راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 119964
ڈاؤنلوڈ: 2218

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119964 / ڈاؤنلوڈ: 2218
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

وہ کہتا ہے : ہاں سچ بو لنا اچھی بات ہے ہم یہ بسر و چشم قبو ل کر تے ہیں ہمیشہ سچ بو لیں گے۔

پیغمبر نے کہا : اپنی لڑ کیوں کو قتل نہ کرو ۔

وہ کہتا ہے :ہاں صحیح ہے ۔اپنے بچو ں کو قتل نہیں کر نا چا ہئے ۔

پیغمبر کہتا ہے : خدا کے سا منے سر جھکا ئو ۔

وہ کہتا ہے : با لکل ٹھیک ہے ۔خدا وند عالم نے ہم سب کو پیدا کیا ہے اس کے بدلے ہم کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے ہم اس کی پرستش کر نے کو تیار ہیں ۔

پیغمبر نے کہا :روزہ رکھو ۔

وہ کہتا ہے :ہاں روزہ صحت و تند رستی کے لئے مفید ہے ۔پوری رضا و رغبت کے ساتھ ہم روزہ رکھیں گے ۔

بنا بر این چونکہ انبیاء علیہم السلام کے تمام دستو رات و احکامات عقل اور فطرت کے مطابق ہیں اور لوگ ان کو تسلیم کر تے ہیں تو پھر انبیاء علیہم السلام کو لو گو ں کے سامنے غیر معمو لی افعال انجام دینے کی ضرور ت کیا ہے ؟

گویا معترض یہ کہنا چا ہتا ہے کہ با لفرض معجزہ کا امکان پایا بھی جاتا ہو تو اس کی ضرورت کیا ہے؟ معجزہ ممکن ہونے کی صورت میں خدا نے کسی کو معجزہ دیدیا ہوتو یہ اس پر خداوند عالم کا فضل واحسان ہے ورنہ اتمام حجت معجزہ پر موقوف نہیں ہے ۔

جواب : اس طرح سے سوچنا صحیح نہیں ہے کیو نکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ا نبیاء علیہم السلام کی دعوت عقل وفطرت کے موافق ہے لیکن کیا تمام انسان تمام صورتوں میں اس مطابقت کو سمجھتے یا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ؟

اگر تمام صورتوں میں تمام انسان اس قدر آسانی سے عقل وفطرت کی تعلیمات کو سمجھ لیا کرتے تو پھر پیغمبر کو مبعوث کر نے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی لوگوں کی ہدایت کے لئے عقل ہی کافی ہوتی ہاں کچھ کلیات ہیں مستقلات عقلیہ جو عقل کے نزدیک مسلمات میں شمار ہوتے ہیں اور اس سے ملتی جلتی چیزیں موجود ہیں جن کو آسان دلیلوں کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے اور کسی حدتک عقل درک کرتی ہے جیسے :

۶۱

( وَزِ نُوْا بِالْقِسْطَا سِ الْمُسْتَقِیْمِ ذَ الِکَ خَیْروَاَحْسَنُ تَاوِیْلاً )

''اور جب کچھ بیچنا ہوتو بالکل صحیح ترازو سے تو لا کرو (ہر گز کم نہ تولنا )یہی(طریقہ )بہتر ہے اورانجام (بھی اسکا)اچھا ہے'' ۔

اس کو توتمام لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن انبیاء علیہم السلام کی دعوتِ تبلیغ میں سب کچھ اس کے مثل نہیں ہے در اصل نبیوںکو مبعوث کر نے کی ضرورت بھی اس لئے پیش آئی کہ جن چیزوں کو عقل نہیں سمجھتی انبیاء علیہم السلام ان چیزوں کو انسانوں کو سمجھائیں ﷲ کے احکام کا فطرت کے مطابق ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام انسان اس مطابقت کو خود درک کر لیں گے مثال کے طور پرکیا تمام لوگ بذات خودیہ سمجھ سکتے ہیں کہ صبح کی نماز دو رکعت کیوں ہے ؟نہیں ایسا نہیں ہے اگر ہم ساٹھ سال تک بھی اپنے ذہن پر زور ڈالتے رہیں آخر تک ہم نہیں سمجھ سکتے کہ صبح کی نماز کیوں دو رکعت ہے ؟ اور کس دلیل کے تحت صبح کی تین رکعت نماز پڑھنا باطل ہے ؟اور اس کے بر عکس مغرب کی نماز تین رکعت کیوں ہے ؟ اس چیز کو عقل نہیں سمجھ سکتی اس بنا پر انبیاء علیہم السلام کی ہر بات کو تمام لوگ عقلی طور پر نہیں سمجھ سکتے لہٰذا ان کو لا محالہ حکم خدا کے طور پر سمجھنا ہوگا انبیاء علیہم السلام کی دعوت تبلیغ میں بہت سی باتیں جو سمائی ہوئی ہیں اسی طرح کی ہیںاور انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کرنے کی اصل ضرورت یہی تھی کہ جن چیزوں کو لوگوں کی عقل درک نہیں کرتی وہ آکر ان کو سمجھائیں۔اس طرح کی چیزوں کو تمام لوگ اپنی عقل کی روشنی میں کیسے تسلیم کرسکتے ہیں؟ ہاں ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کے ہماری عقل اس چیز کومحسوس کرتی ہے کہ اگر اس نے انبیاء علیہم السلام کے حکم پر عمل کیا تو اس کے بدلے میں جو انھوں نے وعدہ کئے ہیں اور ثواب وعذاب کے جو احتمالات ہیں ان میں ہمارا کوئی نقصان نہیں ہے لیکن احتیاط کا مسئلہ اس سے الگ ہے کہ عقل اس کے وجود کو اس طر ح سمجھ لے کہ صحیح معنی میں اس کے لئے حجت تمام ہوجائے کہ اگر یہ کام انجام نہ دیا تو یقینا مواخذہ کیا جائے گا اس کو عقل نہیں سمجھ سکتی ۔

بنا بر این تمام لوگوں پر انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ خدا کی حجت تمام ہو جانے کے لئے خدا کی ایک ایسی نشانی کا ہونا ضروری ہے اگر وہ نشانی نہ ہو تو تمام لوگوں پر خدا کی حجت تمام نہ ہو۔کیونکہ بہت سے مسائل ایسے ہیںکہ جن کا صحیح ہونا عقل بشر درک نہیں کرسکتی اور اس کے لئے خدا کی حجت تمام نہیں ہوتی ۔

۶۲

نتیجہ کے طور پرانبیاء علیہم السلام کی تمام دعوت ِتبلیغ لوگوں کے لئے ثابت اور لازم ہونے اور ان پر حجت تمام ہوجانے کے لئے ضروری ہے کہ پیغمبر کی نبوت کووہ سمجھ لیں اور پیغمبر کوسمجھنا اس چیز پر موقوف ہے کہ ان کے پاس نبوت کی کوئی نشانی ہو اور وہ نشانی خداکی طرف سے ہو جو عام طور پر لو گوں میں نظر نہ آتی ہو۔جب لوگ پیغمبر کے پاس اس طرح کی کسی نشانی کا مشاہدہ کریں گے تو فو راَ سمجھ جائیں گے کہ جس وحی کا یہ پیغمبر ادّعا کررہا ہے و ہ بھی خدا کی طرف سے ہی ہو جیسے تمام عقلا ء اپنی زندگی میں اپنی نشانیاں کام میں لاتے ہیں ۔اگر کو ئی شخص آپ کے پاس آکر یہ کہے کہ (میں آپ کے پاس فلاں شخص کا یہ پیغام لیکر حاضر ہوا ہوں کہ آپ فلاں چیز مجھکو دیدیجئے )

توآپ اس سے یہی سوا ل کریں گے کہ :آپ کے پاس فلاں شخص کے پاس سے آنے کا کیا ثبوت ہے ؟

اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا کو ئی خط یا کو ئی نشانی ہونا چاہئے یا وہ کوئی ایسی چیز جانتا ہو جسکا اس شخص کے علاوہ او ر کسی کو علم نہ ہو یا اس پیغام رساں کے ہاتھ میں کوئی ایسی چیز ہو جو فلاں شخص سے مخصوص ہو اگر اس طرح کا کو ئی ثبوت پیغام بر کے پاس مل جا ئے تو ظاہر ہے کہ اس کا فلاں شخص سے رابطہ ثابت ہو جا ئیگا ۔ بہر حال نشانی طلب کرنے کا مقصد پیغام کی صداقت کا پتہ چلا نا ہے لیکن اگر پیغام بر کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو پیغام رساں کے پیغام کو قبول کر نا لازم نہیں ہے حتی کہ اگر آ پ نے امانت اس کے سپر د کر دی تو خود اس کے ذمہ دار ہو ں گے ۔خدا جب پیغمبر کو لو گوں کے در میان مبعوث کر تا ہے تو وہ لو گوں سے جان، مال ،افکار ،عقائد اور ایک لفظ میں پوری ہستی کا طالب ہو تا ہے ۔ یہ سب خدا کے اموال ہیں جو انسانو ں کے پاس امانت کے طور پر ہیں اب اگر کو ئی شخص آ کر یہ کہے کہ یہ سب کچھ مجھے دیدو اپنی جان فلاں جگہ قر بان کر دو اپنا مال فلا ں جگہ خرچ کر دو کیو نکہ یہ سب خدا کی امانتیں ہیں تو جب تک ہم یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ شخص خدا کا پیغمبر ہے ہم اس کو یہ چیزیں دینے کا حق نہیں رکھتے ۔ اسی لئے نبی کے پاس کو ئی الہٰی نشانی ہو نا چاہئے اور یہ ایک فطری امر بھی ہے اور اسی لئے قر آ ن کریم میں بہت سی قو موں سے نقل ہوا ہے کہ جب ان کے در میان انبیاء علیہم السلام مبعوث کئے جا تے تھے تو وہ ان سے نبوّت کی نشانی کا مطالبہ کیا کرتے تھے :

۶۳

( فَأْتِ بِآیَةٍاِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ ) ( ۱ )

''اگر آ پ سچّے ہیں اور خد ا کے نبی ہیں تو آ پ کے پاس کو ئی نشا نی ہو نا چا ہئے ''۔

اس بنا ء پر انبیاء علیہم السلام کا صاحب اعجاز ہو نا ضرو ری ہے 'جب تک ان کے پاس نبوّت کی نشانی نہ ہواسوقت تک لوگوںپرحجت تمام نہیںہوسکتی ؟

۴۔ اب سوال یہ ہے کہ: کیا تمام انبیاء علیہم السلام صاحب معجزہ تھے یا معجزہ بعض انبیاء علیہم السلام سے مخصوص تھا ؟

تو یہ سوال پیش آتا ہے کہ پھر تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت ِتبلیغ کیسے قابل تسلیم ہو گی اور لو گو ں پر کیسے حجت تمام ہوگی؟

ہمیں ان سوالات کا کہیں عقلی اعتبا ر سے اور کہیں قرآ ن کریم کی آ یات کی روشنی میں جا ئزہ لینا چا ہئے ۔

ابتک ہماری بحث عقلی تھی ۔ہم اجمالی طور پر پہلے عرض کئے دیتے ہیں کہ کوئی ایسی آ یت کہ جس میں صاف طور پر یہ بیان کیا گیا ہو کہ ہر پیغمبر صاحب معجزہ تھا ہم کو قرآ ن ِکریم میں نہیں مل سکی اس صورت میں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اگر یہ صحیح ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام صا حب اعجاز نہیں تھے اس لئے کہ (دلیل کا نہ ملنا وجود کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے ) ۲۴ یا ۲۵ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ بقیہ انبیاء علیہم السلام کے نام کا قرآن میں کوئی تذکرہ نہیں ہے جبکہ نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں تو بقیہ انبیاء علیہم السلام کے اسمائے گرامی کا قرآن میں ذکر کیوں نہیںآیا ؟اس سے بڑھکر یہ کہ قرآن کریم میں جن انبیاء کا ذکر ہے ان کی تمام خصوصیات کا بیان ہوا ہو، لازم نہیں ہے ۔کچھ کو صاحب ِمعجزہ کہا ہے اور کچھ کے بارے میں صاحبِ اعجاز ہونے کا بیان نہیں ہے ۔ معلوم ہوا کہ صرف قرآن کا بیان نہ کرنا ان کے صاحب معجزہ نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ عقلی طور پر ہر پیغمبر کا صاحب اعجا ز ہو نا ثابت کرسکتے ہیں ؟ یا نہیں ۔ ممکن ہے، کچھ انبیاء علیہم السلام صاحب معجزہ نہ ہوں اور اس میں عقلی طو ر پر کو ئی حرج بھی نہ ہو ، نبوّت کی ضرو رت پر ہما ری دلیل یہ تھی کہ اگر معجزہ نہ ہو گا تولو گو ں پر حجت تمام نہیں ہو گی۔یہ دلیل آیا تمام انبیاء علیہم السلام کے لئے ہے یا نہیں ؟ فرض کیجئے کہ ایک نبی آ یا اور معجزہ بھی ساتھ لا یا اور ثابت ہو گیا کہ وہ نبی ہے اب اپنے بعد وا لے پیغمبر کا وہ تعا رف کر ائے اور کہے کہ میں دنیا سے جا نے والا ہوں میرے بعد فلاں شخص نبی ہے، توکیا اس آنے والے

____________________

۱۔سو رئہ شعراء آیت ۱۵۴۔

۶۴

پیغمبر کے لئے بھی معجزہ پیش کر نے کی ضرو رت ہے؟ بظاہر اس کو معجزہ دکھا نے کی کو ئی ضرورت نہیں کیو نکہ جس طرح اس سے پہلے نبی کی نبوّت ثابت ہو ئی تھی جو کچھ بھی وہ خدا کی طرف سے بھیجے جا نے کا ادّ عا کرے گا اس کا صحیح ہو نا ثابت ہو گا اگر نبی ہو نا، جو کچھ اس پر وحی ہو ئی ہے خدا کی طرف سے قبول کئے بغیر ہو تو معجزہ کا کو ئی فائدہ نہ ہوگا۔اس لئے کہ معجزہ جو کچھ خدا وند عالم نے اس پر نازل کیاہے اس کی حقّانیت کی نشانی کے طور پر ہی پیش کیا جاتا ہے (اب اگر فرض کیجئے کہ بعض چیزیں وہ اپنی طرف سے بیان کر تا ہے تو ان کا اتّباع ضرو ری ہے یا نہیں؟ یہ دوسرا مسئلہ ہے لیکن اس حد تک یقینی ہے کہ جو با تیں وہ خدا کی طرف سے ہو نے کا ادّ عا کر رہا ہے ان کو تسلیم کرنا چاہئے اور حجت تمام ہے ور نہ ہر لفظ کے لئے تو معجزہ پیش نہیں کیا جا سکتا ۔مثال کے طور پر اگر ایک پیغمبر خدا کی طرف سے معجزے لیکر آئے اور وہ یہ اعلان کرے کہ میں خدا کی طرف سے تمہا رے درمیان بھیجا گیا ہوں اور لوگ بھی سمجھ جائیں کہ اس کا خداوند عالم سے ارتباط ہے تو اس صورت میں اگر وہ پیغمبر اگلے دن کہتا ہے کہ فلاں حکم خدا کی طرف سے نا زل ہو ا ہے تو اس کو مان لینا چاہئے اب ہر حکم کے لئے تو وہ معجزہ پیش نہیں کرے گا اسی طرح اگر اپنے بعد خدا کی طر ف سے آ نے والے کسی پیغمبر کا تعارف کرائے تو کیا عقل کی رو سے بعد میں آ نے والے پیغمبر کا بھی صاحب معجزہ ہو نا ضرو ری ہے ؟

معلوم ہو ا کہ بعض حالات میں بغیر معجزہ کے بھی لو گو ں کے لئے حجت تمام ہو جانا ممکن ہے اگرچہ یہ حجت بھی در اصل کسی سابقہ معجزہ پر ہی قا ئم ہے کیو نکہ اس سے پہلے کے نبی کی نبوّت معجزہ کے ذریعہ ثابت تھی اور اسی کے توسّط سے دو سرے انبیاء علیہم السلام کی نبوّت کا اثبات ممکن ہوا ہے یا ایک ہی وقت میں کئی انبیاء علیہم السلام ہی ہوئے ہیں ان میں سے کسی ایک کا صا حب معجزہ ہو نا کا فی ہے اب وہی اگر دو سرے انبیاء علیہم السلام کی بھی تصدیق فرمادے تو ان کی نبوّ ت ثابت ہو جا ئیگی ۔ حضرت لو ط اور حضرت ابراہیم علیہما السلام ایک ہی زمانہ میں تھے اور دونوں پیغمبر بھی تھے جب حضرت ابراہیم کی نبوّت ثابت ہو گئی اگر آ پ یہ فرما دیں کہ حضرت لو ط علیہ السلام بھی پیغمبر ہیں تو لو کوں پر حجت تمام ہوجائیگی اور الگ سے ان کو معجزہ دکھلا نے کی ضرورت نہ ہو گی ۔یا یہ آیت جس میں خدا فر ما تا ہے :

( اِ ذْاَرْسَلْنَا اِلَیْهِمُ اثْنَیْنِ فَکَذَّبُوْهُمَا ) ( ۱ )

''اس طرح کہ ہم نے دو رسو لوں کو بھیجا تو ان لو گوں نے جھٹلادیا ''۔

توجیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ ان دو آد میو ں کو حضرت عیسی بن مر یم نے بھیجا تھا چنانچہ حضرت عیسیٰ کی نبوّ ت ہی دلیل کے لئے کا فی تھی اور آ یت میں بھی یہ نہیں ہے کہ ان دو نوں نے کو ئی معجزہ پیش کیا ہو البتّہ یہ ان کے

____________________

۱۔سورئہ یس آیت۱۴۔

۶۵

صاحب اعجاز نہ ہو نے کی دلیل نہیں ہے ۔ ممکن ہے وہ معجزہ لیکر آئے ہو ں لیکن آیت میں بیان نہ کیا گیا ہو لیکن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوّت ثابت تھی اور آ پ ہی نے ان دونوں حضرات کا پیغمبر کے عنوان سے تعارف کرا یا تھا تو ان کی نبوّت بھی (کو ئی مخصوص معجزہ پیش کئے بغیر ) ثابت ہو جا ئیگی اور لو گو ں پر حتی آئندہ نسلوں کے لئے بھی حجت تمام ہو جائیگی یعنی جب گزشتہ انبیاء علیہم السلام اپنے بعد آنے والے کسی نبی کا اس طرح تعارف کرا ئیں کہ مثلاًسو سال بعد ایک نبی آ ئیگا اور اس کی خصو صیات کو اس طرح بیان فر ما دیں کہ کسی شک و شبہ کی کو ئی گنجائش نہ رہ جائے تو کیا پھر بھی اس نبی کو معجزہ پیش کر نے کی کو ئی ضرو رت ہے ؟جی نہیں !اگر گزشتہ نبی کی نبوّت ثابت ہو چکی تھی اور جن افراد کے در میان اس کوبھیجا جا نا تھا ان تک یہ خبر پہنچ چکی تھی اور اس کے خصو صیات بھی اس طرح بیان کردئے گئے تھے کہ ان میں کسی شک و شبہ کی کو ئی گنجائش با قی نہ رہ گئی تھی تو پھر اس آ نے والے نبی کے لئے اپنی نبوّت کی دلیل میں معجزہ دکھلا نے کی ضرورت نہیں رہ جا ئیگی ۔ہاں اگر وہ ان افراد کے درمیان بھیجا گیا ہو کہ جن پر گزشتہ نبی کی نبوّت ثابت نہ ہو اور اس کا معجزہ اور اس کی خبر ان تک نہ پہنچی ہو تو یہ لوگ معجزے کے مطالبہ کا حق رکھتے ہیں ، جیسا کہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ نے حضرت محمّدمصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے کی خبر پہلے سے دیدی تھی۔چنانچہ قرآ ن کہتا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خصوصیات انھو ںنے اس طرح بیان کر دی تھیں :

( یَعْرِفُوْنَهُ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبنائَهُم ) ْ)( ۱ )

''وہ جس طرح اپنے بچو ں کو پہچانتے تھے (اسی طرح )وہ پیغمبر کو یھی جانتے اور پہچانتے تھے''۔

( وَکَانُوْامِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ) ( ۲ )

''اور ان کے مبعوث ہو نے سے پہلے بشارت دیا کر تے تھے کہ یہ پیغمبر آنے والا ہے اور ہما رے دین کی تائید کر نے والا ہے ''۔

تو کیا اس طرح کے لو کو ں کو حق ہے کہ وہ پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوّت ثابت نہ ہو نے اور ان پر حجت تمام نہ ہو نے کی بات کریں ؟ ہاں جن لو گو ں کے لئے حضرت مو سی ٰاور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی نبوّت ثا بت نہیں تھی تو ظاہرہے حضرت رسو ل خدا کی نبوّت بھی ثابت نہیں ہو گی یا گزشتہ انبیاء علیہم السلام نے جو بشارتیں دی تھیں ان تک نہ پہنچی ہو ں تو ان کے لئے حجت تمام نہ ہو گی ۔جہاں تک یہو دیو ں اور عیسا ئیوں کا سوال ہے (خاص طور پر جو آپ کے

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت۱۴۶۔

۲۔سورئہ بقرہ آیت ۸۹۔

۶۶

اوصاف سے پو ری وضاحت کے ساتھ آگاہ تھے) حجت تمام ہو چکی تھی اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کے سامنے معجزہ پیش کر نے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔

معلوم ہوا لو گو ں کے لئے کسی نبی کی نبوّ ت معجزہ کے بغیر بھی صرف دوسرے انبیا ء علیہم السلام کی بشارتو ں اور پیشین گو ئیوں کے ذریعہ ثابت ہو جا نا ممکن ہے۔لہٰذا ہر پیغمبر کے لئے یقینی طور پر معجزہ ہو نے پر کو ئی عقلی دلیل نہیں پائی جاتی ۔عقل صرف اتنا کہتی ہے کہ جہاں (تمام حجت معجزہ پر ہی مو قو ف ہو معجزہ کا پیش کر نا ضروری ہے لیکن اس کو تمام انبیا ء علیہم السلام کے لئے کلیہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

۶۷

معجزہ قرآن کی روشنی میں

ہم اس سے پہلے عرض کر چکے ہیں کہ عقلی طور پر یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ لو گو ں پر حجت تمام کر نے کے لئے انبیا ء علیہم السلام کے پاس خدا کی طرف سے کو ئی نشانی ہو نی چاہئے اسی لئے کہتے ہیں کہ پیغمبر کے لئے صاحب ِمعجزہ ہو نا ضروری ہے ،جب تک اتمام حجت معجزہ پر مو قوف ہو پیغمبر کا صاحبِ اعجاز ہو نا یقینا ضرو ری ہے لیکن اگر اتمام حجت معجزہ پر مو قو ف نہ ہو تو پھر معجزہ کی ضرورت پر کو ئی عقلی دلیل نہیں ہے لہٰذا اجمالی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ انبیاء کوصاحب ِاعجاز ہو نا چا ہیے۔آئیے اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ معجزہ کے با رے میں قر آن کیا فر ماتا ہے ؟

سب سے پہلی بات تو یہ کہ جس معنی میں ہم لفظ ِمعجزہ کا استعمال کرتے ہیں قرآ ن میں استعمال نہیں ہوا ہے ، قرآ ن میںلفظ معجزہ یقینی طور پر کہیں نہیں آیا ہے لیکن اس سے ملتے جلتے الفاظ مثلاًلفظ (معجز) آیا ہے لیکن جس معنی میں ہم استعمال کرتے ہیں اس سے وہ معنی مراد نہیں، قرآن میں معجزہ کے بجائے کلمہ (آیت ) استعمال ہوا ہے یعنی قرآن میںبہت سے مقامات پر کلمہ (آیت)سے مراد معجزہ ہے۔قرآنی مفہوم سے آشنائی اور لفظ (آیت ) کے استعمال کی جگہ جاننے کے لئے کہ کن مقامات پر کلمہ ( آیت)معجزہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ہم قرآن میں لفظ آیت کے استعمال کے با رے میں تھوڑی سی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں:

آیت

لغت میںآیت علامت پہچان اور نشانی کو کہتے ہیںخواہ وہ نشانی قابلِ مشاہدہ ہو یعنی آنکھوں میں سما جانے والی ،پرُ کشش اور جاذب نظر ہو اور کسی بات کی علامت یا نشانی ہو خواہ وہ نشانی عقلی ہو۔قرآن کی زبان میں دنیا کے تمام موجودات ﷲ کی نشا نیا ں ہیں۔یعنی ان کے بارے میں غور وفکر کرنے سے انسان خداوند عالم کی ذات اور اس کے صفات علم ، قد رت،حکمت اور عظمت وغیر ہ کی طرف متو جّہ ہوجاتا ہے اور ایک ذرا سی گہری نظر کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ہر چیز کاوجود ''آیت'' ہے۔ کیونکہ وجود ایک رابطہ ہے اور اگر اس کوصحیح طور سے محسوس کیا جائے تو اس کے پرتو میں واجب الوجود خدا کا وجود مشاہدہ کیا جاسکتا ہے دوسرے لفظوں میں چونکہ تمام مخلوقات میں خدا کا جلوہ ہے جو لوگ باطنی بصیرت کے حامل ہیں اور جن کی نگاہوں میں معرفت کی روشنی ہے ان جلووں کے پس منظر میں متجلّی صاحب ِجلوہ کا دیدار کر سکتے ہیں لیکن ظاہر ہے سب کی آنکھوں میں اتنا دم کہاں ہو سکتا ہے، حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :

۶۸

(مارأیتُ شیئاالا ورایت ﷲ قبله )

'' میں نے کوئی شئے نہیں دیکھی مگر یہ کہ اس سے پہلے ﷲ کا نظارہ کرلیا '' ۔

قرآن میں کلمہ آیت کے استعمال کے مقامات

آیت کے اس گہرے عرفانی مفہوم سے قطع نظر'' آیت '' کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ انسان اس کے بارے میں سو چتا ہے، اس میں ایک اور وجود کا مشاہدہ کرتا ہے کہ یہ اسی کی ایک نشانی ہے۔ قرآن کہتا ہے :

( وَکَأَیِّنْ َمِّنْ آیَةٍ فِیْ السَّمَٰوَٰتِ وَا لْاَرْضِ یَمُرُّوْن َعلَیْهَاوَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ ) ( ۱ )

''آسمانوں اور زمین میں کس قدر نشانیاں ہیں جن سے یہ لوگ گذر تے ہیں اور ان سے منھ پھیر ے رہتے ہیں ''۔

یعنی اگر ان موجودات میں ایک ایک کے بارے میں غوروفکر کریں تو خدا کے وجود اور اس کی صفات تک پہنچ جائیںگے لیکن توجّہ نہیں کرتے، منھ موڑ کر گذر جاتے ہیں۔ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :

( وَجَعَلْنَا السَّمَائَ سَقْفًا مَّحْفُوظًا وَهُم ْعَنْ آیَا تِهَا مُعْرِضُوْنَ ) ( ۲ )

''اور ہم ہی نے آسمان کوایک محفوظ چھت بنایا پھر بھی یہ (کافر )لوگ اس کی نشانیوں سے منھ پھیرے ہوئے ہیں )''۔

یعنی کائنات اور اس کی فضائوں میں پھیلی موجودات کے بارے میں غورو خوض نہیں کرتے کہ ا ن موجو دات کے پرتو میں ان کو پیدا کرنے اور قائم وباقی رکھنے والے پروردگار کو دیکھ سکیں اور اس کی معرفت حاصل کریں ۔

اسی طرح بہت سی آیات میں خداوند عالم نے کائنات کی موجو دات کا ذکر کیا ہے اور ان آیات کے ذیل میں

____________________

۱۔سورئہ یوسف آیت ۱۰۵۔

۲۔سورئہ انبیاء آیت ۳۲۔

۶۹

کہا ہے :

( اِ نَّ فِیْ ذَ ا لِکَ لَآ یَا تٍ لِقَوْ مٍ یَتَفَکَّرُ وْ ن ) (َ ،( یعَْقِلُْون َ،یُوْ مِنُوْ نَ ) )

''یعنی اہل فکر،اہل عقل اور اہل ایمان کے لئے ان میں (ﷲکی)نشانیاں ہیں ''۔

لہٰذا اس معنی میں لفظ آیت کا تمام موجودات اور مخلوقاتِ خدا پر اطلاق ہوتا ہے ۔

کبھی قرآن نے ان میں سے موجودات کو خاص طور پر توجہ کا مرکز قرار دیا ہے اور لوگوں کوان پر غوروفکر کرنے کی دعوت دی ہے اور ان سے مخصوص نتائج نکالے اور پیش کئے ہیں چنانچہ سو رئہ یس میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَآیَة لَهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ اَحْیَیْنَا هَاوَاَخْرَجْنَٰاهَامِنْهَاحَبّاًفَمِنْهُ یَاکُلُوْنَ ) ( ۱ )

''او ر ہما ری قدر ت کی ایک دلیل یہ ہے کہ ہم مر دہ زمین زندہ کر دیتے اور اس سے دانہ اُگا تے ہیںپس اسے یہ لوگ کھایا کر تے ہیں ''۔اسی سور ے کی ایک اور آیت میں ار شاد ہو تا ہے :

( وآیَة لَّهُمُ اللَّیْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَاِذَاهُمْ مُّظْلِمُوْنَ ) ( ۲ )

''اور ان کے لئے ایک اور دلیل رات ہے جس سے ہم دن (کا اُجالا ) کھینچ لیتے ہیں تو اس وقت یہ لوگ اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں ''۔

پھر ایک اور آیت میں خدا وند عالم ارشاد فر ماتا ہے:

( وَآیَة لَّهُمْ اَنَّاحَمََلْنَاذُرِّیَّتَهُمْ فِی الفُلْکِ المَشْحُوْنِ ) ( ۳ )

'' اور ان کے لئے (میری قدرت کی )ایک اور دلیل یہ ہے کہ ان کے بچوں کو (انبار سے ) لدی ہو ئی کشتی میں سوار کر دیا''

یا سورئہ روم میں مخصوص مو جو دات کو بنیاد قرار دیتے ہو ئے فر ماتا ہے :

( وَمن آیاَته کَذَا ۰۰۰وَمن آیا ته کَذَا ) ( ۴ )

____________________

۱۔سورئہ یس آیت۳۳۔

۲۔سورئہ یس آیت ۳۷ ۔

۳۔سورئہ یس آیت۴۱۔

۴۔ سورئہ روم آیت۲۱،۲۴۔

۷۰

وہ مو جو دات کہ جن کے با رے میں اگر انسان فکر کرے تو فو راً پر ور دگار عالم کی طرف متو جہ ہو جاتا ہے ۔ معلو م ہو ا کہ مندر جہ بالا تمام آیات میں جو لفظ ''آیت '' یا ''آیات ''کا استعمال ہوا ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ کا ئنات کی یہ تمام مو جو دات خدا وند عالم کی نشاندہی کر تی ہیں یا یہ کہ وہ خدا کی نشانی ہیں ۔

''آیت ''کے مصادیق میں آیات تشریعی (یعنی قرآنی آیات )کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے لیکن مفہوم کے اعتبار سے اُن میں فرق نہیں ہے کیو نکہ دو نو ں کے ایک ہی معنی ''نشانی ''ہیں ۔جی ہا ں جو با تیں انبیا ء علیہم السلام پر خدا وند عالم کی جانب سے وحی کی صورت میں نازل ہو ئی ہیں ان کو بھی قر آن نے آیت کہا ہے اس لئے کہ کلام متکلم کی نشاند ہی کر تا ہے ۔کلا م کی خصو صیتیں متکلم کی خصو صیات بتا تی ہیں یہی وجہ ہے اس نے انبیاء علیہم السلام پر جو با تیں وحی فر ما ئی ہیں ان کو اپنی آیات کہا ہے ۔قرآن میں ارشاد خدا وندی ہے :

( هُوَالَذی اَنزَلَ عَلَیکَ الکتَا بَ منهُ آیات مُّحکَماَت هُنّّ اُمُّ الکتَابَ وَاُخَرُ مُتَشَٰابِهَا ت ) ( ۱ )

''(اے رسول )وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب نازل کی اس میں کی بعض آیتیں محکما ت (صاف و صریح ) ہیں جو تمام آیات کے لئے اصل و بنیا د ہیں او ر بقیہ (آیتیں ) متشابہ ہیں ''۔

ظاہر ہے یہاں آیت سے مراد موجو دات ِعالم نہیں ہیں بلکہ قر آ ن کریم کی یہی تلا وت کی جا نے والی آیات مراد ہیں ۔

سو رئہ بقرہ (آیت۲۵۲) اور سورئہ آل عمران( آیت ۱۰۸ )میں اسی کی طرف اشارہ ہے:

( تِلْکَ آیَاتُ اللَّهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْکَ باِلْحَقِّ ) ( ۲ )

''اے رسول ) یہ خدا کی آ یتیں ہیں جو ہم حق کے ساتھ آپ پر تلا وت کر رہے ہیں ''۔

یہ آ یت مکمل طور پر دلا لت کر تی ہیں کہ (آیت ) سے مراد کو ئی تلاوت کی جا نے وا لی چیز ہے اور ایسے بہت سے مقا مات ہیں جہاں قرآ ن کے جملوں کو آیت کہا گیا ہے ۔ سو رئہ یو سف کی پہلی اور سو رئہ شعراء نیز سورئہ قصص کی دوسری آ یت میں آ یا ہے :

( تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ المُُبِیْنِ ) ( ۳ )

____________________

۱۔سورئہ آل عمران آیت ۷۔

۲۔سورئہ بقرہ آیت ۲۵۲۔اورسورئہ آل عمران آیت۱۰۸۔

۳۔سورئہ یوسف آیت۱۔

۷۱

''کتاب خدا کی آ یتیں ہیں جو حقا ئق کو آشکار کرتی ہیں ''۔

اور( وَکَذَ الِکَ اَنزَلْنَاهُ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ )

''اور ہم نے اس (قر آن ) کو یو ںہی روشنی بخش آیات کی صورت میں نازل کیا ''۔

قرآ ن میں اس طرح کی تعبیریں بہت زیا دہ ہیں اور سیکڑو ں مقامات ایسے ہیں کہ جہاں پر قرآ ن کے بعض ٹکڑ وں کو آ یت یا آیات سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

قر آ ن کریم میں لفظ آیت کے ان دو نوں طرح کے استعمال کے پیش نظر قر آ ن کریم میں ذکر (آیات الٰہی) کو دو حصّو ں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

۱۔تکوینی یا قدرتی آیات ۔

۲۔تشریعی یا قرآ نی آیات ۔

تشریعی آیات سے مراد خدا وند عالم کا کلام ہے اور تکوینی آیات سے مراد خدا وند عالم کی مخلو قات ہیں لیکن بعض مقا مات پر لفظ آیت خاص معنی میں استعمال ہوا ہے اور وہ ان مخلو قات کے لئے ہے جو عام علل و اسباب کے ذریعہ وجو د میں نہیں آئی ہیں کیو نکہ وہ اپنے پیدا کر نے والے پر ذرا واضح انداز میں دلالت کر تی ہیں ،مو جو دات عام علل وا سباب کے ذریعہ وجو د پاتے ہیں انسان ان سے بہت زیا دہ ما نو س ہو جا نے کی وجہ سے ان کے پیدا کرنے والے کی طرف تو جہ نہیں دیتا لیکن جب کو ئی وجود غیر معمولی طریقہ سے وجود پاتا ہے تو وہ سب کی نظروں کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے ۔اس وقت ذہن اپنی عام کیفیت سے نکل آتا ہے اور ایک جھٹکا سا محسوس کرتا ہے ۔معلوم ہوا یہ معنای مخصوص یا خاص مقامات غیر معمولی مخلوقات کی تخلیق یا واقعات سے تعلق رکھتے ہیں ۔اس بارے میں ہم قرآن سے نمونہ کے طور پر چند مقامات بیان کر دیتے ہیں :

حضرت طالوت کی داستان میں جس وقت بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے اپنے پیغمبر سے بھیمطالبہ کیا کہ ان کے لئے ایک فرشتہ معین کریں اور انھوں نے خدا کی طرف سے حضرت طالوت کو معین فرمادیا تو انھوں نے کہا :

( اَنَّٰی یَکُوْنُ لَهُ الْمُلْکُ عَلَیْناَ ) ( ۱ )

''یہ ہم پر حکومت کی لیاقت نہیں رکھتے ''۔

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت۲۴۷۔

۷۲

ان کا حسب ونسب ہماری طرح نہیں ہے ،ان کے پاس ہماری طرح دولت بھی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ اور خدا کے نبی نے ان کے جواب میں اس آیت کی تلا وت فر ما ئی :

( اِنَّ آیَةَ مُلْکِهِ اَنْ یَاْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِیهِ سَکِیْنَة مِّنْ رَبِّکُمْ وَبَقِیَّة مِمَّا تَرَکَ آلُ مُوْسَیٰ وَآلُ هَٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلَٰئِکَةُ ) ( ۱ )

''اس کے بادشاہ ہونے کی پہچان یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجا ئیگا جس میں تمہارے پرور دگار کی طرف سے تسکین کی چیزیں اور وہ تبّر کات ہوں گے جو موسی اور ہارون کی اولاد چھوڑگئی ہے اور صندوق کو فرشتے اٹھائے ہوں گے ''۔

یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے لشکر روانہ ہو تا ہے اور ایک صندوق خود بخود ان کے آگے آگے چلنے لگتا ہے تو یہ اس چیز کی علامت ہے کہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور خداوند عالم نے ملائکہ کے ذریعہ اس کام کو انجام دیا ہے ۔

اسی طرح ایک اور پیغمبر کی داستان میں خدا وند عالم ارشاد فر ما تا ہے :

( اَوْکَاالَّذِیْ مَرَّعَلَٰی قَرْیَةٍ وَهِیَ خَاوِیَةعَلَٰی عُرُوْشِهَاقَالَ اَنَّٰی یُحْیِ هَٰذِ هِ اللَّهُ بَعدَ مَوْتِهَافَاَمَاتَهُ اللَّهُ مِاْئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْماًاَوْبَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِاْئَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلَیٰ طَعَا مِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّهْ واَنْظُرْ اِلیٰ حِمارکَ و لِنَجْعَلَکَ ء ایَةً لِلّنَّاس وَانْظُرْ اِلیَ العِظَامِ کَیفَ نُنْشِزُهَاثُمَّ نَکْسُوهَا لَحْماً فَلَمَّاتَبَیَّنَ لَهُ قَالَ اَعلَمُ ُ اَنَّ اللَّهَ عَلَٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیْر ) ( ۲ )

''یا اس بندے کی مانند جو ایک گائو ں سے گذرا اور وہ گائوں ایسا اجڑا تھا کہ اس کی چھتیں اپنی بنیاد سے ڈھ گئی تھیں یہ دیکھ کر وہ بندہ کہنے لگا ﷲ اب اس آبا دی کو ان کی موت کے بعد کیو نکر زندہ کرے گا خدا نے اُس (بندہ ) کو سو سال تک موت کی نیند سُلا دیا اور پھر انکو زندہ کر دیا (تب ) پوچھا کتنی دیر یہاں پڑ ے رہے ؟عرض کی ایک دن یا ایک دن سے بھی کم (خدا نے ) فرمایا نہیں تم سو سال سے یہاں پڑے ہو ذرا اپنے کھانے پینے (کی چیزوں ) کو تو دیکھو با لکل نہیں بد لی ہیں اور اپنے گدھے پر نظر ڈالو (کہ اس کی ہڈیاں ڈھیر ہو گئی ہیں )ہم چاہتے ہیں کہ لو گو ں کے لئے تمہیں عبرت کا نمو نہ بنا ئیں اور (اب اس گدھے کی )ہڈیو ں کو دیکھتے ہو کہ ہم کیونکر ان کو جوڑ کر ڈھا نچا بنا تے اور پھر ان پر گوشت چڑھا تے ہیں پس جب ان پر خدا کی قدرت ظاہر ہو گئی تو بول اٹھے کہ میں جانتا ہوںکہ بیشک خدا

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت ۲۴۸۔

۲۔سو رئہ بقرہ آیت۲۵۹۔

۷۳

ہرچیز پر قادر ہے ''۔

سو سال تک مردہ رہے دوبارہ زندہ ہو ئے ان کی سواری کا گدھا بھی ہلا ک ہو گیا اور خدا نے اس کو دوبا رہ زندہ کیا اور خدا وند عالم واقعے کے ذیل میں فرماتا ہے :

( وَلِنَجْعَلَکَ آیَةً لِلنَّاسِ )

''اور ﷲ تم کو لو گو ں کے لئے نشانی یا نمونہ بنا نا چاہتا ہے''۔

یقینا تمام چیزیں ﷲ کی نشانیاں ہیں لیکن غیر معمو لی چیزو ں کا ظاہر ہو نا اپنی طرف زیادہ توجہ مر کوز کر لیتا ہے ، اس وجہ سے اسکو خاص طور پر (آیت) کہا گیا ہے ،اور اسی طرح کے مقامات پر لفظ آیت کا اطلاق اسی لئے ہے کہ اس کی دلالت زیادہ واضح ہے اور اپنی طرف لو گو ں کی توجہ زیادہ کھینچتی ہے۔

اسی طرح بنی اسرائیل کے دستر خوان کی داستان ہے ، جب بنی اسرائیل نے حضرت عیسیٰ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ خدا وند عالم سے کہئے :ہما رے لئے نعمتو ں سے بھراخوان نازل کرے تو اسوقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان کی طرف ہاتھوں کو اٹھا کرعرض کی تھی :

( اَللََّهُمَّ رَبَّنَآاَنْزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَآئِ تَکُونُ لَنَاعِیْدًا لِاَوَّلِنَاوَآخِرِنَاوَآیَةً ًمِّنْکَ ) ( ۱ )

''اے ہما رے پالنے والے ہم پر آسمان سے ایک خوان (نعمت ) نازل فرما کہ وہ ہم لو گو ں کے لئے ہمارے اگلوں او ر پچھلو ں کے لئے بھی عیدی قرار پا ئے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو''۔

چو نکہ یہ ایک غیر معمو لی واقعہ ہے لہٰذا آیت اور نشانی ہے خدا وند عالم نے بھی دعا مستجاب کر تے ہو ئے فرمایا جو شخص بھی اس آ یت کے نازل ہو نے کے بعد فرمان الہٰی سے گریز کرے گا اس پر عذاب نا زل ہو گا علا وہ ازیں جن مقا مات پر انبیاء علیہم السلام نے اپنی نبوت کی نشانی کے طور پر معجزات پیش کئے ہیں وہاں پر بھی لفظ ''آیت '' استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت صالح علیہ السلام نے پہا ڑ کے دامن سے نا قہ نکا لا ہے، فر ما یا تھا :

( هذه ناَقَةُ ﷲ آیَة ) ( ۲ )

''یہ ﷲ کا ناقہ تمہا رے لئے واضح دلیل ہے ''۔

____________________

۱۔سورئہ مائدہ آیت ۱۱۴ ۔

۲۔سورئہ اعراف۷۳۔

۷۴

اسی طرح حضرت عیسیٰ کی ولا دت بھی ایک غیر معمو لی واقعہ تھا لہٰذا خدا وند عالم نے فرمایا :

( وَ جَعَلنَا ابْنَ مَر یَمَ وَاُمُّهُ آ یَةً ) ( ۱ )

''اور ہم نے مریم کے بیٹے اور ان کی ماں کو آیت قرار دیا ''۔

ظاہر ہے یہاں پر لفظ آیت عام مخلو قات کے لئے استعمال کئے گئے لفظ آ یت سے الگ ہے یہ مقام ایک خصوصیت رکھتا ہے۔کیو نکہ عام طریقہ سے الگ یہ ایک غیر معمو لی واقعہ ہے اور خدا وند عالم نے معجزہ کے ذریعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا ہے لہٰذا اسکو (آیت ) قرار دیا ہے ۔انبیاء علیہم السلام کے اور تمام معجزات کے با رے میں بھی لفظ آیات اور آیت کا استعمال ہو ا ہے مثال کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے با رے میں خدا وند عالم فر ما تا ہے :

( وَلَقَد آ تَینَا مُوسیٰ تِسْعَ آیَاتٍ بَّیّناتٍ ) ( ۲ )

'' ہم نے موسی کو نو معجزے با لکل واضح و آشکار عطا کر دیئے ''۔

البتہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام کو ان کے علا وہ بھی معجزات اور کرا مات عطا کی گئیں تھیں لیکن یہ معجزے نبو ت کی نشانی اور دلیل کے طور پر تھے ۔وہ سب وہ کرا مات تھیں جو آ پ کی زند گی میں متعددمر تبہ بنی اسرائیل کے سا منے رو نما ہو ئیں اور وہ سب بھی ایک معنی میں معجزات ہی تھے لیکن جو چیزیں نبوت کی دلیل کے عنوان سے ابتداء میں آپ کو ملیں دو چیزیں تھیں ایک عصا اور دوسرے ید بیضاء اس کے بعد دو سرے سات معجزے ملے اور یہ سب حضرت مو سیٰ علیہ السلام کو خدا وند عالم کی طرف سے نبوت کی دلیل کے طور پر عطا کئے گئے تھے ۔

حضرت رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن کے با رے میں بھی لفظ آیت کا استعمال ملتا ہے۔چنا نچہ خدا وند عا لم کا ارشاد ہو تا ہے :

( اَوَلَم یَکُن لَّهُمْ آیَة اَن یَعلَمَهُ عُلَمَائُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ ) ( ۳ )

''کیا یہ پہچان ان کے لئے کا فی نہیں ہے کہ بنی اسرا ئیل کے علماء ان سے با خبر ہیں ''۔

البتّہ یہاں پر لفظ '' آیت '' معجزہ کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیاہے بلکہ وہ نشانی اور پہچان ہے جولوگو ں پر حجت تمام کر تی ہے ۔ جب ان کو معلوم تھا کہ گزشتہ انبیاء علیہم السلام نے ایک ایسے آ نے والے نبی کی خبر دی ہے۔ تو وہ

____________________

۱۔سورئہ مو منو ن آیت ۵۰۔

۲۔سورئہ اسراء آیت ۱۰۱ ۔

۳۔سورئہ شعراء آیت ۱۹۷۔

۷۵

گزشتہ انبیاء علیہم السلام کی پیشینگو ئیاں اور علماء بنی اسرائیل کا با خبر ہو نا، صداقت کی نشانی اور پہچان ہے ۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں بہت سے ایسے واقعات بھی رو نما ہو ئے کہ ان کے با رے میں بھی کلمہ ٔ آیت کا استعمال ہو ا ہے :

( قَدْ کَانَ لَکُمْ آیَة فِیْ فِئْتَیْنِ الْتَقَتَافِئْة تُقَاتِلُ فی سَبِیْلِ اللَّهِ وَاُخْرَٰی کَافِرَة یَرَوْنَهُمْ مِثْلَیْهِمْ رَأْیَ العَیْنِ ) ( ۱ )

''ان دونو ں (کافر ومومن )جما عتو ں میں یقینا تمہا رے لئے عبرت اور نشانی تھی جو آپس میں گتھ گئیں تھیں ایک جما عت خدا کی راہ میں جہاد کر رہی تھی اور دوسرا کا فروں کا گروہ تھا جن کی نگا ہو ں میں (مو منو ں کا لشکر ) دو گُنا نظر آرہا تھا ''۔

جب سپا ہ اسلا م کفار سے رو برو ہو ئی تو اسوقت کرا مات ظاہر ہو ئیں منجملہ یہ کہ کفّار مسلمانو ںکو اپنے سے دوگنا دیکھ رہے تھے اور اسی وجہ سے ان کے دل میں ڈر پیدا ہو گیا تھا اور ان کا جذ بہ کمزور پڑ گیا تھا جس نے ان کی شکست میں مدد کی یہ بھی ایک الہٰی (آیت )ہے ۔

گزشتہ قو مو ں پر خدا وند عالم کی جا نب سے نا زل ہو نے والے عذاب کو بھی آ یا ت سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ استعمال بھی دو طرح کے ہیں : کبھی عذاب کا جو اثر باقی رہ جا یا کرتا تھا اس اثر کو قر آ ن نے ''آیت '' قرار دیا ہے اور کبھی خود واقعہ کو قر آ ن نے ''آیت ''کہا ہے ۔ فر عون کے با رے میں قرآن فر ما تا ہے :

( فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَ نِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً ) ( ۲ )

''پس آج تیرے بدن کو ہم (تہ نشین ہو نے سے ) بچائیں گے تا کہ تو اپنے بعد والو ں کے لئے عبرت بن جائے ''۔

فرعو ن کا دریا میں غرق ہو نا بنی اسرائیل کے لئے ﷲکی مدد تھی لیکن خدا وند عالم نے اس کے بعد فر عو ن کے بدن کو دریا کے با ہر پھینک دیا تا کہ آیندہ آ نے والی نسلو ں کے لئے یہ بدن با قی رہے اور اس چیز کی نشاندہی کرا ئے کہ خدا وند عالم اپنے دشمنو ں کو کس طرح نیست و نا بو د کر تا ہے :

( لِتَکُوْ نَ لمَن خلْفَکَ آیةً )

''تاکہ تو اپنے بعد والو ں کے لئے عبرت بن جا ئے ''۔

اسی طرح قرآن کریم میں جناب نوح اور ان کی قوم کے با رے میں فر ما تا ہے :

____________________

۱۔سورئہ آل عمران آیت ۱۳ ۔

۲۔سو رئہ یونس آیت ۹۲ ۔

۷۶

( فَاَنجَیْناَهُ وَاَصْحَابَ السَّفِیْنَةوَجَعَلْنَاهَا آیَةً لِلْعَالَمِیْنَ ) ( ۱ )

''ہم نے ان کو اور کشتی میں سوار ان کے ساتھیو ں کو نجات عطا کردی اور اس کشتی کو دنیا والو ں کے لئے نشان عبرت بنا دیا''۔

اور اس آیت میں فر ما تاہے :

( وَلَقَد تَرَکناَهَا آیَة فَهَل مِنْ مُدَّکِرٍ ) ( ۲ )

''بیشک ہم نے اس (کشتی )کو نشانی بنا دیا ہے آیا کو ئی نصیحت لینے والا ہے ؟''۔

اور قوم لو ط کے با رے میںارشاد فر ماتا ہے :

( وَتَرَکناَ فیهَا آیة للَذ ینَ یَخا فُو نَ العَذابَ الالیمَ ) ( ۳ )

''اور اس سر زمین پر درد ناک عذاب سے ڈرنے والو ں کے لئے ایک نشانی چھو ڑ دی ''۔

اسی طرح سورئہ شعراء میں آٹھ مقامات پر گزشتہ قو موں پر نازل ہو نے والے عذاب کے واقعات نقل ہوئے ہیں اور ان سب کے ذیل میں قرآن فر ماتا ہے :

( اِنَّ فیِ ذاَلِکَ لَآیَة وَمَا کانَ اَکثَرهُم مُومِنِیْنَ )

''اس میں ہما ری ایک نشانی ہے اور ان میں زیا دہ تر لوگ مو من نہیں تھے ''۔

یہ آٹھ کے آٹھ مقا مات ان انتہائی پریشان کن عذاب کے با رے میں ہیں جو گزشتہ قو مو ں پر نا زل ہو ئے ہیں ۔

مندر جہ بالا تمام مقا ما ت پر لفظ ''آیت ''کے استعمال میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض وقت قر آن نے ایک غیر معمولی واقعہ کو بنیا د بنا کر اسے ایک'' آیت '' قرار دیا ہے اور یہی چیز ہماری بحث سے مر بوط ہے یعنی قر آ ن کریم میں لفظ'' آیت'' کا معجزات کے لئے استعمال ہو ا ہے اب اگر لفظ ''آیت'' مشترک معنوی بھی ہو تو بھی لفظ ''آیت'' کے محل استعمال میں سے ایک اس کاخاص طور سے معجزات کے معنی میں استعمال ہو نا ہے۔معلوم ہوا کہ قرآ ن میں ''معجزہ ''کی لفظ نہیں آئی ہے معجزہ کی جگہ مخصوص طور پر لفظ ''آیت'' کا استعمال ہو ا ہے یہ سب کچھ ہم نے معجزہ کے مفہوم

____________________

۱۔ عنکبوت آیت ۱۵۔

۲۔سورئہ قمر آیت ۱۵۔

۳۔سورئہ ذاریات آیت۳۷۔

۷۷

کی وضا حت کے لئے عرض کر دیاکہ قر آن میںلفظ معجزہ کی جگہ مخصوص طور پر لفظ ''آیت'' کا استعمال ہو ا ہے البتہ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ جہاں بھی لفظ ''آیت'' استعمال ہو ا ہو اس کامطلب معجزہ ہی ہو ۔بلکہ مخصوص مقامات پر لفظ آیت معجزہ کے معنی میں بھی استعمال ہو ا ہے ۔

انبیاء علیہم السلام کے معجزات

کیا انبیاء علیہم السلام صاحب معجزہ تھے ؟قر آ ن اس با رے میں کیا فر ماتا ہے ؟

بلا شبہ قر آ ن نے بہت سے مقامات پر کہا ہے کہ ہم نے انبیاء علیہم السلام کو معجزے عطا کئے ہیں ۔

البتہ بعض مقا مات پر ظاہر بیان سے پتہ چلتا ہے کہ جب انبیا ء علیہم السلاممبعوث ہو تے تھے اور اپنی قوم میں تبلیغ شرو ع کرتے تھے تو دعوت کے ابتدائی مرا حل میں ہی اپنے معجزہ کی نشاندہی کر دیاکر تے تھے اور بعض مقامات پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب لوگ انبیاء علیہم السلام سے معجزہ کا مطالبہ کیا کر تے تھے تو وہ اس وقت اپنے معجزے پیش کیا کر تے تھے ۔

منجملہ جن مقامات سے صاف طور پرپتہ چلتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام ابتدائے تبلیغ میں خود ہی اپنے صاحب معجزہ ہو نے کا اعلا ن کر دیتے تھے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مر یم کا واقعہ ہے جن کے لئے اعلان ہو رہا ہے :

( وَرَسُولا اِلَٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ ) ( ۱ )

''ہم نے حضرت عیسیٰ کو رسو ل کی حیثیت سے بنی اسرائیل میں بھیجا ''۔

اور پھر انھو ں نے کہا :

( اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُم بآ یَةٍ مِنْ رَّبِّکُم اَنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّیْنِ ) ( ۲ )

''میں معجزہ کے ساتھ تمہا رے پر ور دگار کی طرف سے تمہا رے در میان آیا ہو ںتمہا رے سا منے مٹی سے پرندہ جیسی چیز بنا ئو ںگا ''۔

____________________

۱۔آل عمران آیت۴۹۔

۲۔ سورہ آل عمران آیت۴۹۔

۷۸

اس آیت سے ظا ہری (بلکہ صریحی )طور پر پتہ چلتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی ابتداء دعوت سے ہی لو گو ں کے سامنے فر مایا کر تے تھے کہ میں نشانی لیکر آ یا ہوں ۔

لیکن بعض مقا مات پر قرآن کی آ یتیں اس بات پر دلا لت کر تی ہیں کہ گو یا انبیاء علیہم السلاممبعوث ہو تے تھے اور اپنی دعوت کا اعلان کر تے تھے اور لو گو ں کے مطالبے پر اُن کو معجزہ دکھلا تے تھے ۔چنانچہ حضرت مو سی ٰ علیہ السلام کے متعلق قرآ ن فرماتا ہے کہ جب حضرت مو سیٰ علیہ السلا م نے فر عو ن اور فر عو ن والو ں کو دعوت دی اور ان کے سامنے اپنی رسالت کا اظہار کیا توفر عون نے کہا:

( اِنْ کُنْتَ جِئْتَ بِآیَةٍ فٰا تِ بِهَا اِنْ کُنْتَ مِنَ ا لصَّا دِ قِیْنَ ) ( ۱ )

''اگر خدا کی طرف سے کو ئی نشانی تمہا رے پاس ہے تو پیش کرو اگر تم سچّو ں میں سے ہو ''۔

اس وقت حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا چھو ڑا جو اژدھا بن گیا ۔اس آ یت سے بظاہر لگتا ہے کہ اس وقت تک حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے ان کے سا منے معجزہ پیش نہیں کیا تھا ۔

حضرت صالح علیہ السلام کے ذکر میں ہے کہ ان کی قوم (قو م ثمود )نے عرض کی :

( مَااَنْتَ الاّبَشَرمِّثْلُنَافَاتِ بآیَةٍ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِ قِیْنَ قَالَ هٰذِهِ نَاقَة لَهَا شِرْب وَلَکُم شِرْبُ یَوْمٍ مَعلُوْم ) ٍ)( ۲ )

''تم بھی ہما رے جیسے انسان ہو (ورنہ ) اگر سچّے ہو تو نشانی دکھا ئو حضرت صالح نے فر مایا :یہ اونٹنی ہے ،چشمے سے پانی پینے کا حق ایک دن اس کو حاصل ہو گا اور ایک دن تم کواور آ پ نے تاکید کے ساتھ فر ما یا:

( وَلا تَمَسُّوْهَا بِسُوْئٍ فَیَا خُذَ کُم عَذَابُ یَو مٍ عَظِیمٍ ) ( ۳ )

''اس کو تکلیف نہ پہنچانا (ورنہ )روز عظیم (قیامت )کا عذاب تم کو گھیر لے گا '' ۔

گو یا آیت میں اس سوال کا جواب بھی دیدیا گیا ہے انبیاء علیہم السلام اپنی نبو ت کے آغاز میں ہی معجزہ پیش

____________________

۱۔سورہ اعراف۱۰۶۔

۲۔سورئہ شعراء آیت ۱۵۴۔۱۵۶ ۔

۳۔ سورئہ شعراء آیت ۱۵۶۔

۷۹

کر دیتے تھے یا لو گوں کی در خواست کے بعد معجزہ دکھلا یا کر تے تھے ۔

بظاہر بلکہ صاف طور پر آیات شریفہ کا جواب یہ ہے کہ انبیا ء علیہم السلا م کبھی اپنی نبوت کے آغاز میں ہی اور کبھی لوگوں کے مطالبہ کے بعد معجزے دکھلایا کر تے تھے ۔

علا وہ ازین یہ بھی معلو م ہو گیا کہ قر آن، کلی طور پر انبیاء علیہم السلام کے لئے معجزہ کا قائل ہے حتی آخر کی آیتوں کے لہجہ سے اس با ت کا بھی اندازہ ہو تا ہے کہ لو گو ں کو انبیاء علیہم السلام سے معجزہ کے مطالبہ کا حق حاصل ہے۔ جس وقت فر عون نے کہا اگر آ پ کے پاس کو ئی نشانی ہے تو پیش کیجئے حضرت مو سی ٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا البتہ خدا وند عالم نے حضرت مو سیٰ علیہ السلام کو یہ دو بر ہان پہلے سے عطا کر دیئے تھے :

( هٰذَان بُرْهَانانِ مِنْ رَّبِّکُم )

'' یہ تمہا رے پر ور دگار کی طرف سے دو دلیلیں ہیں ''۔

حضرت مو سیٰ علیہ السلام معجزہ پیش کر نے کے لئے آ ما دہ تھے لیکن جب فر عون نے مطالبہ کیا توپیش کردیا۔یہی حال حضرت صالح علیہ السلام کا ہے جیسا کہ مذ کو رہ آ یت کے ذیل میں ہم نے بیان کر دیا ہے۔

معجزہ کی کیفیت

اب بحث یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کس وقت معجزات پیش کیا کر تے تھے ؟کیا وہ ہر وقت اور ہر شخص کے مطالبے پر معجزہ پیش کر دیا کر تے تھے یا ایسا نہیں تھا ؟اور یہ کہ کیا معجزہ اس لئے تھا کہ لوگ قبو ل کرنے پر مجبو ر ہوجائیں یا صرف اتمام حجت کے لئے تھا ؟

اس سلسلہ میں بہت سی آیات بتا تی ہیں کہ لوگ کبھی کبھی معجزات کا مطالبہ کیا کر تے تھے اور مخصوص خواہشیںپیش کر تے تھے لیکن انبیاء علیہم السلام ان کا کو ئی جواب نہیں دیتے تھے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ معجزہ اس لئے نہیں ہے کہ لوگ مجبور ہو کر دین حق کو قبول کر لیں بلکہ اس کا مقصد لو گو ں پر حجت تمام کرنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی نبوت پر ان کے پاس ایک دلیل مو جود ہو ۔چنانچہ کبھی کبھی خداوند عالم اپنے لطف کی وجہ سے کسی پیغمبر کو دو ،تین ، پانچ ،یا دس دس معجزے عطا کر دیتا ہے یایہ کہ اس کی نبو ت ثابت ہو نے کے بعد اس کے ذریعہ کچھ کرا متیں بھی ظا ہر ہو جاتی ہیں ۔یہ سب خدا وند عالم کا فضل ہے ورنہ انبیاء کو معجزہ دینے کی بنیاد اتمام حجت کرنا ہے اور بس، اس سے آگے محض خدا وند عالم کی مصلحت ہے جس کو خدا بہتر جانتا ہے۔اگر مصلحت ہو ئی تو خدا دوسرا معجزہ دیدیتا ہے اور اگر مصلحت نہیں ہو تی تو پہلے معجزہ پر اتمام حجت کر دیتا ہے۔

۸۰