راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 119954
ڈاؤنلوڈ: 2218

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119954 / ڈاؤنلوڈ: 2218
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

''اورانھوں نے پاکیزہ چیزوں کو ان پر حلا ل قرار دیاہے اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیا ہے''۔

فی الجملہ کچھ چیزیں حلال ہوئیں اور کچھ چیزیں حرام ہوئیں اس میں کو ئی شک نہیںہے لیکن یہ منسوخ کیا جانا ویسے ہی ہے جیسے خود ایک شریعت میں کوئی ایک چیز بعد میں منسوخ کر دی جا ئے اور اسلام میں اگر کو ئی کہے کہ نسخ نہیں ہے تو یہ تو قرآن کی نص ودلیل ہے کہ تغییر قبلہ ایک منسوخ کیا جا نے والاحکم ہے اسی طرح کچھ دو سرے احکام بھی تھے جو منسوخ ہوئے ہیں۔ مختصر یہ کہ بعض احکام کا منسوخ ہوناخودایک شریعت میں بھی ممکن ہے اور کئی شریعتوں میں بھی اس کا امکان پایا جاتا ہے ۔اگر ایک شریعت میںکوئی چیز منسوخ کردی جا ئے تو اس کا مطلب گزشتہ شریعت کی تکذ یب نہیں ہے بلکہ وہ حکم بھی اپنے زمانہ میں حق تھا ۔

پس شریعتوں کے ما بین جزئی احکام میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دین کئی ہیں، بلکہ دین ایک ہے اور وہ اسلام ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام نے اسی دین کی دعوت دی ہے اور تمام مو منین اور مسلمانوں کو تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان رکھنا چا ہئے ۔اس مقام پر یہ مطلب بیان کر دینا بیجا نہ ہوگا کہ جب ہم کسی پیغمبر سے اس کا دین قبول کرلیں تو ہم کو ا س کے احکام میں فرق کر نے کا کوئی حق نہیں ہے ،اس لئے کہ ایسا کر نا دین کے تمام پہلوؤں کا انکار کر دینے اور تمام انبیاء علیہم السلام کا انکار کر نے کے مثل ہے ، ایک دین کے تمام ارکان و دستور پر بغیر کسی قید و شرط کے ایمان رکھنا چا ہئے۔

خداوند عالم اہل کتاب کی سر زنش کر تے ہوئے ارشاد فر ماتا ہے :

( اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَاجَزَائُ مَنْ یَفْعَلُ ذَٰلِکَ مَنْکُمْ اِلّاخِزْی فِی الْحَیَٰوةِ الدُّنْیَاوَیَوْمَ الْقِیَٰمَةِ یُرَدُّوْنَ اِلَیٰ اشَدِّالْعَذَابِ وَمَاﷲ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ) ( ۱ )

''کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان رکھتے ہو اور ایک حصے کا انکار کردیتے ہو؟ایسا کرنے والوںکی سزا سوائے اسکے کہ زندگانی دنیا میں ذلیل ہوں اور قیامت کے دن سخت ترین عذاب کی طرف پلٹا دیے جائیں کچھ نہیں ہے اور ﷲ تمہارے کرتوت سے بے خبر نہیں ہے ۔''

اس آیت سے بھی تا ئید ہو تی ہے کہ دین کے بعض احکام کو قبول کر ناور بعض احکام کو رد کرناگو یا اس کے تمام احکام کورد کردینا ہے اوراس سلسلہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ مرتدضروریات اسلام میں سے کسی ایک ضرورت کا انکار کر نے سے کا فر ہوجاتا ہے ، یعنی اس دنیا میں بھی اس کا خون ضائع ہو جاتا ہے اور آخرت میں بھی وہ کفار کے ساتھ محشور کیا جائے گا ۔

پس ہما رے لئے تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوت اور ان کی تمام تعلیمات پر ایمان ضروری ہے اور ان بزرگواروں کے احکام میں سے کسی ایک حکم کا جان بوجھ کرانکارکرناگویا تمام احکام کے انکار کر نے کے مانند ہے ۔

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت۸۵۔

۲۲۱

رہنما کی پہچان

انبیاء علیہم السلام

معارف قرآن کے ذیل میں ہم اب تک چار مو ضوعات :

۱۔ خدا کی معرفت

۲۔دنیا کی پہچان

۳۔انسان کی شناخت

۴۔راستے کی پہچان پر گفتگو کر چکے ہیں۔

پیش نظر حصہ( رہنما کی معرفت )کے با رے میں ہے جو انبیاء علیہم السلام کے متعلق بحث کے لحاظ سے راستہ کی پہچان کا ہی ایک حصہ کہا جا سکتا ہے ۔اس بحث کوچھیڑ نے سے پہلے دو با توں کا بیان کر دینا ضروری ہے :

قرآن میں تا ریخی مباحث کا محور

قرآن مجید میں انبیا ء علیہم السلام اور ان سے متعلق مطالب کے سلسلہ میں بہت سی آیات ہیںجن میں قرآن کے تاریخی زا ویۂ نگاہ کا ایک اہم حصہ موجودہے ۔ یہاںیہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مو رخین نے اپنی تمام بحثوں میں (چا ہے وہ داستان نویس ہوں یا تاریخ نگار اپنے تا ریخی جا ئزوں میںانسان کے مادی پہلو ؤں کو محور قرار دیا ہے۔ وقا ئع نگا روں نے عام طور سے تاریخ کا محور بادشاہوں اور حکمر ا نوں کو بنایا ہے اور ان ہی کے حالات کے مطابق تا ریخ قلمبند کی ہے البتہ ان کے ذکر کے ذیل میں معا شر ے اور قوموں کے حالات بھی ذکر کر دیئے ہیں۔کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کی تواریخ میں جن سے تاریخ نگا ری کا ایک اہم حصہ تشکیل پاتا ہے بحث کا محور حکومت ہے البتہ جن افراد نے تا ریخ کے با رے میں تجزیہ وتحلیل سے کام لیا ہے زیادہ ترعوام اور ملتوں کے مسائل پر زور دیا ہے ، ان میں ایک گروہ نے تاریخ کا محور اقتصاد کو قرار دیا ہے جیسے مارکسسٹ حضرات جو تا ریخی حوا دث کا اقتصاد کے محور پر معا شرے کے معا شی حالات کے پس منظر میں جا ئزہ لیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ تاریخ کا اصل پہیّا اقتصاد ہے اور انسانی معا شروں میں جو تغیر و تبدل ہو تے ہیں پیدا وار کے و سائل میں رو نما ہو نے والی تبدیلی کی وجہ سے ہوا کر تے ہیں۔ تجزیا تی تاریخ لکھنے والوں کے بعض دو سرے گروہ اگر چہ دو سرے اسباب و محر کات پر بھی زور دیتے ہیں لیکن انھوں نے زیادہ تر آدمی کے مادی پہلو ؤںاور اس کی دنیا وی اور حیوانی زند گی پر اعتماد کیا ہے۔

۲۲۲

قرآن مجید کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے تا ریخ کا محورمعنویت کو قرار دیاہے ۔ قرآن کے تما م مبا حث کے مانند قرآن کی تا ریخی دا ستانوں کا محور بھی'' توحید ''ہے۔اور قرآن کر یم کے تاریخی واقعات اسی محور کے ارد گرد گھو متے ہیں۔یہی وجہ ہے قرآن کی تاریخی واقعات کے مر کزی کر دار انبیاء ہیں جن کا معاشرہ میں اثر و رسوخ خدا کی وحدانیت اور یکتا پر ستی کی دعوت کے ساتھ ، خدا کی اطاعت اور دوسرے تمام معنوی امور سے وا بستہ ہے ۔یہ بہت ہی اہم بات ہے جو ہم کو قرآن سے سیکھنا چا ہئے اور ما دہ پر ستوں کے نظریوںکی اتباع کر نے سے پر ہیز کر نا چا ہئے ، کیونکہ انسانوں کی انسانیت اس کے معنوی پہلو ؤںکے گرد گھو متی ہے اور حق یہی ہے کہ انسان اور انسانی معا شرے کی تا ریخ کا انسانی پہلوؤں کے اعتبار سے جا ئزہ لینا چا ہئے ،کیو نکہ اس صورت میں خدا وند عالم کی بندگی سے چا ہیں یانہ چا ہیںبہر حال رابطہ پیدا ہو جاتا ہے۔

قرآ ن مجید میں انبیاء علیہم السلام سے متعلق آیات کی تقسیم

قرآن کریم انبیاء علیہم السلام سے متعلق جومطالب بیان ہو ئے ہیں مجمو عی طور پر تین حصوں میں تقسیم کئے جاسکتے ہیں :

پہلے حصے میں وہ مطالب ہیںجو خود انبیاء علیہم السلام کے با رے میں ہیں اس سے قطع نظر کہ اُن کا لوگوں کے ساتھ کیا رابطہ رہا ہے ۔

دوسرا حصہ عوا م الناس کے ساتھ انبیا ء علیہم السلام کے رابطہ کے سلسلہ میں ہے جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ عوام الناس کاانبیاء کے ساتھ کیا رویّہ رہا ہے اور جواب میں انبیاء علیہم السلام عوام کے ساتھ کس طرح پیش آئے ہیں ۔

تیسرے حصہ میں بھی اس میں بھی انبیاء علیہم السلام کی مختلف قوموں کا ذکر ہے اور ان کی زندگانی کے تغیرات اور ان کے انجام کے با رے میں خبر دی گئی ہے ۔

یقیناً یہ آخری حصہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت سے غیر مر بوط نہیں کہا جا سکتا اگر چہ اس میں قوموںکے ساتھ انبیاء علیہم السلام کے براہ راست رابطہ کو ملحوظ نظر نہیں رکھا گیا ہے ۔یہ تینوں حصے بھی الگ الگ دو حصوں میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔

پہلے حصہ کے ایک جز ء میں مختلف انبیاء علیہم السلام میں عام طور پر مشتر ک بنیادی خصوصیات اور حالات بیان کئے گئے ہیں اور دوسرے جزء میں ہر نبی یا رسول کے مخصوص حالات بیان ہو ئے ہیں۔

۲۲۳

دو سرے حصہ کے بھی دو جزء ہیں ایک میں تمام انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں کے ساتھ دوطرفہ مختلف پہلوؤ ں کو بیان کیا گیا ہے اور دو سرے حصہ میں مخصوص انبیاء علیہم السلام کے اپنی مخصوص قوم سے مخصوص رفتا ر کا ذکر کیاگیا ہے۔ تیسرے حصہ کے پہلے باب میں مختلف قومو ں کے عمو می اور بنیادی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور دوسرے باب میں قومو ں کے خاص پہلوؤں کا بیان ہے ۔اس میںکوئی شک نہیں کہ مندرجہ بالا چھ قسموں کا تفصیلی جا ئزہ لینا قرآن مجید کی بیشمار آیا ت کے مطالعہ کے بغیرممکن نہیں ہے اور اس طرح کا تفصیلی جا ئزہ موجودہ بحث کے دا ئرے سے باہر ہے اس لئے ہم نے انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں کے ایک دو سرے سے بنیادی قسم کے تعلقات کے ذکرپر ہی اکتفا کی ہے ۔

قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے اوصاف

قرآن کریم کی بہت سی آیات میں تقریباً تمام انبیاء علیہم السلام کے اجتماعی اوصاف بیان ہوئے ہیں ہم یہاں ان ہی عمومی اوصاف کا ذکر کررہے ہیں

رسول ،نبی اورنذیر

قرآن کریم میں تین صفات نبی، رسول اور نذیر تمام انبیاء علیہم السلام کیلئے ذکر ہوئے ہیں اسکے علاوہ دوسرے صفات بھی بیان کئے گئے ہیں جو یا تو عمومیت نہیں رکھتے یا پھر انبیاء علیہم السلام کی خصوصیت کے عنوان سے تنہاذکر نہیں ہواہے ۔مثال کے طور پر قرآن کریم میں ''بشیر''کی صفت انبیاء علیہم السلام کے لئے ذکر ہوئی ہے لیکن وہ کہیں پر بھی تنہا استعمال نہیں ہوئی ہے۔اسکے بر خلاف نذیر کی صفت تنہا بھی ذکر ہوئی ہے حالانکہ بہت سی آیات میں بشیر اور نذیر ایک دوسرے کے پہلوبہ پہلو ذکر ہوئے ہیں ۔ (مبشرین ومنذرین،نَذِیْراًوبشیرا) قرآن پیغمبروں کا نذیر کے عنوان سے تعارف کرتے ہوئے کہتاہے:

( وَاِنْ مِنْ اُمَّةٍ اِلّٰا خَلاٰ فِیْها نَذِیر ) ( ۱ )

''اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والانہ گذرا ہو''۔

لیکن قرآن کریم میں کہیں لفظ'' بشیر ''تنہا نہیں آیا ہے۔یہ ایک نفسانی اور تربیتی نکتہ ہے اور اس چیز پر دلالت کرتا ہے کہ انسان کی تعمیر اور تربیت کیلئے ''انذار''یعنی خوف دلانا''تبشیر''یعنی بشارت دینے سے زیادہ اہم

____________________

۱۔سورہ فاطرآیت۲۴۔

۲۲۴

ہے۔دوسرے لفظوں میں ،انسان خوف کا عمل''امید''کے عمل سے بہت زیادہ مؤثر ہے ۔انسان جہاں اپنی زندگی میں تغیر اور تبدیلی ایجاد کرنا،اپنے کسی ارادہ سے منصرف ہونا اور دوسروں کی پیشکش پر کوئی دوسری رفتار منتخب کرنا چاہتا ہے اس کیلئے (انداز)کا عمل ''تبشیر''کے عمل سے کہیں زیادہ مؤثر ہے ۔شاید اسی بنیاد پر قرآن نے پیغمبروں کے لئے صفات کے طور پر تنہا ''نذیر''کی خصوصیت کو بیان کیا ہے ''بشیر''کی خصوصیت تنہا بیان نہیں کی ہے ،بہر حال قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے لئے تین اسماء نبی،رسول اور نذیر عمومیت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں ۔

نذیر ڈرانے والے اور خوف دلانے والے کو کہتے ہیں ۔ہروہ پیغمبر جو انسان کی رہنمائی اور انسانوں کی ہدایت کیلئے مبعوث ہوتاہے اس کی دعوت''انداز''کے ساتھ ہوتی ہے ۔وہ لوگوں کو برے کاموں کے انجام سے ڈراتا ہے اور غلط قسم کے عقائد و افکار کے عقاب سے ان کو خوف دلاتاہے تاکہ وہ ان کو اس طرح کے غلط کاموں سے روک سکے ۔

رسول اس شخص کو کہتے ہیں جو پیغام کا حامل ہوتا ہے اور ایک شخص کی طرف سے دوسرے شخص کی طرف بھیجا جاتاہے اور یہ بات پورے مکمل یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بہت سے انبیاء علیہم السلام خداکی طرف سے لوگوں کیلئے رسالت یعنی (پیغام )کے حامل رہے ہیں ۔خدا مرسل ہے ،لوگ ''مرسل الیھم''ہیںاور انبیاء علیہم السلام بھی ''رسول''یا''مرسل''ہیں۔درحقیت ''پیغمبر''اور پیمبر فارسی میں ''رسول''کو ہی کہتے ہیں ۔

ان تینوں صفات میں نبی کا مفہوم زیادہ وضاحت چاہتا ہے:جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ لفظ نبی کی اصل کے سلسلے میں بہت زیادہ اختلافات ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ اس لفظ کا مادّہ ''نبوت'' رفعت یا (بلندی)کے معنی میں ہیں اور بعض دوسرے افراد کہتے ہیں کہ یہ ''نبأ''سے مشتق ہے اور اس کے معنی ''خبر''کے ہیں ۔شاید دوسرا احتمال زیادہ قوی ہو اگر چہ معنویت اور انسانیت کے لحاظ سے تمام انبیاء علیہم السلام بہت ہی بلند و بالامقام رکھتے ہیں اوروہ معاشرہ کے ممتاز افراد ہوتے ہیں لیکن خدااور انسان کے مابین ان کی وساطت کے بیان میں ان کی رفعت و بلندی کی طرف اشارہ کرنے کی کوئی مناسبت سمجھ میں نہیں آتی ۔لہٰذا قوی احتمال یہی ہے کہ نبی کا اصل مادّہ ''نبأ ''ہو اور نبی وہ ہے جس کے پاس ایسی خبریںہو ں کہ جن سے دوسرے بے خبر ہوںاور یہ مخصوص خبریں وہی غیب کی خبریں ہیں ۔ اس بیان کی روشنی میں ہم نبی اس شخص کو کہہ سکتے ہیں جو غیب کی اطلاع رکھتاہو اور اسکے پاس غیب کی خبریں ہوں۔

۲۲۵

رسول اورنبی کا فرق

نبوت اور رسالت کے مفہوم اور ان دونوں کے مصداق آپس میں کیا نسبت رکھتے ہیں اس پر بہت زیادہ بحثیں ہوئی ہیں ۔یقینا اگر نبوت اور رسالت کے مفہوم کے درمیان عام خاص مطلق کی نسبت پائی جاتی ہوتو قدرتی طور پر ان دونوں کے مصداق میں بھی وہی نسبت ہوگی لیکن ان دونوں لفظوں کے لغوی معنی سے یہ بات واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ ان دونوں مفاہیم کے درمیان کوئی اشتراک نہیں ہے ۔نبوت کا مطلب چاہے رفعت ہو اور چاہے حاملِ خبر ہونا ہو رسالت کا مفہوم یہ نہیں ہے ۔ہاں رسالت کا لازمہ یعنی خداوند عالم کی طرف سے پیغام کے حامل ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ رسول اس پیغام سے مطلع ہو۔لیکن مفہوم رسالت میں نبوت کے معنی شامل نہیں ہیں۔ ہاں اس کے لوازم کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ نبوت کا مفہوم رسالت کے مفہوم میں شامل ہے۔

مصداق کے اعتبار سے بھی (جیسا کہ آیات اور ان سے بھی زیادہ صریح انداز میں روایات سے استفادہ ہوتاہے)نبوت اور رسالت کے درمیان عام خاص مطلق کی نسبت ہے ممکن ہے کوئی کہے کہ نبوت کا رسالت سے اعم ہونے کا دعویٰ بعض آیات کے ظاہری مطالب کے ساتھ سازگار نہیں ہے مثال کے طورپر خداوند عالم بعض آیات میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِیًّ اِلّٰ ) ا( ۱ )

''اورہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا رسول یا نبی نہیں بھیجا ہے کہ۔۔۔''۔

حالانکہ اگر نبی رسول سے اعم ہوتا تو خداوندعالم کو( وَمَااَرْسَلْنَامِنْ نَبِیٍّ ) فرمانا چاہیے تھا اور رسول کا ذکر نہیں کرنا چاہئے تھا ۔اس لئے کہ جب عام کا ذکر کردیا جائے تو خاص بھی اس کے ضمن میں آجاتا ہے ۔اس بناء پر خاص کا عام کے پہلو میں ذکر کرنا بلاغت کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔اسی طرح خداوند عالم بعض انبیاء علیہم السلام کے بارے میں فرماتاہے :

( وَکَانَ رَسُولًا نَبِیّاً ) ( ۲ )

''۔۔۔اور رسول ونبی تھے ''۔

حالانکہ مقام توصیف میں خاص کے بعد عام ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی ۔یہ ویسی ہی ہے کہ جیسے کہا جائے :''فلاں شخص(قفہا میں)اعلم ہے اور فقیہ بھی ہے ''تو ظاہر ہے کہ (اَعْلَم)ْ کے اندر فقیہ کے معنی موجود ہیں۔

____________________

۱۔سورئہ حج آیت۵۲۔

۲۔سورئہ مریم آیت۵۱۔

۲۲۶

اگر رسالت کیلئے نبوت لازمی ہوتو نبی ہونے کا رسول ہونے کے بعد ذکر کرنا مناسب نہ ہوتا۔

علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں اس اعتراض کا جواب دیا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ ''نبی''اور ''رسول'' دومتباین اور مختلف مفہوم رکھتے ہیں اگر چہ رسالت کیلئے نبوت بھی لازم ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ نبوت کا مفہوم رسالت کے مفہوم میں شامل ہو ۔رسول قاصد اور ایلچی کو کہتے ہیں یعنی وہ شخص جو ایک چیز کسی شخص سے لیکر دوسرے شخص تک پہنچانے کے لئے واسطہ ہو اور نبی اس کو کہا جاتا ہے جو اہم غیبی خبریںرکھتا ہے ۔یہ دو مفہوم ایک دوسرے سے جدا ہیں اور اگر مصداق کے اعتبار سے ایک دوسرے کیلئے اخص ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ دونوں مفہوم کے اعتبار سے مشترک ہیں دوسرے لفظو ں میں ان کے درمیان عام خاص کی نسبت مصدا ق کے اعتبار سے ہے مفہو م کے اعتبار سے نہیں ۔

ان دونو ں میں فرق کیا ہے؟ علامہ طبا طبا ئی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے ما بین رسول اس شخص کو کہا جاتا ہے جو خا ص رسا لت کا حا مل ہو کبھی انبیاء علیہم السلام کلی طو ر پر خداوند عالم کی عبا دت ،اطاعت اور راہِ حق پر (جو خدا وند عالم کی بند گی کی راہ ہے )گا مزن رہنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن کبھی خدا وند عالم کی طرف سے امت کے لئے خاص پیغام رکھتے ہیں اس بنا ء پر جس کے پاس خدا وند عالم کی طرف سے مخصوص پیغام ہو رسول کہا جاتا ہے اور جو کلی طور پر لو گوں کو راہِ حق کی دعوت دیتا ہے اس کو ''نبی''کہتے ہیں ان دونوں مفہو مو ں کے مدّ نظر( ''کَانَ رَسُوْلاً نَبِیّا ) ً''کی اس طرح تو جیہ کی جا سکتی ہے :''رَسُوْ لاً''یعنی خا ص قو م کیلئے مخصوص رسالت رکھتا ہے اور''نَبِیّاً'' یعنی غیبی خبر و ں سے آگا ہ تھا ۔ اس صورت میں تکرا ر کی مشکل پیش نہیں آ ئیگی۔ آیت( مَااَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ مِنْرَسُوْلٍ وَ لَانَبِیٍّ ) میں ان ہی دو مقام کی طرف اشارہ ہے ۔ ممکن ہے دو مقام کسی شخص میں جمع ہو جا ئیں اور ممکن ہے کسی شخص میں جمع نہ ہو ں ۔ لہٰذا یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر رسول نبی بھی ہو آیت میں بھی مقامِ رسالت اور مقا مِ نبوّت رکھنے وا لوںکا ذکر ہے لیکن یہ ثابت کر نے کیلئے تما م رسول مقا مِ نبوّت کے بھی حا مل ہو تے ہیں کسی دو سری دلیل کی ضرو رت ہے ۔

مندر جہ بالا تو جیہ نبو ت اور رسالت کے لغوی مفہوم کے ساتھ بھی سا ز گار ہے ۔ البتہ علّا مہ طبا طبا ئی نے ایک دوسرے فرق کی طرف بھی اشا رہ کیا ہے جو پہلے فرق کے بر خلاف اِن دونوں لفظوں کے لغوی معنی سے قا بلِ استفا دہ نہیں ہے بلکہ اس کا ماخذ روایات ہیں اس طرح کی روا یات اصولِ کا فی میں بھی ہیں جن میں سے ایک روایت میں آیا ہے :رسول وہ ہے جو فر شتۂ وحی کو بیداری کے عا لم میں دیکھتا ہے اور اس سے گفتگو کر تا ہے لیکن نبی وہ ہے جس پر خواب میں وحی ہو تی ہے( ۱ ) جیسا کہ ہم نے عر ض کیا کہ یہ فرق لفظ رسول اور لفظِ نبی سے لغوی اعتبا ر سے حا صل نہیں ہو تا بلکہ یہ ایک خصوصیت ہے جو الگ سے بیا ن ہو ئی ہے

۲۲۷

انبیاء علیہم السلام کی تعداد

قرآن کریم کی کچھ آیات اس بات پر دلا لت کر تی ہیں کہ خدا وند عالم نے کثیر تعداد میں انبیا ء مبعوث کئے ہیں اور قرآنِ کریم میں ان میں سے صرف چند انبیا ء علیہم السلام کی داستان بیان کی گئی ہے۔ قرآنِ کریم میں صا ف طور پر ۲۵ انبیاء علیہم السلام کے اسما ئے گرامی کا تذ کرہ ہے لیکن یہ بھی صاف طور پر بیا ن کر دیا ہے کہ دوسرے انبیاء علیہم السلام بھی تھے جن کے نہ تو اسماء قرآنِ کریم میں بیان ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کی داستا نیں بیان ہو ئی ہیں لیکن پیغمبرو ں کی تعداد کتنی تھی یہ قر آ ن کر یم کے الفا ظ سے معلوم نہیں ہو تا ۔

روا یات میں بھی انبیاء علیہم السلام کی کثرت کی طرف اشا رہ ہے لیکن ان کی تعداد بہت کم روایتو ں میں بیا ن کی گئی ہے۔ ایک روایت میں پیغمبرو ں کی تعداد ایک لا کھ چو بیس ہزا ر اور رسو لو ں کی تعداد تین سو تیرہ معین کی گئی ہے۔( ۲ ) اب یہ روایت کتنی قا بلِ اعتما د ہے یہ الگ بحث ہے ۔ بہر حال اس طرح کی بات بعض روا یتو ں میں موجود ہے ۔

اب ہم مجمو عی طور پر ، انبیا ء علیہم السلام کے با رے میں نا زل ہو نے والی آیات کا تذ کرہ کررہے ہیں ارشاد ہو تا ہے :

( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا ) ( ۳ )

''اور یقینا ہم نے ہر امّت میںایک رسول بھیجاہے ۔۔۔''۔

کلمۂ امت کی وضاحت

جس امت کے لئے رسول بھیجا جا ئے اس سے کیا مرا د ہے ؟ امت کے لغت میں متعدد معنی ہیں منجملہ یہ کہ :انسا نو ں کے کسی مجمو عہ ، پیشوا ، راستہ اور زما نہ کو امت کہتے ہیں ۔ قر آ نِ کریم میں ''امةً وا حِدَ ةً '' ایک مشخص و معین زمانہ کے معنی میں استعمال ہو ا ہے ۔

____________________

۱۔ ملا حظہ کیجئے بہ: کلینی ، الکافی (الا صول ) ، کتا ب الحجة ، با ب الفرق بین الر سو ل والنبیّ والمحدَث ۔

۲۔بصا ئر الد رجات صفحہ ۱۲۱ ،الخصال صفحہ ۳۰۰ اور ۶۴۱ ۔

۳۔سورئہ نحل آیت۳۶۔

۲۲۸

اورایک مقام پر ارشاد ہو تا ہے :

( اِنَّ اِبْرَاهِیْمَ کَانَ اُمَّةً ) ''بیشک ابراہیم ایک مستقل امّت ہیں'' شا یدیہاں لفظ امت اما م کے معنی میں استعمال ہو ا ہے لیکن قر آنِ کریم میں زیا دہ تر مقا مات پر یہ کلمہ ''لو گو ں کے ایک مخصوص گر وہ ''کے معنی میں استعمال ہو ا ہے ۔اب یہ گروہ کن خصوصیات کا حا مل ہو کہ اس کو امت کہا جا سکے اس کی کو ئی وضا حت نہیں کی گئی ہے۔ بعض افراد کہتے ہیں امت یعنی لو گو ں کا وہ گروہ جن کا ہدف مشترک ہو یا ان کی زند گی بسر کر نے کا عنوا ن مشترک ہو یا ان کے ایک دو سرے سے کا فی روا بط مشترک ہوںلیکن قرآ ن ِ کریم میں اس لفظ کااستعمال اس تفسیر کے ساتھ موا فق نہیں ہے ۔

قرآن کریم میں حیوانوں کے گروہ کو بھی ( اُمَم ) کہا گیاہے :

( اِلَّااُمَم اَمْثَالُکُمْ ) ( ۱ )

''جو اپنی جگہ تمہاری طرح کی جماعت نہ رکھتاہو''۔

اس بناء پر کلمہ امت قرآن کریم میں تقریباً جماعت کے مساوی ہے۔یعنی کچھ افراد کا مجموعہ چاہے وہ انسان ہوں یا حیوان اب رہا قرآن کا یہ جملہ ''کہ ہر امت کیلئے ایک رسول تھا ،اس سے مراد انسانوں کا ہر گروہ''ہے لیکن قرآن نے اس اعتبار سے انسانوں کی کسی جماعت کو ایک مجموعہ یا گروہ شمارکیا ہے یہ بات واضح نہیں ہے ۔کسی شک و شبہ کے بغیر انسانوں کے مجموعہ پر ''امت واحد '' کا اطلاق ایک اعتبا ری امر ہے لیکن سوا ل یہ ہے کہ اس ا عتبار کی بنیاد اور معیا ر کیا ہے؟ جس طرح ہم اسکول میں طلبہ کی ایک جما عت کو ایک ساتھ سبق پڑھنے کے لحا ظ سے ایک جما عت یا کلاس کہتے ہیںیا ہم فو ج کی ایک جما عت کو ان کے درمیا ن مخصوص قو انین میں اشترا ک کی وجہ سے ایک یونٹ کہتے ہیں ۔اسی طرح انسانو ں کے مجموعہ کو بھی مشترکہ طو ر پر ایک ہی دین کے پیرو ہو نے کی وجہ سے ایک مجموعہ شمار کر سکتے ہیں ۔ دوسرے لفظو ں میں حضر ت مو سیٰ علیہ السلام کی شر یعت کی پیر وی کر نے والوں کو شریعت میں اشتراک کی وجہ سے '' حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی امت شما ر کر تے ہیں '' اب سوال یہ ہے کہ کیا ایک امت کے افراد کا ایک ہی زمانہ میں یا ایک ہی جگہ پر زند گی بسر کر نا یا ان کے درمیان اقتصا دی روا بط میں بھی اشترا ک پا یا جانا ''ایک امت '' شمار کر یں یا اسی طرح جگہ کے اشتراک کا لحا ظ کر تے ہو ئے جو لوگ کسی مخصوص جغرا فیا ئی حدود میں زند گی بسر کر رہے ہو ں ان کو بھی ''ایک امت''کہا جا سکتا ہے۔ اب یہ سوال پیش آ تا ہے کہ لفظ ''امت''سے مند ر جہ ذیل قسم

____________________

۱۔سورئہ انعام آیت ۸ ۳۔

۲۲۹

کی آیات میں کیا مرا د ہے ؟

( وَلَقَدْ بَعَثْنٰا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلاً ) ( ۱ )

''اور یقینا ہم نے ہر امّت میں ایک رسول بھیجا ہے ۔۔۔''۔

اور ایک آیت میں یہ ارشاد ہو تا ہے :

( وَاِنْ مِنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیْهَا نَذِیْر ) ( ۲ )

''اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گذراہو ''۔

یہا ں لفظ ''امت ''انسا نو ں کے کس طرح کے مجمو عہ کے لئے استعمال ہو ا ہے ؟ اور اس مجمو عہ کے درمیان وجہ اشتراک کیا ہے ؟ کیا اس سے مرا د یہ ہے کہ ہر زمانہ میں انسانو ں کا ایک ایسا مجموعہ رہا ہے کہ جن کی ہدا یت کے لئے پیغمبر مبعوث کئے گئے ہیں ؟یا امت سے مراد مخصو ص جغرا فیا ئی حدود میںرہنے والے افراد یا ایک ایسی قوم ہے جو ایک ہی زبان بو لتی ہو ؟

حقیقت یہ ہے کہ ان سوالات کے جوا بات قر آ ن کریم کی آیات سے نہیں ملتے ۔ ہاں یہ بات مسلّم ہے کہ قرآنِ کریم نے انسانو ں کے جن مجمو عہ کو امت شما ر کیا ہے ان کے با رے میں اعلان کیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک امت کے لئے کو ئی نہ کو ئی پیغمبر ضرور مبعوث ہو ا ہے لیکن قر آ ن کا کسی ایک مجمو عہ کو امت میں شما ر کر نے کا معیار ہمارے لئے آ شکار نہیں ہے ۔

انبیاء علیہم السلام کی کثرت

قرآ نِ کریم کی کچھ آیات صرف اس چیز پر دلالت کر تی ہیں کہ لو گو ں کے درمیان بڑی تعداد میں پیغمبر مبعوث کئے گئے ہیں ۔

خدا وند عالم کا ارشاد ہے:

( اِذْ جَائَتْهُمْ الرُّسُل ُ مِنْ بَیْنِ اَیْدِ یْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ ) ( ۳ )

____________________

۱۔سورئہ نحل آیت۳۶۔

۲۔سورئہ فاطر آیت۲۴۔

۳۔سورئہ فصلّت آیت۱۴۔

۲۳۰

''جب ان کے پاس سامنے سے اور پیچھے سے ہمارے نمائندے آئے ۔۔۔''۔

یہ آیت اس بات پر دلالت کر تی ہے کہ انبیائے الٰہی کی تعداد اس قدر زیا دہ تھی گو یا ان کے آگے پیچھے انبیاء علیہم السلام ہی انبیاء علیہم السلام تھے ۔ اسی طرح خدا وند عالم ارشاد فر ماتا ہے :

( ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا ) ( ۱ )

''اور اسکے بعد ہم نے مسلسل رسول بھیجے ۔۔۔''۔

یہ آیت بھی اس بات کی طرف اشا رہ کر تی ہے کہ کم و بیش ہر زمانہ میں پیغمبر مو جو د تھے اور خداوند عالم کا ار شاد ہو تا ہے :

( وَ لِکُلِّ اُمَّةٍ رَسُوْل ) ۔۔)( ۲ )

''اور ہر امّت میںایک رسول ہو اہے ۔۔۔''۔ان آیات میں مجمل طور پر یہ حقیقت بیان ہو ئی ہے کہ خدا وند عالم نے قو موں اور امتو ں کے در میان بڑ ی تعداد میں نبیوں کو مبعوث کیا ہے لیکن اس بات کی وضا حت نہیں ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی تعداد کتنی تھی اور کیا ہر زمانہ میں صرف ایک ہی پیغمبر رہا ہے یا ایک ہی زمانہ میں ایک سے زیا دہ پیغمبر بھی مبعوث کئے گئے ہیں ۔

قرآنِ کریم سے تو نہیں مگر کچھ دوسری دلیلو ں سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ کبھی کبھی ایک ہی وقت اور ایک ہی زمانہ میں متعدد پیغمبر مبعوث ہو ئے ہیں اسی طرح حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے وا قعہ سے مر بوط آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام آپ کے ہم عصر تھے اور حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کی شریعت کی پیروی کر تے تھے ۔ علاوہ ازین کچھ آیات سے کئی پیغمبروں کا ایک ہی زما نہ میں موجود ہو نا پتہ چلتا ہے ۔خدا وند عالم کا ارشا د ہو تا ہے :

( اِذْاَرْسَلْنَا اِلَیْهِمُ اثْنَیْنِ فَکَذَّبُوْ هُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ ) ( ۳ )

''اس وقت جب ہم نے ان کے پا س دو رسولوں کو بھیجا لیکن ان لوگوں نے ان دونو ں کو جھو ٹا خیال کیاتو ہم نے ایک تیسرے پیغمبر کے ذریعہ ان دونو ں کی تا ئید کر دی ''۔

ان تمام با توں کے با وجو د کچھ اور سوا لا ت بھی ہیں جن کے جوا بات قرآ ن کی آیات سے حا صل نہیں ہو تے جیسے گذ شتہ امتو ں میں ہر ایک کے درمیان مبعوث کئے جا نے والے انبیا ء کے نام اور دوسری تفصیلات کیا ہیں؟ کیا

____________________

۱۔سورئہ مومنون آیت۴۴۔

۲۔سورئہ یونس آیت۴۷۔

۳۔سورئہ یس آیت ۱۴ ۔

۲۳۱

کوئی زمانہ ایسا بھی گذر اہے کہ جس وقت لو گو ں کے درمیان کوئی پیغمبر مو جو د نہ رہا ہو ؟ یہ وہ سوا لات ہیں کہ جن کے صاف و صریح جوا بات ظوا ہر آیات سے پتہ نہیں چلتے البتہ آخر ی سوا ل کے با رے میں کچھ اس طرح کے مشترک مضمون کی حا مل روا یات مو جو د ہیں ''لَا تَخْلُوْالْاَرْضَ مِنْ حُجَّةٍ'' ( ۱ )

''زمین کبھی حجتِ خدا سے خا لی نہیں رہ سکتی ''۔

لیکن اس روایت سے بھی مندرجہ بالا آخر ی سوال کا جو ا ب صریح طور پر نہیں دیا جا سکتاچو نکہ حجت نبی اور رسول دو نو ں کو کہتے ہیں اور اس میں امام (اور پیغمبر کے وصی ) بھی شا مل ہیں اس بنا ء پر اس روایت کے سہا رے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتاکہ انسانو ں کے درمیان کسی فا صلے کے بغیر ہمیشہ پیغمبر مو جو د رہے ہیں ۔

یہا ں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہم مسلما نو ں کے عقیدے کے مطابق پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدزمین و زمان کا پیغمبر سے خا لی ہو نا مسلّم ہے اور یہ بات ضروریاتِ اسلام سے ہو نے کے علاوہ جو آیات نبوّت کے ختم ہو نے پر دلالت کر تی ہیں ان سے بھی اس کا پتہ چلتا ہے لیکن ہم کو قر آنِ کریم سے کو ئی ایسی دلیل نہ مل سکی جس کے تحت پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کی مو جو د گی ثابت ہو ۔

قرآنِ کریم کی آیات سے ایک اور بات جس کا پتہ چلتا ہے یہ ہے کہ صرف کچھ ہی انبیائے الٰہی کے اسما ء اور ان کے حا لاتِ زند گی قرآنِ کریم نے بیان کئے ہیں ، تمام انبیاء علیہم السلام کی داستان قرآنِ کریم میں بیان نہیں ہو ئی ہے ۔خدا وند عالم ارشا د فر ماتا ہے

( اِنَّااَوْْحَیْنَا اِلَیْکَ کَمٰااَوْحَیْنَااِلیٰ نُوْحٍ وَالنَّبِیِّینَ مِنْ بَعْدِهِ وَاَوْحَیْنَااِلیٰ اِبْرَاهِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبٰاطِ وَعِیْسٰی وَاَیُّوْبَ وَیُوْنُسَ وَ هٰرُوْنَ وَسُلیْمَٰنَ وَاٰتَیْنَا دَاوُوْد َزَبوُراً وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلاً لَمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْکَ وَکَلَّمَ ﷲ مُوْسیٰ تَکْلِیْماً ) ( ۲ )

''ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح نوح اور ان کے بعد کے انبیاء کی طرف وحی کی تھی اور ابراہیم ،اسماعیل ،اسحاق ،یعقوب،اسباط، عیسیٰ، ایوب،یونس، ہارون، اور سلیمان کی طرف وحی کی ہے اور داؤد کو زبور عطا کی ہے اور بہت سے رسول (بھیجے) جن کے قصے ہم آپ سے پہلے ہی بیان کرچکے ہیں اور بہت سے ایسے رسول (بھیجے) جن کا تذکرہ ہم نے تم سے نہیں کیا ہے اور ﷲنے تو موسیٰ سے (کھل کر ) با تیں بھی کی ہیں ''۔

____________________

۱۔الکا فی (الاصول )کتا ب الحجة بابا نَّ الاَ رْ ضَ لَا تَخْلُوْ ا مِنْ حُجَّةٍ ۔

۲۔سورئہ نساء آیت ۱۶۳۔۱۶۴۔

۲۳۲

ایک دوسری آیت میں ارشا د ہو تا ہے :

( وَلَقَدْ اَرْسَلْنَارُسُلاً مِنْ قَبْلِکَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَاعَلَیْکَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ ) ( ۱ )

''اور ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ آپ سے کیا ہے اور بعض کا تذکرہ بھی نہیں کیا ہے ۔۔۔''۔

ان آیا ت سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ پیغمبروں کی تعداد اُن سے کہیں زیا دہ ہے کہ جن کی داستان قرآنِ کریم میں بیان کی گئی ہے ۔

انبیاء علیہم السلام کی جنس

قر آنِ کریم نے انبیاء علیہم السلام کے با رے میں ایک با ت عمومیت کے ساتھ یہ بیان کی ہے کہ تما م انبیاء علیہم السلام صرف مرد ہو ئے ہیں :

( وَمَااَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ اِلّٰارِجَالًا نُوحِیْ اِلَیْهِمْ مِنْ اَهْلِ الْقُرَیٰ ) ( ۲ )

''او ر (اے رسول )آپ سے پہلے بھی ہم نے آ با دیو ں میں رہنے وا لے ان مر دوں کے سواکہ جن پر وحی کی ہے کسی کو (رسول بنا کر ) نہیں بھیجا ''۔

( وَمَااَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ اِلّٰارِجَالًا نُوْحِیْ اِلَیْهِم فَسْئَلُوْااَهْلَ الذِّ کْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْ نَ ) ( ۳ )

''اور ہم نے آپ سے پہلے بھی سوا ئے اُن مَردوں کے کہ جن کی طر ف ہم وحی بھیجتے تھے کسی کو پیغمبر نہیں بنایا پس اگر تم خودنہیں جانتے ہوتو اہل ذکر سے دریافت کرو''۔

( وَمَااَرْسَلْنَاقَبْلَکَ اِلّٰا رِجَالًا نُوْحِیْ اِلَیْهِمْ ) ( ۴ )

''اور ہم نے آپ سے پہلے بھی سو ا ئے ان مر دوں کے کہ جن پرہم وحی کیا کرتے تھے کسی کورسو ل بنا کر نہیں بھیجا ''۔

چنانچہ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا مذکورہ آیات کے ظاہر بلکہ ان کے صاف و صریح بیان سے معلوم ہوتا ہے

کہ تمام پیغمبر مرد تھے اور عورتوں کے درمیان سے کوئی بھی پیغمبر مبعوث نہیں کیا گیا۔

____________________

۱۔سورئہ غافر آیت۷۸۔

۲۔سورئہ یوسف آیت۱۰۹۔

۳۔سورئہ نحل آیت۴۳۔

۴۔سورئہ انبیاء آیت۷ ۔

۲۳۳

اپنی قوم کا ہم زبان ہونا

قرآن کریم میں پیغمبروں کی ایک اور عمومی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ ہر پیغمبر کو امت کی زبان میں تبلیغ کے لئے بھیجا گیا ہے یعنی جو رسول جس مخصوص قوم کیلئے رسول بنا کر بھیجا گیا اس نے اسی قوم کی زبان میں گفتگو کی ہے یہاں تک کہ جو پیغمبر پوری دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے ان کو بھی جس قوم کے درمیان بھیجا گیا ہے اور جس قوم کے درمیان انھوں نے زندگی بسر کی ہے اسی قوم کی زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے ۔مندرجہ ذیل آیات انبیاء علیہم السلام کا خود اپنی قوم کا ہم زبان ہونا بیان کرتی ہیں۔

( فَاِنَّمَا یَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَّکَّروُنَ ) ( ۱ )

''پس ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان میں آسان کردیا ہے کہ شاید یہ لوگ نصیحت مان لیں ''۔

( نَزَلَ بِه الرّوُحُ الْاَمِیْنُعَلَیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنْذِرینَبِلِسَانٍ عَرَ بِیٍّ مُبِیْنٍ ) ( ۲ )

''اسے جبرئیل امین لے کرنازل ہوئے ہیں یہ آپ کے قلب پر نازل ہواہے تاکہ آپ لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرائیں یہ واضح عربی زبان میں ہے ''۔

یہ دوسری آیت اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم عام فہم عربی زبان میں نازل ہوا ہے:

( وَمَااَرْسَلْنَا مِنْ رَسُوْلٍ اِلَّا بِلِسِانِ قَوْ مِهِ لِیُبَیِّنَ لَهُمْ ) ( ۳ )

''اور ہم نے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کو خود اس کی زبان دے کر بھیجا ہے تا کہ ان کے سا منے بیان کرسکے ''۔

یہ آخری آیت اپنی قو م کا ہم زبان ہو نے کے علا وہ پیغمبر کے بھیجے جا نے کی غرض و غا یت کی طرف بھی اشارہ کر تی ہے : پیغمبر کو مبعوث کر نے کا ہد ف قوم تک اس ( پیغمبر )کے ذریعہ الٰہی اہداف و مقا صد پہنچانا ہے ۔ بنابرایں اگر پیغمبر کی زبا ن (جو قوم کے ساتھ رابطے کا اصل ذریعہ ہے ) اپنی قو م کی زبان سے مختلف ہو تو وہ کا مل طور پر

____________________

۱۔سورئہ دخان آیت۵۸۔

۲۔سورئہ شعراء آیت۱۹۳۔۱۹۵۔

۳۔سورئہ ابراہیم آیت۴۔

۲۳۴

رسالت کا فریضہ ادا کر نے اور اپنے مبعوث ہو نے کے اہدا ف و مقا صد کو پو را کر نے میں کا میاب نہیں ہو سکے گا ۔

دعوتِ توحید

قر آ ن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے عمو می اوصاف میں سے ایک خدا ئے واحد کی عبا دت کی دعوت بھی ہے اور قرآنِ کریم کی متعدد آیات اس چیز پر دلالت کر تی ہیں کہ تما م انبیاء علیہم السلام کی تبلیغ میں سرِ فہرست لوگو ں کو توحید کی دعوت دینا رہا ہے ارشاد ہو تا ہے:

( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُ مَّةٍ رَسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوْاﷲ وَاجْتَنِبُوْا الطَّاغُوْتَ ) ( ۱ )

'' اور در حقیقت ہم نے ہر امت میں ایک (نہ ایک) رسو ل ضرور بھیجا کہ کہے :لو گو !خدا کی عبا دت کرو او ر طاغوت کی پر ستش سے دور رہو ''۔

( وَمَااَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُوْ لٍ اِلَّانُوْحِیْ اِلَیْهِ اَنَّهُ لَا اِلٰهَ اِ لَّا اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) ( ۲ )

'' اور ہم نے آپ سے پہلے کو ئی رسو ل نہیں بھیجا مگر یہ کہ ان پر وحی کی کہ میرے سوا کو ئی معبود نہیں پس میری عبا دت کیا کرو ''

اوردوسرے سورہ میں ارشا د ہو تا ہے :

( اِذْجَائَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ اَلَّا تَعْبُدُ وْااِلَّا ﷲ ) ۔۔)( ۳ )

'' جب ان کے پاس ان کے آگے ، پیچھے ہما رے پیغمبر آ ئے (اور کہا ) خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کر نا ''۔

ہا ں ہر پیغمبر مسئلۂ تو حید اپنے خا ص طریقہ سے بیان کر تا تھا لیکن مجمو عی طور پر ان کی تعلیم کا ماحصل وہی خدائے یکتا کی پرستش تھی ۔ چنا نچہ بغیر کسی شک وشبہ کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام الٰہی انبیا ء کی دعوت کی اصل روح اورحقیقتِ مشتر کہ یہی تو حیدمسئلہ اور خد ائے وحد ہُ لا شریک کی پر ستش رہی ہے ۔

معا شرہ میں رائج برا ئیو ں اور بد عنو انیو ں سے جنگ

تمام انبیاء علیہم السلام خدا ئے وحدہ لا شریک کی عبا دت کی دعوت کے علاوہ کہ جس کی وہ سبھی عام طور پر دعوت دیا کر تے تھے اپنی امت میں رائج بد عنوانیو ں سے مقا بلے کے لئے اٹھ کھڑے ہو تے تھے ۔ نمونہ کے طور پر حضرت

____________________

۱۔سورئہ نحل آیت ۳۶۔

۲۔سورئہ ا نبیاء آیت ۲۵۔

۳۔سورئہ فصلت آیت۱۴ ۔

۲۳۵

شعیب کے زما نہ میں ''کم فروشی ''کا روا ج تھا ۔اس بنا ء پر حضرتِ شعیب علیہ السلام کوخا ص طور پر اس اقتصا دی بدعنوانی سے جنگ کے لئے بھیجا گیا تھا ۔وہ اپنی امت سے کہتے تھے :

( وْفُوا الْکَیْلَ وَلاَتَکُونُوا مِنْ الْمُخْسِرِینَ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیمِوَلاَتَبْخَسُوا النَّاسَ َشْیَائَهُمْ وَلاَتَعْثَوْا فِی الَْرْضِ مُفْسِدِینَ ) ( ۱ )

''(جب کو ئی چیز ناپ کر دو تو ) پیمانہ بھر کر دیا کرو (کم نہ دیا کرو ) اور (جب تو ل کر دو ) ٹھیک ترا زو سے (ڈنڈی سیدھی رکھکر )تو لو اور لو گو ں کے مال کی قیمت کم نہ لگا یا کرو ''

حضرت لوط علیہ السلام کے زمانہ میں ان کی امت کے درمیان عام طور پر بد چلنی شا ئع و رائج ہو چکی تھی لہٰذا حضرتِ لوط علیہ السلام اس معا شرتی برا ئی سے مقا بلے کے لئے مبعوث کئے گئے تھے خداوند عالم قر آنِ کریم میں ارشاد فر ماتا ہے :

( اَتَاتُوْنَ الذُّ کْرَانَ مِنَ العَٰلَمِیْنَ وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ بَلْ اَنْتُمْ قَوْم عَادُوْنَ ) ( ۲ )

''کیا تم سا رے جہان کے لوگو ں میں مر دوں ہی کے پاس جا تے ہو ؟اور خدا وند عالم نے جو بیبیاں تمہارے وا سطے پیدا کی ہیں انھیں چھو ڑ ے ہو ئے ہو ( نہیں ) بلکہ تم لوگ اپنی حد سے نکل گئے ہو''۔

فضیلت کے اعتبا ر سے مرا تب کا فرق

ایک اور اصو ل جس پر قرآنِ کریم نے بہت زیا دہ زور دیا ہے یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے درمیان فضیلت

اور کما ل کے لحا ظ سے فرق ہو تا ہے ،قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے:

( تِلْکَ الرُّ سُلُ فَضَّلْنَا بَعضَهُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ ) ( ۳ )

'' ان میں بعض رسو لو ں کو ہم نے بعض دو سرے رسو لو ں پر فضیلت دی ہے۔۔۔''۔

اور اس آیت سے ملتی جلتی دوسری آیت میں ارشاد ہو تاہے :

( وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیِّیْنَ عَلَیٰ بَعْضٍ ) ( ۴ )

____________________

۱۔سورئہ شعرأ آیت ۱۸۱۔ ۱۸۳۔ ۲۔سورئہ شعرا آیت۱۶۵۔۱۶۶۔

۳۔سورئہ بقرہ آیت۲۵۳۔ ۴۔سورئہ اسراء آیت۵۵۔

۲۳۶

''اور ہم نے یقینا بعض پیغمبروں کو بعض پرفضیلت دی ہے ''۔

ان آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تما م انبیائے الٰہی کما ل کے اعتبا ر سے مسا وی نہیں تھے اور معنوی مقا م کے اعتبار سے ایک دو سرے سے فر ق کر تے تھے ۔

اجر طلب کر نے سے پر ہیز

انبیا ء علیہم السلام کی ایک اور مشتر کہ خصو صیت یہ ہے کہ انھو ں نے ہر گز اپنی امت سے رسا لت کی راہ میں اٹھا ئی جا نے والی طا قت فرسا زحمتو ں کے عوض کو ئی اجر و مز دوری نہیں طلب کی ۔ انبیاء کی زبا نی یہ بات صاف طور پر نقل ہو ئی ہے کہ وہ اپنی امت سے مخا طب ہو کر فر ما یا کر تے تھے :

ہم تمہا ری رہنما ئی اور تعلیم و تر بیت کے عو ض تم سے کو ئی اجر نہیں چا ہتے کیو نکہ ہما ری اجرت خداوند عالم کے ذمہ ہے ۔ اس کے سلسلہ میں سب سے جا مع سورہ ، سورئہ شعراء ہے۔ جس میں پا نچ مقا مات پر پیغمبر وں کی داستان بیا ن کر نے کے بعد قرآن کہتا ہے:

( وَمَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عََلیٰ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) ( ۱ )

''اور اس (تبلیغ رسالت ) کے بد لے میں تم سے کو ئی اجرنہیں چا ہتا میری اجرت تو بس سا رے جہان کے پالنے وا لے (خدا ) کے ذمہ ہے ''۔

یہ آیت کہ جس میں حضرتِ نوح ، ہود، صا لح ، لوط اور شعیب علیہم السلام جیسے پیغمبروں کی حکا یت بیان ہوئی ہے واضح طور پر اس واقعیت سے پر دہ اٹھا تی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کسی بھی طرح کی تو قع یا مطالبہ اپنی زحمتو ں کے سلسلے میں لوگو ں سے نہیں رکھتے تھے اور ان کی امید صرف اور صرف خدا وند عالم کے فضل و کرم سے وابستہ تھی ۔ قر آن کریم کی چند آیات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی مانند لوگوں سے کسی طرح کے اجر کی تو قع نہیں رکھتے تھے :

( وَمَا تَسْئَلُهُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ هُوَ اِ لَّا ذِکْر لِلْعَالَمِیْنَ ) ( ۲ )

'' اور تم اس (کام ) کے بد لے ان سے کو ئی صلہ نہیں چا ہتے ۔ وہ (قرآن ) دنیا وا لو ں کے لئے نصیحت کے علا وہ اور کچھ نہیں ہے ''۔

____________________

۱۔سورئہ شعراء آیت۱۰۹،۱۲۷،۱۴۵،۱۶۴،۱۸۰۔

۲۔سورئہ یوسف آیت ۱۰۴۔

۲۳۷

( قُلْ مَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِِیْنَ ) ( ۱ )

''(اے رسول )آپ ان سے کہد یں میں تم سے نہ اس (تبلیغِ رسالت ) کا کو ئی بد لہ چا ہتا ہو ں اور نہ میں ان لو گو ں میں ہو ں کہ خود ساختہ چیزو ں کی خدا کی طرف نسبت دیدوں ''۔

بعض دو سری آیا ت میں اس حقیقت کو استفہا مِ انکا ری کی صو رت میں بیا ن کیا گیا ہے ۔

( اَمْ تَسْئَلُهُمْ اَجْراًفَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُوْ نَ ) ( ۲ )

''(اے رسول ) کیا آپ نے ان سے (تبلیغِ رسالت کا ) کو ئی صلہ ما نگا ہے اور ان لو گو ں پر تاوان میں (وعدہ پو را کر نے کا ) بھا ری بو جھ پڑ رہا ہے ؟!''۔

بغیر کسی شک و شبہ کے دو سو روں میں دہرا ئی جا نے والی اس آیت میں استفہام(اور سوالیہ انداز) استفہامِ انکا ری کی قسم سے ہے۔ لہٰذا اس آیت میں بھی ایک دو سرے رُخ سے یہی حقیقت بیان ہو ئی ہے کہ پیغمبراسلام نے اپنی امت سے تبلیغ رسالت کے سلسلے میں کسی اجر کا مطالبہ نہیں کیا ہے ۔

ابھی ذکر شدہ تمام آیات میں کسی بھی قسم کے اجر کی درخواست کا مطلق طور پر انکا ر ہے لیکن بعض دو سری آیات سے اس سلسلہ میں ایک طرح کے استثنا ء کا پتہ چلتا ہے :

( قُلْ لَاْ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبَیٰ ) ( ۳ )

''(اے رسول ) آپ کہدیں کہ میں اس ( تبلیغ رسالت ) کا اپنے قر ابتدا رو ں کی محبت کے سوا تم سے کو ئی صلہ نہیں چا ہتا ''۔

( قُلْ مَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍاِلَّا مَنْ شَائَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلَیٰ رَبِّهِ سَبِیْلاً ) ( ۴ )

''( ان لو گو ں سے )آپ کہد یں کہ اس (تبلیغ رسالت ) پر تم سے کو ئی اجر نہیں چا ہتا ہو ں مگر یہ کہ جو چا ہے اپنے پر ور دگار تک پہنچنے کی راہ اختیار کرے ''۔پہلی نظر میں ممکن ہے کو ئی یہ گمان کرے کہ مذ کو رہ دو آیتیں ایک استثنا ئے حقیقی ہیں اس معنی میں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ( تمام انبیا ء علیہم السلام کے بر خلاف اور دوسری آیات میں مذ کورہ خود اپنی گفتگو کے بر خلاف ( کہ جن

____________________

۱۔سورئہ ص آیت ۸۶۔

۲۔سورئہ طور آیت ۴۰ اور سورئہ قلم آیت ۴۶۔

۳۔سورئہ شو ریٰ آیت۲۳۔

۴۔سورئہ فر قان آیت۵۷۔

۲۳۸

میں کلی طور پر ہر طرح کے اجر کے مطالبہ کی نفی کی گئی ہے ) ان دو نو ں آیات میں لو گو ں سے تبلیغ رسالت کا اجر اور بد لا طلب کیا ہے لیکن پہلی نظر میں پیش آ نے والا یہ تصور صحیح نہیں ہے کیو نکہ ان دونو ں آیتو ں کے مطالب پر غور و فکر کرنے سے یہ بات روشن ہو جا تی ہے کہ جس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ ان چیزو ں میں سے نہیں ہے جو عام طو ر پر لوگ کسی عمل کے انجام دینے کے بعد مز دوری کے عنوان سے طلب کیا کر تے ہیں ۔ عر ف عام میں مزدو ری اس منفعت کو کہتے ہیں جو مزدوری دینے والا کسی مزدور کو دیتا ہے ۔ دوسرے لفظو ں میں یہ مز دو ری پا نے والا شخص ہے جو وہ اپنے انجا م دیئے گئے کام کے بد لے میں پا تا ہے اور اس کی منفعت سے بہرہ مند ہو تا ہے ۔ اجر ت کے اس مفہو م سے یہ بات واضح ہوجا تی ہے کہ اس میں جن چیز و ں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے یعنی '( 'الَّا الْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبَیٰ ) ''اور ''( مَنْ شَا ئَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلیٰ رّبِّهِ سَبِیْلاً ) '' استثنا نہیں ہے( ۱ ) اس لئے کہ یہ وہ اجر تیں ہیں جس کا فا ئدہ خو د ذاتِ پیغمبر کی طرف نہیں پلٹتا بلکہ یہ تو امت اسلامی ہے جوخا ندا نِ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دو ستی کے ذریعہ الٰہی راہ پر گا مزن ہو کر فائد ہ اٹھا ئے گی ۔

مندر جہ بالا بیان کی روشنی میں کسی کے ذہن میں یہ با طل خیا ل نہیں آنا چا ہئے کہ ( نعوذ بﷲ)پیغمبر اکرم مقام و منصب کے خوا ہا ں تھے اور ان کا مقصد لو گو ں کے درمیان محبوبیت حا صل کر نا تھا اور چا ہتے تھے کہ اُن کے بعد لو گو ں کی نظر اُن کے خا ندا ن پر مر کو زرہے ۔

جی نہیں ، ایسا نہیں ہے بلکہ نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کے اقر باء سے محبت و مو دت اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام سے دوستی ایک ایسا امر ہے جو بالآ خر خود لو گو ں کے فا ئدے میں ہے اور خود ان کی سعا دت اور کمال کے لئے ہے اور اصو لی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستثنیٰ کئے گئے دو نوں امر کی بر گشت با لآخر ایک ہی چیز کی طرف ہے ۔ اس لئے کے کسی بھی شک و شبہ کے بغیر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اپنے اہل بیت علیہم السلام کو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنانے کی وصیت، آپ کا کوئی ذاتی کام نہ تھا بلکہ خدا کے حکم کے تحت تھا۔پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خداوند عالم کی طرف سے اس امر پر مامور کیاگیا تھاکہ آپ اہل بیت علیہم السلام کا رسالت کے تسلسل اور امت کی رہنمائی کے لئے جو اعلیٰ مقام رکھتے ہیں لوگوں کے گوش گذار فرمادیںاور بلاشبہ اہل بیت علیہم السلام سے تمسک خداوند عالم کی راہ پر چلنے کا کامل و واضح مصداق ہے ۔

۲۳۹

آخری دو آیتوں کی جو تفسیربیان کی گئی ہے اور زیادہ صراحت کے ساتھ مندرجہ ذیل آیت میں بیان کی گئی ہے :

۱۔( اجر ) کے مذکو رہ معنی کے مدِّ نظر علما ئے علم نحو کے اعتبار سے ان آیات میں استثنا ئے مذ کور استثنا ئے منقطع کی قسم سے ہے کہ جس میں مستثنیٰ مستثنیٰ منہ کی جنس سے نہیں ہے ۔

( قُلْ مَا سَأَلْتُکُمْ مِنْ اَجْرٍفَهُوَ لَکُمْ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَیٰ ﷲ ) ( ۱ )

اس آیت کی دو طرح سے تفسیر کی گئی ہے پہلی تفسیر کے مطابق جو مندرجہ بالا بیان سے مناسبت رکھتی ہے ۔ آیت میں کہا گیا ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اجر و مزدوری کے طور پر جس چیز کا مطالبہ کیا ہے۔ حقیقت میں وہ وہی چیز ہے جس کا فائدہ خود لوگوں کی طرف پلٹتا ہے یعنی حقیقی اجر لینے والی خود امت ہے لیکن دوسری تفسیر کے مطابق آیت سر ے سے اجرت کی نفی کررہی ہے یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں جو کچھ بھی تم سے اپنی رسالت کے عوض میرا مطالبہ ہے وہ میں نے تم ہی کو بخش دیا۔ (جیسے کوئی قرض دینے والا مقروض سے کہتا ہے :اگر میراتم سے کچھ مطالبہ ہو تو وہ میں نے تم ہی کو بخش دیا )۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آخر کی تین آیتوں کو دعائے ندبہ میں بڑے ہی اچھّے اور خوبصورت انداز میں ایک دوسرے سے مرتبط کرکے بیان کیاگیا ہے:

ثُمَّ جَعَلْتَ اَجْرَمُحَمَّدٍ صَلَّی ﷲ عَلَیْهِ وَآلِهِ مَوَدَّتَهُمْ فِیْ کِتَا بِکَ فَقُلْتَ قُلْ لَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراًاِلَّاالْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبَیٰ وَقُلْتَ مَاسَئَلْتُکُمْ مِنْ اَجْرٍفَهُوَلَکُمْ وَ قُلْتَ مَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَائَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلَیٰ رَبِّهِ سَبِیْلاً فَکَانُوْاهُمُ السَّبِیْلُ اِلَیْکَ وَالْمَسْلَکَ اِلیٰ رِضْوَانِکَ

''اس وقت تو (اے پر ور دگا ر )نے اپنے قرآن میں رسالتِ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجرت امّت کی اہل بیت سے محبت دوستی قرار دی جہا ں تو نے فر مایاہے :

''اے رسول ''آپ کہدیں کہ میں اس( تبلیغ رسالت)کا اپنے قرابتداروں (اہل بیت) کی محبت کے سوا تم (امتوں)سے کوئی صلہ نہیں مانگتااور پھر تونے فرمایا :''اے رسول''آپ (یہ بھی)کہدیںکہ (تبلیغ رسالت کی ) میں نے تم سے جو اجرت مانگی ہے وہ تمہارے ہی فائدہ میں ہے اور پھر تونے فرمایا :''(اے رسول )آپ یہ بھی کہدیں کہ میں تم سے کوئی اجرت نہیں چاہتا مگر (یہ کہ ) خدا کی راہ پر چلے ۔پس (آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ )اہل بیت پیغمبر تجھ تک اور تیری جنت رضوان تک پہنچنے کا راستہ (اورر اہبر)ہیں ''۔

____________________

۱۔ سورئہ سبا آیت ۴۷۔

۲۴۰