راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 119961
ڈاؤنلوڈ: 2218

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119961 / ڈاؤنلوڈ: 2218
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

امتوں کے ساتھ خدا کا طر یقۂ کار (الٰہی سنّتیں )

اس حصّہ میںہم خداوندعالم کی ان سنّتوں کا تذکرہ کریں گے جو تمام انبیاء علیہم السلام کی امتوں کے درمیان یکساں طور پر جا ری رہی ہیں ۔البتہ اس مو ضوع میں داخل ہونے سے پہلے سنّت کی (اس بحث کے مطا بق حال) مختصر تعریف بیان کردینابہتر ہے!!

یہاںسنّت سے مراد خداوند عالم کے وہ افعال ہیں جو کسی زمان،مکان اور یا کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ہر دور کے لوگوں کے مختلف گروہ کے ساتھ واقع ہوتے رہتے ہیں۔ قرآن کریم نے ان عمومی افعال کو سنّت کے نام سے یاد کیا ہے

ارشاد ہو تا ہے:( سُنَّةَ ﷲ ِ فِی الَّذینَ خَلَوامِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَلِسُنَّةِ ﷲ ِتَبْدِیْلاً ) ( ۱ )

''جو لوگ پہلے گذر گئے ان کے بارے میں بھی خدا کی (یہی )سنّت رہی ہے اور تم خدا کی سنّت میں ہرگز تغیر تبدل نہیں پائو گے '' ۔

البتّہ قرآن کریم میں جس مقام پربھی الٰہی سنّتوں کا تذکرہ ہے و ہا ں سنت سے مراد اکثر وہ عذاب ہیں جو گذشتہ قوموں پر نازل ہوئے ہیں پھربھی سنّت کا مفہوم نزول عذاب سے کہیں زیادہ عمومیت رکھتا ہے اس وضاحت کے بعد ہم ان آیات کاذکر کریں گے جن میں انبیاء کی امتوں کے درمیان خداکی سنّتوں کا تذ کرہ کیا گیا ہے۔

قرآن کریم کی آیات کے دو دستے جو تقریباً ایک دوسرے کے مشابہ ہیں ان میں خداوندعالم کی تین سنّتوں کی طرف اشارہ ہے جو معمولاًترتیب سے اور تین مراحل میں متحقق ہوتے ہیں پہلے دستہ کے متعلق سورئہ مبارکۂ اعراف میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَمَااَرْسَلْنَافِیْ قَرْیَةٍ مِنْ نَبِیٍّ اِلَّاٰاَخَذْنَاأَهْلَهَابِالْبَسَائِ وَالضَّرَّائِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُونَ ثُمَّ بَدَّ لْنَا )

____________________

۱۔سورئہ احزاب آیت۶۲۔

۳۲۱

( مَکَانَ السَّیِِّئَةِ الحَسَنَةَ حَتَّیٰ عَفَوْاوَّقَالُواقَد ْمَسَّ أَبَائَ نَاالضَّرَّائُ وَالسَّرَّائُ فَاَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَایَشْعُرُوْنَ ) ( ۱ )

''اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر وہاں کے رہنے والوں کو سختی اور مصیبت میں مبتلاکیاتاکہ وہ لوگ گڑگڑائیںپھر ہم نے بڑی (مصیبت) کو نیکی (نعمت)میںبدل دیا یہاںتک کہ وہ لوگ (حد سے )بڑھ نکلے اور کہنے لگے :''ہمارے باپ دادائوں کو (بھی یقیناحکم قدرت سے) اس طرح کا تکلیف و آرام پہونچ چکا ہے پس ہم نے ان کو بے خبر ی کی حالت میں اچانک اپنے (عذاب میں )گرفتار کردیا ''۔

مفسرین بیان کرتے ہیں ''عَفْ''، ''عَفَوْا'' طول اور کثرت اور یہ ''عفی النبات ''سے ما خوذہے یعنی ''گھاس اور بڑھکر لمبی ہوگئی ''۔چنا نچہ بعض روایات میں بھی جو ''اعفاء اللحیة''کا لفظ استعمال کیاگیا ہے وہ بھی اسی مادہ سے ہے اور اسکے معنی لمبی ڈاڑھی رکھنے کے ہیں ۔اس بناء پر'' عَفَوْا''کا مطلب ان کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی اوروہ سختی کے منھ سے نکل کر راحت وآرام کے مر حلہ میں پہونچ گئے ۔

بہر حال مندرجہ بالاآیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خداوند عالم لوگوں کے ساتھ تین طریقوں سے پیش آیاہے :

پہلے مر حلہ میں خداوندعالم نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کیا تاکہ وہ انسانوں کی ہدایت کریں اوران کے لئے استکبار و سرکشی سے دور رہنے کے راستہ فراہم کریں لیکن اکثر افرادنے ان راستوںسے استفادہ نہ کیااورہدایت کا طریقہ اختیارنہیں کیا ۔

دوسرے مرحلہ میں خداوندعالم نے بندوں پر نعمتیں نازل کیں یہاں تک کہ وہ اپنی زندگی کی سختیوں اور مشکلوں کوعام بات شمار کر کے وہ خداوندعالم کی یاد سے غافل ہوگئے تیسرے مر حلے میں ان کی بڑھتی ہو ئی سخت غفلت کی وجہ سے ان پر اچانک عذاب نازل ہونا اور ان سب کو نیست و نابود کردینا ذکر ہوا ہے۔

دوسری قسم کی آیات میں بھی اسی قسم کی ملتی جلتی تعبیرات مو جود ہیںارشاد ہو تا ہے :

( وَلَقَدْاَرْسَلْنَااِلَیٰ اُمَمٍ مِنْ قَبْلِکَ فََخَذْ نَا هُمْ بِالْبَْسَائِ وَالضَّرّائِ لَعَلَّهُم یَتَضَرَّعُونَ فَلَوْلَا اِذْجَائَ هُمْ بَْسُنَاتَضَرَّعُوْاوَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطَانُ مَاکَانُوا یَعَْمَلُونَفَلَمَّا نَسُوْامَاذُکِّرُوابِهِ فَتَحْنَاعَلَیْهِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْ ئٍ حَتّیٰ ِاذَا فَرِحُوابِمَااُوْتُوْااَخَذْنَا هُمْ بَغْتَةً فَاِذَاهُمْ مُبْلِسُونفَقُطِعَ دَابِرَالْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاوَالْحَمْدُﷲَِرَبِّ الْعَٰلَمِیْنَ ) ( ۲ )

____________________

۱۔سورئہ اعراف آیت۹۴۔۹۵۔

۲۔سورئہ انعام آیات۴۲۔ ۴۵۔

۳۲۲

اور جو امتیں تم سے پہلے گذر چکی ہیں ہم ان کے پاس بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیںپھر ہم نے ان کو سختی اور تکلیف میں گرفتار کیاکہ شا ید وہ روئیں اور گڑگڑا ئیں پس جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو انھوں نے تضرع و زاری کیوں نہیں کی؟لیکن(حقیقت یہ ہے)ان کے دل سخت ہوگئے تھے اور ان کے کاموں کو شیطان نے آراستہ کردکھایا تھا۔پھرجس کی انھیں یاد دہانی کی گئی تھی جب اس کو بھول گئے تو ہم نے ان پر امتحان کے طور پرہر طرح کی نعمتوں کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ جو نعمتیں انھیں دی گئی تھیں جب ان کو پاکر خوشی میں کھوئے تو ہم نے انھیں اچانک اپنی گرفت میں لے لیا اوروہ ناامیدہو کررہ گئے پھر ظلم و ستم کرنے والے گروہ کی جڑکاٹ دی گئی اور تمام تعریفیں سارے جہان کے مالک اللہ کیلئے ہیں ''۔

جملہ'' مٰا ذُکِّرُوابِہِ''''جس کی انھیں نصیحت کی گئی تھی''میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خداوند عالم نے انھیں سختیوں اور مشکلات سے دو چارتھا کہ وہ بیدار ہو جائیں اپنے کو سنوار سکیں اور ان میں خداوند عالم کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے ۔

جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں ان دونوں دستوں کی آیات میں تین اہم الٰہی سنّتوں کا تذکرہ ہے ہم ان کو ذیل میں ترتیب سے بیان کررہے ہیں ۔ا لبتہ اس سے پہلے ان نکات کو بیان کردینا بھی مناسب سمجھتے ہیں جن سے علوم نفسیات ، سما جیات اور فلسفہ تاریخ وغیرہ کے با رے میں استفادہ کیا جاتاہے ۔

پہلا نکتہ انسانی نفسیات سے تعلق رکھتا ہے اگر چہ وہ بظاہر انسان کی انفرادی زندگی سے مربوط ہے لیکن جب معاشرہ کے اکثر افراد میں سرایت کر جائے توپھر سما جی پہلو بھی اختیار کرلیتا ہے کیو نکہ انسان کی سرشت ہی ایسی ہے کہ جب اس کے پاس بہت زیادہ نعمتیں اور آسائش وآرام آجا تا ہے تو اس کی روح میں استکبار ،سرکشی اور طغیان آجاتاہے ۔جیساکہ قرآن سورئہ علق میں ارشاد فرماتا ہے :

( کَلَّااِنَّ اِلانْسَانَ لَیَطْغَیٰ اَنْ رَآهُ اسْتَغْنَیٰ ) ( ۱ )

''بیشک جب انسان اپنے کوغنی دیکھتا ہے تو سرکش ہوجاتاہے ''۔

دوسری طرف عام طور پر انسان سختیوں اور مشکلا ت میں گھر جانے کے بعد خضوع اور خشوع کرنے لگتا ہے اور اس کی انانیت ختم ہونے لگتی ہے اوریہ حالت انسان میں آہستہ آہستہ وہ حالات فرا ہم کرتی ہے کہ انسان خود بخود اپنے رب سے لولگانے لگے ۔اس بناء پر قرآن کریم کی آیات سے نفسیات کے اس راز اور قا عدہ کا پتہ چلتا ہے کہ

____________________

۱۔سورئہ علق آیت۶۔۷۔

۳۲۳

راحت و آرام غرورو سرکشی کا سرچشمہ ہے ،اور مشکلوں میں گرفتار ہونے سے خضوع و خشوع پیدا ہوتاہے۔البتّہ ہم اس بات پر ز وردینا لازم سمجھتے ہیں کہ مندرجہ بالا حالات میں سے کوئی ایک حالت بھی اس طرح کے نفسیات کیلئے علّت تامّہ نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف ایک عام سبب اور ذریعہ ہے ۔اسی بناء پر ممکن ہے کہ کوئی شخص عیش و عشرت کی زندگی اور نعمتوں میں غرق رہکر بھی خداکی یاد سے غافل نہ ہو اور اس میں غرورو تکبر کی بو بھی نہ پائی جاتی ہواور اس کے بالمقابل یہ بھی ممکن ہے کہ کو ئی شخص مشکلات سے دوچار ہونے کے باوجود بھی خضوع اور خشوع سے محروم رہے جیسا کہ مندرجہ بالا آیات میں بیان ہوچکا ہے ۔

نفسیات کے ہی بارے میں سورئہ انعام کی آیات سے اس نکتہ کا بھی استفادہ ہوتاہے کہ انسان گناہ کا عادی ہوجانے اور عیش و عشرت میں زندگی بسر کرنے کی وجہ سے قساوت قلب اور سخت دلی سے دوچار ہوجاتاہے جبکہ اس کے بالمقابل غم و آلام کی حالت خشوع و نرم دلی لا تی ہے ۔ جیسا کہ خداوندعالم حقیقی مومنوں کے صفات اس طرح بیان فرماتا ہے :

( قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤمِنُونَالَّذِ یْنَ هُمْ فِیْ صَلَا تِهِمْ خَاشِعُوْنَ ) ( ۱ )

''بہ تحقیق وہ مومنین رستگار ہوئے جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیں ''۔

قلب خاشع وہ قلب ہے جس میںدوسروں کے لئے جھکا ؤ پیداہوجائے اور سخت دل وہ دل ہے جو کسی کے لئے نہ جھک سکے اور اس حالت میں انسان کی روح اور اس کے وجود میں پو شیدہ مہر و محبت کے پہلو پر سخت اثر پڑتاہے اور قرآن سورئہ بقرہ میں ارشاد فرما تا ہے :

( فَهِیَ کَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً ) ( ۲ )

''۔۔۔پس اسکے بعد (تمہارے دل)پتھر کے مثل یا اس سے بھی زیادہ سخت (ہوگئے)۔۔۔''۔

ان آیات سے ایک اور بات واضح ہوجاتی ہے کہ سنگدلی اور قساوت قلب کے شکار افراد کے اندر شیطانی وسوسہ

____________________

۱۔سورئہ مومنو ن آیت۱۔۲۔

۲۔سورئہ بقرہ آیت۷۴۔

۳۲۴

کا اظہار ہو نے لگتا ہے اور شیطان بھی ان کے اعمال کو خود ان کی نظر میں اور خو بصورت بناکر پیش کردیتا ہے۔

ان تمام نکات کے علاوہ ان آیات میں ہماری بحث سے مر بوط مندرجہ ذیل تین الٰہی سنّتوں کا پتہ چلتا ہے۔

مشکلات کے ذریعہ ہدایت

الٰہی سنتو ںمیں سے ایک ہدایت و رہنمائی بھی ہے ۔خداوندعالم اپنی سب کے لئے عام تکوینی ہدایت کی بنیاد پر تمام مخلوقات کی کمال مطلوب کی طرف راہنمائی کرتا ہے ارشاد ہو تا ہے:

( قٰالَ رَبُّنَا الَّذِیْ اَعْطَیٰ کُلَّ شّیْ ئٍ خَلَقَهُ ثُمَّ هَدَیٰ ) ( ۱ )

''کہا:ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اسکے مناسب حال خلقت عطا فرمائی پھر اسکے بعد اسکی ہدایت فرمائی ''۔

اس عام طریقۂ ہدایت کے علاوہ خد ا و ندعالم نے انسان کی ہدا یت، ایک ا و ر مخصوص طریقہ سے فرمائی ہے۔

اس ہدایت کا کچھ حصّہ انسان کے وجود میں قوة ادراک کے ذریعہ و دیعت کیاگیا ہے ارشاد ہو تا ہے :

( وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَٰرَوَالْاَفْئِدَةَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) ( ۲ )

''۔۔۔اور تمہارے لئے کان،آنکھیں اور دل قرار دیا شاید تم شکر کرو ''۔

اور اس ہدایت کا دوسرا حصّہ انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کر کے انجام دیا لیکن اس سے پہلے ایک دوسری سنّت یہ رہی ہے کہ خداوندعالم نے لوگوں کے لئے حق کے سا منے تسلیم ہو نے اور انبیاء کی دعوت کو قبول کرنے کی کچھ شرطیں معین فرمادی ہیں ۔جیسا کہ مندرجہ بالا آیات سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی روح کی خا صیت یہ ہے کہ وہ سختی اور مشکلات کی حالت میں تضرع اور خضوع و خشوع کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے اور غرور و تکبّرکو فراموش کردیتی ہے چنانچہ خدا وند عالم کی یہ سنت ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کر نے کے بعد قحط ،بیماری اورزلزلہ وغیرہ جیسی مصیبتیں اور معاشرتی بعض مشکلات پیدا کر دیتا ہے تا کہ سو ئے ہو ئے انسان خوا بِ غفلت سے بیدا ر ہو جا ئیں اور اپنی ذلت و ناتو ا نی کا احساس کر کے خدا سے نزدیک ہو جا ئیں ۔

اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہدا یتِ الٰہی کے دو پہلو ہیں :

____________________

۱۔سورئہ طہٰ آیت۵۰۔

۲۔سورئہ نحل آیت۷۸۔

۳۲۵

ایک شناخت و معر فت کا مر حلہ جس میں انسان کی عقل درونی انبیاء علیہم السلام کا کر دار اور انبیا ئے الٰہی بیرونی ہدا یت و رہنما ئی کا کام انجام دیتے ہیں ۔

دوسرا پہلوجذ با ت و احساسات کا ہے :اس میںبیرونی حالات اس طرح فر اہم کرنا لازم ہے کہ انسان کے دل و جان ہدا یت الٰہی سے متا ثر ہوسکیں اور وہ حق قبو ل کر نے کے لئے آمادہ ہو جا ئیں اور جب بھی یہ دو نوں پہلو ایک دو سرے کے ساتھ ہو جا ئیں راہ را ست کے انتخاب کے لئے منا سب زمین فرا ہم ہو جا ئے گی اور خدا وند عالم نے تمام انسا نو ں کے لئے ان تمام راستو ں کوکھو ل رکھاہے اور جیسا کہ مندر جہ بالا آیات سے ظا ہر ہو تا ہے سختیو ں اور مشکلات کے نزول کی صورت میں جذ بات اور احساسات کے ذریعہ ہدا یت کاراستہ ہموار کر دیا ہے ۔

املاء اور استد راج کی روش

جب انسا نو ں میںحق قبو ل کر نے کے احساسات اور جذ بات بر انگیختہ ہو جا ئیں تو قاعد ے کے تحت انسان کو انبیا ء علیہم السلام کی دعو ت قبو ل کر کے صحیح راستہ منتخب کر لینا چا ہئے لیکن یہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ مذ کو رہ حالات راہ حق میں قدم اٹھا نے کے لئے علتِ تامّہ نہیں ہیں بلکہ باطل کے انتخا ب کا راستہ بھی اسی طرح کھلا ہو ا ہے خا ص طور سے اگر معنوی امراض کی بنا ء پر ہدا یت کا سدّ باب ہو جا ئے۔ ان میں بعض رکا وٹیں د رونی ہو تی ہیں جیسے سنگدلی (سخت دل ہو نا ) اور بعض رکا وٹیں ظا ہری ہیں جیسے شیطان دنیا کو سجابنا کر پیش کر تا ہے اور با ہر سے حملے کر تا ہے اور یہ عو امل ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح وابستہ ہیں کہ انسان کے اندر ہدا یت حا صل کر نے کی صلا حیت کو کار گر نہیں ہو نے دیتے ۔

اب اگر پہلے طریقۂ کار کا کو ئی نتیجہ حا صل نہ ہوسکے اور انسان مشکلو ں اور مصیبتوں کے با وجود خضو ع و خشو ع نہ کر ے بلکہ اس کی سنگد لی اور شیطان کی آراستہ و پیرا ستہ کی ہو ئی چیزیں خدا وند عالم سے نز دیک ہو نے میں رکا وٹ بنی رہیں توخدا دوسری سنت جا ری کرتاہے ۔ یعنی ما دی نعمتو ں میں اضا فہ ہو تا ہے اس کے بعد بھی اگرانسان آسائش و آ رام کی زند گی میں خدا کو بھولا رہے تو اس کی غفلت میں اور اضا فہ ہو جا تا ہے اور وہ پہلے سے اور زیا دہ اپنے خدا سے دور ہو تا چلا جا تا ہے ۔ سنتِ الٰہی کے اس عمل کوبعض آیات میں ''املا ''اور ''استدراج'' کے نا م سے بیا ن کیا گیا ہے ۔

۳۲۶

قرآ ن میں ارشا د ہو تا ہے :

( وَالَّذِ یْنَ کَذَّ بُوْابِآیَاتِنَاسَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَیْثُ لَایَعْلَمُوْ نَوَاُمْلِیْ لَهُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْن ) ( ۱ )

''اور جن لو گو ں نے ہما ری آیات کو جھٹلایا ہم انھیں اس طرح آہستہ آہستہ (حہنم )میں لے جا ئیں گے کہ انھیں خبر بھی نہ ہو گی میں ان کو مہلت دے رہا ہوں کیونکہ بیشک میری تد بیر بہت محکم و استوار ہے ''۔

''استدراج ''یعنی کسی کو زینہ بہ زینہ، درجہ بدرجہ مر حلہ وارکسی مقام تک لیجانااور ''املاء ''آزاد چھوڑ دینے کو کہتے ہیں یعنی مہلت اور ڈھیل دیدینا ۔''اَمْلَیْتُ للفرس''یعنی ''اَرْخَیْتُ عِنَانَہُ'' ''میں نے گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑدی ۔''

وہ لوگ جو اتمام حجّت کے بعد بھی انبیاء علیہم السلام کو جھٹلاتے ہیں یا حق کی معرفت کے باوجود اس کی اتباع نہیں کرتے اور حق کوقبول کرنے میں اکڑدکھاتے ہیں اور جو لوگ سخت دلی کی وجہ سے اپنے لئے انبیاء علیہم السلام کی دعوت کوقبول کرنے میں مدد گار تمام جذ باتی اور احساساتی راستے بند کر دیتے ہیں وہ خدا وند عالم کی نصرت و ہدایت قبول کر نے کے قا بلیت کھو دیتے ہیں ۔ اس لئے کہ خدا کی مدد اسی وقت تک شامل حال رہتی ہے کہ جب تک حق کی تلاش میں جبری اور زبر دستی کا پہلو نہ پیدا ہو جائے اسی طرح کے انسانوں کے لئے خداوند عالم اِملاء اور استدراج کی روش اپنا تا ہے ۔

استدراج کے شکاریوں کی اس طریقہ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جس کے تحت شکاری پہلے اپنا جال کسی مقام پر پھیلا تے ہیں ، اس کے بعد اپنے شکار اور جال کے درمیان تھوڑے فا صلے سے مختلف مقامات پر اپنے شکار کا من پسند چاراڈال دیتے ہیں ۔ شکا ر ایک مقام کا چا را ختم کرنے کے بعد دوسرے مقام کی طرف بڑھتا ہے اور اس کی حرص بڑھ جاتی ہے، وہ اسی طرح آگے بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ آخری چا رے کی فکرمیںجال کے اندر جا کر پھنس جاتا ہے ۔ الٰہی استدراج یعنی خدا کی دی ہو ئی درجہ بہ درجہ چھوٹ میں گرفتار افراد کا قصّہ بھی کچھ یوں ہی ہے ۔ وہ ہر دن اپنی نعمتوں میں اضافہ دیکھکر بہت خوش ہو تے ہیں اور بسا اوقات تو وہ اپنے کو سب سے خوش قسمت سمجھنے لگتے ہیں اور اس بات سے غافل رہتے ہیں کہ ہر نعمت وہ دانہ ہے جسکو حاصل کرنے میں وہ جال سے چند قدم اورنزدیک کر تا جارہا ہے ۔یہاں تک کہ جب وہ آخری مرحلہ پر پہو نچتے ہیں

( اَخَذْ ناهُم بَغتَةً وَهُم لَا یَشَعَرُوْنَ ) ( ۲ )

'' اچا نک الٰہی عذاب کی گرفت میں آجا تے ہیں اور انھیں اس کا شعور بھی نہیں ہو تاکہ وہ نعمتیں اس عذاب کا مقد مہ تھیں '' ۔

____________________

۱۔سورئہ اعراف آیت ۱۸۲۔ ۱۸۳۔۲۔سورئہ اعراف آیت ۹۵ ۔

۳۲۷

الٰہی جال اور اخلاقی اقدار کی ہم آہنگی

اس مقام پر سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا خداوند عالم کا یہ عمل جس سے بعض لوگ فریب کھا جا تے ہیں اور آہستہ آہستہ عذاب اور تاریکی میں ڈوب جا تے ہیں کیا یہ اخلاقی اصولوںسے مطا بقت رکھتا ہے ؟ اس سوال کا کلّی جواب تو اس حقیقت پر تو جہ سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ جس گروہ کا ذکر ہے در اصل ایسے ہی بر تاؤ کا سزاوار ہے چو نکہ خداوند عالم نے ان کے لئے ہدایت کے تمام راستے کھول دیئے اور ان پر اپنی حجت تمام کردی پھر بھی انھو ں نے خداوند عالم کی نعمتوں کا شکریہ ادا نہ کیا اور اپنی دشمنی اورکٹ حجتی کی بنیاد پر حق سے منھ مو ڑے رہے ظاہر ہے املاء اور استدراج کی سنت ایسے ہی افراد کے لئے ہے اورچو نکہ یہ خود انھیں کے اعمال کا نتیجہ ہے ان کے ساتھ ایسا برتا ؤ نہ صرف یہ کہ نادرست نہیں ہے بلکہ با لکل صحیح اور منا سب روش ہے ۔ مکر وفریب کی تدبیر اخلاقی اعتبار سے و ہاںبری اور ناپسندہے جب مقصد باطل کی حمایت اور حق کی مخالفت کرناہو۔حالانکہ الٰہی جال عین حق ہے اور اسی وجہ سے خداوندعالم اپنے مکر وجال کے متعلق ارشاد فرماتاہے:

( اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْن ) ( ۱ )

''بیشک میر ا جال بہت محکم اور استوار ہے''۔

اور شیطان کے جال کو باطل ہو نے کی وجہ سے ضعیف او رکمزور شمار کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

( اِنَّ کَیْدَالشَّیْطَٰنِِ کَانَ ضَعِیْفاً ) ( ۲ )

''۔۔۔بیشک شیطان کا مکر(نہایت ہی )کمزور ہے ''۔

املاء اور استدراج کی روش قرآن کریم کی دوسری آیات میں بھی بیان کی گئی ہے منجملہ سورئہ مبارکہ رعدمیں اعلان ہو تا ہے :

( وَلَقَدْاِسْتُهْزِیَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُواثُمَّ اَخَذْتُهُمْ فَکَیْفَکَانَ عِقَابِ ) ( ۳ )

____________________

۱۔سورئہ اعراف آیت ۱۸۳۔

۲۔سورئہ نساء آیت۷۶۔

۳۔سورئہ رعد آیت۳۲

۳۲۸

''تم سے پہلے (بھی)بہت سے پیغمبروں کی ہنسی اڑائی جاچکی ہے پس میں نے کافروں کو مہلت دیدی پھر انھیں (عذاب میں )گر فتار کر دیا۔پس (دیکھا)میرا عذاب کیساتھا؟''۔

اس آیت میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دشمنوں کو یہ پیغام دیا جارہاہے کہ گذشتہ امتوں کے کفّار نے جب اپنے زما نے کے انبیاء علیہم السلام کا مذاق اڑایا اس کے باوجود خداوند عالم نے ان کو مہلت دی کہ وہ جتنا چاہیں کفر میں اترجائیں اور اس کے بعد عذاب الٰہی نے ان کو گھیر لیا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ عذاب کوئی مطلوب اور پسند یدہ چیز ہے؟اگر ایسا ہے تو تم بھی انھیں کا راستہ اختیار کرکے انھیںکے انجام سے دوچار ہونا پسند کرلو۔اور اگر عذاب پسندیدہ انجام نہیںہے تو اپنے کفر سے پلٹ آئو اور اپنے کو خداوند عالم کے عذاب سے نجات دیدو ۔۔۔

بہر حال اس آیت میں بھی کافروں کو املاء یعنی(مہلت دینے)کی بات کی گئی ہے اوریہ ایسی مہلت ہے جس کا انجام خداوندعالم کے سخت عذاب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔

سورئہ قلم میں بھی املاء اور استدراج کی روش کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے :

( فَذَرْنِیْ ومَنْ یُکّذِّبُ بِهَٰذَاالْحَدِیْثِ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَیْثُ لَایَعْلَمُونَ واُمْلیِْ لَهُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْن ) ( ۱ )

''پس مجھے اس کلام کے جھٹلانے والے کے ساتھ چھوڑدو ہم ان کو آہستہ آہستہ اس طرح جکڑلیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی اور میں ان کو مہلت دیتا ہوں اسلئے کہ میری تدبیر(سخت و )استوار ہے ''۔

اس آیت کی بنیاد پر خداوندعالم کا مکراورتدبیرتقا ضا کرتا ہے کہ قرآن کو جھٹلانے والوں کے ساتھ استدراج سے کام لے ۔یعنی آہستہ آہستہ ان کی نعمتوں میں اضافہ کیا جائے اور ان کو چھوڑدے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق جتنا چاہیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن کی مخالفت کریں لیکن آخر کار ایک دن یہ مہلت ختم ہوجائیگی اور یہی تدبیر ان کو خداوند عالم کے عقاب و عذاب کے جال میں پھنسا دے گی ۔

دوسری آیات میں خداوندعالم کا ارشاد ہو تا ہے

( وَاِنْ یُکَذِّبُوکَ فَقَدْ کَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادوَثَمُوْدُوَقَوْمُ اِبْرَٰهِیْمَ وَقَوْمُ لُوطٍوَ )

____________________

۱۔سورئہ قلم ،آیت۴۴۔۴۵۔

۳۲۹

( اَصْحَابُ مَدْیَنَ وَکُذِّبَ مُوسَیٰ فَاَمْلَیْتُ لِلْکَافِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ فَکَیْفْ کَانَ نَکِیْرِ ) ( ۱ )

''اور اگر یہ تم کو جھٹلاتے ہیں تو یقینا ان سے پہلے نوح کی قوم اورقوم عاد،ثمود اور ابراہیم کی قوم اور لوط کی قوم اور (اسی طرح)اہل مدین (بھی)(اپنے اپنے پیغمبروں کو )جھٹلاچکے ہیں اور موسیٰ بھی جھٹلائے جاچکے ہیں تو میں نے کافروں کو مہلت دی اسکے بعد ان کا (گریبان )پکڑلیا تو تم نے دیکھا میرا عذاب کیسا تھا ؟''۔

یہ آیت پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو گذشتہ قو موں کی جا نب سے ان کے پیغمبروں کی تکذیب کی یاددہانی کراتی ہے اور اس حقیقت کا انکشاف کرتی ہے کہ وہ سب صرف ایک سنّت الٰہی کے دا ئرے میں آتے تھے یعنی خداوند عالم نے ان کو مہلت دی اور پھر ان پر اپنا عذاب نازل فرمایا ''نکیر ''اور ''انکار ''کے تقریباًایک ہی معنی ہیں اوریہ اس کام کو کہاجاتا ہے جو دوسروں کے برے اور نا پسند فعل کے بالمقابل انجام دیا جاتا ہے ۔(فکیف کان نکیر )یعنی ان کے برے کردار کے مقابلے میں میرا عکس العمل کیسا تھا؟البتہ اس آیت میں ''نکیر'' سے مراد خداوند عالم کا عذاب ہی ہے ۔

سورئہ مبارکۂ آل عمران میںارشاد ہو تا ہے

( وَلَایَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوااَنَّمَانُمْلِی لَهُمْ خَیْر لِاَنْفُسِهِمْ اِنَّمَا نُمْلِی لَهُمْ لِیَزْدَادُوْا اِثْماً وَلَهُمْ عَذَاب مُهِیْن ) ( ۲ )

''اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے ان کو جو مہلت اور فارغ البالی دے رکھی ہے وہ ان کے حق میں بہتر ہے ۔ہم نے مہلت اور فارغ البالی صرف اسی وجہ سے دی ہے تاکہ وہ خوب گناہ کرلیں اور ان کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے '' ۔

اس آیت میں آشکارا طور پر یہ بیان کردیا گیا ہے کہ کافروں کو مہلت دینا تدبیر الٰہی ہے جو نہ صرف ان کے لئے فائدہ مند نہیں بلکہ اس دوران وہ اپنے گناہوں میں اضافہ کرتے ہیں اور ان کو جو فرصت ملتی ہے اس میں وہ قدم بہ قدم ہدایت الٰہی سے دور ہو تے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ رسوا کرنے والے عذاب کے مستحق ہو جائیں ۔

____________________

۱۔سورئہ حج آیت۴۲۔ ۴۴۔

۲۔سورئہ آل عمران آیت۱۷۸۔

۳۳۰

سنّت عذاب

الٰہی سنتوں سے متعلق آیات جن کے با رے میںگفتگو چل رہی ہے ان میں تیسری سنّت، سنّتِ عذاب ذکرکی گئی ہے ۔ جب پیغمبروں کے مخالفین خداوند عالم کی تدبیر کے جال میں آ گئے اور اس کی طرف سے ملنے والی تمام

مہلتوں سے بے پروا اپنے گناہوں میں اضافہ ہی کرتے چلے گئے تو ان پر عذاب نازل ہو نا ضروری ہو گیاتو سزا کے طور پر خدا کے عذاب کے علاوہ اور کچھ نہ پایا ۔ متعدد آیات میں گذشتہ قوموں کے اوپر عذاب نا زل ہونے کے تذکروں کے ذیل میں اس سنّت الٰہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ متنّبہ کردیا گیا ہے کہ قرآن کے مخالفین بھی اگر گذشتہ لو گو ں کی عاقبت کے بارے میں غورو فکر سے کام نہ لیں گے تو انھیں کے انجام سے دو چار ہو نا پڑے گا لہٰذا اس بد بختی سے محفوظ رہنے کے لئے قرآن مجید میں باربار''سیروا فی الارض''یا ''یسیروا فی الارض ''کے ذریعہ گزشتہ لوگوں کے انجام سے عبرت حا صل کر نے کاحکم دیا گیا ہے جیسا کہ سورئہ مبارکہ فاطرمیں ارشاد ہوتا ہے :

( وَاَقسَمُوابِاللَّهِ جَهْدَ اَیمَٰنِهِم لَئِنْ جَائَ هُم نَذِیْرُ لَیَکُونُنَّ اَهدَیٰ مِنْ اِحدَیٰ الاُ مَمِ فَلَمَّاجَا ئَهُم نَذِیْرمَازَادَهُم اِلَّانُفُوراً ) ( ۱ ) '' اور یہ لوگ خدا کی بڑی بڑی سخت قسمیں کھاتے تھے کہ اگر ان کے پاس کو ئی ڈرا نیوا لا آئیگا تو وہ ضرور (دوسری ) کسی بھی امت سے زیادہ راہ پانے والے ہو ں گے ( لیکن) جب ان کے پاس ڈرا نیو الا آیا تو ان کی نفرت میں ترقی کے علاوہ اور کچھ نہ ہوا '' ۔

یہ آیت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس میں یہ بیان کیاگیا ہے کہ وہ لوگ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت سے پہلے اپنی پوری طاقت وقوّت کے ساتھ قسم کھایا کرتے تھے کہ اگر خداوند عالم کی طرف سے ان کے لئے کوئی رسول مبعوث کیاگیا تو وہ دوسری امتوں سے بہتر طریقہ سے ہدایت الٰہی قبول کریں گے لیکن جب ان کے درمیان رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث ہوئے تووہ حق سے فرار کرگئے۔ بعد والی آیت ان کے فرارکرنے اور جو سرنوشت ان کے انتظارمیں ہے اس سے پردہ اٹھارہی ہے ارشاد ہو تا ہے :( اِسْتِکْبٰاراًفِی الْاَرْضِ وَمَکْرَالسَّیِّئِ وَلَایَحِیقُ الْمَکْرُالسَّیِّئُ اِلَّابِاَهْلِهِ فَهَلْ یَنْظُرُونَ اِلّاسَنَّتَ الْاَوَّلِیْنََ فَلَنْ تَجِدَلِسُنَّتِ ﷲ تَبْدِیْلاًوَلَنْ تَجِدَلِسُنَّتِ ﷲتَحْوِیلْاً ) ( ۲ )

''ان کے اس کام کا (مقصد)روئے زمین پر فقط سرکشی اور شرمناک حر کتیں تھیں اور شرمناک سازش توسازش کرنے والے کی طرف ہی پلٹتی ہے ۔تو کیا یہ لوگ اگلے لوگوں کی روش اور (بری سرنوشت) کے ہی منتظر ہیں؟

____________________

۱۔سورئہ فاطر آیت ۴۲۔۲۔سورئہ فا طر آیت۴۳۔

۳۳۱

اور تم خدا کی سنّت میں ہرگز تبدیلی نہ پائو گے ''۔

ان کی مخالفت کا سبب ان کا تکبّر، غرور اور فریب کا ریاں تھیںایسی سا زشیں جو سا زش رچنے والوںکے سوا کسی دوسرے کے دا منگیر نہیں ہوتیں اور ان کا انجام بھی عذاب الٰہی ہی ہے ۔اس آیت کے آخری حصّہ میں بھی سنّت عذاب کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔

یہاںیہ بات بیان کردینا مناسب ہوگا کہ لفظ ''سنّت ''کبھی خداوندعالم کے با رے میں استعمال ہواہے اور کبھی لوگوں کے با رے میں استعمال ہواہے اور جیسا کہ اہل ادب نے اضافت کی بحث میں بیان کیاہے کہ اضافت کے صحیح ہونے کے لئے معمولی اضافت بھی کافی ہے چنا نچہ خداوندعالم کی طرف سنت کی نسبت اس لئے دی جاتی ہے کہ اس نے اس کوجاری کیاہے اور آدمیوں سے اس لئے نسبت دی جاتی ہے کہ سنّت ان کے بارے میں جاری ہوئی ہے اس آیت میں دونوںنسبتوں کا استعمال ہواہے ''سنَّةالاولین ''اور ''سنَّة ﷲ''البتّہ ان دونوں سے مراد وہی سنّت سزا اور عذاب الٰہی ہے لہٰذا اس آیت کے بعد خداوندعالم فرماتاہے :

( اَوَلَمْ یَسِیْرُوْافِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْاکَیْفَ کَانَ عَٰاقِبَةُ الَّذینَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَکَانُوْااَشَدَّمِنْهُمْ قُوََّةً وَمَاکَانَ ﷲ لِیُعْجِزَهُ مِنْ شَیْئٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَافِی الْاَرْضَ اِنَّهُ کَانَ عَلِیْماً قَدِیْراً ) ( ۱ )

''تو کیا ان لوگوں نے روئے زمین پر سیر نہیں کی کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے اور ان سے زور و قوت میں بھی کہیں بڑھ چڑھ کے تھے دیکھیں ان کا کیا انجام ہوا؟اور آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز خدا کو عاجز نہیں کرسکتی کیونکہ بیشک وہ بڑا باخبر (اور)بڑی قدرت والاہے ''۔

خدا کی سنّتوں کا ایک دوسرے میں مؤثر ہونا

مندرجہ بالاآیات اور اس کے مشابہ دوسری آیات دیکھنے کے بعد ممکن ہے ذہن میں یہ سؤال پیدا ہو :ان آیات کے مخاطبین کی کثیر تعداد گذشتہ قوموں کی راہ پر گامزن رہی اور وہ اسی طرح انبیاء کی مخالفت بھی کرتی رہی پھر ان پر خدا کا عذاب کیوں نہیں نا زل ہو ا ؟ کیا یہ بات سنّتِ الٰہی کے تبدیل ہونے کی نشا ندہی نہیں کر تی ؟ اس سوال کا جواب بعد والی آیت سے وا ضح ہو جاتا ہے ۔

خدا وند عالم ارشاد فر ماتا ہے :

( وَلَوْیُوَاخِذُُ ﷲ النَّاسَ بِمَاکَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلَیٰ ظَهْرِهَامِنْ دَاَبَّةٍ وَلٰکِنْ یُؤَخِّرُهُمْ اِلیٰ اَجَلٍ )

____________________

۱۔سورئہ فاطرآیت۴۴۔

۳۳۲

( مُسَمّی فَاِذَاجَائَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ ﷲ کَانَ بِعِبَٰادِهِ بَصِیْراً ) ( ۱ )

''اور اگر خدا لو گو ں کے کر تو توں کی گرفت کر تا اور سزا دیتا رہتاتو روئے زمین پر کوئی چلنے پھر نے والا باقی نہ چھو ڑتا لیکن وہ تو لو گو ں کو ایک معین مدت تک مہلت دیتا ہے اور جب ان کا وقت آ جا ئے گا تو خدا اپنے بند وں کے افعال کو دیکھ رہا ہے ۔

اس آیت اور اس کے مانند قر آن میں موجود دوسری آیا ت پر غور و فکر کر نے سے خدا وند عالم کی سنتو ں کے بارے میں ایک بنیادی قا عدے تک رسا ئی ہو سکتی ہے اور اس اصل کی بنیاد پر اگرچہ کا فروںاور گنہگا روں پر عذاب ہوناخدا وند عالم کی ایک نا قابل تغییر، ثا بت و استوار سنت ہے لیکن اس کا عملی جا مہ پہناناکچھ اور معینہ اصولوں سے وا بستہ ہے جو خدا وند عالم کی دو سری سنتو ں کے ذریعہ وقو ع پذیر ہو تے ہیں ۔ در حقیقت خدا وند عالم کی سنتو ںمیں (عام معنی کے لحا ظ سے نہ کہ اُس خاص معنی میں جو قرآن میں صرف سنتِ عذاب سے مخصو ص ہے) کچھ ایسے رابطے حکمراںہیں جو ان کے عمل میں آنے کا طریقہ معین کر تے ہیں مثا ل کے طور پر ممکن ہے ایک سنت (اقتضا ئی ) پہلو رکھتی ہو اور اس کا ظہور ایک وجو دی یا عدمی شرط کے ساتھ اس طرح مشروط ہو کہ خود اس شرط کا محقق ہو نا کسی اور سنت کے جا ری ہو نے پر مو قوف ہو، ظا ہری طور پر کا فر وں پرعذاب کی سنت بھی اسی قسم سے ہے اس لئے کہ عذاب کا عملی ہوناان کی موت آ جا نے کی شرط پر مو قو ف ہے جبکہ خود ان کی موت کا وقت معین کر نا خو د دوسری سنتو ں اورمخصو ص مصلحتوں اور بد عنوا نیو ں سے وابستہ ہے ان ہی سنتو ں میں سے ایک سنت کی بنیا د پر، اہل زمین تنا سل اور تو لید مثل کے ذریعہ دوسرے انسانو ں کو پیدا کر تے ہیں اور اسی طریقہ سے بہت سے مو منین کفر کی آغوش میں آنکھ کھو لتے ہیں

اور اپنے والدین کے بر خلاف حق کا راستہ منتخب کر لیتے ہیں ۔ اب اگر خدا وند عالم صرف تمام کافروں کو ان کا کفر ظا ہر ہو نے کے ساتھ ہی ہلا ک کر دے تو اُن کے اُن مو من فر زند وں کے پیدا ہو نے کا وسیلہ قطع ہو جا ئیگا جو ان کی نسل میں ہیں چو نکہ عام طور سے انسانو ں کے پیدا ہو نے کی سنت تنا سل کے ذریعہ ہی چل رہی ہے ۔ اس بنا پر بسا اوقات مومن فر زندو ں کی پیدائش اور نیک و صالح افراد کے بعد کی نسلو ںمیں ظاہر ہو نے کی مصلحت ان کے کا فر اور گنہگا ر باپ داداکی ہلا کت میں رکا وٹ بن جاتاہے ۔ اسی وجہ سے حضرت نو ح علیہ السلام نے خدا وند عالم سے اپنی قوم کے کا فرو ں پر عذاب کی در خوا ست اس وقت کی ہے جب ان کو یہ اطمینا ن ہو گیا کہ ان کی نسل میں کو ئی مو من نہیں ہو گا :

( اِ نَّکَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْاعِبَا دَ کَ وَلَا یَلِدُوْااِلَّا فَاجِراً کَفَّاراً ) ( ۱ )

____________________

۱۔سورئہ فا طر آیت۴۵۔ ۲۔سورئہ نوح آیت ۲۷۔

۳۳۳

'' کیو نکہ اگر تو ان کو چھو ڑ دے گا تو یہ تیرے بند و ں کو گمرا ہ کر یں گے اور نا شکرے کا فر وں کے علاوہ ان سے کو ئی پیدا نہیں ہو گا '' ۔

یقیناً کچھ دو سری سنتیں بھی ہوں گی جو عذاب نا زل ہو نے میں مو ئثر ہیں لیکن ہم ان کو نہیں جانتے اوریہ تما م سنتیں ، بھلا ئیاں اور برا ئیا ں مل کر عذاب کے نا زل ہو نے کا وقت معین کرتی ہیں ۔

اس بات پر بھی تو جہ ضر وری ہے کہ الٰہی سزا ؤں کی مختلف قسمیں ہیں جیسا کہ دنیا وی عذاب دو طرح کے ہیں :

ایک تو جڑ کا ٹ دینے والا عذاب عذابِ استیصال ہے جس کے ذریعہ لوگوں کی ایک جماعت ہلاک اور نیست و نا بود کر دی جاتی ہے ۔

دوسرے وہ مشکلات و مصائب ہیں جو عذاب میں مبتلاء افراد کی مو ت کا سبب نہیں ہو تے ۔ اس طرح کے عذاب کا سلسلہ ہمیشہ جا ری رہتا ہے ،کبھی کبھی معا شرہ کے تمام افراد یاکسی خا ص طبقہ کے لو گو ںیا کسی خا ص شخص پر بھی نا زل ہوجاتا ہے ۔اس قسم کے عذاب لوگوں کے گنا ہو ں کی سزا کا صرف ایک حصہ ہیں جیسا کہ آپ نے آخری آیت میںملاحظہ کیاکہ اگر خداوندعالم انسا نو ں کو ان کے تمام برے اعما ل کی سزا اسی دنیا میں دید یتا تو کو ئی بھی انسان زندہ نہ بچتا:

( مَاتَرَکَ عَلَیْهَا مِنْ دَابَّةٍ ) ( ۱ )

''تو رو ئے زمین پر کوئی ایک جا ندا ر کو با قی نہ چھو ڑ تا '' ۔

چنانچہ سنت الٰہی یہ ہے کہ آدمیو ں کے صرف کچھ گنا ہو ں کی سزا اس دنیا میں دید ی جا ئے او ر باقی سزا کو جہانِ آخرت (قیا مت ) کے لئے چھو ڑ دی جا ئے اور اللہ کی یہ سنت بھی ایک ایسی سنت ہے جو سنت عذاب کو محدود اور اس کے وقت کو معین و مشخص کر تی ہے ۔ اس بنا پر الٰہی سنتو ں کی آخری حد یہ ہے کہ صرف کچھ لو گ وہ بھی مشخص و معین زما نوں میں عذابِ استیصال میں مبتلا کئے جا ئیں تا کہ اس طریقہ سے دوسرے لو گ عبرت حا صل کریں ۔ سورئہ نحل کی ایک آیت میں بھی اس حقیقت کی طرف اشا رہ ہے :

( وَلَوْیُوَاخِذُ ﷲ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَاتَرَکَ عَلَیْهَامِنْ دَابَّةٍ وَلٰکِنْ یُؤَخِِّرُهُمْ اِلَیٰ اَجَلٍ مُسَمّیً فَاِذَاجَائَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاخِرُوْنَ سَاعَةً وَلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ ) ( ۲ )

____________________

۱۔سورئہ نحل آیت ۶۱۔۲۔سورئہ نحل آیت۶۱۔

۳۳۴

''اور اگر خدا وند عالم(سزا کے ذریعہ) لو گو ں کے ستم کا موا خذہ کر تارہتا تو روئے زمین پر کوئی ایک جا ندا ر باقی نہ چھو ڑتالیکن وہ ان کے (کیفر ) کو ایک معین وقت کے لئے ٹالے رکھتا ہے اور جب ان کی اجل (موت) آپہنچتی ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹاسکتے ہیں اور نہ آ گے بڑھا سکتے ہیں ''۔

بعض آیات ایک دوسرے نکتہ پر زور دیا گیا ہے وہ یہ کہ انسان کا برا کر دارہی اس کو دنیا میں عذاب اور مصیبتوں میں مبتلا کر تا ہے اور یقیناً ایسا نہیں ہے کہ یہ عذاب اس کے تما م برے اعمال کا نتیجہ ہو بلکہ یہ صرف وہ عذاب ہے جو اُس کے بعض اعمال کے بدلہ میں مقرر کیا جاتا ہے اور اس کا مقصدبد کارو ںکی تنبیہ کے علا وہ اور کچھ نہیںہے ۔ نمو نہ کے طو رپر سورئہ مبا رکۂ شوریٰ میںاس حقیقت کی طرف اشا رہ موجودہے ارشاد ہو تا ہے :

( وَمَاأَصَٰبَکُمْ مِن مُصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَت اَیْدِیْکُم وَیَعفُوْاعَن کَثِیْرٍ ) ( ۱ )

'' ا ور جو مصیبت تم پر پڑی ہے وہ تمہارے اپنے ہی ہاتھوں کی بلائی ہو ئی ہے اور ( خداتو) بہت کچھ در گزر کردیتا ہے '' ۔

بہت سے عذاب کے مستحق گنا ہو ں سے خدا وند عالم کا چشم پوشی کرنا سورئہ نحل کی اسی آیت کا مصداق ہے جس میں اعلان ہواہے : اگر خداوند عالم انسانوں کو ان کے تمام برے اعمال کی سزا دینا چاہے تو روئے زمین پر کوئی جاندارمنجملہ کو ئی بھی آدمی باقی نہ رہتا ۔ بنا بریں اس آیت سے دو نکتوں کا استفادہ ہو تا ہے :

۱۔ انسان پر آنے والی ہر مصیبت اور عذاب خود اسی کے برے اعمال اور گناہوں کا نتیجہ ہے۔

۲۔اگر چہ انسانوں کے تمام ناپسند اور برے اعمال پر ایک مخصوص سزا اور عذاب ہو نا چا ہئے لیکن خداوند عالم ( اپنی حکمت با لغہ کی بنیاد پر ) ان کے بہت سے اعمال کو بخش دیتا ہے اور ان کے مر تکب افراد کو اس دنیا میں عذاب دینے سے چشم پوشی کرتا ہے ۔

اس نکتہ کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ کبھی کبھی گنا ہگاروں کے بُرے اعمال کا اثر اتنا زیادہ وسیع ہو تا ہے کہ اس کی لپیٹ میں صرف ان اعمال کے مر تکب ہی نہیں بلکہ دو سرے بھی آجا تے ہیں ۔ اس حقیقت کومندرجہ ذیل آیت میں صاف طور پر بیان کیا گیا ہے:

( ظَهَرَالفَسَادُ فِی البَرِّوَالبَحْرِ بِمَاکَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِ یْقَهُم بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوالَعَلَّهُم یَرْجِعُوْنَ ) ( ۲ )

____________________

۱۔سورئہ شوریٰ آیت ۳۰۔ ۲۔سورئہ روم آیت ۴۱ ۔

۳۳۵

'' خود لو گوں کے اپنے ہا تھوں کر توت کی بدولت خشک و تر میں برائی اور تباہی پھیلی ہے کہ جو کچھ یہ لوگ کرچکے ہیں ان میں سے بعض کا مزہ (خدا )انھیںچکھا دے کہ شاید یہ لوگ باز آجائیں '' ۔

اور اسکے بعدکی آیت میں خداوند عالم نے انسان کو زمین کی سیر کرنے اور گذشتہ لو گو ں کے انجام کے بارے میں غور و فکر کر نے کی دعوت دی ہے :

( قُلْ سِیْرُوافِی الاَرْضِ فَانْظُرُوْاکَیفَ کَانَ عَٰقِبَةُ الَّذِیْنَ مِن قَبلُ کَان اَ کثَرُهُمْ مُشْرِکِیْنَ ) ( ۱ )

'' کہدیجئے کہ ذرا رو ئے زمین پر چل پھر کر د یکھو تو کہ وہ لوگ کہ جن میں اکثریت مشرکین کی تھی اور اس کے قبل گذر چکے ہیں ان کا انجام کیا ہو ا ۔

جیسا کہ آپ ملا حظہ فر ما رہے ہیںکہ آیت میں جن لوگوں پر عذاب کیا گیا ان کے مشرک ہو نے کی طرف اشارہ ہے ۔ ا لبتّہ عبارت ( کان اکثرھم مشرکین ) میں دواحتمال پائے جاتے ہیں :

پہلا احتمال یہ ہے : گذشتہ قوموں کی اکثریت جو مشرک تھی عذاب الٰہی میں مبتلاہوئی ۔اس بنیاد پرآیت کا مطلب یہ ہو گا کہ جن افراد پر عذاب ہوا وہ سب مشرک تھے اور یہ بھی کہ تمام مشرکوں پر عذاب ہوا ہے ۔

دوسرا احتمال یہ ہے :جن افراد پر عذاب ہوا ان میں سے اکثر مشرک تھے ۔اس صورت میں مطلب ہو گا کہ جن لوگوں پر عذاب ہوا ان میں سے بعض موحّد بھی تھے البتّہ اہل عذاب مشرکوں کے مقابلہ میں ان کی تعداد بہت کم تھی اور عذاب کے درمیان وہ اقلیت میںتھے اب اگر ہم اس احتمال کو قبول کرلیں تویہ سوال ذہن میں آتاہے کہ خدائے واحد کو ماننے والے افراداقلیت میں سہی کس بناء پر خداوندعالم کے عذاب کے مستحق قرارپائے ؟

اس سوال کے جواب میںیہ کہاجاسکتاہے کہ موحّدوںکایہ گروہ فسق وفجور کا مر تکب ہو نے کی وجہ سے خداوندعالم کے عذاب کا مستحق قرارپایا ہوگاجیسا کہ قرآن میں اصحاب ''سبت''کی داستان سے اس دعوے کی تا ئید ہو تی ہے، یہ جماعت مشرک نہیں تھی یہاں تک کہ وہ ظاہری طور پر خداوندعالم کے احکام کی پیروی کا ادعا بھی کرتی تھی یہی وجہ ہے جب سنیچر کے دن مچھلی کا شکار ممنوع ہوا تو انھوں نے شکار سے ہاتھ کھینچ لیا لیکن اس کے ساتھ چال یہ چلی کہ حوض کے مانند گڑھے کھو د دئے جن میں مچھلیاں پھنس جاتی تھیں اور پھر ان کا اتوار کے دن شکار کر لیا کرتے تھے یہ گروہ شرک کی وجہ سے نہیں بلکہ احکام الٰہی سے کھلواڑکی وجہ سے مستحق عذاب ہوا اور قرآن کی گواہی کے اعتبار سے یہ لوگ بندر بنا دئیے گئے ۔

____________________

۱۔سورئہ روم آیت ۴۲۔

۳۳۶

( فَلَمَّاعَتَوْاعَنْ مَّانُهُوْاعَنْهُ قُلْنَالَهُمْ کُونُواقِرَدَةً خَاسِئِینَ ) ( ۱ )

''پھر جس بات سے انھیں منع کیا گیا تھا جب ان لوگوں نے اس میں سرکشی کی تو ہم نے حکم دیا کہ تم ذلیل اور راندے ہوئے بندر بن جاؤ''۔

بہر حال اگر ہم دوسرے احتمال کو تسلیم کرلیں توبھی آیت کے معنی یہ ہونگے کہ گذشتہ لوگوںپر جو عذاب کیا گیا ان میں سے اکثر کے مشرک ہونے کی وجہ سے کیا گیا اگر چہ ان کے درمیان کچھ فاسق موحّد افرادبھی موجود تھے۔

بہر حال آخری آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کفر ،ظلم اورانبیاء علیہم السلام کو جھٹلانا و غیرہ آخرت کے عذاب کے علاوہ دنیاوی عذاب کا باعث بھی ہیں جو کبھی انسانوں کی پو ری ایک جماعت کی تباہی اورہلاکت کا سبب بنے ہیںلیکن یہ عذاب خداوندعالم کی دوسری سنّتوں کے زیر اثرہیں اور بعض اوقات مصلحتوں یا بد عنوانیوں کی وجہ سے کافروں اور گنہگاروں کی ہلاکت میں تاخیر کر دی جاتی یا کبھی کبھی بالکل ہی ٹال دی جا تی تھی اور ان کے عذاب کو آخرت کیلئے چھوڑدیا جاتاتھا۔جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں انسانوں کی موت کا وقت جو خود بھی علم الٰہی کے خاص قوانین وضوابط کی اساس و بنیاد پر معین ہوتاہے ایک اصول ہے جو عذاب استیصال کے نازل ہونے کے وقت کو معین و محدود کردیتاہے ۔اس حقیقت کو قرآن کریم کی بعض آیات میں صاف طورپر بیان کیا گیاہے:

( لَوْلَاکِتَاب مِنَ ﷲ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَااَخَذْتُمْ عَذَابعَظِیْم ) ( ۲ )

''تم نے جو کہا ہے اگر خداکی طرف سے پہلے لکھانہ جاچکاہوتاتو یقیناتم پربڑا عذاب نا زل ہوتا''۔

اس آیت سے یہ پتہ چلتاہے کہ اگر اس گروہ کی موت کا وقت پہلے سے لکھا نہ ہوتا تو یقینا ان کے برے اعمال کی وجہ سے ان پر بہت بڑا عذاب نازل ہوگیاہوتا۔متعددآیات میں (لَوْلاٰکَلِمَة سَبَقَتْ مِنْ رَبِّکَ)کا جملہ استعمال ہواہے۔یہ آیات اس چیز کی عکاسی کرتی ہیں کہ اگر چہ آدمیوں کے بعض گروہ سخت عذاب و ہلاکت کے مستحق کیوں نہ ہوںچو نکہ ابھی ان کی موت کا وقت نہیں آیاہے اور خداوندعالم کی جا نب سے ان کی موت میںتا خیر کا فیصلہ ہو چکاہے لہٰذا ان پر عذاب الٰہی نازل نہیں ہوتااور وہ اپنی موت کے معینہ وقت تک زمین پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ لہٰذالوگوں کی موت کے وقت کا معیّن و مشخّص ہونا بھی خداوندعالم کی ایک ایسی سنّت ہے جو سنّت عذاب پر حاکم ہے اور اس کو معیّن و مشخّص کرتی ہے ۔

____________________

۱۔سورئہ اعراف آیت۱۶۶۔۲۔سورئہ انفال آیت۶۸۔

۳۳۷

معلوم ہوا یہ کہ خداوندعالم اپنی بعض مصلحتوں کی وجہ سے جس کا علم صرف اسی کو ہے، اپنے عذاب اور سزا کو اسکے مستحق افراد سے کچھ مدّت کیلئے اٹھالیتا ہے البتہ قرآن کریم کی ہی آیات سے جیسا کہ پتہ چلتا ہے کہ خداوندعالم کا یہ منصرف ہونے کا عمل مستحقین عذاب سے مخصوص ہے ،اور خداوندعالم کی نعمتوںمیں جاری نہیںہو تا۔ یعنی اگرچہ خداوندعالم اپنا عذاب ایک مدت کے لئے مستحقین سے دور کردیتا ہے لیکن کبھی اپنی نعمتوں کو نعمتوں کے مستحق بندوں کو عطا کرنے میں دریغ نہیں کرتا ۔

قر آن کریم کی بعض آیات میں صا ف طور پرموجودہے کہ خدا وند عالم جب اپنے بند و ں کو نعمت عطا کردیتاہے تو پھر واپس نہیں لیتا مگر خود بند وں کے اندرکو ئی ایسی تبد یلی آجا ئے کہ وہ اپنی پہلی لیا قت سے ہاتھ دھو بیٹھیں:

( ذَٰلِکَ بِاَنَّ ﷲ لَمْ یَکُ مُغَیِّراًنِعْمَةً اَنْعَمَهَاعَلَٰی قَوْمٍ حَتَّیٰ یُغَیِّرُوْامَا بِاَنْفُسِهِم ) ( ۱ )

''یہ سزا اس وجہ سے ہے کہ جب خدا کسی قوم کو کو ئی نعمت دیتا ہے تو جب تک وہ لوگ خود اپنی قلبی حا لت (نہ) بد لیں خدا بھی اسے نہیں بدلتا ''۔

اور سورئہ رعدمیں مطلق طور پر تغیر و تبدل نہ ہو نے کی بات کی گئی ہے :

( اِنَّ ﷲ لَا یُغَیِّرُمَابِقَوْمٍ حَتّیٰ یُغَیِّرُوْامَابِاَنْفُسِهِمْ ) ( ۲ )

''در حقیقت خدا وند عالم کسی قوم کی حا لت نہیں بد لتا جبتک وہ لوگ خود اپنی حا لت نہ بد لے ''۔

البتہ مفسرین کے ایک گروہ نے آیت کے مطلق ہونے کی بنیاد پر کہاہے کہ یہ آیت نعمت اور عذاب دونوں کو شامل ہے اب اگر یہ خیال درست مان لیں تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ خداوندعالم کسی گروہ کی طرف نا زل ہونے والے عذاب کو بھی نہیں بدلتامگر یہ کہ وہ گروہ خود مستحق عذاب نہ رہ جا ئے ۔یہ مفہوم اگرچہ آیت کے مطلق ہونے سے سازگار ہے لیکن آیات کے سلسلۂ کلام سے مناسبت نہیں رکھتاکیو نکہ ا ن آیات کے سلسلۂ گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تغیر و تبدّل کا مسئلہ نعمت سے مخصوص ہے یعنی خداوندعالم نعمتوں میں تغیّر و تبدّل نہیں کرتا مگر یہ کہ خود مستحقین نعمت اپنے استحقاق سے ہاتھ دھو بیٹھیں ۔نہ یہ کہ اگر کسی قوم پر کو ئی عذاب ہو نے والا ہو تو اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی مگر یہ کہ وہ قوم خود اپنے کو بدل ڈالے اور اس نظریہ کی تائید سورئہ مبارکۂ اعراف کی اس آیت سے ہوتی ہے:

( ثُمَّ بَدَّلنَامَکَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ ) ( ۳ )

____________________

۱۔سورئہ انفال آیت۵۳۔ ۲۔سورئہ رعدآیت۱۱۔۳۔سورئہ اعراف آیت۹۵۔

۳۳۸

''پھر ہم نے برائی (مصیبت)کی جگہ،نیکی (اور نعمت) دیدی۔۔۔''۔

اس بناء پرلگتا ہے کہ سورئہ رعد کی گیارہویں آیت اور سورئہ انفال کی ترپنویں آیت دونوں کا مفہوم ایک ہی ہولہٰذایہ امکان پایاجاتاہے کہ خدا وند عالم مستحقین عذ اب سے کسی مصلحت منجملہ املااور استدراج کی وجہ سے بعض عذاب کودور کردے لیکن یہ عمل نعمتوں میں جاری نہیں ہوتا ۔

قرآن کریم کی آیات سے ایک دوسرے اہم مسئلہ کا پتہ چلتاہے کہ مصیبت اور سختی ہمیشہ عذاب اور الٰہی سزا نہیں ہوتی ۔اگر سختی اور مصیبت آدمی کے برے اعمال کا نتیجہ ہوتو یہ خداوندعالم کا عذاب ہوگی لیکن کبھی کبھی بعض سختیاں خود ایک قسم کی رحمت اور نعمت ہوتی ہیں جیسا کہ آپ نے پہلے کی آیات میں مشاہدہ کیا ہوگاکہ خداوندعالم انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کرنے کے بعد سختیوں اوربلائو ںکو نازل کرتاتھاجن کا مقصد انسانوں کو خداوندعالم کی طرف متو جہ کر نا اور ان میں خضوع و خشوع کی حالت پیدا کرنا تھا :( لَعَلَّهُمْ یضَرَّعُون ) اور ظاہر ہے کہ یہ سختی اور مصیبت عین نعمت ہے۔ پس ایسا نہیں ہے کہ ہمیشہ سختیاں گذشتہ اعمال کا نتیجہ اور سنّت عذاب کے تحت ہو بلکہ کبھی کبھی زیادہ عمومیت کی حا مل سنت یعنی آزما ئش اور امتحان کی سنت کے تحت ہو تی ہے۔ہم قرآن کی رو سے جانتے ہیں کہ اس دنیا میں انسان کے پیدا کئے جانے کا مقصد اسکا امتحان لیناہے ۔

( لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً ) ( ۱ )

''۔۔۔تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں عمل (کے اعتبار سے)میںزیادہ اچھاکون ہے۔۔۔''۔

اور آزمایش و امتحان کے لئے وسیلہ کی ضرورت ہے جوکبھی شر ہو تاہے اور کبھی خیر ہوتا ہے:

سورئہ انبیاء میں ارشاد ہو تا ہے :

( ونَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّوَالْخَیْرِفِتْنَةً ) ( ۲ )

''۔۔۔اور ہم تمہارا برائی اور نیکی کے ذریعہ امتحان لیتے ہیں ۔۔۔''۔

معلوم ہوا کہ کبھی کبھی سختیاں اورپر یشانیاں انسانوں کی آزمائش کا ذریعہ ہوتی ہیں اس کے اعمال کی سزا نہیں ہوتیں ۔

اب تک ہم نے الٰہی عذاب کے بارے میں اس عنوان سے گفتگوکی ہے کہ خداوندعالم کی یہ بھی ایک سنّت

____________________

۱۔سورئہ ہود آیت۷۔۲۔سورئہ انبیاء آیت۳۵۔

۳۳۹

ہے جو انبیاء علیہم السلام کے مخالفوں کے با رے میں جاری رہی ہے لیکن قرآن کریم میں اس بحث کی وسعت اور اہمیت کے پیش نظر بہتر ہے کہ اس بارے میں قرآن کریم کے مختلف سوروں میںذکر شدہ متعدد آیات پر بھی ایک سرسری نظر ڈال دی جا ئے ۔

قرآن کریم کی بعض آیات میں گذشتہ قوموں پر ہونے والے عذاب کا کلی طور پر ذکر ہواہے کسی خاص قوم یا اقوام کا ذکر نہیں ہے۔نمونہ کے طور پر سورئہ انعام میں ارشاد ہو تا ہے

( اَلَمْ یَرَوْاکَمْ اَهْلَکْنَامِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرنٍٍ مَکَّنَّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ مَالَمْ نُمْکِّنْ لَکُمْ وَاَرْسَلْنَاالسَّمَائَ عَلَیْهِمْ مِدْرَاراًوَجَعَلْنَاالْاَنْهٰرَتَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمْ فَاَهْلَکْنَٰهُم بِذُنُوبِهِمْ وََنْشَناًمِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً ئَ اخَرِیْنَ ) ( ۱ )

''کیا انھوںنے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی امتوں کو ہلاک کرڈلا؟(وہ امتیں جن کو)ہم نے روئے زمین پروہ و سا ئل عطاکئے تھے جو تم کو نہیں عطا کئے اور آسمان سے ان پر لگاتار بارش کے ذریعہ ان کے(شہروںکے)نیچے بہتی ہوئی نہریں بنادیں (اور)پھر ان کے گناہوںکی وجہ سے ان کومارڈالااوران کے بعدایک دوسرے گروہ کوپیداکردیا''۔

جیسا کہ آپ نے ملا حظہ فر مایا آیت میں کچھ گذشتہ امتوں پرخدا وند عالم کے عذاب نا زل کرنے کا بیان ہے مگرقو موں کے نام نہیں بیان کئے گئے ہیں اسی آیت کی ما نند دو سری آیتیں بھی ہیں جو اسی مطلب کو بیان کر تی ہیں ان میں سے کچھ آیات یہ ہیں :سورۂ انعام آیت۱۰۔۱۱،سورئہ انبیاء آیت۴۱،سورئہ ہودآیت۴۰،سورئہ عنکبوت آیت۵۲۔۵۳،سورئہ انفال آیت۵۲۔۵۳،رعد آیت ۳۲، حجر آیت ۱۰۔۱۳ ،روم آیت۹،۴۲،۴۷، فاطر ۲۵۔۲۶، مؤمن آیت۲۱۔۲۲، فصلت آیت ۸۲۔۸۵، زخرف آیت۷۔۸، حج آیت ۴۵۔۴۶،مریم آیت ۹۸، محمد آیت ۱۰ و ۱۳، ق آیت ۳۶۔۳۷ ۔

آیات کاایک سلسلہ اور ہے جس میں مخصوص قوموں پر عذاب کا تذکرہ کیاگیاہے ہم ہر قوم سے متعلق صرف ایک آیت بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ہوئے بقیہ آیات کا حوالہ قارئین کرام کے لئے ذکر کر رہے ہیں ۔

الف )حضرت نوح علیہ السلا م کی قوم

سورئہ اعرا ف میں ارشاد ہو تا ہے :

____________________

۱۔سورئہ انعام آیت۶۔

۳۴۰