آفتاب ولایت

آفتاب ولایت0%

آفتاب ولایت مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 272

آفتاب ولایت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علی شیر حیدری
زمرہ جات: صفحے: 272
مشاہدے: 133778
ڈاؤنلوڈ: 3303

تبصرے:

آفتاب ولایت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 272 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 133778 / ڈاؤنلوڈ: 3303
سائز سائز سائز
آفتاب ولایت

آفتاب ولایت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

آفتاب ولایت

مصنف:علی شیر حیدری

۳

پیش لفظ

علی اور دیگر آئمہ معصومین کی معرفت کیونکر ضروری ہے؟

بے شک بہت سی قیمتی اور اعلیٰ کتابیں مولا علی علیہ السلام اور باقی آئمہ معصومین علیہم السلام کو متعارف کروانے کیلئے اور اُن کی ولایت برحق کے ثبوت میں لکھی جاچکی ہیں اور وہ مسلمانوں اور حق کی تلا ش کرنے والوں کے ہاتھوں تک پہنچ چکی ہیں ۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ان تمام کتابوں کے میسر ہونے کے باوجود خدا کے ان خاص بندوں کی مظلومیت اقوام عالم میں اب بھی اظہر من الشمس ہے اور اُن کا مقام اعلیٰ، عظمت بالا، اُسوئہ حسنہ ،بندگی خدااور عبادت بے ریاء بہت سے مسلمانوں کی نظروں سے ابھی تک اوجھل ہے۔

اس کے برعکس ہم دیکھ رہے ہیں کہ شیطانی قوتیں اور گمراہ قومیں روز بروزلوگوں کو اہل بیت اطہاراور صراط مستقیم سے منحرف کرنے کیلئے اپنا دائرئہ اثر وسیع سے وسیع تر کررہی ہیں۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ ایسی کتابیں لکھے جانے کی ضرورت ہے جو عصر جدید کے تقاضوں کوکماحقہ پورا کرسکیں۔

امام کی خدمت میں ایک حقیر تحفہ

پیش نظر کتاب جو حقیقتاً خاندان نبوت کے دریائے فضائل کے سامنے ایک قطرہ یا اُس سے بھی کم تر حیثیت کی حامل ہے، مجھ ناچیز کی طرف سے جناب مولائے متقیان امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی خدمت اقدس میں یہ حقیر تحفہ اور اُن کے فرزند باکمال، قطب عالم امکان، بقیة اللہ الاعظم امام زمانہ علیہ السلام کے توسط سے پیش ہے۔

اس اُمید کے ساتھ کہ میری یہ بہت مختصر اور حقیرکوشش شاید اُن افراد کیلئے جو ان بزرگوں کے اعلیٰ کردار ، بزرگی اور عظمت و بلندی کی مکمل پہچان کی جستجو میں ہیں، مددگار ثابت ہو، اور وہ تلاش حق میں کامیاب ہوں ،نیز اُن افرادکیلئے جن کے دل محبت اہل بیت نبوت سے سرشار ہیں، مزید تقویت ایمانی کا باعث بنے۔ انشاء اللہ مجھے خدائے بزرگ و برترسے اُمید کامل ہے کہ جس دن

۴

( یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالَ وَلا بَنُون )

کی صدابلند ہوگی، اُس دن اہل بیت سے ہمارا یہ رشتہ عشق و محبت توشہ آخرت ثابت ہوگا اور یہ بزرگ اُس دن ہمیں لوائے حمد کے سایہ میں جگہ دیں گی۔

معاشرے میں صالح حکومت اور مخلص رہبر کی ضرورت

اس میں کوئی شک نہیں کہ صالح حکومت اور مخلص رہبر کا وجود ہر معاشرے کی بنیادی اور اہم ترین ضرورت ہے۔ دنیا کے تمام عاقل اور دانشمند حضرات اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور اسے معاشرے کی سلامتی اور ترقی کیلئے بنیادی شرط مانتے ہیں ۔ مخلص رہبر کا ہونا تو سب سے اہم اور لازم ہے، اس کے بغیر کسی بھی معاشرے کا قائم رہنا ناممکن ہے۔ جس معاشرے میں کوئی حکومت اور رہبر نہ ہو، اُسے بیمار اور زوال پذیر معاشرہ سمجھا جاتا ہے۔

کلی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صالح حکومت اورمخلص رہبر (جس نقطہ نظر سے بھی دیکھیں) کی ضرورت روز روشن کی طرح واضح ہے۔

انسانوں کی حکومت بنانے کی کوششیں

یہ نکتہ غور طلب ہے کہ انسان نے حکومت بنانے اور رہبر چننے کی ضرورت کو بہت عرصہ پہلے محسوس کر لیا تھا لیکن ان میں سے بہت سے علوم لازمہ سے باخبر نہ ہونے کی وجہ سے حکومت بنانے اور رہبر چننے کیلئے غلط راستوں پر چلے۔ ہمیں یہ تسلیم کرناہوگا کہ غلطی کی بنیادصرف یہ تھی کہ ان لوگوں نے محض اپنی محدود عقل پر بھروسہ کیا، جبکہ ان کے مقابلہ میں دوسرے گروہ نے پیغمبران خدا کی تعلیمات کی روشنی سے اپنی محدود عقل کو وسعت بخشی۔ اس طرح اُن کی فکری نظر لامحدود اور

۵

کامل تر ہوگئی۔ اس کے نتیجہ میں جلد ہی غلط اور صحیح راستے میں پہچان ہوگئی اور ایسی شکل میں حکومت سامنے آئی جو تمام افراد کی مادّی اور معنوی ضروریات کا خیال رکھے اور یہ حکومت سوائے اللہ تعالیٰ کی حکومت کے اور کوئی نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس سیدھے راستے کے پیروکار ہمیشہ اقلیت میں رہے لیکن اپنے پختہ اورسچے ارادے سے اس کوشش میں رہے کہ ایسی سعادت مند حکومت کا قیام ہوجائے ۔ یہاں تک کہ اللہ نے اپنے پیغمبرخاتم کے ذریعے دین اسلام کو مکمل کردیااور ایک وسیع حکومت اسلامی معرض وجود میں آئی۔ اللہ نے اس حکومت اسلامی کو برقرار رکھنے کیلئے اپنے رسول کے ذریعے ایسے مخصوص افراد کی پہچان کروائی تاکہ اُن کی بدولت یہ اسلامی حکومت اپنے مقاصد عالی تک پہنچ سکے اور لوگ اُن کی اطاعت کرکے حق کے راستے کو پہچانیں اور گمراہی سے بچ جائیں اور منازل عالیہ کو حاصل کرسکیں۔

حکومت اسلامی کی قابل توجہ خصوصیات

حکومت اسلامی کی قابل توجہ خصوصیات جنہوں نے اسے دیگر طرز کی حکومتوں سے ممتاز کردیا، وہ اس کے دو بنیادی اور اہم ستون ہیں ،جن کی وجہ سے انتہائی کم مدت میں اسلام کی آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گئی۔ جلد ہی اس کے لاکھوں بلکہ کروڑوں پیروکار اور معتقدجہان میں پھیل گئے۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے علم و دانش میں ترقی ہوگی، لوگ باقی طرزہائے حکومت کے نقائص اور بے فائدہ ہونے کو جان جائیں گے اور انشاء اللہ حکومت اسلامی کی طرف لوگوں کا رحجان بہت تیزی سے بڑھے گا۔

حکومت اسلامی کی دو قابل توجہ خصوصیات یہ ہیں:

۱۔ اُس خدائے پاک نے جس نے انسان کو خلق کیا اور وہ اس انسان کی تمام مادی اورروحانی ضروریات سے سوفیصد واقف ہے،ایک ایسا نظام حیات کتابی صورت میں عطا کیا جس میں اُس نے اپنے لطف و کرم کی عظمت کے تحت کوئی ایسا ضابطہ حیات جو انسان کی ترقی کیلئے ضروری ہو، کم نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام قوانین الٰہی اپنے انبیاء، اوصیاء اور اولیاء کے ذریعے سے انسانوں تک پہنچا ئے۔

۶

۲۔ اسلام اور حکومت اسلامی کی دوسری قابل توجہ خصوصیت اُن افراد پاک سے تعلق رکھتی ہے جو ان قوانین اور دستورات الٰہی کو انسانوں تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں اوررہیں گے۔

مندرجہ بالا خصوصیات سے ظاہر ہوا کہ حکومت اسلامی میں قوانین کی بنیاد اور اساس قول خداوندی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو لوگوں تک پہنچانے اور معاشرے میں رائج کرنے کے ذمہ دار افراد بھی خدا کی طرف سے متعین ہوں گے۔ پہلے مرحلہ میں خود پیغمبران خدا اور دوسرے مرحلہ میں اُن کے جانشین برحق اس کام کے ذمہ دار ہیں۔

اس بنیاد پر سید المرسلین کے وجود پاک کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت ازلی کے سبب یہ ذمہ داری آپ کے اوصیائے کرام یعنی آئمہ معصومین علیہم السلام کے حصہ میں آئی اور ابھی تک یہ خدا کا کرم بصورت جناب حجة القائم امام مہدی علیہ السلام ابن الحسن عسکری قائم ہے۔ یہاں تک کہ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے دوران بھی لوگوں کو صحیح راستہ بتانے کیلئے اور اُمت مسلمہ کی رہنمائی کیلئے ذمہ داری فقہائے بزرگ و باتقویٰ اور علمائے کرام جن کے سربراہ ولایت فقیہ ہیں، دی گئی ہے۔(۱)

____________________

۱ : کتاب کمال الدین باب۔۴۵ اور دیگر کتب کے حوالہ سے ایک اہم حدیث خود امام زمانہ علیہ السلام(عج) سے یوں نقل ہے:آپ نے اسحاق بن یعقوب ، ایک معروف شیعہ بزرگ عالم(بواسطہ محمد بن عثمان بن سعید) کے خط کے جواب میں ارشاد فرمایا:

”وَاَمَّاالْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوْافِیْهَااِلٰی رُوَاةِ حَدِیثِنَافَاِنَّهُمْ حُجَّتِیْعَلَیْکُم وَاَ نَاحُجَّةُ اللّٰهِ عَلَیْهِمْ“

”تمہارے لئے جو حوادث اور واقعات پیش آئیں، اُن کی رہنمائی کیلئے ہمارے علماء و فقہاء کی طرف رجوع کرو کیونکہ وہ تم سب پر حجت ہیں اور میں اُن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت ہوں“۔

۷

پیغمبر اسلام کے بعد رہبری جامعہ اسلامی میں اختلاف بین المسلمین پر ایک نظر

تاریخ اسلام خطرناک اور حساس واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس میں نشیب و فرازبھی ہیں، کامیابی کی داستانیں بھی ہیں اور پسپائی کے منظر بھی۔انہی راستوں سے تمام ایمان کےدعویداروں کا امتحان بھی ہوا اور آزمائش الٰہی بھی۔ آہستہ آہستہ حقیقی مومن اور ظاہری دعویداران ایمان الگ الگ ہوگئے۔ یہ روش جاری رہی اور تاقیامت جاری رہے گی۔ اس طرح کا ایک واقعہ تاریخ اسلام میں ایسا بھی ہوا جس میں آزمائش کے تمام مواقع موجود تھے۔ ہم مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی اصلی وجہ کو بھی اس میں تلاش کریں گے۔

جب سرورکائنات، اشرف مخلوقات، سبب وجود کائنات، پیغمبر اسلام حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جہان فانی کو خیر باد کہہ کر لقائے رب العالمین کیلئے اُس جہان کی طرف منتقل ہوئے تو سارا عالم اسلام ماتم کدہ بن گیا(۱) ۔ ہر دل غمگین ہوگیا اور ہر چہرہ پریشان ہوگیا۔

_____________________

۱:جناب رسول خدا کے انتقال کے فوری بعد ایک گروہ سقیفہ بنی ساعدہ میں نئے رہبر اور خلیفہ کے انتخاب میں مشغول ہوگیا۔ان لوگوں نے امامت اور رہبر کے بارے میں اپنے پیغمبر کی تمام نصیحتوں اور فرامین کو یکسر فراموش کردیا۔جبکہ حضرت علی علیہ السلام اور چند دیگر اصحاب خاص رسول خدا کے کفن و دفن میں مصروف تھے۔

۸

اُن مخصوص حالات میں تمام مسلمانان عالم پر واجب تھا کہ وہ رسول خدا کی واضح نصیحتوں اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور رہبری کے بارے میں ارشادات کو پیش نظر رکھتے تاکہ تمام مسلمانوں کو ہر قسم کے فتنہ و فساد سے بچایا جاسکتا۔ لیکن افسوس !ایسا نہ ہوا۔ مسلمانوں میں سے ایک گروہ کی لاعلمی کی وجہ سے اور منافقین کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اہم فیصلے ایسے افراد کےہاتھوں میں آگئے جو اس کے اہل نہیں تھے، جنہوں نے مسلمانوں کی عدم توجہ سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور پیغمبر اسلام کی تمام نصیحتوں اور برملا اعلانات کو پس پشت ڈال دیا۔ اس طرح عوام الناس کو خدا کے چنے ہوئے برگزیدہ اماموں کی رہنمائی سے محروم کردیا گیا۔

ان وجوہات کی بناء پر اور عالم اسلام کی سلامتی کی خاطر سب سے پہلے جناب سیدہ فاطمة الزہراسلام اللہ علیہا نے شہادت پائی۔ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا ایک عظیم عالمہ اور ولایت علی علیہ السلام کی سب سے بڑی محافظہ تھیں۔ آپ رسول اللہ کے بہت نزدیک تھیں۔ مزید برآں خاص اصحاب رسول اُس معاشرے میں تن تنہا رہ گئے اور دوسرے افراد حکومت میں نفوذ کرگئے۔

اس طرح مسئلہ خلافت اور حکومت پر مسلمان دودھڑوں میں تقسیم ہوگئے اور آہستہ آہستہ یہ خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی اور یہ بات مسلمانوں میں مزید دھڑے بندیوں کا باعث بنی۔

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد عیسائی، یہودی اور اُن تمام لوگوں نے جن کے دلوں میں اسلام کے خلاف کینہ تھا، اس سانحہ عظیم سے بہت فائدہ اٹھایا اور ہر ممکنہ کوشش کی کہ مسلمانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ اختلافات پیدا کئے جائیں۔ اُن کااصلی مقصد تو صرف دین اسلام کی بنیاد اکھاڑنا تھا۔ وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئے ۔ وہ افراد جنہوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کئے اور اس چیز کا باعث بنے کہ مسلمان قیامت تک متحد نہ ہو سکیں، یقینا اُس دن اُن سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، جس دن چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور چھوٹی سے چھوٹی بدی کا بھی حساب ہوگا۔ اُس وقت اُن کے پاس شرمساری کے سوا کوئی جواب نہیں ہوگا۔ البتہ اُس دن شرمساری کوئی فائدہ نہیں دے گی۔

۹

آج ضرورت وقت کیا ہے؟

رحلت رسول خدا کے بعد مسلمانوں کو جوتلخ تجربات ہوئے اور جن نازک حالات سے گزرے، اُن کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان جس فرقہ یا نظریہ کے بھی ماننے والے ہوں، اپنا فرض سمجھ کر آگے آئیں اور موجودہ دور کی ترقی علم و دانش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رسول خدا کے اُن تمام ارشادات جو انہوں نے حکومت اسلامی اور اس کے رہبران کے تعارف کیلئے فرمائے، کا مطالعہ کریں۔ یہ مطالعہ اُسی وقت فائدہ دے گا جب ہر قسم کے تعصبات اور شیطانی وسوسوں کو بالائے طاق رکھ کر تلاش حق کیلئے جستجو کی جائے۔

ملت اسلامیہ سے عمومی طور پر اور برادران و خواہران اہل سنت سے خصوصی طورپر مخلصانہ درخواست ہے کہ علمائے اہل سنت کی کتابوں کا بھی مطالعہ کریں جن میں انہوں نے مقام اور فضائل حضرت علی علیہ السلام بیان کئے ہیں۔

قرآن پاک میں بہت سی آیات ہیں جو حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت کی شان میں نازل ہوئیں۔ اس بارے میں رسول خدا کی بہت سی روایات موجود ہیں۔ ان کے علاوہ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر، خلیفہ دوم حضرت عمر، خلیفہ سوم حضرت عثمان اور حضرت عائشہام المومنین اور دیگر فلسفی اور دانشمند حضرات نے بیشمار فضائل حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بیان فرمائے ہیں۔ اس لئے ہماری گزارش ہے کہ اُن کا بھی مطالعہ کیا جائے۔ اس طرح پڑھنے والے کو اصل حقائق جس طرح واقع ہوئے ہیں، کا علم ہوجائے گا۔

کچھ اس کتاب کے بارے میں

کتاب ہذا کے چند باب ہیں ،جس کے باب اوّل میں امامت کے بارے میں دلائل عقلی لکھے گئے۔ بعد کے ابواب میں روایات اور دیگر مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ سب سے زیادہ روایات برادران اہل سنت کی کتابوں سے لی گئی ہیں تاکہ برادران و خواہران اہل سنت اپنی ہی کتابوں کے مندرجات سے آگاہ ہوں اور مقام اعلیٰ و عظمت حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت اطہار سے آشنا ہوں۔

۱۰

کتاب کے باقی ابواب میں موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے آیات قرآنی، احادیث پیغمبر اکرم، بیانات خلفائے اوّل ، دوم اور سوم، حضرت بی بی عائشہ اُم المومنین اور علمائے اہل سنت کو جمع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں غیر مسلم دانشوروں کے نظریات کو بھی ایک باب میں اکٹھا کیا گیا ہے۔

آخر میں مخالفین اور دشمنان حضرت علی و اہل بیت علیہم السلام کے نظریات بھی تحریر کئےگئے ہیں۔

مجھے اُمید ہے کہ خدا کے لطف و کرم سے اور امام زمانہ حضرت حجة ابن الحسن علیہ السلام کی نظر عنایت سے یہ کتاب تمام مسلمان بھائیوں کیلئے مفید ثابت ہوگی۔

میں خدائے پاک کا شکرگزار ہوں کہ جس نے مجھے ہمت اور توفیق دی کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کے خانوادئہ نورانی کی تھوڑی سی خدمت کرسکوں۔میں واجب سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر امام خمینی اور دیگر شہدائے اسلام اور خصوصاً اپنے عزیز یحییٰ سراج کو خراج تحسین پیش کروں۔

میں مولا علی علیہ السلام کے فرزند صالح ، رہبرمعظم ایران حضرت آیت اللہ علی خامنہ ای مدظلہ العالی اور تمام خدمت گزاران اسلام جو امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کیلئے سازگار ماحول پیدا کررہے ہیں، کی سلامتی اور درازی عمر کا خواہاں ہوں۔

آخر میں اُن تمام رفقائے محترم کا جنہوں نے میرے اس کام میں میری مدد فرمائی

(استاد محترم حضرت حجة الاسلام والمسلمین حاجی شیخ ید اللہ سراج اور استاد محترم حضرت حجة الاسلام حاجی شیخ محمود گودرزی زاہدی اور ناشر محترم جناب آقای سید مہدی نبوی) کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور خدائے بزرگ وبرترسے اُن کیلئے اجر عظیم کا طلبگار ہوں۔

والحمدللّٰه ربّ العالمین

۱۵/شعبان المعظم۱۴۱۲ہجری

محمد ابراہیم سراج، قم،المقدسہ ایران

۱۱

پہلا باب بحث عقلی

عقلی دلائل پر توجہ دینے کی ضرورت

تمام بنی نوع انسان عقلی دلائل کو نہایت اہمیت دیتے ہیں ۔اس طرح عقلی دلائل اور عقلی بحث کا ایک خاص مقام ہے۔ اسلام میں بھی اس کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں بار بار انسانوں کو فکر کرنے اور عقل سے کام لینے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور(آیات قرآن جیسےافلاتعقلون : سورئہ بقرہ۴۶۔۷۶،لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْن ،سورئه بقره:۷۳-۲۴۲، اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاٰیٰاتٍ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْن ،سورئه رعد:۴، سورئہ نحل۱۲اور اسی طرح دوسرے مقامات پر۔اَکْثَرُهُمْ لٰا یَعْقِلُوْن :سورئہ عنکبوت۶۳، سورئہ مائدہ۱۰۳ اور دوسری آیات)عقل سے کام نہ لینے کی مذمت کرتا ہے۔ درحقیقت اسلام کے جدیدمسائل کے اجتہاد کیلئے عقلی دلائل سے مطابقت ایک اہم شرط ہے، کیونکہ شریعت کے احکام عقل و دانائی کے عین مطابق ہیں اور ذات باری تعالیٰ کوئی حکم خلاف عقل صادر نہیں کرتی۔

اس سے معلوم ہوا کہ شرعی احکام اور عقل کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے۔ ہر وہ چیز جس کو عقل سلیم تسلیم کرتی ہے، شریعت بھی اُس کی تائید کرتی ہے۔ لہٰذا عقل کا کسی چیز کو تسلیم کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے اور لازماً اُس پر توجہ دینی چاہئے۔ اسی قانون کے پیش نظر اس کتاب میں بھی محققین اور دانشور حضرات کیلئے امامت اور رہبری کے موضوع پر اس طرف خصوصی توجہ دی گئی ہے،نیز روایات اور احادیث کو بیان کرنے سے قبل عقلی دلائل کو زیر بحث لایا گیا ہے تاکہ اس اہم موضوع کیلئے تمام دلائل عقلی واضح ہوجائیں اور روایات، احادیث اور آیات قرآن کریم کو پڑھنے کے بعد فیصلہ کرتے وقت کام آسکیں اور ہم منزل مقصودکو پاسکیں۔

۱۲

مسئلہ امامت پر بحث کی ضرورت

بعض اوقات اسلام کے بنیادی اصولوں سے بالکل ناواقف اور کم علم لوگ بڑی سنجیدگی سے اسلامی مسائل پر رائے زنی کرتے ہیں۔اس کا نتیجہ سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں ہوتا کیونکہ جب بھی لاعلمی اور عدم آگاہی کی بنیاد پر کسی موضوع پر اظہار خیال کیا جائے تو پریشانی افکار اور پراگندگی اذہان کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیںآ تا۔

افسوس کہ یہ علم سے بے بہرہ لوگ، دین اسلام کے دو اہم مسائل یعنی امامت اور رہبری پر ماضی میں بھی اظہار خیال کرتے رہے ہیں اور اب بھی کررہے ہیں۔ اس سے بُرے عزائم رکھنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ وہ ان لوگوں سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امامت اور خلافت کے بارے میں کوئی بات کرنا، یا رسول پاک کے انتقال کے بعد کس کو زمام حکومت سنبھالنا چاہئے تھی؟ اس پربحث کرنا زمانہ گزشتہ کی بات ہے جسے کئی صدیاں گزر چکی ہیں۔ لہٰذا اس پر بحث کرنے کا کوئی نتیجہ یا فائدہ نہیں ،کیونکہ اس کی حیثیت صرف تاریخی رہ گئی ہے۔

اس طرح کے نتائج نکالنے والوں پرحقائق واضح کرنے کی ضرورت ہے ، اس لئے ذیل میں چند نکات پیش خدمت ہیں جو اس طرح کے سوالات اور شبہات کے روشن جوابات ہیں:

اوّل: گو مسلمانوں کی امامت اور رہبری جیسے اہم مسائل رسول خدا کی وفات کے بعد بہت پرانے ہوچکے ہیں اورانہیں صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ان پر بحث کرنا بہت ہی اہم ہے۔ کیونکہ مسلمانوں اور حق طلبوں کی تاریخ اس سے وابستہ ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ اگر ان موضوعات پر کوئی بحث اور تحقیق نہ ہو تو لوگوں کو صراط مستقیم کا سراغ نہیں مل سکتا بلکہ آہستہ آہستہ وہ راہ حق سے دور ہوتے جائیں گے اور حقائق اسلام اُن سے پوشیدہ رہیں گے۔ آئمہ معصومین (پیغمبر اسلام کے برحق نائبین) کو نہ پہچاننے کی وجہ سے بہت سے اسلامی فرقے غلط راستوں پر چل پڑے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے امامت اور رہبری جیسے اہم مسائل کیلئے اُن تفاسیر اور روایات نبوی سے مدد لی جن کے لکھنے والے کسی نہ کسی اعتبار سے قابل اعتماد نہ تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان مسائل پر اُن کا نظریہ نہ تو قرآن پاک سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی معتبرروایات سے۔

۱۳

دوسرا: عقلی دلائل کی بنیاد پر یہ ثابت ہے کہ دین اسلام میں امام کا انتخاب خدائے پاک کی رف سے ہونا چاہئے نہ کہ لوگوں کی طرف سے۔ صرف اور صرف اسی ایک نکتہ پر اگرتمام مسلمانان عالم تحقیق کریں اور توجہ دیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی پاک کے بعد امام اور ولی کے طور پرکس کا تعارف کروایا ہے؟ تاکہ اُس کی اطاعت اور پیروی کرکے سعادت اُخروی پر فائز ہوسکیں۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امامت کے موضوع پر تحقیق کرنا انتہائی ضروری ہے۔

انتخاب امام پر سنی اور شیعہ حضرات کا نظریہ

نبی کے بعد امام کا انتخاب کیسے کیا جائے، اس کو جاننے کیلئے ہم اہل سنت اورشیعہ حضرات دونوں کے نظریات کا الگ الگ جائزہ لیں گے اور اُن کو عقل و منطق کی کسوٹی پر

پرکھیں گے۔

انتخاب امام کیلئے علمائے اہل سنت کا نقطہ نظر

علمائے اہل سنت کے نزدیک امام کا انتخاب ایک اجتماعی مسئلہ ہے جو تقریباً ہر معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک دنیا کی تمام ملتوں میں پایاجاتا ہے۔ اس کی مثال کسی جمہوری ملک کے ایسے سربراہ کی سی ہے جسے ایک خاص عرصہ اور مدت کیلئے وہاں کے رہنے والے چنیں۔ لہٰذا اہل سنت حضرات مقام امامت اور رہبری کو صرف عمومی حیثیت دیتے ہیں اور لوگ یا وہ افراد جن کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہو، اس مقام اور منصب کیلئے کسی فرد کو چن سکتے ہیں۔

انتخاب امام کیلئے شیعہ علماء کا نقطہ نظر

علمائے شیعہ اور مکتب شیعہ کی نظر میں امامت اللہ کا عطا کردہ منصب ہے اور یہ اللہ ہی کا کام ہے کہ جس فردکو اس مقام اور عہدہ کے لائق اور اس عظیم ذمہ داری کے قابل سمجھے، اُس کا تعارف بطور امام کروائے۔ اس کی دلیل واضح ہے کیونکہ اگر امام اور پیغمبرکو فضائل ، مراتب اور ذمہ داریوں کے اعتبارسے دیکھا جائے تو اُن میں سوائے نزول وحی کے اور کوئی فرق نہیں کیونکہ وحی صرف نبیوں اور رسولوں کیلئے مخصوص ہے۔

۱۴

جس طرح ایک نبی کے انتخاب میں عوام کو کوئی اختیار حاصل نہیں ، اسی طرح امام کے انتخاب میں بھی اُن کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہوگا۔مندرجہ ذیل دلائل اس کی تصدیق کرتے ہیں:

(ا)۔ اگر انتخاب امام کا اختیار لوگوں کو دے دیا جائے تو یہ لوگوں کے درمیان شدید اختلافاور تفرقہ کا باعث بنے گا۔اس صورت میں ہر گروہ اور قبیلہ امام کے انتخاب کیلئے اپنے اپنے منظور نظر افراد کو پسند کرے گا۔

(ب)۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ لوگ بغیر کسی اختلاف کے کسی ایک شخص کواس مقام کیلئے چن لیں گے تو پھر بھی اُن کا یہ عمل خطا سے بَری نہیں کہا جاسکتا کیونکہ عین ممکن ہے کہ وہ شخص جس کو چناگیا ہے، اُس میں وہ صلاحیتیں جو اس ذمہ داری کو نبھانے کیلئے ضروری ہیں، نہ ہوں۔ اس طرح ایک نادرست عمل کی وجہ سے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اور وہ صراط مستقیم سے بھٹک سکتے ہیں اور اس طرح تمام نبیوں اور رسولوں کا بڑی زحمتوں سے کیا ہوا تبلیغی کام ضائع ہوسکتا ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ جس دین کو پھیلانے کیلئے خدانے اپنے بندگان خاص سے صدیوں تک کام لیا ہو، اُسی دین کو اب بے یارومددگار چھوڑ دے ۔ یہ اُس کی حکمت اور لطف و کرم سے بعید ہے۔ اُس کی ہرگز یہ منشاء نہیں ہوسکتی کہ لوگ گمراہی اور نقصان کے راستے پر چلیں۔

خدا کی حکمت اور لطف و کرم کا تقاضا

اس دنیا میں جب ہم وحدت خداوندی کو دیکھتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ ہدایت عمومی کیلئے ایک واضح اور روشن دلیل بھی نظر آتی ہے۔ اگر ہم اس کو پہچان لیں تو بہت سے شکوک و شبہات دور ہوجاتے ہیں اور بہت سے سوالات کا جواب بھی مل جاتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ جب پروردگار اپنے لطف و کرم سے اپنی مخلوق کو پیدا کرتا ہے تو ہر پیدا ہونے والے کو صراط مستقیم اور منزل مقصود کی ہدایت کرتاہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ دنیا کی کسی مخلوق کا کوئی فرد بھی خدا کے اس قانون سے باہر نہیں ،حتیٰ کہ انسان بھی جو خدا کی ایک مخلوق ہی نہیں بلکہ اُس کی نظر میں اشرف المخلوقات ہے۔

۱۵

قرآن مجید نے انسان کے احترام و اکرام کے بارے میں واضح ارشاد فرمایا ہے:

( وَلَقَدْ کَرَّمْنَابَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنَهُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَهُمْ مِّنَ الطَّیِبٰتِ وَفَضَّلْنَهُمْ عَلٰی کَثِیْرٍمِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا ) (سورئہ بنی اسرائیل:آیت۷۰)

”اوریقینا ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور خشکی و تری میں ان کوسواریاں دیں اور اچھی اچھی چیزوں سے اُن کو روزی دی اور بہت سی مخلوق پر ان کو فضیلت دی جیسا کہ فضیلت دینے کا حق ہے“۔

وہ بھی خدا کی جانب سے اس قانون کے تحت ہدایت کیا گیا ہے۔

البتہ انسان تنہا اپنی عقل کے بل بوتے پر ہرگز اُس منزل کمال کو نہیں پہنچ سکتا جو اُس کی تخلیق کا مقصد تھا۔لہٰذا ضروری تھا کہ خدا انسان کی ہدایت کا انتظام رسولوں، نبیوں اور اپنی کتب کے ذریعے سے کرے اور یہ سلسلہ ہدایت خاتم النبیین حضرت محمد کی بعثت پر اختتام پذیر ہو۔

اب یقینایہ سوال پیداہوگا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجنے کا سلسلہ خاتم المرسلین کے بعد بند کردیا تو لوگوں کی ہدایت بغیر کسی نبی کے کیسے ممکن ہوگی۔ یعنی تاروز قیامت لوگ کس طرح حق و باطل ، غلط و صحیح اور کج روی و صراط مستقیم میں فرق جان سکیں گے۔ اس کے علاوہ کون اُن کو جعلی احادیث، آیات قرآنی کی تفسیربالرائے، بدعتوں کی شناخت اورجدید مسائل کے بارے میں ہدایت کرے گا! یہ خدا کی عنایات غیر محدود سے بعید ہے کہ وہ اپنے بندوں کو خاتم المرسلین کے بعد بغیر کسی رہبر یا ہادی کے لاوارث چھوڑ دے اور گمراہ کرنے والوں کیلئے میدان کھلا چھوڑ دے۔ نہیں ،ہرگز نہیں!! ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ اُس نے تو اپنے منتخب نمائندوں کا لوگوں میں تعارف کرواکے اُن کی ہدایت دائمی کا سامان مہیا کردیا۔ یہ اُس کی مہربانی اور فضل و کرم کی بہترین مثال ہے۔

ان سوالات کے جوابات کیلئے ہم عقل سلیم کی طرف رجوع کرتے ہیں اور جو جوابات ملیں، اُن کو اپنی بحث میں شامل کرتے ہیں۔

۱۶

ہدایت الٰہی کی تعریف

ہدایت الٰہی کی تعریف یہ ہے کہ وہ انسان کو وہ راستہ دکھائے جس پر چل کر انسان فلاح و بہبود پائے اور گناہ و گمراہی سے دور رہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی منزل کی طرف رہنمائی دعوت ارشاد، تبلیغ حق اور فرمان الٰہی کیبغیرممکن نہیں۔نصیحت و تبلیغ کی ضرورت تو انسان کو ہمیشہ رہتی ہے۔ علم کلام کے اساتذہ کے مطابق خدا پر واجب ہے کہ وہ انسان کی ہدایت کیلئے کرئہ ارض کو اپنے ہادی سے خالی نہ رکھے کیونکہ اگر حق تعالیٰ کی طرف سے اس میں کمی یا نفی ہو تو اس کا لازماً اثر یہ ہوگا کہ غرض خلقت بشر پوری نہ ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں بغیر سامان ہدایت مہیا کئے مقصد خدا ناکام رہے گا۔مقصد میں ناکامی بجائے خود ایک ناپسندیدہ اور قبیح چیز ہے۔ خدا کی ذات بغیر کسی شک کے ہر قسم کے ناپسندیدہ اور قبیح افعال سے پاک و منزہ ہے۔

لہٰذا اُس کی حکمت و رحمانیت و ہدایت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کو کبھی بھی ہادی برحق اور رہنما سے محروم نہ رکھے۔ قابل ستائش رہبروں کو بھیج کر انسان کو ہر طرح کی گمراہی و بےراہ روی سے نجات دیدے۔

پس اس بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ امامت حقیقت میں خدا کی جانب سے انسان کو کمال تک پہنچانے کیلئے ہدایت اور حجت ہے۔

امام ہونے کی شرائط اہل سنت اور شیعہ حضرات کی نگاہ میں

گزشتہ بحث میں انتخاب امام کیلئے اہل سنت اور شیعہ حضرات کے جدا جدا نظریات بیان کئے گئے۔ اب ہم امامت اور خلافت جیسے اہم مراتب کیلئے امام ہونے کی لازم شرائط کے بارے میں اہل سنت اور شیعہ حضرات کے نظریات بیان کریں گے۔

علمائے اہل سنت کی نگاہ میں شرائط امام

علمائے اہل سنت کی نظر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امام یا خلیفہ چننے کیلئے کسی خاص شرط کی ضرورت نہیں بلکہ یہ ایک عادی اور معمول کا عمل ہے اور لوگ اختیار رکھتے ہیں کہ اپنے امام کو چن لیں۔ کسی شخص کی ظاہری قابلیت اُس کو اس عہدہ پر چننے کیلئے کافی سمجھی جاتی ہے اور دیگر کسی خصوصی شرط کی کوئی قید نہیں۔

۱۷

علمائے شیعہ کی نگاہ میں شرائط امام

لیکن شیعہ علماء برخلاف نظریات برادران اہل سنت اس عظیم منصب کیلئے ، جو قوموں کے حالات بدل کر رکھ دے، کو اس طرح آسانی سے چن لینے کو صحیح نہیں سمجھتے۔ وہ تو امام یا وصی نبی کیلئے چند خاص شرائط کو لازم سمجھتے ہیں اور ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنے دعویٰ کو قوت بخشتے ہیں۔ ان کے خاص خاص دلائل ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:

(ا)۔ کیونکہ امام نبی کا وصی ہونے کے ناطے اُس کی تمام تبلیغات اور دین و شریعت کےسلسلہ کو جاری و ساری رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے، لہٰذا اُس کی ذمہ داری بھی عین نبی کی ذمہ داری کے مساوی ہوتی ہے۔ اگر مقام وحی کو الگ سمجھا جائے تو مقام امام اور مقام نبی میں کوئی فرق نہیں رہتا اور امام کو بھی اُسی علم ، حلم ، تقویٰ اور دیگر کمالات کا حامل ہونا چاہئے جن کا نبی حامل ہے۔ امام کی عادات و اطواراوراوصاف بھی وہی ہونے چاہئیں جو نبی کے ہوں تاکہ وہ نبی کا پورا پوراعکس ہو۔

(ب)۔ شریعت محمدی بغیر کسی شک و شبہ کے آخری شریعت الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مکمل اور تسلیم شدہ دین بنا کر لوگوں تک پہنچایا ۔ اس کی تصدیق میں ارشاد خداوندی ہے:

( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ )

”آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کردیا“۔(سورئہ مائدہ:آیت۳)

( اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ )

”اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین صرف اسلام ہے“۔(آل عمران:آیت۱۹)

یہ دین قیامت تک انسانوں کے مادی و روحانی تجسسّات و سوالات کا جواب دہندہ رہے گا۔

رسول خدا نے اپنے اوصاف اعلیٰ اور کمال علم کے باوجود بعض مسائل انسانی جو زمان و مکان سے مربوط ہیں، مصلحت دین کی خاطر بیان نہ فرمائے تاکہ لوگوں کے فہم و ادراک میں بلندی آنے پر دین کے اُن مسائل پر اُس زمانے میں تحقیق کی جاسکے۔

۱۸

اس بناء پر ذات حق پر واجب ہوا کہ وہ ہدایت الٰہیہ کی گزشتہ روایت کو جاری رکھتے ہوئے ایسے افراد کو چنے اور یہ ذمہ داری سونپے کہ وہ لوگوں کو احکام خدا پہنچاتے رہیں۔ زمانہ جدید کے تقاضوں کے عین مطابق دینی مسائل کے حل کیلئے قیامت تک رہنمائی کرتے رہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ جن اشخاص کو یہ ذمہ داری سونپی جائے، وہ کردار و رفتار ، علم و حلم ، عصمت و صداقت اور پاکیزگی میں یا باالفاظ مختصر وہ تمام صفات و عادات جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تھیں، اُن میں بھی ہونی چاہئیں۔ ابلاغ و تبلیغ جیسے کٹھن کام اور شریعت کے مشکل مسائل کو حل کرنے کیلئے اُن میں بھی رسول پاک جیسا وسیع خداداد علم ہونا چاہئے۔

اس طرح ایسے افراد کو پاک طینت، زندہ و روشن ضمیر ہونا چاہئے اور ہر طرح کی خطا اور گناہ سے بھی مبرا ہونا چاہئے تاکہ لوگوں کا اعتماد ہمیشہ بحال رہے۔ مزید برآں اُن کو دین میں ممکنہ تبدیلی کرنے یا کوئی بدعت شروع کرنے سے بھی پاک و منزہ ہونا چاہئے۔

اوپر بیان کئے گئے دلائل سے ثابت ہواکہ امام اور وصی نبی کو یقینا خصوصی شرائط کا حامل ہونا چاہئے۔ ذیل میں اہم شرائط کو بیان کیا جاتا ہے:

اہم شرائط امام کی تشریح

عصمت و پاکدامنی

سب سے اہم شرط جو امام میں لازماً ہونی چاہئے، وہ اُس کی عصمت اور پاکدامنی ہے یعنی امام کو معصوم ہونا چاہئے۔ اس شرط کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی اس شرط کا قائل نہیں تو وہ واضح دلائل کی روشنی میں اپنے دعویٰ میں خرابی کا شکار ہوجائے گا کیونکہ یہ تسلسل کا محتاج ہوجائے گا۔اس کی تشریح درج ذیل ہے:

امام کے وجود کی ضرورت اسی بناء پر ہے کہ وہ انسانوں کیلئے شمع ہدایت ہو اور ظلم و زیادتی اور فساد کو روکنے والا ہو، اگر امام خود معصوم نہیں ہوگا تو وہ کسی اور امام کا محتاج ہوگا جو اُس کی رہنمائی کرسکے اور اُسے بُرے کاموں سے روکے، اسی طرح یہ دوسرا امام کسی تیسرے امام کا محتاج ہوگا، لہٰذا یہ سلسلہ ایک غیر متناہی صورت پیدا کرے گا جو عقلاء کی نظر میں باطل ہے۔

۱۹

اس کے علاوہ اگر امام معصوم نہ ہو تو دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہوجائے گا کہ امام سے گناہ سرزد ہونے کی صورت میں لوگوں کے پاس دو راستوں کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ ہوگا:

پہلا راستہ

لوگ امام کو اُس کے گناہ کرنے کی وجہ سے تنبیہ کریں اور آئندہ کیلئے منع کریں۔ اس صورت میں امام اپنے منصب اعلیٰ سے پستی میں گر جائے گا اور لوگوں کا اُس پر اعتماد اٹھ جائے گا۔ اُس کے احکام دینی و دنیوی میں کوئی اثر باقی نہیں رہے گا۔ اس طرح اُس کے امام ہونے کا فائدہ زائل ہوجائیگا۔

دوسرا راستہ لوگ امام کو اُس کے گناہ پر منع نہ کریں ۔ اس صورت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وجود معاشرے میں ختم ہوجائے گا جو بغیر کسی شک کے مزید خرابیوں کا راستہ ہے۔امام کی تو سب سے بڑی ذمہ داری ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے تاکہ شریعت دین کی حفاظت کی جاسکے۔ اگر امام بھول چوک سے بھی خطا کر بیٹھے تو لوگوں کو اُس کے کسی بھی حکم پر حکم خدا کے مطابق ہونے پر شک رہے گا۔

لہٰذادرج بالا بحث سے ثابت ہوا کہ یہ راستہ بھی ٹھیک نہیں۔

عہد خدا ظالموں تک نہیں پہنچ سکتا

امام کے معصوم ہونے کی ایک اور محکم دلیل قرآن سے بھی ثابت ہے۔ سورئہ مبارکہ بقرہ کی آیت ۱۲۴ میں ارشاد خداوندی ہے:

( لَایَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ )

”میرا عہد(امر امامت و رہبری) ظالموں تک نہیں پہنچے گا“۔

۲۰