تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت18%

تفسیر انوار الحجّت مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 217

تفسیر انوار الحجّت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157766 / ڈاؤنلوڈ: 5874
سائز سائز سائز
تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

اسی وجہ سے تو ملائکہ خدا کے حضور عرض کررہے ہے پروردگار ہم تمام قسموں اور تقدیس بیان کرنے والوں کی طرح تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاک وپاکیزہ حمد وثنا ہمارا وطیرہ ہے اور تیری حمد وثنا کا نتیجہ ہے کہ ہم زندہ اور قائم ہیں ہم ہر وقت تیر ذکر کرتے تیری بزرگی کا ورد کرتے رہتے ہیں شرک ‘ نقص اور عیب جیسے گناہوں کا ارتکاب ہم سے ناممکن ہے یعنی تو کیا معصیت کاروں کو خلیفہ بنائے گا جبکہ ہم معصوم اور تمام گناہوں سے پاک ہیں۔

یعنی فرشتے سمجھتے تھے کہ اگر مقصد عبوریت اور بندگی ہے تو ہم ہمیشہ عبادت میں ڈوبے رہتے ہیں لیکن وہ اس سے بے خبر تھے کہ انسان کے اندر تین قوتیں ہیں اورانکی زندگی کادارومدار انہیں تین قوتوں پر ہے انسان کے وجود میں سہوت ‘ غضب اور قسم قسم کی خواہشات موجود ہیں ہر وقت انہیں یہ خواہشات گھیرے رکھتی ہیں ان کی وجہ سے انسان فساد اور خون ریزی کرتاہے۔اوراسے تیری قوت عقلیہ بھی ملی ہے اسکی وجہ سے وہ ان خواہشات اور شہوات پر کٹرول حاصل کرے معرفت اوراطاعت الہی کے اعلی ٰ درجے پر فائیز ہوجاتے ہیں۔جب انہیں یہ سب کچھ معلوم نہ تھا اسی وجہ سے انہوں نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی تھی کہ تسبیح وتقدیس وعصمت جو کہ خلافت کا لازمہ ہے ‘ہم میں موجود ہے تو ہمیں ہی خلیفہ بنا دے۔

لیکن انہیں کب معلوم تھا کہ اس آدم علیہ السلام کی نسل سے حضرت محمد ‘ابراھیم ‘نوح ‘موسیٰ ‘اورعیسی ٰ سے اولوالعزم انبیاء اورائمہ اطھار جیسے مصعوم امام اورصالح بندے اس دنیا میں تشریف لائیں گے یہ تو ایسے افراد ہیں جن کی ایک لمحے کی غور وفکر فرشتوں کی سالھا سال کے عبادت کے برابر ہے۔

۱۶۱

شاید اسی وجہ سے علامہ اقبال نے کہاتھا

فرشتوں سے بہترہے انسان بننا

مگراس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

فرشتوں نے فساد کو منظر رکھا لیکن وہ اس طرح متوجہ نہ ہوئے کہ ان کے پاس عقل جیسی قوت موجود ہے اسے بروئے کار لاکر عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ عدالت اجتماعی پرپورا اثر رکھتے ہیں اپنے نفس اورخواہشات پر کنڑول حاصل کرکے اخلاق حسنہ اورصفات پسندیدہ کے حامل ہوسکتے ہیں۔

لامحدود علم الہی۔

ملائکہ کا علم محدود تھا جس کی وجہ سے وہ انسانی کمال سے آگاہ نہ تھے وہ اس سے بھی آگاہ نہ تھے کہ انسان کس استعداد کا مالک ہے انسان میں توانائی پائی جاتی ہے وہ کسی چیز کو یاد کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ‘غیبی حقائق دریافت کرنا ان کے بس میں ہے جبکہ ان کے مقابلے میں فرشتے بے بس ہیں۔

حضرت امام صادق ارشاد فرماتے ہیں:

جب فرشتوں نے بارگاہ الہی میں درخواست کی ہمیں زمین پر خلیفہ بنایاجائے کیونکہ ہم تیری تسبیح ‘ تقدیس اور عبادت میں مشغول رہتے ہیں کبھی بھی تیری معصیت نہ کرتے ہیں جبکہ ہمارے علاوہ جیسے تواپنا خلیفہ بنائے گا وہ عصیان کا مرتکب ہونگے توخدا وند عالم نے انہیں جواب دیا۔

( إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ )

میں وہ جانتاہوں جوتم نہیں جانتے۔

۱۶۲

اس سے ملائکہ کو علم ہوگیا کہ وہ اس بافضیلت مخلوق کے رتبے سے واقعف نہیں ہیں لہذا وہ اپنے سوال پرشرمندہ ہوئے اور عرش الہی میں پنا ہ لی اوراستغفار وتوبہ میں مشغول ہوگئے۔

جب حضرت آدم عدم سے وجود میں قدم رکھتے ہیں تو جنت ان کا مسکن بنا انواع اقسام کے میوے مقدر بنے اور جب ترک اولی ہوا جنت سے زمین پر آئے اللہ کاخطاب ہوا۔آدم زمین پر ایساگھر تیارکروجس میں تیری ذریت کے خطار لوگ پناہ حاصل کریں اوراستغفارکریں اورخود کو خطا اورعصیان سے پاک کریں۔۔۔

جب گھر مکمل ہوا تو گناہ ھگار لوگ برھنہ سر ‘ ننگے پاؤں ‘ اورپریشان بالوں اللہ کے گھر کی طرف متوجہ ہوئے اورتفریح وزاری اور نالہ بیقراری ہوئے ان کی توبہ واستغفار سے رحمت خدا انکے شامل حال ہوئی اس وقت خداوند متعال نے فرشتوں سے خطاب کیا۔

دیکھو آدم کی خلقت میں یہ حکمت ومصلحت ہے۔۔۔اس کی وجہ سے میں نے اسے اپنا جانشین بنایاہے اورپوری کائنات میں وہ اللہ کا خلیفہ قرارپایا۔(۱)

بہر حال( إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ) سے اللہ تعالی کے لامحدودعلم کی طرف اشارہ ملتاہے کہ وہ لامحدود علم کا مالک ہے اورجیسے جتناچاہتاہے اپنے علم سے تواز تاہے اسی لیئے جب فرشتوں نے یہ سنا کہ جو میں جانتاہوں وہ تم نہیں جانتے ‘ فوراًخاموش ہوگئے انہیں یقین ہوگیاکہ خلیفہ الہی کے متعلق ہماراگمان اورخیال درست نہیں ہے۔

____________________

منبھح الصادقین۔جلد ۱ ۔ص ۲۲۴

۱۶۳

( وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِی بِأَسْمَاءِ هَؤُلاَء إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ )

اور (خدانے ) آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی اور پھر ان سب کو ملائکہ کے سامنے پیش کیااورفرمایااگر اپنے دعوے میں (کہ ہم خلافت کے زیادہ حقدار ہیں ) سچے ہوتوان چیزوں کے نام بتاؤ۔

علم آدم :

خداوندمتعال کی ایک بہت بڑی نعمت علم ودانش ہے اس نعمت کی وجہ سے انسان کو پوری کائنات پربرتری حاصل ہے اورعلم انسان کو فرشتوں اوردوسری مخلوقات سے ممتاز بناتاہے اوریہ ایسی صفت ہے جسکا تسبیح وتقدیس کی طرح خلیفہ الہی میں پایاجانا لازمی ہے یعنی خلیفہ اللہ کہلانے والی ہستی کیلئے اعلم ترین ہونا ضروری ہے۔خدا نے کامل انسان کو اپنے لطف وکرم سے حقائق عالم کے ادراک کی استعداد ‘ صفات کمال تک پہنچنے کی طاقت عطا فرمائی ہے اوراس نے آثار اورآیات الہی کے کیساتھ ‘ خدااورکمال الہی کی معرفتاورشناخت حاصل کی اورعبادت اورخودسازی سے کمال حاصل کر جب یہ کمال اپنے درجہ اتم پر پہنچاہے توانسان عالم کہلایااوراس چیز کا حقدار بناکہ اسے خلافت الہی سونپ دی جائے۔

مندرجہ بلاآیت بھی انسان کے علم کو بیان کررہی ہے کہ خدانے اپنے خلیفہ کو اسماء کی تعلیم دی اوراس علم کی وجہ سے اسے فرشتوں پر برتری نصیب ہوئی۔مفسرین نے علم اسماء کی تفسیر میں کافی چیزیں بیان کی ہیں اورمختلف انداز میں اس کی تفسیر کی ہے۔ان سب تفسیروں کو بنیادی طور پر تین نظروں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔

۱۶۴

اس سے مراد خارج میں موجود اشیاء کے نام ہیں یعنی کائنات کی ہر بڑی چھوٹی چیز جودین ودنیا کے ساتھ مربوط ہوسکتی ہے اس کے نام آدم کو تعلیم کئے گئے۔دوسرانظریہ یہ ہے کہ خداوندمتعال نے حضرت آدم کو اشیاء کے خواص ‘ آثار اور معانی سے آگاہ کیاہے مثلاًفرض کریں خدانے کسی جانورکو خلق کیا ہے تواس کی خلقت کے فلسفے کو آدم سے بیان کیاہے اوراس فلسفے کی تعلیم دی ہے۔تیسرا نظریہ یہ ہے کہ ان اسماء سے مراد اسراد آفریتش میں اورخزائن خداہیں۔

جہاں تک پہلے معنی ٰ کا تعلق ہے کہ اس سے مراد ہر جادات ونیابات وغیر ہ کے نام ہیں یعنی یہ فرہنگ لغت ‘ کا علم ہے اوریہ علم کوئی ایسی بلند فضیلت چیز نہیں ہے جیسے ملائکہ کے مقالبے میں شرف وبزرگی کا معیار قرار دیاجاسکے اسی طرح اسکا دوسرا معنیٰ اور نظریہ بھی نامناسب ہے کیونکہ یہ اسماء کے عزمی مفہوم سے خارج ہے کیونکہ الفاظ توان عربی مفاھیم پرآتے ہیں ان معانی پرنہیں آتے جو عقلی تو جیہات کی وجہ سے کھینچ تان کرقراردیئے گئے ہوں۔(۱)

علم آدم اورخزائن غیب:

حضرت آدم کو جن اسماء کی تعلیم دی گئی تھی وہ نہ توالفاظ تھے اور نہ ہی مفاھیم تھے کیونکہ اسماء کیلئے جمع مزکر سالم کی ضمیر لانااس بات کی علامت ہے کہ حقائق خارجیہ تھے‘ مفاھیم زحینہ نہ تھے اللہ کی تمام آیات اورنشانیوں کی تعلیم لازمی ہوتی ہے یعنی متعلم اور معلم کے درمیان کسی قسم کاکوئی واسطہ نہیں ہے۔

بہرحال جن اسماء کی اللہ تعالی ٰ نے حضرت آدم کو تعلیم دی تھی خزائن غیب میں جسکی خدا نے انسان کامل کو تعلیم دی ہے لہذا اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے اسکا تعلق اوررشتہ اصلی وہی مخزن ہے اورجو خلیفہ الہی ہے وہ اس رشید سے باخبر ہے۔

____________________

(۱) فصل الخطاب۔جلد۱۔ص۹۸۔المیزان۔جلد۱۔ص۲۳۳

۱۶۵

حضرت امیرالمئومنین علی ابن ابی طالب ارشاد فرماتے ہیں !

والله لوشسئت ان اخبر کل رجل منکم بمخرجه ومولجه وجمیع شابه لفعلت ولکتی اخاف ان تکفروافِی برسول الله ۔(۱)

مجھے خدا کی قسم اگر میں چاہوں تو آپ میں سے ہرشخص کی جداجدا آئیندہ اورگزشتہ زمانوں کی شرگزشت ‘ اورسرنوشت بیان کرنا چاہوں توبیان کرسکتاہوں لیکن مجھے اس بات کا خوف ہے کہ جب تم مجھ سے یہ اخبارغیب سنکر کفر اختیار نہ کرلواور یہ یقین سے کہنا شروع کردو(معاذاللہ ) علی ‘ رسول خداسے بالاترہیں۔

اس کے بعدارشادفرماتے ہیں۔

الاوانی مفضید الی انی صه ممن یومن ذلک منه

البتہ میں ان خاص اسراروں کو اپنے اولیاء خاص جوکہ امین میں سپرد کرتاہوں۔

بہرحال اس کائنات اورجہاں میں جوچیزیں بھی ظاہر ہیں ان کارشیتہ عتد اللہ ہے اورکائنات میں کیسی ایسی چیز کا وجود نہیں ہے جیسے خلیفہ اللہ ‘ولی ا لقدر اورانسان کامل نہ جانتاہو۔(۲) اسی علم کی وجہ سے حضرت آدم خلیفہ الہی قرار پانے کے حقدار ٹھہرے اورانہیں فرشتوں پر برتری اورفضیلت ملی۔

___________________

(۱) تسبیح وخطبہ۔۱۷۵

(۲) تفسیر قرآن جوادی آملی جلد۶۔ص۱۹۶

۱۶۶

فضیلت آدم۔

جب خدا وندعالم نے حضرت آدم کی تمام فرشتوں اورکائنات پرفضیلت بیان کرنا چاہی تواس نے حکم دیاکہ آسمان پرنور کا منبر لگایاجائے اس کے اوپر نورانی کرسی رکھی جائے اور تمام فرشتے اس منبر کے قریب حاضر ہوجائیں جب سب حاضر ہوگئے توحضرت آدم کو حکم دیاگیاکہ منبر پرتشریف لے جائیں وہاں مسلحات کو پیش کیاگیا۔(یعنی جن کے نام تھے ان کو پیش کیاگیااورکہاگیاکہ ان کے نام بتاؤ)(۱)

یہاں انسیلونی باسماء ھولادہے یعنی مجھے ان لوگوں کے نام بتاؤ یہ نہیں کہاگیاانسبئون مھذہ الاسماء (مجھے یہ نام بتاؤ ) اس سے واضح ہوجاتاہے کہ پیش کئے جانے والے اسماء نہیں تھے بلکہ اصحاب اسماء تھے اوراس سے مراد صاحب عقل ھستیاں ہیں اوریہ وہی ہستیاں ہیں جنکا تعارف اور جنکی پاک سیرت کوظاہر کرنے والے خط وخال ہی ملائکہ کو بشری عظمت کااحساس

دلائیں اوراللہ تبارک وتعالیٰ خلافت کے لئے جوان ہستیوں کاانتخاب کیاہے یہ فرشتوں کے سوال کا مکمل جواب بن جائے۔

بہرحال ایک سوال باقی ہے کہ ان ہستیوں اورمسحمات کو فرشتوں کے سامنے پیش کرنے کی کیاضرورت تھی۔اس سلسلے میں مفسرین نے کئی اقوال ذکر کیئے ہیں۔ان میں اہم ترین تین قول ہیں۔

بعض مفسرین کاخیال ہے کہ خداوندمتعالنے ابتداًتمامموجودات کو خلق فرمایااس کے بعدفرشتوں کے سامنے انہیں پیش کیاگیااوران سے کہاگیاکہ ان کے اسماء بتاؤ۔

____________________

(۱) مبتھح الصادقین۔جلد ۱۔ص۲۲۷

۱۶۷

بعض مفسرین کا خیال ہے خدانے اپناارادہ تکوینی فرشتوں کے دل میں ڈالااورانہوں نے خداکے ارادہ تکوینی سے تمام موجودات کامشاہدہ کیایعنی خدانے چاہاکہ فرشتے موجودات کا مشاہدہ کریں فوراًانہوں نے مشاہدہ کیااوراپنے لاعلمی کااعلان کردیا۔

بعض مفسرین کاخیال ہے کہاس سے صرارروح ہے اورفرشتوں کا عالم ارواح جیسے عالم انوار بھی لکھتے ہیں میں امتحان دیا اورانہوں نے انسان کامل کے مقابلے میں لاعلم ہونے کا اعتراف کرلیا اورحضرت آدم کی فضیلت اور برتری کو تسلیم کرلیا۔

کیافرشتے سچے نہیں؟

خداوندمتعال نے اس آیت میں کہاہے کہ اگر تم سچے ہوتوان مسمیات کے نام بتاؤ اوروہ نام نہ بتاسکے اس سے ظاہرہوتاہے کہ فرشتے (نعوذباللہ) کسی نہ کسی لحاظ سے سچائی کے معیار سے الگ ضرورہیں اوریہ ملائکہ کی عصمت کے خلاف ہے۔اس کے جواب میں اتنا کہناکافی ہے کہ صدق کا وہ مفہوم جسکی وجہ سے اس کو کذب کے مقابل اورمتضاد سمجھا جاتاہے یہ لفظی اصطلا ہے اس لحاظ سے فرشتوں کوصرف صادق ہی کہاجاسکتاہے کیونکہ صدق اورکزب کا احتمال خبر میں ہوتاہے انشاء میں نہیں ہوتا‘ انساء میں صدق ہماصدق ہوتاہے اورفرشتوں نے اس سے پہلے جو کہاہے

أتجعل فیها ۔۔۔

(کیا تو زمین میں اس کو خلیفہ بنانے والاہے۔)

یہ جملہ ستفھامیہ ہے اس میں صدق وکذب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہذا مانناپڑے گاکہ یہ ان کی عصمت کے خلاف نہیں ہے۔اورخداوندمتعال کلام مخاطب کیساتھ کہتاکہ اگر تم سچے ہوتوان کینام بتاؤ یہ تسبنیہ اورتسبکیت کے عنوان سے ہے۔یایہ ہے کہ چونکہ وہ اپنے دل میں یہ خیال لاتے تھے کہ ہم سے بڑھ کر کوئی مخلوق نہیں ہے اورہم سب سے افضل وبرتر ہیں۔(۱)

____________________

(۱) انهم قالوافی انفسهم ماکنانطن ان تحلق الله خلقا اکرم علیه منانحن خوان الله وجیرانه واقرب الخلق الیهتفسیر عیاشی

۱۶۸

یہ خیال گناہ نہیں کہ وہ سزا کے مستحق ٹہریں اورانکی عصمت کے خلاف ہو بلکہ یہ خیال ان کے نقص علم کی وجہ سے ہے جسکا ادراک انہیں امتحان کے بعد ہوگیا کہ ہم اس منصب کے اصل نہیں ہیں لہذا چونکہ ان کے ذہن میں آنے والی بات صادق نہ تھی اس لیئے امتحان کے وقت کہاگیا تھا کہ اگر سچے ہوتو تام بتاؤ لہذا فرشتوں کی عصمت پرکسی قسم کاکوئی حرف نہیں ہے اوروہ سچے اور معصوم ہیں۔

( قَالُوا سُبْحَانَکَ لاَعِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنْتَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ )

ملائکہ نے عرض کی تو ہر برائی اورعیب سے پاک ہے ہم تو وہی جانتے ہیں جسکا تونے ہمیں علم دیاہے۔یقیناتوبڑا جاننے والا اور مصلحتوں کو پہچاننے والاہے۔

خاصان خدا کا انداز گفتگو:

یہ فرشتوں کا خاصہ ہے کہ جب بھی وہ گفتگو کرتے ہیں اسکی اتبداء تسبیح خداوندقدوس سے کرتے ہیں اوراس کی انتہاتقدیس پرکرتے ہیں اوراس کے درمیان آپنی بات بیان کرتے ہیں مثلاًاسی زیر نظرآیت میں خداوندمتعال سے اس طرح گویاہے خداتوہر برائی اورعیب سے پاک ہے اورآخر میں تقدیس‘تنزیہ اورتحمیدبیان کرتے ہے کہ توہی دانا وحکیم ہے اور تسبیح وتقدیس کے درمیان نہایت مودبانہ انداز میں عرض کررہے ہے کہ ہم توکچھ بھی نہیں جانتے ہمیں توصرف اس چیزکاعلم ہے جوتو نے ہمیں تعلیم دی ہے۔

۱۶۹

البتہ یہ صرف فرشتوں کاخاصہ نہیں ہے بلکہ انبیاء علیھم اسلام بھی اس طرح مودبانہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں مثلاًحضرت موسیٰ حکیم اللہ جب اللہ سے بات کرناچاہتے تو پہلے تسبیح وتقدیس کرتے پھر اپنی بات بیان کرتے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔

( سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ ) ۔(۱)

توپاک وپاکیزہ ہے اور میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتاہوں۔

اورحضرت یونس اس انداز میں خد اسے تکلم فرماتے ہوئے نطر آتے ہیں۔

( لا إِلهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ ) ۔(۲)

پروردگار !تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے توپاک وبے نیاز ہے۔اور میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے تھا۔

انسان اورفرشتے میں فرق

انسان کی ایک بہت بڑی خصوصیت ایسی ہے جو پوری کائنات میں کسی مخلوق خدا کے حصے میں نہیں آئی۔اوروہ خصوصیت یہ ہے اس میں اختیاری طور پر عملی اورعلمی ترقی کی لامحدود صلاحیت پائی جاتی ہے انسان کے علاوہ باقی تمام مخلوقات خواہ وہ مجادات نباتات ہوں یاوہ صفائے جوھر کی بلندوبالا مخلوق فرشتے ہوں‘انہیں جوکچھ خدانے اعطاکیاہے وہ سب کے سب کمالات اتنے ہی رکھتے ہیں جتنے انہیں عطاہوتے ہیں ان عطایائے الہی کو اپنی قابلیت سے مذید بڑھانے کی طاقت یاتوان میں بالکل ہی نہیں ہے یاپھر اگر ہے توانتہائیانتہائی محدودحدتک ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب فرشتوں سے امتحان لیاتو یہ امتحان بھی حافظ اور یاداشت کاامتحان نہ تھا‘اگر حافظ کا امتحان ہوتاتو فرشتے شکست نہ کھاتے بلکہ سب کچھ بتادیتے کیونکہ فرشتے سہووسنیان سے بلاتر مخلوق ہے یہ اپنی یاداشت میں نہ سبعر کرتے ہیں اورنہ انہیں کوئی چیز بھول جاتی ہے۔

____________________

(۱)اعراف :۱۴۳

(۲) انبیاء :۸۷

۱۷۰

لیکن یہاں امتحان حافظے کا نہیں تھابلکہ یہ ذحانت کا امتحان تھا‘انہیں اسماء کی تعلیم دی گئی تھی اوران کے سامنے مسحیات کو پیش کیاگیاکہ ان کے ناموں کی تطبیق کرتیں ‘لہذا یہ عقل وفراست کاامتحان تھااوراس چیز کا سوال تھاجوانکو بتائی جانے والی حدود سے باہر تھا۔لہذا فرشتوں نے بارگاہ خداوندی میں اپنی کم علمی اور انکساری کااعتراف کرتے ہوئے عرض کیا۔

پروردگار ! جو کچھ تونے سکھایاہے ہم توفقط اسے ہی جانتے ہیں جبکہ اسماء کے حقائق اور معارف ہمیں نہیں سیکھائے گئے لہذا اسے ہم نہیں جانتے تو جب بھی کسی کو کسی چیز کی تعلیم دیتاہے تو وہ تیرے علم وحکمت اورمصلحت کے مطابق ہوتی ہے ہم مقام خلافت کے لائق نہ تھے لہذا تو نے ہمیں اسکی تعلیم نہ دی۔

( قَالَ یَاآدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکُمْ إِنِّی أَعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ )

(اللہ) نے فرمایاہے اے آدم انہیں ان موجودات کے اسماء (واسراء ) سے آگاہ کرو جب اس نے انہیں آگاہ کیاتو(خدا) نے فرمایا۔کیا میں نے کہاتھاکہ میں زمین وآسمان کے غیب کو جاتاہوں اور جوکچھ تمہارے ظاھرو باطن میں ہے اس سے واقف ہوں۔

علم معیار خلافت:

گزشتہ آیات میں جب ملائکہ نے انسان کی ظاہری خلقت اور پہلے سے زمین پررہنے والی مخلوق کے حالات کا مشاھدہ کیاتھا تواللہ تعالیٰ سے سوال کیاتھاکہ آدم کس طرح خلیفہ بن سکتے ہیں یہ تو زمین پرفساد اورخون ریزی کریگاجبکہ ہم تیری تسبیح وتقدس کرتے ہیں کیاہم اس سے افضل نہیں؟ اس آیت میں خداوندعالم جواب دینے کیلئے حضرت آدم کے علم ‘باطنی استعداد اورلیاقت کو بیان فرمارہے ہے۔اورگویایہ بتاناچاہتاہے کہ معیار خلافت صرف تسبیح وتقدس نہیں بلکہ اس کے ساتھ علم بھی ضروری ہے۔

۱۷۱

جیسا کہ خداوندعالم کاارشاد ہے۔

( إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ ) ۔

اللہ نے اس (طالوت ) کو تمہارے لیئے منتخب کیاہے اوراسکے علم وجسم میں وسعت عطافرمائی۔

یہی معیار حضرت آدم کی خلقت اور اعطاء خلافت میں بھی مدنظر رکھاگیا۔کیونکہ مرحلہ تشریح قانون سازی عالم کل ذات کے ہاتھ میں ہے لہذا مرحلہ عمل میں ضروری ہے کہ اس کو خلیفہ بنایا جائے جو علم ونہم میں پوری کائنات پر فوقیت رکھتاہو۔

اب اس معیار کو مرصح ظہور کرنے کیلئے حضرت آدم کوحکم دیاجارہا ہے کہ تم ملائکہ کو حقائق ہستی سے آگاہ کرو حضرت آدم نے ان حقائق سے ملائکہ کو آگاہ فرمایااس وقت ملائکہ پر حضرت آدم کی برتری اور فضیلت واضح ہوگی اورمنصب خلافت کا حقدار ہونا بھی روشن ہوگیاکہ خلیفة اللہ وہی ہوسکتاہے جس کے پاس تمام مخلوق کے حقائق کاعلم ہو۔

اب خداوندمتعال فخر سے فرمایارہاہے

( قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ )(۲)

کیا میں نے تمہیں نہیں کہاتھاکہ میں زمین وآسمان کے پوشیدہ امور کو جانتاہوں۔

یہ سن کر ملائکہ حکم پروردگار کے سامنے سر تسلیم خم ہوگئے۔کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مغیبات اورمصالح کاعالم اورحکیم ہے۔

اس آیت کہ آخر میں فرمایاجوکچھ تمام ظاہر کرتے اور چھپاتے ہواسے میں جانتاہوں یہاں ملائکہ نے بعض چیزوں کو توظاہر بظاہر بیان کیاتھاکہ حضرت آدم کی اولاد فساد وخون ریزی کرے گی اورحضرت آدم پراپنی برتری کو چھپاتے تھے کہ ہم حضرت آدم سے افضل نہیں لہذاخداکہتاہ ے کہ جوکچھ تم چھپاتے اورظاہر کرتے تھے میں اسے جانتاہوں۔

____________________

(۲) غیب کے بارے میں کہاجاسکتاہے کہ اس سے مراد وہ پوشیدگی ہے جسکو ہماری نسبت دی جاسکتی ہے وگرنہ ذات حق پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے لہذا قرآن مجید میں جس مقام پر غیب کی نسبت خدا کی طرف ہے اس سے یہی مراد ہے جیسے “عالم الغیب والشهاده“

۱۷۲

پس واضح ہوگیاتمام اچھے اوصاف میں علم کامرتبہ سب سے بلند ہے اورعلم ہی الہی خلافت کامعیار ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین بھی مقام افتخار میں اپنے علم کو پیش فرماتے تھے۔

رضیناقسمة الجبار فینا

لناعلم ولاعدٰء مال

فان المال یغنی عن قریب

وان العلمه یبفیٰ لایترال

ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس تقسیم پر بہت راضی ہیں کہ اس نے ہمیں علم سے نواز ا ‘اور ہمارے دشمنوں کو مال ودولت دیاجبکہ مال توجلدہی ختم اورفنا ہوجائے گااورعلم غیرفانی دولت ہے۔

( وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِیسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنْ الْکَافِرِینَ )

جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو ‘ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا۔اس نے نکار اورتکبرکیااور وہ کافروں میں سے تھا۔

۱۷۳

مسجود ملائکہ:

جب خداوند متعال نے حضرت آدم کو حقائق ہستی کی تعلیم دی اورحضرت آدم کی ملائکہ پر استعداد واضح ہوگی اورحضرت آدم کو ملائکہ کااستاد بنادیاتوتمام ملائکہ کو خلیفہ الہی کی عزت واکرام کیلئے سجدہ کرنے کاحکم دیا۔ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا۔(۱)

یہ سجدہ عبادت خداوندی کیلئے تھاکیونکہ قرآن ‘سنت اوراولہ غعلبہ سے ثابت ہے کہ عبادت صرف ذات حق سے مختص ہے اس لئے ملائکہ نے حضرت آدم کو جوسجدہ کیاتھاوہ حضرت آدم کی بندگی اورعبادت نہ تھی فضل وکمال کے اظہار کے لئے تھا اورحضرت آدم کو قبلہ قرار دیاگیاتھااسی لیے ابلیس

نے سجدہ کرنے سے انکار کردیاتھا۔

۱ ۔ اسی طرح حضرت رسول اکر کافرمان بھی ہے۔

لم یکن سجود هم لآدم انما کان آدم قبلة ًلهم یسجدوں نحوة للله عزوجل ۔(۲)

حضرت آدم کو کیے جانے والے سجدہ میں حضرت آدم فرشتوں کیلئے قبلہ بنائے گئے تھے انہوں نے حضرت آدم کی طرف اللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے سجدہ کیا۔

۲ ۔جیسے کہ امیر المومنین فرماتے ہیں۔

لماخلق الله آدم ابان فضله للملائکه واراهم فاخصد به من سابق العلم ومعرفة الاسماء وجعله‘ محراباًوکعبة وباباًوقبلةً ۔۔۔(۱)

ترجمہ: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو خلق فرمایاتواس کے فضل وکمال کو ملائکہ پر ظاہر کیا اورحضرت آدم کی سبقت علمی اور معرفت اسماء کی خصوصیت انہیں دکھلائی۔اوراسے محراب اورکعبہ ‘باب اللہ اورقبلہ قراردیا۔

____________________

(۱) قرآن مجید کی اس آیت کے آغاز میں لفظ اذ ہے اسکا تعلق اذکر مقدر کیساتھ ہے۔اس کا مطلب یہ ہے تم اس واقعہ کو ہمیشہ یادرکھو اوراس سے عبرت اورنصیحت حاصل کرو۔الفرقان۔ص۲۹۴:ج۱

(۱) مستدرک ‘ نہج البلاغہ :۳۸(۲) تفسیر البرھان :ص۸۱:جلد ۱

۱۷۴

آیاسجدہ عبادت ذاتی ہے؟

ہرسجدہ تذلل ‘خشوع وخضوع اورعبادت شمارنہیں ہوتاکہ اسے ہم عبادت ذاتی قرار دیں۔جن لوگوں کایہ خیال ہے سجدہ ایساعمل ہے جس کے عبادت بننے کے لئے اللہ کے امر اورحکم کی ضرورت نہیں ہے۔یہ خیال درست نہیں ہے کیونکہ عبادت کا معنیٰ یہ ہے‘ عبد اپنے آپ کو مقام عبادت میں قراردے اورصرف اس کام کو بجالائے جو مولیٰ کی طرف سے مقررہو۔اسکا کامعنیٰ یہ کہ فعل عبادع میں ضروری ہیکہ مولاکی مولویت اورعبد کی عبودیت کے اظہار کی صلاحیت پائی جائے۔ اور یہ خصوصیت سجدہ میں منحصر نہیں ہے البتہ سجدہ مولیٰ کی آقائی اورعبد کی عبودیت پر دلالت کرنے والے اعمال میں سب سے واضح عمل ہے اس میں عبد نیاز جبیں کو خاک پر رکھ دیتاہے لیکن پھر بھی یہ ذاتی عبادت نہیں ہے۔اگریہ ذاتی عبادت ہوتاتواللہ تعالیٰ غیراللہ کو سجدہ کرنے کا حکم نہ دیتاجیسا کہ اس آیت کے علاوہ ایک مقام پرارشاد وقدرت ہے۔

( وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ) ۔(۱)

یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت یعقوب ‘انکے بیٹوں اورانکی شریک حیات کے عمل کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ فروالہ سجداًکہ وہ سب حضرت یوسف کی عظمت کے سامنے سجدہ ریز ہوئے۔ ملائکہ کاحضرت آدم کو سجدہ کرنا بھی خدا کی عبادت تھی اوراس کے حکم کی اطاعت اس میں تھی کہ حضرت آدم کے شرف وکمال کیلئے سجدہ کیاجائے اور حضرت آدم کا یہ شرف وکمال محض انکی وجہ سے نہ تھا بلکہ آپ کے وجود وسعود میں انوار مقدسہ عالیہ کے باعث تھا۔جیسا کہ حضرت رسول اکرم کا فرمان ہے۔

____________________

(۱) یوسف:۱۰۰

۱۷۵

ان الله تبارک وتعالیٰ خلق آدم فاودعنا صلبه وامر الملائکة بالسجود نه تعظیماًلنا واکراماًفکان سجود هم الله عزوجل عبودیة ولادم اکراما وطاعیة لکوننافی صلبه ۔(۱)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب حضرت آدم کو خلق فرمایاتو ہمیں امانت کے طور پر اس کے صلب میں رکھا۔اور ملائکہ کو حکم دیاکہ اسے ہماری تعظیم اوراکرام کیلئے سجدہ کریں لہذا ان کاآدم کو سجدہ کرنا اللہ تعالیٰ کیلئے عبادت کے عنوان سے اورحضرت آدم کے لیئے احترام اوراطاعت کے عنوان سے تھا کیونکہ ہم اسکی صلب میں تھے۔

حقیقت سجدہ:

خداوندمتعال نے اس آیت مبارکہ میں فرشتوں سے حضرت آدم کو قبلہ سمجھ کر سجدہ کاحکم دیاہے اوریہ اللہ کی عبادت ہے اورحضرت آدم اور معصومین کی تعظیم ہے۔یہاں یہ گمان پیدانہ ہوکہ تعظیمی سجدہ جائیز ہے ایسا نہیں ہے کیونکہ

اولاً:حضرت آدم کو قبلہ سمجھ کر خداکیلئے سجدہ کیاگیاتھا۔

____________________

(۱) نور الثقلین :جلد۱:ص۵۸

۱۷۶

ثانیاً:اگر یہ کہیں صرف اورصرف حضرت آدم کیلئے تعظیمی سجدہ تھااوراسے قرار نہیں دیاگیاتھا تو کہہ سکتے ہیں کہ اگر پہلی شریعتوں میں تعظیمی سجدہ جائیز بھی تھاتواسلام نے اسے منسوخ قراردیاہے۔( ۱)

بہرحال غیراللہ کو سجدہ کرناحرام ہے( ۲) اورقرآن مجید کی آیات بھی یہی کہتی ہیں ( ۳) اورروایات میں بھی یہی حکم ہے۔( ۴)

____________________

(ا) جیسا کہ سیوطی اسباب نزول میں یہی کہتاہے کہ اس شریعیت میں یہ منسوخ ہے اور تفسیر لوامع التزیل جلد ۱:ص۱۸۹‘پر بھی تصریح موجود ہے کہ سابقہ شریعتوں میں تعظیمی سجدہ جائیز تھا مگر اسلام میں منسوخ قرار دیاگیاہے۔

(۲)یحرم السجود لعیز الله تعالیٰ من دون فرق بین المعصومین وغیرهم ومایغعله الشیعة فی مشاهد الائمه لابد ان یکون للة شکراتوفیقهم لزیارتهم والحضور فی مشاهد هم ۔منھاج الصالحین امام خوشی :جلد۱:ص۱۷۹

یعنی غیراللہ کو سجدہ کرناحرام ہے خواہ معصومین ہویاان کے علاوہ کوئی اورہو۔البتہ شیعیان حیدرکرار ائمہ اطھار علیھم اسلام کی ضریحوں پر جوسجدہ بجالاتے ہیں وہاللہ تبارک وتعالیٰ کے شکرکیلئے ہیاس نے انہیں ان مبارک ضریحوں پرحاضرہونے اورانکی زیارت کی توفیق عطافرمائی ہے۔

(۳) قرآن مجید کی آیت میں تصریح موجود ہے کہ سجدہ فقط خداتعالیٰ کی ذات کیساتھ مخصوص ہے جیسا کہ ارشاد ربالعزت ہے “ان الذین----له سیجدون :۷:۲۶‘اورلاتسجدوا واسجدوالله :۴۱:۳۷‘اوران المساجد للله ۔۲ ۷ :۸ ۱ (۴) ابوحمزہ مسجدہ کوفہ میں حضرت امام زین العابدین کوسجدہ کرناچاہتاتھاتوحضرت نے فرمایا”ایسانہ کرو سجدہ توفقط اللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے ہے‘مفاتح الجنان۔زیارت ہفتم اسی طرح ایک جاثلیق حضرت امیرالمومنین کی شخصیت سے متاثر ہوکر آپ کو سجدہ کرناچاہتاتھاتوحضرت نے ارشادفرمایا‘

اسجدلله ولاتسجدلی اللہ کو سجدہ کرو مجھے سجدہ نہ کرو۔

تفسیر مخزرازی جلد:۲:ص:۲۱۲ اور عمادالاسلام :جلد۱:ص ۳۳۵

۱۷۷

حقیقت ابلیس:

ابلیس کا معنی“ رحمت الہی سے مایوس ہونے والا“ ہے سجدہ الہی سے انکارکے باعث رحمت الہی سے مایوس ہواتوشیطان کا نام ابلیس بن گیاجبکہ روایات مطابق اس کانام حارث یاغرازیں تھااوررحمت الہی سے مایوس ہونے کی وجہ سے یہ شیطان کانام ہے اسیلئے اسے ابلیس کہتے ہیں۔ حقیقت ابلیس کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف رائے ہے بعض کے خیال کے مطابق یہ ملائکہ میں سے تھااوروہ اس کی دلیل یہ بتاتے ہیں کہ اگر یہ ملائکہ سے نہ ہوتاتو ملائکہ کے زمرے میں اسے خطاب نہ کیاجاتااور ملائکہ سے الااستناتیہ کے ذریعے اسکو الگ نہ کیاجاتا۔تواس سے معلوم ہوتاہے کہ ملائکہ کایہ ہم جنس تھا۔

لیکن حق یہ ہے کہ ابلیس ملائکہ میں سے نہ تھے اس کی دلیل کے لئے قرآن مجید کی آیات اورروایات موجود ہیں۔جیسا کہ خداوندمتعال کافرمان ہے۔

( فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ ) ۔(۱)

تمام ملائکہ نے حضرت آدم کو سجدہ کیایہاں مھکم یہی بتا رہے ہے اس جنس ملائکہ سے ایک فرد بھی ایسا نہ تھاجس نے سجدہ نہ کیاہو۔

اسی طرح ایک اوجگہ ارشاد رب العزت ہے۔

( وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ) ۔

____________________

(۱) سورہ حجرایت :۳۰

۱۷۸

جب ہم نے ملائکہ سے آدم کے لیے سجدے کا انکار کیا توسب نے سجدہ کیااورابلیس نے نہ کیاوہ جنات میں سے تھااوراس نے اپنے رب کے حکم سے فسق اختیارکیا۔(۲)

بہرحال جن اور ملائکہ دو جداجدا مخلوقات ہیں(۳) لہذا یہ ہم جنس نہیں ہیں۔

یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ جب یہ ہم جنس نہیں تھے اورآیت مبارکہ میں سجدہ کرنے کاحکم ملائکہ کوہواہے ابلیس کو حکم نہیں ہواتو پھر نافرمانی پراسے راندہ درگاہ الہی اورلعین کیوں قرار دیاگیا؟

نیز عرفی محاورات میں بھی ایسے ہی ہے جب ایک فرد کسی گروہ میں یوں مل گھل جائے کہ علیحدہ شمار نہ ہوتاہو تو جب اس کو خطاب ہوتاہے تو وہ فرد خود اس گروہ کے ضمن میں مخاطب ہوتاہے۔ اورکلام عرب میں موالی قبائل کے بارے میں اکثر ایسی تعبیرات ملتی ہیں۔

اسکا جو اب یہ ہے کہ پوری امت مسلمہ کااجتماع ہے کہ سجدہ کرنے کاحکم ابلیس کو بھی ہواتھا

اور قرآن مجید میں بھی دوسرے مقام پرارشاد قدرت ہے۔

( مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ) ۔

____________________

(۲) سورہ اعراف:۵۰

(۳) جنات کوآگ سے پیدا کیاہے لہذا یہ ناری مخلوق جبکہ فرشتے نوری مخلوق ہیں یہ معصیت نہیں کرتے کیونکہ ان میں حیوانی غرائیز نہیں پائے جاتے جو نافرمانی اورتمیز کے متفاقی ہوتے ہیں۔ناری مخلوق اورحیوانات غرائیز حیوانی (کھانا پینا‘ نکاح کرنا رکھتے ہیں اورابلیس کو خدانے آگ سے پیدا کیاتھاجیساکہ یہ خود فخریہ انداز میں کہتاہےاناخیر خلقتنی من نار ۔

سورہ اعراف:آیت ۱۲

۱۷۹

میں زیادہ بہت ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا لہذا اس میں غریز ہ حیوانی تھا وج نافرمانی اورسرکشی کا متقاضی ہے۔

جب تمہیں سجدہ کرنے کاحکم دیاگیاتو پھر کس چیز نے تمہیں سجدہ کرنے سے روکا۔(۱)

فرشتوں کو سجدہ کاحکم دیئے جانے کے علاوہ قرآن مجید میں کسی اور سجدہ کا حکم نہیں لہذا یہ آیت ابلیس کو مخاطب کر کے کہہ رہی ہے تم نے حکم عدولی کیوں کی اورسجدہ کیوں نہ کیا۔لہذا جب ابلیس کو بھی سجدہ کا حکم تھااوراس نے نافرمانی کی اورلعنت کامستحق ٹہرااورآواز قدرت آئی۔

( قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ ﴿﴾ وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ ) ۔(۲)

یہاں سے نکل جابیشک تو راندہ درگاہ ہے اورقیامت تک تجھ پرلعنت برستی رہے گی۔

( وَقُلْنَا یَاآدَمُ اسْکُنْ أَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُلاَمِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَتَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ وَلاَتَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنْ الظَّالِمِینَ )

ترجمہ:ہم نے کہااے آدم تم اپنی زوجہ کیساتھ جنت میں رہواور جو جی چاہے (آزادی سے کھاو) تہمیں کھانے کااختیار ہے لیکن اس درخت کے نزدیک نہ جاناوگرنہ تجاوز کرنے والوں میں سے ہوجاو گے۔

گزشتہ آیات میں حضرت آدم کی خلقت کے اجتماعی جہات کے متعلق بات ہوتی رہی ہے جسمیں حضرت آدم کی خلقت ‘خلافت الصیرّ‘تعلیم اسماء‘اور معلم ملائکہ ہونے کے حوالے سے تذکرہ ہوا۔اب اس آیت سے حضرت آدم کے انفرادی پہلووں کا تذکرہ ہورہاہے۔اس میں دنیاوی زندگی میں ‘شریک حیات ‘رہایش کی جگہ (جنت ) اور دیگر ضروریات زندگی کو بیان کیا جارہاہے۔

____________________

(۱) اعراف:۱۲(۲) سورہ حجرآیت :۳۴‘۳۵

۱۸۰

تشکیل خانوادہ:۔

حضرت آدم کو خلقت کے بعد تنہائی کی وحشت سے دوچار ہوناپڑا۔تنہائی کو ختم کرنے کے لئے پروردگار عالم نے آپ کے لئے شریک حیات کو خلق فرمایاتاکہ حضرت آدم تنہائی کے کرب سے نکل آئیں حضرت حواّ کی تخلیق کی جزئیات قرآن مجید میں صراحت کیساتھ مزکورنہیں البتہ قرآن مجید میں دوآیات ایسی ہیں جن میں حواّ کی خلقت کی طرف اشارہ موجود ہے۔ارشادرب العزت ہے۔

( هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ) ۔( اعراف : ۱۸۹)

وہ اللہ جس نے تہمیں ایک نفس سے پیدا کیاہے اوراسی سے اس (نفس واحدہ) کا حقبت بنایاہے تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے۔

بہرحال ان آیات سے اتنا واضح ہوتاہے کہ ان دونوں کوایک چیز سے پیدا کیاگیاتھاان کی پیدائش کے حوالہ سے علماء اکرام میں بہت زیادہ اختلاف پایاجاتاہے بعض کے نزدیک حضرت آدم کی ساخت سے بچ جانے والے خمیر سے حواّ کو خلق کیاگیاتھا اس کے مقابلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت حواّ کو حضرت آدم کی بائیں پسلی سے خلق کیاگیاتھااوراس کی تائید حضرت امیر المومنین کے احکام اور قضایامیں نقل ہواہے۔

یہ ایک طویل واقعہ ہے جس میں ایک شخص کو بلایاگیا۔جسکے دونوں آلے تھے ‘حضرت سے پوچھا گیاکہ یہ عورت ہے یامرد۔

حضرت نے اسکی پہچان کی مختلف صورتیں بیان فرمائیں اورآخر میں فرمایااسکی پسلیاں دیکھی جائیں اگر ایک پسلی کم ہے تو یہ مرد ہے اوراگرزیادہ ہے توعورت ہے۔( ابوالفتوح زازی جلد ص)

بہر حال اسی وجہ سے حضرت آدم نے اسکانام حواّرکھا کیونکہ یہ پسلی سے زندہ خلق کی گئی تھی۔

۱۸۱

حقیقت جنت:

حضرت آدم کی تسکین کیلئے جب حضرت حواّ کو خلق کیاگیاتواس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم سے فرمایاکہ جاو جنت میں رہو۔

حضرت آدم جناب حواّ کے ساتھ جنت میں رہنے لگے۔(۳)

علماء کرام کے درمیان اختلاف پایاجاتاہے کہ اس جنت سے کونسی جنت مرادہے تفاسیر نے اس سلسلے میں کم ازکم چار مقامات کاتزکرہ فرمایاہے۔(۴) لیکن شاید صحیح قول یہ ہے کہ یہ دنیا وی جنت ھی۔اس سلسلے میں روایات بھی موجودہیں جو اسکی تائید کرئی ہیں مثلاًحسین ابن یسر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت آدم کی جنت کے متعلق حضرت امام جعفر صادق سے سوال کیاتوحضرت نے ارشاد فرمایا۔

یہ دنیاوی جنات میں سے ایک جنت تھی جن جنت میں شمس وقمر طلوع کرتے تھے (مزید فرمایا) اگر یہ آخرت کی جنت ہوتی تو کبھی بھی حضرت آدم کو وہاں سے نہ نکالاجاتا۔(۵)

____________________

(۳) جنت کی اصل جن سے پہلے اسکا معنی پوشیدہ ہوتاہے لہذا ایسی زمیں جو درختوں سے پوشیدہ ہوگی ہواور اسمیں سرسبز باغات ہوں اسے جنت کہاجاتاہے۔

(۴) علماء نے ویسے توکئی جنات کاتزکرہ کیاہے لیکن چار جنتیں زیادہ شہرت رکھتی ہیں

الف۔جنت برین۔

ب۔ کسی اورسیارے کی جنت۔

ج۔ علم برزخ کی جنت۔

(۵) سألت اباعبدالله عن جنة آدم مقال جنات الدنیاتطلع فیها الشمس والضمر ولوکانت من جنات الآخرة ماخرج مناه ابداکافی

۱۸۲

اورگزشتہ آیات کاسیاق سباق بھی یہی بتاتاہے کہ یہ دنیا وی جنت تھی کیونکہ ارشاد رب العزت ہے۔

آدم کو مٹی سے پیدا کیاگیا۔(۱)

حضرت آدم کو زمین کے لئے خلیفہ بنایا گیا۔(۲)

اسی طرح روایت میں معصوم نے فرمایا۔

لولا الحجة لساخت الارض باهلها ۔(۳)

اگرزمین پر حجة خدا نہ ہوتو زمین ہر چیز سمیت غرق ہوجائے۔

اسی طرح اگریہ دنیاوی جنت ہو تو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں رھتی جبکہ حضرت آدم اورجناحواّ کو حکم دیاگیاکہ جنت میں جاکر رہو وہاں عیش سے زندگی گرارو اورانہیں حکم ہواکہ ”لاتقربا هذه الشجر “ یعنی اس درخت کے پاس نہ جانا۔یہ تکلیف ہے۔اوردنیا درالتکلیف ہے‘لہذا اس سے ظاہر ہوتاہے کہ دنیاوی جنت تھی۔(۴)

____________________

(۱)حلق من الارض (۲)انی جاعل فی الارض خلیفه (۳)

(۴) اس کے علاوہ بعض علماء قائل ہیں کہ یہ جنت برین تھی لیکن بریں میں خلا اورہمیشگی ہوتی ہے جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق سے بیان کردہ حدیث میں کہاگیاہے کہ اگر جنت برین ہوتی تو کبھی حضرت آدم کو وہاں سے نہ نکالا جاتانیز اگر یہ جنت بریں ہوتی تو شیطان کبھی نہ کہتا( هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ ) طہ :۱۲ یعنی کہا میں تمہیں ایسے درخت کے متعلق نہ بتاو جسکا پھل کھانے سے تم ھمیشہ جنت میں رہو۔ اسی طرح اس سے بھی یہیں کہاجاسکتا ہے کہ یہ عالم برزخ کی جنت تھی کیونکہ دنیاوی زندگی سے کوچ سے پہلے عالم برزخ میں داخل نہیں ہوتا جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے( مِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى یوْمِ یبْعَثُونَ ) لہذا یہ برزخی جنت بھی نہ تھی اسی طرح کسی اورسیارے کی جنت ہوتا بھی اوپر بیان کے گئے دلائل کے ہونا مناسب نہیں ہے لہذا کہاجاسکتاہے کہ شاید وہ جنت دنیادی جنت تھی۔ البتہ یہاں کوئی یہ اشکال کرسکتاہے کہ آیت میں ”اھبوطہ“ لفظ موجودہے جسکا معنیٰ نیچے اترنے کاہے اگر یہ آسمانی جنت نہ وہتو نیچے اترنے کاامر کیا معنی ہے؟اس میں علماء نے کئی جواب دیئے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ اصبطوا صرف نزول مکانی کیلئے استعمال ہو بلکہ یہ نزول رتبی کیلئے بھی استعمال ہوتاہے” والله العلم بالصواب“

۱۸۳

د۔ دنیاکی جنت۔

انسان مخلوق مختار:

حضرت خدا وند متعال نے حضرت آدم اور جناب حواّ کو جنت میں داخل کرکے ارشاد فرمایا۔کہ اس جنت میں تمہارے لیے ہر قسم کی نعمتیں موجود ہیں۔آپ کیلئے آسائش ہے ‘ یہاں کوئی رنج وغم نہیں ہے۔یہاں دنیاوی زندگی گزارنے کی تمام ضروری چیزیں موجودہیں۔رہائش کیلئے جنت جیسا گھر ہے ‘تسکین کے لئے حواّ جیسی بیوی ہے اور کھانے پینے کیلئے جنت کی ہر چیز آپ کے اختیار میں ہے۔

آپ کو بالکل خود مختار منایاگیاہے اس جنت سے جو کچھ کھانا چاہو کھاو لیکن فلاں درخت کے قریب نہیں جانا(۱) اگر اپنی اختیار و مرضی سے اس کے قریب گئے تو تمہیں خسارہ اٹھانا ہوگااور جنت سے جانا ہوگااور یہ ظلم ہوگا۔(۲)

____________________

(۱) شجرہ ممنوعہ کی تفسیر کے سلسلہ میں علماء کرام کے درمیان اختلاف موجودہے قرآن مجید میں اسکے متعلق تو وضاحت موجود نہیں ہے البتہ روایات میں اسکاتزکرہ موجودہے کہ فلاں درخت کے قریب نہ جانا اوراس سے تناول نہ کرنا۔ مزید روایات میں ہے کہ شاید یہ درخت گندم ‘انگور‘ کافور اوربعض میں اسکے علاوہ اور چیزوں کا تزکرہ بھی ہے البتہ ان روایات کی اسناد میں خدشہ کیاگیاہے لہذا کہاجاسکتاہے یہ قشابھہ آیات میں سے ہے اور ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایسادرخت تھا جسکی وجہ سے حضرت آدم اورحواّ کو جنت سے نکلنا پڑا۔

(۲) ظلم کا معنی وضع الشی فی غیر محلہ ہے اورقرآن مجید نے بھی اسکی یہ تعریف کی ہے ”ومن یتعد حد ودالله فاوٴ لاللک هم الظالمون “یعنی اللہ کی مقرر کردہ حدود سے قدم بڑھانے والے ظالم ہیں لیکن حد کو دیکھنا ہوگا کہ یہ واجب قرار دی گئی ہے یا مستحب اورارشاد ہے۔اس کا ظ سے ظلم کا حکم بھی مختلف ہوجائے گااور وہ ظلم جو حدو جوبی سے تجاوز ہووہ گناہ ہے جبکہ دوسری اقسام کا ظلم زیادہ سے زیادہ ترک اولیٰ “ ہوگا گناہ ہوگا۔

۱۸۴

تکلیف میں کسی نہ کسی قسم کی مصلحت ضرور ہوتی ہے ہوسکتاہے اس نہی اور منع کرنے میں بھی کوئی بڑی مصلحت ہو اوراس میں ایک یہ ہوسکتی ہے کہ انسان سے کہاجارہاہوکہ تمہیں ہمیشہ اس جنت میں رہنے کے لئے خلق نہیں کیاگیاہے بلکہ تمہیں زمین کے لیئے خلیفہ بنایاگیاہے اور تمہیں مٹی سے پیدا کیاگیاتھالہذا اگر حضرت آدم اس درخت سے تناول فرماتے تو مصلحت خلقت انسان کو عملی جامہ نہ پہنایاجاسکتا۔ قرآن مجید میں حضرت آدم کے سجدہ اور ابلیس کی سرکشی کاواقعہ سات مرتبہ ذکر ہواہے

اورحضرت آدم کو جنت سے نکالے جانے کا تزکرہ تین سورتوں میں ہواہے۔(۱)

ان تمام آیات کو اکٹھاکرکے نتیجہ نکالیں تو”فتکونامن الظالمین “ میں اصطلاحی ظلم مراد نہیں ہے بلکہ اسکا معنی دنیاوی مصیتیں ‘ نقصان اورخسارہ اور تجاوز ہے(۲)

لہذا یہاں جزا کے حق میں ظلم نہیں ہے بلکہ اپنے نفس پر تجاوزجیسا ہے کہ قرآن مجید بھی اسی کی تائید کرتاہے کہ

( رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ) ۔(۳)

پروردگار ہم نے اپنے نفس پر تجاوز کیاہے اوراگرتم نے ہمیں معاف نہ کیاتو ہم خود کو خسارے میں ڈالنے والے ہونگے۔

بہرحال اس ظلم سے مراد وہ نقصان اور خسارہ ہے جو دنیا میں تنگدستی اورسختی کا موجب ہوگااور تاکوینی طورپراس درخت سے دیکھنے کااثر ہے جبکہ یہ خداوندمتعال کے فرمان کی معصیت نہیں ہے بلکہ حضرت آدم “ ابو الا بنا ء اولی الاعظم اور معصوم تھے ان سے خدا کی معصیت کا سرزدہوناناممکن ہے۔ اب یہاں علماء کرام نے خسارے میں پڑجانے کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف احتمالات

بیان فرماتے ہیں کہ حضرت آدم کا زمین پرآنا سزا کے طور پر نہ تھا بلکہ اس کواس لئے خسارہ کہاگیاتھاکیونکہ شیطان حضرت آدم پر اپنے حربے میں کامیاب ہوگیاتھا۔اس سے زمین پر جا کر لوگوں کو پھسلانے کی اسکی جرات بڑھ گی۔

بعض علماء نے فرمایاہے کہ اس کو خسارہ اس لئے کہاگیاہے کیونکہ اس ظاہری باغ وبہار کو چھوڑکر نئے سرے سے زمین کو آباد کرنے کی زحمت کرناپڑی لہذااسے خسارہ کہاگیاہے اور بعض علماء نے کہاہے کہ حضرت آدم کیلئے خسارہ کا لفظ اس لئے استعمال ہوا ہے کہ حضرت آدم کو ملائکہ کی تسبیح وتقدیس سے جو مانوسیت حاصل ہوتی تھی۔اب ظاہری طور پر حضرت آدم اس سے جداہوگئے چنانچہ حضرت آدم کو اس کا بہت زیادہ افسوس تھا لہذا اسلئے کہاگیاہے کہ تم خسارہ میں ہوگئے۔

۱۸۵

آدم کا گناہ کیاتھا:۔

( فَأَزَلَّهُمَا الشَّیْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا کَانَا فِیهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَکُمْ فِی الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَی حِینٍ ) ( ۳۶)

تو شیطان نے ان کے ارادے سے انہیں اس جگہ سے ہٹایا اور جہاں وہ تھے وہاں سے انہیں نکلوادیا۔اورہم نے کہا تم اتر جاو تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے۔

شیطانی وسوسہ:

خداوند متعال نے حضرت آدم اور حضرت حواّ کیلئے جنت جیسے مقام کو رہائش گاہ قراردیا۔وہاں ایک عرصہ تک ٹھہرے۔شاید اس کا مقصد یہ تھا کہ حضرت آدم کو فوراً ہی زمین پراتار دینے سے وحشت نہ ہو لہذا کچھ وقت سرسبز اورشاداب مقام پر گزار لیں۔جہاں ضروریات زندگی کی ہر چیز میسرہو۔تاکہ یہاں رہ کر اگلی منزل کیلئے تیار ہوجائیں اور شیطانی وسوسوں کا بھی عملی طور پر ملاحظہ کرلیں کہ کس طرح دشمنی کرتاہے اورکس طرح لوگوں کو پھٹکاتاہے۔اب اگرحضرت آدم اپنی قوم کو تبلیغ کرتے کہ شیطانی وسوسوں سے بچ کر رہنا یہ میرا اور تمہارا دشمن ہے اورلوگوں کو جنت سے پھٹکانے کی کوشش کرتاہے۔

یہاں لوگ سوال کرسکتے تھے کہ یہ کس طرح ہمارادشمن ہے اسکا جواب تو یہ دیتے کہ اس نے مجھے سجدہ نہ کیاتھااور دشمنی کا واضح طور پر اظہار کیاتھالیکن اگر حضرت آدم کو جنت میں نہ رکھا جاتاتو یہ دوسرے سوال کاجواب نہ سے سکتے کہ کس طرح شیطان وسوسے کرتاہے لہذا اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم کو جنت میں رکھا تاکہ آپ شیطانی وسوسوں سے آگاہ ہوسکیں کیونکہ اس دنیا میں وہ حضرت آدم تمہیں پھسلا سکتاتھا۔اب حضرت آدم کہہ سکتے ہیں کہ کس طرح وسوسے ڈالتاہے اس سے کس طرح بچ کر رہنا ہے۔

۱۸۶

شیطان کو بھی یہ موقع غنیمت لگا کہ دنیا میں تواللہ کے اس مخلص بندے پر میرا کوئی اثر نہ ہوسکے گالہذا یہ حضرت آدم کے پاس آ کر اس انداز سے وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرتاہے(۱) اور کہتاہے۔

( مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَـٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ ) ۔(۲)

خدا نے تمہیں اس درخت سے اس لئے روکا تھا کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاو۔

لیکن یہ کہنے کے بعد اسے اندازہ ہواکہ جو مسجدو ملائکہ ہواس کے لئے ملک سنا کوئی اہمیت نہ رکھتاتھا لہذاایک اور ہتکنڈا استعمال کرتاہے۔( أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ) ۔(۳)

تہمیں اس درخت سے اس لیے روکا گیا ہے کہ کہیں تم اس کے استعمال سے ہمیشہ جنت میں رہنے والے نہ بنو لہذا اس کو کھالو اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس زمینی جنت پر قیام کرو اوراس کے بعد یہ قسمیں کھانے لگا کہ میں سچ کہہ رہا ہو۔(۴) لیکن حضرت آدم نے اس کی ایک نہ مانی اور فرمایاجس چیز سے خدا نے مانع فرمایاہے میں وہ ہرگز بجا نہیں لاسکتا۔

اب اس نے حضرت حواّ کے پاس جانے کا سوچا اوروہاں جاکر کہنے لگااللہ تعالیٰ نے اب اس درخت کو تمہارے لئے مباح قراردیاہے اب اس کو کھانے میں کوئی حرج نہیں رہااگر تم نے آدم پہلے اسے کھالیا تو آدم پر حکمران رہوگئی حضرت حواّ نے اسے تناول کر لیا اورپھر حضرت آدم کے پاس جا کر کہا میں نے اس درخت کو تناول کرلیا ہے اسکا مجھ پر کوئی اثر نہ ہوالہذا آپ بھی اسے تناول فرمالیں یہ مباح ہوچکا ہے مباحت کا سن کر حضرت آدم نے بھی تناول کرلیا اوراس طرح شیطان اسے پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔(۵)

_____________________

(۱) اعراف : ۲۰(۱) اعراف :۲۰ (۲) اعراف:۲۰

(۴)( وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ ) ۔اعراف :۲۱ یعنی شیطان قسمیں کھا کر کہنے لگا میں تہمیں نصیحت کررہاہوں کہ اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن حضرت آدم نے اس کی قسموں کی پروا نہ کی۔

(۵) جہاں عدوات ودشمنی ‘حسد وکینہ ‘جھوٹ ‘ سختی فنا کدورت اورشقاوت جیسا ماحول ہوگا۔اس میں لوگ بھی ایک دوسرے کے دشمن ہونگے اورابلیس اوراس کے پیروکار بھی حضرت آدم کی نسل کیساتھ دشمنی رکھتے ہونگے یہ کفر وطعنیان اور ایمان واعتقادات کی وجہ سے دشمنی کریں گے اور ابلیس اوراسے کے پیروکار راہ راست سے ہتکانے کیلئے ہر ممکن حیلہ و بہانہ تلاش کریں گے اورکوشش کریں گے کہ انسان کو نیکی کے راستہ سے ہٹالیں اوراسکے لئے خدا کی خوشنودی اورزیادہ ثواب کا لالچ دیکر برے کاموں میں پھنسانے کی کوشش کریں گے یہ نہ صرف مردوں کا دشمن ہے بلکہ پوری انسانیت کا دشمن ہے۔

۱۸۷

انسانی نسل کا دشمن :

حضرت آدم اورحضرت حواّ جب اس شجرہ ممنوعہ سے شیطان کے پھسلانے کی وجہ سے تناول کر بیٹھے تواللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم اورانکی اہلیہ کو حکم دیا کہ اس پاک وپاکیزہ سرزمین ‘جسمیں جنت جیسا ماحول تھا ‘ضروریازندگی کی ہرچیز میسر تھی۔کسی قسم کی پریشانی نہ تھی‘کو چھوڑ کر کسی اورجگہ منتقل ہوجاو۔

یہ ہر انسان کواس کے مزاج کے مطابق جال میں پھنساتاہے عورتوں کو گمراہ کرنے کیلئے عورتوں کے مزاج کے موافق پھندے ڈالتاہے مردوں کیلئے مردوں کا مزاج اختیار کرتاہے لہذااس دشمن سے بچنا ضروری ہے اس کی وجہ سے حضرت آدم کو جنت سے نکا لاگیااورخبردار کہاگیاکہ زمین پراسکا خیال رکھنا یہ تمہاری پوری نسل کا دشمن ہے گویا کہاجارہاہے کہ اپنی نسل کو اسکی مکاریوں ‘وسوسوں اورشیطانی حربوں سے بچنے کی تلقین کرنا البتہ یہ زمین پر جا کر سب مخلصین کو ضرور گمراہ کرنے کی کوشش کریگا۔

عارضی قرار گاہ:

خداوندعالم نے حضرت آدم کو جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا اورفرمایا کہ ایک مغیر مدت تک زمین میں تمہاری قرارگاہ ہے تم اس جگہ سے ایک وقت تک استفادہ کرتے رہو اس میں تمہاری اولاد کو مکمل اختیار ہے کہ وہ شیطانی وسوسوں میں پھنس کر جہنم کا راستہ اختیار کریں یا خداوند متعال کی فرمان برداری کرکے جنت میں آئیں ہم نے تو یہاں آپ کے عمل کو دیکھنا ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

۱۸۸

( ثُمَّ جَعَلۡنٰکُمۡ خَلٰٓئِفَ فِی الۡاَرۡضِ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ لِنَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ ) ۔(۱)

ان کے بعد ہم نے تہمیں دنیا میں انکا جانشین بنایاہے تاکہ ہم دیکھیں کیسے عمل کرتے ہو۔

لہذا بتایاجارہاہے کہ

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

حضرت آدم سے ترک اولیٰ ہواتوانہیں یہ خسارہ دیکھنا پڑا کہ معصوم ہونے کے باوجود جنت سے نکال دیئے گئے روایات میں مختلف مقامات کاتزکرہ موجودہے کہ حضرت آدم کو کہاں بھیجا گیا۔(۲)

ہم حضرت رسول خداسے مروی ایک روایت تبرکا ًبیان کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں کہ خداوندمتعال نے حضرت جبریل کو وحی کی کہ حضرت آدم کو مکہ میں اتارو توحضرت جبریل نے حضرت آدم کو پہاڑ صفا اورحضرت حواّ کو مروہ پراتارا۔(۳)

____________________

(۱) ابراھیم :۱۰

(۲) روایات میں ہر زمین ‘مکہ ‘مدینہ ‘ اردن وفلسطین ‘کا تزکرہ موجودہے۔

(۳)وحی الله تعالی ٰ الیٰ الجبریل ان اهبطهما الی البلا ه المبارکه مکه فهبط بهما جبرئیل والقی آدم علی الصفا والقی حوا علی المروه تفسیر عیاشی جلدا۔ص۲۶

۱۸۹

اس روایت کی تائید حضرت امام صادق سے بیان کردہ روایت بھی کرتی جس میں حضرت نے فرمایا۔

جب حضرت آدم مکہ کے ایک پہاڑ پراتارے گئے توحضرت آدم کے ” صفی اللہ “ لقب کی وجہ سے اس پہاڑ کانام صفا رکھا گیااورحضرت حواّ کو صفا کے مقابل پہاڑ پراتاراگیا اسکا نام مروہ رکھا گیا۔

حضرت آدم چالیس دن تک سجدہ کی حالت میں گرایہ کرتے رہے حضرت جبرائیل آئے اورانہوں نے کہا اتنا گرایہ کیوں کررہے ہو توحضرت آدم نے فرمایا میں کیسے کریہ نہ کروں مجھے خدا کے جوارسے نکال دیاگیاہے۔(۱)

جب حضرت آدم ترک اولیٰ کی وجہ سے نکالے جاسکتے ہیں توہم خداکی نافرمانی کرکے کس طرح جنت کے حقدار ہوسکتے ہیں شیطان نے ابتداء سے ہمارے بابا کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیاتھا کیااب بھی ہم اس کے دھوکہ میں آکر خداسے روگرادنی کریں اوراحکام خداکو پس پشت ڈال دیں جبکہ خداکہہ رہاہے کہ صرف میری عبادت کرو اورجوعبادت میری منشاء و مرضی کے خلاف ہوگی میں اسے ہرگز قبول نہ کرونگا۔

اللہ کو صرف وہی عبادت پسند ہے جواسکا بھیجا ہوارسول بتائے اوراس کے بعد اسکا صحیح قائم مقام بتائے ہر من گھڑت عبادت شرف قبولیت حاصل نہیں کرسکتی۔شیطان سجدہ کا منکرنہ تھابلکہ اس طریقہ پرسجدہ کرنے کا مخالف تھا جسکا خدانے کہاتھاجس سے اس نے خلیفة اللہ نافرمانی کی اورتعظیم کرنے سے انکارکیاتھا۔بہرحال خلیفة اللہ کی نافرمانی ہزاروں برس کی عبادت پرپانی پھیر دیتی ہے۔

____________________

(۱) تفسیر ابن ابراھیم۔جلد:۱۔ص:۴۴

۱۹۰

لیکن یہ یادرہے کہ شیطان سجدہ کامنکرتھاعبادت کا منکرنہ تھا اسلئے خدانے اسے مشرک نہیں کہا بلکہ کافر کہاہے جبکہ تارک نماز کوخداتعالیٰ نے مشرک کہاہے ارشاد رب العزت ہے۔

( أَقیمُوا الصَّلاةَ وَ لا تَکُونُوا مِنَ الْمُشْرِکینَ ) ۔(۲)

نماز قائم کرو اورمشرکین نہ بنو۔لہذا ہمیں نماز جیسے اہم فریضہ کو ترک کرکے مشرک نہیں بننا چاہیے۔

( فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَبِّهِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ )

پس آدم نے اللہ سے (اندازتوبہ کے ) چند کلمات سیکھے اوران کے ذریعے اللہ کی طرف رجوع کیا۔بلاتردید وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اورنہایت رحم کرنے والاہے۔

حقیقت توبہ:

توبہ کا اصلی معنی بازگشت ‘رجوع اورلوٹنا ہے اورحقیقت توبہ کے بارے اگرچہ مفسرین کی آراء مختلف ہیں لیکن ان کی بازگشت ان تین چیزوں کے مجموعے کی طرف ہوتی ہے۔کہ انسان تہہ دل سے اپنے گناہ پرنادم ہواوراس کا تدارک کرلے اورآئندہ گناہ نہ کرنے کا مصمم عزم کرے اگرچہ حقیقی توبہ کرنے کی توفیق انسان کو نصیب ہوجائے اس کانتیجہ حتمی نجات ہے۔لہذا یہ انسان کو چاہیے کہ وہ توبہ کے ذریعے اپنے پرورگار کی رحمت کی طرف لوٹ آئے

عقل سلیم کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان اصلاًایسا کام نہ انجام دے جس سے اسکو ندامت وپشیمانی کا سامنا کرنے پڑے اورفارسی میں مشہوربھی کہ عامل ًتکند کاری کہ باز آید پشمانی۔اورتوبہ میں بھی ایسے کئے کہ اثرشوم کو دیکھ ندامت کے سرجھکانے پر مجبور ہوجاتاہے۔اوراحادیث معصومین بھی اسی کی طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ ”له ترک الزنب اهون من الثوم “ گناہ نہ کرنا توبہ کرنے سے آسان ہے۔

____________________

(۲) روم :۳۱

۱۹۱

لیکن اللہ نے توایک طرف انسان میں نمریزہ شہوت وحیوانیت رکھا اوردوسری طرف سے شیطان کو انسان کے پیچھے گمرہ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔تو خداتعالیٰ کو علم تھا کہ انسان سے غلطیاں ہونگیں لغزشیں ہونگیں اگر میں نے اس کے لئے اپنی رحمت کی طرف لوٹنے کے تمام دروازے بند کردیئے وہ مایوس ہوکر تاابدبد بختی کا شکار ہوجائیگاجس کو خود ذات حق پسند نہیں کرتی لہذا اس ذات رحیم وکریم نے گناہ گاروں کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا رکھاہے کہ اگر کسی سے جہالت کی وجہ سے برائی سر زد ہوجائے تووہ اس دروازے سے اپنے رب کی طرف واپس آجائے۔اوراپنے کئے پر پشمان ہوکر اس کی تلافی کرلے اورآئندہ گناہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ کرلے اورروایات میں ہے آخری ہم تک توبہ قبول ہوسکتی۔

رسول اللہ نے اپنے آخری خطبے میں ارشاد فرمایا کہ

” من تاب قیل توبه سنة ًتاب الله علیه ‘ثم قال ان السنة لکثیرة ‘ومن تاک قبل توبه بشهر ٍتاب الله علیه ثم قال ان لشهر لکثیر ومن تاب قبل توبه بیوم تاک الله علیه ‘ثم قال وان لیوم کثیر ومن تاک قبل توبه بساعة تاب الله علیه ثم قال وان الساعة لکثیر ومن تاب وقد بلغت نفسه موزاواهویٰ بیده الی حلقهتاب الله علیه

کہ جو شخص اپنی موت سے ایک سال پہلے توبہ کرلے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتاہے۔پھر فرمایا‘ایک بہت زیادہ اگر کوئی شخص اپنی موت سے ایک ماہ پہلے توبہ کرلے تواللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔پھر فرمایا‘ایک ماہ بھی بہت زیادہ ہے اگر کوئی شخص اپنی موت سے ایک دن پہلے توبہ کرلے تواللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔پھر فرمایا‘ایک دن بھی زیادہ ہے اگر کوئی شخص اپنی موت سے ایک گھنٹہ پہلے توبہ کرلے تواللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتاہے۔پھر فرمایا‘ایک گھنٹہ بھی زیادہ ہے اگر کوئی شخص اس وقت توبہ کرلے جب اس کی جان لب پر آئی ہوتواس کی توبہ قبول کرتاہے۔

۱۹۲

اگرچہ یہ حدیث رحمت الہی سے کسی صورت مایوس نہ ہونے کی طرف راہنمائی کرتی ہے اوراللہ نے جس چیز کا آیہ مبارکہ میں ذمہ لیا اس کی وضاحت کررہی ہے کہ ’

( إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ )

کو خدا کسی طرح بھی ان لوگوں کی توبہ رد نہیں فرمائیگاجو نادانی کی وجہ سے گناہ کربیٹھیں اورقریب ہی میں توبہ کرلیں۔

رحمت الہی کے اتنا وسیع ہونے کا معنی یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان توبہ میں جلدی نہ کرے۔کیونکہ انسان کو خبر نہیں ہے کہ اس نے داعی اجل کو کب لبیک کہنا ہے تواسے کب علم ہے کہ میری موت میں کتنا عرصہ باقی ہے کہ وہ اس لحاظ سے توبہ کرے۔اورموت وقت کی تعین نہ کرنے کی وجہ بھی شاید یہی ہو۔

لہذا جتنی جلدی ہوسکے اپنی کوتاہیوں اورلغزشوں پر سچے دل سے پشیمان ہو کر بارہ گاہ الہی میں لوٹ آنا چاہیے اورآیہ مبارکہ ” وسااعواالے مغفرة من ابکم رحمة “ کا حکم بھی اسی چیز کا تقاضا کرتا ہے‘اور جواانی میں توبہ کرنا شیوہ پیغمبر ی بھی ہے۔اگرچہ یہ حضرات قدسیہ ہرقسم کے گناہ ولغزش سے پاک وپاکیزہ ہوتے ہیں لیکن انکے استغفاروتوبہ کی نظیر نہیں ملتی ہے خود رسول اللہ جو عالمین کی خلقت کی علت نمائی ہیں کے بارے روایات میں آیاہے آپ دن میں تین سو مرتبہ استغفاکرتے تھے۔

توبہ کے بارے روایات میں آیاہے اعمال خیر میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل توبہ ہے اورتوبہ کو شفاعت کرنے والابھی قرار دایا گیاہے۔

لہذا انسان کو چاہیے کہ توبہ کو توہین نہ سمجھے انسان سے گناہ سرزد ہونا بعید نہیں ہے اس گناہ کو توبہ کے ذریعے دھویا جاسکتاہے توبہ کر کے انسان ایسے بن سکتاہے کہ ابھی شکم مادر سے جنا گیاہے۔

حقیقت میں کسی بندے کی توبہ اپنے رب اس شخص سے بھی زیادہ خوش کرتی کہ جس کازاد و راحلہ تاریک رات میں گم ہوجانے کے بعد مل جائے۔

۱۹۳

آخر میں خداتعالیٰ سے عاجز ایہ التماس ہے کہ ہمیں اورآپ کو سب کو سچی توبہ کرنے کی توفیق عنائت فرمائے اوراسے شرف قبولیت بخش ہمارے لئے شفاعت کرنے والا قراردے۔

حقیقت توبہ کے بارے میں مفسرین کی آراء مختلف ہیں لیکن ان سب کی بازگشت ان تین چیزوں کے مجموعے کی طرف ہوتی ہے کہ انسان تہہ دل سے اپنے گناہ پرنادم ہواوراس کا تدارک کرے اورآئندہ گناہ نہ کرنے کا مصمم عزم کرے۔

اگرحقیقی توبہ کرنے کی انسان کو توفیق ہوجائے اس کانتیجہ نجات ہے۔

کلمات توبہ :۔

خداوندعالم نے حضرت آدم کو جن کلمات کی تعلیم فرمائی تھی ان کے متعلق مفسرین میں اختلاف پایاجاتاہے۔بعض مفسرین نے فرمایاہے کہ یہ کلمات قرآنی آیات پر مشتمل ہیں اوربعض نے کہا ہے ان کلمات کاتذکرہ روایات میں موجود ہے مثلاً

بعض کے نزدیک سورہ اعراف کی یہ آیت تھی۔

( قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ) ۔(۱)

ان دونوں نے کہاخدایا!ہم نے خود پر ظلم کیااگر تو نے ہمیں نہ بخشا (یا) ہم پر رحم نہ کیاتو ہم خسارے میں رہنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

تفسیر عیاشی میں حضرت امام محمد باقر سے روایت کئے گئے مندرجہ ذیل کلمات بیان ہوئے ہیں۔

لااله الاانت سبحانک انی ظلمت نفسی فاغفرلی انک انت الغفور الرحیم

خدا تیرے سواء کوئی معبود نہیں ہے۔توپاک وپاکیزہ ہے۔میں نے خود پر ظلم کیاہے مجھے بخش دے بیشک توہے بخشنے والا اوررحم کرنے والاہے۔

____________________

(۱) اعراف :۲۳

۱۹۴

مجمع البیان میں کلمات سے مراد یہ دعاتھی

اللهم لااله الا انت سبحانک وبحمد ک انی ظلمت نفسی فاغفرلی انک خیر الغافرین اللهم لااله الاانت

سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فارحمنی انک خیر الراحمین اللهم لااله الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم ۔(۲)

یااللہ !تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے توپاک وپاکیزہ ہے اورمیں کی ‘ انہیں عصادیا‘ان کے لئے دریاشق کیاان پربادلوں کا سایہ کیا؟

حضرت نے فرمایا!

انسان کے لئے اچھا نہیں ہے کہ خود اپنی تعریف کرے لیکن میں اتنا بتا دینا ضروری سمجھتاہوں کہ حضرت آدم سے خطا سرزد ہوئی تواس کی توبہ کے الفاظ یہ تھے۔

اللهم انی اسئلک بحق محمدوآل محمد لماغفرت

خدایا میں تجھ سے محمد وآل محمد کے حق کاواسطہ دیکر سوال کرتاہوں میری توبہ قبول فرماتوخد انے اسکی توبہ قبول فرمائی۔

حضرت نوح کشتی مین سوارہوئے اورانہیں کشتی کے غرق ہونے کا قطرہ لاحق ہواتوانہوں نے بارگاہ خدا وندی میں عرض کی۔

اللهم انی اسئلک بحق لما نجتتنی من الغرق

میرے اللہ تجھ سے محمد وآل محمد کے حق کے واسطے سوال کرتاہوں کہ مجھے غرق ہونے سے بچا خدانے نجات دی۔

____________________

(۲) مجمع البیان :جلد ۱:ص۲۰۰

۱۹۵

اسی طرح جب حضرت ابراھیم کو آگ میں پھینکا گیا تو انہوں نے بھی یہی الفاظ دہرائے خدا یا محمد وآل محمد کے صدقے مجھے آگ سے نجات عنایت فرمااللہ نے آگ کو ٹھنڈا اورسلامتی کا موجب قراردیااور اسی طرح جب حضرت موسیٰ نے اپنا عصی ٰپھینکا تو دل مین خوف محسوس ہواتوانہوں نے بھی یہی کلمات دہرائے توارشاد خداوندی ہوا۔

( لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَىٰ )

ان سے نہ گھبرا توان سے بلند مرتبہ والاہے۔

آخر میں فرمایا۔

اگر حضرت موسیٰ مجھے پالیتے اورمجھ پرایمان نہ لاتے توان کا ایمان اورنبوت انبیاء کوئی فائدہ نہ دیتی۔

اے یہودی !میری ذریت سے حضرت مہدی ہونگے اسکے مدد کیلئے حضرت مریم ابن اتریں گے اورحضرت مہدی کو آگے کھڑا کرکے اسکی اقتداء میں نماز پڑھیں گے۔

تیری تعریف کرتاہوں میں تیر تعریف کرتاہوں میں نے ظلم کیا تو مجھے بخش دے کیونکہ توبہترین بخشنے والاہے۔

خدایا !تیرے سواء کوئی معبود نہیں توپاک وپاکیزہ ہے میں تیری تعریف کرتاہوں میں نے خود پر ظلم کیاتومجھ پررحم فرماکیونکہ تو بہترین رحم کرنے والاہے۔

پروردگار!صرف تو ہی معبودہے اورپاک وپاکیزہ ہے میں تیری حمد وثناء کرتاہوں میں نے

اپنے اوپر ظلم کیاہے تواپنی رحمت میرے شامل حال فرمااورمیری توبہ قبول فرما کیونکہ توہی توبہ قبول کرنے والااوررحم کرنے والاہے۔

اسی طرح متواتر روایات ائمہ طاھرین میں ہے یہ خمسہ نجباء (حضرت محمد ‘حضرت علی ‘حضرت فاطمہ ‘حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین کا واسطہ دے کرکی گئی دعااور کلمات ذکرکئے گئے تھے

۱۹۶

اورانہیں کی وجہ سے حضرت آدم کی توبہ قبول ہوئی اس دعا کے الفاط یہ تھے۔

یارب ّاسئلک بحق محمد وعلی وفافطمة والحسن والحسین ۔

حضرت آدم بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں ‘پروردگار ا!میں تجھ سے محمد ‘علی ‘فاطمہ ‘ حسن اورحسین کے حق کا واسطہ دیکر سوال کرتاہوں میری توبہ قبول فرما۔

تفسیر برھان میں مذکورہے کہ حضرت امام جعفر صادق ایک روایت مذکورہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک یہودی حضرت رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوااورآپ کے سامنے کھڑے ہوکر آپ کو دیکھنے لگا۔

حضرت نے فرمایا۔کیابات ہے۔

اس نے کہا

میرا ایک سوال ہے کہ آپ افضل ہے یا حضرت موسیٰ بن عمران جبکہ خداوندمتعال نے حضرت موسی ٰبن عمران کیساتھ کلام کیا‘ان پرتورات نازل فرمائی۔

۱۹۷

بہرحال یہ تینوں قسم کی تفاسیر ایک دوسرے کیساتھ اختلاف نہیں رکھتی ہیں کیونکہ ممکن ہے کہ حضرت آدم کوان سب کلمات کی تعلیم دی گئی ہوتاکہ ان کلمات کی حقیقت اورباطنی گہرائی پرغور کرنے سے حضرت آدم مکمل طورپر روحانی انقلاب پیدا ہواور خدااپنا لطف وکرم کرتے ہوئے اسکی توبہ قبول فرمائے۔(۱)

ایک سوال اوراسکا جواب !

حضر ت آدم نے غلطی کیوں کی؟

جواب :اگرچہ آیات۔۔۔۔فتکونا من الظالمین۔اور وعصی آدم فعویٰ ‘اورپھر حضرت آدم کا اعتراف جو قرآن میں حکائت ہواہے

( قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ )

کاظاہریہی بتلاتاہے کہ حضرت آدم سے لغزش ہوئی ہے۔لیکن اگر اس واقع سے مربوط آیات کے بارے میں تذکرہ کریں اورکل شجرہ سے روکنے والی انہی میں دقت کریں تو واضح ہوجاتاہے کہ حضرت آدم سے گناہ سرزد نہیں ہوا۔کیونکہ یہ نہی صلا ح وخیر کی طرف راہنمائی کے لئے تھی حکم مولیٰ نہ تھا۔اس کی والہ بھی موجودہیں۔

( ۱) اس سورہ مبارکہ اورسورہ اعراف میں اس نہی کی مخالفت کو اللہ تعالی ٰ نے ظلم سے قرار فرمایاہے کہ

( وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ )

( قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا )

____________________

(۱) تفسیر نمونہ :جلد۱:ص۱۶۱

۱۹۸

اورسورہ طہ میں اکل شجرہ کے نیچے کو ترک جنت کر کے مشقت دنیوی میں پڑجانے سے تعبیر کیاہے کہ “

( فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَىٰ )

ٰ اوراس سے بعد والی آیات ‘آ یات اس جنت ک اوصف بیان کررہی ہیں کہ اس جنت میں نہ بھوک ہے نہ عریانی اور نہ پیاس ہے نہ سورج کی تپش‘اورایسی مرفہ زندگی والی جگہ نکلنے کو اللہ شقادت سے تعبیر کیاہے اس کا معنی یہ بنتاہے کہ اس شینان کے بھکارے میں آکر اکل شجرہ سے نہیں اس دنیا میں جاناپڑیگاجس بھوک پیاس تھکاوٹ وسختی جیسی مشکلات ہونگیں ایسی زندگی سے محفوظ رہنے کی خاطر جو حکم دیاجاتاہے وہ کسی طرح بھی مولوی نہیں ہوسکتابلکہ مختصر ارشاد وراہنمائی ہے اس کی مخالفت اپنے کو مشقت میں ڈالناہے مولیٰ کی نافرمانی نہیں ہے۔

دلیل : ۲

توبہ جب قبول ہوجائے تواس کا معنی یہ ہے کہ عبد پر کوئی گناہ نہیں ہے” التائب من الذنب کمن لاذنب له“ (۱) کویا توبہ کو قبول ہوجانے کے بعد کا وہی مقام تھاجو گناہ کرنے سے پہلے تھا۔

اگر اکل شجرہ والی نہی مولوی تھی اوتوبہ حضرت آدم سے ازگناہ تھی توجب توبہ قبول ہوگئی توحضرت آدم کو اسی جنت میں واپس لایاجاتاجس سے نکالے گئے تھے جبکہ انہیں توبہ کے قبول ہونے کے باوجود زمیں رکھا گیااس کا لازمی نیتجہ یہ ہے کہ وہ توبہ گناہ سے توبہ نہ تھی اووہ نہی جس کی

مخالفت پرانہیں جنت سے نکلاگیاحکم نہ تھا۔بلکہ وہ عرض خلقت آدم کی تکمیل کے لئے ایک سبب تھا جواکل شجرہ کے تکوینی اثر کے طور ظاہر ہوااورتوبہ گناہ کے اثر تکلیفی کو ختم کردیتی ہے لیکن اثر کوینی وضسی کو ختم نہیں کر سکتی۔

_____________________

بحوالہ میزان الحکمہ :ج۱:حدیث :۲۱۱۶

۱۹۹

دلیل : ۳

قلنا اهبطو ۔۔اوراللہ تعالی نے فرمایاہے ”فامایأتینکم منی هدی ۔۔۔۔

یہ کلمہ ان تمام تفصیلی شریتوں کو شامل ہے جو اللہ نے کتب ورسل کے ذریعے دنیا میں رائج کیں یہ اس چیز کی غمازی کرتاہے کہ دنیا میں انسان کے لئے جو پہلا قانون بنا “امایأتیکم منی هدی ً “ کا جملہ اسی طرف اشارہ کرہاہے۔ تواس کا معنی یہ جب حضرت آدم نے اکل شجرہ اس وقت ابھی قوانین شریعیت بطور تکلیف وضع نہیں ہوئے تھے تو پھر اس اکل شجرہ کے گناہ یا معصیت ہونے کا کوئی معنی نہیں ہے یہاں اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ فرشتے تواس وقت مکلف تھے۔تبھی تو ابلیس کو سجد نہ کرنے پر روندادرگاالہی قرار دیاگیا جواب واضح ہے کہ فرشتوں کا محل تکلیف آسمان ہی تھا لیکن انسان کا محل تکلیف زمین ہے۔

علامہ سید علی نقی (رضوان اللہ علیہ ) کے فرمان کے مطابق نہ یہ حقیقی گناتھا اورنہ ہی توبہ ‘گناہ سے توبہ تھی بلکہ یہ صرف آدم کی جلالت کے لحاظ سے ایک بلند تر مرتبے سے پیچھے رہ جاناتھا۔جس کا احساس خدا کے مقرب بندوں اس سے کہیں زیادہ ہوتاہے جوایک عام آدمی سے بڑے گناہ سرزد ہونے اس کے ضمیر میں پیدا ہوتاہے۔

( قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِیعًا فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ مِنِّی هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلاَخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ ) ( ۳۸)

ہم نے کہا! تم سب یہاں سے اترجاو۔اور جب آپ کے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو جواس کی پیروی کریں گے انہیں خوف ہوگا نہ ملال۔

اھبطواکا تکرارکیوں؟

علماء اعلام نے اس سلسلے میں کئی احتمالات ذکر کئے ہیں بعض علماء کے نزدیک یہ تاکید کے لئے پہلے بھی اترنے کاحکم دیاگیاتھااب دوبارہ تاکیداًحکم دیاجارہا ہے کہ زمین پراترجاو۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217