تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت18%

تفسیر انوار الحجّت مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 217

تفسیر انوار الحجّت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 154991 / ڈاؤنلوڈ: 5699
سائز سائز سائز
تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

الف :دلوں اور کانوں پر مہر۔

خداوند عالم کا ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کر دینا اس بات کا کنایہ ہے کہ ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے خداوند عالم نے مہر لگا دی ہے جیسا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

الختم هو الطبع علی قلوب الکفار عقوبةعلی کفرهم ۔(۱)

ختم سے مراد کافروں کے دلوں پر ان کے کفر کی سزا کے طور پر مہر لگا دینا ہے۔

اللہ کی طرف سے مہر لگ جانے کا فعل انسان کے کفر اختیاری کے بعد ہوتا ہے،کفر سے پہلے نہیں ہوتا اور یہ کفر اختیاری کا نتیجہ ہے یعنی ہر انسان کو فطرت سلیم عطا ہو تی ہے اور اس میں دلائل حق پر غور وفکر کی استعداد بھی شامل ہے لیکن جب انسان اپنے ارادے اور عقل کا غلط استعمال کرتا ہے تو پھر آسمانی ہدایتوں اور خداوندی نشانیوں سے مسلسل منہ موڑ لیتا ہے اور شیطانی قانون پر چلنے کی ٹھان لیتا ہے۔

اس وقت وہ غضب کا مستحق ٹھرتا ہے اور انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ رحمت سے خارج ہو جاتا ہے اس وقت نصرت الہی اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور واضح دلائل حقاور روشن سے روشن آیات الہی بھی انہیں نظر نہیں آتیں یہ سب کچھ کافروں کا اپنے ارادے اور اختیار سے دوری اور دانستہ کج روی اختیار کرنے کی وجہ سے ہے۔

بہرحال یہ مسلم ہے جب تک انسان اس مرحلے تک نہ پہنچے وہ کتنا ہی گمراہ کیوں نہ ہو،قابل ہدایت ہوتا ہے لیکن جب وہ اپنے بد اعمال کی وجہ سے پہچان کی قوت کھو بیٹھتا ہے تو اس کے لیئے کوئی راہ نجات نہیں ہے۔

_____________________

۰۰۰تفسیر صافی۔۰۰۰

۸۱

توبہ و استغفار

یہ واضح حقیقت ہے کہ انسان جب ایک گناہ پر اپنی عادت بنا لیتا ہے تو اے کچھ سجھائی نہیں دیتا وہ اسے حق اور درست سمجھنے لگ جاتا ہے لہذا انسان کو ہمیشہ اس طرف متوجہ رہنا چاہیے جب اس سے کوئی گناہ سر زد ہو فورا اسے توبہ کر لینی چاہیے تا کہ اس کے دل پر مہر نہ لگ جائے جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

ما من عبد مومن الا و فی قلبه نکتة بیضاء فاذا اذنب ذنبا خرج فی تلک النکتةسواد فان تاب ذهب ذالک السواد فان تماری فی الذنوب ذاد ذالک السوادحتی یغتی البیاض فاذا اغطی البیاض لم یرجع صاحبه الی خیر ابدا ۔(۱)

ہر شخص کے دن میں ایک وسیع،سفید اور چمکدار نکتہ ہو تا ہے جب اس سے گناہ سر ذد ہو تو اس مقام پر ایک سیاہ نکتہ پیدا ہو تا ہے اگر وہ توبہ کر لے تو وہ سیاہی ختم ہو جاتی ہے لیکن اگر مسلسل گناہ کرتا رہے تو پھیل جا تی ہے اور تمام سفیدی کا احاطہ کر لیتی ہے اور جب سفیدی ختم ہو جائے تو پھر اسے دل کا مالک کبھی بھی خیر و بر کت کی طرف نہیں پلٹ سکتا۔

لہذا جب بھی انسان ہوائے نفس کا غلام بن جائے تو ایسے کان جن سے پرہیز گار حق بات سن سکتا ہے سنتے اور عمل کرتے ہیں اور ایسے دل جس سے متقی لوگ حقائق کا ادراک کرتے ہیں،کفار کے لئے بے کار ہیں ان کے کانوں اور دلوں میں سننے اور سمجھنے کی قوت ہی نہیں رہی ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے۔

( أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ )

کیا آپ نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جس نے ہوائے نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہے خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے۔(۲)

____________________

(۱)اصول کافی ج۲باب الذنوب حدیث۲۰

(۲)سورہ جاثیہ ۴۵ آیت نمبر ۲۳

۸۲

ب :تشخیص کی قدرت نہیں۔

یہ ایک فطری امر ہے کہ انسان جب ایک غلط کام کو مسلسل کرتا رہتا ہے تو اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ اس کی عادت بن جاتی ہے اور روح انسانی کا جزو بن جاتی ہے اور اسے اپنی ذمہ داری سمجھنے لگتے ہیں جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے تو وہ حس تشخیص ہی کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے پردہ آجاتا ہے یہ لوگ اپنی آنکھوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے،عبرت حاصل نہیں کرتے،صراط مستقیم کو اختیار نہیں کرتے بلکہ حق کو دیکھنے کے باوجود اپنی آنکھوں پر گمراہی اور کفر کا پردہ ڈال رکھا ہے۔

لیکن قیامت والے دن بہت سے حقائق ان کے سامنے ہونگے۔عذاب الہی کو درک کریں گے۔اور یہ بھی جانتے ہونگے کہ یہ ان کے سوء اختیار کی وجہ سے ہے دنیا میں خود کو اندھا بنا رکھا تھا اگرچہ ان کی آنکھیں جمال الہی کا مشاہدہ نہیں کر سکتیں لیکن قیامت والے دن تیز نگاہوں سے عذاب الہی کا ضرور مشاہدہ کریں گی جیسا کہ خدا وندعلم فرماتا ہے۔

( لَّقَدْ كُنتَ فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ )

یقینا تم غفلت میں تھے ہم نے تمہارے پردوں کو ہٹا دیا ہے اب تمہاری نگاہ تیز ہو گئی ہے۔

ج :مستحق عذاب

جس طرح خدا وند عالم نے تقوی طاہنے والوں کا انعام ہدایت اورکامیابی قرار دیا تھا اسی طرح کفار کی سزا یہ ہے کہ قیامت والے دن انہیں بہت بڑے عذاب کا سامنا ہو گا۔

۸۳

( وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِینَ ) ( ۸)

کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا اور روز آخرت پر ایمان لائے ہیں حالا نکہ وہ صاحب ایمان نہیں ہیں۔

شان نزول

کفار کی مذمت کے بعد تیرہ آیات منافقین کے متعلق نازل ہوئی ہیں منافقین کے سردار عبداللہ ابن ابی سلول یعتصب بن قشیر اور ان کے پیروکار وں کے درمیان طے پایا کہ ہم لوگ بھی زبانی کلامی تو اسلام کا اظہار کریں۔

لیکن قلبی طور پر اپنے عقیدہ پر قائم رہیں تا کہ مسلمانوں کو جو شرف و منزلت نصیب ہے ہمیں بھی حاصل ہو ہم رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقربین بن کر اسلام کے اسرار سے آگاہ ہو سکیں اور کفار کو ان اہم رازوں سے باخبر رکھیں یہ لوگ سوچی سمجھی سازش کے تحت رسول اکرم کے پاس تشریف لائے اور اسلام کا اظہار کرنے لگے اس وقت خدا وند عالم نے حضرت رسول اکرم (ص) کو ان کی سازش سے اس طرح آگاہ فرمایا کہ لوگوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدااور روز آخرت پر ایمان لائے ہیں حالانکہ یہ خدا اور آخرت پر ایمان نہیں لائے بلکہ یہ لوگ جھوٹ بکتے ہیں۔(۱)

تیسرا گروہ : منافقین

منافق کی شناخت

تاریخ کے ایک خاص موڑ پر اسلام کو ایک ایسے گروہ کا سامنا کرنا پڑا جو ایمان لانے کے جذبہ و خلوص سے عاری تھا اور اسلام کی مخا لفت کرنے کی جرات بھی نہیں رکھتا تھا قرآن مجید اس گروہ کو منافق کہہ کر پکار رہاہے قرآن کے نزدیک منافق کی پہچان یہی ہے کہ۔

المنافق الذی ستروا الکفر و و اظهروا الا سلام

جو کفر کو پوشیدہ رکھتے ہوئے اسلام کا اظہار کرے وہ منفق ہے(۲)

_____________________

(۱)منہج الصادقین ج۱ ص ۰۰۰۱۵۲ (۲)البتیان ج۱ ص۶۷،روح المعانی ج۱ ص۱۴۳

۸۴

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ادیان الہی کو سب سے زیادہ نقصان منافقین سے پہنچا ہے اسی گروہ نے صدر اسلام سے اسلام اور مسلما نوں کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری رکھا۔تاریخ گواہ ہے اس گروہ نے کافر وں سے زیادہ اسلام کو نقصان پہنچایا ہے شاید اسی وجہ سے اس مقام پر تیرہ آیتوں میں ان کی باطنی شخصیت اور اعمال کو بیان کیا گیا ہے جبکہ دوسری سورتوں میں بھی ان کی بدکرداریوں کا تذکرہ ہے اور ان کے متعلق قرآن مجید کا واضح فیصلہ ہے۔

( إِنَّ الْمُنافِقينَ فِي الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ )

بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہونگے۔(۱)

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام منافق کی شناخت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

اوصیکم عبادالله بتقوی الله،واحذر کم النفاق فانهم الضالون المضلون والزالون المنزلون یتلونون الوانا و یفتنون افتینا نا و یعمدونکم لکل عماد و تر صدونکم بکل مرصاد قلوبهم دویه و صفاحهم نفیه یمشون الخفا ء و تدبون الضراء وصفهم دواء و قولو هم شفاء وفعلهم الداء العیا ء خنسدة الرخا ء و مئو کدو البلد ء مقنطوالرخاء ۔(۲)

اے اللہ کے بندوں :میں تمہیں تقوی و پرہیز گاری کی وصیت کرتا ہوں اور منا فقین سے ڈراتا ہوں کیونکہ وہ خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں،خود خطاء کار ہیں دوسروں کو خطاؤں میں ڈالتے ہیں،مختلف رنگ اختیار کرتے ہیں،مختلف چہروں اور زبانوں سے خود نمائی کرتے ہیں،ہر طریقہ سے پھانسنے اور برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

_____________________

(۱)سورہ نساء آیت ۱۴۵(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۴

۸۵

یہ لوگ ہر کمین گاہ میں تمہارے شکار کے لئے بیٹھے رہتے ہیں ان کا ظاہر اچھا اور باطن خراب ہے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے خفیہ چالیں چلتے ہیں ان کی ظاہری گفتگو بھلی معلو م ہوتی ہے لیکن ان کا کردار ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے لوگوں کی خوش حاکی اور آسائش پر حسد کرتے ہیں اور اگر کسی پر مصیبت آن پڑے تو خوش ہوتے ہیں اور امید رکھنے والوں کو مایوس کر دیتے ہیں۔ بہر حال زیر نظر تیرہ آیتوں میں منا فقین کی صفات بیان کی جارہی ہیں۔کیونکہ ایمان دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے لیکن ان کے دلوں میں کفر ہے اور زبان سے دعوی کرتے ہیں یہ نفاق اور منافقت ہے۔

چال بازی

جب بھی کوئی شخص کسی دوسرے گروہ میں اپنا اثر رسوخ پیدا کرنا چاہتا ہے یا کسی گروہ میں اپنا نفوذ کرنا چاہتا ہے تو اس کی سب سے پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس گروہ کے اصولوں کو اپنائے اور ان اصولوں کے پیروکاروں کے سامنے یہی اظہار کرے کہ میں ان اصولوں کا پابند ہوں خدا اور قیامت پر ایمان اسلام کے اہم اعتقادی اصولوں میں سے ہیں۔

جب کوئی شخص ان پر ایمان لانے کا اظہارکرتا ہے تو اسے مسلمان تصور کیا جاتا ہے منافقین نے بھی مقصد کے حصول کے لئے ان دو بڑے اصولوں کا سہارا لیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مسلمان ہیں کیونکہ ہم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں لیکن قرآن مجید قطعی طور پر ان کے ایمان کی نفی کر رہاہے کہ اگرچہ جب یہ مسلمانوں سے ملتے ہیں تو خود کو مومن کہتے ہیں لیکن یہ مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتے یعنی یہ لوگ نہ مومن تھے،نہ مومن ہیں اور نہ مومن ہونگے بلکہ یہ چالباز ہیں ان کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہچانا ہے۔

( یُخَادِعُونَ اللهَ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ )

وہ خدا اور صاحبان ایمان کو دھو کہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ اپنے سوا ء کسی کو دھوکہ نہیں دیتے اور انہیں( اس کا )احساس تک نہیں ہے۔

۸۶

خود فریبی

یہ ایک واضح حقیقت ہے جو بھی اللہ تعالی کو اس کی صفات جلال وکمال کے ساتھ مانتا ہو وہ اسے دھوکہ دینے کا تصور ہی نہیں کر سکتاکیونکہ وہ ہستی ظاہر و باطن سے باخبر ہے البتہ ان کا یہ کہنا کہ ہم خداکو دھوکہ دیتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ خدا کو نہیں پہنچانتے ان کا اللہ کے متعلق اقرار صرف زبانی ہے اس لئے یہ سوچتے ہیں کہ ہم خدا کودھوکہ دے رہے ہیں۔نیز اس سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ یہ لوگ خدا اور مومنین کو جو دھوکہ دیتے ہیں یہ شاید رسول خدا (ص) اور مومنین کو دھوکہ دینے کی وجہ سے ہو کیو نکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے رسول خدا کے متعلق فرمایا ہے۔

( مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ) (۱)

جو رسول کی اطاعت کرتا ہے وہی اللہ اطاعت کرتا ہے۔

اسی طرح اللہ کا یہ فرمان بھی ہے۔ان الذین یبایعونک انما یبا یعون اللہ جو بھی آپ کی بیعت کرتا ہے وہی اللہ کی بیعت کرنے والا ہے۔

لہذا رسول خدا (ص)کی اطاعت اور بیعت اللہ کی بیعت ہے اسی طرح ورسول خدا کو دھوکہ دینا اللہ اور مومنین کو دھوکہ دینا ہے لہذا خدا،رسول،اور مونین کو دھوکہ دینا ان کی خود فریبی ہے یہ خدا کو دھوکہ نہیں دے رہے بلکہ خدا کو دھوکہ دے رہے ہیں ان کی اور جزا ء سزااور نقسان بھی انہی کے ساتھ ہے۔

____________________

(۱)سورہ نساء آیت نمبر۱۰

۸۷

یعنی ایمان کا نتیجہ نجات آخرت ہے یہ لوگ تمام کوششوں کے باوجود اس سے دور رہتے ہیں بلکہ اس فریب دہی کی وجہ سے ان کا عذاب کافروں کے عذاب سے بھی سخت تر ہو تا ہے جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے۔

( إِنَّ الْمُنافِقينَ فِي الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ )

بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہونگے۔(۱)

لیکن ان منافقین کو اس کا احساس ہی نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ دل سے آخرت کے قائل ہی نہیں ہیں یہ لوگ صرف مادی منافع حاصل کر کے خود کو فریب دہی میں کامیاب سمجھتا ہے حالانکہ اس کی خود فریبی ہے جیسا کہ روایت میں ہے۔ خدا کو دھوکہ دینے کی کوشش خود فریبی ہے۔

اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام، حضرت رسول اعظم (ص) کی حدیث بیان فرماتے ہیں۔

انماالنجاة ان لا تخادعوا فینحد عکم فان من یخادع الله یخدعه ویخلع منه الایمان و نفسه یخدع لو یشعر

انسان کی نجات اس میں ہے کہ وہ اللہ تعالی کو دھوکہ دینے کی کو شش نہ کرے وگرنہ وہ خود دھوکہ میں پڑ جائے گا کیونکہ جو اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے تو نتیجہ میں خود دھوکہ کھائے گا اور اس سے ایمان کا لباس اتارلیا جائے گا اگر اسے تھوڑا سا بھی احساس ہے تو یہ اس کی خود فریبی ہے۔(۲)

____________________

(۱)نساء آیت ۱۴

(۲)صافی،نور الثقلین ج۱ص۳۵

۸۸

( فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمْ اللهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ )

ان کے دلوں میں ایک خاص طرح کی بیماری ہے اللہ نے (نفاق کی وجہ سے) ان کی بیماری اور بڑھادی ہے،اور انہیں ایک درد ناک عذاب اس وجہ سے ہو گا کہ وہ جھوٹ بولا کرتے ہیں۔

بیمار دل

اعتدلال طبعی سے ہٹ جانا بیماری اور مرض ہے جب انسانی بدن میں کوئی آفت نہ ہو تو اس بدن کو صحیح و سالم کہتے ہیں اسی طرح اگر کسی دل میں ہٹ دھرمی تعصب اور کوئی آفت و مصیبت نہ ہو تو اسے قلب سلیم سے یاد کیا جاتا ہے اور اس وقت اس کا دل حق کو قبول کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔

جب کہ منافقین کے دل نفاق جیسی آفت کی وجہ سے بیمار ہیں ان کے جسم اور روح میں ہم آہنگی نہیں ہے بلکہ یہ ایمان سے منحرف ہیں ان کاظاہر اور باطن اس انحراف کی نشاندہی کرتا ہے اس کے دل میں شک و کفر اور نفاق پروان چڑھتا رہتا ہے اس بیماری کی وجہ سے ہدایت کے پیغام،واعظ و نصیحت کی آیات اسے فائدہ پہنچانے کے بجائے اس کے عناد،تعصب اور جوش انکار میں اور اضافہ کر دیتے ہیں۔

اس کی ذمہ داری خود اس کے ذاتی سوء مزاج پر ہے یعنی جب بھی کوئی قرآنی آیت نازل ہوتی ہے،معجزہ ظاہر ہوتا ہے،رسول خدا کو فتح نصیب ہوتی ہے،اللہ کی طرف سے ان انعام و اکرام ہوتا ہے تو منافق کی عداوت اور منافقت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

جھوٹ کی سزا

منافقین کا اصل سرمایا جھوٹ ہے ان کا اظہار اسلام ہی جھوٹ کا پلندہ ہے یعنی یہ لوگ جب یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت پر ایمان لاتے ہیں تو اللہ تعالی حضرت رسول اکرم(ص) کو خبر دیتا ہے کہ یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔

لہذا اپنے دعوی میں جھو ٹے ہیں یعنی در حقیقت یہ اللہ اور اس کے رسول اور تمام فرمودات کو ماننے کا جو دعوی کرتے ہیں وہ سفید جھوٹ ہے بلکہ یہ لوگ منافق ہیں ان کے جھوٹ اور منافقت کی سزا درد ناک عذاب الہی ہے۔

۸۹

اگرچہ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے لیکن یہ کفر سے بد تر نہیں ہے کیونکہ کفر و نفاق تمام گناہوں کی جڑ ہے لہذا اس دروغ گوئی کی وجہ سے منافقوں کو جو درد ناک عذاب ہو گا وہ عام جھوٹ کی طرح نہیں ہے ان کے اس جھوٹ سے مراد اعتقادی جھوٹ ہے اور اس کا عذاب سخت تر ہے۔

( وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ لاَتُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ )

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔

فساد فی الارض

انسان کی گمراہی اگر اس کی ذات تک محدود ہو تو اسے فساد فی الارض سے تعبیر نہیں کیا جاتا جیسے کفر اور شرک وغیرہ فساد فی الارض نہیں ہے لیکن جب ان لوگوں سے ایسی بد اعمالیاں سر ذد ہو جن کی وجہ سے دوسروں کو نقصان ہوتا ہو یعنی انہیں راہ راست سے ہٹا کر معصیت اور گناہ کی راہ پر طلانا مقصود ہو تو یہ فساد فی الارض ہے۔

البتہ بعض گناہ تو برا ہ راست اس عنوان کے تحت ہیں جیسے چغل خوری کرنا، ایک دوسرے کو لڑانا، فسق ظلم اور اسراف کا اظہار کرنا،انفرادی طور پر فساد ہیں لیکن جب کوئی شخص ان غلط کاموں کی طرف لوگوں کو بلا ئے اور انہیں اپنا مشن قرار دے لے یعنی کفر، معاصی نفاق اور غلط کاموں پر ڈٹ جا نا فساد ہے جیسا کہ روایت میں ہے۔

الفساد هو الکفر والعمل بالمعصیة

فساد،کفر اور معصیت کا تکرار ہے۔(۱)

لہذا تبلیغ سوء، نظام اسلام کے خلا ف بغاوت، وحی اور نبوت کا انکار، مبداء اور معاد کی صحت میں شک، لگائی بجھائی، مومنین کا استہزا ء اور تمسخر،کافروں کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی مدد اور لوگوں کو ایمان کے راستہ سے ہٹانا فساد فی الارض کے مصادیق ہیں۔

____________________

(۱)در منثور ج۱ ص۳۰

۹۰

اصلاح کا دعوی

منافقین کے دل میں جو شک اور انکار ہے اگر یہ لوگ اسی حد تک محدود رہتے تو یہ ان کی انفرادی گمراہی تھی لیکن منافقت کے سایہ میں انہوں نے بہت سے ایسے کام انجام دئیے ہیں جن کی وجہ سے امن و عامہ خطرہ لاحق ہونے کا قوی امکان ہے اسی لیئے مومنین کو جب ان کے ناپاک منصوبوں کا علم ہوتا تھا وہ انہیں نصیحت کرتے کہ اس مفسدانہ روش کو چھوڑ دیں معارف کو درست اور صحیح سمجھنے کے لیے روشن فکر اور عقل سلیم کی ضرورت ہے۔

ان معارف کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے صحیح اور پر خلوص عمل کی ضرورت ہے ان میں یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھتے ہیں فساد کو اصلاح اور اصلاح کو فساد کا نام دیتے ہیں یہ لوگ فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح کا دعوی کرتے ہیں کہ ہم مفسد نہیں ہیں بلکہ ہم تو مصلح ہیں لیکن قرآن مجید حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے والوں کو منافق کے اوصاف سے گردانتا ہے۔

( أَلاَإِنَّهُمْ هُمْ الْمُفْسِدُونَ وَلَکِنْ لاَیَشْعُرُونَ )

آگاہ ہو جاو یہ سب مفسدین ہیں لیکن شعور نہیں رکھتے ہیں۔

بے شعور مفسد

قرآن مجید اس مقام پر مومنین کو آگاہ اور ہوشیار کر رہا ہے کہ دینی معاشرے میں فساد پھیلانے والے منافقین سے آگاہ رہو اور ان کے جھوٹے اصلاح کے دعوی کو نظر انداز کر کے کہتا ہے۔

۹۱

یاد رکھو کہ یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں ان کے کردار میں اصلاح کا نام و نشان تک نہیں ہے منافقت کے غلط اثرات ان کی روح، جان،رفتار،و کردار میں ظاہر ہیں دنیا و آخرت میں گمراہی ان کا مقدر بن چکی ہے،ان میں شعور واقعی کا فقدان نمایاں طور پرظاہر ہے۔ یہ فساد پھیلاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم درست کام کر رہے ہیں یہ بے شعور مفسد ہیں ان کا اسلام کے اصولون پر قلبی اعتقاد نہیں ہے یہ لوگ نا سمجھی کی وجہ سے ان غلط کاموں کو درست سمجھتے ہیں ان کے نتائج پر غور نہیں کرتے حالانکہ ان غلط کامون کی لپیٹ میں اکثر خود بھی آجاتے ہیں۔

لیکن اگر یہ لوگ صرف اپنی منافقت پر باقی رہتے،اسالمی اسولوں کو دل وجان نہ مانتے اور صرف ان گلط کاموں کے نتائج پر غور کر لیتے تو اس مفسدانہ روش کو ضرور ترک کر دیتے لیکن اپنے نفس کو دھوکہ دینے اور اپنے فساد کو محسوس نہ کرنے کی وجہ سے یہ بے شعور مفسد ہیں۔

( وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ آمِنُوا کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلاَإِنَّهُمْ هُمْ السُّفَهَاءُ وَلَکِنْ لاَیَعْلَمُونَ )

جب ان سے کہا جاتا کہ اس طرح ایمان لے آؤ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں آگاہ ہو جاؤ یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن جانتے نہیں ہیں۔

دعوت ایمان

ایمان کا زبانی کلامی اظہار تو یہ منافق بھی کیا کرتے تھے لیکن چونکہ اسلامی اصولوں کو دل سے نہ مانتے تھے اس وجہ سے انہیں کہا جا رہا ہے کہ عام انسانوں کی طرح ایمان لے آؤ جو صرف خدا کے لیئے ہو اس میں نفاق کی بو تک نہ ہو اور عقل و شعور کا ثبوت دیتے ہوئے ایسا ایمان لے آؤ کہ انسان کہلوانے کے حقدار بن سکو اور تمہارا کوئی عمل بھی انسانیت کے خلاف نہ ہو۔اس آیت میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ مومنین جیسا ایمان لے آؤ بلکہ کہا گیا ہے کہ عوام الناس جیسا ایمان لے آؤ کیونکہ انہیں ابھی کفر و نفاق سے نکال کر ایمان کے کم ترین درجہ کی طرف لانا مقصود ہے جبکہ درجہ کمال تک پہنچنے کے لیئے تو انہین کئی مراحل طے کرنے ہوں گے بہرحال خلوص دل کے ساتھ عوام الناس جیسا ایمان لانے سے کفر نفاق کی وادی سے نکل کر مسلمان کہلوا سکیں گے۔

۹۲

مومنین کی تحقیر ان کا شیوا ہے

منافق اپنے برے اعتقاد اور غلط رائے کی وجہ سے اہل ایمان کی تحقیر اور توہین کو اپنا وطیرہ سمجھتے ہیں یہ اپنے آپ کو تو عاقل و ہوشیار سمجھتے ہیں جبکہ مومنین کو نادان سادہ لوح،اور جلد دھوکہ کھانے والے سمجھتے ہیں اور ان کے پاک دلوں کو حماقت اور بیوقوفی سے متہم کرتے ہیں۔

یعنی وہ حق طلب اور حقیقی انسان جو پیغمبر اسلام کی دعوت پر سر تسلیم خم کرنے کے ساتھ ساتھ دین کی حقانیت کا مشاہدہ کر چکے ہیں ان کی نظر میں وہ نادان ہیں اور یہ عقل مند ہیں کیونکہ مسلمانون کو سیاست نہیں آتی جبکہ ہم سیاست دان ہیں ہم نے کافروں کے ساتھ بھی بنا کر رکھی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات ہیں۔

اگر مشرکین کو فتح ہوئی تب بھی ہماری فتح ہو گی اور اگر مسلمانوں کو فتح ہوئی تو ہم ان کے ساتھی کہلائیں گے جبکہ خالص مسلمان بیوقوف ہیں کیونکہ مشرکوں کو فتح ہوئی تو یہ نا عاقبت اندیش مسلما ن مارے جا ئیں گے اور اپنے مستقبل کو خطرہ میں ڈال بیٹھیں گے یعنی خدا پرست اور راہ حق میں جہاد کرنے والوں کو یہ نا دانی کی تہمت لگاتے ہیں۔

حقیقی بیوقوف

قرآن مجید ان کو حقیقی بیوقوف گردانتا ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی کمزور اور ضعیف رائے کی وجہ سے اپنے نفع نقصان کو نہیں پہچان سکتے۔ان کی شناخت کا معیار حس اور مادہ ہے جس کی وجہ سے یہ گیب اور غیر محسوس چیز پر ایمان لانے کی وجہ سے مسلمانوں کو بیوقوف سمجھتے ہیں حالنکہ جو توحید کے آئین سے منہ موڑ کر چند روزہ دنیاوی لذتوں میں مشغول ہو جائے اور اپنی عاقبت اور ابدی زندگی کو تباہ کر لے وہی بیوقوف ہے۔

۹۳

انہیں اس وقت پتہ چلے گا جب ا بدی عذاب کا منظر ان کے سامنے ہو گا اور یہ کافروں سے بھی بد تر عذاب کا ذئقہ چکھ رہے ہوں گے۔یہ ان کی بہت بڑی بیوقوفی ہے کہ یہ اپنی زندگی کے مقصد کی تعین ہی نہ کر سکے جو گروہ دیکھا اسی کا رنگ اختیار کر لیا اپنی قوت کو سازشوں اور تخریب کاری میں صرف کردیا اس کے با وجود خود کو عقلمند سمجھتے ہیں۔

ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ ان کی عقلون پر پردہ پڑا ہو ا ہے یہ حق کو برداشت نہیں کر سکتے یہ لوگ،جاہل نادان،اور ضعیف العقیدہ ہیں،راہ راست سے منحرف ہیں،ضلالت و گمراہی پر گامزن ہیں،یہی سب کچھ ان کے حقیقی بیوقوف ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

( وَإِذَا لَقُوا الَّذِینَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَی شَیَاطِینِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَکُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ )

جب یہ صاحبان ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو ایمان لا چکے ہیں جب اپنے شیطانوں سے تنہائی مین ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو فقط (انہیں ) بنا رہے تھے۔

شان نزول

ایک مرتبہ عبداللہ ابن ابی اپنے ساتھیوں کے ساتھ کہیں جا رہا تھا اس کی مومنین کی ایک جماعت کے ساتھ ملاقات ہوئی پھر وہ حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا اے رسول خدا کے چچا زاد، اے بنی ہاشم کے سردار،ہم بھی آپ کی طرح مومن ہیں پھر اپنے ایمان کی مدح و ثناء کرنے لگا، حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔

یا عبدالله اتق الله ولا تنافق فان المنافق شر خلق الله تعالی

اے عبد اللہ اللہ سے ڈرو اور منافقت نہ کرو کیونکہ منافق اللہ کی بد ترین مخلوق ہے۔

عبداللہ ابن ابی کہنے لگا

اے ابوالحسن ہمیں منافق نہ کہو کیونکہ ہمارا ایمان بھی آپ کے ایمان کی طرح ہے اس کے بعد عبداللہ وہاں سے چلا گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا۔

۹۴

میں نے حضرت علی کو کس طرح جواب دیا ہے۔وہ سب بہت خوش ہوئے اور عبداللہ کے جواب کی تعریف کرنے لگے اس وقت خداوندعالم نے حضرت علی علیہ السلام کی تائید میں حضرت رسول خدا (ص) پراس آیت کو نازل فرمایا۔

جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا چکے ہیں اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں لہذا یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے ظاہری اور باطنی ایمان کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ واضح طور پر بتا رہی ہے منافقین کے ساتھ دوستی نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ان کے ساتھ عداوت کا اظہار کرنا چاہیے۔(۱) بہر حال یہ آیت منافقین کی پوری طرح تصویر کشی کرتی ہے کہ ان کی منافقت کس طرح ہے؟ دو مختلف گروہوں کے لیئے میل جول رکھنے اور تعلقات کے انداز پر روشنی ڈالتی ہے۔

مومنین کے ساتھ ملاقات کا ریاکارانہ انداز

منافق جب صاحبان ایمان سے ملتے تو کہتے کہ ہم بھی آپ لوگوں کی طرح اللہ،رسول،آخرت اور قرآن مجید پر ایمان لائے ہیں لیکن ان کا یہ سب کچھ زبانی کلامی ہوتا اگر یونہی ملاقات ہو جاتی تو اہنے ایمان کا اظہار کرنا شروع کر دیتے اور اپنی دو رنگی کی وجہ سے یہ لوگ قلبا انہیں ملنے کے مشتاق بھی نہ ہوتے اور ملاقات پر اصرار نہ کرتے تھے۔

____________________

۰۰۰ غایة المرام ۳۹۵،و منہج الصادیقین ج ۱ ص ۱۶۰ ( کچھ تبدیلی کے ساتھ )اور روح البیان ج ۱ ص ۶۲۔

۹۵

یہی وجہ ہے کہ قراان مجید نے مسلمانوں کے ساتھ ان کے ملنے کو اذا لقوا سے تعبیر کیا ہے کہ جب ملاقات ہو جاتی تو ایمان کا اظہار کرنے بیٹھ جاتے اور یہ اظہار بھی صرف ظاہرا ہوتا تھا اسی وجہ سے یہاں جملہ فعلیہ استعمال ہوا ہے جو حدوث پر دلالت کرتا ہے یعنی ظاہرا تو مسلما ن ہونے کا دعوی کرتے جبکہ باطنا کفر کا اظہار کرتے تھے۔

اپنے بزرگوں سے ملاقات کا انداز

منافق جب اپنے شیطان صفت بزرگوں سے ملتے تو ان کا انداز ہی جدا ہوتا تھا اس وقت یہ اپنے شیطان صفت،مظہر کفروعناداور بیوقوف بزرگوں سے خلوت میں ملاقاتیں کرتے یعنی یہ کافر سرداروں کے ساتھ اپنے باطنی کفر کی وجہ سے خفیہ ملاقاتیں اورقلبی اعتقاد سے کہتے۔ہم آپ کے ساتھ ہیں یہاں ان کے لیئے لفظ،انا معکم،استعمال ہوتی ہے یہ جملہ اسمیہ ہے اور دوام وثبوت پر دلالت کرتا ہے یعنی وہ دل و جان سے اس حقیقت کا اظہار کرتے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور مسلمانوں کو تو ہم نے ویسے ہی کہہ دیا تھا کہ ہم بھی ایمان رکھتے ہیں۔

مومنین کی اہانت

خداوندعالم اس آیت میں بتا رہا ہے کہ منافق کس طرح مسلمانوں سے نفرت کرتے تھے اور وہ ہر وقت ان کی توہین کی کوشش میں لگے رہتے تھے اور اپنے بزرگوں سے جا کر کہتے تھے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں وہ سردار لوگ ان سے پوچھتے کہ آپ مسلمانوں کے ساتھ بھی تو ہیں اور ایمان کا اظہار بھی کرتے ہیں تو یہ انہیں جواب میں کہتے۔

۹۶

ہم تو انہیں بناتے ہیں ان کا یہ کہنا ان کے جہل نادانی اور تکبر کی علامت ہے اور جس انسان میں تکبر ہو اس کا عقل قرآنی ہدایت کو قبول کرنے سے قاصر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کسی کی تحقیر اور اہانت کو حرام قرار دیا ہے جبکہ خدا،رسول آیات الہی،اورمومنین کی ایمان کی اہانت اورتحقیر کرنا کفر ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿﴾ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ )

آ پ کہہ دیجیے کہا ں (تم )اللہ، اس کی آیات اور اسکے رسول کے بارے میں مذاق اڑا رہے تھے تو امعذرت نہ کرو تم نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا ہے۔(۱)

( اللهُ یَسْتَهْزِءُ بِهِمْ وَیَمُدُّهُمْ فِی طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُونَ )

خداانہیں خود مذاق بنائے ہوئے ہے اور انہیں سر کشی میں ڈھیل دیے ہوئے ہے تا کہ یہ اندھے پن میں مبتلا رہیں۔

مو منین کی حمایت

اس ایت مجیدہ میں اللہ تعالی نے منافقین کے مقابلہ میں مو منین کی حمایت کر رہاہے کیونکہ منافقوں نے مسلمانوں کی توہین صرف دین الہی کے اختیار کرنے کی وجہ سے کی ہے لہذا انہوں نے مومنین کے متعلق جو لفظ استعمال کیا ہے اور اس میں مسلمانوں کی تحقیر اور توہین تھی اللہ تعالی نے ان کی حمایت میں اپنی طرف سے وہی الفاظ ان کی طرف پلٹا دیے ہیں اور اللہ نے ایسا کر کے انہیں سزادی ہے جیسا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام ارشادفرماتے ہیں۔

ان الله لا یستهزی بهم الکن یجاز بهم جزاء الا ستهزاء

اللہ انکا از خود مذاق نہیں اڑاتا بلکہ ان کے مذاق اڑانے کی سزا دیتا ہے۔

____________________

(۱)سورہ توبہ آیت ۶۵،۶۶

۹۷

منافقین کے عمل سزا بھی تمسخر اور استہزاء کے مشابہ ہیں یعنی ان کا ظاہر مسلمانوں کے ساتھ ہے اور ان کا باطن کفار کے ساتھ ہے۔

یہ کفار سے کہتے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کے ساتھ مذاق کیا ہے لہذا سزا کے وقت اللہ تعالی بھی ان کے ساتھ ان جیسا معاملہ کر رہا ہے اس دنیا میں ان کے لئے مسلمانوں کے احکام جاری فرمائے ہیں یعنی ان کے زبانی کلامی یہ کہنے سے کہ ہم مومن ہیں تمام احکام شرعیہ ان کے لئے جاری فرمائے ہیں۔

دنیا میں نماز روزہ حج زکواة جیسے تمام احکام پر عمل کرنا ان کے لئے ضروری قرار دیا ہے مگر چونکہ باطن میں یہ کافر تھے اس لئے آخرت میں انہیں کافروں سے بھی سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔(۱)

منافقون کے لیئے مومنین کا استہزاء اور تمسخر کوئی حقیقی اور تکوینی اثر نہیں رکھتا بلکہ انکا استہزاء محض اعتباری ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی حمائت کرتے ہوئے اللہ کا استہزاء اور تمسخر سزا کے عنوان سے ہے اس کا تکوینی اور واقعی اثر مسلم ہے۔

اللہ تعالی نے ان کے دلوں اور عقلوں پر پردہ ڈال دیتا ہے ان کا ہر عمل بیکار اور فضول ہے اس کے لیئے کوئی جزا نہیں ہے قیامت والے دن میزان پر ان کے اعمال کی کوئی قدروقیمت نہ ہو گی بلکہ ان کے اعمال کے لیئے میزان کی ضرورت بھی نہ ہو گی جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے۔

( فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ) ۔(۲)

ہم قیامت والے دن ان کیلئے کوئی میزان حساب بھی قائم نہ کریں گے۔

آپ کہہ دیجیے کہا ں (تم )اللہ، اس کی آیات اور اسکے رسول کے بارے میں مذاق اڑا رہے تھے تو امعذرت نہ کرو تم نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا ہے۔

____________________

(۱)منہج الصادقین ج۱ ص۱۶۲(۲)کھف آیت ۱۰۵۔

۹۸

مومنین کے ساتھ استہزاء کرنے پر اللہ تعالی منافقوں کو ایک سزا یہ دیتا ہے کہ یہ ہمیشہ سرکشی اور تباہی کی تا ریکیوں میں ڈوبے رہیں گے جس کی وجہ سے صراط مستقیم کو نہیں پا سکیں گے کیونکہ یہ آیات بینہ اور انبیاء و آئمہ اطہار علیہم السلام کے بارے میں تدبر و تفکر نہیں کرتے ان کے متعلق قلبی اعتقاد نہیں رکھتے اسی وجہ سے ان کا حق سے ہٹنا اور حق کو صحیح طور پر تسلیم نہ کرنا ان کی باطنی عناد اور سوء اختیار کی وجہ سے ہے۔جبکہ اللہ تعالی اپنی طرف سے کفر اور سرکشی میں اضافہ کو پسند نہیں کرتا یہ طغیانی اور سرکشی خود ان کی طرف سے ہے اللہ تعالی ان کی عمر کی رسی دراز کر دیتا ہے انہیں بہت مہلت دیتا ہے لیکن ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ان سے معارف الہی کو سمجھنے کی توفیق سلب کر لیتا ہے اور یہ اپنے ہاتھوں سے کھودے ہوئے ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں جا گرتے ہیں۔

جو لطف اور نور وقلب مومنین کے شامل حال ہے وہ انہیں میسر نہیں ہے بلکہ ان کے دلوں میں نفاق اور کفر پر اصرار کرنے کی وجہ سے ضلالت و گمراہی زیادہ ہو گئی ہے لہذا اللہ تعالی کی اطاعت و عبادت کی محرک نعمتیں بھی ان کے لیئے مزید سرکشی اور ضلالت کا موجب بن گئی ہیں اور خداتعالی کی طرف سے ڈھیل نے بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جس طرح کافر اپنی خطاؤں کے گرداب میں غرق ہیں۔

اسی طرح منافق بھی اپنی ضلالت اور گمراہی و سرکشی کی وجہ سے اس ڈھیل سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور اسی گرداب میں غرق ہو گئے ہیں اور اپنے اندھے پن کی وجہ سے اپنی زندگی اچھائی برائی کی تمیز کے بغیر گزار دیتے ہیں۔

۹۹

( أُوْلَئِکَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَی فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا کَانُوا مُهْتَدِینَ )

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت دے کر گمراہی خرید لی ہے جس تجارت سے نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ اس میں کسی طرح کی ہدایت ہے۔

منافقین کا انجام

الف ضلالت و گمراہی کے خریدار

گزشتہ آیات میں منافقین کے مفسد اور باطل اوصاف کو بیان کیا گیا انہون نے متاع گراں،چشمہ ہدایت سے سیراب ہونے کی بجائے ضلالت و گمراہی کو ترجیح دی ہے لیکن اتنے بے شعور ہیں کہ مفسد اور مخرب کام کو اصلاح کا نام دینے لگے مومنین کو سادہ لوح اور نادان سمجھ بیٹھے حالانکہ یہ خود فسادی اور دھوکہ با ز اور نادان لوگ ہیں انہوں نے ہدایت پر جلالت کو ترجیح دی ہے۔ جبکہ ان کے پاس امکان تھا کہ ہدایت سے بلا مانع فائدہ اٹھاتے کیونکہ یہ لوگ وحی کے خوشگوار چشمے کے کنارے پر تھے اس ماحول میں صدق وصفا اور ایمان سے لبریز ہو سکتے تھے لیکن انہوں نے اس ہدایت کے بدلے گمراہی کو خرید کر لیا ہے جس سے سب فائدہ اٹھا سکتے تھے۔

لیکن صرف متقین نے اس سے فائدہ اٹھایا جبکہ کافر اور منافق کے اختیارمیں بھی تھا لیکن وہ اپنے سوء اختیار کی وجہ سے ضلالت اور گمراہی کے خریددار بنے جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے۔

( إِنَّا هَدَيْناهُ السَّبيلَ إِمَّا شاکِراً وَ إِمَّا کَفُوراً )

یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا ہو جائے۔(۱)

____________________

(۱)سورہ دھر آیت ۳۔

۱۰۰

(ب)نقصان دہ تجارت

قرآن مجید ہدایت فطری،فہم کی قدرت اور انسانی زندگی اور اس کے کام کرنے کی طاقت کو تجارت کا سرمایہ شمار کرتا ہے اگر یہ سرمایا صحیح عقائد اور معارف الہی کے حصول اور عمل صالح کی راہ میں استعمال ہو تو یہ نفع بخش تجارت ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ )

بے شک اللہ نے صاحبان ایمان سے ان کے جان و مال کو جنت کے عوض خرید لیا ہے۔(۲)

لیکن اگر یہ سرمایہ ضلالت اور گمراہی کی راہ میں خرچ کیا ہو تو یہ نقصان دہ تجارت ہے جیسا کہ اسی آیت میں اللہ تعالی منافقوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ انہوں نے فطرت،عقل اور ہدایت کو فروخت کر کے ضلالت و گمراہی کو خرید کر لیا ہے یہ نادان تاجر ہیں تاریک بیابان میں ہدایت کے چراغ کے بغیر حیران و سرگردان ہیں۔

انہیں دنیا نے فائدہ نہیں پہنچایا ہے کیونکہ ہمیشہ فائدہ سرمایا سے زیادہ ہو اکرتا ہے اور ہدایت الہی کی بدولت انہیں جو اجتماعی اور انفرادی مفادات حاصل ہو سکتے تھے وہ بھی انہیں میسر نہ آسکے اور ان مفادات کے مساوی بھی انہیں کچھ نہ مل سکا اور اس ہدایت سے بھی محروم رہے جو آخروی نجات کی ذمہ دار تھی لہذا ان کی یہ تجارت انہیں فائدہ نہ دے سکی بلکہ یہ ان کی نقصان دہ تجارت ہے لہذا انہیں قیامت والے دن دردناک عذاب دیا جائے گا۔

( مَثَلُهُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَائَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَکَهُمْ فِی ظُلُمَاتٍ لاَیُبْصِرُونَ )

ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ سلگائی مگر جب اس آگ سے ہر طرف ورشنی پھیل گئی تو خدا نے ان کی روشنی لے لی اور ان کو انھیروں میں چھوڑ دیا کہ اب انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

__________________

(۲) سورہ توبہ آیت ۱۱۱

۱۰۱

خصوصیات

سب سے پہلی مثال :

یہ قرآن مجید کی سب سے پہلی مثال ہے جس کے ذریعے منافقین کی حالت کو اشکار اور واضح کیا گیا ہے۔

ضرب المثل کی اہمیت

گذشتہ آیات میں منافقوں کی اصلیت بیان کی جا چکی ہے اب ان کی حقیقت کو زیادہ واضح انداز میں بیان کرنے کے لئے ضرب المثل کے ساتھ ان کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ہمیشہ جب کوئی چیز زیادہ مشکل ہو اور اس کا سمجھنا آسان نہ ہو تو اسے مثال کے ذریعہ بیان کیا جاتا یعنی ضرب المثل ایسا نور جس کی عظمت کسی سے مخفی پوشیدہ نہیں ہے یہ حقائق سے اس طرح پردے دور کرتی ہے کہ غائب بھی حاضر کی طرح معلوم ہوتا ہے۔

عظیم علمی معارف کو مثال کی شکل میں بیان کرنا سابقہ کتابوں کا شیوا بھی رہا ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( ذَلِکَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاة وَمَثَلُهُمْ فِي الاِنْجِیْلِ )

ان کی یہ مثال تورات اور انجیل میں بھی ہیں۔(۱) سورہ فتح آیت ۲۹

مثال کی خاصیت یہ ہے کہ علمی معارف کو اس سطح پر لے آتی ہے جس کی وجہ سے تمام افراد اسے سمجھ سکتے ہیں اس کی وجہ سے عظیم اورعلمی مطالب کے نقطہ عروج تک سب کی دسترس ہوتی ہے اور قرآن مجید کا بھی مثال بیان کرنے کا ہدف یہ ہے کہ عام آدمی بھی حقائق تک پہنچ سکیں اور ان کے لئے علمی مطالب کی معرفت کا حصول آسان اور سادہ ہو اور بات کو اچھی طرح سمجھ لیں۔

___________________

(۱)بحارالانوار ج۲۴ ص۲۶۸

۱۰۲

تاریک زندگی

قرآن مجید نے ایک سادہ اور عام فہم مثال کے ذریعے یہ بیان کیا ہے کہ منافقین کی زندگی تاریک ہے ان کا مستقبل بھی تاریک ہے اور اندھیری رات میں،بیا باں میں آگ سلگائی ہے تاکہ اسے راہ سجھائی دے سکے یعنی انہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کے پاس آکراظہار اسلام کیا ہے جس کی وجہ سے اس نور حقیقت کے قریب آگئے ہیں جو دین ودنیا کی ہدایت کا ذریعہ ہے۔

انہوں نے ایک آگ سلگائی جس سے فائدہ اٹھانا ان کے لئے آسان تھا۔اس آگ کی گرد وپیش میں پھیل گئی سینکڑوں لوگ اس نور سے منور ہوئے اور دنیا اورآخرت کی کامیابی پر فائز ہوئے لیکن منافقوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اللہ نے اس شعلہ کو خاموش کر دیا اور انہیں اس تاریکی میں تنہا چھوڑ دیا ان کی زندگی تا ریک سے تاریک تر ہو گئی اس کے سوء احثار کی وجہ سے توفیقات الہی سلب ہو گئیں اب انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا اور تاریکی ان کامقدر بن گئی ہے۔

نور رسالت وامامت سے محروم

منافقین کی تاریکی اور گمراہی کی وجہ یہ ہے کہ لوگ نور رسالت اور نور امامت سے محروم ہیں کیونکہ اس کائنات میں حضرت محمد وآل محمد علیہم السلام کے وجود سے نور اور روشنی ہے جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

اضاء ت الارض بنور محمد کما تضئیالشمس فضرب الله مثل محمد الشمس مثل الوصی القمر

خدا وند عالم نے روئے زمین کو آفتاب کی طرح محمد(ص) کے نور سے روشنی بخشی ہے حضرت محمد (ص) کو آفتاب اور ان کے وصی ( علی) کوچاند سے تشبیہ دی ہے۔( نورالثقلین ج ۱ ص ۳۶)

منافقین حضرت محمد مصطفی (ص) کے دار فانی کی طرف کوچ کرنے کے بعد امامت کے نور سے فیض حاصل نہ کیا یہ لوگ آنحضرت (ص)کے زمانہ میں بھی تاریک زندگی بسر کر رہے تھے اور حضرت (ص) کے بعد بھی اہل بیت کے نور امامت سے روشنی نہ لے سکے اور ظلمت و تاریکی میں ڈوبے رہے۔

۱۰۳

جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

قبض محمد مظهرت الظلم فلم یبصروا فضل اهل بیته ۔

حضرت محمد (ص) کی وفات کے بعد تاریکی چھا گئی تب بھی ان لوگوں نے اہل بیت علیہم السلام کے فضل سے بصیرت حاصل نہ کی۔

( صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لاَیَرْجِعُونَ )

وہ بہرے،گونگے اور اندھے ہیں اور اب گمراہی سے پلٹ کر آنے والے نہیں۔

بد ترین مخلوق

آنکھ،کان زبان اور دوسرے ادراک کرنے والے حواس انسان کے لئے بہت عظیم سرمایہ ہیں انہی کے ذریعے انسان علمی اور عملی سعادت حاصل کرتا ہے لیکن منافقین نے حق سے رو گردانی کر کے اس عظیم سرمایہ کو کھو دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی اس بد ترین مخلوق کی گونگے بہرے اور اندھے کے عنوان سے پہچان کرورہاہے یہ لوگ کلا م حق کو نہیں سنتے اسے زبان پر نہیں لاتے ان کے معانی اور مفاہیم میں غور وفکر کرنے کی زحمت نہیں کرتے یہ اللہ،رسول،آئمہ اطہار معجزات اور اسلامی اصولوں کو نہیں مانتے۔

۱۰۴

یعنی یہ اوامر الہیہ،حجج بنیہ اور واضح دلائل میں تفکر نہیں کرتے،خدا نے انہیں جو فہم کی قوت عطا ء فرنائی ہے یہ عناد اور حق دشمنی میں استعمال نہیں کر سکتے جیسا کہ خدا وندعالم فرماتا ہے

( لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ) ( اعراف آیت ۱۷۹)

ان کے پاس دل تو ہیں مگر ان سے سمجھتے نہیں،ان کی آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں ان کے کان ہیں مگر اس سے سنتے نہیں ہیں۔

یعنی وہ اس معنی میں بہرے نہیں ہیں کہ ان میں سننے کی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ ان کانوں سے صدائے حق سننے کا کام نہیں لیتے اس لئے وہ بہرے ہیں ان کی زبانیں ہیں مگر تعصب،عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کلمہ حق کے ساتھ گویا نہیں ہوتیں اس عنوان سے یہ گونگے ہیں،ان کے دیکھنے والی آنکھیں بھی ہیں لیکن ان سے آیات بینات کو نہیں دیکھتے تعصب کی وجہ سے انہیں جلوہ حق نظر نہیں آتا اس لحاظ سے یہ اندھے ہیں۔

یعنی یہ لوگ اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اب ان کا ایمان کی طرف پلٹنا ممکن نہیں رہا کیونکہ انہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے میں خرید لیا تھا لہذا ضلالت نفاق سے یقینی ہدایت کی طرف ان کا لوٹنا محال ہے انہوں نے معرفت الہی جیسا اساسی سرمایا اپنے ہاتھ سے دے دیا ہے لہذا اب ان کا ہدایت کی طرف لوٹنے کا راستہ بند ہو گیا ہے اور یہ کائنات کی بد ترین مخلوق کہلوانے کے حقیقی حقدار ہیں۔

( أَوْ کَصَیِّبٍ مِنْ السَّمَاءِ فِیهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ یَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِی آذَانِهِمْ مِنْ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللهُ مُحِیطٌ بِالْکَافِرِینَ ) ( ۱۹)

یا (ان کی مثال) آسمان کی اس بارش کی ہے کہ جس میں تاریکیاں اور گرج چمک ہو موت کے ڈر سے اس کی کڑک دیکھ کر کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں حالانکہ اللہ کافروں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔

۱۰۵

خوف و ہراس پر مشتمل زندگی

خداوندعالم اس آیة مجیدہ میں منافقین کی زندگی کی اس طرح تصویر کشی کر رہا ہے کہ ان کی پوری زندگی خوف و ہراس پر مشتمل ہے یہ لوگ انتہائی وحشت اور سرگردانی میں مبتلا ہیں۔

ان کی مثال ایسے مسافر کی مانند ہے جس پر گرج چمک اور بجلیوں کی کڑک کے ساتھ سخت بارش برس رہی ہے بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک اتنی وحشت ناک اور مہیب ہے کانوں کے پردے چاک کیے دیتی ہے وہ اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونسے ہوئے ہیں کہیں اس خطرناک آواز سے ان کی موت واقع نہ ہو جائے۔

اس وقت ان کی کوئی پناہ گاہ نہیں ہے وسیع اور تاریک بیابان میں حیران و سرگردان ہیں تاریکی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ان پر عجیب قسم کا خوف و ہراس حاوی ہے اسلام کے غلبہ سے ان کی دنیا سیاہ ہو گئی ہے اس خطرناک زندگی میں ان کا دل دھلا جا رہا ہے۔اسلامی فتوحات کی وجہ سے ہلاکت سامنے نظر آرہی ہے دل لرز رہے ہیں اس کے متعلق کچھ نہیں سننا چا ہتے اس لیئے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں تا کہ حق کو نہ سن سکیں اور ہلاکت سے بچ جائیں لیکن اللہ ہر طرف سے انہیں گھیرے ہوئے ہے اور ان کے بچ نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے۔

عذاب خدا کا احاطہ

خداوندمتعال اس آیة مجیدہ میں ارشاد فرما رہا ہے کہ میرا ان پر مکمل احاطہ ہے یہ لوگ کسی صورت مین بھی میرے عذاب سے نہ بچ سکیں گے۔اس مقام پر ان الفاظ میں ارشاد فرمارہا ہے کہ میرا کافروں پر مکمل احاطہ ہے یعنی ہر وہ شخص جو قلبا اسلامی اصولوں کو نہیں مانتا وہ حقیقت میں کافر ہے اب ایک شخص زبانی کلامی تو اسلامی عقائد کا اظہار کرتا ہے اور باطن میں اس کا نکار کرتا ہے تو یہ باطنی کفر ہے۔

۱۰۶

خداوندعالم اس آیت میں ارشاد فرما رہا ہے کہ کافر خواہ اپنے کفر کو ظاہر کرتا ہو یا کفر اس کے دل میں ہو اور زبان سے اسلام کا اظہار کرتا ہو وہ عذاب الہی سے ہرگز نہیں بچ سکتا میرا عذاب اس پر محیط ہے اور وہ اس سے نہیں بچ سکتے۔

( یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ کُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِیهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوا وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ( ۲۰)

قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھوں کو خیرہ کردے جب بھی بجلی چمکتی ہے تو وہ چلنے لگتے ہیں اور جب اندھیر ا ہو جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں اگر خدا چاہتا تو ان کی سماعت وبصارت کو ختم کردیتا بلا شبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

مضطرب زندگی

خداوندعالم منافقین کی مضطرب اور مردد زندگی کو بیان کر رہا ہے جب بجلی چمکتی ہے تو یہ چند قدم چل لیتے ہیں لیکن جونہی اندھیرا چھا جاتا ہے اور تا ریکی مسلط ہو جاتی ہے تو یہ اپنی جگہ پر رک جاتے ہیں۔

یعنی جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ اسلام کو فتح نصیب ہو رہی ہے تو کچھ دیر کے لئے انہیں اسلام بھلا معلوم ہو تا ہے اس وقت انہیں یہ خیال آتا ہے کہ ہمیں اسلام کے نور کی روشنی میں چلنا چاہیے اور مسلمانوں سے تعلقات استوار رکھنے چاہیے لیکن اگر اتفاق سے فتح کامرانی کا سلسلہ رک جائے اور مسلمانوں کو وقتی شکست اور زحمت کا سامنا کرنا پڑے تو فورا ان کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں۔ یہ متحیر ومضطرب و مردد، ہو کر کھڑے ہو جاتے ہیں یہ صرف دنیاوی مفاد کے تحفظ میں ہیں یہ لوگ دل سے اسلام کی حقانیت پر غور نہیں کرتے اسی وجہ سے مضطرب ہیں۔

قرآن مجید ان کی کیفیت و حالت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ جب روشنی دیکھتے ہیں تو چل پڑتے ہیں اور جب تاریکی ہو جاتی ہے یعنی عارضی طور پر فتح کا سلسلہ رک جاتا ہے تو بد گمان ہو جاتا ہے منافقین میں حق طلبی کا جذبہ نہیں ہے دین اسلام کی کامیابیوں سے انہیں تکلیف ہوتی ہے،جس کے نتیجے میں ان فتوحات کو نظر بھر دیکھنے کی تاب نہیں رکھتے لہذا قریب ہے کہ یہ چمک ان کی نگاہوں کو خیرہ کردے۔

۱۰۷

انتخاب ہدایت کی مہلت

خدا وند عالم نے سماعت اور بصارت جیسی نعمت ہدایت اور کامیابی حاصل کرنے کے لئے عنایت فرمائی ہے لیکن منافقین نے کفران نعمت کرتے ہوئے ان نعمتوں سے استفادہ نہ کیا انہوں نے حقائق دیکھنے کی بجائے اپنی آنکھیں بند رکھیں،حق سننے کی بجائے اپنے کانوں میں انگکیاں ٹھونس لیں لہذا ان کے آنکھ اور کان اس قابل نہ تھے کہ ان کے پاس رہیں لیکن اللہ تعالی نے ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں سماعت اور بصارت کی نعمت سے مکمل طور پر محروم نہیں کیا۔ خدا چاہتا تو ان کی یہ صلاحیتیوں کو سلب کر لیتا اس نے ان صلاحیتوں کو سلب نہیں کیا اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا تا کہ ہدایت کے انتخاب میں انہیں مزید مہلت دے اگر کوئی شخص قلبی اعتقاد کے ساتھ اسلام قبول کرنا چاہتا ہے تو قبول کر لے،اس کے پاس مکمل مہلت ہے لیکن انہوں نے سوء اختیار کی وجہ سے حق کی راہ کو طھوڑ دیا اورضلالت وگمراہی کی راہ مسافر بنے ہدایت کے انتخاب کی مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا حالانکہ اللہ قادر مطلق ہے وہ چاہتا تو شروع سے ہی یہ نعمتیں سلب کر لیتا۔

( یَاأَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ) ( ۲۱)

اے لوگو اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا شاید تم متقی بن جاؤ۔

خصوصیات

اس آیت کی دو اہم خصوصیات ہیں جو کسی اور آیت میں نہیں ہیں۔

پہلا خطاب

اس آیت میں یا ایھا الناس سے انسانوں کو پکارا گیا ہے۔قرآن مجید کا یہ سب سے پہلا خطاب ہے یہ پہلا مقام ہے جہاں خداوندعالم نے کسی واسطہ کے بغیر فرمایا ہے۔

۱۰۸

اے لوگو ! اس خطاب انسان کو عزت و عظمت دی گئی ہے اور انسان کو اس سے تسکین ملی ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

لذة ما فی النداء ازال تعجب العبادة والعناء ۔

ندا الہی میں خطاب کی ایسی لذت ہے جو عبادت کی تکلیف اور تھکاوٹ کو دور کر دیتی ہے۔

خداوند عالم انسان پر کسی واسطہ کے بغیر لطف کرتا ہے لیکن انسان اپنی غفلت،جہالت اور سواختیار کی وجہ سے اس رابطہ کو منقطع کر بیٹھتا ہے اور لطف الہی سے محروم ہو جاتا ہے۔حالانکہ یا ایھا الناس اس بات کی علامت ہے کہ یہ عبد اور معبود کے درمیان نہ ٹوٹنے والا رابطہ ہے۔

پہلا فرمان الہی

قرآن مجید نے سب سے پہلا فرمان الہی یہ جاری کیا کہ تم اپنے پروردگار کی عبادت کرو اس سے پہلے کوئی فرمان الہی صادر نہیں ہوا۔

دعوت عمومی

گزشتہ آیات میں اس نقطہ کو بیان کیا گیا تھا قرآن مجید کتاب ہدایت ہے اور قرآن مجید نے تین گروہوں متقین کافرین اور منافقین کے اوصاف اور مقام کو بیان کیا کہ متقین ہدایت الہی سے نوازے گئے ہیں اور قرآن ان کا رہنما ہے جبکہ کافروں کے دلوں پر جہل و نادانی کی مہر لگا دی گئی ہے اور منافقین کو کبھی بھی ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی۔

اس آیت میں خداوندعالم نے ایک جامع اور عمومی خطاب کے ساتھ بتایا ہے کہ قرآنی ہدایت کسی ایک گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کی دعوت عام ہے اور یہ سب انسانوں کو یگانہ خدا کی عبادت کی طرف دعوت دے رہا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی عبادت کریں یعنی متقین اپنی عبادت کو جاری رکھیں اور کافرین اپنے کفر کو چھوڑ کر پروردگار عالم کی بندگی اختیار کریں۔

۱۰۹

منافقین اپنی منافقت کو چھوڑ کر اپنی عبادت میں خلوص پیدا کریں۔دعوت قرآن سب انسانوں کے لیئے ہے یہی وجہ کہ لفظ انسان،مسلم،متقی، مومن اور بنی آدم کی نسبت زیادہ استعمال ہوا ہے قرآن مجید میں ۲۴۱ مرتبہ لفظ انسان استعمال ہوا ہے۔(۱)

زیر نظر پانچوں آیات میں خداوندعلام عمومی دعوت دے رہا ہے کہ یہ دعوت کسی ایک گروہ کے لیئے خاص نہیں ہے اس دعوت عمومی کے وقت لوگ دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں بعض اس دعوت پر لبیک کہتے ہیں انہیں جنت کی بشارت دی گئی ہے اور بعض لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کرتے انہیں جہنم کا ایندھن قرار دیا گیا ہے۔

عبودیت پروردگار

الف، معرفت خداوندی

قرآن مجید عبادت اور پروردگار کے ساتھ مستحکم رابطہ کو انسانی زندگی کی نجات اور سعادت ابدی قرار دیتا ہے خداوندعالم کی معرفت ہی عبادت ہے جیسا کہ حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

اول عبادة الله و اصل معرفته الله توحیده

سب سے پہلی عبادت اللہ تعالی کی معرفت ہے اور اللہ تعالی کی بہترین معرفت اس کی وحدانیت کا اقرار کرنا ہے۔(۲)

___________________

(۱)فرقان ج ۱ ص ۱۲۴۔۰۰۰۰(۲)نور الثقلین ج ۱ ص ۳۹۔

۱۱۰

ب،صحیح عقیدہ

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اعبدو اربکم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ صحیح عقیدہ رکھنا چا ہیے۔

اجیبوا ربکم من حیث امرکم،ان تعقدوا ان لا اله الا الله،وحده لا شریک له ولاشبیه ولا مثله،عدل لا یجوز،جوادلا ینحل حلم لا یغطل،وان محمد اعبده و رسوله صلی الله علیه و آله الطیبین وبان آل محمد افضل آل النبین وان علیا افضل آل محمد و ان اصحاب محمدالمومنین منهم افضل الصحابه المرسلین وبان امته محمد افضل امم المرسلین ۔(۱)

اپنے پروردگار کی اس طرح اطاعت و عبادت کریں جس طرح اس نے حکم دیا ہے اور یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معباد نہیں ہے وہ وحدہ لاشریک ہے اس کی کوئی شبیہ و مثل نہیں ہے وہ منبع عدل ہے اس کے متعلق ظلم کا تصور نہیں ہے۔وہ ایسا سخی ہے جس کے متعلق بخل کا سوچا بھی نہیں جا سکتا ایسا حکیم ہے جیسے امور میں خلل نہیں ہے

اور عبادت سے مراد یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس کے عبد اور رسول ہیں آل محمد تمام انبیا ء (اور ان) کی آل سے افضل ہیں۔حضرت علی (ع) حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی آل میں افضل ترین ہستی ہیں اور اصحاب حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)مومنین ہیں اور ان میں بعض صحابہ تمام انبیا ء کے اصحاب سے افضل ہیں،حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی امت تمام انبیاء کی امتوں سے افضل ہے۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج ۶۵ ص ۲۸۶۔

۱۱۱

(ج) احترام اہل بیت علیہم السلام

اہلبیت اطہار علیہم السلام کا احترام کرنا عبادت ہے کا احترام کرنا عبادت جیسا کہ روایت میں ہے کہ بریدہ نے حضرت رسول (ص) سے اس کے متعلق سوال کیا تو حضرت نے ارشاد فرمایا :

یا بریده ان من یدخل النار ببعض علی اکثر من حصی انحذف یرمی عند الحجمرات، فایاک ان تکون منهم، فذلک قوله تبارک وتعالیٰ، اعبدوا ربکم خلقکم، اعبدوه بتعظیم محمد و علی ابن ابی طالب ۔(۱)

اے بریدہ جہنم میں اکثر لوگ بغض علی کی وجہ سے جائیں گے اور ان کی تعداد حج کے موقع پر شیطانوں کو مارے جانے والوں پتھروں سے بھی زیادہ ہوگی،پس تم ان جیسا بننے سے ڈرو یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اعبدوا ربکم الذی خلقکم فرمایا ہے یعنی محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور علی ابن ابی طالب کی تکریم ہی عبادت ہے۔

انسان کو عبادت خداوندی بجا لانے کیلئے اس کے اوامر، نواہی کا خیال رکھنا چاہیے ولایت اہل بیت اصل عبادت ہے۔اگر کسی کو ولایت نصیب نہ ہوئی تو اسکی عبادت نہیں ہے(۲)

____________________

(۱)بحار الانوار جلد ۳۸ ص ۶۹

(۲) حضرت رسول اعظم ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بیسوں فرامین اسی مطلب پر دلالت کرتے ہیں جیسا کے آپ کا فرمان ہے۔

من مات علی بغض آل محمد لم یشم رائحة الجنة

آل محمد کا بغض رکھ کر مرنے والا جنت کی بو تک نہیں سونگھ سکتا۔

۱۱۲

اسی طرح مومنین کے ہر عمل کے قابل قبول ہونے کیلئے،حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت ضروری ہے جیسا کہ حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

یا علی لو ان عبدا عبد الله مثل ما قام نوح فی قومه و کان له مثل جبل احد ذهبا، فا نففته فی سبیل الله و مد فی عمره حتی حج الف عام علی قدمیه ثم قتل بین الصفاء و المراة مظلوم، ثم لم یوالک یا علی لم یشم رائحة الجنة و لم یدخلها

البتہ ولایت اہل بیت کا صحیح دعوایدار وہی جو فرائض کا تارک نہ ہو جیسا کہ حضرت امیرالمئومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

لا عبادة کادا الفرائض (۱)

فرائض کی ادائیگی جیسی کوئی عبادت نہیں ہے۔لہذا انسان کو ہر حال میں فرائض کا خیال رکھنا چاہیے اگر کسی مقام پر مستحب اور واجب کا ٹکراو ہوجائے تو اس وقت فرائض کو بجا لانا ضروری ہے بلکہ اس وقت مستحب کی بدولت انسان تقریب الہی بھی حاصل نہیں کر سکتا جیسا کہ مولا متقیان حضرت امیرالمئومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

لا قربته بالنوافل اذا اضرب بالفرائض ۔

ان مستحبات (نوافل)سے قرب الہی حاصل نہیں ہوسکتا جو واجبات کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا کریں۔(۲)

یا علی اگر کوئی حضرت نوح کی عمر جتنی زندگی اللہ کی عبادت کرتا رہے اور اس کے پاس پہاڑ احد جتنا سونا ہو اور وہ اسے اللہ کی راہ میں دے دے اور اس کی زندگی اتنی طویل ہو کہ وہ ایک ہزار پیدل چل کر حج کرے حالت میں قتل ہو جائے لیکن یا علی اگر وہ تیری ولایت و محبت کا قائل نہیں ہے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکتا چہ جائیکہ وہ جنت میں داخل ہو۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۱۱۳۔(۲)نہج البلاغہ حکمت ۳۹۔

۱۱۳

خالق اولین و آخرین کی عبادت

ہمیں اس پروردگار عالم کی عبادت کرنا چاہیے جو ہمیں اپنی کامل قدرت اور حکمت کے ساتھ عدم سے وجود میں لایا ہے یہ خدا کی قدرت،حکمت اور رحمت کی نشانی ہے۔ قرآن مجید تمام انسانوں کو توحید کی طرف دعوت دے رہا ہے کہ تم ذرا غور کرو تو یہی تمہارا حقیقی رب ہے اس نے تمہیں بھی خلق کیا ہے اور تم سے پہلے تمہارے آباؤ اجداد کا بھی وہی خالق ہے بلکہ پوری کائنات خالق وہی ہے اس ذات کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے لہذاعبادت بھی صرف اسی کیساتھ مختص ہے، تم اپنے خود ساختہ خداؤں کو پوجنا چھوڑ دو کسی چیز ہر بھی قادر نہیں ہیں۔اگر تم اپنے اور اباؤ اجداد کی خلقت پر غور کرو اور لا تعداد نعمتوں کے متعلق فکر کرو تو معلوم ہوگا کہ یہ سب اس ذات کی رحمت ہے جسکا ولم و قدرت لامتناہی ہے اس وقت یقینا تم اسے ہر لحاظ سے یکتا مانو گئے اور اس کے علاوہ کسی کی عبادت کا نہیں سوچو گئے۔

فلسفہ عبادت تقویٰ ہے

تقویٰ ایک نفسانی ملکہ، یہ اعمال صالحہ کی مکمل ادائیگی سے حاصل ہوتا ہے اسی وجہ سے تقویٰ کو عبادت کا فلسفہ کر دیا ہے انسان عبادت کے ذریعے تقویٰ کی منزل تک پہنچ سکتا ہے اور تقویٰ چاہیے والی کی صف میں اپنا ستمار کروا سکتا ہے،عبادت ہی موجد تقویٰ ہے۔ اگر عبادت کرنے کے باوجود بھی انسان میں تقویٰ پیدا نہ ہوسکے تو وہ عبادت نہیں ہے کیونکہ اس کائنات کی خلقت و افرنیش کا مقصد انسانیت کی تکمیل ہے جبکہ انسان کی خلقت عبادت کیلئے ہے اور عبادت کا اصلی ہدف تقویٰ ہے لہذا ہم خدائی دستورات اور فرامین کے مطابق زندگی بسر کریں تو ہم پرہیز گار کہلواسکتے البتہ ہمیں اپنی عبادت میں مفرور بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ غرور اور ریا ہمیں تقویٰ سے بہت دور لیجاتی ہے۔

( الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ فَلاَتَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) ( ۲۲)

جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمہاری روزی کے لئے زمین سے پھل نکالے پس تم کسی کو اس کا ہمسر نہ بناؤ حالانکہ تم خوب جانتے ہو۔

۱۱۴

آفرینش کائنات انسان کیلئے ہے۔

یہ آیت گذشتہ آیت کا تتمہ ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی نعمتوں کا احساس دلاتے ہوئے فرما رہا ہے کہ اس پوری کائنات کی خلقت تیرے لئے ہے تجھے متعدد نعمتوں سے نوزا گیا ہے۔

اس آیت میں بیان کی جانے والی ہر نعمت کئی دوسری نعمتوں کا سرچشمہ ہے زمین کے ساتھ اتنی نعمتیں موجود ہیں جن کا احصی ممکن نہیں ہے اس طرح آسمانی نعمتوں کا شمار انسانی طاقت سے باہر ہے یہ سب کچھ انسان کے لیئے بنایا گیا ہے لہذا اسے خدا حقیقی کی بندگی کرنا چاہیے عبادت میں خلوص پیدا کرنا چاہیے ان سب نعمتوں کا موجود ہونا اللہ کی حقیقی معرفت کا راستہ ہے۔

اللہ کی ذات واحد ویکتا ہے انسان کو خدا کی آیات آفاقی میں غور و فکر کرنا چاہیے تاکہ اسے یہ معلوم ہوسکے کہخدا نے اس پوری کائنات کی افرینش اس کے لیئے کیوں فرمائی ہے جب وہ اس میں غور کرے گا تو اسے معلوم ہو گا کہ وہی ذات ہی عبادت کے لائق ہے، وہ و احد و یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

نعمت زمین

خداوندعالم نے اس آیت مجیدہ میں اپنی کئی نعمتوں کو بیان کیا ہے انسان ان نعمتوں کے متعلق غور کرے کہ خدا نے کس طرح زمین کو بچھونا قرار دیا ہے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اسے بچھونا کس ذات نے قرار دیا ہے اس طرح آسمان کو ہمارے لیئے چھت قرار دینے والی ذات بھی وہی ہے، پوری کائنات کا خالق بھی وہی ہے اس نے ہر چیز کو ہماری طبیعت کے مطابق بنایا ہے تاکہ ہم اس سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں۔

۱۱۵

اس آیت مجیدہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت امام سجاد علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

جعلها ملائمه لطباعکم موافقته لاجسامکم ولم یجعلها شدید الحمی والحراره متحرتکم ولا شدیدةالبردمتحمدکم ولا شدیده طیب الرسیح متصدع ها ماتکم ولا شدیدة النتن متعطبکم ولا شدیدة اللین کالما ء فتغرقکم ولا شدیدةالصلابه متمنع علیکم فی دورکم انبیتکم و قبور موتاکم فلذا جعل الارض فراشا

خدا نے زمین کو تمہاری طبیعت اور مزاج کے مطابق خلق فرمایا ہے تمہارے جسم کی وجہ سے اسے زیادہ گرم اور جلا کر راکھ کر دینے والی نہیں بنایا کہ اس کی حرارت سے تم جل کر راکھ نہ بن جاؤ اور اسے زیادہ ٹھنڈا بھی پیدا نہیں کیا ہے کہ کہیں تم منجمد نہ ہو جاؤ۔

اسے زیادہ معطر اور خوشبودار بھی نہیں بنایا ہے کہ کہیں اس کی تیز خوشبو تمہارے دماغ کو تکلیف پہنچائے اور اسے بدبودار بھی نہیں بنایا کہ کہیں تمہاری ہلاکت کا سبب نہ بن جائے اس زمین کو پانی کی طرح بھی نہیں بنایا کہیں تم غرق نہ ہوجاؤ اور اسے اس قدر سخت بھی نہیں بنایا تاکہ تم گھر نہ بنا سکو مردوں کو دفن نہ کر سکو لہذا خدا نے تمہارے لیئے اس زمین کو ایک بچھونا بنایا ہے۔

نعمت آسمان

خداوندعالم نے انسانوں کو آسمان جیسی بہت عظیم نعمت سے نوازا ہے یہ بظاہر تو ایک نعمت ہے لیکن یہ بھی زمین کی طرح کئی نعمتوں کا سرچشمہ ہے خداوندعالم نے اسے ہمارے سروں پر چھت بنایا ہے جیسا کہ خداوندعالم دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے۔۔

( وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوظًا )

ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا ہے۔

۱۱۶

ہمیں آسمان کے ساتھ گوناگوں نعمتیں میسر آتی ہیں،حتی کہ اس کا آبی رنگ ہونا بھی ایک نعمت ہے جیسا کہ حضرت امام جعفر صاق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

اے مفضل آسمان کے رنگ میں غور وفکر کرو خدا نے اسے آبی رنگ میں پیدا کیا ہے یہ رنگ انسانی آنکھ کے لیئے بہت مفید ہے اس کی طرف دیکھنا بینائی کو تقویت پہنچاتا ہے۔

آسمان کی نعمتوں میں ایک بہت بڑی نعمت ااسمان سے بارش برسنا ہے اس کے فوائد کا احصی ناممکن ہے حضرت امام سجاد علیہ السلام بارش کے آسمان سے نازل ہونے کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں۔

یعنی المطر ینزله من اعلی لیبلغ قلل جبالکم و تلالکم وهضالکم و اوهادکم ثم فرقه زذاذا و وابلا و هطلا لتنشفه ارضوکم و لم یجعل ذلک المطر نازلا علیکم قطعة واحدة فیفسد ارضیکم و اشجارکم و زروعکم و ثمارکم

خداوندعالم بارش کو آسمان سے نازل کرتا ہے تاکہ پہاڑوں کی تمام،چوٹیوں ٹیلوں،گڑہوں اور تمام بلند مقامات پر پہنچ جائے یہ بارش کبھی تو نرم اور کبھی سخت دانوں کی شکل میں اور کبھی قطرات کی شکل میں برستی ہے تا کہ پوری طرح زمین میں جذب ہو جائے اور زمین اس سے سیراب ہو جائے۔

اسے سیلاب کی صورت میں نہیں بھیجاکہیں زمینوں درختوں،کھیتوں،اور تمہارے پھلوں کو بہا کر ویران نہ کردیاس بارش کی برکت سے قسم قسم کی چیزیں پیدا ہوتی ہیں یہ سب انسانوں کی روزی بنتی ہیں یعنی ہمیں اس خدا کی وحدانیت کی طرف غور کرنا چاہیے جس نے بے رنگ پانی سے ہزاروں رنگوں کے میوے انسان کے لیئے پیدا کیے ہیں۔(۱)

____________________

(۱)نور الثقلین ج ۱ ص ۴۱۔

۱۱۷

شرک کی نفی

خداوندعالم انسانوں کو متنبہ کر رہا ہے کہ تم عقیدہ توحید اور عبادت میں خلوص پیدا کرو کسی کو اس وحدہ لا شریک زات کا شریک نہ بناؤ سرف اسی کی عبادت کرو جو تمہارا خالق اور رازق ہے تمہاری عبادت تب عبادت ہے جب اس میں شرک نہیں ہے۔

عبادت میں جتنا خلوص زیادہ ہو گا عبادت کا انتہائی درجہ بلند ہو گا اور خلوص کا بہترین درجہ یہی ہے کہ عبادت کرنے والے کے دل میں خدا کے علاوہ کچھ نہ ہو جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

القلب السلیم الذی یلقی ربه، لیس فیه احد سواه

قلب سلیم وہ ہے کہ یا دالہی کے وقت اللہ تعالی کے علاوہ کسی کا تصور تک نہ ہو۔(۱)

تورات،زبور اور دوسرے صحیفوں میں بھی یہ واضح ہو چکا ہے کہ خدا کی کوئیمثل نہیں ہے حالانکہ تحت الشعور میں تم جانتے ہو کہ اللہ کے علاوہ یہ نعمتیں کوئی بھی نہیں دے سکتا صرف اور صرف وہی ذات ہی زمین و آسمان کی خالق ہے جیسا کہ قرآن فرما رہا ہے۔

( وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ )

اگر ان سے پوچھو کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے کہ یقینا اللہ نے پیدا کیا ہے۔

لہذا عبادت کے وقت بھی صرف اسی اللہ کے سامنے جھکو اس میں کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ صرف وصرف وہی ذات لائق عبادت ہے۔

_____________________

(۱)بحار الانوار ج ۶۷ ص ۲۳۹۔

۱۱۸

( وَإِنْ کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَائَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ )

اگر تمہیں اس کلام کے بارے میں شک ہے جسیے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسا ایک سورہ ہی لے آؤ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو اللہ کے علاوہ جتنے تمہارے مددگار ہیں ان سب کو (بھی ) بلا لو۔

گزشتہ آیات کے ساتھ ربط

سورہ بقرہ کے آغاز میں فرمایا گیا تھا کہ ذلک الکتاب لا ریب فیہ یعنی اس کتاب میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کے متعلق کسی نے شک بھی نہیں کیا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ ایسی واضح کتاب ہے جس میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔

منافقین کے متعلق بتایا جا چکا ہے کہ یہ لوگ شک و تردید کی بیماری مین مبتلا ہیں اب انہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے اس میں کسی قسم کا شک ہے تو اس جیسا ایک سورہ ہی لے آؤ۔

اسی طرح چوتھی آیت میں مومنین کی نشانی ہی یہ بتائی گئی ہے کہ جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے اس پر ایمان لانے والے ہیں اسی طرح ۲۱ ویں آیت میں کہا گیا ہے کہ اپنے رب کی عبادت کریں یہ کتاب ہمیں رہنمائی کرتی ہے کہ ہم نے کس طرح عبادت بجا لانی ہے جو شرک جیسے گناہ سے پاک ہو اور اس سے پہلے والی آیت میں اپنی ایک نعمت آسمان سے پانی نازل ہونا بیان کیا ہے۔

۱۱۹

جس طرح آسما ن سے پانی نازل ہوتا ہے اس کی وجہ سے ہماری روزی کا سامان ہوتا ہے اور ہمیں جسمانی طور پر غذا میسر ہوتی ہے اور اسی کے دم سے ہم زندہ ہیں بالکل اسی طرح آسمان سے نازل ہونے والی ایک نعمت قرآن مجید ہے یہ ہماری روحانی غذا کے عنوان سے ہے۔ اسی قرآن سے قومیں زندہ ہیں اور ان کی روح کو غذا میسر آتی ہے یعنی ہماری جسمانی پرورش آسمان کا پانی کرتا ہے اور ہمیں صحت و سلامتی حاصل ہوتی ہے جبکہ ہماری روحانی پرورش قرآن مجید کرتا ہے ا س کی وجہ سے ہماری روح کی سلامتی اور مقصد پیدائش کی تکمیل ہوتی ہے۔( ۱)

قرآن مجید کا تعارف

خداوندمتعال اپنی کتاب کا تعارف اس انداز سے کرا رہا ہے کہ اللہ تعالی کی اس کتاب میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور اللہ تعالی نے اسے آسمان سے پیغمبر اسلام پر نازل فرمایا ہے یہ سب لوگوں کی ہدایت کا سر چشمہ ہے،ہمیں راہنمائی کر رہی ہے کہ ہم نے کس طرح اللہ کی عبادت کرنی ہے۔ اس میں شک کرنے والا پوری کائنات کو اپنی مدد کے لیئے بلا لے تب بھی اس کا مثل نہیں لا سکتا ہے اور وہ کافروں کے لیئے بنائی گئی جہنم کا ایندھن بنے گا۔

____________________

( ۱) جیسے خداوندعالم کا فرمان ہے

( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ )

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217