تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت36%

تفسیر انوار الحجّت مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 217

تفسیر انوار الحجّت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 154986 / ڈاؤنلوڈ: 5697
سائز سائز سائز
تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

( ۱) ھدایت تکوینی

خالق کائنات نے اس ہدایت کے ذریعے تمام حیوانات، جمادات،نباتات کو رشد،نمو اور ترقی فرماتی ہے جس طرح پرندوں،چرندوں کا گرمی اور سردی کے مطابق انتظام کرنا، شھد کی مکھیوں کا پھولوں سے رس نکال کر شھد فراہم کرناہدایت تکوینی ہے جیسا کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا۔

( رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَه ثُمَّ هََدٰی )

(حضرت موسی نے فرمایا )ہمارا پروردگاروہ ہے جس نے ہر موجود کو لباس ہستی بخشا ہے اور پھر اس کی ھدایت اور رہبری کی ہے۔

( ۲) ہدایت تشریعی

اس کے ذریعہ سے خداوندعالم نے تمام افراد بشر کی ہدایت کی ہے انبیاء اور آسمانی کتب

کے بھیجنے کیساتھ خدا نے تمام انسانوں پر اتمام حجت کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انسان کو حق و باطل کی پہچان کے لیئے عقل جیسی قوت عطا فرمائی ہے اور انبیاء علیہم السلام نے احکام اور قوانین الہی کو ان کے سامنے بیان کیا ہے۔ اس ہدایت تشریعی کی وجہ سے بعض لوگوں نے ہدایت حاصل کی ہے اور بعض لوگوں نے ضلالت وگمراہی کاراستہ اختیار کیا جیسا خداوندعالم نے فرمایا

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا )

یقینا ہم نے انسان کو راہ(سعادت)کی ہدایت کی خواہ وہ شکر گزار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا ہو۔

ہدایت سے کیا مرادہے؟جن لوگوں نے اس وجہ سے ہدایت حاصل کی ہے اب وہ بارگاہ خداوندی میں خصوصی ہدایت کی درخوا ست کر رہے ہیں کہ ہمیں سیدہی راہ کی ہدایت فرما اور یہی اھدناالصراط المستقیم میں بھی مراد ہے۔ یہ عنایت ربانی ہے خداوندعالم اپنی حکمت کے تقاضوں کے ساتھ اپنے خاص بندوں کے لیئے یہ ہدایت فرما رہا ہے۔بہرحال یہاں عمومی ہدایت مراد نہیں ہے یعنی جو خداوندعالمنے پوری کائنات کو عطا کی ہے۔ لہذا یہاں ہدایت سے مراد وہی اعانت ہے جس کی خواہش کا اظہار ایک نستعین میں کیا تھا یہ وہ توفیق خداوندی جو بندہ کے شامل حال ہوتی ہے اور وہ اسی کی بدولت وہ خیر و فلاح کے قریب آجاتا ہے۔

۴۱

دعا

مقام الہی کی معرفت رکھنے والے انسان کے لئے اہم ترین دعا ہے،صراط مستقیم کی طرف ہدایت کی دعا ہے یعنی ہمیں دنیاوی امور جیسے عبادت،عتقاد، اخلاق، سیاست،معا ملات،لین دین اور دوسرے تمام امور جیسے قبر و برزخ،میدان حشر، پل صراط اور صر اط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کے دعا حساب کتاب کے مشکل حالات سے نجات عطا فرمائے۔

یعنی انسان کی تمام دنیاوی اور اخروی میدانوں میں کامیابی اور سعادت کا ذریعہ ہے البتہ صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے میں ہم ہر آن اور لحظہ،خدا کے فضل و کرم اور توفیق کے محتاج ہیں جیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے۔

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ )

اے لوگو تم سب خدا کے محتاج ہو

( ۳) صراط مستقیم

صراط مستقیم کی وضاحت قرآن مجید نے مختلف مقامات پر بیان فرمائی ہے بعض مقامات پر راہ اعتدال،اتحاد اور استقامت مراد ہے کیونکہ انسان کو ہر لمحہ لغزش اور کجروی کا خوف رہتا ہے۔اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے۔

( وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ )

یہ ہمارا سیدھا راستہ ہے اس کی اتباع کرو اور دوسرے راستوں کی طرف نہ جاؤ کہ راہ خدا سے الگ ہو جاؤ گے۔

اسلام کا تربیتی راستہ معتدل اور درمیانی راہ ہے اس میں کوئی افراط وتفریط نہیں پائی جاتی ہے۔قرآن مجید نے صراط مستقیم سے آئندہ کا آئین،دین حق اور احکام خدا وندی کی پا بندی بھی مراد لی ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے۔

( قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )

کہہ دیجیے کہ میرے پروردگار نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت کی ہے جو کہ سیدھا دین ہے اور اس ابراہیم کا آئین ہے جس نے کبھی خدا نے شرک نہیں کیا۔

۴۲

اسی طرح اللہ تبارک و تعالی نے اپنی عبادت کا نام بھی صراط مستقیم رکھا ہے جیسا کہ فرمان خدا وندی ہے۔

( وَأَنِ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ )

اور میری ہی عبادت کرو کیونکہ یہی صراط مستقیم ہے۔

صراط مستقیم تک پہنچنے کا راستہ اللہ سے تعلق و ربط کے ساتھ ممکن ہے اس سلسلے میں خدا وند والم رشاد فرماتا ہے۔

( وَمَن يَعْتَصِم بِاللَّـهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )

جنہوں نے اللہ تعالی کے دامن کو تھامے ر کھا انہو ں نے ہی صراط مستقیم کی ھدایت پائی۔

خدا پر اعتقاد رکھنے والے انسانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا ور اؤ لیا ء خدا کی راہ کا انتخاب کرے کیونکہ فقط یہی راہ ثابت ہے اور دوسری تمام راہیں تغیر وتبدل کا شکار رہنے کے ساتھ متعدد بھی ہیں لہذا انسان فقط خدا سے ہی سیدھی راہ ثابت قدم رہنے کا تقاضا کرے۔

اگر ہم ظلم اور راہ روی جیسے گناہوں ار تکاب کریں تو منبع ہدایت سے ہمارا رابطہ منقطع ہو جا ئے گا لہذا ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اسے موانع پیش نہ آئیں تا کہ ہم انحراف اور تباہی سے بچے رہیں جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

یعنی ارشد نا للزوم الطریق المئودی الی محبتک والمبلغ الی جنتک والما نع من ان یتبع اهئوا نا فنعطب اوان نا خذبا را ئینا فنهلک

خدایا ہمیں ایسے راستے کی ہدایت فرما جو تیری محبت اور جنت تک لے جاتا ہے اور جو راستہ خواہشات کی اتباع اور اپنی آرا ئپر عمل کرنے سے ہلاکت میں پڑنے سے روکتا ہے اس آیت سے واضح طور ہر معلوم ہوتا ہے دین حق کی حقیقی معرفت ان اشخاص کے ذریعہ ہو سکتی ہے۔

۴۳

جنہوں نے اس دین کے اصولوں پر صحیح معنی میں عمل کیا ہے اور اس دنے کے لئے ایک بہترین نمونہ ہیں۔

لہذا صراط مستقیم پر پہنچنے کیلئے ان ہستیوں کی شناخت کے ساتھ ساتھ ان کی پیروی انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کا اتم اور اکمل نمونہ صرف اورصرف اہلیبیت و طہارت وعصمت علیہم السلام ہی ہیں۔

جیسا کہ روایت میں بھی موجود ہے حضرت امام سجاد علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

لیس بین الله و بین حجته حجاب ولا لله دون حجته ستر: نحن ابواب الله و نحن صراط المستقیم و نحن ملبسته علمه و نحن تراجمة وحیه و نحن ارکان توحیده و نحن مو صع سره

خدا اور اس کی حجت کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے خدا کی شناخت کے لئے حجت کی شناخت ضروری ہے ہم ہی باب اللہ ہیں،ہم ہی صراط مستقیم ہیں،اور خدا کے علم کا خزانہ بھی ہیں ہم ہی خدا کی وحی کے ترجمان ہیں اس کی تو حید کے ستون ہم ہیں،اور اس کے اسرار کا خزانہ بھی ہم ہیں۔

اسی مطلب پر اور بھی بہت سی روایا ت ہیں جو بتاتی ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد محبت اہلبیت ہے اس مطلب پر ابن شھر آشوب نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ اھد نا الصراط المستقیم سے مراد اہلبیت اور محبت اہلبیت علیہم السلام ہے۔

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

هی الطریق الی معر فته و هما صراطان صراط الدنیا، صراط الاخرة،فا ما الصراط فی الدنیا دهو الامام المعتر ض الطا عة من عرفه فی الدنیا واقتدی بهداه مر علی الصراط الذین هو حسر جهنم فی الا خراة ومن لم یعرفه فی الدنیا زلت قدمه فیالاخراة فتردی فی نار جهنم

صراط مستقیم خدا کی معرفت کا راستہ ہے اس مراد دو راستے ہیں صراط دنیا صراط آخرت، صراط دنیا سے مراد وہ امام ہیں جن کی اطاعت مخلوق پر واجب ہے۔ لہذا جس نے اس دنیا میں اس امام کی معرفت حاصل کی اور اس کی پیروی کی،قیامت والے دن وہ پل صراط کو با آسانی عبور کرے گا اور جس نے اس دنیا میں امام بر حق کی معرفت حاصل نہ کی قیامت والی دن اس کے قدم ڈگمگا جا ئیں گے اور جہنم کی آگ ہی اس کا ٹھکا نا ہو گی۔

۴۴

پل صراط کے بارے میں حضرت ابو بکر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول اعظم( ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔

لا یجوز احد الصراط الا من کتب له علی الجواز

بہر الحال بعض مفسریں نے صراط مستقیم سے اسلام،بعض نے قرآن بعض نے انبیاء بعض نے حضرت رسول اعظم (ص) بعض نے معرفت امام بعض نے حضرت امیر المومنین اور بعض آئمہ بر حق مراد لئے ہیں۔

مرحوم طبرسی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کو عموم پر حمل کرنا بہتر ہے تا کہ تمام موارد کو شامل ہو جائے یعنی صراط مستقیم وہ دین ہے جس کا خدا وند ولم نے ہمیں حکم دیا ہے اور توحید،عدل اور (نبوت امامت) اور ولایت کی اطاعت کو ہم پر واجب اور ضروری قرار دیاہے۔

( صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَلاَالضَّالِّینَ )

جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تم نے نعمتیں نازل کیں ہیں،ان کا راستہ نہیں جن پر تم نے غضب نازل ہوا ہے جو گمراہ ہوئے ہیں۔

الہی نعمتیں

یہ آیت مبارکہ اس راہ حق اور سیدھے راستے کی وضاحت ہے جس کی پہلی آیت میں دعا مانگی گئی تھی بہر حا ل یہاں نعمت سے مرا د مادی اور دنیاوی نعمتیں نہیں ہیں کیو نکہ دنیاوی نعمتیں خدا کا عمومی انعام ہیں ان کے لئے بقاء نہیں ہے لہذا یہاں وہ ابدی اور دائمی نعمت مراد ہے جس کے حصول کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور وہ نعمت ہدایت اور تو فیق ہدایت ہے۔

۴۵

یہی انسان کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھتی ہے اور یہ نعمت صرف اور صرف ایمان،آئمہ اطہار علیہم السلام کی ولایت کا اقرار،اور اطاعت اور پیروی میں مضمر ہے اور آخری دم تک اس ہدایت پر ثابت قدم رہنا ضروری ہے اور جو لوگ نعمتوں کے حصول کے بعد ان پر ثابت قدم نہیں رہے تو ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا جیسا کی اللہ رب العزت کا فرمان ہے

( أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ )

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہں نے اللہ کی نعمت کو کفران نعمت کے ساتھ تبدیل کر دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کی منزل تک پہنچا دیا۔

لہذا جنہں نے جان بوجھ کر حق سے انحراف کیا ہے ان پر تو اللہ کا غذب ہو ہے اور جنہوں نے حق کو طلب کرنے میں کوتا ہی کی ہے وہی بھٹکے ہوئے ہیں اور جو اس ہدایت پر ثابت قدم ہیں وہ انعام یافتگان الہی ہیں اور انہی کے لئے سعادت ہے۔

حضرت فاطمةالزاھرا سلام اللہ علیہا نے بھی فدک کے مسئلہ پر اپنے تاریخی خطبہ مسجد نبوی میں اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی کے اس فرمان کو تلاوت فرمایا۔

( وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ )

مسلمان رہتے ہوئے اس دنیا سے مرنا۔

لہذا اس ہدایت پر ثابت قدم رہنا ضروری ہے فقط اسلام کو قبول کر لینا کافی نہیں ہے بلکہ مرنے تک ثابت قدم رہنے سے ہی سعادت اور خوش بختی نصیب ہو سکتی ہے۔

تر بیت الہی

انسان اپنے آغاز لے کر انجام تک تربیت کا محتاج ہے یہی وجہ ہے کہ خدا وند عالم نے اس کی تربیت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے ہیں۔

۴۶

ان کے بعد ائمہ اطہار علیہم ا لسلام تا قیام قیامت انسانیت کے مربی ہیں اور انسان بھی یہی درخواست پیش کر رہاہے کہ مجھے ان انعام یافتہ لوگوں کی راہ کا مسافر بنا خدا وند عالم نے انعام یافتہ لوگوں کا قرآن مجید میں اس طرح تذکرااہ فرمایا ہے۔

( وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ )

جو لوگ خدا اور رسول کے احکا م کی اطاعت کرتے ہیں خدا نے انہیں ان لوگوں کے ساتھ قرار دے دیا ہے جنہیں نعمات سے نوازا گیا ہے اور وہ انبیاء،صدیقین،شھداء اور صالحین لوگ ہیں۔

اسی طرح معانی اخبار میں حضرت رسول اعظم (ص) سے روایت موجود ہے۔

انعمت علیهم شیعته علی یعنی انعمت علیهم بولایت علی ابن ابی طالب لم تغضب علیهم ولم یضلوا

انعام یافتگان الہی علی کے شیعہ ہیں کیونکہ انہیں علی ابن ابی طالب کی ولایت کا انعام دیاگیا ہے ان پر نہ تو غضب الہی ہو گا اور نہ ہی وہ گمراہ ہیں

مغضوبین کی راہ سے دوری

قرآن مجید میں مغضوبین کے عنوان سے مختلف افراداور امتوں کا تذکرہ موجود ہے جن پر خدا کا غضب ہو اہے ا ور ہم ہر روز نماز میں خدا وندعالم سییہی دعا مانگتے ہیں کہ ہمیں ان مغضوبین کے عقائد،اخلاق اور عمل سے دور رکھ یعنی ان کی راہ سے دوری اور ان سے نفرت کا اظہار ضروری ہے کیونکہ ان پر اللہ کا غضب بھی ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور انہیں جنت کی خوشبو تک نصیب نہ ہو گی اور جہنم کا ٹھکا نا ہو گا جیسا کہ اللہ نے فرمایا۔

( الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ )

منافق اورمشرک مرد اور عورتیں جو خدا کے بارے میں برے خیالات رکھتے ہیں ان سب پر عذاب نازل کرے،ان پر عذاب کی گردش ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے جہنم کو کو مہیا کیا ہے۔

۴۷

بہر حال کفر کی راہ اختیار کرنے والے،حق سے دشمنی والے ہیں انبیاء مرسلین اور آئمہ اطہار کو اذیت دینے والے ہی مغضوبین ہیں جیسا کہ حضرت امام جعفر صاق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

ان المغضوب علیهم الضاب

بیشک مغضوب علیہم سے مراد اہلبیت سے عداوت کا اظہار کرنے والے (ناصبی) ہیں

لہذا مغضوبین کی راہ سے دوری اور ان سے نفرت کرنے والے ہی انعام یافتگان کی اتباع اور پیروی کرنے والے ہیں۔

گمراہوں کی راہ سے دوری

ہمیں گمراہوں کی راہ سے دوری اور نفرت کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ یہ لوگ بھی مغضوبین کی طرح ہی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ خود گمراہ ہیں جبکہ مغضوبین خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ خدا نے پہلے مغضوبین کی راہ سے دوری کا حکم صادر فرمایا ہے اور پھر بلا فاصلہ گمراہوں کی راہ سے اجتناب کا کہا ہے قرآن مجید میں دونوں گروہوں کے متعلق مختلف آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے مغضوبین کا مرحلہ،گمراہوں کی نسبت سخت اور بد تر ہے بعض مفسرین نے ضالین سے منحرف عیسائی مراد لئے ہیں اور مغضوبین سے یہودی مراد لئے ہیں اور بعض مفسرین نے اس کے عکس کو بیان کیا ہے حقیقت یہ ہے مغضوبین اور ضالین دو عنوان ہیں چونکہ یہودی اور عیسائی ہر وقت اسلام سے دشمنی رکھتے تھے

لہذا یہ دونوں گروہ مغضوبین اور ضالین ہیں کیو نکہ یہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسرں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں۔

کل من کفر بالله فهو مغضوب علیه وضال عن سبیل الله

جو بھی حق خدا کو چھپاتا ہے وہ مغضوب علیہ اور سبیل خدا سے گمراہ ہے۔

۴۸

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں

الضالین اهل الشکوک الذین لا یعرفون الامام

ضالین سے مراد وہ اہل شکوک ہیں جو امام کو نہیں پہچانتے۔

لہذا ان دونوں گروہوں سے نفرت ان کی راہ سے دوری اور انعام یافتگان کی راہ پر ثابت قدم رہنا صراط مستقیم ہے۔

سورہ بقرہ

اسماء وجہ تسمیہ

( ۱) بقرہ

، اس سورہ مبارکہ کے چند نام بیان ہوئے ہیں ان میں مشہور ترین نام سورہ بقرہ ہے،بقرہ کا معنی گائے ہے چونکہ اس سورہ میں گائے کو ذبح کرنے کا قصہ بیان ہو اہے۔، یہ قصہ کسی اور سورہ میں بیان نہیں ہوا ہے اس لیئے اس سورہ کو سورہ بقرہ کہا جاتا ہے۔

( ۲) سنام القرآن

اس سورہ کا نام سنام القرآن بھی ہے اور اسے سنام القرآن اس لیئے کہتے ہیں کہ سنام سے مراد بلندی ہے اور یہ سورہ بھی رفیع اور بلند ہے جیسا کہ سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اعظم (ص)نے فرمایا۔

ان لکل شیء سناما،وسنام القرآن البقره

ہر چیز کے لیئے رفعت اور بلندی ہے اور قرآن مجید کی بلندی سورہ بقرہ ہے

( ۳) فسطاط القرآن :

اس سورہ کا ایک نام فسطاط القرآن بھی ہے۔فسطاط کا معنی خیمہ ہے اور خیمہ کسی چیز کا جامع ہوا کرتا ہے اور اسے فسطاط القرآن اس لیئے کہتے ہیں کیونکہ یہ عظیم سورہ ایسے احکام کا جامع ہے جو احکام دوسری سورتوں میں مذکور نہیں ہیں جیسا کہ حضرت رسول اعظم (ص) نے ارشاد فرمایا

السورةاللتی یذکر فیها البقره،فسطاط القرآن

جس سورہ میں گائے کا تذکرہ موجود ہے وہ فسطاط القرآن ہے۔

۴۹

( ۴) سید القرآن

حضرت رسول اعظم (ص) کے فرمان کے مطابق سورہ بقرہ سید القرآن ہے، جیسا کہ آپ کا فرمان ہے۔

قرآن سید الکلام ہے اور سید قران سورہ بقرہ ہے۔

( ۵) سورہ۔ا۔ل۔م:

اس سورہ کا ایک نام سورہ ا۔ل۔ م بھی ہے اور اس نام کی وجہ اس سورہ کے آغاز میں موجود حروف مقطعات ( ا۔ل۔م ) ہیں۔جیسا کہ بعض لوگوں کا نظریہ بھی ہے۔

انها اسماء السوره و مفاتحها

یہ سورتوں کے نام اور آغاز پر دلالت کرتے ہیں۔

مقام نزول وتعداد آیات

اس بات پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ مدنی سورہ ہے البتہ اس سورہ کی ایک آیت حجت الوداع کے موقع پر منی میں نازل ہوئی ہے اور وہ آیت واتقو یو ما تر جعون فیہ الی اللہ ہے۔اس سورہ مبارکہ کی کل ۲۸۶ آیات ہیں،یہی تعداد حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے مروی ہے

شان نزول اس سورہ مبارکہ کا ایک شان نزول نہیں ہے کیونکہ اس سورہ کی مختلف آیات اہم مواقع پر نازل ہوتی رہی ہیں اسی مناسبت سے مختلف آیات کا مختلف شان نزول ہے اس کے متعلق آیات کے ضمن میں ہی تفصیلی بحث کریں گے جب بھی کوئی اہم واقع بیان ہوگا تو اس کے ساتھ ہی اس کا شان نزول بھی بیان کر دیا جائے گا

۵۰

خصوصیات سورہ بقرہ

( ۱) سب سے بڑا سورہ ہے۔

اس سورہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کا سب سے بڑا سورہ ہے جو تقریبا اڑھائی سپاروں پر مشتمل ہے۔

( ۲) مدینہ میں نازل ہونے والی پہلی سورہ۔

یہ مدینہ میں نازل ہونے والا پہلا سورہ ہے جیسا کہ سیوطی عکرمہ سے بیان کرتے ہیں کہ۔

اول سورة نز لت بالمدینه،سورة البقره

مدینہ میں سب سے پہلے نازل ہونے سورہ سورہ بقرہ ہے۔

( ۳) سب سے زیادہ احکام پر مشتمل۔

قرآن مجید کا یہ سورہ جتنے احکام پر مشتمل ہے اتنے احکام کسی اور سورہ میں بیان نہیں ہوئے ہیں جیسا کہ روایت میں موجود ہے کہان فی البقره ضمس مئا ة حکم

سورہ بقرہ پانچ سو احکام پر مشتمل ہے۔

( ۴) سب سے زیادہ آیات

قرآن مجید کا یہ سورہ سب سے زیادہ آیات قرآنی پر مشتمل ہے جیسا کہ حضت امیر المومنین علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ اس سورہ کی ۲۸۶ آیات ہیں۔

۵۱

فضائل سورہ

( ۱) افضل ترین سورہ :

یہ قرآن مجید کی سورتوں میں سب سے افضل سورہ ہے جیسا کہ حضرت رسول اعظم (ص)نے اپنے اصحاب سے پوچھا ای القرآن افضل :قرآن مجید کی کونسی سورہ افضل ہے۔

انہوں نے کہا

اللہ و رسولہ اعلم۔ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں

حضرت نے فرمایا سورةالبقرة

افضل ترین سورہ،بقرہ ہے۔

( ۲) استحقاق رحمت :

اس سورہ مبارکہ کی تلاوت رحمت خدا وندی کی موجب ہے جیسا کہ ابی بن کعب کہتے ہیں حضرت

رسول اعظم (ص) نے ارشاد فرمایا۔

من قراء سورةالبقره فصلوات الله علیه و رحمته و اعطی من الاجر کا عرابط فی سبیل الله سنته لا تسکن روعته

جو بھی اس سورہ کی تلاوت کرے گا وہ اللہ کے درود و سلام اور لامتناہی رحمتوں کا مستحق ہو گا اور اسے ایک سال تک اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کاثواب عطا ہوگا اور کفار کا اس پر کوئی خوف و دبدبہ نہ ہو گا۔

اس کے بعد حضرت نے ارشاد فرمایا اے ابی مسلمانوں سے کہو کہ۔

ان یتعلموا سوره البقره فان تعلمها برکته و ترکها حسرةولا یستطیعها البطلة،قلت یا رسول الله ما البطلةقال السحره

سورہ بقرہ کو یاد کریں کیونکہ اسے سیکھنا برکت ہے اور اسے ترک کرنا ندامت ہے،جادو گر اس سورہ کو پڑھنے اور سننے کی طاقت نہیں رکھتے۔

۵۲

( ۳) یاد کرنے کا انعام :

اس سورہ مبارکہ کو سیکھنے کی بہت بڑی فضیلت ہے جیسا کہ روایت میں موجود ہے کہ حضرت رسول اعظم (ص)نے اپنے اصحاب کو کسی مقام پر بھیجنے کا ارادہ فرمایا اور ان کے امیر کے انتخاب کے لئے ایک ایک صحابی کو بلا کر پوچھتے کہ قرآن کا کونسا سورہ یاد ہے یہ مختلف سورتوں کے نام بتاتے بالا خر ایک نو جوان آیا اور اس نے کہا مجھے سورہ بقرہ یاد ہے تو حضرت نے فرمایا :

اخبر حوا و هذا علیکم امیرا ۔

یہی آپ کا امیر ہے اس کی سربراہی میں جاؤ ان لوگوں نے اعتراض کیا

يارسول الله هو احدثنا سنا قال معه سورة البقره

یا رسول اللہ یہ تو ہم سے کم سن ہے حضرت نے فرمایا لیکن اسے سورہ بقرہ یاد ہے۔

اس مبارک حدتث سے واضح ہو گیا کہ منصب امارت علم و حکمت کے ساتھ ہے زیادہ سن رسیدہ ہونے کے ساتھ نہیں ہے۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام شریعت نبوی حکم متشابہ ناسخ منسوخ مجمل مبین اور پورے قرآن کے علوم پر حاوی مشکل کشاء اور غیب کے متعلق قرآنی آیات سے آگاہ کرنے والے اور پوری کائنات سے افضل تھے یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص)کے بعد آپ کی ہستی خلیفہ بلا فصل ہے۔

۵۳

موضوعات

اس سورہ مبارکہ کا بنیادی موضوع تقوی ہے اور اس کے موضوعات کو مندجہ ذیل چھ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

( ۱) تقوی چاہنے والوں کی خلافت اور جنت کی طرف ہدایت :آیت ۱ ۔ ۲

( ۲) ہدایت قران کے مطابق مختلف گروہ،متقی،کافر،منافق،: آیت ۳ ۔ ۲۹

( ۳) خلافت آدم۔تقوی اور غیر تقوی کی نشانیاں۔آیت ۳۰ ۔ ۳۹

( ۴) بنو اسرائیل کی خلافت۔غیر تقوی کا نمونہ ظلم،فساد، ظلم،خون ریزی وکفر نفاق، ۴۰ ۔ ۱۲۳

( ۵) خاندان ابراھیم کی امامت،تقوی کا نمونہ،خلافت، امامت کی لیاقت،ظالموں سے عادلوں کی طرف خلافت و امامت کا انتقال،آیت ۱۲۴ ۔ ۱۵۷

( ۶) حدود تقوی الہی،احکام شرعیہ،مسائل فقہیہ آیت ۱۵۷ ۔

محور بحث،تقوی

کلمہ تقوی اس سورہ میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور تقوی ہی تمام آسمانی کتب کا محور ہے جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔

( وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ ) (۱)

ہم نے تم سے پہلے اھل کتاب کو اور اب تمہیں یہ وصیت کی ہے کہ تقوی اختیار کرو۔

لہذا اگر تقوی کی نسبت کوئی اور جامع وصیت ہوتی تو یقینا خدا وند عالم اس کا ذکر کرتا دنیا وآخرت کی تمام اچھائیاں اسی لفظ تقوی میں مضمر ہیں انبیاء علیہ السلام بھی توحید کے بعد یہی وصیت کرتے ہیں۔

( أَلَا تَتَّقُونَ ) (۲)

____________________

۰۰۰ سورہ نساء آیت ۱۳۱ ۰۰۰ ۰۰۰ سورہ شعراء ۱۰۶،۱۲۴،۱۶۱، ۰۰۰۱۷۷

۵۴

کیوں تقوی اختیار نہیں کرتے؟

تقوی ہی قران مجید کا محور بھی ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( الم ﴿﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ )

یہ وہ کتاب ہے جس میں متقیوں کے کلئے ہدایت ہے

ھدی اللمتقین ہی سورہ بقرہ کا محور ہے تام موضوعات تقوی کے ساتھ ہی مربوط ہیں،جیسا کہ آپ تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں گے۔

متقین کی راھنمائی۔

یہ کتاب ( قران مجید)متقی لوگوں کی حقیقی راہنما ہے اس سورہ کا محور تقوی ہے اور تقوی کا لغوی معنی اپنی حفاظت کرنا ہے یعنی مضر چیزوں سے نفس کو بچانا اور مفید چیزوں کی طرف رغبت کرنا ہی تقوی کہلاتا ہے بالفاظ دیگر واجبات کا بجا لانا اور محرمات سے بچنا تقوی کہلاتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی نظر میں تقوی

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تقوی کی تعریف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

ان لا یفقدک الله حیث امرک ولا یراک حیث نهاک

جہاں اللہ نے ھکم دیا ہے اسے بجا لانے کی کوشش کرواور جس چیز سے نہی فرمائی ہے وہاں نہ دیکھو۔

___________________

۰۰۰ سورہ بقرہ آیت ۲۰۰۰ سفینتہ البحار ج ۲ ص ۲۲۹ ومجمع البیان ج ۱ ص ۳۷ بحوالہ کاشف

۵۵

مراتب تقوی

تقوی کے تین مراتب ہیں

( ۱) تقوی بدن،جسم کو نجاسات سے دور رکھنا تقوی بدنی ہے۔

( ۲) تقوی نفس،نفس کو شیطانی وسوسوں اور صفات رذیلہ و خبیثہ سے دور رکھنا تقوی نفس ہے۔

( ۳) تقوی قلب،دل کو حضرت حق تعالی کے لیئے علاوہ ہر چیز سے پاک و صاف کرنا تقوی قلب ہے جس جگہ یہ تینوں اقسام موجود ہوں وہ اللہ تعالی کی خاص عنائیت اورلطف کا مستحق ہے۔( عنوان الکلام ص ۱۲۵)

قران میں تقوی کی اہمیت۔

الف،قرآن مجید میں تقوی کو بہت اہمیت دی گئی ہے ایمان کا مرحلہ اسلام سے بلند ہے اور تقوی کا مرحلہ ایمان سے بھی بلند تر ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ )

اگر تم مومن ہو تو تقوی اختیار کرو۔

اسی طرح ارشاد رب العزت ہے۔

( یَا أیُّهَا الّذِیْنَ آمَنُو اتَّقُوا اللّهَ )

صاحبان ایمان اللہ کے لیئے تقوی اختیار کریں۔

__________________

۰۰۰مائدہ ۵۔ ۵۷، ۰۰۰ ۰۰ال عمران ۳۔۱۰۲

۵۶

ب، انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا اساس

تقوی انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں بنیادی مقام رکھتا ہے انبیا علیہم السلام خدا اور اس کی وحدانیت کی دعوت دینے کے بعد سب سے پہلے تقوی کا فرماتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں حضرت محمد مصطفی (ص) کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔

( قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ )

(اے محمد ) ان سے کہ دیجئے کہ آپ تقوی کیوں نہیں اختیار کرتے۔

اسی طرح باقی انبیاء نے اپنی تبلیغ میں توحید کے بعد تقوی کو بہت اہمیت دی ہے۔

تقوی و آئمہ علیہ السلام

آئمہ علیہم السلام کا کردار وہ گفتار، تقوی پر مشتمل تھا یہی وجہ ہے کہ جب ہماری نگاہ نہج البلاغہ پر پڑتی ہے تو اس کتاب مین تقوی ہی محور کلام ہے حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام تقوی کو تمام اخلاقی مسائل کا سردار سمجھتے ہیں جیسا کہ ارشاد فرماتے ہیں۔

التقی رئیس الاخلاق۔

____________________

۰۰۰ مومنون ۲۳ ۸۷

ملاحظہ فرمائیں (۱)حضرت نوح،شعراء ۱۰۶،(۲) حضرت ھود،شعراء،۱۲۴(۳) حضرت صالح شعراء ۱۴۲(۴) حضرت لوط،(۵) حضرت شعیب، ۱۷۷ (۶)حضرت الیاس،صافات ۱۲۴(۷) حضرت ابراہیم،عنکبوت ۱۶(۸) حضرت موسی،اعراف ۱۲۸(۹) حضرت عیسی،ال عمران ۵ وغیرہ۔۰۰۰

۵۷

تقوی اخلاق کا سردار ہے۔( ۱)

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی نظر میں وہی شخص حقیقی متقی ہے جس کے تمام اعمال ایک طشت میں رکھ کر پوری دنیا کو دکھائے جائیں،اور اس میں ایک عمل بھی ایسا نہ ہو جس کی وجہ سے اسے شرمندگی اٹھانی پڑے۔( ۲)

حضرت امام باقر علیہ السلام اپنے سچے شیعوں کی علامت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

فوالله ما شیعتنا الا من اتقی الله وطاعه ۔( ۳)

خدا کی قسم ہمارا شیعہ وہی ہے جو تقوی اختیار کرے اور اللہ کی اطاعت کرتا ہو۔

تقوی کی علامتیں

قرآن مجید میں تقوی اختیار کرنے والوں کی بہت سی علامتیں بیان ہوئی ہیں ان تمام کا احصی انتہائی مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ اختصار کا منافی ہے ان میں ایک علامت عزت وتکریم ہے جیسا کہ خداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے۔

( إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ) ( ۴)

____________________

،۰۰۰نہج البلاغہ حکمت ۴۰۲۔ ۰۰۰ منہج الصادقین ج ۱ ص ۱۲۳۰۰۰ سفینة البحار،ج ۱،ص۷۳۳۔

۰۰۰سورہ حجرات آیت ۱۳،

۵۸

بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔ اس کے علاوہ بھی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں تقوی کی علامتیں ذکر فرمائیں ہیں۔

متقین کی صفات

قرآن مجید نے متقین کی بہت سی صفات بیان کی ہیں ہم انشاء اللہ تفسیر کے ضمن میں ان پر اچھی طرح روشنی ڈالیں گے۔

_____________________

۰۰۰۰ملاحظہ فرمائیں

(۱)تائید و نصرت الہی،بقرہ ۱۹۴،(۲) سختیوں سے نجات (۳)۲،رزق حلال میں اضافہ طلاق ۳،(۴)اصلاح عمل،احزاب ۷۰،(۵)گناہوں سے معافی،احزاب ۷۱،(۶)محبت الہی توبہ ۷،(۷)کاموں میں آسانی،لیل ۵،۷، (۸)حفاظت ال عمران ۱۲۰،(۹)قبولی اعمال مائدہ ۲۸،(۱۰)دینوی و اخروی بشارت یونس۶۴،(۱۱)جہنم سے نجات مریم ۷۲،(۱۲)اخروی بہشت ال عمران ۱۹۸،(۱۳)زمین وآسمان کی برکت اعراف ۹۶،(۱۴)فلاح ال عمران ۲۰۰، (۱۵)خدا سے ملاقات بقرہ ۲۲۳،(۱۶)اقتدار عدن اعراف ۱۲۸،(۱۷)علم و دانش بقرہ ۲۸۲،(۱۸) خدا سے دوستی جاثیہ ۱۹،

(۱)ملاحظہ فرمائیں

(۱)غیب پر ایمان بقرہ ۲،۳ (۲) ادائیگی نماز بقرہ ۳(۳) اتفاق بقرہ ۳(۴) حضرت کی نبوت پر ایمان بقرہ۴(۵)سابقہ انبیاء پر ایمان بقرہ ۴(۶) آخرت پر ایمان بقرہ ۴(۷) خط ہدایت بقرہ ۵(۸) فلاح بقرہ ۵(۹) عہد کی وفا بقرہ ۱۷۷(۱۰) مصائب میں صبر بقرہ ۱۷۷(۱۱) راست گوئی بقرہ ۱۷۷(۱۲) وقار وبرد باری فتح ۲۶(۱۳) تعلیم دعا ال عمران ۱۶(۱۴) عبادت وقنوت ال عمران ۱۷(۱۵) سہر خیزی اور گناہوں سے معافی ال عمران ۱۷(۱۶) غصہ پینے والے ال عمران ۱۳۴(۱۷) درگزر ال عمران ۱۳۴( ۱۸) جب گناہ کر بیٹھیں تو استغفار کرتے ہیں ال عمران ۱۳۵(۱۹) گناہوں پر اصرار نہیں کرتے ال عمران ۱۳۵۔۰۰۰

۵۹

تفسیر آیات

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الم ) ( ۱)

سہارا اللہ کے نام کا جو سب کو فیض پہنچانے والا بڑا مہربان ہے ا۔ل۔م

۔ ا۔ ل۔م کے متعلق مفسر ین نے تقریبا ۳۵ معانی بیان کیے ہیں ان میں چند ایک درج ذیل ہیں۔

( ۱) حروف قرآن

( ۲) معجزہ خداوندی

( ۳) قسم

( ۴) خدا اور اس کے رسول کے درمیان اسرار ورموز

( ۵) سورہ کا خلاصہ

( ۶) اسم اعظم

( ۷) ہر سورہ کا نام

( ۸) مخالفین کی خاموشی۔

قرآن مجید کی ۲۹ سورتوں کے آغاز میں یہ حروف مقطعات موجود ہیں جب کہ ۲۴ مقامات پر ان کے بعد قرآن اور معجزہ کے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات میں ہے

( الم ﴿﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ )

( الم ﴿﴾ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ )

( الر ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ )

( المص ﴿﴾ كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ )

( طس ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ )

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

پر ایمان نہیں لایا ہے جو اپنی رائے سے میرے کلام کی تفسیر کرتا ہے۔

دوسرے بیان میں پیغمبر سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا:''مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَأیِهِ فَقَدِ افْتَرَیٰ عَلٰی اللّٰهِ الکَذِبَ'' 1 جس شخص نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے اور اپنی فکر سے کی وہ یقینا خدا پر جھوٹ باندھتا ہے۔ پیغمبر کا یہ ارشاد اس وجہ سے ہے کہ جو شخص خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ اس بات پر آمادہ ہو جائے کہ آیات الٰہی کی توجیہ کسی بھی طرح اپنے نفع کے تحت کرے اور اسے قرآن اور کلام الٰہی کی تفسیر بتائے، وہ حقیقت میں اپنی نظر اور رائے کو معیار قرار دیکر اس کی خداوند متعال کی طرف جھوٹی نسبت دیتا ہے۔

قرآن کے ساتھ اس طرح کا معاملہ اور کلام الٰہی کی اس طرح کی تفسیر و تفہیم اتنی مذموم اور خطرناک ہے اور ایسی ضلالت و گمراہی کا باعث ہوتی ہے کہ اس گناہ کے مرتکب افراد قیامت میں سخت ترین عذاب میں مبتلاہوں گے۔

حضرت پیغمبر اس سلسلہ میں بھی ارشاد فرماتے ہیں :''مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَأیِهِ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَده مِنَ النَّار'' 2 جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے گا اس کا ٹھکانہ قیامت میں جہنم ہے۔

اس بنا پر بدترین عذابوں سے محفوظ رہنے، خداوند متعال پر بہتان باندھنے سے

پرہیز کرنے اور ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے بچنے کے لئے لازم ہے کہ نفسانی خواہشات کو چھوڑ دیں، خدا کی ذات اقدس پر جو کہ خیر محض ہے اور انسان کے لئے خیر کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا، ایمان رکھیں، خود محوری اور خود پرستی سے پرہیز کریں، خدا محوری اور خدا پرستی کا جذبہ و عقیدہ اپنے اندر پیدا کریں اورخدا کے سامنے سراپا تسلیم ہو جائیں۔

(1)بحار الانوار، ج36، ص 227 ۔

(2)عوالی اللعالی، ج 4، ص 104 ۔

۸۱

حضرت علی ـ کا ارشاد، تفسیر بالرائے سے پرہیز کے سلسلہ میں

جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا جا چکا ہے کہ انسان ایسے خیالات اور خواہشات رکھتا ہے کہ کبھی کبھی وہ قرآن کے مطابق نہیں ہوتے اور وہ اپنی انسانی طبیعت کے لحاظ سے چاہتا ہے کہ قرآن بھی اس کی خواہش اور نظر کے موافق ہو، یہاں تک کہ بعض اوقات لاشعوری طور پر ممکن ہے کہ وہ خواہشات و خیالات اس کی قرآن فہمی میں اثر انداز ہوں۔ چونکہ ایساخطرہ ہر انسان کو قرآن کریم کی تفسیر کے وقت پیش آسکتا ہے اور شیطان بھی ہر لمحہ گھات میں لگا ہوا ہے تاکہ ایسے ثقافتی لوگوں کو فریب دیکر جو کہ فہم دین کے دعویدار ہیں، ایک گروہ کو راہ حق سے پھیر دے۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ حضرت علی ـ کے اس ارشاد پر خاص توجہ دیں۔

حضرت علی ـ کج فہمی سے محفوظ رہنے اوراحتمالی انحراف سے پرہیز کرنے کے لئے ارشاد فرماتے ہیں:

''وَاتَّهِمُوا عَلَیهِ آرَائَکُم'' 1 جس وقت تم قرآن کی تفسیر کرنا چاہو تو اپنے

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 175 ۔

۸۲

خیالات و آراء اور افکار و نظریات کو قرآن کے سامنے غلط سمجھو، اپنی شخصی آراء اور نظریات اور نفسانی خواہشات کو چھوڑ دو، اور حضرت کی لفظوں میں، اپنے کو قرآن کے سامنے متہم کرو اور غلط سمجھو!۔

قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی میں امانت و تقوی کی رعایت اوراحتیاط نہایت لازم ہے، اس لئے کہ حضرت فرماتے ہیں کہ اپنے خیالات و نظریات کو قرآن کے مقابلہ میں غلط سمجھو اور اس ذہنیت کے ساتھ کہ میں کچھ نہیں جانتا، جو کچھ قرآن کہتا ہے وہی حق ہے، قرآن سے روبرو ہونا چاہئے پھر کہیں قرآن کی تفہیم و تفسیر کے لئے آمادہ ہونا چاہئے۔

''وَاسْتَغِشُّوا فِیهِ اَهوَائَکُمْ'' اپنے خواہشات او رہوا و ہوس کو فریب خوردہ اور غلط سمجھو تاکہ قرآن سے صحیح استفادہ کرسکو ورنہ ہمیشہ خطا اورانحراف سے دوچار ہوگے۔

اس بنا پر دین کا جوہر (اصل) کہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے، اقتضا کرتا ہے کہ انسان صرف خداوند متعال کا مطیع ہو اور خدا کے احکام، قرآن کریم کے دستورات کے مقابلہ میں اپنی رائے، نظر، خود پسندی اور کج فکری کو باطل سمجھے، جس وقت ایسی روح انسان پر غالب و حاکم ہوگی، واضح ہے کہ اس صورت میں وہ قرآن اور الٰہی احکام و معارف کو بہتر طور سے سمجھے گا پھر جب وہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہوگا ان کو جان و دل سے قبول کرے گا۔

۸۳

قرآن اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے نظریئے

قرآن کریم اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے مختلف نظریئے پائے جاتے ہیں:

۔ وہ نظریہ جو تسلیم و بندگی اور خدا محوری و خدا دوستی کی روح پر مبنی ہے۔

۔ وہ نظریہ جو کہ انسان کی نفسانی خواہشات کواصل قرار دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دینی متون و مطالب اور قرآن کے معارف کی اپنے نفسانی خواہشات کے مطابق تفسیر و توجیہ کرے، وہ نظریہ جس کو آج کی رائج اصطلاح میں ''ہیومن ازم'' ( Humanism ) کہا جاتا ہے، یعنی انسان محوری وانسان دوستی کو خدا محوری و خدا دوستی کے مقابلہ میں پیش کرنا۔

معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ تفسیم بندی گزشتہ مباحث و مطالب سے بالاتر ہے، اس لئے کہ اب تک فرض یہ تھا کہ ممکن ہے قرآن سے متعلق دو طرح کی فکر ظاہر ہو کہ ایک تسلیم و بندگی کی روح واصل پر مبنی ہو اور دوسری وہ فکر و فہم جو کہ نفسانی خواہشات سے متاثر ہو۔ اس بنا پر قرآن کے سمجھنے بوجھنے میں تفسیر بالرائے سے پرہیز کیا جائے اور قرآن جیسا ہے اسے ویسا ہی سمجھا جائے، اس سلسلہ میں حضرت علی ـ کی وصیت کی توضیح کرچکے ہیں کہ خود پسندی اور کج فکری سے پرہیز کرنا اور نفسانی خواہشات سے ذہن کو خالی رکھنا لازم

(1)یہ ایسا نظریہ ہے جو چودھویں صدی عیسوی میں یورپ میں پیدا ہوا جس کا مقصد، اصالتاً صرف انسانی مرتبہ اور حیثیت کو بلند کرنا ہے، اس نظریہ کے طرفدار اومانسٹ یا ہومانسٹ کہے جاتے ہیں جن میں سے اکثر مذہب پروٹسٹ کی طرف مائل ہوگئے۔

۸۴

ہے۔ اس نظریئے میں حضرت کے کلام کے مخاطب دونوں گروہوں کو ہم مسلمان سمجھتے تھے اور دین میں منحرف ہونے سے پرہیز کرنے کے لئے نیز تفسیر بالرائے میں مبتلا ہونے سے بچنے کے لئے تقویٰ کی پابندی کی اور خواہش نفس اور خود پسندی و کج فکری سے دور رہنے کی نصیحت کر رہے تھے۔

جب ہم اس مسئلہ کی تحقیق مزید گہرائی سے کرتے ہیں تو ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ دقیق اور باریک نکتے حاصل ہوتے ہیں، ہمیں بندگی کے باب میں انسانوں کے دو گروہوں میں تقسیم ہونے کے متعلق حضرت علی ـ کے کلام کا اعجاز معلوم ہوتا ہے اور دین و احکام الٰہی کے مقابلہ میں انسانوں کے افکار و نظریات کی نسبت حضرت کے علم النفس اور علم الروح سے زیادہ سے زیادہ آگاہ ہوتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ دو اہم خصوصیات کو بیان کرتے ہیں اور ان کی بنیاد پر انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر گروہ کی خصوصیتں ذکر کر کے ان کا تعارف کراتے ہیں کہ جن کی طرف ذیل میں ہم اشارہ کر رہے ہیں:

ـ: وہ گروہ کہ جس نے تمام وجود کے ساتھ خدا کی بندگی کو قبول کیا ہے، یہ لوگ اپنے نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرتے ہیں، خدا کے ارادہ اور حکم کو اپنے نفسانی خواہشات اور میلانات پر مقدم رکھتے ہیں۔

فطری بات ہے کہ ایسے انسان، اس آسمانی کتاب قرآن کو تہ دل سے قبول کرتے ہیں، اس کے احکام و معارف کو جان و دل سے مانتے ہیںاور مقام عمل میں اسے نمونہ قرار دیکر اس کے شعائر کو برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

۸۵

حضرت علی ـ اسی گروہ کی تعریف میں فرماتے ہیں:

''إنّ مِنْ أَحَبِّ عِبَادِ اللّٰهِ عَبداً أَعَانَهُ اللّٰهُ عَلٰی نَفْسِهِ'' 1 بے شک خدا کا سب سے زیادہ محبوب بندہ خود خدا کے نزدیک وہ ہے جس کی خدانے (اس کے نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنے میں) اس کے نفس کے خلاف مدد کی ہے۔ پھر اس گروہ کے اوصاف بیان کرنے کے بعد ایسے اشخاص کے درمیان قرآن کے مرتبہ کے متعلق ذکر فرماتے ہیں: ''قَد اَمْکَنَ الْکِتَابَ مِن زِمَامِهِ فَهُوَ قَائِدُهُ وَ اِمَامُهُ، یَحُلُّ حَیثُ حَلَّ ثَقَلُهُ، وَ یَنزِلُ حَیثُ کَانَ مَنزِلُهُ'' 2 یہ گروہ جو مومنین و متقین کا گروہ ہے وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے امور کی زمام کتاب خدا کے حوالے کردی ہے لہٰذا وہی اس کی قائد اور پیشوا ہے ۔ جہاں قرآن کا سامان اترتاہے وہیں وہ لوگ بھی وارد ہوجاتے ہیں اور جہاںاس کی منزل ہوتی ہے وہیں وہ بھی پڑاؤ ڈال دیتے ہیں، ان کا سکون و حرکت قرآن کے تابع ہے۔

یہ گروہ قرآن اوردین کے حقائق کو حقیقی وجود کے لحاظ سے قبول کرتا ہے اور ان پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے۔ یہ لوگ دین اور قرآن کریم کے احکام کو حقیقی وجود کا آئینہ دار سمجھتے ہیں کہ جن کی رعایت انسان کی سعادت سے بلاواسطہ رابطہ رکھتی ہے اور ان کی رعایت نہ کرنے کو دنیا و آخرت کی سعادت سے محروم رہنے کا باعث سمجھتے ہیں۔

(1) نہج البلاغہ، خطبہ 86 ۔

(2)نہج البلاغہ، خطبہ 86 ۔

۸۶

چونکہ ایسے انسان خود اپنی کوئی نظر اور رائے نہیں رکھتے، دین اور آسمانی کتابوںاور الٰہی احکام و تعلیمات کے لئے حقیقی وجود کے قائل ہیں نیز ان کے اور انسان کی مصلحتوں کے درمیان علّی اور معلولی رابطہ کے وجود کے معتقد ہیں لہٰذا قرآن کو صحیح طریقہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جو بھی قرآن حکم دے وہی سمجھیں اور اسی پر عمل کریں۔

ـ:پہلے گروہ کے نظریئے کے بالکل برعکس، بعض افراد ایسا نظریہ رکھتے ہیں کہ قرآن یا ہر دینی متن یا ہر دوسری آسمانی کتاب خود افراد کی ذہنیتوں کی تابع ہے نہ یہ کہ خود قطعی اور مشخص مطالب کو بیان کرنے والی ہے، یعنی قرآن یا ہر دوسرا دینی متن، معنی و مطلب کے بغیر ہے اور اس کا کوئی مقصد نہیں ہے، لیکن چونکہ ہر انسان کچھ خاص ذہنیتوں کا حامل ہوتا ہے یہ ذہنیتیں (افکار و خیالات) تربیتی، خانوادگی، اجتماعی اور اس کے مانند دوسرے رابطوں سے ابھرتی ہیں، لہٰذا جس وقت انسان قرآن پڑھتا ہے تووہ اپنی ذہنیت کی بنیاد پر مطالب کو قرآن سے سمجھتا ہے، جبکہ ان مطالب کو قرآن نے بیان نہیں کیا ہے بلکہ یہ انسان کی فہم اور سمجھ ہے جس کو وہ قرآن کے پیرائے میں دیکھتا ہے۔

واضح ہے کہ ایسے اعتقاد اور نظریئے کے اعتبار سے دین و قرآن اور اس کے احکام و آیات ایسے الفاظ اور قالب سمجھے جائیں گے جو کہ ہر طرح کے معنی و مطلب سے خالی ہیں اور یہ انسان کی ذہنیتیں ہیں جو ان الفاظ کو معنی و مفہوم بخشتی ہیں۔

اس خیال کی بنیاد پر ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن یا کوئی بھی دوسرا دینی متن، کوئی بھی بات بیان کرنے کے لئے نہیں رکھتا بلکہ ہر شخص اپنی ذہنیت اور نظر و فکر کی بنیاد پر قرآن اور دوسرے دینی متون سے مطالب کو اخذ کرتا ہے۔

واضح سی بات ہے کہ اس طرح کا نظریہ اگر چہ ظاہری طور سے دین و قرآن اور دینی معارف و تعلیمات کی بات پیش کرتا ہے لیکن حقیقت میں دین اور اہل دین سے کھلواڑ اور مذاق کرتا ہے۔

۸۷

دینی پلورال ازم1 یا مختلف قرائتوں کے قالب میں دین کا انکار

معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ آج ہمارے معاشرے میں دین کی مختلف قرائتوں کے عنوان سے بتایا جارہا ہے اس کا سرچشمہ دوسرے گروہ کا نظریہ ہے۔ اگرچہ مذکورہ عنوان ان نام نہاد روشن فکر افراد کی طرف سے پیش کیا جارہا ہے جو ظاہری صورت میں اپنے کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن ''دین کے متعلق مختلف قرائتوں کے تفکر'' کی اصل کو انسان محوری اور ہیومن ازم میں تلاش کرنا چاہئے۔

جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ مذکورہ نظریہ دینی تعلیمات اور آسمانی کتابوں کے احکام کو بے معنی سمجھتا ہے اور معتقد ہے کہ قرآن اور ہر دوسرا دینی متن ساکت ہے اور کسی معنی و مفہوم کا حامل نہیںہے، بلکہ ہم انسان ہی ہیں کہ اپنی اپنی ذہنیتوں کے ذریعہ اپنی اپنی قرائت، فہم اور سمجھ کو دین و قرآن کی طرف نسبت دیتے ہیں ورنہ خود قرآن نہ کسی پیغام کا حامل ہے اور نہ کسی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔

مذکورہ نظریہ کی حقیقت کو واضح کرنے اوراس کے طرفداروں کے اس قول کا

(1)یعنی اس بات کا اعتقاد کہ انسان کی فلاح و نجات کسی ایک دین و مذہب میں منحصر نہیں بلکہ دوسرے ادیان و مذاہب بھی اس کی فلاح و نجات کا ذریعہ ہیں لہٰذا اسے دوسرے ادیان و مذاہب کو بھی صحیح سمجھنا چاہئے۔

۸۸

مطلب سمجھنے کے لئے (کہ دین ساکت و خاموش ہے اور اس سے مختلف اور متفاوت مطالب و مفاہیم اخذ کرنا ممکن ہے) ایک مثال کا ذکر مفید ہوسکتا ہے۔

کم و بیش ہم سبھی لوگ حافظ جیسے عظیم شاعر، بلند مرتبہ عارف کے دیوان، ان کی غزلوں اور ان کے اشعار سے واقف ہیں۔ حافظ کے دیوان اور ان کے اشعار کی مختلف قرائتیں اس معنی میں ہیں کہ ان اشعار کا خالق اپنے اشعار میں استعمال شدہ الفاظ و کلمات میں کوئی معنی و مقصود مد نظر نہ رکھتا ہو، اور صرف الفاظ و کلمات کو بغیر اس کے کہ وہ کسی معنی کے حامل ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ موزوں صورت میں کھوکھلے قالب کے عنوان سے، البتہ نہایت انوکھے اوردلکش انداز میں نظم کردیاہے، یعنی ان اشعار کی تخلیق شاعر نے کسی طرح کا بھی معنی و مقصدمدنظر رکھے بغیر کی ہو۔

''مختلف قرائتوں'' کے نظریہ کے مطابق کہا جاسکتاہے کہ حافظ کی غزلیں اور اشعار کوئی معنی نہیں رکھتے اور ہر شخص فال کی نیت سے اور ایک خاص قصد و ذہنیت کے ساتھ دیوان حافظ کو کھولتا ہے اور سب سے پہلے شعر سے یا ایک غزل کے مجموعے سے ایک مطلب اپنی ذہنیت کی بنیاد پر سمجھتا ہے، مثلاً کسی کے یہاں کوئی مریض ہے اوروہ اس کی شفا چاہتا ہے، فال نکالتاہے اور ایک غزل سے مریض کی شفا کو سمجھتا ہے، ایک دوسرا شخص مقروض ہے اور اسی غزل سے اپنے قرض کی ادائگی کو سمجھتاہے، تیسرا ایک مسافر کے آنے کی امید رکھتا ہے وہ اسی غزل سے اپنے مسافر کی آمد کی خوشخبری کو سمجھتا ہے۔

۸۹

کلی طور سے ہر شخص اپنی اپنی ذہنیت کے مطابق ان الفاظ سے ایک ایک مطلب نکالتا ہے اور حقیقت میں یہ افراد ہی ہیں جو دیوان حافظ کو نطق و گویائی دیتے ہیں او ر ہر شخص اپنی ذہنیت اور اپنی فکر کو حافظ کی زبان سے ادا کراتا ہے اور تمام توضیح و توجیہ اور مطالب و معنی صحیح سمجھا جاتا ہے، اس لئے کہ مذکورہ مطالب و معانی خود افراد کے ہیں اور الفاظ، کلمات، اشعار اور غزلیں اس فرض کے مطابق بے معنی ہیں۔

جو نظریہ آج ہمارے معاشرہ میں ''دین کی مختلف قرائتوں'' کے نام سے پیش کیا جارہا ہے وہ بھی ایسا ہی نظریہ ہے، یعنی جتنے منھ اتنی باتیں ۔ یہ نظریہ قرآن اوردوسرے دینی متن کو بے معنی اور ہر طرح کے پیغام سے کھوکھلا تصور کرتا ہے۔ اس نظریہ کے طرفدار ایسا خیال رکھتے ہیں کہ قرآن ہرگز نہیں بولتا کہ کیا کرنا چاہئے؟ یا کس کام کے انجام سے پرہیز کرنا چاہئے؟کون سی چیز حق اور صحیح اور کون سی چیز باطل اور غلط ہے؟ بلکہ یہ افراد ہی ہیں جو کہ اپنی خاص ذہنیتوں کی بنیاد پر ایک خاص معنی مثلاً حق و باطل اور صحیح و غلط قرآن سے سمجھتے ہیں۔

چونکہ یہ امور افراد کی ذہنیتوں سے ابھرتے اور پیدا ہوتے ہیں، اس بنا پر ان سب کو صحیح سمجھا جاسکتا ہے، بلکہ کلی طور سے ان کے صحیح اور باطل ہونے کا فیصلہ ہی بے معنیٰ ہے، کیونکہ مثال کے طور پر ایک ہی آیت سے مختلف معانی و مطالب اگرچہ متناقض اور ایک دوسرے کے خلاف ہوں پھر بھی صحیح سمجھے جاتے ہیں، جیسا کہ حافظ کی ایک غزل سے فال نکال کر ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مریض شفا پاتا ہے، تو دوسرا ا س سے اپنے مہمان کی آمد کی خوشخبری سمجھتا ہے اور تیسرا اسی غزل سے ناامید ہو جاتا ہے ا ور اپنے بیمار کی موت کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے۔

۹۰

''دین کی مختلف قرائتوں'' کا نظریہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ قرآن اور ہر ایک دوسرا دینی متن بھی ایسا ہی ہے۔ وہ لوگ معتقد ہیں ، افراد کو ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ایک دوسرے کو قرآن کے سمجھنے میں غلط فہمی سے متہم کریں کیونکہ قرآن سمجھنے کے لئے کسی طرح کی کسی خصوصیت کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ قرآن اور ہر دوسرا متن خود کوئی پیغام نہیں رکھتا کہ اس کا سمجھنا قابل ذکر ہو، جو کچھ قابل ذکر ہے وہ خود انسان کی سمجھ ہے۔ ہماری نظر میںاس نظریہ کو حقیقت میں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے گڑھا گیا ہے لیکن ظاہر میں ایک دین شناسی نظریہ کے عنوان سے، دین اور صراط ہائے مستقیم (سیدھے راستوں) کی جدید قرائت اور معرفت وغیرہ کے نام سے اس کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ دینی پلورال ازم کا نظریہ جو کہ دین کی مختلف قرائتوں کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے منطق و عقل سے اتنا دور ہے کہ ہر صاحب عقل جس وقت اس نظریہ کی جڑوں اور اس کے نتیجوں پر توجہ کرتا ہے تو فوراً اس کے کھوکھلے پن اور باطل ہونے کی تصدیق کردیتا ہے۔دوسری طرف دینی معاشرہ میں پلورال ازم نظریہ کے تباہ کن اور تخریبی نتائج کو دیکھتے ہوئے اس سے آسانی کے ساتھ نہیں گزرا جاسکتا۔

معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بڑے ان جالوں میں سے ایک جال جو کہ انسان کے قسم کھائے دشمن، شیطان نے از آدم تا ایندم دنیا کے موحدین اور خدا پرستوں کو فریب دینے کے لئے اپنے ہزاروں سال کے تجربہ کی مدد سے بچھایاہے، وہ دین کی مختلف قرائتوں کا نظریہ گڑھنا ہے۔ کچھ نام نہاد روشن فکر افراد بھی اس شیطانی فکر کے وسوسہ سے متأثر ہوکر تن من دھن سے شیطان کی مدد کے لئے دوڑ پڑے ہیں تاکہ اس کا اس سلسلہ میں ساتھ دیں۔

۹۱

یہ لوگ اپنی عقل، ذہن، بیان اور تقریر و تحریر کی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو شیطان کے اختیار میں دے کر خود کو انسانوں کی گمراہی کا ذریعہ بنا لئے ہیں۔

اس بنا پراگر ہم دین شناسی میں ''پلورال ازم'' نظریہ کا خلاصہ جو کہ دین اور صراط ہائے مستقیم (سیدھے راستوں) کی مختلف قرائتوں اور اقلیتی و اکثریتی دین وغیرہ کے عناوین کے تحت پیش کیا جارہا ہے، مختصر اور واضح طور پر بیان کرنا چاہیں تو ہمیں کہنا چاہئے کہ مذکورہ نظریہ سے مراد وہ نظریہ ہے جو کہ دین و قرآن اور ہر دوسرے دینی متن کو ثابت حقائق سے خالی تصور کرتا ہے اور حق و باطل اور صحیح و غلط کو اس سلسلہ میں منتفی سمجھتا ہے۔

دین، یہ نظریہ ماننے والوں کے نزدیک متفاوت و مختلف بلکہ کبھی کبھی متناقض (ایک دوسرے کی نقیض) اور آراء و افکار کے اس مجموعہ کا نام ہے کہ جو انسان دینی کتابوں کی طرف رجوع کے وقت ان سے سمجھتے ہیں بغیر اس کے کہ خود قرآن یا دینی کتاب کوئی چیز بتائے۔

یہ نظریہ رکھنے والے ایسا تصور کرتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) قرآن ایک ایسی رومانی کتاب ہے جوانسان کے اندر طرح طرح کے خیالات ابھارتی ہے اور ہر شخص اپنی اپنی سوچی سمجھی ذہنیت اور نظر و فکر کی بنیاد پر ایک مطلب کا تصور کرتا ہے اور اسے دین و قرآن سے اپنی قرائت اور فکر بتا کر خدا کی طرف نسبت دیتا ہے۔

۹۲

اس جگہ ہم تاکید کرتے ہیں کہ ہمیں چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ ''دین کی مختلف قرائتوں'' کے معنی کی حقیقت اور ''بہت سے صراط مستقیم'' کی واقعیت کو سمجھیںاور اس الحادی نظریہ کے مہلک نتائج و آثار کے متعلق غور و فکر کریں تاکہ یہ شیطانی جال بچھانے والوں کے مقاصد کو جان سکیں اور ان کی حرکت کی گہرائی کو درک کرسکیں۔

بہرحال جس وقت ہم مذکورہ نظریہ کا پہلے گروہ کے نظریہ سے مقایسہ اور موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نظریہ کی روح، خدا پرستی اور خداوند متعال کے سامنے تسلیم و بندگی کی روح ہے، اور دوسرے نظریہ کی روح، انسان پرستی کی روح اور خدا اور احکام خدا سے فرار کرنے والی روح ہے۔

کلی طور سے پہلے نظریہ میں اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان خداوند متعال کی بندگی کو قبول کرے، جبکہ دوسرے نظریہ میں اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان خدا کی بندگی سے جدا ہوجائے اور اپنے کو حیوانی شہوات و خواہشات میں چھوڑ دے، یہ نظریہ انسان کے میلانات اور خواہشات کو اصل قرار دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دین اور قرآن کی تفسیر و توجیہ انہی کے اعتبار سے کرے۔

۹۳

قرآن مجید میں جو اس طرح کی تعبیریں آئی ہیں مثلاً:(تِلْکَ آیَاتُ الکِتَابِ وَ قُرآن مُبِین) 1 (بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُبِین) 2 (تِلْکَ آیَاتُ القُرآنِ وَ کِتَابٍ مُبِینٍ) 3 (قَد جَاء َکُم مِنَ اللّٰهِ نُور وَّ کِتَاب مُبِین) 4 کہ جن میں قرآن مجید کے روشن، واضح اور فصیح و بلیغ ہونے کو تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، ان تعبیروں کا ایک راز شاید یہی ہو کہ ''مختلف قرائتوں'' جیسے گمراہ کن افکار کو روکا جائے اور قرآن کے مقصود و معنی کے مبہم اور نامفہوم ہونے کے اعتبار سے کوئی بھی بہانہ کسی شخص کے پاس نہ ہو۔

اس بنا پر قرآن، ہدایت کی کتاب ہے، خداوند متعال نے اس میں وہ تمام حقائق بیان کردیئے ہیں جو انسان کی دنیا و آخرت کی سعادت کے لئے لازم ہیں، اور مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ قرآن میں تدبر و تفکر کے ذریعہ اپنے فردی و اجتماعی فرائض سے آشنا ہوں اور اس کی پیروی کے ذریعہ اپنے کو کامیاب بنائیں، لیکن یہ بات کہ قرآن اور دینی معارف سمجھنے کی صلاحیت کس میں ہے؟ ایک ایسا مطلب ہے کہ جس کی توضیح ہم آگے بیان کر رہے ہیں۔

(1)سورۂ حجر، آیت 1 ۔

(2)سورۂ شعراء ، آیت 195 ۔

(3)سورۂ نمل، آیت 1 ۔

(4) سورۂ مائدہ، آیت 15 ۔

۹۴

قرآن کی تفہیم و تفسیر کی صلاحیت

یہ بات بدیہی ہے کہ قرآن کو سمجھنے اور اس کی تفسیر کرنے کی ہر شخص میں صلاحیت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہر شعبہ میں دقیق و عمیق علمی مطالب سمجھنے کی صلاحیت ہر شخص نہیں رکھتا۔ ریاضی کے پیچیدہ مسائل یا تمام علوم کی باریکیاں سمجھنے کی صلاحیت صرف ان علوم کے ماہر و متبحر افراد ہی رکھتے ہیںاور غیر ماہر نہ صرف ان کے متعلق اظہار نظر کرنے سے عاجز ہیں بلکہ ان کا اظہار نظر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

قرآن مجید کی تفہیم و تفسیر کے متعلق بھی ا ن لوگوں کا اظہار نظر کوئی اعتبار نہیں رکھتا جو کہ دینی علوم و معارف سے ناآشنا ہیں۔ اگرچہ قرآن فصیح و بلیغ زبان میں نازل ہوا ہے تاکہ لوگ سمجھیں اور اس پر عمل کریں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کے معارف کی گہرائی ایک سطح میں تمام لوگوں کے لئے قابل فہم ہو۔ جو کچھ قرآن سے تمام لوگوں کے لئے قابل فہم ہے اس کے وہی معنی ہیں جو خود قرآن فرماتا ہے کہ ہم نے واضح و روشن بیان کے ساتھ قرآن کو نازل کیا ہے، یعنی قرآن اس طرح نازل ہوا ہے کہ جو شخص عربی زبان کے اصول و قواعد سے آشنا ہواور بندگی کی روح اس پر غالب و حاکم ہو وہ قرآن سے استفادہ کرسکتا ہے اور اپنی فکر و معرفت کی حد میں اس سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔

۹۵

لیکن قرآن کے معارف و معانی کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے مقدمات اور تعقل و تدبر ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن فرماتا ہے:(إنّا أَنزَلْنَاهُ قُرآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُم تَعقِلُونَ) 1 (ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو) یا(إنّا جَعَلْنَاهُ قُرآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُم تَعقِلُونَ) 2 (بے شک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو)۔

کلی طور سے جو آیتیں انسان کو قرآن اور اس کے معارف کے متعلق تدبر و تعقل کی دعوت دیتی ہیں وہ ہم سے کہتی ہیں کہ قرآن کے ظواہر پر اکتفا نہ کرو بلکہ تدبر و تعقل اوراہلبیت (ع) کے علوم و معارف سے استفادہ کے ذریعے معارف قرآن کے دقیق و عمیق مطالب کو حاصل کرو اور علم الٰہی کے اس خزانے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرو۔

اس بنا پر قرآن کے سمجھنے اوراس کے بلند معارف کی تفسیر کرنے کی صلاحیت صرف علوم اہلبیت (ع) سے آشنا اور ماہر و متبحر افراد ہی رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو بھی تھوڑی شُدبُد پیدا کر لے اس کو اظہار نظر کا حق بھی ہو جائے اور دینی معارف نیز تفسیر و توضیح کے اصول و قواعد کی تھوڑی سی بھی اطلاع رکھے بغیر، دین اور اس کے احکام و

معارف کے بارے میں جدید قرائت کے عنوان سے بول سکے۔

(1) سورۂ یوسف، آیت 2 ۔

(2)سورۂ زخرف، آیت 3 ۔

۹۶

معارف قرآن کے مفہوم کے مختلف مرتبے

بہت سی روایتوں میں یہ مضمون ملتا ہے کہ قرآن ظاہر و باطن رکھتا ہے او رہر شخص قرآن کے علوم و معارف کی گہرائیاں سمجھنے پر قادر نہیںہے۔ قرآن کوئی معمولی کتاب نہیںہے کہ تمام انسان اس کے تمام معارف درک کرنے پر قادر ہوں۔ جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ قرآن ایک ایسا اتھاہ اور ناپیدا کنار سمندر ہے کہ ہر شخص اپنی غواصی کی قدرت و توانائی کی مقدار بھر اس سے معرفت کے موتی حاصل کرتا ہے اور اپنی استعداد و صلاحیت کی مقدار بھر قرآن کے ظواہر سے آگے بڑھ کر اس کے معارف کی گہرائی تک رسائی پیدا کرتا ہے اور ایک آیت سے مختلف مطالب کو سمجھتا ہے جبکہ مذکورہ مطالب ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہوتے، اور یہ خود قرآن کریم کا معجزہ ہے۔

مثال کے طور پر قرآن کریم فرماتا ہے:(یَا أَیُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الفُقَرآئُ اِلٰی اللّٰهِ وَ اللّٰهُ هُوَ الغَنِیُّ الحَمِیدُ) 1 جو بات عام لوگ اس آیۂ کریمہ سے سمجھتے ہیں اور جو بات آیت کا ظاہر بیان کرتا ہے یہ ہے کہ اے لوگو! تم سب خداوند متعال کے محتاج ہو اور خداوند متعال بے نیاز اور قابل حمد و ثنا ہے۔

جو بات لفظ ''فقرائ'' سے عام لوگوں کے ذہن میں آتی ہے وہی امر معاش میں انسان کی احتیاجات اور ضروریات ہیں خواہ غذا ہو یا لباس یا مکان یا کوئی بھی چیز کہ خداوند

(1) سورۂ فاطر، آیت 15 ۔

۹۷

متعال ان کے اسباب و علل کو ایجاد کر کے انسان کی نشو و نما، تکامل اور زندگی کی بقا کا وسیلہ فراہم کرتا ہے۔

معنی و مفہوم کے اس مرتبہ میں کہ جس کو ''مرتبۂ ظاہر'' کہا جاتا ہے، قرآن کا ظاہر روشن، گویا اور واضح ہے اور تمام اہل زبان اسے بخوبی سمجھتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس ظاہری معنی سے زیادہ گہرا کوئی اور دوسرا معنی اس سے حاصل نہ ہو او رمذکورہ آیۂ کریمہ اس عمومی فہم سے بالاتر اس سے زیادہ دقیق مطالب کی طرف اشارہ نہ رکھتی ہو۔ انسان جس قدر کلام کے زیر و بم اور زبان کے ادبی رموز و نکات سے واقف ہوگا اور دوسری طرف، جیسا کہ قرآن تاکید کرتا ہے آیات قرآن کی طرف رجوع کے وقت ان میں تدبر و تعقل کرے گا تو آیات کے ظواہر سے بھی بڑھ کر اور زیادہ دقیق و عمیق نکتے حاصل کرے گا۔

اگر ہم اس آیت کا کچھ غور سے مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم خوراک، لباس، صحت اور مادی وسائل سے کہیں زیادہ خدا کے محتاج ہیں۔ ہم محض فقیر و محتاج ہیںاور خدا غنی مطلق ہے۔ ہم فقیر بالذات ہیں اور خدا غنی بالذات۔ فقیر لغت میںاس شخص کو کہتے ہیں کہ جس کے ''ستون فقرات'' (ریڑھ کی ہڈیاں) شکستہ ہوں اور کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو۔ انسان فقیر ہے اس معنی میں کہ اگرچہ تمام مادی امکانات و وسائل اس کے لئے فراہم ہوں پھر بھی انسان کا وجود ناقص ہے۔

جس وقت ہم اس نظر سے اورا س نکتہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے آیت پر غور کریں گے تو سمجھ لیں گے کہ ہم انسانوں کی احتیاج خدا سے خوراک، پوشاک اور تمام مسائل سے بڑھ کر ہے۔ ہم اصل وجود میں خدا کے محتاج ہیں۔ خداوند متعال ہی نے ہم کو پیدا کیا ہے اور اسی نے وجودی اسباب و علل کو ایجاد کر کے انسان کی نشو و نما ، تکامل اور زندگی کی بقا کا وسیلہ مہیا کیا ہے۔ ہم اصل وجود میں او ربالذات محتاج و فقیر ہیں اور خداوند متعال غنی بالذات ہے۔

۹۸

واضح ہے کہ دوسری نظر، پہلی نظر سے زیادہ گہری ہے۔ یہاں پر پہلے معنی کو ظاہر اور دوسرے معنی کو باطن سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے معنی سے بھی زیادہ عمیق معنی یہ ہے کہ تم سب (اے لوگو!) نہ صرف اصل وجود میں فقیر و محتاج ہو بلکہ عین نیاز اور سراپا محتاج ہو۔ تمھارا وجود خداوند متعال کی نسبت عین ربط ہے۔ البتہ اس تیسرے معنی کی حقیقت کا درک کرنا عام عقول کی حد سے باہر ہے۔

بہرحال یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس آیۂ کریمہ کے یہ تینوں معنی ایک دوسرے کے طول میں (یکے بعد دیگرے) ہیں یعنی تینوں معنی اور تفسیر درست اور صحیح ہیں، کوئی بھی دوسرے کے منافی نہیںہے، لیکن گہرائی کے اعتبار سے مذکورہ معانی ایک سطح پر قرار نہیں پاتے اور ایسا نہیں ہے کہ قرآن کے تمام مرتبے سب کے لئے قابل فہم ہوں اور تمام افراد قرآن کریم کے تمام مراتب و بطون سمجھنے کی صلاحیت اور قدرت رکھتے ہوں۔ البتہ مذکورہ بیان کا مقصد اس مطلب کو آسانی سے سمجھانا ہے جو بعض روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ قرآن ظاہر و باطن رکھتا ہے اور تمام لوگ اس الٰہی کتاب کے معارف کی گہرائیوں کو درک کرنے پر قادر نہیں ہیں۔

اس مطلب کی تاکید او ریاد دہانی بھی لازم ہے کہ وہ صرف ائمۂ معصومین (ع) ہیں جو الٰہی تعلیم کے ذریعہ قرآن کے علوم و معارف سے آگاہ ہیں اور اس عظیم آسمانی کتاب کے بطون کے عالم ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم ایک روایت کا ایک حصہ ذکر کر رہے ہیں:

۹۹

''عَن اَبِ جَعفَرٍ عَلَیهِ السَّلامُ قَال : یَا جَابِرُ! إنّ لِلْقُرآنِ بَطنًا وَ لِلبَطنِ بَطن وَ لَهُ ظَهر وَ لِلظَّهرِ ظَهر یَاجَابِرُ! وَ لَیسَ شَیئ أَبعَدَ مِن عُقُولِ الرِّجَالِ مِن تَفسِیرِ القُرآنِ إنّ الآیَةَ یَکُونُ أَوَّلُهَا فِی شَیئٍ وَ آخِرُهَا فِی شَیئٍ وَ هُوَ کَلام مُتَّصِل یُتَصَرَّفُ عَلٰی وُجُوهٍ''1

حضرت امام محمد باقر ـ جابر کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: ''قرآن باطن رکھتا ہے اور باطن کا بھی باطن رکھتا ہے، نیز قرآن ظاہر رکھتا ہے اور ظاہر کا بھی ظاہر رکھتا ہے، اے جابر! اس نکتہ پر بھی توجہ رکھو کہ لوگوں کی عقلیںاس بات سے عاجز ہیں کہ قرآن کے باطن اور اس کی حقیقت کی تفسیر کرسکیں، اس لئے کہ ممکن ہے آیت کا پہلا حصہ کسی چیز کے بارے میں ہواور آخری حصہ کسی دوسری چیز کے متعلق ہو، اور قرآن ایسا باہم متصل اور پیوستہ کلام ہے جو مختلف معانی رکھنے کی قابلیت رکھتا ہے اس کے معارف و معانی میں کسی قسم کا تعارض یا تنافی نہیں ہوتی ہے''۔

جو بات یہاں پر قابل تاکید ہے یہ ہے کہ معارف قرآن کے باطن اور دقیق مطالب کا سمجھنا سب کے بس کی بات نہیں ہے، البتہ اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن صرف ائمہ او رراسخون فی العلم کے لئے نازل ہوا ہے اور دوسرے لوگ حتی ظاہر قرآن کے سمجھنے سے بھی عاجز ہیں، بلکہ ظاہر قرآن ہر شخص کے لئے اس کی صلاحیت کے

مطابق قابل فہم ہے بشرطیکہ خود پسندی، کج فکری اور اپنے نفسانی میلانات و خواہشات کو چھوڑ دے اور تفسیر بالرائے سے پرہیز کرے۔ قرآن فہمی کے متعلق چند نکات قابل ذکر ہیں اور وہ یہ ہیں۔

(1) بحار الانوار، ج92،

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217