آفتاب ولایت

آفتاب ولایت0%

آفتاب ولایت مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 272

آفتاب ولایت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علی شیر حیدری
زمرہ جات: صفحے: 272
مشاہدے: 135503
ڈاؤنلوڈ: 3383

تبصرے:

آفتاب ولایت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 272 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135503 / ڈاؤنلوڈ: 3383
سائز سائز سائز
آفتاب ولایت

آفتاب ولایت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۳۵۶،۳۵۹،نمبر۱۱۲۵،۱۱۳۰،اشاعت اوّل۔

۲۔ حافظ ابن عساکر، کتاب تاریخ دمشق، جلد۲،صفحہ۳۴۴،۴۴۲،باب امیر المومنین کے حالات، حدیث۸۵۲،۹۵۸، اشاعت دوم(شرح محمودی)۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۳۷۹،اشاعت دوم، صفحہ۴۲۴۔

۴۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، جلد۱،صفحہ۱۵۵، باب۳۱۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، صفحہ۲۴۵،باب۶۲۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة ، صفحہ۳۶۱۔

۷۔ بلاذری، کتاب النساب الاشراف، ج۲ص۱۱۳حدیث۵۰،اشاعت اوّل بیروت

۸۔ شبلنجی ،کتاب نورابصار، صفحہ۷۰،۱۰۱۔

۹۔ خوارزمی، کتاب مناقب امیر المومنین ،حدیث۱۱،صفحہ۶۲۔

پندرہویں آیت

پیغمبر کی صداقت پر قرآن ایک روشن دلیل ہے اور علی ایک سچے گواہ ہیں

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِه کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَةً )

”کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل پر ہو اور اُس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ آتا ہو جو اُسی کا جزو ہو(سورئہ ہود:آیت۱۷)

۴۱

تشریح

اس آیت شریفہ کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ کون(مَنْ) سے مرادجناب رسول خدا

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔۳

کی ذات مبارک ہے اور روشن دلیل(بَینَہ)سے مرادقرآن مجید ہے اور (نبوت کے) گواہ صادق(شاہد) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔بعض مفسرین نے شاہد سے مراد جبرئیل علیہ السلام کو لیا ہے اور بعض نے َیَتْلُوْهُ کو مادّہ تلاوت سے قرأ ت کے معنی میں لیا ہے نہ کہ اس معنی میں کہ ایک کے بعد دوسرے کا آنا۔ انہوں نے شاہد سے مراد زبان رسول اللہ لی ہے۔ لیکن بہت سے اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے شاہد سے مراد سچے مومنین لئے ہیں اور سچے مومن کی تصویر علی علیہ السلام کو لیا ہے اور اس ضمن یں بڑی اہم روایات کو بیان کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک یہاں بیان کی جاتی ہیں:

(ا)۔ سیوطی نے کتاب جمع الجوامع اور تفسیر الدرالمنثور میں یہ روایت بیان کی ہے:

حَدَّثْنَا عبادُ بنُ عَبْدِاللّٰهِ الاَ سَدِی قال:سَمِعْتُ عَلِیَّ بنَ ابی طالبٍ وَهُوَ یَقُولُ:مٰا أَحَدٌ مِنْ قُرَیْشٍ اِلَّا وَقَدْ نَزَلَتْ فیهِ آیةٌ وآیتانِ فَقٰالَ لَهُ رَجُلٌ:وَمٰانَزَلَ فِیْکَ یٰااَمِیْرَالمومنینَ؟قٰالَ:فَغَضِبَ ثُمَّ قٰالَ: اَمٰاوَاللّٰهِ لَولَمْ یَسْأَلْنِیْ عَلٰی رُووسِ الْقَوْمِ مٰاحَدَّ ثْتُکَ،ثُمَّ قال:هَلْ تَقْرَأُ سورةَ هودٍ؟ ثُمَّ قَرَاءَ: ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) رسولُ اللّٰه عَلٰی بَینةٍ مِنْ رَبَّهِ وَاَنَاالشّٰاهِدُ مِنْهُ ۔

”عباد بن عبداللہ اسدی کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ قریش کے سرداروں میں کوئی نہیں مگر اُس کے بارے میں ایک یا دو آیتیں نازل ہوئی ہوں۔ پس ایک شخص نے سوال کیا:یا امیر المومنین ! آپ کے بارے میں کونسی آیت نازل ہوئی ہے۔ آپ(اُس شخص کے جہل یا عداوت کی وجہ سے) غضبناک ہوئے اور کہا کہ اگر دوسرے لوگ موجود نہ ہوتے تو میں تمہارے سوال کا جواب نہ دیتا۔ اُس وقت آپ نے فرمایا : کیا تم نے سورئہ ہود پڑھی ہے؟ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) ”اور فرمایا کہ پیغمبر روشن دلیل یعنی قرآن مجید (بَینَةٍ) رکھتے تھے اور میں گواہ تھا“۔

۴۲

(ب)۔ کچھ مفسرین اس روایت کو نقل کرتے ہیں:

عَنْ انس(فی قَولِه تعالٰی) ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُط“قَالَ هُوَرسولُ اللّٰهِ ”وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) قَالَ هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب، کَانَ وَاللّٰهِ لِسَانَ رَسُولِ اللّٰهِ ۔

”انس بن مالک سے اس آیت کی تفسیر سے متعلق روایت کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ آیت کے اس حصہ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه ) سے مراد پیغمبر اسلام کی ذات مبارک ہے اور( یَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) سے مرادعلی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ خدا کی قسم! یہ(علی کا نام)رسول اللہ کی زبان پر تھا“۔

(ج)۔ تفسیر برہان، جلد۲،صفحہ۲۱۳پر یہ روایت بیان کی گئی ہے:

امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس آیت میں ”شاہد“ سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام ہیں اور اُن کے یکے بعد دیگرے جانشین ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی، کتاب جمع الجوامع، جلد۲،صفحہ۶۸،حدیث۴۰۷،۴۰۸ اور ج۳،ص۳۲۴۔

۲۔ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۰،حدیث۹۲۸۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب ۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث۳۸۶،جلد۱،صفحہ۲۷۷۔

۵۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۱۸،صفحہ۲۷۰۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۲۶،صفحہ۱۱۵۔

۷۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل۔

۸۔ طبری اپنی تفسیر میں جلد۱۵،صفحہ۲۷۲،شمارہ۱۸۰۴۸۔

۹۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد۲،صفحہ۲۳۹۔

۴۳

سولہویں آیت

علی صدیق اکبر اورشہید فی سبیل اللہ ہیں

( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْْ )

”اور جو لوگ اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی تو اپنے پروردگارکے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ اُن کا اجر اور اُن کا نور اُن ہی کیلئے ہوگا“(سورئہ حدید،آیت۱۹)

تشریح

اس میں کوئی شک نہیں کہ سچائی اور راست گوئی ایسی صفت ہے جو انسان کو اعلیٰ مقام تک پہنچادیتی ہے۔ ہمیں یہ صفت حضرت علی کے وجود پاک میں روز روشن کی طرح نظر آتی ہے۔

اگرچہ اہل سنت میں خلیفہ اوّل ہی صدیق کے طور پر مشہور ہیں لیکن بہت سی روایات جو اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں نقل کی ہیں، اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ صفت سچائی اور راست گوئی ہر لحاظ سے مکمل طور پر حضرت علی علیہ السلام کے وجود پاک میں نظر آتی ہے۔ چند روایات ذیل پرتوجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قَوْلِه تعٰالٰی ( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ ) قال صدیقُ هَذِه الْاُمَّةِ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب هُوَ الصِّدِّ یقُ الْاَکْبَرُ وَالْفَارُوْقُ الْاَعْظَمُ

”ابن عباس سے روایت ہے کہ اس آیت شریفہ( وَالَّذیْ نَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّ یْ قُوْن ) کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ اس اُمت کے صدیق علی ابن ابی طالب ہیں۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام صدیق اکبر بھی ہیں اور فاروق(حق اور باطل کو جدا کرنے والا) اعظم بھی“۔

۴۴

(ب)۔عَنْ عبدالرحمٰنِ بن ابی لیلٰی عَنْ اَبِیْهِ قٰالَ رسولُاللّٰهِ اَلصِّدِّیْقُوْنَ ثَلاٰ ثَةٌ: حَبِیبُ النَّجَّارِ، مومِنُ آلِ یٰسِینَ وَحِزْبِیْلُ مُومِنُ آلِ فِرْعَوْنَ وَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطالِبٍ وَهُوَ اَفْضَلُهُمْ

”عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تین افراد صدیق ہیں اور وہ ہیں:حبیب نجار، مومن آل یاسین اور حزبیل مومن آل فرعون اور علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور علی علیہ السلام اُن سب سے افضل ہیں“۔

(ج)۔عَنْ عُبادِ بنِ عَبْداللّٰهِ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیّاً علیه السلام یقولُ: أَ نَا الصِّدِّیقُ الْاَکْبَرُ لَایقُولُهَا بَعْدِیْ اِلَّا کَذَّابٌ وَلَقَدْ صَلَّیْتُ قَبْلَ النَّاسِ سَبْعَ سِنِیْنَ ۔

”عباد بن عبداللہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں ہی صدیق اکبر ہوں اور میرے بعد کوئی بھی اپنے آپ کو صدیق اکبر نہیں کہلا سکتا لیکن سوائے جھوٹے اور کذاب کے اور میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی(یعنی سب سے پہلے خدا اور اُس کے رسول پر میں ایمان لایا)“۔

(د)۔ اسی طرح سب علمائے اہل سنت مثلاً حافظ ابی نعیم، ثعلبی، حافظ بن عساکر، سیوطی اور دوسرے بہت سے مفسرین سورئہ توبہ آیت۱۱۹( اِتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْن ) میں ابن عباس اور دوسروں سے بھی روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ”الصادقین“ سے مراد علی ہیں ۔ روایت اس طرح سے ہے:

عَنْ ابنِ عباس فِی قوله تعٰالٰی ( اِتَّقُواللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ ) قَالَ نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَامُ خٰاصَّةً“

”ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۲۸۲،حدیث۸۱۲،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، صفحہ۲۴۶،۲۴۷، حدیث۲۹۶۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۶اور باب۲۴،صفحہ۱۲۳۔

۴۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل۔

۴۵

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۴۲،صفحہ۱۴۶۔

۶۔ نسائی، کتاب خصائص امیرالمومنین ، حدیث۶،صفحہ۳۸۔

۷۔ سیوطی ،کتاب اللئالی المصنوعہ، باب فضائل علی ، جلد۱،صفحہ۱۶۰۔

۸۔ احمد بن حنبل، کتاب الفضائل، باب فضائل امیر المومنین ،حدیث۱۱۷،صفحہ۷۸۔

۹۔ حافظ المزی،کتاب تہذیب الکمال، ترجمہ العلاء بن صالح، جلد۴،صفحہ۱۹۳۔

سترہویں آیت

اللہ تعالیٰ نے علی کے وسیلہ سے پیغمبر کی مدد کی

( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَیٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ )

”وہ وہی ہے جس نے اپنی امداد سے اور مومنین کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی تھی۔

اے نبی! تمہارے لئے اللہ اور مومنین میں سے جو تمہارا اتباع کرتے ہیں، وہی کافی ہیں ہیں“۔(سورئہ انفال: آیات۶۲،۶۴)۔

تشریح

کچھ مفسرین نے ان آیات کے ضمن میں خصوصاً آیت :۶۴کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب یہودیوں کے قبائل بنی قریظہ اور بنی نضیر کے کچھ افراد پیغمبر اسلام کی خدمت میں مکروفریب سے حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ” اے پیغمبر خدا! ہم حاضر ہیں کہ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی پیروی کریں اور مدد کریں“۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے کہہ رہا ہے کہ ہرگز کسی غیر پر اعتماد نہ کریں بلکہ اللہ اور وہ مومنین جو آپ کی اتباع کرتے ہیں، آپ کے لئے کافی ہیں، انہی پر اعتماد کریں(تفسیر تبیان، جلد۵،صفحہ۱۵۲)۔

۴۶

اہل سنت اور شیعہ علماء کی کثیر تعداد روایات لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان دو آیتوں میں مومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ اگرچہ دوسرے مومنین بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن ان آیتوں کے مصداق(پوری طرح آیت کے مطابق) علی ابن ابی طالبعلیہما السلام ہیں۔ پیغمبر اسلام نے ہمیشہ تمام مشکلات اور سخت حالات میں علی علیہ السلام کے وجود مقدس پر فخر کیا۔ ذیل میں لکھی گئی دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ هُریرةِ قَالَ: قال رسولُ اللّٰه رَأَیْتُ لَیْلَةً اُسْرِیَ بِی اِلَی السَّمٰاءِ عَلَی الْعَرْشِمَکْتُوْباً: لَااِلٰهَ اِلّٰا أَنَا وَحْدِیْ لَا شَرِیْکَ لِیْ وَمحمدًعَبْدِی وَرَسُوْلِی اَیَّدْتُهُ بِعَلیٍّ(قال)فَذٰلِکَ قَوْلُهُ ( هُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْن ) ۔

”ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شب معراج میں نے دیکھا کہ عرش پر لکھا ہوا تھا :’میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں تنہا اور لاشریک ہوں اور محمد میرا بندہ اور میرا رسول ہے اور میں نے علی کے ذریعے سے اپنے رسول کی مدد کی ہے اور اس آیت شریفہ( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَ ) میں بھی اسی طرف اشارہ ہے“۔

(ب)۔ حافظ حسکانی جو اہل سنت کے نامور عالم ہیں، کتاب شواہد التنزیل میں روایت نقل کرتے ہیں جو معتبر اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد بزرگوارحضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔ انہوں نے اس آیت( یٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ ) کی تفسیرمیں فرمایا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے جو ہمیشہ رسول اللہ کے مددگار و حامی و ناصر رہے ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں حدیث۹۲۶، باب احوال امیرالمومنین ، ج۲،ص۴۱۹

۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۴۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۳،صفحہ۲۱۶،اشاعت دوم، صفحہ۱۹۹۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ۲۹۹،جلد۱،صفحہ۲۲۳اور اشاعت اوّل میں جلد۱،صفحہ۲۳۰،شمارہ۳۰۵۔

۴۷

۵۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب مناقب علی علیہ السلام، جلد۹،صفحہ۱۲۱۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۲۳،صفحہ۱۰۹ اور باب۲ص۲۱

۷۔ ذہبی، میزان الاعتدال، ج۱،ص۲۶۹،حدیث۱۰۰۶اور ص۵۳۰،ج۱،شمارہ۱۹۷۷۔

۸۔ المحب الطبری، کتاب ریاض النضرہ، جلد۲،صفحہ۱۷۲۔

۹۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال،جلد۶،صفحہ۱۵۸، اشاعت اوّل۔

اٹھارہویں آیت

حضرت علی کا بغض اور دشمنی شقاوت قلب، نفاق اور انسان کی بدبختی کا باعث ہے

( وَلَوْنَشَآءُ لَاَرَیْنَکَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِیْمٰهُمْوَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ )

”اور اگر ہم چاہیں تو ہم اُن لوگوں کو تمہیں دکھلا دیں پھر تم اُن لوگوں کو اُن کی علامتوں سے پہچان لو اور تم اُن کو اُن کی بات کے لہجے سے ضرور پہچان لوگے“۔(سورئہ محمد، آیت:۳۰)۔

تشریح

اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر اسلام کومنافقین کی اور شقاوت قلبی رکھنے والے انسانوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے :”اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں اُن کی شناخت کروادیں گے“ تاکہ صرف اُن کی چال ڈھال اور قیافہ دیکھنے سے ہی اُن کو پہچا ن لو۔ اس کے علاوہ اُن کے لہجہ و کلام سے بھی پہچان سکتے ہو کہ اُن کے ناپاک دلوں میں کیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن کے بولنے کا انداز کیا تھا کہ پروردگار نے اُس کو منافقین کے پہچاننے کا ایک اہم طریقہ بتایا۔اس ضمن میں اہل سنت اور شیعہ علماء نے جو روایات بیان کی ہیں، اُن پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ منافقین کے دلوں میں حضرت علی علیہ السلام کیلئے شدید دشمنی اور کینہ پایا جاتا تھا۔

۴۸

البتہ وہ اپنی اس دشمنی اور کینہ کو رسول اللہ کی زندگی میں واضح طور پر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ شاید وہ اس میں اپنی بھلائی اور فائدہ نہیں دیکھتے تھے ۔ اس لئے وہ موقع بہ موقع رسول اللہ اور مسلمانوں کے پاس آکر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بدگوئی کرتے تھے اور تنقید کرتے تھے۔ اُن کی اس چال کا مقصد صرف حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کے درمیان کمزور کرنا اور اُن کی محبوبیت کو کم کرنا تھا۔

لیکن خدائے بزرگ نے یہ آیت نازل کرکے اُن کے مکروفریب کو باطل کردیا اور اُن کے ناپاک چہروں کو سب کے سامنے آشکار کردیا۔ اس ضمن میں دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبی سعیدُالخَدْری فِی قوله عزوجل”وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ“ قال بِبُغْضِهِمْ عَلَیّاً عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ اس آیت’( وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ ) کی تفسیر میں فرمایاکہ یہ علی کی دشمنی اور بغض کی وجہ سے ہے(یعنی دشمنی علی اُن کی زبان سے ظاہر ہوجاتی ہے)“۔

(ب)۔ درج ذیل روایت کو اکثر مفسرین نے اس آیت کی بحث کے دوران ذکر کیا ہے اور رسول اکرم کے خاص صحابہ کی زبان سے بیان کی گئی ہے جیسے ابی سعید اور دوسروں نے نقل کیا ہے:

کُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ بِبُغْضِهِمْ عَلِیّاً ۔

”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو اُن کی علی علیہ السلام سے دشمنی کے سبب پہچانتے تھے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۱۷۸،حدیث۸۸۳،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،ج۲، ص۴۲۱،حدیث۹۲۹،باب احوال علی ،اشاعت۲

۳۔ گنجی شافعی،کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۵۹،۳۶۲،صفحہ۳۱۵۔

۵۔ سیوطی، تفسیر المدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۷۴اورتاریخ الخلفاء،صفحہ۱۷۰۔

۴۹

۶۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب، جلد۳،صفحہ۱۱۰۔

۷۔ بلاذری، انساب الاشراف، جلد۲،صفحہ۹۶،حدیث۱۹،اشاعت اوّل از بیروت۔

۸۔ متقی ہندی کنزالعمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل اور اسی طرح احمد بن حنبل ۔

کتاب فضائل میں اور ابن اثیر کتاب جامع الاصول میں، طبری کتاب ریاض النضرہ میں اور بہت سے دوسرے۔

اُنیسویں آیت

علی صالح المو منین ہیں

( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ )

”اور اگر تم دونوں ہمارے رسول کے برخلاف ایک دوسرے کے پشت و پناہ بنو تو اللہ ، جبرئیل اور صالح مومنین اُس کے مددگار ہیں“۔(سورئہ تحریم:آیت۴)

تشریح

یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ اگرچہ کلمہ”صالح المومنین“ اپنے اندر وسیع تر معنی رکھتا ہے اور تمام صالح مومنین اور پرہیز گار اس میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن مومن کامل اور اکمل ترین انسان کون ہے؟اس کے لئے ہمیں روایات سے مدد لینا ہوگی اور روایات کو دیکھنا ہوگا۔ تحقیق کرنے پر بڑی آسانی سے ہم منزل تک پہنچ جائیں گے ۔ شیعہ علماء سے منقول روایات کے علاوہ اہل سنت نے بھی بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ ان سب سے یہی پتہ چلتا ہے کہ متذکرہ بالا آیت میں صالح مومنین سے مراد ذات مقدس امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ یہاں ہم چند ایک روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

(ا)۔عَنْ اَسماءِ بنتِ عُمَیس قٰالَتْ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَقْرَأُ هٰذِهِ الآیَة:وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ، قَالَ صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْطَالِب ۔

۵۰

”اسماء بنت عمیس روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے پیغمبر اسلام سے یہ آیت سنی( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلٰهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ ) آیت پڑھنے کے بعد پیغمبر خدا نے فرمایا کہ صالح المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں“۔

(ب)۔عَنْ السُّدی عَن ابنِ عَبَّاس، فِی قَولِه عَزَّوَجَلَّ’وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ قَالَ:هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”سدی، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کہ جس میں صالح المومنین کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

(ج)۔عَنْ مُجٰاهِد فی قَولِهِ تَعٰالٰی:”وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ“ قَالَ: صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”مجاہد سے روایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں جہاں صالح المومنین کا تذکرہ ہے، وہاں صالح المومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۹۸۴ اور ۹۸۵،جلد۲،صفحہ۲۵۷۔

۲۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، باب۶۷،جلد۱،صفحہ۳۶۳۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۲۴۴اور اشاعت دیگر صفحہ۲۶۹،۲۷۰۔

۴۔ ابن مغازلی، مناقب امیر المومنین میں، حدیث۳۱۶،صفحہ۲۶۹،اشاعت اوّل۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایت الطالب میں، باب۳۰،صفحہ۱۳۷۔

۶۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں،حدیث لا شی، جلد۱،صفحہ۲۳۷، اشاعت اوّل۔

۷۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۵، اشاعت دوم، حدیث۹۳۲،۹۳۳۔

۸۔ ابن حجر فتح الباری میں، جلد۱۳،صفحہ۲۷۔

۵۱

بیسویں آیت

قیامت کے دن لوگوں سے ولایت علی کے بارے میں سوال کیا جائے گا

( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ )

”اور ان کو ٹھہرا ؤ کہ ابھی ان سے سوالات کئے جائیں گے“۔(سورئہ صافات:آیت۲۴)

تشریح

سورئہ مبارکہ صافات کے ایک حصہ میں جہاں پروردگار قیامت اور اس کے متعلقہ مسائل اور عذاب عظیم جو مشرکین اور گمراہوں کے انتظار میں ہے، کے بارے میں بیان فرماتا ہے، اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) سے اپنے تمام فرشتوں اور ملائکہ کو اُس دن دوسرے احکام کے ساتھ یہ اہم حکم دے گا اور وہ حکم یہ ہوگا کہ اے میرے فرشتو ! ان کو روک لو ، ابھی ان سے سوال کیا جائیگا۔

لوگوں کے اس سوال پر کہ قیامت والے دن اس آیت کے مطابق کونسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے مختلف جواب دئیے ہیں۔ کچھ نے کہا ہے کہ توحید کے بارے میں سوال کیا جائے گا، کچھ نے کہا ہے کہ اُس دن لوگوں سے بدعتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو وہ دنیا میں چھوڑ گئے، کچھ اوروں نے مختلف دیگر چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ جوابات آیت کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اہل سنت اور شیعہ کتب میں بہت سی روایات موجود ہیں جن کے مطابق باقی اہم سوالوں کے علاوہ جو مجرموں سے پوچھے جائیں گے، ولایت علی ابن ابی طالب کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔ اس مطلب کی وضاحت کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ سعید خدری، عَنْ النبی فی قوله تعالٰی ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) قال: عَنْ وِلَایَةَ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِب ۔

”ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) ک ی تفسیر میں فرمایا کہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

۵۲

(ب)۔وَرَوِیٰ اَبُوالْاَحْوَضِ عَنْ أَبی اسحٰاقِ فی قولِهِ تعٰالٰی: ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) قَالَ یَعنی مِنْ وِلَایَةِ عَلِیِّ ابنِ اَبِی طَالِب اِنَّهُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِهِ بَرَاةً بِوِلَایةِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب ۔

”ابو احوض، ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس آیہ شریفہ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) کی تفسیر میں کہا کہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائیگااور مزید کہا:”اِنَّهُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِهِ بَرَاةً بِوِلَایَةِ عَلِی“ ’ کسی کو پل صراط سے گزرنے کا حق حاصل نہ ہوگا مگر وہ جس کے ہاتھ میں ولایت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کا پروانہ ہوگا‘۔

(ج)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قولِه عَزَّوَجَلَّ ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْن ) قَالَ:عَنْ وِلَایةِ علی ابنِ ابی طالب ۔

”ابن عباس سے اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْن ) کي باري م یں روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۴،جلد۱،صفحہ۷۹۔

۲۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ۷۸۷،جلد۲،صفحہ۱۰۶،اشاعت اوّل۔

۳۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال، باب حال علی بن حاتم، ج۳،ص۱۱۸،شمارہ۵۸۰۲۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۴۷۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۷،صفحہ۱۳۳اور اسی کتاب میں

باب مناقب ،صفحہ۲۸۲،حدیث۵۱۔

۶۔ خوارزمی، کتاب مناقب، باب۱۷،صفحہ۱۹۵۔

۷۔ ہیثمی، کتاب صواعق المحرقہ، صفحہ۸۹اور کتاب لسان المیزان،جلد۴،صفحہ۲۱۱۔

۸۔ ابن جوزی، کتاب تذکرة الخواص، باب دوم، صفحہ۲۱۔

۵۳

اکیسویں آیت

اللہ تعالیٰ نے جنگوں اور مشکلات میں مسلمانوں کی مدد علی کے وسیلہ سے کی

( وَرَدَّاللّٰهُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْابِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًاوَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَالَوَکَانَ اللّٰهُ قَوِیًّا عَزِیْزًا )

”اور اُن لوگوں کو جو کافر ہوگئے تھے، اللہ نے اُن کے غصے ہی کی حالت میں لوٹا دیا کہ وہ کسی مراد کو نہ پہنچیں اور اللہ نے مومنوں پر لڑائی کی نوبت ہی نہ آنے دی اور اللہ صاحب قوت اور صاحب غلبہ ہے“۔(سورئہ احزاب: آیت۲۵)۔

تشریح

یہ آیت سورئہ احزاب سے ہے جس کی کچھ دوسری آیتیں جنگ خندق(جنگ احزاب) کے متعلق ہیں۔ جنگ خندق ایسی جنگ ہوئی ہے جس میں مسلمانوں کو کامیابی معجزانہ طور پر نصیب ہوئی اور بغیر کسی وسیع قتل و غارت کے کفار شکست خوردہ اور مایوس ہوکر مدینہ کے محاصرے کو توڑ کر ناکام واپس اپنے علاقوں کی طرف چلے گئے۔اس میں مدد غیبی کی ایک شکل تو قدرت کی طرف سے زبردست طوفان اور سخت ترین سرد ہوائیں چلیں جس نے کفار کے حوصلے پست کردئیے ۔ اُن کے دلوں میں خدائی طاقت کا رعب اور ڈر بیٹھ گیا اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام نے اُن کے طاقتور ترین پہلوان اور جنگجو یعنی عمر بن عبدود پر وہ کاری ضرب لگائی کہ وہ نیست و نابود ہوگیا۔ اس سے کفار کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا اور وہ مایوسی میں تبدیل ہوگئیں۔ کفارکے بڑے بڑے سرداروں کے حوصلے پست ہوگئے۔

اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی فداکاری اور کارکردگی اتنی اہمیت کی حامل تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:

”لَمُبارِزَةُ عَلِی ابنِ ابی طالب لِعُمروبنِ عَبدُوَدیَومَ الْخَنْدَقِاَفْضَلُ مِنْ اَعْمٰالِ اُمَّتِیْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰامَةِ“

”حضرت علی علیہ السلام کی جنگ خندق میں ایک ضربت میری تمام اُمت کی قیامت تک کی عبادت سے افضل ہے“۔

حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۳۲۔

شیخ سلیمان قندوزی، ینابیع المودة، باب۲۳،صفحہ۱۰۹اور باب۴۶،ص۱۶۱اوربہت سے دوسرے۔

۵۴

اب اس آیت کی تفسیر میں چند ایک روایات بیان کی جارہی ہیں جو توجہ طلب ہیں:

(ا)۔عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ اِنّه کَانَ یَقْرَاُ هٰذِهِ الآیة”وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَالَ“ بِعَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ وہ یہ آیت

( وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال )

تلاوت فرمارہے تھے اور اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام کی ذات مقدس کو لے رہے تھے“۔

(ب)۔عَنْ عبداللّٰهِ بن مسعود قَالَ: لَمَّا قَتَلَ عَلِیٌّ عمروبن عَبْدُوَدْ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، اَنْزَلَ اللّٰهُ تعالٰی:”وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال“بِعَلِیٌّ ۔

”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے جنگ خندق میں عمربن عبدود کو ہلاک کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت

( وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال )

حضرت علی علیہ السلام (کے عمل) کی خاطر نازل فرمائی“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی کتاب شواہد التنزیل میں، شمارہ۶۲۹،جلد۲،صفحہ۳۔

۲۔ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، باب حال امیرالمومنین ، شمارہ۹۲۷،جلد۲،صفحہ۴۲۰،

اشاعت دوم(شرح محمودی)۔

۳ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، شمارہ۴۱۴۹،جلد۲،صفحہ۳۸۰۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۴۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب۲۳،صفحہ۱۰۸اور باب۴۶،ص۱۶۱۔

۶۔ سیوطی تفسیر الدالمنثور میں، جلد۵،صفحہ۲۰۹۔

۵۵

بائیسویں آیت

علی اورفاطمہ علم و معرفت کے دریائے بیکراں ہیںاور حسن و حسین اُن کے انتہائی قیمتی موتی ہیں

( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِبَیْنَهُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِفَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَآ تُکَذِّبٰنِیَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلو وَالْمَرْجَانُ )

”اُس نے دودریا بہادئیے، وہ باہم ملتے ہیں اور اُن دونوں کے مابین پردہ ہے کہ ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرسکتا۔پھر تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اُن دونوں سے موتی اور مونگا برآمد ہوتے ہیں“۔(سورئہ رحمٰن:آیات۱۹تا۲۱)۔

تشریح

وہ افراد جو قرآن اور علوم قرآن سے واقف ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتاب آسمانی اپنے اندر معنی کا سمندر رکھتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک آیت بعض اوقات چند معنی رکھتی ہو اور بعض اوقات بیسیوں معنی رکھتی ہو جبکہ اُن کا ہر معنی اپنی جگہ قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہو اور وہ ایک دوسرے سے ٹکراؤ بھی نہ رکھتے ہوں۔مثال کے طور پر یہ چند آیات جو سورئہ رحمٰن سے ہیں اوراوپر بیان کی گئی ہیں، اس طرح کی آیات ہیں جن کے مختلف معنی نکل سکتے ہیں۔

وہ لوگ جو ان آیات کو ظاہری اعتبار سے دیکھتے ہیں تو اُن کے اذہان میں یہی معنی آتے ہیں کہ کرئہ ارض کے بڑے بڑے دریا اور سمندر جو اس کے تین چوتھائی حصے پر پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کے اندر بڑے بڑے قیمتی گوہر اور معدنیات موجود ہیں، یہ خدائے بزرگ کی طرف سے عظیم نعمتیں ہیں۔ یہ سب ،انسان کو غوروفکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ دیکھیں کہ خدا نے انسان کیلئے کس طرح یہ دریااور سمندر پھیلائے اور اُن میں بیش بہا نعمتیں پیدا کیں۔ لیکن ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ان آیات کے دوسرے مطالب ہیں جو مقصود خالق ہیں۔

۵۶

روایات اور اطلاعات جو اسلامی تاریخ میں موجود ہیں، اُن کو بغور دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان آیات سے دو عظیم ہستیوں کا تعارف کروانا مقصود ہے۔ وہ ہستیاں جو علم و معرفت اور کمال کے دریائے بیکراں ہیں اور ان سے ملنے والے دو قیمتی موتی حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہیں۔توضیح کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں:

عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰه عنه فی قوله تعالٰی ( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن ) قال:علی و فاطمه ،( بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ ) اَلنّبی،( یَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلو وَالْمَرْجَانُ ) قال:اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْن علیهماالسلام ۔

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ تفسیر( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن ) سے مراد علی علیہ السلام اور فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں۔”بَیْ نَھُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِ یٰن“ سے مراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے(پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات جناب علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے درمیان وہ واسطہ ہے جس سے یہ صحیح بندگی خدا اور اُس کی عبودیت کے لئے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح اُن کی ذات گرامی سے خود بھی فیض یاب ہوتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے بطور نمونہ اُن کی رہنمائی اور ہدایت کا باعث بنتے ہیں)۔( یَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلووَالْمَرْجَانُ ) سے مراد امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ہیں۔

یہ قابل توجہ بات ہے کہ درج بالا روایت کو علمائے اہل سنت نے دوسرے صحابہ سے بھی نقل کیا ہے اور شیعہ علماء نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے اور یہ روایت بجائے خود بہت اہمیت کی حامل ہے۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۱۵۸اور دوسری اشاعت میں ج۶،ص۱۴۲

۲۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل ، حدیث۹۱۹،ج۲،ص۲۰۹،اشاعت اوّل،ج۲،

صفحہ۲۱۲،اشاعت دوم۔

۳۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، صفحہ۳۳۹،حدیث ۳۹۰۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۹،صفحہ۱۳۸۔

۵۷

۵۔ ثعلبی، تفسیر ثعلبی میں جلد۴،صفحہ۲۸۹۔

۶۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب ”مانزل من القرآن فی علی “،اس آیت کی تشریح میں۔

۷۔ شبلنجی، کتاب نورابصار میں، صفحہ۱۰۱۔

۸۔ خوارزمی، کتاب مقتل الحسین ، صفحہ۱۱۲۔

۹۔ کراجکی، کتاب کنزالفوائد میں، صفحہ۳۶۶۔

تئیسویں آیت

علی اور اہل بیت سے محبت نیکی ہے اور ان سے بغض گناہ ہے

( مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعَْمَلُوْنَ )

”جو شخص کوئی نیکی لے کر آئے گا پس اُس کیلئے اس کا عوض اس سے بہتر موجود ہے اور وہ اُس دن خوف سے امن میں ہوں گے اور جو بدی لے کر آئے گا وہ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے، جو کچھ تم کرتے تھے، اُسی کا بدلہ تمہیں ملے گا“(سورئہ نمل:آیت۸۹اور۹۰)

تشریح

اس آیت میں دو الفاظ یعنی”حَسَنَةِ“ اور”سَيِّئَةِ“ استعمال ہوئے ہیں۔آیت کا اصلی مقصد بھی انہی کو سمجھانا ہے کہ نیکی اور بدی اصل میں کہتے کسے ہیں کیونکہ اس کا انسان کی مادّی اور روحانی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

”حَسَنَةِ“ اور”سَيِّئَةِ“ ، یہ دوالفاظ اس آیت میں اور قرآن کی دیگر آیات میں استعمال ہوئے ہیں۔ان الفاظ کے مفہوم اور معنی نہایت وسیع ہیں مثلاً”حَسَنَةِ“ میں تمام نیک اور پسندیدہ اعمال شامل ہیں اور ان میں سرفہرست خدا پر ایمان، اُس کے پیغمبر پر ایمان اور حضرت علی علیہ السلام اور آئمہ علیہم السلام کی ولایت پر ایمان ہے اور”سَيِّئَةِ“ میں تمام قبیح اور ناپسندیدہ اعمال شامل ہیں جو انسان کو خدا اور اُس کے رسول

۵۸

اور اُس کے اولیائے حق کے خلاف سرکشی پر ابھارتے ہیں اور یہ ”حَسَنَة“کی مکمل ضد ہے۔ لیکن ان کلمات کی تفاسیر اور تعابیر جو ہم تک آئمہ معصومین کے ذریعے سے پہنچی ہیں اور جسے بہت سے علمائے اہل سنت اور شیعہ نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ”حَسَنَة“ سے مراد قبول ولایت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اُن کی اولاد ہیں اور ”سَےئَة“ سے مرادعدم قبول ولایت علی اور اولاد علی ہے۔درج ذیل روایت میں اسی بات کی تفسیر ہے:

عَنْ ابی عبدِاللّٰهِ الجَدَلِی قال: قٰال لی علی علیه السلام:اَلٰا اُنَبِّئُکَ بِالْحَسَنَةِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِهٰااَدْخَلَهُ اللّٰهُ الجَنَّةَ وَبِالسَّيّئَةِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِهٰااَکَبَّهُ اللّٰهُ فِی النّٰارِوَلَمْ یُقْبَلُ لَه عَمَلاً؟ قُلْتُ بلٰی ثُمَّ قَرَأَ(امیرالمومنین) مَنْ جٰاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرُ مِنْهٰاوَهُمْ مِنْ فَزَعِ یَومَئِذٍآمِنُوْنَ وَمَنْ جٰاءَ بالسَّيّئَةِ فَکُبَّتْ وَجُوْهَهُمْ فِی النَّارِهَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ثُمَّ قٰالَ: یٰا أَبٰاعَبْدِاللّٰهِ، اَلْحَسَنَةُ حُبُّنٰاوَالسَّيِّئَةُ بُغْضُنَا

”ابو عبداللہ جدلی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:’کیا میں تجھے اُس نیک عمل کی خبر نہ دوں کہ جو کوئی اُس کو انجام دے گا، پروردگار اُس کو بہشت میں داخل کرے گا اور کیا تجھے اُس بدعمل کی خبر نہ دوں کہ اُسے جو کوئی انجام دے گا، پروردگار اُسے جہنم میں پھینکے گااور اُس کاکوئی دوسراعمل بھی قبول نہ ہوگا‘۔

میں نے عرض کی:’ہاں مولا! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس سے باخبرکریں‘۔ حضرت علی علیہ السلام نے پھر یہ آیت پڑھی:

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَوَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِهَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلَُوْنَ

پھر فرمایاحَسَنَةہم اہل بیت سے محبت ہے اورسَےئَة اہل بیت سے بغض و دشمنی ہے۔اسی طرح بعض دوسری روایات میں آیاہے کہ آپ نے اس بارے میں فرمایا:

”اَلْحَسَنَةُ مَعْرِفَةُ الْوِلَایَةِ وَحُبُّنٰا اَهْلِ الْبَیْتِ وَالسِّيِّئَةُ اِنْکَارُ الْوِلَایَةِ وَبُغْضُنَا اَهْلَ الْبَیْتِ“ ۔

”حَسَنَة یعنی معرفت ولایت علی علیہ السلام اورہم اہل بیت سے محبت ہے اور سَّےئَة یعنی انکار ولایت علی علیہ السلام اور ہم اہل بیت سے بغض و دشمنی ہے“۔

۵۹

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۶۱،جلد۲،صفحہ۲۹۹۔

۲۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۵۸۲،۵۸۷،ج۱،ص۴۲۶،۴۲۸

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۲۴،صفحہ۱۱۳۔

۴۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد۲۔

۵۔ الحنینی کتاب خصائص الوحی المبین، صفحہ۱۲۸۔

۶۔ رشید الدین، مناقب آل علی ، جلد۲،صفحہ۲۲۵،عنوان درجات علی عند قیام الساعة۔

چوبیسویں آیت

اللہ تعالیٰ علی کے وسیلہ سے کفارو مشرکین سے انتقام لیتا ہے

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

”پس اگر تم کو ہم لے جائیں گے تو ہم اُن سے بھی ضرور ہی بدلہ لینے والے ہیں“۔

(سورئہ زخرف:آیت۴۱)۔

تشریح

سورئہ مبارکہ زخرف میں اللہ تعالیٰ کفار کی حرکتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے پیغمبر کی تسلی اور سکون کی خاطر فرمارہا ہے کہ کفار کی چالوں کی وجہ سے اسلام کے مستقبل کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں کیونکہ اگر وہ کفر، ظلم اور انتقام جوئی کو ترک نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی یقینا اُن سے انتقام لے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بشری زندگی کے مختلف زمانوں میں اپنے قابل دید اور ناقابل دید لشکروں سے کفار، منافق اور مشرکوں سے انتقام لیتا رہا ہے اور اُن کوسزائیں دیتا رہا ہے اور یہ عمل اُس کیلئے کوئی مشکل نہیں کیونکہ اُس کی ذات

( فَعَّالٌ لِمٰا یُرِیْد )

”وہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے“۔

۶۰