سر چشمہ ایمان

سر چشمہ ایمان0%

سر چشمہ ایمان مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں

سر چشمہ ایمان

مؤلف: جعفر فاضل
زمرہ جات:

مشاہدے: 3506
ڈاؤنلوڈ: 1732

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 9 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 3506 / ڈاؤنلوڈ: 1732
سائز سائز سائز
سر چشمہ ایمان

سر چشمہ ایمان

مؤلف:
اردو

سرچشمہ ایمان

ستائیس (٢٧)رجب یوم وفات حضرت ابو طالبـ ہے .سید بطحاء حضرت ابوطالب ـ ہجرت سے دس (١٠) سال پہلے اس دنیا سے رحلت فرما گئے تھے اس وقت آپ کی عمر اکیاسی ( ٨١) سال تھی چونکہ جعلی روایت کے ذریعے آپ کی شان میں گستاخی کی گئی ہے اور آپ کو مشرک کہا گیا ہے لہذا مناسب سمجھا کہ کہ حقیقت حال سے آگاہ ہونے کیلئے کچھ تحقیق کی جائے

'' صاحب وقایع الایام ،جلد١،ص ۲۸۹میں لکھتے ہیں :

سیوطی کہتے ہیں : '' جس من گھڑت حدیث کے ذریعے حضرت ابو طالب ـ کی شان میں جسارت کی گئی ہے وہ معاویہ ابن ابو سفیان کی حکومت اور اس کے بعد کے زمانے کی ہے جو بنی امیہ کو خوش کرنے کیلئے ایک روای مغیرہ بن شعبہ نے گھڑی تھی یہ شخص بنی ہاشم سے دشمنی کے بارے میں بہت مشہور تھا ''

البتہ اس قسم کی کی نسبتوں اور تہمتوں سے وجود ِ مقدس حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب ـکی ذات ِ اقدس کی توہین اور ان کی شخصیت کو داغدار کرنے کیلئے ایک ناکام کوشش تھی ، جو اہل تحقیق سے پوشیدہ نہیں ہے

اس مقالہ میں ہمارا ہدف حضرت ابو طالب ـکے ایمان اور ان کے اخلاص کو ثابت کرناہے حضرت ابو طالب ـ کے بارے میں بہت ساری باتیں موجود ہیں لیکن جس موضوع اور مطلب بارے میں ہم نے بحث کرنی ہے وہ درج ذیل ہیں

-۱ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کفالت کیلئے حضرت ابو طالب ـ کا انتخاب اورانہیں حضرت ابو طالب ـکے سپرد کرنے کے اسباب کیاہیں جبکہ آپ خود فقر اور تنگدستی میں گرفتار تھے پس حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت وکفالت نہایت ہی اہمیت کا حامل مسئلہ ہے

-۲ کفالت کو نہایت ہی احسن اور مکمل طور سے انجام دینا، حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان کی حفاظت کرنا اور اسلام کا تسلسل ، حضرت ابو طالب ـ کا مرہون منت ہے

- ۳ عربستان میں حضرت ابو طالب ـکی شخصیت ، مقام و مرتبہ اور آپ کاحسب و نسب روزِ روشن کی طرح عیاں اور واضح ہے

-۴ آپ کے ایمان کی پختگی اصحاب کہف کے ایمان کی مانند خلق ِ خدا پر روشن و منور ہے

-۵ دین کی بقاء اور اسلام کے تسلسل میں حضرت ابو طالب ـکا بڑا کردار شامل ہے

- ۶ حضرت ابو طالب ـکے ایمان پر اعتقاد رکھنا ضروری ہے

-۷ خاندانِ وحی کی جانب سے حضرت ابو طالب ـ کے ایمان پر دلیل و برھان موجودہے

- ۸ چھ معصوم ہستیوں حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حضرت امیرالمؤمنین علی ـ، حضرت امام سجاد ـ ، حضرت امام محمدباقر ـ ، حضرت امام جعفر صادق ـ اورحضرت امام رضا ـ کے فرامین ہیں کہ حضرت ابو طالب ـ کا ایمان تمام جن و انس کے ایمان پر افضل و برتر ہے

- ۹ حضرت ابو طالب ـکاخداکے ساتھ رابطہ اور ان کا مستجاب الدعوة ہونا ثابت ہے

-۱۰ حضرت ابو طالب ـکے ایمان پر قرائن اور شواہد موجود ہیں

-۱۱ حضرت ابو طالب ـکا ایمان کتب اہل سنت سے ثابت ہونا

-۱۲ حضرت ابو طالب ـکے ایمان کے بارے میں علماء امامیہ کا اتفاق اوراجماع ہے

-۱۳ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت اورامیرالمؤمنین علی ـکی امامت پر حضرت ابو طالب ـ کا اعتقاد اور ایمان

-۱۴ حضرت ختم مرتبت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کے حوالہ سے حضرت ابو طالب ـ کے اجر رسالت کی عظمت اور تمام مسلمانوں کے اعمالِ خیر میں ان کی شرکت

ان تمام موضوعات پر بحث کرنے کیلئے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے بہر حال ہم قارئین کی آسانی کیلئے اس ضمن میں ان تمام عناوین پر مختصر مگر مفید گفتگو کریں گے تاکہ مطلب کا رخ روشن اور واضح ہو سکے

حضرت عبدالمطلب ـ کی متعدد بیویاں تھیں ان میں سے ایک فاطمہ بنت عمرو بن عائذ ہے جن سے حضرت عبداللہ ، رسو ل اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے والد بزرگوار ،حضرت ابوطالب ـحضرت امیرالمؤمنین علی ـ کے والد گرامی اور زبیر و عبدالکعبہ پید اہوئے حضرت عبدالمطلب ـکی دوسری بیویوں سے مثلاً حضرت عباس وحارث متولد ہوئے .چنانچہ عباس کی نسل سے( بنی عباس کا سلسلہ نسب چلا) جوکہ حضرت عبداللہ ـ کے بھائی تھے

ماں باپ دونوں کے حوالہ سے یعنی دونوں ایک ہی ماں باپ سے متولد ہوئے ہیں '' بنا بر این حضرت عباس ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا ہوئے صرف باپ کے حوالے سے لیکن حضرت ابوطالب ـ ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا ہوئے ماں باپ دونوں کے حوالہ سے اس بات کی اہمیت اس حدتک ہے کہ اس پر زبردست قسم کے اعتقادی ثمرات مرتب ہوئے ہیں

ہارون الرشید جو بنی عباس سے تھا حضرت امام موسیٰ بن جعفر ـ سے سوال کرتا ہے کہ آپ کیوں اپنے آپ کو حکومت کاحق دار سمجھتے ہیں جبکہ جس طرح حضرت ابوطالب ـ ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا ہوتے ہیں اسی طرح حضرت عباس بھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا تھے ؟

آپ کو کس بنا پر بنی عباس پر فضیلت حاصل ہے ؟

اور آپ یہ اعتقاد کیوں رکھتے ہیں کہ حکومت و خلافت بنی عباس تک نہیں پہنچنی چاہیے اوریہ حق صرف حضرت علی ـ اور ان کے فرزندوں کو پہنچتاہے ؟

حضرت امام موسیٰ کاظم ـ ،ہارون رشید کے جواب میں فرماتے ہیں :

جناب عباس کا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چچا ہونا درست ہے لیکن عبداللہ وعباس صرف باپ کے حوالے سے بھائی تھے لیکن ہمارے جد امجد حضرت ابوطالب ـ

حضرت عبد اللہ ـ کی ماں کی طرف سے بھی بھائی تھے ،لہذا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہماری قرابت زیادہ ہے

حضرت عبد المطلب ـ کی عام الفیل کے آٹھ سال بعد دنیا سے رحلت ہوئی آپ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کفالت کے ذمہ دار تھے آپ نے اپنی وفات کے موقعہ پر حضرت ابو طالب ـ کو وصیت کی کہ اپنے بھتیجے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کفالت کی ذمہ داری اور سرپرستی کو قبول کریں

حضرت ابوطالب ـنے بھی خوشی سے اس ذمہ داری کو قبول فرمایا. اس میں شک نہیں ہے کہ حضرت ابوطالب ـنے وصیت پہنچان اور معرفت کی بنیاد پر قبول فرمائی تھی کیونکہ حضر ت عبدالمطلب نے اپنے بیٹوں حارث ، عباس ،زبیراور دوسرے بھائیوں کی موجودگی کے باوجود اس ذمہ داری کو صرف اور صرف حضرت ابوطالب ـکے سپر د کیا حالانکہ حضرت عبدالمطلب ـ ، جناب حضرت ابوطالب ـکی معاشی تنگدستی کی صورتِ حال سے اچھی طرح آگاہ تھے

صاحب ِ تاریخ طبری اس ضمن میں یوں تحریر کرتے ہیں :

'' جب حضرت عبدالمطلب کی رحلت کا وقت قریب ہو ا تو آپ نے جناب حضرت ابوطالب ـکو وصیت فرمائی کہ وہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وکالت و کفالت کو قبول کریں ''

صاحب کتاب '' تاریخ طبر ی '' نے اس بات کی وجہ کچھ اس طرح بیان کی ہے :

چونکہ حضرت ابوطالب ـجناب عبداللہ ـ کے سگے بھائی تھے اس وجہ سے حضرت عبدالمطلب نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کفالت و کالت آپ کے سپر د کی تھی لیکن یہ نظریہ کچھ بے توجھی اور شاید اندھے تعصب کی بناء پر ہو کیونکہ اگر یہ کام صرف اور صرف سگے بھائی ہونے کی بنا ء پر کیا گیا تھاتو پھر ان کے اور بھی سگے بھائی مثلا ً عباس ، زبیراور حارث وغیرہ بھی تھے

پھر یہ ذمہ داری ان میں سے کسی کے کاندھے پر کیوں نہیں ڈالی گئی .البتہ یہ بات ماننے کو دل نہیں چاہتا ہے کہ ثروت منداور مالدار افراد کی موجودگی میں ایک غریب اور فقیر شخص ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وکالت و کفالت اور سرپرستی کو قبول کرے مگر یہ کہ اس میں کوئی اور فضلیت و برتری موجود ہو

حضرت ابوطالب ـ کی لیاقت اور شایستگی حضرت عبدالمطلب پر واضح و آشکار تھی اس وجہ سے انہوں نے اس عظیم ذمہ د اری کیلئے حضرت ابو طالب ـ کا انتخاب عمل میں لائے اس حوالہ سے قابل توجہ بات یہ حضرت عبدالمطلب جانتے تھے کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے رسول ہیں اور یہ حقیقت جناب حضرت ابوطالب ـ کے گوش گزار بھی فرمائی اوران سے وعدہ لیا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کے واسطے اپنے ایمان کو مخفی رکھیں اور حضرت ابوطالب ـ نے بھی ایسا ہی کیا یہ بات سب پر عیاں ہے کہ جب تک حضرت ابوطالب ـزندہ رہے کسی کو جرات تک نہ ہوئی کہ وہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کوئی اذیت و آزار کرے

ابن ابی الحدید اس ضمن میں شعر لکھتے ہیں کہ جس کا مطلب یہ ہے :

'' اگر ابو طالب ـ اور ان کا بیٹا نہ ہوتے تو دین اس قدر مستحکم نہ ہوتا جناب حضرت ابوطالب ـنے مکہ میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کھل کر حمایت کی اور ان کے بیٹے علی ـنے مدینہ میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بے دریغ دفاع کیا ''

مذکورہ مطالب سے واضح ہوتاہے :

ض-۱ حضرت ابوطالب ـ کا ایمان ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر راسخ تھا.

ض-۲ حضرت ابوطالب ـ بہترین طریقے سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت اور سرپرستی کی

تاریخ یعقوبی میں ہے کہ :

'' پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بیس (٢٠) سال کی عمر میں دو افراد کو خواب میں دیکھا کہ جو ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے یہ وہی ہے جو تمہارے سپرد کی گئی ہے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خواب اپنے چچا کے سامنے نقل کیا، وہ مکہ میں یہود ونصاریٰ کے علماء کے پاس گئے اور ان کے سامنے یہ خواب بیان کیا تو ان لوگوں نے کہا یہ شخص ایک پاک مطہر روح کا مالک ہے اور عنقریب قیام کریگا اوردوسری علامتیں جو ا ن کی کتابوں میں آئی ہیں ان کی بنا ء پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو رسول آخر الزمان کہا گیا ہے یہود و نصاریٰ کے علماء نے اس خواب سے جو کچھ سمجھا وہ حضرت ابو طالب ـ کے سامنے بیا ن کیا اس سے سب پر واضح ہو گیا اور سب سمجھ گئے کہ حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے رسول ہونگے ''

یہ سمجھ سے باہر ہے کہ یہود و نصاریٰ کے علماء تو حضرت رسو ل اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت سے آگاہ ہوجائیں لیکن حضرت ابوطالب ـ ہمیشہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہنے کے باوجود اس فیض سے محروم رہ جائیں

اسی تاریخ یعقوبی میں ہے کہ یہود و نصاریٰ کے علماء نے حضرت ابوطالب ـ سے کہا :

'' یہ تمہارا بھتیجا خدا کا پیغمبر ہے اس کی حفاظت کریں اور اس پر ایمان لائیں اور اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھیں یہ سب تمہاری ذمہ داریوں میں سے ہے ''

تاریخ یعقوبی میں حضرت ابو طالب ـ کا وہ خطاب بھی درج ہے جو آپ نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شادی کے مو قع پر کیاتھا اوریہ حضرت ابوطالب ـ کے ایمان پربہترین شاہد ہے حضرت ابوطالب ـ نے فرمایا:

'' قریش میں سے کوئی بھی میرے بھتیجے کی شان ومنزلت کو نہیں پہنچ سکتا بلکہ کوئی بھی انسان ا ن کے مقام و مرتبہ کا حامل نہیں ہے (لایقاس به احد )

یہ با لکل وہی تعبیر ہے جو حضرت امام جعفر صادق ـ نے آئمہ طاہرین ٪ کے بارے میں فرمائی (لا یقاس بنا بشر )

ان علامات سے پتہ چلتاہے کہ حضرت ابو طالب ـ کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں مکمل معرفت تھی

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تقریبا ً آٹھ یادس سال کے تھے کہ حضرت ابوطالب ـ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بعض لوگوں کی مخالفت کے باوجود بڑی حفاظت کیساتھ شام کے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ لے گئے اور فرمایا : '' میں ہرگز اس بچے کو اپنے سے دور نہیں کروں گا ''

تاریخ طبری میں ذکر ہوا ہے کہ :

بحیرہ راہب بہت بوڑھا ہوچکا تھا وہ تورات اور انجیل کا بہت بڑا عالم تھا نبی آخرا لزمان کی نشانیا ں خوب جانتا تھا وہ یہ بھی جانتا تھا کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ ہی سے ظہور کریں گے لہذا کوئی بھی کارواں ادھر سے گزرتا تو وہ آخری رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مبعوث ہونے کے بارے میں ضرور پوچھ گچھ اور سوال کرتا تھا یہاں تک کہ حضرت ابو طالب ـ کا کارواں وہاں پہنچا وہاں ایک درخت تھا جو سالھا سال سے خشک تھا ،اس کا رواں کی برکت سے سرسبز ہوگیا اور پھل دینے لگا بحیرہ راہب نے دیکھا کہ اس کارواں کے اوپر بادل کاایک ٹکڑا سایہ کئے ہوئے ساتھ ساتھ آرہاہے وہ اپنے آپ سے کہنے لگا کہ یہ دوسری نشانی ہے بحیرہ راہب نے اپنی کھوئی ہوئی چیز کو اس کارواں میں پالیا

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو ش مبارک پر مہر نبوت کودیکھ کر ایمان لایا واضح سی بات ہے کہ یہ ماجرا اورنشانیا ں کارواں والوں سے مخفی نہیں تھیں

بڑے افسوس کی بات ہے کہ تاریخ طبری کے مؤلف نے لکھا ہے :

'' حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابو طالب سے درخواست کی کہ وہ ایمان لے آئیں لیکن حضرت ابو طالبـ نے فرمایا : میں اپنے دین سے جد ا ہونا نہیں چاہتا اورنہ ہی اپنے باپ کے دین کو چھوڑ سکتاہو ں ''

لیکن اگریہ ماجرا صحیح طور پر نقل ہو اہوتو یہ خودایمان حضرت ابوطالب ـ پر ایک دلیل ہے کیونکہ حضرت ابوطالب ـ اور ان کے والدین سب دین ابراہیم پرقائم تھے اور اس قسم کی باتیں ازباب تقیہ ہو اکرتی ہیں اور ہم نے یہ جانتے ہیں کہ جناب عبد المطلب نے حضرت ابوطالب ـ سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے ایمان کو مخفی رکھیں اور حضرت ابوطالب ـ نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کے واسطے ایسا ہی کیا

ایک شخص نے امیرالمؤمنین ـ سے کہا : افسو س ہے کہ آپ کے والد مشرک تھے آپ نے فرمایا :یہ کیسے ممکن ہے کہ بیٹا'' قسیم النار والجنة '' بہشت اور جہنم کو تقسیم کرنے والاہو اور باپ آگ میں ہو؟

واضح سی بات ہے حضرت علی ـ کامقصد یہ نہیں ہے کہ میں بہشت اور جہنم کا تقسیم کرنے والاہوں لیکن میں باپ شفاعت کرکے بہشت میں لے جائوں گا کیا یہ بات قرآن میں نہیں آئی ہے ؟کہ شفاعت کرنے والے شافعین سے مشرکین کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ، بلکہ حضرت علی ـکامقصد یہ ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ باپ مشرک ہو اور کے ہاں مجھ جیسی شخصیت کامالک بیٹا پید اہوسکتاہے ؟

اس کے علاوہ حضرت امیرالمؤمنین علی ـ نے بارھاایمان ابوطالب ـکے بارے میں وضاحت فرمائی ہے جبکہ امیرالمؤمنین علی ـ کی شخصیت تمام مسلمان فرقوں کیلئے قابل قبول اور قابل اعتماد ہے ایسے میں کسی کو حضرت علی ـکے والد گرامی کے ایمان پر ہرگز شک نہیں کرنا چاہیے

سبط ابن جوزی نے حضرت علی ـ کے اشعار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا :

ابا طالب عصمت المستجیری

وغیث المحول ونو ر الظلم

جناب ابو طالب ـ پناہ لینے والوں کی پناہ گاہ تھے.

وہ ہر فریادی کے فریاد رس اورتاریکی میں نور تھے

حضرت امام علی ـ کا مقصد یہ تھا کہ میرے والد محترم اس تاریکی کفرو شرک میں نو ر ایمان کے حامل تھے.

اس بارے میں حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں :

اگر تمام خلائق ( جن و انس ) کے ایمان کو ایک طرف رکھیں او ر دوسر ی طرف ہمارے جد امجد حضرت ابو طالب ـکے ایمان کو رکھیں تو ہمارے جد ِ امجد کا ایمان سنگین اور بھاری ہو جائیگا

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں :

حضرت ابو طالب ـ کے دو اجر ہیں ایک اجر ان کے ایمان کا اور دوسرا اجر ایمان مخفی رکھنے کا ، جیساکہ اصحاب کہف نے اپنے ایمان کو مخفی رکھا

ایک شخص نے حضرت امام رضا ـ سے حضرت ابو طالب ـکے ایمان کے بارے میں سوال کیاتو آپ نے فر مایا: اگر ابو طالب ـ کے ایمان پر اعتقادنہ رکھو تو آخر کار تمہارا ٹھکانہ جہنم ہوگا

ایک شخص نے حضرت علی ـسے سوا ل کیا تو آپ نے فرمایا : خدا کی قسم ! میرے پدر بزرگوار حضرت ابو طالب ـمیرے جد امجد حضر ت عبدالمطلب و ہاشم و عبدالمناف نے ہرگز ایک لحظہ کیلئے بھی بت پر ستی نہیں کی ہے ایک شخص نے پوچھا وہ اسلام سے پہلے کس چیز کی پرستش کرتے تھے ؟

حضرت ـ نے فرمایا : وہ لوگ خفیہ طور پر قبلہ کی طرف نماز پڑھتے تھے اور دین حنیف ابراہیم ـ پر تھے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس سلسلہ کو مکمل فرمایا.

فریقین ( شیعہ و سنی ) کے درمیان ایک اتفاقی مسئلہ ہے کہ اگر کوئی مشرک و کافر عورت مسلمان ہوجائے اور شوہر کفرکے اوپر باقی رہے تو اس عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر سے الگ ( جدا ) ہوجائے کیونکہ عقد ازدواج باطل ہوجاتاہے

لہذا جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیٹی زینب مسلمان ہو گئی اور اس کا شوہر زیدبن العاص کفر پر باقی رہ تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ وہ اپنے شوہر سے جد ا ہوجائے

حضرت امام زین العابدین ـ نے اس تاریخی واقعہ سے استد لال کرتے ہوئے فرمایا: ان لوگوں کے اوپر تعجب ہے جو حضرت ابو طالب ـکی طرف کفر و شرک کی نسبت دیتے ہیں جبکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات پر مامور تھے کہ جو عورت مسلمان ہوجائے اسے حکم دیں کہ وہ اپنے مشرک شوہر سے جد ا ہوجائے

اسی بناء پر اگر حضرت ابوطالب ـ کافر تھے تو حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چاہیے تھا کہ وہ جناب فاطمہ بنت اسد کو حضرت ابو طالب ـسے جدا کرتے ؟ کیونکہ فاطمہ بنت اسد ہمارے جد امجد امیرالمؤمنین علی ـ کی مادر گرامی ہیں آپ سب سے پہلے اسلام لانے والی خواتین میں سے ہیں لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی بھی فاطمہ بنت اسد کو حضرت ابو طالب ـ سے جد ا ہونے کا حکم نہیں دیا یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابو طالب ـباایمان شخص تھے لیکن انہوں نے کسی مصلحت کی بنیاد ہر اپنے ایمان کو مخفی رکھا تھا.

ابن الحدید نے مایہ ناز کتاب '' شرح نہج البلاغہ '' میں حضرت امام سجاد ـ کے اسی استدلال کو ایمان ابوطالب ـ کے بارے میں ذکر کیا ہے حضرت امام محمد باقر ـ بھی حضرت ابو طالب ـ کے ایمان پر استدلا ل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

حضرت امیرالمؤمنین علی ـ ہر سال اپنے والد محترم کی نیابت میں حج کیلئے جاتے تھے اگر حضرت ابو طالب ـ مشرک ہوتے تو حج مشرک کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا ہے اس کے علاوہ حضرت امیرالمؤمنین علی ـ اپنے وصیت نامہ میں بھی وصیت کی کہ ہر سال اپنے والد کی نیابت میں حج کو جائیں

حضرت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابو طالب ـکیلئے رحمت اورمغفرت کی دعافرمائی اور ان کی تشیع جنازہ میں گریہ و زاری بھی کی اس بنیاد پر کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معصوم ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دوستی خدا کی دوستی کی بنیاد پر ہے لہذا جس کسی کو بھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوست رکھیں وہ خدا کا محبوب ہوا کرتاہے

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب عقیل سے فرمایا : میں تمہیں دووجہ سے دوست رکھتاہوں ، ایک یہ کہ تم میرے رشتہ دار ہو اور دوسری وجہ یہ کہ جناب حضرت ابو طالب ـ تم کو بہت چاہتے تھے

یہ تو ہم جانتے ہیں کہ حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی مشرک پر رحمت نہیں بھیجتے کیونکہ ہر موحد کیلئے ضروری ہے کہ وہ صرف مؤمن سے دوستی رکھے اورمشرک و کافر سے دشمنی رکھے اور اس سے بیزار رہے یہ تصور کہ حضرت ابو طالب ـعمر کے آخر میں ایمان لائے تھے کہ کسی سند کے بغیر اورعقلی ونقلی شواہد کے مخالف ہے

زیارت ناموں او ر بعض دعائوں میں اہل بیت ٪ سے یوں خطاب ہے

اشهد انک کنت نورا ً فی الاصلاب الشامخه والارحام المطهرة.

اے ہمارے مولا ! ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ کا نور عظیم صلبوں اور مطہر و منزہ رحموں میں موجود تھا .صحیح سند کے بنیاد پر ہمار ا اعتقاد ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علی ـ کے تمام اجداد اور والدین ہر قسم کے شرک ، بت پرستی اورگناہوں سے پاک انسان تھے اور ان کی پیشانی خدا کے علاوہ کسی چیز کے سامنے نہیں جھکی ہے ایک جھوٹی اورجعلی روایت کے بناء پر بعض مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے والد گرامی حضرت عبداللہ ـ اور حضرت علی ـ کے والد گرامی حضرت ابو طالب ـکی جگہ شرک کی بناء پر آگ میں ہیں

اہل سنت کی اہم ترین کتاب '' کتاب صحیح مسلم '' میں کچھ اس طرح نقل ہوا ہے :

انس نے کہا : ایک شخص نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا : کیا میراباپ آگ میں ہے ؟ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:جی ہاں !

چونکہ کفر کی حالت میں دنیا سے چلے گئے تھے اس وجہ سے وہ آگ میں ہیں پھر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میرے والد بھی آگ میں ہیں

سنن ابن ماجہ و ابن دائود میں بھی روایات نقل ہوئی ہیں :

ابو ہریرہ نے کہا : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی ماں کی قبرکی زیارت کی اورگریہ کیا ،جولوگ وہاں پر موجود تھے وہ بھی رئوے ، اس نے خد اوند عالم سے اجازت لی تاکہ میں اپنی ماں کیلئے طلب مغفر ت کروں لیکن مجھے اس طرح کی اجازت نہیں دی گئی لیکن خدا وند سے چاہا کہ ماں کی قبر کی زیارت کروں تو خدا وند مجھے اجازت دے دی

آخر میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' تم لوگ بھی قبروں کی زیارت کرو کیونکہ قبروں کی زیارت موت کی یاد دلاتی ہے ''

اب یہ سوال باقی رہ جاتاہے کہ اس قسم کا اصرار جو اہل بیت ٪ کے آبائو اجداد کومخدوش کرنے کے بارے میں کیا جاتا ہے اس کا مقصد کیا ہے ؟ اس قسم کی فکر ، ہدف اورمقصد کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہیں ؟

اس قسم کی مہم باتوں کو کسی اور موقعہ کیلئے چھوڑتے ہیں

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عبدالمطلب کے بارے میں امیرالمؤمنین علی ـ سے فرمایا : انہوں نے کسی بت کی پرستش نہیں کی اورنہ ہی ایسے حیوان کا گوشت کھایا ہے جو بت کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور انہوں نے فرمایا کہ ہم اپنے جد امجد حضرت ابراہیم ـ کے دین اور آئین کی پیروی کرتے ہیں

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فر مایا : میں اورعلی ایک ہی نور سے ہیں اور ہمیشہ ساتھ ساتھ ہیں ہمار انور ایک صلب سے دوسرے صلب میں منتقل ہوتا رہا پس اس نور کے دو حصے ہوگئے ، ایک حصہ حضرت عبداللہ ـ کے صلب میں قرار پایا اوردوسرا حصہ حضرت ابو طالب ـ کے صلب میں قرار پایا بعد میں میں حضرت آمنہ کے بطن مبارک سے متولد ہوا ور علی فاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے دنیا میں آئے

ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں :

اشهد انک کنت نورا فی الاصلاب الشامخه والارحام المطهره لم تنجسک الجاهلية بانجاسها .

ہم شھادت دیتے ہیں کہ آپ عظیم لوگوں کے بلند و مرتبہ صلب اور پاک ومطہر مائوں کے رحم میں تھے جاہلیت کی نجاست نے آپ کو ہر گز چھوا تک نہیں ہے.

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اہل بیت ٪ میں سے کسی کے باپ یا ماں مشرک ہو تے ، کیونکہ قرآن مجید نے مشرکین کے نجس ہونے کا اعلان کیا ہے تو یہ نجاستیں وراثت کی بنیاد پرآنے والی نسلوں میں منتقل ہوتی رہتیں اگر ایسا ہو تو پھر آیہ تطہیر کیلئے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی. لہذا اگر کوئی مسلمان ، اہل بیت ٪ میں سے کسی کے باپ یا ماں کو مشرک جان لے تو گویا اس نے دانستہ یا نادانستہ طور پر آیہ تطہیر کو رد کر دیا ہے اور جس نے آیہ تطہیر کو رد کر لیا اس کا حکم معین و مشخص ہے

حافظ گنجی شافعی لکھتے ہیں :

حضرت امیرالمؤمنین علی ـکعبہ میں فاطمہ بنت اسد سے متولد ہوئے. حضرت ابو طالب ـاور جناب فاطمہ بنت اسد نے کوہ ابو قیس کی بلند ی پر جاکر خدا وند عالم کی بارگاہ میں اس مولود کعبہ کا نام مشخص ومعین کرنے کیلئے یوں التماس کی.

اے پروردگار عالم ! جو رات کی تاریکی میں نور کی عظیم ہستی ہے اور اس چمکتے ہوئے آفتاب کا مالک ہے ، اپنے عظیم علم مکنون اورپوشید ہ رازوں سے ہمیں بتائیں کہ اس بچے کا نام کیا رکھا جائے

یا رب هذالقصب دجی

والقمر المبتلج المضی

بین لنا من امر ک الخفی

ما ذاتری فی امر هنا الصبی

ایسے میں آسمان سے ایک لوح نازل ہوئی اس پر یہ شعر کندہ تھا:

حصصتما بالولدالزکی

والطاهر المنتخب الرضی

واسمه من قاصرالعلی

علی اشتق من العلی

اس لوح کو حضرت ابو طالب ـ نے محفوظ کیا اورکعبہ کی دیوار پر لٹکادیا بنی ہاشم اس لوح پر افتخار کیا کرتے تھے

حجاج کے زمانے تک یہ لوح موجود رہی اس کے بعد گم ہو گئی

بعض کا کہنا ہے کہ ایک آواز حضرت ابو طالب ـ کے کانوں تک آئی اے ابو طالب ! اے فاطمہ بنت اسد !

میں نے یہ اعجاز اور افتخار صرف تم کو دیا ہے کہ حضرت علی ـ جیسا عظیم فرزند تمہیں عنایت کیا اور یہ عظیم فرزند میں نے اپنی خوشی اور رضایت کی بنیاد پر تمہیں عطا کیا ہے یہ ایسا فرزند ہے جو پاک ، زکی ، طاہر ، رضی اور منتخب شدہ ہے.

(زکی (یعنی برگزیدہ )

(طیب طاہر ،پارسا ، ( طاہر یعنی پاک و پاکیزہ )

( رضی ( یعنی دوست دار ، راضی ،خوشی ، مرضی )

(منتخب ( یعنی برگزیدہ ، بزر گوار ، عظیم شخصیت )

خداوندمتعال نے فرمایا: کہ میں بلند مرتبہ ہوں لہذا اس مولود کا نام اپنے اسم سے مشتق کیا ہے اور اس نام علی رکھا ہے. حضرت ابو طالب ـ نے اس واقعے کے بعد دس اونٹ قربان کئے اور خدا وند عالم کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجا لائے.

اس واقعہ سے بہ خوبی استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ :

جناب حضرت ابو طالب ـ موحد تھے لہذا وہ خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوئے نہ کہ بتوں کے سامنے جھکے

مقام ابو طالب ـ اس حد تک بلند تھا کہ خدا وند عالم نے ان کے سوال کاجواب دیا

حضرت ابو طالب ـ خد اکو سجدہ کیا نہ کہ بت کو

حضرت ابو طالب ـ کیلئے عظیم ترین افتخار اورفخر یہ ہے کہ آپ کا علی جیسا فرزند ہے

کلمہ '' متنخب '' سے حضرت ابو طالب ـ سمجھ گئے کہ وہ ایک ایسے فرزند کے باپ ہیں جو منصب امامت کیلئے منتخب ہو چکا ہے

کلمہ '' طاہر منتخب اور رضی'' سے استفادہ کرتے ہوئے حضرت امیرالمؤمنین علی ـ کی عصمت و طہارت ثابت ہوتی ہے

ان واقعات سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابو طالب ـ کی معرفت بہت ہی بلند تھی ، لہذا اپنے اشعار میں کہا :

( اے آفتاب و ماہتاب کے ہستی

(اے صاحب علم و مکنون

( اے زمین و آسمان کے مالک

جس طرح خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ ـ سے کلام کیا تھا اسی طرح حضرت ابو طالب ـ سے بھی کلام کیا

حضرت ابو طالب ـ صاحب مستجاب الدعوة تھے

انصاف سے دیکھا جائے تو ان واقعات سے کافی حد تک حضر ت ابو طالب ـ کا موحد ہونا ثابت ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ایمان حضرت ابو طالب ـخود اہل سنت کے منابع سے بھی ثابت ہوتا ہے لیکن بعض نے اس بات سے استفادہ کرتے ہوہے کہ وحی فقط پیغمبر سے مختص ہے اس واقعہ میں شک کیا ہے حالانکہ کلمہ وحی اس نبی اوررسول سے مختص کیا گیا جو صاحب ِ دین اور صاحب ِ شریعت ہو جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں اور تلاوت کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کلمہ وحی شہد کی مکھی اور حضرت موسیٰ ـ کی مادر گرامی کیلئے بھی استعمال ہوا ہے لہذا اگر کلمہ وحی حضرت ابو طالب ـ کیلئے استعمال ہو ا ہے تو پر یشانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے

( حضرت موسیٰ ـ کی ماں پیغمبر نہیں تھی قرآن کہتا ہے : ''وا و حینا الی ام موسیٰ ''

(حضرت عیسیٰ ـ کی مادر گرامی بھی پیغمبر نہیں تھی. لیکن ارشاد باری تعالیٰ ہو رہا ہے : ''فنا دینا ها من تحتها ان لاتحزنی ''

خدا وند رب العزت نے حضرت ابو طالب ـ کو دس ( ١٠ ) فرزندعنایت کئے حضرت امیرالمؤمنین علی ـ کے سوا ء کسی فرزند کانام رکھنے کیلئے خدا سے در خواست نہیں کی یہ امر خود ایک انوکھی بات ہے

اس سے اندازہ ہوتاہے کہ حضرت ابو طالب ـ پہلے ہی سے جانتے تھے کہ علی ـ کے جائے ولادت کعبہ میں ہے اور اس کا نام بھی صرف خد ا ہی کو رکھناہے حضرت ابو طالب ـ کے ایک شعر کا مصرعہ یہ ہے '' بین لغا من امرک الخفی '' ہمارے لئے اپنے مخفی امور کو ظاہر کر

یہ اس واقعہ کے حوالے سے ایک لطیف اشارہ ہے

روایات کے مطابق حضرت امیرالمؤمنین علی ـ کا نام شروع خلقت میں ہی خداوندعالم نے رکھا تھا اور یہ بات پہناں اورمخفی رکھی تھی یہاں تک کہ حضرت امیرالمؤمنین علی ـ کی ولادت ہوئی اور اس کو سب پر آشکار کردیا

حلےة الاولیاء میں لکھتے ہیں : پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فر مایا:

مکتوب علی ساق العرش لااله الا الله وحده لاشریک له و محمد عبدی و رسولی و اید ته بعلی بن ابی طالب

عرش کے ساق پر لکھاگیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی خد ا نہیں ہے وہ یکتاہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرا بندہ اورمیرا رسول ہے ان کی علی بن ابی طالب ـ نے مدد کی

طبری نے اپنی تفسیر میں اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں حضرت علی ـ کے حالات زندگی میں اور کفاےة الطالب باب ٦٢ میں محمد بن یوسف گنجی شافعی نے اس حدیث کونقل کیا ہے

خصایص کبری اور تفسیر درالمنثور میں آیاہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شب معراج میں اس عبارت کو اسی صورت میں دیکھا ہے

خطیب خوارزمی مناقب میں لکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:مکتوب علی باب الجنة علی اخو رسول الله

'' بہشت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے کہ علی ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھائی ہیں ''

اب تو مشخص ہو گیا کہ سید البطحا ء حضرت ابو طالب ـ اولیاء الہیٰ میں سے تھے اور محکم و مضبوط ایمان کے مالک تھے جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں :

ایک راہب تھا بنام شرم بن رعیت جوکہ ١٩٠ سال عبادت کرتا رہا لیکن اس نے خد اسے کوئی حاجت طلب نہیں کی تھی ایک دن وہ خدا کی بارگاہ میں دعاکرتاہے کہ خدا یا ! مجھے کسی ولی خدا سے ملاقات اور اس کادیدار کر ادے اس کی دعا قبول ہوئی

خداوند رب العزت نے حضرت ابو طالب ـ کو اس کے پاس بھیج دیا اس راہب نے جناب ابو طالب ـ کو بشار ت دی کہ خدا وند عالم آپ کو ایک بیٹا عنایت کرے گا جو ولی خدا ہے اور اس کا نام علی ـ ہے جب انہیں دیکھیں تو میرا سلام عرض کرنا اور ان سے کہنا کہ مشرم راہب ، خدا کی وحدانیت اور آپ کی ولایت اور آپ کے امیرالمؤمنین ہونے کی شھادت دیتاہے

اہل بیت ٪ کا حضرت ابو طالب ـ کے ایمان پر اجماع ہے

ابن اثیر جزری شافعی اس بارے میں لکھتے ہیں : اہل بیت ٪ کا جناب حضرت ابو طالب ـکے ایمان پر اجماع تھا اور اجماع اہل بیت ٪کے نزدیک حجت ہے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت ابو طالب ـ کو بہت چاہتے تھے اور فرماتے تھے یہ بزرگوار قیامت کے دن شفاعت کی اجازت دریافت کریں گے

جب حضرت ابو طالب ـ کی رحلت کی خبر حضرت علی ـ نے حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت غمگین اور محزون ہوئے اور فرمایا : یا علی جائیں اور ان کو غسل و کفن اور حنوط کریں جب دفن کیلئے تیار و آمادہ کرلیں تو مجھے خبر دیں جب رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نگاہ مبارک اپنے چچا ابو طالب ـ کی نعش پر پڑی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رو پڑے اورفرمایا : اے میرے چچا ! آپ نے مجھ پر صلہ رحم اور مہربانی فرمائی .اے میرے چچا ! آپ نے بچپن میں میری پر ورش اور کفالت کی اوربڑا ہونے کے بعد میر ی حمایت اور نصرت فرمائی

اس کے بعد پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:

''خدا کی قسم ! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میرے چچا ابو طالب کو اذنِ شفاعت دے گا. جس پر تمام جن و انس تعجب کریں ''

حضرت ابو طالب ـ کی رحلت پر حضرت جبرئیل ـ نازل ہوئے اور فرمایا: اے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گرامی ! آپ کے یاور اورحامی دنیا سے رحلت کرگئے پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے ہجرت کر جائیں

حضرت ابو طالب ـ کے بارے میں ہمیں چاہیے کہ کوئی بڑے قدم اٹھائیں کہ بعض روایات کے مطابق آپ حضرت ابراہیم ـ کے وصیوں اور ولیوں میں سے تھے

علامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : امامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جناب ابو طالب ـ اسلام اورپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر پختہ ایمان رکھتے ہیں انہوں نے ہرگز کسی بت کے پوجا نہیں کی بلکہ آپ حضرت ابراہیم کے اوصیاء میں سے تھے.

مرحوم شیخ صدوق رحمة اللہ علیہ اس بارے میں لکھتے ہیں : حدیث شریف میں آیا ہے کہ جناب عبدالمطلب خدا کی حجت اور ابو طالب ـ ان کے وصی اور جانشین تھے روایت کے مطابق انبیاء ٪ کی امانتیں مثلا ً عصا ء حضرت موسیٰ ـ، حضرت سلیمان ـکی انگشتری جناب عبدالمطلب کے ذریعے حضرت ابوطالب ـتک پہنچی اور انہوں نے وہ امانتیں حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سپرد کیں