تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت27%

تفسیر انوار الحجّت مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 217

تفسیر انوار الحجّت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157944 / ڈاؤنلوڈ: 5877
سائز سائز سائز
تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

( ۱) ھدایت تکوینی

خالق کائنات نے اس ہدایت کے ذریعے تمام حیوانات، جمادات،نباتات کو رشد،نمو اور ترقی فرماتی ہے جس طرح پرندوں،چرندوں کا گرمی اور سردی کے مطابق انتظام کرنا، شھد کی مکھیوں کا پھولوں سے رس نکال کر شھد فراہم کرناہدایت تکوینی ہے جیسا کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا۔

( رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَه ثُمَّ هََدٰی )

(حضرت موسی نے فرمایا )ہمارا پروردگاروہ ہے جس نے ہر موجود کو لباس ہستی بخشا ہے اور پھر اس کی ھدایت اور رہبری کی ہے۔

( ۲) ہدایت تشریعی

اس کے ذریعہ سے خداوندعالم نے تمام افراد بشر کی ہدایت کی ہے انبیاء اور آسمانی کتب

کے بھیجنے کیساتھ خدا نے تمام انسانوں پر اتمام حجت کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انسان کو حق و باطل کی پہچان کے لیئے عقل جیسی قوت عطا فرمائی ہے اور انبیاء علیہم السلام نے احکام اور قوانین الہی کو ان کے سامنے بیان کیا ہے۔ اس ہدایت تشریعی کی وجہ سے بعض لوگوں نے ہدایت حاصل کی ہے اور بعض لوگوں نے ضلالت وگمراہی کاراستہ اختیار کیا جیسا خداوندعالم نے فرمایا

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا )

یقینا ہم نے انسان کو راہ(سعادت)کی ہدایت کی خواہ وہ شکر گزار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا ہو۔

ہدایت سے کیا مرادہے؟جن لوگوں نے اس وجہ سے ہدایت حاصل کی ہے اب وہ بارگاہ خداوندی میں خصوصی ہدایت کی درخوا ست کر رہے ہیں کہ ہمیں سیدہی راہ کی ہدایت فرما اور یہی اھدناالصراط المستقیم میں بھی مراد ہے۔ یہ عنایت ربانی ہے خداوندعالم اپنی حکمت کے تقاضوں کے ساتھ اپنے خاص بندوں کے لیئے یہ ہدایت فرما رہا ہے۔بہرحال یہاں عمومی ہدایت مراد نہیں ہے یعنی جو خداوندعالمنے پوری کائنات کو عطا کی ہے۔ لہذا یہاں ہدایت سے مراد وہی اعانت ہے جس کی خواہش کا اظہار ایک نستعین میں کیا تھا یہ وہ توفیق خداوندی جو بندہ کے شامل حال ہوتی ہے اور وہ اسی کی بدولت وہ خیر و فلاح کے قریب آجاتا ہے۔

۴۱

دعا

مقام الہی کی معرفت رکھنے والے انسان کے لئے اہم ترین دعا ہے،صراط مستقیم کی طرف ہدایت کی دعا ہے یعنی ہمیں دنیاوی امور جیسے عبادت،عتقاد، اخلاق، سیاست،معا ملات،لین دین اور دوسرے تمام امور جیسے قبر و برزخ،میدان حشر، پل صراط اور صر اط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کے دعا حساب کتاب کے مشکل حالات سے نجات عطا فرمائے۔

یعنی انسان کی تمام دنیاوی اور اخروی میدانوں میں کامیابی اور سعادت کا ذریعہ ہے البتہ صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے میں ہم ہر آن اور لحظہ،خدا کے فضل و کرم اور توفیق کے محتاج ہیں جیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے۔

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ )

اے لوگو تم سب خدا کے محتاج ہو

( ۳) صراط مستقیم

صراط مستقیم کی وضاحت قرآن مجید نے مختلف مقامات پر بیان فرمائی ہے بعض مقامات پر راہ اعتدال،اتحاد اور استقامت مراد ہے کیونکہ انسان کو ہر لمحہ لغزش اور کجروی کا خوف رہتا ہے۔اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے۔

( وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ )

یہ ہمارا سیدھا راستہ ہے اس کی اتباع کرو اور دوسرے راستوں کی طرف نہ جاؤ کہ راہ خدا سے الگ ہو جاؤ گے۔

اسلام کا تربیتی راستہ معتدل اور درمیانی راہ ہے اس میں کوئی افراط وتفریط نہیں پائی جاتی ہے۔قرآن مجید نے صراط مستقیم سے آئندہ کا آئین،دین حق اور احکام خدا وندی کی پا بندی بھی مراد لی ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے۔

( قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )

کہہ دیجیے کہ میرے پروردگار نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت کی ہے جو کہ سیدھا دین ہے اور اس ابراہیم کا آئین ہے جس نے کبھی خدا نے شرک نہیں کیا۔

۴۲

اسی طرح اللہ تبارک و تعالی نے اپنی عبادت کا نام بھی صراط مستقیم رکھا ہے جیسا کہ فرمان خدا وندی ہے۔

( وَأَنِ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ )

اور میری ہی عبادت کرو کیونکہ یہی صراط مستقیم ہے۔

صراط مستقیم تک پہنچنے کا راستہ اللہ سے تعلق و ربط کے ساتھ ممکن ہے اس سلسلے میں خدا وند والم رشاد فرماتا ہے۔

( وَمَن يَعْتَصِم بِاللَّـهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )

جنہوں نے اللہ تعالی کے دامن کو تھامے ر کھا انہو ں نے ہی صراط مستقیم کی ھدایت پائی۔

خدا پر اعتقاد رکھنے والے انسانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا ور اؤ لیا ء خدا کی راہ کا انتخاب کرے کیونکہ فقط یہی راہ ثابت ہے اور دوسری تمام راہیں تغیر وتبدل کا شکار رہنے کے ساتھ متعدد بھی ہیں لہذا انسان فقط خدا سے ہی سیدھی راہ ثابت قدم رہنے کا تقاضا کرے۔

اگر ہم ظلم اور راہ روی جیسے گناہوں ار تکاب کریں تو منبع ہدایت سے ہمارا رابطہ منقطع ہو جا ئے گا لہذا ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اسے موانع پیش نہ آئیں تا کہ ہم انحراف اور تباہی سے بچے رہیں جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

یعنی ارشد نا للزوم الطریق المئودی الی محبتک والمبلغ الی جنتک والما نع من ان یتبع اهئوا نا فنعطب اوان نا خذبا را ئینا فنهلک

خدایا ہمیں ایسے راستے کی ہدایت فرما جو تیری محبت اور جنت تک لے جاتا ہے اور جو راستہ خواہشات کی اتباع اور اپنی آرا ئپر عمل کرنے سے ہلاکت میں پڑنے سے روکتا ہے اس آیت سے واضح طور ہر معلوم ہوتا ہے دین حق کی حقیقی معرفت ان اشخاص کے ذریعہ ہو سکتی ہے۔

۴۳

جنہوں نے اس دین کے اصولوں پر صحیح معنی میں عمل کیا ہے اور اس دنے کے لئے ایک بہترین نمونہ ہیں۔

لہذا صراط مستقیم پر پہنچنے کیلئے ان ہستیوں کی شناخت کے ساتھ ساتھ ان کی پیروی انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کا اتم اور اکمل نمونہ صرف اورصرف اہلیبیت و طہارت وعصمت علیہم السلام ہی ہیں۔

جیسا کہ روایت میں بھی موجود ہے حضرت امام سجاد علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

لیس بین الله و بین حجته حجاب ولا لله دون حجته ستر: نحن ابواب الله و نحن صراط المستقیم و نحن ملبسته علمه و نحن تراجمة وحیه و نحن ارکان توحیده و نحن مو صع سره

خدا اور اس کی حجت کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے خدا کی شناخت کے لئے حجت کی شناخت ضروری ہے ہم ہی باب اللہ ہیں،ہم ہی صراط مستقیم ہیں،اور خدا کے علم کا خزانہ بھی ہیں ہم ہی خدا کی وحی کے ترجمان ہیں اس کی تو حید کے ستون ہم ہیں،اور اس کے اسرار کا خزانہ بھی ہم ہیں۔

اسی مطلب پر اور بھی بہت سی روایا ت ہیں جو بتاتی ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد محبت اہلبیت ہے اس مطلب پر ابن شھر آشوب نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ اھد نا الصراط المستقیم سے مراد اہلبیت اور محبت اہلبیت علیہم السلام ہے۔

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

هی الطریق الی معر فته و هما صراطان صراط الدنیا، صراط الاخرة،فا ما الصراط فی الدنیا دهو الامام المعتر ض الطا عة من عرفه فی الدنیا واقتدی بهداه مر علی الصراط الذین هو حسر جهنم فی الا خراة ومن لم یعرفه فی الدنیا زلت قدمه فیالاخراة فتردی فی نار جهنم

صراط مستقیم خدا کی معرفت کا راستہ ہے اس مراد دو راستے ہیں صراط دنیا صراط آخرت، صراط دنیا سے مراد وہ امام ہیں جن کی اطاعت مخلوق پر واجب ہے۔ لہذا جس نے اس دنیا میں اس امام کی معرفت حاصل کی اور اس کی پیروی کی،قیامت والے دن وہ پل صراط کو با آسانی عبور کرے گا اور جس نے اس دنیا میں امام بر حق کی معرفت حاصل نہ کی قیامت والی دن اس کے قدم ڈگمگا جا ئیں گے اور جہنم کی آگ ہی اس کا ٹھکا نا ہو گی۔

۴۴

پل صراط کے بارے میں حضرت ابو بکر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول اعظم( ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔

لا یجوز احد الصراط الا من کتب له علی الجواز

بہر الحال بعض مفسریں نے صراط مستقیم سے اسلام،بعض نے قرآن بعض نے انبیاء بعض نے حضرت رسول اعظم (ص) بعض نے معرفت امام بعض نے حضرت امیر المومنین اور بعض آئمہ بر حق مراد لئے ہیں۔

مرحوم طبرسی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کو عموم پر حمل کرنا بہتر ہے تا کہ تمام موارد کو شامل ہو جائے یعنی صراط مستقیم وہ دین ہے جس کا خدا وند ولم نے ہمیں حکم دیا ہے اور توحید،عدل اور (نبوت امامت) اور ولایت کی اطاعت کو ہم پر واجب اور ضروری قرار دیاہے۔

( صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَلاَالضَّالِّینَ )

جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تم نے نعمتیں نازل کیں ہیں،ان کا راستہ نہیں جن پر تم نے غضب نازل ہوا ہے جو گمراہ ہوئے ہیں۔

الہی نعمتیں

یہ آیت مبارکہ اس راہ حق اور سیدھے راستے کی وضاحت ہے جس کی پہلی آیت میں دعا مانگی گئی تھی بہر حا ل یہاں نعمت سے مرا د مادی اور دنیاوی نعمتیں نہیں ہیں کیو نکہ دنیاوی نعمتیں خدا کا عمومی انعام ہیں ان کے لئے بقاء نہیں ہے لہذا یہاں وہ ابدی اور دائمی نعمت مراد ہے جس کے حصول کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور وہ نعمت ہدایت اور تو فیق ہدایت ہے۔

۴۵

یہی انسان کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھتی ہے اور یہ نعمت صرف اور صرف ایمان،آئمہ اطہار علیہم السلام کی ولایت کا اقرار،اور اطاعت اور پیروی میں مضمر ہے اور آخری دم تک اس ہدایت پر ثابت قدم رہنا ضروری ہے اور جو لوگ نعمتوں کے حصول کے بعد ان پر ثابت قدم نہیں رہے تو ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا جیسا کی اللہ رب العزت کا فرمان ہے

( أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ )

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہں نے اللہ کی نعمت کو کفران نعمت کے ساتھ تبدیل کر دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کی منزل تک پہنچا دیا۔

لہذا جنہں نے جان بوجھ کر حق سے انحراف کیا ہے ان پر تو اللہ کا غذب ہو ہے اور جنہوں نے حق کو طلب کرنے میں کوتا ہی کی ہے وہی بھٹکے ہوئے ہیں اور جو اس ہدایت پر ثابت قدم ہیں وہ انعام یافتگان الہی ہیں اور انہی کے لئے سعادت ہے۔

حضرت فاطمةالزاھرا سلام اللہ علیہا نے بھی فدک کے مسئلہ پر اپنے تاریخی خطبہ مسجد نبوی میں اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی کے اس فرمان کو تلاوت فرمایا۔

( وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ )

مسلمان رہتے ہوئے اس دنیا سے مرنا۔

لہذا اس ہدایت پر ثابت قدم رہنا ضروری ہے فقط اسلام کو قبول کر لینا کافی نہیں ہے بلکہ مرنے تک ثابت قدم رہنے سے ہی سعادت اور خوش بختی نصیب ہو سکتی ہے۔

تر بیت الہی

انسان اپنے آغاز لے کر انجام تک تربیت کا محتاج ہے یہی وجہ ہے کہ خدا وند عالم نے اس کی تربیت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے ہیں۔

۴۶

ان کے بعد ائمہ اطہار علیہم ا لسلام تا قیام قیامت انسانیت کے مربی ہیں اور انسان بھی یہی درخواست پیش کر رہاہے کہ مجھے ان انعام یافتہ لوگوں کی راہ کا مسافر بنا خدا وند عالم نے انعام یافتہ لوگوں کا قرآن مجید میں اس طرح تذکرااہ فرمایا ہے۔

( وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ )

جو لوگ خدا اور رسول کے احکا م کی اطاعت کرتے ہیں خدا نے انہیں ان لوگوں کے ساتھ قرار دے دیا ہے جنہیں نعمات سے نوازا گیا ہے اور وہ انبیاء،صدیقین،شھداء اور صالحین لوگ ہیں۔

اسی طرح معانی اخبار میں حضرت رسول اعظم (ص) سے روایت موجود ہے۔

انعمت علیهم شیعته علی یعنی انعمت علیهم بولایت علی ابن ابی طالب لم تغضب علیهم ولم یضلوا

انعام یافتگان الہی علی کے شیعہ ہیں کیونکہ انہیں علی ابن ابی طالب کی ولایت کا انعام دیاگیا ہے ان پر نہ تو غضب الہی ہو گا اور نہ ہی وہ گمراہ ہیں

مغضوبین کی راہ سے دوری

قرآن مجید میں مغضوبین کے عنوان سے مختلف افراداور امتوں کا تذکرہ موجود ہے جن پر خدا کا غضب ہو اہے ا ور ہم ہر روز نماز میں خدا وندعالم سییہی دعا مانگتے ہیں کہ ہمیں ان مغضوبین کے عقائد،اخلاق اور عمل سے دور رکھ یعنی ان کی راہ سے دوری اور ان سے نفرت کا اظہار ضروری ہے کیونکہ ان پر اللہ کا غضب بھی ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور انہیں جنت کی خوشبو تک نصیب نہ ہو گی اور جہنم کا ٹھکا نا ہو گا جیسا کہ اللہ نے فرمایا۔

( الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ )

منافق اورمشرک مرد اور عورتیں جو خدا کے بارے میں برے خیالات رکھتے ہیں ان سب پر عذاب نازل کرے،ان پر عذاب کی گردش ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے جہنم کو کو مہیا کیا ہے۔

۴۷

بہر حال کفر کی راہ اختیار کرنے والے،حق سے دشمنی والے ہیں انبیاء مرسلین اور آئمہ اطہار کو اذیت دینے والے ہی مغضوبین ہیں جیسا کہ حضرت امام جعفر صاق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

ان المغضوب علیهم الضاب

بیشک مغضوب علیہم سے مراد اہلبیت سے عداوت کا اظہار کرنے والے (ناصبی) ہیں

لہذا مغضوبین کی راہ سے دوری اور ان سے نفرت کرنے والے ہی انعام یافتگان کی اتباع اور پیروی کرنے والے ہیں۔

گمراہوں کی راہ سے دوری

ہمیں گمراہوں کی راہ سے دوری اور نفرت کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ یہ لوگ بھی مغضوبین کی طرح ہی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ خود گمراہ ہیں جبکہ مغضوبین خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ خدا نے پہلے مغضوبین کی راہ سے دوری کا حکم صادر فرمایا ہے اور پھر بلا فاصلہ گمراہوں کی راہ سے اجتناب کا کہا ہے قرآن مجید میں دونوں گروہوں کے متعلق مختلف آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے مغضوبین کا مرحلہ،گمراہوں کی نسبت سخت اور بد تر ہے بعض مفسرین نے ضالین سے منحرف عیسائی مراد لئے ہیں اور مغضوبین سے یہودی مراد لئے ہیں اور بعض مفسرین نے اس کے عکس کو بیان کیا ہے حقیقت یہ ہے مغضوبین اور ضالین دو عنوان ہیں چونکہ یہودی اور عیسائی ہر وقت اسلام سے دشمنی رکھتے تھے

لہذا یہ دونوں گروہ مغضوبین اور ضالین ہیں کیو نکہ یہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسرں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں۔

کل من کفر بالله فهو مغضوب علیه وضال عن سبیل الله

جو بھی حق خدا کو چھپاتا ہے وہ مغضوب علیہ اور سبیل خدا سے گمراہ ہے۔

۴۸

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں

الضالین اهل الشکوک الذین لا یعرفون الامام

ضالین سے مراد وہ اہل شکوک ہیں جو امام کو نہیں پہچانتے۔

لہذا ان دونوں گروہوں سے نفرت ان کی راہ سے دوری اور انعام یافتگان کی راہ پر ثابت قدم رہنا صراط مستقیم ہے۔

سورہ بقرہ

اسماء وجہ تسمیہ

( ۱) بقرہ

، اس سورہ مبارکہ کے چند نام بیان ہوئے ہیں ان میں مشہور ترین نام سورہ بقرہ ہے،بقرہ کا معنی گائے ہے چونکہ اس سورہ میں گائے کو ذبح کرنے کا قصہ بیان ہو اہے۔، یہ قصہ کسی اور سورہ میں بیان نہیں ہوا ہے اس لیئے اس سورہ کو سورہ بقرہ کہا جاتا ہے۔

( ۲) سنام القرآن

اس سورہ کا نام سنام القرآن بھی ہے اور اسے سنام القرآن اس لیئے کہتے ہیں کہ سنام سے مراد بلندی ہے اور یہ سورہ بھی رفیع اور بلند ہے جیسا کہ سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اعظم (ص)نے فرمایا۔

ان لکل شیء سناما،وسنام القرآن البقره

ہر چیز کے لیئے رفعت اور بلندی ہے اور قرآن مجید کی بلندی سورہ بقرہ ہے

( ۳) فسطاط القرآن :

اس سورہ کا ایک نام فسطاط القرآن بھی ہے۔فسطاط کا معنی خیمہ ہے اور خیمہ کسی چیز کا جامع ہوا کرتا ہے اور اسے فسطاط القرآن اس لیئے کہتے ہیں کیونکہ یہ عظیم سورہ ایسے احکام کا جامع ہے جو احکام دوسری سورتوں میں مذکور نہیں ہیں جیسا کہ حضرت رسول اعظم (ص) نے ارشاد فرمایا

السورةاللتی یذکر فیها البقره،فسطاط القرآن

جس سورہ میں گائے کا تذکرہ موجود ہے وہ فسطاط القرآن ہے۔

۴۹

( ۴) سید القرآن

حضرت رسول اعظم (ص) کے فرمان کے مطابق سورہ بقرہ سید القرآن ہے، جیسا کہ آپ کا فرمان ہے۔

قرآن سید الکلام ہے اور سید قران سورہ بقرہ ہے۔

( ۵) سورہ۔ا۔ل۔م:

اس سورہ کا ایک نام سورہ ا۔ل۔ م بھی ہے اور اس نام کی وجہ اس سورہ کے آغاز میں موجود حروف مقطعات ( ا۔ل۔م ) ہیں۔جیسا کہ بعض لوگوں کا نظریہ بھی ہے۔

انها اسماء السوره و مفاتحها

یہ سورتوں کے نام اور آغاز پر دلالت کرتے ہیں۔

مقام نزول وتعداد آیات

اس بات پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ مدنی سورہ ہے البتہ اس سورہ کی ایک آیت حجت الوداع کے موقع پر منی میں نازل ہوئی ہے اور وہ آیت واتقو یو ما تر جعون فیہ الی اللہ ہے۔اس سورہ مبارکہ کی کل ۲۸۶ آیات ہیں،یہی تعداد حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے مروی ہے

شان نزول اس سورہ مبارکہ کا ایک شان نزول نہیں ہے کیونکہ اس سورہ کی مختلف آیات اہم مواقع پر نازل ہوتی رہی ہیں اسی مناسبت سے مختلف آیات کا مختلف شان نزول ہے اس کے متعلق آیات کے ضمن میں ہی تفصیلی بحث کریں گے جب بھی کوئی اہم واقع بیان ہوگا تو اس کے ساتھ ہی اس کا شان نزول بھی بیان کر دیا جائے گا

۵۰

خصوصیات سورہ بقرہ

( ۱) سب سے بڑا سورہ ہے۔

اس سورہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کا سب سے بڑا سورہ ہے جو تقریبا اڑھائی سپاروں پر مشتمل ہے۔

( ۲) مدینہ میں نازل ہونے والی پہلی سورہ۔

یہ مدینہ میں نازل ہونے والا پہلا سورہ ہے جیسا کہ سیوطی عکرمہ سے بیان کرتے ہیں کہ۔

اول سورة نز لت بالمدینه،سورة البقره

مدینہ میں سب سے پہلے نازل ہونے سورہ سورہ بقرہ ہے۔

( ۳) سب سے زیادہ احکام پر مشتمل۔

قرآن مجید کا یہ سورہ جتنے احکام پر مشتمل ہے اتنے احکام کسی اور سورہ میں بیان نہیں ہوئے ہیں جیسا کہ روایت میں موجود ہے کہان فی البقره ضمس مئا ة حکم

سورہ بقرہ پانچ سو احکام پر مشتمل ہے۔

( ۴) سب سے زیادہ آیات

قرآن مجید کا یہ سورہ سب سے زیادہ آیات قرآنی پر مشتمل ہے جیسا کہ حضت امیر المومنین علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ اس سورہ کی ۲۸۶ آیات ہیں۔

۵۱

فضائل سورہ

( ۱) افضل ترین سورہ :

یہ قرآن مجید کی سورتوں میں سب سے افضل سورہ ہے جیسا کہ حضرت رسول اعظم (ص)نے اپنے اصحاب سے پوچھا ای القرآن افضل :قرآن مجید کی کونسی سورہ افضل ہے۔

انہوں نے کہا

اللہ و رسولہ اعلم۔ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں

حضرت نے فرمایا سورةالبقرة

افضل ترین سورہ،بقرہ ہے۔

( ۲) استحقاق رحمت :

اس سورہ مبارکہ کی تلاوت رحمت خدا وندی کی موجب ہے جیسا کہ ابی بن کعب کہتے ہیں حضرت

رسول اعظم (ص) نے ارشاد فرمایا۔

من قراء سورةالبقره فصلوات الله علیه و رحمته و اعطی من الاجر کا عرابط فی سبیل الله سنته لا تسکن روعته

جو بھی اس سورہ کی تلاوت کرے گا وہ اللہ کے درود و سلام اور لامتناہی رحمتوں کا مستحق ہو گا اور اسے ایک سال تک اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کاثواب عطا ہوگا اور کفار کا اس پر کوئی خوف و دبدبہ نہ ہو گا۔

اس کے بعد حضرت نے ارشاد فرمایا اے ابی مسلمانوں سے کہو کہ۔

ان یتعلموا سوره البقره فان تعلمها برکته و ترکها حسرةولا یستطیعها البطلة،قلت یا رسول الله ما البطلةقال السحره

سورہ بقرہ کو یاد کریں کیونکہ اسے سیکھنا برکت ہے اور اسے ترک کرنا ندامت ہے،جادو گر اس سورہ کو پڑھنے اور سننے کی طاقت نہیں رکھتے۔

۵۲

( ۳) یاد کرنے کا انعام :

اس سورہ مبارکہ کو سیکھنے کی بہت بڑی فضیلت ہے جیسا کہ روایت میں موجود ہے کہ حضرت رسول اعظم (ص)نے اپنے اصحاب کو کسی مقام پر بھیجنے کا ارادہ فرمایا اور ان کے امیر کے انتخاب کے لئے ایک ایک صحابی کو بلا کر پوچھتے کہ قرآن کا کونسا سورہ یاد ہے یہ مختلف سورتوں کے نام بتاتے بالا خر ایک نو جوان آیا اور اس نے کہا مجھے سورہ بقرہ یاد ہے تو حضرت نے فرمایا :

اخبر حوا و هذا علیکم امیرا ۔

یہی آپ کا امیر ہے اس کی سربراہی میں جاؤ ان لوگوں نے اعتراض کیا

يارسول الله هو احدثنا سنا قال معه سورة البقره

یا رسول اللہ یہ تو ہم سے کم سن ہے حضرت نے فرمایا لیکن اسے سورہ بقرہ یاد ہے۔

اس مبارک حدتث سے واضح ہو گیا کہ منصب امارت علم و حکمت کے ساتھ ہے زیادہ سن رسیدہ ہونے کے ساتھ نہیں ہے۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام شریعت نبوی حکم متشابہ ناسخ منسوخ مجمل مبین اور پورے قرآن کے علوم پر حاوی مشکل کشاء اور غیب کے متعلق قرآنی آیات سے آگاہ کرنے والے اور پوری کائنات سے افضل تھے یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص)کے بعد آپ کی ہستی خلیفہ بلا فصل ہے۔

۵۳

موضوعات

اس سورہ مبارکہ کا بنیادی موضوع تقوی ہے اور اس کے موضوعات کو مندجہ ذیل چھ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

( ۱) تقوی چاہنے والوں کی خلافت اور جنت کی طرف ہدایت :آیت ۱ ۔ ۲

( ۲) ہدایت قران کے مطابق مختلف گروہ،متقی،کافر،منافق،: آیت ۳ ۔ ۲۹

( ۳) خلافت آدم۔تقوی اور غیر تقوی کی نشانیاں۔آیت ۳۰ ۔ ۳۹

( ۴) بنو اسرائیل کی خلافت۔غیر تقوی کا نمونہ ظلم،فساد، ظلم،خون ریزی وکفر نفاق، ۴۰ ۔ ۱۲۳

( ۵) خاندان ابراھیم کی امامت،تقوی کا نمونہ،خلافت، امامت کی لیاقت،ظالموں سے عادلوں کی طرف خلافت و امامت کا انتقال،آیت ۱۲۴ ۔ ۱۵۷

( ۶) حدود تقوی الہی،احکام شرعیہ،مسائل فقہیہ آیت ۱۵۷ ۔

محور بحث،تقوی

کلمہ تقوی اس سورہ میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور تقوی ہی تمام آسمانی کتب کا محور ہے جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔

( وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ ) (۱)

ہم نے تم سے پہلے اھل کتاب کو اور اب تمہیں یہ وصیت کی ہے کہ تقوی اختیار کرو۔

لہذا اگر تقوی کی نسبت کوئی اور جامع وصیت ہوتی تو یقینا خدا وند عالم اس کا ذکر کرتا دنیا وآخرت کی تمام اچھائیاں اسی لفظ تقوی میں مضمر ہیں انبیاء علیہ السلام بھی توحید کے بعد یہی وصیت کرتے ہیں۔

( أَلَا تَتَّقُونَ ) (۲)

____________________

۰۰۰ سورہ نساء آیت ۱۳۱ ۰۰۰ ۰۰۰ سورہ شعراء ۱۰۶،۱۲۴،۱۶۱، ۰۰۰۱۷۷

۵۴

کیوں تقوی اختیار نہیں کرتے؟

تقوی ہی قران مجید کا محور بھی ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( الم ﴿﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ )

یہ وہ کتاب ہے جس میں متقیوں کے کلئے ہدایت ہے

ھدی اللمتقین ہی سورہ بقرہ کا محور ہے تام موضوعات تقوی کے ساتھ ہی مربوط ہیں،جیسا کہ آپ تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں گے۔

متقین کی راھنمائی۔

یہ کتاب ( قران مجید)متقی لوگوں کی حقیقی راہنما ہے اس سورہ کا محور تقوی ہے اور تقوی کا لغوی معنی اپنی حفاظت کرنا ہے یعنی مضر چیزوں سے نفس کو بچانا اور مفید چیزوں کی طرف رغبت کرنا ہی تقوی کہلاتا ہے بالفاظ دیگر واجبات کا بجا لانا اور محرمات سے بچنا تقوی کہلاتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی نظر میں تقوی

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تقوی کی تعریف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

ان لا یفقدک الله حیث امرک ولا یراک حیث نهاک

جہاں اللہ نے ھکم دیا ہے اسے بجا لانے کی کوشش کرواور جس چیز سے نہی فرمائی ہے وہاں نہ دیکھو۔

___________________

۰۰۰ سورہ بقرہ آیت ۲۰۰۰ سفینتہ البحار ج ۲ ص ۲۲۹ ومجمع البیان ج ۱ ص ۳۷ بحوالہ کاشف

۵۵

مراتب تقوی

تقوی کے تین مراتب ہیں

( ۱) تقوی بدن،جسم کو نجاسات سے دور رکھنا تقوی بدنی ہے۔

( ۲) تقوی نفس،نفس کو شیطانی وسوسوں اور صفات رذیلہ و خبیثہ سے دور رکھنا تقوی نفس ہے۔

( ۳) تقوی قلب،دل کو حضرت حق تعالی کے لیئے علاوہ ہر چیز سے پاک و صاف کرنا تقوی قلب ہے جس جگہ یہ تینوں اقسام موجود ہوں وہ اللہ تعالی کی خاص عنائیت اورلطف کا مستحق ہے۔( عنوان الکلام ص ۱۲۵)

قران میں تقوی کی اہمیت۔

الف،قرآن مجید میں تقوی کو بہت اہمیت دی گئی ہے ایمان کا مرحلہ اسلام سے بلند ہے اور تقوی کا مرحلہ ایمان سے بھی بلند تر ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ )

اگر تم مومن ہو تو تقوی اختیار کرو۔

اسی طرح ارشاد رب العزت ہے۔

( یَا أیُّهَا الّذِیْنَ آمَنُو اتَّقُوا اللّهَ )

صاحبان ایمان اللہ کے لیئے تقوی اختیار کریں۔

__________________

۰۰۰مائدہ ۵۔ ۵۷، ۰۰۰ ۰۰ال عمران ۳۔۱۰۲

۵۶

ب، انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا اساس

تقوی انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں بنیادی مقام رکھتا ہے انبیا علیہم السلام خدا اور اس کی وحدانیت کی دعوت دینے کے بعد سب سے پہلے تقوی کا فرماتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں حضرت محمد مصطفی (ص) کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔

( قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ )

(اے محمد ) ان سے کہ دیجئے کہ آپ تقوی کیوں نہیں اختیار کرتے۔

اسی طرح باقی انبیاء نے اپنی تبلیغ میں توحید کے بعد تقوی کو بہت اہمیت دی ہے۔

تقوی و آئمہ علیہ السلام

آئمہ علیہم السلام کا کردار وہ گفتار، تقوی پر مشتمل تھا یہی وجہ ہے کہ جب ہماری نگاہ نہج البلاغہ پر پڑتی ہے تو اس کتاب مین تقوی ہی محور کلام ہے حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام تقوی کو تمام اخلاقی مسائل کا سردار سمجھتے ہیں جیسا کہ ارشاد فرماتے ہیں۔

التقی رئیس الاخلاق۔

____________________

۰۰۰ مومنون ۲۳ ۸۷

ملاحظہ فرمائیں (۱)حضرت نوح،شعراء ۱۰۶،(۲) حضرت ھود،شعراء،۱۲۴(۳) حضرت صالح شعراء ۱۴۲(۴) حضرت لوط،(۵) حضرت شعیب، ۱۷۷ (۶)حضرت الیاس،صافات ۱۲۴(۷) حضرت ابراہیم،عنکبوت ۱۶(۸) حضرت موسی،اعراف ۱۲۸(۹) حضرت عیسی،ال عمران ۵ وغیرہ۔۰۰۰

۵۷

تقوی اخلاق کا سردار ہے۔( ۱)

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی نظر میں وہی شخص حقیقی متقی ہے جس کے تمام اعمال ایک طشت میں رکھ کر پوری دنیا کو دکھائے جائیں،اور اس میں ایک عمل بھی ایسا نہ ہو جس کی وجہ سے اسے شرمندگی اٹھانی پڑے۔( ۲)

حضرت امام باقر علیہ السلام اپنے سچے شیعوں کی علامت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

فوالله ما شیعتنا الا من اتقی الله وطاعه ۔( ۳)

خدا کی قسم ہمارا شیعہ وہی ہے جو تقوی اختیار کرے اور اللہ کی اطاعت کرتا ہو۔

تقوی کی علامتیں

قرآن مجید میں تقوی اختیار کرنے والوں کی بہت سی علامتیں بیان ہوئی ہیں ان تمام کا احصی انتہائی مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ اختصار کا منافی ہے ان میں ایک علامت عزت وتکریم ہے جیسا کہ خداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے۔

( إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ) ( ۴)

____________________

،۰۰۰نہج البلاغہ حکمت ۴۰۲۔ ۰۰۰ منہج الصادقین ج ۱ ص ۱۲۳۰۰۰ سفینة البحار،ج ۱،ص۷۳۳۔

۰۰۰سورہ حجرات آیت ۱۳،

۵۸

بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔ اس کے علاوہ بھی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں تقوی کی علامتیں ذکر فرمائیں ہیں۔

متقین کی صفات

قرآن مجید نے متقین کی بہت سی صفات بیان کی ہیں ہم انشاء اللہ تفسیر کے ضمن میں ان پر اچھی طرح روشنی ڈالیں گے۔

_____________________

۰۰۰۰ملاحظہ فرمائیں

(۱)تائید و نصرت الہی،بقرہ ۱۹۴،(۲) سختیوں سے نجات (۳)۲،رزق حلال میں اضافہ طلاق ۳،(۴)اصلاح عمل،احزاب ۷۰،(۵)گناہوں سے معافی،احزاب ۷۱،(۶)محبت الہی توبہ ۷،(۷)کاموں میں آسانی،لیل ۵،۷، (۸)حفاظت ال عمران ۱۲۰،(۹)قبولی اعمال مائدہ ۲۸،(۱۰)دینوی و اخروی بشارت یونس۶۴،(۱۱)جہنم سے نجات مریم ۷۲،(۱۲)اخروی بہشت ال عمران ۱۹۸،(۱۳)زمین وآسمان کی برکت اعراف ۹۶،(۱۴)فلاح ال عمران ۲۰۰، (۱۵)خدا سے ملاقات بقرہ ۲۲۳،(۱۶)اقتدار عدن اعراف ۱۲۸،(۱۷)علم و دانش بقرہ ۲۸۲،(۱۸) خدا سے دوستی جاثیہ ۱۹،

(۱)ملاحظہ فرمائیں

(۱)غیب پر ایمان بقرہ ۲،۳ (۲) ادائیگی نماز بقرہ ۳(۳) اتفاق بقرہ ۳(۴) حضرت کی نبوت پر ایمان بقرہ۴(۵)سابقہ انبیاء پر ایمان بقرہ ۴(۶) آخرت پر ایمان بقرہ ۴(۷) خط ہدایت بقرہ ۵(۸) فلاح بقرہ ۵(۹) عہد کی وفا بقرہ ۱۷۷(۱۰) مصائب میں صبر بقرہ ۱۷۷(۱۱) راست گوئی بقرہ ۱۷۷(۱۲) وقار وبرد باری فتح ۲۶(۱۳) تعلیم دعا ال عمران ۱۶(۱۴) عبادت وقنوت ال عمران ۱۷(۱۵) سہر خیزی اور گناہوں سے معافی ال عمران ۱۷(۱۶) غصہ پینے والے ال عمران ۱۳۴(۱۷) درگزر ال عمران ۱۳۴( ۱۸) جب گناہ کر بیٹھیں تو استغفار کرتے ہیں ال عمران ۱۳۵(۱۹) گناہوں پر اصرار نہیں کرتے ال عمران ۱۳۵۔۰۰۰

۵۹

تفسیر آیات

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الم ) ( ۱)

سہارا اللہ کے نام کا جو سب کو فیض پہنچانے والا بڑا مہربان ہے ا۔ل۔م

۔ ا۔ ل۔م کے متعلق مفسر ین نے تقریبا ۳۵ معانی بیان کیے ہیں ان میں چند ایک درج ذیل ہیں۔

( ۱) حروف قرآن

( ۲) معجزہ خداوندی

( ۳) قسم

( ۴) خدا اور اس کے رسول کے درمیان اسرار ورموز

( ۵) سورہ کا خلاصہ

( ۶) اسم اعظم

( ۷) ہر سورہ کا نام

( ۸) مخالفین کی خاموشی۔

قرآن مجید کی ۲۹ سورتوں کے آغاز میں یہ حروف مقطعات موجود ہیں جب کہ ۲۴ مقامات پر ان کے بعد قرآن اور معجزہ کے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات میں ہے

( الم ﴿﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ )

( الم ﴿﴾ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ )

( الر ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ )

( المص ﴿﴾ كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ )

( طس ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ )

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

اولین انسان کی خلقت

ان آیات کی تحلیل جو انسان کی خلقت کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں ان نتائج کو ہمارے اختیار میں قرار دیتی ہیں کہ موجودہ انسانوں کی نسل، حضرت آدم نامی ذات سے شروع ہوئی ہے ۔ حضرت آدم کی خلقت خصوصاً خاک سے ہوئی ہے۔ اور روئے زمین پر انسانوں کی خلقت کو بیان کرنے والی آیات کے درمیان مندرجہ ذیل آیات بہت ہی واضح اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ موجودہ نسل حضرت آدم اور ان کی زوجہ سے شروع ہوئی ہے ۔

( یَا أیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِن نَفسٍ وَاحِدَةٍ وَ خَلَقَ مِنهَا زَوجَهَا وَ بَثَّ مِنهُمَا رِجَالاً کَثِیراً وَ نِسَائً ) (۱)

اے لوگو! اپنے پالنے والے سے ڈرو (وہ پروردگار)جس نے تم سب کو ایک شخص سے پیدا کیا اور اس سے اس کی ہمسر (بیوی) کو پیدا کیا اور انھیں دو سے بہت سے مرد و عورت (زمین میں )پھیل گئے۔

اس آیت میں ایک ہی انسان سے سبھی لوگوں کی خلقت کو بہت ہی صراحت سے بیان کیاگیا ہے ۔(۲)

( وَ بَدَأَ خَلقَ الِنسَانِ مِن طِینٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلالَةٍ مِن مَّائٍ مَهِینٍ ) اور انسان کی ابتدائی خلقت مٹی سے کی پھر اس کی نسل گندے پانی سے بنائی۔(۳)

اس آیت میں بھی انسان کا نکتہ آغاز مٹی ہے اور اس کی نسل کو مٹی سے خلق ہوئے انسان کے نجس قطرہ سے بتایا ہے یہ آیت ان آیات کے ہمراہ جو حضرت آدم کی خلقت کو (سب سے پہلے انسان کے عنوان سے) خاک و مٹی سے بیان کرتی ہے موجودہ نسل کے ایک فرد ( حضرت آدم ) تک منتہی ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔

( یَا بَنِی آدَمَ لا یَفتِنَنَّکُمُ الشَّیطَانُ کَمَا أَخرَجَ أَبوَیکُم مِنَ الجَنَّةِ ) (۴)

اے اولاد آدم! کہیں تمہیں شیطان بہکا نہ دے جس طرح اس نے تمہارے ماں،

____________________

(۱)سورۂ نساء ۱ (۲)یہی مفاد آیت دوسری آیات میں بھی مذکور ہے جیسے اعراف ۱۸۹۔ انعام ، ۹۸۔زمر،۶

(۳)سورۂ سجدہ ۷ و ۸۔ (۴)سورۂ اعراف ۲۷

۱۰۱

باپ کو بہشت سے نکلوا دیا۔(۱)

یہ آیت بھی صراحت کے ساتھ حضرت آدم و حوا علیھما السلام کو نسل انسانی کا ماں ، باپ بتاتی ہے ۔خاک سے حضرت آدم کی استثنائی خلقت بھی قرآن کی بعض آیات میں ذکر ہے جن میں سے تین موارد کی طرف نمونہ کے طور پر اشارہ کیا جارہاہے ۔

ا۔( إنَّ مَثَلَ عِیسَیٰ عِندَ اللّٰهِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ کُن فَیَکُونُ )

خدا کے نزدیک جیسے حضرت عیسی کاواقعہ ہے(حیرت انگیز خلقت) ویسے ہی آدم کاواقعہ بھی ہے ان کو مٹی سے پیدا کیا پھر کہا ہوجا پس وہ ہوگئے ۔(۲)

حدیث ، تفسیر اور تاریخی منابع میں آیا ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں نصاری نجران نے اپنے نمائندوں کو مدینہ بھیجا تاکہ پیغمبر اسلام سے گفتگو اور مناظرہ کریں ،وہ لوگ مدینہ کی مسجد میں آئے پہلے تو اپنی عبادت بجا لائے اور اس کے بعد پیغمبر سے بحث کرنے لگے :

۔جناب موسی کے والد کون تھے ؟

۔ عمران

آپ کے والد کون ہیں ؟

۔ عبد اللہ

۔ جناب یوسف کے والد کون تھے ؟

۔ یعقوب

۔ جناب عیسی کے والد کون تھے ؟

____________________

(۱)بعض لوگوںنے آیت''ذر''نیز ان تمام آیات سے جس میں انسانوں کو ''یابنی آدم ''کی عبارت سے خطاب کیا گیا ہے اس سے انسانی نسل کا نکتہ آغاز حضرت آدم کا ہونا استفادہ کیا ہے۔

(۲)سورۂ آل عمران ۵۹۔

۱۰۲

پیغمبر تھوڑا ٹھہرے ، اس وقت یہ آیت( إنَّ عِیسَیٰ عِندَ اللّٰهِ کَمَثَلِ آدَمَ ) نازل ہوئی۔(۱)

مسیحی کہتے تھے چونکہ عیسی کا کوئی انسانی باپ نہیں ہے لہٰذا ان کا باپ خدا ہے ،آیت اس شبہ کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ کیا تم معتقد نہیں ہو کہ آدم بغیر باپ کے تھے ؟ عیسی بھی انہیں کی طرح ہیں ،جس طرح آدم کا کوئی باپ نہیں تھا اور تم قبول بھی کرتے ہو کہ وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں اسی طرح عیسی بھی بغیر باپ کے ہیں اور حکم خدا سے پیدا ہوئے ہیں ۔

مذکورہ نکات پر توجہ کرتے ہوئے اگر ہم فرض کریں کہ حضرت آدم ، انسان و خاک کے ما بین ایک درمیانی نسل سے وجود میں آئے مثال کے طور پر ایسے انسانوں سے جو بے عقل تھے تو یہ استدلال تام نہیں ہوسکتا ہے اس لئے کہ نصاری نجران کہہ سکتے تھے کہ حضرت آدم ایک اعتبار سے نطفہ سے وجود میں آئے جب کہ عیسی اس طرح وجود میں نہیں آئے ،اگر اس استدلال کو تام سمجھیں جیسا کہ ہے، تب ہم یہ قبول کرنے کے لئے مجبور ہیں کہ حضرت آدم کسی دوسرے موجود کی نسل سے وجود میں نہیں آئے ہیں ۔

۲۔( وَ بَدَأَ خَلقَ النسَانِ مِن طِینٍ ٭ ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلالَةٍ مِن مَائٍ مَهِینٍ )

ان دو آیتوں میں سے پہلی آیت حضرت آدم کی خاک سے خلقت کو بیان کرتی ہے اور دوسری آیت ان کی نسل کی خلقت کو نجس پانی کے ذریعہ بیان کرتی ہے ،حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی نسل کی خلقت کا جدا ہونا اور ان کی نسل کا آب نجس کے ذریعہ خلق ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جناب آدم کی خلقت استثنائی تھی ورنہ تفکیک و جدائی بے فائدہ ہوگی ۔(۲)

____________________

(۱)مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ، ج۲۱ص ۳۴۴۔ (۲) منطق کی کتابوں میں کہا گیا ہے کہ تقسیم میں ہمیشہ فائدہ کا ہونا ضروری ہے یعنی اقسام کاخصوصیات اور احکام میں ایک دوسرے سے متفاوت ہونا چاہیئے ورنہ تقسیم بے فائدہ ہوگی ، آیہ شریفہ میں بھی تمام انسانوں کوسب سے پہلے انسان اور اس کی نسل میں تقسیم کیا ہے ، لہٰذا اگر ان دو قسموں کا حکم خلقت کے اعتبار سے ایک ہی ہے تو تقسیم بے فائدہ اور غلط ہوگی ۔

۱۰۳

۳۔بہت سی آیات جو خاک سے حضرت آدم کی خلقت کا واقعہ اور ان پر گذشتہ مراحل؛یعنی روح پھونکنا ، خدا کے حکم سے فرشتوں کا سجدہ کرنا اور شیطان کا سجدہ سے انکار کو بیان کرتی ہیں جیسے :

( وَإذ قَالَ رَبُّکَ لِلمَلائِكَةِ إنِّی خَالِق بَشَراً مِن صَلصَالٍ مِن حَمَأٍ مَّسنُونٍ ٭ فَإِذَا سَوَّیتُهُ وَ نَفَختُ فِیهِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ )

اور (یاد کروکہ )جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک آدمی کوخمیر دی ہوئی مٹی سے جو سوکھ کر کھن کھن بولنے لگے پیدا کرنے والا ہوں تو جس وقت میں اس کو ہر طرح سے درست کرچلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو سب کے سب اس کے سامنے سجدہ میں گرپڑنا۔(۱)

یہ بات واضح ہے کہ تمام انسان ان مراحل کو طے کرتے ہوئے جو آیات میں مذکور ہیں (خاک ، بدبودار مٹی ، چپکنے والی مٹی ، ٹھکرے کی طرح خشک مٹی ) صرف خشک مٹی سیخلق نہیں ہوئے ہیں اور فرشتوں نے ان پر سجدہ نہیں کیا ہے بلکہ مذکورہ امور فقط پہلے انسان سے مخصوص ہے یعنی حضرت آدم جو استثنائی طور پر خاک ( مذکورہ مراحل ) سے خلق ہوئے ہیں ۔(۲)

قرآن کے بیانات اور ڈارون کا نظریہ

نظریہ تکامل اور اس کے ترکیبی عناصر کے ضمن میں بہت پہلے یہ نظریہ بعض دوسرے متفکرین کی طرف سے بیان ہوچکا تھا لیکن ۱۸۵۹ میں ڈاروین نے ایک عام نظریہ کے عنوان سے اسے پیش کیا

____________________

(۱)سورۂ حجر، ۲۸و ۲۹ ۔

(۲)اس نکتہ کا ذکر کرنا ضروری ہے اس لئے کہ حضرت آدم کی خلقت کو بیان کرنے والی آیات بہت زیادہ ہیں اور چونکہ ان کی خلقت کے بہت سے مراحل تھے ، لہٰذا بعض آیات میں جیسے آل عمران کی ۵۹ویں آیت اس کی خلقت کے ابتدائی مرحلہ کو خاک ،اور دوسری آیات جیسے سورۂ انعام کی دوسری آیت ؛ ۱۱صافات؛ ۲۶حجراور ۱۴الرحمن کی آیتوں میں ایک ایک یا چند مرحلوں کے نام بتائے گئے ہیں ، جیسے کہ سورۂ سجدہ کی ۷و ۸ ویں آیت کی طرح آیات میں خاک سے حضرت آدم کی خلقت بیان کرتے ہوئے آدم کی نسل اور ذریت کی خلقت کو بھی بیان کیا گیاہے ۔

۱۰۴

چارلزڈارون(۱) نے انسان کی خلقت کے سلسلہ میں اپنے نظریہ کویوں پیش کیاہے کہ انسان اپنے سے پست حیوانوں سے ترقی کرکے موجودہ صورت میں خلق ہوا ہے اور انسان کی خلقت کے سلسلہ میں اس کے نظریہ نے مسیحیت اور جدید علم کے نظریات کے درمیان بہت ہی پیچیدہ مباحث کو جنم دیا اور بعض نے اس غلط نظریہ کی بناپر علم اور دین کے درمیان اختلاف سمجھا ہے۔(۲) ڈارون کا دعویٰ تھا کہ مختلف نباتات و حیوانات کے اقسام اتفاقی اور دھیرے دھیرے تبدیلی کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں جو کہ ایک نوع کے بعض افراد میں فطری عوامل کی بنیاد پرپایاجاتا ہے، جو تبدیلیاں ان افراد میں پیدا ہوئی ہیں وہ وراثت کے ذریعہ بعد والی نسل میں منتقل ہوگئی ہیں اور بہتر وجود ، فطری انتخاب اور بقا کے تنازع میں محیط کے مطابق حالات ایک جدید نوعیت کی خلقت کے اسباب مہیا کرتے ہیں ۔ وہ اسی نظریہ کی بنیاد پر معتقد تھا کہ انسان کی خلقت بھی تمام ا قسام کے حیوانات کی طرح سب سے پست حیوان سے وجود میں آئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسان گذشتہ حیوانوں کے اقسام میں سب سے بہتر ہے ۔

ڈارون کے زمانہ میں اور اس کے بعد بھی یہ نظریہ سخت متنازع اور تنقید کا شکار رہا اور ''اڈوار مک کریڈی ''(۳) اور'' ریون ''(۴) جیسے افراد نے اس نظریہ کو بالکل غلط مانا ہے ۔(۵) اور ''الفریڈ رسل ویلیس ''(۶) جیسے بعض افراد نے اس نظریہ کو خصوصاً انسان کی خلقت میں نا درست سمجھا

____________________

(۱) Charles Robert Darwin

(۳) E.Mc Crady

(۴) Raven

(۶) Alfred Russel Wallace

(۲)ڈارون نے خود صراحتاً اعلان کیاہے کہ ''میں اپنے فکری تحولات میں وجود خدا کاانکار نہ کرسکا''،زندگی و نامہ ای چارلزڈارون؛ ج۱ ص ۳۵۴( پیرس ، ۱۸۸۸) بدوی عبد الرحمن سے نقل کرتے ہوئے ؛ موسوعة الفلسفة. ڈارون نے فطری قوانین کو ایسے اسباب و علل اور ثانوی ضرورت کے عنوان سے گفتگو کی ہے کہ جس کے ذریعہ خداوند عالم تخلیق کرتا ہے ۔گرچہ انسان کے ذہن نے اس باعظمت استنباط کو مشکو ک کردیا ہے ۔( ایان باربور ، علم و دین ؛ ص ۱۱۲)۔

(۵) ایان باربور ، علم و دین ؛ ص۴۱۸ و ۴۲۲۔

۱۰۵

ہے(۱) یہ نظریہ ایک خاص جرح و تعدیل کے باوجود بھی علمی اعتبار سے نیز صفات شناسی اور ژنٹیک کے لحاظ سے ایک ایسے نظریہ میں تبدیل نہیں ہوسکا کہ جس کی بے چوں چرا تثبیت ہو جائے اور متفکرین نے تصریح کی ہے کہ آثار اورموجودات شناسی کے ذریعہ انسان کے حسب و نسب کی دریافت کسی بھی طریقہ سے صحیح وواضح نہیں ہے اور انسانوں جیسے ڈھانچوں کے نمونے اور ایک دوسرے سے ان کی وابستگی، نظریہ تکامل کے طرفداروں کے مورد استناد ہونے کے با وجود ان کے نظریات میں قابل توجہ اختلاف ہے ۔

''ایان باربور'' کی تعبیر یہ ہے کہ ایک نسل پہلے یہ رسم تھی کہ وہ تنہا نکتہ جو جدید انسانوں کے نسب کو گذشتہ بندروں سے ملاتا تھا ،احتمال قوی یہ ہے کہ انسان اور بندر کی شباہت ایک دوسرے سے ان کے اشتقاق پر دلالت کرتی ہو اور ہو سکتا ہے کہ نئا ندرتال انسان سے ایسی نسل کی حکایت ہو جو اپنے ابتدائی دور میں بغیر نسل کے رہ گئی ہونیزمنقطع ہو گئی ہو ۔(۲) اوصاف شناسی کے اعتبا رسے معمولی تبدیلیوں میں بھی اختلاف نظر موجود ہے بعض دانشمندوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اگرچہ معمولی تحرک قابل تکرارہے لیکن وہ وسیع پیمانہ پر تحرک و فعالیت جو نظریہ تکامل کے لئے ضروری

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ: ص ۱۱۱۔۱۱۴،اگرچہ نظریہ ڈارویس پر وارد تنقیدوں کے مقابلہ میں اس کے مدافعین کی طرف سے متعدد جوابات دیئے گئے ہیں لیکن آج بھی بعض تنقیدیں قانع جوابات کی محتاج ہیں مثال کے طور پر'' والٹر'' جو ''ڈارون'' سے بالکل جدا، فطری طور پر سب سے پہلے انتخاب کو نظام سمجھتا ہے اس کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان اور بندر کی عقل کے درمیان موجودہ فاصلہ کو جیسا کہ ڈارون نے اس سے پہلے ادعا کیا تھا ، بدوی قبائل پر حمل نہیں کرسکتے ہیں اس لئے کہ ان کی دماغی قوت ترقی یافتہ متمدن قوموں کی دماغی قوت کے مطابق تھی لہٰذا فطری انتخاب انسان کی بہترین دماغی توانائی کی توجیہ نہیں کر سکتا ہے ۔ اس کا عقیدہ ہے کہ بدوی قوموں کی عقلی توانائیاں ان کی سادہ زندگی کی ضرورتوں سے زیادہ تھی ، لہٰذا ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اس سے چھوٹا مغز بھی کافی تھا ۔ فطری انتخاب کے اعتبار سے بندر وں سے زیادہ انسان کو دماغ دینا چاہیئے جب کہ ایسے انسانوں کا دماغ ایک فلسفی کے دماغ سے چھوٹا ہے ۔ ( ایان باربور ؛ علم و دین ؛ ص ۱۴۴و ۱۱۵)

(۲)ایان باربور؛ گذشتہ حوالہ : ص ۴۰۲و ۴۰۳۔

۱۰۶

ہیں بہت کم ہے۔ اور مردم شماری کے قوانین کے اعتبار سے قابل پیش بینی نہیں ہے، اس کے علاوہ ہو سکتا ہے کہتجربہ گاہوں کے مطالعات ایک طرح کی اندرونی تبدیلیوں کی تائید کریں، لیکن تدریجی تبدیلیوں کے زیر اثر جدید اقسام کے وسیع حلقوںکی تشکیل کے اثبات سے ناتواں ہیں،اور ایک متحرک فرد کا کسی اجتماعی حلقہ اور بڑے گروہ میں تبدیل ہو جانا، ایک سوالیہ نشان ہے اور اس وسیع افعال پر کسی بھی جہت سے واضح دلائل موجود نہیں ہیں ۔(۱) دوسری مشکل صفات کا میراثی ہونا ہے جب کہ ان کا اثبات معلومات و اطلاعات کے فراہم ہونے سے وابستہ ہے جس کو آئندہ محققین بھی حاصل نہیں کرسکیں گے یا موجودہ معلومات واطلاعات کی وضاحتوں اور تفاسیر سے مربوط ہے جس کو اکثر ماہرین موجودات شناسی نے قبول نہیں کیا ہے ۔(۲) بہر حال ان نظریات کی تفصیلی تحقیق و تنقید اہم نہ ہو نے کی وجہ سے ہم متعرض نہیں ہوںگے، مختصر یہ کہ انسان کے بارے میں ڈارون کا نظریہ تنقیدوں ، مناقشوں اور اس میں تناقض کے علاوہ صرف ایک ظنی اور تھیوری سے زیادہ ،کچھ نہیں ہے(۳) مزید یہ کہ اگر اس نظریہ کو قبول بھی کرلیا جائے تو کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس میں خدا کے ارادہ کے باوجود کسی ایک شی ٔمیں بھی فطری حرکت غیر عادی طریقہ سے نقض نہ ہوئی ہو، اور حضرت آدم فقط خاک سے خلق نہ ہوئے ہوں ،اس کے باوجود یہ نظریہ ڈاروین کی تھیوری کے مطابق فقط انسانوں کی خلقت کے امکان کو ثابت کرتا ہے، اس راہ سے موجودہ نسل کی خلقت کی ضرورت و التزام کو ثابت نہیں کرتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ دوسرے انسان اس راہ سے وجود میں آئے ہوں اور نسل منقطع ہوگئی ہو ، لیکن موجودہ نسل جس طرح قرآن بیان کرتا ہے اسی طرح روئے زمین پر خلق ہوئی ہے ،قابل ذکر ہے کہ قرآن

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ : ص ۴۰۳۔

(۲)گذشتہ حوالہ : ص ۴۰۴۔

(۳)کارل پاپر( Karl Raimond Popper ) '' جستجوی ناتمام '' کتاب میں لکھتا ہے : نئے نظریہ تکامل کے ماننے والوں نے زندگی کے دوام کو انطباق یا ماحول کی سازش کا نتیجہ بتایا ہے ، ایسے ضعیف نظریہ کے تجربہ کا امکان تقریباً صفر ہے ( ص ۲۱۱)

۱۰۷

ایسے انسانوں کے خلق ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں جن کی موجودہ نسل ان تک نہیں پہونچتی ہے نیز ان کی خلقت کی کیفیت کے بارے میں ،خاموش ہے ۔

جو کچھ بیان ہوچکا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اگرچہ سب سے پہلے انسان کی خلقت سے مربوط آیات کے مفاہیم، انسان کے سلسلہ میں ڈاروین کی تھیوری کے مطابق نہیں ہے لہٰذا جن افراد نے قرآن کریم کے بیانات سے دفاع کے لئے مذکورہ آیات کی توجیہ کی ہے انہیں توجہ رکھنا چاہیئے کہ ایسی توجیہیں صحیح نہیں ہیں بلکہ'' تفسیر بالرای''ہے، اس لئے کہ ایسے نظریات جو ضروری اور صحیح دلیلوں نیزتائیدوں سے خالی ہوں وہ مذکورہ آیات کی توجیہ پر دلیل نہیں بن سکتے ہیں ،چہ جائے کہ توجیہ اور ظاہر آیات کے مفہوم سے استفادہ نہ کرنا فقط ایک قطعی اور مذکورہ آیات کے مخالف فلسفی یا غیر قابل تردید علمی نظریہ کی صورت میں ممکن ہے جب کہ ڈاروین کا نظریہ ان امتیازات سے خالی ہے ۔

تمام انسانوں کی تخلیق

نسل انسان کی آفرینش زاد و ولد کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔ اس سلسلہ میں گذشتہ ادوار سے آج تک پانچ نظریات بیان ہوئے ہیں ۔

ارسطونے بچہ کی خلقت کو خون حیض کے ذریعہ تسلیم کیا ہے اور اس سے ماسبق فلاسفہ نے مرد کی منی سے متولد جنین کی رشد کے لئے شکم مادر کوفقط مزرعہ سمجھا ہے ۔

تیسرا نظریہ جو ۱۸ویں صدی عیسوی کے نصف تک رائج تھا ،خود بخود خلقت کا نظریہ تھا(۱) جس کے ویلیم حاروے جیسے ماہرینِ وظائف اعضائ، مدافع تھے ۔(۲) چوتھا نظریہ جو ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی میں بیان ہوا وہ نظریہ تکامل تھا(۳) جس کے لائب نیٹز ، ہالر اور بونہ جیسے افراد سر سخت طرفدار تھے ،یہ لوگ معتقد تھے کہ انسان کی اولاد بہت ہی چھوٹی موجود کی صورت میں انڈے یا

____________________

(۱) Spontaneous Generation. (۲)William Harvey. (۳)Evolution

۱۰۸

نطفہ میں موجود رہتی ہے، ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ان چھوٹے اور متداخل موجودات کی کروروں تعداد اولین مرد یا عورت کے تناسلی اعضاء میں موجود تھی اور جب ان میں سے سب سے باریک اور آخری حصہ خارج ہو جائے گا تب نسل بشر ختم ہوجائے گی، اس نظریہ کے مطابق تناسل و تولد میں نئے اور جدید موجود کی خلقت و پیدائش بیان نہیں ہوئی ہے بلکہ ایسے موجود کے لئے رشد و نمو،آغاز وجود ہی سے موجود ہے ۔

پانچواں نظریہ ۱۷ویں صدی میں ذرہ بین کے اختراع اور انسانی حیات شناسی کی آزمائشوں اور تحقیقوں کے انجام کے بعد خصوصاً ۱۸ ویں صدی میں نطفہ شناسی کے عنوان سے بیان ہوا جس کی وجہ سے مفکرین اس نکتہ پہ پہونچے ہیں کہ نطفہ کی خلقت میں مرد و عورت دونوں کا کردار ہے اور نطفہ کامل طور پر مرد کی منی اور عورت کے مادہ میں نہیں ہوتا ہے، مرد و عورت کے نطفہ کے ملنے کی کیفیت ۱۸۷۵صدی میں مشاہدہ سے واضح ہو چکی ہے کہ بچہ کے ابتدائی نطفہ کی تخلیق میں مرد و عورت دونوں موثرہیں۔ اور ۱۸۸۳ صدی میں نطفہ کی تخلیق میں دونوں کا مساوی کردار ثابت ہوچکا ہے ،مختلف تبدیلیوں کے مراحل سے مرتبط اور مختلف شکلوںمیں رحم کی دیواروں سے نطفہ کا معلق ہونااور اس کا رشد نیز نطفہ کا مخلوط ہونااور دوسری مختلف شکلیںجو نطفہ اختیار کرتاہے یہ وہ چیزیں ہیں جس کی تحقیق ہوچکی ہے ۔(۱)

قرآن مجید نے بہت سی آیات میں تمام انسانوں ( نسل آدم ) کے بارے میں گفتگو کی ہے اور ان کی خلقت کے مختلف مراحل بیان کئے ہیں اس حصہ میں ہم ان مراحل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے ابتدائی دو مراحل کی تحقیق کریں گے ۔

بعض آیات میں خدا فرماتا ہے کہ : خدا وند عالم نے انسان کو خلق کیا جب کہ اس سے پہلے وہ

____________________

(۱)ملاحظہ ہو: شاکرین ، حمید رضا ، قرآن و روان شناسی ؛ ص ۲۲۔ ۲۵۔ طبارہ ، عبد الفتاح ، خلق الانسان دراسة علمیة قرآنیة ؛ ج۲ ، ص ۶۶۔ ۷۴۔

۱۰۹

کچھ نہ تھا( أَوَ لا یَذکُرُ الإنسَانُ أَنَّا خَلَقنَاهُ مِن قَبلُ وَ لَم یَکُ شَیئاً ) (۱) کیا انسان بھولگیا کہ ہم نے اس وقت اسے خلق کیا جب وہ کچھ نہ تھا۔

یہ بات واضح ہے کہ آیت میں قبل سے مراد ابتدائی ( فلسفی اصطلاح میں خلقت جدید) مادہ کے بغیر انسان کی خلقت نہیں ہے اس لئے کہ بہت سی آیات میں ابتدائی مادہ کی بنا پر انسان کی خلقت کی تاکید ہوئی ہے ،اس آیت میں یہ نکتہ مورد توجہ ہے کہ انسان کا مادہ و خاکہ، انسانی وجود میں تبدیل ہونے کے لئے ایک دوسرے ( روح یا انسانی نفس و جان ) کے اضافہ کا محتاج ہے ،اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ابتدائی مادہ انسان کے مقابلہ میں روح کے بغیر قابل ذکر و قابل اہمیت نہیں ہے، اسی بنا پر ہم سورہ'' انسان'' کی پہلی آیت میں پڑھتے ہیں کہ (( هَل أَتَیٰ عَلیٰ النسَانِ حِین مِّنَ الدَّهرِ لَم یَکُن شَیئاً مَذکُوراً ) کیا انسان پر وہ زمانہ نہیں گذرا جس میں وہ قابل ذکر شی بھی نہ تھا ۔ دوسرے گروہ کی آیات میں انسان کی خلقت کے ابتدائی مادہ کو زمین(۲) خاک(۳) مٹی(۴) چپکنے والی مٹی(۵) بدبو دار مٹی ( کیچڑ )خمیر(۶) اور ٹھکرے کی طرح خشک مٹی بتایا گیا ہے ۔(۷)

وہ آیات جو انسان کے جسمانی خلقت کے مختلف مراحل کی طرف اشارہ کرتی ہیں اگرچہ اکثر مقامات پر انسان کو عام ذکر کیا ہے لیکن ان آیتوں کی روشنی میں جو اس کی ابتدائی خلقت میں گذر چکی ہیں اور موجودہ انسانوں کی خلقت کے عینی واقعات جو ان آیات میں بیان کئے گئے مذکورہ مراحل طے نہیں کرتے ہیں، خلاصہ یہ کہ ابتدائی انسان کی جسمانی خلقت کے یہی مراحل اس کی خلقت کے اختتام میں بھیپائے جاتے ہیں ۔

____________________

(۱)سورۂ مریم ۶۷

(۲)(هُو أنشَأَکُم مِنَ الأَرضِ )(ہود ۶۱)

(۳)(فنَّا خَلَقنَاکُم مِّن تُرَابٍ )(حج۵)

(۴)(وَ بَدَأَ خَلقَ النسَانِ مِن طِینٍ )( سجدہ ۷)

(۵)(نَّا خَلَقنَاهُم مِن طِینٍ لازِبٍ )(صافات۱۱)

(۶)(وَ لَقَد خَلَقنَا النسَانَ مِن حَمَأٍ مَسنُونٍ )( حجر ۲۶)

(۷)(خَلَقَ الِنسَانَ مِن صَلصَالٍ کَالفَخَّارِ )( الرحمن ۱۴)

۱۱۰

آیات کا تیسرا گروہ ؛ انسان کے تخلیقی مادہ کو پانی بتاتاہے جیسے( وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ المَائِ بَشَراً فَجَعَلهُ نَسَباً وَ صِهراً ) (۱) وہی تو وہ (خدا)ہے جس نے پانی سے آدمی کو پیدا کیا پھر اس کو خاندان اور سسرال والا بنایا۔

گرچہ ہوسکتا ہے کہ یہ آیت مصداق اور ان آیات کے موارد کو بیان کرنے والی ہو جو ہر متحرک یا ذی حیات کی خلقت کو پانی سے تسلیم کرتی ہیں(۲) اور پانی سے مراد وہی پانی ہے جو عرف عام کی اصطلاح میں ہے لیکن ان آیات کو مد نظر رکھتے ہوئے جو انسان یا نسل آدم کی خلقت کونجس(۳) یاآب جہندہ(۴) سے بیان کرتی ہیں ان سے اس احتمال کو قوت ملتی ہے کہ اس آیت میں پانی سے مراد انسانی نطفہ ہے، اور آیت شریفہ نسل آدم کی ابتدائی خلقت کے نطفہ کو بیان کر رہی ہے ۔ لیکن ہر مقام پر اس کی خصوصیات میں سے ایک ہی خصوصیت کی طرف اشارہ کیاہے منجملہ خصوصیات میں سے جو قرآن میں اس نطفہ کو انسانی نسل کی خلقت کے نقطہ ٔ آغاز کے عنوان سے ذکر کیاہے وہ مخلوط ہونا ہے جسے علم بشر کم از کم ۱۸ ویں صدی سے پہلے نہیں جانتا تھا ۔

سورۂ دہر کی دوسری آیت میں خدا فرماتا ہے :

( إنَّا خَلَقنَاالنسَانَ مِن نُطفَةٍ أَمشَاجٍ نَبتَلِیهِ فَجَعَلنَاهُ سَمِیعاً بَصِیراً )

ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا کہ اسے آزمائیں (اسی لئے )تو ہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والابنایا۔

اس آیت میں کلمہ ''امشاج ''کے ذریعہ بچہ آمادہ کرنے والے مخلوط نطفہ سے گفتگو ہوئی ہے یا اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ امشاج ، مشیج کی جمع ہے جو مخلوط کے معنی میں ہے آیت اس بات

____________________

(۱)سورۂ فرقان ۵۴.

(۲) سورۂ نور ۴۵۔ سورۂ انبیاء ۳۰۔

(۳)(أ لَم نَخلُقکُم مِن مَائٍ مَّهِینٍ )(مرسلات ۲۰)(ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلالَةٍ مِن مَّائٍ مَّهِینٍ )( سجدہ ۸)

(۴)(خُلِقَ مِن مَّائٍ دَافِقٍ )( طارق ۶)

۱۱۱

پردلالت کرتی ہے کہ بچہ کو تشکیل دینے والا نطفہ مخلوط ہونے کے اعتبار سے مختلف اقسام کا حامل ہے، اور یہ مفہوم، موجودہ رشد شناسی میں ثابت ہوچکے مطالب سے مطابقت رکھتا ہے اور یہ قرآن مجید کے غیبی خبروں میں سے شمار ہوتا ہے ۔(۱) اور انجام پاچکی تحقیقوں کے مطابق انسانی نطفہ ایک طرف تو مرد و عورت کے نطفہ سے مخلوط ہوتا ہے اور دوسری طرف خود نطفہ مختلف غدود کے ترشحات سے مخلوط و مرکب ہوتا ہے ۔

علقہ ہونا بچہ کی خلقت کا دوسرا مرحلہ ہے جو قرآن کی آیتوں میں مذکور ہے ،سورۂ حج ۵ ؛ مومنون ۶۷؛ غافر ۳۸ کی آیات میں کلمہ ''علقہ ''اور سورۂ علق کی دوسری آیت میں کلمہ ''علق''بچہ کے رشد و نمو کے مراحل میں استعمال ہوا ہے، علق؛ علقہ کی جمع ہے اور علقہ ، علق سے لیا گیا ہے جس کا معنی چپکنااور پیوستہ ہوناہے چاہے وہ پیوستگی مادی ہو یا معنوی یا کسی اورچیز سے پیوستگی ہومثلا خون جامد (جاری خون کے مد مقابل ) کے اجزاء میں بھی چپکنے کی صلاحیت ہوتی ہے خلاصہ یہ کہ ہر وہ چیزجواس سے ملحق ہو اور چپک جائے اسے علقہ کہتے ہیں ۔(۲) جونک چونکہ خون یاخونی اجزاء کو چوسنے کے لئے بدن یا کسی دوسری چیز سے چپکتا ہے اس لئے اس کو بھی علقہ کہتے ہیں ،بہر حال یہ دیوار رحم سے نطفہ کی چسپیدگی کے مراحل اور مخلوط نطفہ کے مختلف اجزاء کے ایک دوسرے سے چسپیدگی کی حکایت

____________________

(۱)موریس بوکا لکھتا ہے : مادہ ٔ منویہ مندرجہ ذیل غدود کے ترشحات سے وجود میں آتا ہے :

۱۔ مرد کے تناسلی غدود کی ترشحات اسپرموٹزوید کے حامل ہوتے ہیں ۔ ۲۔انڈوں کی تھیلیوں کی ترشحات، حاملہ کرنے کے عناصر سے خالی ہیں ۔

۳۔پروسٹٹ ترشحات ، ظاہراً خمیر کی طرح ہوتے ہیں اور اس میں منی کی مخصوص بو ہوتی ہے ۔

۴۔ دوسرے غدود کی مخلوط و سیال ترشحات ،پیشاب کی رگوں میں موجود ہوتا ہے ۔( بوکائی ، موریس ؛ انجیل ، قرآن و علم ؛ ص ۲۷۱ و ۲۷۲)

(۲)طبرسی ؛ مجمع البیان ؛ ( سورہ علق کی دوسری آیت کے ذیل میں ) لغت کی کتابیں ۔

۱۱۲

کرتی ہے، اور یہ حقیقت بھی قرآن کے غیبی اخبار اور نئی چیزوں میں سے ہے جسے آخری صدیوں تک علم بشر نے حل نہیں کیا تھا ۔(۱) مضغہ(۲) ہڈیوں کی خلقت(۳) ہڈیوں پر گوشت کا آنا(۴) اور دوسری چیزوں کی خلقت(۵) (روح پھونکنا )(۶) یہ وہ مراحل ہیں جو قرآن کی آیتوں میں نطفہ کے رشد کے لئے بیان ہوئے ہیں.

روح کا وجود اوراستقلال

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کی روح کے سلسلہ میں متعدد و متفاوت نظریات بیان ہوچکے تھے بعض لوگ ایک سرے سے روح کے منکر تھے اور انسان کو مادی جسم میں منحصر سمجھتے تھے ۔بعض دوسرے لوگوں نے روح کو ایک مادی اور جسم سے وابستہ شئی اور انسان کے جسمانی خصوصیات اور آثار والی ذات شمار کیا ہے اور بعض لوگ روح کو غیر مادی لیکن جسم سے غیر مستقل وجود سمجھتے ہیں(۷) ان نظریات کو بیان کرنے اور ان کی دلیلوں پر تنقید و تحقیق کے لئے مزید فرصت درکار ہے

____________________

(۱)دوسرے اور تیسرے ہفتوں میں جنین کے پیوند ، ملاپ اور چپکنے کے مراحل کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: البار ؛ محمد علی ، خلق الانسان بین الطب و القرآن ؛ ص ۳۶۸و ۳۶۹۔ سلطانی ، رضا ؛ و فرہاد گرمی ، جنین شناسی انسان ، فصل ہفتم ۔ (۲)(فَخَلَقنَا العَلَقَةَ مُضغَةً )مومنون۱۴ (۳)(فَخَلَقنَا المُضغَةَ عِظَاماً )مومنون۱۴

(۴)(فَکَسَونَا العِظَامَ لَحماً )مومنون۱۴ (۵)(ثُمَّ أَنشَأنَاهُ خَلقاً آخَرَ )مومنون ۱۴۔

(۶)رحم میں نطفہ کے استقرار کی خصوصیت اور اس کے شرائط نیز تولد کے بعد رشد انسان کے مراحل کو بعض آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔ جیسے سورہ حج ۵۔ نوح ۱۴ ۔زمر ۶۔ مومن ۶۷ کی آیتیں ۔ (۷)روح کے بارے میں بیان کئے گئے نظریات کو چار عمومی دستوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :الف) وہ نظریات جو جسم کے مقابلہ میں ایک عنصر کے اعتبار سے روح اور روحانی حوادث کے بالکل منکر ہیں اور تمام روحانی حوادث میں مادی توجیہ پیش کرتے ہیں ،اس نظریہ کو '' ڈمکراٹیس ، رنو ، تھامس ہابز ، علاف ، اشعری ، باقلانی ، ابوبکر اصم اور عقیدہ رفتار و کردار رکھنے والوں کی طرف نسبت دیا گیا ہے ۔ ب)وہ نظریات ہیں جس میں روحی حوادث کو قبول کیا گیاہے ، لیکن روح مجرد کا انکار کیا گیاہے ۔ عقیدہ تجلیات ( Epiphenomenalism )روحی حوادث کو مادی حوادث سے بالکل جدا سمجھنے کے باوجود مادی اور جسمانی اعضاء کا نتیجہ سمجھتے ہیں نیز نظریہ فردی ( Parson Theory )روح کو ایسا حوادث روحی سمجھتا ہے جو ہمیشہ انسان کی راہ میں ایجاد اور ختم ہوتا رہتاہے ۔( T.H.Huxly )پی.اف.سراسن نے ( P.F.Srawson )مذکورہ بالادونوں نظریات کو ترتیب سے بیان کیا ہے ۔ج) وہ نظریات جو روح و جسم کو دو مستقل اور جدا عنصر بتانے کے باوجود ان دونوںکو ایک جنسی اور مادی خمیر سے تعبیر کیا ہے ۔ اس نظریہ کو ولیم جیمز اور راسل کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔ د)بعض نظریات روح و جسم کے تاثرات کو قبول کرتے ہیں لیکن جسم کے علاوہ ایک دوسری شی بنام روح یعنی مجرد شی کا اعتقاد رکھتے ہیں جس سے تمام روحی حودث مربوط ہیں اور اسی سے حادث ہوتے ہیں ،مفکرین و فلاسفہ کی قریب بہ اتفاق تعداد اس نظریہ کی طرفدار ہے ۔رجوع کریں: ابوزید منی احمد ؛ الانسان فی الفلسفة الاسلامیة ؛ موسسہ الجامعیة للدراسات، ، بیروت ، ۱۴۱۴، ص ۸۸۔۱۰۰

۱۱۳

لہٰذا ہم اس سلسلہ میں فقط قرآن کے نظریہ کو ذکر کریں گے نیز بعض عقلی اور تجربی دلیلوں اور قرآن کے نظریہ سے ان کی ہماہنگی کو بیان کریں گے ۔

وہ آیات جو قرآن مجیدمیں روح مجرد کے استقلال اوروجود کے بارے میں آئی ہیں دو گروہ میں تقسیم ہوتی ہیں: پہلے گروہ میں وہ آیات ہیں جو روح کی حقیقت کو بیان کرتی ہیں اور دوسرے گروہ میں وہ آیات ہیں جو حقیقت روح کے علاوہ استقلال اور موت کے بعد روح کی بقا کو بیان کرتی ہیں۔

من جملہ آیات میں سے جو روح کے وجود پر دلالت کرتی ہیں وہ سورہ مومنون کی بارہویں تا چودہویں آیت ہے جو انسان کی جسمانی خلقت کے مراحل کو ذکر کرنے کے بعد بیان کرتی ہیں کہ( ثُمَّ أنشَأنَاهُ خَلقاً آخَرَ ) یہ واضح رہے کہ انسان کے جسمانی تکامل کے بعد دوسری خلقت سے مراد کوئی جسمانی مرحلہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ انسانی روح پھونکے جانے کے مرحلہ کی طرف اشارہ ہے اسی بنا پراس جگہ آ یت کی عبارت ان عبارتوں سے جدا ہے جو جسمانی مراحل کو ذکر کرتی ہیں۔(۲)

____________________

(۱)مجرد و مادی شی کی خصوصیات اور تعریف کے بارے میں مزید اطلاعات کے لئے ۔ملاحظہ ہو: عبودیت ، عبد الرسول ؛ ہستی شناسی ؛ ج۱ ص ۲۵۶ تا ۲۸۷۔ (۲)ملاحظہ ہو: محمد حسین طباطبائی ؛ المیزان فی تفسیر القرآن ج۱۵، ص ۱۹. روایات میں بھی آیہ کریمہ کی اسی طرح تفسیر ہوئی ہے ۔ملاحظہ ہو: الحر العاملی محمد بن الحسن ؛ وسائل الشیعہ ج۱۹ ص ۳۲۴۔

۱۱۴

سورہ سجدہ کی نویں آیت میں بھی انسان کے اندر روح کے حقیقی وجود کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور خاک سے حضرت آدم اور پانی سے ان کی نسل کی خلقت کے مسئلہ کوبیان کیا ہے کہ :

( ثُمَّ سَوَّاهُ وَ نَفَخَ فِیهِ مِن رُّوحِهِ ) (۱) پھر خدا نے اس کو آمادہ کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی ۔

اس آیہ شریفہ کاظاہری مفہوم یہ ہے کہ جسمانی تکامل کے مراحل سے آمادگی و تسویہ کے مرحلہ کو طے کرنے کے بعد خدا کی طرف سے روح پھونکی جائے گی ۔(۲)

____________________

(۱)سورۂ سجدہ ؛ ۹، یہ بات قابل توجہ ہے کہ آیات و روایات سے روح انسان کے استقلال اور وجود کا استفادہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن نے کلمہ روح کو استعمال کرکے روح انسان کے استقلال و وجودکے مسئلہ کو بیان کیا ہے، قرآن کریم میں تقریباً ۲۰ مقامات میں کلمہ روح استعمال ہوا ہے ،اور اس کے معنی و مراد کے اعتبار سے بعض آیات میں اختلاف پایا جاتا ہے جیسے آیہ شریفہ (قُلِّ الرُّوحُ مِن أَمرِ رَبِّی ) لیکن کلمہ روح کے دو قطعی اور مورد اتفاق استعمالات ہیں :

پہلا یہ کہ خدا کے ایک برگزیدہ فرشتہ کے سلسلہ میں ''روح ، روح القدس ، روح الامین''کی تعبیریں مذکور ہیں جیسے (تَنَزَّلُ المَلائِکةُوَالرُّوحُ فِیهَابِأذنِ رَبِّهِم مِن کُلّ أَمرٍ )قدر۴۔

دوسرا مقام یہ ہے کہ اس انسانی روح کے بارے میں استعمال ہوا ہے جو اس کے جسم میں پھونکی جاتی ہے ؛ جیسے وہ موارد جس میں حضرت آدم اور عیسی کی خلقت کے سلسلہ میں روح پھونکے جانے کی گفتگو ہوئی ہے،مثال کے طورپر(فَذَا سَوَّیتُهُ وَنَفَختُ فِیهِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ ) (حجر۲۹)حضرت آدم کی خلقت کو بیان کیا ہے اور جیسے (وَ مَریَمَ ابنَتَ عِمرَانَ الَّتِی أحصَنَت فَرجَهَا فَنَفَخنَا فِیهِ مِن رُّوحِنَا ) (تحریم۱۲)

(۲)بعض مفسرین نے مذکورہ آیت میں روح پھونکے کے عمل کو حضرت آدم کی خلقت بیان کیا ہے، لیکن جو چیزیں متن کتاب میں مذکور ہے وہ ظاہر آیت سے سازگار نہیں ہے ۔

۱۱۵

وہ آیات جو وجود روح کے علاوہ موت کے بعد اس کی بقا کوثابت کرتی ہیں بہت زیادہ ہیں۔(۱) اور ان آیات کو تین گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

۱۔ وہ آیات جو موت کو ''توفّی '' کے عنوان سے یاد کرتی ہیں خصوصاً سورہ سجدہ کی دسویں اور گیارہویں آیتں:

(( وَ قَالُوا أَئِ ذَا ضَلَلنَا فِی الأرضِ أَئِ نَّا لَفِی خَلقٍ جَدِیدٍ بَل هُم بِلِقَائِ رَبِّهِم کَافِِرُونَ قُل یَتَوَفَّاکُم مَّلَکُ المَوتِ الَّذِی وُکِّلَ بِکُم ثُمَّ ِلَیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ )

اور ان لوگوں(کافرین)نے کہا کہ جب ہم (مرگئے بوسیدہ اورجسم کے ذرات) زمین میں ناپید ہوگئے تو کیا ہم پھر نیا جنم لیں گے بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے حضور ہی سے انکار رکھتے ہیں ، تم کہدو کہ ملک الموت جو تمہارے اوپر تعینات ہے وہی تمہاری روحیں قبض کرے گا اس کے بعد تم سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤگے ۔

کلمہ ''توفی'' پر توجہ کرتے ہوئے کہ جس کا معنی کسی شی کو پوری طرح اور کامل طریقہ سے دریافت کرنا ہے، مذکورہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ موت کے وقت وہ چیزجو مشاہدہ ہوتی ہے اس کے علاوہ ( بے حرکت اور احساس و فہم سے عاری جسم )وہ چیز جو انسان کی اصل اور حقیقت ہے اور پوری طرح فرشتوں کے ذریعہ دریافت ہوتی ہے وہی روح ہے اس لئے کہ مرنے کے بعد اور

____________________

(۱)بدن سے روح کے استقلال کے مختلف تاثرات کی نفی اور بالکل بے نیازی کے معنی میں سمجھنا چاہیئے ،بلکہ روح اپنی تمام فعالیت میں تقریبا جسم کی محتاج ہے اور ان افعال کو جسم کی مدد سے انجام دیتی ہے ،مثال کے طور پر مادی دنیا کے حوادث کی معرفت بھی روح کی فعالیت میں سے ہے جو حسی اعضا سے انجام پاتے ہیں ، اسی طرح انسان کی روح اور اس کا جسم ایک دوسرے میں اثر انداز ہوتے ہیں ، مثال کے طور پرروح کی شدید تاثرات آنکھ کے غدود سے اشک جاری ہونے کے ہمراہ ہے اور معدہ کا خالی ہونا بھوک کے احساس کو انسان کے اندر ایجاد کرتا ہے ۔

۱۱۶

مرنے سے پہلے جسم ہمارے درمیان اور اختیار میں ہے جسے فرشتہ وحی دریافت نہیں کرتا ہے اس آیت میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ منکرین معاد جو یہ گمان کرتے ہیں کہ انسان در حقیقت وہی جسم ہے جو موت کی وجہ سے منتشرہوجاتا ہے اور اس کے ذرات زمین میں نابود ہو جاتے ہیں ، خداوند قدوس اس فکر کو نادرست مانتے ہوئے فرماتا ہے کہ تمہاری حقیقی اور واقعی حقیقت ایک دوسری شیٔ ہے جو کامل طور پر ملک الموت کے ذریعہ دریافت ہوتی ہے موت اور جسم کے پراکندہ ہو جانے سے نابود ہونے والی نہیں ہے بلکہ وہ جسم سے الگ اپنی حیات کو جاری رکھتی ہے ۔

۲.آیہ کریمہ :

( وَ لَو تَرَیٰ ِذِ الظَّالِمُونَ فِی غَمَرَاتِ المَوتِ وَ المَلائِکَةُ بَاسِطُوا أَیدِیهِم أَخرِجُوا أَنفُسَکُمُ الیَومَ تُجزَونَ عَذَابَ الهُونِ بِمَا کُنتُم تَقُولُونَ عَلَیٰ اللّٰهِ غَیرَ الحَقِّ وَ کُنتُم عَن آیَاتِهِ تَستَکبِرُونَ ) (۱)

اور کاش تم دیکھتے کہ یہ ظالم موت کی سختیوں میں پڑے ہیں اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ لپکا رہے ہیں(اور ان کے سروں کے اوپر کھڑے ہوئے ان سے کہیں گے ) خوداپنی جانیں نکالو آج ہی تو تم کو رسوائی کے عذاب کی سزا دی جائے گی کیونکہ تم خدا پر ناحق جھوٹ جوڑا کرتے تھے اور اس کی آیتوں سے اکڑا کرتے تھے ۔

''اپنے آپ کو خارج کریں''کی تعبیر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان جسم کے علاوہ ایک عنصر اور رکھتا ہے جو انسان کی حقیقت کو تشکیل دیتا ہے اور موت کے وقت جسم سے خارج ہوجاتا ہے اوریہ ملک الموت کے ذریعہ روح انسان کے قبض ہونے کی دوسری تعبیر ہے ۔(۲)

____________________

(۱)سورۂ انعام ۹۳۔

(۲)یہ مسئلہ اپنی جگہ ثابت ہوچکا ہے کہ جس طرح روح کا بدن کے ساتھ اتحاد، مادی نہیں ہے اسی طرح بدن سے روح کا خارج ہونابھی مادی خروج نہیں ہے ،وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو: علامہ طباطبائی کی المیزان ج۷، ص ۲۸۵۔

۱۱۷

۳. عالم برزخ کی حیات کو بیان کرنے والی آیت :

( حَتَّیٰ إِذَا جَائَ أَحَدَهُمُ المَوتُ قَالَ رَبِّ ارجِعُونَ٭ لَعَلِّی أَعمَلُ صَالِحاً فِیمَا تَرَکتُ کَلاّ ِنَّهَا کَلِمَة هوَ قَائِلُهَا وَ مِن وَرَائِهِم بَرزَخ إِلَیٰ یَومِ یُبعَثُونَ ) (۱)

یہاں تک کہ جب ان( کافروں )میں سے کسی کی موت آئی تو کہنے لگے پروردگارا! تو مجھے (دنیامیں ) پھر واپس کردے تاکہ میں اچھے اچھے کام کروں ہرگزنہیں(وہ اسی خواہش میں رہے ہیں ) یہ ایک لغو بات ہے جسے وہ بک رہا اور ان کے بعد (حیات) برزخ ہے دوبارہ قبروں سے اٹھائے جائیں گے ۔

عالم برزح پر روشنی ڈالنے والی بہت سی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مرنے کے بعد اور قیامت برپا ہونے سے پہلے روح ایک دنیا میں باحیات ہوتی ہے اور پروردگار کی نعمت و عذاب میں مبتلا رہتی ہے ، اس کی آرزو و خواہش ہوتی ہے ، سرزنش ، عذاب ، نیکی اور بشارت سے مرنے والا دوچار ہوتاہے اورمرتے ہی وہ ان خصوصیات کے ساتھ اس عالم میں وارد ہوتا ہے یہ تمام چیزیں اس جسم کے علاوہ ہیں جسے ہم نے مشاہدہ کیا ہے یا نابودجاتاہے، اسی بنا پر موت کے بعد روح کا وجودا ور اس کی بقا واضح و روشن ہے ۔(۲)

____________________

(۱)مومنون ۹۹،۱۰۰۔

(۲)استقلال روح اور وجود کو بیان کرنے والی تمام آیات کی معلومات کے لئے .ملاحظہ ہو: محمد تقی مصباح ، معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ۴۵۰۔ ۴۵۶۔

۱۱۸

روح کے اثبات میں بشری معرفت اور دینی نظریہ کی ہماہنگی

گذشتہ بحث میں قرآن مجید کی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے جسم اور جسمانی حوادث کے علاوہ انسان کے لئے روح نام کی ایک دوسرے مستقل پہلو کے وجود کو ثابت کیا گیا ہے ، اب ہم

روح کی خصوصیات اور روحی حوادث سے مختصر آشنائی اور عقلی مباحث اور تجربی شواہد کے تقاضوں سے دینی نظریہ کی ہماہنگی کی مقدار معلوم کرنے کے لئے انسان کی مجرد روح کے وجود پر مبنی بعض تجربی شواہد اور عقلی دلیلوں کی طرف اشارہ کریں گے ۔

الف) عقلی دلائل

شخصیت کی حقیقت

ہم میں سے کوئی بھی کسی چیز میں مشکوک ہوسکتا ہے لیکن اپنے وجود میں کوئی شک نہیںکرتا ہے ۔ ہر انسان اپنے وجود کو محسوس کرتا ہے اور اس پر یقین رکھتا ہے یہ اپنے وجود کا علم اس کی واضح ترین معلومات ہے جس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے ۔ دوسری طرف اس مطلب کو بھی جانتے ہیں کہ جس چیز کو ''خود ''یا ''میں '' سے تعبیر کرتے ہیں وہ آغاز خلقت سے عمر کے اواخر تک ایک چیز تھی اور ہے ، جب کہ آپ اپنی پوری زندگی میں بعض خصوصیات اور صفات کے مالک رہتے ہیںیا اسے کھو بیٹھتے ہیں لیکن وہ چیز جس کو ''خود ''یا ''میں '' کہتے ہیں اسی طرح ثابت و پایدار ہے، ہم مذکورہ امور کو علم حضوری سے حاصل کرتے ہیں ۔

اب ہم دیکھیں گے کہ وہ تنہا ثابت و پایدار شی ٔکیا ہے ؟ وہ تنہا ،بغیر کسی شک کے ، اعضاء یا اجرام یا بدن کا دوسرا مادی جزء یارابطوں کے تاثرات اور ان کے مادی آثار نہیں ہوسکتے اس لئے کہ ان کو ہم علم حضوری کے ذریعہ حاصل نہیں کرتے ہیں ؛ بلکہ ظاہری حواس سے درک کرتے ہیں ، اس کے علاوہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ہمیشہ متحول و متغیر ہوتے رہتے ہیں ، لہٰذا ''میں ''یا ''خود''ہمارے جسم اور اس کے آثار و عوارض کے علاوہ ایک دوسری حقیقت ہے اور اس کی پایداری و استحکام، مجرد اور غیر مادی ہونے پر دلالت کرتی ہے ،یہ بات قابل توجہ ہے کہ طریقۂ معرفت اور فلسفہ علم سے بعض ناآشنا حضرات کہتے ہیں کہ علم ؛روح مجرد کے وجود سے انکار کرتا ہے اور اس پر اعتقاد کو غلط تسلیم کرتا ہے۔(۱)

____________________

(۱)مارکس کے ماننے والے اپنے فلسفہ کو فلسفہ علمی کہتے ہیں اور روح کے منکرو معتقد بھی ہیں ۔ملاحظہ ہو: مجموعہ آثار ج۶ص۱۱۵

۱۱۹

جب کہ علم کا کوئی ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ علم اس سے کہیں زیادہ متواضع ہے کہ اپنے دائرۂ اختیار سے باہر مجرد امور میں قضاوت کرے ،یہ بات گذر چکی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کسی شعبہ میں علم کا دعویٰ، انکاراور نہ ہونا نہیں ہے بلکہ عدم حصول ہے ۔

روح کا ناقابل تقسیم ہونا اور اس کے حوادث

مادی و جسمانی موجودات ، کمیت و مقدار سے سروکار رکھنے کی وجہ سے قابل تجزیہ وتقسیم ہیں مثال کے طور پر ۲۰ سینٹی میٹر پتھرکا ایک ٹکڑا یا ایک میڑ لکڑی چونکہ کمیت و مقدار رکھتے ہیں لہٰذا قابل تقسیم ہیں اسی طرح ۱۰ سینٹی میڑ پتھر کے دو ٹکڑے یا آدھے میڑ لکڑی کے دو ٹکڑے میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، اسی طرح ایک ورق کاغذ کی سفیدی جو کہ جو ہر کاغذ کی وجہ سے باقی اور اس میں داخل ہے ،کاغذ کو دوحصہ میں کر کے اس کی سفیدی کو بھی ( کاغذ کے دو ٹکڑے میں تقسیم ہونے کے ساتھ ساتھ ) تقسیم کیا جاسکتا ہے لیکن ہم سے ہر ایک جس وقت اپنے بارے میں غور و فکر کرتا ہے تو اس حقیقت کو پاتا ہے کہ نفس، مادی حقیقتوں میں سے نہیں ہے اور وہ چیز جس کو ''میں ''کہتا ہے وہ ایک بسیط اور ناقابل تقسیم شی ٔہے یہ تقسیم نہ ہونااس بات کی علامت ہے کہ ''میں ''کی حقیقت مادہ اور جسم نہیں ہے، مزید یہ کہ ہم سمجھ لیتے ہیں کہ نفس ،مادی چیزوں میں سے نہیں ہے ''میں ''اور روحی حوادث ، ہمارے جسم کے ہمراہ ، تقسیم پذیر نہیں ہیں یعنی اس طرح نہیں ہے کہ اگر ہمارے جسم کو دو نیم کریں تو ''میں ''یاہماری فکر یا وہ مطالب جن کو محفوظ کیا ہے دو نیم ہو جائیگی، اس حقیقت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ'' میں '' اور'' روحی حوادث'' مادہ پر حمل ہونے والی اشیاء و آثارمیں سے نہیں ہیں۔

مکان سے بے نیاز ہونا

مادی چیزیں بے واسطہ یا باواسطہ طور پر مختلف جہت رکھنے کے باوجود مکان کی محتاج ہیں اور فضا کو پُر کئے ہوئے ہیں لیکن روح اور روحی حوادث جس میں بالکل جہت ہی نہیں ہے لہٰذااس کے لئے کوئی مکان بھی نہیں ہے مثال کے طور پر ہم اپنی روح کے لئے جس کو لفظ ''میں '' کے ذریعہ یادکرتے ہیں اس کے لئے اپنے جسم یا جسم کے علاوہ کسی چیزمیں کوئی مکان معین نہیں کرسکتے ہیں، اس لئے کہ وہ نہ تو جسم کا حصہ ہے کہ جہت رکھتا ہو اور نہ ہی جسم میں حلول کرتا ہے اور نہ جسم کی خصوصیات کا مالک ہے جس کی وجہ سے جہت ہو اور نتیجتاً مکان رکھتا ہو ،روحی حوادث مثلاً غم ، خوشی ، فکر و نتیجہ گیری ، ارادہ اور تصمیم گیری بھی اسی طرح ہیں ۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217