راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان9%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146872 / ڈاؤنلوڈ: 4391
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

راہ اور رہنما کی پہچان

مولف: آیة اللہ مصباح یزدی

مترجم : سید ضرغام حیدر نقوی

مجمع جہانی اہل بیت علیھم السلام

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

۴

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن وعترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوت و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خون خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، آیة اللہ مصباح یزدی کی گرانقدر کتاب راہ اور رہنما کی پہچان کو فاضل جلیل مولاناسیدضرغام حیدر نقوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۵

مقد مہ

قرآنی تعلیما ت کے ذیل میں کی گئی گذشتہ بحثو ں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ خد ا و ند عا لم نے ا پنے ذاتی صفا ت کے تقا ضو ں اور اپنی فیا ضیت اور ر حما نیت کی بنیاد پر ا س دنیا کو پیدا کیا ہے اور جیسا کہ بعض آ یا ت شریفہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس ماد ی د نیا کی تخلیق انسا ن کی خلقت کا مقد مہ ہے اسی وجہ سے انسا ن اشرف مخلو قات اور خداوند عا لم کی بارگا ہ میں مکر م ہے او ر و ہ خصوصیت جس کی بنا پر انسا ن، مخلو قا ت کے سب سے بلند در جہ پر فا ئز ہوسکتا ہے وہ انسا ن کا ''مختا ر ''ہو نا ا ور اس کے مقد مات فر ا ہم کر نا ہیں۔

یعنی چو نکہ انسا ن ''خدا وند عا لم کی عطا کر دہ قو ت و تو ا نائی کی بنیا د پر ''ایک ایسی مخلو ق ہے جو مختلف راستوں میں سے اپنی پسند کے کسی بھی راستے کا انتخا ب کر سکتا ہے اور اس پر خدا کی طر ف سے فر ائض عائد کئے جاسکتے ہیں ا ور اگر خدا و ند عا لم کے معین کر دہ فرائض پر گا مز ن ہو تو کما ل کے سب سے ا و نچے در جہ پر فا ئز ہو کر د ائمی سعا د تو ں اور لذتوں کو حا صل کر سکتا ہے ۔

پس انسان کی سب سے اہم خصو صیت اسکا اختیا ر و انتخا ب کا حا صل ہو نا ہے اور جس ر اہ پر وہ چل رہا ہے انسان نے آ زا دا نہ طو ر پر خود منتخب کی ہے ۔

اسی طر ح ہم اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ د نیا وی ز ند گی آ خر ت کی ز ند گی کا مقد مہ ہے۔یعنی ز ند گی کے اس مر حلہ میں انسان ا پنے اختیا ر ا و ر انتخا ب کے ذ ر یعہ ا پنی ر اہ منتخب کر تا او ر ا پنی سر نو شت تحر یر کر تا ہے ا و ر زند گی کے اس مر حلہ کے بعد ا بد ی زند گی کا مر حلہ آ نا ہے جس میں وہ ا س د نیا میں انجا م دیئے گئے اعما ل کے نتیجو ںسے بہر ہ مند ہو تا ہے ۔

ا نسا ن ا پنی ز ند گی کے لئے صحیح ر ا ستہ منتخب کرسکے اس کے لئے تو ا ر اد ہ ،فیصلے کی قو ت اور ا س ر جحا ن کے علا وہ ہو جو خد ا و ند عا لم نے ا س کی فطرت میں قر ا ر دئے ا و ر ا فعال کو پایۂ تکمیل تک پہنچا نے کے وسا ئل مہیا کئے ہیں ایک ا و ر اہم شر ط بھی ضرو ر ی ہے ا و رو ہ صحیح را ستہ کی پہچا ن ہے ۔ در حقیقت آزاد انہ انتخاب اس وقت ممکن ہے کہ جب ا نسا ن مختلف را ستو ں کی پہچا ن رکھتا ہو ا و ر ان کے نتا ئج سے بھی آ گا ہ ہو ۔

۶

ہم ا نسا ن شنا سی کی بحث میں اس بات کی طر ف اشا رہ کر چکے ہیں کہ ا نسا ن کے لئے مختلف قسم کی پہچانیں ممکن ہیں جو چیز تما م انسا نو ں میں عا م ہیں حو اس خمسہ ا و ر عقل کی راہنمائی میں حا صل شدہ پہچان ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا خد ا و ند عا لم نے یہ دو وسیلے جو تما م انسا نو ں کے اختیا ر میں دئیے ہیں صحیح ر استہ کے انتخا ب کے لئے ضرور ی ِمعلوما ت اور پہچا ن حا صل کر نے کے لئے کا فی بھی ہیں یا نہیں ؟ دو سر ے الفا ظ میں جو ا نسان اپنا ہر قد م یہ سوچ کر اٹھا تا ہو کہ اسے ا بد ی سعا دت کی ر اہ ہمو ا ر کر نا او رآ خری منزل کما ل تک پہنچنا ہے تو اس کو اپنا ہر قدم اٹھا نے کے لئے کچھ چیز وں سے آگا ہ ہونا پڑے گا ۔ توکیا جن معلومات کی انسان کو اپنی زند گی کے ہر مر حلہ اور ہر قد م پر ضرورت پڑ تی ہے وہ حو ا س و عقل کے راستہ سے حا صل ہو تی ہیں یا نہیں ؟

دو طر یقو ں سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ز ند گی کا راستہ منتخب کر نے کے لئے حس و عقل کافی نہیںہیں ان دو نو ں طر یقو ںکو بیان کرنے سے پہلے ہم حو اس اور عقل کے ادراک او ر ان کے دائرہ کار کی وضا حت کر د ینا ضروری سمجھتے ہیں :

حسی او ر عقلی اد را ک

احسا سا ت کا دا ئرہ

یہ ادرا ک ظا ہری حوا س یعنی آنکھ ناک کان وغیر ہ کے ساتھ ما د ی د نیا کے ار تبا ط تعلق سے حا صل ہو تا ہے ۔ اس اد ر ا ک کا دائرہ بہت ز یا دہ محد و د ہے صر ف وہ چیز یں ہم سے تعلق پید ا کر تی ہیں (وہ بھی اپنے را بطہ کی حد تک او ر جب تک یہ ر ابطہ بر قر ا ر ر ہتا ہے ) احسا س کے دائر ے میں آتی ہیں دکھا ئی دینے اور سنائی دینے و ا لی چیزیں مختصر یہ کہ جو معلو مات ہم محسو سات کے ذر یعہ حا صل کر تے ہیں وہ یقینا ہما ری ز ند گی کے لئے مفید اور ضر وری ہیں لیکن سوا ل یہ ہے کہ آ خر ی ہد ف تک پہنچنے کے لئے یہ کس حد تک مؤثر ہو سکتی ہیں ؟ یہ تو صر ف کسی حد تک ہما ر ی ما د ی ز ند گی سے متعلق کچھ را بطو ں کی تو جیہ کر سکتی ہیں کہ ہم کیا کھا ئیں کیا پئیں کیا کیا پہنیں بو لیں اور کس سے کس طرح گفتگو کر یں ۔

محسو سات کا دائرئہ کا ر محدود ہو نے کی وجہ سے اس سے یہ تو قع نہیں رکھی جا سکتی کہ ہم اس کے ذریعہ ز ند گی کی صحیح ر اہ اس کے تما م پہلوئوں کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں ۔

۷

عقل کا د ائرہ

عقل ،خود اپنی جگہ (بیرو نی تجر بو ں سے قطع نظر) جو کچھ بھی سمجھتی ہے کچھ کلیا ت ہیں اور بس یعنی عقل صرف بنیا دی حقیقتوں یا بد یہیات ا و لیہ کو درک کر تی ہے اور اس پہچا ن کی کیفیت میں پا ئے جا نیوا لے ا ختلاف نظر کے با وجو د اس مسئلہ میں کو ئی اختلا ف نہبں ہے کہ عقل فقط کچھ اصو ل او ر کلیا ت مفا ہیم او ر ان کے ما بین ار تبا ط کو بیان کر سکتی ہے او ر یہ کلیات بذ ا ت خو د زند گی کی ر ا ہ معین و مشخص کر نے میں کوئی خا ص کر دا ر ا د ا نہیں کر تے ۔مثا ل کے طور پر آ پ( اجتما ع نقیضین محا ل ہے) یا( ہر معلول علت کا محتاج ہو تا ہے ) یا اسی طر ح مشہو ر و معرو ف مثال کہ کل جز ء سے بڑ ا ہو تا ہے کو مد نظر رکھئے تو اس طر ح کے تمام عقلی اصو ل اور کلیات بذ ا ت خو دزند گی کی ر اہ جا ننے پہچاننے یا معین کر نے میں کو ئی کر د ار ادا نہیں کر تے ۔ اس طر ح کی معلو ما ت کا ز یا دہ سے زیا دہ یہ فا ئدہ ہے کہ خالص فلسفی قسم کے مسا ئل ( جیسے خد اوند عا لم کے و جو د ) کو ثا بت کر سکتی ہیں۔

ا لبتہ ا در ا ک کی د و سری قسمیں بھی پائی جا تی ہیں جو حو اس و عقل کی با ہمی مد د سے حا صل ہو تی ہیں ۔جن کو ہم (تجر بات )کا نام دے سکتے ہیں یعنی ہما ر ے حو اس ا یک چیز کو محسوس کرتے ہیں ا ور ہما ر ی عقل ا ن پر کا م کر تی ہے ا یک چیز کو د وسرے سے الگ کر تی ،ہر ا یک کو شا مل کر تی ہے، تجز یہ و تحلیل کر تی ا ور ان سے نئے نتا ئج نکا لتی ہے۔ ہما ری دنیا وی ز ندگی کیلئے ان سب کا ہو نا ضر و ری ہے ہم ا ن سے فا ئدہ بھی اٹھا تے ہیں لیکن مو جو دات کی مخصوص علتیں حوا س ا و ر عقل کے ذ ریعہ پہچا نی جا تی ہیں ۔ہمیں حس سے کا م لینا چا ہیے عقل بھی محسو سا ت سے فا ئد ہ اٹھائے او ر ان کاتجزیہ کر ے تا کہ ان کی روشنی میں آ خر کا ر ہم کسی علمی نتیجے تک پہنچیں چنا نچہ مر و جہ اصطلا ح میں علمی قوانین و اصو ل یعنی علو م تجر بی اسی طر یقہ سے حا صل ہوتے ہیں ۔

یہ تھی حو ا س او ر عقل اور ان کی باہمی( مدد ) سے حا صل ہو نے والے نتیجہ کے با ر ے میں مختصر تو ضیح جو ہم نے قلمبند کر دی ۔

اب ہم یہ دیکھنا چا ہیں گے کہ کیا یہ معلو مات جو صر ف حوا س یا صر ف عقل یا ان دو نو ں کی با ہمی مدد سے حاصل ہو تی ہیں زند گی کی صحیح ر اہ تمام پہلوئوں اور شعبوں کے ساتھ تمام ز مان و مکان میں سمجھا نے کے لئے کا فی ہے یا نہیں؟

جیسا کہ ہم نے عر ض کیا دو طریقو ں سے اس چیز کا اثبا ت کر سکتے ہیں کہ یہ معلو ما ت صحیح راہ کی پہچا ن کے لئے کا فی نہیں ہیں ۔

۸

تجر بہ کی ر ا ہ

یعنی اس نا تو ا نی کو تجر بہ کے ذ ر یعہ اورحو ا س و عقل کی مد د سے ہم اس تفصیل کے ساتھ ثا بت کر سکتے ہیں کہ ہز ا ر وں سا ل ہو گئے کہ ا نسا ن روئے ز مین پر پیدا ہو ا اور زند گی بسر کر رہا ہے ۔ بہت زیا دہ قد یم ز ما نہ سے کو ئی دقیق ا طلا ع دستیا ب نہیں ہے لیکن تقریبا دو ہزا ر پا نچ سو سال پہلے تک انسا نی ہا تھو ں کی مر تب کر دہ تا ریخ اور افکا ر و نظر یات کتا بی شکلو ں میں مو جو د ہیں جو اس با ت کی نشا ند ہی کر تی ہیں کہ دا نش وروں نے بڑ ی زحمتو ں اور کو ششو ں سے کا م لیکر اپنے حوا س اور عقل سے استفا د ہ کر تے ہو ئے مختلف مسائل کو سمجھا ہے اور ان کو علمی مسا ئل ، حقوق و فرائض کے قو انین ،اخلا قی اصول اور اسی طرح کے دو سر ے مسائل کی صور ت میں بیا ن کیا ہے سا ئنسی علو م کے میدان میں روز بہ روز کا فی تر قی ہو ئی ہے اورآج ان ہی دانش وروں کی تحقیقا ت کے سایہ میں مادی دنیا کے بہت سے لا معلو م حقا ئق ہما رے لئے کشف ہو چکے ہیں اور ہم آسا نی سے ان کو پہچا ن سکتے ہیں اور ا ن میں اکثر مسا ئل اتنے واضح روشن اور قا بل فہم ہیں کہ ان مسا ئل میں بہت کم اختلا ف واقع ہو تا ہے لیکن عملی مسا ئل میں ''زند گی بسر کرنے کے طور طر یقہ'' معیا ر و اقدا ر اور ما دی دنیا سے ما فوق متا فیز یک یاالٰہیا ت کے مسا ئل میں مسئلہ اسکے برعکس ہے بہت سے انسا نی معا شروں میں بے پنا ہ مبہم مسا ئل مو جو د ہیں اور شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ آ ج کے اکثر علمی حلقے مادیت سے ما فوق ' الٰہیا ت کے مسائل کو کو ئی اہمیت نہیں دیتے کیو نکہ وہ ان کو حل کر نے سے عا جز ہیں ۔

لیکن ہما ری بحث کی ا ساس وبنیاد ان علوم پر قا ئم ہے جو رو ش و ر فتا ر اور اخلا قی اقدا ر و معیا را ت سے تعلق رکھتے ہیںکہ انسا ن کو اپنی زند گی میں کس طرح کام کر نا چا ہئے اور وہ د وسر ے انسا نوں کے سا تھ ا پنے روا بط کس طرح استو ار کرے ؟ و غیر ہ ۔۔۔

یہ مسا ئل انسانوں کے در میان ہمیشہ موضو ع بحث رہتے ہیں اور ان مسا ئل کو حل کر نے میں بہت زیا دہ فکری تو ا نا ئیا ں صر ف کی گئی ہیں لیکن جیسا کہ ہما ر ے علم میں ہے تا ر یخ کے کسی بھی مر حلہ میں دانشمند وں کے افکا ر ان مسا ئل میں نہ صر ف متحد اور یکسا ں نہیں ہو سکے بلکہ ان میں روز بہ روز اختلاف بڑھتا ہی گیا ہے آج جبکہ انسان علم ودانش کے بہت سے علمی مدارج طے کر چکا ہے صاف دکھا ئی دیتا ہے کہ ماہرین ہمیشہ زند گی بسر کر نے کے کچھ قوانین بنا تے ہیں لیکن جلد ہی معمو لی غور و فکر کے بعد ان قوانین کی خرابی ان پر ظاہر ہو جا تی ہے

۹

اور وہ ان قوانین میں ردو بدل اور اصلاح میں لگ جا تے ہیں ۔ جو بھی قانون بنتا ہے اس پر پہلے کچھ تر میمی نو ٹ لگتے ہیں اور کچھ مدت کے بعد اس قا نو ن کو ہی کلی طور پرختم کرد یا جا تا ہے ۔اعمال، رفتار اور اقد ارو معیارات کے با رے میں انسانی افکار کا مطالعہ کر نے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انسان اپنے علم ودانش کی طویل تاریخ میں ابتک ان مسائل کو حل نہیں کر سکا ہے اور یہ تجربہ اس طرح کے مسائل حل کر نے میں حوا س وعقل کی نا توا نی کا وا ضح نمو نہ ہے ۔

عقل و ہوش کی ناتوا نی کے اثبا ت کی یہ تجر باتی راہ ہے لیکن یہ راہ بہت زیاد ہ اطمینان بخش اور یقینی نہیں ہے۔ اسلئے کہ اس میں یہ احتما ل مو جو د ہے کہ شا ید آ یندہ صد یو ں میں ہزا ر دو ہزار سال بعد انسان اس میدان میں اتنی ترقی کر لے اور کسی یقینی علم تک پہنچ جائے ۔

۲۔دو سرا طریقہ یہ ہے کہ حواس و عقل کا جا ئزہ لیں اور ان کی کار کردگی کی کیفیت کو دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ کیا حواس وعقل کی مدد سے زند گی کے تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں یانہیں ؟

جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ حواس کے ذریعہ ہم چیزوں کے ظاہر کو و ہ بھی مخصوص زمانہ اور جگہ پر محدود حالات کے ساتھ ہی دیکھ پا تے ہیں بنا بریں حوا س کسی بھی صورت میں خود اپنی جگہ اقدار ومعیار کے حا مل مسائل کو ''خاص طور سے انسان کے عمل ورفتار کا آخرت کے نتیجو ں سے کیا رابطہ ہے'' بیان کرنے کی قدرت وصلاحیت نہیں رکھتا ۔ عقل بھی تن تنہا اس طرح کے مسائل بیان کر نے سے عاجز ہے عقل کے نزدیک ثابت شدہ مسلّمات کی تعداد بھی بہت زیادہ محدود ہے ہرروز بلکہ ہر گھنٹے مختلف انسانوںکے سا تھ اپنے ساتھ ،خداوند عالم کے ساتھ ،اپنے اہل ِخاندان اور معاشرہ والوں کے ساتھ سیکڑوں طرح کے تعلقات پیش آتے ہیں جن میں سے ہر ایک کیلئے ایک مستقل حکم ہو نا چاہئے ۔ مسلما ت عقلیہ بہت محد و د ہیں اور ان تما م تعلقات اور مسائل کے احکام کو بیان نہیں کر سکتے۔

۱۰

اسی طرح عقل و حواس کی باہمی مدد سے اگر چہ انسان کی معلومات کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے لیکن اس کا دائرہ بھی انسان کے تجربہ کی حد تک ہی محدود ہے ہم مادی مو جودات کے سلسلے میں تجربہ کرسکتے ہیں ان کی مادی علتوں کی شناخت کر سکتے ہیں لیکن مادی پہلوئوں سے مافوق چیزوں کو تجربہ اور آزما ئش میں نہیں لا سکتے کہ ہم مادہ کے ساتھ غیر ماد ی چیز وں کے تعلقات کو بھی تجربہ کے ذریعہ ثابت کرسکیں اور ایک آخری بات جو ان سب سے زیادہ اہم ہے ( اور ہماری گفتگو کی بنیاد بھی وہی ہے ) اس دنیا سے ابدی دنیا کے رشتے کو سمجھنا ہے ۔ہمارے پاس آخرت کی موجودات کی معرفت کا کوئی راستہ نہیں ہے آخرت میں ظا ہر وآشکا رہو نے والی موجو دات کی تن تنہا حواس کے ذریعہ پہچان کی جاسکتی ہے نہ عقل کے ذریعہ اور نہ ہی ان دونوں کی مدد سے اس دنیا کے حقا ئق ہم پر روشن ہو سکتے ہیں اور جب تک ہم یہ نہ جان لیں کہ ہماری یہ زندگی آخرت کی زند گی میں کس طرح مؤثر ہو سکتی ہے اور آخرت کی سعادت کے ساتھ ہمارے کن اعمال کا رابطہ مثبت اور کن اعمال کا رابطہ منفی ہے اس وقت ہم اپنی زندگی صحیح طریقہ سے نہیں گذار سکتے اور نہ ہی اپنی زند گی بسر کرنے کے لئے صحیح منصوبہ بندی کر سکتے ہیں یہ سب منصوبہ بندی اور اقدار و معیارات عمل اور اسکے نتیجہ کے در میان رشتے کا تعین ہونے کے بعد ہی طے ہو سکتے ہیں اور جب تک ہم اس رابطہ کو نہ سمجھ لیں اس وقت تک یہ نہیں کہہ سکتے کہ ( یہ کام کرنا چاہئے اور وہ کام نہیں کرنا چاہئے ) ہم اس بحث کو اپنے مقا م پر عر ض کر چکے ہیںکہ (یہ چاہئے اور وہ نہیں چاہئے ) یہ باتیںکسی کام اور اسکے نتیجے کے در میان رابطہ کے ذریعہ ہی معلوم ہوتی ہیں جب تک ہم نتیجہ نہ جا نیں اور نتیجہ کے وجود میں اس کام کی تاثیر کا تجربہ نہ کر لیں اسوقت تک ان کے بارے میں کو ئی حکم نہیں جاری کرسکتے اور مجمو عی طور پر چونکہ آخرت کی دنیااور اس دنیا سے اس کے روابط حواس اورعقل کے دائرے سے خارج ہیں ہم ان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیںکر سکتے اور نہ ہی اس دنیا وی زندگی کے لئے کو ئی منصو بہ اور پروگرام ترتیب دے سکتے۔

اب جبکہ ہم سمجھ گئے کہ تنہا عقل و حواس زند گی کیلئے کسی ایسی دقیق منصوبہ بندی سے عا جز ہیں کہ (جس کے تحت آخرت کی کامیابی اور ابدی کمال وسعادت حاصل ہو سکے )تو اب ہم اس میں ایک اور مقد مہ کا اضا فہ کرتے ہیں اور وہ یہ :

جس خدا نے انسان کو اِن محدود عقل وفہم اورر خصو صیات کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ جن کا ہم ذکر کر چکے ہیں اُسی نے اِس کے لئے ابدی سعادت تک خود اپنے اختیاری اعمال کے ذریعہ پہنچنے کا فیصلہ بھی کیاہے اب اگر وہ اس کے لئے لازم علم و شناخت اس کے اختیار میں نہ دے تو اس کا فعل لغو اور عبث کہا جائیگا ۔

۱۱

ہم گذشتہ بحثو ںسے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ خداوند عالم نے انسان کو اس دنیا میں بھیجا کہ وہ اپنے اختیاری عمل و رفتار کے ذریعہ اپنا ابدی انجام تحریر کرے اور اختیاری اعمال صحیح پہچان اور معرفت پر منحصرہیں جبکہ عام حالات میں اسطرح کی معرفت اور پہچان انسانی عقل وفہم کے ذریعہ حاصل نہیںہو سکتی دو سرے لفظو ں میں خدا نے ایک طرف تو انسان کو انتخاب کی قوت دی تاکہ وہ اپنے علم و معرفت کے ذریعہ اپنا راستہ خود منتخب کر لے اور دو سری طرف صحیح راستہ منتخب کر نے کے لئے ضروری پہچانیں اسکے اختیار میں نہیں دی ہیں ۔

ایک آسان مثال کے ذریعہ مطلب یو ں سمجھئے کہ:اگر کوئی کسی کو اپنے گھر پر مہمان کرے اور بہت زیادہ اصرار کے ساتھ کہے کہ آپ کو ہر حال میں آنا ہے یہاں تک کہ اس کو دھمکی بھی دے کہ اگر نہ آئے تو آپ کو جواب دینا پڑے گا لیکن اسکو اپنے گھر کا راستہ نہ بتا ئے ایڈ ریس نہ دے اور کہدے کہ گھر آپ خود تلاش کر لیجئے گا کہ یہ مکان کس شہرمیں ہے ؟وہاں جانے کے لئے کس سواری کی ضرورت پڑے گی ؟کچھ مشخص ومعین نہیں ہے کہ کس شخص سے سوال کر نا ہے؟میں یہ سب کچھ نہیں جانتا لیکن آپ کو دعوت میں ضرور آنا ہے تو یہ دعوت ایک احمقانہ دعوت کہی جائے گی اگر انسان کو کسی مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اس مقصد تک اس کو خود اپنے علم واختیار کے ساتھ پہنچنا ضروری ہے تو ضروری نشانیاں بھی اس کے اختیار میں دیا جانا لازم ہے ۔آپ کو بہشت میں پہنچنا ہے آپ کو ہم نے جنت کے لئے آخرت کی بے انتہا رحمتوں کیلئے خلق کیا ہے ہمارا ہدف و مقصد یہی ہے لیکن ہم وہا ںتک پہنچنے کے راستے کی کوئی نشان دہی نہیں کریں گے آیا میں اگر خود غورو فکر کرو ں تو سمجھ جائو نگا؟جی نہیں کیا میں کسی سے پو چھوں تو بتا سکتا ہے ؟ جی نہیں ۔ہم صرف اتنا جانتے ہیں کے تمھیں وہاں تک پہنچنا ہے اس طرح کا فعل عبث اور احمقا نہ ہے ۔

بنا بر این حکمت الٰہی کا تقاضا ہے کہ ضروری علم بہ شناخت تمام انسانوں کیلئے فراہم کر دے کوئی راستہ معین کردے کہ انسان اس راستہ کی بنیاد پر ہدف اور اس تک پہنچنے کی کیفیت جان لے اور یہ راستہ وحی اور نبوت کے علاوہ اور کوئی ر ا ستہ نہیں ہو سکتا ۔پس اس تفصیل کی بنیا د پر ایک ایسی راہ کی ضرورت ہے جو عام افراد کی پہنچ سے با ہر ہے ثابت ہوجا تی ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ خدا نے کیا یہ راستہ سب کے اختیار میں قرار دیدیا ؟جی نہیںاس لئے کہ اگر یہ راستہ سب کے اختیار میںقرار دیدیا جاتا تو ہم اور آپ بھی اس سے بے خبر نہ ہوتے ۔ جس وقت بھی چا ہتے عالم بالا کیلئے ایک ٹیلیگراف کرکے معلوم کر لیا کر تے کہ ہمیںکیا کرنا چاہئے ؟لیکن ہم کو معلوم ہے کہ انسانوں کی استعداد میں کمی کی وجہ سے اس طرح کا رابطہ تمام انسانوں کیلئے میسر نہیں ہے۔لہٰذا حکمت الہٰی خود تقاضا کر تی ہے کہ انسانوں کو اس طرح خلق کرے کہ ان کے درمیان کچھ ا فراد ایسے ہو ں کہ ا ن کے ذریعہ خداوند عالم لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرکے زندگی بسر کر نے کا دستورالعمل معین ومشخص کر دے ۔

۱۲

اہم بات

ہم نے انسانی عقل وفہم کی کوتا ہی کے جن دو راستوں کا تذکرہ کیا نتیجہ کے اعتبار سے فرق کرتے ہیں ۔اگر صرف پہلا راستہ ہوتا تو ہم اس سے قطعی طور پر جو نتیجہ اخذ کر سکتے تھے یہ تھا کہ خدا وند عالم نے چونکہ تمام انسانوں کو سعادت کے لئے پیدا کیا ہے اور انسان ہزا رو ں سال سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور تجربہ بتاتا ہے کہ عام ادراک کے ذریعہ اس باریک راستہ کو نہیں پہچانا جاسکا ۔پس خدا کی حکمت تقاضا کر تی ہے کہ ابتک ان انسانوں کے لئے کوئی دوسری راہ مقرر کر دی ہو لیکن بعد کے لئے کیا ہوگا ؟کیو نکہ یہ احتمال پا یا جاتا ہے کہ بعد میں انسان کی عقل کامل ہوجائے اور وہ آہستہ آہستہ خود ہی راستہ کو سمجھ لے اور یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کے مستقبل کے لئے نبوت کی ضرورت کو قطعی دلیل کے ذریعہ ثابت نہیں کر سکتے ۔ہم اسی حد تک نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اب تک انسان کی عقل ناقص تھی اور یہ محال ہے کہ خدا وند عالم اربو ںانسانو ں کو جنہیں اس نے تاریخ کے طویل دور میں ابتک پیدا کیا ہے کسی رہنما کے بغیر چھو ڑ دے ۔یہ حکمت الٰہی کے خلاف ہے لیکن بعد کے لئے کیا ہو ؟کیا اب اس دلیل میں کوئی کشش نہیں رہ گئی ؟ کیو نکہ گذشتہ تجربہ کی بنیاد پر مستقبل کے لئے یقین کے ساتھ پیشینگوئی نہیں کی جاسکتی کہ مستقبل میں بھی انسانوںکی عقل کما ل تک نہیں پہنچ پائے گی کہ لو گ زند گی کیلئے کو ئی دقیق منصو بہ بندی حا صل کر سکیں ۔اس مقام پر ایک شخص یہ کہہ سکتا تھا کہ ممکن ہے ایک زمانہ میں انسان کی عقل کامل ہوجا ئے جیساکہ بعض لوگوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاتمیت اور اسلام کے نا سخ ہونے کے بارے میں کہا ہے:چھٹی صدی عیسوی تک انسان کی عقل ناقص تھی وہ ا س بچہ کے مانند تھا جس کو ہاتھ پکڑ کر قدم قدم چلایا جائے اور حقیقت میں وہی اس بچہ کی پرورش کر نے والی دایہ کے مانند تھے جن کا کام مدد کر نا تھا تا کہ وہ زند گی کے مر حلے قدم بہ قدم طے کر سکے لیکن چھٹی صدی عیسوی میں انسان کی عقل کامل ہوگئی اور اس کے بعد وحی کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہی لہٰذا اس کو حکم دیا گیاکہ اپنے پیروں پر خود کھڑے ہوجائو اب تمہیں اپنی زندگی کی راہ خود مشخص و معین کر نا چاہئے اس وجہ سے اب کسی نئے پیغمبر کے آنے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے ۔

۱۳

جی ہاں اگر ہم اس طرح استدلال کریں کہ ابتک چونکہ انسان کی عقل کامل نہیں ہوئی تھی تو یہ احتمال مستقبل کے لئے دیا جا سکتا تھا البتہ اس طرح کا نتیجہ حتی اس مقد مہ کے ساتھ اخذ کر نا بھی صحیح نہیں ہے کیو نکہ چھٹی صدی عیسوی سے آج تک جب چودہ صدیاں گذر چکی ہیں اب بھی عقل کی ناتوانی اور نا رسائی واضح ہے اور بہت سے شکوک و شبہات (سوائے ان کے کہ جنھوں نے نوراور وحی سے راہ زند گی حاصل کی ہے ) انسان کے لئے پہلے کی طرح اب بھی موجود ہیں ۔بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ گروہ اور زیادہ ضلالت و گمراہی میں ڈوب چکے ہیں یہاں تک کہ اخلاق اور قدروں کے لحاظ سے سابقین کی بہ نسبت تنزل کا شکار ہو چکے ہیں اورر اگر زوال نہیں کیا ہے تو کوئی نمایاں ترقی بھی نہیں کر سکے ہیں۔ بہر حال یہ کہا جاسکتا ہے کہ جہاںتک تاریخ بتاتی ہے انسان کی عقل زندگی کی صحیح منصوبہ بندی کے لئے ہمیشہ ناتواں اور ناکافی رہی ہے بس حکمت الہٰی اقتضا ء کر تی ہے کہ ان تمام ادوار میں وحی کے ذریعہ انسان کی رہنمائی کرے ۔

لیکن کسی بھی حال میں آئندہ کے لئے اس برہانِ تجربی کی اساس پر نہیں کہا جاسکتا کہ یقینی طور پر مستقبل میں بھی انسان کی عقل کامل نہیں ہوسکے گی شاید سو صدیوں بعد کے لئے کوئی شخص یہ احتمال دے کہ میرے خیال میں انسان کی عقل کامل ہو جائیگی اور وہ زند گی کے مسائل درک کر لے گا اور اختلافات ختم ہوجائیںگے لیکن ہم مستقبل کی سو صد یوں بعد کے لئے پیشین گو ئی نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا اس احتمال کی وجہ سے ہم آئندہ کے بارے میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ اگرچہ ہم کو مستقبل میں کسی نئے نبی کی آمد اور وحی کے نازل ہو نے کی ضرورت نہ ہو اور یہی آسمانی کتاب جس کو خداوند عالم نے آخری نبی پر نازل فرمایا ہے قیامت تک انسانوں کی ہدایت کے لئے کافی ہو لیکن اس احتمال کا نقصان یہ ہے کہ اُس کے تحت ممکن ہے ایک انسان کی عقل کامل ہو جائے اور وہ تعبّد کی مد دکے بغیر اپنی راہ کا بذات خود انتخاب کرسکے ۔

لیکن ہم نے انسانی ادراک سے استفا دے کی جس دو سری روش کی طرف اشارہ کیا ہے اس کے تحت ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ انسان کبھی بھی نہ تو وحی سے بے نیاز تھا اور نہ ہی آئندہ بے نیاز ہوسکے گا کیونکہ زند گی صحیح طور پر گزار نے کی منصو بہ بندی اس شرط پر مو قو ف ہے کہ ہم اپنے اختیاری اعمال کا رابطہ آخرت میں ان کے نتیجوں کے ساتھ جانتے ہوں اورعقل و حواس کبھی بھی ان رابطو ں کو صحیح طور پر کشف نہیں کر سکتے ۔ اسلئے کہ یہ انسانی تجر بہ کی دسترس سے باہر ہے ۔ پس عقل وفہم کی ناتوانی معلو م کر نے کی راہ کی بنیاد پر پورے یقین کے ساتھ ہمیشہ کے لئے (چاہے وہ ماضی کی بات ہو یا حال یا مستقبل کی ) یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اگر وحی کا وسیلہ نہ ہو اور اس کے نتائج انسان کے اختیا ر میں نہ ہوں تو خدا وند عالم کا فعل یعنی انسان کی تخلیق لغو اور بے کار ہو جائیگی ۔

۱۴

حقیقت میں یہ سب سے یقینی اور قطعی دلیل ہے جو نبوت کی ضرورت پر قائم کی جاسکتی ہے ۔ فلاسفہ اور اسلامی متکلّمین نے دوسری دلیلیں بھی نقل کی ہیں جو ان کی کتابوں میں درج ہیں چونکہ ہماری نظر میں یہ دلیل سب سے زیادہ محکم اور قابل یقین ہے لہٰذا ہم اسی دلیل پر اکتفا ء کر تے ہوئے دوسری دلیلوں کے بیان سے قطع نظر کرتے ہیں ۔

قرآن کریم میں رسولوں کے مبعوث ہو نے اور کتابوں کے نازل کر نے کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا ہے ان سے نتیجہ اخذ کر تے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سے بھی اسی دلیل کا استنباط ہوتا ہے منجملہ یہ دلیل :

( رُسُلاًمُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّایَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلیٰ اللهِ حُجَّة بَعْدَالرُّسُلِ ) ( ۱ )

ہم نے بشارت اور ڈ رانے والے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا تاکہ ا ُس کے بعد لوگوںکے لئے خدا کے مقابل کوئی حجت باقی نہ رہ جائے '' ۔

یعنی اگر پیغمبر مبعوث نہ کئے گئے ہوتے تولوگ یہ احتجاج کر سکتے تھے کہ ہمارے گمراہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ہم خدا وند عالم کے احکام سے نا واقف تھے لیکن انبیا ء علیہم السلام کے آنے کے بعد اُن پر حجت تمام ہو گئی۔

اورہم اس آیت سے اسی دلیل کا استنباط کر تے ہیں:

اگر عقل و حواس اور ان دونوں کی با ہمی کار کر دگی صحیح راستہ کو پہچا ننے میں کا فی ہو تی تو جب لوگ احتجاج کرتے ہوئے کہتے :

''ہم نہیںجانتے تھے کہ وہ راستہ غلط اور یہ راستہ صحیح تھا ''۔

خدا یہ فرما سکتا تھا کہ '' میں نے تو عقل اور صحیح راستہ کومنتخب کرنے کے وسائل تمہارے اختیار میںدیدئے تھے''۔

تو اُن کے لئے یہ کہنے کا امکان ہوتا : ہم سب کو تحقیق وجستجو کا موقع نہیں مل سکا ۔

____________________

۱۔سورئہ نساء آیت۱۶۵۔

۱۵

اور پھر اُن کو جواب دیا جاتا : جس طرح بعض دانشمندوںنے مادی امور میں تحقیق کی اور دوسروں نے انُ کی تحقیقات سے استفادہ کیا تم بھی صحیح راستہ کی شناخت کے لئے بہتر کام کر سکتے تھے۔لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ خدا وند عالم فر ماتا ہے :''جب تک ہم پیغمبر کو نہ بھیج دیں حجت تمام نہیں ہو سکتی '' خود یہ جملہ اس بات کا شاہد ہے کہ قرآ ن کی رو سے انسان کا فہم وادراک عام حالات میں زندگی کے صحیح راستہ کو پہچاننے کے لئے کافی نہیں ہے ۔

دوسری آیات میں بھی اسی طرح کا مضمون ہے منجملہ یہ کہ:ہم نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کیا، کتابوں کو نازل کیا تاکہ لوگ یہ نہ کہہ دیں :

قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے:

( لَولَاْ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلاًفَنَتَّبِعَ آیَا تِکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَذَِلَّ وَنَخْزَیٰ ) ( ۱ )

'' اگر رسو لو ں کو ہم نہ بھیجتے اور کتا بیں نازل نہ کرتے لوگ احتجاج میں کہہ سکتے تھے خدا یا تو نے کوئی نبی کیو ں نہ بھیجا ؟ اگر بھیجا ہوتا تو ہم اس ذلت و خواری میں مبتلا نہ ہوتے''۔

د ر حقیقت یہ حکمت الٰہی کے خلا ف احتجاج ہے یعنی تونے جو ہم کو پیدا کیا تیرا ہد ف یہ تھا کہ ہم اس ذلت ورسوائی میں پڑ جا ئیں ؟ یہ تو حکمت کے خلاف ہے ۔تو اگر نہیں چاہتا تھا کہ ہم زبر دستی ذلت ورسوائی میں گر فتار ہوں تو تجھ کو معلوم تھاکہ ہماری عقل راستہ کی شناخت کیلئے کافی نہیں ہے ۔پس تونے پیغمبر کیوں نہ بھیجا جو ہم کو اس بد بختی سے چھٹکارا دلاتا ۔قرآن کامل طور پر اس احتجاج سے واقف تھا لہٰذا قرآن کریم کہتا ہے کہ ہم نے پیغمبر کو مبعو ث کیا تا کہ تم اس طرح کی باتیں نہ بناسکو یعنی اگر پیغمبر نہ بھیجتے تو تم کو اس طرح کی باتیں بنانے کا حق تھا ۔یہ حق ہونا کس صورت میں ممکن ہے ؟ اسی صو رت میں کہ جب انسان کی سمجھ عام حالات میں شناخت کے لئے کا فی نہ ہو۔

پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کی رو سے انسان کے حواس اور عقل زندگی کی راہ کا صحیح تعیین کرنے کیلئے کافی

نہیں ہیں اور صرف وحی اور نبوت کے ذریعہ انسان کی زندگی سے اس کمی اور نقص کو رفع کیا جاسکتا ہے اور اسی صورت میں تخلیق کی الٰہی غرض و غایت پوری ہوسکتی ہے۔

چونکہ اس رسالے میں ہم ''راہ کی شناخت ''پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں ۔لہٰذا ہمار ے لئے وحی ونبوت اور اُن کے متعلقات کے بارے میں تفصیلی بحث ضروری ہے کیونکہ صحیح راستہ کی شناخت صرف''وحی ''کے ذریعہ ممکن ہے کسی بھی اور راہ سے اس کاامکان ہے۔

____________________

۱۔سورئہ طہ آیت۱۳۴۔

۱۶

نبوّت قرآن کی نگاہ میں

قرآن کریم میں نبوت اور اس سے متعلّق مسائل کے بارے میں بہت سی آیتیں ہیں ظاہر ہے ہم ان تمام آیتوں پر تحقیقی بحث نہیں کر سکتے لہٰذ ا ان آیا ت میں کی گئی اہم بحثوں کا ہی ہم نے انتخاب کیاہے اورحسب ضرورت ان مباحث سے متعلق آیات کی وضاحت کریں گے تو آئیے سب سے پہلے بعثت انبیاء علیہم السلام کے اہداف و مقاصد پر گفتگو کرتے ہیں۔

بعثت انبیاء علیہم السلام کے مقاصد

تشریعی ہدایت (الٰہی رہنمائی )

در اصل قرآن کریم میں نبوّت کا مسئلہ انسان کی خلقت کے ساتھ ہی بحث میں آیا ہے کیو نکہ اس دنیا میں انسان کی زند گی کی بنیاد الٰہی (اور مذہبی ) رہنمائی پر قائم ہوئی ہے ۔اس دنیا میں انسا ن کی خلقت کے مقصد کو دیکھتے ہوئے اس بات کو قبول کر نا واضح ہے ۔جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ انسان کو عالم ِ مادہ میں اس لئے بھیجا گیا ہے کہ اس کی اپنی پسند کا ایک راستہ اسکے سامنے ہو اور وہ اپنے پورے اختیار سے اپنی تقدیر کی بِنا رکھے تو ظاہر ہے خدا کی جانب سے ہی اس کے سامنے ایک ایسا راستہ ہو نا چاہئے کہ جس کے دو پہلو ہوں ایک پہلو کمال کا ہو اور دوسرا پہلو نقص کا ایک کی انتہا ء کا میابی و نجات پر ہو اور دوسرے کا اختتام ناکامی و بد بختی پر تا کہ اپنے آزادانہ انتخاب کے ذریعہ انسان اُن میں سے ایک کو چُن لے ۔

قرآ ن کی بعض آیا ت سے پتہ چلتاہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جس وقت زمین پر آئے اسی وقت ان پر وحی ہوئی کہ جب خدا کی جانب سے تمہاری رہنمائی ہو تو اس کو قبول کرنا ۔اگر قبول کیا اور ا س پر عمل کیا تونجات مل جائے گی اور اگر مخالفت کی تو بد بخت ہو جائو گے قرآ نِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے :

( قُلنَااهْبِطُوْامِنهَا جَمِیْعاً فَاِمّایاَتِینَّکُم مِنِّیْ هُدًی ) ( ۱ )

''اور جب آدم سے کہا کہ بہشت سے نکلو (تو سا تھ میں یہ بھی کہہ د یاتھا )کہ اگر تمہا رے پاس میری طرف

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت ۳۸۔

۱۷

سے ہدایت آئے تو (اُس کی پیروی کر نا ) '' ۔

کیونکہ اس کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو پیروی کر کے نجات پا جائو یا مخا لفت کر کے بد بخت ہو جائو۔

( فَمَن تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوف عَلَیْهِم وَلَاهُمْ یَحْزَنُونَ وَالَّذِینَ کَفَرُوْاوَ کَذَّ بُوْابِآیَٰتِنَااُولَٰئِکَ اَصحَابُ النَّارِهُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ) ( ۱ )

''جو لو گ میری ہدایت پر چلیں گے اُن پر ( قیا مت میں )نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہونگے اور جن لوگو ں نے انکار کیا اور ہماری آ یتو ں کو جھٹلایا وہی لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ دوزخ میں پڑے رہیںگے'' ۔

یعنی زمین پر آدم کی آمد کے آغاز سے ہی اُن پر یہ بات روشن کر دی گئی تھی کہ آپ کے سامنے دو راستے ہوں گے اور خداکی طرف سے رہنمائی کی جا ئیگی ۔

اسی سے ملتی جُلتی یہ آیت بھی ہے :

( قَا لَ اهْبِطَامِنْهَاجَمِیْعاً )

''(آدم و حوّا سے خطاب ہے)کہ دونوں جنّت کو چھوڑ دو اور زمین پر چلے جائو ''۔

اور ممکن ہے یہ خطاب حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس سے ہو کیونکہ ا ِس کے بعد ارشاد ہو تا ہے :( بَعضُکُم لِبَعْضٍ عَدُوّفَاِمَّا یَا تِیَنَّکُم مِنِّیْ هُدًی فَمَنِ اتّبَعَ هُدَا یَ فَلَا یَضِّلُ وَلَا یَشْقَٰی ) ( ۲ )

'' تم میں سے ایک ایک کا دشمن ہے پھر اگر تمہا رے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (تم اس کی پیروی کرنا کیونکہ )جو شخص میری ہدایت پر چلے گا نہ تو وہ گمراہ ہوگا اور نہ مصیبت میں پھنسے گا ''۔

اسی طرح سورئہ اعراف میں ارشاد ہو تا ہے :

( یَٰبَنِیْ آدَمَ اِمَّایاَتِیَنَّکُم رُسُل مِنکُم یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُم آیاَتِی فَمِنِ اتَّقَٰی وَاَصْلَحَ فَلَاخَوْف عَلَیْهِم وَلَاهُمْ یَحْزَ نُوْ نَوَالَّذِیْنَ کَذّبُوابَِٔایَٰتِنَاوَاسْتَکْبَرُوْاعَنْهَاأُولَٰئِکَ اَصْحَابُ النَّارِهُمْ فِیْهَا خَاْلِدُوْنَ ) ( ۳ )

''اے اولاد ِآدم جب تم میں سے ہی (ہمارے ) پیغمبر آئیں اور تم سے ہمارے احکام بیان کریں (تو ان کی اطاعت کرنا کیونکہ )جو لوگ پرہیز گار بن گئے اور نیک کام کیا ان کے لئے قیامت میں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ آزردہ

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت ۳۸۔۳۹۔۲۔سورئہ طہ آیت۱۲۳۔۳۔سورئہ اعراف آیت۳۵،۳۶۔

۱۸

خاطر ہوںگے اور جن لوگو ںنے ہماری آیت کو جھٹلا دیا اور اُن سے سرتابی کر بیٹھے وہی لوگ جہنمی ہیں اور اُس میں ہمیشہ رہیںگے ''۔

خطاب تمام انسانو ں سے ہے اس آیت کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ کوئی یہ نہ سو چ لے کہ مذ کو رہ خطاب صرف آدم و حو ّا یا ابلیس سے مخصوص تھا ۔دوسرے لوگوں سے اسکا کوئی تعلّق نہیں ہے یہاں خطاب اولاد آدم سے ہے۔ سو رئہ بقرہ میں ''فَمَنْ تَبِعَ '' آیاتھا 'سو رئہ طہ اور سورئہ نور میں( فَمَنِ اتَّبَعَ ) تھا ۔یہاںاسکامصداق''فَمَنِ اتّقی وَاَصْلَحَ''بیان کیا جا رہا ہے ۔

لہٰذا وحی ونبوّت کے ذریعہ الٰہی ہدایت کا مسئلہ ایک ایسی چیز ہے جو خلقت میں مضمر اور شامل ہے اور اسکے بغیر روئے زمین پر انسان کی رہائش ممکن نہیں ہے کیونکہ ایسا ہونا حکمت ِ الٰہی کے خلاف ہے ۔اس چیز کے پیشِ نظر خدا نے ہر آبادی اور ہر قوم کے لئے ایک پیغمبر بھیجا :

( وَاِنْ مِنْ اُمَّةٍ اِلّا خَلَاْ فِیْهَا ْنَذِ یْر ) ( ۱ )

تو اب اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں بھی یا جس شہر میں بھی کچھ لوگ آباد ہوں وہاں ایک پیغمبر ہو نا چاہئے یا یہ کہ ہر زمانہ میں ایک پیغمبر ہونا ضروری ہے تا کہ زمانی اعتبار سے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ ایک دوسرے سے متصل رہے یا اس کی کوئی اور صورت ہے ؟ قرآ ن نے اس بارے میں صاف صاف کچھ نہیں کہا ہے صرف لفظِ امت کا استعمال ہوا ہے ۔قرآن میں لفظِ امت کے بہت وسیع معنی ہیں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لفظِ امت اپنے علمی معنی میں معاشرے کے مترادف ہے لیکن ایسا نہیں ہے قرآن میں لفظِ امت اس کے قطعِ نظر کہ اس جگہ صرف ایک فرد کے لئے استعمال ہوا ہے اورکبھی وقت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جن موارد میں اسکا انسانوں کی ایک جماعت پر اطلاق ہوا ہے اس کے موارد استعمال کے لحا ظ سے قدر ِ مشترک صرف جماعت اور گروہ کا مفہوم ہے ۔مثال کے طور پر قرآن تمام انبیاء علیہم السلام کو ایک امت شمار کر تا ہے(اِنَّ اُمَّتَکُمْ اُمَّةًوَا حِدَةً) جبکہ ان سب کے درمیان وقت ،مقام نیز اقتصادی اور سیاسی تعلّقات کے لحاظ سے اشتراک نہیں پایا جا تا ۔

بہر حال قرآن میں امت گروہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہر امت کے لئے ایک پیغمبر ضروری ہے مطلب کیا ہے ؟( ۲ )

____________________

۱۔سورئہ فا طر آیت۲۴۔

۲۔مزید معلومات کے لئے ملا حظہ فر ما ئیں:معا شرہ اور تا ریخ قر آن کی نظر میں۔

۱۹

ہم دقیق طور پر اسکے معنی معین نہیں کر سکتے صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ا س سے مراد انسانوں کا ہر وہ گروہ ہے جو دوسرے انسانو ں سے جدا ہوا اور ان کے روابط اسطرح کے نہ ہوںکہ اِن کی معلومات اُ ن تک منتقل ہو سکے ایسے میں ظاہر ہے اُن میںسے ہر گروہ الگ الگ رہنما کا محتاج ہوگا لیکن اگر لاکھوں انسان دسیوں صدی کے دوران ایسے تعلقات کے حامل ہوںکہ ان کی معلومات ایک دوسرے تک منتقل ہوں ان پر اگر کوئی کتاب نازل ہو اور اُن کے درمیان باقی رہے تو یہ سب امّت ِ واحدہ شمار ہوں گے اس آیت میں بھی جو کہا گیا ہے:

( وَ اِنْ مِنْ اُمَّة اِلّا خَلَا فِیْها نَذِیْر ) ( ۱ )

''کوئی امّت ایسی نہیں جس میں کوئی نہ کوئی نبی نہ ہو ''۔

بہ ظاہر یہی معنی مراد لئے گئے ہیں لیکن یہ کہ ہم مبعوث ہو نے والے تمام انبیاء علیہم السلام کو نہیںپہچانتے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

بعض روا یات میں آیاہے کہ انبیاء علیہم السلام ایک لاکھ چوبیس ہزار ہوئے ہیں اب روا یات کے معتبر ہونے یا نہ ہو نے سے یہا ں ہم کو کوئی مطلب نہیں ہے۔بہر حال ایک بڑی تعداد میں انبیاء علیہم السلام مبعو ث ہوئے ہیں اور قر آن ِ مجید میں تقریباًپچیس انبیاء علیہم السلام کا نام ذکر ہوا ہے باقی انبیاء معروف نہیں یہاں تک کہ اُن کے نام بھی معلوم نہیں ہیں۔سورئہ فاطر کی اِس آیت کے مطابق ہم اجمالی طور پر یہ بات جانتے ہیں کہ مذکورہ معنی میں ہر امت میں ایک نبی رہا ہے ہم نے نبوّت کی ضرورت پر جو دلیل پیش کی تھی اور عرض کیا تھا کہ اُس دلیل کو قرآن کی تائید حاصل ہے اس سے نبوت کی ضرورت اور اسی کے ضمن میں انبیاء علیہم السلام کا مقصد معلوم ہو جاتا ہے اسی طرح سے ہم نے ثابت کر دیاکہ انسان کو چونکہ خود ہی آزادانہ طور پر سعادت یا شقاوت کا راستہ اختیار کر نا ہے اسلئے اُ س کے لئے دونوں راستوں کی شناخت ضروری ہے اور انسان کی عقل اور حواس صحیح یا غلط کی شناخت کے لئے کافی نہیں ہے لہٰذا ایک اور راہ جس کا نام ہم نے وحی رکھا ہے ہو ناچا ہئے ورنہ انسا ن صحیح راستہ نہیں پہچان سکے گا اور پھر ظاہر ہے اس با رے میں جواب دِہ نہیں ہوگا اورچونکہ خدا نے ا نسان کو اس لئے خلق فر مایا کہ وہ ذمہ داری قبول کرے یعنی خود انتخاب کرے تاکہ اپنے اعمال کے نتیجہ تک پہنچ سکے اس لئے خدا نے شناخت کی کوئی راہ بھی ضرور معیّن کی ہو گی ۔ چنانچہ اس دلیل کے مطا بق پہلا مقصدیہ سمجھ میں آتا ہے کہ انسانوں کو صحیح اور غلط کی شناخت ہو نا چاہئے تاکہ جو بھی

____________________

۱۔سورئہ فاطر آیت۲۴ ۔

۲۰

جس راستہ کاانتخاب کرے سمجھ بوجھ کر انتخاب کر ے دوسرے الفاظ میں اُس پر حجت تمام ہو چکی ہو ۔اس سلسلہ میں قرآ نِ کریم میں بہت سی آیات پائی جاتی ہیں منجملہ یہ آیت:

( رُسُلاًمُبَشِّرِیْنَ ومُنْذِ رِیْنَ لِئَلَّایَکُوْ نَ لِلنَّاسِ عَلَٰی اللَّهِ حُجَّة بَعْدَ الرُّسُلِ وَکَا نَ ﷲ عَزِیْزاً حَکِیْماً ) ( ۱ )

''اور ہم نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبر بھیجے تاکہ خدا کے سامنے لوگوں کے پاس کوئی حجت نہ رہ جائے اور خدا توبڑا ہی عزیز و حکیم ہے''۔

خا ص طور سے آیت کے ذیل میں خداوند عالم نے جو فرمایا ہے: ( وَکَا نَ ﷲ عَزِیْزاً حَکِیْماً ) اس سے واضح ہوتاہے کہ اتمام حجت حکمت الٰہی کا لازمہ ہے یہ تقر یباً وہی بات ہے جس کا ہم نے اپنے استد لال میں ذکر کیا تھا کہ حکمت الٰہی کا تقاضا ہے کہ نبوت کا راستہ انسان کے لئے کھلا رہے ۔ا سی سے ملتی جلتی ایک اور آیت ہے( البتہ یہ آیت جن کا ہم ذکر کررہے ہیں بعض میں مخاطب ایک مخصوص قوم ہے یا کہیں کہیں اہل کتاب سے خطاب ہے یا مشرکین مکہ مخاطب ہیںلیکن مضمون سب کا ایک ہی ہے )

( اَنْ تَقُوْلُوْااِنَّمَااُنْزِلَ الْکِتَا بُ عَلَیٰ طَائِفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا وَاِنْ کُنَّاعَنْ دِ رَاسَتِهِمْ لَغَٰفِلِیْنَاَوْتَقُوْلُوْالَوْاَنَّااُنْزِلَ عَلَیْنَاالْکِتَابُ لَکُنَّااَهْدَیٰ مِنْهُمْ ) ( ۲ )

ہم نے نبی کو کتاب کے ساتھ بھیجا کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ کتاب خدا تو بس صرف دو ہی گرو ہوں (یہودو نصاری) پر جو تم سے پہلے تھے نازل ہوئی ہے اور ہم تو ان کے پڑھنے ( پڑھانے ) سے بے خبرتھے یا یہ نہ کہنے لگوکہ اگر ہم پر بھی کتاب ( خدا ) نازل ہوتی تو ہم ان لوگوں سے بہتر طور پر راہ راست طے کرتے''۔

اگر ہم نے تمہارے لئے پیغمبر نہ بھیجا ہوتا توتم کہہ سکتے تھے کہ خدا نے یہودیوں کے لئے پیغمبر بھیجا اور انھوں نے راہ حق کو جان لیا تھا اگرچہ ان میں سے اکثر گمراہ ہو گئے عیسائیو ں کا بھی یہی حال ہوا اگر خدا نے ہمارے لئے پیغمبر بھیجا ہوتا تو ہم اس سے بہتر طور پر راہ حق کی پیروی کرتے اسی لئے ہم نے تمہارے لئے بھی پیغمبر بھیجاتا کہ تمہارا بھی امتحان لیا جاسکے ۔

____________________

۱۔سورئہ نساء ، آیت ۱۶۵ ۔

۲۔سورئہ انعام آیت ۱۵۶ و۱۵۷ ۔

۲۱

دلچسب بات یہ ہے کہ قرآ ن میں ایک اور جگہ ارشاد ہو تا ہے کہ لوگو ں نے پیغمبر کی بعثت سے پہلے قسم کھا رکھی تھی کہ اگر خدا ہمارے لئے کوئی پیغمبر بھیجے تو ہم اس کی پیروی کرینگے اور دوسری قوموں کے مقابلہ میں زیادہ ہدایت یافتہ ہوجائیں گے :

( وَاَقْسَمُوْابِﷲ جَهْدَ اَ یْمَا نِهِمْ )

معلوم ہواکہ وہ لوگ پہلے سے خدا پر عقیدہ رکھتے تھے اور انھو ں نے بہت بھاری بھاری قسمیں کھا رکھی تھیں :

( وَاَقْسَمُوْابِﷲ جَهْدَ اَیْمَا نِهِمْ )

اور انھوںنے بڑی سختی سے قسمیں کھا رکھی تھیں:

( لَئِنْ جَا ئَ هُمْ نَذِ یْر لَیَکُوْ نُنَّ اَهْدَیٰ مِنْ اِحْدَ ی الاُمَمِ )

'' کہ اگر ان کے درمیان کو ئی ڈرانیوالا (پیغمبر ) آئیگا تو وہ دوسری تمام امتو ں سے زیا دہ ہدایت یا فتہ ہونگے''۔

( فَلَمَّاجَائَهُمْ نَذِیْرمَاْزَادَهُمْ اِ لَّانُفُوْراً ) ( ۱ )

''پھر جب ان کے پاس ڈرانے والا (رسول ) بھیج دیا تو اس کی اتباع اورحمایت کے بجائے اور زیادہ اس سے دور بھاگنے لگے ''۔

پس معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد لوگوں پر حجت تمام کرنا رہا ہے ایک اور آیت میں اہل کتاب سے خطاب ہے :

( یَاَهْلَ الْکِتَابِ قَدْجَائَکُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلَیٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْامَاجَائَ نَامِنْ بَشِیْرٍوَّلاَنَذِیْرٍفَقَدْجَاْ ئَکُمْ بَشِیْر وَّ نَذِ یْروَاللَّهُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر ) ( ۲ )

'' اے اہل کتاب جس وقت پیغمبروں کی آمد رکی ہوئی تھی ہمارا رسول تمہارے پاس آیاکہ تم پر حق آشکار کردے اور تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے درمیان کوئی خو شنجری دینے والا یا عذاب خدا سے ڈرانے والا (نبی ) نہیں آیا ہے تمہارے درمیان خوشنجری دینے والا اور ڈ رانے والا ( پیغمبر ) آچکا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ''۔

البتہ اہل کتاب خود کو ایک نبی کا پیروسمجھتے تھے لیکن اس انتظار میں تھے کہ ایک اور پیغمبر آجائے شاید اس وحی کی بنیاد پر ان کا یہ انتظار تھا جو پہلے انبیاء علیہم السلام پر نازل ہو چکی تھی اور ان کو آخری نبی کی بشارت دی جا چکی تھی :

____________________

۱۔سورئہ فا طر آیت ۴۲ ۔

۲۔سورئہ ما ئدہ آیت۱۹۔

۲۲

( بِرَسُوْلٍ یَا تِیْ مِنْ بَعْدِیْ اسْمُهُ اَحْمَدُ ) ( ۱ )

'' ایک پیغمبر کی کہ جن کا نام احمد ہو گا اور میرے بعد آئیں گے ''۔

میں تم کو بشارت دیتا ہوں بہر حال یہ لوگ اس بات کے منتظر تھے کہ ایک پیغمبر آنے والا ہے اور یہ اسلئے تھا کہ تمہارے پاس یہ کہنے کا بہانہ نہ رہے چونکہ پیغمبر نہیں آیا اسلئے ہم گمراہ ہو گئے اس لئے کہ کتاب میں تحریف ہو چکی تھی یا گذشتہ انبیا ء علیہم السلام کی تعلیمات ہم تک نہیں پہنچی تھیں ۔ایک اور نبی کی ضرورت تھی یا یہ کہ چونکہ ہم سے وعدہ کیا گیا تھا اس لئے ہم اس کے منتظر تھے اور جب وہ نہ آیا تو ہم شک میں پڑ گئے تم ایسی با تیں نہ کر سکو اس لئے :( فَقَدْ جَائَکُمْ بَشیْر وَنَذِیْر )

''تمہارے در میان ایک ڈرانے والااوربشارت دینے دالا(رسول )آچکا ہے''۔

دوسری آیت میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَ لَوْاَ نَّااَهْلَکْنَٰهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوْارَبَّنَالَوْلَا اَرسَلْتَ اِلَیْنَارَسُوْلاً فَنَتَّبِعَ ئَ ایَا تِکَ مِنْ قَبَلِ اَنْ نَذِ لَّ وَنَخْزَیٰ ) ( ۲ )

''اور اگر ہم ان کو رسول کے آنے سے پہلے ہی عذابِ ہلاکت میں مبتلا کر دیتے تو ضرور کہتے کہ اے ہمارے پالنے والے تونے ہمارے پاس (اپنا ) رسول کیوں نہیں بھیجا کہ ہم اپنے ذلیل و رسوا ہو نے سے پہلے ہی آیتو ں کی پیروی کر لیتے ''۔

خدا نے لوگوں کو اس لئے خلق فرما یا تھا کہ وہ اپنے اختیار کے ذریعہ صحیح راستہ یا غلط راستہ کا انتخاب کریںاور اگرغلط راستہ کو انتخاب کیا تو اپنے اعمال کی سزا پائیںپس غلط راستہ انتخاب کر نے والوں پر عذاب تو نازل ہو نا ہے لیکن اگر ہم پیغمبر بھیجنے سے پہلے ہی اُن پر عذاب نا ز ل کرتے تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم اچھے اور برے راستہ کو نہیں پہچان سکے تو نے پیغمبر کیو ں نہیں بھیجا ؟ کہ وہ ہماری ہدایت کرتا ؟یا ہم غفلت میں مبتلا تھے تو تونے کسی کو کیوں نہیں بھیجا کہ وہ ہم کو غفلت سے بیدار کر تا ؟لہٰذا اس طرح کے بہانو ں کے سدّ باب کے لئے انبیاء علیہم السلام کا بھیجا جانا ضروری ہے ۔

ایک اور آیت میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَمَاْکُنَّا مُعَذِّ بِیْنَ حَتَّیٰ نَبْعَثَ رَسُوْلاً ) ( ۳ )

____________________

۱۔سورئہ صف آیت۶۔

۲۔سورئہ طہ آیت۱۳۴۔

۳۔سورئہ اسراء آیت۱۵ ۔

۲۳

''اور ہم جب تک کسی رسول کو بھیج کر اتمام حجت نہ کر دیں کسی پر عذاب نہیں کیا کرتے ''۔

یہ آ یات اس بات کی تا ئید کر تی ہیں کہ نبوت کا ایک مقصد کم سے کم اتمام حجت کر کے عذر کی راہیں بند کر نا ہے ۔

لوگوں کی تعلیم

اسی طرح دوسری آ یات بھی ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر کو بھیجا گیا کہ وہ لوگو ں کو اُن چیزوں کی تعلیم دیں جو وہ نہیں جانتے اور اسکا نتیجہ بھی تقریبا یہی ہے یعنی جس چیز کو خود لوگ اچھا سمجھتے ہیں اُس پر عمل کریں چاہے کوئی پیغمبر مبعوث نہ بھی ہوا ہو ۔اسی لئے حتی جن محرومین تک پیغمبروں کی دعوت تبلیغ نہیںپہنچی ہے وہ بھی اپنی عقل کے مطابق جواب دہ ہیں ۔بہر حا ل نبوت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ جن باتوں کو نہیں جانتے یا خود نہیں سمجھ سکتے ان کو سکھایا جائے ارشاد ہو تا ہے :

( وَ يُعَلِّمُکُمْ مَاْ لَمْ تَکُوْ نُوْا تَعْلَمُوْنَ ) ( ۱ )

''اور تم کو وہ باتیں بتائے جن کی تمہیں (پہلے سے )خبر (بھی ) نہ تھی ''۔

اور سورئہ نساء میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَ عَلَّمَکَ مَاْ لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ) ( ۲ )

''اور جو باتیں تم نہیں جانتے تھے تمہیں سکھا دیں ''۔

یہ آیتیں بھی تقریباًاسی مفہوم کی تائید کرتی ہیں ۔

تحریفات کی اصلاح

بعض آیات سے کچھ دوسرے مطالب بھی معلوم ہوتے ہیں جوشاید تمام انبیاء علیہم السلام کے لئے نہ ہو ں شاید اصل بحث میں وارد ہونے سے پہلے تمہید کے طور پر ان کا ذکر نامناسب نہ ہو فرض کیجئے کہ خدا نے ایک پیغمبر بھیجا اور کچھ لوگو ں کو راہ حق کی ہدایت کی پھر کچھ زمانہ گزرنے یاکسی اور وجہ سے اس پیغمبر کی تعلیمات میں تحریف کردی گئی اور جو چیز لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ تھی اب ممکن ہے وہی گمراہی کا باعث ہو اور ہم نے تو خو د اپنے زمانے میں بہت سے

____________________

۱۔سو رئہ بقرہ آیت ۱۵۱ ۔

۲۔سورئہ نساء آیت۱۱۳۔

۲۴

ایسے نمو نہ دیکھے ہیں ۔وہ انجیل جو خدا کی طرف سے جناب عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی آج اس کاکوئی ایک حصہ بھی اصل شکل میں موجود نہیںہے۔شایددنیا کے تمام کتب خانو ں میں انجیل کا ایک بھی اصل نسخہ نہ مل سکے ۔جو کچھ ہے وہ ان لوگوں کی تحریر ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے شاگردوں کے نام سے جانے جا تے ہیں جبکہ اُن افراد کی طرف مو جو دہ انجیلوں کی نسبت بھی یقینی نہیں ہے ۔ان مختلف انجیلوں کا لہجہ اور طرز تحریر کسی تاریخی کتاب کی طرح ہے مثلاً فلاں دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے شاگر دوں کے در میان آ ئے اور یہ کہا اور انھوں نے سوال کیا اور آپ نے یہ جواب دیا وغیرہ وغیرہ ۔

ظاہر سی بات ہے کہ یہ وہ کتاب نہیں ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی اسی کتاب میں ایسے مطالب ہیں جو عقل کے بھی خلاف ہیں اور آسمانی شریعتوں کا جن باتوں پر اتفاق ہے اسکے بھی خلاف ہیں اس میں شر ک کی باتیں بھی ہیں اور آسمانی کتابوں کے متفقہ احکام میں تحریف بھی ہوئی ہے لہٰذا یہ وہ بات ہے جسکا امکان موجود ہے (ادل دلیل علی امکان الشی وقوعہ) (یعنی کسی شئی کے ممکن ہو نے کی محکم ترین دلیل اُسکا واقع ہو نا ہے )لہٰذا ممکن ہے خدا کسی پیغمبر کو بھیجے اُ ن لوگوں کو حق کا راستہ بھی بتادے اُن پر کوئی کتاب بھی نازل کر دے اور بعد میں اُس کتاب میں تحریف ہو جا ئے ۔ایسی حالت میں بھی یہ لوگ اُن لوگوں کی طرح ہیں کہ جن کے درمیان کوئی پیغمبر اور کتاب نہ آئی ہو ۔ضرورت ہے کہ کوئی پیغمبر آئے اور کم سے کم اُن تحریفات کی اصلاح کرے ۔اب چاہے نئی شریعتیں آئیں یا نہ آئیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن لو گو ں کو انحراف و گمراہی سے نکال کر حق کی طرف دعوت دینا خود اپنی جگہ نئے نبی کی آمد کی ایک معقول وجہ ہے ۔

دینی اختلاف کا بر طرف کرنا

بعض آیات اس مطلب کی طرف اشارہ کر تی ہیں کہ اہل کتاب کے علما ء نے کچھ مطالب لوگوں سے چھپا رکھے تھے اور لوگوں سے نہیں بیان کر تے تھے یہ وہ اختلافات تھے جو علمائے اہل کتاب نے خود اپنے مفادات کی خاطر ایجاد کئے تھے یہ چیز بھی سبب بنتی کہ خدا کوئی پیغمبر بھیجتاتاکہ وہ ان اختلافات کو رفع دفع کر کے لوگوں کے سامنے حق کی نشا ندہی کرے سورئہ ما ئدہ میں ارشادہو تا ہے :

( یَٰآهْلَ الْکِتَابِ قَدْجَائَکُمْ رَسُوْلُنَاْیُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْراًمِمّا تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتَابِ وَیَعْفُوْاعَنْ کَثِیْرٍ ) ( ۱ )

____________________

۱۔سورئہ مائدہ (آ یت ۱۵ ۔

۲۵

''اے اہل کتاب تمہا رے پاس ہما را پیغمبر آ چکا ہے تا کہ( کتاب خدا ) کی بہت سی اُن باتوں کو جنہیں تم چھپایا کر تے تھے تمہا رے سامنے صاف صاف بیا ن کر دے اور تمہاری بہت سی خطائوں کو در گذر کر دے ''۔

تم نے آ سمانی کتاب کے بہت سے مطالب چھپا رکھے تھے واضح ہے کہ اُن میں ایسے علماء موجود تھے جو جانتے تھے اور لوگوںکو نہیں بتا تے تھے البتہ دوسری آیات بھی ہیں جو دلالت کرتی ہیں یہ لوگ کچھ چیزیں خود لکھتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ خدا کی جانب سے ہے ۔قر آن کریم میں ارشاد ہو تا ہے :

( فَوَیْل لِلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْهِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْ نَ هَٰذَامِنْ عِنْدِاللَّهِ ) ( ۱ )

''پس وائے ہوان لوگوں پر جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں لوگوں سے کہتے پھر تے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں سے آئی ہے ''۔

اور سورئہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے :

( یُحَرِّفُوْ نَ الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ ) ( ۲ )

''یہ لوگ کلام کو ان کے اصل مقام سے ادھر ادھرکر دیتے ہیں ''۔

اہلِ کتاب کے بہت سے علماء کا یہی کام تھا وہ یہی کیا کر تے تھے ۔قرآن فرماتا ہے پیغمبر اسلئے آ ئے ہیں کہ اُن حقائق کو آشکار کریں جن کو تم نے چھپا رکھا تھا خدا وند عالم فر ما تا ہے :

( کَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعْثَ ﷲ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِ رِیْنَ وَاَنزَلَ مَعهُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النََّاسِ فِیْماَاخْتَلَفُوْافِیْهِ وَمَااخْتَلَفَ فِیْهِ اِلَّاالَّذِیْنَ اُوْتُوْهُ مِنْ بَعْدِ مَاجَائَتْهُمُ الْبَیِّنَٰتُ بَغْیاً بَیْنَهُمْ فَهَدَی اللَّهُ الَّذِیْنَ ء امََنُوْالِمَااخْتَلَفُوْافِیْهِ مِنَ الْحَقّ بِاِذْ نِهِ وَاللَّهُ یَهْدِیْ مَنْ یَشَآئُ اِلَٰی صِرَاطٍ مَُسْتَقِیْمٍ ) ( ۳ )

''لوگ ایک امت کی شکل میں تھے پس خدا نے (نجات کی ) خوشخبری دینے والے اور (عذاب سے ) ڈرانے والے پیغمبروں کو بھیجا اور اُن پیغمبروں پر برحق کتاب بھی نازل کی تا کہ جن باتوں میں لوگ جھگڑ تے تھے (کتاب خدا اسکا فیصلہ کر دے )لیکن سوائے اُن لوگوں کے کہ جن کو کتاب دی گئی تھی اورجن پر حجت آشکار ہو چکی تھی

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت۷۹۔

۲۔سورہ نساء آیت ۴۶۔

۳۔سورئہ بقرہ آیت۲۱۳۔

۲۶

صرف آ پس میں حسد کے سبب ( اُ ن کے بارے میں اختلاف کیا ) ورنہ کسی اور نے ان میں اختلاف نہیں کیا اور خدا نے اپنی مہر بانی سے ایمان داروں کو وہ راہ حق دکھا دی کہ جن میں ان لوگوں نے اختلاف کر رکھا تھا اور خدا جس کوچاہتا ہے راہ راست کی ہدایت کر دیتا ہے ''۔

اس آیۂ شریفہ ِمیں بہت زیا دہ بحث کی گنجا ئش ہے بہت سے ایسے نکتہ ہیں جو پہلی نگاہ میں مبہم نظر آتے ہیں کہ ا ن کے بار ے میں بحث کی ضرورت ہے منجملہ( کَا نَ النّاسُ امَّة ً وَاحِدَةً ) میںایسے زمانے کی طرف اشارہ ہے کہ جب لوگ ایک امت تھے ۔یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ امت واحد سے کیا مراد ہے ؟کیا اعتقا د کے لحاظ سے لو گ ایک تھے یا کسی اور لحاظ سے ؟مثلاً جگہ اور مقام کے اعتبار سے ،یا ایسے لوگ تھے کہ جن کی زندگی میں سادگی اور یکسانیت پائی جاتی تھی اور اگر مراد وحد تِ عقیدہ ہے تو آیا وہ لوگ حق پر تھے یا اُن کے اعتقاد باطل تھے ؟

علّا مہ طبا طبائی طاب ثراہ نے بعد کے جملہ کو قرینہ قرار دیکر اس جملہ کے بارے میں یہ خیال ظاہر فرمایا ہے کہ لوگ ایک سیدھی سادی یکساں زندگی بسر کرتے تھے جناب آدم علیہ السلام کے روئے زمین پر بسنے کے ابتدائی ایّا م میں ہی کچھ لوگ ایسے تھے جن کی اولا دیں بھی تھیں اور وہ با لکل سادہ زندگی بسر کیا کرتے تھے پیچیدہ قسم کے معاشرتی مسائل نہیں پائے جاتے تھے کہ اختلا ف کا سبب بنتے اور اگراختلا ف تھے بھی تو شخصی اختلا ف تھے ۔

بہر حال علا مہ طبا طبا ئی( رضو ا ن ﷲ علیہ) نے اس طرح کا خیال ظا ہر کیا ہے لیکن احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ سب لو گ عقیدہ کے لحا ظ سے ایک عقیدہ حق پر قائم رہے ہوں یعنی ایک ایسا زمانہ گذرا ہو کہ جب سب موحد ہوں اور اپنے انبیاء علیہم السلام اور پیغمبر منجملہ حضرت آدم علیہ السلام کی باتوں پر عمل کرتے رہے ہوں اب اگر کچھ لوگ مخالفت کرتے بھی رہے ہوں گے تویہ مخالفت ہرامت میں ہوتی ہے لیکن مسلک میں اختلاف نہ رہاہوگا ایک توحیدی مسلک تھا جو حضرت آدم انسانوں کے لئے لائے تھے اور معاشرے کا مسلک ومذہب وہی تھا پھر یہ زمانہ ختم ہوگیا مختلف مذاہب ومسالک وجود میں آئے شرک آلود مسالک ، مختلف مذا ہب وجو د میں آجا نے کے بعد جب معا شرہ میں حق گم ہو گیا تو اس بات کی ضرو رت پیش آئی کہ دو سرے پیغمبر مبعو ث ہو ں خود حضرت آدم نبی تھے لیکن ایک مد ت گزر گئی مثلاً ایک ہزا ر سال ، اس وقت ایک ہزا ر سال بھی کچھ نہیں تھے روا یت میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی عمر تقر یباًنوسو سال تھی ۔ ایک نسل گزر گئی اور لوگ بھی حضرت آدم علیہ السلام کے دین پر رہے پھر اس کے بعد مثلاً دوسرے ہزا رے میں جب حضرت آدم علیہ السلام دنیا سے تشر یف لے گئے تو لو گو ں میں کچھ اختلا فات پیش آئے اور شرک آلو د مذا ہب وجو د میں آ گئے : فَبَعْثَ ﷲ النَّبِیِّیْنَ ''خدا نے حضرت آ دم علیہ السلام پر اکتفا ء نہ کی اور انبیاء علیہم السلام کو بھیجنا شرو ع کر دیا :

۲۷

''( ثُمَّ اَرْسَلْنَارُسُلَنَا تَتْرَا ) ''۔( ۱ ) ''خدا نے یکے بعد دیگرے پیغمبروں کو بھیجا تا کہ لو گو ں کے در میان پیش آ نے والے اختلا فات بر طرف ہوجا ئیں ''۔( فَبَعْثَ ﷲ النَبِیِّیْنَ مُبَشَِّریْنَ وَمُنْذِرِیْنَ وَاَنْزَلَ مَعْهُمُُ الْکِتَابَ ) ( ۲ )

''پھر ﷲ نے بشارت دینے اور ڈرا نے وا لے نبیو ں کو بھیجا اور ان کے سا تھ بر حق کتا ب نا زل کی ''۔شاید اس آیت کی بنا ء پر کہا جا سکتا ہے کہ حضرت آ دم علیہ السلام کو کتاب نہیں ملی تھی بلکہ زبا نی تبلیغ کیا کرتے تھے اور لو گو ں کے درمیا ن کو ئی مدوّن کتاب نہیں تھی ۔ اس کے بعد کے دور میں جب لو گو ں کے درمیا ن اختلا فات وجو د میں آ ئے تو خدا نے انبیا ء علیہم السلام کو بھیجا اور ان پر کتاب نا زل فر ما ئی یعنی وحی شدہ متن جو لوگوںکے درمیا ن محفو ظ رہا ۔ یہ بات کہ جناب آ دم پر الہا م ہو اکہ لو گو ں کو حج پر جا نے کیلئے کہئے ( کیو نکہ نہج البلاغہ میں ہے کہ حج خلقتِ آ دم علیہ السلام کے آ غاز سے تھا ) او ر لوگ چو نکہ جا نتے تھے کہ حضرت آدم علیہ السلام پیغمبر ہیں اور ان پر وحی ہو تی ہے لہٰذا عمل کر تے تھے لیکن بعد میں جب اختلا فا ت وجو د میں آئے تو ایک ایسے متن کی ضرورت پیش آئی جو لوگو ں کے در میان محفو ظ رہے نو شتے کی صو رت میں ہو یا کسی اور صورت میں اور اس کی عبارتیں محفو ظ رہیں کتاب کیوں نازل کی ؟ خدا وند عالم فر ما تا ہے :( لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَااخْتَلَفُوْافِیْہِ )''تا کہ جن با تو ں میںلوگ جھگڑاکرتے تھے کتاب خدا اْن کے اختلافا ت ختم کر دے اور اپنا فیصلہ سنادے''۔ ( وَمَااخْتَلَفَ فِیہِ اِ لَّا الَّذِ ینَ اُوْتُوْہْ )'' لو گوں میں اختلاف کے علاوہ خود کتاب کے بارے میں بھی اختلاف رونماہوا ، کن لوگوں نے اختلاف کیا؟ اْن لوگوں نے جو عمدا ًکتاب میں تحریف کیا کرتے تھے : ( بَغیاًبَینَھْم ) ظلم و ستم اور سر کشی کی بنیاد پر دین خدا میں اختلافات ایجاد کیا کرتے تھے ۔ ظاہر ہے وہ اپنے مفاوات کی خاطر ایسا کیا کرتے تھے ۔( فَهَدَی اللَّهُ الَّذِ یْنَ آمَنُوالَمَااخْتَلَفُوْافِیْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِه وَاللَّهُ یَهِدِیْ مَنْ یََّشَائُ اِلَیٰ صراطٍ مْستَقِیم ) ''تب خدا نے ایمان داروں کو راہ حق دکھادی جس میں ان لوگوں نے اختلاف ڈال رکھا تھا اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے ''۔اس آیت کو شاہد قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ جب خدا کے دین میں اختلا ف ہوا تو یہ اختلا فات کی موجودگی اس بات کا سبب بنی کہ کو ئی دو سرا پیغمبر مبعو ث کیا جا ئے جو اس اختلا ف کو بر طرف کر دے وہ اختلاف جو ایک پیغمبر کے چلے جا نے اور امت کے درمیا ن مو جو د نہ رہنے کی بناء پر وجو د میں آ تا تھا ۔اگر چہ یہ اختلاف سر کشی کا نتیجہ تھا اور کچھ لوگ یہ کام عمد اً کیا کر تے تھے لیکن خدا دو سرا پیغمبر اپنے لطف و کرم کی بنا ء پر بھیج دیتا کہ بعد کی نسلیں گمراہ نہ ہوں ۔انبیاء علیہم السلام کے وجو د کے سلسلہ میں قر آ ن کریم سے اور بھی حکمتو ں اور مصلحتو ں کا پتہ چلتا ہے چنانچہ عقل کی بنیا د پر ان میں سے کچھ (حکمتو ں کا ) پتہ چلا یا جا سکتا ہے ۔اب ہم قر آ ن مجید سے معلو م ہو نے وا لی بعض حکمتیں بیا ن کر تے ہیں :

____________________

۱۔سو رئہ مو منون آیت ۴۴۔

۲۔سورئہ بقرہ آیت۲۱۳۔

۲۸

قضا وت

جیسا کہ خود قر آ ن کریم سے پتہ چلتا ہے انبیا ء کے وجود کا ایک فا ئدہ یہ تھا کہ وہ اصل حکم اور قانون پہنچانے کے علا وہ اس حکم کے مصا دیق بھی معین فر ما دیتے تھے اور لو گو ں کے درمیا ن رو نما ہو نے وا لے اختلا فات کے فیصلے فرما تے تھے (اب سوا ل یہ ہے کہ تمام انبیا ء علیہم السلام اسی طرح کے تھے یا بعض انبیا ء علیہم السلام ایسے تھے)

حضرت دا ؤد علیہ السلام ان ہی انبیا ء علیہم السلا م میں سے ہیں جو منصب کے اعتبار سے خدا کی جا نب سے لو گو ں کے ما بین اختلا ف کے فیصلے کے لئے مبعوث ہو ئے تھے ۔

اور بظا ہر یہ کام بعض انبیا ء علیہم السلام سے ہی مخصو ص رہا ہے۔ ارشا د ہوتا ہے :

( یَٰادَاوُوْدُاِنَّاجَعَلْنَٰکَ خَلِیْفَةً فِیْ الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ ) ( ۱ )

''اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں( اپنا )خلیفہ قرار دیا پس تم لو گو ں کے در میا ن حق کی بنیا د پر ٹھیک فیصلے کیا کرو '' ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے با رے میں ارشاد ہو تا ہے :

( اِنَّااَنْزَلْنَااِلَیْکَ الْکِتَا بَ بِا لْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّا سِ بِمَا اَ رَاکَ ﷲ وَ لَا تَکُنْ لِلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْماً ) ( ۲ )

____________________

۱۔سور ئہ ص آیت ۲۶ ۔

۲۔سورئہ نساء آیت۱۰۵۔

۲۹

''ہم نے اس کتا ب کو تم پر بر حق طو ر پر اس لئے نا زل کیا ہے کہ جس طرح خدا نے تمہا ری ہدا یت کی ہے اسی طرح لو گو ں کے در میا ن فیصلہ کرو اور خیا نت کر نے وا لو ں کے طر فدار نہ بنو ''۔

واضح ہے کہ یہا ں پر حکو مت اور فیصلہ سے مراد اختلا فات کے سلسلہ میں لو گو ں کے درمیان فیصلہ کرنا ہے۔

حکو مت

بعض انبیا ء علیہم السلام منصف اور قا ضی کی حیثیت سے او نچا مقام رکھتے تھے یعنی با قا عدہ طور پر معا شرہ اور حکومت کے سر براہ تھے اور لو گو ں پر ان کی اطا عت کر نا فرض تھا ۔ قر آن کی ایک آیت میں مجمو عی طور پر کہا گیا ہے کہ ہم نے ہر پیغمبر کو لو گو ں کے درمیا ن اس لئے بھیجا کہ لوگ ان کی اطا عت کریں ۔ لہٰذا جو پیغمبربھی جس چیز کے لئے دعوی ٰ کرے کہ یہ خدا کی جا نب سے ہے اور اس پر عمل کا حکم دے لو گو ں پر اس کی با ت ما ننا ضروری ہے۔ اگر وہ لوگوںسے کہے

کہ میں انصاف کر نے کے لئے بھیجا گیا ہو ں تو لو گو ں کے لئے قبو ل کر نا ضرو ری ہے ۔اگر وہ کہے کہ میں لو گو ں کے حا کم کے عنوا ن سے آ یا ہو ں سیاسی اور معاشرتی امور میں میری پیر و ی کرو تو لو گو ں پر اس کی پیر وی ضروری ہے مجموعی طور پر ہر پیغمبر جس آبا دی میں بھیجا گیا ہو (اس کی نبوت ثابت ہو جا نے کے بعد ) خدا کی طرف سے بس جو بھی دعو یٰ کرے لو گو ں پر اس کا قبو ل کر نا لا زم ہے :( وَمَااَرْسَلْنَامِنْ رَسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِِ ﷲ ) ( ۱ )

''اور ہم نے کو ئی رسول نہیں بھیجا مگر اس و اسطے کہ خدا کے حکم سے لو گ ا س کی اطا عت کریں ''۔

اگر ایسا ہو کہ لوگ خود فیصلہ کریں کہ نبی کی کو نسی با ت خدا کی طرف سے ہے اور کو نسی با ت اپنی طر ف سے ہے اور اس کے یہا ں بعض حالا ت میں یہ احتما ل ہو کہ وہ جھوٹ بھی بو ل سکتا ہے تو یہ امر مقصد کے خلا ف ہو گا اور اس پر اعتما د نہیں رہے گا ۔

لہٰذا جب نبی کی نبو ت ثا بت ہو جا ئے تو لا محا لہ طور پر بے چو ن و چرا اس کی اطاعت کر نی چا ہئے مگر یہ کہ وہ خود یہ کہے کہ میں یہ بات اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں ،اب اگر وہ یہ دعو یٰ کرے کہ اس کو خدا کی طرف سے کو ئی منصب دیا گیا ہے تو لو گو ں کو اس کی با ت بہر حال ما ننا چا ہئے ۔ یقیناً بعض مقا ما ت پر بعض انبیا ء علیہم السلام نے خود حکو مت اپنے ہا تھ میں نہیں لی ہے بلکہ خدا کی جا نب سے انھو ں نے کسی اور شخص کی حکو مت کی تا ئید کر دی ہے ۔ چنا نچہ روا یا ت کی روشنی میں بنی اسرا ئیل کے کچھ افراد اپنے

____________________

۱۔سورۂ نسا ء آیت۶۴۔

۳۰

نبی صمو ئیل کے پاس آئے اور آ کر کہا :

( ابْعَثْ لَنَا مَلِکاً نُقَا تِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللَّهِ ) ( ۱ )

''ہما رے واسطے ایک باد شا ہ مقر ر کیجئے تا کہ ہم را ہ ِ خدا میں جہاد کریں ''۔

ظا ہر ہے خود صمو ئیل نبی با دشاہ نہیں تھے ۔ور نہ لو گ ان سے یہ نہ کہتے کہ خد ا سے در خوا ست کیجئے کہ وہ ہمارے لئے ایک با دشا ہ مقرر کر دے ، معلو م ہو ا کہ ہر پیغمبر خدا کی طرف سے حکو مت کا حا مل نہیں ہو تا ،البتہ یہ یقین کے سا تھ کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی طرف سے حکو مت کے حا مل تھے اسی طرح گذ شتہ انبیا ء علیہم السلام میں بھی بعض انبیاء علیہم السلام منجملہ حضرت سلیمان حکو مت کے حا مل تھے۔ قرآن صاف صاف کہتا ہے کہ ہم نے ان کو ملک عطا کیا ۔ رسو لِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے با رے میں بہت سی دلیلیں ہیں خود قرآن کریم میں یہ جملہ مو جو د ہے:

( اَلنَّبِیُّ اَوْ لَیٰ بِا لْمُوْمِنِیْنَ ) ( ۲ )

''یعنی نبی مو منین کی جا نو ں پر ان سے زیا دہ حق رکھتے ہیں ''۔

اس کے علا وہ بھی کئی مقا ما ت ہیں مگر فی الحال ان کا بیان بحث سے خا رج ہے ۔ لہٰذا نبو ت کے ثا نوی مقا صد میں سے ایک مقصد جو بعض نبو تو ں میں محقق ہو ا یہ تھا کہ زمین پر ایک حکومت حقہ قا ئم کریں کہ جس کے سا یہ میں لو گو ں کی دنیا اور آ خرت دو نو ں کی اصلا ح ہو جا ئے ۔

انبیا ء علیہم السلام کی رسا لت کے ذیل میں جو سیاسی مقا صد مدنظر قرار دیئے گئے ہیں ان کی ایک مثال جناب موسیٰ کا وا قعہ ہے کہ جہاں انھو ں نے فر عون کو عبا دت الٰہی کی دعوت دی اور ضمنی طور پر فر ما یا: (فَاَرْسِلْ مَعِی بَنِیْ اِسْرَا ئِیْل)یہ آپ کے اغراض و مقا صد میں سے ایک امر تھا جس کی آپ نے فر عون سے پہلی ہی ملاقات میں وضاحت کرتے ہو ئے کہہ دیا :اے فر عون میں تیری طرف خدا کا رسول بن کر آ یا ہو ں۔( فاَرْسِلْ مَعِی بَنِیْ اِسْرَا ئِیْل )

''بنی اسرا ئیل کو میرے ہمراہ کر دے ''۔لو گو ں کو آ زادانہ زند گی بسر کر نے کے لئے ایک ظالم حکمراں کے تسلط سے نکا ل کر دوسری سر زمین پرلیجا نا ایک سیا سی اور اجتما عی کا م ہے اور یہ حضرت مو سیٰ علیہ السلا م کی رسالت کے مقا صد کا ایک حصہ تھا اور قر آن کریم کی آیات سے مکمل طو ر پر یہ بات واضح ہے:

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت ۲۴۶۔

۲۔سورئہ احزاب آیت ۶۔

۳۱

( وَقَالَ مُوْسَٰی یَافِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلمِّنْ رَّبِّ الْعَٰا لَمِیْنَحَقِیْقعَلَٰی اَنْ لَّآ اَقُوْ لَ عَلَی اللَّهِ اِلَّا الْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَةٍ مِّنْ رَبِّکُمْ فَاَ رْسِلْ مَعِیَ بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ ) ( ۱ )

''اور مو سیٰ نے (فر عون ) سے کہا اے فر عون میں یقیناًپر ور دگا ر عا لم کی جا نب سے رسو ل ہو ں مجھ پر واجب ہے کہ خدا کے با رے میں سچ کے سوا (کو ئی با ت )نہ کہو ں میں تمہا رے پر ور دگا ر کی طرف سے وا ضح و رو شن معجزہ لیکر آ یا ہو ں پس بنی اسرا ئیل کو میرے ہمراہ کر دے ''۔

یاد دہا نی

قرآن کریم سے نبو ت کے جن فو ائد بلکہ اغراض و مقاصد کاپتہ چلتا ہے ان میں سے ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ لوگ جن چیز و ں کوسمجھ سکتے ہیں یا وہ جن با توں کو مبہم انداز میں سہی تھو ڑا بہت سمجھتے ہیں ان کو یا د دہانی کے لئے ایک توجہ دلا نے یا سمجھا نے وا لے کی ضرورت ہے جو ان کو ادھوری یا نامفہو م بات پوری طرح سمجھا سکے اور قر آن کریم کے الفاظ میں لوگ غفلت سے نکل کر با خبر وآگاہ ہو جا ئیں ۔

قر آن کریم میں خود قرآن کریم کے لئے اور بہت سی دو سری آ سمانی کتا بو ں کے لئے جو ذکر ،ذکریٰ، تذکرہ، اور مذکر کی ما نند الفا ظ استعمال ہو ئے ہیں ،اسی مو ضو ع کی طرف اشارہ کر تے ہیں ۔

ذکر، یا د دہانی کو کہتے ہیں یعنی وہ بات جس کو انسان جانتا ہے لیکن مکمل طور پر یا اس کا ایک حصہ بھول گیا ہے یا بے تو جہ ہو گیا ہے اس کو یا د دلا نا اورظا ہر ہے انتخاب میں علم اسی وقت مؤثر یا مفید ہو تا ہے جب اس کی طرف انسان متو جہ ہو ممکن ہے معا شرہ کچھ ایسے حا لات کا شکا ر ہو جا ئے کہ جس کے سبب یہ غفلت عام ہو جا ئے اور معا شرہ کی فضا ایسی شکل اختیار کر لے کہ انسان کے ذہن سے یہ مسا ئل با لکل نکل گئے ہو ں اور لو گو ں کا اپنے آپ ان کی طرف متوجہ ہو نا بھی میسر نہ ہو ۔ ایسے مقام پر انبیائعلیہم السلام کا کام لو گو ں کو اس غفلت سے نکا لنا ہے ۔ اسی با رے میں نہج البلاغہ کے اس مشہو ر و معروف جملہ میں اشا رہ ہے:

( لِیَسْتَادُوْهُمْ میِْثَاقَ فِطْرَتِهِ وَ یُذَ کِّرُوْهُمْ مَنْسِیَّ نِعْمَتِهِ ) ( ۲ )

''ان سے فطرت کے عہد و پیمان پو رے کرا ئیں اور انھیں بھو لی ہو ئی ﷲکی نعمتیں یا ددلا ئیں''۔

____________________

۱۔سو رئہ اعراف آیت ۱۰۴۔۱۰۵۔

۲۔نہج البلاغہ خطبہ اول در ذکر اختیا ر الانبیاء علیہم السلام۔

۳۲

خدا کی معرفت اور خدا کی بندگی ایک فطری امر ہے لیکن لو گ اس سے غا فل ہو جا تے ہیں بہت سی چیزو ں کو لو گو ں کی عقل درک کر تی ہے لیکن یہ عقل ڈھیروں خو ا ہشات نفسا نی کے اندر دفن ہو کر رہ جا تی ہے۔ انبیاء کا کام یہ ہے کہ ان مد فون عقلو ں کو ابھا ر کر سا منے لا ئیں :

( وَ یَحْتَجُّوْا عَلَیْهِمْ بِالتَّبْلِیغ ِوَ یُثِیْرُوْا لَهُمْ دَفَا ئِنَ الْعَقُوْلَ ) ( ۱ )

''اور تبلیغ یعنی رسا لت الٰہی کے ذریعہ لو گو ںپر حجت تمام کریں اور ان کی مد فون عقلو ں کو با ہر نکا لیں ''۔

اور یہ وہ مسئلہ ہے جس کی طرف ہم متو جہ کر نا چا ہتے ہیں یعنی الٰہی رسالت اور تبلیغ کے ذریعہ لو گو ں پر حجت تمام کیا جانا نبوت کے اہداف میں شا مل ہے معلو م ہو ا یا د دہا نی یعنی لو گو ں کو غفلت سے نکا لنا ،اور فطری طور پر لوگ جن چیز و ں کو درک کر تے ہیں یا جن چیز و ں کی وہ اپنی عقل کے ذریعہ شنا خت پیدا کر تے ہیں اُن کی طرف تو جہ دلانا انبیا ء علیہم السلام کے فر ائض میں ہے اور انبیا ء کے وجود سے ہی یہ تمام فو ائد وا بستہ ہیں ۔

ڈرانا اور خو شخبری دینا

قرآنی آیات سے ایک اور یہ نکتہ سمجھ میں آتاہے کہ کبھی کبھی انسان کسی چیز کو جا نتا ہے یہا نتک کہ اس کی طرف تو جہ بھی ہو تی ہے لیکن عمل کا جذ بہ نہیں ہو تا ۔اس صو رت میں انسان کو کسی محرک کی ضرورت ہو تی ہے اور انبیاء علیہم السلام ''منذر ''(ڈرا نے وا لے )اور مبشِّر (بشا رت دینے وا لے ) کے عنوان سے یہ کام انجام دیتے ہیں اور لوگوں کو ا بھا ر تے اور جذ بہ پیدا کر تے ہیں اور ان کی سو ئی ہو ئی خو ا ہشو ں کو بیدار کر تے ہیں ۔ ہر انسان عذا ب سے ڈرتا ہے یہا ں تک کہ اس کا معمو لی ترین احتما ل بھی مؤ ثر ہے اگر چہ عملی طور پر لو گو ں میں اس کا اثر دکھا ئی نہیں دیتا لیکن جب پیغمبر آ کر آخرت کے عذا بو ں کی تفصیل بیا ن کر تا ، اور بہشت کی نعمتو ں کا شما ر کرا تا ہے یہ ڈرانا اور بشارت دینا لو گو ں کے ،خو ا ہشات کو عملی اور علم کو آگا ہی میں بدل دیتا ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیا ن کیا تھا انسان کی روح میں دو کا ر خا نے کام کر تے ہیں : ایک عقل و بصیرت او ر دو سرے خو ا ہش و رغبت ۔ انبیا ء علیہم السلام خو ف اور بشا رت یعنی خدا وند عالم کی نعمتو ں کی خو شخبری اور اس کے عذاب کی طرف سے خبر دار کر کے انسا ن کی خو اہشات و رجحانا ت کو مہمیز کر تے ہیں ۔

اگر آ پ قر آ ن کریم کی تحقیق و مطالعہ کریں تو آ پ کو معلو م ہو گا کہ آ یات کا ایک بڑا حصہ چا ہے وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

۱۔نہج البلاغہ خطبہ اول در ذکر اختیار الانبیاء علیہم السلام ۔

۳۳

کی زبا نی ہو یا پچھلے انبیاء علیہم السلام کی زبا ن سے نقل کئے ہو ئے ہو ں سب انذار و بشارت سے متعلق ہیں یعنی ان میں آخرت کے عذاب اور آخرت کی نعمتو ں کا ذکر ہے قرآن کریم میں یہ مسائل اتنی اہمیت کے حا مل ہیں کہ پیغمبر کو (نذیر )کہا گیا ہے سورئہ فاطر میں ارشا د ہو تا ہے :

( وَ اِ نْ مِنْ اُ مَّةٍ اِ لَّا خَلَا فِیْهَا نَذِ یْر ) ( ۱ )

''کو ئی امت نہیں ہے مگر یہ کہ ان کے درمیان ڈرا نے والا ''نذیر''ضرور آ یا ہے ''۔

یہ نبی کی سب سے نما یاں صفت ہے اور مکمل طور پر اس کی ضرورت کا احساس کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ معاشرہ میں کو ئی ایسا ہو نا چا ہئے جو لو گو ں کو مستقبل کے خطر وں سے آ گا ہ کر تا رہے ۔ مختصر یہ کہ آ پ نے مذ کو رہ آیات میں مشا ہدہ کیا کہ ان میں مبشّر اور منذر کی صفت بار بار دہرا ئی گئی ہے :

( رُسُلاً مَُُبشِّرِیْْنَ وَ مُنْذِ رِیْنَ ) اور( فَبَعْثَ ﷲ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ) ۔

قر آ ن کریم میں خود چند مقا مات پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے او صاف میں بھی ''بشیر ''اور ''نذیر '' آ یا ہے پس معلو م ہو ا کہ یہ بھی نبو ت کا ایک ہدف ہے ۔

ظلم اور برائی سے مقا بلہ

انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کے سلسلہ میں جن اغراض و مقاصد کا پتہ چلتا ہے ، علمی طو ر پر اس ظلم اور برائی سے مقابلہ بھی ہے جو ان کے زما نہ میں رائج رہے ہیں ۔ قر آ ن کریم سے جیسا کہ پتہ چلتا ہے کہ جس قو م کے در میا ن بھی کو ئی پیغمبر مبعو ث ہو ا ہے ان کے درمیان ضرور کو ئی بد عنوا نی یا مخصوص برائیا ں را ئج رہی ہیں اگر چہ کسی استثناء کے بغیر تمام انبیا ء کا ایک بنیا دی ہدف لو گو ں کو خدا ئے وا حد کی بند گی کی طرف دعوت دینا رہا ہے ۔ خدا وند عالم ارشا د فرماتا ہے :

( وَلَقَدْ بَعَثْنَافِیْ کُلِّ اُمَّةٍرَسُوْلاً اَنِ اعْبُدُ وْااللَّهَ وَاْجْتَنِبُوْاالطَّاغُوْت ) ( ۲ )

یعنی''اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول ضرور بھیجا کہ خدا کی عبا دت کرو اور طا غوت سے بچے رہو ''۔

لیکن اس معمو لی ہد ف کے ساتھ کہ جس کا ایک کلی عنوان خدا کی عبا دت اور اس کے تمام احکام ''کرو اور نہ کرو '' کے سا منے سر تسلیم خم کر نا ہے ہر پیغمبر نے اپنے زمانہ میں رائج برائیوں کی اصلاح کوبنیاد قراردیاہے مثال کے طورپرجہاں حضرت شعیب علیہ السلام کے واقعہ کاذکرہے وہیں:

____________________

۱۔سو رئہ فا طر آیت۲۴۔

۲۔سورئہ نحل آیت ۳۶۔

۳۴

( وَزِنُوْابِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ) ( ۱ )

''اورجب کچھ( تولنا ہوتو) بالکل صحیح ترازوسے تولاکر و''۔

اور( وَلَاتَبْخَسُوْاالنَّاسَ اَشْیَائَ هُمْ ) ( ۲ )

''اور لوگوں کوان کی(خریدی ہوئی )چیزیں کم نہ دیا کرو ''کابھی ذکر اس کے ساتھ موجود ہے یاجب حضرت لوط علیہ السلام مبعوث ہوئے تو ان کے زمانہ میں ایک خاص برائی رائج تھی جس کا انھوں نے مقابلہ کیا،قرآن کریم میں اس طرح کے نمونہ بہت ہیں یہ اس چیز کی علامت ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے اہداف میں سے ایک ہدف اپنے زمانہ کی برائیوں سے مقابلہ کرنا بھی رہاہے۔

لوگوں کو توحید اور معاد کی طرف متوجہّ کرنا

ہم نے اس بحث کے آغاز میں اس بنیاد پر ضرورت نبوت کی دلیل قائم کی تھی کہ انسان اپنے اختیار کے ساتھ کمال وارتقاء کے لئے پیدا کیاگیا ہے اور وہ اس دنیا میں اپنے اچھے اور برے اعمال کے ذریعہ آخرت میں اپنے لئے سعادت یاشقاوت فراہم کرتا ہے پس اس کو اس دنیا میں انجام دئے جانے والے اپنے افعال کے اخروی نتائج کے ساتھ رابطے سے آگاہ ہوناچاہئے تاکہ وہ اچھے یا برے اعمال آزادانہ طورپر اختیار کرسکے دوسرے لفظوںمیں اس کیلئے اس چیزکا جاننا ضروری ہے کہ کون سے کام اچھے ہیں کہ ان کوانجام دے سکے اور کونسے کام برے ہیں کہ ان کو انجام نہ دے اور چونکہ انسان کی عقل دقیق طورپر ان رابطوں کو معلوم نہیں کرسکتی لہٰذا حکمت الٰہی کا تقاضا ہے کہ وہ بشرکیلئے اس علم تک پہنچنے کے لئے کوئی راہ مقررفرمائے اور وہ راہ وہی وحی اور نبوت کی راہ ہے ۔

اس کے بعد کی بحث میں ہم نے عرض کیا تھاکہ قرآن کی آیات کریمہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر خدا انبیاء علیہم السلام کو نہ بھیجتا تو لوگوں پر حجت تمام نہ ہوتی اور ہم نے اس ذیل میں کہا تھا چونکہ انسان کی عقل ،خیروشرکی شناخت کیلئے کافی نہیں ہے اور وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ ہمیں کون سے کام نہیںانجام دینا چاہئیں اور کون سے کام انجام نہیں دینا چاہئیں ۔

بحث کے ضمن میں ہی ایک اور نکتہ بھی واضح ہوگیا جس کی بنیادپر ہم''نبوت کی ضرورت''پر دوسری دلیل قائم کرسکتے ہیں اور وہ نکتہ یہ ہے کہ :کبھی کبھی انسان حتّیٰ ان مسائل میں کہ جہاں انسان کی عقل اس کودرک کرنے کے لئے

____________________

۱۔سورئہ اسراء آیت ۳۵۔

۲۔سورئہ اعراف آیت۸۵۔

۳۵

کافی ہے۔بعض عوامل کی وجہ سے غفلت کاشکار ہوجاتاہے مثال کے طورپر وجود خدااورتوحید کے اثبات کے لئے انسان کی عقل کافی ہے لیکن کبھی کبھی سماجی حالات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان اپنی عقل کے استعمال سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے یعنی معا شرہ کی فضاء وہ شکل اختیا ر کر لیتی ہے کہ انسان اس حقیقت سے غا فل ہو جا تا ہے اور اپنی عقل اس با رے میں کہ تو حید حق ہے یا نہیں، استعمال نہیں کر تا ۔یہ وہ حقیقت ہے جس کو کم و بیش سبھی افراد ما نتے ہیں ۔ فرض کر لیجئے کہ کسی گھرا نے میں ایک ایسا بچہ پیدا ہو کہ جس نے جب سے اپنی آ نکھیں کھو لیں اپنے ماں باپ کو بتو ں کی پر ستش کرتے دیکھا اور جب مدر سہ میں دا خل ہوا تو وہاں بھی اس کو شر ک آ میز تعلیم دی گئی ۔ ظا ہر سی با ت ہے کہ کوئی مذہب اپنے مذ ہب کی حقا نیت کی دلیل کے لئے بہت سی غلط با تیں بیا ن کر سکتا ہے اور ان غلط با تو ں سے بچہ کا ذہن جب ما نوس ہو گیا ہو اور معا شرہ کی فضا نے بھی اس کی مدد کی ہو او ر تو حید و خدا پرستی کی بحث بھی با لکل اس کے کان سے نہ ٹکرائی ہو ، تو ان تمام حا لات میں ایک انسان کا مشرک ہو جانا انہو نی بات نہیں ہے اس کے ذہن میں ممکن ہے یہ سوال ہی پیدا نہ ہو کہ کیا یہ راستہ حق کا ہے یا باطل ؟

اسی طرح ہم نے معاد کے با رے میں بھی عرض کیا تھا کہ عام طور سے معاد یا قیا مت کے اثبات کیلئے انسان کی عقل کا فی ہے لیکن اگر کو ئی شخص ایسے ما حو ل میں زند گی بسر کر رہا ہو کہ آ خرت کی زند گی کے نا م سے با لکل اس کے کان آ شنا نہ ہو ں اور وہ اس مسئلہ کی طرف متو جہ ہی نہ ہو ا ہو ، جو کچھ بھی اس نے دیکھا ، سُنا ،اور پڑھا ہو وہ سب محض دنیا ی زند گی اور اس کی لذ تو ں سے مر بو ط ہو ، یا وہ عقل کو عام طور پر اپنی معا شی حا لت سد ھا ر نے اور اجتماعی امو ر کو انجا م دینے میں لگا ئے رہا ہو تو ظا ہر ہے ایسے شخص کو خود بخود عالم آخرت کی فکر نہیں ہو گی اور اگر کبھی خیال آ یا بھی تو ممکن ہے اس کے ذہن میں اس قدر شکو ک پیدا کر دیئے جا ئیں کہ وہ اس پر یقین ہی نہ کر سکے پس یہاں تک کہ ان امو ر میں بھی کہ جہاں انسان اپنی عقل سے بذات خود دلیل قا ئم کر کے حقیقت کو سمجھ سکتا ہے ۔ کبھی کبھی حالات اس طرح کے ہو جا تے ہیں کہ انسان کی عقل کا فا ئدہ با قی نہیں رہتا اور ہم یہ جا نتے ہیں کہ یہ دو مسئلے یعنی تو حید اور معاد (ﷲاور قیا مت پر ایمان) اد یان کے سب سے اہم مسا ئل ہیں ۔اگر کسی کے لئے حل نہ ہو پا ئیں تو وہ مجمو عی طو ر پر آخرت کی کا میابی کے لئے کو ئی راستہ نہیں نکال سکے گا اور اس طرح کے مسا ئل میں ہمارا مشا ہدہ یہی ہے کہ کبھی کبھی معا شرہ کے حا لات کی وجہ سے انسا ن ان سے غا فل ہو جا تا ہے ۔

۳۶

اس بناء پر جس ﷲنے انسان کو آخرت کی کا میابی کے لئے پیدا کیا ہے ،(وہ کا میابی جو ﷲ اور آخرت پر ایمان کے ذریعے ملتی ہے )اس کو یہ بھی علم ہے کہ انسا نو ں کے سا منے کچھ ایسے حا لات پیش آ جا تے ہیں کہ وہ اُن مسائل کو کلی طور پر بُھلا دیتا ہے لہٰذا اس طرح کے حا لات میں حکمت الٰہی کا یہ تقا ضا ہے کہ کچھ ایسے مصلحین اور تعلیم دینے وا لے اور یاد دہا نی کرا نے وا لے افراد بھیجے جولو گو ں کو اُن با تو ں کی طرف متوجہ کریں جن کی فطرت گو اہی دیتی ہے اور عقل جن با توں پر دلا لت کر تی ہے اگر چہ وہ ان با تو ں سے غا فل ہی کیو ں نہ ہو گئے ہو ں ۔

مو لا ئے کا ئنا ت کے کلام میں یہ جملے ''یُذَکِّرُوْھُمْ مَنْسِیَّ نِعْمَتِہِ''''انھیں ﷲکی بھو لی ہو ئی نعمتیں یا د دلائیں ''، وَ یُثِیْرُوْا لَھُمْ دَ فَا ئِنَ الْعُقُوْل''''اور ان کی مد فو ن عقلو ں کو با ہر نکا لیں''ممکن ہے اسی با ت کی نشاندہی کر رہے ہوں یعنی کبھی کبھی انسا نو ں کی عقلیں خو ا ہشات ، شکوک و شبہات اور معا شرتی ما حول کے پر دوں میں دفن ہوجا تی ہیں اور کسی کا م کی نہیں رہ جا تیں ۔ اس طرح کی عقل کا وجود یا عدم کو ئی فرق نہیں کر تا وہ عقل رکھتے ہیں لیکن اُن کی عقل ان کو نور نہیں بخشتی ایسے حا لات میں بھی لا زم ہے کہ خدا اپنی حکمت متعا لیہ کی بنیا د پر پیغمبروں کو مبعوث فرمائے تا کہ وہ لو گو ں کو اس غفلت سے نجا ت دلا ئیں اور ان پر یہ مسئلہ وا ضح کر دیں کہ خدا ایک اور اکیلا ہے تم اپنی عقلوں کی طرف رجو ع کرو اور اس با رے میں غور و فکر سے کام لو یا اگر لوگ شکوک و شبہا ت میں مبتلا ہو ں تو اُن کے شبہا ت دور کر دیں ہم اس طریقہ سے بھی نبوت کی ضرورت پر دلیل قا ئم کر سکتے ہیں اس دلیل کا پہلی دلیل سے فرق یہ ہے کہ پہلی دلیل میں اس با ت پر زور دیا گیا تھا کہ کچھ با تیں انسان کو جا ننا چا ہئے تھا لیکن جا ن نہیں سکتا تھا لیکن یہاں اس چیز پر زور دیا گیا ہے کہ لو گو ں کو ان با تو ں کی طرف متو جہ ہو نا چا ہئے کہ جن سے وہ غا فل ہیں۔

جب ہم قر آ ن کریم کی آیات کا مطا لعہ کر تے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کے اہد اف و مقا صد میں ان دو چیزو ں پر زور دیا گیا ہے ہم نے انبیاء علیہم السلام کو اس لئے مبعوث کیا کہ وہ لو گو ں کو توحید کی دعوت دیں حا لانکہ تو حید خود عقل کے ذریعہ ثا بت ہو تی ہے اور قرآن نے بھی تو حید پر عقلی دلیلیں دی ہیں ۔ پھر بھی خدا وند عالم فر ما تا ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد لو گو ں کو تو حید کی دعوت دینا ہے اور اسی طرح دو سرے مقام پر فر ما تا ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کا ہدف و مقصد لو گو ں کو معا د کی طرف توجہ دلا نا تھا ۔ ہم اس سلسلہ میں بھی قر آن کریم کی بعض آ یتو ں کی طرف اشا رہ کر تے ہیں ۔

( وَلَقَدْ بَعَثْناَفِیْ کُلِّ اُ مَّةٍ رَسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوْاﷲ وَاجْتَنِبُوْاالطَّا غُوْ ت ) ( ۱ )

''اور ہم نے ہر امت میں ایک (نہ ایک )رسو ل اس با ت کے لئے ضرور بھیجا کہ خدا کی عبا دت کرو اور طاغوت سے دور رہو ''۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرما تا ہے :

____________________

۱۔سورئہ نحل آیت ۳۶۔

۳۷

( وَمَااَرْسَلْناَ مِنْ قبْلِکَ مِنْ رَسُوْلٍ اِ لَّا نُُوْحِیْ اِلَیْهِ اَنَّهُ لَااِلَٰهَ اِ لَّا اَنَافَاعْبُدُوْنِ ) ( ۱ )

''اور (اے رسول ) ہم نے تم سے پہلے کو ئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس پر وحی کر دی کہ بس میں ہی ﷲ ہوں پس تم میری ہی عبا دت کرو ''۔

ان آیا ت سے بخو بی یہ بات روشن ہو جا تی ہے کہ لو گو ں کو ﷲ کی عبا دت کی دعوت دینا انبیاء علیہم السلام کے اہم فر ائض میں سے تھا قر آن کریم نے بہت سے مسا ئل میں انبیا ء علیہم السلام کے وا قعات ذکر کئے ہیں اور تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں سر فہرست اسی مسئلۂ تو حید کو قرار دیا گیا ہے کہ صرف اور صرف خدا ئے وحدہ لا شریک کی عبادت کیا کرو : مَا لَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہُ''۔

اسی بات کو بیان کر نامقصود ہے کہ عقیدئہ توحید اگر چہ فطری ہے اور اس پر عقل بھی دلالت کر تی ہے پھر بھی انسان اپنے مخصو ص (معا شرتی ) حا لات میں گھر جا نے کے بعد اس سے غافل ہو جا تے ہیں اسی لئے ضروری ہے کہ انبیا ء علیہم السلام بھیجے جا ئیں تا کہ وہ لو گو ں کو ان کا یہ بھو لا ہو ا سبق یاد دلا ئیں معا د یا قیامت سے متعلق بھی بہت سی آ یا ت ہیں منجملہ یہ آیت:

( یُلْقِیْ الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهِ عَلَیٰ مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِهِ لِیُنْذِرَیَوْمَ التَّلاَ قِ ) ( ۲ )

''خدا اپنے نبیو ں میں سے جس پر چا ہتا ہے روح کو نا زل کر تا ہے تا کہ وہ پیغمبر (لو گوں کو)قیامت کے دن سے ڈ را ئے ''۔

بہر حال قیامت اور عا لم آخرت کے متو قع خطروں کی طرف لو گو ں کو متو جہ کر نا بھی پیغمبروںکے اہداف میں شا مل رہا ہے۔

____________________

۱۔سورئہ انبیاء آیت ۲۵۔

۲۔سورئہ مو من(غافر) آیت ۱۵۔

۳۸

پیغمبروں کا بشر ہو نا

نبوت کی ضرورت کی دلیل اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ ( عقلی راستہ کے علاوہ جو سب کی دسترس میں ہے ) کوئی ایسی راہ ہو جو ابدی سعادت اور شقاوت تک پہنچنے کا راستہ بتائے لیکن یہ راہ دوسری تمام خصوصیات کو بیان نہیں کرتی یعنی یہ دلیل نبوت اور وحی کی کیفیت بیان نہیں کرتی کہ کیا ہر فرد پر وحی ہوسکتی ہے ؟ کیا نبی کو بھی ہر حال میں انسانوں کی ایک فرد ہونا چاہئے ؟ کیا ہر معاشرے یا ہر شہر میں ایک پیغمبر ہونا ضروری ہے ؟ یہ دلیل ان جزئیا ت کی وضاحت نہیں کرتی البتہ خارجی قرائن کے ذریعہ یہ چیز یں سمجھی جاسکتی ہیں لیکن دقیق طور پر یہ جزئیات خود اس دلیل سے حاصل نہیں ہوسکتے تھے ۔

قرآن کریم نے ان مسائل کے بارے میں بحث کی ہے منجملہ قرآ ن کریم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نبی کو ہر حال میں بشر ہونا چاہئے اور ضمنی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان براہ راست خداوندعالم سے رابطہ بر قرار کرکے خیر و شر کا علم اس سے حاصل نہیںکر سکتاایک طرف تو یہ کہ تمام انسان نبی نہیں ہوسکتے اور دوسری طرف نبی کو انسانوں کے درمیان سے ہی مبعوث ہونا چاہئے ۔یہ بات عام طور پر لوگوں کی بہانہ باز یوں کے جواب میں بیان کی گئی ہے یعنی قرآن کریم فرماتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام مبعوث کئے جاتے تھے تو لوگ ان کی دعوت قبول نہ کرنے کیلئے بہانے کیا کرتے تھے منجملہ کہا کرتے تھے کہ ''اگر خدا ہماری راہنمائی ہی کرنا چاہتا ہے تو اچھا ہوتا کہ وہ ہماری راہنمائی کے لئے کسی فرشتہ کو بھیج دیتا'' یاوہ کہا کرتے تھے :جب تک ہم خدا کو نہ دیکھ لیں گے ایمان نہیں لائینگے۔یا یہ کہا کرتے تھے : اگر خدا ہماری ہدایت کرنا چاہتا ہے تووہ نبی کے ہمراہ کسی فرشتہ کو بھی بھیجتا کہ ہم بھی اس فرشتہ کا دیدار کرتے اور اسی طرح کی باتیں، اسی طرح قرآن کلی طور پر فرماتا ہے : تمام قومیں انبیاء علیہم السلام سے کہا کرتی تھیں : آپ بھی ہمارے ہی جیسے بشر ہیں اور ہم اپنے ہی جیسے بشر کی پیروی نہیں کرسکتے اور یہی وہ مقام ہے جہاں قرآ ن کریم فرماتا ہے : (پیغمبر کو ہر حال میں انسان ہی ہونا چاہئے ) اور یہ خداوند عالم کی سنت ہے کہ وہ ہمیشہ انسانوں کے درمیان سے کسی کو رسالت کیلئے منتخب کرتاہے۔فرشتہ عام انسانوں کے سامنے ظاہر نہیں ہوسکتا ہاں ایک وقت ہے جب تمام انسان ملک کادیدار کرسکتے ہیں لیکن یہ و ہ وقت ہے کہ جب انسان کا آخری وقت آجاتا ہے یعنی اس پر موت کی نشانیاں ظاہر ہوجاتی ہیں اور وہ عالم ملکوت کی طرف کوچ کرنے لگتا ہے ۔

۳۹

ان آیات سے ہم یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ نبوت منتخب انسانوں کو ہی ملنا چاہئے ورنہ تمام انسانوں پروحی نازل نہیں ہو سکتی ۔اس لئے کہ ان کی روح اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ رابطہ قائم کرسکیں لیکن اگر خدا کی طرف سے انسانو ں کے درمیان کوئی ایسی شخصیت نہ ہوتو حکمت خدا باطل ہو جائیگی اور انسان کی خلقت کا ہدف پورا نہیں ہو سکے گا ۔معلوم ہوا خداوند عالم کو خلقت کی شرطوں کو اس طرح فراہم کرنا چاہئے کہ ا نسانو ںکے درمیان کوئی اس قابل ہوکہ جس پر اپنی و حی نازل کرکے دوسروں تک پہنچا سکے ۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَقَاْلُوْالَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَک ) ( ۱ )

'' لوگ کہتے کہ اس (نبی ) پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا ''۔

یقیناپیغمبر پر فرشتہ اور ملک نازل ہوتے تھے لیکن ان قومو ںکا مقصد یہ تھا کہ فرشتے اس طرح کیو ں نہیں نازل ہوتے کہ ہم بھی ان کو دیکھ سکیں ۔

قرآن کریم ان کے جواب میں فرماتا ہے :

( وَ لَوْاَ نْزَلْنَا مَلَکاً لَقُضِیَ الْاَمْرُثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ ) ( ۲ )

''حالا نکہ اگر ہم فرشتہ بھیج د یتے تو (انکا )کام ہی تمام ہوجاتا (اور )پھر انھیں (اس طرح کے سوال کرنے کی ) مہلت ہی نہ ملتی ''۔

یعنی لوگوں کی زندگی اور فرشتوں کے دیدار کے درمیان ایک تکونیی رابطہ موجود تھا عام لوگ زندگی کے عام حالات میں فرشتہ کا دیدار نہیں کرسکتے فقط موت کی صورت میں ہی انکا دیدار ممکن ہے اگر ہم فرشتہ کو اس طرح نازل کرتے کہ یہ لوگ بھی اس کو دیکھیں توان کو موت آجا تی اور انکا قصہ ہی تمام ہوجاتااور پھر بعثت اور ہدایت کا ہدف باطل ہوجاتا چونکہ ہمارا مقصد ان کو راہ و راستہ سے آشنا کرانا تھا کہ وہ راستہ پہچان لیں اور اسکے بعد اپنے انتخاب کے مطابق عمل کریں ۔اگر یہ قرار ہوتا کہ فرشتہ نازل ہو اور یہ لوگ اس کو دیکھ کر مرجائیں تو اس صورت میں بعثت کا ہدف

____________________

۱۔سورئہ انعام آیت ۸۔

۲۔سورئہ اانعام آیت۸۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415