آفتاب ولایت

آفتاب ولایت14%

آفتاب ولایت مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 272

آفتاب ولایت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 272 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 165700 / ڈاؤنلوڈ: 6191
سائز سائز سائز
آفتاب ولایت

آفتاب ولایت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

”میری عمر ضائع ہوگئی اور باطل پر گزر گئی ۔ اب جب میں مرگ کے قریب ہوں،میرا ہاتھ خالی ہے، تنہا میرا آسرا اور میرے دل کی راحت کا سامان عترت پیغمبر (یعنی علی و فاطمہ وحسن اورحسین ) ہیں“۔

حوالہ کتاب ”سید الشہداء“،مصنف:آیة اللہ شہید دستغیب،صفحہ۱۱۸اور کتاب”ولاء ھا وولایتھا“، مصنف: شہید مرتضیٰ مطہری، صفحہ۳۹۔

عمر بن فارض مصری ایک معروف عربی شاعر ہے۔ برادران اہل سنت اُسے صاحب کرامت مانتے ہیں اور اُس کے بہت بلند مرتبے کے قائل ہیں۔ اُس نے یہ اشعار اپنے قصیدہ”یائیہ اش“ کے آخر میں لکھے ہیں۔

مجد الد ّین ابن جمیل

فأنی سوف أدعوااللّٰه فیه

وأجعل مدح(حیدرةٍ) أماما

وأبعثها الیه مُنَقّحات

یفوح المسک منها والخزامی

ومن اعطاة یوم (غدیر خُمٍّ)

صریح المجد والشرف القدامی

ومن ردّت ذکاء له فصلّی

أداءً بعد ماثنت اللثاما

۲۲۱

واَثر بالطّعام وقد توالت

ثلاث لم یذق فیها طعاماً

بقرص من شعیر لیس یرضی

سوی الملح الجریش له اِداما

اباحسن وانت فتی اذا ما

دعاه المستجیر حمی و حاما

أزرتک یقظةً غرر القوافی

فزرنی یابن فاطمة مناما

بشّرنی بأنَک لی مجیرٌ

وانّک مانعی من أن اضاما

فکیف یخاف حادثة اللیالی

فتیً یعطیه (حیدرةٌ) ذماما؟

۲۲۲

”میں اُس مہینے(ماہ حرام) میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا اور مدح و ثنائے علی علیہ السلام کو اپنے سامنے رکھوں گا اور وہ اس حالت میں ہوگی کہ وہ پاکیزہ ہوگی اور اُس میں سے مُشک و عنبر کی خوشبو آتی ہوگی۔ اسے میں حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں پیش کروں گا۔ علی علیہ السلام ، وہ جن کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے یوم غدیر خم سب کے سامنے بزرگی و شرافت و بلند مرتبہ عطا فرمایا۔ وہ علی علیہ السلام جس کیلئے اُس وقت سورج پلٹا جب چاروں طرف تاریکی چھا چکی تھی تاکہ وہ وقت پر نماز پڑھ سکیں۔یہ وہ علی ہیں جنہوں نے متواتر تین روز تک کوئی غذا نہ کھائی اور اپنی غذا دوسروں کو دے دی۔(یہ سورئہ دہر کی طرف اشارہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( وَیُطْعِمُوْنَ الطعَامَ عَلَی حُبِّه مِسْکِیْناً وَّ یَتِیْماً وَ اَسِیْرا )

اُن کی غذا نان جویں ہوتی تھی اور وہ اس پر راضی نہ ہوتے تھے کہ ان کے ساتھ نمک کے علاوہ کوئی اور غذا رکھی جائے۔ اے ابوالحسن ! تو ایساجواں مرد ہے کہ اگر کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو تو یقینا اُس کو پناہ دیدے گا۔ اے فاطمہ بنت اسد کے بیٹے! میں ان اشعار کے ذریعے جاگتے ہوئے تیری زیارت کیلئے آیا ہوں ۔ تو بھی مجھے سوتے ہوئے اپنی ملاقات کا شرف عطا فرما اور مجھے یہ بشارت دے کہ تو مجھے پناہ دے گا اور مجھے رنج و غم سے نجات دلا ئے گا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنے کاموں کی باگ ڈور حیدر کے ہاتھ میں دے اور پھر بھی حوادث زمانہ سے ڈرے“۔

حوالہ

کتاب”الغدیر“، جلد۵،صفحہ۴۰۱۔

مجد الدین ابن جمیل ساتویں صدی ہجری کے علماء اور شعراء میں سے ہیں۔ الغدیر کے مصنف کے مطابق وہ عباسیہ دور میں خلیفہ الناصر الدین اللہ کی شان میں بھی قصائد لکھتے رہے ہیں، اس لئے انہوں نے کافی شہرت پائی۔انہوں نے دیوان بنام”ترکات حشریہ“ لکھا۔ وہ کافی عرصہ زندان میں رہے کہ ایک شب انہوں نے یہ قصیدہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں لکھا اور اگلے ہی دن زندان سے رہائی مل گئی۔

۲۲۳

مولانا جلال الد ّین رومی

مولانا جلال الدین مولوی محمد بن الحسین البلخی المشہور مولانا روم ایک بزرگ اور عظیم شاعر تھے جنہوں نے اسلام اور ادبیات ایران کی بڑی خدمت کی ہے۔ کلیات مثنوی معنوی اُن کی معروف تصنیف ہے۔ مولانا مذہب حنفی رکھتے تھے۔ کتاب ”فرہنگ بزرگان و اسلام“ میں انہیں صفحہ۵۷۶پر فقیہ حنفی کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔

ذیل میں ہم زبان فارسی کے اشعار نقل کررہے ہیں جو مدح امیر المومنین علی علیہ السلام کی بہترین مثال ہیں۔ اشعار کا ترجمہ پیش نہیں کیا جارہا۔ اس کو قارئین پر چھوڑ رہے ہیں۔

فضائل علی علیہ السلام غیر مسلم مفکرین کی نظر میں

امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جس سے اپنے اور غیرسبھی مفکرین اور دانشمند متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جس کسی نے اس عظیم انسان کے کردار،گفتار اور اذکار میں غور کیا، وہ دریائے حیرت میں ڈوب گیا۔ غیر مسلم محققین اور دانشوروں نے جب امام المتقین علیہ السلام کے اوصاف کو دیکھا تو دنگ رہ گئے کیونکہ انہوں نے افکار علی کو دنیا میں بے نظیر اور لاثانی پایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے دیکھا کہ آپ میں کمال طہارت، جادوبیانی، حرارت ایمانی، بلندی روح انسانی، بلند ہمتی، نرم خوئی جیسی صفات موجود ہیں۔ ایک اور سکالر نے کہا کہ علی علیہ السلام روشن ضمیر، شہید محراب اور عدالت انسانی کی پکار تھے۔ وہ مولا علی کوستاروں سے بلند مقام پر سمجھتا ہے۔

ایک محقق لکھتا ہے کہ علی علیہ السلام وہ پہلی شخصیت ہیں جن کا پورے جہان سے روحانی تعلق ہے۔ وہ سب کے دوست ہیں اور اُن کی موت پیغمبروں کی موت ہے۔ دوسرا محقق لکھتا ہے کہ علی علیہ السلام روح و بیان میں ایک لامتناہی سمندر کی مانند ہیں اور ان کی یہ صفت ہر زمان اور ہر مکان میں ہے۔

۲۲۴

امیر المومنین علی علیہ السلام کی ان تمام صفات کو استاد شہریار ایک شعر میں یوں بیان کرتے ہیں:

نہ خدا تو انمش گفت نہ بشرتو انمش خواند

متحیرم چہ نامم شہ ملک لافتیٰ را

”میں(علی علیہ السلام)کو نہ تو خدا کہہ سکتا ہوں اور نہ ہی بشر کہہ سکتا ہوں۔ میں حیران ہوں کہ اس شہ ملک لافتیٰ کو کیا کہوں!“

آئیے اب غیر مسلم مفکروں کے نظریات کو دیکھتے ہیں:

شبلی شُمَیل(ایک عیسائی محقق ڈاکٹر)

”امام علی ابن ابی طالب علیہما السلام تمام بزرگ انسانوں کے بزرگ ہیں اور ایسی شخصیت ہیں کہ دنیا نے مشرق و مغرب میں، زمانہ گزشتہ اور حال میں آپ کی نظیر نہیں دیکھی“۔

حوالہ

کتاب ادبیات و تعہد در اسلام، مصنف: محمد رضا حکیمی، صفحہ۲۵۰۔

ولتر(فرانسیسی فلاسفر اور رائٹر ،اٹھارہویں صدی)

ولتر نے اپنی کتاب جو آداب و رسوم اقوام کے بارے میں لکھی، اُس میں رقمطراز ہے کہ خلافت علی برحق تھی اور اسی کی وصیت پیغمبر اسلام نے کی تھی۔ آخری وقت میں پیغمبراکرم نے قلم دوات طلب کی کہ حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کو خود اپنے ہاتھ سے لکھ دیں۔ ولتر اس بات پر پشیمان ہے کہ پیغمبر اسلام کی یہ وصیت کیوں نہ پوری کی گئی۔ جبکہ اُن کا جانشین علی کومقرر کردیا گیا تھاتوپیغمبر اسلام کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے حضرت ابوبکر کو کیوں خلیفہ چن لیا تھا؟

۲۲۵

تھامس کارلائل(ایک انگریز فلاسفر اور رائٹر)

تھامس کارلائل لکھتا ہے:

”ہم علی کواس سے زیادہ نہ جان سکے کہ ہم اُن کو دوست رکھتے ہیں اور اُن کو عشق کی حد تک چاہتے ہیں۔ وہ کس قدر جوانمرد، بہادر اور عظیم انسان تھے۔ اُن کے جسم کے ذرّے ذرّے سے مہربانی اور نیکی کے سرچشمے پھوٹتے تھے۔ اُن کے دل سے قوت و بہادری کے نورانی شعلے بلند ہوتے تھے۔ وہ دھاڑتے ہوئے شیر سے بھی زیادہ شجاع تھے لیکن اُن کی شجاعت میں مہربانی اور لطف و کرم کی آمیزش تھی۔

اچانک کوفہ میں کسی بہانے سے اُنہیں قتل کردیاگیا۔ اُن کے قتل کی وجہ حقیقت میں اُن کا عدل جہانی کو درجہ کمال تک پہنچانا تھا۔ وہ دوسروں کو بھی اپنی طرح عادل تصور کرتے تھے۔ جب علی سے اُن کے قاتل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر میں زندہ رہا تو میں جانتا ہوں(کہ مجھے کیا فیصلہ کرنا چاہئے) ۔اگر میں زندہ نہ بچ سکا تو یہ کام آپ کے ذمہ ہے۔اگر آپ نے قصاص لینا چاہاتو آپ صرف ایک ہی ضربت لگا کر سزا دیں اور اگر اس کو معاف کردیں تو یہ تقویٰ کے نزدیک تر ہے“۔

حوالہ

کتاب ”داستان غدیر“، صفحہ۲۹۴،نقل از کتاب صوت العدالة،صفحہ۱۲۲۹۔

نرسیسان(ایک عیسائی عالم جو بغداد میں سفارت برطانیہ کا انچارج بھی تھا)

”اگر یہ بے مثال اور عظیم خطیب(علی علیہ السلام) آج بھی منبر کوفہ پر آکر خطبہ دیں تو مسجد کوفہ اپنی تمام تر وسعت کے باوجود یورپ کے تمام رہبران او رعلماء سے کھچا کھچ بھرجائے گی۔یہ رہبراور علماء اس لئے آئیں گے کہ وہ اپنے علم کی پیاس اس در شہر علم کے بیکراں سمندر سے بجھا سکیں“۔

حوالہ کتاب”داستان غدیر“،نقل از کتاب”ماہونہج البلاغہ“،صفحہ۳۔

۲۲۶

سلیمان کتانی(ایک عیسائی لبنانی دانشور)

”مہاجرین کی اوّلین شخصیات میں سے علی علیہ ا لسلام سب سے زیادہ معروف تھے۔ انہوں نے بہت سی جنگوں اور معرکوں میں فتح حاصل کرکے اپنے نام کا سکہ بٹھادیا تھا۔ لیکن ان کامیابیوں سے بھی قیمتی چیز یہ تھی کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے دل میں ایک مقام بنالیا تھا۔ وہ پیغمبر اسلام ہی کے تربیت یافتہ تھے۔ وہ اُن کے دوست بھی تھے۔ ایسے ساتھی بھی تھے جو کبھی جدا نہ ہوئے۔ وہ (حضرت علی علیہ السلام) پیغمبر اسلام کی بیٹی سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ہمسر بھی تھے۔ پیغمبر اسلام کی عظیم بیٹی جو اپنے والد کو سب سے زیادہ عزیز تھی، وہ(علی علیہ السلام) حسن و حسین کے والد بزرگوار بھی تھے جن سے نسل پیغمبر چلی۔ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والے تھے۔ وہ دین کے سب سے طاقتور محافظ ، شجاع ترین حامی اور مستحکم جنگجو تھے۔ وہ سب سے زیادہ عقلمند،حالات کی نزاکت کو سمجھنے والے رہبر، بے نظیرمقرر اور دین کا بہترین دفاع کرنے والے تھے۔ان تمام حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے پیغمبر اسلام خدا سے دعا کرتے ہیں:

’پروردگار! ہرکوئی جو علی کو دوست رکھے، تو بھی اُسے دوست رکھ اور جو اُس سے دشمنی رکھے، تو بھی اُس سے دشمنی رکھ۔ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔ علی قرآن سے ہے اور قرآن علی سے ہے‘

حوالہ کتاب’امام علی ، مشعلی و د ژی‘، مصنف:سلیمان کتانی، ترجمہ جلال الدین فارسی،صفحہ۳۴۔

”جتنے بھی فضائل و خصائل علی علیہ السلام میں اکٹھے ہو گئے تھے، وہ جب منظر عام پر آئے تو انسان کی عظمت بلند ہوئی اور یہ علی علیہ السلام ہی کی مرہون منت ہے“۔

حوالہ

کتاب’امام علی ، مشعلی و ژری‘ مصنف:سلیمان کتانی،ترجمہ جلال الدین فارسی،صفحہ۸۷۔

۲۲۷

”حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے جس وقت سے اسلام کو پایا، اسلام (کے اصولوں) پر ہی زندگی بسر کی اور تمام مشکلات و زحمات جو اس راہ میں آئیں، اُن کو بخوشی قبول کیا۔ تمام مشکلات و مصائب کو ثابت قدمی اوردلیری سے گلے لگایا“۔

حوالہ

کتاب’امام علی ، مشعلی و ژری‘، مصنف:سلیمان کتانی، ترجمہ جلال الدین فارسی،صفحہ۲۶۔

”جس وقت علی علیہ السلام خلافت(ظاہری) پر پہنچے ،انہوں نے اپنا وظیفہ اور فرض سمجھا کہ دو محاذوں پر مقابلہ کیا جائے۔ پہلا محاذ لوگوں کو انسانی بلندی و عظمت سے آگاہ کرنا تھا اور دوسرا فتوحات جنگی کو اسلامی اصولوں کے تحت استوار کرنا تھا۔ یہی نکات تھے جو سرداران عرب کو ناپسند تھے اور انہوں نے بغاوت کے علم اٹھالئے“۔

حوالہ

کتاب”امام علی مشعلی و ژری“، مصنف:سلیمان کتانی، ترجمہ جلال الدین فارسی،صفحہ۱۳۴۔

”کونسی ایسی چیز ہے جو نہج البلاغہ(حضرت علی علیہ السلام کے ارشادات و خطبات پر کتاب) میں بیان کی گئی ہے اور وہ اُس چیز کی روح اصلی کی عکاسی نہ کرتی ہو۔ ایسا لگتا ہے جیسے آفتاب کا تمام نور سمٹ کر تن علی ابن ابی طالب علیہ السلام میں سماگیا ہو۔

کونسا ایسا کام ہے جو علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں انجام دیا ہو اور اُس کی تعبیر(انجام) انتہائی اعلیٰ نہ ہوئی ہو اور جس کی علت، اعلیٰ اقدار انسانی یا فطرت فرشتگان آسمانی کے خلاف ہو“۔

حوالہ

کتاب”امام علی مشعلی و ژری“، مصنف:سلیمان کتانی، ترجمہ جلال الدین فارسی،صفحہ۲۱۳۔

۲۲۸

جانین(شاعرجرمنی)

”علی علیہ السلام کو دوست رکھنے اور اُن پر فدا ہونے کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ ہی نہیں کیونکہ وہ شریف النفس، اعلیٰ درجے کے جوان تھے۔ اُن کا نفس پاک تھا جو مہربانی اور نیکی سے بھرا پڑا تھا۔ اُن کا دل جذبہ قربانی اور محبت سے لبریز تھا۔ وہ بپھرے ہوئے شیر سے بھی زیادہ بہادر اور شجاع تھے، لیکن ایسے شجاع جن کا دل شجاعت کے ساتھ ساتھ لطف و مہربانی، دلسوزی اور محبت کے جذبات سے سرشار تھا“۔

حوالہ

چکیدہ اندیشہ ہا،مصنف:سید یحییٰ برقعی، صفحہ۲۹۶۔

پروفیسر استانسیلاس گویارد(فرانسیسی مصنف)

”معاویہ نے بہت سے کاموں میں خلاف اسلام قدم اٹھائے جیسے وہ علی ابن ابی طالب جو پیغمبر اسلام کے بعد شجاع ترین، پرہیزگار ترین، فاضل ترین اور خطیب ترین فرد عرب تھے، سے برسر پیکارہوگیا“۔

حوالہ

کتاب”شیعہ“،مجموعہ مذاکرات (جو مرحوم علامہ طباطبائی اور پروفیسر ہنری کرین کے مابین ہوئے)کے صفحہ۳۷۱اور کتاب”سازمانہای تمدن امپراطوری اسلام“ مصنف:پروفیسر

گویارد(ترجمہ فارسی)صفحہ۱۸سے نقل کی گئی ہے۔

۲۲۹

بارون کاردایفو(فرانسیسی دانشور)

”علی علیہ السلام حادثات سے علی نہیں بنے بلکہ علی سے حادثات وجود میں آئے۔ اُن کے اعمال خود اُن کی فکر و محبت کا نتیجہ تھے۔ وہ ایسے پہلوان تھے جو دشمن پر عین غلبہ کے وقت بھی انتہائی نرم دل اور زاہد بے نیاز ثابت ہوئے۔ وہ دنیاوی مال و منصب سے بالکل رغبت نہ رکھتے تھے اور حقیقت میں انہوں نے اپنی جان بھی قربان کردی۔ وہ گہری روح رکھتے تھے جس کی جڑوں کی گہرائی تک کوئی نہ پہنچ سکتا تھا۔ہرجگہ وہ خوف الٰہی میں غرق رہتے تھے“۔

حوالہ کتاب”علی کیست“،مصنف: فضل اللہ کمپانی، صفحہ۳۵۷۔

جُرجی زیڈان(ایک مشہور عرب دانشور و مصنف)

”معاویہ اور اُس کے ساتھیوں نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے کسی بھی بُرے کام سے دریغ نہ کیا لیکن علی علیہ السلام اور اُن کے ساتھیوں نے صراط مستقیم اور حق کے دفاع سے کبھی کنارہ نہ کیا“۔

حوالہ

کتاب”شیعہ“، مصنف: مرحوم علامہ طباطبائی ،صفحہ۳۷۴اور اسے نقل کیا ہے کتاب

”تاریخ تمدن اسلام“،جلد۴،صفحہ۸۴،۹۴۔

”کیا علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کے چچا زاد بھائی، جانشین اور داماد نہ تھے؟

کیا وہ ایک عظیم دانشور، پرہیزگار اور منصف مزاج نہ تھے؟

کیا وہ ایک مخلص اور غیرت مند مرد نہ تھے جن کی مردانگی اور غیور ہونے کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں نے عزت حاصل کی؟“

حوالہ

”داستان غدیر“،صفحہ۲۹۳اور یہ نقل کیا گیا ہے کتاب”۱۷رمضان“،صفحہ۱۱۶۔

۲۳۰

امین نخلہ(ایک لبنانی عیسائی معروف دانشور)

”تم چاہتے ہو کہ میں علی علیہ السلام کے بلیغ ترین کلام میں سے ایک سو کلمے(اقوال) چن لوں۔ میں گیا اور نہج البلاغہ کو تھام لیا۔ ورق پر ورق الٹتا گیا مگر خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اُن کے سینکڑوں ارشادات میں سے ایک سو کلمے(اقوال) بلکہ ایک کلمہ(قول) بھی کیسے چنوں! میں محسوس کرتا ہوں کہ ایک یاقوت کو باقی لعل و گوہر سے کیسے منتخب کیا جائے۔ بس یہی کام میں نے کیا۔ جب میں ایک یاقوت تلاش کررہا تھا تو میری نظر یں اُس کی چمک اور گہرائی میں کھو گئیں۔

سب سے زیادہ حیرت والی بات میرے لئے یہ تھی کہ میں گمان نہیں کرتا کہ علم و دانش کے اس منبع سے خود کو جدا کرسکوں گا۔

اس دفعہ تو ان سو کلموں(اقوال) کو لے لو اور یاد رکھو کہ یہ علم و دانش کی نورانی کان میں سے صرف چند نمونے ہیں یا ایسے کہوں کہ باغ میں سے ایک شگوفہ ہے۔ ہاں! ادبیات عرب سے آشنا لوگ جانتے ہیں کہ نہج البلاغہ ایک نعمت الٰہی ہے جس کی وسعت سو کلموں سے کہیں زیادہ ہے“۔

حوالہ

”داستان غدیر“،صفحہ۲۹۳اور یہ کتاب”۱۷رمضان“ سے نقل کی گئی ہے۔

ایک عرب دانشور کا قول

”اگرحضرت علی علیہ السلام ابن ملجم کے ہاتھوں شہید نہ ہوتے تو عین ممکن تھا کہ وہ اس دنیا میں بے انتہا لمبی زندگی پاتے کیونکہ انہوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں اور اپنے وجود میں کمال کا اعتدال قائم کردیا تھا“۔

حوالہ کتاب”این است آئین ما“،مصنف: مرحوم کاشف الغطاء، ترجمہ و شرح:حضرت آیت اللہ ناصر مکارم،صفحہ۱۹۳۔

۲۳۱

پولس سلامہ(ایک لبنانی عیسائی ادیب اور وکیل)

”ایک رات میں بیدا رتھا اور دردورنج میں مبتلا تھا۔ میرے تصورات اور تخیلات مجھے بہت پیچھے لے گئے۔ پہلے شہید اعظم امام علی علیہ السلام اور پھر امام حسین علیہ السلام کی یاد آئی۔ میں کافی دیر تک روتا رہا۔ پھر علی و حسین کے بارے میں اشعار لکھے“۔

یہ عیسائی مصنف اپنے آپ کو غیر متعصب کہتا ہے اور یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مسائل کو کھلی آنکھ اور غیر جانبدار دل و دماغ سے دیکھتا ہے۔ وہ فضائل علی علیہ السلام کو لکھنے کے بعد شہادت علی کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

”اے داماد پیغمبر! تیری شخصیت ستاروں کی گردش گاہوں سے بھی بلند ہے۔ یہ نور کی خصوصیت ہے کہ وہ پاک و پاکیزہ باقی رہتا ہے۔ دنیاوی گردوغبار اُس کی اصلی چمک کو ماند نہیں کرسکتا۔ہر کوئی جو شخصیت کے اعتبار سے اعلیٰ اور ثروتمند ہے، وہ کبھی فقیر نہیں ہوسکتا۔ اُس کی پاک نسل اور خاندانی شرافت دوسروں کے غموں میں شریک ہواور اعلیٰ و بزرگ ہوگئی ہے۔ دین و ایمان کی راہ کا شہید مسکراتے ہوئے دردوتکلیف برداشت کرتا ہے۔ اے ادب و سخن کے استاد! تیرا کلام بحرئہ اوقیانوس سے بھی گہرا ہے“۔

حوالہ ”داستان غدیر“، صفحہ۳۰۱۔

جبران خلیل جبران(ایک معروف عیسائی مصنف)

”میرے عقیدے کے مطابق ابو طالب کا بیٹا علی علیہ السلام پہلا عرب تھا جس کا رابطہ کل جہان کے ساتھ تھا اور وہ اُن کا ساتھی لگتا تھا۔ رات اُس کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی تھی۔ علی علیہ السلام پہلے انسان تھے جن کی روح پاک سے ہدایت کی ایسی شعائیں نکلتی تھیں جو ہر ذی روح کو بھاتی تھیں۔ انسانیت نے اپنی پوری تاریخ میں ایسے انسان کو نہ دیکھا ہوگا۔ اسی وجہ سے لوگ اُن کی پُر معنی گفتار اور اپنی گمراہی میں پھنس کے رہ جاتے تھے۔ پس جو بھی علی علیہ السلام سے محبت کرتا ہے، وہ فطرت سے محبت کرتا ہے او رجو اُن سے دشمنی کرتا ہے، وہ گویا جاہلیت میں غرق ہے۔

علی علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن خود کو شہید اعظم منوا گئے۔ وہ ایسے شہید تھے کہ لبوں پر سبحانَ ربی الاعلیٰ کا ورد تھا اور دل لقاء اللہ کیلئے لبریز تھا۔ دنیائے عرب نے علی علیہ السلام کے مقام اور اُن کی قدرومنزلت کو نہ پہچانا،یہاں تک کہ اُن کے ہمسایوں میں سے ہی پارسی اٹھے جنہوں نے پتھروں میں سے ہیرے کو چن لیا۔

۲۳۲

علی علیہ السلام نے ابھی تو اپنا پیغام مکمل طو رپر اہل جہان تک نہ پہنچایا تھا کہ ابدی دنیا کی طرف راہی ہوگئے۔ لیکن میں اس چیز پر حیران ہوں کہ قبل اس کے کہ علی علیہ السلام اس خاکی دنیا کو خیرباد کہتے، اُن کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔

حضرت علی علیہ السلام کی موت اُن پیغمبران خدا کی موت کی طرح تھی جو اس دنیا میں آئے۔اُن لوگوں کے ساتھ ایک مدت زندگی بسر کی جو اُن کے قابل نہ تھے اور آخر وقت وہ تن تنہا اور خالی ہاتھ تھے“۔

حوالہ ”داستان غدیر“، صفحہ۲۹۵۔

ایلیا پاولویچ پطروشفسکی(روسی مورخ)

”علی ،محمد کے تربیت یافتہ تھے۔ وہ دین اسلام کے حد درجہ وفادار تھے۔ علی علیہ السلام عشق کی حد تک دین کے پابند تھے۔ وہ سچے اور صادق تھے۔ اخلاقی معاملات میں انتہائی منکسر المزاج تھے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ اُن کے وجود پاک میں اولیاء اللہ ہونے کیلئے لازم تمام صفات موجود تھیں“۔

حوالہ ”داستان غدیر“،صفحہ۲۹۷جو ”اسلام در ایران“باب اوّل سے نقل کیا گیا ہے۔

میخائل نعیمہ(مشہور عیسائی عرب مصنف)

”امام علی علیہ السلام کی قوت و شجاعت کا سکہ صرف میدان جنگ تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ صفات الٰہی یعنی طہارت، حرارت ایمانی، تقویٰ، نرم خوئی ، بلند ہمتی، درد انسانی، جادوبیانی، مدد محروم و مظلوم اور حمایت حق میں بھی یکتا تھے۔

وہ ہر حال اور ہر صورت میں دین حق کی سربلندی چاہتے تھے۔ اُن کی یہی قوت ایمانی ہمیشہ متحر ک اور لوگوں کیلئے چراغ راہ بنی رہی ہے۔ اگرچہ دن بہ دن ، ماہ بہ ماہ اور سال بہ سال گزرتے رہے، آج بھی اور کل بھی ہمارا یہ شوق بڑھتا ہی جارہا ہے کہ اُن کی تعمیر کردہ حکمت و دانائی کی عمارت تک پہنچ جائیں۔

۲۳۳

سچ تو یہ ہے کہ کوئی مورخ یا مصور چاہے کتنا ہی عقلمند اور دانا کیوں نہ ہو، مرد عظیم مثل علی کی شخصیت کی صحیح عکاسی نہیں کرسکتا، وہ چاہے ہزار صفحے پر ہی محیط کیوں نہ ہو۔ یہ اس لئے کہ علی ایسے اسرارو رموز کے مالک یکتا عرب انسان تھے جنہوں نے کثیر غوروفکر کیا ۔ جو کہا،اُس پر عمل کیا۔ اپنے اور اپنے رب کے درمیان ایسا راز و نیاز قائم کیا جس کو نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا۔ اُن کی شخصیت اُس سے کئی ہزار گنا بلند تر ہے جو زبان یا قلم نے ظاہر کیا ہے۔

پس علی علیہ السلام کی جو بھی تصویر کھینچی جائے، وہ اصل کے مقابل میں ناقص ہی نظر آئے گی۔ علی علیہ السلام ہر زمان و مکان میں بے مثل و بے نظیر ہیں“۔

حوالہ

کتاب ”امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام“،تالیف: عبدالفتاح عبدالمقصود،جلد۱،صفحہ۱۷،مقدمہ کتاب۔

بارون کارادوو(معروف فرانسیسی مورخ ومحقق)

”علی علیہ السلام ایسے بلند ہمت، شجاع اور بہادرانسان تھے جو پیغمبر اسلام کے ہمراہ اُن کے قدم بہ قدم دشمنوں کے ساتھ جنگ لڑتے رہے اور آپ نے بڑے بڑے معجز نما کام انجام دئیے۔ معرکہ بدر میں علی علیہ السلام ۲۰سالہ جوان تھے کہ اپنے ایک ہی وار میں قریش کے ایک گھڑ سوار کو دو ٹکڑے کردیا۔ جنگ اُحد میں پیغمبر اسلام کی تلوار(ذوالفقار) کو اپنے ہاتھ میں لیا اور دشمن کے سروں کے خود کو کاٹ دیا۔ اُن کی زرہوں کو پھاڑ دیا۔ جنگ خیبر میں ایک ہی حملے میں یہودیوں کے قلعہ کے بہت ہی وزنی دروازے کو اپنے ایک ہاتھ سے اکھاڑ دیا اور اُسے اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ پیغمبر اسلام اُن کو بہت عزیز رکھتے تھے اور اُن پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ ایک دن پیغمبر نے علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:

”مَنْ کُنْتُ مَوْلاهُ فَعَلِیٌ مَوْلَاهُ“

حوالہ

کتاب”امام علی “، تالیف: عبدالفتاح عبدالمقصود،جلد۱،صفحہ۱۶،مقدمہ کتاب۔

۲۳۴

جارج جُرداق(ایک معروف مسیحی مصنف)

”تاریخ اور حقیقت انسانی کیلئے یکساں ہے کہ کوئی علی علیہ السلام کو پہچانے یا نہ پہچانے،

تاریخ اور حقیقت انسانی خود گواہی دے رہی ہے کہ علی علیہ السلام کا ضمیر زندہ و بیدار تھا۔ وہ شہید راہ خدا تھے اور شہداء کے جد تھے، عدالت انسانی کی فریاد تھے۔ مشرق کی ہمیشہ زندہ رہنے والی شخصیت تھے۔

ایک کُل جہان! کیا تیرے لئے ممکن ہے کہ باوجوداپنی تمام قوتوں کے ، اپنی ترقی علم و ہنر کے علی جیسا ایک اور انسان جو علی جیسی عقل رکھتا ہو، اُسی جیسا دل ، ویسی ہی زبان اور ویسی ہی تلوار رکھتا ہو، اس دنیا کو دے دیتی؟“

حوالہ

کتاب ”امام علی “، تالیف: عبدالفتاح عبدالمقصود،جلد۱،صفحہ۱۸،مقدمہ کتاب۔

”علی علیہ السلام کا وجود اُس گروہ انسانی کیلئے انقلابی تھا جو اسلام کے اجتماعی نیک اہداف کے خلاف تھا۔ وہ گروہ اسلام کو منحرف کرنا چاہتا تھا۔ در حقیقت علی علیہ السلام حضرت محمد بن عبداللہ کے بعد اس انقلاب کے نمائندہ اور بانی تھے۔ اس کے اصولوں اور قوانین کو قائم کرنے والے وہی تھے۔ اس کے اہداف کو مشخص اور روشن کرنے والے تھے۔ علی تاریخ انسانی میں انقلابی ترین شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی گفتاروکردار سے اس راہ میں بھرپور کوشش کی۔

علی کے اقوال، ارشادات، گفتار اور خطبات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے ہر فرد کے اندرونی اور بیرونی احساسات سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ عادلانہ معاشرتی نظام کو قائم رکھنے کیلئے تہذیب اخلاق انتہائی ضروری ہے اور معاشرے میں ہر فرد کو سرگرم عمل رکھنے کیلئے صحیح نظام حکومت بھی اُتنا ہی ضروری ہے۔

علی کا افراد کی شخصیت پر اعتماد اور اطمینان اُسی طرح تھا جس طرح افراد کی شخصیت کو اعتماد عقل روشن، قلب مہربان اور دل عشق حقیقی میں غلطاں دیتا ہے اور یہ تمام صفات علی علیہ السلام کے گرداگرد اکٹھی ہو گئی تھیں۔ اسی لئے اس اعتماد کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے علی کا فرمان ہے:

’اگر کوئی تجھ پر نیک ہونے کا گمان کرے تو تو اُس کے گمان کی(اپنے عمل سے) تصدیق کر‘۔

۲۳۵

صبرو بُردباری کی یہ فضیلت وہ عظیم فضیلت ہے جس کو تم اخلاق و صفات علی ابن ابی طالب علیہما السلام میں سب سے نمایاں پاؤ گےکیا علی علیہ السلام اُن افراد کے مقابلے میں جو اُن کے خون کے پیاسے تھے، صابر و بردبار نہ تھے؟ کیا علی علیہ السلام نے اُن کے ساتھ فراخدلانہ اور مشفقانہ سلوک نہ کیا تھا کہ وہ اُن کی اس فضیلت کو پہچان سکتے؟ کیا وہ اُن کے ساتھ محبت و عاطفت کے ساتھ پیش نہ آتے تھے؟ کیا علی علیہ السلام اُن کے ساتھ برادرانہ برتاؤ نہیں کرتے تھے؟ کیاحضرت علی علیہ السلام نے کبھی اُن کے ساتھ گلہ و شکوہ کیا؟ کیا انہیں کبھی شرمندہ کیا؟ کیا علی علیہ السلام نے دشمنوں کے سخت رویے اور تکلیف دہ اقدامات کا مردانہ وار صبرواستقامت سے مقابلہ نہیں کیا؟کیاحضرت علی علیہ السلام کی تمام زندگی صبرواستقامت کی زندگی نہ تھی جب ہر طرف سے اُن کے مقابل طوفان اٹھتے رہے؟کیا یہ شرفاء اور روساء کی ہوس پرستی نہ تھی کہ دنیا والوں کے ساتھ مل کر اُن کی طرف پشت کرلی تاکہ اُن کے فضائل و کمالات کو چھپایا جاسکے؟

علی علیہ السلام نے ہمیں اُس طرح کی طرز زندگی دکھائی ہے جو سادگی، پیارومحبت اور مہرووفا کے پیکر میں خوبصورت ترین نظر آتی ہے علی علیہ السلام خود شناسی یا معرفت نفس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اپنے نفس کو نہ پہچاننااپنے آپ کو ہلاک کرنے کے مترادف ہے۔ اُن کا قول ہے:

”جس انسان نے اپنے نفس کو نہ پہچانا، وہ ہلاک ہوگیا“

نہج البلاغہ(حضرت علی علیہ السلام کے خطبات، اقوال، ارشادات پر مبنی کتاب) کے جس حصے کا بھی مطالعہ کریں، اُس میں تسلسل و ترتیب منطقی و اصولی نظرآئے گی۔ اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کی بلندی سوچ اور کمال ذہانت چھلکتی ہوئی نظر آئے گی۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ دو نظریات کے درمیان فکری ہم آہنگی ووحدت نظر آئے گی۔

امام علی علیہ السلام کی لامتناہی فکری سوچ کی وجہ سے وہ الفاظ کا سہارا نہیں لیتے بلکہ وہ الفاظ اور کلمات خود انسان کو مزید سوچ و بچار کی دعوت دیتے ہیں۔ تم اُن کی کسی عبارت کو نہیں پاؤ گے مگر جس سے تمہاری فکر سوچ کیلئے نئے اُفق پیدا نہ ہوجائیں۔

علی علیہ السلام اپنے سچے کردار اور سچائی کی وجہ سے دنیا میں پہچانے گئے اور حقیقت میں صدق و راستی اور سچائی ہی وہ واحد صفات ہیں جن سے کسی کے کردار کی شناخت کی جاسکتی ہے اور اس کی وجہ سے انسان دھوکہ نہیں کھاسکتا۔

۲۳۶

علی ابن ابی طالب علیہ السلام منبر پر بڑے اطمینان اور اعتماد کامل کے ساتھ اپنے ارشادات عادلانہ کا پرچار کرتے اور تقریر کرتے۔ وہ بہت سمجھ دار اور جلد نتیجہ پر پہنچنے والے انسان تھے۔ وہ لوگوں کے دلوں کے رازوں سے آگاہ تھے اور اُن کی اندرونی ہوس و خواہشات سے بھی واقف تھے۔ علی علیہ السلام سینے میں ایسا دل رکھتے تھے جو محبت و مہربانی سے مالا مال تھا اور آزادی اور فضائل انسان سے پُر تھا۔

آج کے دور میں جب ایسے حالات پیدا کردئیے گئے ہیں جو اقوام کی بدبختی کا باعث ہیں اور دنیا جنگ کے شعلوں کے قریب ہے، یقینا واجب ہے کہ ہم حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ارشادات و اقوال پر کان دھریں اور اُن کو مشعل راہ بنالیں اور اُن کے آگے سر تعظیم خم کردیں“۔

حوالہ

کتاب”امام علی صدای عدالت انسانی“، تالیف: جارج جرداق،ترجمہ: سید ہادی خسروی خسروشاہی، جلد۴،صفحہ۴۷۰۔صفحات:,۴۶۸,۴۴۲,۳۲۵,۲۹۶,۲۴۸,۲۴۷,۱۳

۴۷۶,۴۷۰۔

۲۳۷

فضائل علی علیہ السلام مخالفین کی نظر میں

معاویہ ابن ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کی علی علیہ السلام سے کھلی اور چھپی عداوت و مخالفت کس پر عیاں نہیں! کوئی ایسا نہیں جو اس حقیقت کا انکار کرے۔ معاویہ ابن ابوسفیان حضرت علی علیہ السلام سے ایساکینہ رکھتا تھا جس کی کوئی حد نہیں۔ اس کا رویہ علی علیہ السلام کی نسبت ویسا ہی تھا جیسا اُس کے باپ ابوسفیان کا پیغمبر اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تھا۔ معاویہ علی علیہ السلام کے مقابلہ میں میدان جنگ میں بھی آگیا۔ نتیجتاً مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان ہوا اور یہ خود مسند خلافت پر بیٹھ گیا۔ مسلمان ایک صالح حکومت سے محروم ہوگئے۔ معاویہ نے علی علیہ السلام کے خلاف ایسا پروپیگنڈہ کیا کہ ایک مدت تک لوگ بلاوجہ علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرتے رہے۔

ان حالات کے باوجود معاویہ بھی عظمت علی علیہ السلام سے انکار نہ کرسکا۔ اس نے حضرت علی علیہ السلام کی عظمت کیلئے متعدد قابل توجہ اعترافات کئے ہیں۔حکماء کا قول ہے:

”اَلْفَضْلُ مٰا شَهِدَتْ بِهِ الْاَعْدٰاء“

”فضیلت وہی ہے جس کی دشمن بھی گواہی دے“۔

معاویہ کے ان اعترافات کو پڑھنے کے بعد ہر عاقل یہ سوال کرے گا کہ اے معاویہ! اگر علی علیہ السلام ایسے ہی تھے تو تم نے اُن کے ساتھ جنگ کیوں کی اور اُن کے ساتھ ایسا رویہ کیوں اختیار کیا؟

معاویہ ابن ابوسفیان کی گفتگو

قیس ابن ابی خازم کہتے ہیں کہ ایک شخص معاویہ کے پاس آیا اور اُس سے کوئی مسئلہ پوچھا۔ معاویہ نے جواب دیا کہ جاؤ علی علیہ السلام سے پوچھ لو، وہ سب سے بڑا عالم ہے۔ اُس شخص نے کہا کہ میں نے مسئلہ آپ سے پوچھا ہے اور آپ ہی سے جواب چاہتا ہوں۔

۲۳۸

معاویہ نے فوراً جواب دیا: افسوس ہے تم پر! کیا تم اس پر خوش نہیں کہ تمہارے سوال کا جواب تمہیں وہ دے جس کو پیغمبر خدا نے خود اپنی زبان سے علم کی غذا دی ہو اور جس کے بارے میں پیغمبر نے یہ بھی کہا ہو کہ اے علی ! تیری نسبت میرے نزدیک وہی ہے جو ہارون کی موسیٰ کے ساتھ نسبت تھی۔جس سے خلیفہ دوم حضرت عمر ابن خطاب متعدد بار سوال پوچھتے رہے ہوں اور جب بھی مشکل آتی تو حضرت عمر یہ پوچھتے کہ کیا علی علیہ السلام یہاں ہیں؟

اس کے بعدمعاویہ نے غصے سے اُس شخص کو کہا کہ چلا جا۔ خدا تجھے اس زمین پر پاؤں نہ پھیلانے دے۔ اس کے بعد اُس کا نام بیت المال کی فہرست سے خارج کردیا۔

حوالہ

۱۔ کتاب”بوستان معرفت“،صفحہ۳۰۵،نقل از حموئی کی کتاب فرائد السمطین،جلد۱،

باب۶۸صفحہ۳۷۱،حدیث۳۰۲۔

۲۔ ابن عساکر، کتاب تاریخ امیر المومنین ،ج۱،ص۳۶۹،۳۷۰،حدیث۴۱۰،۴۱۱

۳۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، صفحہ۳۴،حدیث۵۴۔

معاویہ ابن ابوسفیان کی ایک اور گفتگو

ماہ رمضان میں ایک دن احنف بن قیس معاویہ کے دسترخوان پر افطاری کے وقت بیٹھا تھا۔ قسم قسم کی غذا دستر خوان پر چن دی گئی۔ احنف بن قیس یہ دیکھ کر سخت حیران ہوا اور بے اختیار اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ معاویہ نے رونے کا سبب پوچھا۔ اُس نے کہا کہ مجھے علی کے دسترخوان کی افطاری یاد آگئی۔ کس قدر سادہ تھی۔

معاویہ نے جواب دیا:”علی علیہ السلام کی بات نہ کرو کیونکہ اُن جیسا کوئی نہیں“۔

حوالہ کتاب”علی علیہ السلام معیار کمال“، تالیف:ڈاکٹر مظلومی۔

۲۳۹

(ا)۔شہادت علی پر معاویہ کا عکس العمل

وہ سوالات جن کا معاویہ کو جواب معلوم نہ ہوتا تھا ،وہ لکھ کر اپنے کسی آدمی کو دیتا تھا اور کہتا تھا کہ جاؤ ان سوالات کا جواب علی علیہ السلام سے پوچھ کر آؤ۔ شہادت علی علیہ السلام کی خبر جب معاویہ کو ملی تو کہنے لگا کہ علی علیہ السلام کے مرنے کے ساتھ فقہ و علم کا در بھی بند ہوگیا۔ اس پر اُس کے بھائی عتبہ نے کہا کہ اے معاویہ! تمہاری اس بات کو اہل شام نہ سنیں۔ معاویہ نے جواب دیا:”مجھے( میرے حال پر )چھوڑ دو“۔

حوالہ کتاب”بوستان معرفت“، صفحہ۶۵۹،نقل از ابوعمر کی کتاب استیعاب، جلد۳،صفحہ۴۵

شرح حال علی علیہ السلام سے۔ معاویہ کا ایک اور اعتراف

معاویہ نے ابوہریرہ سے کہا کہ میں گمان نہیں کرتا کہ زمام داری حکومت کیلئے میں حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ مستحق ہوں۔

حوالہ

کتاب”بررسی مسائل کلی امامت“، تالیف: آیة اللہ ابراہیم امینی،صفحہ۷۴،نقل از کتاب”الامامة والسیاسة“، جلد۱،صفحہ۲۸۔

معاویہ کا خط علی علیہ السلام کے نام

وَفِیْ کِتَابِ معاویةَ اِلٰی علیٍّ علیه السلام وَأمَافَضْلُکَ فِی الْاِسْلٰامِ وَ قَرَابَتُکَ مِنَ النَّبیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ فَلَعُمْرِی مٰااَدْفَعُهُ وَلاٰ اُنْکِرُ

”معاویہ نے اپنے خط بنام علی علیہ السلام میں لکھا کہ میں اپنی جان کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ آپ کے فضائل اسلامی اور رسول خدا کے ساتھ قرابت داری کا منکر نہیں ہوں“۔

۲۴۰

علی علیہ السلام کی تعریف معاویہ کی زبان سے

جب محصن ضبی معاویہ کے پاس پہنچا تو معاویہ نے اُس سے پوچھا کہ تم کہاں سے آرہے ہو؟اُس نے جواب دیا کہ میں(معاذاللہ) کنجوس ترین شخص علی ابن ابی طالب کے پاس سے آرہا ہوں۔ یہ سن کر معاویہ اُس پر چلّایا اور کہا :کیا تم اُس کو بخیل ترین شخص کہہ رہے ہو جس کے پاس اگر ایک گھر سونے(طلاء) سے بھرا ہوا ہو اور دوسرا گھر چاندی سے بھرا ہوا ہو تو وہ بیکسوں کو زیادہ سونا بانٹ دے گا اور پھر طلاء اور چاندی کو مخاطب کرکے کہے گا کہ:

یٰاصَفْرٰاءُ وَیٰا بَیْضٰاءُ غُرِّی غَیْرِی أَبِی تَعَرَّضْتِ اَمْ اِلیَّ تَشَوَّقْتِ؟هَیهٰاتَ هَیهٰاتَ قَدْ طَلَّقْتُکِ ثَلٰثاً لاٰ رَجْعَةَ فِیْکَ

”اے طلاء زرد اور سفید چاندی! میرے کسی غیر کو دھوکہ دو، کیا اس طرح تم میری مخالفت کررہی ہو یا مجھے حوصلہ دے رہی ہو۔ افسوس ہے، افسوس ہے، میں نے تجھے تین مرتبہ طلاق دے دی ہے جس کے بعد رجوع ممکن نہیں“۔

حوالہ کتاب”چراشیعہ شدم“،صفحہ۲۲۷۔

(ب)۔ شہادت علی پر معاویہ کا عکس العمل

مغیرہ نے کہا: جب علی علیہ السلام کی شہادت کی خبر معاویہ تک پہنچی ،وہ گرمیوں کے دن تھے اور معاویہ اپنی بیوی فاختہ دختر قرظہ کے ساتھ تھا۔ معاویہ اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا:

”اِنَّالِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیْهِ راجِعُوْن“

”ہم اللہ ہی کیلئے ہیں اور اُسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں“۔

پھر کہنے لگا کہ کیا عقل و دانش اور خیر کا منبع چلاگیا؟

معاویہ کی بیوی نے اُس سے کہا کہ کل تک تو تم علی کی طرف نیزے پھینک رہے تھے اور آجاِنَّالِلّٰه وَاِنَّا اِلَیْهِ راجِعُوْن پڑھ رہی ہو؟معاو یہ نے اُسے جواب میں کہا کہ تم نہیں جانتیں کہ کیا علم و فضیلت اور تجربہ ہاتھ سے چلا گیا۔

۲۴۱

حوالہ

کتاب”بوستان معرفت“،صفحہ۶۶۰۔یہ نقل کیا گیا ہے ابن عساکر کی کتاب”تاریخ

امیر المومنین علیہ السلام،جلد۳،صفحہ۴۰۵،۴۰۹،حدیث۱۵۰۵،۱۵۰۷اور کتاب مناقب خوارزمی سے باب ۲۶،صفحہ۲۸۳اور ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ،جلد۸،صفحہ۱۵،آخر وقایع،سال چہل، ہجری و دیگران۔

معاویہ کی تنبیہ مروان بن حکم کو

جاحظ کتاب المحاسن والاضداد میں لکھتا ہے کہ ایک دن حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام معاویہ کی محفل میں گئے۔ اس محفل میں عمروعاص، مروان بن حکم اور مغیرہ بن شعبہ اور دوسرے افراد پہلے سے موجود تھے۔جس وقت امام حسن علیہ السلام وہاں پہنچے تو معاویہ نے اُن کا استقبال کیا اور اُن کو منبر پر جگہ دی۔ مروان بن حکم نے جب یہ منظر دیکھا تو حسد سے جل گیا۔ اُس نے اپنی تقریر کے دوران امام حسن علیہ السلام کی توہین کی ۔ امام حسن علیہ السلام نے فوراً اُس خبیث انسان کو منہ توڑ جواب دیا۔ ان حالات کو دیکھ کر معاویہ اپنی جگہ سے بلند ہوا اور مروان بن حکم کو مخاطب کرکے کہنے لگا:

”قَدْ نَهَیْتُکَ عَنْ هٰذا الرَّجُل فَلَیْسَ اَ بُوْهُ کَاَبِیْکَ وَلَا هُوَ مِثْلُکَاَنْتَ اِبْنُ الطَّرِیْد الشَرِیْد،وَهُوَ اِبْنُ رَسُوْلِ اللّٰهِ الکریم ۔

”میں نے تجھے اس مرد(کی توہین) کے بارے میں منع کیا تھا کیونکہ نہ اُس کا باپ تمہارے باپ جیسا ہے اور نہ وہ خود تمہارے جیسا ہے۔ تم ایک مردود و مفرور باپ کے بیٹے ہو جبکہ وہ رسول خدا کا بیٹا ہے“۔

حوالہ کتاب”المحاسن والاضداد“،تالیف:جاحظ(از علمای اہل سنت)،صفحہ۱۸۱۔

معاویہ کا حضرت ابوبکر اور حضرت عمر پر انتقاد

ماکتبه معاویةُ اِلٰی مُحَمَّدِ بنِ اَبِی بَکر:فَقَد کُنَّا اَبُوکَ مَعَنَافِی حَیَاةٍ من نبیِّنَا،نَرٰی حَقَّ عَلِیِ بنِ اَبِی طَالِبٍ لَنَا لَازِماً،وفَضْلَهُ عَلَیْنَا مُبْرَزاً،فَلَمَّا اخْتٰارَهُ اللّٰهُ لِنَبِیِّهِ، فَکَانَ اَبُوکَ وفٰارُوقُةُ اَوَّلَ مَنِ ابْتَزَّهُ حَقَّهُ وَخٰالَفَهُ عَلٰی اَمْرِهِ

۲۴۲

”رسول خدا کی حیات طیبہ کے زمانہ میں مَیں اور تیرا باپ(ابوبکر) علی علیہ السلام کے حق کو لازم اور واجب سمجھتے تھے اور اُن کے فضائل و عظمت ہمارے اوپر بالکل واضح تھی۔ لیکن جس وقت خدا نے علی علیہ السلام کو اپنے پیغمبر کے لئے چن لیا(بعنوان امام اور مولائے مسلمانان) تو اُس وقت تیرے باپ نے اور اُس کے فاروق(عمر بن خطاب) نے سب سے پہلے علی علیہ السلام کے حق کو پامال کردیا اور اُن کے فرمان کی مخالفت کی“۔

حوالہ

مولف: ابن عساکر، کتاب حال امام علی علیہ السلام،جلد۲،صفحہ۴۳۲پاء ورق۔

عمروعاص کی فضیلت علی پرمعاویہ سے گفتگو

”مگر یہ کہ میں عظمت علی علیہ السلام کو احترام سے یاد کرتا ہوں۔ لیکن عظمت علی علیہ السلام کو یاد کرنے میں تو مجھ سے بھی زیادہ شدید ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ تو اسے چھپاتا ہے اور میں اسے برملا کہتا ہوں“۔

حوالہ

کتاب اسرار آل محمد،مولف: سلیم بن قیس،صفحہ۲۰۳،اشاعت۱۲۔

عمروعاص کے اشعار علی کی شان میں

عمروعاص نے معاویہ کے نام خط لکھا جس میں درج ذیل اشعار لکھے:

کتب عمروبن العاص الی معاویہ

و کم قد سمعنا من المصطفیٰ

وصایا مُخَصَّصَةً فی علیٍّ

۲۴۳

و فی یوم خمٍّ رقیٰ مِنبراً

و بلَّغ والصَّحبُ لم تَرحل

فأمنَحَه اِمرَةَ المومنین

مِن اللّٰهِ مستخلِفَ المنحل

و فی کفِّه کفُّه مُعْلِناً

یُنادی باَمرِ العزیز العلیّ

وقال: فَمَن کنتُ مولیٰ له

علیٌ له الیومَ نِعْمَ الوَلی

”علی علیہ السلام کے بارے میں رسول خدا کے بہت سے ارشادات وسفارشات ہم نے سنیں۔ غدیر خم کے روز پیغمبر خدا منبر پر تشریف لے گئے اور (ولایت علی علیہ السلام کی)تبلیغ کی۔ اس حالت میں کہ سب آپ کے ہمراہیوں نے ابھی کوچ نہیں کیا تھا(یعنی وہاں موجود تھے)۔ علی کو خدا کی طرف سے امیر المومنین مقرر کیا۔اُس روز علی کا ہاتھ پیغمبر کے ہاتھ میں تھا اور لوگوں کو واضح طور پر خدا کے فرمان کی طرف متوجہ کررہے تھے اور فرمارہے تھے کہ جس کا میں مولیٰ ہوں اُس کا یہ علی مولا ہے“

حوالہ

ابن عساکر،کتاب ”امام علی علیہ السلام“ ،صفحہ۸۹،فٹ نوٹ(شرح محمودی)۔

۲۴۴

اعتراف سعد بن ابی وقاص

جب معاویہ اپنے بیٹے یزید کیلئے بیعت حاصل کرنے کیلئے وارد مکہ ہوا۔ اُس نے دارالندوہ میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں چند اصحاب پیغمبر اسلام بھی تھے۔ معاویہ نے اپنے کلام کا آغاز حضرت علی علیہ السلام کی بدگوئی سے کیا۔ بعد میں وہ اس انتظار میں رہا کہ سعد بن ابی وقاص بھی اپنے کلام کا آغاز علی علیہ السلام کی بد تعریفی ہی سے کرے گا۔ لیکن سعد نے برخلاف توقع کہا کہ میں ہمیشہ حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے تین درخشاں نکات کو یاد کرتا رہتا ہوں اور میں دل کی گہرائی سے کہتا ہوں کہ اے کاش! مجھے یہ فضیلتیں میسر آجائیں اور یہ تین فضیلتیں یہ ہیں:

۱۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ یا علی ! تجھے مجھ

سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

۲۔ جنگ خیبر میں ایک روز پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کل میں علم اُس کو

دوں گا جس کو خدااور اُس کا رسول دوست رکھتے ہوں گے۔ اللہ اُس کے ہاتھ پر فتح عطا کرے گا اور وہ غیر فرار ہوگا۔

۳۔ نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کے روز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اردگرد علی علیہ السلام ، فاطمہ سلام اللہ علیہا ،حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کو جمع کیا اور فرمایا:

”پروردگار! یہ میرے اہل بیت ہیں“۔

حوالہ

۱۔ کتاب”الھیات و معاف اسلامی“، مولف:استاد جعفر سبحانی، صفحہ۳۹۹،نقل از صحیح

مسلم،جلد۷،صفحہ۱۲۰۔

۲۔ کنز العمال، جلد۱۳،صفحہ۱۶۲،۱۶۳(موسسة الرسالہ،بیروت، اشاعت پنجم)۔

۳۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد۷،صفحہ۳۴۰،باب فضائل علی علیہ السلام۔

۲۴۵

سعد بن ابی وقاص سے تین روائتیں

(ا)۔ ایک دفعہ معاویہ سفر حج پر تھا کہ سعد بن ابی وقاص اُس کو ملا۔ گفتگو کے دوران ذکر علی

بھی آگیا۔ معاویہ نے علی علیہ السلام کو بُرابھلا کہا۔ اس پر سعد غصے میں آگیا اورکہنے لگا :کیا تو اُس شخص کو بُرا بھلا کہہ رہا ہے جس کے بارے میں پیغمبر خدا کہتے تھے کہ جس کامیں مولیٰ ہوں، اُس کا یہ میرا چچازاد بھائی علی بھی مولیٰ ہے اور میں نے یہ بھی سنا ہے کہ آپ نے فرمایاکہ یا علی ! تو میرے نزدیک وہی منزلت رکھتا ہے جو ہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک تھی،سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئیگا اور پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ کل(روز خیبر) میں پرچم اُس کو دوں گا جس کو خدا اور اُس کا رسول دوست رکھتے ہیں۔

حوالہ

کتاب”آثار الصادقین“جلد۱۴،صفحہ۴۶۲،نقل از الغدیر،جلد۱،صفحہ۳۹،والغدیر

از سنن ابن ماجہ،جلد۱،صفحہ۳۰۔(یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ بعض اوقات معاویہ علی علیہ السلام کو بُراکہتا تھا۔ یہ اُس کے انتہائی کینہ کی وجہ سے تھا لیکن بعض اوقات فضائل علی علیہ السلام بیان بھی کرتا تھا۔ یہ اس واسطے تھا کہ علی علیہ السلام کے فضائل چھپائے بھی نہ چھپ سکتے تھے)۔

(ب)۔ ابو یعلی و بزار سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا:

”مَنْ آذیٰ عَلِیاً فَقَدْ آذٰانِیْ“

”جس نے علی کو اذیت دی، اُس نے گویا مجھے اذیت دی“۔

حوالہ کتاب”مصباح الموحدین“،صفحہ۵۵۔

۲۴۶

(ج)۔ مسلم، سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:

( نَدْعُ اَبْنٰاءَ نٰا وَاَبْنٰاءَ کُمْ )

”ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں، تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ“

رسول خدا نے علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین کو بلایااور کہا:

”اَلَّلهُمَّ هٰولاٰءِ اَهْلُبَیْتِیْ“

”پروردگار یہ میرے اہل بیت ہیں“۔

حوالہ کتاب”مصباح الموحدین“،صفحہ۵۲۔

ابن سعد سے ایک روایت

ابن سعد حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ آپ سے پوچھا گیا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپ تمام اصحاب سے زیادہ احادیث جانتے ہیں تو جواب میں علی علیہ السلام نے فرمایا:

”اِنِّی کُنْتُ اِذٰاسَأَ لْتُهُ أَ نْبَأَ نِیْ وَاِذٰا سَکَتُّ اِبْتَدَأَنِیْ“

”جس وقت بھی میں نے آنحضرت سے پوچھا تو آپ نے مجھے خبر دی اورجب میں خاموش ہوجاتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات شروع کردیتے“۔

حوالہ کتاب”مصباح الموحدین“،صفحہ۵۵۔

۲۴۷

مروان بن حکم کی امام سجاد سے گفتگو

ایک دن مروان بن حکم(جو یزید بن معاویہ کے بعد خلافت پر بیٹھا) امام سجاد علیہ السلام سے ملا اور اُس نے امام علیہ السلام سے کہا کہ مسلمانوں میں سے کسی نے بھی آپ کے دوست سے زیادہ ہمارے دوست کی طرفداری نہیں کی(یعنی کسی نے بھی علی علیہ السلام سے زیادہ عثمان کی طرفداری نہیں کی)۔ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا کہ پھر کیوں ہمیں اس نسبت سے برائی دیتے ہو؟مروان نے جواب دیا کہ ہماری حکومت کی بقا اس کے بغیر ممکن نہیں۔

حوالہ جات بوستان معرفت، صفحہ۶۶۴،نقل از ابن عساکر، کتاب تاریخ امیر المومنین علیہ السلام،جلد۳صفحہ۱۲۷،حدیث۱۱۴۹اور بلاذری، انساب الاشراف،ج۲،ص۱۸۴،

حدیث۲۲۰ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ،جلد۱۳،صفحہ۲۲۰،شرح خطبہ۲۳۸۔

مروان اور ولید بن عقبہ کی شجاعت علی پر گفتگو

جنگ صفین میں معاویہ بن ابی سفیان نے کہا کہ خدا کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ تم حضرت علی علیہ السلام کو تیروں کی بارش کرکے زخمی کردو تاکہ اُن کے پاؤں اکھڑ جائیں اور لوگ اُن کی طرف سے آسودہ خیال ہوجائیں۔ اس وقت مروان نے کہا:خدا کی قسم! اے معاویہ! تمہیں ہمارا وجود بُرالگتا ہے(تم چاہتے ہو کہ ہمیں موت کی وادی میں دھکیل دو)۔ اس واسطے تم ہمیں ایک خطرناک ترین سانپ اور دلیر ترین شیر کو مارنے کا مشورہ دے رہے ہو۔ وہ غصے میں اپنی جگہ سے اٹھا ۔ولید بن عقبہ جو وہاں موجود تھا، نے چند اشعار پڑھے جن میں سے دو اشعار ذیل میں لکھے جارہے ہیں:

أَتأ مُرُنٰا بِحَیَّةِ بَطْنِ وَادٍ

یُنٰاحُ لَنٰابِهِ اَسَدٌ مَهابٌ

۲۴۸

کَاَنَّ الْخَلْقَ لَمّٰا عٰایَنُوْهُ

خِلاٰلَ النَّقْعِ لَیْسَ لَهُمْ رِقٰابٌ

”کیا تم ہمیں جنگل کے ایسے سانپ کو مارنے کا حکم دے رہے ہو جس کے ڈسنے سے جنگل کا شیر ببر بھی محفوظ نہیں۔ وہ بھی آہ و زاری کررہا ہے۔ کہتے ہیں کہ اُسے اگر میدان جنگ میں کوئی خاک و غبار میں دیکھ لے تو اُس کے خوف سے کوئی گردن سلامت نہیں رہے گی“۔

حوالہ

کتاب”آثارالصادقین“،جلد۹،صفحہ۳۰۱،نقل از سفینہ، جلد۱،صفحہ۶۹۰۔

قاتل علی ،عبدالرحمٰن بن ملجم کے تاثرات

عبدالرحمٰن ابن ملجم مرادی ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا اس قدر قائل تھاکہ علامہ مجلسی بحارالانوار کی جلد۹میں لکھتے ہیں کہ جب یہ یمن سے کوفہ آیا اور امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو اس نے ایک قصیدہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں لکھا۔ اس نے وہیں قیام کیا۔ اتفاق سے بیمار پڑگیا تو خود حضرت علی علیہ السلام اُس کی تیمار داری اور خدمت کیلئے اُس کے پاس جاتے رہے۔ جنگ نہروان میں ابن ملجم حضرت علی علیہ السلام کی فوج میں شامل تھا اور ایک دستہ فوج کا سالار تھا۔ ایک دفعہ عبدالرحمٰن ابن ملجم حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اُسے اطلاع دی کہ اے عبدالرحمٰن! تو میرا قاتل ہوگا تو ایک دفعہ یہ گھبرا گیا اور کہنے لگا کہ یا امیر المومنین ! مجھے ابھی اپنی تلوار سے قتل کردیں تاکہ میں اس جرم کا ارتکاب نہ کرسکوں۔ آپ نے قصاص قبل از قتل کی مذمت فرمائی۔

یہی عبدالرحمٰن ابن ملجم بعد میں دوخارجیوں کے زیر اثر آگیااورقطامہ نامی ایک بدکار عورت بنام قطامہ کے عشق میں مبتلا ہوکر اپنے ہاتھ علی علیہ السلام کے خون سے رنگ لئے۔

پس قاتل علی علیہ السلام بھی آپ کے فضائل و کمالات سے پوری طرح آگاہ تھا معترف تھا۔

۲۴۹

فہرست کتب جن سے اس کتاب میں استفادہ کیا گیا ہے

فہرست کتب اہل سنت

-۱ تفسیر کبیر -------- فخر رازی

-۲ تفسیر شواہد التنزیل --------- حافظ حسکانی

-۳ تفسیر الدرالمنثور ------- سیوطی

-۴ تفسیر ابن کثیر ------ ابن کثیر

-۵ تفسیر کشاف ------- زمخشری

-۶ تفسیر طبری -------- طبری

-۷ تفسیر بیضاوی -------- بیضاوی

-۸ تفسیر اسباب النزول -------- واحدی نیشاپوری

-۹ تفسیر روح المعانی -------- شہاب الدین آلوسی

-۱۰ تفسیر فتح القدیر ------ قاضی شوکانی

-۱۱ الکشف والبیان ---- -- - ثعلبی

-۱۲ انساب الاشراف -------- بلاذری

-۱۳ کفایة الطالب -------- گنجی شافعی

-۱۴ ینابیع المودة -------- شیخ سلیمان قندوزی حنفی

-۱۵ مجمع الزوائد -------- ہیثمی

۲۵۰

-۱۶ فرائد السمطین -------- علامہ حموینی

-۱۷ البدایہ والنہایہ -------- ابن کثیر

-۱۸ مناقب امیر المومنین -------- ابن مغازلی

-۱۹ کنزالعمال ------- متقی ہندی

-۲۰ تاریخ بغداد ------- خطیب بغدادی

-۲۱ تاریخ دمشق -------- ابن عساکر

-۲۲ تاریخ الخلفاء -------- سیوطی

-۲۳ مناقب امیر المومنین -------- خوارزمی

-۲۴ الصواعق المحرقہ -------- ابن حجر

-۲۵ نورالابصار --------- شبلنجی

-۲۶ اللئالی المصنوعہ --------- سیوطی

-۲۷ اسد الغابہ -------- ابن اثیر

-۲۸ ما نزل من القرآن فی علی --------- ابو نعیم اصفہانی

-۲۹ الفصول المہمة --------- ابن صباغ مالکی

-۳۰ المستدرک --------- حاکم نیشا پوری

-۳۱ المسند -------- احمد بن حنبل

-۳۲ المعجم الکبیر --------- طبرانی

-۳۳ تہذیب الکمال -------- حافظ المزی

۲۵۱

-۳۴ الفضائل --------- قطیفی

-۳۵ میزان الاعتدال -------- ذہبی

-۳۶ استیعاب -------- ابن عبدالبر

-۳۷ تذکرة الخواص -------- سبط بن الجوزی

-۳۸ تاریخ الاسلام -------- ذہبی

-۳۹ الجامع لا حکام القرآن -------- قرطبی

-۴۰ الفضائل ------- احمد بن حنبل

-۴۱ الاصابہ -------- ابن حجر عسقلانی

-۴۲ خصائص امیر المومنین --------- نسائی

-۴۳ ریاض النظرہ -------- محب الدین طبری

-۴۴ فتح الباری -------- ابن حجر عسقلانی

-۴۵ مقتل الحسین --------- خوارزمی

-۴۶ کنزالفوائد -------- کراجکی

-۴۷ خصائص الوحی المبین --------- یحییٰ بن بطریق

-۴۸ مناقب آل نبی --------- رشید الدین

-۴۹ احیاء العلوم --------- ثعلبی

-۵۰ جمع الجوامع -------- سیوطی

-۵۱ سنن ابن ماجہ -------- محمد بن یزید قزوینی

-۵۲ صحیح ترمذی -------- محمد بن عیسیٰ ترمذی

۲۵۲

-۵۳ صحیح بخاری --------- محمد بن اسماعیل بخاری

-۵۴ عمدة القاری -------- ابن احمد حلبی عینی

-۵۵ السنن الکبریٰ -------- بہیقی

-۵۶ شرح نہج البلاغہ -------- ابن ابی الحدید

-۵۷ ذخائر العقبی -------- محب الدین طبری

-۵۸ لسان المیزان --- ----- ابن حجر عسقلانی

-۵۹ حلیة الاولیاء --------- ابونعیم اصفہانی

-۶۰ الجامع الصغیر --------- سیوطی

-۶۱ الاتحاف بحب الاشراف -------- شبراوی

-۶۲ مثنوی معنوی -------- مولوی

-۶۳ المحاسن والاضداد --------- جاحظ

-۶۴ امام علی بن ابی طالب --------- عبدالفتاح عبدالمقصود

-۶۵ بیست و پنج سال سکوت علی علیہ السلام -------- فواد فاروقی

-۶۶ علی ،چہرئہ درخشان اسلام -------- ابن ابی الحدید

-۶۷ معجم الادباء --------- یاقوت حموی

۲۵۳

فہرست کتب اہل شیعہ

-۱ تفسیر المیزان --------- مرحوم علامہ طباطبائی

-۲ تفسیر مجمع البیان -------- شیخ طبرسی

-۳ تفسیر البرہان -------- علامہ بحرانی

-۴ تفسیر نمونہ -------- جمیع از نویسندگان

-۵ کمال الدین ---------- شیخ صدوق

-۶ الغدیر ---------- مرحوم علامہ امینی

-۷ آثار الصادقین ---------- شیخ صادق احسان بخش

-۸ جلاء العیون ---------- علامہ مجلسی

-۹ آئمہ اثنا عشر ---------- احمد بن عبداللہ بن عیاشی جوہری

-۱۰ شیعہ در اسلام ---------- علامہ طباطبائی

-۱۱ ولاء ہاوولایتہا ---------- علامہ شہید مرتضیٰ مطہری

-۱۲ سیری در صحیحین ---------- محمد صادق نجمی

-۱۳ الحیات و معارف اسلامی ---------- آیت اللہ جعفر سبحانی

-۱۴ اسرار آل محمد ---------- سلیم بن قیس

-۱۵ امامت و رہبری ---------- علامہ شہید مرتضیٰ مطہری

-۱۶ مصباح المحدین ---------- عباس علی وحیدی منفرد

-۱۷ شبہائے پشاور ---------- سلطان الواعظین شیرازی

-۱۸ چکیدہ اندیشہ ہا ---------- سید یحییٰ برقعی

-۱۹ سید الشہداء ---------- آیت اللہ شہید دستغیب

۲۵۴

-۲۰ علی ، معیار کمال ---------- ڈاکٹر رجب علی مظلومی

-۲۱ داستان غدیر ---------- جمیع از دبیران

-۲۲ بررسی مسائل کلی امامت ---------- آیت اللہ ابراہیم امینی

-۲۳ فاطمة الزہرا ---------- گفتار مرحوم علامہ امینی

-۲۴ علی و پیامبران ---------- حکیم سید محمود سیالکوٹی

-۲۵ چراشیعہ شدم؟ ---------- شیخ محمد رازی

-۲۶ بوستان معرفت ---------- سید ہاشم حسینی تہرانی

-۲۷ قصہ ہائے قرآن ---------- سید ابوتراب صفائیی

-۲۸ مباحثی در معارف اسلامی ---------- علامہ فقیدسید علی بہبہانی

-۲۹ ادبیات و تعہد دراسلام ---------- محمد رضا حکیمی

-۳۰ علی کیست؟ ---------- فضل اللہ کمپانی

-۳۱ ہشتادودوپرسش ---------- آیت اللہ شہید دستغیب

-۳۲ حق با علی است ---------- مہدی فقیہ ایمانی

-۳۳ زندگانی فاطمة الزہرا ---------- آیت اللہ شہید دستغیب

-۳۴ گنجینہ ہائے شعر و ادب فارسی ---------- مصطفی ہادوی

-۳۵ این است آئین ما ---------- مرحوم کاشف الغطاء

-۳۶ باب حادی عشر ---------- مرحوم علامہ شہرستانی

۲۵۵

-۳۷ فرہنگ بزگان ایران و اسلام ---------- آذر تفضلی۔ مہین فضائلی جوان

-۳۸ النورالمشتعل ---------- تعلیق وشرح شیخ باقر محمودی

-۳۹ صلح امام حسن ---------- شیخ رازی آل یاسین

-۴۰ تجرید الاعتقاد ---------- خواجہ نصیر الدین طوسی

-۴۱ تفسیر نورالثقلین ---------- مرحوم عبد علی بن جمة الحویزی

-۴۲ آ نگاہ ہدایت شدم ---------- ڈاکٹر سید محمدتیجانی سماوی

-۴۳ ای اشک ہابریزید ---------- دیوان حبیب اللہ چائچیان

دیگر متفرق کتب

-۱ امام علی ،مشعلی و دژی ---------- سلیمان کتانی،ترجمہ جلال الدین فارسی۔

-۲ امام علی صدائے عدالت انسانی ---------- جرج جرداق

-۳ الفتوح ---------- ابومحمد احمد بن علی اعثم کوفی

-۴ محاضرات ---------- راغب اصفہانی

۲۵۶

کتب لغت

-۱ المنجد

-۲ فرہنگ جامع

-۳ منجد الطلاب

-۴ مجمع البحرین

-۵ فرہنگ معین(شش جلدی)

-۶ فرہنگ عمید

۲۵۷

فہرست

پیش لفظ ۴

علی اور دیگر آئمہ معصومین کی معرفت کیونکر ضروری ہے؟ ۴

امام کی خدمت میں ایک حقیر تحفہ ۴

معاشرے میں صالح حکومت اور مخلص رہبر کی ضرورت ۵

انسانوں کی حکومت بنانے کی کوششیں ۵

حکومت اسلامی کی قابل توجہ خصوصیات ۶

پیغمبر اسلام کے بعد رہبری جامعہ اسلامی میں اختلاف بین المسلمین پر ایک نظر ۸

آج ضرورت وقت کیا ہے؟ ۱۰

کچھ اس کتاب کے بارے میں ۱۰

پہلا باب بحث عقلی ۱۲

عقلی دلائل پر توجہ دینے کی ضرورت ۱۲

مسئلہ امامت پر بحث کی ضرورت ۱۳

انتخاب امام پر سنی اور شیعہ حضرات کا نظریہ ۱۴

انتخاب امام کیلئے علمائے اہل سنت کا نقطہ نظر ۱۴

انتخاب امام کیلئے شیعہ علماء کا نقطہ نظر ۱۴

خدا کی حکمت اور لطف و کرم کا تقاضا ۱۵

ہدایت الٰہی کی تعریف ۱۷

امام ہونے کی شرائط اہل سنت اور شیعہ حضرات کی نگاہ میں ۱۷

علمائے اہل سنت کی نگاہ میں شرائط امام ۱۷

علمائے شیعہ کی نگاہ میں شرائط امام ۱۸

۲۵۸

اہم شرائط امام کی تشریح ۱۹

عصمت و پاکدامنی ۱۹

پہلا راستہ ۲۰

عہد خدا ظالموں تک نہیں پہنچ سکتا ۲۰

دوسرا باب ۲۳

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔ ۲ ۲۳

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے ۲۴

دسویں آیت ۲۵

مودت اہل بیت کا ایک انداز ۲۵

قربیٰ سے مراد کون کونسے رشتہ دار ہیں؟ ۲۶

آل محمد کے بارے میں فخرالدین رازی کے نظریات ۲۸

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے ۲۹

گیارہویں آیت ۳۰

علی نفس رسول ہیں(علی اور اہل بیت آیت مباہلہ میں) ۳۰

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے ۳۳

بارہویں آیت ۳۴

اللہ تعالیٰ نے علی کو ایمان کامل اورعمل صالح کے سبب دلوں کا محبوب بنادیا۔ ۳۴

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے ۳۵

تیرہویں آیت ۳۶

علی تنہا اس آیت کے حکم پر عمل کرنے والے ہیں ۳۶

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے ۳۸

۲۵۹

چودہویں آیت ۳۸

علی اور اُن کے شیعہ بہترین مخلوق ہیں ۳۸

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے ۴۱

پندرہویں آیت ۴۱

پیغمبر کی صداقت پر قرآن ایک روشن دلیل ہے اور علی ایک سچے گواہ ہیں ۴۱

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔۳ ۴۲

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے ۴۳

سولہویں آیت ۴۴

علی صدیق اکبر اورشہید فی سبیل اللہ ہیں ۴۴

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے ۴۵

سترہویں آیت ۴۶

اللہ تعالیٰ نے علی کے وسیلہ سے پیغمبر کی مدد کی ۴۶

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے ۴۷

اٹھارہویں آیت ۴۸

حضرت علی کا بغض اور دشمنی شقاوت قلب، نفاق اور انسان کی بدبختی کا باعث ہے ۴۸

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے ۴۹

اُنیسویں آیت ۵۰

علی صالح المو منین ہیں ۵۰

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے ۵۱

بیسویں آیت ۵۲

قیامت کے دن لوگوں سے ولایت علی کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۵۲

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272