تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت0%

تفسیر انوار الحجّت مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 217

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین سید نیاز حسین نقوی
زمرہ جات:

صفحے: 217
مشاہدے: 130582
ڈاؤنلوڈ: 3582

تبصرے:

تفسیر انوار الحجّت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130582 / ڈاؤنلوڈ: 3582
سائز سائز سائز
تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف:
اردو

( ۱) ھدایت تکوینی

خالق کائنات نے اس ہدایت کے ذریعے تمام حیوانات، جمادات،نباتات کو رشد،نمو اور ترقی فرماتی ہے جس طرح پرندوں،چرندوں کا گرمی اور سردی کے مطابق انتظام کرنا، شھد کی مکھیوں کا پھولوں سے رس نکال کر شھد فراہم کرناہدایت تکوینی ہے جیسا کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا۔

( رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَه ثُمَّ هََدٰی )

(حضرت موسی نے فرمایا )ہمارا پروردگاروہ ہے جس نے ہر موجود کو لباس ہستی بخشا ہے اور پھر اس کی ھدایت اور رہبری کی ہے۔

( ۲) ہدایت تشریعی

اس کے ذریعہ سے خداوندعالم نے تمام افراد بشر کی ہدایت کی ہے انبیاء اور آسمانی کتب

کے بھیجنے کیساتھ خدا نے تمام انسانوں پر اتمام حجت کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انسان کو حق و باطل کی پہچان کے لیئے عقل جیسی قوت عطا فرمائی ہے اور انبیاء علیہم السلام نے احکام اور قوانین الہی کو ان کے سامنے بیان کیا ہے۔ اس ہدایت تشریعی کی وجہ سے بعض لوگوں نے ہدایت حاصل کی ہے اور بعض لوگوں نے ضلالت وگمراہی کاراستہ اختیار کیا جیسا خداوندعالم نے فرمایا

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا )

یقینا ہم نے انسان کو راہ(سعادت)کی ہدایت کی خواہ وہ شکر گزار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا ہو۔

ہدایت سے کیا مرادہے؟جن لوگوں نے اس وجہ سے ہدایت حاصل کی ہے اب وہ بارگاہ خداوندی میں خصوصی ہدایت کی درخوا ست کر رہے ہیں کہ ہمیں سیدہی راہ کی ہدایت فرما اور یہی اھدناالصراط المستقیم میں بھی مراد ہے۔ یہ عنایت ربانی ہے خداوندعالم اپنی حکمت کے تقاضوں کے ساتھ اپنے خاص بندوں کے لیئے یہ ہدایت فرما رہا ہے۔بہرحال یہاں عمومی ہدایت مراد نہیں ہے یعنی جو خداوندعالمنے پوری کائنات کو عطا کی ہے۔ لہذا یہاں ہدایت سے مراد وہی اعانت ہے جس کی خواہش کا اظہار ایک نستعین میں کیا تھا یہ وہ توفیق خداوندی جو بندہ کے شامل حال ہوتی ہے اور وہ اسی کی بدولت وہ خیر و فلاح کے قریب آجاتا ہے۔

۴۱

دعا

مقام الہی کی معرفت رکھنے والے انسان کے لئے اہم ترین دعا ہے،صراط مستقیم کی طرف ہدایت کی دعا ہے یعنی ہمیں دنیاوی امور جیسے عبادت،عتقاد، اخلاق، سیاست،معا ملات،لین دین اور دوسرے تمام امور جیسے قبر و برزخ،میدان حشر، پل صراط اور صر اط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کے دعا حساب کتاب کے مشکل حالات سے نجات عطا فرمائے۔

یعنی انسان کی تمام دنیاوی اور اخروی میدانوں میں کامیابی اور سعادت کا ذریعہ ہے البتہ صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے میں ہم ہر آن اور لحظہ،خدا کے فضل و کرم اور توفیق کے محتاج ہیں جیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے۔

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ )

اے لوگو تم سب خدا کے محتاج ہو

( ۳) صراط مستقیم

صراط مستقیم کی وضاحت قرآن مجید نے مختلف مقامات پر بیان فرمائی ہے بعض مقامات پر راہ اعتدال،اتحاد اور استقامت مراد ہے کیونکہ انسان کو ہر لمحہ لغزش اور کجروی کا خوف رہتا ہے۔اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے۔

( وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ )

یہ ہمارا سیدھا راستہ ہے اس کی اتباع کرو اور دوسرے راستوں کی طرف نہ جاؤ کہ راہ خدا سے الگ ہو جاؤ گے۔

اسلام کا تربیتی راستہ معتدل اور درمیانی راہ ہے اس میں کوئی افراط وتفریط نہیں پائی جاتی ہے۔قرآن مجید نے صراط مستقیم سے آئندہ کا آئین،دین حق اور احکام خدا وندی کی پا بندی بھی مراد لی ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے۔

( قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )

کہہ دیجیے کہ میرے پروردگار نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت کی ہے جو کہ سیدھا دین ہے اور اس ابراہیم کا آئین ہے جس نے کبھی خدا نے شرک نہیں کیا۔

۴۲

اسی طرح اللہ تبارک و تعالی نے اپنی عبادت کا نام بھی صراط مستقیم رکھا ہے جیسا کہ فرمان خدا وندی ہے۔

( وَأَنِ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ )

اور میری ہی عبادت کرو کیونکہ یہی صراط مستقیم ہے۔

صراط مستقیم تک پہنچنے کا راستہ اللہ سے تعلق و ربط کے ساتھ ممکن ہے اس سلسلے میں خدا وند والم رشاد فرماتا ہے۔

( وَمَن يَعْتَصِم بِاللَّـهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )

جنہوں نے اللہ تعالی کے دامن کو تھامے ر کھا انہو ں نے ہی صراط مستقیم کی ھدایت پائی۔

خدا پر اعتقاد رکھنے والے انسانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا ور اؤ لیا ء خدا کی راہ کا انتخاب کرے کیونکہ فقط یہی راہ ثابت ہے اور دوسری تمام راہیں تغیر وتبدل کا شکار رہنے کے ساتھ متعدد بھی ہیں لہذا انسان فقط خدا سے ہی سیدھی راہ ثابت قدم رہنے کا تقاضا کرے۔

اگر ہم ظلم اور راہ روی جیسے گناہوں ار تکاب کریں تو منبع ہدایت سے ہمارا رابطہ منقطع ہو جا ئے گا لہذا ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اسے موانع پیش نہ آئیں تا کہ ہم انحراف اور تباہی سے بچے رہیں جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

یعنی ارشد نا للزوم الطریق المئودی الی محبتک والمبلغ الی جنتک والما نع من ان یتبع اهئوا نا فنعطب اوان نا خذبا را ئینا فنهلک

خدایا ہمیں ایسے راستے کی ہدایت فرما جو تیری محبت اور جنت تک لے جاتا ہے اور جو راستہ خواہشات کی اتباع اور اپنی آرا ئپر عمل کرنے سے ہلاکت میں پڑنے سے روکتا ہے اس آیت سے واضح طور ہر معلوم ہوتا ہے دین حق کی حقیقی معرفت ان اشخاص کے ذریعہ ہو سکتی ہے۔

۴۳

جنہوں نے اس دین کے اصولوں پر صحیح معنی میں عمل کیا ہے اور اس دنے کے لئے ایک بہترین نمونہ ہیں۔

لہذا صراط مستقیم پر پہنچنے کیلئے ان ہستیوں کی شناخت کے ساتھ ساتھ ان کی پیروی انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کا اتم اور اکمل نمونہ صرف اورصرف اہلیبیت و طہارت وعصمت علیہم السلام ہی ہیں۔

جیسا کہ روایت میں بھی موجود ہے حضرت امام سجاد علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

لیس بین الله و بین حجته حجاب ولا لله دون حجته ستر: نحن ابواب الله و نحن صراط المستقیم و نحن ملبسته علمه و نحن تراجمة وحیه و نحن ارکان توحیده و نحن مو صع سره

خدا اور اس کی حجت کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے خدا کی شناخت کے لئے حجت کی شناخت ضروری ہے ہم ہی باب اللہ ہیں،ہم ہی صراط مستقیم ہیں،اور خدا کے علم کا خزانہ بھی ہیں ہم ہی خدا کی وحی کے ترجمان ہیں اس کی تو حید کے ستون ہم ہیں،اور اس کے اسرار کا خزانہ بھی ہم ہیں۔

اسی مطلب پر اور بھی بہت سی روایا ت ہیں جو بتاتی ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد محبت اہلبیت ہے اس مطلب پر ابن شھر آشوب نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ اھد نا الصراط المستقیم سے مراد اہلبیت اور محبت اہلبیت علیہم السلام ہے۔

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

هی الطریق الی معر فته و هما صراطان صراط الدنیا، صراط الاخرة،فا ما الصراط فی الدنیا دهو الامام المعتر ض الطا عة من عرفه فی الدنیا واقتدی بهداه مر علی الصراط الذین هو حسر جهنم فی الا خراة ومن لم یعرفه فی الدنیا زلت قدمه فیالاخراة فتردی فی نار جهنم

صراط مستقیم خدا کی معرفت کا راستہ ہے اس مراد دو راستے ہیں صراط دنیا صراط آخرت، صراط دنیا سے مراد وہ امام ہیں جن کی اطاعت مخلوق پر واجب ہے۔ لہذا جس نے اس دنیا میں اس امام کی معرفت حاصل کی اور اس کی پیروی کی،قیامت والے دن وہ پل صراط کو با آسانی عبور کرے گا اور جس نے اس دنیا میں امام بر حق کی معرفت حاصل نہ کی قیامت والی دن اس کے قدم ڈگمگا جا ئیں گے اور جہنم کی آگ ہی اس کا ٹھکا نا ہو گی۔

۴۴

پل صراط کے بارے میں حضرت ابو بکر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول اعظم( ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔

لا یجوز احد الصراط الا من کتب له علی الجواز

بہر الحال بعض مفسریں نے صراط مستقیم سے اسلام،بعض نے قرآن بعض نے انبیاء بعض نے حضرت رسول اعظم (ص) بعض نے معرفت امام بعض نے حضرت امیر المومنین اور بعض آئمہ بر حق مراد لئے ہیں۔

مرحوم طبرسی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کو عموم پر حمل کرنا بہتر ہے تا کہ تمام موارد کو شامل ہو جائے یعنی صراط مستقیم وہ دین ہے جس کا خدا وند ولم نے ہمیں حکم دیا ہے اور توحید،عدل اور (نبوت امامت) اور ولایت کی اطاعت کو ہم پر واجب اور ضروری قرار دیاہے۔

( صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَلاَالضَّالِّینَ )

جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تم نے نعمتیں نازل کیں ہیں،ان کا راستہ نہیں جن پر تم نے غضب نازل ہوا ہے جو گمراہ ہوئے ہیں۔

الہی نعمتیں

یہ آیت مبارکہ اس راہ حق اور سیدھے راستے کی وضاحت ہے جس کی پہلی آیت میں دعا مانگی گئی تھی بہر حا ل یہاں نعمت سے مرا د مادی اور دنیاوی نعمتیں نہیں ہیں کیو نکہ دنیاوی نعمتیں خدا کا عمومی انعام ہیں ان کے لئے بقاء نہیں ہے لہذا یہاں وہ ابدی اور دائمی نعمت مراد ہے جس کے حصول کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور وہ نعمت ہدایت اور تو فیق ہدایت ہے۔

۴۵

یہی انسان کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھتی ہے اور یہ نعمت صرف اور صرف ایمان،آئمہ اطہار علیہم السلام کی ولایت کا اقرار،اور اطاعت اور پیروی میں مضمر ہے اور آخری دم تک اس ہدایت پر ثابت قدم رہنا ضروری ہے اور جو لوگ نعمتوں کے حصول کے بعد ان پر ثابت قدم نہیں رہے تو ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا جیسا کی اللہ رب العزت کا فرمان ہے

( أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ )

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہں نے اللہ کی نعمت کو کفران نعمت کے ساتھ تبدیل کر دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کی منزل تک پہنچا دیا۔

لہذا جنہں نے جان بوجھ کر حق سے انحراف کیا ہے ان پر تو اللہ کا غذب ہو ہے اور جنہوں نے حق کو طلب کرنے میں کوتا ہی کی ہے وہی بھٹکے ہوئے ہیں اور جو اس ہدایت پر ثابت قدم ہیں وہ انعام یافتگان الہی ہیں اور انہی کے لئے سعادت ہے۔

حضرت فاطمةالزاھرا سلام اللہ علیہا نے بھی فدک کے مسئلہ پر اپنے تاریخی خطبہ مسجد نبوی میں اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی کے اس فرمان کو تلاوت فرمایا۔

( وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ )

مسلمان رہتے ہوئے اس دنیا سے مرنا۔

لہذا اس ہدایت پر ثابت قدم رہنا ضروری ہے فقط اسلام کو قبول کر لینا کافی نہیں ہے بلکہ مرنے تک ثابت قدم رہنے سے ہی سعادت اور خوش بختی نصیب ہو سکتی ہے۔

تر بیت الہی

انسان اپنے آغاز لے کر انجام تک تربیت کا محتاج ہے یہی وجہ ہے کہ خدا وند عالم نے اس کی تربیت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے ہیں۔

۴۶

ان کے بعد ائمہ اطہار علیہم ا لسلام تا قیام قیامت انسانیت کے مربی ہیں اور انسان بھی یہی درخواست پیش کر رہاہے کہ مجھے ان انعام یافتہ لوگوں کی راہ کا مسافر بنا خدا وند عالم نے انعام یافتہ لوگوں کا قرآن مجید میں اس طرح تذکرااہ فرمایا ہے۔

( وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ )

جو لوگ خدا اور رسول کے احکا م کی اطاعت کرتے ہیں خدا نے انہیں ان لوگوں کے ساتھ قرار دے دیا ہے جنہیں نعمات سے نوازا گیا ہے اور وہ انبیاء،صدیقین،شھداء اور صالحین لوگ ہیں۔

اسی طرح معانی اخبار میں حضرت رسول اعظم (ص) سے روایت موجود ہے۔

انعمت علیهم شیعته علی یعنی انعمت علیهم بولایت علی ابن ابی طالب لم تغضب علیهم ولم یضلوا

انعام یافتگان الہی علی کے شیعہ ہیں کیونکہ انہیں علی ابن ابی طالب کی ولایت کا انعام دیاگیا ہے ان پر نہ تو غضب الہی ہو گا اور نہ ہی وہ گمراہ ہیں

مغضوبین کی راہ سے دوری

قرآن مجید میں مغضوبین کے عنوان سے مختلف افراداور امتوں کا تذکرہ موجود ہے جن پر خدا کا غضب ہو اہے ا ور ہم ہر روز نماز میں خدا وندعالم سییہی دعا مانگتے ہیں کہ ہمیں ان مغضوبین کے عقائد،اخلاق اور عمل سے دور رکھ یعنی ان کی راہ سے دوری اور ان سے نفرت کا اظہار ضروری ہے کیونکہ ان پر اللہ کا غضب بھی ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور انہیں جنت کی خوشبو تک نصیب نہ ہو گی اور جہنم کا ٹھکا نا ہو گا جیسا کہ اللہ نے فرمایا۔

( الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ )

منافق اورمشرک مرد اور عورتیں جو خدا کے بارے میں برے خیالات رکھتے ہیں ان سب پر عذاب نازل کرے،ان پر عذاب کی گردش ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے جہنم کو کو مہیا کیا ہے۔

۴۷

بہر حال کفر کی راہ اختیار کرنے والے،حق سے دشمنی والے ہیں انبیاء مرسلین اور آئمہ اطہار کو اذیت دینے والے ہی مغضوبین ہیں جیسا کہ حضرت امام جعفر صاق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

ان المغضوب علیهم الضاب

بیشک مغضوب علیہم سے مراد اہلبیت سے عداوت کا اظہار کرنے والے (ناصبی) ہیں

لہذا مغضوبین کی راہ سے دوری اور ان سے نفرت کرنے والے ہی انعام یافتگان کی اتباع اور پیروی کرنے والے ہیں۔

گمراہوں کی راہ سے دوری

ہمیں گمراہوں کی راہ سے دوری اور نفرت کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ یہ لوگ بھی مغضوبین کی طرح ہی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ خود گمراہ ہیں جبکہ مغضوبین خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ خدا نے پہلے مغضوبین کی راہ سے دوری کا حکم صادر فرمایا ہے اور پھر بلا فاصلہ گمراہوں کی راہ سے اجتناب کا کہا ہے قرآن مجید میں دونوں گروہوں کے متعلق مختلف آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے مغضوبین کا مرحلہ،گمراہوں کی نسبت سخت اور بد تر ہے بعض مفسرین نے ضالین سے منحرف عیسائی مراد لئے ہیں اور مغضوبین سے یہودی مراد لئے ہیں اور بعض مفسرین نے اس کے عکس کو بیان کیا ہے حقیقت یہ ہے مغضوبین اور ضالین دو عنوان ہیں چونکہ یہودی اور عیسائی ہر وقت اسلام سے دشمنی رکھتے تھے

لہذا یہ دونوں گروہ مغضوبین اور ضالین ہیں کیو نکہ یہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسرں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں۔

کل من کفر بالله فهو مغضوب علیه وضال عن سبیل الله

جو بھی حق خدا کو چھپاتا ہے وہ مغضوب علیہ اور سبیل خدا سے گمراہ ہے۔

۴۸

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں

الضالین اهل الشکوک الذین لا یعرفون الامام

ضالین سے مراد وہ اہل شکوک ہیں جو امام کو نہیں پہچانتے۔

لہذا ان دونوں گروہوں سے نفرت ان کی راہ سے دوری اور انعام یافتگان کی راہ پر ثابت قدم رہنا صراط مستقیم ہے۔

سورہ بقرہ

اسماء وجہ تسمیہ

( ۱) بقرہ

، اس سورہ مبارکہ کے چند نام بیان ہوئے ہیں ان میں مشہور ترین نام سورہ بقرہ ہے،بقرہ کا معنی گائے ہے چونکہ اس سورہ میں گائے کو ذبح کرنے کا قصہ بیان ہو اہے۔، یہ قصہ کسی اور سورہ میں بیان نہیں ہوا ہے اس لیئے اس سورہ کو سورہ بقرہ کہا جاتا ہے۔

( ۲) سنام القرآن

اس سورہ کا نام سنام القرآن بھی ہے اور اسے سنام القرآن اس لیئے کہتے ہیں کہ سنام سے مراد بلندی ہے اور یہ سورہ بھی رفیع اور بلند ہے جیسا کہ سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اعظم (ص)نے فرمایا۔

ان لکل شیء سناما،وسنام القرآن البقره

ہر چیز کے لیئے رفعت اور بلندی ہے اور قرآن مجید کی بلندی سورہ بقرہ ہے

( ۳) فسطاط القرآن :

اس سورہ کا ایک نام فسطاط القرآن بھی ہے۔فسطاط کا معنی خیمہ ہے اور خیمہ کسی چیز کا جامع ہوا کرتا ہے اور اسے فسطاط القرآن اس لیئے کہتے ہیں کیونکہ یہ عظیم سورہ ایسے احکام کا جامع ہے جو احکام دوسری سورتوں میں مذکور نہیں ہیں جیسا کہ حضرت رسول اعظم (ص) نے ارشاد فرمایا

السورةاللتی یذکر فیها البقره،فسطاط القرآن

جس سورہ میں گائے کا تذکرہ موجود ہے وہ فسطاط القرآن ہے۔

۴۹

( ۴) سید القرآن

حضرت رسول اعظم (ص) کے فرمان کے مطابق سورہ بقرہ سید القرآن ہے، جیسا کہ آپ کا فرمان ہے۔

قرآن سید الکلام ہے اور سید قران سورہ بقرہ ہے۔

( ۵) سورہ۔ا۔ل۔م:

اس سورہ کا ایک نام سورہ ا۔ل۔ م بھی ہے اور اس نام کی وجہ اس سورہ کے آغاز میں موجود حروف مقطعات ( ا۔ل۔م ) ہیں۔جیسا کہ بعض لوگوں کا نظریہ بھی ہے۔

انها اسماء السوره و مفاتحها

یہ سورتوں کے نام اور آغاز پر دلالت کرتے ہیں۔

مقام نزول وتعداد آیات

اس بات پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ مدنی سورہ ہے البتہ اس سورہ کی ایک آیت حجت الوداع کے موقع پر منی میں نازل ہوئی ہے اور وہ آیت واتقو یو ما تر جعون فیہ الی اللہ ہے۔اس سورہ مبارکہ کی کل ۲۸۶ آیات ہیں،یہی تعداد حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے مروی ہے

شان نزول اس سورہ مبارکہ کا ایک شان نزول نہیں ہے کیونکہ اس سورہ کی مختلف آیات اہم مواقع پر نازل ہوتی رہی ہیں اسی مناسبت سے مختلف آیات کا مختلف شان نزول ہے اس کے متعلق آیات کے ضمن میں ہی تفصیلی بحث کریں گے جب بھی کوئی اہم واقع بیان ہوگا تو اس کے ساتھ ہی اس کا شان نزول بھی بیان کر دیا جائے گا

۵۰

خصوصیات سورہ بقرہ

( ۱) سب سے بڑا سورہ ہے۔

اس سورہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کا سب سے بڑا سورہ ہے جو تقریبا اڑھائی سپاروں پر مشتمل ہے۔

( ۲) مدینہ میں نازل ہونے والی پہلی سورہ۔

یہ مدینہ میں نازل ہونے والا پہلا سورہ ہے جیسا کہ سیوطی عکرمہ سے بیان کرتے ہیں کہ۔

اول سورة نز لت بالمدینه،سورة البقره

مدینہ میں سب سے پہلے نازل ہونے سورہ سورہ بقرہ ہے۔

( ۳) سب سے زیادہ احکام پر مشتمل۔

قرآن مجید کا یہ سورہ جتنے احکام پر مشتمل ہے اتنے احکام کسی اور سورہ میں بیان نہیں ہوئے ہیں جیسا کہ روایت میں موجود ہے کہان فی البقره ضمس مئا ة حکم

سورہ بقرہ پانچ سو احکام پر مشتمل ہے۔

( ۴) سب سے زیادہ آیات

قرآن مجید کا یہ سورہ سب سے زیادہ آیات قرآنی پر مشتمل ہے جیسا کہ حضت امیر المومنین علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ اس سورہ کی ۲۸۶ آیات ہیں۔

۵۱

فضائل سورہ

( ۱) افضل ترین سورہ :

یہ قرآن مجید کی سورتوں میں سب سے افضل سورہ ہے جیسا کہ حضرت رسول اعظم (ص)نے اپنے اصحاب سے پوچھا ای القرآن افضل :قرآن مجید کی کونسی سورہ افضل ہے۔

انہوں نے کہا

اللہ و رسولہ اعلم۔ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں

حضرت نے فرمایا سورةالبقرة

افضل ترین سورہ،بقرہ ہے۔

( ۲) استحقاق رحمت :

اس سورہ مبارکہ کی تلاوت رحمت خدا وندی کی موجب ہے جیسا کہ ابی بن کعب کہتے ہیں حضرت

رسول اعظم (ص) نے ارشاد فرمایا۔

من قراء سورةالبقره فصلوات الله علیه و رحمته و اعطی من الاجر کا عرابط فی سبیل الله سنته لا تسکن روعته

جو بھی اس سورہ کی تلاوت کرے گا وہ اللہ کے درود و سلام اور لامتناہی رحمتوں کا مستحق ہو گا اور اسے ایک سال تک اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کاثواب عطا ہوگا اور کفار کا اس پر کوئی خوف و دبدبہ نہ ہو گا۔

اس کے بعد حضرت نے ارشاد فرمایا اے ابی مسلمانوں سے کہو کہ۔

ان یتعلموا سوره البقره فان تعلمها برکته و ترکها حسرةولا یستطیعها البطلة،قلت یا رسول الله ما البطلةقال السحره

سورہ بقرہ کو یاد کریں کیونکہ اسے سیکھنا برکت ہے اور اسے ترک کرنا ندامت ہے،جادو گر اس سورہ کو پڑھنے اور سننے کی طاقت نہیں رکھتے۔

۵۲

( ۳) یاد کرنے کا انعام :

اس سورہ مبارکہ کو سیکھنے کی بہت بڑی فضیلت ہے جیسا کہ روایت میں موجود ہے کہ حضرت رسول اعظم (ص)نے اپنے اصحاب کو کسی مقام پر بھیجنے کا ارادہ فرمایا اور ان کے امیر کے انتخاب کے لئے ایک ایک صحابی کو بلا کر پوچھتے کہ قرآن کا کونسا سورہ یاد ہے یہ مختلف سورتوں کے نام بتاتے بالا خر ایک نو جوان آیا اور اس نے کہا مجھے سورہ بقرہ یاد ہے تو حضرت نے فرمایا :

اخبر حوا و هذا علیکم امیرا ۔

یہی آپ کا امیر ہے اس کی سربراہی میں جاؤ ان لوگوں نے اعتراض کیا

يارسول الله هو احدثنا سنا قال معه سورة البقره

یا رسول اللہ یہ تو ہم سے کم سن ہے حضرت نے فرمایا لیکن اسے سورہ بقرہ یاد ہے۔

اس مبارک حدتث سے واضح ہو گیا کہ منصب امارت علم و حکمت کے ساتھ ہے زیادہ سن رسیدہ ہونے کے ساتھ نہیں ہے۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام شریعت نبوی حکم متشابہ ناسخ منسوخ مجمل مبین اور پورے قرآن کے علوم پر حاوی مشکل کشاء اور غیب کے متعلق قرآنی آیات سے آگاہ کرنے والے اور پوری کائنات سے افضل تھے یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص)کے بعد آپ کی ہستی خلیفہ بلا فصل ہے۔

۵۳

موضوعات

اس سورہ مبارکہ کا بنیادی موضوع تقوی ہے اور اس کے موضوعات کو مندجہ ذیل چھ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

( ۱) تقوی چاہنے والوں کی خلافت اور جنت کی طرف ہدایت :آیت ۱ ۔ ۲

( ۲) ہدایت قران کے مطابق مختلف گروہ،متقی،کافر،منافق،: آیت ۳ ۔ ۲۹

( ۳) خلافت آدم۔تقوی اور غیر تقوی کی نشانیاں۔آیت ۳۰ ۔ ۳۹

( ۴) بنو اسرائیل کی خلافت۔غیر تقوی کا نمونہ ظلم،فساد، ظلم،خون ریزی وکفر نفاق، ۴۰ ۔ ۱۲۳

( ۵) خاندان ابراھیم کی امامت،تقوی کا نمونہ،خلافت، امامت کی لیاقت،ظالموں سے عادلوں کی طرف خلافت و امامت کا انتقال،آیت ۱۲۴ ۔ ۱۵۷

( ۶) حدود تقوی الہی،احکام شرعیہ،مسائل فقہیہ آیت ۱۵۷ ۔

محور بحث،تقوی

کلمہ تقوی اس سورہ میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور تقوی ہی تمام آسمانی کتب کا محور ہے جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔

( وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ ) (۱)

ہم نے تم سے پہلے اھل کتاب کو اور اب تمہیں یہ وصیت کی ہے کہ تقوی اختیار کرو۔

لہذا اگر تقوی کی نسبت کوئی اور جامع وصیت ہوتی تو یقینا خدا وند عالم اس کا ذکر کرتا دنیا وآخرت کی تمام اچھائیاں اسی لفظ تقوی میں مضمر ہیں انبیاء علیہ السلام بھی توحید کے بعد یہی وصیت کرتے ہیں۔

( أَلَا تَتَّقُونَ ) (۲)

____________________

۰۰۰ سورہ نساء آیت ۱۳۱ ۰۰۰ ۰۰۰ سورہ شعراء ۱۰۶،۱۲۴،۱۶۱، ۰۰۰۱۷۷

۵۴

کیوں تقوی اختیار نہیں کرتے؟

تقوی ہی قران مجید کا محور بھی ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( الم ﴿﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ )

یہ وہ کتاب ہے جس میں متقیوں کے کلئے ہدایت ہے

ھدی اللمتقین ہی سورہ بقرہ کا محور ہے تام موضوعات تقوی کے ساتھ ہی مربوط ہیں،جیسا کہ آپ تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں گے۔

متقین کی راھنمائی۔

یہ کتاب ( قران مجید)متقی لوگوں کی حقیقی راہنما ہے اس سورہ کا محور تقوی ہے اور تقوی کا لغوی معنی اپنی حفاظت کرنا ہے یعنی مضر چیزوں سے نفس کو بچانا اور مفید چیزوں کی طرف رغبت کرنا ہی تقوی کہلاتا ہے بالفاظ دیگر واجبات کا بجا لانا اور محرمات سے بچنا تقوی کہلاتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی نظر میں تقوی

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تقوی کی تعریف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

ان لا یفقدک الله حیث امرک ولا یراک حیث نهاک

جہاں اللہ نے ھکم دیا ہے اسے بجا لانے کی کوشش کرواور جس چیز سے نہی فرمائی ہے وہاں نہ دیکھو۔

___________________

۰۰۰ سورہ بقرہ آیت ۲۰۰۰ سفینتہ البحار ج ۲ ص ۲۲۹ ومجمع البیان ج ۱ ص ۳۷ بحوالہ کاشف

۵۵

مراتب تقوی

تقوی کے تین مراتب ہیں

( ۱) تقوی بدن،جسم کو نجاسات سے دور رکھنا تقوی بدنی ہے۔

( ۲) تقوی نفس،نفس کو شیطانی وسوسوں اور صفات رذیلہ و خبیثہ سے دور رکھنا تقوی نفس ہے۔

( ۳) تقوی قلب،دل کو حضرت حق تعالی کے لیئے علاوہ ہر چیز سے پاک و صاف کرنا تقوی قلب ہے جس جگہ یہ تینوں اقسام موجود ہوں وہ اللہ تعالی کی خاص عنائیت اورلطف کا مستحق ہے۔( عنوان الکلام ص ۱۲۵)

قران میں تقوی کی اہمیت۔

الف،قرآن مجید میں تقوی کو بہت اہمیت دی گئی ہے ایمان کا مرحلہ اسلام سے بلند ہے اور تقوی کا مرحلہ ایمان سے بھی بلند تر ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ )

اگر تم مومن ہو تو تقوی اختیار کرو۔

اسی طرح ارشاد رب العزت ہے۔

( یَا أیُّهَا الّذِیْنَ آمَنُو اتَّقُوا اللّهَ )

صاحبان ایمان اللہ کے لیئے تقوی اختیار کریں۔

__________________

۰۰۰مائدہ ۵۔ ۵۷، ۰۰۰ ۰۰ال عمران ۳۔۱۰۲

۵۶

ب، انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا اساس

تقوی انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں بنیادی مقام رکھتا ہے انبیا علیہم السلام خدا اور اس کی وحدانیت کی دعوت دینے کے بعد سب سے پہلے تقوی کا فرماتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں حضرت محمد مصطفی (ص) کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔

( قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ )

(اے محمد ) ان سے کہ دیجئے کہ آپ تقوی کیوں نہیں اختیار کرتے۔

اسی طرح باقی انبیاء نے اپنی تبلیغ میں توحید کے بعد تقوی کو بہت اہمیت دی ہے۔

تقوی و آئمہ علیہ السلام

آئمہ علیہم السلام کا کردار وہ گفتار، تقوی پر مشتمل تھا یہی وجہ ہے کہ جب ہماری نگاہ نہج البلاغہ پر پڑتی ہے تو اس کتاب مین تقوی ہی محور کلام ہے حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام تقوی کو تمام اخلاقی مسائل کا سردار سمجھتے ہیں جیسا کہ ارشاد فرماتے ہیں۔

التقی رئیس الاخلاق۔

____________________

۰۰۰ مومنون ۲۳ ۸۷

ملاحظہ فرمائیں (۱)حضرت نوح،شعراء ۱۰۶،(۲) حضرت ھود،شعراء،۱۲۴(۳) حضرت صالح شعراء ۱۴۲(۴) حضرت لوط،(۵) حضرت شعیب، ۱۷۷ (۶)حضرت الیاس،صافات ۱۲۴(۷) حضرت ابراہیم،عنکبوت ۱۶(۸) حضرت موسی،اعراف ۱۲۸(۹) حضرت عیسی،ال عمران ۵ وغیرہ۔۰۰۰

۵۷

تقوی اخلاق کا سردار ہے۔( ۱)

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی نظر میں وہی شخص حقیقی متقی ہے جس کے تمام اعمال ایک طشت میں رکھ کر پوری دنیا کو دکھائے جائیں،اور اس میں ایک عمل بھی ایسا نہ ہو جس کی وجہ سے اسے شرمندگی اٹھانی پڑے۔( ۲)

حضرت امام باقر علیہ السلام اپنے سچے شیعوں کی علامت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

فوالله ما شیعتنا الا من اتقی الله وطاعه ۔( ۳)

خدا کی قسم ہمارا شیعہ وہی ہے جو تقوی اختیار کرے اور اللہ کی اطاعت کرتا ہو۔

تقوی کی علامتیں

قرآن مجید میں تقوی اختیار کرنے والوں کی بہت سی علامتیں بیان ہوئی ہیں ان تمام کا احصی انتہائی مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ اختصار کا منافی ہے ان میں ایک علامت عزت وتکریم ہے جیسا کہ خداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے۔

( إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ) ( ۴)

____________________

،۰۰۰نہج البلاغہ حکمت ۴۰۲۔ ۰۰۰ منہج الصادقین ج ۱ ص ۱۲۳۰۰۰ سفینة البحار،ج ۱،ص۷۳۳۔

۰۰۰سورہ حجرات آیت ۱۳،

۵۸

بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔ اس کے علاوہ بھی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں تقوی کی علامتیں ذکر فرمائیں ہیں۔

متقین کی صفات

قرآن مجید نے متقین کی بہت سی صفات بیان کی ہیں ہم انشاء اللہ تفسیر کے ضمن میں ان پر اچھی طرح روشنی ڈالیں گے۔

_____________________

۰۰۰۰ملاحظہ فرمائیں

(۱)تائید و نصرت الہی،بقرہ ۱۹۴،(۲) سختیوں سے نجات (۳)۲،رزق حلال میں اضافہ طلاق ۳،(۴)اصلاح عمل،احزاب ۷۰،(۵)گناہوں سے معافی،احزاب ۷۱،(۶)محبت الہی توبہ ۷،(۷)کاموں میں آسانی،لیل ۵،۷، (۸)حفاظت ال عمران ۱۲۰،(۹)قبولی اعمال مائدہ ۲۸،(۱۰)دینوی و اخروی بشارت یونس۶۴،(۱۱)جہنم سے نجات مریم ۷۲،(۱۲)اخروی بہشت ال عمران ۱۹۸،(۱۳)زمین وآسمان کی برکت اعراف ۹۶،(۱۴)فلاح ال عمران ۲۰۰، (۱۵)خدا سے ملاقات بقرہ ۲۲۳،(۱۶)اقتدار عدن اعراف ۱۲۸،(۱۷)علم و دانش بقرہ ۲۸۲،(۱۸) خدا سے دوستی جاثیہ ۱۹،

(۱)ملاحظہ فرمائیں

(۱)غیب پر ایمان بقرہ ۲،۳ (۲) ادائیگی نماز بقرہ ۳(۳) اتفاق بقرہ ۳(۴) حضرت کی نبوت پر ایمان بقرہ۴(۵)سابقہ انبیاء پر ایمان بقرہ ۴(۶) آخرت پر ایمان بقرہ ۴(۷) خط ہدایت بقرہ ۵(۸) فلاح بقرہ ۵(۹) عہد کی وفا بقرہ ۱۷۷(۱۰) مصائب میں صبر بقرہ ۱۷۷(۱۱) راست گوئی بقرہ ۱۷۷(۱۲) وقار وبرد باری فتح ۲۶(۱۳) تعلیم دعا ال عمران ۱۶(۱۴) عبادت وقنوت ال عمران ۱۷(۱۵) سہر خیزی اور گناہوں سے معافی ال عمران ۱۷(۱۶) غصہ پینے والے ال عمران ۱۳۴(۱۷) درگزر ال عمران ۱۳۴( ۱۸) جب گناہ کر بیٹھیں تو استغفار کرتے ہیں ال عمران ۱۳۵(۱۹) گناہوں پر اصرار نہیں کرتے ال عمران ۱۳۵۔۰۰۰

۵۹

تفسیر آیات

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الم ) ( ۱)

سہارا اللہ کے نام کا جو سب کو فیض پہنچانے والا بڑا مہربان ہے ا۔ل۔م

۔ ا۔ ل۔م کے متعلق مفسر ین نے تقریبا ۳۵ معانی بیان کیے ہیں ان میں چند ایک درج ذیل ہیں۔

( ۱) حروف قرآن

( ۲) معجزہ خداوندی

( ۳) قسم

( ۴) خدا اور اس کے رسول کے درمیان اسرار ورموز

( ۵) سورہ کا خلاصہ

( ۶) اسم اعظم

( ۷) ہر سورہ کا نام

( ۸) مخالفین کی خاموشی۔

قرآن مجید کی ۲۹ سورتوں کے آغاز میں یہ حروف مقطعات موجود ہیں جب کہ ۲۴ مقامات پر ان کے بعد قرآن اور معجزہ کے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات میں ہے

( الم ﴿﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ )

( الم ﴿﴾ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ )

( الر ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ )

( المص ﴿﴾ كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ )

( طس ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ )

۶۰