آفتاب ولایت

آفتاب ولایت28%

آفتاب ولایت مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 272

آفتاب ولایت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 272 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 156409 / ڈاؤنلوڈ: 5435
سائز سائز سائز
آفتاب ولایت

آفتاب ولایت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

آفتاب ولایت

مصنف:علی شیر حیدری

۳

پیش لفظ

علی اور دیگر آئمہ معصومین کی معرفت کیونکر ضروری ہے؟

بے شک بہت سی قیمتی اور اعلیٰ کتابیں مولا علی علیہ السلام اور باقی آئمہ معصومین علیہم السلام کو متعارف کروانے کیلئے اور اُن کی ولایت برحق کے ثبوت میں لکھی جاچکی ہیں اور وہ مسلمانوں اور حق کی تلا ش کرنے والوں کے ہاتھوں تک پہنچ چکی ہیں ۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ان تمام کتابوں کے میسر ہونے کے باوجود خدا کے ان خاص بندوں کی مظلومیت اقوام عالم میں اب بھی اظہر من الشمس ہے اور اُن کا مقام اعلیٰ، عظمت بالا، اُسوئہ حسنہ ،بندگی خدااور عبادت بے ریاء بہت سے مسلمانوں کی نظروں سے ابھی تک اوجھل ہے۔

اس کے برعکس ہم دیکھ رہے ہیں کہ شیطانی قوتیں اور گمراہ قومیں روز بروزلوگوں کو اہل بیت اطہاراور صراط مستقیم سے منحرف کرنے کیلئے اپنا دائرئہ اثر وسیع سے وسیع تر کررہی ہیں۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ ایسی کتابیں لکھے جانے کی ضرورت ہے جو عصر جدید کے تقاضوں کوکماحقہ پورا کرسکیں۔

امام کی خدمت میں ایک حقیر تحفہ

پیش نظر کتاب جو حقیقتاً خاندان نبوت کے دریائے فضائل کے سامنے ایک قطرہ یا اُس سے بھی کم تر حیثیت کی حامل ہے، مجھ ناچیز کی طرف سے جناب مولائے متقیان امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی خدمت اقدس میں یہ حقیر تحفہ اور اُن کے فرزند باکمال، قطب عالم امکان، بقیة اللہ الاعظم امام زمانہ علیہ السلام کے توسط سے پیش ہے۔

اس اُمید کے ساتھ کہ میری یہ بہت مختصر اور حقیرکوشش شاید اُن افراد کیلئے جو ان بزرگوں کے اعلیٰ کردار ، بزرگی اور عظمت و بلندی کی مکمل پہچان کی جستجو میں ہیں، مددگار ثابت ہو، اور وہ تلاش حق میں کامیاب ہوں ،نیز اُن افرادکیلئے جن کے دل محبت اہل بیت نبوت سے سرشار ہیں، مزید تقویت ایمانی کا باعث بنے۔ انشاء اللہ مجھے خدائے بزرگ و برترسے اُمید کامل ہے کہ جس دن

۴

( یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالَ وَلا بَنُون )

کی صدابلند ہوگی، اُس دن اہل بیت سے ہمارا یہ رشتہ عشق و محبت توشہ آخرت ثابت ہوگا اور یہ بزرگ اُس دن ہمیں لوائے حمد کے سایہ میں جگہ دیں گی۔

معاشرے میں صالح حکومت اور مخلص رہبر کی ضرورت

اس میں کوئی شک نہیں کہ صالح حکومت اور مخلص رہبر کا وجود ہر معاشرے کی بنیادی اور اہم ترین ضرورت ہے۔ دنیا کے تمام عاقل اور دانشمند حضرات اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور اسے معاشرے کی سلامتی اور ترقی کیلئے بنیادی شرط مانتے ہیں ۔ مخلص رہبر کا ہونا تو سب سے اہم اور لازم ہے، اس کے بغیر کسی بھی معاشرے کا قائم رہنا ناممکن ہے۔ جس معاشرے میں کوئی حکومت اور رہبر نہ ہو، اُسے بیمار اور زوال پذیر معاشرہ سمجھا جاتا ہے۔

کلی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صالح حکومت اورمخلص رہبر (جس نقطہ نظر سے بھی دیکھیں) کی ضرورت روز روشن کی طرح واضح ہے۔

انسانوں کی حکومت بنانے کی کوششیں

یہ نکتہ غور طلب ہے کہ انسان نے حکومت بنانے اور رہبر چننے کی ضرورت کو بہت عرصہ پہلے محسوس کر لیا تھا لیکن ان میں سے بہت سے علوم لازمہ سے باخبر نہ ہونے کی وجہ سے حکومت بنانے اور رہبر چننے کیلئے غلط راستوں پر چلے۔ ہمیں یہ تسلیم کرناہوگا کہ غلطی کی بنیادصرف یہ تھی کہ ان لوگوں نے محض اپنی محدود عقل پر بھروسہ کیا، جبکہ ان کے مقابلہ میں دوسرے گروہ نے پیغمبران خدا کی تعلیمات کی روشنی سے اپنی محدود عقل کو وسعت بخشی۔ اس طرح اُن کی فکری نظر لامحدود اور

۵

کامل تر ہوگئی۔ اس کے نتیجہ میں جلد ہی غلط اور صحیح راستے میں پہچان ہوگئی اور ایسی شکل میں حکومت سامنے آئی جو تمام افراد کی مادّی اور معنوی ضروریات کا خیال رکھے اور یہ حکومت سوائے اللہ تعالیٰ کی حکومت کے اور کوئی نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس سیدھے راستے کے پیروکار ہمیشہ اقلیت میں رہے لیکن اپنے پختہ اورسچے ارادے سے اس کوشش میں رہے کہ ایسی سعادت مند حکومت کا قیام ہوجائے ۔ یہاں تک کہ اللہ نے اپنے پیغمبرخاتم کے ذریعے دین اسلام کو مکمل کردیااور ایک وسیع حکومت اسلامی معرض وجود میں آئی۔ اللہ نے اس حکومت اسلامی کو برقرار رکھنے کیلئے اپنے رسول کے ذریعے ایسے مخصوص افراد کی پہچان کروائی تاکہ اُن کی بدولت یہ اسلامی حکومت اپنے مقاصد عالی تک پہنچ سکے اور لوگ اُن کی اطاعت کرکے حق کے راستے کو پہچانیں اور گمراہی سے بچ جائیں اور منازل عالیہ کو حاصل کرسکیں۔

حکومت اسلامی کی قابل توجہ خصوصیات

حکومت اسلامی کی قابل توجہ خصوصیات جنہوں نے اسے دیگر طرز کی حکومتوں سے ممتاز کردیا، وہ اس کے دو بنیادی اور اہم ستون ہیں ،جن کی وجہ سے انتہائی کم مدت میں اسلام کی آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گئی۔ جلد ہی اس کے لاکھوں بلکہ کروڑوں پیروکار اور معتقدجہان میں پھیل گئے۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے علم و دانش میں ترقی ہوگی، لوگ باقی طرزہائے حکومت کے نقائص اور بے فائدہ ہونے کو جان جائیں گے اور انشاء اللہ حکومت اسلامی کی طرف لوگوں کا رحجان بہت تیزی سے بڑھے گا۔

حکومت اسلامی کی دو قابل توجہ خصوصیات یہ ہیں:

۱۔ اُس خدائے پاک نے جس نے انسان کو خلق کیا اور وہ اس انسان کی تمام مادی اورروحانی ضروریات سے سوفیصد واقف ہے،ایک ایسا نظام حیات کتابی صورت میں عطا کیا جس میں اُس نے اپنے لطف و کرم کی عظمت کے تحت کوئی ایسا ضابطہ حیات جو انسان کی ترقی کیلئے ضروری ہو، کم نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام قوانین الٰہی اپنے انبیاء، اوصیاء اور اولیاء کے ذریعے سے انسانوں تک پہنچا ئے۔

۶

۲۔ اسلام اور حکومت اسلامی کی دوسری قابل توجہ خصوصیت اُن افراد پاک سے تعلق رکھتی ہے جو ان قوانین اور دستورات الٰہی کو انسانوں تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں اوررہیں گے۔

مندرجہ بالا خصوصیات سے ظاہر ہوا کہ حکومت اسلامی میں قوانین کی بنیاد اور اساس قول خداوندی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو لوگوں تک پہنچانے اور معاشرے میں رائج کرنے کے ذمہ دار افراد بھی خدا کی طرف سے متعین ہوں گے۔ پہلے مرحلہ میں خود پیغمبران خدا اور دوسرے مرحلہ میں اُن کے جانشین برحق اس کام کے ذمہ دار ہیں۔

اس بنیاد پر سید المرسلین کے وجود پاک کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت ازلی کے سبب یہ ذمہ داری آپ کے اوصیائے کرام یعنی آئمہ معصومین علیہم السلام کے حصہ میں آئی اور ابھی تک یہ خدا کا کرم بصورت جناب حجة القائم امام مہدی علیہ السلام ابن الحسن عسکری قائم ہے۔ یہاں تک کہ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے دوران بھی لوگوں کو صحیح راستہ بتانے کیلئے اور اُمت مسلمہ کی رہنمائی کیلئے ذمہ داری فقہائے بزرگ و باتقویٰ اور علمائے کرام جن کے سربراہ ولایت فقیہ ہیں، دی گئی ہے۔(۱)

____________________

۱ : کتاب کمال الدین باب۔۴۵ اور دیگر کتب کے حوالہ سے ایک اہم حدیث خود امام زمانہ علیہ السلام(عج) سے یوں نقل ہے:آپ نے اسحاق بن یعقوب ، ایک معروف شیعہ بزرگ عالم(بواسطہ محمد بن عثمان بن سعید) کے خط کے جواب میں ارشاد فرمایا:

”وَاَمَّاالْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوْافِیْهَااِلٰی رُوَاةِ حَدِیثِنَافَاِنَّهُمْ حُجَّتِیْعَلَیْکُم وَاَ نَاحُجَّةُ اللّٰهِ عَلَیْهِمْ“

”تمہارے لئے جو حوادث اور واقعات پیش آئیں، اُن کی رہنمائی کیلئے ہمارے علماء و فقہاء کی طرف رجوع کرو کیونکہ وہ تم سب پر حجت ہیں اور میں اُن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت ہوں“۔

۷

پیغمبر اسلام کے بعد رہبری جامعہ اسلامی میں اختلاف بین المسلمین پر ایک نظر

تاریخ اسلام خطرناک اور حساس واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس میں نشیب و فرازبھی ہیں، کامیابی کی داستانیں بھی ہیں اور پسپائی کے منظر بھی۔انہی راستوں سے تمام ایمان کےدعویداروں کا امتحان بھی ہوا اور آزمائش الٰہی بھی۔ آہستہ آہستہ حقیقی مومن اور ظاہری دعویداران ایمان الگ الگ ہوگئے۔ یہ روش جاری رہی اور تاقیامت جاری رہے گی۔ اس طرح کا ایک واقعہ تاریخ اسلام میں ایسا بھی ہوا جس میں آزمائش کے تمام مواقع موجود تھے۔ ہم مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی اصلی وجہ کو بھی اس میں تلاش کریں گے۔

جب سرورکائنات، اشرف مخلوقات، سبب وجود کائنات، پیغمبر اسلام حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جہان فانی کو خیر باد کہہ کر لقائے رب العالمین کیلئے اُس جہان کی طرف منتقل ہوئے تو سارا عالم اسلام ماتم کدہ بن گیا(۱) ۔ ہر دل غمگین ہوگیا اور ہر چہرہ پریشان ہوگیا۔

_____________________

۱:جناب رسول خدا کے انتقال کے فوری بعد ایک گروہ سقیفہ بنی ساعدہ میں نئے رہبر اور خلیفہ کے انتخاب میں مشغول ہوگیا۔ان لوگوں نے امامت اور رہبر کے بارے میں اپنے پیغمبر کی تمام نصیحتوں اور فرامین کو یکسر فراموش کردیا۔جبکہ حضرت علی علیہ السلام اور چند دیگر اصحاب خاص رسول خدا کے کفن و دفن میں مصروف تھے۔

۸

اُن مخصوص حالات میں تمام مسلمانان عالم پر واجب تھا کہ وہ رسول خدا کی واضح نصیحتوں اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور رہبری کے بارے میں ارشادات کو پیش نظر رکھتے تاکہ تمام مسلمانوں کو ہر قسم کے فتنہ و فساد سے بچایا جاسکتا۔ لیکن افسوس !ایسا نہ ہوا۔ مسلمانوں میں سے ایک گروہ کی لاعلمی کی وجہ سے اور منافقین کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اہم فیصلے ایسے افراد کےہاتھوں میں آگئے جو اس کے اہل نہیں تھے، جنہوں نے مسلمانوں کی عدم توجہ سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور پیغمبر اسلام کی تمام نصیحتوں اور برملا اعلانات کو پس پشت ڈال دیا۔ اس طرح عوام الناس کو خدا کے چنے ہوئے برگزیدہ اماموں کی رہنمائی سے محروم کردیا گیا۔

ان وجوہات کی بناء پر اور عالم اسلام کی سلامتی کی خاطر سب سے پہلے جناب سیدہ فاطمة الزہراسلام اللہ علیہا نے شہادت پائی۔ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا ایک عظیم عالمہ اور ولایت علی علیہ السلام کی سب سے بڑی محافظہ تھیں۔ آپ رسول اللہ کے بہت نزدیک تھیں۔ مزید برآں خاص اصحاب رسول اُس معاشرے میں تن تنہا رہ گئے اور دوسرے افراد حکومت میں نفوذ کرگئے۔

اس طرح مسئلہ خلافت اور حکومت پر مسلمان دودھڑوں میں تقسیم ہوگئے اور آہستہ آہستہ یہ خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی اور یہ بات مسلمانوں میں مزید دھڑے بندیوں کا باعث بنی۔

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد عیسائی، یہودی اور اُن تمام لوگوں نے جن کے دلوں میں اسلام کے خلاف کینہ تھا، اس سانحہ عظیم سے بہت فائدہ اٹھایا اور ہر ممکنہ کوشش کی کہ مسلمانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ اختلافات پیدا کئے جائیں۔ اُن کااصلی مقصد تو صرف دین اسلام کی بنیاد اکھاڑنا تھا۔ وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئے ۔ وہ افراد جنہوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کئے اور اس چیز کا باعث بنے کہ مسلمان قیامت تک متحد نہ ہو سکیں، یقینا اُس دن اُن سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، جس دن چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور چھوٹی سے چھوٹی بدی کا بھی حساب ہوگا۔ اُس وقت اُن کے پاس شرمساری کے سوا کوئی جواب نہیں ہوگا۔ البتہ اُس دن شرمساری کوئی فائدہ نہیں دے گی۔

۹

آج ضرورت وقت کیا ہے؟

رحلت رسول خدا کے بعد مسلمانوں کو جوتلخ تجربات ہوئے اور جن نازک حالات سے گزرے، اُن کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان جس فرقہ یا نظریہ کے بھی ماننے والے ہوں، اپنا فرض سمجھ کر آگے آئیں اور موجودہ دور کی ترقی علم و دانش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رسول خدا کے اُن تمام ارشادات جو انہوں نے حکومت اسلامی اور اس کے رہبران کے تعارف کیلئے فرمائے، کا مطالعہ کریں۔ یہ مطالعہ اُسی وقت فائدہ دے گا جب ہر قسم کے تعصبات اور شیطانی وسوسوں کو بالائے طاق رکھ کر تلاش حق کیلئے جستجو کی جائے۔

ملت اسلامیہ سے عمومی طور پر اور برادران و خواہران اہل سنت سے خصوصی طورپر مخلصانہ درخواست ہے کہ علمائے اہل سنت کی کتابوں کا بھی مطالعہ کریں جن میں انہوں نے مقام اور فضائل حضرت علی علیہ السلام بیان کئے ہیں۔

قرآن پاک میں بہت سی آیات ہیں جو حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت کی شان میں نازل ہوئیں۔ اس بارے میں رسول خدا کی بہت سی روایات موجود ہیں۔ ان کے علاوہ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر، خلیفہ دوم حضرت عمر، خلیفہ سوم حضرت عثمان اور حضرت عائشہام المومنین اور دیگر فلسفی اور دانشمند حضرات نے بیشمار فضائل حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بیان فرمائے ہیں۔ اس لئے ہماری گزارش ہے کہ اُن کا بھی مطالعہ کیا جائے۔ اس طرح پڑھنے والے کو اصل حقائق جس طرح واقع ہوئے ہیں، کا علم ہوجائے گا۔

کچھ اس کتاب کے بارے میں

کتاب ہذا کے چند باب ہیں ،جس کے باب اوّل میں امامت کے بارے میں دلائل عقلی لکھے گئے۔ بعد کے ابواب میں روایات اور دیگر مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ سب سے زیادہ روایات برادران اہل سنت کی کتابوں سے لی گئی ہیں تاکہ برادران و خواہران اہل سنت اپنی ہی کتابوں کے مندرجات سے آگاہ ہوں اور مقام اعلیٰ و عظمت حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت اطہار سے آشنا ہوں۔

۱۰

کتاب کے باقی ابواب میں موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے آیات قرآنی، احادیث پیغمبر اکرم، بیانات خلفائے اوّل ، دوم اور سوم، حضرت بی بی عائشہ اُم المومنین اور علمائے اہل سنت کو جمع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں غیر مسلم دانشوروں کے نظریات کو بھی ایک باب میں اکٹھا کیا گیا ہے۔

آخر میں مخالفین اور دشمنان حضرت علی و اہل بیت علیہم السلام کے نظریات بھی تحریر کئےگئے ہیں۔

مجھے اُمید ہے کہ خدا کے لطف و کرم سے اور امام زمانہ حضرت حجة ابن الحسن علیہ السلام کی نظر عنایت سے یہ کتاب تمام مسلمان بھائیوں کیلئے مفید ثابت ہوگی۔

میں خدائے پاک کا شکرگزار ہوں کہ جس نے مجھے ہمت اور توفیق دی کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کے خانوادئہ نورانی کی تھوڑی سی خدمت کرسکوں۔میں واجب سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر امام خمینی اور دیگر شہدائے اسلام اور خصوصاً اپنے عزیز یحییٰ سراج کو خراج تحسین پیش کروں۔

میں مولا علی علیہ السلام کے فرزند صالح ، رہبرمعظم ایران حضرت آیت اللہ علی خامنہ ای مدظلہ العالی اور تمام خدمت گزاران اسلام جو امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کیلئے سازگار ماحول پیدا کررہے ہیں، کی سلامتی اور درازی عمر کا خواہاں ہوں۔

آخر میں اُن تمام رفقائے محترم کا جنہوں نے میرے اس کام میں میری مدد فرمائی

(استاد محترم حضرت حجة الاسلام والمسلمین حاجی شیخ ید اللہ سراج اور استاد محترم حضرت حجة الاسلام حاجی شیخ محمود گودرزی زاہدی اور ناشر محترم جناب آقای سید مہدی نبوی) کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور خدائے بزرگ وبرترسے اُن کیلئے اجر عظیم کا طلبگار ہوں۔

والحمدللّٰه ربّ العالمین

۱۵/شعبان المعظم۱۴۱۲ہجری

محمد ابراہیم سراج، قم،المقدسہ ایران

۱۱

پہلا باب بحث عقلی

عقلی دلائل پر توجہ دینے کی ضرورت

تمام بنی نوع انسان عقلی دلائل کو نہایت اہمیت دیتے ہیں ۔اس طرح عقلی دلائل اور عقلی بحث کا ایک خاص مقام ہے۔ اسلام میں بھی اس کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں بار بار انسانوں کو فکر کرنے اور عقل سے کام لینے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور(آیات قرآن جیسےافلاتعقلون : سورئہ بقرہ۴۶۔۷۶،لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْن ،سورئه بقره:۷۳-۲۴۲، اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاٰیٰاتٍ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْن ،سورئه رعد:۴، سورئہ نحل۱۲اور اسی طرح دوسرے مقامات پر۔اَکْثَرُهُمْ لٰا یَعْقِلُوْن :سورئہ عنکبوت۶۳، سورئہ مائدہ۱۰۳ اور دوسری آیات)عقل سے کام نہ لینے کی مذمت کرتا ہے۔ درحقیقت اسلام کے جدیدمسائل کے اجتہاد کیلئے عقلی دلائل سے مطابقت ایک اہم شرط ہے، کیونکہ شریعت کے احکام عقل و دانائی کے عین مطابق ہیں اور ذات باری تعالیٰ کوئی حکم خلاف عقل صادر نہیں کرتی۔

اس سے معلوم ہوا کہ شرعی احکام اور عقل کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے۔ ہر وہ چیز جس کو عقل سلیم تسلیم کرتی ہے، شریعت بھی اُس کی تائید کرتی ہے۔ لہٰذا عقل کا کسی چیز کو تسلیم کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے اور لازماً اُس پر توجہ دینی چاہئے۔ اسی قانون کے پیش نظر اس کتاب میں بھی محققین اور دانشور حضرات کیلئے امامت اور رہبری کے موضوع پر اس طرف خصوصی توجہ دی گئی ہے،نیز روایات اور احادیث کو بیان کرنے سے قبل عقلی دلائل کو زیر بحث لایا گیا ہے تاکہ اس اہم موضوع کیلئے تمام دلائل عقلی واضح ہوجائیں اور روایات، احادیث اور آیات قرآن کریم کو پڑھنے کے بعد فیصلہ کرتے وقت کام آسکیں اور ہم منزل مقصودکو پاسکیں۔

۱۲

مسئلہ امامت پر بحث کی ضرورت

بعض اوقات اسلام کے بنیادی اصولوں سے بالکل ناواقف اور کم علم لوگ بڑی سنجیدگی سے اسلامی مسائل پر رائے زنی کرتے ہیں۔اس کا نتیجہ سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں ہوتا کیونکہ جب بھی لاعلمی اور عدم آگاہی کی بنیاد پر کسی موضوع پر اظہار خیال کیا جائے تو پریشانی افکار اور پراگندگی اذہان کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیںآ تا۔

افسوس کہ یہ علم سے بے بہرہ لوگ، دین اسلام کے دو اہم مسائل یعنی امامت اور رہبری پر ماضی میں بھی اظہار خیال کرتے رہے ہیں اور اب بھی کررہے ہیں۔ اس سے بُرے عزائم رکھنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ وہ ان لوگوں سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امامت اور خلافت کے بارے میں کوئی بات کرنا، یا رسول پاک کے انتقال کے بعد کس کو زمام حکومت سنبھالنا چاہئے تھی؟ اس پربحث کرنا زمانہ گزشتہ کی بات ہے جسے کئی صدیاں گزر چکی ہیں۔ لہٰذا اس پر بحث کرنے کا کوئی نتیجہ یا فائدہ نہیں ،کیونکہ اس کی حیثیت صرف تاریخی رہ گئی ہے۔

اس طرح کے نتائج نکالنے والوں پرحقائق واضح کرنے کی ضرورت ہے ، اس لئے ذیل میں چند نکات پیش خدمت ہیں جو اس طرح کے سوالات اور شبہات کے روشن جوابات ہیں:

اوّل: گو مسلمانوں کی امامت اور رہبری جیسے اہم مسائل رسول خدا کی وفات کے بعد بہت پرانے ہوچکے ہیں اورانہیں صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ان پر بحث کرنا بہت ہی اہم ہے۔ کیونکہ مسلمانوں اور حق طلبوں کی تاریخ اس سے وابستہ ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ اگر ان موضوعات پر کوئی بحث اور تحقیق نہ ہو تو لوگوں کو صراط مستقیم کا سراغ نہیں مل سکتا بلکہ آہستہ آہستہ وہ راہ حق سے دور ہوتے جائیں گے اور حقائق اسلام اُن سے پوشیدہ رہیں گے۔ آئمہ معصومین (پیغمبر اسلام کے برحق نائبین) کو نہ پہچاننے کی وجہ سے بہت سے اسلامی فرقے غلط راستوں پر چل پڑے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے امامت اور رہبری جیسے اہم مسائل کیلئے اُن تفاسیر اور روایات نبوی سے مدد لی جن کے لکھنے والے کسی نہ کسی اعتبار سے قابل اعتماد نہ تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان مسائل پر اُن کا نظریہ نہ تو قرآن پاک سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی معتبرروایات سے۔

۱۳

دوسرا: عقلی دلائل کی بنیاد پر یہ ثابت ہے کہ دین اسلام میں امام کا انتخاب خدائے پاک کی رف سے ہونا چاہئے نہ کہ لوگوں کی طرف سے۔ صرف اور صرف اسی ایک نکتہ پر اگرتمام مسلمانان عالم تحقیق کریں اور توجہ دیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی پاک کے بعد امام اور ولی کے طور پرکس کا تعارف کروایا ہے؟ تاکہ اُس کی اطاعت اور پیروی کرکے سعادت اُخروی پر فائز ہوسکیں۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امامت کے موضوع پر تحقیق کرنا انتہائی ضروری ہے۔

انتخاب امام پر سنی اور شیعہ حضرات کا نظریہ

نبی کے بعد امام کا انتخاب کیسے کیا جائے، اس کو جاننے کیلئے ہم اہل سنت اورشیعہ حضرات دونوں کے نظریات کا الگ الگ جائزہ لیں گے اور اُن کو عقل و منطق کی کسوٹی پر

پرکھیں گے۔

انتخاب امام کیلئے علمائے اہل سنت کا نقطہ نظر

علمائے اہل سنت کے نزدیک امام کا انتخاب ایک اجتماعی مسئلہ ہے جو تقریباً ہر معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک دنیا کی تمام ملتوں میں پایاجاتا ہے۔ اس کی مثال کسی جمہوری ملک کے ایسے سربراہ کی سی ہے جسے ایک خاص عرصہ اور مدت کیلئے وہاں کے رہنے والے چنیں۔ لہٰذا اہل سنت حضرات مقام امامت اور رہبری کو صرف عمومی حیثیت دیتے ہیں اور لوگ یا وہ افراد جن کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہو، اس مقام اور منصب کیلئے کسی فرد کو چن سکتے ہیں۔

انتخاب امام کیلئے شیعہ علماء کا نقطہ نظر

علمائے شیعہ اور مکتب شیعہ کی نظر میں امامت اللہ کا عطا کردہ منصب ہے اور یہ اللہ ہی کا کام ہے کہ جس فردکو اس مقام اور عہدہ کے لائق اور اس عظیم ذمہ داری کے قابل سمجھے، اُس کا تعارف بطور امام کروائے۔ اس کی دلیل واضح ہے کیونکہ اگر امام اور پیغمبرکو فضائل ، مراتب اور ذمہ داریوں کے اعتبارسے دیکھا جائے تو اُن میں سوائے نزول وحی کے اور کوئی فرق نہیں کیونکہ وحی صرف نبیوں اور رسولوں کیلئے مخصوص ہے۔

۱۴

جس طرح ایک نبی کے انتخاب میں عوام کو کوئی اختیار حاصل نہیں ، اسی طرح امام کے انتخاب میں بھی اُن کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہوگا۔مندرجہ ذیل دلائل اس کی تصدیق کرتے ہیں:

(ا)۔ اگر انتخاب امام کا اختیار لوگوں کو دے دیا جائے تو یہ لوگوں کے درمیان شدید اختلافاور تفرقہ کا باعث بنے گا۔اس صورت میں ہر گروہ اور قبیلہ امام کے انتخاب کیلئے اپنے اپنے منظور نظر افراد کو پسند کرے گا۔

(ب)۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ لوگ بغیر کسی اختلاف کے کسی ایک شخص کواس مقام کیلئے چن لیں گے تو پھر بھی اُن کا یہ عمل خطا سے بَری نہیں کہا جاسکتا کیونکہ عین ممکن ہے کہ وہ شخص جس کو چناگیا ہے، اُس میں وہ صلاحیتیں جو اس ذمہ داری کو نبھانے کیلئے ضروری ہیں، نہ ہوں۔ اس طرح ایک نادرست عمل کی وجہ سے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اور وہ صراط مستقیم سے بھٹک سکتے ہیں اور اس طرح تمام نبیوں اور رسولوں کا بڑی زحمتوں سے کیا ہوا تبلیغی کام ضائع ہوسکتا ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ جس دین کو پھیلانے کیلئے خدانے اپنے بندگان خاص سے صدیوں تک کام لیا ہو، اُسی دین کو اب بے یارومددگار چھوڑ دے ۔ یہ اُس کی حکمت اور لطف و کرم سے بعید ہے۔ اُس کی ہرگز یہ منشاء نہیں ہوسکتی کہ لوگ گمراہی اور نقصان کے راستے پر چلیں۔

خدا کی حکمت اور لطف و کرم کا تقاضا

اس دنیا میں جب ہم وحدت خداوندی کو دیکھتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ ہدایت عمومی کیلئے ایک واضح اور روشن دلیل بھی نظر آتی ہے۔ اگر ہم اس کو پہچان لیں تو بہت سے شکوک و شبہات دور ہوجاتے ہیں اور بہت سے سوالات کا جواب بھی مل جاتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ جب پروردگار اپنے لطف و کرم سے اپنی مخلوق کو پیدا کرتا ہے تو ہر پیدا ہونے والے کو صراط مستقیم اور منزل مقصود کی ہدایت کرتاہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ دنیا کی کسی مخلوق کا کوئی فرد بھی خدا کے اس قانون سے باہر نہیں ،حتیٰ کہ انسان بھی جو خدا کی ایک مخلوق ہی نہیں بلکہ اُس کی نظر میں اشرف المخلوقات ہے۔

۱۵

قرآن مجید نے انسان کے احترام و اکرام کے بارے میں واضح ارشاد فرمایا ہے:

( وَلَقَدْ کَرَّمْنَابَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنَهُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَهُمْ مِّنَ الطَّیِبٰتِ وَفَضَّلْنَهُمْ عَلٰی کَثِیْرٍمِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا ) (سورئہ بنی اسرائیل:آیت۷۰)

”اوریقینا ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور خشکی و تری میں ان کوسواریاں دیں اور اچھی اچھی چیزوں سے اُن کو روزی دی اور بہت سی مخلوق پر ان کو فضیلت دی جیسا کہ فضیلت دینے کا حق ہے“۔

وہ بھی خدا کی جانب سے اس قانون کے تحت ہدایت کیا گیا ہے۔

البتہ انسان تنہا اپنی عقل کے بل بوتے پر ہرگز اُس منزل کمال کو نہیں پہنچ سکتا جو اُس کی تخلیق کا مقصد تھا۔لہٰذا ضروری تھا کہ خدا انسان کی ہدایت کا انتظام رسولوں، نبیوں اور اپنی کتب کے ذریعے سے کرے اور یہ سلسلہ ہدایت خاتم النبیین حضرت محمد کی بعثت پر اختتام پذیر ہو۔

اب یقینایہ سوال پیداہوگا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجنے کا سلسلہ خاتم المرسلین کے بعد بند کردیا تو لوگوں کی ہدایت بغیر کسی نبی کے کیسے ممکن ہوگی۔ یعنی تاروز قیامت لوگ کس طرح حق و باطل ، غلط و صحیح اور کج روی و صراط مستقیم میں فرق جان سکیں گے۔ اس کے علاوہ کون اُن کو جعلی احادیث، آیات قرآنی کی تفسیربالرائے، بدعتوں کی شناخت اورجدید مسائل کے بارے میں ہدایت کرے گا! یہ خدا کی عنایات غیر محدود سے بعید ہے کہ وہ اپنے بندوں کو خاتم المرسلین کے بعد بغیر کسی رہبر یا ہادی کے لاوارث چھوڑ دے اور گمراہ کرنے والوں کیلئے میدان کھلا چھوڑ دے۔ نہیں ،ہرگز نہیں!! ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ اُس نے تو اپنے منتخب نمائندوں کا لوگوں میں تعارف کرواکے اُن کی ہدایت دائمی کا سامان مہیا کردیا۔ یہ اُس کی مہربانی اور فضل و کرم کی بہترین مثال ہے۔

ان سوالات کے جوابات کیلئے ہم عقل سلیم کی طرف رجوع کرتے ہیں اور جو جوابات ملیں، اُن کو اپنی بحث میں شامل کرتے ہیں۔

۱۶

ہدایت الٰہی کی تعریف

ہدایت الٰہی کی تعریف یہ ہے کہ وہ انسان کو وہ راستہ دکھائے جس پر چل کر انسان فلاح و بہبود پائے اور گناہ و گمراہی سے دور رہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی منزل کی طرف رہنمائی دعوت ارشاد، تبلیغ حق اور فرمان الٰہی کیبغیرممکن نہیں۔نصیحت و تبلیغ کی ضرورت تو انسان کو ہمیشہ رہتی ہے۔ علم کلام کے اساتذہ کے مطابق خدا پر واجب ہے کہ وہ انسان کی ہدایت کیلئے کرئہ ارض کو اپنے ہادی سے خالی نہ رکھے کیونکہ اگر حق تعالیٰ کی طرف سے اس میں کمی یا نفی ہو تو اس کا لازماً اثر یہ ہوگا کہ غرض خلقت بشر پوری نہ ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں بغیر سامان ہدایت مہیا کئے مقصد خدا ناکام رہے گا۔مقصد میں ناکامی بجائے خود ایک ناپسندیدہ اور قبیح چیز ہے۔ خدا کی ذات بغیر کسی شک کے ہر قسم کے ناپسندیدہ اور قبیح افعال سے پاک و منزہ ہے۔

لہٰذا اُس کی حکمت و رحمانیت و ہدایت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کو کبھی بھی ہادی برحق اور رہنما سے محروم نہ رکھے۔ قابل ستائش رہبروں کو بھیج کر انسان کو ہر طرح کی گمراہی و بےراہ روی سے نجات دیدے۔

پس اس بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ امامت حقیقت میں خدا کی جانب سے انسان کو کمال تک پہنچانے کیلئے ہدایت اور حجت ہے۔

امام ہونے کی شرائط اہل سنت اور شیعہ حضرات کی نگاہ میں

گزشتہ بحث میں انتخاب امام کیلئے اہل سنت اور شیعہ حضرات کے جدا جدا نظریات بیان کئے گئے۔ اب ہم امامت اور خلافت جیسے اہم مراتب کیلئے امام ہونے کی لازم شرائط کے بارے میں اہل سنت اور شیعہ حضرات کے نظریات بیان کریں گے۔

علمائے اہل سنت کی نگاہ میں شرائط امام

علمائے اہل سنت کی نظر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امام یا خلیفہ چننے کیلئے کسی خاص شرط کی ضرورت نہیں بلکہ یہ ایک عادی اور معمول کا عمل ہے اور لوگ اختیار رکھتے ہیں کہ اپنے امام کو چن لیں۔ کسی شخص کی ظاہری قابلیت اُس کو اس عہدہ پر چننے کیلئے کافی سمجھی جاتی ہے اور دیگر کسی خصوصی شرط کی کوئی قید نہیں۔

۱۷

علمائے شیعہ کی نگاہ میں شرائط امام

لیکن شیعہ علماء برخلاف نظریات برادران اہل سنت اس عظیم منصب کیلئے ، جو قوموں کے حالات بدل کر رکھ دے، کو اس طرح آسانی سے چن لینے کو صحیح نہیں سمجھتے۔ وہ تو امام یا وصی نبی کیلئے چند خاص شرائط کو لازم سمجھتے ہیں اور ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنے دعویٰ کو قوت بخشتے ہیں۔ ان کے خاص خاص دلائل ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:

(ا)۔ کیونکہ امام نبی کا وصی ہونے کے ناطے اُس کی تمام تبلیغات اور دین و شریعت کےسلسلہ کو جاری و ساری رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے، لہٰذا اُس کی ذمہ داری بھی عین نبی کی ذمہ داری کے مساوی ہوتی ہے۔ اگر مقام وحی کو الگ سمجھا جائے تو مقام امام اور مقام نبی میں کوئی فرق نہیں رہتا اور امام کو بھی اُسی علم ، حلم ، تقویٰ اور دیگر کمالات کا حامل ہونا چاہئے جن کا نبی حامل ہے۔ امام کی عادات و اطواراوراوصاف بھی وہی ہونے چاہئیں جو نبی کے ہوں تاکہ وہ نبی کا پورا پوراعکس ہو۔

(ب)۔ شریعت محمدی بغیر کسی شک و شبہ کے آخری شریعت الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مکمل اور تسلیم شدہ دین بنا کر لوگوں تک پہنچایا ۔ اس کی تصدیق میں ارشاد خداوندی ہے:

( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ )

”آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کردیا“۔(سورئہ مائدہ:آیت۳)

( اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ )

”اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین صرف اسلام ہے“۔(آل عمران:آیت۱۹)

یہ دین قیامت تک انسانوں کے مادی و روحانی تجسسّات و سوالات کا جواب دہندہ رہے گا۔

رسول خدا نے اپنے اوصاف اعلیٰ اور کمال علم کے باوجود بعض مسائل انسانی جو زمان و مکان سے مربوط ہیں، مصلحت دین کی خاطر بیان نہ فرمائے تاکہ لوگوں کے فہم و ادراک میں بلندی آنے پر دین کے اُن مسائل پر اُس زمانے میں تحقیق کی جاسکے۔

۱۸

اس بناء پر ذات حق پر واجب ہوا کہ وہ ہدایت الٰہیہ کی گزشتہ روایت کو جاری رکھتے ہوئے ایسے افراد کو چنے اور یہ ذمہ داری سونپے کہ وہ لوگوں کو احکام خدا پہنچاتے رہیں۔ زمانہ جدید کے تقاضوں کے عین مطابق دینی مسائل کے حل کیلئے قیامت تک رہنمائی کرتے رہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ جن اشخاص کو یہ ذمہ داری سونپی جائے، وہ کردار و رفتار ، علم و حلم ، عصمت و صداقت اور پاکیزگی میں یا باالفاظ مختصر وہ تمام صفات و عادات جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تھیں، اُن میں بھی ہونی چاہئیں۔ ابلاغ و تبلیغ جیسے کٹھن کام اور شریعت کے مشکل مسائل کو حل کرنے کیلئے اُن میں بھی رسول پاک جیسا وسیع خداداد علم ہونا چاہئے۔

اس طرح ایسے افراد کو پاک طینت، زندہ و روشن ضمیر ہونا چاہئے اور ہر طرح کی خطا اور گناہ سے بھی مبرا ہونا چاہئے تاکہ لوگوں کا اعتماد ہمیشہ بحال رہے۔ مزید برآں اُن کو دین میں ممکنہ تبدیلی کرنے یا کوئی بدعت شروع کرنے سے بھی پاک و منزہ ہونا چاہئے۔

اوپر بیان کئے گئے دلائل سے ثابت ہواکہ امام اور وصی نبی کو یقینا خصوصی شرائط کا حامل ہونا چاہئے۔ ذیل میں اہم شرائط کو بیان کیا جاتا ہے:

اہم شرائط امام کی تشریح

عصمت و پاکدامنی

سب سے اہم شرط جو امام میں لازماً ہونی چاہئے، وہ اُس کی عصمت اور پاکدامنی ہے یعنی امام کو معصوم ہونا چاہئے۔ اس شرط کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی اس شرط کا قائل نہیں تو وہ واضح دلائل کی روشنی میں اپنے دعویٰ میں خرابی کا شکار ہوجائے گا کیونکہ یہ تسلسل کا محتاج ہوجائے گا۔اس کی تشریح درج ذیل ہے:

امام کے وجود کی ضرورت اسی بناء پر ہے کہ وہ انسانوں کیلئے شمع ہدایت ہو اور ظلم و زیادتی اور فساد کو روکنے والا ہو، اگر امام خود معصوم نہیں ہوگا تو وہ کسی اور امام کا محتاج ہوگا جو اُس کی رہنمائی کرسکے اور اُسے بُرے کاموں سے روکے، اسی طرح یہ دوسرا امام کسی تیسرے امام کا محتاج ہوگا، لہٰذا یہ سلسلہ ایک غیر متناہی صورت پیدا کرے گا جو عقلاء کی نظر میں باطل ہے۔

۱۹

اس کے علاوہ اگر امام معصوم نہ ہو تو دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہوجائے گا کہ امام سے گناہ سرزد ہونے کی صورت میں لوگوں کے پاس دو راستوں کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ ہوگا:

پہلا راستہ

لوگ امام کو اُس کے گناہ کرنے کی وجہ سے تنبیہ کریں اور آئندہ کیلئے منع کریں۔ اس صورت میں امام اپنے منصب اعلیٰ سے پستی میں گر جائے گا اور لوگوں کا اُس پر اعتماد اٹھ جائے گا۔ اُس کے احکام دینی و دنیوی میں کوئی اثر باقی نہیں رہے گا۔ اس طرح اُس کے امام ہونے کا فائدہ زائل ہوجائیگا۔

دوسرا راستہ لوگ امام کو اُس کے گناہ پر منع نہ کریں ۔ اس صورت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وجود معاشرے میں ختم ہوجائے گا جو بغیر کسی شک کے مزید خرابیوں کا راستہ ہے۔امام کی تو سب سے بڑی ذمہ داری ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے تاکہ شریعت دین کی حفاظت کی جاسکے۔ اگر امام بھول چوک سے بھی خطا کر بیٹھے تو لوگوں کو اُس کے کسی بھی حکم پر حکم خدا کے مطابق ہونے پر شک رہے گا۔

لہٰذادرج بالا بحث سے ثابت ہوا کہ یہ راستہ بھی ٹھیک نہیں۔

عہد خدا ظالموں تک نہیں پہنچ سکتا

امام کے معصوم ہونے کی ایک اور محکم دلیل قرآن سے بھی ثابت ہے۔ سورئہ مبارکہ بقرہ کی آیت ۱۲۴ میں ارشاد خداوندی ہے:

( لَایَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ )

”میرا عہد(امر امامت و رہبری) ظالموں تک نہیں پہنچے گا“۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

وضو

مسئلہ ٢ ۴ ٢ وضوميں واجب ہے کہ چہرہ اور دونوں ہاتھ دهوئے جائيں، سر کے اگلے حصے اور دونوں پاؤں کے سامنے والے حصے کا مسح کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٣ چھرے کو لمبائی ميں پيشانی کے اوپر اس جگہ سے لے کر جهاں سر کے بال اگتے ہيں ٹھ وڑی کے آخری کنارے تک دهونا ضروری ہے اور چوڑائی ميں بيچ کی انگلی اور انگوٹھ ے کے پهيلاؤميں جتنی جگہ آجائے اسے دهونا ضروری ہے اور اتنی مقدار دهل جانے کا یقين حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس مقدار کی اطراف سے بھی کچھ دهولے۔

مسئلہ ٢ ۴۴ اگر کسی شخص کے ہاتھ یا چہرہ عام لوگوں کی نسبت بڑے یا چھوٹے ہوں تو ضروری ہے کہ عام لوگوں کو دیکھے کہ کهاں تک اپنا چہرہ دهوتے ہيں پھر وہ بھی اتنا ہی دهوئے۔

هاں، اگر اس کے ہاتھ اور چہرہ دونوں عام لوگوں کی نسبت فرق کرتے ہوں ليکن آپس ميں متناسب ہوں تو ضروری ہے کہ پچهلے مسئلے ميں بيان شدہ کيفيت کے مطابق دهوئے۔

مسئلہ ٢ ۴۵ اگر اس بات کا احتمال ہو کہ بهوؤں، آنکه کے گوشوں اور ہونٹوں پر ميل یا کوئی اور ایسی چيز ہے جو پانی کے ان تک پهنچنے ميں مانع ہے اور اس کا یہ احتمال عقلائی ہو تو ضروری ہے کہ وضو سے پهلے تحقيق کر لے تاکہ اگر کوئی ایسی چيز ہو تو اسے دور کر لے۔

مسئلہ ٢ ۴۶ اگر چھرے کی جلد بالوں کے نيچے سے نظر آتی ہوتو پانی جلد تک پهنچانا ضروری ہے اور اگر نظر نہ آتی ہو تو بالوں کا دهونا کافی ہے اور ان کے نيچے تک پانی پهنچانا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ آیا اس کے چھرے کی جلد بالوں کے نيچے سے نظر آتی ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ بالوں کو دهوئے اور پانی کو جلد تک پهنچائے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨ ناک کے اندرونی حصے اور ہونٹوں اور آنکہوں کے ان حصوں کا جو بند کرنے پر نظر نہيں آتے، دهونا واجب نہيں ہے ، ليکن اس بات کا یقين حاصل کرنا ضروری ہے کہ جن جگہوں کو دهونا ضروری ہے اس ميں سے کچھ باقی نہيں رہا ہے اور جو شخص یہ نہيں جانتا تھا کہ واجب کی انجا م دهی کے یقين تک دهونا ضروری ہے ، اگر نہ جانتا ہو کہ جو وضو اس نے کئے ہيں اس ميں اس نے اس مقدار تک دهویا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اس وضو کے ساته پڑھی گئی نماز کا وقت اگر باقی ہے تو اسے نئے وضو کے ساته دوبارہ پڑھے اورجن نمازوں کا وقت گذر چکا ہے ان کی قضا کرے۔

۴۱

مسئلہ ٢ ۴ ٩ ہاتھوں کو وضو ميں اوپر سے نيچے کی طرف دهونا ضروری ہے اور اگر نيچے سے اوپر کی طرف دهوئے تو وضو باطل ہے اور بنا بر احتياط واجب چھرے کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠ اگر ہاتھ کو تر کر کے چھرے اور ہاتھوں پر پهيرا جائے اور ہاتھ ميں اتنی تری ہوکہ ہاتھ پهيرنے سے ذرا سا پانی ان پر بهے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ١ چہرہ دهونے کے بعد ضروری ہے کہ پهلے دایاں اور پھر بایاں ہاتھ کهنی سے انگليوں کے سروں تک دهویا جائے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢ کهنی کے مکمل طور پر دهل جانے کا یقين حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کهنی سے اوپر کی کچھ مقدار بھی دهوئے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣ جس شخص نے چہرہ دهونے سے پهلے اپنے ہاتھوں کو کلائی تک دهویا ہو ضروری ہے کہ وضو کرتے وقت انگليوں کے سروں تک دهوئے، اگر وہ صرف کلائی تک دهوئے گا تو اس کا وضو باطل ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۴ وضو ميں چھرے اور ہاتھوں کا دهونا پهلی مرتبہ واجب، دوسری مرتبہ مستحب اور تيسری مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ دهونا حرام ہے ۔ جهاں تک یہ سوال ہے کہ کون سا دهونا پهلا، دوسرا یا تيسرا ہے اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ اعضاء وضو کو وضوکی نيت سے دهویا جائے، مثلاًاگر تين مرتبہ چھرے پر پانی ڈالے اور تيسری مرتبہ وضو کے لئے دهونے کی نيت کرے، تو کوئی حرج نہيں اور تيسری مرتبہ دهونا پهلا دهونا شمار ہو گا، ليکن اگر تين مرتبہ چھرے پر پانی ڈالے اور ہر مرتبہ وضو کے لئے دهونے کی نيت کرے تو تيسری مرتبہ پانی ڈالنا حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۵ ضروری ہے کہ دونوںہاتھ دهونے کے بعد سر کے اگلے حصے کا، ہاتھ ميں رہ جانے والی وضو کے پانی کی تری سے مسح کرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ مسح سيدهے ہاتھ کی ہتھيلی کی طرف سے کيا جائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اوپر سے نيچے کی طرف انجام دیا جائے۔

مسئلہ ٢ ۵۶ سر کے چار حصوں ميں سے ایک حصہ جو پيشانی سے ملاہو ا ہے ، مسح کر نے کا مقام ہے ۔ اس حصے ميں جهاں بھی اور جس انداز سے بھی مسح کرے کافی ہے اگرچہ مستحب ہے کہ لمبائی ميں ایک انگلی کی لمبائی کے لگ بھگ اور چوڑائی ميں تين ملی ہوئی انگليوں کے لگ بھگ جگہ پر مسح کيا جائے۔

۴۲

مسئلہ ٢ ۵ ٧ یہ ضروری نہيں کہ سر کا مسح جلد پر کيا جائے بلکہ سر کے اگلے حصے کے بالوں پر کرنا بھی درست ہے ليکن اگر کسی کے سر کے بال اتنے لمبے ہوں کہ مثلاً کنگھا کرتے وقت چھرے پر آگریں یا سر کے کسی دوسرے حصے تک جا پهنچيں تو ضروری ہے کہ بالوں کی جڑ پر یا مانگ نکال کر سر کی جلد پر مسح کرے اور اگر وہ چھرے پر آگرنے والے یا سر کے دوسرے حصے تک پهنچنے والے بالوں کو آگے کی طرف جمع کر کے ان پر مسح کرے یا سر کے دوسرے حصوں کے بالوں پر جو آگے بڑھ آئے ہوں مسح کرے تو ایسا مسح باطل ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨ ضروری ہے سر کے مسح کے بعد ہاتھوں ميں بچ جانے والی وضو کے پانی کی تری سے پاؤں کے اوپری حصے کا مسح کرے۔ اس کی واجب مقدار پاؤں کی ایک انگلی سے لے کر گٹوں کے ابهار تک ہے اور احتياط مستحب پاؤں کے جوڑ تک ہے ۔ احتياط واجب یہ ہے کہ سيدهے پاؤں کا مسح الٹے پاؤں سے پهلے کرے، اسی طرح سيدهے ہاتھ سے سيدهے پاؤں اور الٹے ہاتھ سے الٹے پاؤں کا مسح کرے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩ پاؤں پر مسح کی چوڑائی جتنی بھی ہو کافی ہے ليکن افضل یہ ہے کہ پاؤں کے پورے اوپری حصے کا مسح پوری ہتھيلی سے کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠ احتياط واجب یہ ہے کہ پاؤں کا مسح کرتے وقت ہاتھ انگليوں کے سروں پر رکھے اور پھر پاؤں کے ابهار کی جانب کھينچے یا ہاتھ گٹوں کے ابهار یا پاؤں کے جوڑ پر رکھ کر انگليوں کے سروں کی طرف کھينچے، یہ نہ ہو کہ پورا ہاتھ پاؤ ںپر رکھ کر تهوڑا سا کھينچ دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ١ سر اور پاؤں کا مسح کرتے وقت ضروری ہے کہ ہاتھ کو ان پر کھينچے، نہ کہ ہاتھ کو رکھ کر سر یا پاؤں کو حرکت دے، ليکن ہاتھ کھينچنے کے وقت سر یا پاؤں کے معمولی حرکت کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢ ضروری ہے کہ مسح کی جگہ خشک ہو، لہٰذا اگر وہ اس قدر تر ہو کہ ہتھيلی کی تری اس پر اثر نہ کرے تو مسح باطل ہے ۔ ہاں، اگر اس پر نمی یا تری اتنی کم ہو کہ مسح کے بعد جو تری نظر آئے اسے صرف ہاتھ کی تری کها جائے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣ اگر مسح کرنے کے لئے ہتھيلی پر تری باقی نہ رہی ہو تو کسی اور پانی سے تر نہيں کيا جاسکتا، بلکہ ایسی صورت ميں ضروری ہے کہ داڑھی کے اس حصے سے جو چھرے کی حدود ميں ہے ، تری لے کر مسح کرے اور داڑھی کے علاوہ کسی اور جگہ سے تری لے کر مسح کرنا محلِ اشکال ہے ۔

۴۳

مسئلہ ٢ ۶۴ اگر ہتھيلی کی تری صرف سر کے مسح کے لئے کافی ہو تو سر کا مسح اس تری سے کرے اور پاؤں کے مسح کے لئے داڑھی سے، جو چھرے کی حدود ميں داخل ہے ، تری حاصل کرے۔

مسئلہ ٢ ۶۵ موزے اور جوتے پر مسح کرنا باطل ہے ۔ ہاں، اگر سخت سردی کی وجہ سے یا چور یا درندے وغيرہ کے خوف سے جوتے یا موزے نہ اتار سکے تو احتياط واجب یہ ہے کہ موزے اور جوتے پر مسح کرے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٢ ۶۶ اگر پاؤں کا اوپر والا حصہ نجس ہو اور مسح کرنے کے لئے اسے پاک نہ کيا جا سکتا ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

ارتماسی وضو

مسئلہ ٢ ۶ ٧ ارتماسی وضو یہ ہے کہ انسان چھرے اور ہاتھوں کو وضو کی نيت سے پانی ميں ڈبودے ليکن ارتماسی طریقے سے دهلے ہوئے ہاتھ کی تری سے مسح کرنے ميں اشکال ہے ۔ لہذا، اگر بایاں ہاتھ ارتماسی طریقے سے دهوئے تو اس ہتھيلی کی طرف سے کچھ مقدار پانی ميں نہ ڈالے بلکہ سيدهے ہاتھ سے اس حصے کو دهو لے۔

احتياط واجب کی بنا پر اعضائے وضو کوپانی سے باہر نکالنے پر ارتماسی وضو محقق نہيں ہوتا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨ ارتماسی وضو ميں ہاتھوں کو اوپر سے نيچے کی طرف دهونا ضروری ہے ۔ پس اگر ہاتھوں کو پانی ميں وضو کے قصد سے ڈبوئے تو ضروری ہے کہ کهنيوں کی طرف سے داخل کرے۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر چھرے کو پيشانی کی طرف سے پانی ميں داخل کرے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩ وضو ميں بعض اعضاء کو ارتماسی اور بعض کو غير ارتماسی طریقے سے دهونے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

وضو کے وقت کی مستحب دعائيں

مسئلہ ٢٧٠ جو شخص وضو کر رہا ہو اس کے لئے مستحب ہے کہ:

جب پانی ہاتھ ميں لے تو کهے:

بِسْمِ اللّٰهِ وَ بِاللّٰهِ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِيْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَهِّرِیْن

اور کلی کرتے وقت یہ کهے:

اَللّٰهُمَّ لَقِّنِیْ حُجَّتِیْ یَوْمَ ا لَْٔقَاکَ وَ ا طَْٔلِقْ لِسَانِیْ بِذِکْرِک

اور ناک ميں پانی ڈالتے وقت یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ لاَ تُحَرِّمْ عَلَیَّ رِیْحَ الْجَنَّةِ وَاجْعَلْنِی مِمَّنْ یَّشُمُّ رِیْحَهَا وَ رَوْحَهَا وَ طِيْبَهَا

۴۴

چهرہ دهوتے وقت یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ بَيِّضْ وَجْهِیْ یَوْمَ تَسْوَدُّ فِيْهِ الْوُجُوْهُ وَلاَ تُسَوِّدْ وَجْهِیْ یَوْمَ تَبْيَضُّ فِيْهِ الْوُجُوه

دایاں ہاتھ دهوتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ ا عَْٔطِنِیْ کِتَابِیْ بِيَمِيْنِیْ وَالْخُلْدَ فِی الْجَنَانِ بِيَسَارِیْ وَحَاسِبْنِیْ حِسَاباً یَّسِيْرًا

بایاں ہاتھ دهوتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ لاَ تُعْطِنِیْ کِتَابِی بِشِمَالِی وَلاَ مِنْ وَّرَاءِ ظَهْرِیْ وَلاَ تَجْعَلْهَا مَغْلُوْلَةً إِلٰی عُنُقِیْ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِن مُّقَطَّعَاتِ النِّيْرَان

سر کا مسح کرتے وقت یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ غَشِّنِیْ بِرَحْمَتِکَ وَبَرَکَاتِکَ وَعَفْوِک

پاؤں کا مسح کرتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ ثَبِّتْنِیْ عَلَی الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ فِيْهِ اْلا قَْٔدَامُ وَاجْعَلْ سَعْيِیْ فِی مَا یُرْضِيْکَ عَنِّی یَا ذَا الْجَلاَلِ وَاْلإِکْرَام اور مستحب ہے کہ جب وضو کر لے تو یہ پڑھے :

ا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ التَّوَّابِيْنَ وَاجْعَلْنِی مِنَ الْمُتَطَهِّرِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِين

وضو صحيح ہونے کی شرائط

وضو صحيح ہونے کی چند شرائط ہيں :

پهلی شرط: وضو کا پانی پاک ہو۔

دوسری شرط: وضو کا پانی مطلق ہو۔

مسئلہ ٢٧١ نجس یا مضاف پانی سے وضو باطل ہے ، چاہے وضو کرنے والا شخص اس کے نجس یا مضاف ہونے کے بارے ميں علم ہی نہ رکھتا ہو یا بھول گيا ہو اور اگر وہ اس وضو کے ساته نماز پڑھ چکا ہو توضروری ہے کہ صحيح وضو کے ساته دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ٢٧٢ اگر مٹی ملے ہوئے مضاف پانی کے علاوہ کوئی اور پانی وضو کے لئے نہ ہو اور نماز کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کر لے ليکن اگر وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کے صاف ہونے کا انتظار کرے یا اسے صاف کر کے وضو کر لے۔

۴۵

تيسری شرط: یہ کہ وضو کا پانی مباح ہو اور احتياط واجب کی بناپر جس فضاميں وضو کررہاہے وہ بهی مباح ہو۔

مسئلہ ٢٧٣ غصبی پانی یا ایسے پانی سے جس کے مالک کی رضایت پر دليل نہ رکھتا ہو، وضو کرنا حرام اور باطل ہے اور اگر وضوکا پانی غصبی جگہ پر گرے اور اس کے علاوہ وضو کرنے کے لئے کوئی جگہ بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے اور اگر اس جگہ کہ علاوہ کہيں وضو کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ وہاں وضو کرے اور اگر کوئی شخص گناہ کرتے ہوئے وہيں وضو کرلے تو اس وضو کا صحيح ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۴ کسی مدرسے کے ایسے حوض سے وضو کرنا کہ جس کے بارے ميں انسان نہ جانتا ہو کہ یہ حوض تمام افراد کے لئے وقف ہے یا فقط مدرسے کے طلاب کے لئے ، جائز نہيں ہے اور اگر انسان کو، چاہے عام لوگوں کو وضو کرتا ہوا دیکھ کر ہی سهی، یہ اطمينان ہو جائے کہ یہ تمام افراد کے لئے وقف ہے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۵ جو شخص کسی مسجد ميں نما ز نہ پڑھنا چاہتا ہو اور یہ بھی نہ جانتا ہو کہ آیا اس مسجد کا حوض تما م افراد کے لئے وقف ہے یا صرف اس مسجد ميں نماز پڑھنے والوں کے لئے تو اس کے لئے ا س حوض سے وضو کرنا صحيح نہيں ہے ، ليکن اگر عموماًوہ لوگ بھی اس حوض سے وضو کرتے ہوں جو اس مسجد ميں نماز نہ پڑھنا چاہتے ہوں اور ان کے وضو کرنے سے عموميت وقف کا اطمينان حاصل ہو جائے تو اس حوض سے وضو کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۶ سرائے، مسافر خانوں اور ایسے ہی دوسرے مقامات کے حوض سے ان لوگوں کے لئے جو ان ميں مقيم نہ ہوں، وضو کرنا اس صورت ميں صحيح ہے جب ا ن کے مالکان کی رضایت کا اطمينان ہو جائے، چاہے یہ اطمينان وہاں نہ رہنے والے لوگوں کے وضو کرنے سے حاصل ہو۔

مسئلہ ٢٧٧ بڑی نهروں سے وضو کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے اگرچہ انسان ان کے مالک کی رضایت کا علم نہ رکھتا ہو، ليکن اگر ان نهروں کا مالک وضو کرنے سے منع کرے یا یہ کہ انسان کو علم ہو کہ اس کا مالک راضی نہيں ہے تو ان سے وضو کرنا جائز نہيں ہے ۔ یهی حکم احتياط واجب کی بنا پر اس وقت ہے جب مالک بچہ یا پاگل ہو یا یہ نہر کسی غاصب کے قبضے ميں ہو یا گمان ہو کہ مالک راضی نہيں ہے ۔ ہاں، نهروں اور قناتوں کے اس پانی سے جو آبادی مثلاًدیهات سے گزرتا ہے ، وضو کرنے پينے اور اس جيسے دوسرے کام لينے ميں کوئی حرج نہيں چاہے ان کا مالک بچہ یا پاگل ہی کيوں نہ ہو۔

مسئلہ ٢٧٨ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کر لے تو اس کا وضو صحيح ہے ، ليکن اگر خود پانی کو غصب کيا ہو اور بعد ميں اس کا غصبی ہونا بھول کر وضو کر لے تو اگر اس نے غصب سے توبہ نہ کی ہو، اس کا وضو باطل ہے اور اگر توبہ کر چکا ہو تو اس کا باطل ہو نا محلِ اشکال ہے ۔

۴۶

چوتھی شرط : یہ کہ وضو کے پانی کا برتن مباح ہو۔

پانچویں شرط:وضو کے پانی کا برتن احتياط واجب کی بنا پر سونے اور چاندی کا نہ ہو۔

ان دو شرائط کی تفصيل اگلے مسائل ميں آرہی ہے ۔

مسئلہ ٢٧٩ اگر وضو کا پانی غصبی برتن ميں ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور پانی نہ ہو تو اگر وہ اس پانی کو شرعی طریقے سے دوسرے برتن ميں انڈیل سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسے کسی دوسرے برتن ميں انڈیل لے، پھر اس سے وضو کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے یا اگر کوئی پانی موجود ہو تو اس سے وضو کرے۔ ہاں، ان دونوں صورتوں ميں اگر وہ معصيت کرے اور پانی کو اس ميں سے اٹھ ائے اور اٹھ ا نے کے بعدوضو کرے تو اس کا وضو صحيح ہو گا۔

اسی طریقے سے اگر سونے یا چاندی کے برتن سے وضو کرے تو وضو صحيح ہے چاہے دوسرا پانی ہو یا نہ ہو۔

اگر غصبی برتن سے ارتماسی وضو کرے تو وضو حرام اور باطل ہے چاہے دوسرا پانی ہو یا نہ ہو، ليکن اگر سونے اور چاندی کے برتن ميں ارتماسی وضو کرے تو اس کا وضو جائز اور صحيح ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٨٠ جس حوض ميں مثلاًایک اینٹ یا ایک پتّھر غصبی ہو اور عرف عام ميں اس حوض ميں سے پانی نکالنا اس اینٹ یا پتّھر پر تصرف نہ سمجھا جائے تو کوئی حرج نہيں اور اگر تصرف سمجھا جائے اور اس کے علاوہ کوئی اور پانی بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور پانی موجود ہو تو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس پانی سے وضو کرے، ليکن اگر دونوں صورتوں ميں معصيت کرتے ہوئے پانی اٹھ ائے اور اٹھ انے کے بعد وضو کرے تو اس کا وضو صحيح ہے ۔ جب کہ دونوں صورتوں ميں ارتماسی وضو کرنا، اگر غصبی چيز ميں تصرف سمجھا جائے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٢٨١ ائمہ عليهم السلام یا امام زادگان کے صحن ميں جو پهلے قبرستان تھا اگر کوئی حوض یا نہر کهودی جائے اور یہ علم نہ ہو کہ صحن کی زمين قبرستان کے لئے وقف ہو چکی ہے تو اس حوض یا نہر کے پانی سے وضو کرنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

چھٹی شرط:وضو کے اعضاء دهوتے وقت اور مسح کرتے وقت پاک ہوں اگر چہ یہ طهارت

وضو کے دوران معتصم پانی سے دهوتے وقت حاصل ہو جائے۔ معتصم اس پانی کوکہتے ہيں جو نجاست کے ملنے سے نجس نہ ہو جيسے بارش کا پانی، کرُ یا جاری پانی۔

مسئلہ ٢٨٢ اگر وضو مکمل ہونے سے پهلے وہ جگہ جس کو دهویا یا مسح کيا جاچکا ہو نجس ہو جائے تو وضو صحيح ہو گا۔

مسئلہ ٢٨٣ اگر اعضاء وضوکے علاوہ انسان کے بدن کا کوئی حصہ نجس ہو تو اس کا وضو صحيح ہے ليکن اگر پيشاب یا پاخانے کی جگہ پاک نہ کی ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ انہيں پاک کرنے کے بعد وضو کرے۔

۴۷

مسئلہ ٢٨ ۴ اگر اعضاء وضو ميں سے کوئی ایک نجس ہو اور وضو کرنے کے بعد شک کرے کہ وضو سے پهلے اس جگہ کو پاک کيا تھا یا نہيں ، تو اگر وضو کرتے وقت وہ اس جگہ کے پاک یا نجس ہونے کے بارے ميں متوجہ نہيں تھا تو اس کا وضو باطل ہے اور اگر جانتا ہو یا احتمال رکھتا ہو کہ متوجہ تھا تو اس کا وضو صحيح ہے اور دونوں صورتوں ميں نجس جگہ کو پاک کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٨ ۵ اگر چھرے یا ہاتھوں پر کوئی ایسی خراش یا زخم ہو جس کا خون نہ رک رہا ہو اورپانی اس کے لئے مضر بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس عضو کے صحيح وسالم اجزاء کو دهونے کے بعد وضو کے مسئلہ نمبر” ٢ ۴ ٩ “ميں بيان شدہ طریقے کے مطابق ترتيب کا خيال رکھتے ہوئے زخم یا خراش والے حصے کو کرُیا جاری پانی ميں ڈبو دے اور اسے اس قدر دبائے کہ خون آنا بند ہو جائے اور ہاتھ کو پانی کے نيچے ہی زخم یا خراش پر وضو کی نيت سے اوپر سے نيچے کی طرف پهيرے تاکہ پانی اس پر جاری ہوجائے، اس کے بعد بقيہ وضو کو انجام دے اور اس بات کا خيال رکھے کہ مسح ہاتھ کی تری سے ہی انجام پائے۔

ساتویں شرط:وضو اور نما زکے لئے وقت ميں گنجائش ہو۔

مسئلہ ٢٨ ۶ اگر وقت اتنا تنگ ہو کہ وضو کرنے کی صورت ميں ساری کی ساری نما زیا اس کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے تو ضروری ہے کہ تيمم کر لے ليکن اگر تيمم اور وضو کے لئے یکساں وقت درکار ہو تو پھر وضو کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٨٧ جس شخص کے لئے نماز کا وقت تنگ ہونے کے باعث تيمم کرنا ضروری ہو اور وہ اس نيت سے کہ وضو کرنا مستحب ہے یا کسی ایسے مستحب کام مثلاً قرآن مجيد پڑھنے کے لئے وضو کرے جس کے لئے شریعت ميں وضو کرنے کا حکم آیا ہے تو اس کا وضو صحيح ہے ، ليکن اگر اس نماز کو پڑھنے کے لئے اس طرح وضو کرے کہ اگر باوضو ہو کر نمازپڑھنے کا حکم نہ ہوتا تووضو کا ارادہ بھی نہ ہوتا، تو یہ وضو باطل ہے ۔

آٹھ ویں شرط:وضو قصد قربت اور خلوص کے ساته کرے۔

”قصد قربت“سے مراد یہ ہے کہ عمل کو اس چيز کے ارادے سے جسے خداوند متعال سے نسبت دے رہا ہے مثلاًا س کے حکم کی بجا آوری یا اس کی محبوبيت حاصل کرنے کے لئے انجام دے۔

مسئلہ ٢٨٨ وضو کی نيت زبان پر لانا یا دل ميں گزارناضروری نہيں ہے بلکہ اگر کوئی شخص وضو کے تمام افعال الله تعالی کے لئے بجا لائے تو کافی ہے ۔

نویں شرط:وضو کو بيان شدہ ترتيب کے مطابق انجام دے،

یعنی پهلے چہرہ ، اس کے بعد دایاں اور پھر بایاں ہاتھ دهوئے اس کے بعد سر کا اور پھر پاؤں کا مسح کرے اور بنا بر احتياط واجب بائيں پاؤں کا مسح دائيں پاؤںکے بعد کرے۔

۴۸

دسویں شرط:وضو کے افعال پے درپے انجام دے۔

مسئلہ ٢٨٩ اگر وضو کے افعال کے درميان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ جب وہ کسی عضو کو دهونا یا اس پر مسح کرنا چاہے تو اس پهلے والے اعضاء کی رطوبت خشک ہو چکی ہو تو اس کا وضو باطل ہے اور اگر جس عضو کو دهونا یا اس پر مسح کرنا ہے ، صرف اس سے پهلے دهوئے ہوئے یا مسح کئے ہوئے عضو کی تری خشک ہو گئی ہومثلاًبایاں ہاتھ دهوتے وقت صرف دائيں ہاتھ کی تری خشک ہو چکی ہو ليکن چہرہ تر ہو، تو وضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٩٠ اگر وضو کے افعال پے درپے انجام دے ليکن موسم یا بدن کی گرمی یا ایسی ہی کسی وجہ سے پچهلے حصوں کی رطوبت خشک ہو جائے تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٩١ وضو کے دوران چلنے پھرنے ميں کوئی حرج نہيں ، لہٰذا اگر کوئی شخص چہرہ اور ہاتھ دهونے کے بعد چند قدم چلے اور پھر سر او ر پاؤں کا مسح کرے تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

گيارہویں شرط:انسان خود اپنا چہرہ اور ہاتھ دهوئے اور سر اور پاؤں کا مسح کرے۔

اگر کوئی دوسرا اسے وضو کرائے یا اس کے چھرے یا ہاتھوں پر پانی ڈالنے یا سر اور پاؤں کا مسح کرنے ميں اس کی مدد کرے تو اس کا وضو باطل ہے ۔

مسئلہ ٢٩٢ اگر کوئی شخص خود وضو نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ کسی کو نائب بنائے جو اس کو وضو کرائے اور اگر نائب مزدوری مانگے جب کہ مزدوری دینا ممکن ہو اور باعث حرج نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے مزدوری دے، ليکن ضروری ہے کہ وضو کی نيت خود کرے اور بنا بر احتياط واجب نائب بھی وضو کی نيت کرے اور مسح خود کرے اور اگر مسح خود نہ کر سکتا ہو تو نائب مسح کی جگہوں پر اس کا ہاتھ کھينچے اور اگریہ بھی ممکن نہ ہو تو نائب اس کے ہاتھ سے رطوبت لے کر اس کے سر اور پاؤں کا مسح کرے۔

مسئلہ ٢٩٣ وضو کے جو بھی افعال انسان خود انجام دے سکتا ہو ضروری ہے کہ ان کی انجام دهی ميں دوسروں سے مدد نہ لے۔

بارہویں شرط:وضو کرنے والے کے لئے پانی کے استعمال ميں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

مسئلہ ٢٩ ۴ جس شخص کو خوف ہو کہ وضو کرنے سے بيمار ہو جائے گا تو ضروری ہے کہ وضو نہ کرے اور جس شخص کو خوف ہو کہ پانی وضوميں استعمال کرنے سے پياسا رہ جائے گا تو اگر پياس بيماری کا باعث بنے تو ضروری ہے کہ وضو نہ کرے اور اگر بيماری کا باعث نہ ہو تو اختيار ہے کہ وضو کرے یا تيمم کرے اور اگر نہ جانتا ہو کہ پانی کا استعمال اس کے لئے مضر ہے اور وضو کرلے اگر چہ بعد ميں اسے معلوم ہوجائے کہ پانی کا استعمال اس کے لئے مضر تھا ليکن ضرر، ضررِحرام نہ تھا، تواس کا وضو صحيح ہے ۔

۴۹

مسئلہ ٢٩ ۵ اگر چھرے اور ہاتھوں کو اتنے کم پانی سے دهونا جس سے وضو صحيح ہو جاتا ہے ضرر رساں نہ ہو اور اس سے زیادہ ضرر رساں ہو تو ضروری ہے کہ کم مقدار سے ہی وضو کرلے۔

تيرہویں شرط:اعضائے وضو تک پانی پهنچنے ميں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

مسئلہ ٢٩ ۶ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ اس کے اعضائے وضو پر کوئی چيز لگی ہوئی ہے ليکن اس کے بارے ميں اسے شک ہو کہ آیا وہ چيز پانی کے ان اعضا ء تک پهنچنے ميں رکاوٹ ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ یا تو اس چيز کو ہٹا دے یا پانی کو اس کے نيچے تک پهنچائے۔

مسئلہ ٢٩٧ اگرمعمول کے مطابق بڑھے ہوئے ناخنوں کے نيچے ميل ہو تو وضو کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔ ہاں، ناخنوں کو کاٹ دینے کی صورت ميں وضو کے لئے اسے برطرف کرنا ضروری ہے اور اگر ناخن معمول سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں تو جو ميل معمول سے زیادہ والی مقدار کے نيچے ہے اسے برطرف کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٩٨ اگر کسی شخص کے چھرے، ہاتھوں، سر کے اگلے حصے یا پاؤں سے اوپر والے حصے پر جل جانے سے یا کسی اور وجہ سے ورم ہو جائے تو اسے دهو لينا اور اس پر مسح کر لينا کافی ہے اور اگر اس ميں سوراخ ہو جائے تو پانی جلد کے نيچے پهنچانا ضروری نہيں بلکہ اگر جلد کا ایک حصہ اکهڑ جائے تب بھی جو حصہ نہيں اکهڑا اس کے نيچے تک پانی پهنچانا ضروری نہيں ، ليکن جب اکهڑی ہوئی جلد کبهی بدن سے چپک جاتی ہو اور کبهی اٹھ جاتی ہو تو ضروری ہے کہ اسے کاٹ دے یا اس کے نيچے پانی پهنچائے۔

مسئلہ ٢٩٩ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء سے کوئی چيز چپکی ہوئی ہے یا نہيں اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظر ميں بھی درست ہو مثلاً، گارے سے کوئی کام کرنے کے بعد شک ہو کہ گارا اس کے ہاتھ سے لگا رہ گياہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ تحقيق کر لے یا اپنے ہاتھوں کو اتنا ملے کہ اطمينان ہو جائے کہ اگر اس پر گارا رہ گياتها تو اب دور ہو گيا ہے یا پانی اس کے نيچے پهنچ گيا ہے ۔

مسئلہ ٣٠٠ دهونے یا مسح کرنے کی جگہ پر اگر ميل ہو ليکن وہ ميل پانی کے جلد تک پهنچنے ميں رکاوٹ نہ ڈالے تو کوئی حرج نہيں ۔ اسی طرح اگر پلستر وغيرہ کا کام کرنے کے بعد سفيدی ہاتھ پر لگی رہ جائے جو پانی کو جلد تک پهنچنے سے نہ روکے تو اس ميں بھی کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر شک ہو کہ ان چيزوں کی موجودگی پانی کے جلد تک پهنچنے ميں مانع ہے یا نہيں تو انہيں دور کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٠١ اگر کوئی شخص وضو کرنے سے پهلے جانتا ہو کہ وضو کے بعض اعضاء پر ایسی چيز موجود ہے جو ان تک پانی پهنچنے ميں مانع ہے اور وضو کے بعد شک کرے کہ وضو کے دوران ا ن اعضاء تک پانی پهنچا ہے یا نہيں ، اگر اسے وضو کے دوران غافل ہونے کا یقين نہ ہو تو ا س کا وضو صحيح ہے ۔

۵۰

مسئلہ ٣٠٢ اگر وضو کے بعض اعضاء پر کوئی ایسی رکاوٹ ہو جس کے نيچے پانی کبهی خود بخود چلا جاتا ہے اور کبهی خود نہيں پهنچ پاتا اور انسان وضو کے بعد شک کرے کہ پانی اس کے نيچے پهنچا ہے یا نہيں ، اگر جانتا ہو کہ وضو کے وقت اس سے غافل تھا تو ضروری ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔

مسئلہ ٣٠٣ اگر وضو کرنے کے بعد اعضائے وضو پر کوئی ایسی چيز دیکھے جو پانی کے پهنچنے ميں رکاوٹ ہو اور وہ نہ جانتا ہو کہ وضو کرتے وقت یہ رکاوٹ موجود تھی یا بعد ميں آئی ہے تو اگر وضو کرتے وقت جانتا ہواس امر سے غافل تھا تو ضروری ہے کہ دوبارہ وضو کرے اور اگر اس امر کی طرف متوجہ تھا تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣٠ ۴ اگر وضو کرنے کے بعد شک کرے کہ جو چيز پانی کے پهنچنے ميں مانع ہے وضو کے اعضاء پر تھی یا نہيں تو اگر وضو کرتے وقت اس امر سے غافل ہونے کا علم نہ ہو تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

احکام وضو

مسئلہ ٣٠ ۵ اگر کوئی شخص افعالِ وضو اور شرائط ميں بہت شک کرتا ہو، اگر اس کا شک وسواس کی حد تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ٣٠ ۶ جس شخص کو شک ہو کہ اس کا وضو باطل ہوا ہے یا نہيں تو سمجھے کہ اس کا وضو باقی ہے ، ليکن اگر اس نے پيشاب کرنے کے بعد استبرا کئے بغير وضو کر ليا ہو اور وضو کے بعد اس سے ایسی رطوبت خارج ہو جس کے بارے ميں نہ جانتا ہو کہ پيشاب ہے یا کوئی اور چيز تو اس کا وضو باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٠٧ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس نے وضو کيا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ وضو کرے۔

مسئلہ ٣٠٨ جس شخص کو معلوم ہو کہ اس نے وضو کيا ہے اور اس سے حدث بھی واقع ہو گيا ہے مثلاًاس نے پيشاب کيا ہے ، ليکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کون سی چيز پهلے واقع ہوئی ہے ، اگر یہ صورت نماز سے پهلے پيش آئے تو ضروری ہے کہ وضو کرے اوراگر نما زکے دوران یہ صورت پيش آئے تو ضروری ہے کہ نما زتوڑ کر وضو کرے اور اگر نمازکے بعد یہ صورت پيش آئے تو جو نما زپڑھ چکا ہے اس شرط پر صحيح ہے کہ نما زشروع کرتے وقت غفلت کا یقين نہ ہو، البتہ اگلی نمازوں کے لئے وضو کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٠٩ اگر کسی شخص کو وضو کے بعد یا وضو کے دوران یقين آجائے کہ اس نے بعض جگہيں نہيں دهوئيں یا ان کا مسح نہيں کيا، جب کہ جن اعضاء کی باری ان سے پهلے تھی ان کی تری زیادہ وقت گزر جانے کی وجہ سے خشک ہو چکی ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ وضو کرے، ليکن اگر وہ تری خشک نہ ہوئی ہو یا گرمی یا ایسی ہی کسی وجہ سے خشک ہو گئی ہو تو ضروری ہے کہ بھولی ہوئی اور اس کے بعد آنے والی جگہوں کو دهوئے یا ان کا مسح کرے۔ اسی طرح وضو کے دوران کسی عضو کے دهونے یا مسح کرنے کے بارے ميں شک کی صورت ميں اسی حکم پر عمل کرنا ضروری ہے ۔

۵۱

مسئلہ ٣١٠ اگر کسی شخص کو نماز پڑھنے کے بعد شک ہو کہ اس نے وضو کيا تھا یا نہيں تو اس صورت ميں کہ اسے یقين نہ ہو کہ شروع کرتے وقت وہ اس بات سے غافل تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ البتہ دوسری نماز وں کے لئے ضروری ہے کہ وضو کرے۔

مسئلہ ٣١١ اگر کسی شخص کو نما زکے دوران شک ہو کہ وضو کيا تھا یا نہيں تو اس کی نماز باطل ہے اور ضروری ہے کہ وضو کرکے نماز پڑھے۔

مسئلہ ٣١٢ اگر کوئی شخص نماز کے بعد یہ جان لے کہ اس کا وضو باطل ہو گيا تھا ليکن شک کرے کہ نماز کے بعد باطل ہوا تھا یا اس سے پهلے، تو جو نما زپڑھ چکا ہے وہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣١٣ اگر کوئی شخص ایسے مرض ميں مبتلا ہوکہ اس کا پيشاب قطرہ قطرہ ٹپکتاہویا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو، اگر اسے یقين ہو کہ نماز کے اول وقت سے آخر وقت تک اسے اتنا وقفہ مل جائے گا کہ وضو کر کے نماز پڑھ سکے تو ضروری ہے کہ اس وقفے کے دوران نماز پڑھے اور اگر اسے وضو اور نما زکے صرف واجب افعال انجام دینے کا وقت ملے تو ضروری ہے کہ اس وقفے ميں وضو ونماز کے صرف واجبات کو انجام دے اور مستحبات کو چھوڑ دے۔

مسئلہ ٣١ ۴ اگر اس شخص کو وضو اور نما زپڑھنے کے کی مقدار کے برابر وقفہ نہ ملتا ہو اور نماز کے دوران ایک یا چند بار پيشاب یا پاخانہ اس سے خارج ہو تا ہو، اگر اسی نما زکو ایک وضو سے پڑھے تو کافی ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ جب بھی پيشاب یا پاخانہ خارج ہو موالات ختم ہونے سے پهلے وضو کرے اور بقيہ نماز کو مکمل کرے۔

مسئلہ ٣١ ۵ جس شخص کا پيشاب یاپاخانہ پے درپے خارج ہوتو وہ ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھ سکتا ہے سوائے اس کے کہ کسی دوسرے حدث ميں مبتلا ہو جائے اور بہتر یہ ہے کہ ہر نماز کے لئے ایک وضو کرے، ليکن بھولے ہوئے سجدے وتشهد اور نماز احتياط کے لئے دوسرا وضو ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣١ ۶ جس شخص کا پيشا ب یاپاخانہ پے درپے خارج ہوتا ہو اس کے لئے ضروری نہيں کہ وضو کے بعد فوراًنماز پڑھے اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ وضو کے فوراًبعد نماز پڑھے۔

مسئلہ ٣١٧ جس شخص کا پيشاب یاپاخانہ پے درپے خارج ہوتا ہو وضو کے بعد بنابر احتياط مستحب ان چيزوں کو مس کرنے سے پرہيز کرے جنہيں مس کرنا محدث پر حرام ہے ۔

مسئلہ ٣١٨ جس شخص کو قطرہ قطرہ پيشاب آتاہو ضروری ہے کہ نماز ميں خود کو ایک ایسی تهيلی کے ذریعے پيشاب سے بچائے جس ميں روئی یا کوئی اور چيز رکھی ہو جو پيشاب کو دوسری جگہوں پر نہ پهنچنے دے اور احتياط واجب یہ ہے کہ ہر نماز سے پهلے مقام پيشاب کو پاک کرے سوائے اس صورت کے کہ باعث حرج ہو۔

۵۲

اور ظہر وعصر یا مغرب وعشا کو ملا کر پڑھنے کی صورت ميں دوسری نماز کے لئے مقام پيشاب کو پاک کرنا ضروری نہيں ہے ۔

اور اگر کوئی شخص پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو تو ضروری ہے کہ جهاں تک ممکن ہو نماز پڑھنے کی مقدار تک پاخانہ دوسری جگہ تک پهنچنے سے روکے اور بنابر احتياط واجب ہر نماز کے لئے مقام پاخانہ کو پاک کرے، سوائے اس صورت ميں کہ باعث حرج ہو۔

مسئلہ ٣١٩ جو شخص پيشاب یا پاخانہ روکنے پر قدرت نہ رکھتا ہو، ضروری ہے کہ ممکنہ حد تک حرج نہ ہونے کی صورت ميں نماز پڑ هنے کی مقدار تک پيشاب وپاخانہ کو نکلنے سے روکے، اور اگر آسانی سے اس مرض کا علاج ہو سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اس کا علاج کرائے۔

مسئلہ ٣٢٠ جو شخص پيشاب یا پاخانہ روکنے پر قدرت نہيں رکھتا، صحت یا ب ہونے کے بعد ضروری نہيں ہے کہ جو نمازیں اس نے بيماری کی حالت ميں اپنی ذمہ داری کے مطابق پڑھی تہيں ، ان کی قضا کرے ليکن اگر نما زکے وقت کے دوران مرض سے شفا پا جائے تو ضروری ہے کہ اس وقت ميں پڑھی ہوئی نماز کو دهرائے۔

مسئلہ ٣٢١ جو شخص اپنی ریح روکنے پر قادر نہ ہو ضروری ہے کہ ان لوگوں کے وظيفے کے مطابق عمل کرے جو پيشاب یا پاخا نہ روکنے پر قدرت نہيں رکھتے۔

وہ چيزيں جن کے لئے حدث سے پاک ہونا ضروری ہے

مسئلہ ٣٢٢ چھ چيزوں کے لئے وضو کرنا واجب ہے :

١) نماز ميت کے علاوہ تمام واجب نمازوںکے لئے اور مستحب نمازوں ميں وضو شرط صِحت ہے ۔

٢) بھولے ہوئے سجدے اور تشهد کی قضا کے لئے اور تشهد بھولنے کی وجہ سے انجام دئے جانے والے سجدہ سهو کٔے لئے اور اگر ان کے اور نماز کے درميان اس سے کوئی حدث سر زد ہوا ہو مثلاًپيشاب کر دیا ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے۔ ہاں، مذکورہ سجدہ سهوکے علاوہ دوسرے موارد ميں وضو کرنا واجب نہيں ہے ۔

٣) حج وعمرے کے واجب طواف کے لئے ۔

۴) اگر کسی نے وضو کرنے کی نذر کی ہو، عهد کيا ہو یا قسم کهائی ہو۔

۵) جب کسی نے نذر کی ہو کہ اپنے بدن کے کسی حصے کو قرآن کے حروف سے مس کرے گا، جب کہ یہ نذر صحيح ہو، مثلاًقرآن کو بوسہ دینا۔

۵۳

۶) نجس قرآن کو پاک کرنے یا قرآن کو ایسی جگہ سے نکالنے کے لئے جهاں قرآن کا ہونا توهين کا باعث ہو، جب کہ صورت حال یہ ہو کہ انسان اپنے ہاتھ یا بدن کے کسی حصے کو قرآن کے حروف سے مس کرنے پر مجبور ہو، ليکن اگر وضو کے لئے رکنا قرآن کی بے احترامی کا باعث ہو تو ضروری ہے کہ بغير وضو ہی قرآن کو اس جگہ سے نکالے یا اگر نجس ہو گيا ہو تو اسے پاک کرے۔

مسئلہ ٣٢٣ جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لئے قرآن کے حروف کو مس کر نا، یعنی بدن کا کوئی حصہ قرآن کے حروف سے لگانا، حرام ہے ليکن اگر بال کھال کے تابع شمار نہ ہو ں تو انہيں قران کے حروف سے مس کرنے ميں کوئی حرج نہيں اور اگر قرآن کا اردو یا کسی اور زبان ميں ترجمہ کيا گيا ہو تو خداوندِمتعال کے اسم ذات اور اسماء صفات کے علاوہ کومس کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣٢ ۴ بچے اور دیوانے کو قرآن مجيد کے الفاظ کو مس کرنے سے روکنا واجب نہيں ، ليکن اگر ان کے ایسا کرنے سے قرآن مجيد کی بے حرمتی ہوتی ہو تو انہيں روکنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٢ ۵ جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لئے الله تعالی کی ذات او ر اس کی صفات کے ناموں کو خواہ کسی بھی زبان ميں لکھے ہوں مس کرنا حرام ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ چودہ معصومين عليهم السلام کے اسماء مبارک کو بھی بغير وضو کے مس نہ کيا جائے۔

مسئلہ ٣٢ ۶ اگر کوئی شخص نما زکا وقت آنے سے پهلے باطهارت ہونے کے ارادے سے وضو یا غسل کرے تو صحيح ہے اور نماز کے وقت کے نزدیک بھی اگر نما ز کے لئے تيار ہونے کی نيت سے وضو کرے تو کوئی حرج نہيں ، بلکہ مستحب ہے ۔

مسئلہ ٣٢٧ اگر کسی کو یقين ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ نما زکا وقت داخل ہو چکا ہے اور وہ واجب کی نيت سے وضو کرے جب کہ اس کا قصد وجوب سے مقيد نہ ہو اور وضو کے بعد معلوم ہو کہ وقت داخل نہيں ہوا تھا تو اس کاوضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣٢٨ انسان کے لئے مستحب ہے کہ ہر اس کام کے لئے جس کے صحيح ہونے کے لئے وضو کرنا اگر چہ شرط نہيں ليکن اس عمل کے کمال ميں معتبر ہے ، وضو کرے۔ مثلاًواجب طواف اور نماز طواف کے علاوہ باقی تمام مناسک حج کے لئے ، کيونکہ ان دو ميں وضو کرنا شرطِ صحت ہے ۔

اسی طرح نماز ميت پڑھنے، ميت کو قبر ميں داخل کرنے، مسجد جانے، قرآن پڑھنے اور لکھنے اور سوتے وقت وضو کرنا مستحب ہے ۔ یہ بھی مستحب ہے کہ جو شخص با وضو ہو وہ دوبارہ وضو کرے۔

مذکورہ بالا کاموں ميں سے کسی ایک کے لئے بھی وضو کرنے کی صورت ميں انسان ہر وہ کام انجام دے سکتا ہے جس کے لئے وضو کرنا ضروری ہے مثلاًاس وضو سے نماز پڑھ سکتا ہے یا واجب طواف کر سکتا ہے ۔

۵۴

مبطلات وضو

مسئلہ ٣٢٩ سات چيزیں وضو کر باطل کرتی ہيں :

٢)پيشاب وپاخانہ، جب کہ اپنی طبيعی جگہ سے نکلے یا عادت کے مطابق غير طبيعی جگہ ،١

نکلے۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر بغير عادت کے غير طبيعی مقام سے پيشاب یا پاخانہ نکلنے پر بھی وضو باطل ہو جاتا ہے ۔

وہ تری جو پيشاب سے شباہت رکھتی ہو اور استبرا سے پهلے نکلے پيشاب کا حکم رکھتی ہے ۔

٣) طبيعی مقام سے نکلنے والی آنتوں کی ریح اور پاخانے کے مورد ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق غير طبيعی مقام سے نکلنے والی ریح بھی جب کہ اس مقام کا دو مخصوص ناموں ميں سے ایک نام رکھا جا سکے۔

۴) نيند، جو اس وقت ثابت ہوگی جب کان سن نہ سکيں۔

۵) عقل کو زائل کر دینے والی چيزیں جيسے دیوانگی، مستی، بے ہوشی وغيرہ۔

۶) عورتوں کا استحاضہ جس کی تفصيل بعد ميں آئے گی۔

٧) جنابت۔

جبيرہ وضوکے احکام

وہ چيز جس سے زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کو باندها جاتا ہے اور وہ دوا جو زخم یا ایسی ہی کسی چيز پر لگائی جاتی ہے جبيرہ کهلاتی ہے ۔

مسئلہ ٣٣٠ اگر اعضاء وضو ميں سے کسی پر زخم یا پھوڑا ہو یا ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو، تو اگر اس پر کوئی چيز نہ ہو اور پانی اس کے ليے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ عام طریقے سے وضو کيا جائے۔

مسئلہ ٣٣١ اگر زخم پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی چھرے یا ہاتھوںپر ہو اوراس پر کوئی چيز نہ ہو جب کہ پانی ڈالنا اس کے لئے مضر ہو تو اگر اس پر گيلا ہاتھ پهيرنا مضر نہ ہو تو ٹوٹی ہوئی ہڈی کی صورت ميں ضروری ہے کہ اس پر گيلا ہاتھ پهيرے، جب کہ زخم یا پھوڑا ہونے کی صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ گيلا ہاتھ پهيرے اور اس کے بعد احتياط مستحب کی بنا پر ایک پاک کپڑا اس پر رکھ کر گيلا ہاتھ کپڑے پر بھی پهيرے۔

اور اگر یہ بھی مضر ہو یا زخم اور ٹوٹی ہوئی ہڈی وغيرہ نجس ہو جسے پاک نہ کيا جا سکتا ہو تو زخم کی صورت ميں ضروری ہے کہ زخم کے اطراف کو وضو ميں بيان شدہ طریقے کے مطابق اوپر سے نيچے کی طرف دهوئے اور تيمم بھی ضروری نہيں ، البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ زخم پر پاک کپڑا رکھ کر اس پر گيلا ہاتھ پهيرے اور تيمم بھی کرے۔

۵۵

اور ٹوٹی ہوئی ہڈی کی صورت ميں ضروری ہے کہ تيمم کرے اور احتياط واجب کی بنا پر وضو بھی کرے اور اس پر پاک کپڑارکھ کر گيلا ہاتھ پهير دے۔

مسئلہ ٣٣٢ زخم، پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کسی کے سر یا پاؤں کے اوپر والے حصے ميں ہو اور اس پر کوئی چيز بھی نہ ہو، اگر وہ اس پر مسح نہ کر سکتا ہو، یعنی مثلا زخم مسح کے سارے مقام پر پهيلا ہوا ہو یا سالم حصوں پر مسح کرنا بھی ممکن نہ ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ ایک پاک کپڑا زخم وغيرہ پر رکھ کر ہاتھ ميں بچی ہوئی وضو کی تری سے اس پر مسح کرتے ہوئے وضو بھی کرے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٣٣٣ اگر پهوڑے، زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کو کسی چيز سے باندها گيا ہو، اگر اس کا کهو لنا مشقت کا باعث نہ ہو اور پانی بھی اس کے لئے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے کھول کر وضو کرے خواہ زخم وغيرہ چھرے اور ہاتھوں پر ہو یا سر کے اگلے حصے یا پاؤں کے اوپر والے حصے پر ہو۔

مسئلہ ٣٣ ۴ اگر کسی شخص کا زخم، پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی جو کسی چيز سے بندهی ہو اس کے چھرے یا ہاتھوں پر ہواور اسے کھولنے یا پانی ڈالنے ميں ضرر یا مشقت ہو تو جتنی مقدار ميں ضرر اور مشقت نہ ہو، اسے دهوئے اور جبيرہ کے اوپر گيلا ہاتھ پهيرے۔

مسئلہ ٣٣ ۵ اگر زخم کو کھولا نہ جاسکتا ہو ليکن خود زخم اور جو چيز ا س پر لگا ئی ہو پاک ہوں اور زخم تک پانی پهنچانا ممکن ہو اور مضر اور باعث مشقت بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کو زخم پر ترتيب کا خيال رکھتے ہوئے، جس کا خيال رکھنا چھرے ميں احتياط واجب کی بنا پرہے، پهنچائے، ليکن اگر جبيرہ چھرے پر ہو اور پانی پهنچانے ميں ترتيب کا خيال رکھنا ممکن نہ ہو تو بنا بر احتياط اسے دهوئے بھی اور ترتيب کا خيال رکھتے ہوئے گيلا ہاتھ بھی پهيرے۔

اور اگر زخم یا وہ چيز جو ا س کے اوپر رکھی ہے نجس ہو، چنانچہ اسے پاک کر نا اور زخم تک پانی پهنچانا ممکن ہو اور ضرر ومشقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے پاک کرے اور وضو کے وقت پانی کو زخم تک پهنچائے۔

اور اگر زخم تک پانی پهنچانا ممکن نہ ہو یا ضرر یا مشقت ہو یا زخم نجس ہو اور اسے پاک کرنا ممکن نہ ہو یا ضرر یا مشقت ہو تو ضروری ہے کہ زخم کے اطراف کو دهوئے اور اگر جبيرہ پاک ہو تو اس کے اوپر گيلا ہاتھ پهيرے، اور اگر جبيرہ نجس ہو یا گيلا ہاتھ اس کے اوپر نہيں پهير سکتے تو ممکنہ صورت ميں پاک کپڑا اس پر رکھ کر احتياط واجب کی بنا پر تيمم بھی کرے اور اس کپڑ ے پر گيلا ہاتھ بھی پهيرے اور حتی الامکان اس کپڑ ے کو اس طرح رکھے کہ جبيرہ کا جزء سمجھا جائے اور اگر دوسرا کپڑا رکھنا یا اس پر گيلا ہاتھ پهيرنا ممکن نہ ہو تو بنا بر احتياط واجب اس کے اطراف کو وضو ميں بيا ن شدہ طریقے کے مطابق دهوئے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٣٣ ۶ اگر جبيرہ تمام چھرے یا پورے ایک ہاتھ یا پورے دونوں ہاتھوں کو گھيرے ہوئے ہو، احتياط واجب یہ ہے کہ وضوئے جبيرہ اور تيمم دونوں کرے۔

۵۶

مسئلہ ٣٣٧ اگر جبيرہ تمام اعضاء وضو کو گھيرے ہوئے ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ وضوئے جبيرہ اور تيمم دونوں کرے۔

مسئلہ ٣٣٨ جس شخص کی ہتھيلی اور انگليوں پر جبيرہ ہو اور وضو کرتے وقت اس پر گيلا ہاتھ پهيرا ہو تو وہ سر اور پاؤں کا مسح اسی رطوبت سے کرے۔

مسئلہ ٣٣٩ اگر کسی شخص کے پاؤں کے اوپر والے پورے حصے پر جبيرہ ہو ليکن کچھ حصہ انگليوں کی طرف سے اورکچه حصہ پاؤںکے اوپر والے حصے کی طرف سے کہ جس پر مسح واجب ہے ، کهلا ہوا ہو تو ضروری ہے کہ جو جگہيں کهلی ہيں وہاں پاؤں کے اوپر والے حصے پر اور جن جگہوں پر جبيرہ ہے وہاں جبيرہ پر مسح کرے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٠ اگر چھرے یاہاتھوں پر ایک سے زیادہ جبيرے ہوں تو ان کا درميانی حصہ دهونا ضروری ہے اور اگر سر یاپاؤں کے اوپر والے حصے پر چند جبيرے ہوں تو ان کے درميانی حصے کا مسح کرنا ضروری ہے اور جهاں جبيرے ہوں وہاں جبيرے کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣ ۴ ١ اگر جبيرہ زخم کے آس پاس کے حصوں کو معمول سے زیادہ گھيرے ہوئے ہو اور اس کو ہٹا نا بغير مشقت کے ممکن نہ ہوتو بنا بر احتياط واجب وضو ئے جبيرہ بھی کرے اور تيمم بھی اور اگر جبيرے کی معمول سے زیادہ بڑھی ہوئی مقدار کو ہٹانے ميں مشقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے ہٹا لے، پس اگر زخم چھرے یا ہاتھوں پر ہو تو ان کو دهولے اور اگر سر یا پيروں کے اوپر والے حصے پر ہوکہ جس کا مسح واجب ہے تو اس کا مسح کرے اور زخم کی جگہ پر جبيرہ کے احکام کے مطابق عمل کرے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٢ اگر اعضائے وضو پر زخم، چوٹ یا ٹوٹی ہوئی ہڈی نہ ہو ليکن کسی اور وجہ سے پانی ان کے لئے مضر ہو تو تيمم کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣ ۴ ٣ اگر اعضائے وضو ميں سے کسی جگہ کی رگ کٹوا کر خون نکلوایا ہواور اس مقام کو ضرر کی وجہ سے نہ دهویا جاسکتا ہو تو اس پر زخم کے احکام جاری ہوں گے جن کا تذکرہ پچهلے مسائل ميں ہو ا اور اگر کسی اور وجہ سے مثلا خون نہ رکنے کی وجہ سے اسے دهونا ممکن نہ ہوتو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ٣ ۴۴ اگر وضو یا غسل کی جگہ پر کوئی ایسی چيز چپک گئی ہو جس کا اتارنا ممکن نہ ہو یا باعثِ حرج ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ وضو یا غسل جبيرہ بھی کرے اور تيمم بهی۔

۵۷

مسئلہ ٣ ۴۵ غسل ميت کے علاوہ غسل کی تمام اقسام ميں غسل جبيرہ وضوئے جبيرہ کی طرح ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اسے ترتيبی طریقے سے انجام دے، ليکن اگر بد ن ميں زخم یا پھوڑا ہو تو چاہے اس مقام پر جبيرہ ہو یا نہ ہو، اگرچہ مکلف کے غسل یا تيمم ميں سے کسی ایک کو انجام دینے پر صاحب اختيار ہونے کی دليل ہے ، ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ غسل کرے اور ٹوٹی ہوئی جگہ، زخم اور پهوڑے کاحکم غسل ميں وهی ہے جو وضو ميں چھرے اور ہاتھوں کے سلسلے ميں بيان کيا جاچکاہے۔

مسئلہ ٣ ۴۶ جس شخص کی ذمہ داری تيمم ہو اگر اس کے بعض اعضائے تيمم پر زخم یاپھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی ہو تو ضروری ہے کہ وضوئے جبيرہ کے احکام کے مطابق تيمم جبيرہ انجام دے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٧ جس شخص کے لئے وضوئے جبيرہ یا غسل جبيرہ کے ساته نماز پڑھنا ضروری ہو، اگر جانتاہو کہ نماز کے آخری وقت تک اس کا عذر دور نہيں ہوگا، تو وہ اول وقت ميں نماز پڑھ

سکتاہے ، ليکن اگر اميد ہو کہ آخر وقت تک عذر بر طرف ہو جائے گا تو بہتر ہے کہ صبر کرلے اور عذر برطرف نہ ہونے کی صورت ميں نماز کو آخر وقت ميں وضوئے جبيرہ یا غسلِ جبيرہ کے ساته انجام دے، اور اگر اول وقت ميں نماز پڑھ چکا ہو اور آخر وقت ميں عذر بر طرف ہوجائے تو ضروری ہے کہ وضو یا غسل کرکے دوبارہ نماز پڑھے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٨ اگر کسی شخص نے آنکه کی بيماری کی وجہ سے پلکيں چپکا کر رکھی ہو ں یا آنکه ميں درد کی وجہ سے پانی اس کے لئے مضر ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٩ جو شخص نہ جانتا ہو کہ آیا اس کا وظيفہ تيمم ہے یا وضو ئے جبيرہ تو ضروری ہے کہ احتياط کرتے ہوئے وضو بھی کرے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٣ ۵ ٠ جونمازیں انسان نے وضوء جبيرہ سے پڑھی ہوں اور آخر وقت تک عذر باقی رہا ہو، صحيح ہيں اور بعد کی نمازوں کو بھی اگر تمام وقت ميں عذر باقی رہے تو اسی وضو سے پڑھ سکتا ہے اور جب بھی عذر ختم ہوجائے احتياط واجب کی بنا پر بعد کی نمازوں کے لئے وضو کرے۔

واجب غسل واجب غسل سات ہيں :

١) غسل جنابت

٢) غسل حيض

٣) غسل نفاس

۴) غسل استحاضہ

۵۸

۵) غسل مسِ ميت

۶) غسل ميت

٧) وہ غسل جو نذر، قسم یا ان جيسی چيزوں کی وجہ سے واجب ہوجائے۔

جنابت کے احکام

مسئلہ ٣ ۵ ١ انسان دو چيزوں سے جنب ہوتا ہے :

١) جماع

٢) منی کے خارج ہونے سے، خواہ وہ نيند کی حالت ميں نکلے یا بيداری ميں ، کم ہو یا زیادہ، شهوت سے نکلے یا بغير شهوت کے، اختيار سے نکلے یا بغير اختيار کے۔

مسئلہ ٣ ۵ ٢ اگر کسی مرد کے بدن سے کوئی رطوبت خارج ہو اور وہ یہ نہ جانتا ہوکہ منی ہے یا پيشاب یا کوئی اور چيز، اگر وہ رطوبت شهوت کے ساته اور اچھل کر نکلے اور اس کے نکلنے کے بعد بدن سست پڑ جائے تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے ، ليکن اگر ان تين علامتوں ميں سے ساری یا کچھ موجود نہ ہوں تو وہ رطوبت منی کے حکم ميں نہيں آئے گی، ليکن اگر بيمار ہو اور وہ رطوبت شهوت کے ساته نکلی ہو تو چاہے اچھل کر نہ نکلی ہواور اس کے نکلنے کے بعد جسم سست نہ پڑا ہو، تب بھی منی کے حکم ميں ہے اور اگر عورت شهوت کے ساته انزال کرے تو اس پر غسل جنابت واجب ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵ ٣ اگر کسی ایسے مرد کے مقام پيشاب سے جو بيمار نہ ہو کوئی ایسا پانی خارج ہو، جس ميں ان مذکورہ بالا تين علامات ميں سے کوئی ایک علامت موجود ہو ليکن نہ جانتا ہو کہ بقيہ علامات بھی اس ميں موجود ہيں یا نہيں ، تو اگر اس پانی کے خارج ہونے سے پهلے اس نے وضو کيا ہوا ہو تو وهی وضو کافی ہے اور اگر وضو نہيں کيا تھا تو صرف وضو کرنا کافی ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵۴ منی خارج ہونے کے بعد انسان کے لئے پيشاب کرنا مستحب ہے اور اگر پيشاب نہ کرے اور غسل کے بعد اس سے کوئی رطوبت خارج ہو جس کے بارے ميں نہ جانتا ہوکہ منی ہے یا کوئی اور رطوبت تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵۵ اگر کوئی شخص جماع کرے اور عضو تناسل ختنہ گاہ کی مقدار تک یا اس سے زیادہ عورت کی شرمگاہ ميں داخل ہوجائے تو خواہ یہ دخول فرج ميں ہو یا دبر ميں ، دونوں جنب ہو جائيں گے، اگرچہ منی بھی خارج نہ ہوئی ہو اور اگر مرد سے جماع کرے تو پهلے سے باوضو نہ ہونے کی صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ وضو بھی کرے اور غسل بھی ورنہ غسل کرنا کافی ہے ۔ مذکورہ بالا حکم ميں بالغ ونابالغ، عاقل ودیوانے اور با ارادہ یا بے ارادہ کے درميان کوئی فرق نہيں ۔

۵۹

مسئلہ ٣ ۵۶ اگر کسی کو شک ہو کہ عضو تناسل ختنہ گاہ تک داخل ہوا ہے یا نہيں ، تو اس پر غسل واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵ ٧ اگر کوئی شخص کسی حيوان کے ساته وطی کرے اور اس کی منی خارج ہو تو صرف غسل کرنا کافی ہے اور اگر منی خارج نہ ہو ليکن وطی سے پهلے با وضو ہو تب بھی صرف غسل کافی ہے اور اگر باوضو نہ ہو تو بنا بر احتياط واجب وضو بھی کرے اور غسل بهی۔

مسئلہ ٣ ۵ ٨ اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے ليکن خارج نہ ہو یا انسان کو شک ہو کہ منی خارج ہوئی ہے یا نہيں تو اس پر غسل واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵ ٩ جو شخص غسل نہ کرسکتا ہو ليکن تيمم کر سکتا ہو، وہ نما زکا وقت داخل ہونے کے بعد بھی اپنی بيوی سے جماع کر سکتاہے۔

مسئلہ ٣ ۶ ٠ اگر کوئی شخص اپنے لباس ميں منی دیکھے اور جانتا ہو کہ اس کی اپنی منی ہے اور اس کے لئے غسل نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور جن نمازوں کے بارے ميں اسے یقين ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے کے بعد پڑھی ہيں ، اگر وقت باقی ہو تو ادا کرلے اور اگر وقت گزر چکا ہو تو ان نمازوں کی قضا کرے، ليکن جن نمازوں کے بارے ميں احتمال ہو کہ منی خارج ہونے سے پهلے پڑھی ہيں ان کی ادا یاقضا نہيں ۔

وہ چيزيں جو جنب پر حرام ہيں

مسئلہ ٣ ۶ ١ پانچ چيزیں جنب شخص پر حرام ہيں :

١) اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجيد کے الفاظ، الله تعالی کے نام، خواہ کسی بھی زبان ميں ہو اور باقی اسمائے حسنی سے مس کرنا۔ احتياط مستحب یہ ہے کہ پيغمبروں، ائمہ اور حضرت زهرا عليها السلام کے ناموں سے بھی اپنا بدن مس نہ کرے۔

٢) مسجدا لحرام اور مسجد النبوی صلی الله عليہ و آلہ وسلم ميں جانا، خواہ ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل آئے۔

٣) دوسری مسجدوں ميں ٹہرنا، ليکن اگر ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل آئے تو کوئی حرج نہيں ہے اور اسی طرح ائمہ عليهم السلام کے حرم ميں ٹہرنا حرام ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ ائمہ عليهم السلام کے حرم ميں ، حتی ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے دروازے سے نکلنے کی حد تک بھی نہ جائے۔

۴) کسی چيز کو مسجد ميں رکھنے کے لئے اور اسی طرح بنا بر احتياط واجب کسی چيز کو مسجد سے اٹھ انے کے لئے داخل ہونا۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272