آفتاب ولایت

آفتاب ولایت14%

آفتاب ولایت مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 272

آفتاب ولایت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 272 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 158937 / ڈاؤنلوڈ: 5711
سائز سائز سائز
آفتاب ولایت

آفتاب ولایت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

آفتاب ولایت

مصنف:علی شیر حیدری

۳

پیش لفظ

علی اور دیگر آئمہ معصومین کی معرفت کیونکر ضروری ہے؟

بے شک بہت سی قیمتی اور اعلیٰ کتابیں مولا علی علیہ السلام اور باقی آئمہ معصومین علیہم السلام کو متعارف کروانے کیلئے اور اُن کی ولایت برحق کے ثبوت میں لکھی جاچکی ہیں اور وہ مسلمانوں اور حق کی تلا ش کرنے والوں کے ہاتھوں تک پہنچ چکی ہیں ۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ان تمام کتابوں کے میسر ہونے کے باوجود خدا کے ان خاص بندوں کی مظلومیت اقوام عالم میں اب بھی اظہر من الشمس ہے اور اُن کا مقام اعلیٰ، عظمت بالا، اُسوئہ حسنہ ،بندگی خدااور عبادت بے ریاء بہت سے مسلمانوں کی نظروں سے ابھی تک اوجھل ہے۔

اس کے برعکس ہم دیکھ رہے ہیں کہ شیطانی قوتیں اور گمراہ قومیں روز بروزلوگوں کو اہل بیت اطہاراور صراط مستقیم سے منحرف کرنے کیلئے اپنا دائرئہ اثر وسیع سے وسیع تر کررہی ہیں۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ ایسی کتابیں لکھے جانے کی ضرورت ہے جو عصر جدید کے تقاضوں کوکماحقہ پورا کرسکیں۔

امام کی خدمت میں ایک حقیر تحفہ

پیش نظر کتاب جو حقیقتاً خاندان نبوت کے دریائے فضائل کے سامنے ایک قطرہ یا اُس سے بھی کم تر حیثیت کی حامل ہے، مجھ ناچیز کی طرف سے جناب مولائے متقیان امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی خدمت اقدس میں یہ حقیر تحفہ اور اُن کے فرزند باکمال، قطب عالم امکان، بقیة اللہ الاعظم امام زمانہ علیہ السلام کے توسط سے پیش ہے۔

اس اُمید کے ساتھ کہ میری یہ بہت مختصر اور حقیرکوشش شاید اُن افراد کیلئے جو ان بزرگوں کے اعلیٰ کردار ، بزرگی اور عظمت و بلندی کی مکمل پہچان کی جستجو میں ہیں، مددگار ثابت ہو، اور وہ تلاش حق میں کامیاب ہوں ،نیز اُن افرادکیلئے جن کے دل محبت اہل بیت نبوت سے سرشار ہیں، مزید تقویت ایمانی کا باعث بنے۔ انشاء اللہ مجھے خدائے بزرگ و برترسے اُمید کامل ہے کہ جس دن

۴

( یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالَ وَلا بَنُون )

کی صدابلند ہوگی، اُس دن اہل بیت سے ہمارا یہ رشتہ عشق و محبت توشہ آخرت ثابت ہوگا اور یہ بزرگ اُس دن ہمیں لوائے حمد کے سایہ میں جگہ دیں گی۔

معاشرے میں صالح حکومت اور مخلص رہبر کی ضرورت

اس میں کوئی شک نہیں کہ صالح حکومت اور مخلص رہبر کا وجود ہر معاشرے کی بنیادی اور اہم ترین ضرورت ہے۔ دنیا کے تمام عاقل اور دانشمند حضرات اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور اسے معاشرے کی سلامتی اور ترقی کیلئے بنیادی شرط مانتے ہیں ۔ مخلص رہبر کا ہونا تو سب سے اہم اور لازم ہے، اس کے بغیر کسی بھی معاشرے کا قائم رہنا ناممکن ہے۔ جس معاشرے میں کوئی حکومت اور رہبر نہ ہو، اُسے بیمار اور زوال پذیر معاشرہ سمجھا جاتا ہے۔

کلی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صالح حکومت اورمخلص رہبر (جس نقطہ نظر سے بھی دیکھیں) کی ضرورت روز روشن کی طرح واضح ہے۔

انسانوں کی حکومت بنانے کی کوششیں

یہ نکتہ غور طلب ہے کہ انسان نے حکومت بنانے اور رہبر چننے کی ضرورت کو بہت عرصہ پہلے محسوس کر لیا تھا لیکن ان میں سے بہت سے علوم لازمہ سے باخبر نہ ہونے کی وجہ سے حکومت بنانے اور رہبر چننے کیلئے غلط راستوں پر چلے۔ ہمیں یہ تسلیم کرناہوگا کہ غلطی کی بنیادصرف یہ تھی کہ ان لوگوں نے محض اپنی محدود عقل پر بھروسہ کیا، جبکہ ان کے مقابلہ میں دوسرے گروہ نے پیغمبران خدا کی تعلیمات کی روشنی سے اپنی محدود عقل کو وسعت بخشی۔ اس طرح اُن کی فکری نظر لامحدود اور

۵

کامل تر ہوگئی۔ اس کے نتیجہ میں جلد ہی غلط اور صحیح راستے میں پہچان ہوگئی اور ایسی شکل میں حکومت سامنے آئی جو تمام افراد کی مادّی اور معنوی ضروریات کا خیال رکھے اور یہ حکومت سوائے اللہ تعالیٰ کی حکومت کے اور کوئی نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس سیدھے راستے کے پیروکار ہمیشہ اقلیت میں رہے لیکن اپنے پختہ اورسچے ارادے سے اس کوشش میں رہے کہ ایسی سعادت مند حکومت کا قیام ہوجائے ۔ یہاں تک کہ اللہ نے اپنے پیغمبرخاتم کے ذریعے دین اسلام کو مکمل کردیااور ایک وسیع حکومت اسلامی معرض وجود میں آئی۔ اللہ نے اس حکومت اسلامی کو برقرار رکھنے کیلئے اپنے رسول کے ذریعے ایسے مخصوص افراد کی پہچان کروائی تاکہ اُن کی بدولت یہ اسلامی حکومت اپنے مقاصد عالی تک پہنچ سکے اور لوگ اُن کی اطاعت کرکے حق کے راستے کو پہچانیں اور گمراہی سے بچ جائیں اور منازل عالیہ کو حاصل کرسکیں۔

حکومت اسلامی کی قابل توجہ خصوصیات

حکومت اسلامی کی قابل توجہ خصوصیات جنہوں نے اسے دیگر طرز کی حکومتوں سے ممتاز کردیا، وہ اس کے دو بنیادی اور اہم ستون ہیں ،جن کی وجہ سے انتہائی کم مدت میں اسلام کی آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گئی۔ جلد ہی اس کے لاکھوں بلکہ کروڑوں پیروکار اور معتقدجہان میں پھیل گئے۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے علم و دانش میں ترقی ہوگی، لوگ باقی طرزہائے حکومت کے نقائص اور بے فائدہ ہونے کو جان جائیں گے اور انشاء اللہ حکومت اسلامی کی طرف لوگوں کا رحجان بہت تیزی سے بڑھے گا۔

حکومت اسلامی کی دو قابل توجہ خصوصیات یہ ہیں:

۱۔ اُس خدائے پاک نے جس نے انسان کو خلق کیا اور وہ اس انسان کی تمام مادی اورروحانی ضروریات سے سوفیصد واقف ہے،ایک ایسا نظام حیات کتابی صورت میں عطا کیا جس میں اُس نے اپنے لطف و کرم کی عظمت کے تحت کوئی ایسا ضابطہ حیات جو انسان کی ترقی کیلئے ضروری ہو، کم نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام قوانین الٰہی اپنے انبیاء، اوصیاء اور اولیاء کے ذریعے سے انسانوں تک پہنچا ئے۔

۶

۲۔ اسلام اور حکومت اسلامی کی دوسری قابل توجہ خصوصیت اُن افراد پاک سے تعلق رکھتی ہے جو ان قوانین اور دستورات الٰہی کو انسانوں تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں اوررہیں گے۔

مندرجہ بالا خصوصیات سے ظاہر ہوا کہ حکومت اسلامی میں قوانین کی بنیاد اور اساس قول خداوندی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو لوگوں تک پہنچانے اور معاشرے میں رائج کرنے کے ذمہ دار افراد بھی خدا کی طرف سے متعین ہوں گے۔ پہلے مرحلہ میں خود پیغمبران خدا اور دوسرے مرحلہ میں اُن کے جانشین برحق اس کام کے ذمہ دار ہیں۔

اس بنیاد پر سید المرسلین کے وجود پاک کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت ازلی کے سبب یہ ذمہ داری آپ کے اوصیائے کرام یعنی آئمہ معصومین علیہم السلام کے حصہ میں آئی اور ابھی تک یہ خدا کا کرم بصورت جناب حجة القائم امام مہدی علیہ السلام ابن الحسن عسکری قائم ہے۔ یہاں تک کہ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے دوران بھی لوگوں کو صحیح راستہ بتانے کیلئے اور اُمت مسلمہ کی رہنمائی کیلئے ذمہ داری فقہائے بزرگ و باتقویٰ اور علمائے کرام جن کے سربراہ ولایت فقیہ ہیں، دی گئی ہے۔(۱)

____________________

۱ : کتاب کمال الدین باب۔۴۵ اور دیگر کتب کے حوالہ سے ایک اہم حدیث خود امام زمانہ علیہ السلام(عج) سے یوں نقل ہے:آپ نے اسحاق بن یعقوب ، ایک معروف شیعہ بزرگ عالم(بواسطہ محمد بن عثمان بن سعید) کے خط کے جواب میں ارشاد فرمایا:

”وَاَمَّاالْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوْافِیْهَااِلٰی رُوَاةِ حَدِیثِنَافَاِنَّهُمْ حُجَّتِیْعَلَیْکُم وَاَ نَاحُجَّةُ اللّٰهِ عَلَیْهِمْ“

”تمہارے لئے جو حوادث اور واقعات پیش آئیں، اُن کی رہنمائی کیلئے ہمارے علماء و فقہاء کی طرف رجوع کرو کیونکہ وہ تم سب پر حجت ہیں اور میں اُن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت ہوں“۔

۷

پیغمبر اسلام کے بعد رہبری جامعہ اسلامی میں اختلاف بین المسلمین پر ایک نظر

تاریخ اسلام خطرناک اور حساس واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس میں نشیب و فرازبھی ہیں، کامیابی کی داستانیں بھی ہیں اور پسپائی کے منظر بھی۔انہی راستوں سے تمام ایمان کےدعویداروں کا امتحان بھی ہوا اور آزمائش الٰہی بھی۔ آہستہ آہستہ حقیقی مومن اور ظاہری دعویداران ایمان الگ الگ ہوگئے۔ یہ روش جاری رہی اور تاقیامت جاری رہے گی۔ اس طرح کا ایک واقعہ تاریخ اسلام میں ایسا بھی ہوا جس میں آزمائش کے تمام مواقع موجود تھے۔ ہم مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی اصلی وجہ کو بھی اس میں تلاش کریں گے۔

جب سرورکائنات، اشرف مخلوقات، سبب وجود کائنات، پیغمبر اسلام حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جہان فانی کو خیر باد کہہ کر لقائے رب العالمین کیلئے اُس جہان کی طرف منتقل ہوئے تو سارا عالم اسلام ماتم کدہ بن گیا(۱) ۔ ہر دل غمگین ہوگیا اور ہر چہرہ پریشان ہوگیا۔

_____________________

۱:جناب رسول خدا کے انتقال کے فوری بعد ایک گروہ سقیفہ بنی ساعدہ میں نئے رہبر اور خلیفہ کے انتخاب میں مشغول ہوگیا۔ان لوگوں نے امامت اور رہبر کے بارے میں اپنے پیغمبر کی تمام نصیحتوں اور فرامین کو یکسر فراموش کردیا۔جبکہ حضرت علی علیہ السلام اور چند دیگر اصحاب خاص رسول خدا کے کفن و دفن میں مصروف تھے۔

۸

اُن مخصوص حالات میں تمام مسلمانان عالم پر واجب تھا کہ وہ رسول خدا کی واضح نصیحتوں اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور رہبری کے بارے میں ارشادات کو پیش نظر رکھتے تاکہ تمام مسلمانوں کو ہر قسم کے فتنہ و فساد سے بچایا جاسکتا۔ لیکن افسوس !ایسا نہ ہوا۔ مسلمانوں میں سے ایک گروہ کی لاعلمی کی وجہ سے اور منافقین کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اہم فیصلے ایسے افراد کےہاتھوں میں آگئے جو اس کے اہل نہیں تھے، جنہوں نے مسلمانوں کی عدم توجہ سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور پیغمبر اسلام کی تمام نصیحتوں اور برملا اعلانات کو پس پشت ڈال دیا۔ اس طرح عوام الناس کو خدا کے چنے ہوئے برگزیدہ اماموں کی رہنمائی سے محروم کردیا گیا۔

ان وجوہات کی بناء پر اور عالم اسلام کی سلامتی کی خاطر سب سے پہلے جناب سیدہ فاطمة الزہراسلام اللہ علیہا نے شہادت پائی۔ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا ایک عظیم عالمہ اور ولایت علی علیہ السلام کی سب سے بڑی محافظہ تھیں۔ آپ رسول اللہ کے بہت نزدیک تھیں۔ مزید برآں خاص اصحاب رسول اُس معاشرے میں تن تنہا رہ گئے اور دوسرے افراد حکومت میں نفوذ کرگئے۔

اس طرح مسئلہ خلافت اور حکومت پر مسلمان دودھڑوں میں تقسیم ہوگئے اور آہستہ آہستہ یہ خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی اور یہ بات مسلمانوں میں مزید دھڑے بندیوں کا باعث بنی۔

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد عیسائی، یہودی اور اُن تمام لوگوں نے جن کے دلوں میں اسلام کے خلاف کینہ تھا، اس سانحہ عظیم سے بہت فائدہ اٹھایا اور ہر ممکنہ کوشش کی کہ مسلمانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ اختلافات پیدا کئے جائیں۔ اُن کااصلی مقصد تو صرف دین اسلام کی بنیاد اکھاڑنا تھا۔ وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئے ۔ وہ افراد جنہوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کئے اور اس چیز کا باعث بنے کہ مسلمان قیامت تک متحد نہ ہو سکیں، یقینا اُس دن اُن سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، جس دن چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور چھوٹی سے چھوٹی بدی کا بھی حساب ہوگا۔ اُس وقت اُن کے پاس شرمساری کے سوا کوئی جواب نہیں ہوگا۔ البتہ اُس دن شرمساری کوئی فائدہ نہیں دے گی۔

۹

آج ضرورت وقت کیا ہے؟

رحلت رسول خدا کے بعد مسلمانوں کو جوتلخ تجربات ہوئے اور جن نازک حالات سے گزرے، اُن کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان جس فرقہ یا نظریہ کے بھی ماننے والے ہوں، اپنا فرض سمجھ کر آگے آئیں اور موجودہ دور کی ترقی علم و دانش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رسول خدا کے اُن تمام ارشادات جو انہوں نے حکومت اسلامی اور اس کے رہبران کے تعارف کیلئے فرمائے، کا مطالعہ کریں۔ یہ مطالعہ اُسی وقت فائدہ دے گا جب ہر قسم کے تعصبات اور شیطانی وسوسوں کو بالائے طاق رکھ کر تلاش حق کیلئے جستجو کی جائے۔

ملت اسلامیہ سے عمومی طور پر اور برادران و خواہران اہل سنت سے خصوصی طورپر مخلصانہ درخواست ہے کہ علمائے اہل سنت کی کتابوں کا بھی مطالعہ کریں جن میں انہوں نے مقام اور فضائل حضرت علی علیہ السلام بیان کئے ہیں۔

قرآن پاک میں بہت سی آیات ہیں جو حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت کی شان میں نازل ہوئیں۔ اس بارے میں رسول خدا کی بہت سی روایات موجود ہیں۔ ان کے علاوہ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر، خلیفہ دوم حضرت عمر، خلیفہ سوم حضرت عثمان اور حضرت عائشہام المومنین اور دیگر فلسفی اور دانشمند حضرات نے بیشمار فضائل حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بیان فرمائے ہیں۔ اس لئے ہماری گزارش ہے کہ اُن کا بھی مطالعہ کیا جائے۔ اس طرح پڑھنے والے کو اصل حقائق جس طرح واقع ہوئے ہیں، کا علم ہوجائے گا۔

کچھ اس کتاب کے بارے میں

کتاب ہذا کے چند باب ہیں ،جس کے باب اوّل میں امامت کے بارے میں دلائل عقلی لکھے گئے۔ بعد کے ابواب میں روایات اور دیگر مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ سب سے زیادہ روایات برادران اہل سنت کی کتابوں سے لی گئی ہیں تاکہ برادران و خواہران اہل سنت اپنی ہی کتابوں کے مندرجات سے آگاہ ہوں اور مقام اعلیٰ و عظمت حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت اطہار سے آشنا ہوں۔

۱۰

کتاب کے باقی ابواب میں موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے آیات قرآنی، احادیث پیغمبر اکرم، بیانات خلفائے اوّل ، دوم اور سوم، حضرت بی بی عائشہ اُم المومنین اور علمائے اہل سنت کو جمع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں غیر مسلم دانشوروں کے نظریات کو بھی ایک باب میں اکٹھا کیا گیا ہے۔

آخر میں مخالفین اور دشمنان حضرت علی و اہل بیت علیہم السلام کے نظریات بھی تحریر کئےگئے ہیں۔

مجھے اُمید ہے کہ خدا کے لطف و کرم سے اور امام زمانہ حضرت حجة ابن الحسن علیہ السلام کی نظر عنایت سے یہ کتاب تمام مسلمان بھائیوں کیلئے مفید ثابت ہوگی۔

میں خدائے پاک کا شکرگزار ہوں کہ جس نے مجھے ہمت اور توفیق دی کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کے خانوادئہ نورانی کی تھوڑی سی خدمت کرسکوں۔میں واجب سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر امام خمینی اور دیگر شہدائے اسلام اور خصوصاً اپنے عزیز یحییٰ سراج کو خراج تحسین پیش کروں۔

میں مولا علی علیہ السلام کے فرزند صالح ، رہبرمعظم ایران حضرت آیت اللہ علی خامنہ ای مدظلہ العالی اور تمام خدمت گزاران اسلام جو امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کیلئے سازگار ماحول پیدا کررہے ہیں، کی سلامتی اور درازی عمر کا خواہاں ہوں۔

آخر میں اُن تمام رفقائے محترم کا جنہوں نے میرے اس کام میں میری مدد فرمائی

(استاد محترم حضرت حجة الاسلام والمسلمین حاجی شیخ ید اللہ سراج اور استاد محترم حضرت حجة الاسلام حاجی شیخ محمود گودرزی زاہدی اور ناشر محترم جناب آقای سید مہدی نبوی) کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور خدائے بزرگ وبرترسے اُن کیلئے اجر عظیم کا طلبگار ہوں۔

والحمدللّٰه ربّ العالمین

۱۵/شعبان المعظم۱۴۱۲ہجری

محمد ابراہیم سراج، قم،المقدسہ ایران

۱۱

پہلا باب بحث عقلی

عقلی دلائل پر توجہ دینے کی ضرورت

تمام بنی نوع انسان عقلی دلائل کو نہایت اہمیت دیتے ہیں ۔اس طرح عقلی دلائل اور عقلی بحث کا ایک خاص مقام ہے۔ اسلام میں بھی اس کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں بار بار انسانوں کو فکر کرنے اور عقل سے کام لینے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور(آیات قرآن جیسےافلاتعقلون : سورئہ بقرہ۴۶۔۷۶،لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْن ،سورئه بقره:۷۳-۲۴۲، اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاٰیٰاتٍ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْن ،سورئه رعد:۴، سورئہ نحل۱۲اور اسی طرح دوسرے مقامات پر۔اَکْثَرُهُمْ لٰا یَعْقِلُوْن :سورئہ عنکبوت۶۳، سورئہ مائدہ۱۰۳ اور دوسری آیات)عقل سے کام نہ لینے کی مذمت کرتا ہے۔ درحقیقت اسلام کے جدیدمسائل کے اجتہاد کیلئے عقلی دلائل سے مطابقت ایک اہم شرط ہے، کیونکہ شریعت کے احکام عقل و دانائی کے عین مطابق ہیں اور ذات باری تعالیٰ کوئی حکم خلاف عقل صادر نہیں کرتی۔

اس سے معلوم ہوا کہ شرعی احکام اور عقل کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے۔ ہر وہ چیز جس کو عقل سلیم تسلیم کرتی ہے، شریعت بھی اُس کی تائید کرتی ہے۔ لہٰذا عقل کا کسی چیز کو تسلیم کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے اور لازماً اُس پر توجہ دینی چاہئے۔ اسی قانون کے پیش نظر اس کتاب میں بھی محققین اور دانشور حضرات کیلئے امامت اور رہبری کے موضوع پر اس طرف خصوصی توجہ دی گئی ہے،نیز روایات اور احادیث کو بیان کرنے سے قبل عقلی دلائل کو زیر بحث لایا گیا ہے تاکہ اس اہم موضوع کیلئے تمام دلائل عقلی واضح ہوجائیں اور روایات، احادیث اور آیات قرآن کریم کو پڑھنے کے بعد فیصلہ کرتے وقت کام آسکیں اور ہم منزل مقصودکو پاسکیں۔

۱۲

مسئلہ امامت پر بحث کی ضرورت

بعض اوقات اسلام کے بنیادی اصولوں سے بالکل ناواقف اور کم علم لوگ بڑی سنجیدگی سے اسلامی مسائل پر رائے زنی کرتے ہیں۔اس کا نتیجہ سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں ہوتا کیونکہ جب بھی لاعلمی اور عدم آگاہی کی بنیاد پر کسی موضوع پر اظہار خیال کیا جائے تو پریشانی افکار اور پراگندگی اذہان کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیںآ تا۔

افسوس کہ یہ علم سے بے بہرہ لوگ، دین اسلام کے دو اہم مسائل یعنی امامت اور رہبری پر ماضی میں بھی اظہار خیال کرتے رہے ہیں اور اب بھی کررہے ہیں۔ اس سے بُرے عزائم رکھنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ وہ ان لوگوں سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امامت اور خلافت کے بارے میں کوئی بات کرنا، یا رسول پاک کے انتقال کے بعد کس کو زمام حکومت سنبھالنا چاہئے تھی؟ اس پربحث کرنا زمانہ گزشتہ کی بات ہے جسے کئی صدیاں گزر چکی ہیں۔ لہٰذا اس پر بحث کرنے کا کوئی نتیجہ یا فائدہ نہیں ،کیونکہ اس کی حیثیت صرف تاریخی رہ گئی ہے۔

اس طرح کے نتائج نکالنے والوں پرحقائق واضح کرنے کی ضرورت ہے ، اس لئے ذیل میں چند نکات پیش خدمت ہیں جو اس طرح کے سوالات اور شبہات کے روشن جوابات ہیں:

اوّل: گو مسلمانوں کی امامت اور رہبری جیسے اہم مسائل رسول خدا کی وفات کے بعد بہت پرانے ہوچکے ہیں اورانہیں صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ان پر بحث کرنا بہت ہی اہم ہے۔ کیونکہ مسلمانوں اور حق طلبوں کی تاریخ اس سے وابستہ ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ اگر ان موضوعات پر کوئی بحث اور تحقیق نہ ہو تو لوگوں کو صراط مستقیم کا سراغ نہیں مل سکتا بلکہ آہستہ آہستہ وہ راہ حق سے دور ہوتے جائیں گے اور حقائق اسلام اُن سے پوشیدہ رہیں گے۔ آئمہ معصومین (پیغمبر اسلام کے برحق نائبین) کو نہ پہچاننے کی وجہ سے بہت سے اسلامی فرقے غلط راستوں پر چل پڑے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے امامت اور رہبری جیسے اہم مسائل کیلئے اُن تفاسیر اور روایات نبوی سے مدد لی جن کے لکھنے والے کسی نہ کسی اعتبار سے قابل اعتماد نہ تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان مسائل پر اُن کا نظریہ نہ تو قرآن پاک سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی معتبرروایات سے۔

۱۳

دوسرا: عقلی دلائل کی بنیاد پر یہ ثابت ہے کہ دین اسلام میں امام کا انتخاب خدائے پاک کی رف سے ہونا چاہئے نہ کہ لوگوں کی طرف سے۔ صرف اور صرف اسی ایک نکتہ پر اگرتمام مسلمانان عالم تحقیق کریں اور توجہ دیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی پاک کے بعد امام اور ولی کے طور پرکس کا تعارف کروایا ہے؟ تاکہ اُس کی اطاعت اور پیروی کرکے سعادت اُخروی پر فائز ہوسکیں۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امامت کے موضوع پر تحقیق کرنا انتہائی ضروری ہے۔

انتخاب امام پر سنی اور شیعہ حضرات کا نظریہ

نبی کے بعد امام کا انتخاب کیسے کیا جائے، اس کو جاننے کیلئے ہم اہل سنت اورشیعہ حضرات دونوں کے نظریات کا الگ الگ جائزہ لیں گے اور اُن کو عقل و منطق کی کسوٹی پر

پرکھیں گے۔

انتخاب امام کیلئے علمائے اہل سنت کا نقطہ نظر

علمائے اہل سنت کے نزدیک امام کا انتخاب ایک اجتماعی مسئلہ ہے جو تقریباً ہر معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک دنیا کی تمام ملتوں میں پایاجاتا ہے۔ اس کی مثال کسی جمہوری ملک کے ایسے سربراہ کی سی ہے جسے ایک خاص عرصہ اور مدت کیلئے وہاں کے رہنے والے چنیں۔ لہٰذا اہل سنت حضرات مقام امامت اور رہبری کو صرف عمومی حیثیت دیتے ہیں اور لوگ یا وہ افراد جن کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہو، اس مقام اور منصب کیلئے کسی فرد کو چن سکتے ہیں۔

انتخاب امام کیلئے شیعہ علماء کا نقطہ نظر

علمائے شیعہ اور مکتب شیعہ کی نظر میں امامت اللہ کا عطا کردہ منصب ہے اور یہ اللہ ہی کا کام ہے کہ جس فردکو اس مقام اور عہدہ کے لائق اور اس عظیم ذمہ داری کے قابل سمجھے، اُس کا تعارف بطور امام کروائے۔ اس کی دلیل واضح ہے کیونکہ اگر امام اور پیغمبرکو فضائل ، مراتب اور ذمہ داریوں کے اعتبارسے دیکھا جائے تو اُن میں سوائے نزول وحی کے اور کوئی فرق نہیں کیونکہ وحی صرف نبیوں اور رسولوں کیلئے مخصوص ہے۔

۱۴

جس طرح ایک نبی کے انتخاب میں عوام کو کوئی اختیار حاصل نہیں ، اسی طرح امام کے انتخاب میں بھی اُن کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہوگا۔مندرجہ ذیل دلائل اس کی تصدیق کرتے ہیں:

(ا)۔ اگر انتخاب امام کا اختیار لوگوں کو دے دیا جائے تو یہ لوگوں کے درمیان شدید اختلافاور تفرقہ کا باعث بنے گا۔اس صورت میں ہر گروہ اور قبیلہ امام کے انتخاب کیلئے اپنے اپنے منظور نظر افراد کو پسند کرے گا۔

(ب)۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ لوگ بغیر کسی اختلاف کے کسی ایک شخص کواس مقام کیلئے چن لیں گے تو پھر بھی اُن کا یہ عمل خطا سے بَری نہیں کہا جاسکتا کیونکہ عین ممکن ہے کہ وہ شخص جس کو چناگیا ہے، اُس میں وہ صلاحیتیں جو اس ذمہ داری کو نبھانے کیلئے ضروری ہیں، نہ ہوں۔ اس طرح ایک نادرست عمل کی وجہ سے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اور وہ صراط مستقیم سے بھٹک سکتے ہیں اور اس طرح تمام نبیوں اور رسولوں کا بڑی زحمتوں سے کیا ہوا تبلیغی کام ضائع ہوسکتا ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ جس دین کو پھیلانے کیلئے خدانے اپنے بندگان خاص سے صدیوں تک کام لیا ہو، اُسی دین کو اب بے یارومددگار چھوڑ دے ۔ یہ اُس کی حکمت اور لطف و کرم سے بعید ہے۔ اُس کی ہرگز یہ منشاء نہیں ہوسکتی کہ لوگ گمراہی اور نقصان کے راستے پر چلیں۔

خدا کی حکمت اور لطف و کرم کا تقاضا

اس دنیا میں جب ہم وحدت خداوندی کو دیکھتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ ہدایت عمومی کیلئے ایک واضح اور روشن دلیل بھی نظر آتی ہے۔ اگر ہم اس کو پہچان لیں تو بہت سے شکوک و شبہات دور ہوجاتے ہیں اور بہت سے سوالات کا جواب بھی مل جاتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ جب پروردگار اپنے لطف و کرم سے اپنی مخلوق کو پیدا کرتا ہے تو ہر پیدا ہونے والے کو صراط مستقیم اور منزل مقصود کی ہدایت کرتاہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ دنیا کی کسی مخلوق کا کوئی فرد بھی خدا کے اس قانون سے باہر نہیں ،حتیٰ کہ انسان بھی جو خدا کی ایک مخلوق ہی نہیں بلکہ اُس کی نظر میں اشرف المخلوقات ہے۔

۱۵

قرآن مجید نے انسان کے احترام و اکرام کے بارے میں واضح ارشاد فرمایا ہے:

( وَلَقَدْ کَرَّمْنَابَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنَهُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَهُمْ مِّنَ الطَّیِبٰتِ وَفَضَّلْنَهُمْ عَلٰی کَثِیْرٍمِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا ) (سورئہ بنی اسرائیل:آیت۷۰)

”اوریقینا ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور خشکی و تری میں ان کوسواریاں دیں اور اچھی اچھی چیزوں سے اُن کو روزی دی اور بہت سی مخلوق پر ان کو فضیلت دی جیسا کہ فضیلت دینے کا حق ہے“۔

وہ بھی خدا کی جانب سے اس قانون کے تحت ہدایت کیا گیا ہے۔

البتہ انسان تنہا اپنی عقل کے بل بوتے پر ہرگز اُس منزل کمال کو نہیں پہنچ سکتا جو اُس کی تخلیق کا مقصد تھا۔لہٰذا ضروری تھا کہ خدا انسان کی ہدایت کا انتظام رسولوں، نبیوں اور اپنی کتب کے ذریعے سے کرے اور یہ سلسلہ ہدایت خاتم النبیین حضرت محمد کی بعثت پر اختتام پذیر ہو۔

اب یقینایہ سوال پیداہوگا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجنے کا سلسلہ خاتم المرسلین کے بعد بند کردیا تو لوگوں کی ہدایت بغیر کسی نبی کے کیسے ممکن ہوگی۔ یعنی تاروز قیامت لوگ کس طرح حق و باطل ، غلط و صحیح اور کج روی و صراط مستقیم میں فرق جان سکیں گے۔ اس کے علاوہ کون اُن کو جعلی احادیث، آیات قرآنی کی تفسیربالرائے، بدعتوں کی شناخت اورجدید مسائل کے بارے میں ہدایت کرے گا! یہ خدا کی عنایات غیر محدود سے بعید ہے کہ وہ اپنے بندوں کو خاتم المرسلین کے بعد بغیر کسی رہبر یا ہادی کے لاوارث چھوڑ دے اور گمراہ کرنے والوں کیلئے میدان کھلا چھوڑ دے۔ نہیں ،ہرگز نہیں!! ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ اُس نے تو اپنے منتخب نمائندوں کا لوگوں میں تعارف کرواکے اُن کی ہدایت دائمی کا سامان مہیا کردیا۔ یہ اُس کی مہربانی اور فضل و کرم کی بہترین مثال ہے۔

ان سوالات کے جوابات کیلئے ہم عقل سلیم کی طرف رجوع کرتے ہیں اور جو جوابات ملیں، اُن کو اپنی بحث میں شامل کرتے ہیں۔

۱۶

ہدایت الٰہی کی تعریف

ہدایت الٰہی کی تعریف یہ ہے کہ وہ انسان کو وہ راستہ دکھائے جس پر چل کر انسان فلاح و بہبود پائے اور گناہ و گمراہی سے دور رہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی منزل کی طرف رہنمائی دعوت ارشاد، تبلیغ حق اور فرمان الٰہی کیبغیرممکن نہیں۔نصیحت و تبلیغ کی ضرورت تو انسان کو ہمیشہ رہتی ہے۔ علم کلام کے اساتذہ کے مطابق خدا پر واجب ہے کہ وہ انسان کی ہدایت کیلئے کرئہ ارض کو اپنے ہادی سے خالی نہ رکھے کیونکہ اگر حق تعالیٰ کی طرف سے اس میں کمی یا نفی ہو تو اس کا لازماً اثر یہ ہوگا کہ غرض خلقت بشر پوری نہ ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں بغیر سامان ہدایت مہیا کئے مقصد خدا ناکام رہے گا۔مقصد میں ناکامی بجائے خود ایک ناپسندیدہ اور قبیح چیز ہے۔ خدا کی ذات بغیر کسی شک کے ہر قسم کے ناپسندیدہ اور قبیح افعال سے پاک و منزہ ہے۔

لہٰذا اُس کی حکمت و رحمانیت و ہدایت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کو کبھی بھی ہادی برحق اور رہنما سے محروم نہ رکھے۔ قابل ستائش رہبروں کو بھیج کر انسان کو ہر طرح کی گمراہی و بےراہ روی سے نجات دیدے۔

پس اس بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ امامت حقیقت میں خدا کی جانب سے انسان کو کمال تک پہنچانے کیلئے ہدایت اور حجت ہے۔

امام ہونے کی شرائط اہل سنت اور شیعہ حضرات کی نگاہ میں

گزشتہ بحث میں انتخاب امام کیلئے اہل سنت اور شیعہ حضرات کے جدا جدا نظریات بیان کئے گئے۔ اب ہم امامت اور خلافت جیسے اہم مراتب کیلئے امام ہونے کی لازم شرائط کے بارے میں اہل سنت اور شیعہ حضرات کے نظریات بیان کریں گے۔

علمائے اہل سنت کی نگاہ میں شرائط امام

علمائے اہل سنت کی نظر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امام یا خلیفہ چننے کیلئے کسی خاص شرط کی ضرورت نہیں بلکہ یہ ایک عادی اور معمول کا عمل ہے اور لوگ اختیار رکھتے ہیں کہ اپنے امام کو چن لیں۔ کسی شخص کی ظاہری قابلیت اُس کو اس عہدہ پر چننے کیلئے کافی سمجھی جاتی ہے اور دیگر کسی خصوصی شرط کی کوئی قید نہیں۔

۱۷

علمائے شیعہ کی نگاہ میں شرائط امام

لیکن شیعہ علماء برخلاف نظریات برادران اہل سنت اس عظیم منصب کیلئے ، جو قوموں کے حالات بدل کر رکھ دے، کو اس طرح آسانی سے چن لینے کو صحیح نہیں سمجھتے۔ وہ تو امام یا وصی نبی کیلئے چند خاص شرائط کو لازم سمجھتے ہیں اور ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنے دعویٰ کو قوت بخشتے ہیں۔ ان کے خاص خاص دلائل ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:

(ا)۔ کیونکہ امام نبی کا وصی ہونے کے ناطے اُس کی تمام تبلیغات اور دین و شریعت کےسلسلہ کو جاری و ساری رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے، لہٰذا اُس کی ذمہ داری بھی عین نبی کی ذمہ داری کے مساوی ہوتی ہے۔ اگر مقام وحی کو الگ سمجھا جائے تو مقام امام اور مقام نبی میں کوئی فرق نہیں رہتا اور امام کو بھی اُسی علم ، حلم ، تقویٰ اور دیگر کمالات کا حامل ہونا چاہئے جن کا نبی حامل ہے۔ امام کی عادات و اطواراوراوصاف بھی وہی ہونے چاہئیں جو نبی کے ہوں تاکہ وہ نبی کا پورا پوراعکس ہو۔

(ب)۔ شریعت محمدی بغیر کسی شک و شبہ کے آخری شریعت الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مکمل اور تسلیم شدہ دین بنا کر لوگوں تک پہنچایا ۔ اس کی تصدیق میں ارشاد خداوندی ہے:

( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ )

”آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کردیا“۔(سورئہ مائدہ:آیت۳)

( اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ )

”اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین صرف اسلام ہے“۔(آل عمران:آیت۱۹)

یہ دین قیامت تک انسانوں کے مادی و روحانی تجسسّات و سوالات کا جواب دہندہ رہے گا۔

رسول خدا نے اپنے اوصاف اعلیٰ اور کمال علم کے باوجود بعض مسائل انسانی جو زمان و مکان سے مربوط ہیں، مصلحت دین کی خاطر بیان نہ فرمائے تاکہ لوگوں کے فہم و ادراک میں بلندی آنے پر دین کے اُن مسائل پر اُس زمانے میں تحقیق کی جاسکے۔

۱۸

اس بناء پر ذات حق پر واجب ہوا کہ وہ ہدایت الٰہیہ کی گزشتہ روایت کو جاری رکھتے ہوئے ایسے افراد کو چنے اور یہ ذمہ داری سونپے کہ وہ لوگوں کو احکام خدا پہنچاتے رہیں۔ زمانہ جدید کے تقاضوں کے عین مطابق دینی مسائل کے حل کیلئے قیامت تک رہنمائی کرتے رہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ جن اشخاص کو یہ ذمہ داری سونپی جائے، وہ کردار و رفتار ، علم و حلم ، عصمت و صداقت اور پاکیزگی میں یا باالفاظ مختصر وہ تمام صفات و عادات جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تھیں، اُن میں بھی ہونی چاہئیں۔ ابلاغ و تبلیغ جیسے کٹھن کام اور شریعت کے مشکل مسائل کو حل کرنے کیلئے اُن میں بھی رسول پاک جیسا وسیع خداداد علم ہونا چاہئے۔

اس طرح ایسے افراد کو پاک طینت، زندہ و روشن ضمیر ہونا چاہئے اور ہر طرح کی خطا اور گناہ سے بھی مبرا ہونا چاہئے تاکہ لوگوں کا اعتماد ہمیشہ بحال رہے۔ مزید برآں اُن کو دین میں ممکنہ تبدیلی کرنے یا کوئی بدعت شروع کرنے سے بھی پاک و منزہ ہونا چاہئے۔

اوپر بیان کئے گئے دلائل سے ثابت ہواکہ امام اور وصی نبی کو یقینا خصوصی شرائط کا حامل ہونا چاہئے۔ ذیل میں اہم شرائط کو بیان کیا جاتا ہے:

اہم شرائط امام کی تشریح

عصمت و پاکدامنی

سب سے اہم شرط جو امام میں لازماً ہونی چاہئے، وہ اُس کی عصمت اور پاکدامنی ہے یعنی امام کو معصوم ہونا چاہئے۔ اس شرط کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی اس شرط کا قائل نہیں تو وہ واضح دلائل کی روشنی میں اپنے دعویٰ میں خرابی کا شکار ہوجائے گا کیونکہ یہ تسلسل کا محتاج ہوجائے گا۔اس کی تشریح درج ذیل ہے:

امام کے وجود کی ضرورت اسی بناء پر ہے کہ وہ انسانوں کیلئے شمع ہدایت ہو اور ظلم و زیادتی اور فساد کو روکنے والا ہو، اگر امام خود معصوم نہیں ہوگا تو وہ کسی اور امام کا محتاج ہوگا جو اُس کی رہنمائی کرسکے اور اُسے بُرے کاموں سے روکے، اسی طرح یہ دوسرا امام کسی تیسرے امام کا محتاج ہوگا، لہٰذا یہ سلسلہ ایک غیر متناہی صورت پیدا کرے گا جو عقلاء کی نظر میں باطل ہے۔

۱۹

اس کے علاوہ اگر امام معصوم نہ ہو تو دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہوجائے گا کہ امام سے گناہ سرزد ہونے کی صورت میں لوگوں کے پاس دو راستوں کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ ہوگا:

پہلا راستہ

لوگ امام کو اُس کے گناہ کرنے کی وجہ سے تنبیہ کریں اور آئندہ کیلئے منع کریں۔ اس صورت میں امام اپنے منصب اعلیٰ سے پستی میں گر جائے گا اور لوگوں کا اُس پر اعتماد اٹھ جائے گا۔ اُس کے احکام دینی و دنیوی میں کوئی اثر باقی نہیں رہے گا۔ اس طرح اُس کے امام ہونے کا فائدہ زائل ہوجائیگا۔

دوسرا راستہ لوگ امام کو اُس کے گناہ پر منع نہ کریں ۔ اس صورت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وجود معاشرے میں ختم ہوجائے گا جو بغیر کسی شک کے مزید خرابیوں کا راستہ ہے۔امام کی تو سب سے بڑی ذمہ داری ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے تاکہ شریعت دین کی حفاظت کی جاسکے۔ اگر امام بھول چوک سے بھی خطا کر بیٹھے تو لوگوں کو اُس کے کسی بھی حکم پر حکم خدا کے مطابق ہونے پر شک رہے گا۔

لہٰذادرج بالا بحث سے ثابت ہوا کہ یہ راستہ بھی ٹھیک نہیں۔

عہد خدا ظالموں تک نہیں پہنچ سکتا

امام کے معصوم ہونے کی ایک اور محکم دلیل قرآن سے بھی ثابت ہے۔ سورئہ مبارکہ بقرہ کی آیت ۱۲۴ میں ارشاد خداوندی ہے:

( لَایَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ )

”میرا عہد(امر امامت و رہبری) ظالموں تک نہیں پہنچے گا“۔

۲۰

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب سے سوال کیا کہ ”:اے میرے رب! کیا منصب امامت پر میری اولاد میں سے بھی کوئی پہنچے گا؟“ تو ارشاد خداوندی ہوا کہ امامت کے درجہ پر کوئی ظالم نہیں پہنچ سکتا۔ ظلم سے مراد صرف لوگوں پر ظاہری ظلم و ستم ہی نہیں بلکہ اس کا تعلق عدم عدل سے ہے یعنی جہاں عدل نہیں ہوگا، وہاں ظلم ہوگا۔ اگر اس کو مزید دیکھیں تو ظلم تین طرح سے ہوسکتا ہے:

خدا کے ساتھ ۔

اپنے نفس کے ساتھ ۔

لوگوں پر ۔

ظاہر ہے کہ اگر کوئی ظلم کی ان تین اقسام میں سے کسی ایک ظلم کا مرتکب بھی ہوتا ہے تو وہ ظالم شمار ہوگا اور وہ منصب امامت کے لائق نہیں رہے گا۔

یہ دلیل بجائے خود عظیم اہمیت کی حامل ہے اور آئمہ معصومین کیلئے خلافت برحق ہونے کی ایک اہم دلیل ہے۔ یہی آیت قرآنی اور اس کی تفسیر حضرت علی علیہ السلام اور اُن کی اولاد پاک کیلئے خلافت کوثابت کرتی ہے کیونکہ اس سے اس نکتہ کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ دوسرے صحابہ دور جاہلیت میں اپنی اپنی عمر کے کچھ حصے بت پرستی میں گزار چکے تھے اور قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے:

( یَبُنَیَّ لَا تُشْرِکُ بِاللّٰهِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ )

”لقمان حکیم اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں“

” اے میرے بیٹے! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا کیونکہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے“۔(سورئہ لقمان:آیت۱۳)۔

اس سے پتہ چلا کہ شرک سب سے بڑا (خدا کے ساتھ) ظلم ہے ۔ اب رسول خدا کے صحابہ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ جس کسی نے ایک لحظہ کیلئے بھی بتوں کے سامنے سجدہ نہ کیا، وہ حضرت علی علیہ السلام تھے۔

۲۱

گزشتہ بحث میں اشارہ کیا گیا کہ امام کے لئے پہلی اور سب سے ضروری شرط یہی ہے کہ امام کی پوری مادّی اور معنوی زندگی کے ہر پہلو میں پاکیزگی، طہارت اور عصمت ہو۔ گہری سوچ رکھنے والے دانشمند حضرات اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ عصمت(ہرگناہ سے پاکیزگی) انسان کا اندرونی مسئلہ ہے اور اس کو مکمل جانچنے اور پرکھنے کیلئے کوئی طریقہ کار یا پیمانہ موجود نہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے امام معصوم کی معرفت اور شناخت کی جانی چاہئے۔ خدا عالم مطلق ہے، حاضر و غائب کو جاننے والا ہے، دلوں کی کیفیات کو زبانوں سے بہتر جانتا ہے، اس لئے امام حق کا تعارف کروانے کیلئے ہم اُسی کی ذات کے محتاج ہیں اور وہی ہمیں اُن افراد ذی قدر کا تعارف کروائے۔

حقیقت شناسی کا ثبوت انسان کو مطالعہ اور تحقیق کرنے پر مجبور کرتا ہے اور اس طرح وہ فرمودات خدا اور رسول تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ تحقیق ہی کا نتیجہ ہے کہ تمام پوشیدہ حقائق ایک ایک کرکے مانند آفتاب انسان کے سامنے آجاتے ہیں او رہر قسم کے ظلمت و تاریکی ، جہل و تعصب کے پردے چاک ہو جاتے ہیں۔ آئیے ہم محکم دلائل، آیات قرآنی اور احادیث متواترہ کو تلاش کریں تاکہ امام کو پہچاننے میں جتنی رکاوٹیں یا شکوک و شبہات ہیں، دور ہوجائیں اور حق تلاش کرنے والوں کو سچا رہبر اور صراط مستقیم مل جائے۔

فرمودات خدا اور دیگر دلائل کچھ اس طرح سے ہیں کہ قرآن کریم کی متعدد آیات اور رسول اکرم کی معتبراحادیث متواترہ نہایت خوبصورت انداز میں لوگوں کو اعلیٰ ترین انسانوں سے متعارف کرواتی ہیں۔ یہ عظیم ہستیاں انسانوں کی ہدایت و رہبری کی ذمہ دار ہیں۔انہی سالاران حق کے پہلے رہبر مولائے متقیان ، امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں اور ان کا آخری رہبر حضرت قائم آل محمدبقیة اللہ الاعظم حجة بن الحسن العسکری علیہ السلام ہیں۔

خدا کی مدد و نصرت سے آئندہ ان دلائل کو تفصیل سے بیان کیا جائے گا اور اس کے علاوہ دوسرے ابواب میں ہم اور نئی چیزیں بیان کریں گے جو انشاء اللہ مقصد کتاب کی تصدیق کرنے والی ہوں گی،لیکن آخری فیصلہ ہم پڑھنے والوں پر ہی چھوڑتے ہیں۔

اَلّٰلهُمَّ عَرِّفْنِیْ نَفْسَکَ فَاِ نَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِیْ نَفْسَکَ لَمْ اَعْرِفْ رَسُولَکَ،اَلّٰلهُمَّ عَرِّفْنِیْ رَسُولَکَ فَاِ نَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِیْ رَسُولَکَ لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَکَ،اَلّٰلهُمَّ عَرِّفْنِیْ حُجَّتَکَ فَاِنَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِیْ حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ عَنْ دِیْنِیْ،اَلّٰلهُمَّ لاٰ تُمِتْنِیْ مَیْتََةً جٰاهِلِیَّةً وَلاٰ تُزِغْ قَلْبِیْ بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنِیْ ۔(آمین)۔

۲۲

دوسرا باب

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔ ۲

(ا)۔عَنْ اُمِّ سلمه قَالَتْ: نَزَلَتْ هٰذِهِ الآیَةُ فِی بَیْتِیْ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا“، وَفِی الْبَیْتِ سَبْعَة، جبرئیل و میکائیل و علیٌ فاطمة والحسن والحسین وأَنَا عَلٰی بٰابِ الْبَیْتِ قُلْتُ: یٰارَسُوْلَ اللّٰهِ، أَ لَسْتُ مِنْ اَهْلِ الْبَیْتِ؟ قٰالَ اِنَّکِ عَلٰی خَیْرِ اِنَّکِ مِنْ اَزْوَاجِ النَّبِیَ ۔

”اُم سلمہ سے روایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا کہ آیہ تطہیر اُن کے گھر میں نازل ہوئی اور آیت کے نزول کے وقت گھر میں سات افراد موجود تھے اور وہ جبرئیل، میکائیل، پیغمبر اسلام، حضرت علی علیہ السلام، جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام تھے۔ میں گھر کے دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ میں نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟“ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اے سلمہ! بے شک تو خیر پر ہے لیکن تو ازواج میں شامل ہے“۔

(ب)۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں اُم سلمہ سے یوں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم گھر میں موجود تھے کہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا ایک ریشمی چادر اپنے بابا کے پاس لائیں۔ پیغمبر خدا نے فرمایا:”بیٹی فاطمہ ! اپنے شوہر اور اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین کو میرے پاس لاؤ“۔ بی بی فاطمہ نے اُن کو اطلاع دی اور وہ آگئے۔ غذا تناول کرنے کے بعد پیغمبر نے چادر اُن پر ڈال دی اور کہا:

’اَلّٰلهُمَّ هٰولٰاءِ اَهلُبَیْتِیْ وَعِتْرَتِیْ فَاَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِیْرا‘

”خداوندا! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ ان سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھ اور ان کو ایسا پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔

اس وقت یہ آیت( اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا ) نازل ہوئی۔

میں نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! کیا میں بھی آپ کے ساتھ اس میں شامل ہوں؟“ آپ نے فرمایا:”سلمہ! تو خیر اور نیکی پر ہے(لیکن تو اس میں شامل نہیں)“۔

۲۳

(ج)۔ علمائے اہل سنت کی کثیر تعداد نے جن میں ترمذی ، حاکم اور بہیقی بھی شامل ہیں، اس روایت کو نقل کیا ہے:

عَنْ اُمِّ سَلْمَه قٰالَت: فِیْ بَیْتِیْ نَزَلَتْ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا“ وَفِیْ الْبَیْتِ فاطمةُ وَعَلیُ والحسنُ والحُسینُ فَجَلَّلَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلّٰی اللّٰه علیهِ وآله وسلَّم بِکِسٰاءِ کَانَ عَلَیْهِ، ثُمَّ قٰالَ: هٰولٰاءِ اَهْلُ بَیْتِی فَاَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِّرْهُمْ تَطْهِیْرا

”اُم سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ آیہ تطہیر اُن کے گھر میں نازل ہوئی۔ آیت کے نزول کے وقت بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا، علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام گھر میں موجود تھے۔ اُس وقت رسول اللہ نے اپنی عبا جو اُن کے جسم پر تھی، اُن سب پر ڈال دی اور کہا:(اے میرے اللہ)! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ پس ہر قسم کے رجس کو ان سے دور رکھ اور ان کوایسا پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۵۶اورصفحہ۳۱۔

۲۔ ہیثمی، مجمع الزوائد، باب مناقب اہل بیت ، ج۹،ص۱۶۹ وطبع دوم ،ج۹،ص۱۱۹۔

۳۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب امیر المومنین ، حدیث۳۴۵،صفحہ۳۰۱، طبع اوّل۔

۴۔ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد ج۹،ص۱۲۶، باب شرح حال سعد بن محمد بن الحسن عوفی

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲، صفحہ۲۴۲اور باب ۱۰۰،صفحہ۳۷۱۔

۶۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد۳،صفحہ۱۳۳،۱۴۶،۱۷۲ اور جلد۲،صفحہ۴۱۶۔

۷۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں ج۳،ص۴۸۳،البدایہ والنہایہ ج۷،ص۳۳۹، باب فضائل علی

۸۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۳۳،صفحہ۱۲۴اور صفحہ۲۷۱۔

۲۴

۹۔ فخر رازی تفسیر کبیر میں، جلد۲۵،صفحہ۲۰۹۔

۱۰۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد۱،صفحہ۳۶۹۔

۱۱۔ سیوطی ، تفسیر الدرالمنشور، جلد۵،صفحہ۲۱۵۔

۱۲۔ ابی عمر یوسف بن عبداللہ، استیعاب، ج۳،ص۱۱۰۰، روایت شمارہ۱۸۵۵، باب علی

۱۳۔ ذہبی، تاریخ اسلام، واقعات۶۱ہجری تا ۸۰ہجری، تفصیل حالات امام حسین ،ص۹۶

۱۴۔ حافظ بن عساکر، تاریخ دمشق، حدیث۹۸، جلد۱۳،صفحہ۶۷۔

۱۵۔ ابن جریر طبری اپنی تفسیر میں جلد۲۲،صفحہ۶،۷۔

دسویں آیت

مودت اہل بیت کا ایک انداز

( قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی )

”(اے میرے رسول) کہہ دو کہ میں تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے اہل بیت سے محبت کرو“۔(سورئہ شوریٰ:آیت۲۳ )

تشریح

”اس آیت کی شان نزول اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ جب پیغمبر اسلام مدینہ میں تشریف لائے اور اسلام کی بنیاد مضبوط ہوئی تو انصار کی ایک جماعت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:”یا رسول اللہ! ہم اعلان کرتے ہیں کہ اگر آپ کوکوئی مالی یا اقتصادی مشکل درپیش ہے تو ہم اپنے اموال و دولت آپ کے قدموں پر نچھاور کرتے ہیں۔ جب انصار یہ باتیں کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی:( قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی )

”میں تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے قریبیوں سےمودّت کرو“۔

پس رسول خدا نے اپنے قریبیوں سے محبت کرنے کی تاکید کی ہے۔(مجمع البیان، جلد۹،ص۲۹)

۲۵

قربیٰ سے مراد کون کونسے رشتہ دار ہیں؟

قربیٰ کو پہچاننے کا سب سے بہترین اور احسن ترین ذریعہ قرآنی آیات اور روایات ہیں۔ قربیٰ سے محبت تمام مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے۔ یہ اجر رسالت بھی ہے ، خدا اور اُس کے رسول کا حکم بھی۔ لہٰذا ان کو پہچاننے میں نہایت دقت اورسوچ سمجھ سے کام لینا ہوگا۔ ہم بغیر کسی مزید بحث کئے ہوئے برادران اہل سنت کی کتب سے تین روایات نقل کرتے ہیں، ملاحظہ ہوں:

(ا)۔ احمد بن حنبل کتاب” فضائل الصحابہ“ میں یہ روایت نقل کرتے ہیں:

لَمَّا نَزَلَتْ’ ( قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰیط‘ )

قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰه مَنْ قَرابَتُکَ؟مَنْ هٰولَاءِ الَّذِیْنَ وَجَبَتْ عَلَیْنَا مَوَدَّ تُهُم؟ قَالَ صلّٰی اللّٰه عَلَیْهِ وَآله وَسَلَّم علیٌ فاطمةُ وَ اَبْنَاهُمَا وَقٰالَهٰا ثَلَا ثاً

جب یہ آیہ شریفہ( قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی ) نازل ہوئی۔ اصحاب نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! آپ کے جن قرابت داروں کی محبت ہم پر واجب ہوئی، وہ کون افراد ہیں؟“ آپ نے فرمایا:”وہ علی علیہ السلام، فاطمہ سلام اللہ علیہا اور اُن کے دونوں فرزند ہیں“۔ آپ نے اسے تین بار تکرار کیا۔

(ب)۔ سیوطی تفسیر”الدرالمنثور“ میں اس آیت پر بحث کرتے ہوئے ابن عباس سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا:

اَنْ تَحْفَظُوْنِیْ فِیْ اَهْلِ بَیْتِیْ وَتُوَدُّوْهُمْ بِیْ

”میرے اہل بیت کے بارے میں میرے حق کی حفاظت کریں اور اُن سے میری وجہ سے محبت کریں“۔

۲۶

(ج)۔ زمخشری تفسیر کشاف میں ایک بہترین اور خوبصورت روایت نقل کرتے ہیں۔ فخررازی ، قرطبی اور دوسروں نے بھی اپنی تفسیروں میں اس کے کچھ حصے نقل کئے ہیں۔ یہ حدیث واضح طور پر مراتب و مقام اور فضیلت آل محمدکوبیان کرتی ہے۔ ہم بھی اس کو اس کی اہمیت کے پیش نظر تفصیل سے بیان کرتے ہیں:

قَالَ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلّٰی اللّٰه علیه وآله وسلم

”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

( i )۔مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَهِیْداً

جو کوئی محبت آل محمد میں مرا، وہ شہید مرا۔

( ii )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مَغْفُوْراً

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا وہ مغفور (جس کے سارے گناہ بخش دئیے جائیں) مرا۔

( iii )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ تَائِباً ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا وہ تائب(جس کی توبہ قبول ہوگئی ہو)مرا۔

( iv )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مُومِناً مُسْتَکْمِلَ الاِ یْمَانِ ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا وہ مومن اور مکمل ایمان کے ساتھ مرا۔

( v )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ بَشَّرَه مَلَکُ الْمَوْتِبِالجَنَّةِ ثُمَّ مُنکَرٌوَنَکِیرٌ ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا اُس کو ملک الموت نے اور پھر منکر و نکیرنے جنت کی بشارت دی۔

( vi )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ یَزَّفُ اِلی الجَنَّةِ کَمَا تَزُفُّ العُرُوسُ اِلٰی بَیتِ زَوجِهَا ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا اُسے جنت میں ایسے لے جایا جائے گا جیسے دلہن اپنے شوہر کے گھر لے جائی جاتی ہے۔

۲۷

( vii )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ فُتِحَ لَه فِیْ قَبْرِه بَابَانِ اِلٰی الجَنَّةِ ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا اُس کی قبر میں دودروازے جنت کی طرف کھول دئیے جاتے ہیں۔

( viii )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ جَعَلَ اللّٰهُ قَبْرَه مَزَارَ مَلا ئِکَةِ الرَّحْمَةِ

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا اللہ نے اُس کی قبر کو فرشتوں کی زیارتگاہ بنادیا۔

( ix )۔اَ لَا وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ عَلَی السُنَّة وَالْجَمَاعَةِ ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مراوہ اہل سنت والجماعت کے طریقہ پرمرا۔

( x )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ جاءَ یَوْمَ القِیٰامَةِ مَکْتُوْبٌبَیْنَ عَیْنَیْهِ اَئِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ

آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنی آل محمد میں مرا وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئےگا کہ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ”خدا کی رحمت سے مایوس“ لکھا ہوا ہوگا۔

( xi )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ کَافِرًا

آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنی آل محمد میں مرا، وہ کافر مرا۔

( xii )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ لَمْ یَشُُمَّ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ

آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنی آل محمد میں مرا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکے گا۔

آل محمد کے بارے میں فخرالدین رازی کے نظریات

بڑی دلچسپ بات ہے کہ فخرالدین رازی جو اہل سنت کے بڑے بزرگ عالم دین ہیں، نے حدیث بالا جو تفسیر کشاف میں بڑی واضح طور پر اور تفصیل سے بیان کی گئی ہے، کو اپنی تفسیر میں نقل کرنے کے بعد لکھاہے کہ آل محمد سے مرادوہ افراد ہیں جن کا پیغمبر خدا سے بڑا گہرا اور مضبوط تعلق ہو اور اس میں شک تک نہیں کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا، علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کا تعلق پیغمبر خدا سے سب سے زیادہ تھا اور یہ مسلمہ حقیقت ہے اور روایات متواترہ سے ثابت شدہ ہے۔پس لازم ہے کہ انہی ہستیوں کو آل محمد قرار دیاجائے۔

۲۸

فخرالدین رازی اپنی تفسیر میں اس حدیث کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اصحاب نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! وہ آپ کے قریبی رشتہ دار کون سے افراد ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟“ آپ نے فرمایا:”وہ علی علیہ السلام ، فاطمہ سلام اللہ علیہا،حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہیں“۔

اس کے علاوہ اہل سنت کی کتابوں میں بہت سی دوسری احادیث اور روایات اس بارے میں بیان کی گئی ہیں۔ اُن سب کو یہاں پر بیان کرنا ممکن نہیں اور صرف مزید اطلاع دینے کی غرض سے اشارہ کررہے ہیں کہ اوپر درج کی گئی حدیث جو محبت آل محمد کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور اپنے موضوع کے اعتبار سے بڑی اہم ہے، اہل سنت کی کم از کم پچاس معروف کتابوں میں درج کی گئی ہے۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ زمخشری تفسیر کشاف میں ، جلد۴،صفحہ۲۱۹۔

۲۔ بیضاوی اپنی تفسیر(تفسیر بیضاوی ) میں، جلد۲،صفحہ۳۶۲۔

۳۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں، جلد ۴،صفحہ۱۱۲۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۲،صفحہ۱۲۳اور ۴۴۴، اس کےعلاوہ اس حدیث کو مکمل طور پر مقدمہ کتاب میں بھی نقل کیا ہے۔

۵۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب علی علیہ السلام میں، حدیث۳۵۲،صفحہ۳۰۷۔

۶۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۱۳۰، طبع اوّل، حدیث۸۲۲۔

۷۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل، کتاب الفضائل میں، حدیث۲۶۳،صفحہ۱۸۷،طبع اوّل،باب فضائل امیرالمومنین علی ۔

۸۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، جلد۹،صفحہ۱۶۸، باب فضائل اہل بیت ۔

۹۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۷،۸۔

۱۰۔ فخر رازی اپنی تفسیر(تفسیر کبیر) میں، جلد۲۷،صفحہ۱۶۶۔

۲۹

۱۱۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۸۶۔

۱۲۔ حموینی ، کتاب فرائد السمطین، باب۲۶،جلد۲،صفحہ۱۲۰۔

۱۳۔ ابن اثیر، کتاب اسد الغابہ حبیب ابن ابی ثابت کے تراجم میں، جلد۵،صفحہ۳۶۷۔

۱۴۔ حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۷۲ اور بہت سے علمائے اہل سنت۔

گیارہویں آیت

علی نفس رسول ہیں(علی اور اہل بیت آیت مباہلہ میں)

( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآ ءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ ۔)

”پس آپ کہہ دیجئے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ اور ہم اپنی عورتوں کو(بلائیں)اور تم اپنی عورتوں کو(بلاؤ) اور ہم اپنے نفسوں کو(بلائیں) اور تم اپنے نفسوں کو(بلاؤ) پھر ہم خدا کی طرف رجوع کریں اور خدا کی لعنت جھوٹوں پر قرار دیں“۔(سورئہ آل عمران:آیت۶۱)۔

تشریح

تمام مفسرین اور محدثین اہل سنت اور شیعہ کے مطابق یہ آیت (جو آیت مباہلہ کے نام سے مشہور ہے)اہل بیت کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں ”اَبْنَاءَ نَا“سي امام حسن اور امام حس ین مراد ہیں،”نِسَاءَ نَا “سے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور”اَنْفُسَنَا“ سے علی ابن ابی طالب علیہما السلام مرادہیں۔

روایات لکھنے سے پہلے ہم مباہلہ کے واقعہ کو مختصراً بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

۳۰

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کودعوت اسلام دی۔ عیسائیوں کے بڑے بڑے پادریوں نے باہم مشورہ کیا اور اکٹھے ہوکر مدینہ میں آئے او رپیغمبر اسلام سے ملاقاتیں کیں اور بحث و مباحثہ شروع کردیا۔یہ سلسلہ مناظرہ تک جاپہنچا۔ رسول اللہ نے انہیں محکم دلائل دئیے جس کے جواب میں عیسائیوں نے اپنے عقائد کو درست قرار دینے کیلئے بحث میں ضد کی۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحکم خدا عیسائیوں کو مباہلہ(مخالف گروہوں کا مل کر جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجنا)کی دعوت دی تاکہ حق ظاہر ہوجائے۔

عیسائیوں نے یہ دعوت قبول کرلی اور قرار پایا کہ مباہلہ کیلئے اگلے روز مدینہ سے باہر کھلے میدان میں جمع ہوں گے۔ مباہلہ کا وقت آن پہنچا۔ تمام عیسائی ، اُن کے علماء اور راہب مدینہ سے باہر مقررہ جگہ پر پہنچ گئے اور پیغمبر اسلام کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔اُن کا خیال تھا کہ آپ یقینا مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کے ہمراہ آئیں گے۔ ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ نصاریٰ نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ پیغمبر خدا کے ساتھ مسلمانوں کی جماعت ہے نہ اصحاب و انصار کی کوئی تعداد۔آپ بڑی متانت کے ساتھ صرف چار افراد کے ہمراہ تشریف لارہے ہیں۔ اُن میں سے ایک بچہ(آپ کا نواسہ امام حسین علیہ السلام) ہے جو آپ کی گود میں ہے۔ دوسرے بچے(آپ کا نواسہ امام حسن علیہ السلام)کی انگلی پکڑی ہوئی ہے۔ آپ کے پیچھے ایک بی بی ہیں جن کو خاتون جنت کہا جاتا ہے یعنی سیدہ فاطمة الزہرا اور اُن کے پیچھے اُن کے شوہرنامدار حضرت علی ہیں۔ ان سب افراد کے چہروں سے نورانی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔یہ سب افراد کمال اطمینان اور ایمان راسخ کے ساتھ آہستہ آہستہ میدان کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ عیسائیوں کا رہبر” اسقف اعظم“ حیران ہوا اوراپنے لوگوں سے پکار کر کہنے لگا کہ دیکھو! محمد اپنے بہترین عزیزوں کو لے کر مباہلہ کیلئے تشریف لا رہے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر اُن کو مباہلہ میں کوئی فکروتشویش ہوتی تو ہرگز اپنے قریبی رشتہ داروں کو نہ لاتے۔ اے لوگو!ان افراد کے چہروں سے نور کی کرنیں پھوٹتی ہوئی دیکھ رہا ہوں۔ اگر یہ افراد خدا سے دعا کریں تو پہاڑ اپنی جگہ سے حرکت کرنا شروع کردیں۔لہٰذا ان سے مباہلہ کرنے سے گریز کریں وگرنہ ہم سب عذاب خدا میں گرفتار ہوجائیں گے۔

اس موقع پر اسقف نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم آپ سے ہرگز مباہلہ نہیں کریں گے بلکہ آپ سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔ پیغمبر خدا نے اُن کی تجویز کو قبول کرلیا اور معتبر روایات کے مطابق علی علیہ السلام کے دست مبارک سے صلح نامہ لکھا گیا۔

۳۱

اوپر بیان کئے گئے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے چند روایات جو تشریح اور تفسیر آیت مباہلہ کے ضمن میں نقل کی گئی ہیں، ملاحظہ فرمائیں:

(ا)۔ ابو نعیم اپنی کتاب حلیة الاولیاء میں لکھتے ہیں کہ عامر بن سعد اپنے باپ سے اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں:

لَمَّا نَزَلَتْ هٰذِ هِ الاٰ یَةُ (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآ ءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ) دَعٰا رَسُوْلُ اللّٰهِ صلّٰی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ عَلِیاً وَفَاطِمةَ وَحَسَناًوَحُسَیْناً فَقَالَ:اَلَّلهُمَّ هٰولاءِ اَهْلِیْ

جس وقت یہ آیت( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآ ءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ ) نازل ہوئی، پیغمبر اسلام نے علی ،فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام کو اپنے پاس بلایا اور خدا کے حضور عرض کی:”پروردگار! یہ میرے اہل بیت ہیں“۔

(ب)۔ اسی طرح کتاب حلیة الاولیاء میں اسناد کے ساتھ جابر روایت کرتے ہیں:

قَالَ جَابِرُ: فِیْهِمْ نَزَلَتْ هٰذِهِ الآ یَةُ قَالَ جَابِرْ:اَنْفُسَنَا رَسُوْلُ اللّٰه وَعَلِیٌّ وَ ”اَبْنَاءَ نَا“ اَلحَسَنُ وَالحُسَیْنُ وَ ”نِسَاءَ نَا“ فَاطِمَةُ

جابر کہتے ہیں کہ یہ آیہ شریفہ( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْقفثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ ) ان ہستیوں(یعنی حضرت محمد، علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام)کیلئے نازل ہوئی ہے۔

جابر کہتے ہیں کہ اَنْفُسَنَا سے رسول خدااور عل ی علیہ السلام اوراَبْنَآءَ نَا سي حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام اورَنِسَآءَ نَا سے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا مراد ہیں۔

۳۲

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ فخرالدین رازی تفسیر کبیر میں، جلد۱۲،صفحہ۸۰ اور اشاعت دوم، جلد۸،صفحہ۸۵۔

۲۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں، جلد۱،صفحہ۳۷۱ ، البدایہ والنہایہ ،جلد۷،ص۳۴۰،باب فضائل علی علیہ السلام۔

۳۔ سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۲،صفحہ۴۳اور کتاب تاریخ الخلفاء، صفحہ۱۶۹۔

۴۔ گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب، باب۳۲،صفحہ۱۴۲۔

۵۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب علی علیہ السلام، حدیث۳۱۰،صفحہ۲۶۳اور۳۱۸۔

۶۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد۱،صفحہ۱۲۵، اشاعت اوّل۔

۷۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ،ینابیع المودة، باب مناقب، ص۲۷۵،حدیث۱۰،ص۲۹۱

۸۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد۱،صفحہ۳۶، اشاعت دوم، صفحہ۱۹۳۔

۹۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد۳،صفحہ۱۵۰(اشاعت حیدرآباد)۔

۱۰۔ بیضاوی اپنی تفسیر میں، جلد۱،صفحہ۱۶۳۔

۱۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، چوتھا باب، جلد۲،صفحہ۲۳، اشاعت اوّل۔

۱۲۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب”ما نزل من القرآن فی علی “ ، کتاب دلائل النبوة،ص ۲۹۷

۱۳۔ احمد بن حنبل، کتاب مسند، جلد۱،صفحہ۱۸۵،اشاعت مصر۔

۱۴۔ طبری اپنی تفسیر میں، جلد۳،صفحہ۱۹۲۔

۱۵۔ واحدی نیشاپوری، کتاب اسباب النزول میں، صفحہ۷۴(اشاعت انڈیا)۔

۱۶۔ آلوسی ، تفسیر ”روح المعانی“میں، جلد۳،صفحہ۱۶۷،اشاعت مصر۔

۱۷۔ علامہ قرطبی، ”الجامع الاحکام القرآن“، جلد۳،صفحہ۱۰۴، اشاعت مصر۱۹۳۶۔

۱۸۔ حافظ احمد بن حجر عسقلانی،’کتاب الاصابہ‘ ،ج۲،ص۵۰۲، اشاعت :مصطفی محمد، مصر۔

۳۳

بارہویں آیت

اللہ تعالیٰ نے علی کو ایمان کامل اورعمل صالح کے سبب دلوں کا محبوب بنادیا۔

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا )

”بہ تحقیق وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے، عنقریب خدائے رحمٰن اُن کیلئے ایک محبت قرار دے گا“۔(سورئہ مریم:آیت۹۶)

تشریح

اس آیت میں دو نکات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے:

(ا)۔ یہ آیہ شر یفہ ہمیں یہ پیغام دے رہی ہے کہ ایمان اور عمل صالح کا اثر پوری کائنات پر

چمکتا ہے اور نتیجتاً اُس کی محبوبیت کی شعاعیں تمام مخلوق کو اپنے حلقہ اثر میں لے لیتی ہیں اور وہ ذات اقدس ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو دوست رکھتی ہے اور اُن کو تمام مخلوقات کا بھی محبوب بنادیتی ہے۔

(ب)۔ اگرچہ ہر فرد ایمان لانے کے بعد عمل صالح بجالانے پر اس منزل کو پاسکتا ہے لیکن

اہل سنت اور شیعہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت سب سے پہلے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی شان میں نازل ہوئی۔ حقیقت میں تمام اصحاب رسول میں سب سے پہلے جو ایمان اور عمل صالح کے نتیجہ میں عنایات خداوندی کا مستحق ٹھہرا اور جس کی محبت تمام توحید پرستوں کے دلوں میں ڈال دی گئی، وہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام تھے۔

اس سلسلہ میں روایات ملاحظہ ہوں:

(ا)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قَولهِ تعالٰی ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) قَالَ: اَلْمُحَبَّةُ فِی صُدُوْرِ المُومِنِینَ نَزَلَتْ فِی عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”ابن عباس ے روایت ہے کہ آپ نے اس آیت( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) کے بارے میں فرمایا کہ خدا محبت کو مومنوں کے دلوں میں جگا دیتا ہے اور یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے(اور یہ اس بات کو بیان کرتی ہے کہ خدا نے محبت علی علیہ السلام مومنوں کے دلوں میں ڈال دی ہے)۔

۳۴

(ب)۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں براء بن عاذب سے اس طرح نقل کرتے ہیں:

قَالَ رسول اللّٰه لعلی ابن ابی طالب:یَا عَلِیُّ وَ قُل، اَلّٰلهُمَّ اجْعَلْ لِیْ عِنْدَکَ عَهْداً وَاجْعَلْ لِی فِی صُدُوْرِ الْمُومِنِیْنَ مَوَدَّة، فَانْزَلَ اللّٰهُ ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) قَالَ: نَزَلَتْ فِیْ عَلِی

”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب علیہما السلام سے فرمایا:’کہو ، اے میرے اللہ! میرے لئے اپنی دوستی(محبت) قرار دے اور میرے لئے مومنوں کے دلوں میں محبت ڈال دے‘۔ اُس وقت یہ آیت( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) نازل هوئ ی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کیلئے نازل ہوئی ہے“۔

(ج)۔ حافظ حسکانی کتاب ”شواہد التنزیل“ میں اس آیت کے ضمن میں ابن حنفیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:”میں نے امیر المومنین سے پوچھا کہ اس آیت( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟“

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کسی مردوزن مومن کو نہیں پاؤ گے جس کے دل میں علی اور اُن کی آل کی محبت نہ ہو(یعنی ایمان کی اہم ترین شرط علی اور اُن کی پاک آل سے محبت ہے)“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۴،صفحہ۲۸۷اور اشاعت دوم،صفحہ۳۱۵۔

۲۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب اوّل من یحبُ علیاً او یبغضہ، جلد۹،صفحہ۱۲۵۔

۳۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث ۵۰۲،جلد۱،صفحہ۳۶۵۔

۴۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، چودہواں باب، جلد۱،صفحہ۷۹۔

۵۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد۳،صفحہ۴۷۔

۳۵

۶۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، حدیث۳۷۴،صفحہ۳۲۷،اشاعت اوّل۔

۷۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۴۹۔

۸۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ۲۵۰اور۳۶۳۔

۹۔ طبرانی، کتاب معجم الکبیر، جلد۳،صفحہ۱۷۲(ترجمہ عبداللہ بن عباس)۔

۱۰۔ ثعلبی اپنی تفسیر کشف البیان ، جلد۲،صفحہ۴۔

تیرہویں آیت

علی تنہا اس آیت کے حکم پر عمل کرنے والے ہیں

( یٰاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ااِذَانَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّ مُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰ کُمْ صَدَ قَةًط ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْهَرُط فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم ) ”اے ایمان لانے والو! جب تم رسول سے علیحدگی میں کچھ عرض کرنا چاہو تو اپنے اس تخلیہ سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو ، تمہارے لئے بہتر(بھی) ہے اور زیادہ پاک کرنے والا(بھی)پھر تم کو اگر یہ میسر نہ ہو تو ضرور اللہ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے“۔(سورئہ مجادلہ:آیت۱۳)۔

تشریح

اس سے پہلے کہ اس آیہ شریفہ سے متعلق روایات نقل کی جائیں، مناسب ہوگا کہ مرحوم علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں اور دوسرے بہت سے مفسرین نے اپنی معروف کتب میں اس آیت کے شان نزول میں جو ذکر کیا ہے، اُس پر توجہ فرمائیں۔

عرب کے تقریباً سبھی اُمراء پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے تھے اور آپ سے رازونیاز کی باتیں آپ کے کان میں کرتے تھے( اس عمل سے نہ صرف پیغمبر اسلام کا قیمتی وقت ضائع ہوتا تھا بلکہ غرباء کیلئے باعث تشویش بنتا جارہا تھا یعنی اُمراء اس کو اپنا حق تصور کرنے لگے) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اور اس کے بعد والی آیت کو نازل فرمایا اور حکم دیا کہ پیغمبر اکرم کے کان میں سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ دیا جائے اور اسے مستحقین تک پہنچا دیا جائے۔ جب اُمراء، اغنیاء اور سرداروں نے یہ حکم سنا تو سرگوشی کرنے سے پرہیز کرنے لگے تو اس آیت کے بعد والی آیت نازل ہوئی(جس میں بخل کرنے پر اُن کی مذمت کی گئی اور کچھ رعایت دی گئی) اور سرگوشی کرنے کی اجازت سب کو دے دی گئی۔

۳۶

اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے جو روایات نقل کی ہیں، اُن کی بناء پر تو صرف اور صرف علی نے اس آیت پر بڑی شائستگی کے ساتھ عمل کیا اور وہی اس امتحان میں کامیاب ہوئے۔ اس سلسلہ میں دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔قٰالَ عَلِیٌّ عَلَیْهِ السَّلَام: آ یَةٌ مِّن کِتَابِ اللّٰهِ لَمْ یَعْمَلْ بِهٰا اَحَدٌ قَبْلِی وَلَا یَعْمَلْ بِهَا اَحَدٌ بَعْدِیْ، کَانَ لِیْ دِیْنَارٌ فَصَرَفْتُهُ بِعَشْرَةِ دَرٰاهِمَ فَکُنْتُ اِذَاجِعْتُ اِلَی النَّبِیْ صلّٰی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ تَصَدَّقْتُ بِدِرْهَمٍ

”حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن میں یہ ایک ایسی آیت ہے جس پر نہ مجھ سے پہلے اور نہ ہی کسی نے بعد میں عمل کیا۔ میرے پاس ایک دینار تھا جس کو میں نے دس درہموں میں تبدیل کیا اور جب بھی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی راز کی بات کرتا تو میں اس سے قبل ایک درہم صدقہ دے دیتا“۔

(ب)۔عَنْ اِبْن عَبَّاس رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ فی قَولِهِ تَعٰالٰی ( یٰٓاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ااِذَانَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّ مُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰ کُمْ صَدَقَةًط ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْهَرُط فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم ) قَالَ: اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ کَلٰامَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلّٰی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ و(اصحابُ رسولِ اللّٰه)بَخِلُوْا اَنْ یَّتَصَدِّ قُوْا قَبْلَ کَلامِه قَال:وَتَصَدَّقَ عَلَیٌّ وَلَمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ اَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ غَیْرُه ۔

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ اس آیت یعنی

( یٰٓاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ااِذَانَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقَةًط ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْهَرُط فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم )

میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے ساتھ سرگوشی کو حرام قراردیاہے مگر یہ کہ جو چاہے وہ پہلے صدقہ دے ۔ اصحاب نے اس ضمن میں سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ دینے میں بخل سے کام لیا اور صرف علی علیہ السلام نے صدقہ دیا اور اس کام کو سوائے علی علیہ السلام کے کسی دوسرے مسلمان نے انجام نہ دیا۔

۳۷

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ فخر رازی اپنی تفسیر میں،جلد۲۹،صفحہ۲۷۱۔

۲۔ سیوطی الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۱۸۵اور اشاعت دوم صفحہ۲۰۵اور حدیث۲۵،کتاب جمع الجوامع، جلد۲،صفحہ۲۸، اشاعت اوّل۔

۳۔ حافظ حسکانی، حدیث۹۴۹، شواہد التنزیل جلد۲،صفحہ۲۳۱،۳۴۳، اشاعت اوّل۔

۴۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں جلد۴،صفحہ۳۲۶۔

۵۔ حاکم، کتاب المستدرک میں باب”کتاب التفسیر“جلد۲،صفحہ۴۸۲۔

۶۔ ابن مغازلی، مناقب امیر المومنین ، حدیث۳۷۲،۳۷۲،صفحہ۳۲۵،اشاعت اوّل۔

۷۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۶۶،جلد۱،صفحہ۳۵۸،اشاعت بیروت۔

۸۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۴۸،باب۲۹،صفحہ۱۳۵۔

۹۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة ، باب۲۷،صفحہ۱۲۷۔

۱۰۔ بیضاوی اپنی تفسیر میں، جلد۲،صفحہ۴۷۶۔

۱۱۔ واحدی، کتاب اسباب النزول، صفحہ۳۰۸، اشاعت اوّل۔

۱۲۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب ”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“۔

چودہویں آیت

علی اور اُن کے شیعہ بہترین مخلوق ہیں

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ )

”یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے، ساری مخلوق سے بہتروہی لوگ ہیں“۔(سورئہ بیّنہ:آیت۷)

۳۸

تشریح

یہ آیت نہایت پُرمعنی اور عظمت والی ہے اورعلی علیہ السلام اور اُن کے حقیقی ماننے والوں کے مدارج و مراتب کو بیان کرتی ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کیلئے ہم مختلف روایات جو اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے اس ضمن میں بیان کی ہیں، کی طرف رجوع کرتے ہیں، ملاحظہ ہوں:

(ا)۔ حافظ حسکانی کتاب شواہد التنزیل میں روایت نقل کرتے ہیں:

عَنْ ابنِ عباس رضی اللّٰه عنه قال: لَمَّا نَزَلَتْ هٰذِه الآیةُ ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ لِعَلِیٍّ علیه السَّلام هُمْ اَنْتَ وَشِیْعَتُکَ تَاتِی اَنْتَ وَشِیْعَتُکَ یَومَ القِیٰامَةِ رٰاضِیِّیْنَ مَرْضِیِّیْنَ وَیَاتِی عَدُ وُّ کَ غِضْبَاناً مُقْمِحِیْنَ

”ابن عباس سے روایت ہے ،انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ )

نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمنے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ ”یا علی !اس آیت سے مراد تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔ تم اور تمہارے شیعہ قیامت کے روز میدان محشر میں اس طرح داخل ہوں گے کہ خدا تم سے اور تم خدا سے راضی ہوگے اور تمہارے دشمن پریشان حالت میں میدان محشر میں داخل ہوں گے“۔

(ب)۔ خوارزمی اس آیت کی فضیلتیں بیان کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں:

عَنْ جابر قال:کُنَّاعِنْدَالنَّبِیْ صلی اللّٰه علیه وآله وسلَّم فَأَ قْبَلَ علی ابن ابی طالب علیه السلام فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیه وآله وَسلَّم قَدْأَ تٰاکُمْ اَخِی ثُمَّ اِلْتَفَتَ اِلَی الْکَعْبَةِ فَضَرَبَهٰابِیَدِه ثُمَّ قَالَ:وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِه اِنَّ هٰذَا وَشِیْعَتَهُ هُمُ الفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ثُمَّ قٰالَ اِنَّه اَوَّلُکُمْ اِیْمَاناً بِاللّٰهِ وَأَوْفٰاکُمْ بِعَهْدِاللّٰهِ تَعَالٰی وَاَقْوَمُکُمْ بِاَمْرِاللّٰهِ وَاَعْدَلُکُمْ فِی الرّعِیَةِ وَاَقْسَمُکُمْ بِالسَّوِیَّةِ وَاَعْضَمُکُمْ عِنْدَاللّٰهِ مَزِیَّةً

قَالَ جابر: وَفِی ذٰلِکَ الْوَقْتِ نَزَلَتْ فِیْهِ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) قَالَ وَکَانَ اصحٰابُ النَّبِی اِذَاَقْبَلَ عَلَیْهِمْ علیٌ قَالُوْ قَدْ جَاءَ خَیْرُ البَرِیَّةِ

۳۹

”جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم پیغمبر اکرم کی خدمت میں بیٹھے تھے ۔ علی علیہ السلام ہماری طرف آرہے تھے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:’میرا بھائی تمہاری طرف آرہا ہے‘۔ پھر کعبہ کی طرف رخ مبارک کیا اور کعبہ کی دیوار پر ہاتھ لگا کر کہا:”مجھے اُس ہستی کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یہ شخص اور اس کے شیعہ قیامت کے روز کامیاب ہیں‘۔ بعد میں فرمایا:’خدا کی قسم! وہ تم سب سے پہلے خدا پر ایمان لانے والا ہے۔ خدا کے ساتھ عہد میں اُس کی وفا سب سے زیادہ ہے۔ خدا کے احکام کیلئے اُس کا قیام سب سے زیادہ ہے۔اُس کا عدل اپنی رعیت کے ساتھ سب سے زیادہ ہے اور تقسیم بیت المال میں اُس کی مساوات سب سے بڑھی ہوئی ہے اور اُس کا مقام نزد خدا سب سے بلند تر ہے“۔

جابر نے کہا:اس وقت خدا کی طرف سے یہ آیت

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ )

رسول اکرم پر نازل ہوئی۔ اس کے بعد جب بھی علی علیہ السلام اصحاب پیغمبر کی طرف جاتے تو وہ کہتے کہ بہترین مخلوق خدا آرہے ہیں“۔

(ج)۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدرالمنثور میں درج ذیل روایت کو نقل کیا ہے:

عَنْ ابنِ مَرْدَوِیة، عَنْ علی علیه السلام قٰالَ:قٰالَ لِی رَسُوْل اللّٰهِ صلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ أَ لَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ اللّٰهِ: ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) (هم) أَنْتَ وَشِیْعَتُکَ وَمَوْعِدی وَمَوْعِدُکُمُ الحَوْضُ اِذٰاجِعْتَ الْاُمَمَ لِلْحِسَابِ تَدْعُوْنَ غُرّاً مُحَجَّلِیْنَ ۔

”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا :پیغمبر اسلام نے مجھ سے فرمایا:’کیا تم نے خدا کا یہ کلام

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ )

سنا ہے؟ ‘ پھر فرمایاکہ’وہ تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔ تمہارا اور میرا مقام حوض کوثر ہے۔ جب اُمتوں کو حساب کیلئے بلایاجائے گا تو تم اس حالت میں آؤ گے کہ تمہاری پیشانی سفید ہوگی اور جانی پہچانی ہوگی“۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272