تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت0%

تفسیر انوار الحجّت مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 217

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین سید نیاز حسین نقوی
زمرہ جات:

صفحے: 217
مشاہدے: 130737
ڈاؤنلوڈ: 3584

تبصرے:

تفسیر انوار الحجّت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130737 / ڈاؤنلوڈ: 3584
سائز سائز سائز
تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف:
اردو

اسی وجہ سے تو ملائکہ خدا کے حضور عرض کررہے ہے پروردگار ہم تمام قسموں اور تقدیس بیان کرنے والوں کی طرح تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاک وپاکیزہ حمد وثنا ہمارا وطیرہ ہے اور تیری حمد وثنا کا نتیجہ ہے کہ ہم زندہ اور قائم ہیں ہم ہر وقت تیر ذکر کرتے تیری بزرگی کا ورد کرتے رہتے ہیں شرک ‘ نقص اور عیب جیسے گناہوں کا ارتکاب ہم سے ناممکن ہے یعنی تو کیا معصیت کاروں کو خلیفہ بنائے گا جبکہ ہم معصوم اور تمام گناہوں سے پاک ہیں۔

یعنی فرشتے سمجھتے تھے کہ اگر مقصد عبوریت اور بندگی ہے تو ہم ہمیشہ عبادت میں ڈوبے رہتے ہیں لیکن وہ اس سے بے خبر تھے کہ انسان کے اندر تین قوتیں ہیں اورانکی زندگی کادارومدار انہیں تین قوتوں پر ہے انسان کے وجود میں سہوت ‘ غضب اور قسم قسم کی خواہشات موجود ہیں ہر وقت انہیں یہ خواہشات گھیرے رکھتی ہیں ان کی وجہ سے انسان فساد اور خون ریزی کرتاہے۔اوراسے تیری قوت عقلیہ بھی ملی ہے اسکی وجہ سے وہ ان خواہشات اور شہوات پر کٹرول حاصل کرے معرفت اوراطاعت الہی کے اعلی ٰ درجے پر فائیز ہوجاتے ہیں۔جب انہیں یہ سب کچھ معلوم نہ تھا اسی وجہ سے انہوں نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی تھی کہ تسبیح وتقدیس وعصمت جو کہ خلافت کا لازمہ ہے ‘ہم میں موجود ہے تو ہمیں ہی خلیفہ بنا دے۔

لیکن انہیں کب معلوم تھا کہ اس آدم علیہ السلام کی نسل سے حضرت محمد ‘ابراھیم ‘نوح ‘موسیٰ ‘اورعیسی ٰ سے اولوالعزم انبیاء اورائمہ اطھار جیسے مصعوم امام اورصالح بندے اس دنیا میں تشریف لائیں گے یہ تو ایسے افراد ہیں جن کی ایک لمحے کی غور وفکر فرشتوں کی سالھا سال کے عبادت کے برابر ہے۔

۱۶۱

شاید اسی وجہ سے علامہ اقبال نے کہاتھا

فرشتوں سے بہترہے انسان بننا

مگراس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

فرشتوں نے فساد کو منظر رکھا لیکن وہ اس طرح متوجہ نہ ہوئے کہ ان کے پاس عقل جیسی قوت موجود ہے اسے بروئے کار لاکر عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ عدالت اجتماعی پرپورا اثر رکھتے ہیں اپنے نفس اورخواہشات پر کنڑول حاصل کرکے اخلاق حسنہ اورصفات پسندیدہ کے حامل ہوسکتے ہیں۔

لامحدود علم الہی۔

ملائکہ کا علم محدود تھا جس کی وجہ سے وہ انسانی کمال سے آگاہ نہ تھے وہ اس سے بھی آگاہ نہ تھے کہ انسان کس استعداد کا مالک ہے انسان میں توانائی پائی جاتی ہے وہ کسی چیز کو یاد کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ‘غیبی حقائق دریافت کرنا ان کے بس میں ہے جبکہ ان کے مقابلے میں فرشتے بے بس ہیں۔

حضرت امام صادق ارشاد فرماتے ہیں:

جب فرشتوں نے بارگاہ الہی میں درخواست کی ہمیں زمین پر خلیفہ بنایاجائے کیونکہ ہم تیری تسبیح ‘ تقدیس اور عبادت میں مشغول رہتے ہیں کبھی بھی تیری معصیت نہ کرتے ہیں جبکہ ہمارے علاوہ جیسے تواپنا خلیفہ بنائے گا وہ عصیان کا مرتکب ہونگے توخدا وند عالم نے انہیں جواب دیا۔

( إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ )

میں وہ جانتاہوں جوتم نہیں جانتے۔

۱۶۲

اس سے ملائکہ کو علم ہوگیا کہ وہ اس بافضیلت مخلوق کے رتبے سے واقعف نہیں ہیں لہذا وہ اپنے سوال پرشرمندہ ہوئے اور عرش الہی میں پنا ہ لی اوراستغفار وتوبہ میں مشغول ہوگئے۔

جب حضرت آدم عدم سے وجود میں قدم رکھتے ہیں تو جنت ان کا مسکن بنا انواع اقسام کے میوے مقدر بنے اور جب ترک اولی ہوا جنت سے زمین پر آئے اللہ کاخطاب ہوا۔آدم زمین پر ایساگھر تیارکروجس میں تیری ذریت کے خطار لوگ پناہ حاصل کریں اوراستغفارکریں اورخود کو خطا اورعصیان سے پاک کریں۔۔۔

جب گھر مکمل ہوا تو گناہ ھگار لوگ برھنہ سر ‘ ننگے پاؤں ‘ اورپریشان بالوں اللہ کے گھر کی طرف متوجہ ہوئے اورتفریح وزاری اور نالہ بیقراری ہوئے ان کی توبہ واستغفار سے رحمت خدا انکے شامل حال ہوئی اس وقت خداوند متعال نے فرشتوں سے خطاب کیا۔

دیکھو آدم کی خلقت میں یہ حکمت ومصلحت ہے۔۔۔اس کی وجہ سے میں نے اسے اپنا جانشین بنایاہے اورپوری کائنات میں وہ اللہ کا خلیفہ قرارپایا۔(۱)

بہر حال( إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ) سے اللہ تعالی کے لامحدودعلم کی طرف اشارہ ملتاہے کہ وہ لامحدود علم کا مالک ہے اورجیسے جتناچاہتاہے اپنے علم سے تواز تاہے اسی لیئے جب فرشتوں نے یہ سنا کہ جو میں جانتاہوں وہ تم نہیں جانتے ‘ فوراًخاموش ہوگئے انہیں یقین ہوگیاکہ خلیفہ الہی کے متعلق ہماراگمان اورخیال درست نہیں ہے۔

____________________

منبھح الصادقین۔جلد ۱ ۔ص ۲۲۴

۱۶۳

( وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِی بِأَسْمَاءِ هَؤُلاَء إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ )

اور (خدانے ) آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی اور پھر ان سب کو ملائکہ کے سامنے پیش کیااورفرمایااگر اپنے دعوے میں (کہ ہم خلافت کے زیادہ حقدار ہیں ) سچے ہوتوان چیزوں کے نام بتاؤ۔

علم آدم :

خداوندمتعال کی ایک بہت بڑی نعمت علم ودانش ہے اس نعمت کی وجہ سے انسان کو پوری کائنات پربرتری حاصل ہے اورعلم انسان کو فرشتوں اوردوسری مخلوقات سے ممتاز بناتاہے اوریہ ایسی صفت ہے جسکا تسبیح وتقدیس کی طرح خلیفہ الہی میں پایاجانا لازمی ہے یعنی خلیفہ اللہ کہلانے والی ہستی کیلئے اعلم ترین ہونا ضروری ہے۔خدا نے کامل انسان کو اپنے لطف وکرم سے حقائق عالم کے ادراک کی استعداد ‘ صفات کمال تک پہنچنے کی طاقت عطا فرمائی ہے اوراس نے آثار اورآیات الہی کے کیساتھ ‘ خدااورکمال الہی کی معرفتاورشناخت حاصل کی اورعبادت اورخودسازی سے کمال حاصل کر جب یہ کمال اپنے درجہ اتم پر پہنچاہے توانسان عالم کہلایااوراس چیز کا حقدار بناکہ اسے خلافت الہی سونپ دی جائے۔

مندرجہ بلاآیت بھی انسان کے علم کو بیان کررہی ہے کہ خدانے اپنے خلیفہ کو اسماء کی تعلیم دی اوراس علم کی وجہ سے اسے فرشتوں پر برتری نصیب ہوئی۔مفسرین نے علم اسماء کی تفسیر میں کافی چیزیں بیان کی ہیں اورمختلف انداز میں اس کی تفسیر کی ہے۔ان سب تفسیروں کو بنیادی طور پر تین نظروں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔

۱۶۴

اس سے مراد خارج میں موجود اشیاء کے نام ہیں یعنی کائنات کی ہر بڑی چھوٹی چیز جودین ودنیا کے ساتھ مربوط ہوسکتی ہے اس کے نام آدم کو تعلیم کئے گئے۔دوسرانظریہ یہ ہے کہ خداوندمتعال نے حضرت آدم کو اشیاء کے خواص ‘ آثار اور معانی سے آگاہ کیاہے مثلاًفرض کریں خدانے کسی جانورکو خلق کیا ہے تواس کی خلقت کے فلسفے کو آدم سے بیان کیاہے اوراس فلسفے کی تعلیم دی ہے۔تیسرا نظریہ یہ ہے کہ ان اسماء سے مراد اسراد آفریتش میں اورخزائن خداہیں۔

جہاں تک پہلے معنی ٰ کا تعلق ہے کہ اس سے مراد ہر جادات ونیابات وغیر ہ کے نام ہیں یعنی یہ فرہنگ لغت ‘ کا علم ہے اوریہ علم کوئی ایسی بلند فضیلت چیز نہیں ہے جیسے ملائکہ کے مقالبے میں شرف وبزرگی کا معیار قرار دیاجاسکے اسی طرح اسکا دوسرا معنیٰ اور نظریہ بھی نامناسب ہے کیونکہ یہ اسماء کے عزمی مفہوم سے خارج ہے کیونکہ الفاظ توان عربی مفاھیم پرآتے ہیں ان معانی پرنہیں آتے جو عقلی تو جیہات کی وجہ سے کھینچ تان کرقراردیئے گئے ہوں۔(۱)

علم آدم اورخزائن غیب:

حضرت آدم کو جن اسماء کی تعلیم دی گئی تھی وہ نہ توالفاظ تھے اور نہ ہی مفاھیم تھے کیونکہ اسماء کیلئے جمع مزکر سالم کی ضمیر لانااس بات کی علامت ہے کہ حقائق خارجیہ تھے‘ مفاھیم زحینہ نہ تھے اللہ کی تمام آیات اورنشانیوں کی تعلیم لازمی ہوتی ہے یعنی متعلم اور معلم کے درمیان کسی قسم کاکوئی واسطہ نہیں ہے۔

بہرحال جن اسماء کی اللہ تعالی ٰ نے حضرت آدم کو تعلیم دی تھی خزائن غیب میں جسکی خدا نے انسان کامل کو تعلیم دی ہے لہذا اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے اسکا تعلق اوررشتہ اصلی وہی مخزن ہے اورجو خلیفہ الہی ہے وہ اس رشید سے باخبر ہے۔

____________________

(۱) فصل الخطاب۔جلد۱۔ص۹۸۔المیزان۔جلد۱۔ص۲۳۳

۱۶۵

حضرت امیرالمئومنین علی ابن ابی طالب ارشاد فرماتے ہیں !

والله لوشسئت ان اخبر کل رجل منکم بمخرجه ومولجه وجمیع شابه لفعلت ولکتی اخاف ان تکفروافِی برسول الله ۔(۱)

مجھے خدا کی قسم اگر میں چاہوں تو آپ میں سے ہرشخص کی جداجدا آئیندہ اورگزشتہ زمانوں کی شرگزشت ‘ اورسرنوشت بیان کرنا چاہوں توبیان کرسکتاہوں لیکن مجھے اس بات کا خوف ہے کہ جب تم مجھ سے یہ اخبارغیب سنکر کفر اختیار نہ کرلواور یہ یقین سے کہنا شروع کردو(معاذاللہ ) علی ‘ رسول خداسے بالاترہیں۔

اس کے بعدارشادفرماتے ہیں۔

الاوانی مفضید الی انی صه ممن یومن ذلک منه

البتہ میں ان خاص اسراروں کو اپنے اولیاء خاص جوکہ امین میں سپرد کرتاہوں۔

بہرحال اس کائنات اورجہاں میں جوچیزیں بھی ظاہر ہیں ان کارشیتہ عتد اللہ ہے اورکائنات میں کیسی ایسی چیز کا وجود نہیں ہے جیسے خلیفہ اللہ ‘ولی ا لقدر اورانسان کامل نہ جانتاہو۔(۲) اسی علم کی وجہ سے حضرت آدم خلیفہ الہی قرار پانے کے حقدار ٹھہرے اورانہیں فرشتوں پر برتری اورفضیلت ملی۔

___________________

(۱) تسبیح وخطبہ۔۱۷۵

(۲) تفسیر قرآن جوادی آملی جلد۶۔ص۱۹۶

۱۶۶

فضیلت آدم۔

جب خدا وندعالم نے حضرت آدم کی تمام فرشتوں اورکائنات پرفضیلت بیان کرنا چاہی تواس نے حکم دیاکہ آسمان پرنور کا منبر لگایاجائے اس کے اوپر نورانی کرسی رکھی جائے اور تمام فرشتے اس منبر کے قریب حاضر ہوجائیں جب سب حاضر ہوگئے توحضرت آدم کو حکم دیاگیاکہ منبر پرتشریف لے جائیں وہاں مسلحات کو پیش کیاگیا۔(یعنی جن کے نام تھے ان کو پیش کیاگیااورکہاگیاکہ ان کے نام بتاؤ)(۱)

یہاں انسیلونی باسماء ھولادہے یعنی مجھے ان لوگوں کے نام بتاؤ یہ نہیں کہاگیاانسبئون مھذہ الاسماء (مجھے یہ نام بتاؤ ) اس سے واضح ہوجاتاہے کہ پیش کئے جانے والے اسماء نہیں تھے بلکہ اصحاب اسماء تھے اوراس سے مراد صاحب عقل ھستیاں ہیں اوریہ وہی ہستیاں ہیں جنکا تعارف اور جنکی پاک سیرت کوظاہر کرنے والے خط وخال ہی ملائکہ کو بشری عظمت کااحساس

دلائیں اوراللہ تبارک وتعالیٰ خلافت کے لئے جوان ہستیوں کاانتخاب کیاہے یہ فرشتوں کے سوال کا مکمل جواب بن جائے۔

بہرحال ایک سوال باقی ہے کہ ان ہستیوں اورمسحمات کو فرشتوں کے سامنے پیش کرنے کی کیاضرورت تھی۔اس سلسلے میں مفسرین نے کئی اقوال ذکر کیئے ہیں۔ان میں اہم ترین تین قول ہیں۔

بعض مفسرین کاخیال ہے کہ خداوندمتعالنے ابتداًتمامموجودات کو خلق فرمایااس کے بعدفرشتوں کے سامنے انہیں پیش کیاگیااوران سے کہاگیاکہ ان کے اسماء بتاؤ۔

____________________

(۱) مبتھح الصادقین۔جلد ۱۔ص۲۲۷

۱۶۷

بعض مفسرین کا خیال ہے خدانے اپناارادہ تکوینی فرشتوں کے دل میں ڈالااورانہوں نے خداکے ارادہ تکوینی سے تمام موجودات کامشاہدہ کیایعنی خدانے چاہاکہ فرشتے موجودات کا مشاہدہ کریں فوراًانہوں نے مشاہدہ کیااوراپنے لاعلمی کااعلان کردیا۔

بعض مفسرین کاخیال ہے کہاس سے صرارروح ہے اورفرشتوں کا عالم ارواح جیسے عالم انوار بھی لکھتے ہیں میں امتحان دیا اورانہوں نے انسان کامل کے مقابلے میں لاعلم ہونے کا اعتراف کرلیا اورحضرت آدم کی فضیلت اور برتری کو تسلیم کرلیا۔

کیافرشتے سچے نہیں؟

خداوندمتعال نے اس آیت میں کہاہے کہ اگر تم سچے ہوتوان مسمیات کے نام بتاؤ اوروہ نام نہ بتاسکے اس سے ظاہرہوتاہے کہ فرشتے (نعوذباللہ) کسی نہ کسی لحاظ سے سچائی کے معیار سے الگ ضرورہیں اوریہ ملائکہ کی عصمت کے خلاف ہے۔اس کے جواب میں اتنا کہناکافی ہے کہ صدق کا وہ مفہوم جسکی وجہ سے اس کو کذب کے مقابل اورمتضاد سمجھا جاتاہے یہ لفظی اصطلا ہے اس لحاظ سے فرشتوں کوصرف صادق ہی کہاجاسکتاہے کیونکہ صدق اورکزب کا احتمال خبر میں ہوتاہے انشاء میں نہیں ہوتا‘ انساء میں صدق ہماصدق ہوتاہے اورفرشتوں نے اس سے پہلے جو کہاہے

أتجعل فیها ۔۔۔

(کیا تو زمین میں اس کو خلیفہ بنانے والاہے۔)

یہ جملہ ستفھامیہ ہے اس میں صدق وکذب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہذا مانناپڑے گاکہ یہ ان کی عصمت کے خلاف نہیں ہے۔اورخداوندمتعال کلام مخاطب کیساتھ کہتاکہ اگر تم سچے ہوتوان کینام بتاؤ یہ تسبنیہ اورتسبکیت کے عنوان سے ہے۔یایہ ہے کہ چونکہ وہ اپنے دل میں یہ خیال لاتے تھے کہ ہم سے بڑھ کر کوئی مخلوق نہیں ہے اورہم سب سے افضل وبرتر ہیں۔(۱)

____________________

(۱) انهم قالوافی انفسهم ماکنانطن ان تحلق الله خلقا اکرم علیه منانحن خوان الله وجیرانه واقرب الخلق الیهتفسیر عیاشی

۱۶۸

یہ خیال گناہ نہیں کہ وہ سزا کے مستحق ٹہریں اورانکی عصمت کے خلاف ہو بلکہ یہ خیال ان کے نقص علم کی وجہ سے ہے جسکا ادراک انہیں امتحان کے بعد ہوگیا کہ ہم اس منصب کے اصل نہیں ہیں لہذا چونکہ ان کے ذہن میں آنے والی بات صادق نہ تھی اس لیئے امتحان کے وقت کہاگیا تھا کہ اگر سچے ہوتو تام بتاؤ لہذا فرشتوں کی عصمت پرکسی قسم کاکوئی حرف نہیں ہے اوروہ سچے اور معصوم ہیں۔

( قَالُوا سُبْحَانَکَ لاَعِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنْتَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ )

ملائکہ نے عرض کی تو ہر برائی اورعیب سے پاک ہے ہم تو وہی جانتے ہیں جسکا تونے ہمیں علم دیاہے۔یقیناتوبڑا جاننے والا اور مصلحتوں کو پہچاننے والاہے۔

خاصان خدا کا انداز گفتگو:

یہ فرشتوں کا خاصہ ہے کہ جب بھی وہ گفتگو کرتے ہیں اسکی اتبداء تسبیح خداوندقدوس سے کرتے ہیں اوراس کی انتہاتقدیس پرکرتے ہیں اوراس کے درمیان آپنی بات بیان کرتے ہیں مثلاًاسی زیر نظرآیت میں خداوندمتعال سے اس طرح گویاہے خداتوہر برائی اورعیب سے پاک ہے اورآخر میں تقدیس‘تنزیہ اورتحمیدبیان کرتے ہے کہ توہی دانا وحکیم ہے اور تسبیح وتقدیس کے درمیان نہایت مودبانہ انداز میں عرض کررہے ہے کہ ہم توکچھ بھی نہیں جانتے ہمیں توصرف اس چیزکاعلم ہے جوتو نے ہمیں تعلیم دی ہے۔

۱۶۹

البتہ یہ صرف فرشتوں کاخاصہ نہیں ہے بلکہ انبیاء علیھم اسلام بھی اس طرح مودبانہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں مثلاًحضرت موسیٰ حکیم اللہ جب اللہ سے بات کرناچاہتے تو پہلے تسبیح وتقدیس کرتے پھر اپنی بات بیان کرتے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔

( سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ ) ۔(۱)

توپاک وپاکیزہ ہے اور میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتاہوں۔

اورحضرت یونس اس انداز میں خد اسے تکلم فرماتے ہوئے نطر آتے ہیں۔

( لا إِلهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ ) ۔(۲)

پروردگار !تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے توپاک وبے نیاز ہے۔اور میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے تھا۔

انسان اورفرشتے میں فرق

انسان کی ایک بہت بڑی خصوصیت ایسی ہے جو پوری کائنات میں کسی مخلوق خدا کے حصے میں نہیں آئی۔اوروہ خصوصیت یہ ہے اس میں اختیاری طور پر عملی اورعلمی ترقی کی لامحدود صلاحیت پائی جاتی ہے انسان کے علاوہ باقی تمام مخلوقات خواہ وہ مجادات نباتات ہوں یاوہ صفائے جوھر کی بلندوبالا مخلوق فرشتے ہوں‘انہیں جوکچھ خدانے اعطاکیاہے وہ سب کے سب کمالات اتنے ہی رکھتے ہیں جتنے انہیں عطاہوتے ہیں ان عطایائے الہی کو اپنی قابلیت سے مذید بڑھانے کی طاقت یاتوان میں بالکل ہی نہیں ہے یاپھر اگر ہے توانتہائیانتہائی محدودحدتک ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب فرشتوں سے امتحان لیاتو یہ امتحان بھی حافظ اور یاداشت کاامتحان نہ تھا‘اگر حافظ کا امتحان ہوتاتو فرشتے شکست نہ کھاتے بلکہ سب کچھ بتادیتے کیونکہ فرشتے سہووسنیان سے بلاتر مخلوق ہے یہ اپنی یاداشت میں نہ سبعر کرتے ہیں اورنہ انہیں کوئی چیز بھول جاتی ہے۔

____________________

(۱)اعراف :۱۴۳

(۲) انبیاء :۸۷

۱۷۰

لیکن یہاں امتحان حافظے کا نہیں تھابلکہ یہ ذحانت کا امتحان تھا‘انہیں اسماء کی تعلیم دی گئی تھی اوران کے سامنے مسحیات کو پیش کیاگیاکہ ان کے ناموں کی تطبیق کرتیں ‘لہذا یہ عقل وفراست کاامتحان تھااوراس چیز کا سوال تھاجوانکو بتائی جانے والی حدود سے باہر تھا۔لہذا فرشتوں نے بارگاہ خداوندی میں اپنی کم علمی اور انکساری کااعتراف کرتے ہوئے عرض کیا۔

پروردگار ! جو کچھ تونے سکھایاہے ہم توفقط اسے ہی جانتے ہیں جبکہ اسماء کے حقائق اور معارف ہمیں نہیں سیکھائے گئے لہذا اسے ہم نہیں جانتے تو جب بھی کسی کو کسی چیز کی تعلیم دیتاہے تو وہ تیرے علم وحکمت اورمصلحت کے مطابق ہوتی ہے ہم مقام خلافت کے لائق نہ تھے لہذا تو نے ہمیں اسکی تعلیم نہ دی۔

( قَالَ یَاآدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکُمْ إِنِّی أَعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ )

(اللہ) نے فرمایاہے اے آدم انہیں ان موجودات کے اسماء (واسراء ) سے آگاہ کرو جب اس نے انہیں آگاہ کیاتو(خدا) نے فرمایا۔کیا میں نے کہاتھاکہ میں زمین وآسمان کے غیب کو جاتاہوں اور جوکچھ تمہارے ظاھرو باطن میں ہے اس سے واقف ہوں۔

علم معیار خلافت:

گزشتہ آیات میں جب ملائکہ نے انسان کی ظاہری خلقت اور پہلے سے زمین پررہنے والی مخلوق کے حالات کا مشاھدہ کیاتھا تواللہ تعالیٰ سے سوال کیاتھاکہ آدم کس طرح خلیفہ بن سکتے ہیں یہ تو زمین پرفساد اورخون ریزی کریگاجبکہ ہم تیری تسبیح وتقدس کرتے ہیں کیاہم اس سے افضل نہیں؟ اس آیت میں خداوندعالم جواب دینے کیلئے حضرت آدم کے علم ‘باطنی استعداد اورلیاقت کو بیان فرمارہے ہے۔اورگویایہ بتاناچاہتاہے کہ معیار خلافت صرف تسبیح وتقدس نہیں بلکہ اس کے ساتھ علم بھی ضروری ہے۔

۱۷۱

جیسا کہ خداوندعالم کاارشاد ہے۔

( إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ ) ۔

اللہ نے اس (طالوت ) کو تمہارے لیئے منتخب کیاہے اوراسکے علم وجسم میں وسعت عطافرمائی۔

یہی معیار حضرت آدم کی خلقت اور اعطاء خلافت میں بھی مدنظر رکھاگیا۔کیونکہ مرحلہ تشریح قانون سازی عالم کل ذات کے ہاتھ میں ہے لہذا مرحلہ عمل میں ضروری ہے کہ اس کو خلیفہ بنایا جائے جو علم ونہم میں پوری کائنات پر فوقیت رکھتاہو۔

اب اس معیار کو مرصح ظہور کرنے کیلئے حضرت آدم کوحکم دیاجارہا ہے کہ تم ملائکہ کو حقائق ہستی سے آگاہ کرو حضرت آدم نے ان حقائق سے ملائکہ کو آگاہ فرمایااس وقت ملائکہ پر حضرت آدم کی برتری اور فضیلت واضح ہوگی اورمنصب خلافت کا حقدار ہونا بھی روشن ہوگیاکہ خلیفة اللہ وہی ہوسکتاہے جس کے پاس تمام مخلوق کے حقائق کاعلم ہو۔

اب خداوندمتعال فخر سے فرمایارہاہے

( قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ )(۲)

کیا میں نے تمہیں نہیں کہاتھاکہ میں زمین وآسمان کے پوشیدہ امور کو جانتاہوں۔

یہ سن کر ملائکہ حکم پروردگار کے سامنے سر تسلیم خم ہوگئے۔کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مغیبات اورمصالح کاعالم اورحکیم ہے۔

اس آیت کہ آخر میں فرمایاجوکچھ تمام ظاہر کرتے اور چھپاتے ہواسے میں جانتاہوں یہاں ملائکہ نے بعض چیزوں کو توظاہر بظاہر بیان کیاتھاکہ حضرت آدم کی اولاد فساد وخون ریزی کرے گی اورحضرت آدم پراپنی برتری کو چھپاتے تھے کہ ہم حضرت آدم سے افضل نہیں لہذاخداکہتاہ ے کہ جوکچھ تم چھپاتے اورظاہر کرتے تھے میں اسے جانتاہوں۔

____________________

(۲) غیب کے بارے میں کہاجاسکتاہے کہ اس سے مراد وہ پوشیدگی ہے جسکو ہماری نسبت دی جاسکتی ہے وگرنہ ذات حق پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے لہذا قرآن مجید میں جس مقام پر غیب کی نسبت خدا کی طرف ہے اس سے یہی مراد ہے جیسے “عالم الغیب والشهاده“

۱۷۲

پس واضح ہوگیاتمام اچھے اوصاف میں علم کامرتبہ سب سے بلند ہے اورعلم ہی الہی خلافت کامعیار ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین بھی مقام افتخار میں اپنے علم کو پیش فرماتے تھے۔

رضیناقسمة الجبار فینا

لناعلم ولاعدٰء مال

فان المال یغنی عن قریب

وان العلمه یبفیٰ لایترال

ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس تقسیم پر بہت راضی ہیں کہ اس نے ہمیں علم سے نواز ا ‘اور ہمارے دشمنوں کو مال ودولت دیاجبکہ مال توجلدہی ختم اورفنا ہوجائے گااورعلم غیرفانی دولت ہے۔

( وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِیسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنْ الْکَافِرِینَ )

جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو ‘ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا۔اس نے نکار اورتکبرکیااور وہ کافروں میں سے تھا۔

۱۷۳

مسجود ملائکہ:

جب خداوند متعال نے حضرت آدم کو حقائق ہستی کی تعلیم دی اورحضرت آدم کی ملائکہ پر استعداد واضح ہوگی اورحضرت آدم کو ملائکہ کااستاد بنادیاتوتمام ملائکہ کو خلیفہ الہی کی عزت واکرام کیلئے سجدہ کرنے کاحکم دیا۔ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا۔(۱)

یہ سجدہ عبادت خداوندی کیلئے تھاکیونکہ قرآن ‘سنت اوراولہ غعلبہ سے ثابت ہے کہ عبادت صرف ذات حق سے مختص ہے اس لئے ملائکہ نے حضرت آدم کو جوسجدہ کیاتھاوہ حضرت آدم کی بندگی اورعبادت نہ تھی فضل وکمال کے اظہار کے لئے تھا اورحضرت آدم کو قبلہ قرار دیاگیاتھااسی لیے ابلیس

نے سجدہ کرنے سے انکار کردیاتھا۔

۱ ۔ اسی طرح حضرت رسول اکر کافرمان بھی ہے۔

لم یکن سجود هم لآدم انما کان آدم قبلة ًلهم یسجدوں نحوة للله عزوجل ۔(۲)

حضرت آدم کو کیے جانے والے سجدہ میں حضرت آدم فرشتوں کیلئے قبلہ بنائے گئے تھے انہوں نے حضرت آدم کی طرف اللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے سجدہ کیا۔

۲ ۔جیسے کہ امیر المومنین فرماتے ہیں۔

لماخلق الله آدم ابان فضله للملائکه واراهم فاخصد به من سابق العلم ومعرفة الاسماء وجعله‘ محراباًوکعبة وباباًوقبلةً ۔۔۔(۱)

ترجمہ: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو خلق فرمایاتواس کے فضل وکمال کو ملائکہ پر ظاہر کیا اورحضرت آدم کی سبقت علمی اور معرفت اسماء کی خصوصیت انہیں دکھلائی۔اوراسے محراب اورکعبہ ‘باب اللہ اورقبلہ قراردیا۔

____________________

(۱) قرآن مجید کی اس آیت کے آغاز میں لفظ اذ ہے اسکا تعلق اذکر مقدر کیساتھ ہے۔اس کا مطلب یہ ہے تم اس واقعہ کو ہمیشہ یادرکھو اوراس سے عبرت اورنصیحت حاصل کرو۔الفرقان۔ص۲۹۴:ج۱

(۱) مستدرک ‘ نہج البلاغہ :۳۸(۲) تفسیر البرھان :ص۸۱:جلد ۱

۱۷۴

آیاسجدہ عبادت ذاتی ہے؟

ہرسجدہ تذلل ‘خشوع وخضوع اورعبادت شمارنہیں ہوتاکہ اسے ہم عبادت ذاتی قرار دیں۔جن لوگوں کایہ خیال ہے سجدہ ایساعمل ہے جس کے عبادت بننے کے لئے اللہ کے امر اورحکم کی ضرورت نہیں ہے۔یہ خیال درست نہیں ہے کیونکہ عبادت کا معنیٰ یہ ہے‘ عبد اپنے آپ کو مقام عبادت میں قراردے اورصرف اس کام کو بجالائے جو مولیٰ کی طرف سے مقررہو۔اسکا کامعنیٰ یہ کہ فعل عبادع میں ضروری ہیکہ مولاکی مولویت اورعبد کی عبودیت کے اظہار کی صلاحیت پائی جائے۔ اور یہ خصوصیت سجدہ میں منحصر نہیں ہے البتہ سجدہ مولیٰ کی آقائی اورعبد کی عبودیت پر دلالت کرنے والے اعمال میں سب سے واضح عمل ہے اس میں عبد نیاز جبیں کو خاک پر رکھ دیتاہے لیکن پھر بھی یہ ذاتی عبادت نہیں ہے۔اگریہ ذاتی عبادت ہوتاتواللہ تعالیٰ غیراللہ کو سجدہ کرنے کا حکم نہ دیتاجیسا کہ اس آیت کے علاوہ ایک مقام پرارشاد وقدرت ہے۔

( وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ) ۔(۱)

یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت یعقوب ‘انکے بیٹوں اورانکی شریک حیات کے عمل کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ فروالہ سجداًکہ وہ سب حضرت یوسف کی عظمت کے سامنے سجدہ ریز ہوئے۔ ملائکہ کاحضرت آدم کو سجدہ کرنا بھی خدا کی عبادت تھی اوراس کے حکم کی اطاعت اس میں تھی کہ حضرت آدم کے شرف وکمال کیلئے سجدہ کیاجائے اور حضرت آدم کا یہ شرف وکمال محض انکی وجہ سے نہ تھا بلکہ آپ کے وجود وسعود میں انوار مقدسہ عالیہ کے باعث تھا۔جیسا کہ حضرت رسول اکرم کا فرمان ہے۔

____________________

(۱) یوسف:۱۰۰

۱۷۵

ان الله تبارک وتعالیٰ خلق آدم فاودعنا صلبه وامر الملائکة بالسجود نه تعظیماًلنا واکراماًفکان سجود هم الله عزوجل عبودیة ولادم اکراما وطاعیة لکوننافی صلبه ۔(۱)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب حضرت آدم کو خلق فرمایاتو ہمیں امانت کے طور پر اس کے صلب میں رکھا۔اور ملائکہ کو حکم دیاکہ اسے ہماری تعظیم اوراکرام کیلئے سجدہ کریں لہذا ان کاآدم کو سجدہ کرنا اللہ تعالیٰ کیلئے عبادت کے عنوان سے اورحضرت آدم کے لیئے احترام اوراطاعت کے عنوان سے تھا کیونکہ ہم اسکی صلب میں تھے۔

حقیقت سجدہ:

خداوندمتعال نے اس آیت مبارکہ میں فرشتوں سے حضرت آدم کو قبلہ سمجھ کر سجدہ کاحکم دیاہے اوریہ اللہ کی عبادت ہے اورحضرت آدم اور معصومین کی تعظیم ہے۔یہاں یہ گمان پیدانہ ہوکہ تعظیمی سجدہ جائیز ہے ایسا نہیں ہے کیونکہ

اولاً:حضرت آدم کو قبلہ سمجھ کر خداکیلئے سجدہ کیاگیاتھا۔

____________________

(۱) نور الثقلین :جلد۱:ص۵۸

۱۷۶

ثانیاً:اگر یہ کہیں صرف اورصرف حضرت آدم کیلئے تعظیمی سجدہ تھااوراسے قرار نہیں دیاگیاتھا تو کہہ سکتے ہیں کہ اگر پہلی شریعتوں میں تعظیمی سجدہ جائیز بھی تھاتواسلام نے اسے منسوخ قراردیاہے۔( ۱)

بہرحال غیراللہ کو سجدہ کرناحرام ہے( ۲) اورقرآن مجید کی آیات بھی یہی کہتی ہیں ( ۳) اورروایات میں بھی یہی حکم ہے۔( ۴)

____________________

(ا) جیسا کہ سیوطی اسباب نزول میں یہی کہتاہے کہ اس شریعیت میں یہ منسوخ ہے اور تفسیر لوامع التزیل جلد ۱:ص۱۸۹‘پر بھی تصریح موجود ہے کہ سابقہ شریعتوں میں تعظیمی سجدہ جائیز تھا مگر اسلام میں منسوخ قرار دیاگیاہے۔

(۲)یحرم السجود لعیز الله تعالیٰ من دون فرق بین المعصومین وغیرهم ومایغعله الشیعة فی مشاهد الائمه لابد ان یکون للة شکراتوفیقهم لزیارتهم والحضور فی مشاهد هم ۔منھاج الصالحین امام خوشی :جلد۱:ص۱۷۹

یعنی غیراللہ کو سجدہ کرناحرام ہے خواہ معصومین ہویاان کے علاوہ کوئی اورہو۔البتہ شیعیان حیدرکرار ائمہ اطھار علیھم اسلام کی ضریحوں پر جوسجدہ بجالاتے ہیں وہاللہ تبارک وتعالیٰ کے شکرکیلئے ہیاس نے انہیں ان مبارک ضریحوں پرحاضرہونے اورانکی زیارت کی توفیق عطافرمائی ہے۔

(۳) قرآن مجید کی آیت میں تصریح موجود ہے کہ سجدہ فقط خداتعالیٰ کی ذات کیساتھ مخصوص ہے جیسا کہ ارشاد ربالعزت ہے “ان الذین----له سیجدون :۷:۲۶‘اورلاتسجدوا واسجدوالله :۴۱:۳۷‘اوران المساجد للله ۔۲ ۷ :۸ ۱ (۴) ابوحمزہ مسجدہ کوفہ میں حضرت امام زین العابدین کوسجدہ کرناچاہتاتھاتوحضرت نے فرمایا”ایسانہ کرو سجدہ توفقط اللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے ہے‘مفاتح الجنان۔زیارت ہفتم اسی طرح ایک جاثلیق حضرت امیرالمومنین کی شخصیت سے متاثر ہوکر آپ کو سجدہ کرناچاہتاتھاتوحضرت نے ارشادفرمایا‘

اسجدلله ولاتسجدلی اللہ کو سجدہ کرو مجھے سجدہ نہ کرو۔

تفسیر مخزرازی جلد:۲:ص:۲۱۲ اور عمادالاسلام :جلد۱:ص ۳۳۵

۱۷۷

حقیقت ابلیس:

ابلیس کا معنی“ رحمت الہی سے مایوس ہونے والا“ ہے سجدہ الہی سے انکارکے باعث رحمت الہی سے مایوس ہواتوشیطان کا نام ابلیس بن گیاجبکہ روایات مطابق اس کانام حارث یاغرازیں تھااوررحمت الہی سے مایوس ہونے کی وجہ سے یہ شیطان کانام ہے اسیلئے اسے ابلیس کہتے ہیں۔ حقیقت ابلیس کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف رائے ہے بعض کے خیال کے مطابق یہ ملائکہ میں سے تھااوروہ اس کی دلیل یہ بتاتے ہیں کہ اگر یہ ملائکہ سے نہ ہوتاتو ملائکہ کے زمرے میں اسے خطاب نہ کیاجاتااور ملائکہ سے الااستناتیہ کے ذریعے اسکو الگ نہ کیاجاتا۔تواس سے معلوم ہوتاہے کہ ملائکہ کایہ ہم جنس تھا۔

لیکن حق یہ ہے کہ ابلیس ملائکہ میں سے نہ تھے اس کی دلیل کے لئے قرآن مجید کی آیات اورروایات موجود ہیں۔جیسا کہ خداوندمتعال کافرمان ہے۔

( فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ ) ۔(۱)

تمام ملائکہ نے حضرت آدم کو سجدہ کیایہاں مھکم یہی بتا رہے ہے اس جنس ملائکہ سے ایک فرد بھی ایسا نہ تھاجس نے سجدہ نہ کیاہو۔

اسی طرح ایک اوجگہ ارشاد رب العزت ہے۔

( وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ) ۔

____________________

(۱) سورہ حجرایت :۳۰

۱۷۸

جب ہم نے ملائکہ سے آدم کے لیے سجدے کا انکار کیا توسب نے سجدہ کیااورابلیس نے نہ کیاوہ جنات میں سے تھااوراس نے اپنے رب کے حکم سے فسق اختیارکیا۔(۲)

بہرحال جن اور ملائکہ دو جداجدا مخلوقات ہیں(۳) لہذا یہ ہم جنس نہیں ہیں۔

یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ جب یہ ہم جنس نہیں تھے اورآیت مبارکہ میں سجدہ کرنے کاحکم ملائکہ کوہواہے ابلیس کو حکم نہیں ہواتو پھر نافرمانی پراسے راندہ درگاہ الہی اورلعین کیوں قرار دیاگیا؟

نیز عرفی محاورات میں بھی ایسے ہی ہے جب ایک فرد کسی گروہ میں یوں مل گھل جائے کہ علیحدہ شمار نہ ہوتاہو تو جب اس کو خطاب ہوتاہے تو وہ فرد خود اس گروہ کے ضمن میں مخاطب ہوتاہے۔ اورکلام عرب میں موالی قبائل کے بارے میں اکثر ایسی تعبیرات ملتی ہیں۔

اسکا جو اب یہ ہے کہ پوری امت مسلمہ کااجتماع ہے کہ سجدہ کرنے کاحکم ابلیس کو بھی ہواتھا

اور قرآن مجید میں بھی دوسرے مقام پرارشاد قدرت ہے۔

( مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ) ۔

____________________

(۲) سورہ اعراف:۵۰

(۳) جنات کوآگ سے پیدا کیاہے لہذا یہ ناری مخلوق جبکہ فرشتے نوری مخلوق ہیں یہ معصیت نہیں کرتے کیونکہ ان میں حیوانی غرائیز نہیں پائے جاتے جو نافرمانی اورتمیز کے متفاقی ہوتے ہیں۔ناری مخلوق اورحیوانات غرائیز حیوانی (کھانا پینا‘ نکاح کرنا رکھتے ہیں اورابلیس کو خدانے آگ سے پیدا کیاتھاجیساکہ یہ خود فخریہ انداز میں کہتاہےاناخیر خلقتنی من نار ۔

سورہ اعراف:آیت ۱۲

۱۷۹

میں زیادہ بہت ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا لہذا اس میں غریز ہ حیوانی تھا وج نافرمانی اورسرکشی کا متقاضی ہے۔

جب تمہیں سجدہ کرنے کاحکم دیاگیاتو پھر کس چیز نے تمہیں سجدہ کرنے سے روکا۔(۱)

فرشتوں کو سجدہ کاحکم دیئے جانے کے علاوہ قرآن مجید میں کسی اور سجدہ کا حکم نہیں لہذا یہ آیت ابلیس کو مخاطب کر کے کہہ رہی ہے تم نے حکم عدولی کیوں کی اورسجدہ کیوں نہ کیا۔لہذا جب ابلیس کو بھی سجدہ کا حکم تھااوراس نے نافرمانی کی اورلعنت کامستحق ٹہرااورآواز قدرت آئی۔

( قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ ﴿﴾ وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ ) ۔(۲)

یہاں سے نکل جابیشک تو راندہ درگاہ ہے اورقیامت تک تجھ پرلعنت برستی رہے گی۔

( وَقُلْنَا یَاآدَمُ اسْکُنْ أَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُلاَمِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَتَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ وَلاَتَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنْ الظَّالِمِینَ )

ترجمہ:ہم نے کہااے آدم تم اپنی زوجہ کیساتھ جنت میں رہواور جو جی چاہے (آزادی سے کھاو) تہمیں کھانے کااختیار ہے لیکن اس درخت کے نزدیک نہ جاناوگرنہ تجاوز کرنے والوں میں سے ہوجاو گے۔

گزشتہ آیات میں حضرت آدم کی خلقت کے اجتماعی جہات کے متعلق بات ہوتی رہی ہے جسمیں حضرت آدم کی خلقت ‘خلافت الصیرّ‘تعلیم اسماء‘اور معلم ملائکہ ہونے کے حوالے سے تذکرہ ہوا۔اب اس آیت سے حضرت آدم کے انفرادی پہلووں کا تذکرہ ہورہاہے۔اس میں دنیاوی زندگی میں ‘شریک حیات ‘رہایش کی جگہ (جنت ) اور دیگر ضروریات زندگی کو بیان کیا جارہاہے۔

____________________

(۱) اعراف:۱۲(۲) سورہ حجرآیت :۳۴‘۳۵

۱۸۰