راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 119953
ڈاؤنلوڈ: 2218

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119953 / ڈاؤنلوڈ: 2218
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

حضرت یونس علیہ السلام

دوسری آیت حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میںہے کہ جب آپ اپنی قوم سے الگ ہونے کے بعد دریا میں گرے اور مچھلی کے شکم میںچلے گئے تو دعاء کی :

( فَنَادَیٰ فِی الظُّلُمَاتِ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّااَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ ) ( ۱ )

''پھر تاریکیوں میں جاکر آوازدی کہ پروردگار تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تو (ہر عیب سے)پاک و پاکیزہ ہے بیشگ میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میںسے تھا ''۔

جناب یونس نے اپنے قصورکا اقرار کرتے ہوئے فرمایا :''میںہی ظالم ہوں ''توگویاانبیاء کیلئے بھی ظلم اور گناہ کا ارتکاب کرنا جائز ہے اور اتفّاق سے یہ واقعہ بھی رسالت کے بعد کاہے لہٰذا یہ آیت ان دلیلوں میں سے ہے جن سے انبیاء علیہم السلام کی طرف سے یہاں تک کہ نبوت کے بعد بھی صغیرہ کے ارتکاب کے جائز ہو نے کا استدلال کیاگیا ہے۔

اس شبہہ کا جواب بھی واضح ہے اس لئے کہ جس عصمت کا ہم دعویٰ کر تے ہیں وہ ارتکاب محرمات سے معصوم ہوناہے لیکن غیر محرمات کا ارتکاب (اس پر عصیان اور ظلم کا اطلاق کیوںنہ ہو) انبیاء علیہم السلام کی عصمت سے منافات نہیں رکھتا ہے حضرت یونس علیہ السلام کے لئے بہتر تھا کہ اپنی قوم کے درمیان رہتے اور ان کو ترک نہ کرتے لیکن انھو ں نے جلدی کی اور یہ جلدی کرناترک اولیٰ تھا'' ترک واجب'' نہیں تھا اور اس کام پر ظلم کا اطلاق بھی اسی مناسبت سے ہوا کہ انھوں نے وہ کام ترک کر دیا تھا جس کا انجام دینا (یعنی قوم کے ساتھ ہی رہنا )اولیٰ تھا۔ یہی سبب بنا کہ آپ مچھلی کے منھ میں جا پڑے اور مشکلات میں مبتلا ہوگئے ۔

اسی طرح لفظ مغفرت یا ''بخشنا'' وغیرہ کی تعبیر اس چیز پر دلالت نہیں کرتا کہ خداوند عالم نے کسی فعل حرام کے گنا ہ کو مغفرت کا مو رد قرار دیاہے ۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خداوندعالم نے ترک اولیٰ پر مترتّب ہونے والے آثار کو دور کردیا ہر چیز کابخشنا خود اسی چیز کی مناسبت سے ہے حرام گناہ کے بخشنے کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے عذاب سے نجات دی ہے لیکن ترک اولیٰ کے بخشنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پرجو معمولی اثرات مترتب ہوسکتے تھے رفع

____________________

۱۔سورئہ انبیاء آیت ۸۷۔

۱۶۱

ہوجائیں۔چنا نچہ حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو مچھلی کے شکم سے نجات مل گئی اوروہ دوبارہ اپنی قوم میں واپس آکر ان کی رہنمائی میں مشغول ہوگئے ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام

اسی طرح کا ایک اور مقام حضرت موسی علیہ السلام کی اس مشہور ومعروف داستان سے متعلق ہے کہ ایک روز جب آپ فرعون کے محل سے باہر نکلے آپ نے دیکھا ایک فرعونی بنی اسرائیل کے ایک شخص سے لڑرہاہے ۔توحضرت مو سیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے ایک شخص پر ہو نے والے ظلم کودو ر کرنے کی غرض سے فرعونی کوایک گھونسا مارا اور وہ شخص گرااور دنیا سے رخصت ہوگیا :

( فَوَکَزَهُ مُوْسَیٰ فَقَضَیٰ عَلَیْهِ )

''پس موسیٰ نے ایک گھو نسا ماراتو اسکا کام تمام ہوگیا ''۔

یہ خبر فرعون کو ملی تو لوگ ان کی تلاش میں نکل پڑے اور حضر ت مو سیٰ علیہ السلام نے بھی وہاں سے نکل جانا بہترسمجھا ۔۔۔اور با لآخر مدین چلے گئے ۔شہر مدین سے واپس پلٹتے وقت جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خداوندعالم نے خطاب فرمایاکہ اے موسیٰ تم فرعون کے پاس جائو اورفر عو نیوں کو (توحید کی) دعوت دو تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی :

( وَلَهُمْ عَلَیَّ ذَنْب فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ ) ( ۱ )

''اور میں نے ان کے خیال میں ایک جرم کیاہے پس مجھے ڈرہے کہ وہ مجھے قتل نہ کردیں ''۔

خداوند عالم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ یقین دلایاکہ میں تمہاری حفاظت کرونگا جب حضرت موسیٰ حضرت ہارون کے ہمراہ فرعون کے پاس آئے تو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہچان لیا اور کہا:

( قَالَ اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَاوَلِیْداًوَلَبِثْتَ فِیْنَامِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ ) ( ۲ )

''فرعون نے کہا کیا ہم نے بچپنے میں تمہاری پرورش نہیں کی اور تم نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے درمیان نہیں گذارے '' ۔

اور اس کے بعد اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :

____________________

۱۔سورئہ شعراآیت ۱۴۔

۲۔سورئہ شعراآیت۱۸۔

۱۶۲

( وَفَعَلْتَ فَعَلْتَکَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ )

''اور تم نے وہ کام جو کیا ہے (ایک مردقبطی کا خون )کیا نہیں کیا؟پس تم (میری نعمتوں کے) منکر اور ناشکرے ہو'' ۔

سابقہ تو تمہارا یہ ہے اور آئے ہو مجھکو یہ دعوت دینے کہ میں اپنے ملک و سلطنت سے دست بر دار ہو جا ئوں ؟ !

حضر ت مو سیٰ علیہ السلام نے اس کے جوا ب میں فر ما یا :

( قَالَ فَعَلْتُهَآ اِذاًوَاَنَاْمِنَ الضَّآلِّیْنَ )

''مو سیٰ نے کہا (ہا ں ) میں نے اس وقت اس کام کوکیا(اور سمجھ لو کہ) میں اس وقت راہ گم کر دینے والوں میں سے تھا ''۔

اس آیت کے جملہ( ''وَاَنَامِنَ الضَّا لِّیْنّ ) ''اور اسی طرح''وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنْب''سے بعض نے استد لال کیا ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کے لئے نبوت سے پہلے گنا ہ کر نا اور گمرا ہ ہو نا ممکن ہے ۔

اس شبہ کے بھی متعدد جو ا ب دیئے گئے ہیں ۔ بعض جوا بات لفظ ''ضلال''کے با رے میں ہیں جس کے ''گمراہ ''کے بجا ئے دو سرے معنی بیان کئے ہیں کہ ان کا لا زمہ گنا ہ نہیں ہے ۔ منجملہ انھو ں نے کہا ہے کہ ضلال کا مطلب ''عدم عمد ''(یاجان بو جھ کر کام نہ کرنا )اور ''جہل ''یا بھول ہے ۔ چنا نچہ'' جہل'' کبھی علم کے مقا بل استعمال کیا جا تا ہے اور کبھی عمد(یعنی با لا رادہ کام کرنے ) کے مقا بل میں استعمال کیا جا تا ہے ۔چنا نچہ حضر ت مو سیٰ علیہ السلام یہ فر ما نا چا ہتے تھے کہ میں نے اس مرد قبطی کو قتل کر نا نہیں چا ہا تھا بلکہ میں تو مرد بنی اسرا ئیل کو (اس کے ظلم سے) نجات دلا نا چا ہتا تھالہٰذا اس کا بھولے سے مجھ سے قتل ہو گیا ۔گو یا آپ نے یہ فر ما یا( وَاَ نَامِن َالْمُخْطِئِینَ ) یعنی یہ قتل خطا کے تحت ہو گیا تھا ۔

کچھ دو سرے افراد نے ''ضلال ''کے معنی ''محبت ''بتا ئے ہیں ( یہ ان عجیب با توں میں سے ہے جو کبھی کبھی بیان کی جا تی ہیں )اور وہ ستد لال میں وہ آیت پیش کر تے ہیں کہ جس میں حضرت یعقو ب علیہ السلام کے بیٹو ں نے ان سے کہا تھا ''اِ نَّکَ فِیْ ضَلَا لِکَ الْقَدِیْمِ''''یقینا آپ اپنے پر ا نی( محبت) میں (پڑے ہو ئے )ہیں ''

یہاں لفظ ''ضلالت'' سے ان کی مراد حضرت یعقو ب کی حضر ت یو سف سے محبت تھی ۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ضلال کے ایک معنی محبت بھی ہیں ۔ ''اَنَامِنَ الضَّا لِّیْنَ '' یعنی ''اَنَامِنَ الْمُحِبِّیْنَ ''محبین للٰہ۔

اس با رے میں دو سری وجہیں بھی بیان کی گئیں ہیں ۔ جن میں سے اگر بعض بیا ن نہ کر تے تو بہتر تھا ۔ مرحو م علا مہ طبا طبا ئی نے اس کی وجہ یہ بیا ن فر ما ئی ہے کہ میں اس وقت نہیں سمجھ سکا کہ اس جھگڑ ے کو کس طرح ختم کیا جا ئے اور اس جھگڑ ے کو حل کر نے کی بہترصورت سے نا واقف تھا ۔لہٰذا میں نے ایک گھو نسا ما ردیا جس سے یہ حادثہ رو نما ہو گیا ۔ معلوم ہو ا کہ ضلال سے مراد جہل ہے اور جہل سے مراد اس کام کو احسن طریقہ سے انجام دینے سے جاہل ہو نا ہے ۔

۱۶۳

بعض کہتے ہیں کہ حقیقت میں یہ فر عون کی دل جوئی کا ایک طریقہ تھا ۔فر عون نے کہا تم اس وقت گمرا ہ تھے ۔ حضرت مو سیٰ علیہ السلام بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا کرکہنا چا ہتے تھے کہ اس زما نہ کی گمرا ہی کا آ ج کی دعوت حق سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ اصل مسئلہ کو بیا ن کر نے کے لئے دلجو ئی کا انداز اپنا یا تھا کہ اس گفتگو کو ختم کیا جا سکے۔

بہر حال ان آ یات میں (کا فر) اور (ضالّ ) کی لفظیںاصطلا حی معنی میں استعمال نہیں ہو ئی ہیںاورکسی حرام کے ارتکاب پر دلالت نہیں کر تیں ۔

حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما ا لسلام

خدا وند عالم حضرت سلیما ن علیہ السلام کے با رے میں فر ما تا ہے :

( وَاَلْقَیْنَا عَلَیٰ کُرْسِیِّهِ جَسَداً ثُمَّ اَنَابَ ) ( ۱ )

''اور ہم نے ان کے تخت پر ایک بے جان جسم لا کر گرا دیا تو پھر انھو ں نے خدا کی طرف تو جہ کی'' ۔

اور حضر ت داؤد علیہ السلام کے با رے میں ہے کہ جب آپ کی خد مت میں دو آدمی آئے ایک نے کہا:

( اِ نَّ هَٰذَااَخِیْ لَهُ تِسْع وَ تِسْعُوْنَ نَعْجَةً وَلِیَ نَعْجَة وَاحِدَ ة فَقَالَ اَکْفِلْنِیْهَاوَعَزَّ نِیْ فِیْ الْخِطَابِ ) ( ۲ )

''یہ (شخص) میرا بھا ئی ہے اور اس کے پا س ننا نو ے دُنبیاں ہیںاور میر ے پاس صرف ایک ہے اس پر بھی یہ مجھ سے کہتا ہے کہ وہ ایک دُنبی مجھے دیدو اور زبان درازی میں مجھ پر حا وی ہوجاتا ہے'' ۔

( لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَا لِ نَعْجَتِکَ اِلَیٰ نِعَاجِهِ )

''داؤ د نے ''بغیر اس کے کہ دو سرے فریق سے کچھ پو چھیں '' کہد یا کہ یہ جو تیر ی دنبی لے کر اپنی دُنبیو ں میں اضافہ کر نا چا ہتا ہے ظلم کا مر تکب ہوا ہے '' ۔

____________________

۱۔سور ئہ ص آیت ۳۴۔

۲۔سو رئہ ص آیت ۲۳۔ ۲۴۔

۱۶۴

حضرت دا ؤد علیہ السلام نے فیصلہ کر نے میں جلد ی دکھا ئی دلیل ما نگنے اور عدالتی کا ر روائی کے مقد مات فراہم ہو نے سے پہلے ہی صر ف مدّعا کے بیان پر ہی فیصلہ کر تے ہو ئے کہد یا (لَقَدْ ظَلَمَکَ)یہ درست نہیں ہے!!

اس اعتراض کا بھی یہ جوا ب د یاجا سکتاہے کہ با قا عدہ قسم کی کو ئی عدالتی کا ر روائی نہیں تھی۔ یعنی حقیقت میں حضرت داؤ د ایک کی چیز دو سرے کو نہیں دینا چا ہتے تھے فیصلہ تو اس وقت ہو تا جب اس کی بنیا د پرایک سے لیکر دوسرے کو دے دیتے اور جس ملکیت کے با رے میںجھگڑا ہے وہ ایک کے حق میں ثابت ہو جا ئے ۔ یہا ں ایسا نہیں ہوادو افرادکے درمیان صرف ایک عام سی گفتگو ہو رہی تھی : ان میں سے ایک کہہ رہا تھا کہ وہ ایک گو سفند جو اس کے پاس ہے وہ بھی مجھے دید و دوسرا کہہ رہا تھا نہیں دو نگا اور پھردو نوں حضرت داؤ د علیہ السلام کی خد مت میں حاضر ہو ئے اور اپنی بات دہرائی۔ معلوم ہوا یہ کوئی باقا عدہ عدالتی کا ر روائی نہ تھی کہ جس میں دو طرفہ بیان اور دلیل کی ضرورت پڑتی لہٰذا جناب داؤد نے کوئی خلاف شر ع کام انجا م نہیں دیا تھا ۔ ہاں بہتر یہی تھا کہ آ پ فیصلہ میں جلد ی نہ کر تے اور دقّتِ نظر سے کام لیتے ۔

حضرت دا ؤد علیہ السلام اسی بات پر چا لیس دن تک اشک ندامت بہاتے اور استغفار کر تے رہے اس وقت خطاب ہو ا :( یَادَاؤُدُ اِنّا جَعَلْنَا کَ خَلِیْفَةً فِیْ الْاَرْضِ )

''اے داؤ د ہم نے تم کو زمین میں (اپنا ) نا ئب قرار دیا ''۔

تم جو محض تر کِ اولیٰ کی وجہ سے چا لیس دن سے گر یہ کر رہے ہو یقیناًتم لو گو ں کے در میان ہما رے خلیفہ اور قا ضی ہو نے کی صلا حیت اور لیا قت رکھتے ہو ۔نتیجہ کے طو ر پر یہ آ یات بھی ایک نبی کے ذریعہ کسی حرا م شر عی کے ارتکاب پر دلالت نہیں کر تیں ۔

۱۶۵

حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کچھ اور آیتیں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے با رے میں ہیں جن میں سے بعض میں پیغمبراکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف علی الظاہر گناہ اور استغفار کی نسبت یہا ں تک کہ گذشتہ آ یتو ں سے بھی زیا دہ صاف الفاظ میں نظر آتی ہے ۔

پہلی آیت

( اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُبِیْناًلِیَغْفِرَلَکَ اللَّهُ مَا تَقَدَّ مَ مِنْ ذَ نْبِکَ وَمَاتَاَخَّرَ ) ( ۱ )

____________________

۱۔سو رئہ فتح آیت ا۔

۱۶۶

''ہم نے حقیقتاً تم کو کھلم کھلا فتح عطا کی تا کہ خدا تمہا رے اگلے اور پچھلے گنا ہ معاف کر دے''۔

یہ آیت سے اس بات پر دلالت کر تی ہے کہ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی(نعوذ با ﷲ ) گنا ہ کے مر تکب ہو ئے وہ بھی ایک مر تبہ نہیںبلکہ آپ نے کم سے کم دو مر تبہ ،ایک گناہ ما تقد م (یعنی زما نۂ گذشتہ سے اور دو سرا ما تا خر(یعنی آنے وا لے زمانہ سے تعلق رکھتاہے )اور خدا نے ان کو بخش دیا ہے۔

جو آ یتیںذنب (گنا ہ ) اور استغفار پر دلالت کر تی ہیں ان کا مجمو عی طور پرایک جواب ہے اور سو رئہ فتح کی پہلی آ یت کا ایک مخصو ص جوا ب ہے ۔

جن آ یا ت میں مطلق طور پر استغفارکا حکم دیا گیا ہے یا ان میں'' ذنب ''یعنی گناہ کی لفظ استعمال ہو ئی ہے وہ بھی پہلے بیان شدہ مقد مہ کی رو شنی میں اس بات پر دلا لت نہیں کر تیں کہ پیغمبر نے ( العیاذ بﷲ ) حرام شر عی کا ارتکاب کیا ہو ۔ہاں ،فی الجملہ ظا ہرِ آیت سے گنا ہ کا اثبات ہو تا ہے اور اس گنا ہ کی بہ نسبت خدا وند عا لم کی طرف سے مغفرت بھی ثابت ہے ۔

پہلی نظر میں ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ یہ گنا ہ تر کِ اولیٰ یا کسی مکروہ فعل کے ارتکاب سے تعلق رکھتا ہے لیکن ذرا غور و فکر کے بعد یہ کہا جا سکتاہے کہ یہ آ یتیں حتی پیغمبراکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی مکروہ فعل کے ارتکاب کو بھی ثابت نہیں کرتیں ۔اس بات کی وضاحت کے لئے ایک مقد مہ کی ضرو رت ہے : کبھی لفظ ذنب (گناہ ) خدا وند عا لم کے کسی ایسے قا نون کی مخالفت کے معنی میں استعما ل ہو تا ہے کہ جس پر عمل لازم ہے،جس پر ممکن ہے دنیا میں سزا ملے، اور اگر دنیا میں سزا نہیں ملی تو آ خرت میں بہر حا ل اس کی جزا ء سزا دی جا ئیگی لیکن کبھی لفظ '' ذنب ''کامعنوی مدارج کے لحا ظ سے استعمال ہو تا ہے۔

مر حوم علا مہ طبا طبا ئی '' تفسیر میزا ن ''میں فر ما تے ہیں '' ذنب '' تین طرح کا قابل تصور ہے :

۱۔ ذنبِ قا نو نی (وضعی) یعنی ایک قا نون بنا دیا گیا اور اس کی مخا لفت کی جا ئے جو حرام ہے ۔

۲۔ذنبِ اخلا قی :یعنی انسا ن ایک ایسے عمل کا ارتکاب کرے جو مکا رمِ اخلا ق سے منا فات رکھتا ہو اگر چہ وہ شرعی اعتبا ر سے حرا م نہ ہو یعنی وہ عمل جو نا پسند آثا ر انسان کی روح پرمر تب کرے اور ان دونو ں سے الگ ایک تیسری صورت ہے یعنی :

۳۔مقا م محبت میں کسی عمل کا انجام دینا درست نہ ہو جو قا نو نی مخا لفت نہیں ہے اور نہ ہی اخلا قی رذا یل کا سبب ہے لیکن مقام محبت اس کا متقاضی نہیں ہے ۔ محبت تقا ضا کر تی ہے کہ محب، محبو ب کے تئیں پوری طرح مطیع و منقاد ہو اس کی پو ری تو جہ اپنے محبوب کی طرف ہو اور کسی حا ل میں بھی وہ اپنے محبو ب سے غافل نہ ہو اسکا تمام رنج و غم اس لئے ہو کہ اس کا محبوب کیا چا ہتا ہے تاکہ وہی کام انجام دے اور اپنے محبوب کے سواکسی اور کی فکرنہ کرے ۔

۱۶۷

مقام محبت کے بھی خا ص آ داب ہو تے ہیں جن کا حساب و کتاب قانون اور اخلاقیات سے جدا ہے محب اور محبوب کے درمیان ایک خاص رابطہ ہو تا ہے ۔ او لیا ئے خدا اور انبیا ئے عظام چونکہ خدا کی محبت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں ۔ تو ا س مقا م محبت کا تقا ضا ہے کہ ان کی پو ری تو جہ اپنے معبو د کی طرف ہو ،خدا وند عالم کے علا وہ کسی اور کی بالکل فکر نہ کریں اور خدا وند عا لم کی رضا کے سواکسی اورچیز کی خواہش نہ ہو ۔ اگر اس مقا م محبت کے خلاف کو ئی فعل انجام پایا اور اپنے محبو ب حقیقی کے علا وہ کسی اور کی طرف متو جہ ہو ئے تو اس کو اپنے لئے گنا ہ تصو ر کر تے ہیں اور مقام استغفا رمیں وہ اس گنا ہ سے استغفا ر کر تے ہیں ۔

البتہ تما م اولیا ء و انبیا ء علیہم السلام کا ایک مقام اورایک ہی منز لت نہیں ہے بلکہ ان کے مرا تب جدا جدا ہیں اور ہر ایک اپنے مقا م کی منا سبت سے گنا ہ کا احساس کر سکتا ہے ۔ ایک در جہ کے افراد کیلئے ممکن ہے ایک کام گناہ نہ ہو لیکن اس سے بلند مرتبہ والے نبی یا ولی کی نظر میں اس کام کا ارتکاب گناہ شمار ہوتا ہو بہر حال جتنا بھی خداوند عالم سے قریب ہوتاجائیگا اتناہی احساس گنا ہ بھی لطیف لیکن اس کے ساتھ ہی عظیم ہوتاجائیگامثال کے طورپرذہن کو قریب کرنے کے لئے فرض کیجئے کہ عام طور پر رائج امورمیں اگر ایک بڑی شخصیت مثلاً ایک مجتہدمرجع تقلید یا کسی دنیاوی منصب پر فا ئز شخص کو نظر میں رکھ لیجئے تو جتنے لوگ ان سے تعلق رکھتے ہیں ان سب کے تعلقات ایک طرح کے نہیں ہوتے تعلق کا ایک عام درجہ ہے جس کے تحت تمام افراد کا ایک ہی فریضہ ہے اس درجہ میں ان کی توہین کرنا یا مثال کے طورپربرا بھلا کہنا یا گالی دینا حرام ہے اور اگر کوئی شخص توہین نہ کرے تووہ کسی گناہ کا مرتکب نہیں کہا جائے گا ۔فرض کیجئے کہ اگر ایک بے معرفت شخص ان کی طرف پیٹھ کرکے بیٹھ جائے تو کوئی اس کو گنا ہگار نہیں کہے گا لیکن جو افراداس اعلیٰ مر تبہ شخص سے قریب ہیںان کے فرائض بھی اُس کے تئیں زیادہ ہیں اگر وہ ان فرائض کو انجام نہ دیں تو ممکن ہے قانونی خلاف ورزی نہ کہی جائے لیکن انھوں نے اپنے مقام و مر تبہ کے تقا ضے کو پورا نہیں کیاہے جو شخص بھی اس اعلیٰ مرتبہ شخصیت سے جتنا زیادہ قریب ہوگااُتنا ہی اس کا فریضہ بھی زیادہ ہوگا جس کا دوسرے کو احساس بھی نہیں ہوگا کہ یہ بھی کوئی فریضہ ہوسکتا ہے اور اُن کویہ کام انجام دینا چاہئے اصل میں جو لوگ اس سطح کے افراد نہیں ہیں وہ یہ محسوس نہیں کر سکتے کہ اس طرح کا بھی کوئی فریضہ ہے لیکن وہ ایسا مخصوص مقام ہے کہ اس کے فرائض بھی مخصوص ہیںوہ لوگ جو اس عظیم شخصیت کے مقرب ہیںآمدورفت کے وقت بھی ان کا فریضہ ہے کہ اُن کی طرف پیٹھ نہ کریںاور اگر کبھی خلاف ادب کوئی عمل ان سے سرزد ہوجاتا ہے تووہ اس کو اپنے لئے گنا ہ شمار کرتے ہیں ۔

۱۶۸

پس اس طرح کے اشخاص کی طرف گناہ کی نسبت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ان محرمات کے مرتکب ہوئے ہیں جن سے عام لوگوں کو منع کیا گیا ہے وہ اس درجہ اور اس مقام پر فا ئز افراد سے مخصوص ایک چیز ہے ا ن کے لئے جو معرفت و بصیرت کے لحاظ سے ایک اعلیٰ درجہ پر فا ئز ہیں ممکن ہے ان کی نظر میں گناہ اتنا بڑا ہو جو عام لوگوں کے محرمات کے ارتکاب سے بھی کہیں زیادہ عظیم ہو اور اگر ایسا کوئی فعل سر زد ہو جا ئے تووہ ایک عام آدمی کے مقابل کہ جس سے کوئی حرام فعل سر زد ہوگیا ہو کہیں زیادہ گناہ کا احساس کرتاہے اور یہ فقرہ استعمال ہوتا ہے : (حسنات الابرارسیئات المقرّبین )

مقربین کے اپنے تقرب کے اعتبار سے ہی مخصوص فرائض ہوتے ہیں جن کی خلاف ورزی وہ اپنے لئے گناہ شمار کرتے ہیں اور اس گنا ہ کا لازمہ اپنے محبوب سے دور ی ہے نہ یہ کہ ان گناہوں کالازمہ عذاب جہنّم اور بہشت سے محرومی ہو ان کوسب سے زیادہ یہ خوف رہتاہے کہ کہیں ان کے محبوب کا لطف کم نہ ہوجائے اور وہ اس کی بے تو جہی کا مرکز قرار پاجائیں، ان کیلئے ایسا ہوجانا جہنَم کے ہر عذاب سے زیادہ سخت اور عظیم ہے اور چو نکہ ان کو یہ ڈرلگا رہتاہے کہ کہیں ان سے کوئی ایسا فعل سرزدنہ ہوجائے کہ وہ اس کی آنکھوں سے گرجائیں اور ہم پر اسکالطف کم نہ ہوجائے لہٰذا ان کوخوف بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے اور اگر ان سے کوئی ایسا فعل سرزدہ ہوگیاہوجو اس سے دوری کا باعث ہو تووہ دو سروں سے زیادہ خائف ہوجاتے ہیں اور توبہ و استغفار کرنے لگتے ہیں ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل تھے بلا شبہ آپ پروردگار عالم سے تقرب کے اعلیٰ ترین درجہ پر فا ئز تھے اور سب سے بلند مرتبے پر فا ئز ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ آ پ کی ذمہ داریاں بھی سب سے سخت ہوںلہٰذا آپ کو فرائض کے پورا نہ کرنے کی بھی سب سے زیا دہ فکر رہتی تھی کہ فریضہ میں کو تا ہی نہ ہو نے پا ئے بہرحال دنیا وی زندگی کے بھی کچھ ضروریات ہیں حتیٰ ممکن ہے یہ ضروریات شرعی طور پر واجب بھی ہوں لیکن وہی چیز جوقانونی طور پر واجب ہے ممکن ہے مقام محبت میں وہی کام گناہ شمار ہو ۔محبت کا لازمہ یہ ہے کہ محب کی توجہ صرف اور صرف اپنے محبوب کی طرف ہو لیکن خود محبوب کا حکم ہے کہ جائو شادی کرو، زندگی بسرکرو،کھانا کھائو اور لوگوں کے ساتھ معاشرت کرو یہ تمام واجب فریضے ہیں جن کو انجام دینا چاہئے لیکن انسان اپنی جگہ احساس گناہ کرتاہے ۔فکر یہ ہے کہ کہیںتوجہ کا ایک حصہ بھی غیر خدا کی طرف مر کوز نہ ہو جا ئے اس کے بعد بھی یقیناً ایسا نہیں ہے کہ دنیوی زندگی کی ضروریات کی طرف توجہ ان کو خدا سے غا فل کر دے لیکن ڈرتے ہیں کہ کہیں اس میں معمو لی ترین کمی یا کمزوری نہ آجائے اسی لئے اس حد تک بھی دنیوی امور کی طرف توجہ وہ اپنے لئے گنا ہ تصور کر تے ہیں ۔

بنا بریں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسے کی طرف گناہ اور استغفار کی نسبت دنیا ان کے اس مقام و مر تبہ کے اعتبارسے ہے کہ جس پر وہ فا ئز تھے اور اس کی یہی تو جیہ کی جاتی ہے۔ ائمہ اطہار سے مروی یا منسوب مناجات اور دعائو ں میں جو مطالب بیان ہو ئے ہیں کہ جن میں ائمہ نے اپنے لئے سب سے بڑے گناہگا ر ہو نے کی بات کی ہے ۔

۱۶۹

مثلاً یہ کہنا کہ : ''کو ن ہے جس نے میر ے طرح یوں گنا ہ کئے ہوں '' ان سب کی بھی تو جیہ یہی ہے کہ وہ اپنے مقام و مر تبہ کے اعتبار سے کہ جس پر وہ فا ئز تھے خدا کے علا وہ کسی اور طرف اپنی معمولی ترین توجہ کو بھی اپنے لئے سب سے بڑا گنا ہ سمجھتے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ وہ اپنے کو سب سے بڑا گنا ہ گار کیو ں سمجھتے تھے ؟اس لئے کہ وہ اس چیز سے آگا ہ تھے کہ اور لو گ اُس فریضہ کے حا مل نہیں ہیں اس لئے کہ وہ ان کی ما نندمعرفت اور محبت نہیں رکھتے ۔ پس معلوم ہوا کہ ان کی طرف گنا ہ کی نسبت قطعی طورپر حرا م شر عی کے ارتکاب کے معنی میں نہیں ہے لیکن سورئہ فتح کی آیت میں :

( اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاًمُبِیْنًالِیَغْفِرَ لَکَ اللَّهُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ )

''ہم نے تم کو حقیقتاً کھلی ہوئی فتح عطا کی ہے تا کہ خدا تمہا رے اگلے اور پچھلے گنا ہ معا ف کر دے ''

اگر غو ر و فکر کریں تو معلوم ہو گا کہ اس آ یت میں ایک اور خصو صیت پا ئی جا تی ہے، خو د آ یت اس با ت کی گواہ ہے کہ یہ گنا ہ ان مسا ئل سے کو ئی ربط نہیںرکھتا یہ کو نسا گنا ہ ہے کہ جب پیغمبر ِ اکر م کو فتح ملتی ہے تو آپ کا گنا ہ بخش دیا جاتا ہے یہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قیا دت میں مسلما نو ں کو فتح نصیب ہو ئی ہے جس میں کفا ر و مشر کین کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔ خدا وند عا لم فر ما تا ہے : ہم نے تم کو یہ کھلی فتح عطا کی تا کہ تمہا رے گنا ہ معا ف کر دیں ۔ اس کا گنا ہ سے کیا تعلق ہے ؟اتفا ق سے یہی سوال ما مو ن نے امام رضا علیہ السلام سے پو چھا تھاتو آ پ نے فر ما یاتھا:یہ وہ گنا ہ تھاجس کی مشرکین نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نسبت دی تھی ۔ یعنی مشر کین کے عقیدہ کے مطا بق پیغمبر ِ اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے بڑ ے گنا ہ کا ارتکاب کیا تھا کیونکہ آ پ نے ان کے بتو ں کو برا کہا تھا اور ان کے دین کے خلاف جنگ کی تھی اور یہ وہ گناہ ہے جو فتحِ مبین کے ذریعہ مٹا دیا گیااور ختم کر دیا گیا ایسا نہیں ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ( العیا ذ بﷲ ) خدا کی نسبت کو ئی گنا ہ انجا م دیا ہو ۔سوال یہ ہے کہ خدا نے کیو ں بخشا ؟ تو یہ قر آ ن کے ان ہی توحیدی بیا نوں میں سے ہے ۔جس کا بار بار قر آن میں ذکر ہوا ہے کسی بھی نا پسند چیز کا اثرجب محو ہو تا ہے تو خدا اس کو محو کر دیتا ہے ویسے ہی ہے کہ جس طرح خداوندعالم نے پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فتح عنا یت فر ما ئی ہے پس تو جو کچھ بھی اس فتح کے آثار متر تب ہوں گے وہ خدا کے ذریعہ مر تب ہوں گے منجملہ یہ کہ مشر کین کی نظر میں جو آ ثا رِ گنا ہ تھے وہ مٹ گئے اور اب اُن میں اس طرح کا کو ئی احسا س با قی نہیں رہے گا ۔معلوم ہوا کہ اس کا بھی شر عی گنا ہ سے قطعی کوئی رابطہ نہیںہے ۔

دو سری آیت

( عَفَااللَّهُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتَّیٰ یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَ قُوْاوَتَعْلمَ الْکَا ذِبِیْنَ ) ( ۱ )

____________________

۱۔سورئہ تو بہ آیت ۴۳۔

۱۷۰

''(اے ہما رے رسو ل )خدا آ پ کو معاف فر ما ئے آپ نے کس لئے انھیں ( پیچھے رکنے کی) اجا زت دے دی ؟ چا ہئے تھاکہ سچ بو لنے وا لے آشکار ہو جا ئیں اور آپ جھو ٹو ں کوبھی پہچان لیں ''

آیۂ کر یمہ کے آ غاز میں جملہ ہے(عَفَا ﷲ عنْکَ)(اللہ آپ کو معاف کرے ) ممکن ہے کو ئی اس جملہ سے خیال کر بیٹھے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (العیا ذ با ﷲ )کسی گنا ہ کا ارتکاب کیا تھا اور خدا وند عا لم نے ان کو معا ف فرمادیا ۔لہٰذا خود یہی جملہ عدم عصمت کے غلط تصور کی بنیاد بن سکتا ہے ۔ دو سرے جملہ میں خدا وند عا لم فر ما تا ہے کہ (لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ ) ''آپ نے کس لئے انھیں رکنے کی اجا زت دیدی ''خود یہ سوالیہ جملہ بھی جواب طلبی کی نشاندہی کر رہا ہے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معصو م نہ ہو نے کے توہّم کا سر چشمہ ہو سکتا ہے ۔چنا نچہ اس آیت کا مفہو م وا ضح کر نے اور اس طرح کے شبہہ کو دور کر نے کے لئے آیت کے شانِ نزول اور اس کے مفا د کے با رے میں کچھ عرض کر نا ضروری ہے : یہ آیت ان منا فقو ں یا اُن (ضعیف الا یما ن ) افرا د کے سلسلہ میں نا زل ہو ئی ہے جوجنگ و جہا دسے فرار اختیار کر نے کے لئے بہانہ پر بہا نہ تلاش کیا کر تے تھے اوربا وجو دیکہ ایک مر تبہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک جنگ میںرضا کا رانہ طور پر تمام لو گوں کی شرکت کا اعلان فر ما یا تھا کچھ لو گو ں نے آ پ کے اس فرمان کی خلاف ورزی کی اور جنگ کر نے کے لئے نہیں گئے ۔ تو آیت نا زل ہو ئی جس میں ان کی بہت سختی سے سرزنش کی گئی ۔ کچھ اور افراد تھے جو آپ کی خد مت میں حا ضر ہو تے اورآپ کے سا منے طرح طرح کی با تیں بناکرجنگ سے فرار کی اجا زت طلب کرتے تھے مثال کے طور پر کہتے کہ ہم کو کچھ ضروری کام ہے یا ہم سخت مشکلو ں سے دو چا ر ہیں لہٰذا ہم کو شہر میں رہنے کی اجا زت دیدیں ۔ در حقیقت کو ئی معقو ل عذر نہیں تھا لیکن اپنے عمل پرپر دہ ڈالنے کے لئے کہ کوئی اگر ان پر اعتراض کرے تو اس کو جوا ب دے سکیں کہ ہم نے رسول اللہ سے اجا زت لے لی ہے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خد مت میں حا ضر ہو تے اور جہاد میں شریک نہ ہو نے اجا زت طلب کر تے تھے۔ آنحضرت بھی ان کو پہچا نتے اور ان کے انداز گفتگو سے ہی سمجھ لیتے تھے کہ یہ منا فقین یا'' ضعیف الا یمان'' ہیں (وَلَتَعْرِفَنَّھُمْ فِیْ لَحَنِ الْقَوْلِ )( ۱ )

''اور تم انھیں ان کے اندازِ گفتگو سے ہی ضرورپہچا ن لو گے ''

لیکن ان کی ظا ہر ی شان باقی رکھنے کے لئے آپ ان کو شہر میں رہنے کی اجا زت مر حمت فر ما دیتے اور یہ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نہا یت ہی کریم او رمہر با ن ہو نے کی وجہ سے تھا ایک طرف تو آپ کو یہ خیا ل تھا کہ لو گو ںکے راز

____________________

۱۔سورئہ محمد آیت ۳۰۔

۱۷۱

فاش نہ ہو جا ئیں اور دو سری طرف یہ فکر تھی کہ جب کما نڈر یہ اعلان کر دے کہ سب جنگ میں شریک ہوں اور کچھ افراد کما نڈر کے اس اعلان کی صاف طو ر پرمخالفت کر یں توخود یہ مخا لفت دو سرے افراد میں بھی جرأ ت کا سبب بن جاتی ہے اور کما نڈر کے فرمان کی اہمیت کو کم کر تی ہے ان ہی دو وجہو ں کی بنا ء پر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کو شہر میں رہنے کی اجازت مرحمت فر ما دیتے کہ تم شہر میں رہ سکتے ہو ۔ آیۂ کریمہ اسی مو قع پر نا زل ہو ئی اور (عَفَا ﷲ عَنْک) کا ظاہری مطلب یہی ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک ان چا ہا امر صا در ہوا ہے ۔ چنا نچہ انبیا ء علیہم السلام کی عصمت کا عقیدہ رکھنے وا لے بعض مفسّر ین اس کی یہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ یہ در گذر تر کِ اولیٰ پر تھی نہ کہ معصیت پر ۔ یعنی خداوند عا لم نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اختیا ر دے رکھا تھا کہ وہ جس کو منا سب سمجھیں شہر میں ر ہنے کی اجازت دے سکتے ہیں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا انھیں اجا زت دینا حرام نہیں تھا اس لئے آ پ نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ یہا ں زیا دہ سے زیا دہ آیت اس بات پر دلالت کر تی ہے کہ ان کو اجا زت نہ دینا بہتر تھا اور (عَفَا ﷲ ُعَنْکَ) کا مطلب یہ ہے کہ خدا آپ کے اس تر کِ اولیٰ کو معا ف فرمائے لیکن علا مہ طبا طبا ئی [ فر ما تے ہیں کہ یہ حتی تر کِ اولیٰ بھی نہیں تھا اور آیت کا مقصود بھی یہ بیان کرنا نہیں ہے کہ یہ کام جو آپ نے کیا ہے انجا م نہ دیتے تو اولیٰ تھا ۔بلکہ نا راضگی کی زبان میں مدح کی گئی ہے ۔ کبھی تو ایک شخص کی برا ہ راست مدح کی جا تی ہے مثا ل کے طو ر پر کہا جاتا ہے کہ فلا ں شخص بہت مہر با ن اور ہمدردہے اور کبھی ممکن ہے اس طور پرکہ بہ ظاہر نا راضگی کا اظہارہو مدح کی جا تی ہے اور مدح کر نے کا زیادہ بلیغ طریقہ بھی یہی ہے ۔ مثال کے طور پر کہتے ہیں: کہ تم کتنے ہمدرد ہو ، ہمدردی کی بھی کو ئی حد ہو تی ہے! یہ آیت اسی طرح کامطلب بیا ن کر رہی ہے ۔ اس لئے کہ خداوندعالم اس آیت کے ذیل میں ہی فر ما تا ہے :

( وَلَوْاَرَادُوْاالْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهُ عُدَّةً ) ( ۱ )

''اور اگر یہ لوگ (جنگ کے لئے )نکلنے کاارادہ رکھتے تواپنے لئے کچھ سازوسامان تو تیار کئے ہو تے ''۔

وہ سرے سے نکلنے کا قصد ہی نہیں رکھتے تھے اور خدا وندعا لم چو نکہ ان کے دلو ں کے حا ل سے با خبر تھا وہ کسی لائق نہیں ہیں فر ماتا ہے :

( وَلٰکِنْ کَرِهَ اللَّهُ انْبِعَا ثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِیْلَ اقْعُدُوْامَعَ الْقَاعِدِیْنَ ) ( ۲ )

____________________

۱۔سورئہ توبہ آیت ۴۶۔

۲۔سورئہ تو بہ آیت ۴۶۔

۱۷۲

''لیکن خدا نے ان کی (جنگ کے لئے )رضا کا رانہ شمو لیت کو نا پسند کیا تو ان کو کا ہل بنا دیا اور (گو یا )ان سے کہد یا کہ تم (جنگ سے)گریز کر نے وا لو ں کے ساتھ بیٹھے رہو ''۔

ان کے اندر جہا د میں شریک ہو نے کی لیا قت نہ ہو نے کی وجہ سے ہی خدا وند عا لم خود نہیں چا ہتا تھا کہ وہ جنگ میں شریک ہوںاوریہ عذابِ الٰہی تھا جس کے تحت ان میں سستی اور بہا نے با زی کی حالت پیدا ہو گئی تھی ، خداوند عالم تو یہاں تک فر ما تا ہے:( لَوْخَرَجُوْافِیْکُمْ مَّازَادُوْکُمْ اِلَّاخَبَا لاً ) ( ۱ )

''اگر یہ لو گ تمہا رے ساتھ( جنگ کے لئے ) نکلتے بھی تو تم میں فسا د بر پا کر نے کے سوا کچھ نہ کرتے ''

معلوم ہوا ان کا جہا د میںشریک نہ ہو نا ہی الٰہی مصلحت تھی۔لہٰذاآیت میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اولیٰ یہ تھا کہ آپ ان کو جہا د میں شریک ہو نے کی اجا زت نہ دیتے حتی خود اسی آیت میں اس لہجہ کی وجہ بھی مو جودہے کہ اگر آپ ان کو اجا زت دیدیتے تو( یتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاوَتَعْلَمَ الْکَاذِ بِیْنَ ) ''آپ پر سچ بو لنے وا لے ظا ہر ہوجاتے اور آپ جھو ٹوں کو بھی پہچان لیتے '' معلو م ہو جاتا کون سچ بو لنے وا لے ہیں اور کون جھو ٹ بولنے وا لے ہیں اگر آپ ان کو اجا زت نہ دیتے تو جو سچے تھے وہ جہا د میں شر کت کر تے اور جو جھو ٹے تھے معلوم ہو جا تا وہ جھوٹے ہیں دل سے اطا عت گذار نہیں ہیں ۔پس ایسا نہیںہے کہ واقعا مصلحت یہ تھی کہ پیغمبر ان کو اجا زت نہ دیں بلکہ آیت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدح کی جا رہی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہا یت ہی ہمدرد و مہر با ن ہیں اور یہ ناراضگی کے پیرائے میںمدح کا بلیغ انداز ہے ، اور آیت میں( عَفَا ﷲ عَنْکَ ) خبریہ جملہ نہیں ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے گنا ہ یا تر کِ اولیٰ کیاتھا اور خدا وند عالم نے اس کو معاف کر دیا بلکہ یہ انشا ء اور دعا ہے ۔بات کو ذہن سے قریب کر نے کے لئے ہم اپنی روز مرّہ کی زبان میں عمو ماً کہا کر تے ہیں کہ (خدا آپ کے باپ کی مغفرت کرے )اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم آپ کے باپ کو گنا ہگار ثابت کر نا چا ہتے ہیں ۔ معلوم ہو ا کہ آیۂ شر یفہ میں نا راضگی کا لہجہ نا راضگی کے لئے نہیں ہے ۔ بلکہ محبوب نے ناراضگی والے لہجہ میں مدحِ لطیف کی ہے جو اس ظا ہری نا راضگی میں مخفی ہے لیکن ہاں (اِیَّاکَ اَعْنِیْ وَاسْمَعِیْ یَا جَا رّة )کے عنوان سے اس

____________________

۱۔سو رئہ تو بہ آیت ۴۷۔

۱۷۳

میں منا فقین اور ضعیف الا یمان افراد کی نسبت عتا ب ہے ۔یہی بات المیزان میں علامہ طبا طبا ئی نے اس آیت کے ذیل میں بیان کی ہے ۔ بہر حال یہ آیت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حتی تر کِ اولیٰ صا در ہو نے پر بھی دلالت نہیں کرتی۔

تیسری آیت

( وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ اَنْعَمَ ﷲعَلَیْهِ وَاَنْعَمْتَ عَلَیْهِ اَمْسِکْ علیکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ ﷲ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا ﷲُ مُبْدِ یْهِ وَتَخْشَیْ النَّا سَ وَﷲ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰهُ ) ( ۱ )

''اور (اے رسول ) آپ نے جب اس شخص (زید بن حا رثہ) سے کہ جس کوخدا نے نعمت سے نوازاتھا اور آپ نے خود بھی اس پر انعام کیا تھاکہا: کہ اپنی بیوی کو اپنی زو جیت سے الگ نہ کرو اور خدا سے ڈرتے رہو حا لانکہ آ پ اس بات کو اپنے دل میں چھپا ئے ہو ئے تھے کہ جس کو خدا نے ظا ہر کر دیا آپ لو گو ں سے ڈر تے تھے حا لانکہ خدا اس کا زیا دہ حقدار تھا کہ آپ اس سے ڈرتے ''۔

یہ (روا یتو ں اور خود آیۂ شریفہ کی روشنی میں مو جود قرینہ کے مطابق ) پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منھ بو لے بیٹے زیدبن حا ر ثہ تھے ، وہ بہت با کما ل جوا ن تھے جن کو اس زما نہ کے معمو ل کے مطابق پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا منھ بو لا بیٹا قرار دید یا تھا اس زما نہ میں دستو ر تھا کہ بعض افراد کسی جو ان ( خا ص طو ر سے غلام ) کو اپنابیٹا بنا لیا کر تے تھے اور اس زما نہ کے رسم و رواج کے مطابق اس پرنسلی اور واقعی فر زند کے جیسے احکام جا ری ہوتے تھے اور اس کو میراث بھی دی جاتی تھی جس طرح حقیقی فر زند کی شا دی کے بعد اس کی بیوی با پ کی بہو شما ر کی جا تی ہے اور اس کی محرم ہو جا تی ہے اور باپ کا اس سے شادی کر نا حرام ہے اگر چہ بیٹا اسے طلا ق ہی کیو ں نہ دیدے ۔اس زما نہ میں یہی احکا م منھ بولے بیٹے پر بھی جا ری کئے جا تے تھے ۔ دینِ اسلا م میں اس رسم کو ختم ہو نا چا ہئے تھا کیونکہ کہ یہ ایک غلط رسم تھی ۔

سورئہ احزاب کے آغاز میں خدا وند عا لم ارشاد فر ما تا ہے :

( اُدْعُوْهُمْ لِآ بَائِهِمْ هو اَقْسَطُ عِنْدَ ﷲ ) ( ۲ )

''لے پا لکو ں کو ان کے( اصل)با پ کی طرف نسبت دو کیونکہ یہی خدا کے نز دیک انصا ف سے قریب ہے''

____________________

۱۔سورئہ احزاب آیت۳۷۔

۲۔سورئہ احزاب آیت ۵۔

۱۷۴

اسی سنت کو تو ڑنے کے لئے حکمتِ الٰہی کا تقاضا ہو ا کہ خود پیغمبر ِ اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس رسم کو اپنے منھ بو لے بیٹے کے ذریعہ توڑیں تا کہ لو گو ں کو یقین ہو جا ئے اور دورِ جا ہلیت کی اس رسم کا اختتام ہو جا ئے۔

زید شا دی شدہ تھے اور ﷲ نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحی کی کہ آپ زید کی زو جہ سے عقد کرلیں یعنی زید اپنی زو جہ کو طلاق دید یں اور آپ اس سے عقد کر لیں تا کہ دورِ جا ہلیت کی اس رسم کا خاتمہ ہو جا ئے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر یہ وحی نا زل ہو چکی تھی کہ اس طرح کا وا قعہ پیش آ ئیگا ۔ ایک دن زید نے آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خد مت میں حا ضر ہو کر عرض کی کہ میں اپنی زو جہ کو طلا ق دینا چا ہتا ہو ںآ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فر مایا :نہیں اپنی زو جہ کوالگ نہ کر و ، تقو یٰ اختیا ر کرو اور عدل و انصاف کی رعا یت کرو ۔

یہ آیت اسی مو قع پر نا زل ہو ئی :( وَاِذْ تَقُوْ لُ لِلَّذِیْ اَنْعَمَ ﷲ عَلَیْهِ وَاَنْعَمْتَ عَلَیْه ) وہ شخص جس پر خدا نے انعام کیا تھا اور آپ نے بھی انعام سے نوازاتھا ۔آپ نے اس سے کہا( اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْ جَکَ وَ اتَّقِ ﷲ ) ''اپنی بیوی کو اپنی زو جیت میں رہنے دو ۔ یہ اس وقت تھا کہ( وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا ﷲ مُبْد یْهِ ) ''آپ اس بات کو اپنے دل میں چھپا رہے تھے کہ جس کو آشکار کر نے کا خدا فیصلہ کر چکا تھا( وَ تَخْشی النَّا سَ ) اور آپ لو گو ں سے ڈر رہے تھے ''( وَﷲ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰهُ ) '' جبکہ خدا سے ڈرنا زیا دہ سزا وار ہے ''

اسلام دشمنو ں نے اس آیۂ شریفہ کے متعلق ایک داستان گڑھ ڈالی اور افسوس بعض مسلمانوں میں بھی اس کا چر چا ہو نے لگا اور اس کو کتا بو ں میں بھی لکھ ماراجس سے وہ اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک دستا ویز بن گئی یہاں تک کہ اس دور میں بھی اس کو پیغمبر کی ایک کمزوری شما ر کر تے ہیں ۔ دشمنان اسلام نے (معا ذاللہ کہا اور لکھا ہے کہ ایک روز پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظرمبا رک زید کی خو بصو رت بیوی پر پڑ گئی تو آپ کا دل اس پر آ گیا اور آپ اس کے عا شق ہوگئے آپ اس سے شا دی کے خو اہشمند تھے لیکن اس سے عقد کر نے کی کوئی راہ نہ تھی آپ کو یہ خو ف تھا کہ کہیں لو گ اس بات سے مطلع ہو کر یہ نہ کہنے لگیں کہ پیغمبر اس جوان عو رت پر فریفتہ ہو گئے ہیں ﷲ نے بھی پیغمبر کی دلی آ رزو کو پو را کر نے کے اسباب فر ا ہم کئے کہ زید اپنی زو جہ کو طلاق دیدیں اور پیغمبر اس سے عقد کر لیں لیکن دشمنانِ اسلام تو یہا ں تک کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی دلی آرزو کو پورا کرنے کے لئے یہ آیات خود بنائی ہیں انھو ں نے یہ تمام مقد مات فرا ہم کر نے کے بعد فر ما دیا کہ : آیۂ شریفہ نا زل ہو ئی ہے اور خدا وند عالم نے فر ما یا ہے کہ۔۔۔

۱۷۵

بالکل اسی طرح کی داستان کہ جس کی حضر ت دا ؤد علیہ السلام کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ آپ اپنے ایک صحا بی کی بیوی پر فریفتہ ہو گئے تھے وغیرہ وغیرہ اور دشمنانِ اسلام ثبوت میں آیت کا یہ ٹکڑا پیش کر تے ہیں کہ ''تم لوگوں سے ڈرتے ہو '' اور کہتے ہیں کہ انسا ن اسی وقت ڈرتا ہے جب وہ خدا وند عالم کی مر ضی کے خلاف کو ئی کام انجام دے ۔یہ ایک جھو ٹی داستان ہے جو اسلام کے دشمنوں نے گڑھی ہے در اصل، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خوف یہ تھا کہ لو گ اپنے درمیا ن رائج اس مستحکم رسم کا توڑا جانا قبول نہیں کر سکیں گے کیو نکہ ان کے نقطۂ نظر سے یہ کام ایسا تھا کہ گو یا کسی نے اپنے حقیقی فرزند کی زو جہ سے عقدکر لیاہو، آپ کو لو گو ں کے درمیان اپنی آبرو ریزی کا ڈر نہیںتھا بلکہ آپ اس لئے ڈر رہے تھے کہ کہیں خداکے اس حکم کو لوگ قبو ل نہ کریں آپ کسی منا سب وقت کی تلاش میںتھے اور آپ خدا وند عا لم کی طرف سے کسی ایسے واقعہ کے پیش آنے کے منتظر تھے جس کے ذریعہ لو گو ں کی مصلحتیں بھی پو ری ہوجا ئیں او ر حکمتِ الٰہی بھی محقّق ہوجا ئے اور لوگ بھی اس کو تسلیم کر لیںاور نا فر ما نی نہ کریں ۔ با لکل اسی سے ملتا جلتا مسئلہ غدیر کی ولا یت کاہے ارشاد ہو تا ہے :

( یَااَیُّهَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِکَ وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَﷲ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّا سِ ) ( ۱ )

''اے رسول جو حکم تمہا رے پر ور دگا ر کی طرف سے تم پر نا زل کیا گیا ہے لو گوں تک پہنچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گو یارسالت کا کو ئی پیغام نہیں پہنچایا اور خدا تم کو لو گو ں کے شر سے محفو ظ رکھے گا''

اس منزل میں بھی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ خو ف تھا کہ کہیں لو گ امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام کی ولا یت کو تسلیم نہ کریں۔یہ خوف در حقیقت امر الٰہی کی جہت میں تھا ۔آپ کو یہ خوف اس لئے تھا کہ کہیں لوگ حکمِ خدا کو تسلیم نہ کریں آپ اس لئے نہیں ڈر رہے تھے کہ میری عزّت چلی جائے گی جیسا کہ دشمنا نِ اسلام نے خیال کیا ہے اسی مقام پرخدا فر ماتا ہے :تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَاﷲ مُبْدِیہِ)جس چیز کو آنحضر تصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں سے چھپا رہے تھے یہ وہی چیز تھی جس کی آپ پر وحی ہوچکی تھی کہ یہ کام ہو نا ضروری ہے آپ لو گو ں پر آشکار نہیں کر رہے تھے اور لو گو ں سے اس طرح کا انداز اختیار کئے ہو ئے تھے کہ لوگ متوجہ ہو ں کہ پیغمبر نتیجہ سے با خبر ہیں ۔ لہٰذا جب زید نے آپ کی خد مت میں حا ضر ہو کر یہ عرض کی کہ میں اپنی زو جہ کو طلا ق دینا چا ہتا ہو ں تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ''نہیں طلاق نہ دو بلکہ اپنی ازدواجی زندگی جا ری رکھو ''۔ آپ نے یہ (العیاذ با ﷲ ) اپنے عشق کو مخفی رکھنے کے لئے نہیں فر ما یا تھا بلکہ آپ کو یہ خو ف تھا کہ کہیں لوگ اس امر کو قبول نہ کریں اور امرخدا کی اطا عت سے انکار نہ کردیں ۔

بنا بر ایں آیت کا مفہوم یہ نکلتا ہے :آ پ نے اپنے منھ بو لے بیٹے سے کہ جس پر آپ کے خدا نے اور خود آپ نے بھی انعام و احسا ن کیا تھاسفارش کی کہ تم اپنی زو جہ کو اپنی زو جیت میں رکھو حا لانکہ وہ بات کہ جس کی آپ پر

____________________

۱۔سورئہ ما ئدہ آیت ۶۷۔

۱۷۶

وحی ہو چکی تھی کہ اس کو آپ کی زوجیت میں لا نا مقصود ہے آپ نے لو گو ں سے مخفی رکھی آپ لو گو ں سے خو ف زدہ تھے کہ کہیں وہ حکمِ خدا کی خلا ف ور زی نہ کریں، (وَﷲ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَاہُ) کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ'' لو گو ں سے خو ف'' اور'' خدا سے خوف ''کے در میا ن مقا ئسہ کیا گیا ہو یعنی لو گوںسے خو ف خداوندعا لم سے خو ف کے ساتھ منافات رکھتا ہو کہ آپ کو خدا سے خو ف کر نا چا ہئے لو گو ں سے نہیں ، یہاں دو نو ں باتوںمیں کو ئی ٹکرا ؤ نہیں ہے بلکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تسلی دینے اور اس بات کی طرف متو جّہ کر نے کے لئے ہے کہ آپ اپنی تو جہ کا مر کز خدا وند عا لم کو قرار دیں، خدا بھی آپ کی حفا ظت کر ے گا آپ پر یشان نہ ہو ں ۔یقینا پیغمبراکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معصو م ہیں اور آپ تمام صفاتِ کما ل کے آخری درجہ پر فا ئز ہیں لیکن اِن کما لات کا لا زمہ یہ نہیں ہے کہ آپ خداوندعا لم سے بے نیا ز ہوجائیںبلکہ آ پ خدا وند عا لم کی عطا کر دہ تعلیم و تر بیت کے ذریعہ ہی معصو م خلق ہو ئے ہیں اور آ پ کے پا س سب کچھ خدا وند عا لم کا ہی دیا ہو ا عطیہ ہے ۔

بہر حا ل پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے با رے میں قرآنی آیا ت نے یہ بتا یا ہے کہ خدا وند عا لم کا لطف و کرم جو آپ کے شا مل حال ہے ہر مقا م پر آپ کا محا فظ ہے ،آپ کی تر بیت اور آپ کو متو جہ کر تے رہنا اس چیز کو ثابت کر تا ہے کہ خدا وند عا لم کی طرف سے اس طرح کا لطف پیغمبرکے شا مل حال ہے۔چنا نچہ ''وَﷲ اَ حَقُُّ اَنْ تَخْشاَہُ''کا مطلب بھی پیغمبر کو اس حقیقت کی طرف متو جہ کر نا ہے کہ آپ کو صرف اور صر ف خدا سے ڈرنا چا ہئے ۔دوسرے لو گ آپ کا کچھ نہیں بگا ڑ سکتے اور خدا نے جب کسی امر کو متحقّق کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اس کو متحقّق ہو نا ہی ہے اور خدا اس امر میں آ پ کی خود حفا ظت کر ے گا اس طرف سے آپ با لکل مطمئن رہیں ۔ اوراس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ پیغمبر کی طرف سے تشویش تھی بلکہ اس کا مطلب حالات کا فرا ہم ہو جا نا تھا حالات اس چیز کے متقا ضی تھے کہ ایک انسان کو اس طرح کی تشویش ہو ۔ اور خدا نے وحی ،الہام اور اپنی خا ص تر بیت کے ذریعہ ان تمام پریشا نیوں سے (جو عام طور پر جو ایک انسا ن کو پیش آ تی ہیں ) پیغمبر کی حفا ظت فر ما ئی ۔

معلوم ہوا یہ آیت بھی عصمت کے منا فی کسی چیزپر دلالت نہیں کر تی ۔اور وہ داستان بھی گڑھی ہو ئی ہے ۔

چو تھی آیت :

( یَااَیُّهَاالنَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَااَحَلَّ اللَّهُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ وَاللَّهُ غَفُوْررَحِیْمُ ) ( ۱ )

''اے رسو ل جو چیز خدا نے حلا ل کی ہے تم اس سے اپنی بیویو ں کی خو شنو دی کے لئے کیو ں خود پر حرام کر رہے

____________________

۱۔سورئہ تحریم آ یت ۱۔

۱۷۷

ہو اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہر با ن ہے ''۔

یہ اسلام دشمن عنا صر کا ایک بہت تیزحر بہ ہے اور دین ِ اسلا م کی مخا لفت میں لکھی جا نے وا لی کتابو ں میں خاص طو ر سے اس آ یت کاسہا را لیاگیا ہے ان کا کہنا ہے کہ خود قرآن کریم نے کہاہے کہ پیغمبر (العیا ذ بﷲ ) امور شرعی میں مد اخلت کیا کر تے تھے حلا ل کو حرام کر دیتے تھے۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ یہ آیت نا زل ہو ئی کہ آپ اس طرح کے کا م کیو ں انجا م دیتے ہیں ؟!

جی ہاں اسلام دشمنو ں نے اس مسئلہ کو یہ رنگ دیاہے کہ وحی اور قرآنی مطالب سے بلکہ اس سے بھی پہلے درجہ میں نبی کی سنّت سے لو گوں کا اعتمادسلب کر لیں۔

اس مقام پر بھی شبہ کو دور کرنے کیلئے آیت کے مطلب اور اسکے شأن نزول کو مد نظر رکھنا چاہئے یہ آیت ایک ایسی داستان سے متعلق ہے جس کو روایتوں میں مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے علاوہ ازیں پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعض ازواج سے متعلق بھی ایسے مطالب ہیں جن میں خداوندعالم نے اُن پر عتاب کیا ہے اور ان پر شدید حملے کئے گئے ہیں اور بعید نہیںہے کہ اس طرح کے واقعات میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعض ازواج (عائشہ اور حفصہ جو ابوبکر اور عمر کی بیٹیاں تھیں)سے متعلق شبہے پیدا ہو جا ئیںا ور اصل قضیہ روشن و واضح نہ ہو چونکہ اہلسنّت حضرات پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام ازواج کوتقدس کے سب سے بلند مرتبہ پر فائز سمجھتے ہیں اورکسی طریقہ سے بھی ان کی شان میں کوئی کمی نہیں چا ہتے لہٰذا مطلب کو حتّیٰ الا مکان اس طرح بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کو بالکل بری قرار دیاجاسکے لیکن ان آیتوں کالہجہ اتنا سخت اور واضح ہے کہ کسی شخص کیلئے کوئی عذر باقی نہیں رہتا خداوندعالم فرماتا ہے :

( وَاِذْاَسَرَّالنَّبِیُّ اِلَیٰ بَعْضِ اَزْوَاجِهِ حَدِیْثاً )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بعض بیو یوں سے راز کی بات کہی اور تا کید کر دی کہ کسی سے اس کا ذکر نہ کریں انھوں نے مخالفت کی اورکچھ با تیں دوسروں سے کہہ دیں اور راز فاش کر دیا خدانے وحی کے ذریعہ اس امر کو رسول پر ظاہر کردیا کہ ایک یا دو بیویوں نے آپ کے راز کو فاش کردیا ہے جب رسول نے اُن سے باز پُرس کی توکہنے لگیں آپ سے کس نے کہا کہ ہم نے خبر دی ہے؟پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :(قَالَ نَبَّأَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ )اس نے خبر دی ہے جو ہر بات سے آگاہ ہے اس کے بعد خداوند عالم ان سے خطاب فرماتا ہے کہ تم یہ خیال نہ کرنا کہ( ہماری اپنی زبان میں ) تم میں سرخاب کے کو ئی پر لگے ہیں ۔ اگر رسول تم کو طلاق دیدیں تواُن کو اُن کا پروردگار تم سے اچھی بیویاں عطا کردے گا اور اگر تم پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنی پر اتر آئیںتو یہ خیال نہ کرنا کہ تم ان کوشکست دے دوگی کیونکہ خدا، جبرئیل اور تمام ایماندار اشخاص ان کے دو ست و مدد گارہیں کبھی بھی یہ خیال نہ کرنا کہ تم اپنی سا زشوں کے ذریعہ ان کو شکست دیدوگی ۔

۱۷۸

ظا ہر ہے بات بہت اہم تھی گو یا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف سا زش تھی اسی لئے خدا وند عا لم نے ان کو اس انداز سے با خبر کیا ہے کہ تم کچھ نہیں ہو ۔ خدا ،ایما ندا ر افراد اور جبر ئیل ان کے ساتھ ہیںاور تم ان کا کچھ نہیںبگا ڑ سکتی ہو ۔ مسئلہ بہت ہی اہم تھا، اسی وجہ سے قر آ ن کریم نے ان کی سخت طریقہ سے سر زنش کی ہے۔

صرف اس خیال سے کہ کہیںوہ مطا لب و مقا صد قا رئین پر واضح نہ ہوں عرض ہے کہ اس سلسلہ میں عجیب و غریب واقعا ت نقل کیے گئے ہیں ۔ منجملہ عا مہ کی روایت ہے کہ ایک روز پیغمبر ا کرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی بیوی ''سودہ'' کے یہاں تشریف فر ما تھے انھوںنے آ پ کے لئے شہد کا شر بت تیا ر کیا جس سے ایک خا ص قسم کی بو آ رہی تھی ۔ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ شربت نو ش فر ما کر عا ئشہ کے پاس گئے تو انھوںنے منھ مو ڑ تے ہو ئے کہا :او نہہ یہ کیسی بوہے ؟ کچھ دیر بعد آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حفصہ کے پا س تشر یف لے گئے تو انھوںنے بھی اسی طرح کے الفا ظ ادا کئے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمجھ گئے کہ ان لوگوں کو اس شربت کی بو پسند نہیں ہے اس وقت آپ نے قسم کھا ئی کہ اب اس کا شربت نہیں پیئیں گے اس وقت آیت نا زل ہو ئی :

( یَااَیُّهَاالنَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآأَحَلَّ اللَّهُ لَکَ )

شہد کا شر بت حلال ہے آپ اس کو اپنے اوپرکیو ں حرا م قرار دے رہے ہیں ؟اس آیت کے شا ن نزول میں جو داستانیں نقل کی گئی ہیں یہ ان میں سے ایک ہے ۔

شیعی منقول روا یات میں یہ بات دوسری طرح نقل ہو ئی ہے کہ ایک دن حضرت رسو ل خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بیت الشرف میں تشریف فر ما تھے اور آپ کی بیوی ما ریۂ قبطیہ جو پہلے کنیز تھیں آ پ کے حجرہ میں مو جو د تھیں اور بعض روایات کے مطابق آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سرِ مبا رک ما ریہ قبطیہ کے زانو پر تھا اور آپ آرام فر ما تھے اسی دوران عائشہ اور حفصہ دو نوں حجرے میں دا خل ہو ئیں تو انھیںیہ حا لت دیکھ کرتعجب ہو اکہ ان کی مو جو د گی میں پیغمبر اکرم اپنا سر مبارک ایک کنیز ( زوجہ ) کی گو د میں کیوں رکھتے ہیں ۔ انھوں نے آپ سے جنگ و جدل شرو ع کر دی اور آپ کے خلاف محاذ آرائی کا فیصلہ کر لیا ،اور نا راضگی کے انداز میں کہاکہ اب ہم دو نو ں آپ کے پاس نہیں آ ئینگے وغیرہ وغیرہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو خاموش کرنے کے لئے کہ گھر میں ہنگا مہ نہ کریں قسم کھائی کہ میں اب ماریہ کے پاس نہیں جائو ںگاانھوں نے بھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس قسم کے بعد راحت کی سانس لی اور قصّہ تمام ہوگیا ۔

۱۷۹

اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر چہ آپ بعض کی ازواج چا ہتی ہیں کہ آپ اپنی دوسری (بیوی) پر نظر نہ اٹھا ئیں لیکن آپ کو ان کی خوشی کا اتنا خیال نہیں کرنا چاہیے :( لِمَ تُحَرِّمُ مَااَحَلَّ ﷲ ُ لَکَ ) خداوند عالم نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر کنیزکو حلال قرار دیا تھا اوران کی خو شی کے لئے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ قسم کھالی تھی کہ اب اس کنیز کے نزدیک نہیں جا ئیں گے خداوند عالم فرماتاہے کہ آپ نے اس طرح کی قسم کیوں کھائی ؟!( قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَکُمْ تَحِلَّةَ أَیْمَانِکُمْ' ) 'خدانے اس طرح کی قسموں کاتوڑدینا آ پ پرلازم قراردیا ہے '' روایات کے مطابق مسئلہ اس موضوع سے مربوط ہے اور اہلسنّت کی روایات میں دوسری باتیں بیان کی گئی ہیں ۔

بہر حال پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو چیز خود پر حرام قرار دی تھی کو ئی بد عت نہیں کی تھی اس کو تشریع کا نام بھی نہیں دیاجا سکتا یعنی جس چیز کو خداوند عالم نے حلال قرار دیا تھا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حرام ہو نے کا حکم نہیں دیا تھا۔ کیونکہ بعدکی آیت میں تا ئید ہو تی ہے :( قَد ْفَرَضَ ﷲ لَکُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَٰنَکُ ) مْمیں ''خدانے اس طرح قسموں کو توڑڈالناآپ پر لازم کردیا ہے ''یہ (تَحِلَّةَ)اُسی تحریم کے مقابل میں ہے اور دونوں کا مصدر باب تفعیل ہے۔ یعنی اس تحریم کے مقابلہ میں جوتم نے کی ہے خدانے تمہارے لئے اس کو حلال قرار دینا لازم قرار دیا ہے یعنی جس چیز کو تم نے اپنے لئے ممنوع قرار دیا ہے اس کی ممنوعیت ختم کردو ۔ '' اَیْمَان''(تَحِلَّہ )کی ایمان کے ذریعہ بتایاہے کہ اس چیز کو قسم کے ذریعہ حرام قرار دیا گیاتھا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قسم کے ذریعہ ایک چیز اپنے اوپر حرام قرار دی تھی قانون وضع نہیں کیا تھا اور کیسے ممکن ہے کہ جس کے لئے خداوندقدوس فرماتاہے :

( وَلَوْتَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لَاَخَذْنَامِنْهُ بِالْیَمِیْن ) ( ۱ )

''اگر رسول ہماری طرف کسی جھوٹی بات کی نسبت دیتے تو ہم پوری قوت سے ان کوروک دیتے''۔

وہ اس (رسول )کو اپنے خلاف قانون بنانے کی اجازت دیدے ؟اس طرح کی چیز تمام انبیاء علیہم السلام کیلئے محال ہے چہ جائیکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل ہیں اور خود آیت بھی اس چیز کی شھادت دیتی ہے کہ یہ تحریم قا نو نی یا شر عی نہیں تھی کو ئی بھی شخص ایک مباح کام انجام نہ دینے کی قسم کھا سکتاہے ۔آنحضرت نے بھی اپنی ازواج کے مطالبات کو حتّیٰ الامکان پورا کرنے کی کوشش فرمائی اور ایک کام جو حلال تھا اس کے انجام نہ دینے کی قسم کھالی اور یہ آپ کا نہایت ہی لطف تھاجو آپ نے دوسروں کے آرام کیلئے اپنے کو زحمت میں ڈالنا گوارا کیا لیکن خداوند عالم آنحضرت سے خطاب فرماتاہے چو نکہ اس مسئلہ میں مصلحتیں ہیں تو آپ اپنی قسم توڑدیں اور قسم کے ذریعہ جو چیز اپنے لئے حرام قرار دی ہے حلال کیجئے ۔

پس حقیقت میں یہ (لِمْ تُحَرِّم)سورئہ توبہ میں (لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ)کی مانند ہے یہ بھی محبت بھری ناراضگی

____________________

۱۔سورئہ الحا قة آیت۴۴۔۴۵۔

۱۸۰