آفتاب ولایت

آفتاب ولایت0%

آفتاب ولایت مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 272

آفتاب ولایت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علی شیر حیدری
زمرہ جات: صفحے: 272
مشاہدے: 135511
ڈاؤنلوڈ: 3383

تبصرے:

آفتاب ولایت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 272 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135511 / ڈاؤنلوڈ: 3383
سائز سائز سائز
آفتاب ولایت

آفتاب ولایت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

(یااَیُّهَاالنَّاس اِمْتَحِنُوْااَوْلَادَکُمْ بِحُبِّ عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَام)

(”اے لوگو! اپنی اولاد کی علی علیہ السلام کی محبت سے آزمائش کرو“)

اور نیز ترجمہ مذکو ر میں جلد۲،صفحہ۲۲۴پر روایت کی گئی ہے کہ:

(قٰالَتِ الْاَنْصَار:اِنَّ کُنَّالَنَعْرِفَ الرَّجَلُ اِلٰی غَیْرِ اَبِیْهِ بِبُغْضِه عَلِی)

(”انصار کہتے ہیں کہ حرام زادے افراد کو ہم علی علیہ السلام کے بغض سے پہچانتے تھے“)۔

(ه) قٰالَ النَّبِیُ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم لَوِاجْتَمَعَ النّٰاسُ عَلٰی حُبِّ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِبِ لَمْ یَخْلُقِ اللّٰهُ النّٰارَ

”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’اگر تمام لوگ محبت علی علیہ السلام پر اتفاق کرتے(یعنی کوئی علی علیہ السلام کا مخالف نہ ہوتا) تو خداوند تعالیٰ جہنم کو پیدا نہ کرتا‘۔“

حوالہ جات

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة،باب مناقب السبعون،صفحہ۲۸۱،حدیث

۴۱اور باب۴۲،صفحہ۱۴۷اور صفحہ۱۰۴اور اسی طرح خوارزمی مناقب میں اور دوسرے بھی۔

(و)۔ جنگ بدر میں منادی دینے والے کی آواز آئی:

”لَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوْالفِقٰار“

”کوئی جوان نہیں سوائے علی علیہ السلام کے اور کوئی تلوار نہیں سوائے ذوالفقار کے“۔

۱۲۱

حوالہ جات

۱۔ ابن مغازلی، مناقب میں، صفحہ۱۹۷(یوم الاحد)۔

۲۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۳۷۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۶۹،صفحہ۲۷۷۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی،ینابیع المودة ،باب۱۵،ص۱اور باب۵۳،صفحہ۱۸۵اور۲۴۶

۵۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد۳،صفحہ۳۲۴،شمارہ۶۶۱۳۔

۶۔ محب الدین طبری، کتاب ذخائرالعقبیٰ ، صفحہ۷۴،اشاعت قدس مصر اور دوسرے۔

جس وقت حضرت علی علیہ السلام جنگ بدر میں(بعض روایات میں جنگ اُحد) اپنی شجاعت و بہادری بے نظیر سے دشمنوں کی صفوں کو چیررہے تھے اور اُن پر حملوں پر حملے کررہے تھے،اُس وقت آسمان سے ایک آواز آئی اور جس کو سب نے سنا جو یہ تھی:

”لَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوْالفِقٰار“

اس اہم روایت کو بہت زیادہ علمائے شیعہ اور سنی نے نقل کیا ہے۔ البتہ بعض نے اس کو اس طرح نقل کیا ہے:

”لَاسَیْف اِلَّا ذُوْالْفِقٰارلَافَتٰی اِلَّا عَلِی “

(ز) عَنْ علی قٰالَ:اَوْصٰانِی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ عَنْ لاٰ یُغَسِّلُهُ اَحَدٌ غَیْرِیْ

حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے ،انہوں نے فرمایا کہ مجھے نبی اکرم نے وصیت فرمائی کہ یا علی ! سوائے تمہارے مجھے اور کوئی غسل نہ دے۔(یہ روایت اس حقیقت کی دلیل ہے کہ معصوم کو سوائے معصوم کے نہ کوئی غسل دے اور نہ نماز پڑھائے)۔

حوالہ

متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں، جلد۷،صفحہ۲۵۰،اشاعت بیروت(موسسة الرسالہ،صفحہ۱۴۰۵اشاعت پنجم)اور دوسرے۔

۱۲۲

(ح) عَنْ علی علیه السلام قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم: لَوْلَاکَ یَاعَلِیُّ مَا عُرِفَ الْمُومِنُوْنَ مِنْ بَعْدِی ۔

”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’یا علی ! اگر تم نہ ہوتے تو میرے بعد مومنین پہچانے نہ جاتے‘۔“

حوالہ روایت

متقی ہندی، کنزالعمال میں،جلد۱۳،صفحہ۱۵۲۔

(ط) عَنْ اِبنِ مَسْعُوْدٍ قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ مِنِّی کَرُوْحیْ فِیْ جَسَدِیْ ۔

”ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام میرے لئے ایسے ہیں جیسے میرے بدن میں روح“۔

حوالہ روایت

متقی ہندی،کنزالعمال میں،جلد۱۱،صفحہ۴۲۸۔

(ی) عَنْ جابرقٰالَ:قٰالَ النَّبِیُ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم مَکْتُوْبٌ فِی بَابِ الجَنَّةِ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضَ بِاَلْفَیْ سَنَةٍ،لاٰاِلٰهَ اِلَّااللّٰهُ مُحَمَّداٌ رسُولُ اللّٰهِ اَ یَّدْ تُهُ بِعَلیٍ ۔

”جابر کہتے ہیں کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ زمین و آسمان کی خلقت سے ہزار سال قبل جنت کے دروازے پر یہ لکھا ہوا تھا:’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،محمد اس کے رسول ہیں جن کی تائید و حمایت میں نے علی سے کروائی ہے“۔

۱۲۳

حوالہ روایت

متقی ہندی، کنزالعمال میں،جلد۱۱،صفحہ۶۲۴۔

(ک) عَنْ اِبْنِ عَبَّاس،اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم قٰالَ لِعَلِیِّ بْنِ ابِی طالب:اَنْتَ وَلِیُّ کُلِّ مُومِنٍ بَعْدِی ۔

”ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب سے فرمایا:’میرے بعد تم سب مومنوں کے ولی ہو‘۔“

حوالہ جات

۱۔ ابی عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب میں، جلد۳،صفحہ۱۰۹۱،روایت ۱۸۵۵۔

۲۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں، جلد۷،صفحہ۳۳۹،۳۴۵۔

۳۔ متقی ہندی، کنزالعمال ،ج۳،صفحہ۱۴۲(موسسة الرسالہ،بیروت،اشاعت پنجم )۔

(ل) عَنْ النبی صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم قٰالَ: مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَتَمَسَّکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی فَلْیَتَمَسَّکَ بِحُبِّ عَلِیٍّ وَاَهْلِ بَیْتِیْ ۔

”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’جو کوئی چاہتا ہے کہ (اللہ کی) محکم اور نہ ٹوٹنے والی رسی کو تھامے رکھے ،اُسے چاہئے کہ علی علیہ السلام اور میرے اہل بیت کی محبت سے پیوستہ رہے‘۔“

حوالہ روایت

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،صفحہ۲۹۱اور دوسرے۔

۱۲۴

(م) عَنْ سَلمَان عَنِ النَّبیکُنْتُ اَنَاوَعَلِیٌّ نُوْراً یُسَبِّحُ اللّٰهَ وَیُقَدِّ سُهُ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ آدَمَ بِاَرْبَعَةِ اَ لٰافِ عٰامٍ

”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’میں اور علی ایک نور تھے اور آدم کی خلقت سے چار ہزار سال قبل ہم اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تقدیس بیان کرتے تھے‘۔“

حوالہ روایت

ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد۱،صفحہ۵۰۷،شمارہ۱۹۰۴اوردوسرے۔

(ن) عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْن علیه السلام عَنْ اَبِیْهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم أَخَذَ بِیَدِحَسَنٍ علیه السلام وَحُسَینٍ عَلَیْهِ السَّلام فَقٰالَ:مَنْ اَحَبَّنِی وَاَحَبَّ هٰذَیْنِ وَاَبَاهُمَاوَاُمُّهُمَا کَانَ مَعِی فِی دَرَجَتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۔

”حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اپنے والد بزرگوار سے اور وہ اپنے والد بزرگوار حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین کے بازؤوں کو پکڑکرفرمایا:’جوکوئی مجھے اور میرے ان بیٹوں اور ان کے والد اور ان کی والدہ سے محبت رکھے گا، وہ قیامت کے روز میرے ہمراہ ہوگا‘۔“

حوالہ جات

۱۔ مسند احمد بن حنبل،جلد۱،صفحہ۱۶۸،روایت۵۷۶(مسند علی علیہ السلام)۔

۲۔ ابی عمر یوسف بن عبداللہ، استیعاب،ج۳،ص۱۱۰۱،حدیث۱۸۵۵کے تسلسل میں

۳۔ متقی ہندی،کنزالعمال،جلد۱۲،صفحہ۹۷،۱۰۳(موسسة الرسالہ، بیروت،پنجم)۔

۱۲۵

(س) عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ عَبّٰاسٍ قٰالَ:سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم عَنِ الْکَلَمٰتِ الَّتِیْ تَلَقَّاهٰاآدَمُ مِنْ رَبِّه فَتٰابَ عَلَیْهِ قٰالَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم سَأَلَهُ ”بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَعَلِیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ اَلَّا تُبْتَ عَلَیَّ“ فَتٰابَ عَلَیه ۔

”عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا اُن کلمات کے بارے میں جو حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سیکھے اور اللہ تعا لیٰ نے اُن کلمات کی وجہ سے اُن کی توبہ قبول کرلی۔پیغمبر اکرم نے فرمایا:

’حضرت آدم نے اللہ تعالیٰ سے بحق محمد وآل محمد ،(علی ،فاطمہ ، حسن اور حسین ) درخواست کی کہ اُن کی توبہ قبول کرلی جائے۔اللہ تعالیٰ نے اُن کو معاف کیا اور اُن کی توبہ قبول کرلی‘۔“

(اس روایت کی توضیح کیلئے سورئہ بقرہ کی آیت۳۷کی تفسیرالدرالمنثورملاحظہ کی جائے”فَتَلَقَّیٰ آدَمُ مِنْ رَبِّه کلمات “۔

حوالہ جات

۱۔ ابن مغازلی،کتاب مناقب میں،صفحہ۶۳،حدیث۸۹۔

۲۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور،آیت۳۷،سورئہ بقرہ کی تفسیر میں۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب۲۴میں۔

(ع) عَنْ عَلیٍ قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰه:اَلنُّجُوْمُ أَمَانٌ لِاَهْلِ السَّمَاءِ فَاِذَاذَهَبَتِ النُّجُوْمُ ذَهَبَ أَهْلُ السَّمٰاءِ،وَاَهْلُ بَیْتِیْ أَمَانٌ لِاَهْلِ الْاَرْضِ فَاِذا ذَهَبَ اَهْلُ بَیْتِیْ ذَهَبَ اَهْلُ الْاَرْضِ

”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:’ستارے اہل آسمان کیلئے امان و سلامتی ہیں۔ پس جب ستارے ختم ہوجائیں،اہل آسمان بھی ختم ہوجائیں گے۔ میرے اہل بیت زمین پر رہنے والوں کیلئے امان و سلامتی ہیں۔جب میرے اہل بیت دنیا سے رخصت ہوجائیں گے، اہل زمین بھی تباہ و برباد ہو جائیں گے‘۔“

۱۲۶

حوالہ جات

۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة۔

۲۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں،جلد۹،صفحہ۱۷۴۔

۳۔ متقی ہندی،کنزالعمال،ج۱۲،ص۹۶،۱۰۱،۱۰۲،موسسة الرسالہ،بیروت،پنجم

(ف) عَنْ عِبَایَةِ بن رَبْعی،عَنْ اِبْنِ عَبّاسٍ قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اَنَاسَیَّدُ النَّبِیِّیْنَ وَعَلیٌ سَیَّدُ الْوَصِیِّیْنَ اِنَّ اَوْصِیٰائی بَعْدِیْ اِثْنٰی عَشَرَ اَوَّلُهُمْ عَلیٌ وَآخِرُهُمْ القٰائِمُ الْمَهْدِیُّ ۔

”عبایہ بن ربعی، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’میں نبیوں کا سردار ہوں اور علی اوصیاء کے سردار ہیں۔میرے بارہ وصی(جانشین) ہوں گے۔ اُن میں پہلے علی ہیں اور آخری قائم مہدی علیہ السلام(صاحب الزمان) ہیں‘۔“

حوالہ روایت

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب۷۸،صفحہ۳۰۸اور۵۳۷اور دوسرے۔

(ص) عَنِ الْاَصْبَغِ بْنِ نَبٰا تَه عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ عَبَّاسٍ قٰالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یَقُوْلُ أَ نَا وَعَلِیٌ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَتِسْعَةٌ مِنْ وُلْدِالْحُسَیْنِ مُطَهَّرُوْنَ مَعْصُوْمُوْنَ

”اصبغ بن نباتہ، عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول خدا سے سنا کہ فرمارہے تھے :’میں،علی ،حسن ، حسین اور اُن کے نوفرزند پاک اورمعصوم ہیں‘۔“

۱۲۷

حوالہ جات

۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۷۸،صفحہ۳۰۸اور۵۳۷۔

۲۔ فرائد السمطین،جلد۲،صفحہ۱۳۳۔

نوٹ

یہ نکتہ لکھنا ضروری ہے کہ یہاں جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا نام شامل نہیں۔ یہ اس واسطے کہ جناب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حدیث میں مقام نبوت اور امامت کا ذکر فرمارہے تھے وگرنہ پاکیزگی اور معصومیت میں جناب فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا کا مقام تو مرکزی ہے۔

(ق) قٰالَ النَّبِی اِنَّ فَاطِمَةَ وَعَلِیّاً وَالْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ فِیْ حَظِیْرَةِ الْقُدْسِ فِی قُبَّةٍ بَیْضَاءِ سَقْفُهَاعَرْشُ الرَّحْمٰن

”رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہا،علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام جنت کے بالا ترین حصے(حَظِیْرَةُ الْقُدْس)م یں جو سفید نوری ہوگا اور اُس کی چھت رحمٰن کا عرش ہوگا،وہاں یہ رہیں گے“۔

حوالہ حدیث

متقی ہندی،کتاب کنزالعمال ،ج۱۲،صفحہ۹۸،اشاعت بیروت، موسسة الرسالہ۔

۱۲۸

(ر)۔ کتاب ینابیع المودة میں اور اہل سنت کی دیگر کتب میں ایک بہت اہم روایت نقل کی گئی ہے کہ اس میں اسمائے آئمہ معصومین پیغمبر اسلام کی مقدس و پاک زبان سے بیان کئے گئے ہیں۔ اس روایت میں ہر ایک معصوم کا نام وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ انتہائی قابل توجہ اور اہمیت کی حامل روایت ہے۔ البتہ باقی بہت سی کتب میں بھی مختلف روایات اس ضمن میں موجود ہیں لیکن اس کتاب میں درج ذیل پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔

اس روایت کی ابتدا میں ایسے لکھا ہے کہ ایک یہودی پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے سوال کیا:

”ہر پیغمبر کا وصی اور جانشین تھا،لہٰذا مجھے بتائیے کہ آپ کا وصی کون ہے؟ رسول خدانے اُس کے سوال کے جواب میں ارشادفرمایا:

اِنَّ وَصِیِّ عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ وَبَعْدُهُ سِبْطٰایَ الحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ تَتْلُوهُ تِسْعَةُ آئِمَّةٍ مِنْ صُلْبِ الْحُسَیْن

قٰالَ:یٰامُحَمَّدُ فَسَمَّهُمْ لِیْ

قٰالَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اِذٰ مَضَی الْحُسَیْنُ فَاِبْنُهُ عَلِیٍ فَاِذَامَضیٰ عَلِیٌ فَاِبْنُهُ مُحَمَّدٌ،فَاِذَا مَضیٰ مُحَمَّدٌ فَاِبْنُهُ جَعْفَرٌ،فَاِذا َمَضَی جَعْفَرٌ فَاِبْنُهُ مُوْسٰی، فَاِذَامَضیٰ مُوْسٰی فَاِبْنُهُ عَلِیٌ، فَاِذَا مَضیٰ عَلِیٌ فَاِبْنُهُ مُحَمَّدٌ، فَاِذَامَضیٰ مُحَمَّدٌ فَاِبْنُهُ عَلِیٌ، فَاِذَامَضیٰ عَلِیٌ فَاِبْنُهُ الْحَسَنُ، فَاِذَا مَضیٰ الْحَسَنُ فَاِبْنُهُ الْحُجَّةُ الْقٰائمُ الْمَهْدِیُّ فَهٰولَاءِ اِثْنٰی عَشَرَ

”پیغمبر اکرم نے فرمایا:

’بے شک میرا وصی علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے اور اُن کے بعد میرے بیٹے حسن اور حسین ہیں اور اُن کے بعد حسین علیہ السلام کی اولاد سے نو آئمہ ہیں‘۔

۱۲۹

یہودی نے عرض کیا:

’یا محمد! اُن نو آئمہ کے اسمائے گرامی مجھے بتائیے؟‘

حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:

’جب حسین علیہ السلام کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے علی ابن الحسین اور جب علی ابن الحسین کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے محمد اور جب محمد ابن علی کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے جعفر اور جب جعفر ابن محمد کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے موسیٰ اور جب موسیٰ ابن جعفر کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے علی اور جب علی ابن موسیٰ کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے محمد اور جب محمد ابن علی کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے حسن اور جب حسن بن علی کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے حجة القائم مہدی علیہ السلام کی امامت ہوگی،یہ ہیں میرے بارہ وصی و جانشین‘۔“

حوالہ روایت

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب۷۶،صفحہ۵۲۹۔

اس ضمن میں روایت جابر باب۶۳،صفحہ۴۳۳میں بھی بیان کی گئی ہے اور اسی طرح شیعہ اور اہل سنت کی کتب میں روایات موجود ہیں۔

(ش) عَنْ اَبِیْ سَعِید قٰالَ:قٰالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم لَتَمْلَأَنَّ الْاَرْضُ ظُلْماً وَعُدْوٰاناً ثُمَّ لَیَخْرُجَنَّ رَجُلٌ مِنْ اَهْلِ بَیْتِیْ حَتّٰی یَمْلَأُهٰا قِسْطاًوَعَدْلاً کَمَامُلِئَتْ ظُلْماً وَعُدْ وَاناً

”ابی سعید روایت کرتے ہیں کہ رسول خدانے فرمایا:ایسا وقت آئیگا کہ یہ زمین ظلم و ستم سے بھر جائے گی ،اُس وقت میری اہل بیت سے ایک شخص آئے گا جو اس زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح پہلے یہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی تھی“۔

۱۳۰

حوالہ روایت

۱۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال ،ج۱۴،ص۲۶۶،اشاعت بیروت، موسسة الرسالہ

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب مودة العاشر،صفحہ۳۰۸۔

(ت) عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ،عَن رَسُوْلِ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اَلْمَهْدِیُّ مِنْ عِتْرَتِی مِنْ وُلْدِ فَاطِمَةَ

”اُم سلمہ روایت کرتی ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا کہ مہدی میرے خاندان سے ہوں گے اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کے فرزند ہوں گے“۔

حوالہ روایت

متقی ہندی، کتاب کنزالعمال ،ج۱۴،ص۲۶۴،اشاعت بیروت، موسسة الرسالہ

۱۳۱

فضائل علی علیہ السلام انبیاء کی نظر میں

پچھلے باب میں جو روایات پڑھنے والوں کی نظر سے گزریں، وہ فرمودات رسول اکرم حضرت محمد تھے۔ یہ روایات بخوبی بلند شخصیت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کو ظاہر اور روشن کرتی ہیں۔ اب یہ مناسب ہوگا کہ علی کی شخصیت کو دوسرے انبیائے کرام کی نظر سے دیکھیں۔

اس بارے میں تحقیق کرنے سے معلوم ہوگا کہ خدائے بزرگ و برتر نے حضرت علی کی شخصیت کا تعارف تمام انبیاء(حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک) کو خود کروایا ہے۔

یہ حقیقت آسمانی کتب سے اور ارشادات انبیائے کرام (قبل از پیغمبر اسلام) سے بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ ذیل میں ہم چند نہایت اہم واقعات اور مطالب کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروائیں گے۔

آدم علیہ السلام کا پنجتن پاک سے ارتباط

حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حو ّ ا کا واقعہ قرآن میں ذکر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کا جنت سے نکلنا اور زمین پر آباد ہونا ایسا قصہ ہے جسے شاید ہی کوئی ایساہو جو نہ جانتا ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حو ا ترک اولیٰ کی وجہ سے بہشت سے زمین پر بھیجے گئے۔سالہا سال تک حضرت آدم علیہ السلام زمین پر گریہ کرتے رہے اور خدا سے طلب مغفرت کرتے رہے لیکن بالآخر اسمائے پنجتن پاک یعنی محمد، علی علیہ السلام، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کے توسل سے اُن کی توبہ قبول ہوئی جیسے قرآن پاک میں ذکر ہے اور اسی اہم موضوع کی طرف اشارہ ہے:

( فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَبِّه کَلِمٰاتٍ فَتٰابَ عَلَیْهِ اِنَّهُ هُوَالتَّوّٰابُ الرَّحِیْم )

”پس آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کلمات سیکھے، خدا نے اُن کی توبہ قبول کی، بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے“۔(سورئہ بقرہ:آیت۳۷)۔

۱۳۲

اس آیت کی تفسیر میں شیعہ اور سنی اکابرین نے درج ذیل روایت نقل کی ہے جس کو لکھنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں:

عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ عَبّاسٍ قٰالَ:سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم عَنِ الْکَلِمٰتِ الَّتِیْ تَلَقّٰا اٰدَمُ مِنْ رَبِّه فَتَابَ عَلَیْهِ قَالَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم سَأَلَهُ ”بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَعَلِیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ اِلَّا تُبْتَ عَلَیَّ“فَتَابَ عَلَیْهِ ۔

”عبداللہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم سے اُن کلمات کے بارے میں سوال کیا گیا جو حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے دریافت کئے تھے اور جن کی وجہ سے اُن کی توبہ قبول ہوئی تھی۔ جواب میں پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام نے بحق پنجتن پاک (محمد،علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین ) اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ اُن کی غلطی کو معاف فرما۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی غلطی کو معاف کردیا اور اُن کی توبہ کو قبول کرلیا“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب علی علیہ السلام میں، حدیث۸۹،صفحہ۶۳.

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ،ینابیع المودة، صفحہ۱۱۱،باب۲۴اور ص۲۸۳،حدیث۵۵

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں۔

۴۔ تفسیر نمونہ،ج۱،صفحہ۱۹۹اور تفسیر المیزان،جلد۱،صفحہ۱۴۹اوردوسری کتب میں۔

اسی ضمن میں دوسری روایت بھی ملاحظہ ہو:

قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم لَمَّا خَلَقَ اللّٰهُ تَعٰالٰی آدَمَ اَبَالْبَشَرِ وَنَفَخَ فِیْهِ مِنْ رُوْحِهِ اِلْتَفَتَ آدَمُ یُمْنَةَ الْعَرْشِ فَاِذاً فِی النُّوْرِخَمْسَةُ اَشْبٰاحٍ سُجَّداً وَرُکَّعٰا، قٰالَ آدَمُ:(علٰی نَبِیِّنٰا وَآلِه وَعَلَیْهِ السَّلام)هَلْ خَلَقْتَ اَحَداً مِنْ طِیْنِ قَبْلِی؟ قٰالَ لاٰ یَا آدَمَ! قٰالَ:فَمَنْ هٰولٰاءِ الْخَمْسَةِ الْاَشْبٰاحِ الَّذِیْنَ اَرٰاهُمْ فِیْ هَیْئَتِیْ وَصُوْرَتِیْ؟قٰالَ هٰولٰاءِ خَمْسَةٌ مِنْ وُلْدِکَ،لَوْلَاهُمْ مَا

۱۳۳

خَلَقْتُکَ،هٰولٰاءِ خَمْسَةٌ شَقَقْتُ لَهُمْ خَمْسَةَ اَسْمٰاءٍ مِنْ اَسْمٰائِی لَوْلَاهُمْ مٰاخَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَالنّٰارَ ، وِلَاالْعَرَْشَ ، وَلَاالکُرْسِیَ ، وَلَاالسَمَاءَ وَلَاالْاَرْضَ وَلَاالْمَلاٰ ئِکَةَ وَلَاالْاِنْسَ وَلَاالْجِنَّ،فَاَنَاالْمَحْمُوْدُوَهَذٰامُحَمَّدٌوَاَنَالعٰالی وَهٰذَاعَلِیٌّ،وَاَنَاالْفٰاطِرُوَهٰذِهِ فَاطِمَة،وَاَنَاالْاِحْسٰانُ وَهٰذَاالْحَسَن وَاَنَاالْمُحْسِنُ وَهٰذَالْحُسَیْن اَلَیْتُ بِعِزَّتِی اَنْ لٰایَأتِیْنِی اَحَدٌ مِثْقٰالَ ذَرَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ بُغْضِ اَحَدِ هِمْ اِلَّا اَدْخُلُهُ نٰاری وَلٰااُبٰالِی یٰاآدَمَ هٰولٰاءِ صَفْوَتِی بِهِمْ اُنْجِیْهِم وَبِهِمْ اُهْلِکُهُمْ فِاِذَاکَانَ لَکَ اِلَیَّ حٰاجَةٌ فَبِهٰولٰاءِ تَوَسَّلْ

”پیغمبر اکرم نے فرمایاکہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو خلق فرمایا اور اپنی روح میں سے اُس میں پھونکی تو آدم علیہ السلام نے عرش کے دائیں جانب نظر کی تو دیکھا کہ پانچ نوریشخصیات رکوع و سجود کی حالت میں ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے میرے خدا! کیا تو نے مجھ سے پہلے کسی کو مٹی اور پانی سے خلق کیا ہے؟ جواب آیا ،نہیں۔ میں نے کسی کو خلق نہیں کیا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پھر عرض کیا کہ یہ پانچ شخصیات جو ظاہری صورت میں میری طرح کی ہیں، کون ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ پانچ تن تیری نسل سے ہیں، اگر یہ نہ ہوتے تو تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔ان کے ناموں کو اپنے ناموں سے اخذ کیا ہے۔ اگر یہ پانچ تن نہ ہوتے تو نہ بہشت و دوزخ کو پیدا کرتا اور نہ ہی عرش و کرسی کو پیدا کرتا، نہ آسمان و زمین کو پیدا کرتا اور نہ انس و جن و فرشتگان کو پیدا کرتا۔ان پانچ ہستیوں کا تعارف اللہ تعالیٰ نے اس طرح کروایا کہ اے آدم! سنو:

میں محمود ہوں اور یہ محمد ہیں

میں عالی ہوں اور یہ علی ہیں

میں فاطر ہوں اور یہ فاطمہ ہیں

میں محسن ہوں اور یہ حسن ہیں

میں احسان ہوں اور یہ حسین ہیں

۱۳۴

مجھے اپنی عزت وجلالت کی قسم کہ اگر کسی بشر کے دل میں ان پانچ تن کیلئے تھوری سی دشمنی اورکینہ بھی ہوگا،اُس کو داخل جہنم کروں گا۔ اے آدم ! یہ پانچ تن میرے چنے ہوئے ہیں اور ہر کسی کی نجات یا ہلاکت ان سے محبت یا دشمنی سے وابستہ ہوگی۔ اے آدم ! ہر وقت جب تمہیں مجھ سے کوئی حاجت ہوتو ان کا توسل پیدا کرو“۔

حوالہ جات

۱۔ علامہ امینی،کتاب فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا،صفحہ۴۰۔

۲۔ تفسیر المیزان،جلد۱۔

۳۔ مجمع البیان،جلد۱اور دوسری تفاسیر میںآ یت ۳۷،سورئہ بقرہ کے ذیل میں۔

دوسرے انبیاء کی بعثت ولایت پیغمبر و علی کی مرہون منت ہے

عَنِ الْاَسْوَدِعَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ مَسْعُود قٰالَ،قٰالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یا عَبْدَاللّٰهِ أَ تٰانِیْ مَلَکٌ فَقٰالَ:یَامُحَمَّدُ!”وَاسْئَل مَنْ اَرْسَلْنٰامِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُسُلِنٰا“عَلٰی مٰابُعِثُوا؟قٰالَ:قُلْتُ:عَلٰی مٰابُعِثُوْا؟ قٰالَ:عَلٰی وَلَایَتِکَ وَوِلَایَةِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب

”اسود جناب عبداللہ ابن مسعود سے روایت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایاکہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ آیا اور کہا کہ اے پیغمبر خدا!آپ مجھ سے اپنے سے پہلے انبیاء کے بارے میں سوال کریں کہ وہ کس لئے نبوت پر مبعوث ہوئے تھے؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے اُس فرشتے سے کہا ،بتاؤ کہ وہ کس لئے مبعوث ہوئے تھے؟ فرشتے نے کہا کہ وہ آپ کی اور حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کی تصدیق کیلئے مبعوث ہوئے تھے“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، باب حال امام علی ،ج۲،ص۹۷،حدیث۶۰۲،شرح محمودی

۲۔ حاکم نیشاپوری، کتاب ”المعرفة“اپنی سند کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود سے۔

۱۳۵

حضرت علی علیہ السلام آسمانی کتابوں میں

حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کی معرفت اور عظمت کو پہچاننے کا ایک انتہائی اہم ذریعہ آسمانی کتابیں اور گزشتہ پیغمبروں کے صحائف ہیں۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے پہلے انسان اور پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام کو اسمائے اعلیٰ یعنی حضرت محمد،علی علیہ السلام،جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا،حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی تعلیم دی تھی تو انہوں نے ان اسماء کی تعلیم اپنی اولاد اور دوسرے انبیاء کو پہنچا دی۔ محکم روایات سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان نوری افراد کو خلقت بشر سے پہلے پیدا کیا تھا تاکہ دنیا میں یہ افراد بطور نمونہ، کامل ترین اخلاق کا مظہر ہوں۔

لہٰذا موضوع کے اعتبار سے مزید اطلاعات حاصل کرنے کیلئے ہم حکیم سید محمود سیالکوٹی کی کتاب ”علی و پیغمبران“ سے چند اقتباسات لیتے ہیں:

۱۔ نام علی علیہ السلام انجیل میں

آسمانی کتابوں میں خاتم النبیین حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کے جانشین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں بشارت دی گئی تھی۔ لیکن اسلام دشمن لوگ یہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ حقیقت واضح ہو بلکہ اس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے درپے تھے۔مثلاً انجیل میں”صحیفہ غزل الغزلات“ اشاعت لندن،سال۱۸۰۰عیسوی،باب۵،آیت۱

تا۱۰میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ارشادات بیان کئے گئے ہیں جس میں انہوں نے پیغمبر خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کے نائب امیرالمومنین علی علیہ السلام کے بارے میں اشارہ کیا ہے اور آخر میں واضح کہتے ہیں کہ وہ ”خلومحمد یم“(وہ دوست اور محبوب محمد ہیں)۔لیکن وہ انجیل جو ۱۸۰۰ء کے بعد شائع ہوئی ہے، اُن میں سے یہ الفاظ ”خلومحمد یم“ حذف کردئیے گئے ہیں۔ اسی طرح لفظ”ایلیا“ یا”ایلی“ یا ”آلیا“ جو آسمانی کتابوں میں مذکور ہے، مخالفین یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس سے مراد پیغمبر حضرت الیاس یا مسیح یا یوحنّا ہیں ،نہ کہ حضرت علی علیہ السلام۔

۱۳۶

لیکن بہت سے مسیحی علماء نے لفظ ”ایلیا“ یا ”ایلی“ یا ”آلیا“ کے بارے میں تحقیق کی ہے اور وہ تعصب کی دنیا سے باہر آگئے اور پھر اصل حقیقت بیان کی۔

ایک مسیحی عالم Mr. J.B. Galidon لکھتے ہیں:

In the language of oldest and present Habrew the word ALLIA"or "AILEE" is not in the meanings of God or Allah but this word is showing that in text and last time of this world anyone will become nominates "ALLIA" or "AILEE ".

”زبان عبرانی جدید یا قدیم میں لفظ”ایلیا“ یا”ایلی“ سے مراد اللہ نہیں ہے بلکہ اس لفظ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آئندہ زمانے میں یا آخری زمانہ میں کوئی شخص آئے گا جس کا نام ”ایلیا“ یا ”ایلی“ ہوگا“۔

حوالہ

۱. " A notebook on old and new testaments of Bible" published in London in ۱۹۰۸, Vol.۱, page ۴۲۸ ."

۲۔ حکیم سید محمود سیالکوٹی کتاب ”علی اور پیغمبران“،دلائل اور شواہد سے ثابت کیا ہے کہ

اسماء”ایلیا“ یا ”ایلی“ یا ”آلیا“ سے مراد علی علیہ السلام ہیں۔

۲۔ علی او رپیشگوئی داؤد

حضرت علی علیہ السلام کا مقدس نام زبور(حضرت داؤد علیہ السلام کی کتاب) میں بھی آفتاب کی طرح درخشاں ہے۔ آسمانی کتاب زبور میں حضرت علی علیہ السلام کا دنیا میں آنا تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کتاب”علی اور پیغمبران“ میں زبور سے ایک حصہ نقل کیا گیا ہے۔ زبور کا یہ قدیمی نسخہ احسان اللہ دمشقی ،رہبرمسیحیان،شام کے پاس بھی موجود ہے۔

۱۳۷

زبور سے اقتباس

(مطعنی شل قثوتینمر قث پاھینوا نی وز”ایلی“ متازہ امطع ملغ شلو شمائت پزانان ہمنیقتہ خلذ وقث فل”حدار“

کمرتوہ شیھوپلت انی قاہ بوتاہ خزیماہ رث جین”کعاباہ“ بنہ اشود کلیامہ کاذوقثوتی قتمرعندوبریما برینم فل خلذملغ خایوشنی پم مغلینم عت جنحاریون)۔

”تم پر اُس شخصیت جس کا نام ”ایلی“ ہے، کی اطاعت واجب ہے اور دین و دنیاکے ہر کام میں اُس کی فرمانبرداری تمہاری اصلاح کرے گی۔ اُس عظیم شخصیت کو ”حدار“(حیدر) کہتے ہیں۔ وہ بیکسوں اور ضعیفوں کا مددگار ہوگا اور وہ شیروں کا شیرہوگا اور بے پناہ طاقت کا مالک ہوگا۔وہ کعابا(کعبہ) میں پیدا ہوگا۔ تمام پر واجب ہے کہ اُس کے دامن کو پکڑیں اور غلام کی طرح اُس کی اطاعت کیلئے ہمیشہ حاضر رہیں۔ جو سن سکتا ہے اُس کی ہر بات کو غور سے سنے اور جو عقل و فہم رکھتا ہے، اُس کی باتوں کو سمجھے۔ جو دل و مغز رکھتا ہے، وہ غوروفکر کرے کیونکہ جو وقت گزرجاتا ہے، واپس نہیں آتا“۔

۳۔سلیمان کا علی سے مدد مانگنا

اس باب کے شروع میں احادیث و روایات اور سورئہ بقرہ کی آیت۳۷کی تشریح کے حوالہ سے بیان ہوچکا ہے کہ وہ کلمات جو حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یاد کئے تھے اور انہی کلمات کا اللہ تعالیٰ کو واسطہ دیا تھا، پانچ تن پاک کے اسمائے گرامی تھے۔ اب ایک اور پیغمبرحق یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے ہیں جو ان پنجتن پاک کے مقدس ناموں کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک دفعہ پھر کتاب”علی و پیغمبران“ سے اقتباس نقل کرتے ہیں جو ذیل میں درج کیا جارہا ہے:

”پہلی جنگ عظیم(۱۹۱۶ء میلادی عیسوی) میں جب انگریزوں کا ایک دستہ بیت المقدس سے چند کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے گاؤں اونترہ کے پاس مورچہ بندی کیلئے کھدائی کررہا تھا تو وہاں اُن کو ایک چاندی کی تختی ملی جس کے چاروں طرف خوبصورت قیمتی موتی جڑے ہوئے تھے اور اُس کے اوپر سونے کے پانی سے کچھ لکھا ہوا تھا جو کسی قدیم زبان میں تھا ۔وہ اُسے اپنے انچارج میجر ای۔این۔گرینڈل( Maj. E.N.Grandal ) کے پاس لے آئے۔ وہ بھی اس کو نہ سمجھ سکا اور بالآخر اسے اپنے کمانڈر انچیف جنرل گلیڈ سٹون تک پہنچا دیا۔

۱۳۸

وہ بھی اس کو نہ سمجھ سکا اور اُس نے اسے آثار قدیمہ کے ماہرین تک پہنچادیا۔۱۹۱۸ء میں جنگ بند ہوئی تو ایک کمیٹی بنادی گئی جس کے ممبران امریکہ، برطانیہ،فرانس،جرمنی اور دیگر ممالک کے ماہرین تھے۔ چند ماہ کی کوشش اور تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ تختی اصل میں”لوح سلیمانی“ ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے چند کلمات بھی اُس پر لکھے ہوئے ہیں۔ اس تختی پر عبرانی زبان میں لکھا ہوا ہے۔ ہم اس کے اصل الفاظ اور ترجمہ نقل کرتے ہیں:

ترجمہ لوح سلیمانی لوح سلیمانی کا نقش

اللہ

احمد

ایلی

باھتول

حاسن

حاسین

”اے احمد میری فریاد سن لیں

یا ایلی (علی) میری مدد فرمائیے

اے باھتول (بتول ) مجھ پر نظر کرم فرمائیے

اے حاسن (حسن) مجھ پر کرم فرمائیے

اے حاسین (حسین) مجھے خوشی بخشئے

یہ سلیمان پنجتن پاک سے مدد مانگ رہا ہے

اور علی قدرت اللہ ہے“۔

مزید اطلاعات کیلئے کتاب Wonderful Stories of Islam اشاعت لندن،صفحہ۲۴۹پر مراجعہ کریں۔

۱۳۹

۴۔ علی کا نام کشتی نوح کا زیور

پیغمبران بزرگ جو نام مقدس پیغمبر اسلام حضرت محمد،علی علیہ السلام ، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حسنین شریفین علیہما السلام پکار کر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہے، اُن میں حضرت نوح علیہ السلام بھی شامل ہیں۔اس کا ثبوت وہ لکڑی کے تختے ہیں جو روسی معدنیات کے کارکنوں نے دریافت کئے تھے۔ حکیم سید محمود سیالکوٹی نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر اس طرح سے کیا ہے:

”جنوری۱۹۵۱ء میں روسی محکمہ معدنیات کے چند کارکن زمین کھودنے میں مشغول تھے کہ اچانک لکڑی کے چند تختے اُن کو نظر آئے جو عام لکڑی کے تختوں سے مختلف تھے اور کسی چھپے راز کی نشاندہی کرتے تھے۔انہی لکڑی کے تختوں میں ایک ایسی لکڑی کی تختی ملی جس کی لمبائی چودہ انچ اور چوڑائی تقریباً دس انچ تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ باقی تختے وقت گزرنے کے ساتھ کہنہ اور بوسیدہ ہوچکے تھے لیکن یہ تختہ ابھی بالکل اپنی صحیح حالت میں تھا۔ اس پر چند قدیم الفاظ درج تھے۔ روسی حکومت نے تحقیق کیلئے ۲۷/فروری۱۹۵۳ء کو کمیٹی بنائی جس کے ممبران قدیم زبانوں کے ماہر تھے۔ آٹھ ماہ کی سخت محنت اور تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ جو الفاظ لکھے ہوئے ہیں، وہ مدد مانگنے اور سلامتی کی دعا کیلئے لکھے گئے ہیں۔ذیل میں اس کی تصویر دی جارہی ہے:

تحقیقی کمیٹی نے اُن الفاظ کا ترجمہ روسی زبان میں کیا جس کا ترجمہ لسانیات کے ماہرمسٹر این۔ایف۔ماکس( N. F. Maks )نے انگریزی زبان میں کیا جو ذیل میں درج کیا جارہا ہے:

O" my God! my Helper! Keep my hand with mercy andwith your holy bodies, Mohammad, Alia, Shabbar, Shabbir, Fatema. They all are biggests and honourables. The world established for them. Help me by their names. You can reform to right

ترجمہ

”اے میرے اللہ! اے میرے مددگار! ذوات مقدسہ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)،

ایلیا ،شبر ،شبیر اور فاطمہ علیہم السلام کے صدقہ میں مجھ پر اپنا رحم و کرم فرما۔ یہ پنجتن سب سے بڑے اور سب سے زیادہ عزت والے ہیں۔ یہ تمام دنیا اُن کیلئے بنائی گئی۔ اے میرے پروردگار! اُن کے ناموں کا واسطہ! میری مدد فرما۔ تو ہی صحیح راستے کی ہدایت کرنے والاہے“۔

۱۴۰