تاکہ وہ منکر نکیر کے سوالوں کا جواب دے سکے توحید کی وحدانیت،رسالت پیغمبر کی گواہی اور امامت و ولایت امیر المومنین اور دوسرے ائمہ اطہار علیہم السلام کو بیان کر دے تو اس کے لئے جنت کا دروازہ کھل جاتا ہے اور وہ آرام دہ زندگی گزارتا ہے۔

۱۴۷

عالم آخرت کی زندگی

ثم الیہ ترجعون سے خداوندعالم آخرت کی زندگی کی طرف اشارہ فرما رہا ہے بلکہ یہ آیت معاد پر ایک محکم دلیل ہے کیونکہ کافر مبداء و معاد کا انکار کرتے ہیں قرآن مجید ان کی تصویر کشی کرتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے کہ یہ لوگ اس طرح کہتے ہیں۔

( ما یُهْلِکُنا إِلاَّ الدَّهْرُ )

ہم تو ایک زمانے تک ہلاک ہو نگے اور اللہ کا فرمان ہے۔

( وَ ما نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ ) ۔

ہم دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے۔

خداوندعالم انہیں اس آیت میں کہہ رہا ہے تمہیں قیامت والے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اس دن دوبارہ زندہ کرنا بے مقصد اور عبث نہیں ہے۔اس دن اپنے اعمال و حساب وکتاب کے بارگاہ خداوندی میں حاضر ہونا ہو گا اور خدا تعالی کے حکم سے جہنم اور جنت کی طرف روانگی ہو گی نیک

اور صالح لوگ اپنے اعمال کی جزا دیکھنے کے لئے جنت میں جائیں گے اور بد کار و فاسق لوگ اپنے اعمال کی سزا پانے کے لئے جہنم میں دھتکارے جائیں گے۔

لہذا قرآن مجید کی یہ آیت انسان کے آغاز وسط اور اختتام کو بیان کر رہی ہے یعنی انسان کی تین حالتیں ہیں ایک اس کا آغاز ہے،عدم سے وجود میں آنا ہے اس دنیا میں انسان کی پیدائش اس کا آغاز ہے،اور مرنے کے بعد اس کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے وہ مرحلہ عالم برزخ ہے

__________________

۰۰۰۰ جاثیہ ۲۴۔۰۰۰۰ ۰۰۰۰انعام ۲۹۔۰۰۰۰

۱۴۸

یہاں اس سے اعتقادات کے متعلق سوال ہو گا اور اس کے بعد آخری مرحلہ حساب کتاب اور سزا و جزا کا ہے جیسا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کیف تکفرون باللہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

( کنتم امواتا ) ،فی اصلاب ابائکم و ارحام امهاتکم ( فا حیاکم ) اخبرکم احیاء ( ثم یمیتکم ) فی هذا الدنیا و یقبرکم ( ثم یحیکم ) فی القبور ( ثم الیه ترجعون ) فی الاخرة بان تموتوا فی القبور بعد ثم تحیو ا للبعث یوم القیامه ترجعون الی ما وعدکم

تم باپ کے صلب اور ماں کے رحم میں مردہ تھے خدا نے تمہیں زندہ پیدا کیا پھر تمہیں اس دنیا میں موت دے گا اور تمہیں قبروں میں ڈالا جائے گا پھر تمہیں قبروں سے زندہ نکالے گا پھر تمہیں آخرت والے دن اس کی طرف لوٹ کر جانا ہوگا یعنی تم مردہ قبروں میں ڈالے گئے

،تمہیں زندہ کیا گیا قیامت کی طرف بھیجا گیا اور پھر تمہیں (جزا سزا کے بعد)تمہارے وعدے کے مطابق بھیجا جائے گا۔

لہذا اس آیت میں خدا انسان کو خبردار کر رہا ہے کہ جب تیری ابتداء بھی خدا کے قبضہ قدرت میں ہے تیری انتہا بھی اس کے ہاتھ میں ہے اور درمیانی مرحلہ میں بھی تو خدا کا محتاج ہے تو پھر بھی تو خدا کا کفر اور انکار کرتا ہے۔

( هُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ )

وہ اللہ جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لئے پیدا کیا اور پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے سات مستحکم آسمان بنا دئیے اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔

۱۴۹

عظمت انسان

خداوندمتعال گزشتہ آیت سے الہی نعمتوں کاتذکرہ فرما رہا ہے اس آیت میں انسان کی نعمت حیات کاتذکرہ کیا تھا اور اب اس آیت میں خدا زمین جیسی اہم نعمت کا تذکرہ فرما رہا ہے یہ زمین قدرتی ذخائر کا خزانہ ہے اس میں نباتات،جمادات اور معدنیات جیسی عظیم نعمتیں موجود ہیں یہ سب انسان کی بقا کے لئے خلق کی گئیں ہیں۔

خداوندعالم انسان کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ اس جہاں میں موجود ہر چیز انسان کے لئے خلق کی گئی ہے تاکہ انسان اس سے استفادہ کرے۔

خداوندعالم ان نعمتوں کی یاد دھانی اس لئے کروا رہا ہے تاکہ انسان کو دعوت توحید دینے کے ساتھ ساتھ مہذب بھی بنائے۔

دعوت توحید اس طرح ہے کہ جب وہ یہ سوچ لے گا کہ کائنات کی ہر چیز اس کے لئے خلق کی گئی ہے اور اسے اس چیز سے فائدہ اٹھانے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور اسے جب یہ معلوم ہو جائے گا کہ کائنات کی تمام چیزیں اللہ کی مخلوق اور اس کی نشانیاں ہیں تو وہ ان کے مشاہد ہ اور مطالعہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی معرفت پیدا کرے گا۔

انسان کو مہذب اس عنوان سے بنایا ہے،جب اسے یہ معلوم ہو گا کہ یہ سب نعمتیں صرف اور صرف انسان کے لئے خلق ہوئی ہیں تو وہ غور کرے گا کہ میں کس لئے پیدا کیا گیا ہوں تو اسے مقصد تخلیق صرف عبادت خداوندی نظر آئے گا یعنی زمین و آسمان اور نعمتوں کا کمال یہ ہے کہ وہ انسان کی خدمت کے لئے ہیں اور انسان کا کمال یہ ہے کہ خدا کا عبادت گزار عبد کہلوائے۔

لہذا جو لوگ صرف مادی فوائد اور ان نعمتوں کے حصول کو اپنی زندگی کا مطمع نظر قرار دیتے ہیں وہ سب خسارے میں ہیں حتی کہ وہ تمام کہکشاؤں کے بدلے اپنا عقیدہ اور عمل ہاتھ سے دے بیٹھے تب بھی وہ خسارے میں ہے اس کا نفع صرف اور صرف عبادت خداوندی ہے۔

۱۵۰

جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے۔

یا عم ! والله لو وضعوا الشمس فی یمینی والقمر فی یساری علی ان اترک هذا الامر

چچا جان! خدا کی قسم اگر میرے دائیں ہاتھ پر آفتاب رکھ دیں اور بائیں ہاتھ پر مہتاب رکھ دیں تب بھی میں ھدف الہی سے پیچھے نہ ہٹوں گا۔

لہذا ایسے انسان پر تعجب ہے جسے خدا نے اتنی عظیم نعمتوں سے نوازا ہے اور اس کے باوجود

یہ کفران نعمت کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالی نے زمین آسمان کی تمام نعمتیں اس کے اختیار میں دے رکھی ہیں لہذا یہ بھی اپنا حق ادا کرے اور خدا کی عبادت کو ہی مشعل راہ قرار دے اور کسی صورت میں اپنے عمل اور عقیدے سے منحرف نہ ہونے پائے۔

نعمت آسمان

خداوندعالم زمین جیسی عظیم نعمت کے بعد نعمت آسمان کو بیان کیا ہے کہ یہ بھی انسان کے فائدے کے لئے خلق کیے گئے ہیں یہ زمین کی فضا پر ایک مضبوط چھت کی طرح ہے اور یہ اس قدر مضبوط اور قوی ہے اس کی وجہ کے آسمانوں سے پتھروں سے محفوظ ہو جاتا ہے یہ پتھر شب روز کشش زمین کے مرکز میں کھنچے آتے ہیں اگر یہ مضبوط چھت نہ ہوتی تو ہم ہمیشہ ان خطرناک پتھروں کی زد میں رہتے یہ اس کی جلد کا سبب ہے کہ یہ پتھر زمین کی فضا میں ہی جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں اور ہم ان کے شر سے محفوظ ہیں۔

۱۵۱

سات آسمان

اس حوالہ سے علماء مفسرین میں ایک بحث موجود ہے کہ سات آسمانوں سے کیا مرادہے۔

بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد سیارات سبع یعنی عطارد،زہرہ،مریخ، مشتری، زحل،چاند اور سورج ہیں۔بعض کے نزدیک ان سے مراد زمین سے اوپر ھوائے متراکم کی مختلف تہیں مراد ہیں اور کچھ لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ یہاں سات کے عدد کو کثرت کے معانی میں استعمال کیا گیا ہے یعنی اس سے عالم بالا کے کرائت مراد ہیں کوئی مخصوص عدد مراد نہیں ہے۔

بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد سات آسمان ہی ہیں اور جتنے کرات اور سیارات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں یہ سب پہلے آسمان کا جز ہیں جبکہ دوسرے چھ آسمان ہماری نگاہوں اور علمی آلات کی دسترس سے باہر ہیں۔

جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ ) ۔(۱)

ہم نے نچلے آسمان کو ستاروں کے چراغوں سے سجایا

اور دوسری آیت میں ارشاد ہے۔

( إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ ) ۔(۲)

یقینا ہم نے نچلے آسمان کو ستاروں سے زینت بخشی۔

ان آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ جن چیزوں کا آپ دیکھ رہے ہیں یہ سب آسمان اول پر ہیں اس کے علاوہ چھ آسمان اور بھی موجود ہیں ان کے متعلق ہمیں زیادہ علم نہیں ہے اور مزیدیہ کہ جب خود خدا کہہ رہا ہے کہ آسمان سات ہیں تو ہم اس کا نکار کریں زیادہ سے زیادہ یہی کہیں کہ ہم ان سات آسمانوں کی شکل اور کیفیت کو نہیں سمجھ سکتے۔

جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ کا ارشاد ہے۔( اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ) ۔(۳)

اللہ وہ ہے جس نے سات آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔

__________________

فصلت :۱۲۔۰۰۰۰صافات :۶۔۰۰۰۰سورہ طلاق :۱۲۔۰۰۰

۱۵۲

علم مطلق خداوند

اس سورہ کی بیسویں آیت خداوند متعال کی قدرت مطلقہ پر دلالت کرتی ہے قدرت خدا کا تزکرہ اس کے ضمن میں ہو چکا ہے لیکن ابھی تک اس سورہ میں خداوند متعال کے علم مطلق کے متعلق تذکرہ نہیں ہوا۔

یہ پہلا مقام ہے جہاں اس صفت کو بیان کیا جا رہا ہے۔قرٓن مجید نے خداوندعالم کو ”عالم“ ”علیم“ اور علام سے یاد کیا ہے اگر یہ تینوں کلمے اللہ تعالی کے وصف علم کو بیان کر رہے ہیں لیکن علیم اور علام کسی اور خصوصیت کو بھی بیان کر رہے ہیں جو کلمہ عالم میں نہیں ہے۔کلمہ علیم علام کی طرح مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدا کا علم تمام جوانب،اشیاء،اشخاص اور مخلوقات پر محیط ہے۔کسی چیز کا خالق اس کے متعلق مکمل علم رکھتا ہے اور اللہ اس پوری کائنات کی ہر ہر چیز کا خالق ہے لہذا معلوم ہو گا کہ اللہ تعالی کا ئنات کے ذرے ذرے کا علیم اور جاننے والا ہے۔

( وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِیهَا مَنْ یُفْسِدُ فِیهَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی أَعْلَمُ مَا لاَتَعْلَمُونَ )

اوراے رسول !(اسوقت کو یاد کرو) جب تمھارے پرور دگار نے ملائکہ سے کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنا نے والا ہوں تو انہوں نے کہا۔کیا اسے بنا ئے گا جو زمیں میں فساد اورخونریزی کرے جبکہ ہم تیری تسبیح اورتقدیس کرتے ہیں۔تو ارشاد ہوا میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔

نعمت خلافت۔

گزشتہ آیات میں خدا وندعالم سے خلقت انسان کے مقصد اورھدف کو بیان کیاتھااب اس آیت میں اس ھدف اور مقصد تک پہنچنے کیلئے راہ اور راہنماکو بیان کررہاہے کیونکہ جس چیز کا آغاز اور انجام ہوتاہے اس کیلئے راہ اور راہنما کا ہونا ضروری ہے۔اسی لئے اللہ تبارک وتعالیٰ ایک آیت میں اپنی بہترین نعمت ” خلافت “ کا تذکرہ فرمارہے۔

۱۵۳

خداوند متعال کی خواہش یہ تھی کہ وہ روئے زمین پر اپنا جانشین اور خلیفہ مقررکرتے اوراسکی تمام صفات صفات خداوندی کا پر تر ہوسکا مقام و مرتبہ فرشتوں سے بلاتر ہو ‘پوری کائنات کی تمام نعمتیں ‘سب خزانے ‘غرض ہر چیز اس کے سپرد ہو۔اورایسے شخص کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ عقل ‘ شعور ‘ادراک اور خصوصی استعداد کا حامل ہو اوران چیزوں کی بدولت موجودات ارضی کی رہبری اور پیشوائی کا منصب سنبھال سکے۔

اس وقت خداوند عالم ملائکہ سے انسان کا تعارف کروارہاہے۔یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ خداوندعالم نے فرشتوں کو اس تدبیر الہی سے کیوں آگاہ کیااور یہ کیوں کہاکہ میں زمین میں اپنا جانشین اورخلیفہ مقررکرنے والاہوں۔

اس حوالہ سے مفسرین نے کئی وجوحات بیان کی ہیں۔بہرحال اسکا ایک مقصد یہ ہوسکتاہے کہ خدا انسان کی عظمت کو بیان کرے اوراسے خلیفہ الہی کے لقب سے ملقب کرے اور بتائے کہ یہ احسن تقویم کا مصداق مخلوق ہے اس وجہ سے خدا وند متعال اپنے آپ کو تبریک پیش کرتے ہوئے بتارہاہے کہ خدابارک اللہ یعنی کتنی بابرکت ذات ہے جس نے انسان جیسی مخلوق کو پیدا کیا۔شاید ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے فرشتوں اورانسانوں کے درمیان ایک خاص رابطہ اور تعلق برقرار رہے گا۔فرشتے ہی اس کے عظیم رسولوں کے پاس وحی اوراللہ کا پیغام لانے والے ہوں گے یعنی یہ انبیاء الہی کے پاس اللہ کا پیغام پہنچائیں گے تاکہ انبیاء وحی الہی کو لوگوں تک پہنچائیں۔

بہرحال خداوند متعال نے انسان کو جو منصب خلافت عنایت فرمایاہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ خداکسی کا محتاج ہے اوراسے اپنا جانشین اور نائب بنا رہاہے تاکہ اسکے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچاسکے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص یہ قدرت نہیں رکھتاکہ وہ فیعض وبرکات الہی درک کرسکے۔یہ کام فقط خاصان خدا کا ہے اسی لئے تو فرمادیا۔

( مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ )

جس نے (میرے ) رسول کی اطاعت کی اس نے (مجھ) اللہ کی اطاعت کی۔

۱۵۴

حقیقی خلیفہ کون؟

قرآن مجید کی اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہورہاہے کہ خداوند عالم نے قرمایا‘ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والاہوں‘کہ حقیقی خلیفہ وہی ہے جیسے خود خدابنائے اس کا معیارتقوی اور تقدس کیساتھ علم اسماء کو قرار دیاہے۔

خد انے ملائکہ کو بھی تعلیم دی تھی جسکا انہوں نے اقرار بھی کیاتھا لیکن وہ اسے شنوصیات پر منطبق نہ کرسکے بہرحال خلیفہ اللہ صاحب کردار اوراعلم کائنا ت ہوتاہے۔حقیقی خلیفہ کی معرفت کے لئے ہم اس روایت کو بیان کرتے ہیں جس میں حضرت عمر نے مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے جناب سلمان ‘ حباب طلحہ‘ جناب زبیر ‘ اور کعب الاجبار سے سوال کیا کہ کیاتم لوگ جانتے ہو کہ حقیقی خلیفہ اور بادشاہ میں کیا فرق ہے طلحہ اور زبیر نے کہا ہمیں معلوم نہیں ہے لیکن حضرت سلمان نے کہا میں ان کے درمیان فرق کوجانتاہوں۔وہ فرق یہ ہے۔

الخلیفه هوالذی یعدل بالاعیه ‘ ویقسم ‘ باسویه ویشفق علیهم شغقه الرجل علی اهله و یقضی لکتاب الله

یعنی خلیفہ وہ ہوتاہے جو اپنی رعیت کیساتھ عدل وانصاف کرے انہیں برابر برابر حقوق اوراپنی رعیت پر اسقدا مہربان ہو جتنا اپنے اہل خانہ پر مہربان ہے اسکا ہر قیصلہ قرآن کے مطابق ہوتاہے۔

اور وہ اللہ کے اور اولاامر نواہی کو کسی کمی اورزیادتی کے بغیر اسی طرح بیان کرتاہے جستطرح وہ نازل ہوئے ہیں۔اور بادشاہ اسکے علاوہ ہے۔

یہ سنتے ہی کعب الاجبار نے کہا سلمان تم نے کتنی اچھی بات کہی ہے ‘ مجھے بھی خلیفہ کے معنیٰ کا علم نہ تھا اور میرے علاوہ یہ بھی اس کے معنیٰ سے آگاہ نہ تھے۔سلمان تم علم وحکمت سے کتنے بسریز ہو۔(۱)

بہر حال اللہ اوراسکے خلیفے کے درمیان قرب معنوی پایاجاتاہے اسی وجہ سے خلیفہ کیلئے ضروری ہے خلیفہ الہی مظہرالعجائب اور مظہر الغرائب ہونا چاہیے۔اسے جسمانی ‘ روحانی اور تمام جامع حقائق صفات میں پوری کائنات سے افضل ہونا چاہیے۔

_____________________

(۱) منھبح الصادقین جلد۔۱۔ص ۲۲۰۔۲۲۱

۱۵۵

چار خلفاء

اکثر مفسرین نے اس آیت اکے ضمن میں قرآن مجید میں چار ایسی ہستیوں کا ذکر کیاہے جنمیں خدا نے خلیفہ بنایاہے۔

البتہ بعض کتب میں چار کے بجائے تین خلفاء کا تذکرہ ہے جیسا کہ حافظ جسکانی نے شواہد تنزیل میں تین خلفاء خدا کا تذکرہ کیاہے اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت بیان کرتے ہوئے ذکر کیاہے کہ قرآن مجید میں تین افراد کو اللہ تعالی ٰ کی خلافت نصیب ہوئی ہے سب سے پہلے خلیفہ حضرت آدم ہے۔ان کیلئے خدا نے فرمایا۔

( إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ )

بقرہ : ۳۰

دوسرے خلیفہ حضرت داؤد میں جن کے لئے اللہ تعالی ٰ نے فرمایا۔

( يَا دَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الأرْضِ )

اور تیسرے خلیفہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ اسلام ہیں ان کیلئے خدا وندعالم نے ارشاد فرمایا۔

جیسا کہ حضرت امام رضا اپنے اباؤاجداد سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب نے ارشاد فرمایا!

ایک مرتبہ میں مدینہ کے راستوں پررسول خدا کا ہمسفرتھا۔اس وقت ہماری ایک خوبصورت بڑی داڑھی والے شخص سے ملاقات ہوئی اس نے حضرت رسول خد ا کو سلام کیا اور پھر میری طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرمایا۔

السلام علیکم یارابع الخلفاء

اے چوتھے خلیفہ آپ پر سلام ہو۔

۱۵۶

اس کے بعد اس نے حضرت کو مخاطب کر کے فرمایایا رسول جیسے میں نے کہا ہے اسی طرح ہے۔

حضرت نے فرمایاجی ہاں !پھر وہ شخص چلاگیا۔

حضرت علی کہتے ہیں میں نے رسول خد ا کی بارگاہ میں عرض کی۔

یارسول اللہ یہ کیاہے ! اس بزرگ نے جو کچھ کہاہے آپ نے اسکی تصدیق بھی کی ہے؟

حضرت نے فرمایا!یہ بالکل حقیقت ہے۔

اللہ تبارک تعالی ٰ نے انی جاعل فی الارض سے خلیفہ سے حضرت آدم کو پہلا خلیفہ بنایا

( لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ .) ۔ شوری: ۵۵

یعنی حضرت آدم حضرت داؤد جس طرح خلیفہ تھے اس طرح یاعلی آپ اس زمین میں میرے خلیفہ ہو۔

شواھد التنزیل۔ج ۱ ۔ص ۷۵ ۔ ۷۶

اورفرمایا

( يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ )

سے داؤد کے خلیفہ خد اہونے کا اعلان کیا۔

اور حضرت موسی ٰ نے جب حضرت ہارون کیلئے جب یہ کہا‘اخلفنی می قومی واصلح اس سے حضرت ہارون کی خلافت کا اعلان کیا

اوراللہ تعالی ٰ کا یہ فرمان ‘اذان من الله ورسوله الی النساس یوم الحج الکبیر ‘ آپ کے لئے کہا آپ اللہ اوراسکے رسول کے مبلغ میں اورآپ میرے وصی ‘وزیر ‘ میرے دین کے قاضی اور میری امانتیں لوٹانے والے ہیں ‘ آپ کی قدرومنزلت میرے نزدیک وہی ہے جو ہارون کی موسیٰ کے نزدیک ہے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ آئے گاآپ چوتھے ہیں جیسا کہ اس بزرگ نے آپ کو سلام کیا۔آپ کو معلوم ہے وہ بزرگ کون تھے۔

۱۵۷

حضرت نے فرمایا !لنیس۔

حضرت رسول خدانے فرمایا!وہ تمہارے بھائی حضرت خضر علیہ اسلام تھے۔

عظمت رسول اعظم۔

خداوند متعال اس آیت میں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اس انداز مین بیان فرماتے ہے۔کہ اے رسول جب تمہارے پرودگار نے ملائکہ سے کہا یعنی اللہ تعالیٰ نے ربک فرمایاہے ‘ رب العالمین نہیں کہا۔اس سے بات کی طرف اشارہ فرمارہاہے کہ آپ کااس

خلافت میں اہم حصہ ہے ‘ درحقیقت اس کائنات میں آپ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ اللہ کے سب سے بڑے نائب اور خلیفہ میں اور آپ ہی کی ذات گرامی زمین وآسمان میں امام اقدم کہلوانے کی حقدار ہے۔

اگر خداوندمتعال آپ کو یہ شرف نہ بخشتا تو حضرت آدم کو پیدا ہی نہ فرماتا۔(۱)

بلکہ حضرت آدم کو خدا نے جن اسماء کی تعلیم دی تھی وہ اسماء حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشتمل تھے۔(۲)

___________________

(۱)لایخفی لطف الرب هنا معنا فاالی ضمیر ه (ص) بطریق المظاب وکان فی تنولعه والحروج من عامه الی خاصه رمزاًالی ان المقبل علیه بالخطاب له ‘الخط الاعظم والقسم الاو ضرمن الجملة المجنربها رسول صلی الله علیه (وآله ) وسلم علی الحقیفه الخلیفة الاعظم فی الخلیقة والامام المقدم فی الارض والسموات العلی ولولاة ماخلق آدم روح المعانی جلد۱۔ص۲۱۸۔وفرقان۔ج۱۔ص۲۷۹

(۲) قرقان۔ج۱۔ص۲۸۴

۱۵۸

اس آیت میں مزید چار صفات کو بیان کیاجارہاہے دو صفات ایسی ہیں جو خلافت کے منافی ہیں اور دو صفات وہ ہے جنکا کسی خلیفہ میں پایاجانا لازمی اور ضروری ہے سب سے پہلے ہم اس آیت کی ترتیب کے مطابق ان دو صفات کا تذکرہ کرتے ہیں جو خلافت کے منافی ہیں اوران صفات کا حامل خلیفہ الہی کہلوانے کا حقدار نہیں ہے۔

فساد اور خونریزی۔منافی خلافت

ملائکہ خدا کی معصوم مخلوق میں اور انکی عصمت پر قرآن مجید کی یہ آیت دلالت کرتی ہے۔

( وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ) ۔(۱)

یعنی جو حکم دیا جائے یہ اسی پر کے مطابق عمل کرتے ہیں۔

حضرت آدم کی خلقت سے پہلے خداوند عالم نے انسان کی عظمت سے فرشتوں کوآگاہ کیا اورانہیں بتایاکہ میں آدم کو زمین پراپنا خلیفہ بنا رہا ہوں تو فرشتوں نے حقیقت کاادراک کرنے کےئے خدا وند عالم کی بارگاہ میں عرض کیا۔

پروردگار !کیاتو اسے اپنا جانشین اور خلیفہ قراردے گا جو روئے زمین پر فساد پھیلائے گااورخون ریزی کرتے گا؟

اس مقام پر مفسرین نے مختلف وجوہات بیان کی ہیں کہ فرستوں کو کستطرح معلوم ہواکہ یہ مخلوق زمین پر فساد اور کون ریزی کی مرتکب ہوگئی؟

____________________

(۱) ۱۶۔۵۰

۱۵۹

بعداز مفسرین کے نزدیک خدانے خود فرشتوں کو آئیندہ کے حالات سے بطور اجمال آگاہ کیاتھا۔بعض کے نزدیک ”فی الارض “ کی لفظ سے ملائکہ خودہی سمجھ گئے تھے کہ انسان مٹی سے پیدا ہوا ہے اور مادہ ہونے کی وجہ سے نزاع اورتزاھم کا احتمال ہے۔بعض کے نزدیک حضرت آدم سے پہلے بھی روئے زمین پر اور مخلوقات بستی تھیں ان میں نزاع۔جھگڑا‘ فساد اور کون ریزی پائی جاتی تھی اسی وجہ سے انہوں نے یہ کہا کہ یہ مخلوق بھی فساد اور خونریزی کا شیکار رہے گئی۔

بہرحال ان تین وجوہات میں سے جو وجہ بھی ہوفرشتے اتنا ضرور جانتے تھے کہ تمام شر‘ فساد اور خون ریزی ہے خواہ یہ انفرادی حدتک ہو یا اجتماعی حدتک ہو۔اور یہ بھی جاتنے تھے کہ ان صفات کا حامل شخص خلیفہ الہی کہلوانے کا حقدار نہیں ہے کیونکہ ایساشخص جو غضبی اور شھوی قوتوں سے مرکب ہے۔

ان کے درمیان مزاحمتیں زیادہ ہیں ان کے انتظامت فساد پر مبنی ہیں ارحتمی طور پر اسکی زندگی کے نوعی اورشخصی جینے اسکو کمال تک نہیں پہنچنے دیں گے اوراسکی پوری زندگی فساد اورخوں ریزی کے علاوہ کچھ نہ ہوگی اس وجہ سے یہ مخلوق لائق خلافت نہیں ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے جو شخص بھی فرشتوں کے اس تجزیہ اورتحلیل کے موافق ہوگاوہ خلافت الہی جیسے منصب کے قابل نہیں ہے لہذا کہاجاسکتاہے کہ فساد اورخون ریزی ایسی صفات میں جنھیں خدا کے جانشین میں موجود نہیں ہونا چاہیں بلکہ یہ صفات خلافت کے منافی اور مخالف ہیں۔

تقدیس اور تسبیح۔لازمہ خلافت

فرشتوں نے جب یہ کہا کہ خدایا ہم تیر ی تسبیح اور تقدیس تقرب الہی کا وسیلہ ہیں اور یہ دونوں صفات کا حامل شخص ہی خلیفہ الہی کی منزل تک پہنچ سکتاہے۔

۱۶۰

اسی وجہ سے تو ملائکہ خدا کے حضور عرض کررہے ہے پروردگار ہم تمام قسموں اور تقدیس بیان کرنے والوں کی طرح تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاک وپاکیزہ حمد وثنا ہمارا وطیرہ ہے اور تیری حمد وثنا کا نتیجہ ہے کہ ہم زندہ اور قائم ہیں ہم ہر وقت تیر ذکر کرتے تیری بزرگی کا ورد کرتے رہتے ہیں شرک ‘ نقص اور عیب جیسے گناہوں کا ارتکاب ہم سے ناممکن ہے یعنی تو کیا معصیت کاروں کو خلیفہ بنائے گا جبکہ ہم معصوم اور تمام گناہوں سے پاک ہیں۔

یعنی فرشتے سمجھتے تھے کہ اگر مقصد عبوریت اور بندگی ہے تو ہم ہمیشہ عبادت میں ڈوبے رہتے ہیں لیکن وہ اس سے بے خبر تھے کہ انسان کے اندر تین قوتیں ہیں اورانکی زندگی کادارومدار انہیں تین قوتوں پر ہے انسان کے وجود میں سہوت ‘ غضب اور قسم قسم کی خواہشات موجود ہیں ہر وقت انہیں یہ خواہشات گھیرے رکھتی ہیں ان کی وجہ سے انسان فساد اور خون ریزی کرتاہے۔اوراسے تیری قوت عقلیہ بھی ملی ہے اسکی وجہ سے وہ ان خواہشات اور شہوات پر کٹرول حاصل کرے معرفت اوراطاعت الہی کے اعلی ٰ درجے پر فائیز ہوجاتے ہیں۔جب انہیں یہ سب کچھ معلوم نہ تھا اسی وجہ سے انہوں نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی تھی کہ تسبیح وتقدیس وعصمت جو کہ خلافت کا لازمہ ہے ‘ہم میں موجود ہے تو ہمیں ہی خلیفہ بنا دے۔

لیکن انہیں کب معلوم تھا کہ اس آدم علیہ السلام کی نسل سے حضرت محمد ‘ابراھیم ‘نوح ‘موسیٰ ‘اورعیسی ٰ سے اولوالعزم انبیاء اورائمہ اطھار جیسے مصعوم امام اورصالح بندے اس دنیا میں تشریف لائیں گے یہ تو ایسے افراد ہیں جن کی ایک لمحے کی غور وفکر فرشتوں کی سالھا سال کے عبادت کے برابر ہے۔

۱۶۱

شاید اسی وجہ سے علامہ اقبال نے کہاتھا

فرشتوں سے بہترہے انسان بننا

مگراس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

فرشتوں نے فساد کو منظر رکھا لیکن وہ اس طرح متوجہ نہ ہوئے کہ ان کے پاس عقل جیسی قوت موجود ہے اسے بروئے کار لاکر عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ عدالت اجتماعی پرپورا اثر رکھتے ہیں اپنے نفس اورخواہشات پر کنڑول حاصل کرکے اخلاق حسنہ اورصفات پسندیدہ کے حامل ہوسکتے ہیں۔

لامحدود علم الہی۔

ملائکہ کا علم محدود تھا جس کی وجہ سے وہ انسانی کمال سے آگاہ نہ تھے وہ اس سے بھی آگاہ نہ تھے کہ انسان کس استعداد کا مالک ہے انسان میں توانائی پائی جاتی ہے وہ کسی چیز کو یاد کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ‘غیبی حقائق دریافت کرنا ان کے بس میں ہے جبکہ ان کے مقابلے میں فرشتے بے بس ہیں۔

حضرت امام صادق ارشاد فرماتے ہیں:

جب فرشتوں نے بارگاہ الہی میں درخواست کی ہمیں زمین پر خلیفہ بنایاجائے کیونکہ ہم تیری تسبیح ‘ تقدیس اور عبادت میں مشغول رہتے ہیں کبھی بھی تیری معصیت نہ کرتے ہیں جبکہ ہمارے علاوہ جیسے تواپنا خلیفہ بنائے گا وہ عصیان کا مرتکب ہونگے توخدا وند عالم نے انہیں جواب دیا۔

( إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ )

میں وہ جانتاہوں جوتم نہیں جانتے۔

۱۶۲

اس سے ملائکہ کو علم ہوگیا کہ وہ اس بافضیلت مخلوق کے رتبے سے واقعف نہیں ہیں لہذا وہ اپنے سوال پرشرمندہ ہوئے اور عرش الہی میں پنا ہ لی اوراستغفار وتوبہ میں مشغول ہوگئے۔

جب حضرت آدم عدم سے وجود میں قدم رکھتے ہیں تو جنت ان کا مسکن بنا انواع اقسام کے میوے مقدر بنے اور جب ترک اولی ہوا جنت سے زمین پر آئے اللہ کاخطاب ہوا۔آدم زمین پر ایساگھر تیارکروجس میں تیری ذریت کے خطار لوگ پناہ حاصل کریں اوراستغفارکریں اورخود کو خطا اورعصیان سے پاک کریں۔۔۔

جب گھر مکمل ہوا تو گناہ ھگار لوگ برھنہ سر ‘ ننگے پاؤں ‘ اورپریشان بالوں اللہ کے گھر کی طرف متوجہ ہوئے اورتفریح وزاری اور نالہ بیقراری ہوئے ان کی توبہ واستغفار سے رحمت خدا انکے شامل حال ہوئی اس وقت خداوند متعال نے فرشتوں سے خطاب کیا۔

دیکھو آدم کی خلقت میں یہ حکمت ومصلحت ہے۔۔۔اس کی وجہ سے میں نے اسے اپنا جانشین بنایاہے اورپوری کائنات میں وہ اللہ کا خلیفہ قرارپایا۔(۱)

بہر حال( إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ) سے اللہ تعالی کے لامحدودعلم کی طرف اشارہ ملتاہے کہ وہ لامحدود علم کا مالک ہے اورجیسے جتناچاہتاہے اپنے علم سے تواز تاہے اسی لیئے جب فرشتوں نے یہ سنا کہ جو میں جانتاہوں وہ تم نہیں جانتے ‘ فوراًخاموش ہوگئے انہیں یقین ہوگیاکہ خلیفہ الہی کے متعلق ہماراگمان اورخیال درست نہیں ہے۔

____________________

منبھح الصادقین۔جلد ۱ ۔ص ۲۲۴

۱۶۳

( وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِی بِأَسْمَاءِ هَؤُلاَء إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ )

اور (خدانے ) آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی اور پھر ان سب کو ملائکہ کے سامنے پیش کیااورفرمایااگر اپنے دعوے میں (کہ ہم خلافت کے زیادہ حقدار ہیں ) سچے ہوتوان چیزوں کے نام بتاؤ۔

علم آدم :

خداوندمتعال کی ایک بہت بڑی نعمت علم ودانش ہے اس نعمت کی وجہ سے انسان کو پوری کائنات پربرتری حاصل ہے اورعلم انسان کو فرشتوں اوردوسری مخلوقات سے ممتاز بناتاہے اوریہ ایسی صفت ہے جسکا تسبیح وتقدیس کی طرح خلیفہ الہی میں پایاجانا لازمی ہے یعنی خلیفہ اللہ کہلانے والی ہستی کیلئے اعلم ترین ہونا ضروری ہے۔خدا نے کامل انسان کو اپنے لطف وکرم سے حقائق عالم کے ادراک کی استعداد ‘ صفات کمال تک پہنچنے کی طاقت عطا فرمائی ہے اوراس نے آثار اورآیات الہی کے کیساتھ ‘ خدااورکمال الہی کی معرفتاورشناخت حاصل کی اورعبادت اورخودسازی سے کمال حاصل کر جب یہ کمال اپنے درجہ اتم پر پہنچاہے توانسان عالم کہلایااوراس چیز کا حقدار بناکہ اسے خلافت الہی سونپ دی جائے۔

مندرجہ بلاآیت بھی انسان کے علم کو بیان کررہی ہے کہ خدانے اپنے خلیفہ کو اسماء کی تعلیم دی اوراس علم کی وجہ سے اسے فرشتوں پر برتری نصیب ہوئی۔مفسرین نے علم اسماء کی تفسیر میں کافی چیزیں بیان کی ہیں اورمختلف انداز میں اس کی تفسیر کی ہے۔ان سب تفسیروں کو بنیادی طور پر تین نظروں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔

۱۶۴

اس سے مراد خارج میں موجود اشیاء کے نام ہیں یعنی کائنات کی ہر بڑی چھوٹی چیز جودین ودنیا کے ساتھ مربوط ہوسکتی ہے اس کے نام آدم کو تعلیم کئے گئے۔دوسرانظریہ یہ ہے کہ خداوندمتعال نے حضرت آدم کو اشیاء کے خواص ‘ آثار اور معانی سے آگاہ کیاہے مثلاًفرض کریں خدانے کسی جانورکو خلق کیا ہے تواس کی خلقت کے فلسفے کو آدم سے بیان کیاہے اوراس فلسفے کی تعلیم دی ہے۔تیسرا نظریہ یہ ہے کہ ان اسماء سے مراد اسراد آفریتش میں اورخزائن خداہیں۔

جہاں تک پہلے معنی ٰ کا تعلق ہے کہ اس سے مراد ہر جادات ونیابات وغیر ہ کے نام ہیں یعنی یہ فرہنگ لغت ‘ کا علم ہے اوریہ علم کوئی ایسی بلند فضیلت چیز نہیں ہے جیسے ملائکہ کے مقالبے میں شرف وبزرگی کا معیار قرار دیاجاسکے اسی طرح اسکا دوسرا معنیٰ اور نظریہ بھی نامناسب ہے کیونکہ یہ اسماء کے عزمی مفہوم سے خارج ہے کیونکہ الفاظ توان عربی مفاھیم پرآتے ہیں ان معانی پرنہیں آتے جو عقلی تو جیہات کی وجہ سے کھینچ تان کرقراردیئے گئے ہوں۔(۱)

علم آدم اورخزائن غیب:

حضرت آدم کو جن اسماء کی تعلیم دی گئی تھی وہ نہ توالفاظ تھے اور نہ ہی مفاھیم تھے کیونکہ اسماء کیلئے جمع مزکر سالم کی ضمیر لانااس بات کی علامت ہے کہ حقائق خارجیہ تھے‘ مفاھیم زحینہ نہ تھے اللہ کی تمام آیات اورنشانیوں کی تعلیم لازمی ہوتی ہے یعنی متعلم اور معلم کے درمیان کسی قسم کاکوئی واسطہ نہیں ہے۔

بہرحال جن اسماء کی اللہ تعالی ٰ نے حضرت آدم کو تعلیم دی تھی خزائن غیب میں جسکی خدا نے انسان کامل کو تعلیم دی ہے لہذا اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے اسکا تعلق اوررشتہ اصلی وہی مخزن ہے اورجو خلیفہ الہی ہے وہ اس رشید سے باخبر ہے۔

____________________

(۱) فصل الخطاب۔جلد۱۔ص۹۸۔المیزان۔جلد۱۔ص۲۳۳

۱۶۵

حضرت امیرالمئومنین علی ابن ابی طالب ارشاد فرماتے ہیں !

والله لوشسئت ان اخبر کل رجل منکم بمخرجه ومولجه وجمیع شابه لفعلت ولکتی اخاف ان تکفروافِی برسول الله ۔(۱)

مجھے خدا کی قسم اگر میں چاہوں تو آپ میں سے ہرشخص کی جداجدا آئیندہ اورگزشتہ زمانوں کی شرگزشت ‘ اورسرنوشت بیان کرنا چاہوں توبیان کرسکتاہوں لیکن مجھے اس بات کا خوف ہے کہ جب تم مجھ سے یہ اخبارغیب سنکر کفر اختیار نہ کرلواور یہ یقین سے کہنا شروع کردو(معاذاللہ ) علی ‘ رسول خداسے بالاترہیں۔

اس کے بعدارشادفرماتے ہیں۔

الاوانی مفضید الی انی صه ممن یومن ذلک منه

البتہ میں ان خاص اسراروں کو اپنے اولیاء خاص جوکہ امین میں سپرد کرتاہوں۔

بہرحال اس کائنات اورجہاں میں جوچیزیں بھی ظاہر ہیں ان کارشیتہ عتد اللہ ہے اورکائنات میں کیسی ایسی چیز کا وجود نہیں ہے جیسے خلیفہ اللہ ‘ولی ا لقدر اورانسان کامل نہ جانتاہو۔(۲) اسی علم کی وجہ سے حضرت آدم خلیفہ الہی قرار پانے کے حقدار ٹھہرے اورانہیں فرشتوں پر برتری اورفضیلت ملی۔

___________________

(۱) تسبیح وخطبہ۔۱۷۵

(۲) تفسیر قرآن جوادی آملی جلد۶۔ص۱۹۶

۱۶۶

فضیلت آدم۔

جب خدا وندعالم نے حضرت آدم کی تمام فرشتوں اورکائنات پرفضیلت بیان کرنا چاہی تواس نے حکم دیاکہ آسمان پرنور کا منبر لگایاجائے اس کے اوپر نورانی کرسی رکھی جائے اور تمام فرشتے اس منبر کے قریب حاضر ہوجائیں جب سب حاضر ہوگئے توحضرت آدم کو حکم دیاگیاکہ منبر پرتشریف لے جائیں وہاں مسلحات کو پیش کیاگیا۔(یعنی جن کے نام تھے ان کو پیش کیاگیااورکہاگیاکہ ان کے نام بتاؤ)(۱)

یہاں انسیلونی باسماء ھولادہے یعنی مجھے ان لوگوں کے نام بتاؤ یہ نہیں کہاگیاانسبئون مھذہ الاسماء (مجھے یہ نام بتاؤ ) اس سے واضح ہوجاتاہے کہ پیش کئے جانے والے اسماء نہیں تھے بلکہ اصحاب اسماء تھے اوراس سے مراد صاحب عقل ھستیاں ہیں اوریہ وہی ہستیاں ہیں جنکا تعارف اور جنکی پاک سیرت کوظاہر کرنے والے خط وخال ہی ملائکہ کو بشری عظمت کااحساس

دلائیں اوراللہ تبارک وتعالیٰ خلافت کے لئے جوان ہستیوں کاانتخاب کیاہے یہ فرشتوں کے سوال کا مکمل جواب بن جائے۔

بہرحال ایک سوال باقی ہے کہ ان ہستیوں اورمسحمات کو فرشتوں کے سامنے پیش کرنے کی کیاضرورت تھی۔اس سلسلے میں مفسرین نے کئی اقوال ذکر کیئے ہیں۔ان میں اہم ترین تین قول ہیں۔

بعض مفسرین کاخیال ہے کہ خداوندمتعالنے ابتداًتمامموجودات کو خلق فرمایااس کے بعدفرشتوں کے سامنے انہیں پیش کیاگیااوران سے کہاگیاکہ ان کے اسماء بتاؤ۔

____________________

(۱) مبتھح الصادقین۔جلد ۱۔ص۲۲۷

۱۶۷

بعض مفسرین کا خیال ہے خدانے اپناارادہ تکوینی فرشتوں کے دل میں ڈالااورانہوں نے خداکے ارادہ تکوینی سے تمام موجودات کامشاہدہ کیایعنی خدانے چاہاکہ فرشتے موجودات کا مشاہدہ کریں فوراًانہوں نے مشاہدہ کیااوراپنے لاعلمی کااعلان کردیا۔

بعض مفسرین کاخیال ہے کہاس سے صرارروح ہے اورفرشتوں کا عالم ارواح جیسے عالم انوار بھی لکھتے ہیں میں امتحان دیا اورانہوں نے انسان کامل کے مقابلے میں لاعلم ہونے کا اعتراف کرلیا اورحضرت آدم کی فضیلت اور برتری کو تسلیم کرلیا۔

کیافرشتے سچے نہیں؟

خداوندمتعال نے اس آیت میں کہاہے کہ اگر تم سچے ہوتوان مسمیات کے نام بتاؤ اوروہ نام نہ بتاسکے اس سے ظاہرہوتاہے کہ فرشتے (نعوذباللہ) کسی نہ کسی لحاظ سے سچائی کے معیار سے الگ ضرورہیں اوریہ ملائکہ کی عصمت کے خلاف ہے۔اس کے جواب میں اتنا کہناکافی ہے کہ صدق کا وہ مفہوم جسکی وجہ سے اس کو کذب کے مقابل اورمتضاد سمجھا جاتاہے یہ لفظی اصطلا ہے اس لحاظ سے فرشتوں کوصرف صادق ہی کہاجاسکتاہے کیونکہ صدق اورکزب کا احتمال خبر میں ہوتاہے انشاء میں نہیں ہوتا‘ انساء میں صدق ہماصدق ہوتاہے اورفرشتوں نے اس سے پہلے جو کہاہے

أتجعل فیها ۔۔۔

(کیا تو زمین میں اس کو خلیفہ بنانے والاہے۔)

یہ جملہ ستفھامیہ ہے اس میں صدق وکذب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہذا مانناپڑے گاکہ یہ ان کی عصمت کے خلاف نہیں ہے۔اورخداوندمتعال کلام مخاطب کیساتھ کہتاکہ اگر تم سچے ہوتوان کینام بتاؤ یہ تسبنیہ اورتسبکیت کے عنوان سے ہے۔یایہ ہے کہ چونکہ وہ اپنے دل میں یہ خیال لاتے تھے کہ ہم سے بڑھ کر کوئی مخلوق نہیں ہے اورہم سب سے افضل وبرتر ہیں۔(۱)

____________________

(۱) انهم قالوافی انفسهم ماکنانطن ان تحلق الله خلقا اکرم علیه منانحن خوان الله وجیرانه واقرب الخلق الیهتفسیر عیاشی

۱۶۸

یہ خیال گناہ نہیں کہ وہ سزا کے مستحق ٹہریں اورانکی عصمت کے خلاف ہو بلکہ یہ خیال ان کے نقص علم کی وجہ سے ہے جسکا ادراک انہیں امتحان کے بعد ہوگیا کہ ہم اس منصب کے اصل نہیں ہیں لہذا چونکہ ان کے ذہن میں آنے والی بات صادق نہ تھی اس لیئے امتحان کے وقت کہاگیا تھا کہ اگر سچے ہوتو تام بتاؤ لہذا فرشتوں کی عصمت پرکسی قسم کاکوئی حرف نہیں ہے اوروہ سچے اور معصوم ہیں۔

( قَالُوا سُبْحَانَکَ لاَعِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنْتَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ )

ملائکہ نے عرض کی تو ہر برائی اورعیب سے پاک ہے ہم تو وہی جانتے ہیں جسکا تونے ہمیں علم دیاہے۔یقیناتوبڑا جاننے والا اور مصلحتوں کو پہچاننے والاہے۔

خاصان خدا کا انداز گفتگو:

یہ فرشتوں کا خاصہ ہے کہ جب بھی وہ گفتگو کرتے ہیں اسکی اتبداء تسبیح خداوندقدوس سے کرتے ہیں اوراس کی انتہاتقدیس پرکرتے ہیں اوراس کے درمیان آپنی بات بیان کرتے ہیں مثلاًاسی زیر نظرآیت میں خداوندمتعال سے اس طرح گویاہے خداتوہر برائی اورعیب سے پاک ہے اورآخر میں تقدیس‘تنزیہ اورتحمیدبیان کرتے ہے کہ توہی دانا وحکیم ہے اور تسبیح وتقدیس کے درمیان نہایت مودبانہ انداز میں عرض کررہے ہے کہ ہم توکچھ بھی نہیں جانتے ہمیں توصرف اس چیزکاعلم ہے جوتو نے ہمیں تعلیم دی ہے۔

۱۶۹

البتہ یہ صرف فرشتوں کاخاصہ نہیں ہے بلکہ انبیاء علیھم اسلام بھی اس طرح مودبانہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں مثلاًحضرت موسیٰ حکیم اللہ جب اللہ سے بات کرناچاہتے تو پہلے تسبیح وتقدیس کرتے پھر اپنی بات بیان کرتے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔

( سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ ) ۔(۱)

توپاک وپاکیزہ ہے اور میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتاہوں۔

اورحضرت یونس اس انداز میں خد اسے تکلم فرماتے ہوئے نطر آتے ہیں۔

( لا إِلهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ ) ۔(۲)

پروردگار !تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے توپاک وبے نیاز ہے۔اور میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے تھا۔

انسان اورفرشتے میں فرق

انسان کی ایک بہت بڑی خصوصیت ایسی ہے جو پوری کائنات میں کسی مخلوق خدا کے حصے میں نہیں آئی۔اوروہ خصوصیت یہ ہے اس میں اختیاری طور پر عملی اورعلمی ترقی کی لامحدود صلاحیت پائی جاتی ہے انسان کے علاوہ باقی تمام مخلوقات خواہ وہ مجادات نباتات ہوں یاوہ صفائے جوھر کی بلندوبالا مخلوق فرشتے ہوں‘انہیں جوکچھ خدانے اعطاکیاہے وہ سب کے سب کمالات اتنے ہی رکھتے ہیں جتنے انہیں عطاہوتے ہیں ان عطایائے الہی کو اپنی قابلیت سے مذید بڑھانے کی طاقت یاتوان میں بالکل ہی نہیں ہے یاپھر اگر ہے توانتہائیانتہائی محدودحدتک ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب فرشتوں سے امتحان لیاتو یہ امتحان بھی حافظ اور یاداشت کاامتحان نہ تھا‘اگر حافظ کا امتحان ہوتاتو فرشتے شکست نہ کھاتے بلکہ سب کچھ بتادیتے کیونکہ فرشتے سہووسنیان سے بلاتر مخلوق ہے یہ اپنی یاداشت میں نہ سبعر کرتے ہیں اورنہ انہیں کوئی چیز بھول جاتی ہے۔

____________________

(۱)اعراف :۱۴۳

(۲) انبیاء :۸۷

۱۷۰

لیکن یہاں امتحان حافظے کا نہیں تھابلکہ یہ ذحانت کا امتحان تھا‘انہیں اسماء کی تعلیم دی گئی تھی اوران کے سامنے مسحیات کو پیش کیاگیاکہ ان کے ناموں کی تطبیق کرتیں ‘لہذا یہ عقل وفراست کاامتحان تھااوراس چیز کا سوال تھاجوانکو بتائی جانے والی حدود سے باہر تھا۔لہذا فرشتوں نے بارگاہ خداوندی میں اپنی کم علمی اور انکساری کااعتراف کرتے ہوئے عرض کیا۔

پروردگار ! جو کچھ تونے سکھایاہے ہم توفقط اسے ہی جانتے ہیں جبکہ اسماء کے حقائق اور معارف ہمیں نہیں سیکھائے گئے لہذا اسے ہم نہیں جانتے تو جب بھی کسی کو کسی چیز کی تعلیم دیتاہے تو وہ تیرے علم وحکمت اورمصلحت کے مطابق ہوتی ہے ہم مقام خلافت کے لائق نہ تھے لہذا تو نے ہمیں اسکی تعلیم نہ دی۔

( قَالَ یَاآدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکُمْ إِنِّی أَعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ )

(اللہ) نے فرمایاہے اے آدم انہیں ان موجودات کے اسماء (واسراء ) سے آگاہ کرو جب اس نے انہیں آگاہ کیاتو(خدا) نے فرمایا۔کیا میں نے کہاتھاکہ میں زمین وآسمان کے غیب کو جاتاہوں اور جوکچھ تمہارے ظاھرو باطن میں ہے اس سے واقف ہوں۔

علم معیار خلافت:

گزشتہ آیات میں جب ملائکہ نے انسان کی ظاہری خلقت اور پہلے سے زمین پررہنے والی مخلوق کے حالات کا مشاھدہ کیاتھا تواللہ تعالیٰ سے سوال کیاتھاکہ آدم کس طرح خلیفہ بن سکتے ہیں یہ تو زمین پرفساد اورخون ریزی کریگاجبکہ ہم تیری تسبیح وتقدس کرتے ہیں کیاہم اس سے افضل نہیں؟ اس آیت میں خداوندعالم جواب دینے کیلئے حضرت آدم کے علم ‘باطنی استعداد اورلیاقت کو بیان فرمارہے ہے۔اورگویایہ بتاناچاہتاہے کہ معیار خلافت صرف تسبیح وتقدس نہیں بلکہ اس کے ساتھ علم بھی ضروری ہے۔

۱۷۱

جیسا کہ خداوندعالم کاارشاد ہے۔

( إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ ) ۔

اللہ نے اس (طالوت ) کو تمہارے لیئے منتخب کیاہے اوراسکے علم وجسم میں وسعت عطافرمائی۔

یہی معیار حضرت آدم کی خلقت اور اعطاء خلافت میں بھی مدنظر رکھاگیا۔کیونکہ مرحلہ تشریح قانون سازی عالم کل ذات کے ہاتھ میں ہے لہذا مرحلہ عمل میں ضروری ہے کہ اس کو خلیفہ بنایا جائے جو علم ونہم میں پوری کائنات پر فوقیت رکھتاہو۔

اب اس معیار کو مرصح ظہور کرنے کیلئے حضرت آدم کوحکم دیاجارہا ہے کہ تم ملائکہ کو حقائق ہستی سے آگاہ کرو حضرت آدم نے ان حقائق سے ملائکہ کو آگاہ فرمایااس وقت ملائکہ پر حضرت آدم کی برتری اور فضیلت واضح ہوگی اورمنصب خلافت کا حقدار ہونا بھی روشن ہوگیاکہ خلیفة اللہ وہی ہوسکتاہے جس کے پاس تمام مخلوق کے حقائق کاعلم ہو۔

اب خداوندمتعال فخر سے فرمایارہاہے

( قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ )(۲)

کیا میں نے تمہیں نہیں کہاتھاکہ میں زمین وآسمان کے پوشیدہ امور کو جانتاہوں۔

یہ سن کر ملائکہ حکم پروردگار کے سامنے سر تسلیم خم ہوگئے۔کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مغیبات اورمصالح کاعالم اورحکیم ہے۔

اس آیت کہ آخر میں فرمایاجوکچھ تمام ظاہر کرتے اور چھپاتے ہواسے میں جانتاہوں یہاں ملائکہ نے بعض چیزوں کو توظاہر بظاہر بیان کیاتھاکہ حضرت آدم کی اولاد فساد وخون ریزی کرے گی اورحضرت آدم پراپنی برتری کو چھپاتے تھے کہ ہم حضرت آدم سے افضل نہیں لہذاخداکہتاہ ے کہ جوکچھ تم چھپاتے اورظاہر کرتے تھے میں اسے جانتاہوں۔

____________________

(۲) غیب کے بارے میں کہاجاسکتاہے کہ اس سے مراد وہ پوشیدگی ہے جسکو ہماری نسبت دی جاسکتی ہے وگرنہ ذات حق پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے لہذا قرآن مجید میں جس مقام پر غیب کی نسبت خدا کی طرف ہے اس سے یہی مراد ہے جیسے “عالم الغیب والشهاده“

۱۷۲

پس واضح ہوگیاتمام اچھے اوصاف میں علم کامرتبہ سب سے بلند ہے اورعلم ہی الہی خلافت کامعیار ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین بھی مقام افتخار میں اپنے علم کو پیش فرماتے تھے۔

رضیناقسمة الجبار فینا

لناعلم ولاعدٰء مال

فان المال یغنی عن قریب

وان العلمه یبفیٰ لایترال

ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس تقسیم پر بہت راضی ہیں کہ اس نے ہمیں علم سے نواز ا ‘اور ہمارے دشمنوں کو مال ودولت دیاجبکہ مال توجلدہی ختم اورفنا ہوجائے گااورعلم غیرفانی دولت ہے۔

( وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِیسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنْ الْکَافِرِینَ )

جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو ‘ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا۔اس نے نکار اورتکبرکیااور وہ کافروں میں سے تھا۔

۱۷۳

مسجود ملائکہ:

جب خداوند متعال نے حضرت آدم کو حقائق ہستی کی تعلیم دی اورحضرت آدم کی ملائکہ پر استعداد واضح ہوگی اورحضرت آدم کو ملائکہ کااستاد بنادیاتوتمام ملائکہ کو خلیفہ الہی کی عزت واکرام کیلئے سجدہ کرنے کاحکم دیا۔ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا۔(۱)

یہ سجدہ عبادت خداوندی کیلئے تھاکیونکہ قرآن ‘سنت اوراولہ غعلبہ سے ثابت ہے کہ عبادت صرف ذات حق سے مختص ہے اس لئے ملائکہ نے حضرت آدم کو جوسجدہ کیاتھاوہ حضرت آدم کی بندگی اورعبادت نہ تھی فضل وکمال کے اظہار کے لئے تھا اورحضرت آدم کو قبلہ قرار دیاگیاتھااسی لیے ابلیس

نے سجدہ کرنے سے انکار کردیاتھا۔

۱ ۔ اسی طرح حضرت رسول اکر کافرمان بھی ہے۔

لم یکن سجود هم لآدم انما کان آدم قبلة ًلهم یسجدوں نحوة للله عزوجل ۔(۲)

حضرت آدم کو کیے جانے والے سجدہ میں حضرت آدم فرشتوں کیلئے قبلہ بنائے گئے تھے انہوں نے حضرت آدم کی طرف اللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے سجدہ کیا۔

۲ ۔جیسے کہ امیر المومنین فرماتے ہیں۔

لماخلق الله آدم ابان فضله للملائکه واراهم فاخصد به من سابق العلم ومعرفة الاسماء وجعله‘ محراباًوکعبة وباباًوقبلةً ۔۔۔(۱)

ترجمہ: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو خلق فرمایاتواس کے فضل وکمال کو ملائکہ پر ظاہر کیا اورحضرت آدم کی سبقت علمی اور معرفت اسماء کی خصوصیت انہیں دکھلائی۔اوراسے محراب اورکعبہ ‘باب اللہ اورقبلہ قراردیا۔

____________________

(۱) قرآن مجید کی اس آیت کے آغاز میں لفظ اذ ہے اسکا تعلق اذکر مقدر کیساتھ ہے۔اس کا مطلب یہ ہے تم اس واقعہ کو ہمیشہ یادرکھو اوراس سے عبرت اورنصیحت حاصل کرو۔الفرقان۔ص۲۹۴:ج۱

(۱) مستدرک ‘ نہج البلاغہ :۳۸(۲) تفسیر البرھان :ص۸۱:جلد ۱

۱۷۴

آیاسجدہ عبادت ذاتی ہے؟

ہرسجدہ تذلل ‘خشوع وخضوع اورعبادت شمارنہیں ہوتاکہ اسے ہم عبادت ذاتی قرار دیں۔جن لوگوں کایہ خیال ہے سجدہ ایساعمل ہے جس کے عبادت بننے کے لئے اللہ کے امر اورحکم کی ضرورت نہیں ہے۔یہ خیال درست نہیں ہے کیونکہ عبادت کا معنیٰ یہ ہے‘ عبد اپنے آپ کو مقام عبادت میں قراردے اورصرف اس کام کو بجالائے جو مولیٰ کی طرف سے مقررہو۔اسکا کامعنیٰ یہ کہ فعل عبادع میں ضروری ہیکہ مولاکی مولویت اورعبد کی عبودیت کے اظہار کی صلاحیت پائی جائے۔ اور یہ خصوصیت سجدہ میں منحصر نہیں ہے البتہ سجدہ مولیٰ کی آقائی اورعبد کی عبودیت پر دلالت کرنے والے اعمال میں سب سے واضح عمل ہے اس میں عبد نیاز جبیں کو خاک پر رکھ دیتاہے لیکن پھر بھی یہ ذاتی عبادت نہیں ہے۔اگریہ ذاتی عبادت ہوتاتواللہ تعالیٰ غیراللہ کو سجدہ کرنے کا حکم نہ دیتاجیسا کہ اس آیت کے علاوہ ایک مقام پرارشاد وقدرت ہے۔

( وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ) ۔(۱)

یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت یعقوب ‘انکے بیٹوں اورانکی شریک حیات کے عمل کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ فروالہ سجداًکہ وہ سب حضرت یوسف کی عظمت کے سامنے سجدہ ریز ہوئے۔ ملائکہ کاحضرت آدم کو سجدہ کرنا بھی خدا کی عبادت تھی اوراس کے حکم کی اطاعت اس میں تھی کہ حضرت آدم کے شرف وکمال کیلئے سجدہ کیاجائے اور حضرت آدم کا یہ شرف وکمال محض انکی وجہ سے نہ تھا بلکہ آپ کے وجود وسعود میں انوار مقدسہ عالیہ کے باعث تھا۔جیسا کہ حضرت رسول اکرم کا فرمان ہے۔

____________________

(۱) یوسف:۱۰۰

۱۷۵

ان الله تبارک وتعالیٰ خلق آدم فاودعنا صلبه وامر الملائکة بالسجود نه تعظیماًلنا واکراماًفکان سجود هم الله عزوجل عبودیة ولادم اکراما وطاعیة لکوننافی صلبه ۔(۱)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب حضرت آدم کو خلق فرمایاتو ہمیں امانت کے طور پر اس کے صلب میں رکھا۔اور ملائکہ کو حکم دیاکہ اسے ہماری تعظیم اوراکرام کیلئے سجدہ کریں لہذا ان کاآدم کو سجدہ کرنا اللہ تعالیٰ کیلئے عبادت کے عنوان سے اورحضرت آدم کے لیئے احترام اوراطاعت کے عنوان سے تھا کیونکہ ہم اسکی صلب میں تھے۔

حقیقت سجدہ:

خداوندمتعال نے اس آیت مبارکہ میں فرشتوں سے حضرت آدم کو قبلہ سمجھ کر سجدہ کاحکم دیاہے اوریہ اللہ کی عبادت ہے اورحضرت آدم اور معصومین کی تعظیم ہے۔یہاں یہ گمان پیدانہ ہوکہ تعظیمی سجدہ جائیز ہے ایسا نہیں ہے کیونکہ

اولاً:حضرت آدم کو قبلہ سمجھ کر خداکیلئے سجدہ کیاگیاتھا۔

____________________

(۱) نور الثقلین :جلد۱:ص۵۸

۱۷۶

ثانیاً:اگر یہ کہیں صرف اورصرف حضرت آدم کیلئے تعظیمی سجدہ تھااوراسے قرار نہیں دیاگیاتھا تو کہہ سکتے ہیں کہ اگر پہلی شریعتوں میں تعظیمی سجدہ جائیز بھی تھاتواسلام نے اسے منسوخ قراردیاہے۔( ۱)

بہرحال غیراللہ کو سجدہ کرناحرام ہے( ۲) اورقرآن مجید کی آیات بھی یہی کہتی ہیں ( ۳) اورروایات میں بھی یہی حکم ہے۔( ۴)

____________________

(ا) جیسا کہ سیوطی اسباب نزول میں یہی کہتاہے کہ اس شریعیت میں یہ منسوخ ہے اور تفسیر لوامع التزیل جلد ۱:ص۱۸۹‘پر بھی تصریح موجود ہے کہ سابقہ شریعتوں میں تعظیمی سجدہ جائیز تھا مگر اسلام میں منسوخ قرار دیاگیاہے۔

(۲)یحرم السجود لعیز الله تعالیٰ من دون فرق بین المعصومین وغیرهم ومایغعله الشیعة فی مشاهد الائمه لابد ان یکون للة شکراتوفیقهم لزیارتهم والحضور فی مشاهد هم ۔منھاج الصالحین امام خوشی :جلد۱:ص۱۷۹

یعنی غیراللہ کو سجدہ کرناحرام ہے خواہ معصومین ہویاان کے علاوہ کوئی اورہو۔البتہ شیعیان حیدرکرار ائمہ اطھار علیھم اسلام کی ضریحوں پر جوسجدہ بجالاتے ہیں وہاللہ تبارک وتعالیٰ کے شکرکیلئے ہیاس نے انہیں ان مبارک ضریحوں پرحاضرہونے اورانکی زیارت کی توفیق عطافرمائی ہے۔

(۳) قرآن مجید کی آیت میں تصریح موجود ہے کہ سجدہ فقط خداتعالیٰ کی ذات کیساتھ مخصوص ہے جیسا کہ ارشاد ربالعزت ہے “ان الذین----له سیجدون :۷:۲۶‘اورلاتسجدوا واسجدوالله :۴۱:۳۷‘اوران المساجد للله ۔۲ ۷ :۸ ۱ (۴) ابوحمزہ مسجدہ کوفہ میں حضرت امام زین العابدین کوسجدہ کرناچاہتاتھاتوحضرت نے فرمایا”ایسانہ کرو سجدہ توفقط اللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے ہے‘مفاتح الجنان۔زیارت ہفتم اسی طرح ایک جاثلیق حضرت امیرالمومنین کی شخصیت سے متاثر ہوکر آپ کو سجدہ کرناچاہتاتھاتوحضرت نے ارشادفرمایا‘

اسجدلله ولاتسجدلی اللہ کو سجدہ کرو مجھے سجدہ نہ کرو۔

تفسیر مخزرازی جلد:۲:ص:۲۱۲ اور عمادالاسلام :جلد۱:ص ۳۳۵

۱۷۷

حقیقت ابلیس:

ابلیس کا معنی“ رحمت الہی سے مایوس ہونے والا“ ہے سجدہ الہی سے انکارکے باعث رحمت الہی سے مایوس ہواتوشیطان کا نام ابلیس بن گیاجبکہ روایات مطابق اس کانام حارث یاغرازیں تھااوررحمت الہی سے مایوس ہونے کی وجہ سے یہ شیطان کانام ہے اسیلئے اسے ابلیس کہتے ہیں۔ حقیقت ابلیس کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف رائے ہے بعض کے خیال کے مطابق یہ ملائکہ میں سے تھااوروہ اس کی دلیل یہ بتاتے ہیں کہ اگر یہ ملائکہ سے نہ ہوتاتو ملائکہ کے زمرے میں اسے خطاب نہ کیاجاتااور ملائکہ سے الااستناتیہ کے ذریعے اسکو الگ نہ کیاجاتا۔تواس سے معلوم ہوتاہے کہ ملائکہ کایہ ہم جنس تھا۔

لیکن حق یہ ہے کہ ابلیس ملائکہ میں سے نہ تھے اس کی دلیل کے لئے قرآن مجید کی آیات اورروایات موجود ہیں۔جیسا کہ خداوندمتعال کافرمان ہے۔

( فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ ) ۔(۱)

تمام ملائکہ نے حضرت آدم کو سجدہ کیایہاں مھکم یہی بتا رہے ہے اس جنس ملائکہ سے ایک فرد بھی ایسا نہ تھاجس نے سجدہ نہ کیاہو۔

اسی طرح ایک اوجگہ ارشاد رب العزت ہے۔

( وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ) ۔

____________________

(۱) سورہ حجرایت :۳۰

۱۷۸

جب ہم نے ملائکہ سے آدم کے لیے سجدے کا انکار کیا توسب نے سجدہ کیااورابلیس نے نہ کیاوہ جنات میں سے تھااوراس نے اپنے رب کے حکم سے فسق اختیارکیا۔(۲)

بہرحال جن اور ملائکہ دو جداجدا مخلوقات ہیں(۳) لہذا یہ ہم جنس نہیں ہیں۔

یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ جب یہ ہم جنس نہیں تھے اورآیت مبارکہ میں سجدہ کرنے کاحکم ملائکہ کوہواہے ابلیس کو حکم نہیں ہواتو پھر نافرمانی پراسے راندہ درگاہ الہی اورلعین کیوں قرار دیاگیا؟

نیز عرفی محاورات میں بھی ایسے ہی ہے جب ایک فرد کسی گروہ میں یوں مل گھل جائے کہ علیحدہ شمار نہ ہوتاہو تو جب اس کو خطاب ہوتاہے تو وہ فرد خود اس گروہ کے ضمن میں مخاطب ہوتاہے۔ اورکلام عرب میں موالی قبائل کے بارے میں اکثر ایسی تعبیرات ملتی ہیں۔

اسکا جو اب یہ ہے کہ پوری امت مسلمہ کااجتماع ہے کہ سجدہ کرنے کاحکم ابلیس کو بھی ہواتھا

اور قرآن مجید میں بھی دوسرے مقام پرارشاد قدرت ہے۔

( مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ) ۔

____________________

(۲) سورہ اعراف:۵۰

(۳) جنات کوآگ سے پیدا کیاہے لہذا یہ ناری مخلوق جبکہ فرشتے نوری مخلوق ہیں یہ معصیت نہیں کرتے کیونکہ ان میں حیوانی غرائیز نہیں پائے جاتے جو نافرمانی اورتمیز کے متفاقی ہوتے ہیں۔ناری مخلوق اورحیوانات غرائیز حیوانی (کھانا پینا‘ نکاح کرنا رکھتے ہیں اورابلیس کو خدانے آگ سے پیدا کیاتھاجیساکہ یہ خود فخریہ انداز میں کہتاہےاناخیر خلقتنی من نار ۔

سورہ اعراف:آیت ۱۲

۱۷۹

میں زیادہ بہت ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا لہذا اس میں غریز ہ حیوانی تھا وج نافرمانی اورسرکشی کا متقاضی ہے۔

جب تمہیں سجدہ کرنے کاحکم دیاگیاتو پھر کس چیز نے تمہیں سجدہ کرنے سے روکا۔(۱)

فرشتوں کو سجدہ کاحکم دیئے جانے کے علاوہ قرآن مجید میں کسی اور سجدہ کا حکم نہیں لہذا یہ آیت ابلیس کو مخاطب کر کے کہہ رہی ہے تم نے حکم عدولی کیوں کی اورسجدہ کیوں نہ کیا۔لہذا جب ابلیس کو بھی سجدہ کا حکم تھااوراس نے نافرمانی کی اورلعنت کامستحق ٹہرااورآواز قدرت آئی۔

( قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ ﴿﴾ وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ ) ۔(۲)

یہاں سے نکل جابیشک تو راندہ درگاہ ہے اورقیامت تک تجھ پرلعنت برستی رہے گی۔

( وَقُلْنَا یَاآدَمُ اسْکُنْ أَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُلاَمِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَتَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ وَلاَتَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنْ الظَّالِمِینَ )

ترجمہ:ہم نے کہااے آدم تم اپنی زوجہ کیساتھ جنت میں رہواور جو جی چاہے (آزادی سے کھاو) تہمیں کھانے کااختیار ہے لیکن اس درخت کے نزدیک نہ جاناوگرنہ تجاوز کرنے والوں میں سے ہوجاو گے۔

گزشتہ آیات میں حضرت آدم کی خلقت کے اجتماعی جہات کے متعلق بات ہوتی رہی ہے جسمیں حضرت آدم کی خلقت ‘خلافت الصیرّ‘تعلیم اسماء‘اور معلم ملائکہ ہونے کے حوالے سے تذکرہ ہوا۔اب اس آیت سے حضرت آدم کے انفرادی پہلووں کا تذکرہ ہورہاہے۔اس میں دنیاوی زندگی میں ‘شریک حیات ‘رہایش کی جگہ (جنت ) اور دیگر ضروریات زندگی کو بیان کیا جارہاہے۔

____________________

(۱) اعراف:۱۲(۲) سورہ حجرآیت :۳۴‘۳۵

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217