آفتاب ولایت

آفتاب ولایت28%

آفتاب ولایت مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 272

آفتاب ولایت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 272 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157963 / ڈاؤنلوڈ: 5561
سائز سائز سائز
آفتاب ولایت

آفتاب ولایت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

اللہ تعالیٰ کے انتقام کی کوئی مثال دیکھنی ہو تو وہ انتقام ہے جس کا ارادہ تو خدا کی ذات نے کیااور اُسے انجام علی علیہ السلام نے دیا۔ تمام علماء اور مفسرین اہل سنت اور شیعہ نے اپنی کتابوں میں روایات نقل کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت مذکورسے مراد وجود پاک حضرت علی علیہ السلام ہے کیونکہ آپ نے تمام کفار و منافقین سے اُن مظالم اور زیادتیوں کا جو انہوں نے پیغمبر اسلام پر کی تھیں، کا بدلہ لیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان اور دانشمند حضرات حتیٰ کہ غیر مسلم بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اعمال سے رسول اللہ کی زندگی میں اور اُن کی ظاہری زندگی کے بعد کفار کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی اور منافقین کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مایوس کردیا تھا۔حق اور صراط مستقیم کو عیاں کردیا۔ اس ضمن میں چند روایات نیچے درج کی جارہی ہیں جو آپ کی توجہ کی طالب ہیں:

(ا)۔عَنْ جَابِرقٰالَ:لَمَّا نَزَلَتْ عَلٰی رَسُوْلِاللّٰه”فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“قٰالَ بِعَلیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”جابر ابن عبداللہ سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

رسول خدا پر نازل ہوئی توآپ نے آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے فرمایا کہ علی علیہ السلام کے وسیلہ سے انتقام الٰہی لیا جائے گا“۔

(ب)۔ عَنْ حُذَ یْ فَة بن الیَمٰان قٰالَ فی قولہ تعالٰی”فَامَّانَذْهَبَنَّ بکَ فَانَّا منْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“ یَعْنِ ی بعَلی بن ابی طالب علیہ السلام۔

”حذیفہ بن یمان سے روایت کی گئی ہے ، انہوں نے اس آیت

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

کی تفسیر میں فرمایا کہ علی علیہ السلام کے وسیلہ سے انتقام لیا جائے گا“۔

۶۱

(ج)۔عَنْ جابربن عبداللّٰه عَنِ النَّبی فی قوله’فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ‘نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ اِنَّه یَنْتَقِمُ مِنَ النَّاکِثِیْنَ وَالقَاسِطِینَ بَعْدِی ۔

”جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرم نے اس آیت

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ علی میرے بعد ناکثین(بیعت توڑنے والے اصحاب جنگ جمل) اور قاسطین(جنگ صفین میں لشکر معاویہ) سے انتقام لیں گے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی ،تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۲۰،آیت مذکور کے ضمن میں۔

۲۔ ابن مغازلی شافعی، حدیث۳۶۶کتاب ”مناقب امیر المومنین “، ص۲۷۵اور۳۲۰

۳۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل، حدیث۸۵۱، جلد۲،صفحہ۱۵۲، اشاعت اوّل۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی ، کتاب ینابیع المودة میں، باب۲۶،صفحہ۱۱۴اور اسی کتاب میں

باب(مناقب)۷۰،صفحہ۲۸۷،حدیث۲۴۔

۵۔ طبرانی، کتاب معجم الکبیر میں، جلد۳،صفحہ۱۱۱۔

پچیسویں آیت

علی نے اپنی جان مبارک کامعاملہ اللہ تعالیٰ سے طے کرلیا

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ )

”اور آدمیوں میں سے ایسابھی ہے جو رضائے خدا حاصل کرنے کیلئے اپنے نفس کو فروخت کرتا ہے“۔(سورئہ بقرہ: آیت۲۰۷)۔

۶۲

تشریح

پیغمبر اسلام کا مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا اور اُس سے ہی متعلق دوسرے اُمور ایسے موضوع ہیں جن پر تقریباً تمام تاریخ دانوں نے اپنی اپنی تواریخ میں لکھا ہے اور اس واقعہ میں پیغمبر اسلام کی بردباری ،صبروتحمل اور اُن کے وفادار اصحاب کی شان بیان کی ہے۔

ہجرت پیغمبر میں سب سے اہم واقعہ ہجرت کی رات کا ہے جب پیغمبر اکرم کے حکم کے مطابق حضرت علی علیہ السلام آپ کے بستر پر سوئے اور کفار مکہ جو جنگی ہتھیاروں سے لیس تھے ، کی طرف سے کسی بھی وقت حملہ کے منتظر رہے۔ نصف شب کے قریب مسلح کفار جنہوں نے نبی اکرم کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا، داخل منزل ہوئے۔ حضرت علی علیہ السلام بستر سے اُٹھے اور مقابلہ کیلئے تیار ہوئے۔ کفار مکہ نے جب حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا تو مایوس ہوکر واپس لوٹ گئے۔ اس طرح کفار مکہ کے تمام ارادے خاک میں مل گئے اور پیغمبر خدا کچھ دنوں بعد صحیح و سلامت مدینہ پہنچ گئے۔

بہت سے شیعہ اور اہل سنت علماء نے آیت مذکور کو علی علیہ السلام کی فداکاری سے منسوب کیا ہے اور اس کی تائید میں بہت سی روایات نقل کی ہیں جن میں سے چند ایک بطور نمونہ درج کی جارہی ہیں، ملاحظہ ہوں:

(ا)۔عَنْ علی بن الحسین فی قوله تعالٰی’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ‘قال نَزَلَتْ فِیْ عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَام حینَ بٰاتَ عَلٰی فِراشِ رَسُولِ اللّٰهِ ۔ (المیزان)

”علی ابن الحسین امام زین العابدین علیہما السلام سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰه )

کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے جب وہ شب ہجرت پیغمبر خدا کے بستر پر سوئے تھے“۔

۶۳

(ب)۔رَوَی السُّدیُّ عَنْ اِبْنِ عَبَّاس قٰالَ نَزَلَتْ هٰذِهِ الآیةُ فِی عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهَ السَّلَام حِینَ هَرَبَ النَّبِیعَنِ الْمُشْرِکِیْنَ اِلَی الْغٰارِ ونٰام علی عَلٰی فِراشِ النَّبی ۔(مجمع البیان)

”سدی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ یہ آیت

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰه )

حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی جب پیغمبر اسلام کفار کے شر سے بچنے کیلئے مدینہ کیلئے ہجرت کرتے ہوئے غار ثور کی طرف چلے اور علی علیہ السلام آپ کے بستر پر سوئے۔

اسی طرح بہت سے علماء نے من جملہ صاحب مجمع البیان نے اس آیت کے بارے میں درج ذیل روایت بیان فرمائی ہے جو بہت زیادہ اہمیت کی حامل اور قابل توجہ ہے۔ روایت اس طرح ہے:

لَمَّانَامَ عَلِیٌّ فِراشَه قَامَ جِبْرَائِیلُ عِنْدَ رَاسِهِ وَمِیْکَائِیلُ عِنْدَ رِجْلَیْهِ وَجِبْرَائِیلُ یُنٰادِی بَخٌ بَخٌ مَنْ مِثْلُکَ یابْنَ اَبِیْ طَالِب؟ یُبٰاهِی اللّٰهُ بِکَ الْمَلٰائِکَةُ

”جب حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کے بستر پر(شب ہجرت)سوئے تو جبرئیل سرہانے کی طرف اور میکائیل پاؤں کی طرف کھڑے ہوگئے اور جبرئیل نے بہ آواز بلند کہا:’مبارک ہو،مبارک ہو، تم جیسا(باایمان اور فداکار) کون ہے؟ خداوند پاک فرشتوں کو مخاطب کرکے تم پر فخر کررہا ہے‘۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ فخرالدین رازی تفسیر کبیر میں، جلد۵،صفحہ۲۰۴،اشاعت دوم،تہران۔ آیت مذکور کے بارے میں۔

۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۹۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ۱۰۵،باب۲۱۔

۴۔ ثعلبی، کتاب احیاء العلوم، جلد۳،صفحہ۲۳۸۔

۵۔ شبلنجی، کتاب نورالابصار میں، صفحہ۸۶۔

۶۴

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔۴

(چند دوسری مثالیں)

حضرت علی علیہ السلام سورہ والعصر میں

( وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍاِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْبِالصَّبْرِ )

”وقت عصر کی قسم! انسان ضرور گھاٹے میں ہے۔ سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق کی پیروی کی تاکید کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کرتے رہے“۔

روایت

عَنْ اِبْنِ عباس فِی قوله تعالٰی:”وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْبِالصَّبْرِ“قٰالَ: هُوَ عَلِی علیه السلام ۔

اس روایت کو علامہ سیوطی نے تفسیر الدرالمنثور جلد۶،صفحہ۴۳۹(آخری روایت تفسیر سورئہ عصر) پر درج کیا ہے۔ اسی روایت کو حافظ الحسکانی نے کتاب شواہد التنزیل، حدیث۱۱۵۶

جلد۲،صفحہ۳۷۳، اشاعت اوّل اور حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”ما نزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں بیان کیا ہے اور بہت سے دوسروں نے اسی روایت کو نقل کیا ہے۔

ترجمہ

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ اس کلام الٰہی

”وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ“ کی تفسیر میں کہا کہ اس سے مراد ابوجہل لعنة اللّٰہ علیہ ہے اور”اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْبِالصَّبْر“ کی تفسیر میں کہا گیاکہ اس سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔

۶۵

علی علم الٰہی کا خزینہ ہیں

( قُلْ کَفٰی بِاللّٰهِ شَهِیْدًام بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَه عِلْمُ الْکِتٰبِ )

”آپ کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی دینے کو (ایک تو) اللہ کافی ہے(دوسرے)وہ جن کے پاس اس کتاب کا پورا علم ہے“۔(سورئہ رعد:آیت۴۳)۔

روایت

عَنْ عَبْدِاللّٰهِ ابْنِ سَلٰام رضی اللّٰه عَنْهُ فِی قَولِه تَعٰالٰی”وَمَنْ عِنْدَه عِلْمُ الْکِتٰبِ“قَالَ سَئَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ قَالَ اِنَّمَا ذٰلِکَ عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِب ۔

اس روایت کو شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے کتاب ”ینابیع المودة“، باب مناقب، صفحہ۲۸۴،حدیث۶۰میں بیان کیا ہے اور ابن عباس سے نقل کرتے ہوئے اسی کتاب میں باب۳۰،صفحہ۱۲۱پر بھی درج کیا ہے۔اسی طرح حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل“،

،جلد۱،صفحہ۳۰۸،اشاعت اوّل، حدیث دوم میں بیان کیا ہے اور حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب ”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کی تفصیل میں بیان کیا ہے۔

ترجمہ

”عبداللہ بن سلام نے کلام الٰہی”وَمَنْ عِنْدَه عِلْمُ الْکِتٰبِ“ کے بارے میں روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ اس سے مراد کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ا س سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

علی اور آپ کے اصحاب سچائی کا نمونہ ہیں

( یٰٓاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ )

”اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ“۔(سورئہ توبہ:آیت۱۱۹)۔

۶۶

روایت

عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰهُ عنهُ فِی هٰذِهِ الآیَةِ”یٰٓاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ“قَالَ مَعَ علی واصحابه ۔

اس روایت کو ثعلبی نے اپنی تفسیر(تفسیر ثعلبی) جلد۱اور سیوطی نے تفسیر الدرالمنثور میں اس آیت کے سلسلہ میں بیان کیا ہے۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں باب شرح حال امیر المومنین میں حدیث۹۳۰،جلد۲،صفحہ۴۲۱میں بیان کیا ہے اور اسی طرح حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“،جلد۱،صفحہ۲۵۹،حدیث اوّل کے تحت بیان کیا ہے۔

ترجمہ

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ اس آیت

( یٰٓاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ )

کے بارے میں انہوں نے کہاکہ” کُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِ یْ ن “سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور آپ کے اصحاب ہیں“۔

ولایت علی و اہل بیت پر اعتقاد رکھنے کا نتیجہ قبولیت توبہ،ایمان، عمل صالح اور ہدایت ہے

وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰی ۔

”اور میں اُس کو جو توبہ کرے ، ایمان لائے اور نیک عمل کرے اورپھر ہدایت یافتہ بھی ہو، ضرور بخشنے والا ہوں“۔(سورئہ طٰہ:آیت۸۲)۔

روایت

عَنْ علی علیه السلام فِی قولِه تعٰالٰی”وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰی“ قَالَ اِلٰی وِلٰایَتِنَا ۔

اس روایت کو حافظ ابونعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیه السلام“ میں نقل کیا ہے اور حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل“،جلد۱،صفحہ۳۷۵،

اشاعت اوّل میں امام محمدباقر علیہ السلام اور حضرت ابوذرغفاری کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔

۶۷

ترجمہ

”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے اس کلام الٰہی

”وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهتَدٰی“

کے بارے میں فرمایا:’یعنی وہ جس نے ہماری ولایت کو تسلیم کیا اور اُس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کئے اور پھر ہدایت یافتہ بھی ہوا، اللہ اُس کو ضرور بخشنے والا ہے‘۔“

امت اور ولایت علی پر ایمان اصل میں ایک ہیں

( وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَایُومِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَٰنکِبُوْنَ )

”اور ضروروہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، راہ راست سے ہٹ جانے والے ہیں“۔(سورئہ مومنون:آیت۷۴)۔

روایت

عَنْ علی ابنِ ابی طالب فی قوله تعٰالٰی”وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَایُومِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَٰنکِبُوْنَ“قَالَ عَنْ وَلٰایَتِنَا ۔

اس روایت کو حافظ ابونعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں ،حموینی نے کتاب”فرائد السمطین“، باب۶۱،جلد۲،صفحہ۳۰۰اور حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“ حدیث۵۵۷جلد۱،صفحہ۴۰۲پر نقل کیا ہے۔

ترجمہ

”علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اس آیت خداوندی

( وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَایُومِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَٰنکِبُوْنَ )

کے بارے میں فرمایا کہ صراط سے یہاں مراد ہماری ولایت ہے(ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور ولایت اہل بیت )“۔

۶۸

علی کواذیت پہنچانابہت بڑ اصریح گناہ ہے

( وَالَّذِیْنَ یُوذُوْنَ الْمُومِنِیْنَ وَالْمُومِنٰتِ بِغَیْرٍمَااکْتَسَبُوْافَقَدِ احْتَمَلُوْابُهْتَانًاوَّاِ ثْمًامُّبِیْنًا )

”اور جو لوگ ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں کو بلاقصور ایذا پہنچاتے ہیں، وہ بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے ذمے لیتے ہیں“۔(سورئہ احزاب:آیت۵۸)۔

روایت

عَنْ مقاتِلَ بن سلیمان فِی قولِه عَزَّوَجَل”وَالَّذِیْنَ یُوذُوْنَ الْمُومِنِیْنَ وَالْمُومِنٰتِ بِغَیْرِمَااکْتَسَبُوْافَقَدِاحْتَمَلُوْابُهْتَانًاوَّاِ ثْمًامُّبِیْنًا“

قَالَتْ نَزَلَتْ فِی علی ابن ابی طالب وَذٰلِکَ اَنَّ نَفَراً مِنَ الْمُنٰافِقِیْنَ کَانُوْایُوْذُوْنَه وَیَکْذِبُوْنَ عَلَیْهِ

اس روایت کو ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں درج کیا ہے۔ اس کے علاوہ واحدی نے کتاب ”اسباب النزول“،صفحہ۲۷۳اور حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“،جلد۲،صفحہ۹۳،اشاعت اوّل،حدیث۷۷۵میں نقل کیا ہے۔

ترجمہ

”مقاتل بن سلیمان روایت کرتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ یہ آیت

وَالَّذِیْنَ یُوذُوْنَ الْمُومِنِیْنَ وَالْمُومِنٰتِ بِغَیْرِ مَااکْتَسَبُوْافَقَدِاحْتَمَلُوْابُهْتَانًاوَّاِ ثْمًامُّبِیْنًا

حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نازل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ کچھ منافقین آپ کو اذیت پہنچاتے تھے اور اُن کو جھٹلاتے تھے“۔

۶۹

اللہ تعالیٰ آل محمدپر سلام بھیجتا ہے

( سَلٰمٌ عَلٰی آلِ یَاسِیْنَ )

”آل یاسین تم پر سلام ہو“۔(سورئہ الصّٰٓفّٰت:آیت۱۳۰)۔

روایت

عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰه عنهُ فِی قوله تعٰالٰی”سَلٰمٌ عَلٰٓی اِلْ یَاسِیْنَ“قَالَ آلِ محمد صلَّی اللّٰهُ علیه وآله وسلَّم ۔

اس روایت کو حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“میں، ابن حجر ہیشمی نے ”صواعق المحرقہ“ میں صفحہ۷۶پر اور حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“،جلد۲،صفحہ۱۱۰،اشاعت اوّل میں نقل کیا ہے۔

ترجمہ

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ خدا کے اس کلام( سَلٰمٌ عَلٰٓی آلِ یَاسِیْنَ ) سے مراد آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں“۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ معتبر روایات کے مطابق آل محمد سے مراد حضرت علی علیہ السلام،جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام اور اُن کی پاک

اولاد ہیں“۔

علی اور تصدیق نبوت پیغمبر اکرم

( وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٓ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ )

”اور وہ جو سچ کو لے کر آیا اوروہ جس نے اُس کی تصدیق کی(خدا سے) ڈرنے والے وہی تو ہیں“۔(سورئہ زمر:آیت۳۳)۔

۷۰

روایت

عَنْ مُجٰاهِدٍ فِی قوله تعالٰی”وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٓ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ“قَالَ جٰاءَ بِاالصِّدْقِ محمدصلَّی اللّٰه علیه وآله وسلَّم صَدَّقَ بِهِ علی ابنِ ابی طالب ۔

اس روایت کو ابن مغازلی شافعی نے کتاب”مناقب“،صفحہ۲۶۹،حدیث۳۱۷،

اشاعت اوّل میں، حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل“،جلد۲،صفحہ۱۲۱،حدیث۸۱۲،

اشاعت بیروت اور حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“میں آیت مذکور کی تشریح کے سلسلہ میں بیان کیا ہے۔

ترجمہ

”مجاہد سے روایت کی گئی ہے کہ اس کلام الٰہی

( وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٓ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ )

کے بارے میں انہوں نے کہاکہ”جَآءَ بالصدْق“سي مراد پ یغمبر اسلام ہیں اور”صَدَّقَ بہٓ“سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں(یعنی جو کوئی صداقت اور حق کے ساتھ آیاوہ پیغمبر اسلام ہیں اور جس نے اُن کی تصدیق کی، وہ علی علیہ السلام ہیں)“۔

علی اور آپ کے ماننے والے حزب اللہ ہیں اور وہی کامیاب ہیں

( اَ لَآاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ )

”آگاہ رہو کہ خدائی گروہ کے لوگ(پوری پوری) فلاح پانے والے ہیں“۔

(سورئہ مجادلہ:آیت۲۲)

۷۱

روایت

عَنْ علی عَلَیْهِ السَّلام قَال سَلْمَانُ:فَلَمَّااِطَّلَعْتُ عَلٰی رسولِ اللّٰه یٰا اَبَاالْحَسَنْ اِلَّا ضَرَبَ بَیْنَ کِتْفِیْ وَقٰالَ:یَاسَلْمَانُ هَذَاوَحِزْبُهُ هُمُ الْمُفْلِحُوْن

اس روایت کو گنجی شافعی نے کتاب”کفایة الطالب“ باب۶۲،صفحہ۲۵۰میں، حافظ ابن عساکر نے کتاب”تاریخ دمشق“،باب شرح حال امیرالمومنین علیہ السلام،جلد۲،صفحہ۳۴۶

حدیث۸۵۴،اشاعت دوم میں، ابو نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کی تشریح میں اور حافظ الحسکانی نے ”شواہد التنزیل“،جلد۱،صفحہ۶۸،اشاعت اوّل میں سورئہ بقرہ کی آیت۴کی تفسیر کرتے ہوئے نقل کیا ہے۔

ترجمہ

”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ سلمان نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا:’یا اباالحسن !میں جب بھی رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آپ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اے سلمان! یہ شخص اور اس کی جماعت فلاح(کامیابی) پانے والے ہیں“۔

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ رسول اکرم اور علی کے ماننے والوں کو رسوا نہیں کرے گا

( یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَه )

”جس دن خدا تعالیٰ نبی کو اور اُن لوگوں کو جو اُن کے ساتھ ایمان لائے ہیں، رسوا نہ کرے گا“۔(سورئہ تحریم:آیت۸)۔

روایت

قَرَأَ بْنُ عَبَّاس(یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَه)قَالَ عَلِیٌ وَاَصْحٰابُهُ

اس روایت کو حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کے ضمن میں اور علامہ سیوطی نے کتاب”جمع الجوامع“میں جلد۲،صفحہ۱۵۵پر نقل کیا ہے۔

۷۲

ترجمہ

”روایت کی گئی ہے کہ ابن عباس یہ آیت

”یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَه“

تلاوت فرمارہے تھے،اُس وقت انہوں نے کہا کہ ”وہ لوگ جو ایمان لائے“سے مراد علی علیہ السلام اور اُن کے ماننے والے ہیں“۔

روزقیامت ولایت علی کے بارے میں سوال کیا جائے گا

( ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ )

”پھر تم سے اُس دن نعمتوں کی بابت ضرور بازپرس کی جائے گی“۔(سورئہ تکاثر:آیت۸)۔

روایت

عَنْ جَعْفَرِابْنِ محمد علیه السلام فِی قولِهِ عَزَّوَجَلَّ”ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ“قَالَ:عَنْ وِلَایَةِ عَلِیّ ۔

اس روایت کو حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے اور حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل،جلد۲،صفحہ۳۶۸،اشاعت اوّل میں نقل کیا ہے۔

ترجمہ

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے اس آیت

( ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ )

کے بارے میں فرمایا کہ وہ نعمت جس کے بارے میں روز قیامت سوال کیا جائے گا وہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے“۔

۷۳

فضائل امام علی علیہ السلام احادیث کی نظر میں۔ ۱

(حصہ اول)

پچھلے ابواب میں ہم نے مولائے متقیان امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کا تعارف قرآن کریم کی وساطت سے کروایا اور اس طرح آپ کی عظمت اور بلند مرتبہ شخصیت سے کسی حد تک آشناہوئے۔ اس سے پہلے بھی ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں جوا ٓیات قرآن کریم میں موجود ہیں، اُن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہم تو صرف چند آیات کو بیان کرسکے ہیں۔

اس باب میں انشاء اللہ روایات کی مدد سے ہم آپ کی شخصیت بزرگ اور نورانی چہرے کو اُجاگر کریں گے۔ یہاں جتنی بھی روایات نقل کی جائیں گی، وہ سب حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہیں۔ یہ وہ پیغمبر ہیں جو شریف ترین انسان اور عظیم ترین نبی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ سے دیکھیں اور اُن کے بلند ترین مقام کو پہچانیں۔

ان مختصر سے ابتدائی کلمات میں یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ جیسے پچھلے ابواب میں اہل سنت کی کتب سے اسناد پیش کی گئیں، اس باب میں بھی اُسی طرح اہل سنت کی کتب سے اسناد پیش کی جائیں گی۔ یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ برادران اہل سنت کی کتب سے حوالہ جات لکھنے کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ شیعہ علماء نے ان روایات کے بارے میں کچھ نہیں لکھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام روایات کو شیعہ علماء نے اپنی کتب میں واضح طور پر بیان کیا ہے اور اُن کی نظر میں یہ سب معتبر اور تسلیم شدہ ہیں۔ ان کے بارے میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔لہٰذا ان وجوہات کے پیش نظر شیعہ علماء اور کتب شیعہ سے کوئی حوالہ نہیں لکھا جارہا۔ صرف چند ایک جگہوں پر اشارتاً ذکر کیا گیا ہے۔

اصل مدعا یہ ہے کہ وہ لوگ جو آپ کو صرف مسلمانوں کا چوتھا خلیفہ مانتے ہیں اور اُن کو رسول اللہ کا خلیفہ بلافصل نہیں مانتے، آپ کے فضائل اُن کی زبانی سنے جائیں۔ اس طرح ایک تو مسلمانان عالم کو صحیح راستہ دکھا سکیں گے اور دوسرے اہل تشیع کے ایمان نسبت بہ محمد و آل محمدکومزید تقویت پہنچاسکیں گے،انشاء اللہ۔

۷۴

پہلی روایت

علی سب سے پہلے نبوت اورکلمہٴ توحید کی گواہی دینے والے ہیں

عَنْ انس ابن مالک قَالَ: قَالَ رَسُوْل اللّٰهِ:صَلّٰی عَلیَّ الْمَلٰا ئِکَةُ وَعَلٰی عَلِیِّ سَبْعَ سِنِیْنَ وَلَمْ یَصْعُدْ اَوْلَمْ یَرْتَفِعْبِشَهٰادَةِ اَنْ لَااِلٰهَ اِلَّااللّٰهُ مِنَ الْاَرْضِ اِلَی السَّمَاءِ اِلَّا مِنِّی وَمِنْ علی ابنِ ابی طالب ۔

”انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے سات سال تک مجھ پر اور علی علیہ السلام پر درود بھیجتے رہے(یہ اس واسطے کہ ان سات سالوں میں) خدا کی وحدانیت کی گواہی زمین سے آسمان کی طرف سوائے میرے اور علی کے علاوہ کسی نے نہ دی“۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے اسلام لانے کے بارے میں اہل سنت اور شیعہ کتب سے کافی روایات ملتی ہیں۔ جیسے زید بن ارقم کہتے ہیں”اَوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ عَلِی ۱“سب سے پہلے جو اسلام لائے وہ علی تھے۔ اس کے کچھ حوالہ جات نیچے بھی درج کئے گئے ہیں۔ اسی طرح انس بن مالک کہتے ہیں: ۲

”بُعِثَ النَّبِیُّ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ وَاَسْلَمَ عَلِیٌّ یَوْمَ الثلا ثا“

یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر کے روز مبعوث برسالت ہوئے اور علی علیہ السلام نے منگل کے روز اسلام قبول کیا۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر تاریخ دمشق ،باب شرح حال امام علی ،جلد۱،ص۷۰،حدیث۱۱۶۔

۲۔ ابن مغازلی کتاب مناقب امیرالمومنین ،حدیث ۱۹،ص۸،اشاعت اوّل،ص۱۴پر

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۱۲،صفحہ۶۸۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث ۷۸۶اور ۸۱۹۔

۵۔ سیوطی، کتاب اللئالی المصنوعہ،ج۱،ص۱۶۹و(صفحہ۱۶۶اشاعت بولاق)

۶۔ متقی ہندی، کنزالعمال،ج۱۱،ص۶۱۶(موسسة الرسالہ بیروت،اشاعت پنجم)۔

۷۵

حوالہ جات روایت زید بن ارقم ۱

۱۔ ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ،جلد۷،صفحہ۳۳۵(باب فضائل علی علیہ السلام)۔

۲۔ گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب،باب۲۵،صفحہ۱۲۵۔

۳۔ سیوطی ،کتاب تاریخ الخلفاء، صفحہ۱۶۶(باب ذکر علی ابن ابی طالب علیہ السلام)۔

حوالہ جات روایت انس بن مالک ۲

۱۔ خطیب،تاریخ بغداد میں،جلد۱،صفحہ۱۳۴(حال علی علیہ السلام،شمارہ۱)۔

۲۔ حاکم ،المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۱۲(باب فضائل علی علیہ السلام)۔

۳۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد۳،صفحہ۲۶۔

۴۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء،صفحہ۱۶۶(باب ذکر علی ابن ابی طالب علیہ السلام)۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب۱۲،صفحہ۶۸اورباب۵۹،ص۳۳۵۔

۶۔ ابن عساکر تاریخ دمشق ، حال امیر المومنین امام علی ،جلد۱،ص۴۱،حدیث۷۶۔

دوسری روایت

علی پیغمبر کے ساتھ اورپیغمبرعلی کے ساتھ ہیں

عَنْ علی ابنِ ابی طالب قَالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلَّی اللّٰهُ علیه وآله وسلَّمْ:یَا عَلِیُّ اَنْتَ مِنِّی وَاَنَامِنْکَ

”علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا:یا علی ! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حاکم، کتاب المستدرک میں جلد۳،صفحہ۱۲۰۔

۲۔ ذہبی، میزان الاعتدال،جلد۱،صفحہ۴۱۰،شمارہ ۱۵۰۵،ج۳،ص۳۲۴،شمارہ۶۶۱۳

۳۔ ابن ماجہ سنن میں، جلد۱،صفحہ۴۴،حدیث۱۱۹۔

۷۶

۴۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد۷،صفحہ۳۴۴(باب فضائل علی علیہ السلام)۔

۵۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، باب حال امیر المومنین ،ج۱،ص۱۲۴،حدیث۱۸۳

۶۔ سیوطی،تاریخ الخلفاء،صفحہ۱۶۹۔

۷۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۲۷۵،صفحہ۲۲۸،اشاعت اوّل۔

۸۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب ۶۷،صفحہ۲۸۴۔

۹۔ شیخ سلیمان قندوزہ حنفی ،کتاب ینابیع المودة، صفحہ۲۷۷،باب۷،صفحہ۶۰۔

۱۰۔ بخاری، کتاب صحیح بخاری میں، جلد۵،صفحہ۱۴۱(عن البراء بن عازب)۔

۱۱۔ نسائی الخصائص میں، صفحہ۱۹اور۵۱اور حدیث۱۳۳،صفحہ۳۶۔

۱۲۔ ترمذی اپنی کتاب میں، جلد۱۳،صفحہ۱۶۷(عن البراء بن عازب)۔

۱۳۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال ،جلد۱۱،صفحہ۵۹۹،اشاعت پنجم بیروت۔

تیسری روایت

پیغمبر اور علی کی خلقت ایک ہی نور سے ہے

عَنْ جٰابِرِبْنِ عَبْدُاللّٰهِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِی(رسول اللّٰه) یَقُوْلُ لِعَلیٍّ:النّاسُ مِنْ شَجَرٍ شَتّیٰ وَاَنَاوَاَنْتَ مِنْ شَجَرَةٍ وٰاحِدَةٍ ثُمَّ قَرَأَالنَّبِی”وَجَنٰاتٌ مِنْ اَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیْلٌ صِنْوٰانٌ وَغَیْرُ صِنْوٰانٍ یُسْقٰی بِمٰاءٍ وٰاحِدٍ“

”جابرابن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول خدا سے سنا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب تھے اور فرمارہے تھے ”سب لوگ سلسلہ ہائے مختلف(مختلف اشجار)سے پیدا کئے گئے ہیں لیکن میں اور تو(علی ) ایک ہی سلسلہ(شجرئہ طیبہ) سے خلق کئے گئے ہیں اور پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:

۷۷

( ثُمَّ قَرَأَالنَّبِی”وَجَنٰاتٌ مِنْ اَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیْلٌ صِنْوٰانٌ وَغَیْرُ صِنْوٰانٍ یُسْقٰی بِمٰاءٍ وٰاحِدٍ ) ۔(سورئہ رعد:آیت:۱۳)

”اور انگوروں کے باغ اور کھیتیاں اور کھجور کے درخت ایک ہی جڑ میں سے کئی اُگے ہوئے اور علیحدہ علیحدہ اُگے ہوئے کہ یہ سب ایک ہی پانی سے سینچے جاتے ہیں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، حدیث ۴۰۰اور حدیث۹۰،۲۹۷میں۔

۲۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین،باب۴،حدیث۱۷۔

۳۔ حاکم، کتاب المستدرک،جلد۲،صفحہ۲۴۱۔

۴۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ،شرح حال علی ،ج۱،ص۱۲۶،حدیث۱۷۸،شرح محمودی۔

۵۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں،جلد۴،صفحہ۵۱اور تاریخ الخلفاء،صفحہ۱۷۱۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب مناقب۷۰،حدیث۳۷،صفحہ۲۸۰۔

۷۔ حافظ الحسکانی،کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۳۹۵۔

۸۔ متقی ہندی، کنزالعمال،جلد۶،صفحہ۱۵۴،اشاعت اوّل ،جلد۲،ص۶۰۸(موسسة

الرسالہ بیروت، اشاعت پنجم)۔

چوتھی روایت

علی ہی دنیا وآخرت میں نبی کے علم بردار ہیں

عن جابر ابنِ سَمْرَةَ قَالَ: قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰهِ مَنْ یَحْمِلُ ٰرایَتَکَ یَوْمَ القِیٰامَةِ؟ قٰالَ: مَنْ کَانَ یَحْمِلُهَا فِی الدُّ نْیٰاعلی ۔

”جابر ابن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول خدا کی خدمت میں عرض کیا گیا:’یا رسول اللہ! قیامت کے روز آپ کاعَلَم کون اٹھائے گا؟‘آپ نے فرمایا جو دنیا میں میرا علمبردارہے یعنی علی “۔

۷۸

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ، جلد۷،صفحہ۳۳۶(باب فضائل حضرت علی )۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، شرح حال علی ، ج۱،ص۱۴۵،حدیث۲۰۹،شرح محمودی۔

۳۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین علیہ السلام میں، حدیث۲۳۷،صفحہ۲۰۰۔

۴۔ علامہ اخطب خوارزمی، کتاب مناقب،صفحہ۲۵۰۔

۵۔ علامہ عینی، کتاب عمدة القاری،۱۶۔۲۱۶۔

۶۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں، جلد۱۳،صفحہ۱۳۶۔

انچویں روایت

پیغمبر اکرم اور علی ایک ہی شجرئہ طیبہ سے ہیں

عَنْ ابنعباس قٰالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ حُبُّ عَلِیٍّ یَأ کُلُ السِّیِّاتِ کَمٰا تَاکُلُ النَّارُالخَطَبَ ۔

”ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’علی کی محبت گناہوں کو ایسے کھاجاتی ہے جیسے خشک لکڑی کو آگ‘ ۔“

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر ،تاریخ دمشق ،باب شرح حال امیر المومنین ، ج۲،ص۱۰۳حدیث۶۰۷

۲۔ خطیب ،تاریخ بغداد شرح حال احمد بن شبویة بن معین موصلی، ج۴،ص۱۹۴،شمارہ۱۸۸۵۔

۳۔ متقی ہندی، کنزل العمال، ج۱۵،ص۲۱۸،اشاعت دوم، شمارہ۱۲۶۱(باب فضائل

علی ) اور دوسری اشاعت ج۱۱،ص۴۲۱(موسسة الرسالة بیروت، اشاعت۵)

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب مناقب سبعون، صفحہ۲۷۹،حدیث۳۳اور باب۵۶صفحہ۲۱۱اور ۲۵۲۔

۵۔ سیوطی دراللئالی المصنوعہ، جلد۱،صفحہ۱۸۴،اشاعت اوّل۔

۷۹

چھٹی روایت

در علی کے علاوہ تمام در مسجد بند کرنے کا حکم

عَنْ زَیْداِبْنِ اَرْقَم قالَ: کَانَ لِنَفَرٍ مِنْ اَصْحٰابِ رَسُولِ اللّٰهِ اَبْوابٍ شَارِعَةٍ فِی الْمَسْجِدِ قَالَ: فَقٰالَ(النَّبِیُّ) یَوْمًا: سُدُّ وا هٰذِهِ الاَ بْوَابَ اِلَّا بَابَ عَلیقٰالَ: فَتَکَلَّمَ فِیْ ذٰالِکَ اُنَاسٍ قٰالَ: فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰهِ فَحَمَدَ اللّٰهَ وَأَ ثْنٰی عَلَیْهِ ثُمَّ قٰالَ أَمَّا بَعْدُ فَاِنِّی اُمِرْتُ بِسَدِّ هٰذِهِ الْاَبْوَابِ غَیْرَ بَابِ عَلِیٍّ فَقٰالَ فیهِ قَاعِلُکُمْ،وَاِنِّی وَاللّٰهِ مَاسَدَدْتُ شَیْئًا وَلَا فَتَحْتُه وَلَکِنِّی اُمِرْتُ بِشَیءٍ فَاتَّبِعُه ۔

”زید بن ارقم کہتے ہیں کہ چند اصحاب رسول خدا کے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھلتے تھے۔ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ تمام دروازوں کو (سوائے حضرت علی علیہ السلام کے دروازے کے) بند کردیاجائے۔ چند لوگوں نے اس پر چہ میگوئیاں کرنا شروع کردیں۔ پس رسول خدا کھڑے ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا شروع کردی اور فرمایا کہ جب سے میں نے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے ،اُس کے بعد سے کچھ لوگوں نے باتیں کی ہیں(اس کے بارے میں صحیح رائے نہیں رکھتے)۔ خدا کی قسم! میں نے کسی دروازے کو اپنی طرف سے بند کرنے کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی کسی کے کھلنے کا حکم اپنی طرف سے دیا ہے، لیکن خدا کی طرف سے مجھے حکم ملا اور میں نے حکم خدا کو جاری کردیا ہے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکرتاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ، ج۱،احادیث۳۲۳تا۳۳۵۔

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، حدیث۳۰۲،صفحہ۲۵۳۔

۳۔ ابونعیم ، کتاب حلیة الاولیاء، باب شرح حال عمروبن میمون۔

۴۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد۳،صفحہ۱۲۵،حدیث۶۳،باب مناقب علی علیہ السلام۔

۵۔ ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۴۳،اشاعت بیروت۔

۶۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۵۰،صفحہ۲۰۱۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

(یااَیُّهَاالنَّاس اِمْتَحِنُوْااَوْلَادَکُمْ بِحُبِّ عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَام)

(”اے لوگو! اپنی اولاد کی علی علیہ السلام کی محبت سے آزمائش کرو“)

اور نیز ترجمہ مذکو ر میں جلد۲،صفحہ۲۲۴پر روایت کی گئی ہے کہ:

(قٰالَتِ الْاَنْصَار:اِنَّ کُنَّالَنَعْرِفَ الرَّجَلُ اِلٰی غَیْرِ اَبِیْهِ بِبُغْضِه عَلِی)

(”انصار کہتے ہیں کہ حرام زادے افراد کو ہم علی علیہ السلام کے بغض سے پہچانتے تھے“)۔

(ه) قٰالَ النَّبِیُ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم لَوِاجْتَمَعَ النّٰاسُ عَلٰی حُبِّ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِبِ لَمْ یَخْلُقِ اللّٰهُ النّٰارَ

”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’اگر تمام لوگ محبت علی علیہ السلام پر اتفاق کرتے(یعنی کوئی علی علیہ السلام کا مخالف نہ ہوتا) تو خداوند تعالیٰ جہنم کو پیدا نہ کرتا‘۔“

حوالہ جات

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة،باب مناقب السبعون،صفحہ۲۸۱،حدیث

۴۱اور باب۴۲،صفحہ۱۴۷اور صفحہ۱۰۴اور اسی طرح خوارزمی مناقب میں اور دوسرے بھی۔

(و)۔ جنگ بدر میں منادی دینے والے کی آواز آئی:

”لَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوْالفِقٰار“

”کوئی جوان نہیں سوائے علی علیہ السلام کے اور کوئی تلوار نہیں سوائے ذوالفقار کے“۔

۱۲۱

حوالہ جات

۱۔ ابن مغازلی، مناقب میں، صفحہ۱۹۷(یوم الاحد)۔

۲۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۳۷۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۶۹،صفحہ۲۷۷۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی،ینابیع المودة ،باب۱۵،ص۱اور باب۵۳،صفحہ۱۸۵اور۲۴۶

۵۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد۳،صفحہ۳۲۴،شمارہ۶۶۱۳۔

۶۔ محب الدین طبری، کتاب ذخائرالعقبیٰ ، صفحہ۷۴،اشاعت قدس مصر اور دوسرے۔

جس وقت حضرت علی علیہ السلام جنگ بدر میں(بعض روایات میں جنگ اُحد) اپنی شجاعت و بہادری بے نظیر سے دشمنوں کی صفوں کو چیررہے تھے اور اُن پر حملوں پر حملے کررہے تھے،اُس وقت آسمان سے ایک آواز آئی اور جس کو سب نے سنا جو یہ تھی:

”لَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوْالفِقٰار“

اس اہم روایت کو بہت زیادہ علمائے شیعہ اور سنی نے نقل کیا ہے۔ البتہ بعض نے اس کو اس طرح نقل کیا ہے:

”لَاسَیْف اِلَّا ذُوْالْفِقٰارلَافَتٰی اِلَّا عَلِی “

(ز) عَنْ علی قٰالَ:اَوْصٰانِی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ عَنْ لاٰ یُغَسِّلُهُ اَحَدٌ غَیْرِیْ

حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے ،انہوں نے فرمایا کہ مجھے نبی اکرم نے وصیت فرمائی کہ یا علی ! سوائے تمہارے مجھے اور کوئی غسل نہ دے۔(یہ روایت اس حقیقت کی دلیل ہے کہ معصوم کو سوائے معصوم کے نہ کوئی غسل دے اور نہ نماز پڑھائے)۔

حوالہ

متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں، جلد۷،صفحہ۲۵۰،اشاعت بیروت(موسسة الرسالہ،صفحہ۱۴۰۵اشاعت پنجم)اور دوسرے۔

۱۲۲

(ح) عَنْ علی علیه السلام قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم: لَوْلَاکَ یَاعَلِیُّ مَا عُرِفَ الْمُومِنُوْنَ مِنْ بَعْدِی ۔

”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’یا علی ! اگر تم نہ ہوتے تو میرے بعد مومنین پہچانے نہ جاتے‘۔“

حوالہ روایت

متقی ہندی، کنزالعمال میں،جلد۱۳،صفحہ۱۵۲۔

(ط) عَنْ اِبنِ مَسْعُوْدٍ قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ مِنِّی کَرُوْحیْ فِیْ جَسَدِیْ ۔

”ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام میرے لئے ایسے ہیں جیسے میرے بدن میں روح“۔

حوالہ روایت

متقی ہندی،کنزالعمال میں،جلد۱۱،صفحہ۴۲۸۔

(ی) عَنْ جابرقٰالَ:قٰالَ النَّبِیُ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم مَکْتُوْبٌ فِی بَابِ الجَنَّةِ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضَ بِاَلْفَیْ سَنَةٍ،لاٰاِلٰهَ اِلَّااللّٰهُ مُحَمَّداٌ رسُولُ اللّٰهِ اَ یَّدْ تُهُ بِعَلیٍ ۔

”جابر کہتے ہیں کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ زمین و آسمان کی خلقت سے ہزار سال قبل جنت کے دروازے پر یہ لکھا ہوا تھا:’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،محمد اس کے رسول ہیں جن کی تائید و حمایت میں نے علی سے کروائی ہے“۔

۱۲۳

حوالہ روایت

متقی ہندی، کنزالعمال میں،جلد۱۱،صفحہ۶۲۴۔

(ک) عَنْ اِبْنِ عَبَّاس،اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم قٰالَ لِعَلِیِّ بْنِ ابِی طالب:اَنْتَ وَلِیُّ کُلِّ مُومِنٍ بَعْدِی ۔

”ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب سے فرمایا:’میرے بعد تم سب مومنوں کے ولی ہو‘۔“

حوالہ جات

۱۔ ابی عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب میں، جلد۳،صفحہ۱۰۹۱،روایت ۱۸۵۵۔

۲۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں، جلد۷،صفحہ۳۳۹،۳۴۵۔

۳۔ متقی ہندی، کنزالعمال ،ج۳،صفحہ۱۴۲(موسسة الرسالہ،بیروت،اشاعت پنجم )۔

(ل) عَنْ النبی صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم قٰالَ: مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَتَمَسَّکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی فَلْیَتَمَسَّکَ بِحُبِّ عَلِیٍّ وَاَهْلِ بَیْتِیْ ۔

”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’جو کوئی چاہتا ہے کہ (اللہ کی) محکم اور نہ ٹوٹنے والی رسی کو تھامے رکھے ،اُسے چاہئے کہ علی علیہ السلام اور میرے اہل بیت کی محبت سے پیوستہ رہے‘۔“

حوالہ روایت

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،صفحہ۲۹۱اور دوسرے۔

۱۲۴

(م) عَنْ سَلمَان عَنِ النَّبیکُنْتُ اَنَاوَعَلِیٌّ نُوْراً یُسَبِّحُ اللّٰهَ وَیُقَدِّ سُهُ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ آدَمَ بِاَرْبَعَةِ اَ لٰافِ عٰامٍ

”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’میں اور علی ایک نور تھے اور آدم کی خلقت سے چار ہزار سال قبل ہم اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تقدیس بیان کرتے تھے‘۔“

حوالہ روایت

ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد۱،صفحہ۵۰۷،شمارہ۱۹۰۴اوردوسرے۔

(ن) عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْن علیه السلام عَنْ اَبِیْهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم أَخَذَ بِیَدِحَسَنٍ علیه السلام وَحُسَینٍ عَلَیْهِ السَّلام فَقٰالَ:مَنْ اَحَبَّنِی وَاَحَبَّ هٰذَیْنِ وَاَبَاهُمَاوَاُمُّهُمَا کَانَ مَعِی فِی دَرَجَتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۔

”حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اپنے والد بزرگوار سے اور وہ اپنے والد بزرگوار حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین کے بازؤوں کو پکڑکرفرمایا:’جوکوئی مجھے اور میرے ان بیٹوں اور ان کے والد اور ان کی والدہ سے محبت رکھے گا، وہ قیامت کے روز میرے ہمراہ ہوگا‘۔“

حوالہ جات

۱۔ مسند احمد بن حنبل،جلد۱،صفحہ۱۶۸،روایت۵۷۶(مسند علی علیہ السلام)۔

۲۔ ابی عمر یوسف بن عبداللہ، استیعاب،ج۳،ص۱۱۰۱،حدیث۱۸۵۵کے تسلسل میں

۳۔ متقی ہندی،کنزالعمال،جلد۱۲،صفحہ۹۷،۱۰۳(موسسة الرسالہ، بیروت،پنجم)۔

۱۲۵

(س) عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ عَبّٰاسٍ قٰالَ:سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم عَنِ الْکَلَمٰتِ الَّتِیْ تَلَقَّاهٰاآدَمُ مِنْ رَبِّه فَتٰابَ عَلَیْهِ قٰالَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم سَأَلَهُ ”بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَعَلِیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ اَلَّا تُبْتَ عَلَیَّ“ فَتٰابَ عَلَیه ۔

”عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا اُن کلمات کے بارے میں جو حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سیکھے اور اللہ تعا لیٰ نے اُن کلمات کی وجہ سے اُن کی توبہ قبول کرلی۔پیغمبر اکرم نے فرمایا:

’حضرت آدم نے اللہ تعالیٰ سے بحق محمد وآل محمد ،(علی ،فاطمہ ، حسن اور حسین ) درخواست کی کہ اُن کی توبہ قبول کرلی جائے۔اللہ تعالیٰ نے اُن کو معاف کیا اور اُن کی توبہ قبول کرلی‘۔“

(اس روایت کی توضیح کیلئے سورئہ بقرہ کی آیت۳۷کی تفسیرالدرالمنثورملاحظہ کی جائے”فَتَلَقَّیٰ آدَمُ مِنْ رَبِّه کلمات “۔

حوالہ جات

۱۔ ابن مغازلی،کتاب مناقب میں،صفحہ۶۳،حدیث۸۹۔

۲۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور،آیت۳۷،سورئہ بقرہ کی تفسیر میں۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب۲۴میں۔

(ع) عَنْ عَلیٍ قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰه:اَلنُّجُوْمُ أَمَانٌ لِاَهْلِ السَّمَاءِ فَاِذَاذَهَبَتِ النُّجُوْمُ ذَهَبَ أَهْلُ السَّمٰاءِ،وَاَهْلُ بَیْتِیْ أَمَانٌ لِاَهْلِ الْاَرْضِ فَاِذا ذَهَبَ اَهْلُ بَیْتِیْ ذَهَبَ اَهْلُ الْاَرْضِ

”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:’ستارے اہل آسمان کیلئے امان و سلامتی ہیں۔ پس جب ستارے ختم ہوجائیں،اہل آسمان بھی ختم ہوجائیں گے۔ میرے اہل بیت زمین پر رہنے والوں کیلئے امان و سلامتی ہیں۔جب میرے اہل بیت دنیا سے رخصت ہوجائیں گے، اہل زمین بھی تباہ و برباد ہو جائیں گے‘۔“

۱۲۶

حوالہ جات

۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة۔

۲۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں،جلد۹،صفحہ۱۷۴۔

۳۔ متقی ہندی،کنزالعمال،ج۱۲،ص۹۶،۱۰۱،۱۰۲،موسسة الرسالہ،بیروت،پنجم

(ف) عَنْ عِبَایَةِ بن رَبْعی،عَنْ اِبْنِ عَبّاسٍ قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اَنَاسَیَّدُ النَّبِیِّیْنَ وَعَلیٌ سَیَّدُ الْوَصِیِّیْنَ اِنَّ اَوْصِیٰائی بَعْدِیْ اِثْنٰی عَشَرَ اَوَّلُهُمْ عَلیٌ وَآخِرُهُمْ القٰائِمُ الْمَهْدِیُّ ۔

”عبایہ بن ربعی، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’میں نبیوں کا سردار ہوں اور علی اوصیاء کے سردار ہیں۔میرے بارہ وصی(جانشین) ہوں گے۔ اُن میں پہلے علی ہیں اور آخری قائم مہدی علیہ السلام(صاحب الزمان) ہیں‘۔“

حوالہ روایت

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب۷۸،صفحہ۳۰۸اور۵۳۷اور دوسرے۔

(ص) عَنِ الْاَصْبَغِ بْنِ نَبٰا تَه عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ عَبَّاسٍ قٰالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یَقُوْلُ أَ نَا وَعَلِیٌ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَتِسْعَةٌ مِنْ وُلْدِالْحُسَیْنِ مُطَهَّرُوْنَ مَعْصُوْمُوْنَ

”اصبغ بن نباتہ، عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول خدا سے سنا کہ فرمارہے تھے :’میں،علی ،حسن ، حسین اور اُن کے نوفرزند پاک اورمعصوم ہیں‘۔“

۱۲۷

حوالہ جات

۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۷۸،صفحہ۳۰۸اور۵۳۷۔

۲۔ فرائد السمطین،جلد۲،صفحہ۱۳۳۔

نوٹ

یہ نکتہ لکھنا ضروری ہے کہ یہاں جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا نام شامل نہیں۔ یہ اس واسطے کہ جناب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حدیث میں مقام نبوت اور امامت کا ذکر فرمارہے تھے وگرنہ پاکیزگی اور معصومیت میں جناب فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا کا مقام تو مرکزی ہے۔

(ق) قٰالَ النَّبِی اِنَّ فَاطِمَةَ وَعَلِیّاً وَالْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ فِیْ حَظِیْرَةِ الْقُدْسِ فِی قُبَّةٍ بَیْضَاءِ سَقْفُهَاعَرْشُ الرَّحْمٰن

”رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہا،علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام جنت کے بالا ترین حصے(حَظِیْرَةُ الْقُدْس)م یں جو سفید نوری ہوگا اور اُس کی چھت رحمٰن کا عرش ہوگا،وہاں یہ رہیں گے“۔

حوالہ حدیث

متقی ہندی،کتاب کنزالعمال ،ج۱۲،صفحہ۹۸،اشاعت بیروت، موسسة الرسالہ۔

۱۲۸

(ر)۔ کتاب ینابیع المودة میں اور اہل سنت کی دیگر کتب میں ایک بہت اہم روایت نقل کی گئی ہے کہ اس میں اسمائے آئمہ معصومین پیغمبر اسلام کی مقدس و پاک زبان سے بیان کئے گئے ہیں۔ اس روایت میں ہر ایک معصوم کا نام وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ انتہائی قابل توجہ اور اہمیت کی حامل روایت ہے۔ البتہ باقی بہت سی کتب میں بھی مختلف روایات اس ضمن میں موجود ہیں لیکن اس کتاب میں درج ذیل پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔

اس روایت کی ابتدا میں ایسے لکھا ہے کہ ایک یہودی پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے سوال کیا:

”ہر پیغمبر کا وصی اور جانشین تھا،لہٰذا مجھے بتائیے کہ آپ کا وصی کون ہے؟ رسول خدانے اُس کے سوال کے جواب میں ارشادفرمایا:

اِنَّ وَصِیِّ عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ وَبَعْدُهُ سِبْطٰایَ الحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ تَتْلُوهُ تِسْعَةُ آئِمَّةٍ مِنْ صُلْبِ الْحُسَیْن

قٰالَ:یٰامُحَمَّدُ فَسَمَّهُمْ لِیْ

قٰالَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اِذٰ مَضَی الْحُسَیْنُ فَاِبْنُهُ عَلِیٍ فَاِذَامَضیٰ عَلِیٌ فَاِبْنُهُ مُحَمَّدٌ،فَاِذَا مَضیٰ مُحَمَّدٌ فَاِبْنُهُ جَعْفَرٌ،فَاِذا َمَضَی جَعْفَرٌ فَاِبْنُهُ مُوْسٰی، فَاِذَامَضیٰ مُوْسٰی فَاِبْنُهُ عَلِیٌ، فَاِذَا مَضیٰ عَلِیٌ فَاِبْنُهُ مُحَمَّدٌ، فَاِذَامَضیٰ مُحَمَّدٌ فَاِبْنُهُ عَلِیٌ، فَاِذَامَضیٰ عَلِیٌ فَاِبْنُهُ الْحَسَنُ، فَاِذَا مَضیٰ الْحَسَنُ فَاِبْنُهُ الْحُجَّةُ الْقٰائمُ الْمَهْدِیُّ فَهٰولَاءِ اِثْنٰی عَشَرَ

”پیغمبر اکرم نے فرمایا:

’بے شک میرا وصی علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے اور اُن کے بعد میرے بیٹے حسن اور حسین ہیں اور اُن کے بعد حسین علیہ السلام کی اولاد سے نو آئمہ ہیں‘۔

۱۲۹

یہودی نے عرض کیا:

’یا محمد! اُن نو آئمہ کے اسمائے گرامی مجھے بتائیے؟‘

حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:

’جب حسین علیہ السلام کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے علی ابن الحسین اور جب علی ابن الحسین کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے محمد اور جب محمد ابن علی کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے جعفر اور جب جعفر ابن محمد کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے موسیٰ اور جب موسیٰ ابن جعفر کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے علی اور جب علی ابن موسیٰ کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے محمد اور جب محمد ابن علی کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے حسن اور جب حسن بن علی کی امامت ختم ہوجائے گی تو اُن کے بیٹے حجة القائم مہدی علیہ السلام کی امامت ہوگی،یہ ہیں میرے بارہ وصی و جانشین‘۔“

حوالہ روایت

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب۷۶،صفحہ۵۲۹۔

اس ضمن میں روایت جابر باب۶۳،صفحہ۴۳۳میں بھی بیان کی گئی ہے اور اسی طرح شیعہ اور اہل سنت کی کتب میں روایات موجود ہیں۔

(ش) عَنْ اَبِیْ سَعِید قٰالَ:قٰالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم لَتَمْلَأَنَّ الْاَرْضُ ظُلْماً وَعُدْوٰاناً ثُمَّ لَیَخْرُجَنَّ رَجُلٌ مِنْ اَهْلِ بَیْتِیْ حَتّٰی یَمْلَأُهٰا قِسْطاًوَعَدْلاً کَمَامُلِئَتْ ظُلْماً وَعُدْ وَاناً

”ابی سعید روایت کرتے ہیں کہ رسول خدانے فرمایا:ایسا وقت آئیگا کہ یہ زمین ظلم و ستم سے بھر جائے گی ،اُس وقت میری اہل بیت سے ایک شخص آئے گا جو اس زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح پہلے یہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی تھی“۔

۱۳۰

حوالہ روایت

۱۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال ،ج۱۴،ص۲۶۶،اشاعت بیروت، موسسة الرسالہ

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب مودة العاشر،صفحہ۳۰۸۔

(ت) عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ،عَن رَسُوْلِ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اَلْمَهْدِیُّ مِنْ عِتْرَتِی مِنْ وُلْدِ فَاطِمَةَ

”اُم سلمہ روایت کرتی ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا کہ مہدی میرے خاندان سے ہوں گے اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کے فرزند ہوں گے“۔

حوالہ روایت

متقی ہندی، کتاب کنزالعمال ،ج۱۴،ص۲۶۴،اشاعت بیروت، موسسة الرسالہ

۱۳۱

فضائل علی علیہ السلام انبیاء کی نظر میں

پچھلے باب میں جو روایات پڑھنے والوں کی نظر سے گزریں، وہ فرمودات رسول اکرم حضرت محمد تھے۔ یہ روایات بخوبی بلند شخصیت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کو ظاہر اور روشن کرتی ہیں۔ اب یہ مناسب ہوگا کہ علی کی شخصیت کو دوسرے انبیائے کرام کی نظر سے دیکھیں۔

اس بارے میں تحقیق کرنے سے معلوم ہوگا کہ خدائے بزرگ و برتر نے حضرت علی کی شخصیت کا تعارف تمام انبیاء(حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک) کو خود کروایا ہے۔

یہ حقیقت آسمانی کتب سے اور ارشادات انبیائے کرام (قبل از پیغمبر اسلام) سے بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ ذیل میں ہم چند نہایت اہم واقعات اور مطالب کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروائیں گے۔

آدم علیہ السلام کا پنجتن پاک سے ارتباط

حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حو ّ ا کا واقعہ قرآن میں ذکر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کا جنت سے نکلنا اور زمین پر آباد ہونا ایسا قصہ ہے جسے شاید ہی کوئی ایساہو جو نہ جانتا ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حو ا ترک اولیٰ کی وجہ سے بہشت سے زمین پر بھیجے گئے۔سالہا سال تک حضرت آدم علیہ السلام زمین پر گریہ کرتے رہے اور خدا سے طلب مغفرت کرتے رہے لیکن بالآخر اسمائے پنجتن پاک یعنی محمد، علی علیہ السلام، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کے توسل سے اُن کی توبہ قبول ہوئی جیسے قرآن پاک میں ذکر ہے اور اسی اہم موضوع کی طرف اشارہ ہے:

( فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَبِّه کَلِمٰاتٍ فَتٰابَ عَلَیْهِ اِنَّهُ هُوَالتَّوّٰابُ الرَّحِیْم )

”پس آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کلمات سیکھے، خدا نے اُن کی توبہ قبول کی، بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے“۔(سورئہ بقرہ:آیت۳۷)۔

۱۳۲

اس آیت کی تفسیر میں شیعہ اور سنی اکابرین نے درج ذیل روایت نقل کی ہے جس کو لکھنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں:

عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ عَبّاسٍ قٰالَ:سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم عَنِ الْکَلِمٰتِ الَّتِیْ تَلَقّٰا اٰدَمُ مِنْ رَبِّه فَتَابَ عَلَیْهِ قَالَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم سَأَلَهُ ”بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَعَلِیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ اِلَّا تُبْتَ عَلَیَّ“فَتَابَ عَلَیْهِ ۔

”عبداللہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم سے اُن کلمات کے بارے میں سوال کیا گیا جو حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے دریافت کئے تھے اور جن کی وجہ سے اُن کی توبہ قبول ہوئی تھی۔ جواب میں پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام نے بحق پنجتن پاک (محمد،علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین ) اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ اُن کی غلطی کو معاف فرما۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی غلطی کو معاف کردیا اور اُن کی توبہ کو قبول کرلیا“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب علی علیہ السلام میں، حدیث۸۹،صفحہ۶۳.

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ،ینابیع المودة، صفحہ۱۱۱،باب۲۴اور ص۲۸۳،حدیث۵۵

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں۔

۴۔ تفسیر نمونہ،ج۱،صفحہ۱۹۹اور تفسیر المیزان،جلد۱،صفحہ۱۴۹اوردوسری کتب میں۔

اسی ضمن میں دوسری روایت بھی ملاحظہ ہو:

قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم لَمَّا خَلَقَ اللّٰهُ تَعٰالٰی آدَمَ اَبَالْبَشَرِ وَنَفَخَ فِیْهِ مِنْ رُوْحِهِ اِلْتَفَتَ آدَمُ یُمْنَةَ الْعَرْشِ فَاِذاً فِی النُّوْرِخَمْسَةُ اَشْبٰاحٍ سُجَّداً وَرُکَّعٰا، قٰالَ آدَمُ:(علٰی نَبِیِّنٰا وَآلِه وَعَلَیْهِ السَّلام)هَلْ خَلَقْتَ اَحَداً مِنْ طِیْنِ قَبْلِی؟ قٰالَ لاٰ یَا آدَمَ! قٰالَ:فَمَنْ هٰولٰاءِ الْخَمْسَةِ الْاَشْبٰاحِ الَّذِیْنَ اَرٰاهُمْ فِیْ هَیْئَتِیْ وَصُوْرَتِیْ؟قٰالَ هٰولٰاءِ خَمْسَةٌ مِنْ وُلْدِکَ،لَوْلَاهُمْ مَا

۱۳۳

خَلَقْتُکَ،هٰولٰاءِ خَمْسَةٌ شَقَقْتُ لَهُمْ خَمْسَةَ اَسْمٰاءٍ مِنْ اَسْمٰائِی لَوْلَاهُمْ مٰاخَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَالنّٰارَ ، وِلَاالْعَرَْشَ ، وَلَاالکُرْسِیَ ، وَلَاالسَمَاءَ وَلَاالْاَرْضَ وَلَاالْمَلاٰ ئِکَةَ وَلَاالْاِنْسَ وَلَاالْجِنَّ،فَاَنَاالْمَحْمُوْدُوَهَذٰامُحَمَّدٌوَاَنَالعٰالی وَهٰذَاعَلِیٌّ،وَاَنَاالْفٰاطِرُوَهٰذِهِ فَاطِمَة،وَاَنَاالْاِحْسٰانُ وَهٰذَاالْحَسَن وَاَنَاالْمُحْسِنُ وَهٰذَالْحُسَیْن اَلَیْتُ بِعِزَّتِی اَنْ لٰایَأتِیْنِی اَحَدٌ مِثْقٰالَ ذَرَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ بُغْضِ اَحَدِ هِمْ اِلَّا اَدْخُلُهُ نٰاری وَلٰااُبٰالِی یٰاآدَمَ هٰولٰاءِ صَفْوَتِی بِهِمْ اُنْجِیْهِم وَبِهِمْ اُهْلِکُهُمْ فِاِذَاکَانَ لَکَ اِلَیَّ حٰاجَةٌ فَبِهٰولٰاءِ تَوَسَّلْ

”پیغمبر اکرم نے فرمایاکہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو خلق فرمایا اور اپنی روح میں سے اُس میں پھونکی تو آدم علیہ السلام نے عرش کے دائیں جانب نظر کی تو دیکھا کہ پانچ نوریشخصیات رکوع و سجود کی حالت میں ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے میرے خدا! کیا تو نے مجھ سے پہلے کسی کو مٹی اور پانی سے خلق کیا ہے؟ جواب آیا ،نہیں۔ میں نے کسی کو خلق نہیں کیا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پھر عرض کیا کہ یہ پانچ شخصیات جو ظاہری صورت میں میری طرح کی ہیں، کون ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ پانچ تن تیری نسل سے ہیں، اگر یہ نہ ہوتے تو تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔ان کے ناموں کو اپنے ناموں سے اخذ کیا ہے۔ اگر یہ پانچ تن نہ ہوتے تو نہ بہشت و دوزخ کو پیدا کرتا اور نہ ہی عرش و کرسی کو پیدا کرتا، نہ آسمان و زمین کو پیدا کرتا اور نہ انس و جن و فرشتگان کو پیدا کرتا۔ان پانچ ہستیوں کا تعارف اللہ تعالیٰ نے اس طرح کروایا کہ اے آدم! سنو:

میں محمود ہوں اور یہ محمد ہیں

میں عالی ہوں اور یہ علی ہیں

میں فاطر ہوں اور یہ فاطمہ ہیں

میں محسن ہوں اور یہ حسن ہیں

میں احسان ہوں اور یہ حسین ہیں

۱۳۴

مجھے اپنی عزت وجلالت کی قسم کہ اگر کسی بشر کے دل میں ان پانچ تن کیلئے تھوری سی دشمنی اورکینہ بھی ہوگا،اُس کو داخل جہنم کروں گا۔ اے آدم ! یہ پانچ تن میرے چنے ہوئے ہیں اور ہر کسی کی نجات یا ہلاکت ان سے محبت یا دشمنی سے وابستہ ہوگی۔ اے آدم ! ہر وقت جب تمہیں مجھ سے کوئی حاجت ہوتو ان کا توسل پیدا کرو“۔

حوالہ جات

۱۔ علامہ امینی،کتاب فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا،صفحہ۴۰۔

۲۔ تفسیر المیزان،جلد۱۔

۳۔ مجمع البیان،جلد۱اور دوسری تفاسیر میںآ یت ۳۷،سورئہ بقرہ کے ذیل میں۔

دوسرے انبیاء کی بعثت ولایت پیغمبر و علی کی مرہون منت ہے

عَنِ الْاَسْوَدِعَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ مَسْعُود قٰالَ،قٰالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم یا عَبْدَاللّٰهِ أَ تٰانِیْ مَلَکٌ فَقٰالَ:یَامُحَمَّدُ!”وَاسْئَل مَنْ اَرْسَلْنٰامِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُسُلِنٰا“عَلٰی مٰابُعِثُوا؟قٰالَ:قُلْتُ:عَلٰی مٰابُعِثُوْا؟ قٰالَ:عَلٰی وَلَایَتِکَ وَوِلَایَةِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب

”اسود جناب عبداللہ ابن مسعود سے روایت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایاکہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ آیا اور کہا کہ اے پیغمبر خدا!آپ مجھ سے اپنے سے پہلے انبیاء کے بارے میں سوال کریں کہ وہ کس لئے نبوت پر مبعوث ہوئے تھے؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے اُس فرشتے سے کہا ،بتاؤ کہ وہ کس لئے مبعوث ہوئے تھے؟ فرشتے نے کہا کہ وہ آپ کی اور حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کی تصدیق کیلئے مبعوث ہوئے تھے“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، باب حال امام علی ،ج۲،ص۹۷،حدیث۶۰۲،شرح محمودی

۲۔ حاکم نیشاپوری، کتاب ”المعرفة“اپنی سند کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود سے۔

۱۳۵

حضرت علی علیہ السلام آسمانی کتابوں میں

حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کی معرفت اور عظمت کو پہچاننے کا ایک انتہائی اہم ذریعہ آسمانی کتابیں اور گزشتہ پیغمبروں کے صحائف ہیں۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے پہلے انسان اور پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام کو اسمائے اعلیٰ یعنی حضرت محمد،علی علیہ السلام،جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا،حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی تعلیم دی تھی تو انہوں نے ان اسماء کی تعلیم اپنی اولاد اور دوسرے انبیاء کو پہنچا دی۔ محکم روایات سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان نوری افراد کو خلقت بشر سے پہلے پیدا کیا تھا تاکہ دنیا میں یہ افراد بطور نمونہ، کامل ترین اخلاق کا مظہر ہوں۔

لہٰذا موضوع کے اعتبار سے مزید اطلاعات حاصل کرنے کیلئے ہم حکیم سید محمود سیالکوٹی کی کتاب ”علی و پیغمبران“ سے چند اقتباسات لیتے ہیں:

۱۔ نام علی علیہ السلام انجیل میں

آسمانی کتابوں میں خاتم النبیین حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کے جانشین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں بشارت دی گئی تھی۔ لیکن اسلام دشمن لوگ یہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ حقیقت واضح ہو بلکہ اس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے درپے تھے۔مثلاً انجیل میں”صحیفہ غزل الغزلات“ اشاعت لندن،سال۱۸۰۰عیسوی،باب۵،آیت۱

تا۱۰میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ارشادات بیان کئے گئے ہیں جس میں انہوں نے پیغمبر خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کے نائب امیرالمومنین علی علیہ السلام کے بارے میں اشارہ کیا ہے اور آخر میں واضح کہتے ہیں کہ وہ ”خلومحمد یم“(وہ دوست اور محبوب محمد ہیں)۔لیکن وہ انجیل جو ۱۸۰۰ء کے بعد شائع ہوئی ہے، اُن میں سے یہ الفاظ ”خلومحمد یم“ حذف کردئیے گئے ہیں۔ اسی طرح لفظ”ایلیا“ یا”ایلی“ یا ”آلیا“ جو آسمانی کتابوں میں مذکور ہے، مخالفین یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس سے مراد پیغمبر حضرت الیاس یا مسیح یا یوحنّا ہیں ،نہ کہ حضرت علی علیہ السلام۔

۱۳۶

لیکن بہت سے مسیحی علماء نے لفظ ”ایلیا“ یا ”ایلی“ یا ”آلیا“ کے بارے میں تحقیق کی ہے اور وہ تعصب کی دنیا سے باہر آگئے اور پھر اصل حقیقت بیان کی۔

ایک مسیحی عالم Mr. J.B. Galidon لکھتے ہیں:

In the language of oldest and present Habrew the word ALLIA"or "AILEE" is not in the meanings of God or Allah but this word is showing that in text and last time of this world anyone will become nominates "ALLIA" or "AILEE ".

”زبان عبرانی جدید یا قدیم میں لفظ”ایلیا“ یا”ایلی“ سے مراد اللہ نہیں ہے بلکہ اس لفظ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آئندہ زمانے میں یا آخری زمانہ میں کوئی شخص آئے گا جس کا نام ”ایلیا“ یا ”ایلی“ ہوگا“۔

حوالہ

۱. " A notebook on old and new testaments of Bible" published in London in ۱۹۰۸, Vol.۱, page ۴۲۸ ."

۲۔ حکیم سید محمود سیالکوٹی کتاب ”علی اور پیغمبران“،دلائل اور شواہد سے ثابت کیا ہے کہ

اسماء”ایلیا“ یا ”ایلی“ یا ”آلیا“ سے مراد علی علیہ السلام ہیں۔

۲۔ علی او رپیشگوئی داؤد

حضرت علی علیہ السلام کا مقدس نام زبور(حضرت داؤد علیہ السلام کی کتاب) میں بھی آفتاب کی طرح درخشاں ہے۔ آسمانی کتاب زبور میں حضرت علی علیہ السلام کا دنیا میں آنا تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کتاب”علی اور پیغمبران“ میں زبور سے ایک حصہ نقل کیا گیا ہے۔ زبور کا یہ قدیمی نسخہ احسان اللہ دمشقی ،رہبرمسیحیان،شام کے پاس بھی موجود ہے۔

۱۳۷

زبور سے اقتباس

(مطعنی شل قثوتینمر قث پاھینوا نی وز”ایلی“ متازہ امطع ملغ شلو شمائت پزانان ہمنیقتہ خلذ وقث فل”حدار“

کمرتوہ شیھوپلت انی قاہ بوتاہ خزیماہ رث جین”کعاباہ“ بنہ اشود کلیامہ کاذوقثوتی قتمرعندوبریما برینم فل خلذملغ خایوشنی پم مغلینم عت جنحاریون)۔

”تم پر اُس شخصیت جس کا نام ”ایلی“ ہے، کی اطاعت واجب ہے اور دین و دنیاکے ہر کام میں اُس کی فرمانبرداری تمہاری اصلاح کرے گی۔ اُس عظیم شخصیت کو ”حدار“(حیدر) کہتے ہیں۔ وہ بیکسوں اور ضعیفوں کا مددگار ہوگا اور وہ شیروں کا شیرہوگا اور بے پناہ طاقت کا مالک ہوگا۔وہ کعابا(کعبہ) میں پیدا ہوگا۔ تمام پر واجب ہے کہ اُس کے دامن کو پکڑیں اور غلام کی طرح اُس کی اطاعت کیلئے ہمیشہ حاضر رہیں۔ جو سن سکتا ہے اُس کی ہر بات کو غور سے سنے اور جو عقل و فہم رکھتا ہے، اُس کی باتوں کو سمجھے۔ جو دل و مغز رکھتا ہے، وہ غوروفکر کرے کیونکہ جو وقت گزرجاتا ہے، واپس نہیں آتا“۔

۳۔سلیمان کا علی سے مدد مانگنا

اس باب کے شروع میں احادیث و روایات اور سورئہ بقرہ کی آیت۳۷کی تشریح کے حوالہ سے بیان ہوچکا ہے کہ وہ کلمات جو حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یاد کئے تھے اور انہی کلمات کا اللہ تعالیٰ کو واسطہ دیا تھا، پانچ تن پاک کے اسمائے گرامی تھے۔ اب ایک اور پیغمبرحق یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے ہیں جو ان پنجتن پاک کے مقدس ناموں کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک دفعہ پھر کتاب”علی و پیغمبران“ سے اقتباس نقل کرتے ہیں جو ذیل میں درج کیا جارہا ہے:

”پہلی جنگ عظیم(۱۹۱۶ء میلادی عیسوی) میں جب انگریزوں کا ایک دستہ بیت المقدس سے چند کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے گاؤں اونترہ کے پاس مورچہ بندی کیلئے کھدائی کررہا تھا تو وہاں اُن کو ایک چاندی کی تختی ملی جس کے چاروں طرف خوبصورت قیمتی موتی جڑے ہوئے تھے اور اُس کے اوپر سونے کے پانی سے کچھ لکھا ہوا تھا جو کسی قدیم زبان میں تھا ۔وہ اُسے اپنے انچارج میجر ای۔این۔گرینڈل( Maj. E.N.Grandal ) کے پاس لے آئے۔ وہ بھی اس کو نہ سمجھ سکا اور بالآخر اسے اپنے کمانڈر انچیف جنرل گلیڈ سٹون تک پہنچا دیا۔

۱۳۸

وہ بھی اس کو نہ سمجھ سکا اور اُس نے اسے آثار قدیمہ کے ماہرین تک پہنچادیا۔۱۹۱۸ء میں جنگ بند ہوئی تو ایک کمیٹی بنادی گئی جس کے ممبران امریکہ، برطانیہ،فرانس،جرمنی اور دیگر ممالک کے ماہرین تھے۔ چند ماہ کی کوشش اور تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ تختی اصل میں”لوح سلیمانی“ ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے چند کلمات بھی اُس پر لکھے ہوئے ہیں۔ اس تختی پر عبرانی زبان میں لکھا ہوا ہے۔ ہم اس کے اصل الفاظ اور ترجمہ نقل کرتے ہیں:

ترجمہ لوح سلیمانی لوح سلیمانی کا نقش

اللہ

احمد

ایلی

باھتول

حاسن

حاسین

”اے احمد میری فریاد سن لیں

یا ایلی (علی) میری مدد فرمائیے

اے باھتول (بتول ) مجھ پر نظر کرم فرمائیے

اے حاسن (حسن) مجھ پر کرم فرمائیے

اے حاسین (حسین) مجھے خوشی بخشئے

یہ سلیمان پنجتن پاک سے مدد مانگ رہا ہے

اور علی قدرت اللہ ہے“۔

مزید اطلاعات کیلئے کتاب Wonderful Stories of Islam اشاعت لندن،صفحہ۲۴۹پر مراجعہ کریں۔

۱۳۹

۴۔ علی کا نام کشتی نوح کا زیور

پیغمبران بزرگ جو نام مقدس پیغمبر اسلام حضرت محمد،علی علیہ السلام ، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حسنین شریفین علیہما السلام پکار کر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہے، اُن میں حضرت نوح علیہ السلام بھی شامل ہیں۔اس کا ثبوت وہ لکڑی کے تختے ہیں جو روسی معدنیات کے کارکنوں نے دریافت کئے تھے۔ حکیم سید محمود سیالکوٹی نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر اس طرح سے کیا ہے:

”جنوری۱۹۵۱ء میں روسی محکمہ معدنیات کے چند کارکن زمین کھودنے میں مشغول تھے کہ اچانک لکڑی کے چند تختے اُن کو نظر آئے جو عام لکڑی کے تختوں سے مختلف تھے اور کسی چھپے راز کی نشاندہی کرتے تھے۔انہی لکڑی کے تختوں میں ایک ایسی لکڑی کی تختی ملی جس کی لمبائی چودہ انچ اور چوڑائی تقریباً دس انچ تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ باقی تختے وقت گزرنے کے ساتھ کہنہ اور بوسیدہ ہوچکے تھے لیکن یہ تختہ ابھی بالکل اپنی صحیح حالت میں تھا۔ اس پر چند قدیم الفاظ درج تھے۔ روسی حکومت نے تحقیق کیلئے ۲۷/فروری۱۹۵۳ء کو کمیٹی بنائی جس کے ممبران قدیم زبانوں کے ماہر تھے۔ آٹھ ماہ کی سخت محنت اور تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ جو الفاظ لکھے ہوئے ہیں، وہ مدد مانگنے اور سلامتی کی دعا کیلئے لکھے گئے ہیں۔ذیل میں اس کی تصویر دی جارہی ہے:

تحقیقی کمیٹی نے اُن الفاظ کا ترجمہ روسی زبان میں کیا جس کا ترجمہ لسانیات کے ماہرمسٹر این۔ایف۔ماکس( N. F. Maks )نے انگریزی زبان میں کیا جو ذیل میں درج کیا جارہا ہے:

O" my God! my Helper! Keep my hand with mercy andwith your holy bodies, Mohammad, Alia, Shabbar, Shabbir, Fatema. They all are biggests and honourables. The world established for them. Help me by their names. You can reform to right

ترجمہ

”اے میرے اللہ! اے میرے مددگار! ذوات مقدسہ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)،

ایلیا ،شبر ،شبیر اور فاطمہ علیہم السلام کے صدقہ میں مجھ پر اپنا رحم و کرم فرما۔ یہ پنجتن سب سے بڑے اور سب سے زیادہ عزت والے ہیں۔ یہ تمام دنیا اُن کیلئے بنائی گئی۔ اے میرے پروردگار! اُن کے ناموں کا واسطہ! میری مدد فرما۔ تو ہی صحیح راستے کی ہدایت کرنے والاہے“۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272