آفتاب ولایت

آفتاب ولایت28%

آفتاب ولایت مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 272

آفتاب ولایت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 272 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157897 / ڈاؤنلوڈ: 5556
سائز سائز سائز
آفتاب ولایت

آفتاب ولایت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

2۔ حدیث ثقلین سے بھی اس احتمال کاغلط اور باطل ہونا واضح ہے کیونکہ اس حدیث کامضمون یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے لوگوں  کواپنے زمانے میں  ہی کتاب الہیٰ سے تمسک کرنے کا حکم دیا ہے اگر فرض کریں  کہ چند آیات ان سے ضائع ہوگئی ہوں  تو اس کتاب مدوّن اور آیات کے مجموعہ سے تمسک ممکن نہیں    رہتا۔

دوسرا احتمال بھی غلط اورباطل ہے کیونکہ جہاں  تحریف عمدی ہوتو وہ بغیر سبب اورانگیزہ کے نہیں    ہوسکتی ، اگرتحریف ان آیات میں  جان بوجھ کرکی گئی ہو جن سے جناب ابوبکر اور عمر کی حکومت اور خلافت کے لئے کوئی ضرر نہیں    پہنچتا تھا تو ایسی آیات میں  تحریف کرنے کا سبب کیاہے ؟ لہذا یہ احتمال بھی صحیح نہیں    ہے ۔ نیز تیسرا احتمال بھی صحیح نہیں    ہے کیونکہ اگر اس طرح تحریف ہوتی تو دوسرے لوگ جو ابوبکر اور عمر کی حکومت اور خلافت کے مخالف ہیں    جن میں  سرفہرست حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور حضرت صدیقہ ئ زہرا سلام اللہ علیہا اور دیگر بارہ افراد جو انصار ومہاجرین کے تھے اس مسئلہ کو ابوبکر اورعمر کی خامیوں  اوران پر ہونے والے اعتراضات میں  ذکر کرتے ، ان کے خلاف کے گئے احتجاجات میں  اس کاتذکرہ ہوتا جبکہ ان کے کلمات اور احتجاجات میں  ایسانظر نہیں    آتا، لہذا اس بحث کانتیجہ یہ ہے کہ ابوبکر اور عمر کے دور خلافت میں  تحریف ہونے کا قائل ہونا مردود اور باطل ہے ۔

۴۱

دوسری صورت

عثمان کے دور خلافت میں  تحریف ہوئی ہے ، یہ نظریہ گذشتہ نظریے کی نسبت بہت زیادہ ضعیف اور کمزورہے کیونکہ :

1۔ عثمان کے دور میں  اسلام کی نشر واشاعت اس قدر ہوئی تھی کہ کسی کو قرآن کی کسی آیت کو مٹانا یاکسی آیت کااضافہ کرنا ممکن نہیں    تھا ۔

2۔ اگرعثمان کے دور میں  تحریف ان آیات میں  ہوئی ہو جو اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی ولایت اور خلافت سے مربوط نہیں    ہیں    تو ان میں  تحریف کرنے کاسبب اورہدف قابل تصور نہیں    ہے ، نیز ولایت ائمہ علیہم السلام سے متعلق آیات میں بھی ان کے زمانے میں  تحریف نہ ہونے کایقین ہے ، کیونکہ اگر قرآن کی کوئی آیت صریحاً حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی خلافت اور ولایت ثابت کرنے کے لئے ہوتی تو وہ آیت لوگوں  میں  شائع ہوتی اور عثمان تک خلافت نہ پہنچتی ۔

3۔ اگر عثمان قرآن میں  تحریف کرتا تو عثمان کے مخالفین کے لئے یہ مسئلہ ان کے خلاف قیام کرنے کا بہترین بہانہ اور عذر تھا جبکہ ان کی طرف سے کوئی ایسی چیز احتجاج کی شکل میں  نظر نہیں    آتی ۔

4۔اگر تحریف عثمان کے دور خلافت اور عثمان کے ہاتھوں  ہوئی ہوتی تو حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام عثمان کے بعد مسلمانوں  کاخلیفہ اور حاکم ہونے کی حیثیت سے قرآن کو اسی طرح ترتیب دینا چاہئےے تھاجس طرح پیغمبر اکرم (ص)پرنازل ہوا تھا جبکہ ایسی کوئی بات تاریخ میں  نہیں    ملتی ، پس یہ صورت بھی باطل اور غلط ہے ۔

۴۲

تیسری صورت

قرآن میں  تحریف عثمان کے دور خلافت کے بعد نبی امیہ کے خلفاء یاان کے ایجنٹوں  کے ہاتھوں  ہوئی ہے ۔ یہ ایسی صورت ہے جس کاسابقہ صورتوں  کی طرح کسی محقق یامورخ نے دعویٰ نہیں    کیا ہے ۔ اور چوتھی صورت بھی عقلاً ممکن نہیں    ہے ۔ لہذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن میں  تحریف ہونے کانظریہ سرے سے ہی غلط اور باطل ہے ،چونکہ عقلی اعتبار سے کوئی چوتھی صورت موجود نہیں    لہذا ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں    کہ عقلی اور تاریخی اعتبار سے تحریف قرآن کامسئلہ باطل اور مردود ہے ۔ یہاں  یہ بھی یادرہے کہ یہ دلیل صرف عقلی حکم سے ثابت نہیں    بلکہ تاریخی تجزیہ بھی ساتھ ہے

دلیل عقلی کا دوسرا بیان

اس بیان کی وضاحت کے لئے دو مقدموں  کی ضرورت ہے :

پہلامقدمہ : شریعت اسلام ادیان الہیٰ میں  سے کامل ترین دین ہے اور لوگوں  کے لئے قیامت تک رہنے والا آئین ہے ۔

دوسرا مقدمہ : ایسے دین اورآئین کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی دائمی سند اور دستور العمل بھی اس کے ساتھ ہو ، تاکہ لوگ اس کے مطابق عمل کرسکیں ۔

جب ان دو مقدموں  کو ایک دوسرے سے ملائیں  تو نتیجہ نکلتا ہے کہ شارع کو چاہئےے کہ اپنی کتاب کو ہر قسم کی تحریف اور کمی بیشی سے محفوظ رکھے ۔لہذا عقل کی رو سے شارع (اللہ ) پر لازم ہے کہ قرآن کو تحریف جیسی ظلمت سے محفوظ رکھے۔

۴۳

یہ دلیل عقلی بھی شک سے خالی نہیں    ہے کیونکہ عقل قضیہ شرطیہ کے طور پر حکم دیتی ہے کہ قرآن تمام عالم انسانیت کے لئے قیامت تک ان کی زندگی کے تمام مراحل میں  رہنمائی اور ہدایت کے لئے ہے تو تحریف سے محفوظ ہونا چاہئےے لیکن یہ مقدار محل بحث کے لئے مفید نہیں  ہے کیونکہ ہمارا محل بحث تحریف کا واقع ہونایا نہ ہونا ہے اور عقل اس مسئلے میں مستقل طور پر دخالت نہیں  کرسکتی ۔

سیرت اوربناء عقلاء :

بعض علماء نے قرآن کریم میں  تحریف نہ ہونے پر بنا عقلاء اور ان کی سیر ت سے استدلال کیا ہے ا ور اس کی ضاحت یوں  کرتے ہیں    :

'' ہر کتاب میں  لکھی ہوئی بات اور کلام میں  تبدیلی اور تحریف عادت اور فطرت کے خلاف ہے ، پس ایسی تبدیلی اجباری اورغیر عادی ہے ۔ لہذا عقلاء کی سیر ت یہ ہے کہ ایسی تحریف اور تغییر کا اعتنا نہیں    کرتے ۔ اس نظرئےے کی بنا پر قرآن کا تحریف سے محفوظ رہنا ایک امر طبیعی ہے جبکہ تحریف کا احتمال خلاف طبیعت ہے ۔ لہذا یہی اصل اور قانون اوّلیہ کاتقاضا ہے جو بدیہی ہے اورسب کے پاس مسلم ہے ۔ ( 1 )

لیکن یہ دلیل ان کتابوں  کے بارے میں  مفید ہے جن میں  تحریف ہونے کے مختلف انگیزے اور اغراض نہ پائے جاتے ہوں  لیکن قرآن جیسی کتاب میں  کفار او رملحدین کی طرف سے تحریف کے مختلف انگیزے پائے جاتے ہیں    اس میں  تحریف نہ ہونا اس دلیل میں شامل نہیں  ہیں    ۔

...........................

1۔ گفتار آسان در نفی تحریف قرآن ص12

۴۴

بارہواں  مطلب

تحریف کے نہ ہونے پر واضح ترین آیت شریفہ

محققین کے ایک گروہ نے دعویٰ کیا ہے کہ قرآن میں تحریف نہ ہونے پر دلالت کرنے والی آیات میں  سے واضح ترین آیت یہ ہے :

''و انّه لکتاب عزیز لا یاتیه الباطل من بین یدیه و لا من خلفه تنزیل من حکیم حمید'' ( 1 )

''اور یہ قرآن تویقینی ایک عالی مرتبہ کتاب ہے جس میں سامنے یا پیچھے کسی بھی طرف سے باطل نہیں  آسکتا ہے کہ یہ خوبیوں والے حکیم کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے''۔

بعض مفسرین نے دعوا کیا ہے کہ اس آیت شریفہ کے عدم تحریف پر واضح ترین دلیل ہونے پر سارے مفسرین کا اجماع ہے۔ ( 2 )

لہٰذا اس آیت شریفہ سے نفی تحریف پر کئی طریقوں  سے استدلال کیا گیا ہے :

پہلا طریقہ:یہ بات واضح ہے کہ اللہ نے اپنی کتاب کی صفت کو لفظ عزت سے متصف کیا ہے ۔ عزت کا تصور لغت کے حوالے سے وہاں صحیح ہے جہاں  ہر قسم

..........................

1۔فصلت /41،42

2۔صیانۃ القرآن عن التحریف ص33

۴۵

کی تبدیلی اور کمی بیشی سے تحفظ حاصل ہو۔ ( 1 )

دوسرا طریقہ:اس آیت شریفہ میں ایک طرف سے طبیعت اور باطل کی نفی ہو رہی ہے اور قاعدے کے مطابق ایسے موارد میں  عموم کا فائدہ دیتی ہے دوسرے الفاظ میں یوں  کہا جاسکتا ہے کہ آیت شریفہ قرآن سے ہر قسم کے باطل کی نفی کرتی ہے اور ہر وہ چیز جو خراب یا فاسد ہو یا کچھ حصہ اس سے ضائع ہوا ہو اس کو عربی زبان میں  باطل کہا جاتاہے ۔پس مسلّم اور بدیہی ہے کہ کلمہئ تحریف ،باطل کے مصادیق میں سے واضح ترین مصداق ہے۔

تیسرا طریقہ:اس آیت میں  اللہ نے ''لایاتیہ الباطل ''یعنی ہر قسم کے باطل کی گنجائش قرآن میں نہیں  ہے ۔اس کی علت کو ا س طرح ذکر کیا ہے کہ کیونکہ یہ کتاب ایسی ہستی کی طرف سے نازل ہوئی ہے جو حکیم اور حمید ہے یہ جملہ واضح کرتا ہے کہ ایسی کتاب جو کسی حکیم و حمید کی طرف سے آئی ہے اس میں  کسی قسم کی تحریف اور تبدیلی کا

آنا حکمت کی صفت کے ساتھ مناسب ہے ۔مرحوم حاجی نوری ( 2 ) نے فرمایا:

''اگرچہ قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی یا تغیر کا قائل ہونا باطل کے مصداق میں سے ایک مصداق ہے لیکن یہاں  آیت شریفہ میں  ہر باطل مراد نہیں  ہے بلکہ ایک خاص

..............................

1۔البیان ص211

2۔فصل الخطاب ص 361

۴۶

باطل مراد ہے جو قرآن میں ظاہری طور پر کچھ احکام اور اخبار میں  تناقض کی وجہ سے حاصل ہوجائے اللہ اس کی نفی کرنا چاہتاہے''۔

بعض محققین نے جناب محدث نوری کو یوں جواب دیا ہے :

''آیت شریفہ میں صرف احکام اور اخبارمیں تناقض کی نفی مراد لینا لفظ عزت کے ساتھ مناسب نہیں    ہے۔ ( 1 ) دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اس صفت کے ذکر کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کتاب ہر قسم کے باطل سے دور اور محفوظ ہے۔

اس جواب کی وضاحت اور تکمےل کی ضرورت ہے ۔ وہ ےہ ہے کہ اس آیت شرےفہ کا ظاہری معنیٰ جو ہر خاص و عام کے ذہن میں  آجاتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کتاب کو کسی قید اور محدودیت کے بغیر بطور مطلق ''کتاب عزیز'' فرمایا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آیت شریفہ میں  کلمہ باطل سے صرف تناقض احکام اور اخبار کا ارادہ کرنا صحیح نہیں    ہے کیونکہ اگر کتاب الٰہی صرف تناقض احکام کے حوالہ سے عزیز اور باطل سے مصون ہو تولفظ''عزیز'' کو کسی محدودیت کے بغیر کتاب کی صفت قرار دینا خلاف ظاہر ہے ۔

......................

1۔ البیان ص211

۴۷

اشکالات

لیکن آیت شریفہ پر کئے گئے اعتراضات میں سے اہم ترین اعتراض یہ ہے کہ آیت کے ذکر شدہ معنیٰ اس تفسیر کے مخالف ہیں    جو شیعہ اور سنی کے مفسرین میں سے عظیم ترین مفسرین نے کی ہیں  ۔یعنی اس آیت کی کسی بھی مفسر نے اس طرح تفسیر نہیں    کی ہے کہ جس سے نفی تحریف کا احتمال دیے سکیں  ۔مثال کے طور پر مرحوم شیخ طوسی(رح) نے تفسیر تبیان میں آیت شریفہ کی تفسیر میں پانچ احتمال دیے ہیں  :

الف:لایاتیہ الباطل سے مراد قرآن میں کسی قسم کے شبہہ اور تناقض کی گنجائش نہیں 

ہے بلکہ قرآن خالص حق ہے ۔

ب:قتادہ اور سدّی نے فرمایا ہے :اس آیت شریفہ میں  اللہ تبارک و تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ شیطان قرآن سے حق بات کو مٹانے اور کسی باطل کے اضافہ کرنے پر قادرنہیں    ہے ۔

ج:قرآن سے پہلے اور اس کے بعد اسے باطل کرنے والی کسی چیز کا نہ ہونا مراد ہے۔

د:حسن نے فرمایا :اس آیت سے قرآن کی ابتداء اور آخر میں کسی باطل کی گنجائش نہ ہونا مراد ہے ۔

ہ:قرآن نے گذشتہ اور آیندہ کے حوالے سے جو خبریں دی ہیں    اس میں باطل کی کوئی گنجائش نہیں  ہے ۔

جناب سید مرتضیٰ فرماتے ہیں    :اس آیت کے بارے میں بہترین تفسیر جو کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی کلام یا کوئی کتاب قرآن کی مانند اور مشابہ نہیں  ہو سکتی ہے ،قرآن وہ واحد کتاب ہے جو اپنے بعد کی کتب سے مشابہت نہیں  رکھتی اسی طرح اپنے سے پہلے والی کتب سے متصل بھی نہیں  یعنی قرآن کریم ہر حوالے سے بے مثال اور مستقل کلام ہے ،کسی بھی کلام کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بہتر اور برتر ہے ۔

۴۸

اس شبہے کا جواب یوں  دیا جا سکتا ہے ۔

پہلا جواب:مذکورہ تفاسیر اور معانی میں سے کچھ جیسے جناب قتادہ اور سدّی سے نقل کیا گیا ہے ،آیت کے ذریعہ قرآن سے تحریف کی نفی کرنے میں مناسب ہے۔

دوسرا جواب:اگر کسی بھی مفسر نے آیت میں کوئی ایسے معنیٰ کی طرف اشارہ نہ بھی کیا ہو جو نفی تحریف کے اثبات کے لئے مناسب ہو ،پھر بھی آیت کے ذریعہ نفی تحریف پر استدلال کرنا صحیح ہے کیونکہ کسی آیت اور کلام کی تفسیر کرنے کے اصول و ضوابط میں  سے ایک یہ ہے کہ کلام اور آیت کے ظاہری معنیٰ کو مدنظر رکھیں اور آیت کا ظاہر ی معنیٰ کسی شک کے بغیر ہمارے مطلب پر دلالت کرتا ہے اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ مفسرین نے مذکورہ معانی پر کوئی معتبر دلیل ذکر نہیں  کی تھی لہٰذا ان کا ہر نظریہ اور تفسیر قابل قبول نہیں    ہے لیکن اس وقت جب ان کی تفسیر پر معصوم سے منقول کوئی روایت ہو ۔

تیسرا جواب:وہ روایات جو لفظ باطل کی وضاحت اور تفسیر میں  آئی ہیں    وہ آیت شریفہ کو اسی میں  منحصر کرنے کے درپے نہیں  بلکہ آیت کریمہ کے مصادیق کو بیان کرتی ہیں    ۔

۴۹

تیرہواں مطلب

کیا تحریف کے قائل ہونے سے ظواہر کتاب کا حجیت سے ساقط ہونا لازم آتا ہے ؟

کیا تحریف کے قائل ہونے کے بعد ہم کتاب کے ظواہر سے استدلال نہیں  کر سکتے ہیں    ؟یہ سوال اس وقت صحیح ہے اگر تحریف کا دعویٰ کرنے والا علم اجمالی کی رو سے تحریف کا قائل ہو۔

بعضوں  نے کہا ہے کہ'' ایسے مفروضے کی صورت میں جس کسی آیت کی تحریف کا احتمال ہو اسے اہم عقلائی اصل سے وابستگی اختیار کرنی چاہیے جو ''عدم قرینہ '' ہے اور ظاہراً آیت سے استدلال کیا جائے دوسرے الفاظ میں تحریف شدہ کتاب کی حجیت کے لئے ہمیں  معصومین علیہم السلام کی تایید کی ضرورت نہیں  بلکہ ہم  اس عقلائی اصل کی روشنی میں ان کے ظواہر سے استدلال کرسکتے ہیں  ''۔ یہ بیان اور جواب اس صورت میں  صحیح ہے اگر عقلاء کسی کلام میں  قرینہ متصلہ یعنی متکلم کے کلام کےساتھ کوئی قرینہ ہونے کا احتمال دیں  پھر اصل عدم قرینہ سے تمسک اور استدلال کرنے کو صحیح سمجھے جبکہ عقلائی تحقیق کے مطابق جہاں  کہیں  کسی کلام میں  مخاطب اور سامع کوئی قرینہ منفصلہ '' یعنی متکلم کے کلام سے الگ کوئی قرینہ '' ہونے کا احتمال دے وہاں  قرینہ کی نفی کے لئے عقلاء عدم قرینہ سے تمسک کرنا صحیح سمجھتے ہیں    لیکن اگر کسی کلا م میں  قرینہ متصلہ ہونے کا احتمال ہو وہاں  اصل عدم قرینہ سے استدلال کر کے اس احتمال کی نفی کرنا صحیح نہیں    ہے اور مسئلہ تحریف پر علم اجمالی کے بعد احتمال کیا ہے کہ شاید کوئی قرینہ ہے جو تحریف کے نتیجہ میں  حذف کیاگیا ہے

۵۰

لہٰذا تحریف کے بارے میں  علم اجمالی کے مفروضے کی صورت میں  ظواہر کتاب سے تمسک کے لئے حضرات معصومین علیہم السلام کی تایید کے علاوہ اور کوئی چارہ نظر نہیں  آتا اور یہ مطلب حدیث ثقلین کے ظاہر کے خلاف ہے۔

چودہواں  مطلب

تحریف نہ ہونے پر حدیث ثقلین کی دلالت

تحریف کی نفی پر دلالت کرنے والی روایات میں سے اہم ترین روایت حدیث ثقلین ہے جو متواتر ہے ،یعنی اصحاب رسول ؐ میں سے 33 ہزار افراد نے جو عظیم شخصیت کے مالک تھے ،پیغمبر اسلام ؐ سے نقل کیا ہے ۔جیسے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، ابوذر ، عبداللہ بن عباس ،جناب عبداللہ بن عمر ، جناب حذیفہ ،جناب ابو ایوب انصاری ( 1 ) اور اہل سنت کے علماء میں  سے دو سو عظیم علماء نے اپنی کتابوں  میں تحریر کیاہے ۔اس حدیث کا متن اس کی اسناد میں سے ایک متن کے مطابق یوں  ہے: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ''انّی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی و فیه الهدی والنور فتمسکوا بکتاب الله و خذوا به و اهل بیتی ،اذکرکم الله فی اهل بیتی (ثلاث مرّات)''(٢) ''تحقیق میں تمہارے درمیان دوگراں  بہا چیزیں  چھوڑے جا رہا ہوں  ،ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت (اہلبیت)ہے ،اسی میں  ہدایت اور نور ہے ۔پس تم اللہ کی کتاب اور میرے اہلبیت سے تمسک رکھو ،میرے اہلبیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں  ''۔(یہ جملہ تین دفعہ فرمایا) اس حدیث سے قرآن کریم میں تحریف نہ ہونے پر دو طریقوں  سے استدلال کیا جا سکتا ہے ۔

........................

1۔آلاء الرحمن ص44

2۔سنن دارمی ج2ص431

۵۱

پہلا طریقہ

پہلا طریقہ چھ نکات پر مشتمل ہے :

الف:یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ ہم قیامت تک کتاب سے تمسک رکھ سکتے ہیں 

ب:اس کتاب میں  تحریف ہونے کا لازمہ یہ نہیں    ہے کہ ہم اس سے تمسک نہیں رکھ سکتے۔

ج:قرآن سے تمسک رکھنے کا مطلب اس کے تمام پہلوؤں  سے تمسک رکھنا ہے جن کا ذکر قرآن نے کیاہے اور تمسک کے خصوصی معنی جیسے کہ ''آیات احکام''نہیں    ہےں ۔دوسرے الفاظ میں قرآن صرف واجبات و محرمات بیان کرنے کے لئے نہیں    آیاہے بلکہ قرآن اس لئے آیا ہے کہ انسان کو ظلمت کی تاریکی سے نکال کر ہدایت اور نور کی طرف لے جائے ۔

د:تحریف کا مقصد یعنی حقائق کو چھپانا اور کتاب کے بعض انوار پر پردہ ڈالنا ہو تو ایسی تحریف پر مشتمل کتاب انسان کے تمام پہلوؤں سے نور اور ہادی نہیں  بن سکتی ۔جبکہ قرآن کریم کا ہدف یہ ہے کہ لوگوں  کو ہر ظلمت اور تاریکی سے نکال کر ہدایت اور نور کی طرف لے جائے تا کہ انسان مادی و معنوی امور میں  انسان کامل کے مرحلہ پر فائز ہو جائے ۔یہ مقصد اور ہدف ایسی ہی کتاب کے ساتھ تمسک سے حاصل ہوتا ہے ۔

ہ:قرآن کریم سے استدلال اور تمسک رکھنا بر خلاف تمسک عترت اسی صورت میں  ممکن ہے کہ ہم قرآن تک پہنچیں  وہ بھی وہی قرآن جو لوگو ں کے پاس موجود ہے نہ وہ قرآن جو اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے پاس محفوظ ہے ،دوسرے

انسانوں کی رسائی سے دور ہے ۔

۵۲

حدیث شریف سے استفادہ ہوتا ہے کہ کتاب سے تمسک رکھنا صرف یہ نہیں    کہ تمسک ممکن ہے بلکہ واجب ہے اور انشاء کے مقام پر جملہ خبریہ حکم تکلیفی کا حامل ہے علم اصول کے مباحث میں یہ واضح ہے کہ تکلیف شرعی میں  لازم ہے کہ مکلفین کی قدرت میں  ہو ۔اس لئے اگر قرآن تحریف کا شکار ہو چکا ہے تو اس سے تمسک نہیں    رکھ سکتے ۔

دوسرا طریقہ

اس حدیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ ان دوگراں بہا چیزوں  میں سے ہر ایک دوسری دلیل کے ساتھ مستقل دلیل اور حجت ہے یعنی کتاب الٰہی عترت اور اہلبیت سے قطع نظر مستقل طور پر واجب العمل اور حجت ہے ،نیز عترت بھی کتاب سے قطع نظرمستقل دلیل اور حجت ہے ۔البتہ اس کا مطلب یہ نہیں    ہے کہ ہر ایک اکیلا مطلوب کے حصول اور گمراہی و ظلمت سے نجات پانے کے لئے کافی ہو ،یعنی قرآن اہلبیت کے بغیر یا اہل بیت قرآن کے بغیر ہماری نجات کا ذریعہ بنے، بلکہ گمراہی اور ظلمت سے نکال کر ہدایت اور نور کی طرف لے جانے میں دونوں  کی ضرورت ہے ۔لہٰذا گر قرآن کی تحریف ہوئی ہوتو اس کے ظواہر واجب العمل اور حجت ہونے سے ساقط ہو جاتے ،اور جو لوگ تحریف کے معتقد ہیں    ان کے لئے کتاب کی طرف رجوع کرنے میں تصدیق معصومین اور تائید کی ضرورت ہے ۔جو حدیـث ثقلین کے ظاہر ی معنیٰ کے مخالف ہے ۔کیونکہ حدیث ثقلین کے ظاہری معنیٰ یہ ہیں    کہ کتاب و عترت میں سے ہر ایک مستقل یعنی ایک دوسرے سے ضمیمہ کئے بغیر واجب العمل اور حجت ہیں  ۔لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو چیز ثقل اکبر ہو اس کی حجیت اس چیز پر موقوف ہو جو ثقل اصغر ہے ۔پس ان دو طریقوں  سے درج ذیل نتائج روشن ہو جاتے ہیں    :

1۔قرآن سے تمسک اور استدلال کرنا نہ صرف ممکن ہے بلکہ اس سے تمسک کرنا ضروری ہے ۔

2۔قرآن کو ایک مستقل دلیل اور حجت کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے لہٰذا بدیہی ہے اگر کوئی تحریف کا قائل ہو تو اس کا یہ نظریہ مذکورہ مطلب سے میل نہیں    کھاتا ۔

۵۳

پندرہواں  مطلب

تلاوت کا مٹ جانا اور باطل قرار پانا

سنی علماء کی عبارات میں نسخ تلاوت او رانساء کی دو اصطلاحیں نظر آتی ہیں    اور جواز نسخ تلاوت کو بطور اجمال ذکر کر کے اس پر انہوں  ( 1 ) نے عقلی اور نقلی دلیل ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔اس کی طرف اشارہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم غور کریں کہ کیا یہ دو اصطلاح اور لفظ تحریف دو الگ الگ چیزیں  ہیں  یا ان دو اصطلاحوں کے قائل ہونے کا لازمہ تحریف ہے ؟احادیث اور روایات کی کتابوں میں کچھ ایسی احادیث پائی جاتی ہیں  جس کی توجیہ کے نتیجہ میں اہل تسنن کے بزرگ علماء نے ان میں  نسخ تلاوت کو قرار دیا ہے ،انہیں    روایات میں سے ایک وہ ہے جو مسئلہ رجم سے مربوط ہے ۔چنانچہ ابن عباس نے عمر سے روایت کی ہے کہ عمر نے کہا :پیغمبر اکرم (ص) پر نازل شدہ آیات میں سے ایک آیت رجم ہے ،''الشیخ و الشیخۃ اذا زنیا فارجموھما...'' اگر کوئی عمر رسیدہ مرد اور عورت آپس میں زنا کریں تو ان کو سنگسار کریں اور پیغمبر اکرم (ص)نے اپنے دور میں  اس پر عمل کیا ہے،ان کے بعد ہم بھی

اس پر عمل کرتے رہیں    ہیں  ۔ ( 2 )

.........................

1۔الاحکام فی اصول الاحکام جزء سوم ص154

2۔مسند احمد ابن حنبل 1/47

۵۴

زید بن ثابت فرماتے ہیں  :میں نے پیغمبر اکرم (ص) سے سنا کہ ''اگر کوئی شادی شدہ مرد یا عورت زنا کرے تو ان کو سنگسار کرنا چاہیئے ۔اس بحث میں  غور کی بات یہ ہے کہ زید بن ثابت نے نہیں    کہا پیغمبر کا یہ کلام وحی اور آیات قرآنی میں  سے ایک ہے لیکن عمر نے خیال کیا کہ یہ وحی منزل اور آیات قرآنی میں سے ایک ہے جبکہ عمرنے پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا کیا اس کو کتاب میں لکھوں ،تو پیغمبر اکرم (ص) نے کوئی جواب نہیں    دیا ( 1 )

اہل تسنن بھی ان کی اتباع کرتے ہوئے خیال کرنے لگے کہ پیغمبر اکرم (ص) کا یہ کلام اور حکم قرآن کی ایک آیت تھی لیکن اس کی تلاوت اور قرائت نسخ اور ختم ہو چکی ہے ،اگرچہ اس کا حکم اب بھی باقی ہے ۔

اس نظریے پر کئی اہم اعتراضات ہوئے ہیں  جو یوں  ہیں  :

1۔پہلا اعتراض یہ ہے کہ نسخ جس طرح کا ہو وہ ناسخ کے بغیر نہیں  ہو سکتا ،لیکن یہاں  کوئی ناسخ نظر نہیں  آتا ۔

2۔دوسرا اعتراض یہ ہے کہ بحث نسخ میں یہ ثابت ہے کہ نسخ صرف احکام شرعی کے حدود میں  واقع ہوا ہے لیکن تلاوت کا عنوان شرعی احکام سے مربوط نہیں    اگرچہ اس اعتراض کا جواب اہل سنت کے علماء میں سے بعض نے اس طرح دیا ہے ( 2 )

...............................

1۔محلی ابن حزم ج1ص235

2۔الاحکام آمدی 3/155

۵۵

کہ تلاوت قرآن سے اس کا وجود خارجی مراد نہیں    ہے بلکہ تلاوت قرآن کا جواز

مراد ہے جو احکام شرعیہ میں سے ایک ہے ۔

3۔تیسرا عتراض یہ ہے کہ اس جیسے نسخ کا کیا فائدہ ؟یعنی یوں کہا جائے کہ آیت کی تلاوت نسخ ہو چکی ہے لیکن اس کا اصل حکم باقی رہے جو اس آیت کا مدلول ہے باقی رہے ۔

4۔چوتھا اعتراض :اہم ترین اعتراض ہے جسے مرحوم محقق خوئی نے کہا ہے انہوں  نے فرمایا کہ اگر نسخ تلاوت کی یہ صورت حضور اکرم (ص) کے زمانے میں آپ کے حکم سے واقع ہوئی ہے چاہے اس کا لازمہ تحریف نہ بھی ہو ،لیکن ایسی روایتیں  جو مطلب پر دلالت کرتی ہیں  یا اس نظریے پر محمول ہو خبر واحد کی حیثیت سے ہیں  اس لئے اعتماد کے لئے کافی نہیں  اس پر اضافہ یہ کہنا کہ اس قسم کا نسخ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے کے بعد واقع ہواہے اور اگر اس قسم کا نسخ حضور اکرم (ص) کے زمانے کے بعد علماء اور حکمرانوں  کے ذریعے واقع ہوا ہے تو یہ قول عین تحریف کو قبول کرنا ہے ۔ ( 1 ) لیکن جو کچھ مسئلہ رجم کے متعلق بیان ہوا ہے اس کا بطلان بہت واضح ہے کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے قرآن کریم کے آیات کو تحریر کرنے میں بڑی باریکی کے ساتھ نگرانی فرمائی

ہے اور بڑے اہتمام کے ساتھ کاتبوں کو اس امر پر مامور فرمایا تھا اس صورت

.............................

1۔البیان ص 206

۵۶

میں  کہ آیت رجم اگر آیات قرآن میں سے ہوئی تو آپ نے اسے قرآن میں لکھنے کا حکم کیوں نہیں  دیا اور عمر کے سوال کا جواب کیوں  نہیں    دیا ۔

لہٰذا نسخ تلاوت ایک ایسا مطلب ہے جس کا باطل ہونا بدیہی طور پر واضح ہے یہاں تک کہ بعض اہلسنت ( 1 ) کے معاصرین نے کہا ہے کہ عقلاً تو ایسا ہونا جائز ہے مگر اللہ کی کتاب میں ایسا کوئی نسخ واقع نہیں  ہوا ہے ۔ابن حزم اندلسی نے پہلے نسخ تلاوت کو قبول کرنے کے بعد اپنے کلام کے آخر میں ایسی توجیہ کی جیسے نسخ

تلاوت وحی الٰہی سے مربوط ہی نہیں  ہے۔

.........................

1۔فتح المنان فی نسخ القرآن ص224

۵۷

سولہواں  مطلب

شیعہ امامیہ تحریف قرآن کے قائل نہیں  ہوسکتے

شیعہ امامیہ نہ صرف تحریف قرآن کے معتقد نہیں  ہیں  بلکہ اصولاً ایسے عقیدے اور نظریے کے قائل نہیں  ہو سکتے ۔کیونکہ شیعہ امامیہ کے اصول اور اعتقادی مسائل کو تشکیل دینے والی اہم ترین دلیلوں  میں سے ایک آیت تطہیر ہے:

''انما یرید الله لیذهب عنکم الرّجس اهل البیت و یطهّر کم تطهیراً'' ( 1 )

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت ! کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے ،اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''۔

اعتقادی مسائل سے مربوط کتابوں میں ثابت کیا گیا ہے کہ یہ آیت شریفہ اہلبیت علیہم السلام کی عصمت پر واضح ترین دلیل ہے اور وہ بھی ایسی عصمت جو مسلمانوں کے پیشوا اور خلیفہ ئوقت کے منصب پر فائز ہونے کے لئے ضروری ہے ،یعنی اس عصمت کو بیان کرنے والی آیات میں سے واضح اور روشن

آیت ،آیت تطہیر ہے ۔لہٰذا جو لوگ قرآن میں تحریف کے قائل ہیں  وہ اس آیت سے عصمت پر استدلال نہیں  کر سکتے ،یعنی جب ہم قرآن کو ایک منظم کتاب سمجھیں

...........................

1۔احزاب/33

۵۸

کہ جس کا آغاز سورہ مبارکہ حمد اور اختتام سورہ والنّاس ہے ،جس کی تدوین اور جمع آوری خود پیغمبر اکرم (ص) کے زما نہ میں مکمل ہوئی تھی آنحضرت ؐ کے بعد کسی قسم کی کمی بیشی نہیں  ہوئی اور اس کی ہر آیت کو اپنی مخصوص مناسبت کے ساتھ اس طرح رکھا گیا ہے اگر کوئی ایک آیت کو اس کی مخصوص جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرے تو اس کا الٰہی مقصد حاصل نہیں  ہوتا ۔کیونکہ اس آیت کو اس مخصوص جگہ میں ترتیب دینے کا ہدف مقصد یہ ہے کہ اللہ پیغمبر اکرم (ص) کی ازواج کی ذمے داریوں  کو بیان کرتے وقت اہلِ بیت (ع) عصمت کی چند خاص ذمے داریوں کو بیان کرے اگر اس جیسی آیات میں

تحریف کا احتمال دیا جائے تو شیعہ امامیہ کے اعتقادات کے لئے کوئی پناہ باقی نہیں رہے گی ۔ ( 1 )

......................

1۔مزید توضیح کے لیے رجوع کریں کتاب'' اہل البیت یا چہرہ ہای درخشان''

۵۹

سترہواں مطلب

تحریف کی روایات کا اجمالی جائزہ

تحریف کے قائلین کے پاس اہم ترین دلیل وہ روایات ہیں    جو سنی اور شیعہ کتابوں  میں  ذکر ہوئی ہیں  ،ان روایات کی تعداد بعض محققین نے ایک ہزار ایک سو بائیس ( 1122 ) بتائی ہے ،بعض بزرگ علماء نے ان روایات کے تواتر اجمالی کو قبول کر لیا ہے اگرچہ مذکورہ روایات میں سے اکثر کی سند ضعیف ہے لیکن اس کثرت سے وارد ہوئی ہیں    کہ جن میں سے بعض کا معصوم علیہ السلام سے صادر ہونے پر ہمیں  یقین حاصل ہو جاتا ہے ۔لہٰذا ان تمام کے جھوٹ ہونے کا احتمال نہیں  ہے اس لئے جو لو گ تحریف کے قائل ہیں  وہ ان روایات سے تحریف قرآن پر استدلال کرتے ہیں    ۔

لیکن ہمارے علماء میں  سے بعض نے ان روایات پر دو اعتراضات کر کے جواب دیا ہے ۔

پہلا طریقہ :جن کتابوں میں ان روایات کو جمع کیا ہے وہ معتبر نہیں  ہیں  ۔

دوسرا طریقہ :ان روایات کے مضمون قابل اعتراض ہیں  ان دونوں  جہتوں کی

وضاحت اور تفصیل کی ضرورت ہے ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

۶۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۹،صفحہ۱۵۵۔

۷۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۳۳۱،صفحہ۲۹۰۔

۸۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، باب۵۹،صفحہ۳۳۷،حدیث۵۔

۹۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء میں،صفحہ۱۶۹۔

۱۰۔ بخاری اپنی کتاب میں، باب شرح حال ابی ربیعہ ایادی، شمارہ۲۷۱،صفحہ۳۱۔

پچیسویں روایت

علی حق کے ساتھ ہیں اورحق علی کے ساتھ ہے

عَنْ اَبِی ثٰابِتٍ مَولٰی اَبِی ذَر قٰالَ دَخَلْتُ عَلٰی اُمِّ سَلَمَة فَرَأیتُهَا تَبْکِی وَتذکُرُ عَلِیّاً وَقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یَقُوْلُ:عَلِیٌّ مَعَ الْحَقِّ وَالْحَقُّ مَعَ عَلِیٍّ وَلَنْ یَفْتَرِقٰا حَتّٰی یَرِدٰا عَلَیَّ الْحَوْضَ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ ۔

ترجمہ

”ابو ثابت غلام حضرت ابوذر روایت کرتے ہیں کہ میں نے اُم سلمہ کو روتے ہوئے پایا ،وہ حضرت علی علیہ السلام کویاد کررہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا کہ انہوں نے فرمایا:’علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ، یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ دونوں کنار حوض کوثر میرے پاس آپہنچیں گے‘ ۔“

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، صفحہ۲۴۴۔

۲۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ، ج۳،ص۱۱۹،حدیث۱۱۶۲(شرح محمودی)۔

۳۔ حاکم، المستدرک میں،حدیث۶۱،جلد۳،صفحہ۱۲۴(باب مناقب علی علیہ السلام)۔

۱۰۱

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، باب۲۰،صفحہ۱۰۴۔

۵۔ خطیب، تاریخ بغداد ،ترجمہ یوسف بن محمد المودب،ج۱۴،ص۳۲۱،شمارہ۷۶۴۳۔

۶۔ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۲۱(آخر باب فضائل علی علیہ السلام)۔

۷۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۹،صفحہ۱۳۵۔

۸۔ خوارزمی، کتاب مناقب میں، صفحہ۲۲۳۔

۹۔ ترمذی اپنی کتاب سنن میں، حدیث۳،جلد۱۳،صفحہ۱۶۶(باب مناقب علی )۔

۱۰۔ متقی ہندی، کنز العمال ،ج۱۱،ص۶۲۱،۶۲۳(موسسة الرسالة،بیروت، پنجم)۔

چھبیسویں روایت

علی قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ساتھ ہے

عَنْ اُمِّ سَلَمَةِ قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یَقُوْلُ:عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ مَعَ الْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ مَعَه،لَا یَفْتَرِقٰانِ حَتّٰی یَرِدٰاعَلَیَّ الْحَوْضَ

ترجمہ

”جناب اُم سلمہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ علی قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں باہم جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ کنار حوض کوثر یہ دونوں مجھ تک آپہنچیں گے“۔

۱۰۲

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۲۴۔

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ، کتاب ینابیع المودة میں، باب۲۰،صفحہ۱۰۳۔

۳۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں،جلد۹،صفحہ۱۳۴۔

۴۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء میں، صفحہ۱۷۳(باب فضائل علی علیہ السلام میں)۔

۵۔ متقی ہندی، کنزالعمال ،جلد۱۱،صفحہ۶۰۳۲(موسسة الرسالہ،بیروت،پنجم)

ستائیسویں روایت

پیغمبر اکرم کے بعد علی کی اتباع اور پیروی کرنا لازم ہے

عَنْ اَبِی لَیْلٰی الْغَفٰارِی، قٰالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَقُوْلُ:

سَتَکُوْنُ مِنْ بَعْدِی فِتْنَةٌ فَاِذٰاکَانَ ذٰالِکَ فَاَلْزِمُوْا عَلِیَّ ابْنَ ابِی طَالِبْ فَاِنَّه اَوَّلُ مَنْ یَرٰانِیْ وَاَوَّلُ مَنْ یُصٰافِحُنِی یَوْمَ الْقِیٰامَةِ،وَهُوَ مَعِی فِی السَّمٰاءِ الْاَ عْلٰی وَهُوَ الْفٰارُوْقُ مِنَ الْحَقَّ وَالْبَاطِلِ

ترجمہ

”ابولیلیٰ غفاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

’میری زندگی کے بعد فتنہ پیدا ہوگا، ان حالات میں لازم ہے کہ تم پیرو علی ابن ابی طالب علیہما السلام رہو کیونکہ حقیقت میں قیامت کے دن سب سے پہلے وہی مجھے دیکھیں گے اور سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں گے اور وہی اعلیٰ آسمانوں میں میرے ساتھ ہوں گے اور وہی ہیں جو حق اور باطل کو جداکرنے والے ہیں‘۔“

۱۰۳

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ،ج۳،ص۱۲۳،حدیث۱۱۶۴،شرح محمودی۔

۲۔ ذہبی، میزان الاعتدال ،جلد۲،صفحہ۳،(صرف الدال)۲۵۸۷اورجلد۱،ص۱۸۸،شمارہ۷۴۰۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، صفحہ۹۳،۱۵۲،باب۴۳۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں،باب۴۴،صفحہ۱۸۸۔

۵۔ طبرانی،مسند ابی رافع ابراہیم میں معجم الکبیر سے، جلد۱،صفحہ۵۱۔

۶۔ متقی ہندی کنزالعمال ،جلد۱۱،صفحہ۶۱۲(موسسة الرسالہ، بیروت، اشاعت پنجم)

فضائل امام علی علیہ السلام احادیث کی نظر میں۔۲

اٹھائیسویں روایت

علی قرآن کے حقیقی حامی اور دفاع کرنے والے ہیں

عَنْ اَبِیْ سَعِیْدَ الْخَدْرِی قٰالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یَقُوْلُ:اِنَّ مِنْکُمْ مَنْ یُقَاتِلُ عَلٰی تَاوِیْلِ الْقُرْآنِ کَمَاقَا تَلْتُ عَلٰی تَنْزِیْلِهقَالَ اَبُوبَکر:اَنَا هُوَ یَارَسُوْلَ اللّٰهِ؟قَالَ: لَاقٰالَ عُمَرُ:فَاِنَّا هُوَ یَارَسُوْلَ اللّٰه؟قٰالَ:لَا وَلٰکِنْ خٰاصِفُ النَّعْلِ قٰالَ(ابوسعید)وَکَان قَدْ اَعْطِیْ عَلِیّاً نَعْلُه یَخْصِفُهَا ۔

ترجمہ

”ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ میں نے پیغمبر اکرم سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

’بے شک تم میں وہ کون ہے جو قرآن کی تاویل(حکم باطن) پر جنگ کرے گا جس طرح میں نے قرآن کی تنزیل(حکم ظاہر) پر (مشرکین سے) جنگ کی تھی۔حضرت ابوبکر نے کہا:’یا رسول اللہ! کیا وہ شخص میں ہوں؟‘پیغمبر اسلام نے فرمایا:’نہیں‘۔حضرت عمر نے کہا:’یا رسول اللہ! کیا وہ شخص میں ہوں؟‘پیغمبر اکرم نے فرمایا:’نہیں، لیکن وہ شخص وہ ہے جو جُوتا مرمت کررہا ہے‘۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ یہ واقعہ اُس وقت ہوا جب پیغمبر اسلام نے اپنا جوتا حضرت علی علیہ السلام کو دیا تھا کہ وہ اُس کی مرمت کردیں“۔

۱۰۴

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۶۱(باب فضائل علی ،آخری حصہ)۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ، ج۳،ص۱۳۰،حدیث۱۱۷۱(شرح محمودی)۔

۳۔ حاکم، المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۲۲،حدیث۵۳(باب فضائل علی علیہ السلام)۔

۴۔ ابن مغازلی، مناقب میں، صفحہ۲۹۸،حدیث۳۴۱،اشاعت اوّل۔

۵۔ ہیثمی، مجمع الزوائد میں، جلد۵،صفحہ۱۸۶اور جلد۶،صفحہ۲۴۴اورجلد۹،صفحہ۱۳۳۔

۶۔ ابن ابی الحدید، نہج البلاغہ میں، باب شرح المختار ،جلد۳،صفحہ۲۰۶۔

۷۔ سیوطی، تاریخ الخلفاء میں، صفحہ۱۷۳۔

۸۔ حافظ ابونعیم، حلیة الاولیاء ، جلد۱،صفحہ۶۷(باب شرح حال امیرالمومنین علی میں)۔

۹۔ خطیب، تاریخ بغداد میں، جلد۱،صفحہ۱۳۴(باب شرح حال امیرالمومنین )شمارہ۱۔

۱۰۔ گنجی شافعی، کفایة الطالب ، باب۹۴،صفحہ۳۳۳اور دوسری اشاعت میں صفحہ۱۹۱۔

۱۱۔ٍ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، صفحہ۲۴۷اور باب۱۱،صفحہ۶۷۔

اُنتیسویں روایت

علی کو ناکثین،قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا

عَنْ عَلِیٍّ قٰالَ: أَمَرَنِی رَسُوْلُ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم بِقِتَالِ النَّاکِثِیْنَ وَالْمٰارِقِیْنَ وَالقٰاسِطِیْنَ ۔

ترجمہ

”حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ناکثین، مارقین اور قاسطین کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے“۔

۱۰۵

ناکثین: بیعت توڑنے والوں یعنی طلحہ و زبیر وغیرہ (اصحاب جنگ جمل مراد ہیں)۔

مارقین: جنگ نہروان کے خوارج۔

قاسطین: جنگ صفین میں لشکر معاویہ۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۷،صفحہ۲۳۸اورجلد۵،صفحہ۱۸۶۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، باب حال امیر المومنین علی علیہ السلام،جلد۳،ص۱۵۸،

حدیث۱۱۹۵اور اُس کے بعد(شرح محمودی)۔

۳۔ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۰۵،۳۶۲۔

۴۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ کتاب استیعاب میں،جلد۳،صفحہ۱۱۱۷،روایت۱۸۵۵۔

۵۔ خطیب، تاریخ بغداد میں، جلد۸،صفحہ۳۴۰،شمارہ۴۴۴۷۔

۶۔ ذہبی، میزان الاعتدال میں، ج۱،ص۲۷۱،شمارہ۱۰۱۴اور ص۴۱۰،شمارہ۱۵۰۵

۷۔ حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۳۹،حدیث۱۰۷(شرح حال امیرالمومنین )۔

۸۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۴۳،صفحہ۱۵۲۔

۹۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۳۷،صفحہ۱۶۷۔

۱۰۔ ابن ابی الحدید،نہج البلاغہ میں، شرح المختار(۴۸)جلد۳،صفحہ۲۰۷اور دوسرے۔

۱۰۶

تیسویں روایت

نسل پیغمبر اکرم صُلب علی سے ہے

عَنْ جَابِر قٰالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ جَعَلَ ذُرِیَّةَ کُلِّ نَبِیٍ فِی صُلْبِهِ وَاِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ جَعَلَ ذُرِیَّتِی فِیْ صُلْبِ عَلِیِ بْنِ ابی طالب علیه السلام ۔

”جناب ابن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کی نسل کو اُس کے صلب میں رکھا اور بے شک میری نسل کوحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے صلب میں رکھا‘۔“

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں ،باب۶۲،صفحہ۷۹اور۳۷۹۔

۲۔ ابن عساکر ،تاریخ دمشق ، باب حال علی ،ج۲،ص۱۵۹،حدیث۶۴۳،شرح محمودی۔

۳۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں،جلد۹،صفحہ۱۷۲۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی ، ینابیع المودة ، باب مناقب السبعون،ص۲۷۷،حدیث۲۰،صفحہ۳۰۰۔

۵۔ ابن مغازلی، مناقب میں، صفحہ۴۹۔

۶۔ متقی ہندی، کنزالعمال ، ج۱۱،صفحہ۶۰۰،موسسة الرسالہ، بیروت، اشاعت پنجم۔

۱۰۷

اکتیسویں روایت

پیغمبر اکرم ،علی و فاطمہ حسن و حسین کے دشمنوں کے دشمن اور ان کے دوستوں کے دوست ہیں

عَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمَ،قٰالَ : قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ لِعَلِیٍ وفاطِمَةَ وَبِالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ: اَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَکُمْ وَسِلْمٌ لِمَنْ سٰالَمَکُمْ

ترجمہ

”زید بن ارقم کہتے ہیں کہ رسول خدانے حضرت علی علیہ السلام ،جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا،امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے فرمایا:’میری اُس سے جنگ ہے جو تم سے جنگ پر ہے اور میری اُس سے صلح ہے جو تم سے صلح پر ہے‘۔“

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں،(دوسرا حصہ) صفحة۴۴۴۔

۲۔ حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۴۹۔

۳۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں،جلد۹،صفحہ۱۶۹۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، صفحہ۳۲۹،باب۹۳۔

۵۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں،جلد۱،صفحہ۱۷۵،۱۷۶درشمارہ۷۱۲۔

۶۔ ابن ماجہ قزوینی اپنی کتاب میں،جلد۱،صفحہ۵۲،حدیث۱۴۵۔

۷۔ متقی ہندی، کنزالعمال ،ج۱۲،صفحہ۹۷(موسسة الرسالہ،بیروت،اشاعت پنجم)۔

۱۰۸

بتیسویں روایت

علی سے دُوری پیغمبر اکرم سے دُوری ہے

عَنْ اَبِیْ ذَرْ قٰالَ: قٰالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یٰاعَلِیُّ مَنْ فٰارَقَنِی فَقَدْ فٰارَقَ اللّٰهَ وَمَنْ فٰارَقَکَ یٰاعَلِیُّ فَقَدْ فٰارَقَنِی ۔

ترجمہ

”حضرت ابوذرغفاری کہتے ہیں کہ رسول خدانے فرمایا:’یا علی ! جو کوئی مجھ سے جدا ہوا، وہ خدا سے جدا ہوا اور جو تم سے جدا ہوا، وہ بالتحقیق مجھ سے جدا ہوا‘۔“

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۲۴،۱۲۶۔

۲۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں،جلد۲،صفحہ۴۹،روایت۲۷۷۹۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة ،صفحہ۳۶۴(باب آیات قرآن جو علی کی شان

میں نازل ہوئیں)۔

۴۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،باب شرح حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۲۶۸،حدیث۷۸۹۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۴۴،صفحہ۱۸۹۔

۶۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال،جلد۱۱،صفحہ

۱۰۹

تینتیسویں روایت

محبان علی سعید و کامیاب ہیں اوردشمنان علی پر خدا کا غضب ہے

عَنْ اَبِیْ مَرْیَمَ الثَّقَفِیْ،سَمِعْتُ عَمَّارِ بْنِ یٰاسِر،سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یَقُوْلُ لِعَلِیٍّ: یاعَلِیُّ طُوْبٰی لِمَنْ اَحَبَّکَ وَصَدَّقَ فِیْکَ وَوَیْلٌ لِمَنْ اَبْغَضَکَ وَکَذَّبَ فِیْکَ ۔

ترجمہ

”ابی مریم ثقفی سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عمار بن یاسر سے سنا،عمار بن یاسر کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ رسول اللہ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:’یا علی !سعادت مند ہے وہ شخص جس نے تم سے محبت کی اور تمہاری تصدیق کی اور حیف ہے اُس شخص پر جس نے تم سے بغض رکھا اور تمہاری نفی کی‘۔“

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۳۵۔

۲۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد۷،صفحہ۳۵۶۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،صفحہ۲۵۲۔

۴۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد۳،صفحہ۱۱۸۔

۵۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں،باب حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۲۱۱،حدیث۷۰۵۔

۶۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں،صفحہ۱۹۲،باب۴۶۔

۷۔ متقی ہندی، کنزالعمال ، ج۱۱،ص۶۲۳(موسسة الرسالہ، بیروت،اشاعت پنجم)

۱۱۰

چونتیسویں روایت

علی دنیا و آخرت میں رسول خداکے بھائی ہیں

عَنْ اِبْنِ عمراَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم قٰالَ لِعَلیٍ:اَنْتَ أَخِیْ فِی الدُّ نْیَاوَالْآخِرَة ۔

ترجمہ روایت

”ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ یا علی ! تم اس دنیا میں اور آخرت میں بھی میرے بھائی ہو“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ذہبی،کتاب میزان الاعتدال میں،جلد۱،صفحہ۴۲۱،شمارہ۱۵۵۲۔

۲۔ سیوطی، تاریخ الخلفاء میں،صفحہ۱۷۰۔

۳۔ ابی عمر یوسف بن عبداللہ ،’استیعاب ‘،ج۳،ص۱۰۹۹،روایت۱۸۵۵کے تسلسل میں

۴۔ ابن کثیر کتاب البدایة والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۳۶،باب فضائل علی علیہ السلام۔

۵۔ متقی ہندی،کنزالعمال ،ج۱۱،ص۵۹۸(موسسة الرسالہ،بیروت،اشاعت پنجم)

پینتیسویں روایت

علی محبوب خدا ورسول ہیں اورمشکلوں کا حل اُن کے پاس ہے

عَنِ النَّبِی صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم قٰالَ یَوْمَ الْخَیْبَرِ:

لَاُعْطِیَنَّ الرّٰایَةَ غَدًارَجُلاً یُحِبُّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ وَیُحِبُّهُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ لَیْسَ بِفَرّٰارٍ،یَفْتَحُ اللّٰهُ عَلٰی یَدَیْهِ(فَبَعَثَ اِلٰی عَلِیٍ فَاَعطٰاهُ الرّٰایةَ)

ترجمہ

”پیغمبر اکرم نے خیبر کے روز فرمایا کہ کل میں عَلَم اُس کو دوں گا جو خدا اور رسول کو دوست رکھتاہوگا اور خداورسول بھی اُسے دوست رکھتے ہوں گے۔وہ(میدان جنگ سے) بھاگنے والا نہیں ہوگا اور خدا اُس کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائے گا(اگلے روز علی علیہ السلام کو پرچم عطافرمایا)“۔

۱۱۱

بہت سی روایات جو اس ضمن میں موجود ہیں، اُن سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اُس دن(روز فتح خیبر) شروع میں دوسرے سردار اس قلعہ کو فتح کرنے کیلئے گئے لیکن کامیاب نہ ہوسکے ۔پس رسول خدا نے علی علیہ السلام کو اس کام کیلئے منتخب فرمایا۔ علی علیہ السلام کے جانے پر اور درخیبر کے اکھاڑنے پر یقینی فتح نصیب ہوئی۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابی عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب میں،جلد۳،صفحہ۱۰۹۹،روایت۱۸۵۵۔

۲۔ حافظ ابی نعیم،حلیة الاولیاء میں،جلد۱،صفحہ۶۲۔

۳۔ ابن کثیر ،کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۳۷۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۱۴،صفحہ۹۸میں۔

۵۔ سیوطی، تاریخ الخلفاء میں،صفحہ۱۶۸۔

۶۔ بلاذری، کتاب انساب الاشراف میں،جلد۱،صفحہ۹۴،حدیث۱۲۔

۷۔ بخاری ،صحیح بخاری میں،جلد۵،صفحہ۷۹،حدیث۲۲۰،باب فضائل اصحاب النبی۔

۸۔ ابن ماجہ اپنی کتاب میں، جلد۱،صفحہ۴۳،حدیث۱۱۷۔

۹۔ متقی ہندی، کنزالعمال ،ج۱۳،ص۱۲۱(موسسة الرسالہ،بیروت،اشاعت پنجم)

۱۱۲

چھتیسویں روایت

علی ہادی و مہدی ہیں اوراُن کا راستہ ہی صراط مستقیم ہے

عَنْ حذیفة،قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اِنْ وَلُّواعَلِیاً فَهٰادِیَاً مَهْدِیَاً(وَجَاءَ فِی روایةٍ اُخْریٰ اِنَّه قٰال صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم)اِنْ تُوَلُّوْاعَلِیاً وَجَدْ تُمُوْهُ هٰادِیاً مَهْدِیاً یَسْلُکُ بِکُمْ عَلَی الطَّرِیْقِ الْمُسْتَقِیْمِ ۔

”حذیفہ روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم نے ولایت اور سرداری علی ابن ابی طالب علیہما السلام کو قبول کیا(تو جان لو) کہ علی ہدایت کرنے والے ہیں اور خود ہدایت یافتہ ہیں اور دوسری روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اگر تم ولایت علی کو قبول کرو تو تم اُس کو ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ پاؤ گے اور وہ تمہیں صراط مستقیم پر چلانے والاہے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ، استیعاب ،ج۳،ص۱۱۱۴،روایت۱۸۵۵کا تسلسل۔

۲۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ،جلد۳،صفحہ۶۸،حدیث۱۱۱۰۔

۳۔ حافظ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء میں،جلد۱،صفحہ۶۴۔

۴۔ ابن کثیر،کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۶۱(آخر باب فضائل علی )۔

۵ ۔ بلاذری، انساب الاشراف،ج۲،صفحہ۱۰۲،حدیث۳۴(اشاعت اوّل،بیروت)۔

۶۔ خطیب، تاریخ بغداد، باب شرح حال ابی الصلت الھروی،ج۱۱،ص۴۷،

شمارہ۵۷۲۸۔

۷۔ حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۴۲،باب فضائل علی علیہ السلام۔

۸۔ متقی ہندی، کنزالعمال ،ج۱۱،ص۶۱۲(موسسة الرسالہ، بیروت،اشاعت پنجم)

۱۱۳

سینتیسویں روایت

پیغمبراکرم کا علی و فاطمہ کے گھر پر آیہ تطہیر کا پڑھنا

عَنْ اَبِی الْحَمْرَاء قٰالَ أَ قَمْتُ بِالْمَدِ یْنَةِ سَبْعَةَ اَشْهُرٍ کَیَوْمٍ وَاحِدٍ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یَجِی کُلَّ غَدَاةٍ فَیَقُوْمُ عَلٰی بٰابِ فٰاطِمَةَ یَقُولُ:اَلصَّلَاة ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْراً ۔(احزاب:۳۳)

”ابی الحمراء سے روایت کی گئی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں سات ماہ تک متواتر مدینہ میں قیام پذیر رہا(اور اس چیز کا مشاہدہ کرتا رہا)۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرروز صبح تشریف لاتے اور خانہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا پر رُکتے اور فرماتے”الصَّلاة“اور پھر فرماتے:’اے اہل بیت ! سوائے اس کے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تم کو ایسا پاک کردے جیسا کہ پاک کرنے کا حق ہے‘۔“

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر ،تاریخ دمشق ،باب شرح حال امیر المومنین ،ج۱،حدیث۳۲۰تا۳۲۲۔

۲۔ بلاذری،انساب الاشراف ،ج۲،ص۱۵۷،۲۱۵اور اشاعت بیروت،صفحہ۱۰۴۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۶۲،صفحہ۲۴۲۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، باب۵،صفحہ۵۱۔

۵۔ حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۵۸۔

۶۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں،جلد۳،صفحہ۴۸۳،آیہ تطہیر کے ذیل میں۔

۷۔ متقی ہندی، کنز العمال ،ج۱۳،ص۶۴۶(موسسة الرسالہ،بیروت،اشاعت پنجم)

۱۱۴

اڑہتیسویں روایت

جس نے علی کو تکلیف پہنچائی اُس نے گویا پیغمبر کو تکلیف پہنچائی

عَنْ عَمْروبْنِ شٰاسٍ اَنَّه سَمِعَ النَّبِیَّ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یَقُوْلُ: مَنْ آذیٰ عَلِیّاً فَقَدْ آذانِیْ ۔

ترجمہ

”عمروبن شاس روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ جس کسی نے علی کو اذیت پہنچائی، اُس نے گویا مجھے اذیت پہنچائی“۔

نوٹ یہی روایت کتاب استیعاب میں بہتر طور پراور تفصیل سے بیان کی گئی ہے یعنی پیغمبر اسلام نے فرمایا:

مَنْ اَحَبَّ عَلِیّاً فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَبْغَضَ عَلِیّاً فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ وَمَنْ آذیٰ عَلِیّاً فَقَدْ آذَانِیْ وَمَنْ آذَانِیْ فَقَدْ آذَی اللّٰه ۔

ترجمہ

”جس کسی نے علی علیہ السلام سے محبت کی، اُس نے گویا مجھ سے محبت کی اور جس کسی نے علی علیہ السلام سے بغض رکھا، اُس نے گویا مجھ سے بغض رکھا اور جس کسی نے علی کو اذیت پہنچائی،اُس نے گویا مجھے اذیت پہنچائی اور جس کسی نے مجھے اذیت پہنچائی، اُس نے گویا اللہ تعالیٰ کو اذیت پہنچائی“۔

۱۱۵

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق، باب شرح حال امام علی ،جلد۱،صفحہ۳۸۸،حدیث۴۹۵

(شرح محمودی)۔

۲۔ حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۲۲۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی،ینابیع المودة،باب مناقب سبعون،صفحہ۲۷۵،حدیث۹۔

۴۔ احمد بن حنبل،المسند،حدیث بعنوان”حدیث عمروبن شاس الاسلمی“،جلد۳،صفحہ

۴۸۳،اشاعت اوّل۔

۵۔ ابی عمر یوسف بن عبداللہ ،استیعاب ،ج۳،ص۱۱۰۱،روایت۱۸۵۵اور صفحہ۱۱۸۳

۶۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں،باب۶۸،صفحہ۲۷۶۔

۷ بلاذری، انساب الاشراف ، حدیث۱۴۷،ج۲،ص۱۴۶،اشاعت بیروت،اوّل۔

۸۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء میں،صفحہ۱۷۲۔

۹۔ متقی ہندی،کنزالعمال ، ج۱۱،صفحہ۶۰۱(موسسة الرسالہ، بیروت، اشاعت پنجم)

اُنتالیسویں روایت

زندگی اور موت میں رسول کے ساتھ اورجنت میں رسول کے ہمراہ ہونا ،یہ سب علی کی ولایت کے اقرار کے ساتھ مشروط ہیں

عَنْ زَیْد اِبنِ اَرْقَمْ قٰالَ،قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم مَنْ یُرِیْدُ اَنْ یَحْیٰی حَیٰاتِیْ وَیَمُوْتَ مَوْتِیْ وَیَسْکُنَ جَنَّةَ الْخُلْدِالَّتِیْ وَعَدَنِیْ رَبِّیْ،فَلْیَتَوَلِّ عَلَیَّ ابنَ اَبِیْ طَالِب فَاِنَّه لَنْ یُخْرِجَکُمْ مِنْ هُدیً وَلَنْ یُدْخِلَکُمْ فِی ضَلٰا لَةٍ ۔

۱۱۶

ترجمہ

”زید بن ارقم سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جوکوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ اُس کی زندگی اور موت میری نسبت سے منسلک رہے اور وہ جنت جس کا پروردگار نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے،اُسے نصیب ہو، اُس کو چاہئے کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام کو دوست رکھے کیونکہ وہ یقینا تمہیں ہدایت کے راستہ سے ہٹنے نہیں دیں گے اور یقینا گمراہی میں پڑنے نہیں دیں گے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حاکم، المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۲۸۔

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۴۳،صفحہ۱۴۹،۱۵۰۔

۳۔ حافظ ابی نعیم، کتاب حلیة الاولیاء،جلد۱(صفحہ۸۶)۔

۴۔ متقی ہندی،کنزالعمال،ج۱۱،ص۶۱۱(موسسة الرسالہ،بیروت ، اشاعت پنجم)

چالیسویں روایت

پیغمبر کا علی کی شہادت کی خبر دینااورآپ کے قاتل کو سب سے زیادہ شقی القلب قرار دینا

عَنْ عُثْمٰانَ ابْنِ صُهَیْبٍ،عَنْ اَبِیْهِ قٰالَ:قٰالَ عَلِیٌ قٰالَ لِی رَسُولُ اللّٰه مَنْ اَشْقَی الْاَوَّلِیْن؟قُلْتُ:عٰاقِرُالْنّٰاقِةِقٰالَ صَدَ قْتَ،فَمَنْ اَشْقَی الآخِرِیْنَ؟ قُلْتُ لَاعِلْمَ لِی رَسُوْلُ اللّٰهِ قٰالَ الَّذِیْ یَضْرِبُکَ عَلٰی هٰذِهِ وَاَشَارَ بِیَدِهِ اِلٰی یٰافُوْخِهِ وَکَانَ(عَلِیٌ)یَقُوْلُ:وَدَدْتُ اَنَّه قَدِانْبَعَثَ اَشْقٰاکُمْ فَخَضِبَ هٰذِهِ مِنْ هٰذِهِیَعْنِی لِحْیَتَهُ مِنْ دَمِ رَأسِهِ

۱۱۷

ترجمہ

”عثمان بن صہیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ’علی علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول خدا نے مجھ سے فرمایا کہ پہلے آنے والوں میں بدبخت ترین شخص کون ہے؟ میں نے عرض کی کہ ناقہ صالح کو کاٹنے والا۔ آپ نے فرمایا:یا علی ! تم نے سچ کہا،اور آخرمیں آنے والوں میں بدبخت ترین شخص کون ہے؟ میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ! میں نہیں جانتا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جوکوئی تمہارے سر پرمارے گا اور اپنے ہاتھ سے علی کے سر کی طرف اشارہ کیا۔ علی ساتھ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ میں اس چیز کو پسند کرتا ہوں کہ شقی ترین شخص اُٹھے اور میری ریش کو میرے سر کے خون سے خضاب کرے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، باب شرح حال علی ،جلد۳،صفحہ۲۸۲،حدیث۱۳۷۱۔

۲۔ ابن کثیر،کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۲۴۔

۳۔ ہیثمی،کتاب مجمع الزوائد میں،جلد۹،صفحہ۱۳۶۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودةمیں، باب۵۹،صفحہ۲۱۶اور۳۳۹۔

۵۔ متقی ہندی،کنزالعمال ،ج۱۳،ص۱۹۰(موسسة الرسالہ، بیروت، اشاعت پنجم)

۶۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، صفحہ۴۶۳۔

۷۔ سیوطی ،تاریخ الخلفاء میں،صفحہ۱۷۳۔

۸۔ خطیب، تاریخ بغداد میں،جلد۱،صفحہ۱۳۵(باب حال علی ،شمارہ۱)اور دوسرے۔

۹۔ اس ضمن میں بہت سی روایات موجود ہیں۔منجملہ روایت ابی رافع کہ وہ کہتے ہیں کہ

پیغمبر اسلام نے علی علیہ السلام سے فرمایا:”اَنْتَ تَقْتَلُ عَلٰی سُنَّتِی “۔”یا علی ! تم

میری سنت اور روش پر قتل کئے جاؤگے“۔ابن عساکر ،تاریخ دمشق میں، باب شرح

حال امام علی ،جلد۳،ص۲۶۹،حدیث۱۳۴۷اور دوسرے۔

۱۱۸

فضائل علی علیہ السلام روایات کی نظر میں

(ا)۔عَنْ ابنِ عباس قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ لَوْ اَنَّ الرَّیَاضَ اَقْلَامٌ وَالبَحْرَ مِدَادٌ وَالْجِنَّ حُسَّابٌ وَالْاِنْسَ کُتَّابٌ مٰااَحْصَوْافَضٰائِلَ عَلِی ۔

”پیغمبر اکرم نے فرمایا:’اگر تمام درخت قلم بن جائیں اور تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور تمام جن حساب کرنے والے بن جائیں، تمام انسان لکھنے والے بن جائیں تو یہ سب مل کر بھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل شمار نہیں کرسکیں گے“۔

حوالہ جات

۱۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب ،باب۶۲،صفحہ۲۵۱۔

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی،ینابیع المودة، باب مناقب السبعون،صفحہ۲۸۶،حدیث۷۰۔

(ب)۔عَن انس بن مٰالِک،اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم قٰالَ لِعَلِیٍّ:اَنْتَ تُبَیِّنُ لِاُمَّتِی مَااخْتَلَفُوْا فِیْهِ بَعْدِی ۔

”انس بن مالک سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلام نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ تم میری اُمت کے لئے اُس چیزکوبیان کرنے والے (واضح کرنے والے)ہو جس میں میری اُمت میرے بعد اختلاف کرے گی“۔

حوالہ جات

۱۔ حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۲۲۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب حال امام ج۲،ص۴۸۶،حدیث۱۰۰۵شرح محمودی

۱۱۹

(ج)۔قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اَنَاالشَّجَرَةُ وَفَاطِمَةُ فَرْعُهَاوَعَلِیٌ لِقٰاحُهٰا وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ ثَمَرَتُهَا وَشِیْعَتُنَاوَرَقُهَاوَاَصْلُ الشَّجَرَةِ فِیْ جَنَّةِ عَدْنٍ وَسَائِرُذٰالِکَ فِی سَائِرِالْجَنَّةِ ۔

”رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری مثال ایک درخت کی سی ہے اور فاطمہ سلام اللہ علیہا اُس کی شاخ ہیں اور علی علیہ السلام اس درخت کو باردارکرنے والے ہیں۔حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام اس کے پھل ہیں اور ہمارے شیعہ اس کے پتے ہیں ۔ اس درخت کی جڑ جنت عدن میں ہے اور بقیہ حصہ جنت میں ہے“۔

حوالہ جات

۱۔ حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۶۰۔

۲۔ ذہبی، میزان الاعتدال میں،جلد۱،صفحہ۵۰۵،شمارہ۱۸۹۶اور دوسرے۔

(د) عَنْ جٰابِرٍ:أَمَرَنَارَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اَنْ نَعْرِضَ اَوْلٰادَنٰا عَلٰی حُبِّ عَلِی ابنِ اَبِیْ طَالِبْ

”جابر کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ اپنی اولاد کو امام علی علیہ السلام کی دوستی سے پرکھئے“(تاکہ اُن کے حلال زادہ ہونے کی تصدیق ہوسکے)۔

حوالہ جات

۱۔ ذہبی، میزان الاعتدال میں،جلد۱،صفحہ۵۰۹،شمارہ۱۹۰۴۔

۲۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ،باب شرح حال امام علی ،ج۲،ص۲۲۵،حدیث شمارہ۷۳۰

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272