تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت27%

تفسیر انوار الحجّت مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 217

تفسیر انوار الحجّت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157610 / ڈاؤنلوڈ: 5868
سائز سائز سائز
تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف:
اردو

۱

تفسیر انوار الحجّت

زیر نظر

حجة الاسلام والمسلمین سید نیاز حسین نقوی

ناشر

موسسہ امام المنتظر قم ایران

۲

بسم الله الرحمن الرحیم

سورة الفاتحہ

مکی، سات آیات سورة الفاتحہ آیات: ۷ عدد الفاظ: حروف:

مقام مکہ، اور کہا گیا ہے کہ مدینہ میں بھی نازل ہوامگر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ صرف مدنی سورہ ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ یہ سورہ ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوا ہے اس سلسلے میں کافی ادلہ موجود ہیں لیکن اختصارکو مد نظر رکھتے ہوئے تین دلیلیں پیش کرتے ہیں۔

( ۱) جیسا کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے۔

نزلت فاتحة الکتاب بمکة من کنز تحت العرش

سورہ فاتحہ الکتاب عرش کے نیچے سے ایک خزانے میں سے مکہ میں نازل ہوا (منہج الصادیقین ج ۱ ص ۸۶) ۔

( ۲) نماز چونکہ بعثت کے فورا بعد ہی واجب ہوئی اور سورہ فاتحہ اس کا لازمی جز ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ

لا صلاة الابا لفاتحة

سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی

لہذا یقینا یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ہے اورشروع ہی سے نماز میں پڑھا جاتا ہے۔

۳

( ۳) یہ سورہ سبع مثانی ہے (سبع مثانی کا ایک معنی یہ ہے کہ اس کی سات آیتیں ہر نماز میں دو مرتبہ پڑھی جاتی ہیں۔) اور سبع مثانی کا ذکر قران میں ان الفاظ کے ساتھ ہوا ہے۔

( وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ) ( سورہ حجر کی آیت ۸۷)

سورہ حجر یقینا مکی سورہ ہے اسی بنا پر سورہ فاتحہ بھی مکی ہے

زمان نزول کے بارے اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ بعثت کے بعد بلکل ابتدائی ایام میں نازل ہوا اور اس کا سبب نزول نماز ہے چونکہ یہ سورہ نماز کا لازمی جز ہے۔( مناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ، ص ۴۴)

اسمائے سورہ اور وجہ تسمیہ

سیوطی نے کتاب الاتقان میں اس سورہ کے پچیس تک نام گنوائے ہیں،ان میں چندمندرجہ ذیل ہیں۔

( ۱)فاتحةالکتاب ۔کیونکہ اس سے قرآن مجید کا آغاز ہوتا ہے۔

( ۲) حمد۔کیونکہ اس میں حمد الہی ہے۔

( ۳) ام الکتاب۔کیونکہ قرآن مجید کے بنیادی مفاہیم پر مشتمل ہے۔

( ۴) سبع المثانی۔کیونک یہ نام سورہ حجر میں ذکر ہوا ہے۔

( ۵) اساس۔کیونکہ یہ سورہ قرآن مجید کی بنیاد اور جڑہے۔

( ۶) شفاء۔ کیونکہ یہ ہر مرض کے لئے شفاء ہے۔

( ۷) کافیہ۔کیونکہ نماز میں اس کا پڑہنا ضروری ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور سورہ کفایت نہیں کرتا۔

( ۸) صلاة۔ کیونکہ یہ نماز کا لازمی جز ہے۔

( ۹) کنز۔کیونکہ یہ خدا کے خزانوں میں سے عظیم ترین خزانہ ہے۔

( ۱۰) دعاء۔ کیونکہ اس میں دعا کا طریقہ سیکھایا گیا ہے۔

ان میں سے پہلے چار نام مشہور ہیں۔

۴

خصوصیات سورہ۔

اس مبارک سورہ کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں۔

( ۱) اجما ل قرآن۔

قرآن مجید میں ہر خشک وتر کا ذکر موجود ہے اور یہ سورہ اس کا اجمال چونکہ سنت الہی یہ ہے کہ پہلے ایک چیز کو اجمال سے ذکرکیا جاتا ہے اور پھر تدریجا اسے تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے یہ سورہ جن بنیادی اصولوں پرمشتمل ہے پورا قرآن ان کی وضاحت کرتا ہے۔

( ۲) قرآن کا مرادف۔

خود قرآن میں اس سورہ کو قرآن کے برابر قرار دیا گیا ہے جیساکہ ارشاد ربالعزت ہے۔

( وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ )

اور ہم نے آپ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم عطاء کیا ہے۔

چونکہ اس سورہ کا ایک نام سبع مثانی ہے اور اسے قرآن کے مرادف قرار دیا گیا ہے۔

( ۳) منفرد لب ولہجہ۔

اس سورہ کا لب ولہجہ اور انداز بیان باقی سورتوں سے بنیادی فرق رکھتا ہے قرآن مجید کی باقی سورتیں کلام خدا ہیں مگر اس سورہ میں خدا وند عالم مخلوق کے کلام کو بیان فرمارہاہے۔

( ۴) دعا اور گفتگو کے منفرد انداز کی تعلیم۔

اس سورہ میں خدا وند متعال اپنی ذات سے بلا واسطہ دعا مانگنے اور گفتگوکرنے کا طریقہ سکھلا رہاہے اور درس دے رہاہے کہ پروردگار عالم کے حضور کیا درخواست پیش کی جائے اور کس انداز سے التجاء کی جائے۔

۵

( ۵) رسول اکرم کے لئے خصوصی اعزاز۔

یہ سورہ پیغمبر کے لئے عظیم اعزاز اور عطیہ الہی ہے جیسا کہ حضرت امیرالمومینین علیہ السلام پیغمبر گرامی سے یہ حدیث نقل کرتا ہیں کہ آپ نے فرمایا۔

ان الله تعالى افرد الامتنان على بفاتحة الکتاب و جعلها بازاء القرآن العظیم

خالق کائنات نے سورہ حمددے کر مجھ پر خاص طور پر احسان کیا ہے اور اس کو قرآن مجید کے برابر قرار دیا ہے۔

( ۶) شیطان کی فریاد کا موجب۔

قرآن کی سورتوں میں فقط یہ سورہ ہے جو شیطان کے فریاد ونالہ کا موجب بنا جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔

ان ابلیس اربع رنات اولهن حین اهبط الی الارض و حین بعث محمدصلی الله علیه وآله وسلم و حین انزلت ام الکتاب ۔

شیطان نے چار مرتبہ بلند آواز سے فریاد کی پہلی مرتبہ جب بار گاہ الہی سے لعنت کا مستحق ٹھرا دوسری مرتبہ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مبعوث ہوئے چوتھی اور آخری مرتبہ جب سورہ فاتحہ نازل ہوئی۔

( ۷) نماز کا لازمی جز۔

نماز دین کا ستون ہے اور یہ اس کا لازمی جز ہے اور یہ اسی سورہ کی خصوصیت ہے کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی باقی سورتوں میں یہ خصوصیت نہیں ہےلاصلواةالا بفاتحةالکتاب

( ۸) کتاب الہی کا آغاز۔

اس سورہ سے قرآن مجید کا آغاز ہوتا ہے۔

( ۹) قرآن میں نازل ہونے والا پہلا سورہ۔

یہ قرآن میں نازل ہونے والا پہلا سورہ ہے۔

۶

( ۱۰) آسمانی صحیفوں کا جامع۔

یہ سورہ تمام آسمانی صحیفوں کے علوم،برکات اور ثواب کا جامع ہے جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے خدا وند متعال نے آسمان سے ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں اور ان میں سے چار کا انتخاب کیا، اور باقی سو کتابوں کے علوم کو ان چار کتابوں میں جمع فرمایا اور وہ چار کتابیں توریت، انجیل،زبور اور قرآن تھیں۔

پھر ان چاروں کے علوم و برکتوں پڑھنے اور جاننے کے ثواب کو قرآن میں رکھا اور پھر قرآن کے علوم اور برکتوں کو جمع کیا اور ایک مفصل سورہ میں رکھا اور پھر مفصل سورہ کے علوم اور برکتوں کو فاتحةالکتاب میں جمع کر دیا اور فاتحةالکتاب کا پڑھنے والا اس طرح ہو گا جیسے اس نے ایک سو چار کتابیں پڑھی ہوں۔

سورہ حمد کے فضائل

اس سورہ کے فضائل کا احصاء نا ممکن ہے البتہ ہم تبرکا پانچ کے تذکرہ پر اکتفاء کرتے ہیں۔

( ۱) اسم اعظم:

روایات میں اس سورہ کی فضیلت میں بیان ہوا ہے کہ اس میں یقینی طور پر اسسم اعظم موجود ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔

اسم الله الاعظم مقطع فی ام الکتاب

قطعی طور پر سورہ حمد میں اسم اعظم الہی موجود ہے۔

( ۲) قرب الہی :

اس سورہ کی تلاوت قرب الہی کا موجب ہے اور اسی وجہ سے شیعہ وسنی روایات میں اسکی ارادے کو مظبوط کرتی ہے اور انسان کو گناہ اور گمراہی سے بچاتی ہے۔

۷

( ۳) دو تہائی قرآن :

اس سورہ کی تلاوت کا ثواب دو تہائی قران کی تلاوت کے ثواب کے برابر ہے اسی وجہ سے پیغمبر اکرم کا ارشاد ہے۔

ایما مسلم قراء فاتحة الکتاب اعطی من الاجر لانما قراء ثلثی القرآن اعطی من الاجر کانما تصدق علی کل مومن و مومنة

جو مسلما ن بھی سورہ حمد کی تلاوت کرتا ہے اسے قرآن کی دو تہائی پڑھنے کا ثواب عطا کیا جائے گا اور اس ے تمام مومنین اور مومنات کو صدقہ دینے کا بھی ثواب عطاہو گا۔

( ۴): شفاء :

یہ سورہ تمام جسمانی اور روحانی تکالیف کے لیئے شفاء ہے جیسا کہ جابر ابن عبداللہ انصاری نے رسول اکرم (ص) سے نقل کیا ہے۔

هی شفاء من کل داء الا السام والسام الموت ۔ (جوامع الجامع ج ۱ ،ص)

یہ سورہ موت کے علاوہ ہر مرض کے لئے دوا ہے۔

نیز حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے کہ

من لم یبرئه الحمد لم یبرئه شئی ۔ (اصول کافی جلد ۴ ص ۴۲۳ ح ۲۲)

جس کو سورہ حمد سے شفاء نہ ملے اسے کوئی چیز بھی شفاء نہیں دے سکتی۔

اسی وجہ سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔

لو قرئت الحمد علی میت سبعین مرة ثم ردت فیه الروح ما کان ذلک عجبا

اگر سورہ حمد کسی میت پر ستر مرتبہ پڑھی جائے اور اس کی روح پلٹ آئے تو تعجب کی بات نہیں ہے۔

۸

( ۵) تمام آسمانی کتب کی برکات وثواب۔

اس سورہ میں تمام آسمانی کتابوں کے جاننے اور پڑھنے کا ثواب رکھا گیا ہے جیسا کہ حدیث مین ہے جو بھی فاتحة الکتاب پڑھے گا ایسے ہی ہے جیسے ایک سو چار آسمانی کتابیں پڑھی ہوں۔

سورہ کے موضوعات۔

یہ سورہ قرآن مجید کے بنیادی نکا ت پر مشتمل ہے اس کے موضوعات کا احصاء وشمار نہایت مشکل ہے لہذا ہم چند اہم موضوعات کو فہرست وار ذکرکرتے ہیں۔ انکی تفصیل بعد کے صفحات پر ملاحظہ فرمائیں۔

( ۱) خداشناسی

( ۲) توحید و صفات الہی

( ۳) حمد الہی

( ۴) تربیت الہی

( ۵) جہان بینی

( ۶) وحدت کلمہ

( ۷) حاکمیت اعلی

( ۸) معاد

( ۹) عبادت

( ۱۰) استعانت

( ۱۱) خصوصی ہدایت

( ۱۲) دعا

( ۱۳) صراط مستقیم

۹

( ۱۴) الہی نعمتیں

( ۱۵) مغضوبین کے راہ کی نفی

( ۱۶) ضالین کے راہ کی نفی

تفسیر آیات

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سہارہ اللہ کے نام کا جو سب کو فیض پہنچانے والا بڑا مہربان ہے۔

بسم الله الرحمن الرحیم میں مندرجہ ذیل چار موضوعات بیان ہوئے ہیں۔

۱ ۔خدا شناسی۔

اللہ کے نام سے شروع کرنا انتہائی بابرکت عمل ہے جو ہر کام کے احسن طریقہ پر انجام پانے کا موجب بنتا ہے پروردگار عالم اس آیت سے اپنے پاک کلام کا آغازکر کے یہ رسم قائم کر رہا ہے اور تربیت دے رہا ہے کسی بھی کام میں یاد خدا سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ جس کو ہر کام میں خدا یاد رہے گا اس کا کوئی کام قانون خدا وندی کے خلاف نہ ہوگا اور اس کی زندگی گناہوں سے پاک رہے گی۔ جیساکہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی معروف حدیث میں ہے۔

کل امر ذی با ل لم یزکر فیه اسم الله فهوابتر

کسی بھی اہم کام میں اگر خدا کے نام کا ذکر نہ ہو تو ناکامی ہو گی۔( بحار الانوار ج ۱۶ ، ب ۵۸)

اس حدیث نبوی کو حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے نقل فرمایا ہے اور اس کے بعد

فرماتے ہیں کہ انسان کوئی بھی کام انجام دینا چاہے تو لازم ہے کہ بسم اللہ کہے یعنی مین اس کام کو اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اورجوکام اللہ کے نام سے شروع ہو گا وہ مبارک ہو گا۔

۱۰

نیز امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں۔

وینبغی الایتان بهاعندافتتاح کل امر عظیم او صغر لیبارک فیه ۔ (تفسیر عیاشی ج ۱ ، ص ۱۹)

بہتر یہ ہے کہ ہر چھوٹے یا بڑے کام کے آغاز پر بسم اللہ کہا جائے تاکہ وہ کام مبارک ہو۔

ب استعانت۔

اس آیت سے آغاز کر کے یہ درس دیا جا رہا ہے کہ مسلمان زندگی کے ہر قدم پر اللہ سے سہارا مانگیں تاکہ یہ احساس ہمیشہ قائم رہے کہ تنہا وہی برتر ذات ایسی ہے جو مدد دے سکتی ہے۔ہمیشہ اسی کے سامنے سرتسلیم خم کیاجائے اور اسی سے توفیق طلب کی جائے تاکہ بلند ہمتی سے امور انجام پائیں یہ عظیم مقصد تبھی پورا ہو سکتا ہے اپنی عاجزی کو تسلیم کرتے ہوئے تنہا قادر مطلق پر اعتماد کیا جائے حضرت امام علی نقی علیہ السلام کا فرمان ہے۔

استعین علی اموری کلها بالله الذی لا تحق عباده الا له ۔( تفسیر الفرقان ج ۱ ، ص ۷۹)

میں اپنے تمام امور میں اسی خدا سے مدد اور سہارا طلب کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی بھی بندگی کا استحقاق نہیں رکھتا۔

ج اسم خدا۔

خدا کا جامع ترین نام اللہ ہے اور یہی ایک نام خدا کے تمام اسماء و صفات کاجامع ہے اور اسی لیئے بسم اللہ کہا جاتاہے بسم الخالق، یا بسم الرازق نہیں کہا جاتا،چونکہ بقیہ تمام اسماء وصفات کو اسی

کلمہ اللہ کی صفت کی حیثیت سے بیان کیا جاتا ہے دوسرے نام کسی ایک کمال اور صفت کو منعکس ہیں مثال کے طور پر غفور و رحیم سے خدا کی بخشش و رحمت کی طرف اشارہ ہے۔

لہذا جس طرح خدا اپنی ذات میں واحد ہے اسی طرح اپنے نام اللہ میں بھی

واحد ہے قرآن مجید میں سب سے زیادہ اسی کا ذکر کیا گیا ہے یعنی ۲۶۹۷ دفعہ ذکر کیاگیا ہے۔

۱۱

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا فر مان ہے۔

الله اعظم اسماء من اسماء الله وهوالاسم الذی لا ینبغی ان یسمی به غیر الله لم یتسم به مخلوق ۔( وہی ماخذ ص ۸۲ ۔تفسیر صافی ج ۱ ، ص ۸۱)

اللہ خدا کے ناموں میں سب سے عظیم نام ہے۔ یہ ایسا نام ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی بھی اس نام سے موسوم نہیں ہو سکتا اور مخلوق بھی یہ نام نہیں رکھ سکتی۔

جیسا کہ مولا کائنات حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے

والتسمیته فی اول کل سورة آیة منها وانما کان یعرف انقضاء السورةبنزولها ابتداء للاخری

بسم اللہ ہر سورہ کی ابتدائی آیت ہے اور ہر سورہ کی ابتداء اور انتہاء اسی آیت کے نزول سے معلوم ہوتی ہے (منہج الصادیقین ج ۱ ،ص ۹۹)

( ۶) نماز میں مکرر۔

یہ آیت ہر نماز میں لازمی طور پر کم از کم چار مرتبہ پڑھی جاتی ہے اس طرح فقط فرض نمازوں میں ہی ۲۰ مرتبہ پڑھی جاتی ہے اور روزانہ کی نافلہ نمازوں میں کم از کم ۶۸ مرتبہ پڑھی جاتی ہے۔

پہلی آیت کے فضائل

اس آیت کے فضائل کا احصی قوت بشری سے باہر ہے بہرحال مندرجہ ذیل تین فضائل ملاحظہ فرمائیں

۱۲

( ۱) تمام اعمال پر غالب ہے۔

اس آیت میں ذات خداوندی کے تین ایسے باعظمت نام بیان ہوئے ہیں جو تمام ناموں اور صفات کے جامع ہیں اور یہ تین نام امت مسلمہ کی نجات کے موجب بن جائیں گے اور یہ نام بنی آدم کے تمام اعمال پر بھاری ہیں جیسا کہ حدیث نبوی میں وارد ہوا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا۔

جب میری امت کو قیامت کے دن حساب کتاب کے لیئے لایا جائے گا اور ان کے اعمال کو میزان میں تولاجائے گا تو ان کی نیکیاں ان کے گناہوں پر غالب آجائیں گی۔

انبیاء سلف کی امتیں سوال کریں گی پیغمبراسلام کی امت کے اعمال بہت کم تھے لیکن ان کی نیکیوں کا پلڑا کیوں بھاری ہے تو انبیاء سلف جواب دیں گے۔کیونکہ یہ امت اپنے کلام کا آغاز خالق متعال کے تین ناموں سے کرتی تھی۔ اور اگر یہی تین نام میزان کے ایک پلڑے پر رکھے جائیں۔ بنی آدم کے تمام حسنات وسیئات دوسرے پلڑے پر رکھے جائیں تو یہ پلڑا بھاری ہوگا اور وہ تین نام بسم اللہ، الرحمن،الرحیم ہیں

( ۲) شیطان کی دوری کا موجب۔

جس کام میں بھی یہ آیت پڑھی جائے شیطان اس کام میں شریک نہیں ہوتامثلا کھانا کھاتے وقت اس آیت کے پڑھنے سے شیطان دور ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اہلیبیت اطہار علیہم السلام سے روایت منقول ہے۔جو شخص کھانا کھاتے وقت بسم اللہ کہے شیطان اس سے دور ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ کھانے میں شریک نہین ہوتا اور اگر کوئی شخص بسم اللہ کے بغیر کھانا کھائے شیطان اس کے ساتھ شریک ہو جاتا ہے۔

( ۳) گناہوں کی بخشش کا ذریعہ۔

یہ آیت آخرت میں بھی نجات کی موجب ہے۔ اور دنیا میں بھی اس آیت کے تکرار کرنے سے جو عادت بن جاتی ہے یہی عادت آخرت میں گناہوں کے محو ہونے اور جہنم کی آگ سے دوری کا باعث ہو گی۔ جیسا کہ پیغمبر عظیم الشان اسلام کی ان تین روایتوں میں وارد ہو ہے کہ۔

۱۳

قیامت کے دن جب انسان کو حساب کتاب کے لیئے لا یا جائے گا اوراس کا اعمال نامہ گناہوں اور برائیوں سے پر ہو گا جب یہ اعمال نامہ اس کے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ اپنی دنیوی عادت کے مطابق بسم اللہ الرحمن الرحیم زبان پر جاری کرے گا تو وہ اعمال نامہ اسے سفید نطر آ ئے گا۔ فرشتوں سے سوال کرے گا کہ میرا اعمال نامہ تو سفید ہے اور اس میں کچھ نہیں لکھا ہو اتو وہ جواب دیں گے بسم اللہ کی برکت سے تمام سیئات و خطیئات محو ہو گئے ہیں۔( منہج الصادیقین ج ۱ ص ۱۰۱)

دوسری روایت، اور فرمایا جب قیامت کے دن کسی بندے کو حکم دیا جائے گا کہ وہ دوزخ میں جائے تو جب وہ کنارے پر پہنچے گا اوربسم الله الرحمن الرحیم کہے گا تو جہنم کی آگ اس سے ۷۰ ھزار سال دور ہو جائے گی۔( ۲)

تیسری روایت

انه اذا قال المعلم للصبی قل بسم الله الرحمن الرحیم فقال الصبی بسم الله الرحمن الرحیم کتب الله برائته لا بویه و برائته للمعلم

نیز فرمایا جب استاد بچے سے کہتا ہے کہبسم الله الرحمن الرحیم کہو اور وہ کہےبسم الله الرحمن الرحیم تو خداوند متعال، اس کے والدین اور استاد کو بخش دیتا ہے۔( جامع الاخبار،بصائر ج ۱ ص ۲۲۳ مجمع البیان ج ۱ ص ۹۰)

(الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ )

تمام حمد وثناء اس خدا کے لیئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اس آیت میں مندرجہ ذیل چار موضوعات ہیں

( ۱) حمد الہی

( ۲) تربیت الہی

( ۳) جہاں بینی

( ۴) وحدت کلمہ۔

( ۱) الف حمد الہی

۱۴

اختصاص حمد صرف خدا کے ساتھ ہے۔ خالق متعال الحمدللہ رب العالمین کہ کر اس حقیقت کو بشریت کے لیئے واضع اور آشکار کر رہا ہے کہ حمد الہی کا مفہوم اور اس کی حقیقت، ذات مقدس الہی سے مختص ہے کیونکہ اس کی ذات کمال مطلق ہے جو تمام عیوب و نقائص سے منزہ ہے۔

لہذا وہ ذاتی لیاقت رکھتا ہے کہ ہر قسم کی حمد صرف اسی سے مختص ہو حمد اختیاری عمل پر ہوتی ہے اور رب العالمین کے پاس اختیا رکل ہے لہذا حقیقی حمد کا استحقاق بھی وہی رکھتا ہے بلکہ وہ اپنی ذات،صفات،اور افعال کے حوالے سے ہر قسم کی حمد و تعریف کا حقدار ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا ایسی تعریف کا حقدار نہیں ہے ہاں وہ خود کسی کو محمد بنا دے تو اور بات ہے۔

ب۔تعلیم حمد

بندوں کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے پالنے والے کی معرفت حاصل کریں اور رب العالمین کی بے شمار اور لا متناہی نعمتیں ہی ہمیں اس کی شناخت کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کیونکہ جب کسی انسان کو نعمت حاصل ہو تو وہ فطری طور پر عطا کرنے والے کا شکر گزار ہوتا ہے شکریے کا حق ادا کرنے کے لیئے منعم اور محسن کی پہچان ضروری ہے۔

جب ہمیں پہچان ہو جائے کہ خدا کی ذات ہی تمام نعمتوں اور رحمتوں کو عطا کرنے والی ہے توشکر ادا کرنے کا طریقہ سکھا رہی ہے کہ جب بھی تم میری عظیم نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہوتو میری حمد کرو اور جب حمد کرنا مقصود ہو تو کہو الحمد للہ رب العالمین اس طرح میری مکمل ترین حمد ہو جائے گی۔ اگر خداوند متعال حمدوشکر کی تعلیم کر دے تو انسان ذاتی طور پر اس کمال مطلق کی تعریف کے قابل نہیں ہو سکتا۔

۱۵

( ۲) تربیت الہی:۔

الف خدائی پرورش

خداوند متعال ” رب العالمین “ سے یہ بیان فرمایا جا رہا ہے کہ تمام جہانوں موجودات کی تخلیق اور ایجاد کرنے والا قادر مطلق ہے اور چونکہ اسی نے وجود بخشا ہے لہذا وہی بہتر پرورش کر سکتا ہے وہی تمام موجودات کا رب اور پالنے والا ہے۔کائنات وجود پانے کے بعد بھی ہمیشہ رب العالمین کی محتاج ہے پرورش اور رشد کے تمام عوامل اسی نے پیدا کیے ہیں۔تربیت اور پرورش دو قسم کی ہوتی ہے۔

( ۱) تکوینی تربیت

( ۲) تشریعی تربیت

ہمارا خالق دونوں لحاظ سے رب ہے ہماری خلقت میں بھی ہمیں پالنے والا وہی ہے اور تعلیم وتربیت میں بھی وہی رب ہے اور راہ دکھلاتا ہے۔اور تمام مخلوقات کے تکامل اور ترقی کے تمام وسائل کا انتظام اسی نے کیا ہے اور پھر ان وسائل کے استعمال کا طریقہ بھی اسی نے سکھایا ہے۔

خالق متعال نے نہ صرف طبعیت اور جسمانی تربیت کا مکمل انتظام کیا ہے بلکہ اپنی مخلوق ناطقہ کے لیئے روحانی اور اخلاقی تربیت کا بھی پورا اہتمام فرمایا ہے۔اس امر کے لیئے فطرت بشری میں ھدایت کی راہ پرچلنے کا جوہر رکھا ہے اور صحیح راہ کی شناخت کے لیئے عقل جیسی ممتاز نعمت عطا فرمائی ہے۔ چونکہ بشریت کو ارتقائی منازل طے کرنے کے لیئے راہنما کی ضرورت تھی تو اس کا انتظام انبیاء الہی کو ہدایت بشری کے لیے مبعوث فرمایا اور آسمانی کتب نازل فرمائی جس سے رشد وتکامل کے تمام انتظامات مکمل ہو گئے۔

۱۶

(ب) دیگر ارباب کی نفی

خالق مطلق چونکہ ہر چیز کا مالک ہے اور ان کی تربیت بھی صرف وہی کر سکتا ہے اور رب حقیقی اور مطلق بھی وہی ہے تو کسی اور کا رب ہونا یا تربیت میں شریک ہونا اس حقیقت کے منافی ہے۔اس آیت کے ذریعہ کائنات کی ہر چیز کی تربیت کو صرف خدا وند متعال سے مختص کر دیا گیا ہے اور بقیہ تمام تخیلی ارباب کی نفی کر دی گئی ہے اور اس طرح توحید ویگانگی کی اساسی وجہ بیان کر دی ہے۔

( ۳) جہان بینی

عالم سے مراد وہ جہان ہے جو ایک شمسی نظام اور اس میں موجود تمام سیارات سے تشکیل پاتا ہے سا ئنسی ترقی سے انسان نے بہت سے کہکشاں اور ہر کہکشاں میں متعددشمسی نظام اور ہر شمسی نظام میں موجود مختلف سیاروں کا پتہ چلا لیا ہے البتہ سائنس کی ترقی سے بہت پہلے ہمارے معصومین علیہم ا لسلام نے اس کی خبر دے رکھی تھی جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ ا لسلام کا فرمان ہے۔

ان الله قد خلق الف الف آدم

بے شک اللہ نے ہزار ہزار (ایک ملین )جہان پیدا کیے اور ہزار ہزارآدم کو خلق فرمایاہے۔

اس سے عالمین یعنی بہت سے جہان کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے کہ کائنات میں جتنے عالم ہیں ان تمام کا خالق اور رب صرف خدا کی ذات ہے۔

عالمین کے تذکرے سے مراد یہ ہے کائنات کی وسعت،جہانوں کے تعدد،ان کی خلقت اور ان کی تربیت پر غور کیا جائے اور ایک جہان بینی اور کلی نظر پیداہو کہ وہ ذات بر تر و جامع کمالات ہے اس کی خالقیت اتنی وسعت رکھتی ہے کہ انسان ان کے جزئیات کو نہیں پا سکتا اور صرف تخلیق ہی نہیں کیا بلکہ تخلیق کے بعد ان کی تربیت کر نے والی ذات بھی وہی ہے۔

۱۷

یعنی وہ ذات کائنات اور اس میں موجود تمام جہانوں،نظاموں،سیاروں ،آسمانوں،زمینوں،جمادات،نباتات،حیوانات اور ملائک،جن اور انس نیز دیگر مخلوقات کی ان کے مناسب حال تدریجی طور پر تربیت کرتا ہے اور کمال کی منزل تک پہنچاتی ہے۔

اس سے عالمین کی تربیت پر ایک کلی نظر پیدا ہوتی ہے کہ کتنا بڑا اور پھیلا ہوا عمل ہے کہ خالق کے علاوہ اس کام کو کوئی انجام نہیں دے سکتا اسی لیے تمام حمد اور تعریفوں کو اسی ذٓت سے مخصوص کر نا ضروری ہے۔

( ۴) وحدت کلمہ

جب ذات،صفات،خالقیت اور تربیت میں وحدانیت الہی معلوم ہو گئی اور ہر روز نئے خدا اور ہر کام کے لیے علیحدہ علیحدہ خدا نیز قبلہ کا الگ الگ خدا ہو نے کی نفی کر دے گئی اور یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آگئی کہ وہ اس ایک جہان ہی خالق نہیں بلکہ وہ ایسے بہت سے جہانوں کا خالق،مدبر اور پالنے والا ہے۔

اس سے ایک طرف سے ہر طرح کے شرکت کا سد باب کیا اور دوسری طرف اتحاد عالمی کی ایک مستحکم بنیاد قائم کر دی تاکہ سب لوگ وحدت کلمہ کے ساتھ ترقی وکمال کے مدارج طے کرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچیں۔

اگرچہ ابھی تک انسانیت تہذیب وتمدن کین انتہائی ترقی کے باوجود اس بنیاد پر کوئی مضبوط عمارت قائم نہیں کر سکی اور جب تک اس اخوات کا سنگ بنیاد رکھنے والے دین اسلام اور کتاب (قرآن ) کو عمومی طور پر تسلیم نہ کر لیا جائے اس وقت تک یہ عظیم مقصد حاصل نہ ہو گا۔

اس سلسلے میں قرآن کا وعدہ ہے کہ

( لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِۚ )

تا کہ اس دین کو ہر دین پر غلبہ عطاء کرے۔

یہ وعدہ حتمی ہے جو پورا ہو کر رہے گا جب حضرت حجت کا ظہور ہو گا اور دنیا کی تمام بے تابیاں اور پریشانیاں اس وقت ختم ہو جائیں گی۔اور ایمان۔نظم اور اتحاد عالم کی نہایت ہی شاندار عمارت بنے گی اور دنیا کے مضطربانہ اٹھتے ہوئے قدم آخر میں اس منزل پر پہنچ کر دم لیں گے اور اطمینان اور سکون کی فضا قائم ہو جائے گی۔

۱۸

خصوصیات آیت

اس آیت کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں۔

( ۱) تمام انوع حمد کی جامع۔

یہ آیت حمدکی تمام انوع و مراتب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور خدا وند متعال کے جتنے اوصاف کمالات ہیں ہر کمال پر وہ لائق حمد ہے اس کی جتنی نعمتیں اور آثار ہیں سب کے سب حمد الہی کے موارد ہیں۔ کسی انسان میں طاقت نہیں ہے کہ جس طرح وہ حمد کا حقدار ہے اس طرح حمد الہی بجا لائے اور اس آیت میں خدا کی جامع حمد ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فر مایا۔

اگر خدا وند متعال میری سواری مجھے لوٹادے تو میں اس کی ایسی حمد کروں گا جو اسے پسند آئے گی سواری مل گئے اور اس پر سوار ہوئے تو آسمان کی طرف سر اٹھاکر فرمایا الحمد للہ اور اس سے زیادہ کچھ نہ فرمایا اور پھر فرمایا۔

ما ترکت ولا ابقیت شئا جعلت جمیع انوع المحامد لله عزو جل فما من الا و هو داخل فی ما قلت

میں نے خدا کی حمد سے کسی قسم کی چیز کو نہیں چھوڑاحمد کی اقسام اس جملے میں داخل ہیں۔

ہم تمام انوع حمد کی وضاحت میں چند جملے دعا افتتاح کے بیان کرتے ہیں امام زمانہ (عج)نے اپنے خاص نائب ابو جعفر محمد ابن عثمان کو تعلیم فرمائی تھی۔

۱۹

الحمد لله بجمیع محامده کلها، علی جمیع نعمه کلهاالحمد لله الذی لا مضاد له فی ملکه،ولاس منازع له امرهالحمد لله الذی لا شریک له فی خلقه ولا شبیه له فی عطمته الحمد لله الفا شی فی الخلق امره وحمده،الظاهر بالکرم مجده،الباسط بالحوریده،الذی لا تنقض خزائنه ولا تزید کثرة العطاء الا حور ا وکرما انه هو العزیز الوهاب

حمد اللہ ہی کے لئے ہے اس کی تمام خوبیاں اور ساری نعمتوں کے ساتھ، حمد اس اللہ کے لئے ہے جس کی افرینش میں کئی اس کا ساجھی نہیں ہے اور اس کی بڑائی میں کوئی اس جیسا نہیں ہے،حمد اس اللہ کے لئے ہے جس کا حکمپوری مخلوق میں آشکار ہے اس کی شان اس کی بخشش کے ساتھ ظاہر ہے بن مانگے دینے میں اس کا ہاتھ کھلا ہے۔یہ وہی ہے جس کے خزانے کم نہیں ہوتے اور کثرت کے ساتھ عطا کرنے میں اس کی بخشش و سخاوت میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ وہ زبردست عطا کرنے والا ہے۔بہرحال پوری دعا ہی پروردگار عالم کی حمد پر مشتمل ہے اور ہر قسم کی حمد کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔

( ۲) نماز میں الحمدللہ رب عالمین پڑھنا

اس آیت کا حمد کے بعد نماز میں پڑھنا مستحب ہے یہ اس آیت کی خصوصیت ہے چونکہ باجماعت نماز میں سورہ حمد اور بعد والی سورہ کا پڑھنا صرف پیشنماز کے لیے ضروری ہوتا ہے اور مقتدی صرف سنتا ہے اور جب پیشنماز سورہ حمد کی قر ائت ختم کرتا ہے تو مقتدی کے لیے مستحب ہے وہ کہے الحمد للہ ر ب العالمین۔

جیسا امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے

اذا کنت خلف امام ففرغ من قرائةالفاتحهفقل انت من خلفه الحمد لله ر ب العالمین

جب آپ با جماعت نماز پڑھیں اور پیشنماز سورہ فاتحہ پڑھ چکیں تو کہیں الحمد للہ رب العالمین۔

اسی طرح فرادی نماز میں بھی حمد کے بعد اس آیت کو پڑھنا سنت ہے جیسا کہ امام علیہ ا لسلام کا اس بارے میں ارشاد ہے۔

فاذا قرائات الفاتحة ففرغ من قرائتها و انت فی الصلوة فقل الحمد لله رب العالمین

جب آپ سورہ الفاتحہ کو نماز میں قرائت کریں تو کہیں الحمدللہ رب العالمین۔البتہ آئمہ معصومین علیہمالسلام کے فرامین کے مطابق سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔

۲۰

زائد مقدار کو ہمارے لیئے ذخیرہ کرلیتے ہیں_ گائے بھیڑ بکریاں بھی غذا کی محتاج ہیں وہ دانے اور سبز گھاس کھاتی ہیں اور ہمیں دودھ مکھن دہی گوشت اور پنیر دیتی ہیں مرغیاں بھی دانہ کھاتی ہیں اور ہمارے لئے گوشت اور انڈے بناتی ہیں_ تمام حیوانات اور جانور غذا کے محتاج ہیں_

ان تمام کی غذا سبز نباتات کے ذریعے بنتی ہے_ کوئی انسان او رحیوان نباتات کے بغیر اپنی غذا تیار نہیں کرسکتا_ بلکہ تمام نباتات کے محتاج ہیں_ انسان نباتات اور حیوانات کا محتاج ہے اور حیوانات نباتات کے محتاج ہیں اور نباتات غذا تیار کرنے میں پانی مٹی اور ہوا اور سورج کی روشنی کے محتاج ہیں_

اب دیکھیں کہ کس ذات نے سورج کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ وہ دنیا پر چمکے اور روشنی اور طاقت (انرجی) دے تا کہ نباتات ہمارے لئے غذا تیار کرسکیں؟ کس ذات نے درختوں اور نباتات کو اس نظم اور ترتیب اور ارتباط سے پیدا کیا اور خوبصورت سبز پتّوں کو غذا بنانے کی طاقت عنایت فرمائی ہے_

وہ دانا اور توانا ذات خدا ہے کہ جو تمام چیزوں کا عالم ہے اور ہر کام پر قدرت رکھتا ہے_

وہ عالم اور توانا ذات ہمیں دوست رکھتی ہے کہ ہماری تمام ضروریات کو پیش بینی کرتے ہوئے پیدا کردیا ہے_ ہم بھی اسے دوست رکھتی ہیں اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اس کے فرمان کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں_ خدا سے بہتر کون ہے جو ہماری زندگی کے لئے راہنما ہوسکتا ہے؟

۲۱

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ روٹی کس چیز سے بناتے ہیں

۲)___ گندم کا پودا گندم اگانے میں کس چیز کا محتاج ہے_

۳)___ اگر سورج کی روشنی گندم کے پودے پر نہ پڑے تو کیا گندم وجود میں آسکتا ہے_

۴)___ اگر سبز پتے گندم کا پودا اور دوسری غذا نہ بنائیں تو کیا ہم غذا حاصل کرسکتے ہیں

۵)___ کس ذات نے ہماری ضروریات کی پیش بینی کی ہے اور جہاں کو اس نظم و ارتباط سے خلق کیا ہے؟

۶)___ ہمارا فریضہ ان نعمتوں کے مقابل کیا ہے؟

تجربہ اور تحقیق کیجئے

بڑے سبز پتّے ہوا کو بھی صاف کرنے کا کام کرتے ہیں: جانتے ہو کس طرح

مشق

۱)___ سبق کو ایک دفعہ بلند آواز سے پڑھیں_

۲)___ اس سبق میں کئی اور سوال بنائیں اور ان کے جواب اپنے دوست سے پوچھیں

۳)___ سبق کا خلاصہ بیان کریں اور اس سبق کی غرض و غایت کو بھی بیان کر یں

۴)___ اوپر کے سوالوں کا جواب خوبصورت خط سے اپنی کاپی میں لکھیں

۲۲

پانچواں سبق

تجربے کی روش خداشناسی کا سبق دیتی ہے

جب میں گھر آئی تو میری ماں نے کہا مریم آج عصر کے وقت کون سا سبق پڑھا ہے؟ میں نے علم حیاتات ''بیالوجی'' اور بحث نظام ہاضمہ کا سبق پڑھا ہے استاد نے پوچھا جانتی ہو کہ غذا کی نالی کیا ہے: معدہ کہاں ہے؟ آنتوں کا کیا کام ہے_ غذا کس طرح ہضم ہوتی ہے؟ شاگرد اس کا جو جواب دے رہے تھے وہ درست نہ تھا استاد نے کہا ان سوالوں کے متعلق تحقیق کرو ان کا صحیح اور کامل جواب یاد کرو اور کل اپنے دوستوں سے بیان کرنا میں حیاتیات کی کتاب لائی تا کہ آپ کی مدد سے ان سوالوں کے متعلق تحقیق کروں میری امّی بھی اپنی لائبریری سے ایک کتاب لائیں جس میں مختلف اور بہت زیادہ شکلیں موجود تھیں ایک شکل مجھے دکھلائی اور کہا اس تھیلی کو دیکھ رہی ہو ہم جب غذا کھاتے ہیں تو غذا اس تحصیلی میں جاتی ہے اس کا نام معدہ ہے

۲۳

کیا بتلا سکتی ہو کہ غذا کسے راستے سے معدہ میں جاتی ہے؟

میں نے شکل کو دیکھا اور کہا یقینا اس نالی کے ذریعہ جاتی ہوگی ماں نے کہا ہاں بالکل ٹھیک ہے اس کا نام غذا کی نالی ہے یہ نالی حلق کو معدہ سے ملاتی ہے_

ایک اور نالی حلق کو پھیپھڑوں سے ملاتی ہے جب ہم سانس لیتے ہیں تو ہو اس نالی سے پھیھپڑوں میں جاتی ہے_ ا س کا نام جانتی ہو میں نے شکل کو دیکھا اور کہا یہ ہوا کی نالی ہے_ میری امّی نے کہا یہ نالی غذا کے گذرنے کے لئے ہے اور یہ نالی ہوا کے گذرنے کے لئے ہے_ میں نے کہا کہ اگر غذا ہوا کی نالی سے جائے تو کیا ہوگا؟ امّی نے کہا غذا کو اس نالی سے نہیں جانا چاہتے ورنہ ہوا کے جانے کا راستہ بند ہوجائے گا اور ہمارا دم گھٹ جائے گا_ میں نے کہا پس کس لئے میرا دم ابھی تک نہیں گھٹا مجھے تو علم نہ تھا کہ غذا کو اس نالی سے نہ نگلوں امّی نے کہا: بیٹی: غذا نگلنا بہت عمدہ ہے اس شکل کودیکھو_ دیکھو حلق میں چار راستے ہیں ایک راستہ ناک کی طرف اور ایک راستہ منہ کی طرف اور ایک راستہ پھیھڑوں کی طرف اور ایک راستہ معدہ کی طرف_

جب ہم غذا کو نگلنا چاہتے ہیں تو صرف غذا والی نالی کھلتی ہے اسی لئے حلق میں دو دروازے ہماری ضرورت کے لئے حلق کئے گئے ہیں پس ایک دروازہ ہوا کی نالی کو بند کرتا ہے اور دوسرا دروازہ ناک والی نالی کو بند کرتا ہے ہوا کا دروازہ کہلاتا ہے اور وہ دروازہ جو ناک کی نالی کو بند کرتا ہے اسے چھوٹی زبان کہا جاتا ہے ہمیں ان دونوں دروازوں کی ضرورت ہے اگر یہ

۲۴

نہ ہوں تو پہلے لقمے کے نگلتے وقت گھٹ کر مرجائیں_ میں نے کہا_ کیا خوب: میں بھی ایک دوازہ ہوا والا دوسری چھوٹی زبان رکھتی ہوں ورنہ گھٹ کر مرجاتی_

امّی نے کہا مریم جان: کیا تو یہ خیال کرتی ہے کہ چھوٹی زبان اور دوسرا دروازہ خودبخود بے صرف و غرض وجود میں آگئے ہیں میں نے کہا: نہیں چونکہ ان کی غرض و غایت بالکل واضح اور معلوم ہے: ایک ناک کے راستے کو بند کرتی ہے اور دوسرا پھیھپڑوں کو جانے والی نالی کو ان کے کام اور غرض معین اور معلوم ہیں بغیر علّت کے وجود میں نہیں آئے واضح ہے کہ کس ذات عالم نے ان کو ہمارے لئے خلق کیا ہے_ امّی نے کہا_ شاباش_ بالکل ٹھیک کہا تو نے: جس نے ہم کو پیدا کیا ہے ہماری ضروریات کو جانتا تھا اور تمام چیزوں کو جانتا ہے اسے علم تھا کہ ہمیںاس دروازے کی ضرورت ہے چونکہ ہم کو سانس بھی لینا ہے اور غذا بھی کہانا ہے وہ جانتا تھا کہ غذا کو ہوا کی نالی میں نہیں جانا چاہیئے اسی غرض کے ماتحت ہوا کا دروازہ خلق کردیا ہے_ جب تک لقمے نگلتے رہیں گے ہوا کی نالی کا دروازہ بند رہے گا اور غذا اس میں نہیں جائے گی_ ہمیں پیدا کرنے والا خدا عالم اور قادر ہے اسے ہماری تمام ضروریات کا علم تھا اسی لئے ان کو ہماری ضرورت کے تحت خلق کیا_ مثلاً معدہ کی دیوار میں ہزاروں غدّے خلق فرمائے ہیں تا کہ مخصوص لعاب پیدا ہوکر غذا پر

۲۵

پڑے تا کہ غذا ہضم ہو اور مائع میں تبدیل ہوجائے_ ہمارے لئے آنتیں خلق فرمائی ہیں تا کہ مائع شدہ غذا معدہ سے آنتوں میں داخل ہو اور وہاں ہضم او رجذب ہو صفراوی پتا اور تلی کو خلق فرمایا ہے تا کہ مخصوص لعاب غذا پر پڑے تا کہ غذا مکمل طور پر ہضم ہوجائے_ جب غذا پوری طرح ہضم ہوجائے تو ضروری مواد کو آنتوں کی دیوار سے جذب کرتا ہے اور خون میں داخل ہوجاتا ہے اور تمام بدن تک پہنچتا رہتا ہے_ پیاری مریم_ ایک منظم کارخانہ جو نظام ہضم کہلاتا ہے خودبخود بغیر علت اور فائدہ ہے کے وجود میں نہیں آیا بلکہ مہربان اور دانا خدا نے ہمارے لئے ہماری ضرورت کے تحت اسے خلق کیا ہے_ غذا کھانے سے طاقت اور انرجی بنتی ہے اور پھر ہم زندہ رہ سکتے ہیں_ خداوند عالم کی مہربانی سے ہمیں توانائی حاصل ہوتی ہے جس کی بدولت ہم زندہ ہیں اور دیگر امور انجام دیتے ہیں_ ہم بھی اس کے شکر کے لئے اس طاقت کو اس کی اطاعت میں صرف کرتے ہیں اس کے فرمان اور احکام کو قبول کرتے ہیں او رگناہ و نافرمانی اور برے اخلاق سے دور رہتے ہیں تا کہ خدا ہم سے خوش ہو اور دنیا و آخرت میں بہت اعلی اور بہترین نعمتیں عنایت فرمائے_

یہ شکل اس عظیم کارخانے کی ہے جو منظم اور مرتبط غذا کے ہضم کے لئے بنایا گیا ہے اور نظام ہضم کہلاتا ہے_ مہربان خدا نے ہماری ضرورت کے تحت اسے خلق کیا_

کیا سوائے خدا علیم و قادر کے کوئی اتنا بڑا کارخانہ ہمارے لئے بنا سکتا ہے؟

غور کریں اور جواب دیں

۱)___ ہوا کی نالی کے لئے دروازہ بنانے کی غرض کیا ہے؟

۲۶

۲)___ چھوٹی زبان کے خلق کرنے کی غرض کیا ہے؟

۳)___ اگر یہ دروازے نہ ہوں تو ہم کیسے غذا کھاسکتے ہیں؟

۴)___ کیا یہ دروازے خودبخود بے غرض و غایت کے وجود میں آئے ہیں اور کیوں؟

۵)___ ہمارا نظام ہضم کن چیزوں سے بنا ہے؟

۶)___ ہمارے بدن میں غذا کس طرح ہضم ہوتی ہے؟

۷)___ کیا نظام ہضم بے ربط اور بے غرض ہے؟

۸)___ کیا ہم نے اس منظّم و مرتبط کارخانہ کو بنایا ہے؟

۹)___ نظام ہضم کے منظم اور مرتبط ہونے سے کیا نتیجہ لیتے ہیں؟

۱۰)___ اللہ تعالی کی اعلی اور عمدہ نعمتوں سے نوازے جائیں تو کیا کریں؟

۱۱)___ کیا آپ جانتے ہیں کہ غذا کے نگلنے کے وقت منہ کا راستہ کس طرح بند ہوجاتا ہے؟

ان سوالوں اور اس کے جوابوں کو خوبصورت خط کے ساتھ اپنی کاپی میں لکھیں

۲۷

چھٹا سبق

خدا کی قدرت کے آثار اور اس کی علامتیں

جب میں صبح اسکول پہنچا تو بچّے میرے ارد گرد اکٹھے ہوگئے گویا کہ انہیں کل رات کے حادثے کا علم تھا گھنٹی بجی اور ہم کلاس میں جا بیٹھے استاد کلاس میں آئے میں نے اپنے آنسو صاف کئے اور کھڑا ہوگیا لیکن میری آنکھیں اشک آلود تھیں لڑکوں نے کل رات کے متعلق جتنا انہیں علم تھا استاد کو بتلایا جب میرے بھائی احمد کو ہسپتال لے جا رہے تھے تو اس کا ہاتھ اور منہ سیاہ ہوگیا تھا شاگردوں نے پوچھا کہ کیوں احمد کا ہاتھ اور منہ سیاہ تھا_ سانس کا گھٹنا کیا ہے؟ کیوں احمد کے بھائی کا دم گھٹتا ہے کیا وہ ٹھیک ہوجائے گا؟ اس کا کس طرح علاج کریں گے؟ استاد نے کہا بچّوں جب تم ان سوالوں کا جواب چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ خون کی حرکت اور تنفس کا درس جلدی شروع کردیا جائے کل حیاتیات کا علم ایک دوسرے کی مدد سے شروع

۲۸

کریں گے تم میں سے کون ہے جو کل ای بکرے کا دل اور پھیھپڑا اسکول لائے دو طالب علموں نے وعدہ کیا کہ ہم کسی بکرے کا دل اور پھیھپڑا اسکول لائیں گے دوسرے دن بکرے کا دل اور پھیھپڑا اسکول لے آئے استاد نے چھری سے دل کو چیرا اور اس کے مختلف حصّے شاگردوں کو دکھلائے اور دل و پھیھپڑے کا کام طالب علموں کو بتلایا تمام طالب علم دل اور پھیھپڑے کے عمل سے آگاہ ہوئے اور اپنے سوالوں کے جوابات سمجھے پھر استاد نے اس درس کا خلاصہ اس طرح لکھا اور شاگردوں کے سامنے رکھا

نظام تنفس اور دوران خون

اس درس سے ہم اپنے جسم کے بعض حالات سے باخبر ہوجائیں گے اور بدن کے کارخانے کی غرض و غایت اور ارتباط کو اچھی طرح جان لیں گے اور قدرت خدا کے آثار کا مشاہدہ کرنے سے خدا کو پہنچانیں گے_

آپ کو علم ہے کہ خون بدن کی رگوں میں ہمیشہ گردش میں رہتا ہے کیا آپ خون کی گردش کے فوائد کو بھی جانتے ہیں؟ خون بدن کے تمام خلیوں کے پہلو سے گزرتا ہے اور انھیں غذا و آکسیجن دیتا ہے_ خون کے کاموں میں سے ایک اہم کام بدن کے تمام خلیوں میں آکسیجن کو پہنچانا ہے خلیوں میں آکسیجن نہ پہنچے تو ہماری موت فوراً ہوجائے_ بدن میں حرارت اور انرجی

۲۹

آکسیجن کے ذریعہ سے پوری ہوتی ہے آکسیجن کو پہنچانے میں سرخ خلیے حصّہ دار ہیں سرخ خلیے جو خون میں تیرتے ہیں اور بدن میں پھرتے رہتے ہیں وہ بدن کے تمام خلیوں کو آکسیجن پہنچاتے رہتے ہیں_

لیکن آپ کو علم ہے کہ خون خودبخود حرکت نہیں کرتا بلکہ ایک طاقتور پمپ اس کام کو انجام دیتا ہے طاقت ور پمپ جو برابر یہ کام کرتا ہے اور خون کو تمام بدن میں گردش دیتا ہے کیا اس طاقتور پمپ کو پہچانتے ہیں اس کا نام جانتے ہیں کہ سرخ خلیے کہ جن کے ساتھ آکسیجن ہوتا ہے دل کی دھڑکن سے بدن کی بڑی شریان میں وارد ہوتے ہیں یہ شریان بدن میں جگہ جگہ تقسیم ہوجاتی ہے اور ہر شاخ پھر چھوٹی شاخوں میں تبدیل ہوجاتی ہے ان تمام میں سے باریک تر قسم کی رگیں کیلپری کہلاتی ہیں_

خون کیلپری سے خلیوں کے پہلو میں سے گزرتا ہے سرخ خلیے جو شاداب ہیں اپنے ساتھ آکسیجن رکھتے ہیں اور خلیوں کو دیتے ہیں اور خلیوں کو سالم و زندہ رکھتے ہیں اور کاربن ڈائی اکسائڈ جو ایک ہوا کی زہریلی قسم ہے اس سے لے لیتے ہیں سرخ خلیے اس ہوا کے لینے سے آدھے سیاہ ہو جاتے ہیں اور اگر چند منٹ ایسے رہیں تو تمام مرجائیں گے جسکے نتیجے میں ہماری موت بھی واقع ہوجائے گی خلیوں کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ دوبارہ سرخ اور شاداب ہوجائیں اور اپنے کام کو پھر سے شروع کرسکیں لیکن کہاں سے آکسیجن لیں؟ اور کس طرح اپنا کام دوبارہ شروع کریں اور دل کی طرف لوٹیں ان نیم سیاہ خلیوں کا دل کی طرف لوٹنا دوسری رگوں کا محتاج ہے تا کہ نیم سیاہ خلیے ان رگوں کے ذریعہ دل کی طرف لوٹ سکیں_

۳۰

خداوند عالم اس ضرورت کو جانتا تھا لہذا دوسری رگیں خلیوں کو دل کی طرف لوٹانے کے لئے ہمارے بدن میں بنائی ہیں_

تعجب ہے کہ ان رگوں میں دروازے بھی بنے ہیں جو خون کی حرکت کو صرف دل کی طرف ممکن قرار دیتے ہیں دل گندے خون اور: سفید خلیوں کو ان سیاہ رگوں کے ذریعہ اپنی طرف کھینچتا ہے سیاہ اور گنہ خون دل کے پاس پہنچ کرکیا تازہ اور شاداب خون کے ساتھ مخلوط ہوجاتا ہے؟ نہیں_ مخلوط نہیں ہوتا کیونکہ خالق دانا نے دل کے وسط میں ایک قسم کی مضبوط دیوار بنائی ہے تا کہ تازہ خون اس گندے اور سیاہ خون سے مخلوط ہوسکے اور ہر ایک اپنی مخصوص جگہ پر رہے اب جب کہ نیم سیاہ خلیے دل کے پاس پہنچ جاتے ہیں اب دل میں بھی آکسیجن کی ضرورت ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ اپنے آپ کو آزاد ہوا میں پہنجائیں اور آزاد ہوا سے آکسیجن حاصل کریں خالق بزرگ اور دانا نے دل سے ایک راستہ پھیھپڑوں کی طرف بنایا ہے تا کہ خلیے اس راستے سے آزاد ہوا ہیں اپنے آپ کو پہنچائیں اور آزاد ہوا سے جو پھیھپڑوں میں سے، استفادہ کریں دل اپنی ایک دھڑکن سے سیاہ خون اور سفید خلیوں کو اس راستے سے پھیھپڑے تک پہنچا دیتا ہے وہ آکسیجن لیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائڈ کو خارج کردیتے ہیں_ کیا آپ کو علم ہے کہ سرخ خلیوں کی تعداد خون میں کتنی زیادہ ہے؟ کیا خلیوں کی تعداد کے مطابق پھیھپڑوں میں ہوا کی مقدار ان تمام کے لئے کا فی ہے؟ کیا یہ تمام آزاد ہوا کے نزدیک آسکتے ہیں کہ آکسیجن لے لیں اور کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کردیں_

جی ہاں اہمارے بزرگ اور دانا خالق نے جو ہماری تمام ضروریات

۳۱

سے باخبر تھا لاکھول ہوائی کیسوں کے ذریعہ پھیھپڑوں میں ہمارے لئے پیش گوئی کی تھی اور خلق فرما دیا تھا یہ تھیلیاں ہر سانس لینے سے تازہ ہوا سے بھر جاتی ہیں اور وہی خلیے تازہ ہوا سے نزدیک ہوتے ہیں آکسیجن لے لیتے ہیں اور دل کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور اپنا کام پھر سے شروع کردیتے ہیں بدن کے خلیے جو آکسیجن کے انتظار میں ہوتے ہیں آکسیجن حاصل کرتے ہیں اور بدن کی حرارت اور انرجی کو پورا کردیتے ہیں_ کون ذات ہے سوائے خدائے مہربان اور دانا کے جو خلیوں کی تعداد کو جانتی ہو؟ اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لاکھوں ہوائی کیسوں کو پھیھپڑوں میں خلق کیا ہے_ نظام تنفس اور نظام دوران خون آپس میں مربوط اور ہم آہنگ ہیں اور یہ ایک ہی غرض و غایت کے ساتھ وجود میں آئے ہیں کیا یہ دقیق اور منظم کارخانہ خودبخود بغیر کسی غرض و غایت کے پیدا ہوا ہے_ کیا بے شعور اور نادان مادہ اس قسم کا کارخانہ جو دقیق اور با مقصد ہے پیدا کرسکتا ہے؟ کون ہے سوائے ذات الہی حکیم اور قادر کے جو اس قسم کا دقیق اور عمدہ کارخانہ وجود میں لاسکے؟ ہم تنفس اور خون کی گردش کے اس عظیم منظم کارخانے کے دیکھنے اور مشاہدے سے پیدا کرنے والے خدا کی عظمت کو سمجھ سکتے ہیں اور اس کی بے شمار نعمتوں سے زیادہ واقف ہوسکتے ہیں_

اس کو بہتر پہچانتے ہیں اور اس کی بہتر عبادت اور شکر ادا کرتے ہیں:

بہت غور سے ان سوالوں کا جواب دیجئے

۱)___ خون کی گردش بدن میں کیا فائدہ رکھتی ہے؟

۳۲

۲)___ سرخ خلیے بدن میں کیا فائدہ دیتے ہیں؟

۳)___ خون کس ذریعے سے بدن میں حرکت کرتا ہے؟

۴)___ جب سرخ خلیے نیم سیاہ ہوجاتے ہیں تو کس راستے سے دل کی طرف لوٹ آتے ہیں؟

۵)___ کیا گندہ اور سیاہ خون دل میں تازہ خون سے مخلوط ہوجاتا ہے؟

۶)___ خلیے کہاں سے آکسیجن لیتے ہیں؟

۷)___ کیاتمام خلیے پھیھپڑوں کی تازہ ہوا سے استفادہ کرسکتے ہیں؟ اور کس طرح؟

۸)___ اگر خلیوں کو آکسیجن نہ ملے تو کیا ہوگا_

۹)___ اگر سرخ خلیوں کا دل کی طرف لوٹ آنے کا راستہ نہ ہو تو کیا ہوگا ...؟ خلیے کس راستے سے دل کی طرف لوٹ جاتے ہیں؟

۱۰)___ آکسیجن کس طرح پھیھپڑوں میں داخل ہوتی ہے؟

۱۱)___ اگر پھیھپڑے اور سانس لینے کا نظام نہ ہوتا تو کیسے صاف ہوا کرتا؟

۱۲)___ اگر ہوا میں آکسیجن نہ ہوتی تو کیا ہوتا خلیے کہاں سے آکسیجن لیتے اور کس طرح زندہ رہتے_

۱۳)___ کیا خون کی گردش اور نظام تنفس اس ارتباط اور نظم کے ساتھ خودبخود وجود میں آیا ہے؟

۱۴)___ یہ ہم آہنگی اور دقیق ربط جو بدن کے کارخانہ میں وجود ہے

۳۳

اس سے کیا سمجھتے ہیں؟

۱۵)___ اللہ تعالی کی ان تمام نعمتوں کے مقابل جو اس نے ہمیں عنایت کی ہیں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟

۳۴

ساتواں سبق

عالم و قادر خدا

سبزیاں اور نباتات ہمارے لے بہت مفید اور کارآمد ہیں اپنی ضرورت سے زائد غذا بناتی ہیں اور ہمارے لئے ذخیرہ کرلیتی ہیں_ درختوں میں سے سب آم گلاب، مالٹے ضرورت سے زائد ہمارے لئے میوہ بناتے ہیں گاجر آلو اور پیاز کے پودے اضافی غذا کو اپنی جڑوں میں ذخیرہ کرتے ہیں_

جی ہاں اگر نباتات کے سبز پتے نہ ہوتے تو کس طرح غذا بناتے اور اگر سبز پتوں میں باریک سوراخ نہ ہوتے تو ہوا کہاں سے داخل ہوتی لیکن مہربان خدا نے نباتات میں سبز پتے خلق کئے اور پتوں میں چھوٹے چھوٹے خانے اور سوراخ بنائے_ تا کہ سبز پتّے غذا بناسکیں اور اگر نباتات اپنی ضرورت کے لئے غذا بناتے تو ہم کیا کھاتے؟ حیوانات کیا کھاتے

۳۵

لیکن احسان کرنے والے خدا ے نباتات کو اس طرح خلق کیا ہے کہ وہ اپنے مصرف سے زیادہ غذا بناسکیں اور اگر سوراخ کی روشنی نباتات تک نہ پہنچی تو پودے کس طاقت سے غذا درست کرسکتے تھے؟ لیکن خدائے علیم اور قدیر نے سوراخ کو ایسا پیدا کیا ہے کہ اس کی روشنی ضرورت کے مطابق نباتات تک پہنچ سکے تا کہ پتے سورج کی روشنی اور توانائی کی مدد سے غذا حاصل کرسکیں پس خدا تمام چیزوں کو جانتا ہے اور اس پر قادر ہے اسے علم تھا کہ ہمیں غذا کی ضرورت ہے اورہم خود نہیں بناسکتے اسی لئے نباتات کے سبز پتّے خلق کئے اور ان میں سوراخ رکھے تا کہ ہمارے لئے غذاسازی کا کارخانہ بن سکے_

اسے علم تھا کہ ہی چھوٹا کارخانہ سورج کی روشنی اور توانائی کا محتاج ہے لہذا سورج کو اس طرح خلق کیا کہ سورج کی توانائی اور روشنی جس قدر پتّوں کے لئے ضروری ہے اس چھوٹے کارخانے تک پہنچ سکے اگر خدا قادر نہ ہوتا تو ان کو نہ بناپاتا جو ہمارے لئے ضروری تھیں_

اگر خدا بخشش کرنے والا اور مہربان نہ ہوتا تو یہ تمام نعمتیں ہمیں عطا نہ کرتا پس معلوم ہوا کہ خدا عالم ہے، خدا قادر ہے، خدا رحمان یعنی بخشنے والا ہے''

خدا رحیم یعنی مہربان ہے:

اس سبق کے متعلق آپ خود سوال بنائیں

۱)

۳۶

۳)

اور مشقیں بھی آپ خود بتلائیں

۱)

۲)

۳)

۳۷

آٹھواں سبق

خدا جسم نہیں رکھتا

کیا آپ جانتے ہیں جسم کیا ہے؟

کتاب، قلم، میز، پتھر، درخت، زمین، سورج، اور وہ چیزیں جو ان کی طرح ہوں اور جگہ گھیرتی ہوں انہیں جسم کہا جاتا ہے یہاں تک کہ ہوا بھی جسم ہے اور جسم کو مادہ بھی کہاجاتا ہے ہر جسم مکان کا محتاج یعنی ایک جگہ چاہتا ہے کہ جس میں مستقر ہو کیونکہ بغیر مکان کے جسم وجود میں نہیں آسکتا_ ہر جسم ایک وقت میں ایک مکان سے زیادہ میں نہیں ہوتا جب وہ ایک مکان میں ہو گا تو اسی وقت دوسرے مکان میں نہیں ہوگا ہم جب مدرسہ میں ہوتے ہیں توگھر میں نہیں ہوتے اور جب گھر میں ہوتے ہیں تو مدرسہ میں نہیں ہوتے اور جب مدرسہ میں ہوتے ہیں تو وہ کام جو گھر میں ہو رہے ہوتے ہیں

۳۸

انہیں نہیں دیکھ سکتے اور جب گھر میں ہوتے ہیں تو وہ کام جو مدرسہ میں ہو رہے ہوتے ہیں انہیں نہیں دیکھ سکتے جسم کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے اور ہاتھ سے چھواجا سکتا ہے وہ چیزیں جو آنکھ سے دیکھتے ہیں یا دوسرے کسی عضو سے مس کرتے ہیں تمام کے تمام جسم اور جسمانی ہیں یہاں تک ہوا اور روشنی بھی؟

اب ان دو سوالوں کے متعلق فکر کریں_

کیا خدا جسم رکھتا ہے؟

کیا خدا کو آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں؟

چونکہ خدا ہر چیز سے بے نیاز ہے اور اس کی قدرت او ردانائی کی کوئی انتہا نہیں اور کسی چیز اور کسی شخص کا محتاج نہیں _ پس خدا کا جسم نہیں ہے کیونکہ اگر جسم ہوتا تو مکان کا محتاج ہوتا اور چونکہ خدا کسی کا محتاج نہیں ہے کیونکہ اس نے خود مکان خلق کیا ہے لہذا جسم نہیں رکھتا کیونکہ خدا اگر جسم رکھتا ہوتا تو یہاں ہوتا اور وہاں نہ ہوتا اور پھر جو چیزیں وہاں ہوتیں انہیں خلق نہ کرسکتا اور نہ دیکھتا_ خدا جسم نہیں رکھتا اور نہ ہی ایک مخصوص جگہ پر مستقر ہے تا کہ دوسری جگہیں اس سے خالی ہوں ہر ایک شخص اور ہر ایک چیز کو اس نے پیدا کیا ہے خدا یہاں وہاں یہ مکان وہ مکان نہیں رکھتا اس کے سامنے تمام مکان برابر ہیں تمام کے ساتھ ہے او رتمام جگہوں سے مطلع ہے خدا چونکہ جسم نہیں رکھتا لہذا مکان نہیں رکھتا نہ زمین میں نہ آسمان میں خدا چونکہ جسم نہیں ہے آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا اور ہاتھوں سے نہیں چھواجا سکتا خدا یہاں کے نور سے بھی نہیں چوں کہ یہ نور جسمانی ہیں اور مکان کے محتاج ہیں لیکن خدا محتاج نہیں اس نے مکان کو پیدا کیا ہے اس نے آنکھ اور ہاتھ کو خلق کیا ہے اس نے نور کو پیدا کیا ہے

۳۹

اللہ کی بے پایاں قدرت ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے وہ تمام چیزوں اور تمام لوگوں سے باخبر ہے _

''فکر کیجئے اور جواب دیجئے''

۱)___ جو تمہارے اطراف میں اجسام ہیں انہیں شمار کرو؟

۲)___ میز جسم ہے یہ کس چیز کی محتاج ہے کیا یہ ممکن ہے کہ یہ کسی مکان میں نہ ہو؟

۳)___ کرسی جسم ہے کیا ہوسکتا ہے کہ ایک وقت میں دو مکان میں ہو؟

۴)__ _ کوئی ایسا جسم جانتے ہو کہ مکان کا محتاج نہ ہو؟ اور کیوں؟

۵)___ کیا خدا جسم رکھتا ہے؟ کیا خدا مکان کا محتاج ہے؟

۶)___ کیا خدا کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے؟

یہ سوال اور ان کے جواب خوبصورت خط سے اپنی کاپی میں لکھیں

مشقیں

۱)___ اس سبق کو ایک دفعہ بلند آواز سے پڑھیں

۲)___ سبق کو اپنے دوستوں سے بیان کریں

۳)___ اس درس کا خلاصہ لکھیں اور دوستوں کو پڑھ کر سنائیں

۴)___ کئی اور سوال بھی بنائیں اور ان کے جواب دوستوں سے پوچھیں

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217