آفتاب ولایت

آفتاب ولایت14%

آفتاب ولایت مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 272

آفتاب ولایت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 272 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157964 / ڈاؤنلوڈ: 5561
سائز سائز سائز
آفتاب ولایت

آفتاب ولایت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

(یااَیُّهَاالنَّاس اِمْتَحِنُوْااَوْلَادَکُمْ بِحُبِّ عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَام)

(”اے لوگو! اپنی اولاد کی علی علیہ السلام کی محبت سے آزمائش کرو“)

اور نیز ترجمہ مذکو ر میں جلد۲،صفحہ۲۲۴پر روایت کی گئی ہے کہ:

(قٰالَتِ الْاَنْصَار:اِنَّ کُنَّالَنَعْرِفَ الرَّجَلُ اِلٰی غَیْرِ اَبِیْهِ بِبُغْضِه عَلِی)

(”انصار کہتے ہیں کہ حرام زادے افراد کو ہم علی علیہ السلام کے بغض سے پہچانتے تھے“)۔

(ه) قٰالَ النَّبِیُ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم لَوِاجْتَمَعَ النّٰاسُ عَلٰی حُبِّ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِبِ لَمْ یَخْلُقِ اللّٰهُ النّٰارَ

”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’اگر تمام لوگ محبت علی علیہ السلام پر اتفاق کرتے(یعنی کوئی علی علیہ السلام کا مخالف نہ ہوتا) تو خداوند تعالیٰ جہنم کو پیدا نہ کرتا‘۔“

حوالہ جات

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة،باب مناقب السبعون،صفحہ۲۸۱،حدیث

۴۱اور باب۴۲،صفحہ۱۴۷اور صفحہ۱۰۴اور اسی طرح خوارزمی مناقب میں اور دوسرے بھی۔

(و)۔ جنگ بدر میں منادی دینے والے کی آواز آئی:

”لَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوْالفِقٰار“

”کوئی جوان نہیں سوائے علی علیہ السلام کے اور کوئی تلوار نہیں سوائے ذوالفقار کے“۔

۱۲۱

حوالہ جات

۱۔ ابن مغازلی، مناقب میں، صفحہ۱۹۷(یوم الاحد)۔

۲۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۳۷۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۶۹،صفحہ۲۷۷۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی،ینابیع المودة ،باب۱۵،ص۱اور باب۵۳،صفحہ۱۸۵اور۲۴۶

۵۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد۳،صفحہ۳۲۴،شمارہ۶۶۱۳۔

۶۔ محب الدین طبری، کتاب ذخائرالعقبیٰ ، صفحہ۷۴،اشاعت قدس مصر اور دوسرے۔

جس وقت حضرت علی علیہ السلام جنگ بدر میں(بعض روایات میں جنگ اُحد) اپنی شجاعت و بہادری بے نظیر سے دشمنوں کی صفوں کو چیررہے تھے اور اُن پر حملوں پر حملے کررہے تھے،اُس وقت آسمان سے ایک آواز آئی اور جس کو سب نے سنا جو یہ تھی:

”لَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوْالفِقٰار“

اس اہم روایت کو بہت زیادہ علمائے شیعہ اور سنی نے نقل کیا ہے۔ البتہ بعض نے اس کو اس طرح نقل کیا ہے:

”لَاسَیْف اِلَّا ذُوْالْفِقٰارلَافَتٰی اِلَّا عَلِی “

(ز) عَنْ علی قٰالَ:اَوْصٰانِی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ عَنْ لاٰ یُغَسِّلُهُ اَحَدٌ غَیْرِیْ

حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے ،انہوں نے فرمایا کہ مجھے نبی اکرم نے وصیت فرمائی کہ یا علی ! سوائے تمہارے مجھے اور کوئی غسل نہ دے۔(یہ روایت اس حقیقت کی دلیل ہے کہ معصوم کو سوائے معصوم کے نہ کوئی غسل دے اور نہ نماز پڑھائے)۔

حوالہ

متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں، جلد۷،صفحہ۲۵۰،اشاعت بیروت(موسسة الرسالہ،صفحہ۱۴۰۵اشاعت پنجم)اور دوسرے۔

۱۲۲

(ح) عَنْ علی علیه السلام قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم: لَوْلَاکَ یَاعَلِیُّ مَا عُرِفَ الْمُومِنُوْنَ مِنْ بَعْدِی ۔

”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’یا علی ! اگر تم نہ ہوتے تو میرے بعد مومنین پہچانے نہ جاتے‘۔“

حوالہ روایت

متقی ہندی، کنزالعمال میں،جلد۱۳،صفحہ۱۵۲۔

(ط) عَنْ اِبنِ مَسْعُوْدٍ قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ مِنِّی کَرُوْحیْ فِیْ جَسَدِیْ ۔

”ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام میرے لئے ایسے ہیں جیسے میرے بدن میں روح“۔

حوالہ روایت

متقی ہندی،کنزالعمال میں،جلد۱۱،صفحہ۴۲۸۔

(ی) عَنْ جابرقٰالَ:قٰالَ النَّبِیُ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم مَکْتُوْبٌ فِی بَابِ الجَنَّةِ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضَ بِاَلْفَیْ سَنَةٍ،لاٰاِلٰهَ اِلَّااللّٰهُ مُحَمَّداٌ رسُولُ اللّٰهِ اَ یَّدْ تُهُ بِعَلیٍ ۔

”جابر کہتے ہیں کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ زمین و آسمان کی خلقت سے ہزار سال قبل جنت کے دروازے پر یہ لکھا ہوا تھا:’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،محمد اس کے رسول ہیں جن کی تائید و حمایت میں نے علی سے کروائی ہے“۔

۱۲۳

حوالہ روایت

متقی ہندی، کنزالعمال میں،جلد۱۱،صفحہ۶۲۴۔

(ک) عَنْ اِبْنِ عَبَّاس،اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم قٰالَ لِعَلِیِّ بْنِ ابِی طالب:اَنْتَ وَلِیُّ کُلِّ مُومِنٍ بَعْدِی ۔

”ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب سے فرمایا:’میرے بعد تم سب مومنوں کے ولی ہو‘۔“

حوالہ جات

۱۔ ابی عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب میں، جلد۳،صفحہ۱۰۹۱،روایت ۱۸۵۵۔

۲۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں، جلد۷،صفحہ۳۳۹،۳۴۵۔

۳۔ متقی ہندی، کنزالعمال ،ج۳،صفحہ۱۴۲(موسسة الرسالہ،بیروت،اشاعت پنجم )۔

(ل) عَنْ النبی صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم قٰالَ: مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَتَمَسَّکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی فَلْیَتَمَسَّکَ بِحُبِّ عَلِیٍّ وَاَهْلِ بَیْتِیْ ۔

”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’جو کوئی چاہتا ہے کہ (اللہ کی) محکم اور نہ ٹوٹنے والی رسی کو تھامے رکھے ،اُسے چاہئے کہ علی علیہ السلام اور میرے اہل بیت کی محبت سے پیوستہ رہے‘۔“

حوالہ روایت

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،صفحہ۲۹۱اور دوسرے۔

۱۲۴

(م) عَنْ سَلمَان عَنِ النَّبیکُنْتُ اَنَاوَعَلِیٌّ نُوْراً یُسَبِّحُ اللّٰهَ وَیُقَدِّ سُهُ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ آدَمَ بِاَرْبَعَةِ اَ لٰافِ عٰامٍ

”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’میں اور علی ایک نور تھے اور آدم کی خلقت سے چار ہزار سال قبل ہم اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تقدیس بیان کرتے تھے‘۔“

حوالہ روایت

ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد۱،صفحہ۵۰۷،شمارہ۱۹۰۴اوردوسرے۔

(ن) عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْن علیه السلام عَنْ اَبِیْهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم أَخَذَ بِیَدِحَسَنٍ علیه السلام وَحُسَینٍ عَلَیْهِ السَّلام فَقٰالَ:مَنْ اَحَبَّنِی وَاَحَبَّ هٰذَیْنِ وَاَبَاهُمَاوَاُمُّهُمَا کَانَ مَعِی فِی دَرَجَتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۔

”حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اپنے والد بزرگوار سے اور وہ اپنے والد بزرگوار حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین کے بازؤوں کو پکڑکرفرمایا:’جوکوئی مجھے اور میرے ان بیٹوں اور ان کے والد اور ان کی والدہ سے محبت رکھے گا، وہ قیامت کے روز میرے ہمراہ ہوگا‘۔“

حوالہ جات

۱۔ مسند احمد بن حنبل،جلد۱،صفحہ۱۶۸،روایت۵۷۶(مسند علی علیہ السلام)۔

۲۔ ابی عمر یوسف بن عبداللہ، استیعاب،ج۳،ص۱۱۰۱،حدیث۱۸۵۵کے تسلسل میں

۳۔ متقی ہندی،کنزالعمال،جلد۱۲،صفحہ۹۷،۱۰۳(موسسة الرسالہ، بیروت،پنجم)۔

۱۲۵

(س) عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ عَبّٰاسٍ قٰالَ:سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم عَنِ الْکَلَمٰتِ الَّتِیْ تَلَقَّاهٰاآدَمُ مِنْ رَبِّه فَتٰابَ عَلَیْهِ قٰالَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم سَأَلَهُ ”بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَعَلِیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ اَلَّا تُبْتَ عَلَیَّ“ فَتٰابَ عَلَیه ۔

”عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا اُن کلمات کے بارے میں جو حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سیکھے اور اللہ تعا لیٰ نے اُن کلمات کی وجہ سے اُن کی توبہ قبول کرلی۔پیغمبر اکرم نے فرمایا:

’حضرت آدم نے اللہ تعالیٰ سے بحق محمد وآل محمد ،(علی ،فاطمہ ، حسن اور حسین ) درخواست کی کہ اُن کی توبہ قبول کرلی جائے۔اللہ تعالیٰ نے اُن کو معاف کیا اور اُن کی توبہ قبول کرلی‘۔“

(اس روایت کی توضیح کیلئے سورئہ بقرہ کی آیت۳۷کی تفسیرالدرالمنثورملاحظہ کی جائے”فَتَلَقَّیٰ آدَمُ مِنْ رَبِّه کلمات “۔

حوالہ جات

۱۔ ابن مغازلی،کتاب مناقب میں،صفحہ۶۳،حدیث۸۹۔

۲۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور،آیت۳۷،سورئہ بقرہ کی تفسیر میں۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب۲۴میں۔

(ع) عَنْ عَلیٍ قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰه:اَلنُّجُوْمُ أَمَانٌ لِاَهْلِ السَّمَاءِ فَاِذَاذَهَبَتِ النُّجُوْمُ ذَهَبَ أَهْلُ السَّمٰاءِ،وَاَهْلُ بَیْتِیْ أَمَانٌ لِاَهْلِ الْاَرْضِ فَاِذا ذَهَبَ اَهْلُ بَیْتِیْ ذَهَبَ اَهْلُ الْاَرْضِ

”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:’ستارے اہل آسمان کیلئے امان و سلامتی ہیں۔ پس جب ستارے ختم ہوجائیں،اہل آسمان بھی ختم ہوجائیں گے۔ میرے اہل بیت زمین پر رہنے والوں کیلئے امان و سلامتی ہیں۔جب میرے اہل بیت دنیا سے رخصت ہوجائیں گے، اہل زمین بھی تباہ و برباد ہو جائیں گے‘۔“

۱۲۶

حوالہ جات

۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة۔

۲۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں،جلد۹،صفحہ۱۷۴۔

۳۔ متقی ہندی،کنزالعمال،ج۱۲،ص۹۶،۱۰۱،۱۰۲،موسسة الرسالہ،بیروت،پنجم

(ف) عَنْ عِبَایَةِ بن رَبْعی،عَنْ اِبْنِ عَبّاسٍ قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اَنَاسَیَّدُ النَّبِیِّیْنَ وَعَلیٌ سَیَّدُ الْوَصِیِّیْنَ اِنَّ اَوْصِیٰائی بَعْدِیْ اِثْنٰی عَشَرَ اَوَّلُهُمْ عَلیٌ وَآخِرُهُمْ القٰائِمُ الْمَهْدِیُّ ۔

”عبایہ بن ربعی، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’میں نبیوں کا سردار ہوں اور علی اوصیاء کے سردار ہیں۔میرے بارہ وصی(جانشین) ہوں گے۔ اُن میں پہلے علی ہیں اور آخری قائم مہدی علیہ السلام(صاحب الزمان) ہیں‘۔“

حوالہ روایت

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب۷۸،صفحہ۳۰۸اور۵۳۷اور دوسرے۔

(ص) عَنِ الْاَصْبَغِ بْنِ نَبٰا تَه عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ عَبَّاسٍ قٰالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یَقُوْلُ أَ نَا وَعَلِیٌ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَتِسْعَةٌ مِنْ وُلْدِالْحُسَیْنِ مُطَهَّرُوْنَ مَعْصُوْمُوْنَ

”اصبغ بن نباتہ، عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول خدا سے سنا کہ فرمارہے تھے :’میں،علی ،حسن ، حسین اور اُن کے نوفرزند پاک اورمعصوم ہیں‘۔“

۱۲۷

حوالہ جات

۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۷۸،صفحہ۳۰۸اور۵۳۷۔

۲۔ فرائد السمطین،جلد۲،صفحہ۱۳۳۔

نوٹ

یہ نکتہ لکھنا ضروری ہے کہ یہاں جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا نام شامل نہیں۔ یہ اس واسطے کہ جناب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حدیث میں مقام نبوت اور امامت کا ذکر فرمارہے تھے وگرنہ پاکیزگی اور معصومیت میں جناب فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا کا مقام تو مرکزی ہے۔

(ق) قٰالَ النَّبِی اِنَّ فَاطِمَةَ وَعَلِیّاً وَالْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ فِیْ حَظِیْرَةِ الْقُدْسِ فِی قُبَّةٍ بَیْضَاءِ سَقْفُهَاعَرْشُ الرَّحْمٰن

”رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہا،علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام جنت کے بالا ترین حصے(حَظِیْرَةُ الْقُدْس)م یں جو سفید نوری ہوگا اور اُس کی چھت رحمٰن کا عرش ہوگا،وہاں یہ رہیں گے“۔

حوالہ حدیث

متقی ہندی،کتاب کنزالعمال ،ج۱۲،صفحہ۹۸،اشاعت بیروت، موسسة الرسالہ۔

۱۲۸

(ر)۔ کتاب ینابیع المودة میں اور اہل سنت کی دیگر کتب میں ایک بہت اہم روایت نقل کی گئی ہے کہ اس میں اسمائے آئمہ معصومین پیغمبر اسلام کی مقدس و پاک زبان سے بیان کئے گئے ہیں۔ اس روایت میں ہر ایک معصوم کا نام وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ انتہائی قابل توجہ اور اہمیت کی حامل روایت ہے۔ البتہ باقی بہت سی کتب میں بھی مختلف روایات اس ضمن میں موجود ہیں لیکن اس کتاب میں درج ذیل پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔

اس روایت کی ابتدا میں ایسے لکھا ہے کہ ایک یہودی پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے سوال کیا:

”ہر پیغمبر کا وصی اور جانشین تھا،لہٰذا مجھے بتائیے کہ آپ کا وصی کون ہے؟ رسول خدانے اُس کے سوال کے جواب میں ارشادفرمایا:

اِنَّ وَصِیِّ عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ وَبَعْدُهُ سِبْطٰایَ الحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ تَتْلُوهُ تِسْعَةُ آئِمَّةٍ مِنْ صُلْبِ الْحُسَیْن

قٰالَ:یٰامُحَمَّدُ فَسَمَّهُمْ لِیْ

قٰالَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اِذٰ مَضَی الْحُسَیْنُ فَاِبْنُهُ عَلِیٍ فَاِذَامَضیٰ عَلِیٌ فَاِبْنُهُ مُحَمَّدٌ،فَاِذَا مَضیٰ مُحَمَّدٌ فَاِبْنُهُ جَعْفَرٌ،فَاِذا َمَضَی جَعْفَرٌ فَاِبْنُهُ مُوْسٰی، فَاِذَامَضیٰ مُوْسٰی فَاِبْنُهُ عَلِیٌ، فَاِذَا مَضیٰ عَلِیٌ فَاِبْنُهُ مُحَمَّدٌ، فَاِذَامَضیٰ مُحَمَّدٌ فَاِبْنُهُ عَلِیٌ، فَاِذَامَضیٰ عَلِیٌ فَاِبْنُهُ الْحَسَنُ، فَاِذَا مَضیٰ الْحَسَنُ فَاِبْنُهُ الْحُجَّةُ الْقٰائمُ الْمَهْدِیُّ فَهٰولَاءِ اِثْنٰی عَشَرَ

”پیغمبر اکرم نے فرمایا:

’بے شک میرا وصی علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے اور اُن کے بعد میرے بیٹے حسن اور حسین ہیں اور اُن کے بعد حسین علیہ السلام کی اولاد سے نو آئمہ ہیں‘۔

۱۲۹

یہودی نے عرض کیا:

’یا محمد! اُن نو آئمہ کے اسمائے گرامی مجھے بتائیے؟‘

حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:

’جب حسین علیہ السلام کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے علی ابن الحسین اور جب علی ابن الحسین کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے محمد اور جب محمد ابن علی کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے جعفر اور جب جعفر ابن محمد کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے موسیٰ اور جب موسیٰ ابن جعفر کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے علی اور جب علی ابن موسیٰ کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے محمد اور جب محمد ابن علی کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے حسن اور جب حسن بن علی کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے حجة القائم مہدی علیہ السلام کی امامت ہوگی،یہ ہیں میرے بارہ وصی و جانشین‘۔“

حوالہ روایت

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب۷۶،صفحہ۵۲۹۔

اس ضمن میں روایت جابر باب۶۳،صفحہ۴۳۳میں بھی بیان کی گئی ہے اور اسی طرح شیعہ اور اہل سنت کی کتب میں روایات موجود ہیں۔

(ش) عَنْ اَبِیْ سَعِید قٰالَ:قٰالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم لَتَمْلَأَنَّ الْاَرْضُ ظُلْماً وَعُدْوٰاناً ثُمَّ لَیَخْرُجَنَّ رَجُلٌ مِنْ اَهْلِ بَیْتِیْ حَتّٰی یَمْلَأُهٰا قِسْطاًوَعَدْلاً کَمَامُلِئَتْ ظُلْماً وَعُدْ وَاناً

”ابی سعید روایت کرتے ہیں کہ رسول خدانے فرمایا:ایسا وقت آئیگا کہ یہ زمین ظلم و ستم سے بھر جائے گی ،اُس وقت میری اہل بیت سے ایک شخص آئے گا جو اس زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح پہلے یہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی تھی“۔

۱۳۰

حوالہ روایت

۱۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال ،ج۱۴،ص۲۶۶،اشاعت بیروت، موسسة الرسالہ

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب مودة العاشر،صفحہ۳۰۸۔

(ت) عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ،عَن رَسُوْلِ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اَلْمَهْدِیُّ مِنْ عِتْرَتِی مِنْ وُلْدِ فَاطِمَةَ

”اُم سلمہ روایت کرتی ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا کہ مہدی میرے خاندان سے ہوں گے اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کے فرزند ہوں گے“۔

حوالہ روایت

متقی ہندی، کتاب کنزالعمال ،ج۱۴،ص۲۶۴،اشاعت بیروت، موسسة الرسالہ

۱۳۱

فضائل علی علیہ السلام انبیاء کی نظر میں

پچھلے باب میں جو روایات پڑھنے والوں کی نظر سے گزریں، وہ فرمودات رسول اکرم حضرت محمد تھے۔ یہ روایات بخوبی بلند شخصیت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کو ظاہر اور روشن کرتی ہیں۔ اب یہ مناسب ہوگا کہ علی کی شخصیت کو دوسرے انبیائے کرام کی نظر سے دیکھیں۔

اس بارے میں تحقیق کرنے سے معلوم ہوگا کہ خدائے بزرگ و برتر نے حضرت علی کی شخصیت کا تعارف تمام انبیاء(حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک) کو خود کروایا ہے۔

یہ حقیقت آسمانی کتب سے اور ارشادات انبیائے کرام (قبل از پیغمبر اسلام) سے بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ ذیل میں ہم چند نہایت اہم واقعات اور مطالب کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروائیں گے۔

آدم علیہ السلام کا پنجتن پاک سے ارتباط

حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حو ّ ا کا واقعہ قرآن میں ذکر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کا جنت سے نکلنا اور زمین پر آباد ہونا ایسا قصہ ہے جسے شاید ہی کوئی ایساہو جو نہ جانتا ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حو ا ترک اولیٰ کی وجہ سے بہشت سے زمین پر بھیجے گئے۔سالہا سال تک حضرت آدم علیہ السلام زمین پر گریہ کرتے رہے اور خدا سے طلب مغفرت کرتے رہے لیکن بالآخر اسمائے پنجتن پاک یعنی محمد، علی علیہ السلام، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کے توسل سے اُن کی توبہ قبول ہوئی جیسے قرآن پاک میں ذکر ہے اور اسی اہم موضوع کی طرف اشارہ ہے:

( فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَبِّه کَلِمٰاتٍ فَتٰابَ عَلَیْهِ اِنَّهُ هُوَالتَّوّٰابُ الرَّحِیْم )

”پس آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کلمات سیکھے، خدا نے اُن کی توبہ قبول کی، بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے“۔(سورئہ بقرہ:آیت۳۷)۔

۱۳۲

اس آیت کی تفسیر میں شیعہ اور سنی اکابرین نے درج ذیل روایت نقل کی ہے جس کو لکھنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں:

عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ عَبّاسٍ قٰالَ:سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم عَنِ الْکَلِمٰتِ الَّتِیْ تَلَقّٰا اٰدَمُ مِنْ رَبِّه فَتَابَ عَلَیْهِ قَالَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم سَأَلَهُ ”بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَعَلِیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ اِلَّا تُبْتَ عَلَیَّ“فَتَابَ عَلَیْهِ ۔

”عبداللہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم سے اُن کلمات کے بارے میں سوال کیا گیا جو حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے دریافت کئے تھے اور جن کی وجہ سے اُن کی توبہ قبول ہوئی تھی۔ جواب میں پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام نے بحق پنجتن پاک (محمد،علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین ) اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ اُن کی غلطی کو معاف فرما۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی غلطی کو معاف کردیا اور اُن کی توبہ کو قبول کرلیا“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب علی علیہ السلام میں، حدیث۸۹،صفحہ۶۳.

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ،ینابیع المودة، صفحہ۱۱۱،باب۲۴اور ص۲۸۳،حدیث۵۵

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں۔

۴۔ تفسیر نمونہ،ج۱،صفحہ۱۹۹اور تفسیر المیزان،جلد۱،صفحہ۱۴۹اوردوسری کتب میں۔

اسی ضمن میں دوسری روایت بھی ملاحظہ ہو:

قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم لَمَّا خَلَقَ اللّٰهُ تَعٰالٰی آدَمَ اَبَالْبَشَرِ وَنَفَخَ فِیْهِ مِنْ رُوْحِهِ اِلْتَفَتَ آدَمُ یُمْنَةَ الْعَرْشِ فَاِذاً فِی النُّوْرِخَمْسَةُ اَشْبٰاحٍ سُجَّداً وَرُکَّعٰا، قٰالَ آدَمُ:(علٰی نَبِیِّنٰا وَآلِه وَعَلَیْهِ السَّلام)هَلْ خَلَقْتَ اَحَداً مِنْ طِیْنِ قَبْلِی؟ قٰالَ لاٰ یَا آدَمَ! قٰالَ:فَمَنْ هٰولٰاءِ الْخَمْسَةِ الْاَشْبٰاحِ الَّذِیْنَ اَرٰاهُمْ فِیْ هَیْئَتِیْ وَصُوْرَتِیْ؟قٰالَ هٰولٰاءِ خَمْسَةٌ مِنْ وُلْدِکَ،لَوْلَاهُمْ مَا

۱۳۳

خَلَقْتُکَ،هٰولٰاءِ خَمْسَةٌ شَقَقْتُ لَهُمْ خَمْسَةَ اَسْمٰاءٍ مِنْ اَسْمٰائِی لَوْلَاهُمْ مٰاخَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَالنّٰارَ ، وِلَاالْعَرَْشَ ، وَلَاالکُرْسِیَ ، وَلَاالسَمَاءَ وَلَاالْاَرْضَ وَلَاالْمَلاٰ ئِکَةَ وَلَاالْاِنْسَ وَلَاالْجِنَّ،فَاَنَاالْمَحْمُوْدُوَهَذٰامُحَمَّدٌوَاَنَالعٰالی وَهٰذَاعَلِیٌّ،وَاَنَاالْفٰاطِرُوَهٰذِهِ فَاطِمَة،وَاَنَاالْاِحْسٰانُ وَهٰذَاالْحَسَن وَاَنَاالْمُحْسِنُ وَهٰذَالْحُسَیْن اَلَیْتُ بِعِزَّتِی اَنْ لٰایَأتِیْنِی اَحَدٌ مِثْقٰالَ ذَرَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ بُغْضِ اَحَدِ هِمْ اِلَّا اَدْخُلُهُ نٰاری وَلٰااُبٰالِی یٰاآدَمَ هٰولٰاءِ صَفْوَتِی بِهِمْ اُنْجِیْهِم وَبِهِمْ اُهْلِکُهُمْ فِاِذَاکَانَ لَکَ اِلَیَّ حٰاجَةٌ فَبِهٰولٰاءِ تَوَسَّلْ

”پیغمبر اکرم نے فرمایاکہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو خلق فرمایا اور اپنی روح میں سے اُس میں پھونکی تو آدم علیہ السلام نے عرش کے دائیں جانب نظر کی تو دیکھا کہ پانچ نوریشخصیات رکوع و سجود کی حالت میں ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے میرے خدا! کیا تو نے مجھ سے پہلے کسی کو مٹی اور پانی سے خلق کیا ہے؟ جواب آیا ،نہیں۔ میں نے کسی کو خلق نہیں کیا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پھر عرض کیا کہ یہ پانچ شخصیات جو ظاہری صورت میں میری طرح کی ہیں، کون ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ پانچ تن تیری نسل سے ہیں، اگر یہ نہ ہوتے تو تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔ان کے ناموں کو اپنے ناموں سے اخذ کیا ہے۔ اگر یہ پانچ تن نہ ہوتے تو نہ بہشت و دوزخ کو پیدا کرتا اور نہ ہی عرش و کرسی کو پیدا کرتا، نہ آسمان و زمین کو پیدا کرتا اور نہ انس و جن و فرشتگان کو پیدا کرتا۔ان پانچ ہستیوں کا تعارف اللہ تعالیٰ نے اس طرح کروایا کہ اے آدم! سنو:

میں محمود ہوں اور یہ محمد ہیں

میں عالی ہوں اور یہ علی ہیں

میں فاطر ہوں اور یہ فاطمہ ہیں

میں محسن ہوں اور یہ حسن ہیں

میں احسان ہوں اور یہ حسین ہیں

۱۳۴

مجھے اپنی عزت وجلالت کی قسم کہ اگر کسی بشر کے دل میں ان پانچ تن کیلئے تھوری سی دشمنی اورکینہ بھی ہوگا،اُس کو داخل جہنم کروں گا۔ اے آدم ! یہ پانچ تن میرے چنے ہوئے ہیں اور ہر کسی کی نجات یا ہلاکت ان سے محبت یا دشمنی سے وابستہ ہوگی۔ اے آدم ! ہر وقت جب تمہیں مجھ سے کوئی حاجت ہوتو ان کا توسل پیدا کرو“۔

حوالہ جات

۱۔ علامہ امینی،کتاب فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا،صفحہ۴۰۔

۲۔ تفسیر المیزان،جلد۱۔

۳۔ مجمع البیان،جلد۱اور دوسری تفاسیر میںآ یت ۳۷،سورئہ بقرہ کے ذیل میں۔

دوسرے انبیاء کی بعثت ولایت پیغمبر و علی کی مرہون منت ہے

عَنِ الْاَسْوَدِعَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ مَسْعُود قٰالَ،قٰالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یا عَبْدَاللّٰهِ أَ تٰانِیْ مَلَکٌ فَقٰالَ:یَامُحَمَّدُ!”وَاسْئَل مَنْ اَرْسَلْنٰامِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُسُلِنٰا“عَلٰی مٰابُعِثُوا؟قٰالَ:قُلْتُ:عَلٰی مٰابُعِثُوْا؟ قٰالَ:عَلٰی وَلَایَتِکَ وَوِلَایَةِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب

”اسود جناب عبداللہ ابن مسعود سے روایت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایاکہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ آیا اور کہا کہ اے پیغمبر خدا!آپ مجھ سے اپنے سے پہلے انبیاء کے بارے میں سوال کریں کہ وہ کس لئے نبوت پر مبعوث ہوئے تھے؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے اُس فرشتے سے کہا ،بتاؤ کہ وہ کس لئے مبعوث ہوئے تھے؟ فرشتے نے کہا کہ وہ آپ کی اور حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کی تصدیق کیلئے مبعوث ہوئے تھے“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، باب حال امام علی ،ج۲،ص۹۷،حدیث۶۰۲،شرح محمودی

۲۔ حاکم نیشاپوری، کتاب ”المعرفة“اپنی سند کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود سے۔

۱۳۵

حضرت علی علیہ السلام آسمانی کتابوں میں

حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کی معرفت اور عظمت کو پہچاننے کا ایک انتہائی اہم ذریعہ آسمانی کتابیں اور گزشتہ پیغمبروں کے صحائف ہیں۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے پہلے انسان اور پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام کو اسمائے اعلیٰ یعنی حضرت محمد،علی علیہ السلام،جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا،حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی تعلیم دی تھی تو انہوں نے ان اسماء کی تعلیم اپنی اولاد اور دوسرے انبیاء کو پہنچا دی۔ محکم روایات سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان نوری افراد کو خلقت بشر سے پہلے پیدا کیا تھا تاکہ دنیا میں یہ افراد بطور نمونہ، کامل ترین اخلاق کا مظہر ہوں۔

لہٰذا موضوع کے اعتبار سے مزید اطلاعات حاصل کرنے کیلئے ہم حکیم سید محمود سیالکوٹی کی کتاب ”علی و پیغمبران“ سے چند اقتباسات لیتے ہیں:

۱۔ نام علی علیہ السلام انجیل میں

آسمانی کتابوں میں خاتم النبیین حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کے جانشین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں بشارت دی گئی تھی۔ لیکن اسلام دشمن لوگ یہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ حقیقت واضح ہو بلکہ اس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے درپے تھے۔مثلاً انجیل میں”صحیفہ غزل الغزلات“ اشاعت لندن،سال۱۸۰۰عیسوی،باب۵،آیت۱

تا۱۰میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ارشادات بیان کئے گئے ہیں جس میں انہوں نے پیغمبر خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کے نائب امیرالمومنین علی علیہ السلام کے بارے میں اشارہ کیا ہے اور آخر میں واضح کہتے ہیں کہ وہ ”خلومحمد یم“(وہ دوست اور محبوب محمد ہیں)۔لیکن وہ انجیل جو ۱۸۰۰ء کے بعد شائع ہوئی ہے، اُن میں سے یہ الفاظ ”خلومحمد یم“ حذف کردئیے گئے ہیں۔ اسی طرح لفظ”ایلیا“ یا”ایلی“ یا ”آلیا“ جو آسمانی کتابوں میں مذکور ہے، مخالفین یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس سے مراد پیغمبر حضرت الیاس یا مسیح یا یوحنّا ہیں ،نہ کہ حضرت علی علیہ السلام۔

۱۳۶

لیکن بہت سے مسیحی علماء نے لفظ ”ایلیا“ یا ”ایلی“ یا ”آلیا“ کے بارے میں تحقیق کی ہے اور وہ تعصب کی دنیا سے باہر آگئے اور پھر اصل حقیقت بیان کی۔

ایک مسیحی عالم Mr. J.B. Galidon لکھتے ہیں:

In the language of oldest and present Habrew the word ALLIA"or "AILEE" is not in the meanings of God or Allah but this word is showing that in text and last time of this world anyone will become nominates "ALLIA" or "AILEE ".

”زبان عبرانی جدید یا قدیم میں لفظ”ایلیا“ یا”ایلی“ سے مراد اللہ نہیں ہے بلکہ اس لفظ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آئندہ زمانے میں یا آخری زمانہ میں کوئی شخص آئے گا جس کا نام ”ایلیا“ یا ”ایلی“ ہوگا“۔

حوالہ

۱. " A notebook on old and new testaments of Bible" published in London in ۱۹۰۸, Vol.۱, page ۴۲۸ ."

۲۔ حکیم سید محمود سیالکوٹی کتاب ”علی اور پیغمبران“،دلائل اور شواہد سے ثابت کیا ہے کہ

اسماء”ایلیا“ یا ”ایلی“ یا ”آلیا“ سے مراد علی علیہ السلام ہیں۔

۲۔ علی او رپیشگوئی داؤد

حضرت علی علیہ السلام کا مقدس نام زبور(حضرت داؤد علیہ السلام کی کتاب) میں بھی آفتاب کی طرح درخشاں ہے۔ آسمانی کتاب زبور میں حضرت علی علیہ السلام کا دنیا میں آنا تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کتاب”علی اور پیغمبران“ میں زبور سے ایک حصہ نقل کیا گیا ہے۔ زبور کا یہ قدیمی نسخہ احسان اللہ دمشقی ،رہبرمسیحیان،شام کے پاس بھی موجود ہے۔

۱۳۷

زبور سے اقتباس

(مطعنی شل قثوتینمر قث پاھینوا نی وز”ایلی“ متازہ امطع ملغ شلو شمائت پزانان ہمنیقتہ خلذ وقث فل”حدار“

کمرتوہ شیھوپلت انی قاہ بوتاہ خزیماہ رث جین”کعاباہ“ بنہ اشود کلیامہ کاذوقثوتی قتمرعندوبریما برینم فل خلذملغ خایوشنی پم مغلینم عت جنحاریون)۔

”تم پر اُس شخصیت جس کا نام ”ایلی“ ہے، کی اطاعت واجب ہے اور دین و دنیاکے ہر کام میں اُس کی فرمانبرداری تمہاری اصلاح کرے گی۔ اُس عظیم شخصیت کو ”حدار“(حیدر) کہتے ہیں۔ وہ بیکسوں اور ضعیفوں کا مددگار ہوگا اور وہ شیروں کا شیرہوگا اور بے پناہ طاقت کا مالک ہوگا۔وہ کعابا(کعبہ) میں پیدا ہوگا۔ تمام پر واجب ہے کہ اُس کے دامن کو پکڑیں اور غلام کی طرح اُس کی اطاعت کیلئے ہمیشہ حاضر رہیں۔ جو سن سکتا ہے اُس کی ہر بات کو غور سے سنے اور جو عقل و فہم رکھتا ہے، اُس کی باتوں کو سمجھے۔ جو دل و مغز رکھتا ہے، وہ غوروفکر کرے کیونکہ جو وقت گزرجاتا ہے، واپس نہیں آتا“۔

۳۔سلیمان کا علی سے مدد مانگنا

اس باب کے شروع میں احادیث و روایات اور سورئہ بقرہ کی آیت۳۷کی تشریح کے حوالہ سے بیان ہوچکا ہے کہ وہ کلمات جو حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یاد کئے تھے اور انہی کلمات کا اللہ تعالیٰ کو واسطہ دیا تھا، پانچ تن پاک کے اسمائے گرامی تھے۔ اب ایک اور پیغمبرحق یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے ہیں جو ان پنجتن پاک کے مقدس ناموں کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک دفعہ پھر کتاب”علی و پیغمبران“ سے اقتباس نقل کرتے ہیں جو ذیل میں درج کیا جارہا ہے:

”پہلی جنگ عظیم(۱۹۱۶ء میلادی عیسوی) میں جب انگریزوں کا ایک دستہ بیت المقدس سے چند کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے گاؤں اونترہ کے پاس مورچہ بندی کیلئے کھدائی کررہا تھا تو وہاں اُن کو ایک چاندی کی تختی ملی جس کے چاروں طرف خوبصورت قیمتی موتی جڑے ہوئے تھے اور اُس کے اوپر سونے کے پانی سے کچھ لکھا ہوا تھا جو کسی قدیم زبان میں تھا ۔وہ اُسے اپنے انچارج میجر ای۔این۔گرینڈل( Maj. E.N.Grandal ) کے پاس لے آئے۔ وہ بھی اس کو نہ سمجھ سکا اور بالآخر اسے اپنے کمانڈر انچیف جنرل گلیڈ سٹون تک پہنچا دیا۔

۱۳۸

وہ بھی اس کو نہ سمجھ سکا اور اُس نے اسے آثار قدیمہ کے ماہرین تک پہنچادیا۔۱۹۱۸ء میں جنگ بند ہوئی تو ایک کمیٹی بنادی گئی جس کے ممبران امریکہ، برطانیہ،فرانس،جرمنی اور دیگر ممالک کے ماہرین تھے۔ چند ماہ کی کوشش اور تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ تختی اصل میں”لوح سلیمانی“ ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے چند کلمات بھی اُس پر لکھے ہوئے ہیں۔ اس تختی پر عبرانی زبان میں لکھا ہوا ہے۔ ہم اس کے اصل الفاظ اور ترجمہ نقل کرتے ہیں:

ترجمہ لوح سلیمانی لوح سلیمانی کا نقش

اللہ

احمد

ایلی

باھتول

حاسن

حاسین

”اے احمد میری فریاد سن لیں

یا ایلی (علی) میری مدد فرمائیے

اے باھتول (بتول ) مجھ پر نظر کرم فرمائیے

اے حاسن (حسن) مجھ پر کرم فرمائیے

اے حاسین (حسین) مجھے خوشی بخشئے

یہ سلیمان پنجتن پاک سے مدد مانگ رہا ہے

اور علی قدرت اللہ ہے“۔

مزید اطلاعات کیلئے کتاب Wonderful Stories of Islam اشاعت لندن،صفحہ۲۴۹پر مراجعہ کریں۔

۱۳۹

۴۔ علی کا نام کشتی نوح کا زیور

پیغمبران بزرگ جو نام مقدس پیغمبر اسلام حضرت محمد،علی علیہ السلام ، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حسنین شریفین علیہما السلام پکار کر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہے، اُن میں حضرت نوح علیہ السلام بھی شامل ہیں۔اس کا ثبوت وہ لکڑی کے تختے ہیں جو روسی معدنیات کے کارکنوں نے دریافت کئے تھے۔ حکیم سید محمود سیالکوٹی نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر اس طرح سے کیا ہے:

”جنوری۱۹۵۱ء میں روسی محکمہ معدنیات کے چند کارکن زمین کھودنے میں مشغول تھے کہ اچانک لکڑی کے چند تختے اُن کو نظر آئے جو عام لکڑی کے تختوں سے مختلف تھے اور کسی چھپے راز کی نشاندہی کرتے تھے۔انہی لکڑی کے تختوں میں ایک ایسی لکڑی کی تختی ملی جس کی لمبائی چودہ انچ اور چوڑائی تقریباً دس انچ تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ باقی تختے وقت گزرنے کے ساتھ کہنہ اور بوسیدہ ہوچکے تھے لیکن یہ تختہ ابھی بالکل اپنی صحیح حالت میں تھا۔ اس پر چند قدیم الفاظ درج تھے۔ روسی حکومت نے تحقیق کیلئے ۲۷/فروری۱۹۵۳ء کو کمیٹی بنائی جس کے ممبران قدیم زبانوں کے ماہر تھے۔ آٹھ ماہ کی سخت محنت اور تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ جو الفاظ لکھے ہوئے ہیں، وہ مدد مانگنے اور سلامتی کی دعا کیلئے لکھے گئے ہیں۔ذیل میں اس کی تصویر دی جارہی ہے:

تحقیقی کمیٹی نے اُن الفاظ کا ترجمہ روسی زبان میں کیا جس کا ترجمہ لسانیات کے ماہرمسٹر این۔ایف۔ماکس( N. F. Maks )نے انگریزی زبان میں کیا جو ذیل میں درج کیا جارہا ہے:

O" my God! my Helper! Keep my hand with mercy andwith your holy bodies, Mohammad, Alia, Shabbar, Shabbir, Fatema. They all are biggests and honourables. The world established for them. Help me by their names. You can reform to right

ترجمہ

”اے میرے اللہ! اے میرے مددگار! ذوات مقدسہ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)،

ایلیا ،شبر ،شبیر اور فاطمہ علیہم السلام کے صدقہ میں مجھ پر اپنا رحم و کرم فرما۔ یہ پنجتن سب سے بڑے اور سب سے زیادہ عزت والے ہیں۔ یہ تمام دنیا اُن کیلئے بنائی گئی۔ اے میرے پروردگار! اُن کے ناموں کا واسطہ! میری مدد فرما۔ تو ہی صحیح راستے کی ہدایت کرنے والاہے“۔

۱۴۰

حضرت موسیٰ شہادت علی سے باخبر تھے

مرحوم علامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب جلاء العیون، جلد۱،صفحہ۲۷۶،باب زندگانی حضرت علی علیہ السلام میں لکھتے ہیں:

”ابن بابویہ ،معتبرسندکے ساتھ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی عالم حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ مسائل پوچھے اور یہ بھی پوچھا کہ آپ کے پیغمبر کا وصی اُن کی زندگی کے بعد اس دنیا میں کتنا عرصہ زندہ رہے گا؟ حضرت نے فرمایا کہ تیس سال۔ اُس یہودی نے پھر سوال کیا کہ بتائیں کہ وہ طبعی موت مرے گا یا قتل کردیاجائے گا؟حضرت نے جواب دیا کہ وہ قتل کردیا جائے گا۔ اُس کے سر پر ضربت لگائی جائے گی۔ اُس یہودی نے کہا:خدا کی قسم! آپ نے سچ کہا۔ میں نے اُس کتاب میں جو حضرت موسیٰ نے تحریر فرمائی ہے اور حضرت ہارون نے لکھی ہے، اسی طرح ہی پڑھا ہے“۔

حضرت ابراہیم اور معرفت علی

جابر ابن عبداللہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کوملکوت دکھائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرش کے پاس ایک نور دیکھا تو پوچھا کہ پروردگار! یہ نور کونسا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نور محمد ہے جو میری مخلوق میں سب سے زیادہ عزت و بزرگی والا ہے، اس نور کے ساتھ ایک دوسرے نور کو بھی دیکھا۔ اُس کے بارے میں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا۔ کہا گیا کہ یہ نور علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ہے جو میرے دین کا مدد کرنے والا ہے۔ ان دو نوروں کے ساتھ تین نور اور دیکھے اور اُن کے بارے میں پوچھا۔ کہا گیا کہ یہ نور فاطمہ ہے جو اپنے حُب داروں کو آتش جہنم سے بچائے گا اور دوسرے دو نور اس کے بیٹے حسن اور حسین کے ہیں ۔ پھر فرمایا:اے میرے پروردگار!میں کچھ اور نور بھی اس نور کے ساتھ دیکھ رہا ہوں۔ کہا گیا کہ یہ اماموں کے نور ہیں جو نسل علی و فاطمہ علیہم السلام سے ہوں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کی پروردگار!تجھے پنجتن پاک کا واسطہ!مجھے ان کا تعارف کروا۔کہا گیا کہ ان میں پہلا علی ابن الحسین اور پھر اُن کے بیٹے محمد اور اُن کے بیٹے جعفر اور اُن کے بیٹے موسیٰ اور اُن کے بیٹے علی اور اُن کے بیٹے محمد اور اُن کے بیٹے علی اور اُن کے بیٹے حسن اور اُن کے بیٹے حجت قائم ہیں“۔

حوالہ کتاب زندگانی فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا،مصنف:آیت اللہ شہید دستغیب،صفحہ۱۲۷،تفسیر برہان سے نقل کی گئی۔

۱۴۱

حضرت ابراہیم بھی شیعان علی سے ہیں

حضرت ابراہیم خلیل اللہ جو انتہائی بڑی منزلت کے مالک تھے۔ جب انہوں نے انوار شیعان اہل بیت کو دیکھاجو آفتاب ولایت کے گرد ستاروں کی طرح چمک رہے تھے،خدا سے التجا کی کہ اُسے بھی شیعان علی میں سے قرار دے ۔ چنانچہ تفسیر سورئہ الصٰفّٰت:آیت۸۳میں:

( وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِه لَاِبْرَاهِیْمَ )

”اور بے شک اُن کے شیعوں میں سے ابراہیم ہیں“۔

حوالہ آیت اللہ دستغیب، کتاب زندگانی فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا، صفحہ۱۲۶۔

حضرت خضر کی حضرت علی سے دوستی

اعمش روایات اور احادیث کے معتبر راوی ہیں اور شیعہ سنی دونوں اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک اندھی عورت تھی۔ اُس کاکام یہ تھا کہ لوگوں کو پانی پلاتی تھی اور کہتی تھی کہ علی علیہ السلام کی دوستی کے صلہ میں پانی پیو۔ اُسی کومکہ میں بھی دیکھا،اس حال میں کہ اُس کی دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ان سے دیکھ سکتی تھی اور پانی پلاتی تھی اور یہ کہتی تھی کہ لوگو! پانی پیو اُس کی دوستی کے صدقہ میں کہ جس نے میری بینائی لوٹا دی۔ اعمش کہتے ہیں کہ میں نے اُس سے اُس کا حال پوچھاتو اُس نے جواب دیا کہ ایک شخص میرے پاس آیااور کہنے لگا کہ تو ہی وہ عورت ہے جو علی علیہ السلام کی حب دار ہے؟ میں نے کہا:ہاں۔ اُس نے کہا:

”اَلّٰلهُمَّ اِنْ کَانَتْ صَادِقَةً فَرُدَّ عَلَیْهَا بَصَرَهَا“

”خدایا! اگر یہ کنیز اپنے دعوے میں سچی ہے تو اس کی بینائی اس کو واپس لوٹا دے“۔

خدا کی قسم! اُس حال میں میری بینائی لوٹ آئی۔ میں نے پوچھا کہ تو کون ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ میں خضر ہوں اور میں شیعہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہوں۔

۱۴۲

حوالہ جات

۱۔ سید ابوتراب صنائی، کتاب قصہ ہای قرآن ، باب شرح زندگی حضرت خضر ،صفحہ۱۲۰

۲۔ زندگانی فاطمة الزہرا،شہید آیت اللہ دستغیب،صفحہ۱۶۲جنہوں نے سفینة البحار جلد

۱،صفحہ۳۹۱سے نقل کیا ہے۔

فضائل علی علیہ السلام خلفاء کی نظر میں

حضرت علی علیہ السلام کی ذات اعلیٰ کی معرفت کا ایک بہترین ذریعہ کلام خلفاء ہے۔ چند وجوہات کی بناء پر ان کا جاننا نہایت ضروری ہے۔

پہلی اہم وجہ تو یہی ہے کہ یہ کلام اُن شخصیات کا ہے جنہیں اصحاب رسول خدا کہلانے کا شرف حاصل ہے اور انہوں نے خود علی علیہ السلام کی بزرگی اور عظیم منزلت کی معرفت کیلئے فرمودات پیغمبر اسلام سنے۔ اس سے زیادہ معتبر ذریعہ اور کیا ہوسکتا ہے؟

دوسری وجہ یہ ہے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والے ان کے کلام کو پڑھ کر زیادہ اثر قبول کریں گے اور تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ افراد شناخت ہوجائیں گے جنہوں نے پیغمبر اسلام کی زندگی مبارک کے بعد اُن کی نصیحتوں اور وصیتوں کو جو علی علیہ السلام کے بارے میں کی گئی تھیں، یکسر بھلا دیا اور حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و ولایت کے حق سے محروم کردیا۔ اسی بحث کے دوران حضرت عائشہ کے فرمودات کا بھی تذکرہ کریں گے جنہوں نے علی علیہ السلام کی عظمت کیلئے کہے تھے:

۱۔کلام حضرت ابو بکر بن ابی قحافہ

(الف)۔فَقٰالَ اَبُوبَکر:صَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ قٰالَ لِی رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ لَیْلَةَ الْهِجْرَةِ،وَنَحْنُ خٰارِجٰانِ مِنَ الْغٰارِ نُرِیْدُ الْمَدِیْنَةَ:کَفِّی وَ کَفُّ عَلِیٍّ فِی الْعَدْلِ سِوَاءٌ

”حضرت ابوبکر بن قحافہ کہتے ہیں کہ خدا اور اُس کے رسول نے سچ کہا۔ہجرت کی رات ہم غار سے باہر تھے اور مدینہ کی طرف جارہے تھے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا:’میرا ہاتھ اور علی کا ہاتھ عدل میں برابر ہیں‘۔“

۱۴۳

حوالہ جات

۱۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، حدیث۱۷۰،صفحہ۱۲۹۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں،باب حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۴۳۸،آخر حدیث۹۵۳(شرح محمودی)۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب مناقب السبعون،ص۲۷۷،حدیث۱۷،صفحہ۳۰۰۔

۴۔ متقی ہندی، کنزالعمال ،ج۱۱،ص۶۰۴(موسسة الرسالہ،بیروت،اشاعت پنجم)

(ب)۔عَنْ عٰائِشةَ قٰالَتْ:رَأَیْتُ اَبَابَکْرِالصِدِّیْقَ یُکْثِرُ النَّظَرَ اِلٰی وَجْهِ عَلِیِ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ،فَقُلْتُ یٰا أَبَةَ اِنَّکَ لَتُکْثِرُالنَّظَرَاِلٰی عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طالِبْ؟ فَقٰالَ لِی:یٰا بُنَیَّةُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یَقُوْلُ ”اَلنَّظَرُ اِلٰی وَجْهِ عَلِیٍ عِبَادَة“ ۔

”حضرت عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے باپ ابوبکر کو دیکھا جو علی علیہ السلام کے چہرئہ مبارک کو بکثرت دیکھ رہے تھے۔ میں نے کہا:بابا جان! آج آپ علی علیہ السلام کے چہرئہ مبارک کو کیوں دیکھ رہے ہیں؟ حضرت ابو بکر نے کہا :”اے میری بیٹی! میں نے رسول خدا سے سنا ہے جنہوں نے فرمایا ہے:”علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ، جلد۷،صفحہ۳۵۸۔

۲۔ سیوطی ،کتاب تاریخ الخلفاء میں، صفحہ۱۷۲۔

۳۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، صفحہ۲۱۰،حدیث۲۵۲،اشاعت اوّل۔

۴۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۳۹۱،حدیث۸۹۵

(شرح محمودی)و دیگر۔

۱۴۴

(ج)۔عَنْ اِبْنِ عُمَرَ قٰالَ:قٰالَ اَبُوْبَکْرٍ الصدیق:اِرْقِبُوْامُحَمَّداً صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم فِی اَهْلِ بَیْتِه اَیْ اِحْفِظُوْهُ فِیْهِمْ فَلٰا تُوْذُوْهُمْ

”ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرنے کہا کہ حضرت محمد کا اور اُن کے اہل بیت کا دھیان رکھیں(یعنی اُن کی عزت و حرمت کا) اور اُن کے اہل بیت کی حفاظت کریں۔ اُن کو اور اُن کے اہل بیت کو اذیت نہ پہنچائیں“۔

حوالہ جات

۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۵۴،صفحہ۱۹۴،۳۵۶۔

۲۔ متقی ہندی، کنزالعمال ،ج۱۳،ص۶۳۸(موسسة الرسالہ، بیروت، اشاعت پنجم)

(د)۔ حارث بن اعور روایت کرتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کے درمیان تشریف فرما تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں ایسے شخص کا پتہ دیتا ہوں جوعلم میں حضرت آدم علیہ السلام ،فہم و ادراک میں حضرت نوح علیہ السلام اور حکمت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسا ہو۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ علی علیہ السلام وہاں تشریف لے آئے، حضرت ابوبکر نے عرض کی:

یٰارَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اِقْتَسْتَ رَجُلاًبثَلاٰثَةٍ مِنَ الرُّسُلِبَخٍ بَخٍ لِهٰذاالرَّجُلِمَنْ هُوَیٰا رَسُوْلَ اللّٰه؟ قٰالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اَوَلَا تَعْرِفُهُ یٰااَبَابَکْرٍ؟قٰالَ:اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ اَعْلَمُقٰالَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم هُوَ اَبُوْالْحَسَنِ عَلِیِّ بْنُ اَبِیْ طَالِبْ فَقٰالَ اَبُوْبَکْرٍ بَخٍ بَخٍ لَکَ یٰا اَبَاالْحَسَنِ وَاَیْنَ مِثْلُکَ یٰااَبَاالْحَسَن ۔

”یا رسول اللہ! آپ نے اُس شخص کو تین رسولوں کے برابر کردیا۔ واہ واہ! وہ شخص کون ہے؟ نبی اکرم نے فرمایا:اے ابوبکر! کیا تو اُس شخص کو نہیں جانتا؟ حضرت ابو بکر نے عرض کی:خدا اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ابوالحسن علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہے۔ پس ابوبکر نے کہا:مبارک مبارک! یا اباالحسن! تمہاری مثال کون ہوگا اے اباالحسن !“

۱۴۵

حوالہ

بوستان معرفت، سید ہاشم حسینی تہرانی، صفحہ۴۴۷،نقل ازخوارزمی، باب۷،ص۴۵۔

(ھ)۔قٰالَ الشَّعْبِیْ:بَیْنَااَبُوْبَکْرٍجٰالِسٌ اِذْطَلَعَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طالِبْ مِنْ بَعِیْدٍ فَلَمَّارَاَهُ اَبُوْبَکْرٍ قٰالَ مَنْ سَرَّهُ اَنْ یَنْظُرَ اِلٰی اَعْظَمِ النّٰاسِ مَنْزِلَةً وَاَقْرَبِهِمْ قَرٰابَةً وَاَفْضَلِهِمْ دٰالَّةً وَاَعْظَمِهِمْ غَنٰاءً عَنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم فَلْیَنْظُرْاِلٰی هٰذَاالطّٰالِعِ ۔

”شعبی نے کہا کہ ابو بکر اپنی جگہ پر تشریف فرما تھے کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام دور سے نظر آئے۔ جب ابوبکر نے اُن کو دیکھا تو کہا کہ ہر کسی کو خوش ہوجانا چاہئے کیونکہ وہ سب سے عظیم انسان کو دیکھے گا ۔ جو مرتبہ میں سب سے اعلیٰ اور (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قرابت داری میں سب سے زیادہ نزدیک ہے اور انسانوں میں سب سے زیادہ بلند ہے اور لوگوں سے بے نیازی میں سب سے زیادہ بے نیاز ہے اور یہ چیز اُس کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ملی ہے۔ پس اُن پر نگاہ کرو جو دور سے نظر آرہے ہیں“۔

حوالہ جات

بوستان معرفت،صفحہ۶۵۰، نقل از ابن عساکر، تاریخ امیر المومنین ،جلد۳،صفحہ۷۰،حدیث۱۱۰۰اور مناقب خوارزمی، باب۱۴،صفحہ۹۸۔

۱۴۶

(و)۔عَنْ زَیْدِ ْبنِ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْن قٰالَ:سَمِعْتُ اَبِیْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْن یَقُوْلُ:سَمِعْتُ اَبِی الْحُسَیْن بنِ عَلِیْ یَقُوْلُ قُلْتُ لِاَبِیْ بَکْرٍ یَا اَبَابَکْرٍ مَنْ خَیْرُ النّٰاسِ بَعدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ؟فَقٰالَ لِی:اَبُوْکَ

”زید بن علی بن الحسین سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:میں نے اپنے بابا علی ابن الحسین سے سنا،وہ فرماتے تھے کہ انہوں نے اپنے بابا حسین بن علی علیہما السلام سے سنا کہ انہوں نے حضرت ابوبکرسے پوچھا:اے ابابکر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کون سا شخص سب سے بہتر ہے؟انہوں نے جواب دیا:تمہارے والد بزرگوار“۔

(ز)۔عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسٰارٍ الْمُزْنِی قٰالَ:سَمِعْتُ اَبَابَکْرٍالصِّدِّیْقَ یَقُوْلُ:عَلِیُّ عِتْرَةُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم ۔

”معقل بن یسار مزنی روایت کرتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ میں نے ابوبکر سے سنا کہ انہوں نے کہا کہ علی علیہ السلام اہل بیت سے ہیں اور خاندان رسول خداسے ہیں“۔

حوالہ

کنزالعمال،جلد۱۲،صفحہ۴۸۹(موسسة الرسالہ،بیروت،اشاعت پنجم)۔

(ح)۔(الریاض النظرةج۲،ص۱۶۳)قٰالَ:جٰاءَ اَبُوبَکرٍوَعَلِی یَزُورٰانِ قَبْرَالنَّبِی صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم بَعْدَ وَفٰا تِه بِسِتَّةِ اَیَّامٍ،قٰالَ عَلِیٌّ عَلَیْهِ السَّلَام لِاَبِی بَکْرٍ تَقَدَّمْ فَقٰالَ اَبُوْبَکْرٍ مٰاکُنْتُ لِأَتَقَدَّمَ رَجُلاً سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یَقُوْلُ:عَلِیٌ مِنِّی بِمَنْزِلَتِیْ مِنْ رَبِّی ۔

۱۴۷

”کتاب ریاض النظرہ،جلد۲صفحہ۱۶۳پر لکھتے ہیں کہ ابوبکر اور حضرت علی علیہ السلام بعد از وفات پیغمبر اسلام متواتر چھ روز تک زیارت قبر کیلئے جاتے رہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر سے کہا کہ آپ آگے آگے چلیں توحضرت ابوبکر نے کہا کہ میں ہرگز اُس شخص کے آگے نہیں چلوں گا جس کے بارے میں خود رسول اللہ سے سنا کہ آپ فرماتے تھے کہ علی علیہ السلام کی منزلت میرے نزدیک وہی ہے جو میری منزلت خدا کے سامنے ہے“۔

(ط)۔عَنْ مَعْقَلِ بْنِ یَسٰارِالْمُزْنِی یَقُوْلُ:سَمِعْتُ اَبٰابَکْرٍالصِّدِّیْقَ یَقُوْلُ لِعَلِیِّ ”عُقْدَةُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم“ ۔

”معقل بن یسار مزنی روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکرصدیق کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام عقدئہ رسول اللہ ہیں“۔

”عقدہ“ بمعنی وہ شخص جو لوگوں سے رسول اللہ کیلئے بیعت منعقد کروائے۔

حوالہ ابن عساکر،تاریخ دمشق میں، شرح حال امام علی ،جلد۳،حدیث۱۰۹۲،ص۵۴

(ی) عَنْ قَیسِ بْنِ حٰازِمٍ قٰالَ:اِلْتَقٰی اَ بُوْبَکْرٍالصِّدِّیْقُ وَعَلِیٍُّ فَتَبَسَّمَ اَبُوْبَکْرٍ فِی وَجْهِ عَلِیٍّ فقٰالَ لَهُ مَالَکَ تَبَسَّمْتَ؟قٰالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَقُوْلُ”لَا یَجُوْزُ اَحَدٌ الصِّرٰ اطَ اِلَّامَنْ کَتَبَ لَهُ عَلِیُّنِ الْجَوٰاز“

”قیس بن حازم سے روایت کی گئی ہے کہ حضرت ابوبکر نے حضرت علی علیہ السلام سے ملاقات کی اور انہوں نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے چہرے کو دیکھا اور مسکرائے۔ حضرت علی علیہ السلام نے پوچھا کہ مسکرانے کی وجہ کیا ہے؟ تو حضرت ابوبکر نے کہا کہ میں نے پیغمبراسلام سے سنا ہے کہ کوئی بھی پل صراط سے نہ گزرسکے گا مگر جس کو علی علیہ السلام نے گزرنے کیلئے پروانہ(اجازت) لکھ کر دیا ہو“۔

۱۴۸

حوالہ جات

نقل از مقدمہ کتاب”پھر میں ہدایت پاگیا“، مصنف:ڈاکٹر سید محمد تیجانی سماوی، صفحہ۲،بمطابق نقل از ابان السمان درالموافقہ، صفحہ۱۳۷اور ابن حجر،کتاب صواعق محرقہ،صفحہ۱۲۶اور ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب علی علیہ السلام،صفحہ۱۱۹۔

(ک)۔ حضرت ابوبکر نے بہت دفعہ برسر منبر مسلمانوں کی کثیر تعداد کے سامنے کہا:

”اَقِیْلُوْنِی،اَقِیْلُوْنِی وَلَسْتُ بِخَیرٍ مِنْکُمْ وَعَلِیٌ فِیْکُمْ“

”مجھے چھوڑ دو،مجھے چھوڑ دو کیونکہ میں تم سے بہترنہیں ہوں جب علی علیہ السلام تمہارے درمیان ہوں“۔

حوالہ جات

جناب محمد رازی، کتاب ”میں کیوں شیعہ ہوا“،صفحہ۳۳۲میں بنقل از فخر رازی،کتاب نہایة العقول۔ اسی طرح طبری،تاریخ طبری میں،بلاذری کتاب انساب الاشراف میں۔سمعانی کتاب فضائل میں۔ غزالی کتاب سرالعالمین میں۔سبط ابن جوزی کتاب تذکرہ قاضی بن روز بہان اور ابی الحدید اور دوسرے۔

حضرت ابوبکر کے کلمات کی تصدیق نہج البلاغہ میں امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خطبہ سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

’فَیٰاعَجَبَابَیْنٰاهُوَیَسْتَقِیْلَهَافِی حِیَاتِهِ اِذْعَقَدَهٰالِآخِرَبَعْدَمَمٰاتِهِ‘

”یہ کتنی تعجب کی بات ہے کہ ابوبکر اپنی خلافت کے زمانہ میں خود خلافت سے استقالہ

(بیزاری) کرتے رہے لیکن اس دنیا سے جاتے ہوئے خلافت کسی اور کے سپرد کرگئے“۔

۱۴۹

۲۔کلام حضرت عمر بن خطاب

(الف) عَنْ عُمَرَبنِ الْخَطَّابِ قٰالَ:کُنْتُ وَ اَبُوْبَکْرٍ وَ اَبُوْعُبَیْدَةٍ وَجَمٰاعَةٌ اِذ ضَرَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم مِنْکَبَ عَلِیٍّ فَقٰالَ:یٰاعَلِیُّ اَنْتَ اَوَّلُ الْمُومِنِیْنَ اِیْمٰاناً وَاَوَّلُهُمْ اِسْلٰاماً وَاَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هٰارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی

”عمر بن خطاب سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہاکہ میں،ابوبکر ،ابوعبیدہ اوربعض دوسرے افراد تھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے شانہ پرہاتھ رکھا اور کہا:یا علی !تم مومنوں میں ایمان کے اعتبار سے سب سے اوّل ہو اور اسلام قبول کرنے کے لحاظ سے بھی اوّل ہو اور تمہاری منزلت کی نسبت میرے نزدیک وہی ہے جو ہارون علیہ السلام کی منزلت کی نسبت موسیٰ علیہ السلام سے تھی“۔

حوالہ جات

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة،صفحہ۲۳۹،اشاعت قم،سال۱۳۷۱ء اور تقی ہندی،کنزالعمال ،جلد۱۳،صفحہ۱۲۲اور۱۲۳(موسسة الرسالہ، بیروت، اشاعت پنجم)۔

(ب) عَنْ عمَّارَالدُّ هْنِی عَن سَالِم بِنْ اَبِیْ الْجَعْد قٰالَ:قِیْلَ لِعُمَرَ:

اِنَّکَ تَصْنَعُ بِعَلیٍ شَیْئاً لٰا تَصْنَعُهُ بِأَحَدٍ مِنْ اَصْحٰابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم قٰالَ:اِنَّهُ مَوْلٰایَ

”عماردھنی،سالم بن ابی جعد سے روایت کرتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر سے پوچھا کہ آپ حضرت علی علیہ السلام سے جس طرح کا(اچھا) سلوک کرتے ہیں، اُس طرح کا(اچھا) سلوک کسی اور صحابی پیغمبر سے نہیں کرتے۔ اس پر حضرت عمر نے جواب دیا :بے شک علی علیہ السلام میرے مولیٰ ہیں“۔

حوالہ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، باب حال امام علی ،ج۲،ص۸۲،حدیث۵۸۴،شرح محمودی

۱۵۰

(ج) عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ قٰالَ:نَصَبَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم عَلِیاً عَلَماً فقٰالَ:مَنْ کُنْتُ مَوْلٰاهُ فَعَلِیٌ مَوْلٰاهُ،اَلَّلهُمَّ وَالِ مَنْ وَالٰاهُ وَعَادِمَنْ عٰادٰاهُ وَاخذُلْ مَنْ خَذَلَهُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَهُ اَلَّلهُمَّ اَنْتَ شَهِیْدِی عَلَیْهِمْ قٰالَ عُمَرُ وَکَانَ فِی جَنْبِی شَابٌ حَسَنُ الْوَجْهِ،طِیِّبُ الرِّیْحِ،فَقٰال:یٰاعُمَرُ لَقَدْعَقَدَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم عَقْداً لٰا یَحِلُّهُ اِلّٰا مُنٰافِقٌ فَاحذَرْاَنْ تَحِلَّهُ قٰالَ عُمَرُ:فَقُلْتُ یٰارَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اِنَّکَ حَیْثُ قُلْتَ فِی عَلِیٍ(مٰاقُلْتَ)کَانَ فِیْ جَنْبِی شَابٌ حَسَنُ الوْجَهِ طَیِّبُ الرِّیْحِ قٰالَ کذٰاوکَذٰا قٰالَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم نَعَمْ یٰاعُمَرُاِنَّهُ لَیْسَ مِنْ وُلْدِآدَمَ لَکِنَّهُ جِبْرَئِیْلُ اَرٰادَ اَنْ یُوکَّدَعَلَیْکُمْ مٰا قُلْتُهُ فِیْ عَلِیٍّ

”عمر بن خطاب سے روایت کی گئی ہے ،انہوں نے کہاکہ رسول خداحضرت علی علیہ السلام کو سب سے بہتر اور بزرگ جانتے تھے۔پس رسول خدا نے فرمایا کہ جس کامیں مولا ہوں،اُس کا علی مولا ہیں۔پروردگار!تو اُس کو دوست رکھ جو علی علیہ السلام کو دوست رکھے اور اُس کودشمن رکھ جو علی سے دشمنی رکھے اور اُس کو ذلیل و رسوا کر جو علی علیہ السلام کو رسوا کرے اور اُس کی مدد فرما جو علی کی مدد کرے۔ پروردگار! تو اس پر میرا گواہ رہنا۔

حضرت عمر نے کہا کہ ایک خوش شکل نوجوان جس سے پاکیزہ خوشبو آرہی تھی، اُس نے مجھ سے کہا کہ یا عمر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے۔ اب اس کو کوئی نہیں توڑے گامگر منافق۔اے عمر! تو بھی محتاط رہ کہ اس کو نہ توڑے۔ حضرت عمر نے کہا کہ میں نے رسول خدا کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ! جب آپ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرمارہے تھے تو وہ خوش شکل، اچھی خوشبو والا جوان مجھ سے اُسی طرح کہہ رہا تھا۔ حضرت رسول خدا نے فرمایا:ہاں، اے عمر! وہ آدم کی اولاد سے نہ تھابلکہ وہ جبرائیل تھا اور چاہتا تھا کہ جو میں نے علی علیہ السلام کے بارے میں کہا ہے،وہ تجھ سے تاکیداً کہے“۔

۱۵۱

حوالہ جات

۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة(باب مودّت الخامسہ)صفحہ۲۹۷۔

۲۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق میں،باب حال علی ،جلد۲،صفحہ۸۰(شرح محمودی)نقل ازبخاری تا ریخ کبیر سے،جلد۱،صفحہ۳۷۵اور دوسرے۔

(د) عَنْ عَمّٰارِالدُّهْنِیْ عَنْ اَبِی فٰاخِتَةَ ، قٰالَ: اَقْبَلَ عَلِیٌ وَعُمَرُجٰالِسٌ فِی مَجْلِسِهِ فَلَمَّارَاٰهُ عُمَرُ تَضَعْضَعَ وَتَوٰاضَعَ وَتَوَسَّعَ لَهُ فِی الْمَجْلِسِ،فَلَمَّاقٰامَ عَلِیٌ،قٰالَ بَعْضُ الْقَوْمِ:یٰااَمِیْرَالْمُومِنِیْنَ اِنَّکَ تَصْنَعُ بِعَلِیٍ صَنِیعًا مٰاتَصْنَعُهُ بِاَحَدٍ مِنْ اَصْحٰابِ مُحَمَّدٍ قٰالَ عُمَرُ:وَمٰارَأَیْتَنِی اَصْنَعُ بِهِ؟قٰالَ:رَأَیْتُکَ کُلَّمٰارَأَیْتَهُ تَضَعْضَعْتَ وَتَوٰاضَعْتَ وَاَوْسَعْتَ حَتّٰی یَجْلِسَ قٰالَ:وَمٰایَمْنَعُنِی،وَاللّٰهِ اِنَّهُ مَوْلٰایَ وَمَوْلٰی کُلِّ مُومِنٍ

”عماردھنی، ابی فاختہ سے روایت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بیٹھے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے تو جب حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کوآتے دیکھا تو لرزے اور استقبال کیا اور اپنے پاس بیٹھنے کیلئے جگہ بنائی۔جب علی علیہ السلام چلے گئے تو ایک شخص نے حضرت عمر سے کہا کہ اے میرے آقا! آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے ایسا سلوک کیا ہے جوآپ کسی دوسرے صحابی پیغمبر سے نہیں کرتے۔ حضرت عمر نے کہا کہ میں نے کونسا ایسا سلوک کیا ہے جو تو نے دیکھا؟ اُس شخص نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ جیسے ہی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی تو آپ لرزے اور اُن کا استقبال کیا اور اُن کے بیٹھنے کیلئے جگہ مہیا کی کہ وہ بیٹھ جائیں۔ حضرت عمرنے کہا کہ مجھے کونسی چیز اس سلوک سے باز رکھ سکتی ہے! خدا کی قسم! حضرت علی علیہ السلام میرے بھی مولیٰ ہیں اور تمام مومنین کے بھی مولیٰ ہیں“۔

حوالہ

ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، باب شرح حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۸۲،حدیث۵۸۵(شرح محمودی)۔

۱۵۲

(ھ)قٰالَ عُمَرُبْنُ الْخَطَّاب:لَقَدْ أُعْطِیَ عَلِیٌ ثَلاٰثَ خِصٰالٍ لَأَنْ تَکُوْنَ لِی خَصْلَةٌ مِنْهَا اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ أَنْ أُعْطِیَ حُمُرَ النَّعَمِ،فَسُئِلَ وَمٰاهِیَ؟قٰالَ تَزْوِیجُ النَّبِیِّ اِبْنَتَهُ وَسُکْنٰاهُ الْمَسْجِدَ لَایَحِلُّ لِاَحَدٍ فِیْهِ مٰایَحِلُّ لِعَلیٍ وَالرّٰایَةُ یَوْمَ خَیْبَرٍ ۔

”حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے تین سعادتیں عطا فرمائی ہیں کہ اُن میں سے ایک بھی سعادت مجھے ملتی تو وہ مجھے سرخ اونٹوں کی قطاروں سے بھی زیادہ محبوب ہوتی۔ پوچھا گیا کہ وہ کونسی سعادتیں ہیں؟ حضرت عمر نے جواب دیا:

پہلی: پیغمبر اسلام کی بیٹی سے شادی کرنا۔

دوسری: مسجد کے اندر حضرت علی علیہ السلام کے گھرکا دروازہ کھلناجو کسی دوسرے کیلئے جائز نہ تھا

مگر علی علیہ السلام کے لئے جائز تھا۔

تیسری: جنگ خیبر میں پیغمبر اسلام کا علی علیہ السلام کو عَلَم عطا کرنا۔

حوالہ جات

۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ،کتاب ینابیع المودة،باب سوم،صفحہ۳۴۳۔

۲۔ حاکم المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۲۵۔

۳۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۹،صفحہ۱۲۰۔

۴۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، باب حال امام علی ،ج۱ص۲۱۹حدیث۲۸۲شرح محمودی

۱۵۳

(و)۔عَنْ ابنِ عباس:مَشِیْتُ وَعُمَرَبْنَ الْخَطّٰابِ فِی بَعْضِ اَزِقَّةِ الْمَدِیْنَةِ فَقٰال لِییا ابن عباسوَاللّٰهِ لَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یَقُوْلُ لِعَلِیِ بنِ اَبِی طَالِبٍ:مَنْ اَحَبَّکَ اَحَبَّنِی وَمَنْ اَحَبَّنِیْ اَحَبَّ اللّٰه، وَمَنْ اَحَبَّ اللّٰهَ اَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ مُدْخَلاً

”ابن عباس روایت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ میں اور حضرت عمربن خطاب مدینہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ حضرت عمر نے مجھ سے کہا:اے ابن عباس! خدا کی قسم، میں نے رسول اللہ سے سنا،رسول خدانے علی علیہ السلام سے کہا:’یا علی ! جس نے تمہیں دوست رکھا، اُس نے مجھے دوست رکھا اور جس نے مجھے دوست رکھا،اُس نے گویا اللہ تعالیٰ کو دوست رکھا اور جس نے اللہ کو دوست رکھا،اُسے اللہ تعالیٰ بہشت میں داخل کرے گا“۔

حوالہ کتاب تاریخ دمشق ،باب حال امام علی علیہ السلام،جلد۲،صفحہ۳۸۸(شرح محمودی)۔

(ز)۔عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ ضَبِیْعَةَ الْعَبْدِی،عَنْ اَبِیْهِ،عَنْ جَدِّهِ قٰالَ:أَتٰی عُمَرَبْنَ الْخَطّٰابِ رَجُلاٰنِ سَأَلاٰهُ عَنْ طَلاٰقِ الْأَمَةِ،فَقٰامَ مَعَهُمٰا فَمَشیٰ حَتّٰی أَتیٰ حَلْقَةً فِی الْمَسْجِدِ،فیهٰارَجُلٌ اَصْلَعُ،فَقٰال:اَیُّهَاالْاصْلَعُ مٰاتَریٰ فِی طَلاٰقِ الْأَمَةِ؟فَرَفَعَ رَأسَهُ اِلَیْهِ ثُمَّ أَوْمَأَ اِلَیْهِ بِالسَّبٰابَةِ وَالْوُسْطیٰ،فَقٰالَ لَهُ عُمَرُ:تَطلِیقَتٰانِفَقٰالَ اَحَدُهُمٰا:سُبْحٰانَ اللّٰهِ،جِئْنٰاکَ وَأَنْتَ اَمِیْرُالْمُومِنِیْنَ فَمَشِیْتَ مَعَنٰاحَتّٰی وَقَفْتَ عَلٰی هٰذِهِ الرَّجُلِ فَسَأَ لْتَهُ،فَرَضِیْتَ مِنْهُ أَنْ أُوَمَاَاِلَیْکَ؟فَقٰالَ لَهُمٰا(عُمَرُ)مٰا تَدْرِیَانِ مَنْ هٰذَا؟قٰالَ:لاٰقٰالَ هٰذَا عَلیُّ بْنُ اَبی طٰالِبٍأُشْهِدُعَلٰی رَسُوْلِ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم لَسَمِعْتُهُ وَهُوَ یَقُوْلُ:اَنَّ السَّمٰاوٰاتِ السَّبْعِ وَالْارْضِیْنَ السَّبْعِ لَوْوُضِعَتٰافِی کَفَّةِ(میزٰانِ)ثُمَّ وُضِعَ اِیْمٰانُ عَلِیٍّ فِی کَفَّةِ مِیزٰانِ لَرَجَعَ اِیْمٰانُ عَلِیٍّ ۔

”دومرد حضرت عمر بن خطاب کے پاس آئے اور اُن سے کنیز کی طلاق کے بارے میں سوال کیا۔حضرت عمر ان کو ہمراہ لے کر مسجد کی طرف آئے ۔بہت سے لوگ مسجد میں بیٹھے تھے۔ اُن کے درمیان ایک شخص بیٹھا تھا(جس کے سر کے اگلے حصے کے تھوڑے سے بال گرے ہوئے تھے)۔حضرت عمر نے اُن سے پوچھا کہ کنیز کی طلاق کیلئے آپ کی کیا رائے ہے؟

۱۵۴

اُس شخص نے سربلند کیا اور اپنی شہادت والی انگلی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا اور جواب دیا۔ پس حضرت عمر نے سائل کو جواب کی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ کنیز کیلئے دو طلاقیں ہیں۔اس پر اُن دومردوں میں سے ایک نے کہا:سبحان اللہ۔ ہم تو آپ کے پاس آئے تھے کہ آپ خلیفہ وقت ہیں اور ہمارے امیرالمومنین ہیں اور آپ تو ہمیں اس شخص کے پاس لے آئے ہیں اور مسئلہ اُس سے پوچھتے ہیں اور اُس کے اشارہ کے ہی جواب پر راضی اور مطمئن ہوگئے۔ اس پر حضرت عمر نے اُن دونوں مردوں سے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ وہ مرد کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ، ہم نہیں جانتے۔ حضرت عمر نے جواب دیا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے خود سنا ہے کہ اگر ترازو کے ایک پلڑے میں سات زمینیں اور ساتوں آسمان رکھ دئیے جائیں اور دوسرے پلڑے میں ایمان علی رکھ دیا جائے تو ایمان علی والا پلڑا بھاری ہوگا“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب حال امام علی ،ج۲ص۳۶۵حدیث۸۷۲شرح محمودی

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، صفحہ۲۸۹،شمارہ۳۳۰،اشاعت اوّل اور خوارزمی،

باب۱۳،مناقب میں،صفحہ۷۸،اشاعت از تبریز۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، آخر باب۶۲،صفحہ۲۵۸اور دوسرے۔

(ح)۔فقال عُمَرُبْنُ الْخَطَّابِ:عَجَزَتِ النِّسٰاءُ اَنْ یَلِدْنَ مِثْلَ عَلِی ۔

”حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ تمام عورتیں عاجز ہیں کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسا فرزند پیدا کریں“۔

حوالہ

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۶۵،صفحہ۴۴۸۔

۱۵۵

(ط)۔عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ عَبّٰاسِ قٰالَ:سَمِعْتُ عُمَرَبْنَ الْخَطّٰابِ یَقُوْلُ:کُفُّوْا عَنْ ذِکْرِ عَلِیٍّ فَلَقَدْ رَأَیْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ فِیْهِ خِصٰالاً لَاَنْ تَکُونَ لِی وٰاحِدَةً مِنْهُنَّ فِیْ آلِ الْخَطّٰابِ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمّٰاطَلَعَتْ عَلَیْهِ الشَّمْسُ

”عبداللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی بدگوئی سے پرہیز کرو کیونکہ میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علی علیہ السلام کی فضیلتوں اور خصلتوں کو دیکھا کہ اگر اُن میں سے ایک بھی فضیلت خاندان خطاب میں ہوتی تو وہ مجھے ہرچیز اور زمین کی ہرجگہ جہاں پر سورج چمکتا ہے، سے عزیز تر ہوتی“۔

حوالہ کتاب آثار الصادقین، جلد۱۴،صفحہ۲۱۲،نقل از فضائل الخمسہ،جلد۲،صفحہ۲۳۹،کنزالعمال،جلد۶،صفحہ۳۹۳۔

(ی)۔عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطّٰابِ،قٰالَ:قٰالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم:مَااکْتَسَبَ مَکْتَسِبٌ مِثْلَ فَضْلِ عَلِیٍّ،یَهْدِی صٰاحِبَهُ اِلَی الْهُدٰی وَیَرُدُّ عَنِ الرَّدٰی ۔

”حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کو بھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسی فضیلت میسر نہ آسکی جو اپنے ساتھی اور پاس بیٹھنے والے کو ہدایت کرتا ہے اور اُسے گمراہ ہونے سے باز رکھتا ہے“۔

حوالہ

آثارالصادقین،جلد۱۴،صفحہ۲۱۲،نقل از الغدیر،جلد۵،صفحہ۳۶۳اور فضائل الخمسہ جلد۱،صفحہ۱۶۷،مستدرک سے۔

۱۵۶

(ک)۔عَنوَعُمَرِبْنِ الْخَطّٰاب وَ،اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم قٰالَ:اَلنَّظَرُاِلٰی وَجْهِ عَلِیٍّ عِبٰادَةٌ ۔

”بہت سے راویوں اور عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ حضرت علی علیہ السلام کے چہرے پر نگاہ کرنا عبادت ہے“۔

حوالہ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ، جلد۷،صفحہ۳۵۸۔

(ل)۔عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفْلَةَ،قٰالَ:رَأیٰ عُمَرُرَجُلاً یُخٰاصِمُ عَلِیّاً،فَقٰالَ لَهُ عُمَرُ:اِنِّی لَأَظُنُّکَ مِنَ الْمُنٰافِقِیْنَ!سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَقُوْلُ:عَلِیُّ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هٰارُوْنَ مِنْ مُوسٰی اِلاّٰ اَنَّهُ لٰاَنْبِیَّ بَعْدِی ۔

”سوید بن غفلہ سے روایت کی گئی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمر نے ایک شخص کو دیکھا جو حضرت علی علیہ السلام سے جھگڑ رہا تھا۔حضرت عمر نے اُس شخص سے کہا کہ میرا گمان ہے کہ تو منافقوں میں سے ہے کیونکہ میں نے خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ علی علیہ السلام کی منزلت میرے نزدیک وہی ہے جو ہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا“۔

حوالہ جات

آثار الصادقین،جلد۱۴،صفحہ۲۸۶،نقل از ابن عساکر ،تاریخ دمشق، باب شرح حال امام علی علیہ السلام،جلد۱،صفحہ۳۶۰۔

(م)۔عَن اَبِی هُرَیْرَةَ،عَن عُمَرَبْنِ الْخَطّٰابِ قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم مَنْ کُنْتُ مَوْلاٰهُ فَعَلِیٌّ مَوْلاٰهُ

ابوہریرہ ، عمر بن خطاب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا :

”جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے“۔

۱۵۷

حوالہ جات

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب حال امام علی ،ج۲،ص۷۹،حدیث۵۸۱،شرح محمودی

۲۔ ابن مغازلی، مناقب میں،صفحہ۲۲،شمارہ۳۱،اشاعت اوّل۔

(ن)۔قٰالَ عُمَرُبْنُ الْخَطّٰابِ:عَلِیٌّ أَقْضٰانٰا

”حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ ہم میں سے سب سے زیادہ عدل(قضاوت) کرنے والے علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

حوالہ جات

۱۔ حافظ ابونعیم،حلیة الاولیاء میں،جلد۱،صفحہ۶۵۔

۲۔ سیوطی، تاریخ الخلفاء میں، صفحہ۱۷۰۔

۳۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ ،جلد۷،صفحہ۳۶۰۔

۴۔ بلاذری،کتاب انساب الاشراف میں،جلد۲،صفحہ۹۷،حدیث۲۱،اشاعت اوّل ۔

(س)۔عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطّٰابِ،عَنِ النَّبِی صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم کُلُّ سَبَبٍ وَنَسَبٍ یَنْقَطِعُ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ اِلاّٰ سَبَبِی وَنَسَبِی وَکُلٌّ وُلْدِآدَمَ فَاِنَّ عَصَبَتَهُمْ لِأَبِیْهِمْ مٰاخَلاٰ وُلْدِ فٰاطِمَةَ،فَاِنِّیْ أَ نَاأَبُوْهُمْ وَعَصَبَتْهُمْ

”حضرت عمر بن خطاب روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ قیامت کے روز تمام سببی اور نسبی رشتے منقطع ہوجائیں گے سوائے میرے سببی اور نسبی رشتوں کے۔ تمام اولادآدم کی نسبت اُن کے باپوں سے ہے، سوائے میری بیٹی فاطمہ کے۔ حقیقت میں مَیں اُن کا باپ بھی ہوں اوراُن کی قوم بھی“۔

حوالہ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۵۷،صفحہ۳۲۰۔

۱۵۸

(ع)۔قٰالَ عُمَرُبْنُ الْخَطّٰابِ:لاٰ یُفْتِیَنَّ اَحَدٌ فِی الْمَسْجِدِ وَعَلِیٌّ حٰاضِرٌ ۔

”حضرت عمر بن خطاب نے کہا کہ جب تک حضرت علی علیہ السلام مسجد میں تشریف رکھتے ہوں،کوئی دوسرا فتویٰ نہ دے“۔

حوالہ

آثار الصادقین،جلد۱۴،صفحہ۴۹۲،نقل از الامامُ الصادق،جلد۲،صفحہ۵۸۲۔

(ف)۔قٰالَ عُمَرُبْنُ الْخَطّٰابِ:یَابْنَ اَبِیْطٰالِبٍ،فَمٰازِلْتَ کٰاشِفَ کُلِّ شُبْهَةٍ وَمَوْضِعَ کُلِّ عِلْمٍ

”حضرت عمر بن خطاب(حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب کرکے کہتے ہیں)کہ اے ابو طالب کے فرزند ! آپ نے ہمیشہ شک و شبہات کو دور کیا اور کل علم کی جگہ پر فائز رہے ہیں“۔

حوالہ

آثارالصادقین،جلد۱۴،صفحہ۴۹۳،نقل از الامام الصادق،جلد۲،صفحہ۵۸۲۔

(ص)۔قٰالَ عُمَرُ:لاٰ أَبْقٰانِی اللّٰهُ بَعْدَ عَلِیِّ ابْنِ اَبیطٰالِبٍ ۔

”حضرت عمر بن خطاب نے کہا:پروردگارا! مجھے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بعد زندہ نہ رکھنا“۔

حوالہ آثار الصادقین، جلد۱۴،صفحہ۲۹۳،نقل از الغدیر،جلد۶،صفحہ۱۲۶۔

(ق)۔قٰالَ عُمَرُفِی عِدَّةِ مَوَاطِنَ:لَولاٰعَلِیٌّ لَهَلَکَ عُمَر ۔

”حضرت عمر نے متعدد مواقع پر کہا کہ اگر حضرت علی علیہ السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا“۔

۱۵۹

حوالہ جات

۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ، کتاب ینابیع المودة،باب۱۴،صفحہ۸۰اور۲۴۹۔

۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب،باب۵۹،صفحہ۲۲۷۔

(ر)۔عَنْ سَعِیْدِبْنِ الْمُسَیِّبِ قٰالَ:قٰالَ عُمَرُابْنُ الْخَطّٰابِ:اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ مُعْضَلَةٍ لَیْسَ لَهٰاأَبُوالْحَسَنِ،عَلِیُّ بْنُ اَبِی طٰالِبٍ ۔

”سعید ابن مسیب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب سے سنا کہ انہوں نے کہا کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اُس مشکل سے جس کے حل کیلئے ابوالحسن(علی علیہ السلام)موجودنہ ہوں“۔

حوالہ جات

۱۔ بلاذری، کتاب انساب الاشراف ، جلد۲،صفحہ۹۹،حدیث۲۹،باب شرح حال علی ۔

۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں،باب۵۷،صفحہ۲۱۷۔

۳۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء میں،صفحہ۱۷۱۔

۴۔ حاکم المستدرک میں(باب المناسک)جلد۱،صفحہ۴۵۷۔

۵۔ ابن کثیر،کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۶اور دوسرے۔

(ش)۔قٰالَ عُمَرُابْنُ الْخَطّٰابِ:اَلّٰلهُمَّ لاٰ تُنْزِلْ بِی شَدِیْدَةً اِلَّاوَاَبُوْ الْحَسَنِ اِلٰی جَنْبِی ۔

”حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں :پروردگار!مجھ پر کوئی سختی(مشکل کام) نازل نہ فرما مگر علی ابن ابی طالب علیہ السلام میرے پاس ہوں“۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272