راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 119982
ڈاؤنلوڈ: 2222

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119982 / ڈاؤنلوڈ: 2222
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

راہ اور رہنما کی پہچان

مولف: آیة اللہ مصباح یزدی

مترجم : سید ضرغام حیدر نقوی

مجمع جہانی اہل بیت علیھم السلام

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

۴

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن وعترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوت و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خون خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، آیة اللہ مصباح یزدی کی گرانقدر کتاب راہ اور رہنما کی پہچان کو فاضل جلیل مولاناسیدضرغام حیدر نقوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۵

مقد مہ

قرآنی تعلیما ت کے ذیل میں کی گئی گذشتہ بحثو ں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ خد ا و ند عا لم نے ا پنے ذاتی صفا ت کے تقا ضو ں اور اپنی فیا ضیت اور ر حما نیت کی بنیاد پر ا س دنیا کو پیدا کیا ہے اور جیسا کہ بعض آ یا ت شریفہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس ماد ی د نیا کی تخلیق انسا ن کی خلقت کا مقد مہ ہے اسی وجہ سے انسا ن اشرف مخلو قات اور خداوند عا لم کی بارگا ہ میں مکر م ہے او ر و ہ خصوصیت جس کی بنا پر انسا ن، مخلو قا ت کے سب سے بلند در جہ پر فا ئز ہوسکتا ہے وہ انسا ن کا ''مختا ر ''ہو نا ا ور اس کے مقد مات فر ا ہم کر نا ہیں۔

یعنی چو نکہ انسا ن ''خدا وند عا لم کی عطا کر دہ قو ت و تو ا نائی کی بنیا د پر ''ایک ایسی مخلو ق ہے جو مختلف راستوں میں سے اپنی پسند کے کسی بھی راستے کا انتخا ب کر سکتا ہے اور اس پر خدا کی طر ف سے فر ائض عائد کئے جاسکتے ہیں ا ور اگر خدا و ند عا لم کے معین کر دہ فرائض پر گا مز ن ہو تو کما ل کے سب سے ا و نچے در جہ پر فا ئز ہو کر د ائمی سعا د تو ں اور لذتوں کو حا صل کر سکتا ہے ۔

پس انسان کی سب سے اہم خصو صیت اسکا اختیا ر و انتخا ب کا حا صل ہو نا ہے اور جس ر اہ پر وہ چل رہا ہے انسان نے آ زا دا نہ طو ر پر خود منتخب کی ہے ۔

اسی طر ح ہم اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ د نیا وی ز ند گی آ خر ت کی ز ند گی کا مقد مہ ہے۔یعنی ز ند گی کے اس مر حلہ میں انسان ا پنے اختیا ر ا و ر انتخا ب کے ذ ر یعہ ا پنی ر اہ منتخب کر تا او ر ا پنی سر نو شت تحر یر کر تا ہے ا و ر زند گی کے اس مر حلہ کے بعد ا بد ی زند گی کا مر حلہ آ نا ہے جس میں وہ ا س د نیا میں انجا م دیئے گئے اعما ل کے نتیجو ںسے بہر ہ مند ہو تا ہے ۔

ا نسا ن ا پنی ز ند گی کے لئے صحیح ر ا ستہ منتخب کرسکے اس کے لئے تو ا ر اد ہ ،فیصلے کی قو ت اور ا س ر جحا ن کے علا وہ ہو جو خد ا و ند عا لم نے ا س کی فطرت میں قر ا ر دئے ا و ر ا فعال کو پایۂ تکمیل تک پہنچا نے کے وسا ئل مہیا کئے ہیں ایک ا و ر اہم شر ط بھی ضرو ر ی ہے ا و رو ہ صحیح را ستہ کی پہچا ن ہے ۔ در حقیقت آزاد انہ انتخاب اس وقت ممکن ہے کہ جب ا نسا ن مختلف را ستو ں کی پہچا ن رکھتا ہو ا و ر ان کے نتا ئج سے بھی آ گا ہ ہو ۔

۶

ہم ا نسا ن شنا سی کی بحث میں اس بات کی طر ف اشا رہ کر چکے ہیں کہ ا نسا ن کے لئے مختلف قسم کی پہچانیں ممکن ہیں جو چیز تما م انسا نو ں میں عا م ہیں حو اس خمسہ ا و ر عقل کی راہنمائی میں حا صل شدہ پہچان ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا خد ا و ند عا لم نے یہ دو وسیلے جو تما م انسا نو ں کے اختیا ر میں دئیے ہیں صحیح ر استہ کے انتخا ب کے لئے ضرور ی ِمعلوما ت اور پہچا ن حا صل کر نے کے لئے کا فی بھی ہیں یا نہیں ؟ دو سر ے الفا ظ میں جو ا نسان اپنا ہر قد م یہ سوچ کر اٹھا تا ہو کہ اسے ا بد ی سعا دت کی ر اہ ہمو ا ر کر نا او رآ خری منزل کما ل تک پہنچنا ہے تو اس کو اپنا ہر قدم اٹھا نے کے لئے کچھ چیز وں سے آگا ہ ہونا پڑے گا ۔ توکیا جن معلومات کی انسان کو اپنی زند گی کے ہر مر حلہ اور ہر قد م پر ضرورت پڑ تی ہے وہ حو ا س و عقل کے راستہ سے حا صل ہو تی ہیں یا نہیں ؟

دو طر یقو ں سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ز ند گی کا راستہ منتخب کر نے کے لئے حس و عقل کافی نہیںہیں ان دو نو ں طر یقو ںکو بیان کرنے سے پہلے ہم حو اس اور عقل کے ادراک او ر ان کے دائرہ کار کی وضا حت کر د ینا ضروری سمجھتے ہیں :

حسی او ر عقلی اد را ک

احسا سا ت کا دا ئرہ

یہ ادرا ک ظا ہری حوا س یعنی آنکھ ناک کان وغیر ہ کے ساتھ ما د ی د نیا کے ار تبا ط تعلق سے حا صل ہو تا ہے ۔ اس اد ر ا ک کا دائرہ بہت ز یا دہ محد و د ہے صر ف وہ چیز یں ہم سے تعلق پید ا کر تی ہیں (وہ بھی اپنے را بطہ کی حد تک او ر جب تک یہ ر ابطہ بر قر ا ر ر ہتا ہے ) احسا س کے دائر ے میں آتی ہیں دکھا ئی دینے اور سنائی دینے و ا لی چیزیں مختصر یہ کہ جو معلو مات ہم محسو سات کے ذر یعہ حا صل کر تے ہیں وہ یقینا ہما ری ز ند گی کے لئے مفید اور ضر وری ہیں لیکن سوا ل یہ ہے کہ آ خر ی ہد ف تک پہنچنے کے لئے یہ کس حد تک مؤثر ہو سکتی ہیں ؟ یہ تو صر ف کسی حد تک ہما ر ی ما د ی ز ند گی سے متعلق کچھ را بطو ں کی تو جیہ کر سکتی ہیں کہ ہم کیا کھا ئیں کیا پئیں کیا کیا پہنیں بو لیں اور کس سے کس طرح گفتگو کر یں ۔

محسو سات کا دائرئہ کا ر محدود ہو نے کی وجہ سے اس سے یہ تو قع نہیں رکھی جا سکتی کہ ہم اس کے ذریعہ ز ند گی کی صحیح ر اہ اس کے تما م پہلوئوں کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں ۔

۷

عقل کا د ائرہ

عقل ،خود اپنی جگہ (بیرو نی تجر بو ں سے قطع نظر) جو کچھ بھی سمجھتی ہے کچھ کلیا ت ہیں اور بس یعنی عقل صرف بنیا دی حقیقتوں یا بد یہیات ا و لیہ کو درک کر تی ہے اور اس پہچا ن کی کیفیت میں پا ئے جا نیوا لے ا ختلاف نظر کے با وجو د اس مسئلہ میں کو ئی اختلا ف نہبں ہے کہ عقل فقط کچھ اصو ل او ر کلیا ت مفا ہیم او ر ان کے ما بین ار تبا ط کو بیان کر سکتی ہے او ر یہ کلیات بذ ا ت خو د زند گی کی ر ا ہ معین و مشخص کر نے میں کوئی خا ص کر دا ر ا د ا نہیں کر تے ۔مثا ل کے طور پر آ پ( اجتما ع نقیضین محا ل ہے) یا( ہر معلول علت کا محتاج ہو تا ہے ) یا اسی طر ح مشہو ر و معرو ف مثال کہ کل جز ء سے بڑ ا ہو تا ہے کو مد نظر رکھئے تو اس طر ح کے تمام عقلی اصو ل اور کلیات بذ ا ت خو دزند گی کی ر اہ جا ننے پہچاننے یا معین کر نے میں کو ئی کر د ار ادا نہیں کر تے ۔ اس طر ح کی معلو ما ت کا ز یا دہ سے زیا دہ یہ فا ئدہ ہے کہ خالص فلسفی قسم کے مسا ئل ( جیسے خد اوند عا لم کے و جو د ) کو ثا بت کر سکتی ہیں۔

ا لبتہ ا در ا ک کی د و سری قسمیں بھی پائی جا تی ہیں جو حو اس و عقل کی با ہمی مد د سے حا صل ہو تی ہیں ۔جن کو ہم (تجر بات )کا نام دے سکتے ہیں یعنی ہما ر ے حو اس ا یک چیز کو محسوس کرتے ہیں ا ور ہما ر ی عقل ا ن پر کا م کر تی ہے ا یک چیز کو د وسرے سے الگ کر تی ،ہر ا یک کو شا مل کر تی ہے، تجز یہ و تحلیل کر تی ا ور ان سے نئے نتا ئج نکا لتی ہے۔ ہما ری دنیا وی ز ندگی کیلئے ان سب کا ہو نا ضر و ری ہے ہم ا ن سے فا ئدہ بھی اٹھا تے ہیں لیکن مو جو دات کی مخصوص علتیں حوا س ا و ر عقل کے ذ ریعہ پہچا نی جا تی ہیں ۔ہمیں حس سے کا م لینا چا ہیے عقل بھی محسو سا ت سے فا ئد ہ اٹھائے او ر ان کاتجزیہ کر ے تا کہ ان کی روشنی میں آ خر کا ر ہم کسی علمی نتیجے تک پہنچیں چنا نچہ مر و جہ اصطلا ح میں علمی قوانین و اصو ل یعنی علو م تجر بی اسی طر یقہ سے حا صل ہوتے ہیں ۔

یہ تھی حو ا س او ر عقل اور ان کی باہمی( مدد ) سے حا صل ہو نے والے نتیجہ کے با ر ے میں مختصر تو ضیح جو ہم نے قلمبند کر دی ۔

اب ہم یہ دیکھنا چا ہیں گے کہ کیا یہ معلو مات جو صر ف حوا س یا صر ف عقل یا ان دو نو ں کی با ہمی مدد سے حاصل ہو تی ہیں زند گی کی صحیح ر اہ تمام پہلوئوں اور شعبوں کے ساتھ تمام ز مان و مکان میں سمجھا نے کے لئے کا فی ہے یا نہیں؟

جیسا کہ ہم نے عر ض کیا دو طریقو ں سے اس چیز کا اثبا ت کر سکتے ہیں کہ یہ معلو ما ت صحیح راہ کی پہچا ن کے لئے کا فی نہیں ہیں ۔

۸

تجر بہ کی ر ا ہ

یعنی اس نا تو ا نی کو تجر بہ کے ذ ر یعہ اورحو ا س و عقل کی مد د سے ہم اس تفصیل کے ساتھ ثا بت کر سکتے ہیں کہ ہز ا ر وں سا ل ہو گئے کہ ا نسا ن روئے ز مین پر پیدا ہو ا اور زند گی بسر کر رہا ہے ۔ بہت زیا دہ قد یم ز ما نہ سے کو ئی دقیق ا طلا ع دستیا ب نہیں ہے لیکن تقریبا دو ہزا ر پا نچ سو سال پہلے تک انسا نی ہا تھو ں کی مر تب کر دہ تا ریخ اور افکا ر و نظر یات کتا بی شکلو ں میں مو جو د ہیں جو اس با ت کی نشا ند ہی کر تی ہیں کہ دا نش وروں نے بڑ ی زحمتو ں اور کو ششو ں سے کا م لیکر اپنے حوا س اور عقل سے استفا د ہ کر تے ہو ئے مختلف مسائل کو سمجھا ہے اور ان کو علمی مسا ئل ، حقوق و فرائض کے قو انین ،اخلا قی اصول اور اسی طرح کے دو سر ے مسائل کی صور ت میں بیا ن کیا ہے سا ئنسی علو م کے میدان میں روز بہ روز کا فی تر قی ہو ئی ہے اورآج ان ہی دانش وروں کی تحقیقا ت کے سایہ میں مادی دنیا کے بہت سے لا معلو م حقا ئق ہما رے لئے کشف ہو چکے ہیں اور ہم آسا نی سے ان کو پہچا ن سکتے ہیں اور ا ن میں اکثر مسا ئل اتنے واضح روشن اور قا بل فہم ہیں کہ ان مسا ئل میں بہت کم اختلا ف واقع ہو تا ہے لیکن عملی مسا ئل میں ''زند گی بسر کرنے کے طور طر یقہ'' معیا ر و اقدا ر اور ما دی دنیا سے ما فوق متا فیز یک یاالٰہیا ت کے مسا ئل میں مسئلہ اسکے برعکس ہے بہت سے انسا نی معا شروں میں بے پنا ہ مبہم مسا ئل مو جو د ہیں اور شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ آ ج کے اکثر علمی حلقے مادیت سے ما فوق ' الٰہیا ت کے مسائل کو کو ئی اہمیت نہیں دیتے کیو نکہ وہ ان کو حل کر نے سے عا جز ہیں ۔

لیکن ہما ری بحث کی ا ساس وبنیاد ان علوم پر قا ئم ہے جو رو ش و ر فتا ر اور اخلا قی اقدا ر و معیا را ت سے تعلق رکھتے ہیںکہ انسا ن کو اپنی زند گی میں کس طرح کام کر نا چا ہئے اور وہ د وسر ے انسا نوں کے سا تھ ا پنے روا بط کس طرح استو ار کرے ؟ و غیر ہ ۔۔۔

یہ مسا ئل انسانوں کے در میان ہمیشہ موضو ع بحث رہتے ہیں اور ان مسا ئل کو حل کر نے میں بہت زیا دہ فکری تو ا نا ئیا ں صر ف کی گئی ہیں لیکن جیسا کہ ہما ر ے علم میں ہے تا ر یخ کے کسی بھی مر حلہ میں دانشمند وں کے افکا ر ان مسا ئل میں نہ صر ف متحد اور یکسا ں نہیں ہو سکے بلکہ ان میں روز بہ روز اختلاف بڑھتا ہی گیا ہے آج جبکہ انسان علم ودانش کے بہت سے علمی مدارج طے کر چکا ہے صاف دکھا ئی دیتا ہے کہ ماہرین ہمیشہ زند گی بسر کر نے کے کچھ قوانین بنا تے ہیں لیکن جلد ہی معمو لی غور و فکر کے بعد ان قوانین کی خرابی ان پر ظاہر ہو جا تی ہے

۹

اور وہ ان قوانین میں ردو بدل اور اصلاح میں لگ جا تے ہیں ۔ جو بھی قانون بنتا ہے اس پر پہلے کچھ تر میمی نو ٹ لگتے ہیں اور کچھ مدت کے بعد اس قا نو ن کو ہی کلی طور پرختم کرد یا جا تا ہے ۔اعمال، رفتار اور اقد ارو معیارات کے با رے میں انسانی افکار کا مطالعہ کر نے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انسان اپنے علم ودانش کی طویل تاریخ میں ابتک ان مسائل کو حل نہیں کر سکا ہے اور یہ تجربہ اس طرح کے مسائل حل کر نے میں حوا س وعقل کی نا توا نی کا وا ضح نمو نہ ہے ۔

عقل و ہوش کی ناتوا نی کے اثبا ت کی یہ تجر باتی راہ ہے لیکن یہ راہ بہت زیاد ہ اطمینان بخش اور یقینی نہیں ہے۔ اسلئے کہ اس میں یہ احتما ل مو جو د ہے کہ شا ید آ یندہ صد یو ں میں ہزا ر دو ہزار سال بعد انسان اس میدان میں اتنی ترقی کر لے اور کسی یقینی علم تک پہنچ جائے ۔

۲۔دو سرا طریقہ یہ ہے کہ حواس و عقل کا جا ئزہ لیں اور ان کی کار کردگی کی کیفیت کو دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ کیا حواس وعقل کی مدد سے زند گی کے تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں یانہیں ؟

جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ حواس کے ذریعہ ہم چیزوں کے ظاہر کو و ہ بھی مخصوص زمانہ اور جگہ پر محدود حالات کے ساتھ ہی دیکھ پا تے ہیں بنا بریں حوا س کسی بھی صورت میں خود اپنی جگہ اقدار ومعیار کے حا مل مسائل کو ''خاص طور سے انسان کے عمل ورفتار کا آخرت کے نتیجو ں سے کیا رابطہ ہے'' بیان کرنے کی قدرت وصلاحیت نہیں رکھتا ۔ عقل بھی تن تنہا اس طرح کے مسائل بیان کر نے سے عاجز ہے عقل کے نزدیک ثابت شدہ مسلّمات کی تعداد بھی بہت زیادہ محدود ہے ہرروز بلکہ ہر گھنٹے مختلف انسانوںکے سا تھ اپنے ساتھ ،خداوند عالم کے ساتھ ،اپنے اہل ِخاندان اور معاشرہ والوں کے ساتھ سیکڑوں طرح کے تعلقات پیش آتے ہیں جن میں سے ہر ایک کیلئے ایک مستقل حکم ہو نا چاہئے ۔ مسلما ت عقلیہ بہت محد و د ہیں اور ان تما م تعلقات اور مسائل کے احکام کو بیان نہیں کر سکتے۔

۱۰

اسی طرح عقل و حواس کی باہمی مدد سے اگر چہ انسان کی معلومات کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے لیکن اس کا دائرہ بھی انسان کے تجربہ کی حد تک ہی محدود ہے ہم مادی مو جودات کے سلسلے میں تجربہ کرسکتے ہیں ان کی مادی علتوں کی شناخت کر سکتے ہیں لیکن مادی پہلوئوں سے مافوق چیزوں کو تجربہ اور آزما ئش میں نہیں لا سکتے کہ ہم مادہ کے ساتھ غیر ماد ی چیز وں کے تعلقات کو بھی تجربہ کے ذریعہ ثابت کرسکیں اور ایک آخری بات جو ان سب سے زیادہ اہم ہے ( اور ہماری گفتگو کی بنیاد بھی وہی ہے ) اس دنیا سے ابدی دنیا کے رشتے کو سمجھنا ہے ۔ہمارے پاس آخرت کی موجودات کی معرفت کا کوئی راستہ نہیں ہے آخرت میں ظا ہر وآشکا رہو نے والی موجو دات کی تن تنہا حواس کے ذریعہ پہچان کی جاسکتی ہے نہ عقل کے ذریعہ اور نہ ہی ان دونوں کی مدد سے اس دنیا کے حقا ئق ہم پر روشن ہو سکتے ہیں اور جب تک ہم یہ نہ جان لیں کہ ہماری یہ زندگی آخرت کی زند گی میں کس طرح مؤثر ہو سکتی ہے اور آخرت کی سعادت کے ساتھ ہمارے کن اعمال کا رابطہ مثبت اور کن اعمال کا رابطہ منفی ہے اس وقت ہم اپنی زندگی صحیح طریقہ سے نہیں گذار سکتے اور نہ ہی اپنی زند گی بسر کرنے کے لئے صحیح منصوبہ بندی کر سکتے ہیں یہ سب منصوبہ بندی اور اقدار و معیارات عمل اور اسکے نتیجہ کے در میان رشتے کا تعین ہونے کے بعد ہی طے ہو سکتے ہیں اور جب تک ہم اس رابطہ کو نہ سمجھ لیں اس وقت تک یہ نہیں کہہ سکتے کہ ( یہ کام کرنا چاہئے اور وہ کام نہیں کرنا چاہئے ) ہم اس بحث کو اپنے مقا م پر عر ض کر چکے ہیںکہ (یہ چاہئے اور وہ نہیں چاہئے ) یہ باتیںکسی کام اور اسکے نتیجے کے در میان رابطہ کے ذریعہ ہی معلوم ہوتی ہیں جب تک ہم نتیجہ نہ جا نیں اور نتیجہ کے وجود میں اس کام کی تاثیر کا تجربہ نہ کر لیں اسوقت تک ان کے بارے میں کو ئی حکم نہیں جاری کرسکتے اور مجمو عی طور پر چونکہ آخرت کی دنیااور اس دنیا سے اس کے روابط حواس اورعقل کے دائرے سے خارج ہیں ہم ان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیںکر سکتے اور نہ ہی اس دنیا وی زندگی کے لئے کو ئی منصو بہ اور پروگرام ترتیب دے سکتے۔

اب جبکہ ہم سمجھ گئے کہ تنہا عقل و حواس زند گی کیلئے کسی ایسی دقیق منصوبہ بندی سے عا جز ہیں کہ (جس کے تحت آخرت کی کامیابی اور ابدی کمال وسعادت حاصل ہو سکے )تو اب ہم اس میں ایک اور مقد مہ کا اضا فہ کرتے ہیں اور وہ یہ :

جس خدا نے انسان کو اِن محدود عقل وفہم اورر خصو صیات کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ جن کا ہم ذکر کر چکے ہیں اُسی نے اِس کے لئے ابدی سعادت تک خود اپنے اختیاری اعمال کے ذریعہ پہنچنے کا فیصلہ بھی کیاہے اب اگر وہ اس کے لئے لازم علم و شناخت اس کے اختیار میں نہ دے تو اس کا فعل لغو اور عبث کہا جائیگا ۔

۱۱

ہم گذشتہ بحثو ںسے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ خداوند عالم نے انسان کو اس دنیا میں بھیجا کہ وہ اپنے اختیاری عمل و رفتار کے ذریعہ اپنا ابدی انجام تحریر کرے اور اختیاری اعمال صحیح پہچان اور معرفت پر منحصرہیں جبکہ عام حالات میں اسطرح کی معرفت اور پہچان انسانی عقل وفہم کے ذریعہ حاصل نہیںہو سکتی دو سرے لفظو ں میں خدا نے ایک طرف تو انسان کو انتخاب کی قوت دی تاکہ وہ اپنے علم و معرفت کے ذریعہ اپنا راستہ خود منتخب کر لے اور دو سری طرف صحیح راستہ منتخب کر نے کے لئے ضروری پہچانیں اسکے اختیار میں نہیں دی ہیں ۔

ایک آسان مثال کے ذریعہ مطلب یو ں سمجھئے کہ:اگر کوئی کسی کو اپنے گھر پر مہمان کرے اور بہت زیادہ اصرار کے ساتھ کہے کہ آپ کو ہر حال میں آنا ہے یہاں تک کہ اس کو دھمکی بھی دے کہ اگر نہ آئے تو آپ کو جواب دینا پڑے گا لیکن اسکو اپنے گھر کا راستہ نہ بتا ئے ایڈ ریس نہ دے اور کہدے کہ گھر آپ خود تلاش کر لیجئے گا کہ یہ مکان کس شہرمیں ہے ؟وہاں جانے کے لئے کس سواری کی ضرورت پڑے گی ؟کچھ مشخص ومعین نہیں ہے کہ کس شخص سے سوال کر نا ہے؟میں یہ سب کچھ نہیں جانتا لیکن آپ کو دعوت میں ضرور آنا ہے تو یہ دعوت ایک احمقانہ دعوت کہی جائے گی اگر انسان کو کسی مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اس مقصد تک اس کو خود اپنے علم واختیار کے ساتھ پہنچنا ضروری ہے تو ضروری نشانیاں بھی اس کے اختیار میں دیا جانا لازم ہے ۔آپ کو بہشت میں پہنچنا ہے آپ کو ہم نے جنت کے لئے آخرت کی بے انتہا رحمتوں کیلئے خلق کیا ہے ہمارا ہدف و مقصد یہی ہے لیکن ہم وہا ںتک پہنچنے کے راستے کی کوئی نشان دہی نہیں کریں گے آیا میں اگر خود غورو فکر کرو ں تو سمجھ جائو نگا؟جی نہیں کیا میں کسی سے پو چھوں تو بتا سکتا ہے ؟ جی نہیں ۔ہم صرف اتنا جانتے ہیں کے تمھیں وہاں تک پہنچنا ہے اس طرح کا فعل عبث اور احمقا نہ ہے ۔

بنا بر این حکمت الٰہی کا تقاضا ہے کہ ضروری علم بہ شناخت تمام انسانوں کیلئے فراہم کر دے کوئی راستہ معین کردے کہ انسان اس راستہ کی بنیاد پر ہدف اور اس تک پہنچنے کی کیفیت جان لے اور یہ راستہ وحی اور نبوت کے علاوہ اور کوئی ر ا ستہ نہیں ہو سکتا ۔پس اس تفصیل کی بنیا د پر ایک ایسی راہ کی ضرورت ہے جو عام افراد کی پہنچ سے با ہر ہے ثابت ہوجا تی ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ خدا نے کیا یہ راستہ سب کے اختیار میں قرار دیدیا ؟جی نہیںاس لئے کہ اگر یہ راستہ سب کے اختیار میںقرار دیدیا جاتا تو ہم اور آپ بھی اس سے بے خبر نہ ہوتے ۔ جس وقت بھی چا ہتے عالم بالا کیلئے ایک ٹیلیگراف کرکے معلوم کر لیا کر تے کہ ہمیںکیا کرنا چاہئے ؟لیکن ہم کو معلوم ہے کہ انسانوں کی استعداد میں کمی کی وجہ سے اس طرح کا رابطہ تمام انسانوں کیلئے میسر نہیں ہے۔لہٰذا حکمت الہٰی خود تقاضا کر تی ہے کہ انسانوں کو اس طرح خلق کرے کہ ان کے درمیان کچھ ا فراد ایسے ہو ں کہ ا ن کے ذریعہ خداوند عالم لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرکے زندگی بسر کر نے کا دستورالعمل معین ومشخص کر دے ۔

۱۲

اہم بات

ہم نے انسانی عقل وفہم کی کوتا ہی کے جن دو راستوں کا تذکرہ کیا نتیجہ کے اعتبار سے فرق کرتے ہیں ۔اگر صرف پہلا راستہ ہوتا تو ہم اس سے قطعی طور پر جو نتیجہ اخذ کر سکتے تھے یہ تھا کہ خدا وند عالم نے چونکہ تمام انسانوں کو سعادت کے لئے پیدا کیا ہے اور انسان ہزا رو ں سال سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور تجربہ بتاتا ہے کہ عام ادراک کے ذریعہ اس باریک راستہ کو نہیں پہچانا جاسکا ۔پس خدا کی حکمت تقاضا کر تی ہے کہ ابتک ان انسانوں کے لئے کوئی دوسری راہ مقرر کر دی ہو لیکن بعد کے لئے کیا ہوگا ؟کیو نکہ یہ احتمال پا یا جاتا ہے کہ بعد میں انسان کی عقل کامل ہوجائے اور وہ آہستہ آہستہ خود ہی راستہ کو سمجھ لے اور یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کے مستقبل کے لئے نبوت کی ضرورت کو قطعی دلیل کے ذریعہ ثابت نہیں کر سکتے ۔ہم اسی حد تک نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اب تک انسان کی عقل ناقص تھی اور یہ محال ہے کہ خدا وند عالم اربو ںانسانو ں کو جنہیں اس نے تاریخ کے طویل دور میں ابتک پیدا کیا ہے کسی رہنما کے بغیر چھو ڑ دے ۔یہ حکمت الٰہی کے خلاف ہے لیکن بعد کے لئے کیا ہو ؟کیا اب اس دلیل میں کوئی کشش نہیں رہ گئی ؟ کیو نکہ گذشتہ تجربہ کی بنیاد پر مستقبل کے لئے یقین کے ساتھ پیشینگوئی نہیں کی جاسکتی کہ مستقبل میں بھی انسانوںکی عقل کما ل تک نہیں پہنچ پائے گی کہ لو گ زند گی کیلئے کو ئی دقیق منصو بہ بندی حا صل کر سکیں ۔اس مقام پر ایک شخص یہ کہہ سکتا تھا کہ ممکن ہے ایک زمانہ میں انسان کی عقل کامل ہوجا ئے جیساکہ بعض لوگوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاتمیت اور اسلام کے نا سخ ہونے کے بارے میں کہا ہے:چھٹی صدی عیسوی تک انسان کی عقل ناقص تھی وہ ا س بچہ کے مانند تھا جس کو ہاتھ پکڑ کر قدم قدم چلایا جائے اور حقیقت میں وہی اس بچہ کی پرورش کر نے والی دایہ کے مانند تھے جن کا کام مدد کر نا تھا تا کہ وہ زند گی کے مر حلے قدم بہ قدم طے کر سکے لیکن چھٹی صدی عیسوی میں انسان کی عقل کامل ہوگئی اور اس کے بعد وحی کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہی لہٰذا اس کو حکم دیا گیاکہ اپنے پیروں پر خود کھڑے ہوجائو اب تمہیں اپنی زندگی کی راہ خود مشخص و معین کر نا چاہئے اس وجہ سے اب کسی نئے پیغمبر کے آنے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے ۔

۱۳

جی ہاں اگر ہم اس طرح استدلال کریں کہ ابتک چونکہ انسان کی عقل کامل نہیں ہوئی تھی تو یہ احتمال مستقبل کے لئے دیا جا سکتا تھا البتہ اس طرح کا نتیجہ حتی اس مقد مہ کے ساتھ اخذ کر نا بھی صحیح نہیں ہے کیو نکہ چھٹی صدی عیسوی سے آج تک جب چودہ صدیاں گذر چکی ہیں اب بھی عقل کی ناتوانی اور نا رسائی واضح ہے اور بہت سے شکوک و شبہات (سوائے ان کے کہ جنھوں نے نوراور وحی سے راہ زند گی حاصل کی ہے ) انسان کے لئے پہلے کی طرح اب بھی موجود ہیں ۔بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ گروہ اور زیادہ ضلالت و گمراہی میں ڈوب چکے ہیں یہاں تک کہ اخلاق اور قدروں کے لحاظ سے سابقین کی بہ نسبت تنزل کا شکار ہو چکے ہیں اورر اگر زوال نہیں کیا ہے تو کوئی نمایاں ترقی بھی نہیں کر سکے ہیں۔ بہر حال یہ کہا جاسکتا ہے کہ جہاںتک تاریخ بتاتی ہے انسان کی عقل زندگی کی صحیح منصوبہ بندی کے لئے ہمیشہ ناتواں اور ناکافی رہی ہے بس حکمت الہٰی اقتضا ء کر تی ہے کہ ان تمام ادوار میں وحی کے ذریعہ انسان کی رہنمائی کرے ۔

لیکن کسی بھی حال میں آئندہ کے لئے اس برہانِ تجربی کی اساس پر نہیں کہا جاسکتا کہ یقینی طور پر مستقبل میں بھی انسان کی عقل کامل نہیں ہوسکے گی شاید سو صدیوں بعد کے لئے کوئی شخص یہ احتمال دے کہ میرے خیال میں انسان کی عقل کامل ہو جائیگی اور وہ زند گی کے مسائل درک کر لے گا اور اختلافات ختم ہوجائیںگے لیکن ہم مستقبل کی سو صد یوں بعد کے لئے پیشین گو ئی نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا اس احتمال کی وجہ سے ہم آئندہ کے بارے میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ اگرچہ ہم کو مستقبل میں کسی نئے نبی کی آمد اور وحی کے نازل ہو نے کی ضرورت نہ ہو اور یہی آسمانی کتاب جس کو خداوند عالم نے آخری نبی پر نازل فرمایا ہے قیامت تک انسانوں کی ہدایت کے لئے کافی ہو لیکن اس احتمال کا نقصان یہ ہے کہ اُس کے تحت ممکن ہے ایک انسان کی عقل کامل ہو جائے اور وہ تعبّد کی مد دکے بغیر اپنی راہ کا بذات خود انتخاب کرسکے ۔

لیکن ہم نے انسانی ادراک سے استفا دے کی جس دو سری روش کی طرف اشارہ کیا ہے اس کے تحت ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ انسان کبھی بھی نہ تو وحی سے بے نیاز تھا اور نہ ہی آئندہ بے نیاز ہوسکے گا کیونکہ زند گی صحیح طور پر گزار نے کی منصو بہ بندی اس شرط پر مو قو ف ہے کہ ہم اپنے اختیاری اعمال کا رابطہ آخرت میں ان کے نتیجوں کے ساتھ جانتے ہوں اورعقل و حواس کبھی بھی ان رابطو ں کو صحیح طور پر کشف نہیں کر سکتے ۔ اسلئے کہ یہ انسانی تجر بہ کی دسترس سے باہر ہے ۔ پس عقل وفہم کی ناتوانی معلو م کر نے کی راہ کی بنیاد پر پورے یقین کے ساتھ ہمیشہ کے لئے (چاہے وہ ماضی کی بات ہو یا حال یا مستقبل کی ) یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اگر وحی کا وسیلہ نہ ہو اور اس کے نتائج انسان کے اختیا ر میں نہ ہوں تو خدا وند عالم کا فعل یعنی انسان کی تخلیق لغو اور بے کار ہو جائیگی ۔

۱۴

حقیقت میں یہ سب سے یقینی اور قطعی دلیل ہے جو نبوت کی ضرورت پر قائم کی جاسکتی ہے ۔ فلاسفہ اور اسلامی متکلّمین نے دوسری دلیلیں بھی نقل کی ہیں جو ان کی کتابوں میں درج ہیں چونکہ ہماری نظر میں یہ دلیل سب سے زیادہ محکم اور قابل یقین ہے لہٰذا ہم اسی دلیل پر اکتفا ء کر تے ہوئے دوسری دلیلوں کے بیان سے قطع نظر کرتے ہیں ۔

قرآن کریم میں رسولوں کے مبعوث ہو نے اور کتابوں کے نازل کر نے کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا ہے ان سے نتیجہ اخذ کر تے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سے بھی اسی دلیل کا استنباط ہوتا ہے منجملہ یہ دلیل :

( رُسُلاًمُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّایَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلیٰ اللهِ حُجَّة بَعْدَالرُّسُلِ ) ( ۱ )

ہم نے بشارت اور ڈ رانے والے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا تاکہ ا ُس کے بعد لوگوںکے لئے خدا کے مقابل کوئی حجت باقی نہ رہ جائے '' ۔

یعنی اگر پیغمبر مبعوث نہ کئے گئے ہوتے تولوگ یہ احتجاج کر سکتے تھے کہ ہمارے گمراہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ہم خدا وند عالم کے احکام سے نا واقف تھے لیکن انبیا ء علیہم السلام کے آنے کے بعد اُن پر حجت تمام ہو گئی۔

اورہم اس آیت سے اسی دلیل کا استنباط کر تے ہیں:

اگر عقل و حواس اور ان دونوں کی با ہمی کار کر دگی صحیح راستہ کو پہچا ننے میں کا فی ہو تی تو جب لوگ احتجاج کرتے ہوئے کہتے :

''ہم نہیںجانتے تھے کہ وہ راستہ غلط اور یہ راستہ صحیح تھا ''۔

خدا یہ فرما سکتا تھا کہ '' میں نے تو عقل اور صحیح راستہ کومنتخب کرنے کے وسائل تمہارے اختیار میںدیدئے تھے''۔

تو اُن کے لئے یہ کہنے کا امکان ہوتا : ہم سب کو تحقیق وجستجو کا موقع نہیں مل سکا ۔

____________________

۱۔سورئہ نساء آیت۱۶۵۔

۱۵

اور پھر اُن کو جواب دیا جاتا : جس طرح بعض دانشمندوںنے مادی امور میں تحقیق کی اور دوسروں نے انُ کی تحقیقات سے استفادہ کیا تم بھی صحیح راستہ کی شناخت کے لئے بہتر کام کر سکتے تھے۔لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ خدا وند عالم فر ماتا ہے :''جب تک ہم پیغمبر کو نہ بھیج دیں حجت تمام نہیں ہو سکتی '' خود یہ جملہ اس بات کا شاہد ہے کہ قرآ ن کی رو سے انسان کا فہم وادراک عام حالات میں زندگی کے صحیح راستہ کو پہچاننے کے لئے کافی نہیں ہے ۔

دوسری آیات میں بھی اسی طرح کا مضمون ہے منجملہ یہ کہ:ہم نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کیا، کتابوں کو نازل کیا تاکہ لوگ یہ نہ کہہ دیں :

قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے:

( لَولَاْ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلاًفَنَتَّبِعَ آیَا تِکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَذَِلَّ وَنَخْزَیٰ ) ( ۱ )

'' اگر رسو لو ں کو ہم نہ بھیجتے اور کتا بیں نازل نہ کرتے لوگ احتجاج میں کہہ سکتے تھے خدا یا تو نے کوئی نبی کیو ں نہ بھیجا ؟ اگر بھیجا ہوتا تو ہم اس ذلت و خواری میں مبتلا نہ ہوتے''۔

د ر حقیقت یہ حکمت الٰہی کے خلا ف احتجاج ہے یعنی تونے جو ہم کو پیدا کیا تیرا ہد ف یہ تھا کہ ہم اس ذلت ورسوائی میں پڑ جا ئیں ؟ یہ تو حکمت کے خلاف ہے ۔تو اگر نہیں چاہتا تھا کہ ہم زبر دستی ذلت ورسوائی میں گر فتار ہوں تو تجھ کو معلوم تھاکہ ہماری عقل راستہ کی شناخت کیلئے کافی نہیں ہے ۔پس تونے پیغمبر کیوں نہ بھیجا جو ہم کو اس بد بختی سے چھٹکارا دلاتا ۔قرآن کامل طور پر اس احتجاج سے واقف تھا لہٰذا قرآن کریم کہتا ہے کہ ہم نے پیغمبر کو مبعو ث کیا تا کہ تم اس طرح کی باتیں نہ بناسکو یعنی اگر پیغمبر نہ بھیجتے تو تم کو اس طرح کی باتیں بنانے کا حق تھا ۔یہ حق ہونا کس صورت میں ممکن ہے ؟ اسی صو رت میں کہ جب انسان کی سمجھ عام حالات میں شناخت کے لئے کا فی نہ ہو۔

پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کی رو سے انسان کے حواس اور عقل زندگی کی راہ کا صحیح تعیین کرنے کیلئے کافی

نہیں ہیں اور صرف وحی اور نبوت کے ذریعہ انسان کی زندگی سے اس کمی اور نقص کو رفع کیا جاسکتا ہے اور اسی صورت میں تخلیق کی الٰہی غرض و غایت پوری ہوسکتی ہے۔

چونکہ اس رسالے میں ہم ''راہ کی شناخت ''پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں ۔لہٰذا ہمار ے لئے وحی ونبوت اور اُن کے متعلقات کے بارے میں تفصیلی بحث ضروری ہے کیونکہ صحیح راستہ کی شناخت صرف''وحی ''کے ذریعہ ممکن ہے کسی بھی اور راہ سے اس کاامکان ہے۔

____________________

۱۔سورئہ طہ آیت۱۳۴۔

۱۶

نبوّت قرآن کی نگاہ میں

قرآن کریم میں نبوت اور اس سے متعلّق مسائل کے بارے میں بہت سی آیتیں ہیں ظاہر ہے ہم ان تمام آیتوں پر تحقیقی بحث نہیں کر سکتے لہٰذ ا ان آیا ت میں کی گئی اہم بحثوں کا ہی ہم نے انتخاب کیاہے اورحسب ضرورت ان مباحث سے متعلق آیات کی وضاحت کریں گے تو آئیے سب سے پہلے بعثت انبیاء علیہم السلام کے اہداف و مقاصد پر گفتگو کرتے ہیں۔

بعثت انبیاء علیہم السلام کے مقاصد

تشریعی ہدایت (الٰہی رہنمائی )

در اصل قرآن کریم میں نبوّت کا مسئلہ انسان کی خلقت کے ساتھ ہی بحث میں آیا ہے کیو نکہ اس دنیا میں انسان کی زند گی کی بنیاد الٰہی (اور مذہبی ) رہنمائی پر قائم ہوئی ہے ۔اس دنیا میں انسا ن کی خلقت کے مقصد کو دیکھتے ہوئے اس بات کو قبول کر نا واضح ہے ۔جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ انسان کو عالم ِ مادہ میں اس لئے بھیجا گیا ہے کہ اس کی اپنی پسند کا ایک راستہ اسکے سامنے ہو اور وہ اپنے پورے اختیار سے اپنی تقدیر کی بِنا رکھے تو ظاہر ہے خدا کی جانب سے ہی اس کے سامنے ایک ایسا راستہ ہو نا چاہئے کہ جس کے دو پہلو ہوں ایک پہلو کمال کا ہو اور دوسرا پہلو نقص کا ایک کی انتہا ء کا میابی و نجات پر ہو اور دوسرے کا اختتام ناکامی و بد بختی پر تا کہ اپنے آزادانہ انتخاب کے ذریعہ انسان اُن میں سے ایک کو چُن لے ۔

قرآ ن کی بعض آیا ت سے پتہ چلتاہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جس وقت زمین پر آئے اسی وقت ان پر وحی ہوئی کہ جب خدا کی جانب سے تمہاری رہنمائی ہو تو اس کو قبول کرنا ۔اگر قبول کیا اور ا س پر عمل کیا تونجات مل جائے گی اور اگر مخالفت کی تو بد بخت ہو جائو گے قرآ نِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے :

( قُلنَااهْبِطُوْامِنهَا جَمِیْعاً فَاِمّایاَتِینَّکُم مِنِّیْ هُدًی ) ( ۱ )

''اور جب آدم سے کہا کہ بہشت سے نکلو (تو سا تھ میں یہ بھی کہہ د یاتھا )کہ اگر تمہا رے پاس میری طرف

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت ۳۸۔

۱۷

سے ہدایت آئے تو (اُس کی پیروی کر نا ) '' ۔

کیونکہ اس کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو پیروی کر کے نجات پا جائو یا مخا لفت کر کے بد بخت ہو جائو۔

( فَمَن تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوف عَلَیْهِم وَلَاهُمْ یَحْزَنُونَ وَالَّذِینَ کَفَرُوْاوَ کَذَّ بُوْابِآیَٰتِنَااُولَٰئِکَ اَصحَابُ النَّارِهُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ) ( ۱ )

''جو لو گ میری ہدایت پر چلیں گے اُن پر ( قیا مت میں )نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہونگے اور جن لوگو ں نے انکار کیا اور ہماری آ یتو ں کو جھٹلایا وہی لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ دوزخ میں پڑے رہیںگے'' ۔

یعنی زمین پر آدم کی آمد کے آغاز سے ہی اُن پر یہ بات روشن کر دی گئی تھی کہ آپ کے سامنے دو راستے ہوں گے اور خداکی طرف سے رہنمائی کی جا ئیگی ۔

اسی سے ملتی جُلتی یہ آیت بھی ہے :

( قَا لَ اهْبِطَامِنْهَاجَمِیْعاً )

''(آدم و حوّا سے خطاب ہے)کہ دونوں جنّت کو چھوڑ دو اور زمین پر چلے جائو ''۔

اور ممکن ہے یہ خطاب حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس سے ہو کیونکہ ا ِس کے بعد ارشاد ہو تا ہے :( بَعضُکُم لِبَعْضٍ عَدُوّفَاِمَّا یَا تِیَنَّکُم مِنِّیْ هُدًی فَمَنِ اتّبَعَ هُدَا یَ فَلَا یَضِّلُ وَلَا یَشْقَٰی ) ( ۲ )

'' تم میں سے ایک ایک کا دشمن ہے پھر اگر تمہا رے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (تم اس کی پیروی کرنا کیونکہ )جو شخص میری ہدایت پر چلے گا نہ تو وہ گمراہ ہوگا اور نہ مصیبت میں پھنسے گا ''۔

اسی طرح سورئہ اعراف میں ارشاد ہو تا ہے :

( یَٰبَنِیْ آدَمَ اِمَّایاَتِیَنَّکُم رُسُل مِنکُم یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُم آیاَتِی فَمِنِ اتَّقَٰی وَاَصْلَحَ فَلَاخَوْف عَلَیْهِم وَلَاهُمْ یَحْزَ نُوْ نَوَالَّذِیْنَ کَذّبُوابَِٔایَٰتِنَاوَاسْتَکْبَرُوْاعَنْهَاأُولَٰئِکَ اَصْحَابُ النَّارِهُمْ فِیْهَا خَاْلِدُوْنَ ) ( ۳ )

''اے اولاد ِآدم جب تم میں سے ہی (ہمارے ) پیغمبر آئیں اور تم سے ہمارے احکام بیان کریں (تو ان کی اطاعت کرنا کیونکہ )جو لوگ پرہیز گار بن گئے اور نیک کام کیا ان کے لئے قیامت میں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ آزردہ

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت ۳۸۔۳۹۔۲۔سورئہ طہ آیت۱۲۳۔۳۔سورئہ اعراف آیت۳۵،۳۶۔

۱۸

خاطر ہوںگے اور جن لوگو ںنے ہماری آیت کو جھٹلا دیا اور اُن سے سرتابی کر بیٹھے وہی لوگ جہنمی ہیں اور اُس میں ہمیشہ رہیںگے ''۔

خطاب تمام انسانو ں سے ہے اس آیت کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ کوئی یہ نہ سو چ لے کہ مذ کو رہ خطاب صرف آدم و حو ّا یا ابلیس سے مخصوص تھا ۔دوسرے لوگوں سے اسکا کوئی تعلّق نہیں ہے یہاں خطاب اولاد آدم سے ہے۔ سو رئہ بقرہ میں ''فَمَنْ تَبِعَ '' آیاتھا 'سو رئہ طہ اور سورئہ نور میں( فَمَنِ اتَّبَعَ ) تھا ۔یہاںاسکامصداق''فَمَنِ اتّقی وَاَصْلَحَ''بیان کیا جا رہا ہے ۔

لہٰذا وحی ونبوّت کے ذریعہ الٰہی ہدایت کا مسئلہ ایک ایسی چیز ہے جو خلقت میں مضمر اور شامل ہے اور اسکے بغیر روئے زمین پر انسان کی رہائش ممکن نہیں ہے کیونکہ ایسا ہونا حکمت ِ الٰہی کے خلاف ہے ۔اس چیز کے پیشِ نظر خدا نے ہر آبادی اور ہر قوم کے لئے ایک پیغمبر بھیجا :

( وَاِنْ مِنْ اُمَّةٍ اِلّا خَلَاْ فِیْهَا ْنَذِ یْر ) ( ۱ )

تو اب اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں بھی یا جس شہر میں بھی کچھ لوگ آباد ہوں وہاں ایک پیغمبر ہو نا چاہئے یا یہ کہ ہر زمانہ میں ایک پیغمبر ہونا ضروری ہے تا کہ زمانی اعتبار سے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ ایک دوسرے سے متصل رہے یا اس کی کوئی اور صورت ہے ؟ قرآ ن نے اس بارے میں صاف صاف کچھ نہیں کہا ہے صرف لفظِ امت کا استعمال ہوا ہے ۔قرآن میں لفظِ امت کے بہت وسیع معنی ہیں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لفظِ امت اپنے علمی معنی میں معاشرے کے مترادف ہے لیکن ایسا نہیں ہے قرآن میں لفظِ امت اس کے قطعِ نظر کہ اس جگہ صرف ایک فرد کے لئے استعمال ہوا ہے اورکبھی وقت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جن موارد میں اسکا انسانوں کی ایک جماعت پر اطلاق ہوا ہے اس کے موارد استعمال کے لحا ظ سے قدر ِ مشترک صرف جماعت اور گروہ کا مفہوم ہے ۔مثال کے طور پر قرآن تمام انبیاء علیہم السلام کو ایک امت شمار کر تا ہے(اِنَّ اُمَّتَکُمْ اُمَّةًوَا حِدَةً) جبکہ ان سب کے درمیان وقت ،مقام نیز اقتصادی اور سیاسی تعلّقات کے لحاظ سے اشتراک نہیں پایا جا تا ۔

بہر حال قرآن میں امت گروہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہر امت کے لئے ایک پیغمبر ضروری ہے مطلب کیا ہے ؟( ۲ )

____________________

۱۔سورئہ فا طر آیت۲۴۔

۲۔مزید معلومات کے لئے ملا حظہ فر ما ئیں:معا شرہ اور تا ریخ قر آن کی نظر میں۔

۱۹

ہم دقیق طور پر اسکے معنی معین نہیں کر سکتے صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ا س سے مراد انسانوں کا ہر وہ گروہ ہے جو دوسرے انسانو ں سے جدا ہوا اور ان کے روابط اسطرح کے نہ ہوںکہ اِن کی معلومات اُ ن تک منتقل ہو سکے ایسے میں ظاہر ہے اُن میںسے ہر گروہ الگ الگ رہنما کا محتاج ہوگا لیکن اگر لاکھوں انسان دسیوں صدی کے دوران ایسے تعلقات کے حامل ہوںکہ ان کی معلومات ایک دوسرے تک منتقل ہوں ان پر اگر کوئی کتاب نازل ہو اور اُن کے درمیان باقی رہے تو یہ سب امّت ِ واحدہ شمار ہوں گے اس آیت میں بھی جو کہا گیا ہے:

( وَ اِنْ مِنْ اُمَّة اِلّا خَلَا فِیْها نَذِیْر ) ( ۱ )

''کوئی امّت ایسی نہیں جس میں کوئی نہ کوئی نبی نہ ہو ''۔

بہ ظاہر یہی معنی مراد لئے گئے ہیں لیکن یہ کہ ہم مبعوث ہو نے والے تمام انبیاء علیہم السلام کو نہیںپہچانتے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

بعض روا یات میں آیاہے کہ انبیاء علیہم السلام ایک لاکھ چوبیس ہزار ہوئے ہیں اب روا یات کے معتبر ہونے یا نہ ہو نے سے یہا ں ہم کو کوئی مطلب نہیں ہے۔بہر حال ایک بڑی تعداد میں انبیاء علیہم السلام مبعو ث ہوئے ہیں اور قر آن ِ مجید میں تقریباًپچیس انبیاء علیہم السلام کا نام ذکر ہوا ہے باقی انبیاء معروف نہیں یہاں تک کہ اُن کے نام بھی معلوم نہیں ہیں۔سورئہ فاطر کی اِس آیت کے مطابق ہم اجمالی طور پر یہ بات جانتے ہیں کہ مذکورہ معنی میں ہر امت میں ایک نبی رہا ہے ہم نے نبوّت کی ضرورت پر جو دلیل پیش کی تھی اور عرض کیا تھا کہ اُس دلیل کو قرآن کی تائید حاصل ہے اس سے نبوت کی ضرورت اور اسی کے ضمن میں انبیاء علیہم السلام کا مقصد معلوم ہو جاتا ہے اسی طرح سے ہم نے ثابت کر دیاکہ انسان کو چونکہ خود ہی آزادانہ طور پر سعادت یا شقاوت کا راستہ اختیار کر نا ہے اسلئے اُ س کے لئے دونوں راستوں کی شناخت ضروری ہے اور انسان کی عقل اور حواس صحیح یا غلط کی شناخت کے لئے کافی نہیں ہے لہٰذا ایک اور راہ جس کا نام ہم نے وحی رکھا ہے ہو ناچا ہئے ورنہ انسا ن صحیح راستہ نہیں پہچان سکے گا اور پھر ظاہر ہے اس با رے میں جواب دِہ نہیں ہوگا اورچونکہ خدا نے ا نسان کو اس لئے خلق فر مایا کہ وہ ذمہ داری قبول کرے یعنی خود انتخاب کرے تاکہ اپنے اعمال کے نتیجہ تک پہنچ سکے اس لئے خدا نے شناخت کی کوئی راہ بھی ضرور معیّن کی ہو گی ۔ چنانچہ اس دلیل کے مطا بق پہلا مقصدیہ سمجھ میں آتا ہے کہ انسانوں کو صحیح اور غلط کی شناخت ہو نا چاہئے تاکہ جو بھی

____________________

۱۔سورئہ فاطر آیت۲۴ ۔

۲۰