راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 121384
ڈاؤنلوڈ: 2321

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121384 / ڈاؤنلوڈ: 2321
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

( اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللَّهِ الْاِسْلَاٰمُ وَمَااخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوتُوْاالْکِتَابَ اِلَّامِنْ بَعْدِ مَاجَائَ هُمُ الْعِلْمُ بَغْیاًبَیْنَهُمْ وَمَنْ یَکْفُرْ بِآیَاتِ اللَّهِ فَاِنَّ اللَّهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِفَاِنْ حَآجُّوْکَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِیَ لِلَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ وَقُلْ لِلَّذِیْنَ اُوتُواالْکِتَابَ وَالْاُمِّیِّیْنَ ئَ اَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اهْتَدَوْاوَاِنْ تَوَلَّوْافَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلاَغُ وَاللَّهُ بَصِیْربِالْعِبَادِ ) ( ۱ )

''دین، ﷲ کے نزدیک صرف اسلام ہے اور اہل کتاب نے آپس میں اختلاف نہیں کیا مگر یہ کہ علم آنے کے بعد، صرف آپس کی شرارتوں کی بناء پر اور جوبھی آیات الٰہی کا انکار کرے (سن لے)کہ خدا بہت جلد حساب کرلینے والا ہے ۔(اے پیغمبر) اگر یہ لوگ آپ سے کٹ حجتی کریں تو کہہ دیجئے کہ میرا رخ تمام تر ﷲ کی طرف ہے اور میرے پیرو بھی ایسے ہی ہیں اور پھر اہل کتاب اور جاہل مشرکین سے پوچھئے کیا تم بھی اسلام لے آئے ہو؟ اگر وہ اسلام لے آئے ہیں توگویا ہدایت پاگئے اور اگر منھ پھیر لیں تو آپ کا فرض صرف تبلیغ ہے اور بس اور ﷲ اپنے بندوں کو خوب پہچانتاہے''۔معلوم ہوا دعوت انبیاء علیہم السلام کی روح وجان یہی اسلام ہے قرآن کریم کی آیات سے بھی اس بات کا اثبات ہوتا ہے ۔خداوند عالم فرماتاہے :

( وَمَنْ یَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ اِبْرَاهِیْمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَیْنَٰهُ فِی الدُّنْیَاوَ اِنَّهُ فِی الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِیْنَ ) ( ۲)

''اور کون ہے جو ملت ابراہیم سے منھ مو ڑے مگر یہ کہ اپنے کو بیوقوف اور نا سمجھ ثابت کرے؟

اور ہم نے ابراہیم کو دنیا میں منتخب قرار دیا ہے اور وہ آخرت میں بھی نیکوکاروں میں ہیں ''۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا انتخاب اس طرح عمل میںآیاکہ:

( اِذْقَالَ لَهُ رَبُّهُ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَٰالَمِیْنَ ) ( ۳ )

''جب ان سے ان کے پروردگار نے کہا کہ اپنے کو میرے حوالے کردو تو انھوں نے کہا کہ میں رب العالمین کے سامنے سرا پا تسلیم ہوں''۔معلوم ہوا الٰہی انتخاب کا معیار یہی اسلام اور خود سپر دگی ہے ۔صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کاہی دین اسلام نہیں تھا بلکہ آپ نے اپنے فرزند کو بھی اسی دین اسلام کی وصیّت فرمائی تھی:

( وَوَصَّیٰ بِهَا اِبْرَاهِیْمُ بَنِیْهِ ) ( ۴ )

____________________

۱۔آل عمران آیت ۱۹۔۲۰۔

۲۔سورئہ بقرہ آیت۱۳۰۔

۳۔سورئہ بقرہ آیت ۱۳۱۔

۴۔سورئہ بقرہ آیت۱۳۲۔

۲۰۱

''اور اسی بات کی ابراہیم نے اپنی اولاد کو وصیت کی ''۔

اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کو اسی دین اسلام کے بارے میں وصیّت فرمائی تھی :

( یَابَنِیَّ اِنَّ اللَّهَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَموتُنَّ اِلَّاوَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ) ( ۱ )

''اے میرے فرزند ﷲ نے تمہارے لئے دین کو منتخب کردیا ہے اب اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک واقعی مسلمان نہ ہوجائو''۔

ایک اور آیت میں بھی حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کو اسی دین اسلام کے بارے میں وصیّت فرمائی ہے:

( اَمْ کُنْتُمْ شُهَدَآئَ اِذْ حَضَرَیَعْقوبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِی قَالُوْانَعْبُدُ الٰهَکَ وَاِلَٰهَ اٰبَائِ کَ اِبْرَاهِیْمَ وَاِسْمَٰعِیْلَ وَاِسْحَٰقَ اِلَٰهاً وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُوْنَ ) ( ۲ )

''کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کا وقت موت آیا اور انھوں نے اپنی اولاد سے پوچھا کہ میرے بعد کس کی عبادت کرو گے تو انھوں نے کہا کہ آپ کے اور آپ کے آباء و اجدادابرہیم و اسماعیل و اسحاق کے پروردگار، خدائے وحدئہ لا شریک کی، اور ہم اس کے مسلمان اور اور سراپا تسلیم ہیں ''۔

حقیقت اسلام وہی فرمان خدا کو قبول کرناہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کے تمام فرمان ہمیشہ یکساں رہے ہیںیا فرق کرتے رہے ہیں ؟ایک الگ مسئلہ ہے یہاں تک کہ ایک ہی دین میں بھی احکام خداکا ایک زمانہ سے دوسرے زمانہ میں الگ ہونا ممکن ہے دین اسلام میں بھی شروع میں تمام مسلمان بیت المقد س کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے اس وقت بھی یہی اسلام تھا اورجب خداوند عالم نے فرمایا کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھو توبھی اسلام کا تقاضا تھا کہ اس دوسرے حکم کو قبول کریں۔

اگر ادیان سابق میں بھی اس طرح کی چیزیں تھیں یعنی ایک دین میں ایک چیز حلال تھی اور دوسرے دین میں حرام تو یہ بھی اسی طرح کا نسخ ہے جو بعض وقت ایک ہی دین میں واقع ہوتاہے ۔

اس بناپرکہہ سکتے ہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کی روح وجان یہی خداوندعالم کے سامنے تسلیم ہوناہے

____________________

۱۔سورئہ بقرہ ۱۳۳۔

۲۔سورئہ بقرہ آیت۱۳۳۔

۲۰۲

اور یہی وہ چیز ہے جسکا انسانی فطرت تقاضا کرتی ہے یعنی فطرت انسانی تقاضا کرتی ہے کہ اپنے اختیارسے خداوندعالم کے سامنے تسلیم ہو ں،دین اسکے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔

( فَأَقِمْ وَجْهَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْهَالَاتَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَٰلِکَ الدِّیْنُ القَیِّمُ ) ( ۱ )

''آپ اپنا رخ کسی انحراف کے بغیر دین کی طرف رکھیں یہ دین و فطرت الٰہی کہ جس پر اس نے تمام انسانوں کو پیدا کیاہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور یہی پا ئدار دین ہے''۔

اس آیت سے صاف طور پرپتہ چلتا ہے کہ انسانی فطرت تقاضا کر تی ہے کہ ﷲکی طرف جھکا ؤاور خود کو اس کے مقابل تسلیم کردیں اور اسی سورہ میںایک دوسری جگہ پھر خداوند عالم فرماتاہے :

( فَاَقِمْ وَجْهَکَ لِلدِّیْنَ القَیِّمِ ) ( ۲ )

''اور آپ اپنے رخ کو مستقیم اور مستحکم دین کی طرف رکھیں ''۔

تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان ضروری ہے

ایک مسلمان کوتمام انبیاء علیہم السلام کے احکام و قوانین کا مطیع اور فرمانبردار ہونا چاہئے اوران میں سے کسی کے درمیان اور نیز ان کی کتابوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرنا چاہئے اسلئے کہ وہ سب خداوندعالم کی طرف سے مبعوث کئے گئے ہیں اور جس شخص نے اپنے کو خداوندعالم کے سامنے تسلیم کردیا ہواس کو اس کی نازل کردہ چیز بھی قبول کرنا چاہئے اور اس بات کو قرآن کریم میں اس طرح بیان کیاگیا ہے کہ خداوند عالم نے انبیاء علیہم السلام سے بھی فرمایا اور عہد لیاہے کہ وہ ایک دوسر ے کی تائید کریں اورہر نبی کو اپنے پہلے کے نبی پر ایمان رکھنا چاہیے مومنین کو بھی گزشتہ انبیاء علیہم السلام اور ان پر وحی کئے جانے والے تمام قوانین پر ایمان رکھنا چاہئے ۔خداوند عالم فرماتاہے :

( وَاِذْاَخَذَاللَّهُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَآئَ اتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتَٰبٍ وَحِکْمَةٍ ثُمَّ جَائَکُمْ رَسُوْل مُصَدِّق لِمَا مَعَکُمْ لِتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ ئَ أَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلَیٰ ذَٰلِکُمْ أِصْرِیْ قَالُوأَقْرَرْنَاقَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَاْمَعَکُمْ مِنَ الشَّاهِدِیْنَ فَمَنَّ تَوَلَّیٰ بَعْدَ ذَٰلِکَ فَأُولٰئِکَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ ) ( ۳ )

____________________

۱۔سورئہ روم آیت۳۰ ۔

۲۔ سورئہ روم آیت ۴۳۔

۳۔سورئہ آل عمران آیت ۸۱و۸۲۔

۲۰۳

''اور جب خدانے تمام انبیاء سے عہدلیا کہ ہم تم کو جو کتاب و حکمت دے رہے ہیں اس کے بعد جب وہ رسول آجائے جو تمھاری کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے تو تم سب اس پر ایمان لے آنا اور اس کی مدد کرنا اور پھر پوچھا کیا تم ان باتوں کا اقرار کرتے ہو اور ہمارے عہد کو قبول کرتے ہو سب نے کہاہم اقرار کرتے ہیں۔ارشاد ہوا:بس تم سب گواہ رہنااورمیں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ۔اس کے بعد جو انحراف کرے گا وہ فاسقین میں ہوگا''۔یہ دین خدا ہے جو تمام انبیاء علیہم السلام کو عطاکیا گیا اور ان سب سے عہد لیاگیاہے کہ اس سلسلہ کو قبول کریں اور ان کی تصدیق اور تأئیدکریں۔کسی مخصوص نبی کی اتباع کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سلسلہ ہے جو سب کو ایک خداکی طرف دعوت دیتارہا ہے اسکے بعد خداوندعالم فرماتاہے:

( اَفَغَیْرَدِیْنِ اللَّهِ یَبْغُوْنَ وَلَهُ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمَٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ طَوْعَاًوَکَرْهاًوَ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ ) ( ۱ )

''کیا لوگ دین خدا کے علاوہ کچھ اور تلاش کر رہے ہیں جب کہ زمین ا ور آسمانوں میں جو کچھ ہے سب اپنے اختیار سے یا غیر اختیاری طور پر اسی کی با رگاہ میں سر خم کئے ہو ئے ہیں اور سب کو اسی کی بارگا ہ میں وا پس جا نا ہے ''۔

اس آیت کے بعد فرماتاہے :

( قُلْ ئَ امَنَّا بِاللَّهِ وَمَااُنْزِلَ عَلَیْنَاوَمَااُنْزِلَ عَلَیٰ اِ بْرَٰهِیْمَ وَاِسْمَٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَالْاَ سْبَاطِ وَمَااُوْتِیَ مُوْسیَٰ وَعِیْسَیٰ وَالنَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّ بِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُوْنَ ) ( ۲ )

'' ان سے کہہ دیجئے کہ ہما را ﷲ پر ،اور اس پرجو ہم پر نا زل ہو ا ہے اور(اسی طرح) جو ابرا ہیم اسما عیل، اسحاق ،یعقو ب اور اسباط پر نا زل ہو ا ہے اور جو مو سیٰ اور عیسیٰ اور انبیاء کو خدا کی طرف سے دیا گیا ہے ان سب پر ہمارا ایمان ہے ہم انکے درمیان کوئی تفر یق نہیں رکھتے اور ہم سب خدا کے اطا عت گذاربند ے ہیں ''۔

اور اسکے بعد خداوندعالم فرماتا ہے :

( وَمَنْ یَبْتَغِ غیْرَالْاِسْلَامِ دِیْناً فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَفِیْ الْأَخِرَةِ مِنَ الْخَٰسِرِیْنَ ) ( ۳ )

''اور جو اسلا م کے علا وہ کو ئی بھی دین اختیار کر ے گا وہ دین اس سے قبو ل نہ کیا جا ئیگا اور وہ قیا مت کے دن خسا رہ اٹھا نے والو ں میں ہو گا ''۔دوسری آیتوںسے بھی ادیان اور انبیاء علیہم السلام کی ایک دوسرے سے وابستگی کا پتہ چلتا ہے ایک جگہ خدا

____________________

۱۔ سورئہ آل عمران آیت۸۳۔

۲۔سورۂ آل عمران آیت۸۴۔

۳۔سورئہ آل عمران آیت۸۵۔

۲۰۴

فرماتاہے :

( شَرَعَ لَکُم مِنَ الدِّ یْنَِ مَاوَصَّیٰ بِهِ نُوْحاًوَّالَّذِ یْ اَوْحَیْنَآاِلَیْکَ وَمَاوَصَّیْنَابِهِ اِبْرٰهِیْمَ وَمُوْسَیٰ وَعِیْسَیٰ اَنْ اَقِیْمُوْاالدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْافِیْهِ کَبُرَعَلَیٰ الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَیْهِ اللَّهُ یَجْتَبِیْ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَائُ وَیَهْدِیْ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُوَمَاتَفَرَّقُوْا اِلَّامِنْ بَعْدِ مَاجَا ئَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیاًبَیْنَهُمْ ) ( ۱ )

'' اس نے آپ کے لئے وہ آئین بنا یاہے جس کی نو ح کو نصیحت کی تھی اور جس کی (اے نبی) آپ کی طرف وحی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراہیم ، مو سیٰ اور عیسیٰ کو بھی کی ہے کہ دین کو قا ئم کریں اور اس میں تفرقہ نہ پیدا ہونے پا ئے مشر کین کو وہ بات گراں گذر تی ہے جس کی آپ انھیں دعوت دے رہیںﷲ جس کو چا ہتا ہے اپنی رسالت کے لئے چُن لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجو ع کر تا ہے اس کی اپنی طرف ہدا یت کر دیتا ہے اور لو گو ں نے آپس میں تفر قہ نہیں کیا مگر یہ کہ جب ان کو علم و دانش ہاتھ آگیااور ایک دوسرے پر تسلط مل گیا''۔

اوراس کے بعد آخر میں خداوندعالم ارشاد فرماتاہے :

( وَقُلْ ئَ امَنْتُ بِمَآاَنْزَلَ اللَّهُ مِنْ کِتَٰبٍ ) ( ۲ )

''اور کہہ دیجئے کہ میرا ایمان ہر اس کتاب پر ہے جو خدا نے نا زل کی ہے ''۔

یعنی الٰہی کتابوںاور وحی کے مطالب میں کوئی تعارض اور ٹکراؤنہیں ہے سب ایک ہی راہ کی نشاندہی کرتے ہیں اور ایک ہی چیز کی دعوت دیتے ہیں اور تمام لوگوں کو انھیں قبول کرنا چاہئے۔

خداوندعالم، متّقین کی تعریف کر تے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

( وَالَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِمَآاُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآاُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ) ( ۳ )

''وہ لوگ ان تمام با توں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو (اے رسول ) آپ پر نا زل ہوئی ہیں اور جو آپ سے پہلے نا زل کی گئی ہیں '' ۔

ایک اور آیت میں فرماتاہے :

( قُوْلُوْائَ امَنَّابِاللَّهِ وَمَآاُنْزِلَ اِلَیْنَاوَمَآاُنْزِلَ اِلَیٰ اِبْرَٰهِیْمَ وَاِسْمَٰعِیْلَ وَ اِسْحَٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَااُوْتِیَ مُوْسَیٰ وَعِیْسَیٰ وَمآاُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّ بِّهِمْ لَاْنُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ

____________________

۱۔ سورئہ شوریٰ آیت۔۳ا۔۱۴۔

۲۔سور ئہ شوریٰ آیت ۱۵۔

۳۔سورئہ بقرہ آیت۴۔

۲۰۵

مُسْلِمُوْنَفَاِنْ ئَ امَنُوْابِمِثْلِ مَآئَ امَنْتُمْ بِهِ فَقَدِاهْتَدَوْاوَاِنْ تَوَلَّوْافَاِنَّمَاهُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَهُمُ اللَّهُ وَهُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ) ( ۱ )

''اور (مسلمانو) تم ان سے کہو کہ ہم ﷲ پر اور جو اس نے ہما ری طرف بھیجا ہے اور جو ابر ا ہیم ، اسما عیل ، اسحٰق ، یعقوب ،اولادِ یعقوب کی طرف نا زل کیا ہے اور جو مو سیٰ ،عیسیٰ اور انبیاء کو پر ور دگار کی طرف سے دیا گیا ہے ان سب پر ایمان لے آئے ہیں ہم پیغمبروں میں تفریق نہیں کر تے اور ہم سب خدا کے سچے مسلمان ہیں ۔اب اگر یہ لوگ بھی ان سب پر تمہاری طرح ایمان لے آئیں تو ہدایت یا فتہ ہو جا ئیں گے لیکن اگر منھ مو ڑلیں تو یہ صرف تمہاری ہی مخالفت ہے پس اُ ن کے خلاف تمہا رے لئے خدا کا فی ہے وہ بڑا سننے والا بھی ہے اور جا ننے والا بھی ''۔

( اٰ مَنَ الرَّ سُوْلُ بِمَااُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُوْ مِنُوْنَ کُلّ اٰمَنَ بِﷲ وَمَلٰئِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ )

''رسول خود بھی ان تمام چیزوں پر ایمان رکھتا ہے جوکچھ اُن پر ان کے پر ور دگا رکی طرف سے نا زل کیا گیا ہے ا ورتمام مو منین بھی ﷲ،اس کے ملا ئکہ اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں '' ۔

( یَاَاَیُّهَاالَّذِیْن ئَ امَنُوْا ئَ امِنُوْا بِاللَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَالْکِتَٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلَیٰ رَسُوْلِهِ وَالْکِتَٰبِ الَّذِیْ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ) ( ۲ )

''اے ایمان وا لو خدا اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (محمد )پر نا زل کی ہے اور اس کتا ب پر جو اس نے پہلے نا زل کی ہے ایمان لا ؤ''۔

بنابرین، جولوگ اس طرح کا ایمان نہیں رکھتے اور مطلق طور پر کسی قید وشرط کے بغیر خدا کے سا منے تسلیم نہیں ہوسکتے ان کا ایمان قابل قبول نہیں ہوگا ۔

ہم نے اس سے پہلے توحیدکی بحث میں کہاتھا کہ ایک خدا پرست مومن کے لئے اس بات پر ایمان ضروری ہے کہ پوری کا ئنات کا خالق ایک ہی ہے (خالقیت میں توحید )اور وہی پوری کا ئنات کے تخلیقی نظام اور شرعی نظام کا پرور دگار بھی ہے (ربوبیت میں توحید )؛اب اگر کوئی توحید خا لقیت پر ایمان رکھتا ہو اور ربوبیت میں توحید کا انکار کرے تو گو یا وہ اصل توحید کا ہی منکر ہے ۔ مو من کا ان دونوں پر ایمان ضروری ہے اور تجزیہ کریں تو اسی حقیقت کا پتہ چلے گا توحید ،خدا کے سا منے خود کو تسلیم کر دینے کا نام ہے ''ایمان با للہ ''کی تو ضیح کریںتو یہ تمام مطالب

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت ۱۳۶و۱۳۷۔

۲۔سورئہ نساء آیت ۱۳۶۔

۲۰۶

سا منے آتے ہیں ورنہ ہم نے عرض کیا تھا کہ شیطان خدا پر ایمان کے با وجود تمام کفار و مشرکین سے بد تر تھا کیوں اس کا ایمان مطلق نہیں تھا ایسا نہیں ہے کہ ایمان کے متعلقات ایمان کے مدارج طے کر تے ہوں یعنی جو خدا کی خالقیت مانتا ہو اس نے ایک حد تک سعادت پا لی ہو جی نہیں ،وہ ایمان کے کسی درجہ پر نہیں ہے اس کا ایمان زیرو ہے خدا وند عالم ارشا د فر ماتا ہے :

( اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُ وْنَ بِﷲ وَرُسُلِهِ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْابَیْنَ ﷲ وَرُسُلِهِ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ ) ( ۱ )

''بیشک کچھ لوگ ہیں جو ﷲ اور اس کے رسول کا انکار کرتے ہیں اور خدا اور رسول کے درمیان جدا ئی ڈالنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کو نہیںما نیں گے ''۔

( وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَتَّخِذُوا بَیْنَ ذَٰلِکَ سَبِیْلاً ) ( ۲ )

''اور وہ چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے درمیان، کوئی نیا راستہ نکال لیں''۔

( أُولَٰئِکَ هُمُ الْکَافِرُوْنَ حَقًّاوَاَعْتَدْنَالِلْکَافِرِیْنَ عَذَ اباًمُهِیْناً ) ( ۳ )

''اس طرح کے لوگ در حقیقت کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے بڑا رسوا کرنے والا عذاب تیار کررکھاہے ''۔

( وَالَّذینَ ئَ امَنُوابِﷲ وَرُسُلِهِ وَلَمْ یُفَرِّقُوا بَیْنَ اَحَدٍ مِنْهُمْ أُولَٰئِکَ سَوْفَ یُؤتِیْهِمْ اُجُوْرَهُمْ وَکَانَ ﷲ غَفُورَاًرَحِیْماً ) ( ۴ )

''اور جو لوگ ﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہیں اوراس کے رسولوں کے درمیان جدائی کے قائل نہیں ہیںخدا عنقریب انھیں ان کا اجر عطا کرے گا اور وہ بہت زیادہ بخشنے والااور مہربانی کرنے والاہے ''۔

معلوم ہواجس طرح مقام تو حید میں اُس کے تمام ضروری مراتب کا تسلیم کر نا ،ضروری ہے نبو ت میںبھی جو کچھ اللہ کی طرف سے نا زل ہو ان سب کا قبو ل کر نا ضروری ہے، اس لئے کہ بعض کا انکار گو یاکل کا انکار ہے اور جن لوگوں نے خدا وند عالم کے تمام احکام کو قبول نہیں کیا خدا وند عالم نے ان کی سر زنش کی ہے :

____________________

۱۔سورئہ نساء آیت۱۴۹۔

۲۔سورۂ نساء آیت۱۵۰۔

۳۔سورۂ نساء آیت ۱۵۱۔

۴۔سورۂ نساء آیت ۱۵۲۔

۲۰۷

( قُلْ یَااَهْلَ الْکِتَٰبِ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّااِلَّااَنْ ئَ امَنَّابِاللَّهِ وَمَآاُنْزِلَ اِلَیْنَاوَمَآاُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَاَنَّ اَکْثَرَکُمْ فَٰسِقُوْنَ ) ( ۱ )

''(پیغمبر آپ) کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب کیا تم ہم سے صرف اس بات پر ناراض ہوکہ ہم ﷲاور اس نے جوکچھ ہم پر یا ہم سے پہلے نازل کیا ہے ان سب پر ایمان لائے ہیں اور تمہاری(تو) اکثریت فاسق اور نافرمان ہے''۔

قر آن نے اسی پر اکتفاء نہیں کی ہے ،بلکہ جو لوگ دین میں یا اس کی کتا بوں اور رسولوں کے درمیان جدائی کے قائل ہوئے ہیں انہیں مشر کین میں شمار کیاہے :

( وَلَاتَکُوْنُوْامِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) ( ۲ )

''اورخبردار مشرکین میں نہ ہوجانا''۔

اس کے بعد تفسیرو تشریح کر تا ہے:

( مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوا دِیْنَهُمْ وَکَانُواشِیَعاًکُلُّ حِزْبٍ بِمَالَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ ) ( ۳ )

''وہ لوگ کہ جنھوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں پھرہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی میں مست اور مگن ہے''۔

یہ بھی ایک قسم کا شرک ہی ہے کہ انسان دین کے بعض احکام کو تو قبول کر تا ہو اور بعض احکام کا انکار کر دے، اس نے بعض احکام کو کس اساس و بنیاد پر ترک کیاہے ؟اگر بعض احکام کو قبول کر نا اللہ کی تشریعی ربوبیت پر ایمان رکھنا ہے تو بعض احکام کا انکار اور ان کی جگہ کسی دو سری چیز کے تسلیم کرنے کا مطلب کسی دو سرے کو معبود تسلیم کر لینا ہے ۔ پس جو لوگ دین میں تفر قہ اندازی کے قائل ہیں وہ گویا حقیقت میں مشرک ہیں ۔

( وَ اَنَّ هَذَاصِرَٰاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاَتَّبِعُوْهُ ) ( ۴ )

''اور یہ ہمارا سیدھا راستہ ہے اس کا اتباع کرو ۔۔۔''۔

____________________

۱۔سورئہ ما ئدہ آیت۵۹۔

۲۔سورئہ روم آیت ۳۱۔

۳۔سورئہ روم آیت ۳۲۔

۴۔سورئہ انعام آیت۱۵۳۔

۲۰۸

ایک دو سرے مقام پر خدا ئے یکتا و یگانہ کی پر ستش کو''سیدھا راستہ''کہا گیا ہے ۔

( وَاَنِ اعْبُدُونِیْ هَذَٰا صِرَٰاط مُسْتَقِیْم ) ( ۱ )

''اور میری ہی عبادت کرنا یہی صراط مستقیم اورسیدھا راستہ ہے ''۔

( وَلَا تَّتَبِعُّواالسُبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیِْلِهِ )

''اورمختلف راستوں پر نہ چلوکیونکہ اس طرح راہ خداسے بھٹک کر بکھر جاؤ گے''۔

( ذَٰلِکُم وَصَّٰکُمْ بِهِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ) ( ۲ )

''اس لئے پروردگار نے ہدایت کی ہے کہ تم اس طرح شاید متقی اور پرہیز گار بن جاؤ''

یہا ں سے ہم پر اُس آیت کا مفہوم با لکل واضح ہو جا تا ہے کہ جس میں خد وند عالم فر ماتا ہے:

( وَاعْتَصِمُوْابِحَبْلِ ﷲ جَمِیْعاً وَلَا تَفَرَّقُوْا ) ( ۳ )

''اور ﷲکی رسی کو مضبوط پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو ''۔

یہاں پر تفر قہ سے مراد اللہ کے دین اور اللہ کی راہ سے تفر قہ کر نا ہے ۔خدا کے راستے سے منحر ف نہ ہونا اس لئے کہ یہ اختلاف اور جدائی کا با عث ہے ۔تمہا ری وحدت اور یکجہتی کاوسیلہ یہی ہے کہ تم سب کے سب خدا کی راہ میں،ایک راستہ اور ایک مقصد کی طرف حر کت کرو ۔دو سرے وسائل تمہا رے متفرق ہو نے کا با عث نہ بنیں۔

( اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَکَانُواشِیَعاً لَسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْ ئٍ ) ( ۴ )

''جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے''۔

اس بنا پر اسلام کا تقاضا ہے کہ جو کچھ بھی خدا نے بھیجا ہے کسی بھی دور میں کسی بھی نبی پر کیوں نہ بھیجا ہوان کو تسلیم کیا جا ئے ۔یہ بات اس بات کی نشا ندہی کر تی ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کی تعلیمات میں کو ئی تنا قض و تضاد نہیں پایا جاتا ، اس لئے کہ اگر ان میں تضاد ہوتا اور ایک کا قبول کر نا دوسرے کے قبول نہ کر نے کا سبب بنتا تو انسان کے لئے ہرایک

____________________

۱۔سورئہ یس آیت۶۱۔

۲۔سورئہ انعام آیت۱۵۳۔

۳۔سورئہ آل عمران آیت ۱۰۳۔

۴۔سورئہ انعام آیت ۱۵۹۔

۲۰۹

کا قبول کر نا ممکن نہیں تھا جب ہم خدا کی نازل کی ہوئی تمام چیزوں کو قبول کر تے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے درمیان کو ئی اختلاف نہیں ہے اگر جزئی احکام میں بعض اختلاف ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکم اُس زمانہ تک معتبر تھا یا کسی خاص شخص اورگروہ کے لئے خدا وند عالم کی طرف سے ایک مخصوص حکم یا دستور آیا تھااور دوسرے افراد بھی ان قوانین کا ان کے لئے صحیح اور بجا ہونا قبول کر تے ہیں ۔ تورات پر ایمان کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم اس زمانہ میں بھی تو رات کے حکم پر عمل کر یں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بنی اسرائیل اور اُن کے زمانہ سے مخصوص تھا اور توریت میں بغیر کسی تحریف کے آیا ہے اس کو صحیح اور حق سمجھیں لیکن اس زمانہ میں خدا وند عالم کے قوانین پر عمل کر نے کے متعلق ہم کو یہ دیکھنا چا ہئے کہ اس دور میں خداوندعالم ہم سے کیا چا ہتا ہے ۔

پس کسی پیغمبر پر ایمان لاناتمام انبیا ء علیہم السلام پر ایمان رکھنے کا بھی متقاضی ہے ،کیونکہ سب کا ایک ہی راستہ ہے ۔

اگر حقیقت میں کو ئی حضرت مو سیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام یاحضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان رکھتا ہے تو اس کو تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان لا نا چا ہئے ۔کیا حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد آنے والے نبی کی لوگوں کو بشارت نہیں دی تھی ؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے کی بشارت نہیں دی تھی ؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر تو ایمان رکھتا ہو لیکن جس نبی کاخود حضرت عیسیٰ علیہ السلام تعارف کرائیں ان پر ایمان نہ لا ئے یہ انکار،حقیقت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعو ت کا انکار ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ جنھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو قبول کیا ہے اور ان کے دین پر عمل کر تے ہیں حقیقت میں وہ مومن ہیں یا یہ کہ وہ جا نتے ہیں کہ یہ پیغمبروہی پیغمبر ہے کہ جس کے آ نے کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بشارت دی تھی اور ان پر ایمان لا نے کی سفارش کی تھی اور یہ ان کے مومن ہو نے کے لئے کا فی ہے ۔

بلکہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا اس کی بنیاد پر جو لوگ اس زمانہ میں اپنے کو کسی گزشتہ نبی کا پیروسمجھتے ہیں اگر ان پر حجت تمام ہو گئی ہو اور حضرت محمد خا تم النبیینصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبو ت ان کے لئے ثابت ہوتو ان کا خود اپنے نبی پر ایمان لا نا تقاضا کر تا ہے کہ وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی ایمان لا ئیں، آج کے دور میں حضرت مو سیٰ علیہ السلام کاپیرو حقیقی یہو دی وہی ہے جو مسلمان ہو ،اس لئے کہ یہو دیت کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے فر مایا ہے اس کو تسلیم کریں ،حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے فر ما یا تھا کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں تو ان کی مدد کرنا اور ان کی دعوت پر لبیک کہنا ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی فرمایاتھا :

( وَ مُبَشِّراً بِرَسُوْ لٍ یَا تِیْ مِنْ بَعْدِیْ اِسْمُهُ اَحْمَد )

۲۱۰

پس حقیقی نصرانی یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اتباع کر نے والا وہ ہی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کو تسلیم کر تا ہو ۔

کو ئی فرق نہیں ہے چا ہے یہودی ہو ،نصرانی ہو یا مسلمان سب کو اسلام اور خدا کے سامنے سر تسلیم خم کر نا ہے۔حقیقی یہو دی وہی ہے جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان رکھتا ہو ،اور حقیقی مسلمان وہی ہے جو حضرت مو سیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا اقرار کر تا ہو لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس دور میں جو چا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تابع ہو جا ئے اور جو چا ہے حضرت مو سیٰ علیہ السلام کا تابع ہو جا ئے ۔حضرت مو سیٰ علیہ السلام کا پیرو وہ ہے جو حقیقت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت اگر اس کے لئے ثابت ہو گئی ہو تو اس پر ایمان رکھتا ہو ۔ ورنہ اس نے حضرت موسیٰ کی نبوت کے بعض حصہ کو قبول نہیں کیا ہے ،اور جب ایک حصہ کو قبول نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے پوری نبوت ِمو سیٰ علیہ السلام کو تسلیم نہیں کیا ہے ،اس لئے ہم عرض کر چکے ہیں کہ کسی چون و چرا اور کسی قید و شرط کے بغیر قبول کرنا چا ہئے۔اگرایساہو تو پھر کو ئی اختلاف ہی با قی نہیں رہ جاتا ۔ حضرت مو سیٰ پیغمبر ہیں اور جب تک آپ کی نبوت کے لئے کو ئی نا سخ نہ آجا ئے اس وقت تک آ پ کے لا ئے ہو ئے احکام کی اطاعت وا جب ہے۔اگر ہم بھی اس زمانہ میں ہو تے تو تو رات کے قوانین پر عمل کر تے ۔بعد کے زمانہ میں اگر بعض احکام تبدیل ہو چکے ہوں تو جدید احکام پرہی عمل کر نا چاہئے ویسے ہی کہ جیسے خود حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہو کہ اب اس کے بعد اس طرح عمل کرنا ۔

پس معلوم ہوا کہ دین ایک ہے اور دین کے کچھ احکام میں جزئی قسم کا اختلاف دین کو دو نہیں کرد یتا ،ہمیشہ سے یہی دین تھا اور ہمیشہ یہی دین رہے گا ۔

۲۱۱

ادیان کے اختلاف کی وجہیں

ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ ادیا ن الٰہی کے در میان بعض احکام میں جزئی اختلافات پا ئے جا تے ہیں لیکن تمام ادیان کی اساس و بنیاد ایک ہی ہے ،اور سب کو ایک ہی دین شمار کیا جا سکتا ہے پھر بھی کچھ ایسے اسباب پیش آئے جس کے تحت بنیادی طور پر ایک دین دو سرے دین کا مخا لف نظر آنے لگا ہم یہاں اس طرح کے بعض اسباب و عوا مل بیا ن کر رہے ہیں:

۱۔بغا وت و سر کشی

قر آن نے اس بات پر زور دیاہے کہ یہ اختلافات نا حق قسم کی دین سے بغا وت ا ور سر کشی اور ایک دوسرے پر تسلط کی ہوس سے وجود میں آئے ہیں ۔متعدد آیات میں اس بات کی تا کید ہے کہ ادیان کے ما بین اختلافات نہ جہالت کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں اور نہ ہی اس وجہ سے ہیں کہ ان کے درمیان حقیقت میں اختلافات موجودتھے بلکہ یہ اختلافات علما ئے اہل کتاب کی سرکشی اور نفسانی خو ا ہشات کی وجہ سے پیداہو ئے ہیں ، انھو ں نے ا پنے ذاتی اغراض و مقاصد کی وجہ سے یہ اختلافات ایجا د کئے ہیں ۔آئیے اس موضوع سے متعلق آیات کا جا ئزہ لیتے ہیں :

۲۱۲

( وَمَااخْتَلَفَ فیهِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَاجَائَ تْهُمُ الْبَیِِّنٰتُ بَغْیاًبَیْنَهُمْ ) ( ۱ )

''اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا سوائے ان لوگوں کے کہ جن کے درمیان کتاب نا زل ہوئی ہے اور جن پر دلیلیں واضح ہوچکی تھیںصرف آپس میں بغاوت اور تعدی کی بناء پراختلاف کر بیٹھے ''۔

( وَمَااخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوتُواالکِتَٰبَ اِلَّامِنْ بَعْدِ مَا جَائَ هُمُ الْعِلْمُ بَغْیاًبَیْنَهُمْ ) ( ۲ )

''اہل کتاب نے محض علم ملنے کے بعد تسلط کی ہوس میںایک دوسرے سے اختلاف کیا ہے'' ۔

( وَئَ اتَیْنَٰهُمْ بَیِِّنَاتٍ مِنَ الْامْرِ فَمَااخْتَلَفُوْااِلَّامِنْ بَعْدِمَاجَائَ هُمُ الْعِلْمُ بَغْیاً بَیْنَهُمْ ) ( ۳ )

''اور انھیں اپنے امرکی کھلی ہوئی نشانیاں عطا کردیں پھر ان لوگوں نے اختلاف نہیں کیا مگر یہ کہ جب علم مل گیاآپس میں ایک دوسرے پر تسلط کی غرض سے اختلاف کر بیٹھے''۔

( وَمَاتَفَرَّقُوْااِلَّامِنْ بَعَدَمَاجَائَ هُمُ العِلمُ بَغِیاًبَینَهُمْ ) ( ۴ )

'' اور ان لوگو ں نے آپس میں تفر قہ اسی وقت پیداکیا ہے جب ا ن کے پاس علم آچکا تھا اور یہ صرف تسلط پسندی کی وجہ سے تھا ''۔

( وَمَاتَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوتُوْاالکِتَٰبَ اِلَّامِنْ بَعْدِمَاجَائَ تْهُمُ البَیِّنَةُ ) ( ۵ )

' ' اور یہ اہل کتاب متفر ق نہیں ہو ئے مگر اس وقت جب ان کے پاس کھلی ہو ئی دلیل آگئی'' ۔

پس امتوں پر خدا کی حجت تمام ہے ، اس نے ایک ہی دین اور ایک ہی راستہ تمام امتو ں کیلئے معین فرمایا اوریکے

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت۲۱۳۔

۲۔سورئہ آل عمران آیت۱۹۔

۳۔سورئہ جاثیہ آیت۱۷۔

۴۔سورئہ شوریٰ آیت۱۴۔

۵۔سورہ بینہ آیت ۴۔

۲۱۳

بعددیگرے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ بھیج دیا( ثُمَّ اَرْسَلْنَارُسُلُنَا تَتْریٰ ) اور وہ سب ایک ہی راستہ ،اور ایک ہی دین کی دعوت دیا کر تے تھے خدا اور اس کے نبیوں کی جا نب سے کوئی اختلاف نہیں تھااور لوگوں پر حجتیں بھی تمام کی جا چکی تھیں مگر یہ اختلافات خود امتوں خا ص طور سے علما ئے اہل کتاب کی سر کشی کی بناء پر وجود میں آگئے ۔

اس بات کو پیش نظررکھیں تو بعض آیات سے جو شبہہ پیدا ہوتا ہے اس کا جواب معلوم ہو جا تا ہے ۔

مثا ل کے طور پر ایک آیت میں ارشا د ہو تا ہے :

( اِنَّ الَّذِیْنَ ئَ امَنُوْاوَالَّذینَ هَادُوْاوَالصَّٰبِئُوْنَ والنَّصَٰرَیٰ مَنْ ئَ امَنَ بِاللَّهِ وَالیَوْمِ الآخِرِوَعَمِلَ صَالِحاًفَلَاخَوف عَلَیْهِمْ وَلَاهُمْ یَحَزَنُوْنَ ) ( ۱ )

''بیشک جو لوگ ایمان لا ئے یا جو لوگ یہودی ،ستارہ پرست اور عیسائی بن گئے ہیں ان میں جو بھی ﷲ اور آخرت پر واقعی ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا اس کے لئے نہ خوف ہے اور نہ اُ سے حزن ہوگا ''۔

اس آیت سے بعض لو گو ں کو شبہہ ہواہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ خدا وند عالم اِس زمانہ میں بھی مختلف ادیان کو قبول کر لے گا ،اور اس زمانہ میں بھی کسی کے یہو دی یا نصرانی ہو نے اور اپنے دین پر عمل کر نے میں کو ئی حرج نہیں ہے ۔

جو باتیں ہم نے عرض کی ہیں انکے پیش نظر اگر کسی شخص کے لئے بعدکے دین کا صحیح ہو ناثا بت ہو جائے (البتہ اگر ثابت نہ ہو تو وہ ''مستضعف ''ہے اور یہ ایک دو سری بات ہے )اور اسکے با وجود وہ پہلے دین کو اختیار کئے رہے تو کسی صورت میں بھی یہ دین قبول نہیں کیا جا ئے گا :( فَلَنْ یُقْبَل منهُ ) کیونکہ وہ خود جانتا تھا کہ خداوند عالم نے فر مایا ہے کہ اس دین کی پیروی کر واوراس نے پیروی نہیں کی اسکا انکار کیا اور کسی ایک نبی کا انکا ر کرنا گو یا تمام انبیاء علیہم السلام کا انکار کر نا ہے۔لہٰذا اسکا کو ئی مطلب نہیں ہوگاکہ اسلام جو فر ماتا ہے تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان ضروری ہے، اگر تم نے ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کیا تو گو یا تمام انبیاء علیہم السلام کا انکار کیا ہے اسکے با وجود اسکی نظر میں اسلام کے آنے کے بعد بھی اگرکوئی یہو دی اپنے دین پر عمل کر ے تو اسمیں کو ئی حرج نہ ہو یہ تناقض ہے اور معقول نہیں ہے کہ اسلام آئین یہو دیت اور نصرا نیت پرعمل کر نے کی اس دور میں میں بھی اجازت دیدے ہاں اگرکسی نے خود اپنے زمانہ کے دین پر عمل کیا ہے تو اُسکا اجر محفوظ ہے اگر کہیں اس زمانہ میں بھی مستضعف افراد ہوں اور جس حد تک انکے لئے حجت تمام ہو چکی ہے اس پر عمل پیرا ہوں تو وہ مستضعفین کا حکم رکھتے ہیں اوربقیہ احکام اور

____________________

۱۔سو رئہ ما ئدہ آیت۶۹۔

۲۱۴

فرائض دینیہ انکے لئے ثابت نہیں ہیں لیکن اگر کسی کے لئے ثا بت ہوجا ئے یا اس نے دین کی معرفت اور تلاش میں واقعی طور پر کو تا ہی کی ہو تو اس صورت میں اگر وہ دین سابق کے تمام دستورات پرمو بہ مو عمل کرے تو بھی اسکا عذرقبول نہیں کیا جا ئگا ۔''فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ''۔

( اِ نَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَالَّذِیْنَ هَادُوْاوَالصَّٰبِئِیْنَ وَالنَّصَٰارَیٰ وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِیْنَ اشْرَکُوْااِنَّ ﷲ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیَٰمَةِ اِنَّ ﷲ عَلَیٰ کُلِّ شَیْئٍ شَهِیْد ) ( ۱ )

''بیشک جو لوگ ایمان لا ئے اور جنھو ں نے یہو دیت اختیار کی یا ستا رہ پرست ہو گئے یا نصرانی اور آتش پرست ہو گئے یا مشرک ہو گئے ہیں خدا قیا مت کے دن ان سب کے درمیان یقینی فیصلہ کر دے گا کہ ﷲ ہر شیٔ کا نگراں اور گوا ہ ہے ''۔

ظا ہر ہے کہ یہ آیت ان تما م گروہو ں کی تا ئیدمیں نہیں آئی ہے بلکہ یوم حساب سے خبر دارکررہی ہے۔ ارشاد ہو تا ہے کہ جن لو گو ں میں یہ اختلافات پا ئے جا تے ہیں اور وہ حق کو قبول کرنا نہیں چا ہتے ایک دن خدا وند ان کا فیصلہ کر ے گا اور ہرایک کو (اس کے اعمال کے مطابق) جزاء یا سزاء دے گا ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا ان کی تا ئید کر رہا ہے چو نکہ اس میں ''الَّذِ یْنَ اشْرَکُوْ''بھی موجود ہے حالانکہ قرآن کا صاف اعلان ہے( اِنَّ ﷲ لَایَغْفِرُاَنْ یُّشْرَکَ بِهِ ) ''اور شرک کرنے والوں کو نہیں بخشے گا' '۔

پس واضح ہے کہ یہ آیت مقامِ تا ئید میں نہیں ہے ما قبل آیت میں بھی خدا نے کہاہے مو منین ، یہود ، نصا ریٰ ستا رہ پرست اگر صرف اپنے با ایمان ہو نے کا دعویٰ کر یں یا اپنے کو یہو دی یا نصرانی کہلا ئیں تو یہ کو ئی میزان و معیار نہیں ہے بلکہ معیار یہ ہے کہ وہ ﷲ پر ایمان رکھتے ہوںاور اس کے قوا نین و احکام پر عمل پیرا ہو ں، اب ان کا نام کچھ بھی ہولیکن ﷲپر ایمان کا لا زمہ یہ ہے کہ اس کی نا زل کی ہو ئی تما م چیزوں پرایمان ہو اور اگرخدا کی نا زل کر دہ چیزوں پر ایمان نہ ہو توخدا اور اسکی آیا ت کا انکا ر کفر ہے ۔

پس اگر اس آیت میں اپنی جگہ فرض کر لیں کہ کچھ ابہام پا یا جاتا ہے تو بھی اس سے پہلے کی آیت کی روشنی میں ختم ہو جاتا ہے اور زیادہ سے زیا دہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ آیت متشا بہات میں سے ہے اور وہ آیت محکمات میں سے ہے جو اس شبہہ کو دور کرتی ہے حالانکہ اگر ہم خود آیت پر غو ر و فکر کریں تو اس مطلب کو بخو بی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ آیت اس بات کو بیان کر رہی ہے کہ یہ تمام عنا وین اور گروہ بندیاں سعا دت اور شقاوت ( بد بختی )کا معیا ر نہیں ہیں۔ خدا نا موں کو

____________________

۱۔سورہ حج آیت ۱۷۔

۲۱۵

نہیں دیکھتا بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ کیا یہ شخص خدا اور قیا مت پر ایمان رکھتا ہے اور کیا اس نے عمل ِصالح انجام دیاہے یا نہیں ۔

سوال یہ ہے کہ عملِ صالح کس کو کہتے ہیں ؟عملِ صا لح اس عمل کو کہتے ہیںکہ جس کا خدا نے حکم دیا ہو ۔ اب اگر خدا وند عالم اپنے کسی بندہ کو ایک کام انجام دینے کا حکم دے اور وہ اس کی مخا لفت کر ے تو کیا یہ مخا لفت عمل ِ صالح ہے؟!عمل صالح کے تحت جس شخص کیلئے حجت تمام ہو چکی ہوچا ہے وہ کسی بھی زما نہ میں ہوئی ہو،اسے خدا وند عالم کے دستور کے مطابق عمل انجا م دینا چا ہئے ۔

ا س بات کے قطع نظر ہم قر آنِ کریم میں دیکھتے ہیں کہ خدا وند عالم نے صرف مشر کین اور انہی ادیان کے منکرین سے ہی جنگ کر نے کاحکم نہیں دیا ہے بلکہ خدا تو اہلِ کتاب کی نسبت بھی فر ماتا ہے ''ان سے جنگ کرو یہا ں تک کہ وہ دین حق کو قبول کر لیں یا جزیہ دینے پر آما دہ ہو جا ئیں اگر وہ جزیہ دیں تو تم ان کو قتل نہ کر نا'' یعنی ظا ہر ی طور پروہ تمہا رے سا منے سرِ تسلیم خم کر دیںگے اور اسلا می ملک میں زند گی بسر کر یںگے لیکن یہ ان کی سعا دت کی ضمانت نہیں ہے ۔اب اگر ان کا دین حق ہے اوراسلا م اسکی تا ئید کر تا ہے تو پھر خدا نے ان سے جنگ کر نے کا حکم کیوںصادر فر مایا ہے ؟:

( قَاتِلُوْاالَّذِیْنَ لَایُوْمِنُوْنَ بِﷲ وَلَابِالْیَوْ مِ الْآخِرِوَلَایُحَرِّمُوْنَ مَاحَرَّمَ ﷲ وَرَسُوْلُهُ وَلَایَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْاالْکِتَا بَ حتَّیٰ یُعْطُوْاالْجِزْیَةَ عَنْ یَدٍ وَهُمْ صَاغِرُوْنَ ) ( ۱ )

''اہل کتا ب میں سے جو لوگ خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جس چیز کو خدا اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرا م نہیں سمجھتے اور دین حق کو قبول نہیں کر تے ان سے جنگ کرویہا ں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ذلت کے ساتھ تمہیں جز یہ ادا کرنے پر آما دہ ہو جا ئیں''۔

البتہّ شیعی روایات میںہم دیکھتے ہیں کہ یہ حکم اُسی زمانہ سے مخصوص تھا اورآخری حکم جو حضرت امامِ زمانہ کے ذریعہ جا ری ہو گا وہ یہ ہے کہ حضر ت کے ظہور کے زما نہ میں ان (اہل کتا ب) سے جزیہ بھی قبول نہیں کیا جا ئیگا بلکہ جو معا ملہ تمام کافرو ں کے ساتھ ہو گا وہی معا ملہ ان کے ساتھ بھی ہو گا ۔

بہر حال اس با ت میں کو ئی شک نہیں ہو نا چا ہئے کہ قر آ ن کی نظر میں عصر حا ضر کے تمام ادیا ن قا بل قبو ل نہیں ہیں اس لئے کہ اگر دین،دین حق ہے تو تمام انبیا ء علیہم السلام کو قبو ل کر ے گا اور کسی بھی نبی اور کتاب کے بارے میں فر ق کا قا ئل نہیں ہو گا ۔

____________________

۱۔سورئہ تو بہ آیت ۲۹۔

۲۱۶

۲۔تحریف

آج الٰہی اد یا ن میںبہت سی با تیں تحر یف کر دی گئی ہیں ۔ قرآنِ کریم نے یہ بات صرا حت کے ساتھ بیا ن کی ہے کہ علما ئے اہل کتاب بہت سی باتیں اپنی طرف سے گڑھ لیتے اور ان کو خدا کی طرف منسو ب کر دیا کر تے تھے یہا ں تک کہ کچھ مطالب لکھ کر کہدیاکر تے تھے کہ یہ کتا بِ خدا ہے۔ تا ریخی طور پر بھی یہ بات مکمل طو رسے ثابت ہے کہ گز شتہ تمام ادیان تحر یف کی نظر ہو چکے ہیں اوربنیا دی طور پر اگر کو ئی ان ادیا ن کی مو جو دہ کتا بو ں کا مطا لعہ کرے تو اس کو ان کتا بوں میں بہت سی متضا د با تیں مل جا ئینگی اور چونکہ ہم اس وقت تا ریخی اسنا د کی تحقیق نہیںکر ر ہے ہیں لہٰذا ا س موضوع سے دلچسپی رکھنے وا لے حضرا ت کو اس سلسلہ میں لکھی جا نے وا لی متعددکتا بو ں کے مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں( ۱ ) خود قر آ ن کریم کی آیات بھی اس بات کی شا ہد ہیں کہ اہل کتاب تحریف سے کام لیتے تھے ۔

( فَوَیْل لِلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْهِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هَٰذَامِنْ عِنْدِﷲ لِیَشْتَرُوْابِهِ ثَمَنا ًقَلِیْلاً فَوَیْل لَّهُمْ مِمَّاکَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَوَیْل لَهُمْ مِمَّایَکْسِبُوْنَ )

''پس وا ئے ہو ان لو گو ں پر جو اپنے سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاںسے (آئی ) ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے تھو ڑا فا ئدہ حا صل کر لیں پس تف ہے اس پرجو انھوں نے اپنے ہا تھو ں سے لکھاہے اور پھر تف ہے اس کما ئی پر جو انھوں نے کما ئی ہے ''۔

ظا ہر ہے کہ اس کام میں ان کے ما دی مفادات تھے ۔ احتما ل ہے کہ کچھ ایسے حُکّا م تھے جو اپنے اغراض و مقاصد کے تحت علما ئے اہلِ کتا ب کو رقم دیا کر تے تھے کہ وہ وحی کے عنوا ن سے کچھ مطالب لکھیں اور لو گو ں کے سامنے پیش کریں :

( وَاِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِیْقاً یَلْوُوْنَ اَلْسِنَتَهُمْ بِالْکِتَابِ لِتَحْسَبُوْهُ مِنَ الْکِتَابِ وَمَاهُوَمِنَ الْکِتَابِ وَیَقُوْلُوْنَ هُوَمِنْ عِنْدِﷲ وَمَاهُوَمِنْ عِنْدِﷲ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی ﷲالْکَذِ بَ وُهُمْ یَعْلَمُوْنَ ) ( ۲ )

''ان ہی یہو دیو ں میں بعض وہ ہیں جو کتاب خدا کے اندازمیں باتیں کر تے ہیں تا کہ لوگ خیال کریں کہ ان کی باتیںکتاب خدا کی با تیںہیںحا لانکہ وہ خدا کی کتاب نہیں ہے اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب ﷲ کی طرف سے

____________________

۱۔نمونہ کے طور پر ملا حظہ فر ما ئیں الھدیٰ الیٰ دین المصطفیٰ ،شیخ جوا د بلا غی ۔

۲۔سورئہ آل عمران آیت ۷۸۔

۲۱۷

ہے حا لا نکہ ﷲ کی طرف سے ہر گز نہیں ہے اور خود جا نتے ہیں کہ وہ خدا کے خلا ف جھوٹ باندھ رہے ہیں '' ۔

دوسری جگہ ارشاد ہو تا ہے:

( اَ فَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُوْمِنُوْا لَکُمْ وَقَدْکَانَ فَرِیْق مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلَا مَ ﷲ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهُ مِنْ بَعْدِ مَاعَقَلُوْهُ وَهُمْ یَعْلَمُوْنَ ) ( ۱ )

'' کیا تمھیں امید ہے کہ یہ یہو دی تم پرایمان لے آ ئیں گے جب کہ ان کا ایک گروہ کلامِ خدا کو سن کر تحریف کر دیتا تھا حا لانکہ سب سمجھتے بھی تھے اور جا نتے بھی تھے ''۔

اس تحریف میں تحریف لفظی اور تحریف ِ معنو ی دونوں ہی کا امکان پا یا جا تا ہے یعنی ممکن ہے وہ حتی کلام کی لفظیں تو یاد رکھتے ہوں لیکن اس کلام کی تفسیر با لرّائے کر تے ہوں اور معا نی بدل کر کلام پر حمل کر تے ہوں لیکن دوسری آیات میں آیا ہے کہ وہ لفظو ں میں بھی ردّو بدل کیا کر تے تھے ۔

معلوم ہوا قرآن کی رو سے اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ یہو د و نصا ریٰ کی کتا بو ں میں ایسے جعلی اور تحریف شدہ مطالب مو جو د ہیں جو خدا وند عا لم کی طرف سے نا زل نہیں ہو ئے ہیں ۔ ہم اجما لی طورپرآپ کی اطلاع کے لئے ان تحریفات کے دو نمونوں کی طرف اشا رہ کر تے ہیں :

تو ریت میں آیا ہے کہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام کا فلا ں سال انتقا ل ہوا ۔اب ان سے یہ سوا ل کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ کتاب وہی ہے جو حضرت مو سیٰ علیہ السلام پر نا زل ہو ئی ہے تو اس میں یہ کیسے لکھ دیا گیا کہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام کافلا ں سال انتقال ہوا ؟کیا خو د حضرت مو سیٰ علیہ السلام فر ما سکتے ہیں کہ حضرتِ مو سیٰ علیہ السلام کا فلاں سال انتقال ہو ا ہے؟ !

جہاں تک انجیل کا سوال ہے خو د نصا ریٰ بھی یہ دعو یٰ نہیں کر تے کہ یہ وہی خدا کی طرف سے نا زل شدہ کتاب ہے ۔ ان کے پاس اس وقت چار انجیلیں ہیںجبکہ اس سے پہلے ان کے پاس اس سے بھی زیا دہ انجیلیں تھیں اور ان چا روں انجیلو ں کو ایک خاص شخص نے تحریر کیا ہے کہ جن کے نا موں سے یہ انجیلیں منسوب ہیں ۔ ان میں بھی اس طرح کی داستا نیں مو جو د ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فلاں دن آئے اور اپنے شا گر دوں کے ساتھ بیٹھے ان سے کہا اور اس کے بعد فلاں جگہ چلے گئے وغیرہ کسی تا ریخی کتاب کے مثل ہے ۔خو د وہ لو گ بھی یہ دعو یٰ نہیں کر تے کہ

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت۷۵۔

۲۱۸

یہ وہی کتاب ہے جو حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام پر نا زل ہو ئی تھی ۔ البتہ ان کا کہنا ہے کہ بعد میں حضرتِ عیسیٰ کے شا گر د و ں نے انجیل کے مطالب کو اس شکل میں منظّم و مر تّب کیاہے اور ان انجیلو ں کا مطالعہ کر نے والا شخص خوب جانتا ہے کہ یہ خدا وند عالم کی نا زل کی ہو ئی کتا بیں نہیں ہیں ۔

بہر حال ادیا ن سلف کی اتباع کر نے وا لو ں کے پاس مو جو دہ کتا بیں تحریف شدہ ہیں اور ان کا کوئی اعتبار بھی نہیں ہے ۔

احکام کے جزئیات میںادیان ایک نہیں ہیں

ہم نے ملا حظہ کیا کہ اکثر ادیان میں اختلافات اہل کتاب کی سرکشی کی وجہ سے ظا ہر ہو ئے اور انھو ں نے خدا کی کتاب میں تحریف بھی کی ،لیکن ایسا نہیں ہے کہ تمام ادیان کے جز ئی احکام مشتر ک ہوں قرآ ن کریم اس مطلب کے متعلق فر ما تا ہے :

( لِکُلٍ جَعَلْنَامِنْکُمْ شِرْعَةًوَمِنْهٰاجاًوَلَوْشَٰائَ ﷲ لَجَعَلَکُمْ اُمَّةً وَاحِدَةً وَلٰکِنْ لِیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآئَ اتَٰکُمْ ) ( ۱ )

''ہم نے سب کے لئے الگ الگ شریعت اور راستہ مقررکردیا ہے اور خدا چاہتا تو سب کو ایک ہی امت بنادیتا لیکن وہ اپنے دیئے ہوئے قانون سے تمہاری آزمائش کرنا چاہتا ہے۔۔۔''۔

شریعت وہ راستہ ہے جو نہر پر ختم ہو تا ہے اور شرعہ بھی اسی راستہ نیز اس راستہ کو کہا جاتا ہے جو کسی ہدف و مقصد تک پہنچتا ہے ۔شرع ، شرعہ اور شریعت بھی ایک ہی مادہ سے ہیں ۔شارع بھی اسی ما دہ سے ہے جس کے معنی سڑک اور عام راستے کے ہیں ۔

اس آیۂ شریفہ کا مطلب یہ ہے کہ سب ایک ہی پروگرام نہیں رکھتے تھے اس بات کی تا ئید خداوند عالم کا یہ فرمان کر تا ہے :( وَلَوْشَائَ الله لَجَعَلَکُمْ اُمَّةً وَاحِدَ ةً ) یہ جملہ ممکن ہے دو سرے مطلب کی نشا ندہی کر رہا ہو جو دوسری آیات میں مو جو د ہے کہ اگر خدا چا ہتا تو سب کو ایک امت قرار دیتا یعنی سب کوزبر دستی حق کی ہدایت کرتا لیکن یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ اگر چا ہتا تو امتوں پر نازل ہو نے والے مختلف احکام کو یکساں و برابر قرار دیتا لیکن حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ احکام کے درمیان کم و بیش اختلافات پا ئے جا ئیں( لِیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَااٰتٰکُمْ )

____________________

۱۔سورئہ ما ئدہ آیت ۴۸۔

۲۱۹

تاکہ ان احکام کے متعلق یاجو کچھ خدا وند عالم نے تم کو عطا کیا ہے وسیلۂ آزما ئش قرار پا ئیںایک امت کے لئے امتحان وآزما ئش کے وسایل کچھ تھے اور دوسری امت کیلئے کچھ اور تھے پس معلوم ہوا کہ احکام جزئیات میں امتوں کے درمیان اختلافات پا ئے جا تے تھے ۔اس سے بھی زیادہ واضح یہ آیت ہے :

( لِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَامَنْسَکاًهُمْ نَاسِکُوهُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ ) ( ۱ )

''ہر امّت کے لئے ایک طریقہ قرار دیا کہ اس پر وہ عمل کریں لہٰذا اس امرمیں ان لوگوں کو آپ سے الجھنانہیں چاہئے آپ انھیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں ''

اورتقریباً یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لازم و ضروری بھی تھا کہ تمام امتوں کے لئے احکام کے جزئیات یکساں نہ ہوں ،مثال کے طور پر مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ عربی زبان میں نماز پڑھیں توکیا بنی اسرائیل کی نماز بھی عربی زبان میں تھی ؟کسی شخص نے یہ دعویٰ نہیں کیا یایہ کہ انھیں بھی کعبہ کی طرف رخ کر کے نما ز پڑھنے کاحکم تھا ؟ ایسا نہیں ہے۔ قر با نی کا طریقہ ،روزہ کا حکم ،وقت اور ان کی تعداد یکساں نہیں تھی ؟اس با رے میں متعدد روا یتیں مو جود ہیں پس معلوم ہوا یہ جو کہا جاتا ہے کہ تمام امتوں کا دین یا شریعت ایک ہے اس سے اصل احکام کا ایک ہونا مرادہے ، لیکن ان کے انجام دینے کے طور طریقوں میں اختلاف ہو سکتا ہے۔

جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کئے گئے تو آپ نے فر مایا :

( وَلِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ ) ( ۲ )

''اور میں بعض چیزوں کو حلال قراردیتا ہوںجوتم پر حرام تھیں''۔

یہ آیت صاف صاف بیان کر تی ہے کہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی شریعت میں بہت سے کام ان کی امّت کے لئے حرام تھے جن کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حلال قرار دیدیاتھا۔

حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے با رے میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبَٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الخَبَٰئِثَ ) ( ۳ )

____________________

۱۔سورئہ حج آیت۶۷۔

۲۔سورئہ آل عمران آیت۵۰۔

۳۔سورئہ اعراف آیت۱۵۷۔

۲۲۰