راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 120004
ڈاؤنلوڈ: 2225

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120004 / ڈاؤنلوڈ: 2225
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں کی کرامت

قرآن کریم میں نبی کے لئے بیان کی جا نیوالی کرا متو ں میں سے ایک حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی ما در گرا می کی داستان ہے:( وَاَوْحَیْناَ اِلَٰی اُمِِّ مُوْسَٰی اَنْ اَرْضِعِیْهِ ) ( ۱ )

یعنی خدا کی جانب سے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کے پاس وحی ہوئی کہ تم اس بچے کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا ئے نیل میں ڈال دو اور یہ خوش خبری بھی دیدی گئی کہ ہم اس کو پھر تمہارے پاس پہنچادیں گے اور اس کو (اپنا رسول )بنائیں گے۔

____________________

۱۔سورئہ قصص آیت۷۔

۱۰۱

طا لوت کی کرامت

غیر معمولی واقعات میں سے ایک واقعہ طالوت کے تابوت کا بھی ہے طالوت پیغمبر نہیں تھے لیکن خداوند عالم نے ان کے لئے یہ معجزہ ظاہر کیا تا کہ بنی اسرائیل ان کی حکومت تسلیم کرلیں البتّہ یہ کہاجا سکتا ہے کہ یہ بھی ایک پیغمبر کا معجزہ تھا جن کو روایات میں (صموئیل )کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔لیکن قرآن میں آیت کا لہجہ اس طرح نہیں ہے بلکہ قرآن کہتا ہے :

( وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ آیَةَ مُلْکِهِ اَنْ یَاتِیَکُمُ الَّتابُوتُ فِیهِ سَکِینَة مِنْ رَبِّکُم ) ( ۱ )

''ان کے (من جانب ﷲ)باد شاہ ہونے کی یہ پہچان ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسکین کی چیزیں ہیں''۔

بہر حال اس میں دو احتمال دیئے جاتے ہیں کہ یاتو یہ صموئیل کیلئے جو نبی تھے معجزہ ہے اگر چہ یہ اثبات نبوت کیلئے نہیں تھا یا پھر یہ طالوت کیلئے کرامت و معجزہ ہے جو خود پیغمبر نہیں تھے۔

ارمیا اور حضرت یونس علیہ السلام کے معجزات

اسی طرح (ارمیا )(یا عزیز )کا واقعہ ہے جو سو سال مردہ رہنے کے بعد دو بارہ زندہ کئے گئے یہ واقعہ بھی نبوت کے اثبات کیلئے نہیں تھا بلکہ پیغمبر کیلئے ایک غیر معمولی قسم کا واقعہ تھا ۔

اسی طرح حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے شکم سے نجات پاجانے کا واقعہ ہے : جب حضرت یونس اپنی قوم کی اصلاح سے ناامید ہوگئے تو آپ نے دریا کی راہ لی اور کشتی پر سوار ہوگئے اتفاقاًدریا میں تلاطم ہوااور کشتی ڈوبنے لگی ۔اس زمانہ میں یہ رسم تھی کہ جب کو ئی دریائی جانور کشتی پر حملہ کر تا تھا تو اس سے نجات پانے اور کشتی سے دورکر نے کے لئے قر عہ ڈالا جاتا تھا اور اسکے مطابق کشتی میں بیٹھے کسی ایک شخص کو در یائی جانور کے منھ میں ڈال دیا جاتا تھا ، قرعہ ڈالا گیا تو حضرت یونس علیہ السلام کا نا م نکل آیا دوسری اورتیسری مرتبہ بھی آپکا ہی نام نکلا آخر کا ر آ پ کو دریا میں ڈالا گیا ۔

ظاہر ہے کہ اس طرح کے جانور کے منھ میں جا نے کے بعدانسان کے بچنے کا کو ئی سوال باقی نہیں رہ جاتا ۔ مچھلی آپ کو نگل گئی آپ نے مچھلی کے شکم میں یہ کہا :

( فَنَادَیٰ فِیْ الظُّلُمَٰتِ اَنْ لَااِلٰهَ اِلَّااَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن فَاسْتَجَبْنَالَهُ وَنَجَّیْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذَالِکَ نُنْجِی الْمُوْمِنِیْنَ ) ( ۲ )

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت۲۴۸۔۲۔سورئہ انبیاء آیت۸۷۔۸۸۔

۱۰۲

''پس ( یو نس نے بطن ما ہی کے )اندھیر ے میں آواز دی کہ (پر ور دگارا !)تیرے سوا کو ئی معبود نہیں تو (ہر عیب سے ) پاک و پاکیزہ ہے بیشک میں ظلم کر نے والو ں میں سے ہوں تو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انھیں رنج سے نجات دی اور ہم تو ایما ندارو ں کو یو نہی نجات دیا کرتے ہیں'' ۔

قر آن کریم میں یہ واقعہ کئی جگہ بیان ہو ا ہے اور بعض جگہو ں پر اس کو تفصیل سے بیا ن کیا گیا ہے کہ مچھلی نے آپ کو در یا کے با ہر اگل دیااور خدا نے آپ پر سایہ کے لئے کدو کا درخت اُگا دیا وغیرہ ۔۔۔

بہر حال یہ بھی ایک غیر معمولی واقعہ تھا جو اثبات نبوت کیلئے نہیں تھا۔چونکہ آپ کئی سال تک اپنی نبوت کے فرائض انجام دے چکے تھے اور اپنی قوم سے نا امید ہو چکے تھے۔

حضرت دائو د علیہ السلام کے کرامات

قرآن کریم میں حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے با رے میںآیات زیادہ ہیں کہ خداوند عالم نے ان دونوں باپ بیٹے پر اپنا خاص لطف وکرم رکھا ہے منجملہ یہ کہ حضرت دائود کو زرہ بنانے کی صفت سے نوازا اور آپ کے ہاتھ میں لوہے کو موم کی طرح نرم کردیا تھا البتہ یہ بھی ایسا نہیں ہے کہ قابل تاویل نہ ہو چنانچہ معجزہ کا انکار کرنے والوں نے اس کی بھی بڑ ی آسانی سے تاویل کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جو قرآن فرماتا ہے :( وَعلَمَّنا ہ صنَعَةَ لبوُسٍ) یہ اس وجہ سے ہے کہ خداوند عالم کی صفت ہے کہ وہ تمام اشیاء کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے چنانچہ یہ ایک توحیدی انداز بیان ہے اور لوہے کو نرم کرنا بھی کو ئی غیر معمولی طریقہ سے نہیں تھا بلکہ خدا وند عالم نے آپ کو تعلیم دیدی تھی کہ مثال کے طور پر لو ہے کو نرم کرنے کی ایک بھٹی بنائو اور آپ نے خود تجربوں سے ان تمام چیزوں کو سیکھ لیا تھا کہ کس طرح لو ہے کو نرم کرکے اس کے حلقے تیار کرکے زرہ بنائی جاتی ہے لیکن اس بارے میں قرآن کا انداز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ کو یہ سب معجزہ کے عنوان سے عطا کیا گیا تھا اورخدا لوگوں پر احسان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ داوئو د کو زرہ بنانے کی تعلیم ہم نے دی تا کہ :

( لتُِحْصِنَکُم مِن بَأْسِکُمْ ) ( ۱ )

''جنگ کے وقت وہ تمہاری حفاظت کریں'' ۔

( اَلَنَّالَهُ الْحَدِیْد ) سے بھی نہیں ظاہر ہوتاکہ حضرت داوئو د بھٹی میں لوہا رکھ کر نرم کیا کرتے تھے بلکہ ظاہر

____________________

۱۔سورئہ انبیاء آیت۸۰ ۔

۱۰۳

مطلب یہی ہے کہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا ۔اسی طرح حضرت داوئو د علیہ السلام زبور کی تلاوت کیا کرتے تھے آپ کا لحن اتنا اچھا تھا کہ پہاڑ اور پرندے آپ کے ساتھ خدا کی تسبیح میں شریک ہوجاتے تھے ۔معجزہ کا انکار کرنے والے اس کی بھی تاویل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب حضرت داوئود علیہ السلام پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر زبور کی تلاوت کرتے تھے توآپ کی آواز پہاڑ سے ٹکراتی تھی اور یہ وہی آواز کی گونج تھی جو لوگ سنتے تھے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور کچھ پرندے بھی ایسے ہیں جن کوانسان کی اچھی آواز بہت پسند ہے اور وہ جمع ہوجاتے ہیںلیکن قرآن کا لہجہ اس بارے میں کسی عام طرح کے واقعہ کی نشاندہی نہیں کرتا ۔

مثال کی طور پر قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَسَخَّرْنَامَعَ دَاوُوْدَالْجِباَلَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ ) ( ۱ )

''اور ہم نے داوئو د کے ہمراہ پہاڑ اور پرندوں کو بھی تسخیر کرلیا کہ (خداکی )تسبیح کریں''۔

کیا یہ تعبیر آواز کے مر تعش ہونے سے میل کھاتی ہے ؟''والطیر''یعنی''( وسخرناالطیریُسَبِّحْن ) َ ،( وَکُنَّافَاعِلِیْنَ ) اس بات کی مزید تاکید ہے کہ اس کام کو ہم نے (یعنی خدا نے) انجام دیا۔ اگر یہ ایک عام واقعہ تھا تو (وکنا فا علین )کی ضرورت نہیں تھی۔

دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلَقَدْ اٰتَیْنَادَاوُدَمِنَّا فَضْلا ًیَٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَهُ وَالطَّیْرَوَاَلَنَّالَهُ الْحَدِ یْدَاَنِ اعْمَلْ سَابِغَٰاتٍ وَقَدِّرْ فِی السَّرْدِ ) ( ۲ )

''اور ہم نے یقیناً داود کو اپنی طرف سے بزرگی عنایت کردی کہ اے پہاڑ و ںاور اے پرند وں ان کے ہم آواز ہوجائو اور ان کے واسطے لو ہے کو نرم کردیا تھا اور ان کو حکم دیا کہ فراخ وکشادہ زرہیں بنائو اور (کڑیوں کے ) جوڑنے میں اندازہ کا خیال رکھو ۔۔۔''۔

یہ بھی بہ ظاہر آواز کا قدرتی ارتعاش نہیں ہے البتّہ یہ تمام چیز یں انھیں نبوت ثابت کرنے کیلئے نہیں عطا کی گئی تھیں اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کے کرامات

۱۔حضرت سلیمان علیہ السلام کوایک معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ آپ پرندوں کی باتوں کو سمجھ لیتے تھے:

____________________

۱۔سورئہ انبیاء آیت۷۹ ۔

۲۔سورئہ سبا آیت ۱۰ ۔۱۱ ۔

۱۰۴

( وَوَرِثَ سُلَیْمَٰانُ دَاوُدَ وَقَالَ یَااَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِوَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ) ( ۱ )

''سلیمان داود کے وارث ہوئے اور کہا لوگوہم کو پرندوں کی بولی بھی سکھائی گئی ہے اور ہمیں (دنیا کی)ہرچیز عطا کی گئی ہے''۔

شاید اس آیت سے یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ حضرت داود بھی ایسے ہی تھے کیو نکہ آیت میں (عُلَّمْنَا )کہا گیا ہے جو جمع کا صیغہ ہے اور(عُلِمْتُ )نہیں ہے۔

۲۔اور ان آیات سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ جانوروں کی زبان کا جاننا صرف پرندوں تک محدود نہیں تھا بلکہ دوسرے حیوان بھی شامل ہو جا تے تھے چو نکہ حضرت سلیمان علیہ السلام چیونٹیوں کی آواز بھی سن سکتے تھے:

( یَااَیُّهَاالنَّمْلُ ادْخُلُوْامَسَٰکِنَکُمْ ) ( ۲ )

''اے چیو نٹیوںاپنے اپنے سوراخوں میں گھس جائو''۔

حضرت سلیمان نے اسکو سنا اور سمجھ لیا :

( فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًامِنْ قَوْلِهَا )

'' پس سلیمان اس کی بات سن کر ہنس پڑے۔۔۔''۔

۳۔حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک معجزہ یہ تھا کہ خدا وند عالم نے آ پ کے لئے ہو ا کو مسخّر کر دیا تھاکہ آپ جس جگہ چا ہتے تھے ہو ا آپ کے حکم سے آپ کے تخت کو اٹھا کر لیجاتی تھی لیکن معجزہ کا انکار کر نے والے کہتے ہیںکہ یہ ایک طرح کا ہو ائی جہاز تھا جو اس زمانہ میں بنا یا گیا تھا لیکن قر آ ن کریم کے لہجہ سے ایسا نہیں لگتا :

( وَلِسُلَیْمانَ الرِّیْحَ غُدُوُّهَا شَهْروَرَوَاحُهَٰا شَهْر ) ( ۳ )

''اور ہم نے ہوا کو سلیمان کا تابع بنا دیا تھا وہ ایک صبح میں ایک مہینہ کی (مسافت )طے کرلیتے تھے اور رات میں بھی ایک مہینہ کی راہ طے کرتے تھے''۔اسی سلسلہ کی ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( فَسَخَّرْنَالَهُ الرِّیْحََ تَجْرِیْ بِاَمْرِهِ رُخَائً حَیْثُ اَصَابَ ) ( ۴ )

____________________

۱۔سورئہ نمل آیت ۱۶۔

۲۔سورئہ نمل آیت۱۸۔۱۹۔

۳۔سورئہ سبا آیت ۱۲۔

۴۔سورئہ ص آیت ۳۶۔

۱۰۵

''پس تو ہم نے ہوا کو ان کا تابع کردیا کہ جہاں وہ پہنچنا چاہتے تھے ان کے حکم کے مطابق دھیمی چال سے چلتی تھی''۔

۴۔حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک اور معجزہ تھا کہ خداوند عالم نے ان کے لئے تا نبے کا ایک چشمہ ظاہر کردیا تھا گویا تانبہ پگھلانے کی صنعت ان کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے خداوند عالم فرماتا ہے :

( وَاَسَلْنَالَهُ عَیْنَ الْقِطْرِ )

''اور ہم نے ان کیلئے تانبے (کو پگھلا کر اس)کا چشمہ جاری کردیا تھا ''۔

۵۔اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک اور معجزہ یہ تھا کہ جن اور شیا طین ان کے قبضے میں تھے قرآن کریم فرماتا ہے :

( وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْهِ بِاِذْنِ رَبِّهِ وَمَنْ یَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَانُذِ قْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ ) ( ۱ )

''اوردیو کی ایک جماعت ان کے پروردگار کے حکم سے ان کے کام (کاج )کرتی تھی اور ان میں سے جس کسی نے ہمارے حکم سے انحراف کیا اسے ہم آگ کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے''۔

اورپھر اس کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ جنات کیا کیاکام کرتے تھے :

( یَعْمَلُوْنَ لَهُ مَایَشَائُ مِنْ مَحَارِیبَ وَتمَٰثِیْلَ وَجِفَانٍ کَالْجَواب وَقُدُوْرٍ ٍرَاسِیَاتٍ ) ( ۲ )

''سلیمان جو کچھ بنوانا چاہتے یہ جنّات او نچے محل اور مجسمے اور حوض کے برابر پیالے اور (بڑی بڑی) دیگے بنادیتے تھے ''۔

اس آیت سے بہ ظاہر پتہ چلتا ہے کہ محل وغیرہ کی سجاوٹ کیلئے تصویر وغیرہ ۔۔۔بنا تے تھے ۔

اسی سلسلہ کی دوسری آیت میں آیا ہے :

( وَالشَّیَٰطِیْنَ کُلَّ بَنَّائٍ وَغَوَّاصٍ وَآخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِیْ الاَصْفَٰادِ ) ( ۳ )

''اور دیو کو ان کمے قابو میں کردیا جو عمارت بنانے والے اور غو طہ لگانے والے تھے اور اس کے علاوہ بھی دوسرے

دیوئو ں کو بھی جو زنجیروں میں جکڑ ے ہوئے تھے''۔

____________________

۱۔سورئہ سبا آیت۱۲۔

۲۔سورئہ سبا آیت۱۳۔

۳۔سورئہ ص۳۷۔۳۸۔

۱۰۶

اصحاب کہف

غیر نبی کیلئے ظاہر ہو نے والی کرامت میں سے ایک اصحاب کہف کا واقعہ بھی ہے جو ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ ان لو گوں کے لئے جو پیغمبر بھی نہیں تھے خداوند عالم نے ان کو تین سو سال گہری نیند سلا دیا اور پھر ان کوبیدارکیاو۔۔۔''۔

اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کبھی کبھی غیر معمولی واقعات انسان کے اراد ہ کے تابع نہیں ہوتے یعنی ضروری نہیں ہے ہمیشہ غیرمعمولی کام انسان کے ارادے اور اختیار سے ہی انجام پائیں بلکہ ممکن ہے فرشتوں کے ارادہ سے انجام پائیں البتہ اس میں انسان کے ارادہ کی بھی نفی نہیں کی گئی ہے لیکن اصحاب کہف کا واقعہ اس طرح ہے کہ خود انھوں نے تین سو سال سونے کا ارادہ نہیں کیا تھا بلکہ کچھ دیر آرام کے بعد دوبارہ اپنے راستہ پر آگے بڑھنا چاہتے تھے لیکن خود ان کے یا کسی دوسرے انسان کے چاہے بغیر خداوند عالم نے ان کو تین سو سال سلا ئے رکھا :

عقلی نکتہ

یہاں پر نامناسب نہ ہوگا اگر ایک عقلی نکتے کی طرف اشارہ کردیا جائے :

غیر معمولی واقعات جب کسی انسانی نفس سے منسوب ہوں تو ہم اس وقت یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وجود فلاں موجود کو متا ثر کرنے کرنے یا وجود میں آنے کا ذریعہ بنا ہے اور چونکہ اس کا بدن سے تعلق ہے اس میں مادی شرطیں پائیں جاتی ہیںلیکن جب تقریباً کسی غیر مادی علّت سے منسوب ہو تو یہ سوال پیش آتا ہے کے مجرد تام کی نسبت تمام چیزوں اور تمام جگہوں سے ایک ہوتی ہے تو کیسے ایک مجرد تام بہ درجہ کوئی مخصوص مادی واقعہ کسی جگہ ایجاد کر سکتا ہے ؟ یہ وہ اعتراض ہے جن کا فلسفہ اور معجزات کا عقلی تجزیہ کر نے والوں کو سامنے کرنا پڑ تا ہے اس کے جواب میں وہی بات کہدینا کافی ہے جو خود فلسفہ تمام عادی امور میں دیتے ہیں اور وہ یہ ہے :کوئی بھی مادہ جب (وجود کیلئے ) تیار ہوجاتا ہے عقل وفعّال کے ذریعے اس کو صورت دی جاتی ہے وقت اور جگہ سے اس کا مخصوص ہونا یہ قابل استعداد پر منحصر ہے فاعل کی تاثیر نہیں ہے۔اصحاب کہف کے اندر یہ استعدادجو پیدا ہوئی تھی اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کون سی استعدادتھی لیکن ان کے اندر کچھ ایسے حالات کا پایا جانا کہ جن کا تقا ضا اس طرح کا تھا طے ہے تو معلوم ہوا کہ اس کا فاعل کسی مجرد تام کو مان لے جو ان موجودا ت کا باعث ہوا ہو لیکن اس کا ان افراداور اس زمان سے مخصوص ہونا خود فا عل کی طرف سے ہو تو ان کے ما بین کوئی منافات نہیں پائی جاتی۔

۱۰۷

نتیجہ

اس پوری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غیر معمولی واقعات خواہ وہ علم کی صورت میں ہوں ،خواہ فرشتوں کے تکلّم یا مخصوص افعال کا نتیجہ ہو انبیاء علیہم السلام سے مخصوص نہیں ہیں اور نہ ہی مقام اور نبوت کے اثبات سے مخصوص ہیں۔عقل کی بنیاد پر جو بات ضروری ہے وہ یہ کہ جب کسی پیغمبرکی نبوت کا اثبات معجزہ پر موقوف ہو تو معجزہ دکھلا یا جانا چاہئے تا کہ حجت تمام ہوجائے لیکن تمام مقامات پر یہ ایک طرح کا خدا کا فضل اور لطف ہے اور جب بھی اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے تو وہ ایک غیرمعمولی کام معجزہ یا کرامت کی صورت میں انجام دیدیتا ہے۔

۱۰۸

دائمی اعجاز

یہ بیا ن کیا جا چکا ہے کہ اگر انبیاء علیہم السلام کی نبوت کا اثبات معجزہ پر مو قو ف ہو تو حکمت الہٰی تقاضا کرتی ہے کہ وہ ان کو معجزہ عطا کر دے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے با رے میں اس کی کیا صورت ہے قر آ ن کریم فر ماتا ہے کہ گذشتہ انبیا ء علیہم السلام نے پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ظہو ر کی بشارت دی تھی یہا ں تک کہ اہل کتاب پہلے سے آپ کے ظہو ر کے منتظر تھے۔اس بنا ء پر ان کے لئے آنحضرت کی نبو ت ثابت تھی اور اتنے واضح وآشکار قرینے اور نشانیاں مو جود تھیں کہ آنحضرت کی نبوت میں کسی شک وشبہ کی کو ئی گنجائش نہیں تھی ۔ جہاں تک دوسرے لو گو ں کا سوال ہے تو جو بشا رتیں انھیں دی گئیں تھیں اور جن کو وہ بیان کیا کرتے تھے (اور بعد میں متحقق ہو ئیں ) ان کی وجہ سے ان پر بھی حجت تمام ہو چکی تھی لیکن چو نکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی ایک سر زمین اور کسی ایک زمانہ کے لئے مبعوث نہیں کئے گئے تھے بلکہ جب تک انسان اس رو ئے زمین پر زندہ ہیں اور زندگی بسر کر تے ر ہیں گے ان کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اتباع کر نا ہے ایسی صورت میں حکمت الہٰی کا یہ تقا ضا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایساجا ودانہ معجزہ عطا کرے جو کسی خاص زمان اور مکان سے مخصوص نہ ہو۔ چو نکہ تمام انبیا ء علیہم السلام کے معجزات صرف اپنے زما نہ والو ں کے لئے جو ان سے ملا قات کر تے تھے ثابت ہو نا کا فی تھا اور اس کے بعد غا ئبین کے لئے حا ضرین کے نقل کر دینے سے ثابت تھا لیکن یہ طریقہ ہمیشہ کے لئے بہت زیا دہ مفید نہ تھا ۔ یعنی اگر صرف دو سروں کے نقل کر نے پر اکتفاء کر لی جاتی تو ہزا روں سال کی مدت میں یہ محض نقل کر نے کا طریقہ آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کھو بیٹھتا ۔لہٰذا کو ئی ایسا (دائمی معجزہ ) ہو نا چا ہئے تھا کہ جس کے ذریعہ لوگ ہمیشہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کو پہچان سکیں ۔ اسی وجہ سے خداوندعالم نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایسی کتاب نازل فر مائی جو بذات خود بڑا ہی عظیم اور جا ودانہ معجزہ ہے۔

۱۰۹

اہل کتاب کے نزدیک پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نشانیاں

( اَلَّذِیْنَ آتَیْنَا هُمُ الْکِتَا بَ یَعْرِفُوْ نَهُ کَمَا یَعْرِ فُوْنَ اَبْنَا ئَ هُمْ ) ( ۱ )

''اہل کتاب جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں (اسی طرح )وہ اس (پیغمبر حضرت محمد)کو بھی پہچانتے ہیں''۔

جس ما حول میں یہ آیت نازل ہو ئی اس کی تحقیق کریں توحقائق کے سمجھنے میں بہت مدد ملے گی خدا وند عالم نے اہل کتاب کے با رے میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس دشمنی کے با وجود جو ان میں سے بعض آپ کے ساتھ رکھتے تھے صاف طور پر فر مایا ہے:

( يَعْرِفُوْنَهُ کَمَا یَعْرِفُوْ نَ اَبْنَا ئَ هُمْ )

''وہ آپ کو اپنے بچوں کی طرح پہچانتے تھے''۔

اگر اس مسئلہ میں کو ئی شک و شبہ ہو تا تو وہ اتنا پرو پگنڈہ کر تے کہ جس کا تصور نہیں، ایسا نہیں ہے ہم اس پیغمبر کو نہیں پہچانتے ،ہماری کتا بوں میں ان کے بارے میںکچھ بیان نہیں ہوا ہے لیکن قر آن کریم نے دو مرتبہ صاف طور پر کہا ہے کہ کہ وہ اپنے بچو ں کی طرح اِس پیغمبر کو پہچانتے ہیں اور ان کے پاس کہنے کو اس کا کو ئی جواب بھی نہیں تھا ۔

( وکَانُوامِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِ یْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّاجَائَ هُمْ مَاعَرَفُوْا کَفَرُوْابِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَی الکَافِرِیْنَ ) ( ۲ )

''اہل کتاب با وجودیکہ پہلے (آنحضرت کے ظہور کے ذریعے )کافروںپر فتحیاب ہونے کی دعائیں مانگتے تھے پھر بھی ان کے آنے اور پہچان لینے کے بعد بھی انھوں نے انکار کیا (اور ایمان نہیں لائے)پس کافر وں پر خداکی لعنت ہے ''۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مبعوث ہونے سے پہلے اہل کتاب مشرکوں کے ساتھ گفتگو کے وقت یہ بشارت دیا کرتے تھے کہ تمہارے درمیان سے ایک پیغمبر مبعوث ہونے والا ہے جو ہماری تصدیق کرے گا اس وقت تم لوگ سمجھو گے کہ ہمارا دین حق ہے اور خدا کی طرف سے ہے اور اس سے ہماری عزت وآبرو بڑھے گی کہ ہمارا دین باطل نہیں تھا یہی لوگ جو مشرکوں سے اس طرح کی گفتگو کیا کرتے تھے جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث ہوئے تو آپ کو

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت ۱۴۶ و سورئہ انعام آیت ۲۰۔

۲۔سورئہ بقرہ آیت ۸۹ ۔

۱۱۰

پہچا ننے کے باوجود آپ کے منکر ہوگئے پس کافروں پر خدا لعنت کرے۔

قرآن کلی طور پر فرماتا ہے کہ تورات میں اور انجیل میں بھی اس پیغمبر کے مبعوث ہونے کی بشارت دی گئی تھی :

( اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهُ مَکْتُوْباًعِنْدَهُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَالْاِنْجِیْلِ ) ( ۱ )

''یعنی جو لوگ ہمارے اس رسول سے نبی امّی کے قدم بہ قدم چلتے ہیں کہ جن کا نام انھوں نے اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا دیکھا ہے''۔مندرجہ بالا آیت میں اہل کتاب کے مومنین کی تعریف کی گئی ہے کہ وہ اسی پیغمبر کا اتباع کرتے ہیں کہ جس کی بشارت انھوں نے اپنے ہاں توریت وانجیل میں لکھی ہوئی دیکھی ہے۔ پس قرآن ہم کو یہ سمجھا تا ہے کہ پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ظہور کی بشارت تورات اور انجیل میں پہلے سے دیدی گئی تھی اور خاص طور سے حضرت عیسیٰ ابن مریم کی زبانی نقل فرماتا ہے کہ انھوں نے پیغمبر اسلام (حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ظہور کی بشارت دی تھی اور آپ کا نام (احمد)پہلے سے بتایا تھا:

( وَمُبَشِّراًبِرَسُوْلٍ یَاْ تِیْ مِنْ بَعْدِیْ اسْمُهُ اَحْمَدُ ) ( ۲ )

''اور ایک پیغمبر جن کا نام احمد ہو گا اور میرے بعد آئینگے ان کی خو شخبری سناتا ہوں ''۔

( اَمْ لَمْ یَعْرِفُوْارَسُوْلَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنْکِرُوْنَ ) ( ۳ )

''آیا یہ اپنے رسول کو نہیں پہچانتے جو اس کا انکار کر بیٹھے ہیں ''۔

معلوم ہو ا اہل کتاب پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مکمل طور پر آشنا تھے اور وہ جانتے تھے کہ یہ وہی پیغمبر ہے کہ جس کے ظہور کی بشارت گذ شتہ انبیاء علیہم السلام نے دی تھی پس قرآن کی رو سے اہل کتاب پر حجت تمام ہو چکی تھی لیکن دوسرو ں کی کیا کیفیت ہے ؟یہ بشا رتیں جو اہل کتاب دیا کر تے تھے اور بعض لوگ اس کی تصدیق بھی کیا کر تے تھے اس سے دو سرو ں کے لئے بھی حجت تمام کر دی تھی یعنی جب کچھ لو گو ں نے آکر یہ خبر دی کہ فلا ں زمانہ میں فلاں قبیلہ سے ایک شخص ان خصو صیات کے ساتھ مبعوث ہو گاتو اس وعدہ کا متحقّق ہونا اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ گزشتہ کتا بیںبھی سچی تھیں کہ جن میں سے اس طرح کی خو شخبریاں درج ہیں اور یہ پیغمبر بھی اپنی رسالت کے دعوے میں سچا ہے لہٰذا اہل کتاب جو بشارتیں لو گو ں کے سا منے بیان کر تے تھے اور بعد میں بعض لو گو ں نے بھی اس کی تصدیق کر دی

____________________

۱۔سورئہ اعراف آیت ۱۵۷ ۔

۲۔سورئہ صف آیت ۶۔

۳۔سورئہ مومنون آیت ۶۹ ۔

۱۱۱

تھی اس کے سبب دو سرے لو گو ں کے لئے بھی حجت تمام ہو جاتی ہے اس سلسلہ میں قرآن کریم فر ماتا ہے:

( وَشَهِدَ شَاهِد مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ عَلَٰی مِثْلِهِ فَآ مَنَ ) ( ۱ )

''بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ (شاید ان کے عالم عبد ﷲ سلام کی طرف اشارہ ہے ) گوا ہی بھی دے چکا اور ایمان بھی لے آیا کہ یہ وہی پیغمبر ہے کہ جس کی ہم بشارت دیا کر تے تھے ''۔

ایک اور آیت شریفہ میں ارشاد ہو تا ہے:

( اَوَلَمْ یَکُنْ لَهُمْ آیَةً اَنْ یَعْلَمَهُ عُلَمَآئُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ ) ( ۲ )

''کیا ان کے لئے یہ نشانی کا فی نہیں ہے کہ علمائے بنی اسرائیل اس طرح کے نبی کی بعثت سے با خبر ہیں ''۔

معلوم ہو ا گذشتہ کتا بو ں کی بشا رتیں صرف اہل کتاب کے لئے ہی حجت نہیں تھیں بلکہ وہ تمام معا صرین جو ان خو شخبریو ں سے آگاہ تھے اور جنھو ں نے وہ نشانیا ں پیغمبر میں دیکھ لی تھیں ان کے لئے بھی حجت تمام ہو گئی تھی ۔

چیلنج، قر آن کے معجزہ ہو نے کا ثبوت

قا رئین کرام جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں چو نکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت ابدی اور عالم گیر ہے آپ کا معجزہ بھی عالم گیر ہو نا چا ہئے اسی بناء پر قر آن خود معجزہ کی صورت میں نا زل ہوا۔

قر آن کریم میں بہت سے مقا مات پر یہ دعویٰ موجو د ہے کہ یہ کتاب معجزہ ہے اور کو ئی شخص قرآن کا مثل نہیں لا سکتا ۔ہم یہا ں پر اس مو ضوع سے متعلق آیات مختصر طور پر عرض کر تے ہیں :

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے متعدد مقامات پر خد ا وند متعال کی طرف سے لو گو ں کو یہ دعوت دی ہے کہ اگر تم لوگوں کو اس کتاب یا میری رسالت میں شک ہے تو تم بھی اس کے مثل کتاب لے آئو۔اتفاق سے بعض لو گ اس طرح کی باتیں کیا کر تے تھے کہ اگر ہم چا ہیں تو اس طرح کی کتاب لا سکتے ہیں قر آ ن کریم ان کے دعوے کو اس طرح نقل کر تا ہے :

( وَاِذَاتُتْلَیٰ عَلَیْهِمْ اٰیاَتُنَاْقَالُوْاقَدْ سَمِعْنَاَلَوْنَشَآئُ لَقُلْنَاْمِثْلَ هَٰذَآاِنْ هَٰذَآاِلَّااَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ) ( ۳ )

''اور جب ان کے سا منے ہماری آیتیں پڑھی جا تی ہیں تو بول اٹھتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور اگر چا ہیں تو اس

____________________

۱۔سورئہ احقاف آیت ۱۰ ۔

۲۔سورئہ شعراء آیت ۱۹۷ ۔

۳۔سورئہ انفال آیت ۳۱ ۔

۱۱۲

طرح کی باتیں ہم بھی کہہ سکتے ہیں یہ پچھلے لو گو ں کے افسانوں کے سوا ء اور کچھ نہیں ہے ''۔

مقابلہ کی اس دعوت کو چیلنج کہتے ہیں یہ چیلنج قرآن میں کئی طریقہ سے بیان کیا گیا ہے ایک یہ کہ اس قر آن کے مثل لے آئو اس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ اس کتاب کے جیسی کو ئی کتاب یا اس قر آ ن کے سو روں کے مجموعہ جیسا کو ئی مجموعہ لے آئو قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے :

( قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَیٰ اَنْ یَاْتُوابِمِثْلِ هَٰذَاالْقُرْآنِ لاَ یَأْتُوْنَ بِمِثْلِهِ وَلَوْکَاْنَ بَعْضُهُمٍ لِبَعْضٍ ظَهِیْراً ) ( ۱ )

''اے رسول )کہہ دیجئے کہ اگر دنیا کے تمام آدمی اور جن اکٹھا ہوں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں گے تو اس کے جیسا نہیں لا سکتے اگر چہ (اس کو شش میں ایک دو سرے کی مدد بھی کریں''۔

اور قر آ ن کریم میں ارشاد ہو تا ہے:

( فَلْیاْتُوْابِحَدِیْثٍ مِثْلِهِ اِنْ کَانُوْاصَادِقِیْنَ ) ( ۲ )

''اگر یہ لو گ سچے ہیں تو ایسا ہی کو ئی کلام بنا لا ئیں ''۔

پس ان دو آیتو ں میں یہ چیلینج کیا گیا ہے کہ اس قر آن کی مانند کو ئی کتاب اور کو ئی کلام اگر لا سکیں تو لے آئیں اور بہ ظاہر مجموعۂ قر آن کا جواب مطلوب ہے لیکن بعض آیات میں پو رے قرآن کی بھی بات نہیں ہے ۔جیسا کہ ایک مقام پر دس سو روں کا اور ایک مقام پر صرف ایک سورہ کا جواب لا نے کا چیلنج کیا گیا ہے جو ظا ہراً قر آن کے چھو ٹے سوروں پر بھی صادق آتا ہے۔یعنی اگر قر آن کے کسی چھو ٹے سورہ کے مثل ایک سطر بھی لے آ تے تو اس آیت کے مطابق پیغمبر اس کو قبو ل کر لیتے اور یہ اس چیز کی نشانی ہو تی کہ یہ کتا ب خدا وند عالم کی کتاب نہیں ہے۔ معلوم ہو ا قرآن کا یہ دعویٰ ہے کہ اگر تمام انسان جمع ہوجائیں تو وہ بھی قرآن کے ایک سطر کے برابر کسی چھوٹے سے سور ہ کا جواب نہیںلاسکتے :

( اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوْابِعشْرِسُوَرٍمِثْلِهِ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُوْامَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُوْنِ اللَّهِ اِنْ کُنْتُمْ صَٰادِقِیْنَ ) ( ۳ )

____________________

۱۔سو رئہ اسراء آیت ۸۸۔

۲۔سورئہ طورآیت۳۴۔

۳۔سورئہ ہودآیت ۱۳۔

۱۱۳

''یا یہ لوگ کہتے ہیں یہ شخص اپنی طرف سے گڑھ لیتا ہے اور جھوٹ موٹ اسے خدا کی طرف منصوب کردیتاہے تو آپ ان سے صاف صاف کہدیں کہ اگر تم (اپنے دعوے میں )سچّے ہوتو (زیادہ نہیں )ایسے دس سورہ اپنی طرف سے گڑھ کے لے آئو خدا کے سوا جس جس کو تمھیں بلاتے بن پڑے مدد کے واسطے بلالو ''۔

کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو آپ نے خود گڑھ لیا ہے۔تو ان سے کہدیجئے کہ تم بھی اس قرآن کے دس سوروں کے مثل گڑھ کر لے آئو اور جس کو تم چاہو اپنی مدد کے لئے بھی بلاسکتے ہو۔

نہ صرف یہ کہ تم اس کے مثل نہیں لا سکتے بلکہ دوسروں کی مدد کے ذریعہ بھی چاہے جس کسی کو بھی بلالو ایسا نہیں کر سکتے۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :

( فَالَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ فَاعْلَمُوْااَنَّمَآ اُ نْزِلَ بِعِلْمِ ﷲ ) ( ۱ )

''پس اگر وہ قبول نہ کریں تو سمجھ لیجئے کہ یہ قرآن خدا کی کتاب ہے اور صرف خدا کے علم کی بنیاد پر نازل کیا گیا ہے ''۔

یعنی مقابلے اور چیلنج کی فضا اس قدر آمادہ وتیار ہے کہ اس پر کوئی بھی عاقل انسان اگر غور کرے تو اسے یہ یقین ہوجائیگا کہ یہ کتاب خداوند عالم کی کتاب ہے ۔

کلام عربی زبان میں (بلسانٍ عربی مبین )صاف عربی زبان میں ہے اور انھیں حروف سے ملکر بنی ہے جس میں تمام لوگ باتیں کیا کرتے ہیں ان ہی الفاظ سے بنی جن کا لوگ اپنے محاوروں میںاستعمال کرتے ہیں ، مفردات وہی مفردات ہیں ترکیب نحوی کے لحاظ سے وہی مبتدا خبر، فاعل اور مفعول ہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود کوئی شخص قرآن کے دس سورں کے مثال نہیں لا سکتا اور چیلنج کا جواب دینے کیلئے بھی بہت سے تقاضے مو جو د ہیں یہ دیکھتے ہوئے کہ کفّارو مشرکین نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تبلیغ کے اثر کو ختم کر نے کیلئے اپنی تمام طاقتوں کو صرف کر ڈالا تھا اگر ایک ایک سطر کے دس سورے لکھنا ان کے لئے ممکن ہوتا تو یقین ہے وہ ضرور ایسا کرتے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو یہ بتاتا ہے کہ ایک عام انسان کا کام نہیں ہے قرآن نے ایک دوسری آیت میں مقابلے کی شرط کو اور ہلکا کردیا ہے ارشاد ہو تا ہے:

( اَ مْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰهُ قُلْ فَأْ تُوْابِعشرسُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُوْنِ ﷲ اِنْ کُنْتُمْ صَاْدِقِیْنَ ) ( ۲ )

____________________

۱۔سو رئہ ہودآیت ۱۴۔

۲۔سورئہ ہود آیت ۱۳۔

۱۱۴

''کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شخص جھو ٹ ہی (قرآن کی ) خدا کی طرف نسبت دیتا ہے تو آپ (ان سے صاف صاف ) کہہ دیجئے کہ اگر تم (اپنے دعوے میں )سچے ہو تو (زیادہ نہیں )صرف ایک سورہ اپنی طرف سے بناکے لے آئو اور خدا کے سوا جس کسی کو تم سے بلا تے بن پڑے مدد کے واسطے بھی بلا لو ''

ہم دس سوروں سے صرف نظر کرتے ہیں صرف ایک سورہ کا جواب لے آئو اور یہ ایک سورہ بھی صرف ایک انسان نہیں بلکہ جس کو بھی تم چاہو اپنی مدد کے لئے بلالو اپنی تمام طاقتوں اور افکار کو جمع کرلو اور قرآن کے جیسی ایک سطر بنا کے لے آئو ۔

اور رہا یہ مسئلہ کہ بعض آیات میں دس سوروں اور بعض آیات میں صرف سورہ کا چیلنج کیوں کیا گیا ہے ،تو اس بارے میںعام طور پر مفسّر ین قرآن یہ کہتے ہیں کہ یہ درجہ بدرجہ چیلنج ہے ۔

یعنی پہلے یہ چیلنج کیا گیا کہ پورے قرآن کا جواب لے آئو اس کے بعد فرمایا کیا اگر پورے قرآن کا جواب نہیں لاسکتے تو دس سوروں کا جواب لے آئو اس کے بعد فرمایا اگر دس سوروں کا مثل بھی نہیں لا سکتے ہوتو ایک سورہ کا ہی مثل لے آئو اور یہ مد مقابل کی عاجزی کو ثابت کرنے کا زیاد بلیغ اور بہتر طریقہ ہے ۔

لیکن یہ بات اس صورت میں صحیح ہو سکتی ہے کہ آیتیں بھی اسی ترتیب سے نازل ہوئی ہوں یعنی پہلے وہ آیات نازل ہوئی ہوں کہ جن میں پورے قرآن کے جواب کا چیلنج ہو ،اس کے بعد وہ آیت نازل ہوئی ہو جس میں دس سوروں کا مثل لانے کا چیلنج کیا گیا ہو اور اس کے بعدوہ آیت نازل ہوئی ہو جس میں ایک سورہ کا مثل لانے کا چیلنج ہولیکن قرآنی سوروں کے نازل ہونے سے متعلق روایات کے ساتھ یہ بات میل نہیں کھاتی ۔کیونکہ دس سوروں کا مثل لانے کا چیلنج سورئہ ہود میں ہے اور ایک سورہ کا مثل لانے کا چیلنج سورہ یونس وسورہ بقرہ میں ہے اور عام طور پر جن لوگوں نے قرآن کے سوروں کے نازل ہونے کی ترتیب بیان کی ہے وہ سورئہ یونس کا سورئہ ہود سے پہلے نازل ہونا بیان کرتے ہیں اگر چہ ایک قول یہ بھی ہے کہ سورئہ ہود سورئہ یونس سے پہلے نازل ہوا ہے لیکن زیادہ تر اقوال میں سورئہ یونس کا پہلے نازل ہونا بیان ہوا ہے۔اس بناء پر مشہور روایات کے مطابق درجہ بدرجہ چیلنج میں شدّت کا نظریہ سوروں کے نازل ہونے کی ترتیب کے ساتھ میل نہیں کھاتا اب یا تو ہم غیر مشہور روایت کے قول کو قبول کریں یا پھر کوئی اور وجہ بیان ہونی چاہئے۔

۱۱۵

صاحب المیزان علّا مہ طبا طبائی نے اس کی ایک دوسری وجہ بیان فرمائی ہے اور وہ یہ ہے :

ایک سورہ کا جواب لانے کا چیلنج ایک جہت سے ہے اور دس سوروں کا جواب لانے کا چیلنج دوسری جہت سے ہے ۔پورا قرآن بلاغت کے لحاظ سے معجزہ ہے اس کے ایک سورہ یا کئی سوروں کے ما بین کوئی فرق نہیں ہے ۔ لہٰذا اگر قرآن کے جیسا ایک سورہ بھی لے آئیں جس میں قرآن جیسی بلاغت ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ قرآن کریم خداوند عالم کا کلام نہیں ہے لیکن صرف بلاغت ہی کسی کلام کے مفیدو رسا ہونے کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ مختلف فنون ہیں اور ہر فن کی ایک خاص خصوصیت ہوتی ہے جب خداوند عالم فرماتا ہے کہ دس سوروں کا جواب لے آئو تو گویا یہ کہنا چاہتا ہے کہ کلام میں حُسن پیدا کرنے کے جتنے بھی طریقے اور انداز ممکن ہوسکتے ہیں ان سب کو قرآن چیلنج کرتا ہے گویا یہ کہنا چاہتا ہے کہ تم کسی بھی اعتبار سے چاہے وہ کلام کا کوئی بھی میدان ہو قرآن کا مثل نہیں لاسکتے ہو۔ قرآن جہاں علوم ومعارف کی بحث ہے تو تم اسکا جواب نہیں لا سکتے ، قرآن جہاں احکام بیان کرتا ہے تم اس کا جواب نہیں لاسکتے قرآن نے جہاں داستانیں اور قصّے بیان کئے ہیں جہاں اخلاق کے موضوع پر باتیں کی ہیں وغیرہ کسی بھی فن میں جن پر قرآن میں گفتگو ہے اگر تم مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو اس کا جواب اسی فن میں لے آئو مثال کے طور پر ایسے دس سورے لے آئو کہ جن میں ہر سورہ کسی خاص روش کا حامل ہو اور کسی خاص فن میں بات ہوئی ہو تمہارے کلام کا قرآن سے اسی وقت مقائسہ کیا جاسکتا ہے کہ جب تم ان تمام فنون میں مقابلہ کرسکو ۔پس ممکن ہے یہ (سورئہ ہود کی) آیت سورئہ یونس کے بعد نا زل ہوئی ہو اور پھر بھی دس سوروں کا جواب لانے کا چیلنج اس میں کیا گیا ہو۔

بہر حال یہ حقیقت ہے کے خداوند عالم نے پو رے قرآن کا بھی، دس سو رہ کا بھی اور ایک سورہ کا بھی مثل لانے کا چیلنج کیا ہے اگر درجہ بہ درجہ چیلنج آیات کے نزول کے ساتھ ثابت ہو جائے تو وہ وجہ سب سے زیادہ واضح اور قابل قبول ہے مند رجہ ذیل آیت میںبھی ایک سورہ کا مثل لانے کا چیلنج کیا گیا ہے :

( وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِمَّاْنَزَّ لْنَاعَلَٰی عَبْدِنَافَاْتُوْابِسُوْرَ ةٍ مِّنْ مِثْلِهِ وَادْعُوْا شُهَدَائَ کُمْ مِنْ دُوْنِ ﷲ اِنْ کُنْتُمْ صَادِ قِیْنَفَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْاوَلَنْ تَفْعَلُوْافَاتَّقُوْاالنَّارَ الَّتِی وَقُوْدُهاَالنَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ ) ( ۱ )

''اور اگر تم اس کلام کے با رے میں جو ہم نے اپنے بند ے (محمد )پر نازل کیا ہے شک میں ہو تو اگر تم سچّے ہو تم (بھی ) ایک ایسا ہی سو رہ بنا لا ئو اور خدا کے سواجو تمہا رے گواہ ہو ں ان سب کو (بھی ) بلا لو ،پس اگر تم یہ نہیں کرسکتے ہو اور ہر گز نہیں کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کے ایندھن بد کار آدمی اور پتھر ہو ں گے اور کا فروں کے لئے تیار کی گئی ہے''۔

تعبیر کے لحاظ سے شاید یہ آیت دوسری آیات سے زیادہ مطلب کو سمجھا سکتی ہو کیو نکہ بحث کے وقت جب دو

____________________

۱۔سو رئہ بقرہ آیت ۲۳ و ۲۴ ۔

۱۱۶

آدمی ایک دوسرے سے بحث کر تے ہیں ایک کہتا ہے کہ اگر تم حق پر ہو تو فلاں کام کر ڈالو زیادہ سے زیادہ یہی تو ہوگا کہ وہ اس کام کو انجام نہیں دے سکے گا اور بحث میں ہار جا ئیگا لیکن قرآن اس پر اکتفا ء نہیں کرتا بلکہ ان کو پوری طرح ابھا رتا اور یہ کام انجام دینے کا شوق دلا تا ہے :

( فَاِ نْ لَمْ تَفْعَلُوْاوَلَنْ تَفْعَلُوْافَاتَّقُوْاالنّاَ رَ )

صرف تمہارا قبول نہ کرنا اور مثال کے طور پر یہ کہنا کہ ہم اس کا جواب تو لا سکتے ہیں لیکن لا نہیں رہے ہیں کافی نہیں ہے بلکہ یا تو یہ ثابت کرو کہ یہ خدا کا کلا م نہیں ہے یا پھر اگر تم ثابت نہیں کر سکتے تو تم کو قبول کر لینا چا ہئے لیکن اگر تم نے نہ ثابت کیا اور نہ ہی قبو ل کیا تو سمجھ لو کہ انجام بہت ہی برا ہو گا اور ﷲ کا ابدی عذاب تمہا را انتظار کررہاہے ۔

کو ئی بھی عاقل اس طرح کی تہدید سے متا ثر ہو ئے بغیر نہیں رہے گا اگر اس کا ضمیر زندہ ہے تو وہ اس طرح کے چیلنج کا کو ئی اطمینا ن بخش جواب ضرور ڈھو نڈ ے گا ۔ اس لئے کہ عقل ہر عا قل انسان کو اس طرح کا کو ئی صحیح جواب تلاش کر نے پر ابھا ر تی ہے یا تو اِس کا مثل لے آنا چا ہئے کہ یہ معلوم ہو جا ئے خدا کا کلام نہیں ہے یا کم سے کم خود اپنے اطمینان کے لئے کو ئی دلیل فرا ہم کرے یا (ہار مان کر )اس کو تسلیم کر لینا چا ہئے کہ یہ خدا کا کلام ہے لیکن اگر وہ اس کا مثل نہیں لا سکا تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے خود اس کا جواب لا نا نہیں چا ہا بلکہ پو ری سنجید گی سے کئے گئے اس چیلنج کی موجودگی اس کی عقل کو مندر جہ بالا دو صو ر تو ں میں سے کو ئی ایک صورت کے انتخاب کر لینے پر مجبور کر دیتی ہے در حقیقت یہ آیت تمام آیتو ں سے زیا دہ بلیغ اور رسا ہے جو مدّ مقابل کو فیصلہ کن مقا بلہ کے لئے با لکل تیا ر کر دیتی ہے ۔

(مِثْلِہِ)کی ضمیر کے با رے میں مفسرین کے در میان اختلاف ہے کہ اسکا مر جع کو ن ہے ؟

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ (مِنْ مِثْلِہِ )یعنی (مِنْ مِثْلِ الْقُرْ آن )اور ( کلمہ مِنْ)تبعیض کے لئے ہے ۔ اس بنا پر سو رئہ یو نس کی آیت اور اس آیت دو نو ں کا نتیجہ ایک ہی نکلے گا ۔

لیکن بعض دو سرے مفسرین کہتے ہیں کہ (مثلہ)کی ضمیر (عَبْدِنَا)کی طرف پلٹتی ہے یعنی اس طرح کے شخص کے مثل سے اس طرح کا قر آن لا ئواور یہ قر آن کے دو جہتو ں سے معجزہ ہو نے کی طرف اشارہ ہے :

۱۱۷

ایک یہ کہ کو ئی بھی شخص قر آن کے مثل ایک سورہ بھی نہیں لا سکتا ۔

دوسرے یہ کہ خیال رہے ایک ایسا شخص اس طرح کا کلا م لیکر آیا ہے کہ جس نے کسی کے سا منے زا نو ئے ادب تہہ نہیں کیا ہے ۔حتیٰ اگر بہ فرض محال دنیا کے دانشمند تنہا یا مل جل کر اس کا مثل لے بھی آئیں تو خیال رہے کہ پیغمبر نہ تو کو ئی دانش ور ہیں اور انھو ں نے کسی سے تعلیم حاصل کی ہے۔جو شخص کسی مدر سہ میں نہ گیا ہو اور جس نے کسی استاد کے سا منے زا نو ئے ادب نہ تہہ کئے ہو ں وہ اس طرح کی ایک کتاب لیکر آیا ہے اور یہ بہتر طریقہ سے اس چیز کی نشا ند ہی کر تا ہے کہ یہ کلا م کلام خدا ہے اور شاید آیت میں یہ وجہ زیا دہ قوی اور درست ہو ۔

قرآن کریم معجزہ کیوں ہے ؟

قرآن کریم کس رخ سے معجزہ ہے اس بارے میں کافی بحثیں ہیں، کتابیں بھی لکھیں گئی ہیں۔ اور ہم اپنی بحث مکمل کرنے کیلئے قرآن کریم کے معجزہ ہونے کی وجہیں اجمالی طور پر بیان کرتے ہیں:

۱۔صَرف و انصراف

بعض علما علم کلام کہتے ہیں کہ قرآن کریم اپنے مطالب و انداز بیان کے اعتبار سے معجزہ نہیں ہے بلکہ قرآن کریم ''صرف یعنی منصرف کردینے ''کی وجہ سے معجزہ ہے ،در حقیقت ایسا نہیں ہے کہ انسان قرآن کی ایک آیت یا سطر کا مثل تیار کرسکے آخر مختلف ترکیبوں سے کام لے کر قرآن کے جیسی ایک سطر کی عبارت تیار کی ہی جاسکتی ہے ۔ بلکہ قرآن تو اس وجہ سے معجزہ ہے کہ خدا لوگوںکو اس طرح کا کام کرنے سے منصرف کردیتاہے ۔

یہ علت ظاہر آیات کے ساتھ سازگار نہیں ہے ۔اس لئے کہ قرآن کا کہنا یہ ہے کہ خود قرآن کریم معجزہ ہے اور کوئی اسکا مثل نہیں لاسکتا نہ یہ کہ خداایسا کرنے سے منصرف کردیتا ہے قرآن کریم بلاغت کی اس منزل پرہے کہ خداوند عالم کی اگر تائید نہ ہوعام انسانوں کی طاقتیں اس کی بلاغت کی سطح تک پہنچنے کیلئے کافی نہیں ہیں ۔اب اگر کوئی شخص کوئی کتاب یا کوئی سورئہ قرآن کریم کے مثل لے آئے تو یہ اس چیز کی نشانی ہے کہ خداوند عالم نے اس کی غیب سے مدد کی ہے ۔یعنی قرآن بذات خود معجزہ ہے ۔

۱۱۸

۲۔بلاغت:

عام طور پر ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قرآن کریم بلاغت کے اعتبار سے معجزہ ہے بلاغت یہ ہے کہ ''کلام''مقتضائے حال کے مطابق اس طرح بیان کیا جائے کہ متکلم کا مقصد بہترین طریقہ سے ادا ہوجائے ۔ ظاہر ہے ہر کلام کو متکلم کے مقصد اور وقت کے تقاضوں کے تحت پرکھناچاہئے تاکہ اس کے بعدہم یہ مشاہدہ کرسکیں کہ اس کلام میں اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے بہترین طریقہ کا انتخاب کیا گیا ہے یا نہیں بلاغت یہ نہیں ہے کہ صرف الفاظ کی خوبصورتی اور انداز بیان کے لحاظ سے جائزہ لیں بلکہ ان باتوں کے علاوہ متکلم کے مقصد اور مخاطب کے حال کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے چونکہ خداوند متعال اپنے ہدف کو سب سے بہتر جانتاہے اور اپنے بندوں کی حالت کو بھی سب سے بہتر جانتاہے اور الفاظ کی ترکیبوں پر بھی وہ سب سے زیادہ تسلط رکھتا ہے پس وہ مقتضائے حال کی بنیاد پر اپنے ہدف کو سب سے اچھے طریقہ سے بیان کرسکتا ہے لیکن دوسروں کواس طرح کا تسلط حاصل نہیں ہے ان کو اس کا علم نہیں ہے کہ کلام میں کن کن نکات کی ر عایت ضروری ہے اور تمام مخاطبین کے حال کو کس طرح مد نظر رکھیںاور کس طرح اس پیچیدہ فارمولے کی بنیاد پر کلام کریں۔قرآن کریم کا مثل نہ لا سکنے کا راز یہی تمام نکات ہیں کیونکہ انسا ن کتنا بھی ذہین اور دور اندیش ہی کیوں نہ ہو آخر کار اس کاذہن محدود ہے اور وہ چند محدود مطالب کو ہی اپنی نظر میں معین کرسکتا ہے اور تمام جہات پر تسلط نہیں رکھتا توجب اس کلام کا قرآن کریم سے مقائسہ کیا جاتاہے اس وقت ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں وہ نکات پائے جاتے ہیں جو دوسرے کلام میں نہیں پائے جاتے اور یہی چیز قرآن کریم کو اس کلام سے ممتاز کردیتی ہے ۔

اس مقام پر ایک بہت دور کا احتمال یہ ہو سکتا ہے : الفاظ کی ترکیبیں آخرکار محدود ہیں اوران ترکیبوں کے درمیان قرآن کریم سے مشابہ جملے تیار کئے جاسکتے ہیں چونکہ حروف محدود ہیں ان سے بننے والے الفاظ اور جملے بھی محدود ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص یہ کام انجام نہیں دے سکتا تودو افراد ایک ساتھ بیٹھ کر غور وفکر کریں دودن میں نہیں کرسکتے تو ایک سال تک باہم کو شش کریں یہ کیسے ممکن ہے کہ چند مخصوص و محدود الفاظ اور حروف سے مر کب جملے اس حد کو پہنچ جائیں کہ کوئی شخص قرآن کریم کا مثل نہ لاسکے ؟چند جملوں کی ترکیبوں سے ایک ایسا خوبصورت جملہ نکالا جاسکتا ہے جو قرآن کی طرح کا ہو ۔یہ کہنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم بلاغت کے اس درجہ پرپہنچاہواہے کہ تاریخ کے طویل دور میں تمام انسان ملکر بھی اس کا مثل نہیں لاسکتے ؟ہاں ہم محسوس کرتے ہیں کہ قرآن کریم دوسرے کلاموں سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام ہے اور اپنے اندر پر کشش نکات سموئے ہوئے ہے لیکن قرآن کریم دوسرے تمام کلاموں کے ساتھ لامتناہی فرق نہیںرکھتابلکہ ایک محدود فرق پایا جاتاہے اور ممکن ہے کہ کچھ ایسے انسان پیدا ہو جائیں جو اس فاصلے کو بھی پر کر ڈالیں

۱۱۹

مختصر طور پرحقیقت سے بعید اس تصور کا سر چشمہ یہ ہے کہ ہم صحیح طور پر یہ نہیں سمجھ سکے کہ کیسے قرآن کریم کیلئے یہ غیر معمولی مقام اور درجہ تصور کیا جاسکتا ہے۔ہا ں اگرچہ شعراء اور ادباء کے کلام سے یقینا بلند درجہ رکھتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی اس کے قریب پہنچ ہی نہ سکتاہو۔

یہ ضعیف اور مو ہوم خیال اس لئے وجود میں آتا ہے کہ ہم صحیح طریقہ سے قرآن کی بلاغت کا اندازہ ہی نہیں لگا سکے لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کی بلاغت کوئی غیر معمولی اور لاجواب چیز نہیں ہے بلکہ اس کا معیاردوسرے کلاموں سے ذرا بہتر اور بلند ہے لیکن کس قدر زیادہ فصیح و بلیغ ہے اسکا اندازہ ہم نہیں کرسکتے ہیں۔

صاحب'' تفسیرالمیزان''علامہ طباطبائی [نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے اس مثال سے استفادہ کیا ہے :

ہم عام طور پر کسی کلام کے ایک دوسرے سے بہتر ہو نے یا ہر با کمال چیز کے لئے دوسری خوبصورت چیز سے کیفیت کے اعتبار سے بہتر ہو نے کا اندازہ اپنے عام پیمانوں سے نہیں لگا سکتے ،ہم دو محدود چیزوں کا ایک دوسرے سے مقا یسہ کریں تو کسی حد تک ان کے فرق کو سمجھ لیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر جب ہم ایک سینٹی میٹر کی لا ئن کا مقا ئسہ ایک میٹر والی لائن سے کرتے ہیں ،تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک میٹر والی لائن ایک سینٹی میٹر والی لائن کے سو گنا بڑی ہے۔تو ہم اس کا تو اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن اسی طرح ہم کیفیات کا ایک دو سرے سے مقا ئسہ نہیں کرسکتے ۔لہٰذا ہم آجکل کے دور میں یہ مشا ہدہ کر تے ہیں کہ سائنس میں تمام مسائل کو کمّی(تعداد )طریقہ سے بیان کر تے ہیں ۔ اس لئے کہ انسان کا ذہن علم حساب کے اعداد اور فا رمو لوں کو جلدی اخذ کر لیتا ہے ۔ مثال کے طور پر آپ ایک خوبصورت منظر کا دوسرے معمولی منظر سے مقا یسہ کریں تو ملا حظہ کریں گے کہ آسانی سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ منظر اس منظرسے کتنا خوبصورت ہے ۔مثلاًجب ایک خوبصورت پھول کا اس سے کچھ کم حسین پھول سے مقا یسہ کرتے ہیں تو اس صورت میں انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ پہلا پھول دو سرے پھول سے کتنا خو بصورت ہے ۔

شروع میں تو انسان یہ خیال کر تا ہے کہ یہ پھول اس پھول سے ایک درجہ بہتر ہے لیکن جب ان کے پاس واسطہ کی صورت میں تیسرا پھول لاکر رکھدیاجا ئے تو فوراً آپ یہ کہیں گے کہ ایک درجہ نہیں بلکہ دو درجہ بہتر ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔مرحوم علامہ طبا طبا ئی [فر ما تے ہیں کہ میں جب کتابت کی مشق کرتا تھا حالانکہ میری کتا بت بری بھی نہیں تھی۔ میں پہلے ایک '' ن ''لکھتا تھا اس کے بعد (میر) کی کتابت سے اس کاموازنہ کر تا تھا کہ ان کی کتابت مجھ سے کتنی اچھی ہے ؟تو میں اس کو نہیں سمجھ پاتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ ان کی تحریر میری کتابت سے ایک دو درجہ بہتر ہے ۔ اس کے بعد بطور مثال میں سو عدد '' ن ''لکھتا تھا جس میں ہر ایک دوسرے سے بہتر ہو تا تھا ۔یعنی سو واں ''ن ''پہلے ''ن '' سے سوگنا بہتر ہو تا تھا۔

۱۲۰