تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت0%

تفسیر انوار الحجّت مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 217

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین سید نیاز حسین نقوی
زمرہ جات:

صفحے: 217
مشاہدے: 130575
ڈاؤنلوڈ: 3580

تبصرے:

تفسیر انوار الحجّت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130575 / ڈاؤنلوڈ: 3580
سائز سائز سائز
تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف:
اردو

فضائل آیت دوم

شکر نعمت

خدا وند متعال کی بے پناہ نعمتوں پر شکر واجب ہے اور شکر الہی ادا کرنا بھی انسان کے بس کی بات نہیں چونکہ کائنات کی وسعتوں میں موجود بے شمار نعمتوں کا وہ احصاء کرنے سے قاصر ہے تو پھر کیسے شکر ادا کرے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

ماانعم اللہ علی عبد بنعمة صغرت و کبرت فقال الحمد للہ الا ادی شکرھا۔( البیان ص ۴۵۵ اصول باب الشکر ص ۳۵۶)

خدا وند متعال نے کوئی ایسی چھوٹی یا بڑی نعمت اپنے بندے کو عطا نہیں فرمائی

( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ)

وہ سب کو فیض پہنچانے والا بڑامہربان ہے۔

اس آیت کی تفسیر پہلے بیان ہوچکی ہے لیکن ایک نکتہ کا یہاں ذکر کرنا مناسب ہے کہ رحمن سے مراد دنیا میں اسکی رحمت ہے اور رحیم سے اسکی اخروی رحمت مراد ہے۔

اسکا واضح برہان یہ ہے کہ لفظرحمانالحمدالله رب العالمین کیساتھ متصل ہے اور یہ دنیا میں اسکے رحمن ہونے کو بتاتا ہے اور لفظرحیم مالک یوم الدین کیساتھ متصل ہے اور یہ اسکی اخروی رحمت پر دلالت کرتا ہے، یہ دونوں صفات منشاء الہی کے فیضوض و برکات پر مشتمل ہے۔

۲۱

خصوصیات۔

سب سے پہلا تکرار

یہ قرآن مجید کی سب سے پہلی آیت ہے جس کے تمام الفاظبسم الله میں ذکر ہو چکے ہیں۔ قرآن مجید میں کہیں بھی بے فائدہ تکرار نہیں ہوا بلکہ خاص معنی اور مفہوم کو بیان کرنے کیلئے تکراری الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور یہاں تکرار کی مندرجہ وجوہات ہیں۔

الف:استحقاق حمد

بسم اللہ میں رحمن اور رحیم کا تذکرہ امداد طلب کرنے کے ذیل میں تھا اور یہاں استحقاق حمد کے لیئے ہے کیونکہ وہ ذات سر چشمہ رحمت ہے اور اس نے ہمیں اپنی رحمت سے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں، لہذا وہ ذات حق رکھتی ہے کہ اس کی حمد کی جائے گرچہ رحمت کے علاوہ اس کی عالمی تربیت اور دیگر تمام اوصاف کمال بھی اسی ذات کو مستحق حق گردانتی ہیں۔

ب:۔ تربیت کی دلیل۔

یہاں رحمن اور رحیم میں خدائی تربیت کی دلیل موجود ہے کیونکہ وہی کائنات کا خالق اور رب ہے لیکن یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس کی یہ تخلیق اور تربیت کس بنیاد پر ہے؟ یہ واضع حقیقت ہے کہ وہ ذات ہر چیز سے بے نیاز ہے اور عالمین کی تربیت اپنی ضرورت کے لیئے نہیں کرتا۔

اس کی وسیع اور دائمی رحمت کا تقاضہ ہے کہ سب کو فیض پہنچائے اور اپنے لطف وکرم اور رحم سے ان کی تربیت کرے اور انہیں رشد وکمال کے راستے پر چلائے اور آخرت میں بھی اپنے دامن عفو ورحمت میں جگہ عطاء فرمائے ہماری تربیت اور بخشش سے اس ذات کو ذاتا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ وہ اپنی رحمت سے ہمیں نعمتیں عطاء فرماتا ہے اوررحمت کی وجہ سے ہماری تربیت کرتا ہے۔

۲۲

(ج)حقیقی مالک اور مجازی مالک میں فرق

دینوی مالک کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں بلکہ حقیقی اور اصلی مالک ان کو وجود اور زندگی عطاکرنے والا پروردگار ہے لیکن یہ دنیاوی مالک اپنی اس جھوٹی مالکیت کو جتلانے کے لئے اور اپنی انا اور خواہشات نفسانی کے تحت پر قسم کے ظلم و ستم،قتل و غارت اور بے راہ روی کو اپناتے ہیں۔

لہذا رب العالمین کے بعد الرحمن الرحیم کو لانا اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ حقیقی مالک ہونے کے باوجود اپنے بندوں پر مہربانی ولطف و کرم کرتا ہے،اور اپنی رحمت کے سائے میں تو بہ کرنے والے تمام خطاکاروں کو بخشش دیتا ہے۔اسی لئے ارشاد الہی ہے۔

قل یا عبادی الذین اسر فو ا علی انفسہم لا تقنطوا من رحمتہ اللہ ان اللہ تغفرالذنوب جمیعا ھو والغفورالرحیم پیغمبر (ص) آپ پیغام پہنچا سیجیے کہ اے میر ے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی، رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔

( مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ )

وہ خدا روز جزا کا ما لک ہے۔

حاکمیت اعلی۔

الف :۔

دنیا میں اقتدار اعلی خداوند عالم زمان ومکان کی تمام حالتوں پر حاکم ہے۔اور اس کی حاکمیت تمام جہانوں پر محیط ہے۔ہر چیز پر اس کا تسلط اور احاطہ ہے اور جہاں ہستی کے لیئے وہی ذات ہی حقیقی حاکم ہے اور وہ اپنی حکومت میں کسی چیز کا محتاج نہیں ہے اور علی الاطلاق وہی حاکم اعلی ہے خداوندمتعال کی تربیت اور پرورش فقط اس دنیا تک محدود نہیں ہے۔

۲۳

ب :۔

آخرت میں اقتدار اعلی، یہاں خداوندمتعال مالک یوم الدین کہ کر روز جزا کی حاکمیت فقط اپنی ذات کے ساتھ ہی مخصوص کر رہا ہے اور آج تک کسی نے اس دن کی حاکمیت کا دعوی نہیں کیا۔ جیسا کہ اس دنیا میں بھی لوگوں کی تربیت اور تدبیر کرنا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح آخرت کی تدبیر اور حساب کتاب بھی اسی ذات کے ہاتھ میں ہوگا جیسا کہ خداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے۔

لمن الملک الیوم لله واحد القهار ۔

آج کس کی حکومت ہے (جواب دیا جائے ) صرف خدا یگانہ اور قہار کی حکمرانی ہے۔

معاد

الف:۔ آخرت پر ایمان

خلاق متعال کی ربوبیت اور رحمانیت کا تقاضہ یہ ہے کہ جزا اور سزا کا ایک مکمل نظام ہو،خدا نے انسان کو ترقی اور کمال کے مراحل طے کرنے کے لیئے راہ دکھلائے اس کی تربیت کا انتظام کیا اسے شعور اور اختیا رعطا فرمایا اب اگر انسان صحیح راہ کا انتخاب کرے جو کہ اطاعت اور ایمان ہے،تو وہ جزا پائے گا۔

لیکن اگر بری راہ یعنی کفر ومعصیت کو اختیار کرے تو وہ سزا کا مستحق ہے۔ اس آیت کے ذریعے خداوندمتعال انسان کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ تمام لوگوں کا پلٹنا اسی کیطرف ہے اور یہی معاد ہے۔

ان کے تمام اعمال وامور،قیامت کے دن خدا وند متعال کی حکومت اور سلطنت میں پیش کیے جائیں گے اور وہیں سزا وجزا کا تعین ہو گا،تو اسی بنا پر فقط اسی سے امید رکھنی چاہیے اور اسی سے ڈرنا چاہیے اور اس ذات کی مخالفت اور نافرمانی سے بچنا چاہیے۔معاد پر ایمان انسان کو غلط راستے سے بچاتا ہے اور اس کے کردار اور اخلاق کی اصلاح ہوتی ہے۔اس بنا پر دین کی ایک بنیادی اصل معاد اور قیامت ہے۔

۲۴

(ب)روز حساب

قرآن مجید میں عالم آخرت کو مختلف الفاظ کے ساتھ تعبیر کیا گیاہے،یوم الدین،یوم حساب اور دوسری تعبیریں استعمال ہوئی ہیں اور یوم دین سے مراد روز حساب ہے جیسا کہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ مالک یوم الدین سے کیا مراد ہے۔آپ نے ارشاد فرمایا اس سے مرادیوم الحساب ہے۔

یہ وہ دن ہے جس دن تمام پوشیدہ حقائق واضع ہو جائیں گے اور تمام الہی وعدے پورے ہو جائیں گے اور ہر چھوٹے بڑے عمل کو عدالت الہی کے ترازو میں پرکھا جائے گا ہر شخص کی نیکیوں اور اچھائیوں،اسی طرح گناہوں اور برائیوں کاحساب وکتاب ہو گا۔

حاکم مطلق کی بارگاہ میں ہر ظلم وذیادتی کے خلاف شکایت کی جائے اور حقدار کو اس کا حق ملے گا اور کسی کو مایوسی نہ ہو گی اور ہر عمل کا عدل وانصاف کے ساتھ حساب ہو گا جب نیک اور برے افراد علیحدہ علیحدہ ہو جائیں گے تو ان کا اجر وسزا معین ہو گا اور جو اجر پانے والے ہو نگے انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا اور جو لوگ سزا اورعذاب کے مستحق ہونگے انہیں جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔

( إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ )

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں

( ۱) عبادت

الف:۔حق کی ادائیگی، گزشتہ آیات میں اوصاف خداوندی کا تذکرہ ہو ہے اس ذات(خدا وندی) کی شناخت اور معرفت کے مراحل سے گزرتے ہوئے یہ علم ہوا کہ وہ ذات ہماری خلقت کے بعد،ہماری تربیت اور ہدایت کے تمام اسباب مہیا کرتی ہے،اس دنیا میں اس کی رحمت اور لطف وکرم ہم پر سایہ فگن ہے اور آخرت میں اس کی حاکمیت مطلقہ کے باوجود اس کی رحمت مومنین کے شامل حال ہے۔

۲۵

اس وجہ سے برتروبالا ذات کے بہت سے حقوق ہماری گردن پر ہیں اور جن کی صحیح معنوں میں ادائیگی ہمارے بس میں نہیں ہے،ان میں سے ایک منعم کا شکر ادا کرنا ہے،شکر کو حمد خداوندی کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے اسی طرح ایک حق یہ کہ ہم اپنے رحیم وکریم مالک کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں اس کا واضع مظہر عبادت خداوندی ہے۔

مزید یہ کہ جب کسی سے کوئی حاجت طلب کی جائے تو اس کا لاذمہ یہ ہے کہ اس کے حقوق ادا کیے جائیں اور جو انسان اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا وہ اس کی عنایت کا حق دار نہیں ہوتا۔اس مقام پر بیان ہونے والی آیات بتاتی ہیں کہ ہم نے کس طرح بارگاہ خداوندی سے حاجات طلب کرنی ہیں ان آیات میں اس کے حق کی ادائیگی کا اقرار کیا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے حاجات طلب کرتے ہیں۔

(ب)وہی ذات لائق عبادت ہے

خداوندمتعال بے پناہ کمالات کا مالک ہے اور اس کی ذات کمال مطلق ہے اور اس کی ہر صفت بھی کمال ہی کمال ہے،وہی رب بھی ہے اور مالک بھی اسی لیئے وہ ذات بندگی اور پرستش کی حق دار ہے یعنی اس کی عبادت کا موجب صرف اور صرف اس کی ذات ہے کوئی اور شیء نہیں ہے۔

اسی لیئے مولا علی علیہ السلام کا فرمان ہے۔

،الهی وجدتک اهلا للعباده فعبدتک

بارالہا میں نے تجھے بندگی اور عبادت کے لائق پایا،اسی لیئے تیری عبادت کرتا ہوں۔

جب وہ ذات ہی بندگی کی لیاقت رکھتی ہے تو پھر عبادت بھی فقط اسی کی قربت کی نیت سے ہونی چاہیے۔

۲۶

(ج)انحصار بندگی

ان آیات سے جب اس ذات کا عبادت کے لائق ہونا واضع ہو گیا تو اب ایک اور موضع کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ عبادت فقط اسی ذات میں منحصر ہے اور اس کے علاوہ کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ہے۔

عقل وفطرت کا بھی یہی تقاضا ہے جب وہی ذات خالق کل اور مالک حقیقی ہے تو پھر صرف اسی کی اطاعت کی جائے اور جب ہم اس کے بندے ہیں تو معبود بھی اسی کو ہونا چاہیے۔لہذا خداوندمتعال کے علاوہ کسی کی عبادت سلب آزادی اور غلامی کے مترادف ہے لیکن اگر انسان دوسروں کی عبودیت اور نفس امارہ سے آزاد ہونا چاہے اور فقط اور فقط خدا کی عبادت پر انحصار کرے تو اس کا مستحق ہوگا کہ خود کو خدا کا بندہ کہے کیونکہ اس کی بندگی میں عزت ہے۔

دنیاوی طاقتوں اور طاغوتوں کے سامنے جھکنے میں ذلت ہے۔ بہرحال قرآن مجید کی یہ آیت صاحبان ایمان کے لیئے روحی لحاظ سے علو کو پیش کرتی ہے۔اس ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرے اور اپنی احتیاج اسی کے سامنے پیش کرے اور اس کے علاوہ کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے۔ اسی کے علاوہ کسی پر اعتماد اور توکل نہ کرے کسی کو خدا کا شریک قرار نہ دے اور خدا کی سلطنت کے مقابلہ میں کسی کی حاکمیت کو محبوب نہ جانے کیونکہ خداوندمتعال کا حتمی فیصلہ یہ ہے کہ

( وَ قَضي رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ )

اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا۔

دین کا حکم بھی یہی ہے کہ ہمیں شرک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ شرک در عبادت واطاعت بھی انسان کو دائرہ توحید سے خارج کر دیتا ہے۔ نیز اس مطلب کی طرف بھی متوجہ رہنا چاہیے کہ کائنات کی ہر چیز خداوندمتعال کی مطیع ہے اور اس کی عبادت کرتی ہے اس مقام پر خداارشاد فرماتا ہے۔

( إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آَتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا )

زمین و آسمان میں ہر چیز خدا کا بندا اور (اسکی) فرمانبردار ہے۔

۲۷

خداوندمتعال کی تمام مخلوقات میں صرف انسان اور جن ہی اس کی نافرمانی اور سرکشی کرتے ہیں حالانکہ انہیں عبادت کے لیئے خلق کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد خدا و ندی ہے۔

( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ )

جن و انس کو صرف عبادت کے لیئے پیدا کیا گیا ہے۔

المختصر یہاں پر جب یہ واضع ہو گیا کہ عبادت و پرستش صرف ذات الہی کے ساتھ مختص ہے اور غیر اللہ کی عبادت جس صورت اور جس طرز فکر سے ہو،شرک ہے کیونکہ جو شخص غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے تو وہ اسے معبود سمجھ بیٹھتا ہے اور جو معبود حقیقی کے علاوہ کسی اور کو معبود سمجھے وہ کافر اور مشرک ہے۔خدا پرست اوراھل توحید اسی عقیدہ کی وجہ سے مشرک اور غیر موحد لوگوں سے ممتاز ہیں۔

خضوع و خشوع

اس بات میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ مخلوق کو خدا کی اطاعت کے ساتھ ساتھ خضوع و خشوع بھی کرنا چاہیے کیونکہ وہ ذات اس قدر عظیم ہے کہ اس کے مقابلے میں ہر چیز صحیح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اللہ اکبر کہہ کر اپنی ناچیزی کا اقرار کرتے ہیں اور اس کے سامنے اپنی ذات اور بندگی کا اظہار ہمارے لئے ضروری ہے۔

یہ ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے جس پر عقل اور شریعت دونوں شاہد ہیں اس کے علاوہ کسی استدلال اور برہان کی ضرورت نہیں ہے۔عبادات میں خضوع وخشوع انسان کے مقام کی بلندی کاموجب بنتا ہے بندہ کی اسی میں عزت ہے کہ بندگی میں کمال پیدا کرے اور یہ کمال صرف خشوع وخضوع میں مضمر ہے۔

۲۸

اس سے بڑا فخر اور بڑی عزت کوئی نہیں ہے کہ انسان غنی مطلق کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجیسا کہ حضرت امیر علیہ ا لسلام ارشاد فرماتے ہیں۔

الهی کفانی فخراان تکون لی ربا وکفانی عزا ان کون لک عبدا

پروردگار امیرے لئے صرف یہ بہت بڑا فخر ہے کہ تو میرا رب ہے اور میرے لئے یہ بہت بڑی عزت ہے کہ میں تیرا عبد ہوں۔

ھ۔ خدا کی مر ضی کے مطابق عبادت

عبادت خدا وند متعال کی مرضی کے مطابق ہونی چاہیے،اور عبادت تقرب خدا وندی کے لئے،ہو تی ہے تو اسے اس کے حکم کے مطابق ہونا چاہیے خواہ خاص حکم ہو یا عام،اسے اپنے وہم وگمان اور مرضی کے مطابق بجا لانا چاہیے، کیونکہ خدا وند متعال تمام مصالح اور نقصانات سے آگاہ ہے اور انسانی عقل اس کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتی ہے۔

لہذا عبادت اور اطاعت کا صحیح طریقہ وہی ذات معین کر سکتی ہے اور اس کے حکم اور اجازت کے بغیر کوئی عبادت خدا کی عبادت نہیں ہو سکتی بلکہ وہ ھو وھوس اور تخیل کی عبادت ہوگی۔

اس سلسلے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے۔

قال ابلیس :رباعفنی من السجودلآدم وانا اعبدک عبادة لا یعبدکها ملک مقرب ولابنیمرس فقال جل جلاله لا حاجة لی فی عبادتک انه اعبادتی من حیث ارید لامن حیث ترید

جب شیطان نے کہا بارالہا اگر مجھے آدم کو سجدہ کرنے سے معا ف کر دو تو میں تمہاری ایسی عبادت کروں گا جو کسی مقرب فرشتے اور مرسل نبی نے نہ کی ہوگی۔ اس وقت اللہ جل جلالہ نے فرمایا مجھے تمہاری عبادت کی کوئی حاجت نہیں ہے بلکہ میری عبادت وہ ہے جو میری مرضی کے مطابق ہو نہ کہ تیری مر ضی کے مطابق ہو۔

۲۹

عبادات کی شرائط اور اقسام

خدا کی عبادت تبھی خالص ہو سکتی جب انسان اس کی ذات پر یقین کامل رکھتا ہو اور دوسرے تمام اسلامی اصولوں کا بھی معترف ہو کیونکہ عبادت ان اصولوں کی فرع ہے خدا وند متعال کی حمد وثنا،اس کی ذات کی عظمت اور یوم قیامت کے حساب کتاب جیسے مفاہیم جب انسان کی روح میں سرائیت کر جائیں تو یہ انسان کے عقیدے کے استحکام کا موجب ہیں۔

عبادت کی تکمیل بھی اس مشروط ہے کہ انسان معرفت پروردگار،عقیدہ کی دوستی۔اخلاص و ایمان سے عبادت کو بجالائے اور مقام بندگی میں خود کو اس کے حضورمیں سمجھے اور خدا کا خالص بندہ

کر اس کی بار گاہ میں جائے اور دنیا،لذات، خواہشات وشہوات اور دنیا داروں سے بریدہ ہو کر فقط اس کی عبادت کرے۔

عبادت مختلف طرح سے کی جاتی ہے

( ۱) کبھی انسا ن اس لئے عبادت کرتا ہے تاکہ اسے اجر اور ثوا ب ملے یعنی خداکے احسان اور وعدہ کے لالچ میں عبادت کرتا ہے۔

جیسا کہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے۔

( وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ )

جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی

اور فرمایا۔

( وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ )

اللہ نے صاحبان ایمان، نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے لئے مغفرت اور اجرعظیم ہے۔

( ۲) کبھی انسان جہنم کے عقاب و عذاب کے خوف کی وجہ سے اللہ کی عبادت کرتا ہے جیسا کہ خدا وند عالم نے فرمایا۔

( إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ )

اگر میں اپنے پروردگار کی نا فرمانی کروں،تو مجھے ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔

۳۰

( ۳) کبھی انسان اللہ کی عبا ت اور پرستش اس لئے کرتا ہے کیونکہ وہی لائق عبادت اور یہ عبادت اولیاء خدا کے ساتھ مخصوص ہے جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ ا لسلا م ارشاد فرماتے ہیں

الهی ما عبداک خوفا من عقابک ولا طمعا فی ثوابک ولکن وحدئک اهلا لعبادة معبدئک

خدایا میری عبادت تیرے عذاب کے خوف،اور ثواب کے طمع و لالچ میں نہیں ہے بلکہ میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کہ تو اس کے لائق ہے۔

ہر شخص اپنی معرفت اور ظرف کے مطابق عبادت کرتا ہے جتنی معرفت ہو اتنی ہی عبادت کی تین قسمیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

قوم عبدوالله عزوجل خوفا فتلک عبادة العبید،وقوم عبده الله تبارک و تعالی طلب الثواب فتلک عبادة الاجراء و قوم عبد و الله عز وجل حتی له فتلک عبادة الاجراره هی افضل العبادة ۔

ایک قوم اللہ تبارک وتعالی کی عبادت جہنم کے خوف کی وجہ کرتی ہے یہ غلاموں کی سی عبادت ہے اور ایک گروہ اللہ کی عبادت ثواب حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے اور یہ اجیر کی عبادت کار وباری عبادت ہے۔ ایک قوم خدا کی محبت میں اس کی عبادت کرتے ہیں یہی احرار لوگوں کی عبادت ہے اور یہی افضل ترین عبادت بھی ہے۔

اور جو لوگ اللہ کی محبت میں عبادت بجا لاتے ہیں ان کے لئے خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے۔

( قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبکُمُ اللهُ )

اے رسول کہہ دیجیے اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرتے ہوتو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔

۳۱

احتیاج عبد

انسان ایک محتاج موجود ہے اور بذات خود کسی طرح کی کوئی احتیاج نہیں رکھتا ہے۔انسان نے اپنا وجود بھی اسی ذات سے حاصل کیاہے اور اس ذات کے علاوہ کوئی بھی وجود دینے کی قدرت نہیں رکھتا ہے انسان اپنی تمام زندگی میں خدا کی مرضی کے بغیر کسی چیز کو حاصل نہیں کر سکتا۔

لہذا تمام عمر ہر امر میں اس ذات کا محتاج ہے مادیات میں بھی محتاج ہے اور معنویات میں بھی خدا کی مدد اور توفیق کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہو سکتا اور عبادت بھی انسان کی ایک ضرورت ہے

چونکہ دین انسان کی فلاح و سعادت کے لئے ہے اور اس کے احکام پر عمل کرنے سے ہی یہ مقصد حاصل ہو گا

لہذا عبادت کو انسان اپنی ہی بہتری کے لئے انجام دیتا ہے اور خدا کی ذات کو عبد کی عبادت کا کوئی فائدہ اور ضرورت نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرمایاہے۔

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ )

اے لوگوتم سب خدا کے محتاج ہو اور اللہ بے نیاز ہے اور قابل حمد و ثنا ء ہے۔

اب اس مقام پر انسان محتاج اپنی ذات اور تشخص کو ختم کرتے ہوئے کہتا ہے ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں جمع کی ضمیر اس لیے استعمال کی ہے کہ مفرد ضمیر یعنی ”میں“ کہنے میں انائیت کا شائبہ ہوتا ہے اور مقام بندگی میں جب ”ہم“ کہا جاتا ہے تو اس کا یہ مقصد ہوتا ہے میں ناچیز اور محتاج ہوں اور اس قابل ہی نہیں کہ اپنی ذات کا اظہار کرسکوں اور مقام عبادت اور طلب میں ناداری اور نیاز مندی کا اظہار ضروری ہے۔

اللہ تعالی بے نیاز مطلق ہے اور کائنات کی کوئی چیز اس کی ضرورت نہیں بن سکتی ہے اور ضرورت اور احتیاج کمال کے منافی ہو تی ہے اور عبادت جن وانس کی خدا کو ذرہ بھر ضرورت نہیں ہے۔

۳۲

بلکہ اگر کائنات میں ایک فرد بھی خدا کو مانتا ہے اور اس کی عبادت کرنے والا کوئی نہ ہو تو پھر بھی خداکی خدائی میں فرق نہیں پڑتا اور اس کے کمال میں کوئی کمی پیدانہیں ہو سکتی۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے۔

انسان عبادت بھی خدا کی مددکے بغیر انجام نہیں دے سکتا بندگی اور اطاعت کے تمام مراحل میں اس کا محتاج ہے۔

اسی لئے عبادت اور بندگی میں توفیق الہی اور استعانت طلب کی جاتی ہے عبادت کے شروع کرنے میں بھی خدا وند متعال کی استعانت ضروری ہے چونکہ شیطان انسان کو بندگی اور اطاعت کرنے سے روکتا ہے اور مختلف حیلوں سے موانع ایجاد کرتا ہے۔

اس وقت انسان مصمم ارادہ کے ساتھ خدا کی مدد طلب کرتا ہے اور جب الہی توفیق شامل حال ہو جاتی ہے تو وہ عبادت کا آغاز کرتا ہے اس وقت شیطان ناکام ہونے کے بعد عبادت میں خلل ڈالنے اور بٹھکانے کی کوشش کرتا ہے۔

اس کے لیئے عبادت کو بجا لانے اور اس میں اخلاص اور حضور قلب رکھنے میں خدا کی طرف محتاج ہے اوراس کی مدد کی ضرورت ہے لہذا عبادت کے آغاز،اس کے مال اور اس کی تکمیل فقط خدا کے لطف و کرم سے ہو سکتی ہے۔

نتیجہ یہ کہ انسان ہر سانس میں اس غنی مطلق کا محتاج ہے اور دنیاوآخرت کے تمام امورخداوندمتعال کی مدد کے بغیر انجام نہیں پا سکتے۔اور خداوندمتعال کسی بھی امر میں کسی بھی چیز کا محتاج نہیں ہے۔

فاطرآیت ۱۵ نیز سورہ محمد کی آخری آیت میں بھی یہ مفہوم موجود ہے

۳۳

(ج) عبادت اختیاری

یہ آیت اس بات کی طرف متوجہ کررہی ہے کہ عبادت بندہ کا اختیاری فعل ہے اور خداوند متعال نے انسانوں کو اختیارعطافرمایاہے کہ اگر بندگی اور فرمانبرداری سے خدا وند متعال کی اطاعت اور عبادت میں زندگی گزارے تو اس کی آخرت سنور جائے گی اور اگر وہ نافرمانی کرتے ہوے کفر کی زندگی اختیار کرے تو عذاب شدید کا مستحق ہو گا۔

لہذا مسلمان اپنی عبادت اختیار سے انجام دیتا ہے لیکن اس عبادت کے کمال اور تکمیل پر اس کا اختیار نہیں ہے کیونکہ ثواب اور اجر اخروی،صحیح اور کامل عبادت پر ہی عطا ہوتا ہے اسی لیئے استعانت طلب کی جاتی ہے۔

اس آیت کریمہ میں عبادت کو عبد کا فعل کہا ہے اور استعانت اور مدد کرنا خدا کا فعل ہے لہذا خدا کے فعل پر انسان کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ہاں اگر انسان اطاعت اور بندگی میں ایسے عالی اور بلند مرتبہ پر فائز ہو جائے کہ قرب الہی کے عظیم درجہ کا حامل ہو جائے تو پھر وہ خود خدا کی مرضی بن جاتا ہے یہ مقام نہایت ہی خاص ہستیوں کا نصیب ہے۔

اگر انسان خدا کی اطاعت اور بندگی کو اختیار نہیں کرتاتو وہ اپنہ ہوی اور ہوس کا بندہ ہے اور ہوس اور ہوی نفس کی غلامی اختیار کرتا ہے وہ غیر خدا کی پرستش کرتا ہے اور جیسا کہ فرمان رب العزت ہے۔

( أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ )

کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو جو اپنی ہوا وہوس کو اپنا خدا بناتا ہے۔ اور اگر انسان خدا کی اطاعت اور بندگی کو اختیار کرے اور ” نعبد“ میں مخلص اور سچا ہو تو اس تکبر اور غرور کی نفی کرتا ہے۔ عبادت انسان کو اچھائی کی راہ دکھلاتی ہے اور تمام برائیوں سے دور کر دیتی ہے چونکہ جب انسان بندگی کو تسلیم کر لیتا ہے تو پھر سر اٹھانے اور نافرمانی کرنے کی نفی کرتا ہے اور راہ نجات پر گامزن ہوتے ہوئے سعادت اخروی کو پا لیتا ہے۔

۳۴

اصل خدا ہے

ذات خداوند چونکہ اصل ہے اس لیئے ایاک کو مقدم کیا ہے اور نعبد و نستعین کو بعد میں ذکر کیا ہے چونکہ عبادت و استعانت ذات خدا پر فرع ہے اور اللہ ہر چیز سے پہلے اور مقدم ہے جیسا کہ مولا کائنات فرماتے ہیں۔

ما رأیت شیئا الا و رأیت الله قبله

میں نے ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی کہ مگر یہ کہ خدا کو اس سے پہلے پایا۔

یعنی خدامتعال کی ذات ہر چیز پر مقدم ہے، لہذا عبادت پر بھی مقدم ہے اسی طرح استعانت پر بھی مقدم ہے نیز ایاک کو مقدم کرنے میں حصر عبادت اور حصر استعانت کا مفہوم بھی بیان ہو رہا ہے صڑف تیری ذات کی عبادت کرتے ہیں اور صرف تیری ذات سے مدد مانگتے ہیں۔

عبادت کیوں مقدم ہے

عبادت کو استعانت پر اس لیئے مقدم کیا ہے کہ عبادت مطلوب خداوندی ہے اور استعانت عبد کی طلب ہے اور عبد کی طلب کا ذریعہ بھی عبادت ہے اور عبادت اور اطاعت واجب ہے اور اس کی تکمیل گرچہ استعانت ہی سے ہو گی لیکن اسے انجام دینا عبد کا اختیاری فعل ہے۔ لہذا عبد کہتا ہے کہ ” ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تم سے مدد چاہتے ہیں “ تاکہ ہماری عبادت تکمیل پائے اور عبادت کے ذریعہ تم سے مدد چاہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں اور اس طرح سے تیرے قرب کے طلب گار ہیں اور تعلق اور تقرب عبادت ہی سے متحقق ہو سکتا ہے۔ نیز کلام کی ھماھنگی اور خوبصورتی بھی اسی میں ہے کہ ایاک نستعین بعد میں آئے تاکہ آیات کے اختتام میں یکسانیت پیدا ہو۔

۳۵

لطف حضور

ادب کا تقاضا ہے کہاس بلند وبالا ذات سے تدریجا قرب پیدا کیاجائے اس سورہ میں نام سے آغاز کیا پھر ذات کا ذکر کیا اس کے بعد مختلف اوصاف کا تذکرہ کیا اور معرف خداوندی کے مراحل طے کیے اسطرح درجہ بدرجہ تعلق پیدا کیا جا رہا ہے اللہ، رب،رحمن،الرحیم اور مالک کہنے کے بعد اب عبد اپنا انداز گفتگو تبدیل کر رہا ہے اور اپنے آپ کو خدا کے حضور اور اسکی بارگاہ میں محوس کر رہا ہے۔ اسی لیئے پہلے غیبت کے الفاظ استعمال کرتا رہا ہے اور اب مخاطب اور حاضر کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ صرف آپ کی عبادت کرتے ہیں اور پھر جب بارگاہ میں گفتگو کا شرف پالیا تو اب عبد مزید قرب حاصل کرنے کے لیئے اپنی گزارشات کو پیش کرتے ہوئے استعانت کا طلب گار ہوتا ہے اور بعد والی آیات میں اپنی بنیادی دعا کو طلب کرتا ہے چونکہ حضور میں پہنچ کر درخواست جلدی قبول ہوتی ہے۔

نماز میں جب انسان اس سورہ کو پڑھا جاتا ہے تو انسان روحانی پروازاور معراج کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچتا ہے تو اس وقت اس کے لئے یہ نقطہ عروج ہے۔

اور یہاں تعلق اور قرب الہی کا مقام ہے لہذا اس کے بعد دعا کرتا ہے،یعنی پرواز روحانی حمد،تعلق وقرب،اور درخواست کے مراحل پر مشتمل ہے۔

( ۲) وحدت کلمہ

اس آیت مبارکہ میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کو وحدت اور یگانگی سے اپنے امور بجا لانا چاہیں اور اتحاد کے ساتھ خدا کی اطاعت اور بندگی میں زندگی گزاریں،اپنی عبادات میں بھی وحدت کو ملحوظ رکھیں جیسے اجتماعی عبادات مانند حج،نماز جماعت،نماز جمعہ جہاد وغیرہ میں ضروری ہے۔

۳۶

سورہ حمد چونکہ نماز کا لازمی جز ہے اور جب بندہ نماز میں یہ جملہ کہتا ہے تو اپنے آپ کو جماعت اور اجتماع میں شمار کرتے ہوئے نعبد و نستعین کہتا ہے ہر قسم کی انفرادیت، علیحدگی،گوشہ نشینی اور ہر قسم کی دوسری چیزیں قرآن اور روح اسلام کے منافی ہیں اور عبادت تو خاص طور پر اجتماعی پہلو رکھتی ہے اور مخصوصا نماز کی بہترین حالت جماعت کی صورت میں ہے۔

اذان اور اقامت سے لے کر اختتام نماز یعنی السلام علیکم و رحمة و بر کاتہ تک جماعت اور اجتماع کی ضرورت کو بیان کیا جاتا ہے گرچہ انفرادی نماز بھی صحیح ہے لیکن یہ دوسرے درجے کی عبادت ہے اور اجتماعی عبادت اور دعا جلد قبول ہوتی ہے اور اس کا ثواب بھی زیادہ ہوتا ہے۔

استعانت

الف ضرورت استعانت

انسان دنیا میں بہت سی قوتوں سے نبرد آزما ہے کچھ بیرونی قوتیں ہیں اور کچھ انسان کی اندرونی قوتیں ہیں جو اسے تباہ و برباد کرنا چاہتی ہیں اور بندگی اور اطاعت میں بھی بہت سی قوتیں انسان کو انحراف،خود پسندی،ریاکاری،سستی اور ایسے دیگر امور میں مبتلا کرسکتی ہیں جیسا کہ شیطان نے بھی انسانوں کو گمراہ کرنے کی کی قسم اٹھا رکھی ہے۔

نفس امارہ بھی برائیوں کی طرف رغبت دلاتا ہے تو اس مقام پر عبد کو ایک طاقتور اور قادر مدد گار کی ضرورت کا ہوتا ہے تو وہ خدا سے مدد مانگتا ہے اور خود کو پروردگار کے سایہ حمایت کے سپرد کرتا ہے اور جو انسان نماز میں بار بار اس کا تذکرہ کرتا ہو۔

اس کا ایمان بندگی کا اعتراف اور اسی سے مدد مانگتا ہو تو وہ پھر کسی طاقت سے نہیں گھبراتا، ثابت قدمی کے ساتھ اطاعت اور بندگی کے راستے پر گامزن رہتا ہے اور کسی دوسری قوت کے سامنے سر نہیں جھکاتا اور مادیات کی کشش سے دھوکا نہیں کھاتا ہے اور اپنی حیات و ممات کو خدا کے لئے قرار دیتا ہے۔

۳۷

انحصار استعانت

خدا وند متعال چونکہ قادر مطلق ہے اور کائنات کی ہر طاقت اور قوت پر حاوی ہے لہذا صرف وہی ذات ہے جو ہر معاملہ میں مددگار ہو سکتی ہے لہذ ا صرف اسی ذات سے مانگنی چاہیے اور اس ذات کے علاوہ کسی دیگر قوت کی مدد ناقص ہوگی مگر یہ کہ خداوند متعال خود کسی کو خصوصی طور مدد گار کامل بنادے۔

اب اگر انسان اس سے مدد لے تو یہ بھی خدا کی عطا کردہ قوت کی مدد ہو گی خدا کی ذات” کن فیکون“ بلکہ اس سے بالا تر طاقت لہذا جب وہ کسی چیز کا اردہ فرمائے تو دنیا وی کسی طاقت کو ہر مارنے کی مجال نہ ہوگی اور ہر طاقت کی قوت دم توڑ دے گی اسی لئے انسان اپنے تمام امور میں اسی ذات سے مدد مانگتا ہے تکمیل ایمان وعبادت میں بھی اس کی مدد کا محتا ج ہے۔

اگر کوئی انسان غفلت میں زندگی گذار رہا ہو اور خدا کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جائے گرچہ یہ بہت بڑی بد بختی ہے لیکن یہ انسان جب کسی بڑی مشکل اور مصیبت میں مبتلا ہو تا ہے اور دنیا کی ہر طاقت سے ما یوس ہو جا تا ہے تو پھر فقط اور فقط ایک ہی طاقت ہے کہ جس سے مدد مانگی جا سکتی ہے اور وہ خدا وند متعال کی ذات ہے۔

خصوصیات آیت پنجم

اولین تکرار لفظ

اس آیت میں ایک لفظ ”ایال“ دو مرتبہ آیا ہے اس طرح یہ قرآن مجید کا ایک ہی آیت میں ہونے والا پہلا تکرار ہے یہ معنوی مفاہیم کے علاوہ لفظی خوبصورتی کا باعث ہے اس مقام پر یہ تکرار کلام میں لطافت بھی پیدا کرتا ہے اور محبوب سے گفتگو چونکہ شیرین ہو تی ہے تو الفاظ کے تکرار سے طویل کیا جاتا ہے۔

۳۸

پہلا بلا واسطہ فعل

اس آیت مبارکہ کی یہ خصوصیت ہے کہ آسمانی کتاب میں عبد پہلی دفعہ اپنے مالک کو بلا واسطہ پکارا ہے اور اس کو خطاب کرنے کا شرف حاصل کرتا ہے گرچہ انسان گذشتہ آیات میں مختلف مرا حل میں یہ اعزاز حاصل کر رہا ہے کہ اپنے مالک اور خالق سے صرف ”تم“ کہہ کر گفتگو کا آغاز کرے جس میں اپنا ئیت پائی جا تی ہے۔

پہلی ضمیر

قرآن مجید میں استعمال ہو نے والی پہلی ضمیر ”ایاک “ ہے یہ اس آیت مبارکہ کی خصوصیت ہے کہ سب سے پہلی ضمیر اس آیت میںآ ئی ہے اور وہ بھی خدا کے لئے استعمال ہوئی ہے اور ضمیر بھی ضمیر مخاطب ہے اور یہ ضمیر ایک آیت میں دو مرتبہ آئی ہے۔

ضمیر کا استعمال عظمت مقام معبود کی وجہ سے ہے اور اس میں یہ مفہوم ہے معرفت اور شناخت کے مراحل طے ہو چکے ہیں لہذا اب اس ذات برتر کے لیئے ضمیر استعمال ہو رہی ہے اور ضمیر خطاب اس لیئے ہے کہ تعلق کا اظہار کیا جائے ہم تیرے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔

( ۴) پہلا مطلوب الہی

مطلوب الہی اور عبد کا پہلا تذکرہ اس آیت میں ہے۔ مقصد تخلیق بھی عبادت ہے اور خدا بھی چاہتا ہے کہ انسان عبادت کریاور اطاعت کی زندگی گزارے لہذا قرآن مجید میں پہلا مقام ہے کہ جہاں الہی طلب جو کہ عبادت ہے اس کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ ہم تیرے حکم کے مطابق صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔

پس مرضی الہی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔اور پھر عبد اپنی طلب کا اظہار بھی کرتا ہے کہ بار الہی ہم تمام معاملات میں تم سے ہی مدد طلب کرتے ہیں لہذا یہ عبد کی پہلی طلب اور دعا قرار پائی کہ جو قران مجید کی اس آیت کا خاصہ ہے۔

۳۹

( ۵) پہلا اظہار وجود

اس آیت مبارک میں عبد” نعبد “اور ” نستعین“ کے الفاظ سے اظار وجود کرتے ہوئے خدا کی بارگاہ میں حاضری دے رہا ہے اور کہ رہا ہے کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور بندہ اپنے مالک سے اپنی ہی بھلائی کے دو کاموں کا تذکرہ کر رہا ہے کہ ہم اپنے کام اور ذمہ داری پوری کرتے ہیں اسی لیئے فعل مضارع کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور (یہ قرآن مجید میں آنے والا پہلا فعل بھی ہے)۔

البتہ یہاں جمع متکلم کا صیغہ استعمال ہوا ہے اس میں اس امر کا اظہار ہے کہ ہماری عبادت مجموعی طور پر ( یعنی اولیاء انبیاء اور آئمہ کی عبادت سے ملکر )ہی عبادت کہلا سکتی ہے وگرنہ ایک بندہ عبادت خدا انجام دینے کو اپنی طرف نسبت دینے میں کاذب بھی ہو سکتا ہے۔

فضائل

( ۱) نماز حضرت امام زمانہ میں تکرار

اس آیت مبارکہ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ ہمارے موجودہ زمانہ کے امام آخرالزمان علیہ السلام کی مخصوصہ نماز کی ہر رکعت میں یہ آیت ۱۰۰ مرتبہ تکرار ہوتی ہے۔

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ )

ہمیں سیدھے راستے کی ھدایت فرما تا رہ

ھدایت، پروردگار عالم کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار،اسکی وحدانیت کی گواہی،اسے اس کائنات اور عالم آخر ت کامربی اور مالک ماننے اور اس سے طلب و استعانت کے مرحلہ تک پہنچ جانے کے بعد ہم بارگاہ خداوندی میں درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں دنیاکے اس بیابان میں راہ مستقیم پر گامزن رکھ اور یہی راستہ جنت کے لیئے ہمارا ہادی ہو،اس ہدایت کی دوصو رتیں ہیں۔

۴۰