تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت0%

تفسیر انوار الحجّت مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 217

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین سید نیاز حسین نقوی
زمرہ جات:

صفحے: 217
مشاہدے: 130583
ڈاؤنلوڈ: 3582

تبصرے:

تفسیر انوار الحجّت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130583 / ڈاؤنلوڈ: 3582
سائز سائز سائز
تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف:
اردو

تشکیل خانوادہ:۔

حضرت آدم کو خلقت کے بعد تنہائی کی وحشت سے دوچار ہوناپڑا۔تنہائی کو ختم کرنے کے لئے پروردگار عالم نے آپ کے لئے شریک حیات کو خلق فرمایاتاکہ حضرت آدم تنہائی کے کرب سے نکل آئیں حضرت حواّ کی تخلیق کی جزئیات قرآن مجید میں صراحت کیساتھ مزکورنہیں البتہ قرآن مجید میں دوآیات ایسی ہیں جن میں حواّ کی خلقت کی طرف اشارہ موجود ہے۔ارشادرب العزت ہے۔

( هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ) ۔( اعراف : ۱۸۹)

وہ اللہ جس نے تہمیں ایک نفس سے پیدا کیاہے اوراسی سے اس (نفس واحدہ) کا حقبت بنایاہے تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے۔

بہرحال ان آیات سے اتنا واضح ہوتاہے کہ ان دونوں کوایک چیز سے پیدا کیاگیاتھاان کی پیدائش کے حوالہ سے علماء اکرام میں بہت زیادہ اختلاف پایاجاتاہے بعض کے نزدیک حضرت آدم کی ساخت سے بچ جانے والے خمیر سے حواّ کو خلق کیاگیاتھا اس کے مقابلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت حواّ کو حضرت آدم کی بائیں پسلی سے خلق کیاگیاتھااوراس کی تائید حضرت امیر المومنین کے احکام اور قضایامیں نقل ہواہے۔

یہ ایک طویل واقعہ ہے جس میں ایک شخص کو بلایاگیا۔جسکے دونوں آلے تھے ‘حضرت سے پوچھا گیاکہ یہ عورت ہے یامرد۔

حضرت نے اسکی پہچان کی مختلف صورتیں بیان فرمائیں اورآخر میں فرمایااسکی پسلیاں دیکھی جائیں اگر ایک پسلی کم ہے تو یہ مرد ہے اوراگرزیادہ ہے توعورت ہے۔( ابوالفتوح زازی جلد ص)

بہر حال اسی وجہ سے حضرت آدم نے اسکانام حواّرکھا کیونکہ یہ پسلی سے زندہ خلق کی گئی تھی۔

۱۸۱

حقیقت جنت:

حضرت آدم کی تسکین کیلئے جب حضرت حواّ کو خلق کیاگیاتواس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم سے فرمایاکہ جاو جنت میں رہو۔

حضرت آدم جناب حواّ کے ساتھ جنت میں رہنے لگے۔(۳)

علماء کرام کے درمیان اختلاف پایاجاتاہے کہ اس جنت سے کونسی جنت مرادہے تفاسیر نے اس سلسلے میں کم ازکم چار مقامات کاتزکرہ فرمایاہے۔(۴) لیکن شاید صحیح قول یہ ہے کہ یہ دنیا وی جنت ھی۔اس سلسلے میں روایات بھی موجودہیں جو اسکی تائید کرئی ہیں مثلاًحسین ابن یسر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت آدم کی جنت کے متعلق حضرت امام جعفر صادق سے سوال کیاتوحضرت نے ارشاد فرمایا۔

یہ دنیاوی جنات میں سے ایک جنت تھی جن جنت میں شمس وقمر طلوع کرتے تھے (مزید فرمایا) اگر یہ آخرت کی جنت ہوتی تو کبھی بھی حضرت آدم کو وہاں سے نہ نکالاجاتا۔(۵)

____________________

(۳) جنت کی اصل جن سے پہلے اسکا معنی پوشیدہ ہوتاہے لہذا ایسی زمیں جو درختوں سے پوشیدہ ہوگی ہواور اسمیں سرسبز باغات ہوں اسے جنت کہاجاتاہے۔

(۴) علماء نے ویسے توکئی جنات کاتزکرہ کیاہے لیکن چار جنتیں زیادہ شہرت رکھتی ہیں

الف۔جنت برین۔

ب۔ کسی اورسیارے کی جنت۔

ج۔ علم برزخ کی جنت۔

(۵) سألت اباعبدالله عن جنة آدم مقال جنات الدنیاتطلع فیها الشمس والضمر ولوکانت من جنات الآخرة ماخرج مناه ابداکافی

۱۸۲

اورگزشتہ آیات کاسیاق سباق بھی یہی بتاتاہے کہ یہ دنیا وی جنت تھی کیونکہ ارشاد رب العزت ہے۔

آدم کو مٹی سے پیدا کیاگیا۔(۱)

حضرت آدم کو زمین کے لئے خلیفہ بنایا گیا۔(۲)

اسی طرح روایت میں معصوم نے فرمایا۔

لولا الحجة لساخت الارض باهلها ۔(۳)

اگرزمین پر حجة خدا نہ ہوتو زمین ہر چیز سمیت غرق ہوجائے۔

اسی طرح اگریہ دنیاوی جنت ہو تو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں رھتی جبکہ حضرت آدم اورجناحواّ کو حکم دیاگیاکہ جنت میں جاکر رہو وہاں عیش سے زندگی گرارو اورانہیں حکم ہواکہ ”لاتقربا هذه الشجر “ یعنی اس درخت کے پاس نہ جانا۔یہ تکلیف ہے۔اوردنیا درالتکلیف ہے‘لہذا اس سے ظاہر ہوتاہے کہ دنیاوی جنت تھی۔(۴)

____________________

(۱)حلق من الارض (۲)انی جاعل فی الارض خلیفه (۳)

(۴) اس کے علاوہ بعض علماء قائل ہیں کہ یہ جنت برین تھی لیکن بریں میں خلا اورہمیشگی ہوتی ہے جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق سے بیان کردہ حدیث میں کہاگیاہے کہ اگر جنت برین ہوتی تو کبھی حضرت آدم کو وہاں سے نہ نکالا جاتانیز اگر یہ جنت بریں ہوتی تو شیطان کبھی نہ کہتا( هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ ) طہ :۱۲ یعنی کہا میں تمہیں ایسے درخت کے متعلق نہ بتاو جسکا پھل کھانے سے تم ھمیشہ جنت میں رہو۔ اسی طرح اس سے بھی یہیں کہاجاسکتا ہے کہ یہ عالم برزخ کی جنت تھی کیونکہ دنیاوی زندگی سے کوچ سے پہلے عالم برزخ میں داخل نہیں ہوتا جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے( مِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى یوْمِ یبْعَثُونَ ) لہذا یہ برزخی جنت بھی نہ تھی اسی طرح کسی اورسیارے کی جنت ہوتا بھی اوپر بیان کے گئے دلائل کے ہونا مناسب نہیں ہے لہذا کہاجاسکتاہے کہ شاید وہ جنت دنیادی جنت تھی۔ البتہ یہاں کوئی یہ اشکال کرسکتاہے کہ آیت میں ”اھبوطہ“ لفظ موجودہے جسکا معنیٰ نیچے اترنے کاہے اگر یہ آسمانی جنت نہ وہتو نیچے اترنے کاامر کیا معنی ہے؟اس میں علماء نے کئی جواب دیئے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ اصبطوا صرف نزول مکانی کیلئے استعمال ہو بلکہ یہ نزول رتبی کیلئے بھی استعمال ہوتاہے” والله العلم بالصواب“

۱۸۳

د۔ دنیاکی جنت۔

انسان مخلوق مختار:

حضرت خدا وند متعال نے حضرت آدم اور جناب حواّ کو جنت میں داخل کرکے ارشاد فرمایا۔کہ اس جنت میں تمہارے لیے ہر قسم کی نعمتیں موجود ہیں۔آپ کیلئے آسائش ہے ‘ یہاں کوئی رنج وغم نہیں ہے۔یہاں دنیاوی زندگی گزارنے کی تمام ضروری چیزیں موجودہیں۔رہائش کیلئے جنت جیسا گھر ہے ‘تسکین کے لئے حواّ جیسی بیوی ہے اور کھانے پینے کیلئے جنت کی ہر چیز آپ کے اختیار میں ہے۔

آپ کو بالکل خود مختار منایاگیاہے اس جنت سے جو کچھ کھانا چاہو کھاو لیکن فلاں درخت کے قریب نہیں جانا(۱) اگر اپنی اختیار و مرضی سے اس کے قریب گئے تو تمہیں خسارہ اٹھانا ہوگااور جنت سے جانا ہوگااور یہ ظلم ہوگا۔(۲)

____________________

(۱) شجرہ ممنوعہ کی تفسیر کے سلسلہ میں علماء کرام کے درمیان اختلاف موجودہے قرآن مجید میں اسکے متعلق تو وضاحت موجود نہیں ہے البتہ روایات میں اسکاتزکرہ موجودہے کہ فلاں درخت کے قریب نہ جانا اوراس سے تناول نہ کرنا۔ مزید روایات میں ہے کہ شاید یہ درخت گندم ‘انگور‘ کافور اوربعض میں اسکے علاوہ اور چیزوں کا تزکرہ بھی ہے البتہ ان روایات کی اسناد میں خدشہ کیاگیاہے لہذا کہاجاسکتاہے یہ قشابھہ آیات میں سے ہے اور ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایسادرخت تھا جسکی وجہ سے حضرت آدم اورحواّ کو جنت سے نکلنا پڑا۔

(۲) ظلم کا معنی وضع الشی فی غیر محلہ ہے اورقرآن مجید نے بھی اسکی یہ تعریف کی ہے ”ومن یتعد حد ودالله فاوٴ لاللک هم الظالمون “یعنی اللہ کی مقرر کردہ حدود سے قدم بڑھانے والے ظالم ہیں لیکن حد کو دیکھنا ہوگا کہ یہ واجب قرار دی گئی ہے یا مستحب اورارشاد ہے۔اس کا ظ سے ظلم کا حکم بھی مختلف ہوجائے گااور وہ ظلم جو حدو جوبی سے تجاوز ہووہ گناہ ہے جبکہ دوسری اقسام کا ظلم زیادہ سے زیادہ ترک اولیٰ “ ہوگا گناہ ہوگا۔

۱۸۴

تکلیف میں کسی نہ کسی قسم کی مصلحت ضرور ہوتی ہے ہوسکتاہے اس نہی اور منع کرنے میں بھی کوئی بڑی مصلحت ہو اوراس میں ایک یہ ہوسکتی ہے کہ انسان سے کہاجارہاہوکہ تمہیں ہمیشہ اس جنت میں رہنے کے لئے خلق نہیں کیاگیاہے بلکہ تمہیں زمین کے لیئے خلیفہ بنایاگیاہے اور تمہیں مٹی سے پیدا کیاگیاتھالہذا اگر حضرت آدم اس درخت سے تناول فرماتے تو مصلحت خلقت انسان کو عملی جامہ نہ پہنایاجاسکتا۔ قرآن مجید میں حضرت آدم کے سجدہ اور ابلیس کی سرکشی کاواقعہ سات مرتبہ ذکر ہواہے

اورحضرت آدم کو جنت سے نکالے جانے کا تزکرہ تین سورتوں میں ہواہے۔(۱)

ان تمام آیات کو اکٹھاکرکے نتیجہ نکالیں تو”فتکونامن الظالمین “ میں اصطلاحی ظلم مراد نہیں ہے بلکہ اسکا معنی دنیاوی مصیتیں ‘ نقصان اورخسارہ اور تجاوز ہے(۲)

لہذا یہاں جزا کے حق میں ظلم نہیں ہے بلکہ اپنے نفس پر تجاوزجیسا ہے کہ قرآن مجید بھی اسی کی تائید کرتاہے کہ

( رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ) ۔(۳)

پروردگار ہم نے اپنے نفس پر تجاوز کیاہے اوراگرتم نے ہمیں معاف نہ کیاتو ہم خود کو خسارے میں ڈالنے والے ہونگے۔

بہرحال اس ظلم سے مراد وہ نقصان اور خسارہ ہے جو دنیا میں تنگدستی اورسختی کا موجب ہوگااور تاکوینی طورپراس درخت سے دیکھنے کااثر ہے جبکہ یہ خداوندمتعال کے فرمان کی معصیت نہیں ہے بلکہ حضرت آدم “ ابو الا بنا ء اولی الاعظم اور معصوم تھے ان سے خدا کی معصیت کا سرزدہوناناممکن ہے۔ اب یہاں علماء کرام نے خسارے میں پڑجانے کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف احتمالات

بیان فرماتے ہیں کہ حضرت آدم کا زمین پرآنا سزا کے طور پر نہ تھا بلکہ اس کواس لئے خسارہ کہاگیاتھاکیونکہ شیطان حضرت آدم پر اپنے حربے میں کامیاب ہوگیاتھا۔اس سے زمین پر جا کر لوگوں کو پھسلانے کی اسکی جرات بڑھ گی۔

بعض علماء نے فرمایاہے کہ اس کو خسارہ اس لئے کہاگیاہے کیونکہ اس ظاہری باغ وبہار کو چھوڑکر نئے سرے سے زمین کو آباد کرنے کی زحمت کرناپڑی لہذااسے خسارہ کہاگیاہے اور بعض علماء نے کہاہے کہ حضرت آدم کیلئے خسارہ کا لفظ اس لئے استعمال ہوا ہے کہ حضرت آدم کو ملائکہ کی تسبیح وتقدیس سے جو مانوسیت حاصل ہوتی تھی۔اب ظاہری طور پر حضرت آدم اس سے جداہوگئے چنانچہ حضرت آدم کو اس کا بہت زیادہ افسوس تھا لہذا اسلئے کہاگیاہے کہ تم خسارہ میں ہوگئے۔

۱۸۵

آدم کا گناہ کیاتھا:۔

( فَأَزَلَّهُمَا الشَّیْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا کَانَا فِیهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَکُمْ فِی الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَی حِینٍ ) ( ۳۶)

تو شیطان نے ان کے ارادے سے انہیں اس جگہ سے ہٹایا اور جہاں وہ تھے وہاں سے انہیں نکلوادیا۔اورہم نے کہا تم اتر جاو تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے۔

شیطانی وسوسہ:

خداوند متعال نے حضرت آدم اور حضرت حواّ کیلئے جنت جیسے مقام کو رہائش گاہ قراردیا۔وہاں ایک عرصہ تک ٹھہرے۔شاید اس کا مقصد یہ تھا کہ حضرت آدم کو فوراً ہی زمین پراتار دینے سے وحشت نہ ہو لہذا کچھ وقت سرسبز اورشاداب مقام پر گزار لیں۔جہاں ضروریات زندگی کی ہر چیز میسرہو۔تاکہ یہاں رہ کر اگلی منزل کیلئے تیار ہوجائیں اور شیطانی وسوسوں کا بھی عملی طور پر ملاحظہ کرلیں کہ کس طرح دشمنی کرتاہے اورکس طرح لوگوں کو پھٹکاتاہے۔اب اگرحضرت آدم اپنی قوم کو تبلیغ کرتے کہ شیطانی وسوسوں سے بچ کر رہنا یہ میرا اور تمہارا دشمن ہے اورلوگوں کو جنت سے پھٹکانے کی کوشش کرتاہے۔

یہاں لوگ سوال کرسکتے تھے کہ یہ کس طرح ہمارادشمن ہے اسکا جواب تو یہ دیتے کہ اس نے مجھے سجدہ نہ کیاتھااور دشمنی کا واضح طور پر اظہار کیاتھالیکن اگر حضرت آدم کو جنت میں نہ رکھا جاتاتو یہ دوسرے سوال کاجواب نہ سے سکتے کہ کس طرح شیطان وسوسے کرتاہے لہذا اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم کو جنت میں رکھا تاکہ آپ شیطانی وسوسوں سے آگاہ ہوسکیں کیونکہ اس دنیا میں وہ حضرت آدم تمہیں پھسلا سکتاتھا۔اب حضرت آدم کہہ سکتے ہیں کہ کس طرح وسوسے ڈالتاہے اس سے کس طرح بچ کر رہنا ہے۔

۱۸۶

شیطان کو بھی یہ موقع غنیمت لگا کہ دنیا میں تواللہ کے اس مخلص بندے پر میرا کوئی اثر نہ ہوسکے گالہذا یہ حضرت آدم کے پاس آ کر اس انداز سے وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرتاہے(۱) اور کہتاہے۔

( مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَـٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ ) ۔(۲)

خدا نے تمہیں اس درخت سے اس لئے روکا تھا کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاو۔

لیکن یہ کہنے کے بعد اسے اندازہ ہواکہ جو مسجدو ملائکہ ہواس کے لئے ملک سنا کوئی اہمیت نہ رکھتاتھا لہذاایک اور ہتکنڈا استعمال کرتاہے۔( أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ) ۔(۳)

تہمیں اس درخت سے اس لیے روکا گیا ہے کہ کہیں تم اس کے استعمال سے ہمیشہ جنت میں رہنے والے نہ بنو لہذا اس کو کھالو اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس زمینی جنت پر قیام کرو اوراس کے بعد یہ قسمیں کھانے لگا کہ میں سچ کہہ رہا ہو۔(۴) لیکن حضرت آدم نے اس کی ایک نہ مانی اور فرمایاجس چیز سے خدا نے مانع فرمایاہے میں وہ ہرگز بجا نہیں لاسکتا۔

اب اس نے حضرت حواّ کے پاس جانے کا سوچا اوروہاں جاکر کہنے لگااللہ تعالیٰ نے اب اس درخت کو تمہارے لئے مباح قراردیاہے اب اس کو کھانے میں کوئی حرج نہیں رہااگر تم نے آدم پہلے اسے کھالیا تو آدم پر حکمران رہوگئی حضرت حواّ نے اسے تناول کر لیا اورپھر حضرت آدم کے پاس جا کر کہا میں نے اس درخت کو تناول کرلیا ہے اسکا مجھ پر کوئی اثر نہ ہوالہذا آپ بھی اسے تناول فرمالیں یہ مباح ہوچکا ہے مباحت کا سن کر حضرت آدم نے بھی تناول کرلیا اوراس طرح شیطان اسے پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔(۵)

_____________________

(۱) اعراف : ۲۰(۱) اعراف :۲۰ (۲) اعراف:۲۰

(۴)( وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ ) ۔اعراف :۲۱ یعنی شیطان قسمیں کھا کر کہنے لگا میں تہمیں نصیحت کررہاہوں کہ اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن حضرت آدم نے اس کی قسموں کی پروا نہ کی۔

(۵) جہاں عدوات ودشمنی ‘حسد وکینہ ‘جھوٹ ‘ سختی فنا کدورت اورشقاوت جیسا ماحول ہوگا۔اس میں لوگ بھی ایک دوسرے کے دشمن ہونگے اورابلیس اوراس کے پیروکار بھی حضرت آدم کی نسل کیساتھ دشمنی رکھتے ہونگے یہ کفر وطعنیان اور ایمان واعتقادات کی وجہ سے دشمنی کریں گے اور ابلیس اوراسے کے پیروکار راہ راست سے ہتکانے کیلئے ہر ممکن حیلہ و بہانہ تلاش کریں گے اورکوشش کریں گے کہ انسان کو نیکی کے راستہ سے ہٹالیں اوراسکے لئے خدا کی خوشنودی اورزیادہ ثواب کا لالچ دیکر برے کاموں میں پھنسانے کی کوشش کریں گے یہ نہ صرف مردوں کا دشمن ہے بلکہ پوری انسانیت کا دشمن ہے۔

۱۸۷

انسانی نسل کا دشمن :

حضرت آدم اورحضرت حواّ جب اس شجرہ ممنوعہ سے شیطان کے پھسلانے کی وجہ سے تناول کر بیٹھے تواللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم اورانکی اہلیہ کو حکم دیا کہ اس پاک وپاکیزہ سرزمین ‘جسمیں جنت جیسا ماحول تھا ‘ضروریازندگی کی ہرچیز میسر تھی۔کسی قسم کی پریشانی نہ تھی‘کو چھوڑ کر کسی اورجگہ منتقل ہوجاو۔

یہ ہر انسان کواس کے مزاج کے مطابق جال میں پھنساتاہے عورتوں کو گمراہ کرنے کیلئے عورتوں کے مزاج کے موافق پھندے ڈالتاہے مردوں کیلئے مردوں کا مزاج اختیار کرتاہے لہذااس دشمن سے بچنا ضروری ہے اس کی وجہ سے حضرت آدم کو جنت سے نکا لاگیااورخبردار کہاگیاکہ زمین پراسکا خیال رکھنا یہ تمہاری پوری نسل کا دشمن ہے گویا کہاجارہاہے کہ اپنی نسل کو اسکی مکاریوں ‘وسوسوں اورشیطانی حربوں سے بچنے کی تلقین کرنا البتہ یہ زمین پر جا کر سب مخلصین کو ضرور گمراہ کرنے کی کوشش کریگا۔

عارضی قرار گاہ:

خداوندعالم نے حضرت آدم کو جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا اورفرمایا کہ ایک مغیر مدت تک زمین میں تمہاری قرارگاہ ہے تم اس جگہ سے ایک وقت تک استفادہ کرتے رہو اس میں تمہاری اولاد کو مکمل اختیار ہے کہ وہ شیطانی وسوسوں میں پھنس کر جہنم کا راستہ اختیار کریں یا خداوند متعال کی فرمان برداری کرکے جنت میں آئیں ہم نے تو یہاں آپ کے عمل کو دیکھنا ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

۱۸۸

( ثُمَّ جَعَلۡنٰکُمۡ خَلٰٓئِفَ فِی الۡاَرۡضِ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ لِنَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ ) ۔(۱)

ان کے بعد ہم نے تہمیں دنیا میں انکا جانشین بنایاہے تاکہ ہم دیکھیں کیسے عمل کرتے ہو۔

لہذا بتایاجارہاہے کہ

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

حضرت آدم سے ترک اولیٰ ہواتوانہیں یہ خسارہ دیکھنا پڑا کہ معصوم ہونے کے باوجود جنت سے نکال دیئے گئے روایات میں مختلف مقامات کاتزکرہ موجودہے کہ حضرت آدم کو کہاں بھیجا گیا۔(۲)

ہم حضرت رسول خداسے مروی ایک روایت تبرکا ًبیان کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں کہ خداوندمتعال نے حضرت جبریل کو وحی کی کہ حضرت آدم کو مکہ میں اتارو توحضرت جبریل نے حضرت آدم کو پہاڑ صفا اورحضرت حواّ کو مروہ پراتارا۔(۳)

____________________

(۱) ابراھیم :۱۰

(۲) روایات میں ہر زمین ‘مکہ ‘مدینہ ‘ اردن وفلسطین ‘کا تزکرہ موجودہے۔

(۳)وحی الله تعالی ٰ الیٰ الجبریل ان اهبطهما الی البلا ه المبارکه مکه فهبط بهما جبرئیل والقی آدم علی الصفا والقی حوا علی المروه تفسیر عیاشی جلدا۔ص۲۶

۱۸۹

اس روایت کی تائید حضرت امام صادق سے بیان کردہ روایت بھی کرتی جس میں حضرت نے فرمایا۔

جب حضرت آدم مکہ کے ایک پہاڑ پراتارے گئے توحضرت آدم کے ” صفی اللہ “ لقب کی وجہ سے اس پہاڑ کانام صفا رکھا گیااورحضرت حواّ کو صفا کے مقابل پہاڑ پراتاراگیا اسکا نام مروہ رکھا گیا۔

حضرت آدم چالیس دن تک سجدہ کی حالت میں گرایہ کرتے رہے حضرت جبرائیل آئے اورانہوں نے کہا اتنا گرایہ کیوں کررہے ہو توحضرت آدم نے فرمایا میں کیسے کریہ نہ کروں مجھے خدا کے جوارسے نکال دیاگیاہے۔(۱)

جب حضرت آدم ترک اولیٰ کی وجہ سے نکالے جاسکتے ہیں توہم خداکی نافرمانی کرکے کس طرح جنت کے حقدار ہوسکتے ہیں شیطان نے ابتداء سے ہمارے بابا کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیاتھا کیااب بھی ہم اس کے دھوکہ میں آکر خداسے روگرادنی کریں اوراحکام خداکو پس پشت ڈال دیں جبکہ خداکہہ رہاہے کہ صرف میری عبادت کرو اورجوعبادت میری منشاء و مرضی کے خلاف ہوگی میں اسے ہرگز قبول نہ کرونگا۔

اللہ کو صرف وہی عبادت پسند ہے جواسکا بھیجا ہوارسول بتائے اوراس کے بعد اسکا صحیح قائم مقام بتائے ہر من گھڑت عبادت شرف قبولیت حاصل نہیں کرسکتی۔شیطان سجدہ کا منکرنہ تھابلکہ اس طریقہ پرسجدہ کرنے کا مخالف تھا جسکا خدانے کہاتھاجس سے اس نے خلیفة اللہ نافرمانی کی اورتعظیم کرنے سے انکارکیاتھا۔بہرحال خلیفة اللہ کی نافرمانی ہزاروں برس کی عبادت پرپانی پھیر دیتی ہے۔

____________________

(۱) تفسیر ابن ابراھیم۔جلد:۱۔ص:۴۴

۱۹۰

لیکن یہ یادرہے کہ شیطان سجدہ کامنکرتھاعبادت کا منکرنہ تھا اسلئے خدانے اسے مشرک نہیں کہا بلکہ کافر کہاہے جبکہ تارک نماز کوخداتعالیٰ نے مشرک کہاہے ارشاد رب العزت ہے۔

( أَقیمُوا الصَّلاةَ وَ لا تَکُونُوا مِنَ الْمُشْرِکینَ ) ۔(۲)

نماز قائم کرو اورمشرکین نہ بنو۔لہذا ہمیں نماز جیسے اہم فریضہ کو ترک کرکے مشرک نہیں بننا چاہیے۔

( فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَبِّهِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ )

پس آدم نے اللہ سے (اندازتوبہ کے ) چند کلمات سیکھے اوران کے ذریعے اللہ کی طرف رجوع کیا۔بلاتردید وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اورنہایت رحم کرنے والاہے۔

حقیقت توبہ:

توبہ کا اصلی معنی بازگشت ‘رجوع اورلوٹنا ہے اورحقیقت توبہ کے بارے اگرچہ مفسرین کی آراء مختلف ہیں لیکن ان کی بازگشت ان تین چیزوں کے مجموعے کی طرف ہوتی ہے۔کہ انسان تہہ دل سے اپنے گناہ پرنادم ہواوراس کا تدارک کرلے اورآئندہ گناہ نہ کرنے کا مصمم عزم کرے اگرچہ حقیقی توبہ کرنے کی توفیق انسان کو نصیب ہوجائے اس کانتیجہ حتمی نجات ہے۔لہذا یہ انسان کو چاہیے کہ وہ توبہ کے ذریعے اپنے پرورگار کی رحمت کی طرف لوٹ آئے

عقل سلیم کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان اصلاًایسا کام نہ انجام دے جس سے اسکو ندامت وپشیمانی کا سامنا کرنے پڑے اورفارسی میں مشہوربھی کہ عامل ًتکند کاری کہ باز آید پشمانی۔اورتوبہ میں بھی ایسے کئے کہ اثرشوم کو دیکھ ندامت کے سرجھکانے پر مجبور ہوجاتاہے۔اوراحادیث معصومین بھی اسی کی طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ ”له ترک الزنب اهون من الثوم “ گناہ نہ کرنا توبہ کرنے سے آسان ہے۔

____________________

(۲) روم :۳۱

۱۹۱

لیکن اللہ نے توایک طرف انسان میں نمریزہ شہوت وحیوانیت رکھا اوردوسری طرف سے شیطان کو انسان کے پیچھے گمرہ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔تو خداتعالیٰ کو علم تھا کہ انسان سے غلطیاں ہونگیں لغزشیں ہونگیں اگر میں نے اس کے لئے اپنی رحمت کی طرف لوٹنے کے تمام دروازے بند کردیئے وہ مایوس ہوکر تاابدبد بختی کا شکار ہوجائیگاجس کو خود ذات حق پسند نہیں کرتی لہذا اس ذات رحیم وکریم نے گناہ گاروں کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا رکھاہے کہ اگر کسی سے جہالت کی وجہ سے برائی سر زد ہوجائے تووہ اس دروازے سے اپنے رب کی طرف واپس آجائے۔اوراپنے کئے پر پشمان ہوکر اس کی تلافی کرلے اورآئندہ گناہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ کرلے اورروایات میں ہے آخری ہم تک توبہ قبول ہوسکتی۔

رسول اللہ نے اپنے آخری خطبے میں ارشاد فرمایا کہ

” من تاب قیل توبه سنة ًتاب الله علیه ‘ثم قال ان السنة لکثیرة ‘ومن تاک قبل توبه بشهر ٍتاب الله علیه ثم قال ان لشهر لکثیر ومن تاب قبل توبه بیوم تاک الله علیه ‘ثم قال وان لیوم کثیر ومن تاک قبل توبه بساعة تاب الله علیه ثم قال وان الساعة لکثیر ومن تاب وقد بلغت نفسه موزاواهویٰ بیده الی حلقهتاب الله علیه

کہ جو شخص اپنی موت سے ایک سال پہلے توبہ کرلے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتاہے۔پھر فرمایا‘ایک بہت زیادہ اگر کوئی شخص اپنی موت سے ایک ماہ پہلے توبہ کرلے تواللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔پھر فرمایا‘ایک ماہ بھی بہت زیادہ ہے اگر کوئی شخص اپنی موت سے ایک دن پہلے توبہ کرلے تواللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔پھر فرمایا‘ایک دن بھی زیادہ ہے اگر کوئی شخص اپنی موت سے ایک گھنٹہ پہلے توبہ کرلے تواللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتاہے۔پھر فرمایا‘ایک گھنٹہ بھی زیادہ ہے اگر کوئی شخص اس وقت توبہ کرلے جب اس کی جان لب پر آئی ہوتواس کی توبہ قبول کرتاہے۔

۱۹۲

اگرچہ یہ حدیث رحمت الہی سے کسی صورت مایوس نہ ہونے کی طرف راہنمائی کرتی ہے اوراللہ نے جس چیز کا آیہ مبارکہ میں ذمہ لیا اس کی وضاحت کررہی ہے کہ ’

( إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ )

کو خدا کسی طرح بھی ان لوگوں کی توبہ رد نہیں فرمائیگاجو نادانی کی وجہ سے گناہ کربیٹھیں اورقریب ہی میں توبہ کرلیں۔

رحمت الہی کے اتنا وسیع ہونے کا معنی یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان توبہ میں جلدی نہ کرے۔کیونکہ انسان کو خبر نہیں ہے کہ اس نے داعی اجل کو کب لبیک کہنا ہے تواسے کب علم ہے کہ میری موت میں کتنا عرصہ باقی ہے کہ وہ اس لحاظ سے توبہ کرے۔اورموت وقت کی تعین نہ کرنے کی وجہ بھی شاید یہی ہو۔

لہذا جتنی جلدی ہوسکے اپنی کوتاہیوں اورلغزشوں پر سچے دل سے پشیمان ہو کر بارہ گاہ الہی میں لوٹ آنا چاہیے اورآیہ مبارکہ ” وسااعواالے مغفرة من ابکم رحمة “ کا حکم بھی اسی چیز کا تقاضا کرتا ہے‘اور جواانی میں توبہ کرنا شیوہ پیغمبر ی بھی ہے۔اگرچہ یہ حضرات قدسیہ ہرقسم کے گناہ ولغزش سے پاک وپاکیزہ ہوتے ہیں لیکن انکے استغفاروتوبہ کی نظیر نہیں ملتی ہے خود رسول اللہ جو عالمین کی خلقت کی علت نمائی ہیں کے بارے روایات میں آیاہے آپ دن میں تین سو مرتبہ استغفاکرتے تھے۔

توبہ کے بارے روایات میں آیاہے اعمال خیر میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل توبہ ہے اورتوبہ کو شفاعت کرنے والابھی قرار دایا گیاہے۔

لہذا انسان کو چاہیے کہ توبہ کو توہین نہ سمجھے انسان سے گناہ سرزد ہونا بعید نہیں ہے اس گناہ کو توبہ کے ذریعے دھویا جاسکتاہے توبہ کر کے انسان ایسے بن سکتاہے کہ ابھی شکم مادر سے جنا گیاہے۔

حقیقت میں کسی بندے کی توبہ اپنے رب اس شخص سے بھی زیادہ خوش کرتی کہ جس کازاد و راحلہ تاریک رات میں گم ہوجانے کے بعد مل جائے۔

۱۹۳

آخر میں خداتعالیٰ سے عاجز ایہ التماس ہے کہ ہمیں اورآپ کو سب کو سچی توبہ کرنے کی توفیق عنائت فرمائے اوراسے شرف قبولیت بخش ہمارے لئے شفاعت کرنے والا قراردے۔

حقیقت توبہ کے بارے میں مفسرین کی آراء مختلف ہیں لیکن ان سب کی بازگشت ان تین چیزوں کے مجموعے کی طرف ہوتی ہے کہ انسان تہہ دل سے اپنے گناہ پرنادم ہواوراس کا تدارک کرے اورآئندہ گناہ نہ کرنے کا مصمم عزم کرے۔

اگرحقیقی توبہ کرنے کی انسان کو توفیق ہوجائے اس کانتیجہ نجات ہے۔

کلمات توبہ :۔

خداوندعالم نے حضرت آدم کو جن کلمات کی تعلیم فرمائی تھی ان کے متعلق مفسرین میں اختلاف پایاجاتاہے۔بعض مفسرین نے فرمایاہے کہ یہ کلمات قرآنی آیات پر مشتمل ہیں اوربعض نے کہا ہے ان کلمات کاتذکرہ روایات میں موجود ہے مثلاً

بعض کے نزدیک سورہ اعراف کی یہ آیت تھی۔

( قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ) ۔(۱)

ان دونوں نے کہاخدایا!ہم نے خود پر ظلم کیااگر تو نے ہمیں نہ بخشا (یا) ہم پر رحم نہ کیاتو ہم خسارے میں رہنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

تفسیر عیاشی میں حضرت امام محمد باقر سے روایت کئے گئے مندرجہ ذیل کلمات بیان ہوئے ہیں۔

لااله الاانت سبحانک انی ظلمت نفسی فاغفرلی انک انت الغفور الرحیم

خدا تیرے سواء کوئی معبود نہیں ہے۔توپاک وپاکیزہ ہے۔میں نے خود پر ظلم کیاہے مجھے بخش دے بیشک توہے بخشنے والا اوررحم کرنے والاہے۔

____________________

(۱) اعراف :۲۳

۱۹۴

مجمع البیان میں کلمات سے مراد یہ دعاتھی

اللهم لااله الا انت سبحانک وبحمد ک انی ظلمت نفسی فاغفرلی انک خیر الغافرین اللهم لااله الاانت

سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فارحمنی انک خیر الراحمین اللهم لااله الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم ۔(۲)

یااللہ !تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے توپاک وپاکیزہ ہے اورمیں کی ‘ انہیں عصادیا‘ان کے لئے دریاشق کیاان پربادلوں کا سایہ کیا؟

حضرت نے فرمایا!

انسان کے لئے اچھا نہیں ہے کہ خود اپنی تعریف کرے لیکن میں اتنا بتا دینا ضروری سمجھتاہوں کہ حضرت آدم سے خطا سرزد ہوئی تواس کی توبہ کے الفاظ یہ تھے۔

اللهم انی اسئلک بحق محمدوآل محمد لماغفرت

خدایا میں تجھ سے محمد وآل محمد کے حق کاواسطہ دیکر سوال کرتاہوں میری توبہ قبول فرماتوخد انے اسکی توبہ قبول فرمائی۔

حضرت نوح کشتی مین سوارہوئے اورانہیں کشتی کے غرق ہونے کا قطرہ لاحق ہواتوانہوں نے بارگاہ خدا وندی میں عرض کی۔

اللهم انی اسئلک بحق لما نجتتنی من الغرق

میرے اللہ تجھ سے محمد وآل محمد کے حق کے واسطے سوال کرتاہوں کہ مجھے غرق ہونے سے بچا خدانے نجات دی۔

____________________

(۲) مجمع البیان :جلد ۱:ص۲۰۰

۱۹۵

اسی طرح جب حضرت ابراھیم کو آگ میں پھینکا گیا تو انہوں نے بھی یہی الفاظ دہرائے خدا یا محمد وآل محمد کے صدقے مجھے آگ سے نجات عنایت فرمااللہ نے آگ کو ٹھنڈا اورسلامتی کا موجب قراردیااور اسی طرح جب حضرت موسیٰ نے اپنا عصی ٰپھینکا تو دل مین خوف محسوس ہواتوانہوں نے بھی یہی کلمات دہرائے توارشاد خداوندی ہوا۔

( لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَىٰ )

ان سے نہ گھبرا توان سے بلند مرتبہ والاہے۔

آخر میں فرمایا۔

اگر حضرت موسیٰ مجھے پالیتے اورمجھ پرایمان نہ لاتے توان کا ایمان اورنبوت انبیاء کوئی فائدہ نہ دیتی۔

اے یہودی !میری ذریت سے حضرت مہدی ہونگے اسکے مدد کیلئے حضرت مریم ابن اتریں گے اورحضرت مہدی کو آگے کھڑا کرکے اسکی اقتداء میں نماز پڑھیں گے۔

تیری تعریف کرتاہوں میں تیر تعریف کرتاہوں میں نے ظلم کیا تو مجھے بخش دے کیونکہ توبہترین بخشنے والاہے۔

خدایا !تیرے سواء کوئی معبود نہیں توپاک وپاکیزہ ہے میں تیری تعریف کرتاہوں میں نے خود پر ظلم کیاتومجھ پررحم فرماکیونکہ تو بہترین رحم کرنے والاہے۔

پروردگار!صرف تو ہی معبودہے اورپاک وپاکیزہ ہے میں تیری حمد وثناء کرتاہوں میں نے

اپنے اوپر ظلم کیاہے تواپنی رحمت میرے شامل حال فرمااورمیری توبہ قبول فرما کیونکہ توہی توبہ قبول کرنے والااوررحم کرنے والاہے۔

اسی طرح متواتر روایات ائمہ طاھرین میں ہے یہ خمسہ نجباء (حضرت محمد ‘حضرت علی ‘حضرت فاطمہ ‘حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین کا واسطہ دے کرکی گئی دعااور کلمات ذکرکئے گئے تھے

۱۹۶

اورانہیں کی وجہ سے حضرت آدم کی توبہ قبول ہوئی اس دعا کے الفاط یہ تھے۔

یارب ّاسئلک بحق محمد وعلی وفافطمة والحسن والحسین ۔

حضرت آدم بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں ‘پروردگار ا!میں تجھ سے محمد ‘علی ‘فاطمہ ‘ حسن اورحسین کے حق کا واسطہ دیکر سوال کرتاہوں میری توبہ قبول فرما۔

تفسیر برھان میں مذکورہے کہ حضرت امام جعفر صادق ایک روایت مذکورہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک یہودی حضرت رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوااورآپ کے سامنے کھڑے ہوکر آپ کو دیکھنے لگا۔

حضرت نے فرمایا۔کیابات ہے۔

اس نے کہا

میرا ایک سوال ہے کہ آپ افضل ہے یا حضرت موسیٰ بن عمران جبکہ خداوندمتعال نے حضرت موسی ٰبن عمران کیساتھ کلام کیا‘ان پرتورات نازل فرمائی۔

۱۹۷

بہرحال یہ تینوں قسم کی تفاسیر ایک دوسرے کیساتھ اختلاف نہیں رکھتی ہیں کیونکہ ممکن ہے کہ حضرت آدم کوان سب کلمات کی تعلیم دی گئی ہوتاکہ ان کلمات کی حقیقت اورباطنی گہرائی پرغور کرنے سے حضرت آدم مکمل طورپر روحانی انقلاب پیدا ہواور خدااپنا لطف وکرم کرتے ہوئے اسکی توبہ قبول فرمائے۔(۱)

ایک سوال اوراسکا جواب !

حضر ت آدم نے غلطی کیوں کی؟

جواب :اگرچہ آیات۔۔۔۔فتکونا من الظالمین۔اور وعصی آدم فعویٰ ‘اورپھر حضرت آدم کا اعتراف جو قرآن میں حکائت ہواہے

( قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ )

کاظاہریہی بتلاتاہے کہ حضرت آدم سے لغزش ہوئی ہے۔لیکن اگر اس واقع سے مربوط آیات کے بارے میں تذکرہ کریں اورکل شجرہ سے روکنے والی انہی میں دقت کریں تو واضح ہوجاتاہے کہ حضرت آدم سے گناہ سرزد نہیں ہوا۔کیونکہ یہ نہی صلا ح وخیر کی طرف راہنمائی کے لئے تھی حکم مولیٰ نہ تھا۔اس کی والہ بھی موجودہیں۔

( ۱) اس سورہ مبارکہ اورسورہ اعراف میں اس نہی کی مخالفت کو اللہ تعالی ٰ نے ظلم سے قرار فرمایاہے کہ

( وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ )

( قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا )

____________________

(۱) تفسیر نمونہ :جلد۱:ص۱۶۱

۱۹۸

اورسورہ طہ میں اکل شجرہ کے نیچے کو ترک جنت کر کے مشقت دنیوی میں پڑجانے سے تعبیر کیاہے کہ “

( فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَىٰ )

ٰ اوراس سے بعد والی آیات ‘آ یات اس جنت ک اوصف بیان کررہی ہیں کہ اس جنت میں نہ بھوک ہے نہ عریانی اور نہ پیاس ہے نہ سورج کی تپش‘اورایسی مرفہ زندگی والی جگہ نکلنے کو اللہ شقادت سے تعبیر کیاہے اس کا معنی یہ بنتاہے کہ اس شینان کے بھکارے میں آکر اکل شجرہ سے نہیں اس دنیا میں جاناپڑیگاجس بھوک پیاس تھکاوٹ وسختی جیسی مشکلات ہونگیں ایسی زندگی سے محفوظ رہنے کی خاطر جو حکم دیاجاتاہے وہ کسی طرح بھی مولوی نہیں ہوسکتابلکہ مختصر ارشاد وراہنمائی ہے اس کی مخالفت اپنے کو مشقت میں ڈالناہے مولیٰ کی نافرمانی نہیں ہے۔

دلیل : ۲

توبہ جب قبول ہوجائے تواس کا معنی یہ ہے کہ عبد پر کوئی گناہ نہیں ہے” التائب من الذنب کمن لاذنب له“ (۱) کویا توبہ کو قبول ہوجانے کے بعد کا وہی مقام تھاجو گناہ کرنے سے پہلے تھا۔

اگر اکل شجرہ والی نہی مولوی تھی اوتوبہ حضرت آدم سے ازگناہ تھی توجب توبہ قبول ہوگئی توحضرت آدم کو اسی جنت میں واپس لایاجاتاجس سے نکالے گئے تھے جبکہ انہیں توبہ کے قبول ہونے کے باوجود زمیں رکھا گیااس کا لازمی نیتجہ یہ ہے کہ وہ توبہ گناہ سے توبہ نہ تھی اووہ نہی جس کی

مخالفت پرانہیں جنت سے نکلاگیاحکم نہ تھا۔بلکہ وہ عرض خلقت آدم کی تکمیل کے لئے ایک سبب تھا جواکل شجرہ کے تکوینی اثر کے طور ظاہر ہوااورتوبہ گناہ کے اثر تکلیفی کو ختم کردیتی ہے لیکن اثر کوینی وضسی کو ختم نہیں کر سکتی۔

_____________________

بحوالہ میزان الحکمہ :ج۱:حدیث :۲۱۱۶

۱۹۹

دلیل : ۳

قلنا اهبطو ۔۔اوراللہ تعالی نے فرمایاہے ”فامایأتینکم منی هدی ۔۔۔۔

یہ کلمہ ان تمام تفصیلی شریتوں کو شامل ہے جو اللہ نے کتب ورسل کے ذریعے دنیا میں رائج کیں یہ اس چیز کی غمازی کرتاہے کہ دنیا میں انسان کے لئے جو پہلا قانون بنا “امایأتیکم منی هدی ً “ کا جملہ اسی طرف اشارہ کرہاہے۔ تواس کا معنی یہ جب حضرت آدم نے اکل شجرہ اس وقت ابھی قوانین شریعیت بطور تکلیف وضع نہیں ہوئے تھے تو پھر اس اکل شجرہ کے گناہ یا معصیت ہونے کا کوئی معنی نہیں ہے یہاں اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ فرشتے تواس وقت مکلف تھے۔تبھی تو ابلیس کو سجد نہ کرنے پر روندادرگاالہی قرار دیاگیا جواب واضح ہے کہ فرشتوں کا محل تکلیف آسمان ہی تھا لیکن انسان کا محل تکلیف زمین ہے۔

علامہ سید علی نقی (رضوان اللہ علیہ ) کے فرمان کے مطابق نہ یہ حقیقی گناتھا اورنہ ہی توبہ ‘گناہ سے توبہ تھی بلکہ یہ صرف آدم کی جلالت کے لحاظ سے ایک بلند تر مرتبے سے پیچھے رہ جاناتھا۔جس کا احساس خدا کے مقرب بندوں اس سے کہیں زیادہ ہوتاہے جوایک عام آدمی سے بڑے گناہ سرزد ہونے اس کے ضمیر میں پیدا ہوتاہے۔

( قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِیعًا فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ مِنِّی هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلاَخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ ) ( ۳۸)

ہم نے کہا! تم سب یہاں سے اترجاو۔اور جب آپ کے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو جواس کی پیروی کریں گے انہیں خوف ہوگا نہ ملال۔

اھبطواکا تکرارکیوں؟

علماء اعلام نے اس سلسلے میں کئی احتمالات ذکر کئے ہیں بعض علماء کے نزدیک یہ تاکید کے لئے پہلے بھی اترنے کاحکم دیاگیاتھااب دوبارہ تاکیداًحکم دیاجارہا ہے کہ زمین پراترجاو۔

۲۰۰