یہ حقیقت ہے

یہ حقیقت ہے66%

یہ حقیقت ہے مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 58

یہ حقیقت ہے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 58 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28812 / ڈاؤنلوڈ: 3476
سائز سائز سائز
یہ حقیقت ہے

یہ حقیقت ہے

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

کتاب کا نام : یہ حقیقت ہے

مؤلف : حجة الاسلام و المسلمین آقای جعفر الہادی

مترجم: محمد منیر خان لکھیم پوری

نظر ثانی: سیدکمیل اصغر زیدی

پیشکش: معاونت فرہنگی ،ادارۂ ترجمہ

کمپوزنگ : المرسل

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت (ع)

طبع اول : ۱۴۲۶ھ ۲۰۰۶ ء

۳

بسم الله الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالم تاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلام کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتو رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علّام آقای شیخ جعفر الہا دی کاگرانقدر رسالہ'' الحقیقة کما ہی'' کو فاضل جلیل مولانا محمد منیر خان صاحب لکھیم پوری نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس رسالے کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

باہمی شناخت کی ضرورت

( وَجَعَلْناکُمْ شُعُوْباًوَقَبائِلَ لِتَعارَفُوْا ) (۱)

اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔

اسلام جب آیا تو لوگ آپس میں متفرق اور مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہی نہیں تھے ،بلکہ ایک دوسرے سے لڑائی، جھگڑے اور خون خرابے میں مبتلا تھے ، مگر اسلامی تعلیمات کے طفیل میںآپسی دشمنی اور ایک دوسرے سے اجنبیت کی جگہ میل جول اور عداوت کی جگہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور قطع تعلق کی جگہ قربت پیدا ہوئی ،او راس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملت اسلامیہ ایک عظیم امت کی شکل میںسامنے آئی ، جس

____________________

(۱)سورہ حجرات۱۳.

۷

نے (اس وقت ) عظیم اسلامی تہذیب و تمدن کو پیش کیا ،اور اسلام سے وابستہ گروہوں کو ہر ظالم و جابر سے بچالیا ،اور ان کی پشت و پناہی کی ،جس کی بناپر یہ امت تمام اقوام عالم میں محترم قرارپائی ،اور سرکش جباروں کی نگاہوں میں رعب و دبدبہ اور ہیبت کے ساتھ ظاہر ہوئی۔

لیکن یہ سب چیزیں نہیں وجود میں آئیں مگر امت مسلمہ کے درمیان آپس کا اتحادو وحدت اور تمام گروہوں کاباہمی ارتباط رکھنے کی بنا پر ،جوکہ د ین اسلام کے سایہ میں حاصل ہواتھا ،حالانکہ ان سب کی شہریت ، رائے ، ثقافت، پہچان ، اور تقلید الگ الگ تھی ، البتہ اصول و اساس ، فرائض و واجبات میں اتفاق و اتحاد کافی حد تک موجود تھا، یقیناً وحدت قوت، اور اختلاف کمزوری ہے ۔

بہرحال یہ مسئلہ اسی طرح جاری رہا یہاں تک کہ باہمی جان پہچان اور آپسی میل جول کی جگہ اختلافات نے لے لی ، اور تفاہم کی جگہ ایک دوسرے سے منافرت آگئی ، اور ایک گروہ دوسرے گروہ کے بارے میں کفر کے فتوے دینے لگا ، اس طرح فاصلے پر فاصلے بڑھتے گئے، جس کی وجہ سے جو رہی سہی عزت تھی وہ بھی رخصت ہوگئی ،اور مسلمانوں کی ساری شان و شوکت ختم ہوگئی اور سارا رعب و دبدبہ جاتا رہا ، اورحالت یہ ہوئی کہ قیادت کی علمبردار قوم سرکشوں کے ہاتھوں ذلت و رسوائی اٹھانے پر مجبور ہوگئی، یہاں تک کہ ان کی نشو و نما کے دہانوں میں لومڑی اور بھیڑئے صفت افراد قابض ہوگئے ،یہی نہیں بلکہ ان کے گھروں کے اندر تمام عالم کی برائیاں،ملعون اشخاص اور نوع بشرکے مبغوض ترین افراد گھس آئے ، نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا سارا مال ومنال لوٹ لیا گیا ،اور ان کے مقدسات کی توہین ہونے لگی ، اور ان کی عزتیں فاسقوں و فاجروںکی مرہون منت ہوگئیں ،اور تنزلی کے بعد تنزلی ، انحطاط کے بعد انحطاط ، اور شکست کے بعد شکست ہونے لگی، کہیں اندلس میں شکست فاش، کہیں بخارا، سمر قند، تاشقند ،بغداد ، ماضی اور حال میں ، اور فلسطین اور افغانستان میں ہار پہ ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔

۸

اور حال یہ ہوگیا کہ لوگ مدد کیلئے بلاتے تھے لیکن کوئی جواب دینے والا نہ تھا ، فریاد کرنے والے تھے مگر کوئی فریاد رس نہ تھا ۔

ایسا کیوں ہوا ، اس لئے کہ مرض کچھ اور تھا اور ا س کی دوا اور ، اﷲ نے تمام امور کی باگ ڈور ان کے ظاہری اسباب پر چھوڑ رکھی ہے ،کیا اس امت کی اصلاح اس چیز کے علاوہ کسی اور چیز سے بھی ہوسکتی ہے کہ جس سے ابتداء میں ہوئی تھی؟

آج امت اسلام اپنے خلاف کئے جانے والے سماجی ، عقیدتی اوروحدت کے مخالف شدید اور سخت ترین حملہ سے جوجھ رہی ہے ، مذہبی میدانوں میں اندر سے اختلاف کیا جارہا ہے ، اجتہادی چیزوں کو اختلافی چیز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ، اور یہ حملہ ایسا ہے کہ اس کا ثمرہ اور اس کے ( برے ) نتائج ظاہر ہونے ہی والے ہیں ،کیا ایسے موقع پر ہم لوگوں کے لئے سزاوار نہیںکہ اپنی وحدت کی صفوں کومتصل رکھیں، اور آپسی تعلقات کو محکم اُستوار کریں ؟ ہم مانتے ہیں کہ اگر چہ ہمارے بعض مذہبی رسومات جدا جدا ہیں مگر ہمارے درمیان بیشتر چیزیں ایسی ہیں جو مشترک ہیں جیسے کتاب و سنت جو کہ ہمارا مرکز اور سر چشمہ ہیں وہ مشترک ہیں ، توحید و نبوت ، آخرت پر سب کا ایمان ہے، نماز و روزہ ، حج و زکاة ، جہاد ،اور حلال و حرام یہ سب حکم شریعت ہیں جو سب کیلئے مشترک ہیں ، نبی اکرم اور ان کی آل سے محبت ، اور ان کے دشمنوں سے نفرت کرنا ہمارے مشترکات میںسے ہیں ، البتہ اس میں کمی یا زیادتی ضرور پائی جاتی ہے ، کوئی زیادہ محبت و دشمنی کا دعویٰ کرتا ہے اور کوئی کم ، لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ ایک ہاتھ کی تمام انگلیاں آخر میں ایک ہی جگہ( جوڑ سے) جاکرملتی ہیں ،حالانکہ یہ طول و عرض اور شکل و صورت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، یا اس کی مثال ایک جسم جیسیہے ، جس کے اعضاء و جوارح مختلف ہوتے ہوئے ہیں، مگر بشری فطرت کے مطابق جسمانی پیکر کے اندر ان میںہر ایک کا کردار جدا جدا ہوتا ہے اور ان کی شکلوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں اور ان کا مجموعہ ایک ہی جسم کہلاتا ہے۔

۹

چنانچہ بعید نہیں کہ امت اسلامیہ کی تشبیہ جو ''ید ِواحد''اور ایک بدن سے دی گئی ہے اس میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہو۔

سابق میں مختلف اسلامی فرقوںا ور مذاہب کے علماء ایک دوسرے کیساتھ بغیر کسی اختلاف وتنازعہ کے زندگی گزارتے تھے ، بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مددکیا کرتے تھے ، حتی بعض نے ایک دوسرے کی کلامییا فقہی کتابوں کے شرح تک کی ہے، اور ایک دوسرے سے شرف تلمذ حاصل کیا ،یہاں تک کہ بعض تو دوسرے کی تکریم کی بناپر بلند ہوئے، اور ایک دوسرے کی رائے کی تائید کرتے ، بعض بعض کو اجازۂ روایت دیتے ، یا ایک دوسرے سے اجازۂ نقل روایت لیتے تھے تاکہ ان کے فرقے اور مذہب کی کتابوں سے روایت نقل کرسکیں ، اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے ،اور انھیں امام بناتے ، دوسرے کو زکاة دیتے، ایک دوسرے کے مذہب کو مانتے تھے ، خلاصہ یہ کہ تمام گروہ بڑے پیار ومحبت سے ایک دوسرے کے ساتھ ایسے زندگی گزارتے تھے، یہاں تک کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کے درمیان کوئی اختلاف ہی نہیں ہے ، جبکہ ان کے درمیان تنقیدیں اور اعتراضات بھی ہوتے تھے لیکن یہ تنقیدیں مہذب اور مؤدب انداز میں کسی علمی موضوعی رد ہوتی تھی ۔

اس کے لئے زندہ اور تاریخی دلیلیں موجود ہیں ،جو اس عمیق اور وسیع تعاون پر دلالت کرتی ہیں ، مسلم علماء نے اسی تعاون کے ذریعہ اسلامی ثقافت اور میراث کو سیراب کیا ہے،انھیں چیزوںکے ذریعہ مذہبی آزادی کے میدان میں انھوں نے تعجب آور مثالیں قائم کی ہیں بلکہ وہ اسی تعاون کے ذریعہ دنیا میں قابل احترام قرار پائے ہیں ۔

۱۰

یہ مشکل مسئلہ نہیں ہے کہ علمائے امت مسلمہ ایک جگہ جمع نہ ہوسکیں ، اور صلح و صفائی سے کسی مسئلے میں بحث و مباحثہ نہ کرسکیں ، اور کسی اختلافی مسئلے میں اخلاص و صدق نیت کے ساتھ غور و خوض نہ کرسکیں، نیز ہر گروہ کی دلیلوں اور براہین کو نہ پہچان سکیں۔

جیسے یہ بات کتنی معقول اورحسین ہے کہ ہر فرقہ اپنے عقائد اور فقہی و فکری موقف کو آزادانہ طور پر اور واضح فضا میں پیش کرے ، تاکہ ان کے خلاف جو اتہام، اعتراض خصومت اور بیجا جوش میں آنے کا جو امورسبب بنتے ہیں وہ واضح اور روشن ہوجائیں،اوراس بات کو سبھی جان لیں کہ ہمارے درمیان مشترک ،اور اختلافی مسائل کیا ہیں تاکہ اس سے لو گ جان لیں کہ مسلمانوں کے درمیان ایسی چیزیں زیادہ ہیں جن پر سب کااتفاق ہے، اور ان کے مقابلہ میں اختلافی چیزیں کم ہیں ، اس سے مسلمانوں کے درمیان موجود اختلاف کے فاصلے کم ہوں گے اور وہ ایک دوسرے کے نزدیک آجائیں گے ۔

یہ رسالہ اسی راستہ کا ایک قدم ہے ، تاکہ حقیقت روشن ہو جائے ، اور اس کو سب لوگ اچھی طرح پہچان لیں ،بیشک اﷲ توفیق دینے والا ہے ۔

۱۱

فرقۂ امامیہ جعفریہ

۱۔دور حاضر میں امامیہ فرقہ مسلمانوں کاایک بڑافرقہ ہے :

۱۔دور حاضر میں امامیہ فرقہ مسلمانوں کاایک بڑافرقہ ہے ، جس کی کل تعداد مسلمانوں کے تقریباً ایک چوتھائی ہے ، اور اس فرقہ کی تاریخی جڑیں صدر اسلام کے اس دن سے شروع ہوتی ہیں کہ جس دن سورہ بینہ کی یہ آیت نازل ہوئی تھی :

( اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَعَمِلُواالصَّالِحَاْتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُالْبَرِیَّةِ ) (۱)

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا وہی بہترین مخلوق ہیں۔

چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا نے اپنا ہاتھ علی ـکے شانے پر رکھا اس وقت اصحاب بھی وہاں موجود تھے، اور آپ نے فرمایا :

'' یٰا عَلِیُّ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ هُمُ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ''

____________________

(۱)سورہ بینہ ، آیت : ۷.

۱۲

اے علی! تو اور تیرے شیعہ بہترین مخلوق ہیں ۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کے ذیل میں دیکھئے : تفسیر طبری ( جامع البیان ). در منثور ؛مؤلفہ علامہ جلال الدین سیوطی شافعی تفسیر رو ح المعانی ؛مؤلفہ آلوسی بغدادی شافعی

اسی وجہ سے یہ فرقہ - جو کہ امام جعفر صادق ـ کی فقہ میں ان کا پیرو ہونے کی بنا پر ان کی طرف منسوب ہے- شیعہ فرقہ کے نام سے مشہورہوا ۔

۲۔شیعہ فرقہ کثیر تعداددنیا کے مختلف ممالک میں زندگی بسرکرتاہے :

۲۔شیعہ فرقہ کثیر تعداد میں ایران ، عراق ، پاکستان اور ہندوستان میں زندگی بسرکرتاہے ، اسی طرح اس کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک ، ترکی ، سیریا ( شام )، لبنان، روس اور اس سے جدا ہونے ہونے والے جدید ممالک میں موجود ہے ، نیز یہ فرقہ یورپی مالک جیسے انگلینڈ ، جرمنی ، فرانس اور امریکہ ، اسی طرح افریقی ممالک ، اور مشرقی ایشیا میں بھی پھیلا ہوا ہے ، ان مقامات پر ان کی اپنی مسجدیں اور علمی ، ثقافتی اور سماجی مراکز بھی ہیں ۔

۳:-۔ اس فرقہ کے افراد دیگر مسلمان بھائیوں کے ساتھ بڑے پیار و محبت سے رہتے ہیں

۳۔ اس فرقہ کے افراد اگرچہ مختلف ممالک ،قوموں اور متعدد رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کے ساتھ بڑے پیار و محبت سے رہتے ہیں ،اور تمام آسان یا مشکل میدانوں میں سچے دل ا ور اخلاص کے ساتھ ان کا تعاون کرتے ہیں،ا ور یہ سب اس فرمان خدا پر عمل کرتے ہوئے انجام دیتے ہیں:( اِنَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَة ) (۱)

____________________

سورۂ حجرات، آیت۱۰.

۱۳

مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔

یا اس قول خدا پر عمل کرتے ہیں :

( وَتَعاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ) (۱)

نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مددکرو ۔

اور رسول اکرم کے اس قول کی پابندی کرتے ہوئے:

۱''المسلمون یدواحد علی من سواهم ''

مسلمان آپس میں ایک دوسرے کیلئے ایک ہاتھ کی طرح ہیں۔(۲)

یا آپ کا یہ قول ان کے لئے مشعل راہ ہے :

۲'' المؤمنون کا لجسد الواحد ''

مسلمان باہم ایک جسم کی مانند ہیں۔(۳)

۴:-ملت اسلامیہ کے دفاع کے سلسلے میں اس فرقہ کا ایک اہم اورواضح کردار

۴۔ پوری تاریخ اسلام میں دین خدا اور ملت اسلامیہ کے دفاع کے سلسلے میں اس فرقہ کا ایک اہم اورواضح کردار رہا ہے،جیسے اس کی حکومتوں اور ریاستوں نے اسلامی ثقافت اور تمدن کی ہمیشہ خدمت کی ہے ، نیز اس فرقہ کے علماء اور دانشوروں نے اسلامی میراث کو غنی بنانے اور بچانے کے سلسلے میں مختلف علمی اور تجربی میدانوں میںجیسے

____________________

(۱)مائدہ ، آیت ۲.

(۲)مسند احمد بن حنبل، ج ۱، ص ۲۱۵.

(۳)الصحیح البخاری ،ج ۱،کتاب الادب، ص ۲۷.

۱۴

تفسیر،حدیث،عقائد،فقہ،اصول،اخلاق،درایہ،رجال،فلسفہ،موعظہ،حکومت،سماجیات، زبان وادب،بلکہ طب اورفیزیکس کیمیا،ریاضیات،نجوم،اوراس کے علاوہ متعددحیاتیاتی علوم کے بارے میں لاکھوں کتابیں تحریر کرکے اس سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، بلکہ بہت سے علوم کے موجد دانشور تو اسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔(۱)

____________________

(۱)دیکھئے : محمد صدر کی کتاب '' تاسیس الشیعة لعلوم الاسلام؛ الذریعة الی تصانیف الشیعة (۲۹جلد) ؛ مؤلفہ آقا بزرگ طہرانی .کشف الظنون ؛مؤلفہ آفندی .معجم المؤلفین ؛ مؤلفہ عمررضا کحالہ .اعیان الشیعة ؛ مؤلفہ محسن امین عاملی.وغیرہ

۱۵

۵۔ شیعہ فرقہ معتقد ہے کہ خدااحدو صمد ہے

۵۔ شیعہ فرقہ معتقد ہے کہ خدااحدو صمد ہے، نہ اس نے کسی کو جنا ہے اورنہ اسے کسی نے جنم دیا ہے ، اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے ، اور اس سے جسمانیت ، جہت ، مکان ، زمان ، تغیر ، حرکت، صعود ونزول وغیرہ جیسی صفات جو اس کی صفات کمال وجمال و جلال کے شایان و شان نہیں ہیں،ان کی نفی کرتا ہے۔

اور شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور حکم اور تشریع (شریعت کاقانون بنانا ) صرف اسی کے ہاتھ میں ہے، اور ہر طرح کا شرک چاہے وہ خفی ہو یا جلی ایک عظیم ظلم اور نہ بخشا جانے والا گناہ ہے ۔

اورشیعوں نے یہ عقائد ؛عقل محکم (سالم) سے اخذ کئے ہیں، جن کی تائید و تصدیق کتاب خدا اور سنت شریفہ سے بھی ہوتی ہے۔

اور شیعوں نے اپنے عقائد کے میدان میں ان احادیث پر تکیہ نہیں کیا ہے جن میں اسرائیلیات ( جعلی توریت اور انجیل ) اور مجوسیت کی گڑھی ہوئی باتوں کی آمیزش ہے، جنھوں نے اﷲ کو بشر کی مانند ماناہے، اوروہ اس کی تشبیہ مخلوق سے دیتے ہیں، یا پھر ی اس کی طرف ظلم و جور، اور لغو و عبث جیسے افعال کی نسبت دیتے ہیں ،حالانکہ اﷲ تعالی ان تمام باتوں سے نہایت بلند و برتر ہے،یا یہ لوگ خدا کے پاک و پاکیزہ معصوم نبیوں کی طرف برائیوں اور قبیح باتوںکی نسبت دیتے ہیں ۔

۱۶

۶۔شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا عادل اور حکیم ہے

۶۔شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا عادل اور حکیم ہے ،اور اس نے عدل و حکمت سے خلق کیا ، چاہے وہ جماد ہویا نبات ، حیوان ہو یا انسان ، آسمان ہو یا زمین ، اس نے کوئی شۓ عبث خلق نہیں کی ہے،کیونکہ عبث( فضول یا بیکار ہونا) نہ تنہا اس کے عدل و حکمت کے منافی ہے بلکہ اس کی اس الو ہیت سے بھی منافی ہے جس کا لازمہ یہ ہے کہ خداوند متعال کے لئے تمام کمالات کا اثبات کیا جائے ، اور اس سے ہر قسم کے نقص کی نفی کی جائے ۔

۷:-بعثت انبیا اوررسولوں کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ

۷۔ شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا وند متعال نے عدل و حکمت کے ساتھ ابتدائے خلقت ہی سے اس کی طرف انبیاء اور رسولوں کو معصوم بنا کر بھیجا ، اور پھر انھیں وسیع علم سے آراستہ کیاجو وحی کے ذریعہ اﷲ کی جانب سے انھیں عطا کیا گیا ،اور یہ سب کچھ نوع بشر کی ہدایت اور اسے اس کے گمشدہ کمال تک پہنچانے کیلئے تھا تاکہ اس کے ذریعہ ایسی طاعت کی طرف بھی اس کی راہنمائی ہوجائے جو اسے جنتی بنانے کے ساتھ ساتھ پروردگار کی خوشنودی اور اس کی رحمت کا مستحق قرادیدے، اوران انبیاء و مرسلین کے درمیان آدم ، نوح ، ابراہیم ، عیسی ،موسی اور حضرت محمد مصطفے (ع) سب سے مشہور ہیں ، جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے، یا جن کے اسماء اور حالات سنت شریفہ میں ذکرہوئے ہیں ۔

۱۷

۸:-نجات پانے والوں کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ

۸۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ جو اﷲ کی اطاعت کرے ، اس کے اوامر کو نافذ کرے ، اور زندگی کے ہر شعبہ میں اس کے قوانین پر عمل کرے وہ نجات یافتہ اور کامیاب ہے ، اور وہی مستحق مدح و ثواب ہے ، چاہے وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، اور جس نے خدا کی نافرمانی کی اور اس کے اوامر کو نہیں پہچانا ، اور اﷲ کے احکام کے بجائے دوسروںکے احکام کے بندھن میں بندھ گیا ، وہ مستحق مذمت اور ہلاک شدہ اور گھاٹاا ٹھانے والوں میں سے ہے ، چاہے وہ قرشی سید ہی کیوں نہ ہو ، جیسا کہ پیغمبر اسلام کی حدیث شریف میں آیا ہے۔

شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ثواب و عقاب ملنے کی جگہ روز قیامت ہے جس دن حساب و کتاب ، میزان و جنت و نار سب کے سامنے ہوں گے ، اور یہ مرحلہ برزخ اور عالم قبر کے بعد ہوگا ،نیز عقیدہ ٔتناسخ جس کے منکرین معاد قائل ہیں، اس کو شیعہ باطل قرار دیتے ہیں کیونکہ عقیدۂ تناسخ سے قرآن کریم ا ور حدیث مطہرہ کی تکذیب لازم آتی ہے۔

۹:ختم نبوت کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ

۹۔ شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انبیاء ومرسلین کی آخری فرد اور ان سب سے افضل نبی حضرت محمد بن عبد اﷲ بن عبد المطلب ہیں، جنھیں خداوند متعال نے ہر خطا اور لغزش سے محفوظ رکھا اور ہر گناہ صغیرہ و کبیرہ سے معصوم قرار دیا چاہے وہ قبل نبوت ہویا بعد نبوت ،چاہے تبلیغ کا مرحلہ ہو یاتبلیغ کے علاوہ کوئی اور کام ہو ،اور ان کے اوپر قرآن کریم نازل کیا ، تاکہ وہ حیات بشری کیلئے ایک دائمی دستور العمل قرار پائے ، پس رسول اسلام نے رسالت کی تبلیغ کی اور امانت کو صداقت و اخلاص کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دیا ، اور اس اہم اور قیمتی راستے میں ہر ممکن کوشش کی ، شیعہ حضرات کے یہاں رسول اسلام کی شخصیت ،آ پ کے خصوصیات، معجزات اور آ پ کے حالات سے متعلق سینکڑوں کتابیں موجود ہیں ۔

بطور نمونہ دیکھئے : کتاب'' الارشاد '' مؤلفہ شیخ مفید اعلام الوری ، اعلام الہدی ؛ مؤلفہطبرسی موسوعہ(معجم) بحار الانوار ؛مؤلفہ علامہ مجلسی .اور موجودہ دور کی ، موسوعة الرسول المصطفی ؛ مؤلفہمحسن خاتمی.

۱۸

۱۰:نزول قرآن کے بارے میں شیعوں کانظریہ

۱۰۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم حضرت محمد مصطفی پر جبرئیل امین کے ذریعہ نازل ہوا ، جسے کچھ بزرگ صحابہ نے رسول اسلام حضرت محمد مطفی کے دور نبوت میں ہی آپ کے حکم سے تدوین کیا ،جن میں سر فہرست حضرت علی بن ابی طالب ـہیں ،ان حضرات نے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ اس کو لفظ بہ لفظ بھی یاد کیا اور اس کے حروف و کلمات نیز سورے اور آیات کی تعداد بھی مشخص اور معین کردی ، اس طرح یہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل تک منتقل ہوتا آرہا ہے ، اور آج مسلمانوں کے تمام فرقے رات و دن اس کی تلاوت کرتے ہیں ، نہ اس میں کوئی زیادتی ہوئی اور نہ ہی کوئی کمی، یہ ہر قسم کی تحریف و تبدیلی سے محفوظ ہے ، شیعہ حضرات کے یہاں اس بارے میں بھی متعدد چھوٹی اور بڑی کتابیں موجودہیں ۔(۱)

۱۱:خلافت کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ

۱۱۔ شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جب حضرت محمد مصطفی کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آ پ نے حضرت علی ـ کو تمام مسلمانوں کی رہبری کیلئے اپنا خلیفہ اور لوگوں کے لئے امام کے طورپر منصبوب کیا ، تاکہ علی ان کی سیاسی قیادت اورفکری راہنمائی فرمائیں، اور ان کی مشکلوں کو حل کریں ، اور ان کے نفوس کا تزکیہ اور ان کی تربیت کریں،اور یہ سب خدا کے حکم سے مقام غدیر خم میں رسول کی حیات کے آخری دور اور حج آخر کے بعد،ان مسلمان حاجیوں کے جم غفیر کے درمیان انجام پایاجو آپ کے ساتھ اسی وقت حج کرکے واپس آرہے تھے ، جن کی تعداد بعض روایات کی بناپر ایک لاکھ تک پہنچتی ہے ، اور اس مناسبت پر متعدد آیتیں نازل ہوئیں ۔(۲)

____________________

(۱)تاریخ قرآن ؛ زنجانی التمہید فی علوم القرآن ؛ مؤلفہ محمد ہادی معرفت وغیرہ وغیرہ

(۲) (یا اَیُّهٰاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ َاِلَیکَ مِنْ رَبِّک وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه وَاللّٰهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النّاس )سورہ مائدہ ،آیت ۶۷. دوسری آیت:یہ آیت بھی اسی سلسلے میں نازل ہوئی :(اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وْرَضِیْتُ لَکُمُ اْلِاسْلامَ دِیْناً )سورہ مائدہ ، آیت ۳. (اَلْیَوْمَ یَئِسَ الًّذِیْنَ کَفَرُوْا، مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَاْ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ )سورہ مائدہ ، آیت ۳. نیز یہ آیت بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے :

(سَئَلَ سَائِل بِعَذَاْبٍ وَاْقعٍ ٭ لِلْکَافِرِیْنَ لَیْسَ لَهُ دَاْفِع ) سورہ معارج ، آیت ۲.

۱۹

اس کے بعد نبی اکرم نے علی ـ کے ہاتھوں پر لوگوں سے بیعت طلب کی، چنانچہ تمام لوگوں نے علی کی بیعت کی اور ان بیعت کرنے والوں میں سب سے آگے مہاجرین و انصار کے بزرگ اور مشہور صحابہ تھے، مزید تفصیل کے لئے دیکھئے :کتاب'' الغدیر''جس میں علامہ امینی نے مسلمانوں کے تفسیری اور تاریخی مصادر و مآخذ سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔

۱۲:عصمت اور وسیع علم

۱۲۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ چونکہ - رسول اکرم کے بعد-امام کی ذمہ داری وہی ہے جو نبی کی ہوتی ہے جیسے امت کی قیادت و ہدایت ، تعلیم و تربیت ، تبیین احکام اوران کی مشکلات کا حل کرنا ، نیز سماجی اہم امور کا حل کرنا،لہٰذا یہ ضروری ہے کہ امام اور خلیفہ ایسا ہونا چاہیئے کہ لو گ اس پر بھروسہ اور اعتبار کرتے ہوں ، تاکہ وہ امت کو امن و امان کے ساحل تک پہونچا جا سکے ، پس امام تمام صلاحیتوں اور صفات میں نبی جیسا ہونا چاہیئے ، (جیسے عصمت اور وسیع علم )کیونکہ امام کے فرائض بھی نبی کی طرح ہوتے

ہیں، البتہ وحی اور نبوت کے علاوہ ، کیونکہ نبوت حضرت محمد بن عبداﷲ پر ختم ہوگئی، آپ ہی خاتم الانبیاء والمرسلین ہیں ، نیز آپ کا دین خاتم الادیان ، اور آپ کی شریعت خاتم الشرائع اور کتاب خاتم الکتب ہے ،نہ آپ کے بعد کوئی نبی ، اور نہ آپ کے دین کے بعد کوئی دین ،اور اسی طرح نہ آپ کی شریعت کے بعد کوئی شریعت آئیگی۔ ( شیعوں کے پاس اس میدان میں بھی متعدداور متنوع ضخیم اور فکری واستدلالی کتابیں موجود ہیں.)

۲۰

۱۳:تسلسل امامت کا عقیدہ

۱۳۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امت کو سیدھی راہ پر چلا نے والے معصوم قائد اور ولی کی ضرورت اس بات کی مقتضی اور طلبگار ہے کہ رسول کے بعد امامت اور خلافت کا منصب صرف علی پر ہی نہ ٹھہر جائے ، بلکہ قیادت کے اس سلسلے کو طویل مدت تک قائم رہنا ضروری ہے، تاکہ اسلام کی جڑیں مضبوط اور اس کی بنیادیں محفوظ ہوجائیں ، اور جو خطرات اس کے اصول اور قواعد ہی کو نہیں بلکہ ہر الٰہی عقیدے ، اور خدائی نظام کے سامنے منھ کھولے کھڑے ہیں ان سے اس کو پچایا جا سکے اور اس کے لئے تمام ائمہ(مختلف و متعدد دور میں امت کی رہبری کرکے اپنی سیرت ، تجربات اور مہارت کا) ایسا عملی نمونہ اور پروگرام پیش کر سکیںجس کی مدد سے تمام حالات میں بعد میں چلتی رہی۔

۱۴:بارہ اماموں کا عقیدہ

۱۴۔ شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی اکرم حضرت محمد بن عبد اﷲ نے اسی سبب اور اسی بلند پایہ حکمت کی بنا پر اﷲ کے حکم کی خاطر علی ـ کے بعد گیارہ امام معین فرمائے،لہٰذا حضرت علی ـ کو ملاکر کل بارہ امام ہیں ، جیساکہ ان کی تعداد کے بارے میں نبی اکرم کی حدیثوں میں وضاحت کے علاوہ تذکرہ بھی ہے کہ ان سب کا تعلق قبیلہ قریش سے ہوگاجیساکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مختلف الفاظ کے ساتھ اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے- البتہ ان کے اسماء اور خصوصیات کا تذکرہ نہیں ہے- :

''عن رسول اﷲ ؛ان الدین لایزال ماضیاًقائماًعزیزاًمنیعاًماکان فیهم اثناعشرامیراًاوخلیفةً،کلهم من قریش''

بخاری اور مسلم دونوں نے رسول خدا سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : بیشک دین اسلام اس وقت تک غالب، قائم اور مضبوط رہے گا جب تک اس میں بارہ امیر یا بارہ خلیفہ رہیں گے ، یہ سب قریش سے ہوں گے ۔

( بعض نسخوں میں بنی ہاشم بھی آیا ہے ،اور کتب صحاح ستہ کے علاوہ دوسری کتب فضائل و مناقب و شعر و ادب میں ان حضرات کے اسماء بھی مذکور ہیں .)

یہ احادیث اگر چہ ائمہ اثنا عشر( جوکہ علی علیہ السلام اور اولاد علی علیہم السلام ہیں ) کے بارے میں پر نص نہیں ہیں لیکن یہ تعداد اسی پر منطبق ہوتی ہے جو شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں ، اور اس کی کوئی تفسیر نہیں ہوسکتی مگر صرف وہی جو شیعہ کہتے ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) : خلفاء النبی؛ مؤلفہ حائری بحرانی

۲۱

۱۵:ائمہ اثنا عشر( بارہ اماموں) سے مراد

۱۵۔ شیعوں کا جعفری فرقہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ائمہ اثنا عشر( بارہ اماموں) سے مراد

حضرت علی ابن ابیطالب جو رسول کے چچا زاد بھائی اور آپ کی بیٹی فاطمہ زہرا کے شوہر ہیں۔

اور حسن اور حسین ہیں( جو علی و فاطمہ کے بیٹے اورسبط رسول اسلام ہیں)۔

زین العابدین علی بن الحسین (السجاد)۔

اس کے بعد :

امام محمد بن علی ( الباقر)

امام جعفربن محمد (الصادق)

امام موسی بن جعفر(الکاظم)

امام علی بن موسی(الرضا)

امام محمدبن علی (الجواد التقی)

امام علی بن محمد (الہادی)

امام حسن بن علی ( العسکری)

۲۲

امام محمد بن الحسن ( المہدی الموعود المنتظر) (ع)ہیں۔(۱)

____________________

(۱) بالتحقیق عرب و عجم کے( غیر شیعہ) ممتاز شعراء نے ایسے مفصل قصیدے کہے ہیں جن میں بارہ اماموں کے مکمل نام مذکور ہیں،جیسے ان شعراء کے: حصکفی، ابن طولون ، فضل بن روز بہان ، جامی ، عطار نیشاپوری ، مولوی کے قصیدے ، یہ سب مذہب امام ابوحنفیہ اور امام شافعی وغیرہ کے پیرو ہیں،یہاں ہم نمونہ کے طور پر ان میں سے دو قصیدے ذکر کررہے ہیں : پہلا قصیدہ جناب حصکفی حنفی کا ہے جن کا شمار چھٹی صدی ہجری کے علماء میں ہوتا ہے ، کہتے ہیں :

حیدرةوالحسنان بعده ::ثم علی وابنه محمداول( امام علی) حیدر اور اس کے بعد ان کے بیٹے امام حسن اور حسین ہیں .وجعفرالصادق وابن جعفر::موسی،ویتلو هعلی السید

اس کے بعد جعفر صادق اور ان کے بیٹے امام موسی کاظم ہیں ،اور ان کے بعد سید و سردار علی ہیںاعنی الرضاثم ابنه محمد :: ثم علی وابنه المسدد

جنھیں اما م رضا کے نام سے جانا جاتا ہے ،آپ کے بعد آپ کے فرزند محمد (تقی) پھر علی ،اور ان کے راست گو بیٹےالحسن التالی ویتلوتلوه :: محمد بن الحسن المعتقد

یعنی حسن ( عسکری ) ہیں ،اور ان کے فوراً بعد آپ کے بیٹے امام محمد ( مہدی آخر الزمان ) ہیں، انہی حضرات کے بارے میں عقیدہ رکھتی ہے

قوم هم ائمتی وسادتی :: اسمائهم مسرودلاتطردایک قوم؛یہی میرے امام اور سردار ہیں ، جن کے اسماء باہم ایسیپیوستہ ہیں جن میں سے کسی ایک کوبھی جھوڑا نہیں جا سکتا

هم حجج اﷲ علی عباده :: وهم الیه منهج ومقصدوہ اﷲ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں ، اوروہ اس تک پہنچنے کا راستہ اور مقصد ہیں .

هم النهارصوم لربهم ::وفی الدیاجی رکع وسجدوہ دنوں میں اپنے رب کیلئے روزے رکھتے ہیں ،رات کی تاریکیوں میں رکوع اور سجدے میں مشغول رہتے ہیں.

دوسرا قصیدہ جناب شمس الدین محمد بن طولون کا ہے جن کا دسویں صدی ہجری کے علماء میں شمار ہوتا ہے ، کہتے ہیں :

علیک با لائمة الاثنی عشر:: من آل البیت المصطفی خیرالبشرتم بارہ اماموں سے وابستہ رہو ، جو کہ مصطفے خیر البشر کی آل ہیں .

ابو تراب حسن حسین :: وبغض زین العابدین شینابو تراب (علی ) حسن ، حسین اور زین العابدین کا بغض برا ہے.

محمد الباقرکم علم دری :: والصادق ادع جعفراً بین الوریمحمد باقر جنھوں نے علم کے کتنے ہی باب کوکھولے، اورصادق ہیں جنھیں جعفر کے نام سے دنیا میں پکارو

موسی هوالکاظم وابنه علی :: لقبه بالرضا وقدره علیموسی جو کہ کاظم ہیں ، اور ان کے بیٹے علی جن کا لقب رضا ہے ، اور ان کی قدر و منزلت بلند ہے

محمد التقی قلبه معمور٭علی النقی دره منثورمحمد تقی ہیں جن کا دل اسرار الٰہی سے معمور ہے ، اور علی نقی ہیں جن کی خوبیاں چاروں طرف پھیلی ہوئیں ہیں والعسکری الحسن المط هر :: محمد الم هدی سوف یظ هر اور حسن عسکری پاک و پاکیزہ ہیں ، اور امام محمدمہدی ہیں جو عنقریب ظاہر ہوں گے دیکھئے : کتاب '' الائمة الاثنا عشر '' مؤلفہ مؤرخ دمشق شمس الدین محمد ابن طولون متوفی، ۹۵۳ ھ ، تحقیق: ڈاکٹر صلاح الدین المنجد، مطبوعہ: بیروت ، لبنان

۲۳

یہی وہ اہل بیت ہیں جنھیں رسول خدا نے بحکم خدا، امت اسلام کاقائد قرار دیا،کیونکہ یہ تمام خطاؤں اور گناہوں سے پاک اور معصوم ہیں ، یہی حضرات اپنے جدکے وسیع علم کے وارث ہیں، ان کی مودت اورپیروی کا حکم دیا گیاہے ، جیساکہ خدا نے ارشاد فرمایا :

( قُلْ لَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراًاِلَّاالْمَوَدَّةَ فیِ الْقُرْبَی ) (۱)

اے رسول !آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سیمحبت کرو ۔

( یٰااَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُوْااتَّقُوْااﷲَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ ) (۲)

اے ایماندارو! تقوی اختیار کروا ور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ۔

دیکھئے : کتب حدیث و تفسیر، اور فضائل میں فریقین کے نزدیک جو صحیح اوردوسری کتابیں ہیں

۱۶:عصمت کا عقیدہ

۱۶۔ شیعہ جعفری فرقہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ ائمہ اطہار وہ ہیں جن کے دامن پر تاریخ نہ ان کے کوئی لغزش لکھ سکی اور نہ کسی خطا کا دھبہ ثابت کر پائی ، نہ قول میں اور نہ عمل میں، انھوں نے اپنے وافر علوم کے ذریعہ امت مسلمہ کی خدمت کی ہے ، اور اپنی عمیق معرفت، سالم فکر کے ذریعہ ؛ عقیدہ و شریعت ، اخلاق و آداب ، تفسیرو تاریخ اور مستقبل کے لائحہ عمل کو صحیح جہت عطا کی ہے ، اور ہر میدان میں اسلامی ثقافت کو محفوظ کردیا ہیجیسے انھوں نے - اپنے قول اور عمل کے ذریعہ - چندایسے منفردا ور ممتاز ، نیک سیرت

____________________

(۱)سورہ ٔشوری ، آیت ۲۳.

(۲)سورہ ٔتوبہ ، آیت ۱۱۹.

۲۴

اورپاک کردارمردوںاور عورتوں کی تربیت کی ہے ، جن کے فضل و علم ، اور حسن سیرت کے سب لوگ قائل ہیں۔

اور شیعہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اگرچہ ( یہ بہت افسوس کا مقام ہے کہ ) امت اسلامیہ نے ان کو سیاسی قیادت سے دور رکھا، لیکن انھوں نے پھر بھی عقائد کے اصولوں اور شریعت کے قواعد و احکام کی حفاظت کرکے اپنی فکری اور اجتماعی ذمہ داری کو بہترین طریقہ سے ادا کی ہے ۔

چنانچہ ملت مسلمہ اگر انھیں سیاسی قیادت کا موقع دیتی جسے رسول اسلام نے خدا کے حکم سے ان کو سونپا تھا ، تو یقیناً اسلامی امت سعادت و عزت اور عظمت کاملہ حاصل کرتی،اور یہ امت متحد و متفق ، متوحد رہتی،اور کسی طرح کا شقاق ، اختلاف ، نزاع ، لڑائی ، جھگڑا ، کشت و کشتار اور ذلت و رسوائی نہ دیکھنا پڑتی ۔

اس سلسلے میں کتاب''الامام الصادق والمذاہب الاربعة ''کی تین جلدی، اور دوسری کتابیں دیکھئے۔

۱۷:اطاعت اہلبیت علیہم السلام

۱۷۔ شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مذکور ہ وجہ اور عقائد کی کتابوں میں پائی جانے والی نقلی و عقلی کثیر ادلہ کی بناپرکہ اہل بیت کی اتباع واجب ہے ، اور ان کے راستے اور طریقے کو اپنانا ضروری ہے، کیونکہ انھیں کا طریقہ وہ طریقہ ہے جسے امت کیلئے رسول نے معین فرما یا ، اور ان سے تمسک کرنے کا حدیث ثقلین (جو متواتر ہے )حکم دیتی ہے ،جیساکہ رسول خدا نے ارشاد فرمایا ہے :

''انی تارک فیکم الثقلین کتاب اﷲ وعترتی اهل بیتی ماان تمسکتم بهما لن تضلواابداً ''

جسے صحیح مسلم اور دیگر دسیوں مسلم علماء و محدثین نے ہر صدی میں نقل کیا ہے ،دیکھئے : رسالہ ٔ حدیث ثقلین ؛(مؤلفہ وشنوی )جس کی تصدیق ازہر شریف نے۳۰ سال قبل کی تھی۔

اور گزشتہ انبیاء کی حیات میں بھی خلیفہ اور وصی بنانے کا یہی معمول تھا ۔

دیکھئے : اثبات الوصیة؛ مؤلفہ مسعودی .ا و رفریقین کی دیگر کتب احادیث و تفسیر و تاریخ

۲۵

۱۸:شیعہ سب و شتم ، الزام و اتہام کا مخالف

۱۸۔جعفری شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امت اسلامیہ(اﷲ اس کو عزیز رکھے) پر یہ واجب ہے کہ وہ ان امور میں تحقیق اور بحث و مباحثہ کرے لیکن کسی پر سب و شتم ، الزام و اتہام ،اور کسی کو ڈرائے اور دھمکائے بغیر، اور تمام اسلامی فرقوں کے علماء ومفکرین پر لازم ہے کہ وہ علمی اجتماع میں شرکت کریں، اور صفاء و اخلاص کے ساتھ گفتگو کریں،اور اپنے شیعہ مسلمان بھائیوں کے ان نظریات پر غور و خوض کریں جن پروہ قرآن،صحیح متواتر سنت، تاریخی محاسبہ (دلائل)اور رسول او ر آنحضرت کے بعدکے سیاسی و سماجی پس منظر کے مطابق ، استدلال پیش کرتے ہیں۔

۱۹:اصحاب پیغمبر (ص)کے بارے میں

۱۹۔ اور شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صحابہ اور جو لوگ رسول کے ساتھ تھے چاہے وہ عورت ہوں یا مرد، انھوں نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے، نشر اسلام کی راہ میں اپنی جان و مال کی قربانی دی ہے ، لہٰذاتمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کا احترام کریں، اور ان کی گرانقدر خدمات کا اعتراف کریں۔

لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ تمام صحابہ (بطور اطلاق )عادل تھے، اور ان کے بعض اعمال یا نظریات ،تنقید او راعتراض سے مافوق ہیں،کیونکہ صحابہ بھی بشر ہیں اور ان سے بھی غلطی اور بھول چوک ہوتی ہے ، چنانچہ تاریخ میں یہ بات موجود ہے کہ ان میں سے بعض حضرات راہ مستقیم سے دور ہوگئے تھے ، یہاں تک کہ کچھ لوگ خود آنحضرت کے دور میں ہی آپ کے راستے سے دور ہوگئے ، بلکہ قرآن مجید نے اپنی بعض آیات اور سوروں میں جیسے سورہ ٔ منافقین ، احزاب ، حجرات ، تحریم ،فتح ، محمد اور توبہ میں اس بات کی تصریح کی ہے ۔

۲۶

لہٰذا ان بعض صحابہ حضرات کے اعمال پر جائز اور مہذب انداز میں تنقید کرنا ہرگز کفر کا سبب نہیں قرار پاسکتا، کیونکہ کفر و ایمان کا معیار واضح ہے ، اور ان دونوں کا محور ومرکز روشن ہے ، اور وہ توحید و رسالت اور ضروریات دین جیسے وجوب نماز ، روزہ ، حج اورحرمت خمرو میسر جیسی چیزوں کو ماننا ، اور اس کا انکار کرنا ہے ،البتہ قلم اور زبان کو بد تمیزی اور بھونڈی باتوں سے محفوظ رکھنا ضروری ہے ، کیونکہ یہ باتیں ایک مہذب مسلمان جو سیرت خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی پر عمل پیرا ہے اس کیلئے زیب نہیں دیتی ، بہرحال اس کے باوجود اکثر صحابہ صالح اور مصلح تھے ، جولائق احترام اور مستحق اکرام ہیں۔

لیکن اس کے باوجودصحابہ کو جرح وتعدیل ( عادل یاغیر عادل ثابت کرنے ) کے قواعدپراس لئے تولا جاتا ہے تاکہ صحیح اور قابل اعتماد سنت سے واقفیت حاصل ہوجائے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ رسول خدا کے جانے کے بعد آپ کی طرف بہت زیادہ کذب اور بہتان منسوب کیا گیا، (جیساکہ یہ بات تمام لوگ جانتے ہیںاور خود رسول نے اس بات کے واقع ہونے کی خبر بھی دی تھی )اور اس بات کے بارے میں دونوں فریق کے علماء حضرات نے اہم کتابیں لکھی ہیں ، جیسے سیوطی اور ابن جوزی وغیرہ،تاکہ وہ احادیث جو واقعاً رسول سے صادر ہوئیں ہیں ان کے درمیان اور جو حدیثیں گڑھ کر آپ کی طرف منسوب کی گئی ہیں ان کے د رمیان امتیاز پیدا ہوسکے ۔

۲۷

۲۰۔ شیعہ؛ امام مہدی منتظرکے وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں

۲۰۔ شیعہ؛ امام مہدی منتظرکے وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں ،کیونکہ اس بارے میں کثیر روایات رسول اسلام سے نقل ہوئیں ہیںکہ وہ اولاد فاطمہ سے ہوںگے ، اور امام حسین ـکے نویں فرزند ہیں، کیونکہ امام حسین ـ کے آٹھویں فرزند (آٹھویں پشت میں) امام حسن عسکری ہیں جن کی وفات ۲۶۰ھ میں ہوئی، اور آپ کو خدا نے صرف ایک بیٹا عنایت کیا تھا جس کا نام محمد تھا چنانچہ آپ ہی امام مہدی ہیںجن کی کنیت ابو القاسم ہے۔(۱)

____________________

(۱)عامہ کی صحاح ستہ اور ان کے علاوہ دوسری کتابوں میں موجود ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا :

''سیظهرفی آخرالزمان رجل من ذریتی اسمه اسمی، وکنیته کنیتی،یملأ الارض عدلاًوقسطاً کماملئت ظلماًوجوراً''

آخری زمانے میں میری ذریت سے ایک شخص ظاہر ہوگا جس کا نام میرا نام ہوگا ، اور اس کی کنیت میری کنیت ہوگی ، وہ زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی

۲۸

آپ کو مؤثق مسلمانوں نے دیکھا ہے، اور آپ کی ولادت ، خصوصیات اور امامت نیز آپ کی امامت پرآپ کے والدکی طرف سے نص کی خبر دی ہے ، آپ اپنی ولادت کے پانچ سال بعد لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگئے ، کیونکہ دشمنوں نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا تھا، لیکن خدا وند متعال نے آپ کو اس لئے ذخیرہ کرکے رکھا ہے تاکہ آخری زمانے میں عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت قائم کریں ، اور زمین کو ظلم و فساد سے پاک کر دیں بعد اس کے کہ وہ اس سے بھری ہوئی ہوگی ۔

اور یہ کوئی عجیب و غریب بات نہیں کہ آ پ کی عمر اس قدر طولانی کیسیہوگئی؟ کیونکہ قرآن مجید ا س وقت بھی حضرت عیسی ـ کے زندہ ہونے کی خبر د ے رہا ہے ، جبکہ ان کی ولادت کو اس وقت ۲۰۰۵ سال ہونے چاہتے ہیں، اسی طرح حضرت نوح اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال زندہ رہے اور اپنی قوم کو اﷲ کی طرف دعوت دیتے رہے، اور حضرت خضر نبی ـ بھی ابھی تک موجودہیں ،کیونکہ اﷲ تعالی ہر شۓ پر قادر ہے ، اس کی مشیت پوری ہونے والی ہے، جسے کوئی ٹال نہیں سکتا ، کیا اس نے حضرت یونس ـ کے بارے میں یہ نہیں فرمایا ہے:

( فَلَوْلَا اَنَّهُ کَاْ نَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ٭ لَلَبِثَ فِی بَطْنِه اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ) (۱)

پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے ، تو روز قیامت تک اسی کے شکم میں رہ جاتے ۔

چنانچہ اہل سنت کے اکثربزرگ اور جلیل القدر علماء امام مہدی(عج) کی ولادت اور ان کے وجود کے قائل ہیں، اور انھوںنے ان کے اوصاف و والدین کے نام کا ذکر کیا ہے ، مثلاً:

الف۔ عبد المؤمن شبلنجی اپنی کتاب'' نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار '' میں۔

ب۔ ابن حجر ہیثمی مکی شافعی نے اپنی کتاب'' الصواعق المحرقة'' میں کہتے ہیں : ابو القاسم محمد الحجة کی عمر ان کے والد کی وفات کے وقت پانچ سال کی تھی لیکن خدا نے اسی سن میں آپ کوحکمت عطا کی اور ان کا نام قائم منتظر ہے ۔

ج۔ قندوزی حنفی بلخی نے اپنی کتاب ''ینابیع المؤدة '' میں اس کا تذکرہ کیا ہے جو دورخلافت عثمانیہ ترکی میں( استانہ) سے شائع ہوئی تھی۔

د۔سید محمد صدیق حسن قنوجی بخاری نے اپنی کتاب '' الاذاعة لما کان وما یکون بین یدی الساعة ''میں اسے لکھا ہے ۔

یہ ہیں متقدمین علماء کے اقوال ، اور متاخرین میں سے ڈاکٹر مصطفی رافعی نے اپنی

____________________

(۱)سورۂ صافات، آیت۳ ۱۴، ۱۴۴.

۲۹

کتاب '' اسلامنا '' میں لکھا ہے،چنانچہ جب انھوں نے مسئلہ ٔ ولادت کی بحث کی ہے تو بڑی طول و تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے، اور اس بارے میں ان تمام ا عتراضات اور شبہات کے جواب دئے ہیںجو اس مقام پر ذکر کئے جاتے ہیں ۔

۲۱:فروع دین کے بارے میں

۲۱۔ جعفری فرقہ والے لوگ نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں ، اوراپنے مال میں سے زکات و خمس ادا کرتے ہیں ، اور مکۂ مکرمہ جاکر ایک بار بطور واجب حج بیت اﷲ الحرام کرتے ہیں، اور اس کے علاوہ بھی مستحب عمرہ و حج ادا کرتے رہتے ہیں ، اورنیکیوں کی طرف دعوت دیتے ہیں،اور برائیوں سے روکتے ہیں، اور اولیائے خدا و رسول سے محبت کرتے ہیں، اور خدا و رسول کے دشمنوں سے دشمنی کرتے ہیں ،اور اﷲ کی راہ میں ہر اس کافر و مشرک سے جہاد کرتے ہیں جو اسلام کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہو،اور ہر اس حاکم سے جنگ کرتے ہیں، جو قہر و غلبہ کے ذریعہ امت مسلمہ پر مسلط ہوگیا ہے، اور دین اسلام(جوکہ دین حنیف ہے)کی موافقت کرتے ہوئے تمام اقتصادی ،سماجی اور گھریلو مشغلوں اور سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں ، جیسے تجارت ، اجارہ ، نکاح ، طلاق ،میراث ، تربیت و پرورش، رضاعت اور حجاب وغیرہ ۔

اور ان سب چیزوں کے احکام کو اجتہاد کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں، جنھیں متقی اور پرہیزگار علماء ،کتاب،صحیح سنت اوراہل بیت(ع)سے ثابت شدہ احادیث اور عقل و اجماع کے ذریعہ استنباط کرتے ہیں ۔

۲۲:نماز اور اسے اوقات کے بارے میں

۲۲۔ اور شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام یومیہ فرائض کے اوقات معین ہیں، اور یومیہ نماز کے لئے پانچ وقت ہیں : فجر، ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء ، اور افضل یہ ہے کہ ہر نماز کو اس کے مخصوص وقت میں انجام دیا جائے ، مگر یہ کہ نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو جمع کرکے پڑھاجا سکتاہے ،کیونکہ رسول خدا نے کسی عذر ، مرض، بارش اور سفر کے بغیر ان نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا تھا ، جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں نقل ہوا ہے، اور یہ امت مسلمہ کی سہولت کیلئے کیا گیا ہے خاص طور سے ہمارے زمانے میں ایک فطری اور عام بات ہے ۔

۳۰

۲۳:آذان کے بارے میں

۲۳۔ شیعہ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح اذان دیتے ہیں ، البتہ جب جملۂ '' حی علی الفلاح''آ تا ہے تو اس کے بعد جملۂ ''حی علی خیر العمل ''بھی پڑھتے ہیں، کیونکہ رسول خدا کے دور میں یہ حصہ اذان میں کہا جاتا تھا ، لیکن بعد میں حضرت عمر نے اپنے اجتہاد کی بناپر اس کی یہ علت بتاتے ہوئے کہ چونکہ اس سے مسلمان جہاد کرنے سے رک جائیں گے اس کو اذان سے حذف کر دیا ، ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اس سے یہ سمجھ بیٹھیں گے کہ نماز ہی بہترین عمل ہے،لہٰذا جہاد کی طرف پھر کوئی رغبت نہیں کریگا، اس لئے اسے اذان سے حذف کردیا جائے تو بہتر ہے -جیساکہ علامہ قوشچی اشعری نے اپنی کتاب'' شرح تجریدالاعتقاد '' میںاور المصنف میں، کندی، کنز العمال میں، متقی ہندی.وغیرہ نے اسے نقل کیاہے-اس کے علاوہ حضرت عمرنے ایک اورجملہ کااضافہ کیاہے: ''الصلاةخیرمن النوم ''جبکہ یہ جملہ رسول اسلام کے زمانہ میں نہیں تھا ۔ (دیکھئے : کتب حدیث و تاریخ) .جبکہ عبادت اور اس کے مقدَّمات اسلام میں شارع کے امر اور اس کے اذن پر موقوف ہیں ، یعنی شریعت میں ہر عمل کیلئے قرآن اور سنت سے نص خاص یا نص عام موجود ہو، اور اگر کسی عمل کی نص نہ ہو تو وہ مردود اور بدعت ہے،جسے اسکے انجام دینے والے کے منہ پر مار دیا جائے گا ، کیونکہ عبادت میں کسی چیز کی زیادتی یا کمی ممکن نہیں ہے ، بلکہ تمام شرعی امور میں کسی کی ذاتی رائے کا کوئی دخل نہیں ہے ،البتہ شیعہ حضرات جو ''اشہدان محمداًرسول اﷲ'' کے بعد '' اشہد ان علیاً ولی اﷲ'' کہتے ہیں تو یہ ان روایات کی بنا پر ہے جو رسول خدا اور اہل بیت (ع)سے نقل کی گئی ہیں ، اور ان میں یہ تصریح موجود ہے کہ محمد رسول اﷲ کہیں ذکر نہیں ہوا ،یا باب جنت پر نہیں لکھا گیا مگر اس کے ساتھ علی ولی اﷲ ضرور تھا، اور یہ جملہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ شیعہ علی کو نبی بھی نہیں سمجھتے چہ جائیکہ وہ آپ کی ربوبیت اور الوہیت کا(العیاذ باﷲ) عقیدہ رکھتے ہوں ،لہٰذاتوحید و رسالت کی شہادت کے بعد تیسری شہادت( علی ولی اﷲ) کہنا جائز ہے ، اس امید میں کہ یہ بھی مطلوب پرور دگار ہو، البتہ اس کو جزء اور وجوب کے قصد سے انجام نہ دے، یہی شیعوں کے اکثر علماء کا فتوی ہے۔

پس یہ زیادتی بغیر قصد جزئیت کے انجام دی جائے گی ، جیسا کہ ہم نے کہا ہے،لہٰذا یہ ایسا نہیں کہ شرع میں اس کی کوئی اصل نہ ہو ،اس لئے یہ بدعت ہے۔

۳۱

۲۴:سجدہ گاہ کے بارے میں

۲۴۔ اور شیعہ زمین اورمٹی یا کنکڑ اور پتھریا زمین کے اجزاء اور نباتات وغیرہ پرسجدہ کرتے ہیں، اور دری ،قالین یا چادر اور کپڑے اور کھائی جانے والی چیزوںاور زیورات پر سجدہ نہیں ہوتا، کیونکہ اس سلسلے میں کثیر تعداد میں شیعہ و سنی کتابوں میں روایتیں وارد ہوئیں ہیں ،کیونکہ رسول خدا کاطریقہ یہ تھا کہ آپ مٹی اور زمین پر سجدہ کرتے تھے ، بلکہ آپ مسلمانوں کو حکم بھی یہی دیتے تھے ، چنانچہ ایک روز جناب بلال نے اپنے عمامے کی کورپر جلا دینے والی گرمی سے بچنے کی بناپر سجدہ کیا ، تورسول اسلام نے بلال کے عمامہ کو پیشانی سے ا لگ کردیا، اور فرمایا:

''ترِّب جبینک یا بلال ''

اے بلال! اپنی پیشانی کو زمین پر رکھو؟

اسی طرح کی روایت صہیب اور رباح کے بارے میں نقل کی گئی ہے ، جب فرمایا :

'' ترب وجهک یا صهیب ! و ترب وجهک یا رباح ''

اے صہیب اور اے رباح ! اپنی پیشانی کو زمین پر رکھو؟

دیکھئے: صحیح بخاری و کنزالعمال یاالمصنف؛ مؤلفہ عبد الرزاق الصنعانی، یا السجود علی الارض؛ مؤلفہ کاشف الغطاء

اور نبی اکرم نے اس جگہ یہ ارشاد فرمایا :(جیساکہ صحیح بخاری وغیرہ میں آیاہے۔)

''جعلت لی الارض مسجداًوطهوراً''

میرے لئے زمین کو مسجد اور طاہر و مطہر بنایا گیا ہے ۔

اور پھر مٹی پر سجدہ کرنا اور پیشانی کو زمین پر رکھنا یہی خدا کے سامنے سجدہ کرنے کا سب سے مناسب طریقہ ہے ، کیونکہ معبود کے سامنے یہی خشوع اور خضوع کا سب سے اچھا طریقہ ہے،اسی طرح خاک پر سجدہ کرنا انسان کو اس کی اصل حقیقت کی یا دلاتا ہے کہ وہ اسی سے وجود میں آیا ہے ،کیا خدا نے نہیں فرمایا :

۳۲

( مِنْهَاْخَلَقْنٰاکُمْ وَفِیْهَاْنُعِیْدُکُمْ وَمِنْهَاْ نُخْرِجُکُمْ تَاْرَةًاُخْرٰی ) (۱)

اسی زمین سے ہم نے تمھیں پیدا کیا ہے ، اور اسی میں پلٹا کر لیجائیں گے ، اور پھر دوبارہ اسی سے نکالیں گے ۔

بیشک سجدہ خضوع کی آخری حد کا نام ہے ، اور خضوع کی آخری منزل مصلے(جائے نماز) فرش ،کپڑے ، اور قیمتی جواہر پر سجدہ کرکے حاصل نہیں ہوتی ، بلکہ بدن کی اشرف ترین جگہ یعنی پیشانی کو پست ترین جگہ یعنی مٹی پر رکھے ۔(۲)

البتہ اس مٹی کوپاک ہونا چاہیئے ، اسی طہارت کی تاکید کی بناپر شیعہ لوگ اپنے ساتھ مٹی کا پاک ڈھیلا (جیسے سجدہ گاہ وغیرہ) رکھتے ہیں، اور بعض او قات یہ مٹی تبرک کے طور پر مقدسجگہ سے لیتے ہیں ، جیسے زمین کربلا ، جس میں فرزند رسول حضرت امام حسین ـ شہید کردئے گئے ، جیسا کہ بعض صحابہ مکہ کے کنکڑاور پتھر وغیرہ کو سفر میں سجدے کیلئے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔(۳)

____________________

(۱)سورۂ طہ ۵۵.

(۲)دیکھئے : المصنف ؛ صنعانی.

(۳)دیکھئے : الیواقیت والجواہر؛ شعرانی انصاری مصری، جو دسویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں.

۳۳

البتہ شیعہ نہ اس پر اصرار کرتے ہیں، اور نہ اس چیز پرہمیشہ پابند رہتے ہیں ، بلکہ وہ ہر پاک مٹی اور پتھر کے اوپر بغیر کسی اشکال اور تردد کے سجدہ کرتے ہیں ، جیسے مسجد نبوی اور مسجد الحرام کے فرش اور وہاں پر لگے ہوئے پتھر ۔

اسی طرح شیعہ نماز میں اپنے داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر نہیں رکھتے ، کیونکہ رسول اسلام نے نماز میں یہ کام انجام نہیں دیا ،اور یہ بات قطعی نص صریح سے ثابت نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ سنی مالکی حضرات بھی یہ فعل انجام نہیں دیتے ہیں۔(۱)

۲۵:وضوکے بارے میں

۲۵۔ شیعہ فرقہ وضو میں دونوں ہاتھوں کو اوپرکی جانب سے کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھوتے ہیں، اوراس کے برخلاف نہیں کرتے ، کیونکہ یہ طریقہ انھوں نے اپنے ائمہ سے اخذ کیا ہے ، اور ائمہ (ع) نے اس کو رسول خدا سے اخذ کیا ہے ، اور اہل بیت اپنے جد کی باتوں کو دوسروں سے بہتر طریقے سے جانتے ہیںکہ ان کے جد یہ کام کیسے کیا کرتے تھے ، جیساکہ رسول خدا بھی اسی طرح انجام دیتے تھے ، اور انھوں نے آیہ ٔ وضو کی یہ تفسیر کی ہے کہ ''الیٰ'' آیہ ٔ وضو:(۲)

میں''مع'' کے معنی میں آیا ہے ، جیسا کہ شافعی صغیر نے اپنی کتاب نہایة المحتاج میںیہی ذکر کیا ہے اسی طرح یہ لوگ اپنے پیروں اور سر کو دھونے کے بجائے ان کا مسح

____________________

(۱)دیکھئے : صحیح البخاری ، صحیح مسلم ، سنن بیہقی

مالکیوں کے رائے سے آگاہی کیلئے دیکھئے : بدایة المجتہد ''مؤلفہ ابن رشد قرطبی.

(۲) سورہ ٔ مائدہ ، آیت ۶.

۳۴

کرتے ہیں ، جس کاسبب ہم نے اوپر ذکر کیا ہے،اور یہی طریقہ ابن عبا س کا تھا جیسا کہ انھوں نے کہا ہے :

''الوضوغسلتان،ومسحتان ''اومغسولان وممسوحان ''

وضو صرف دو چیزوں کا دھونا ہے اور دو ہی چیزوں کا مسح کرنا ہے۔

( دیکھئے : سنن ، مسانید ، تفسیر فخر رازی ، آیہ ٔ وضو کی تفسیر کے ذیل میں ).

۲۶:متعہ (وقتی شادی)کے بارے میں

۲۶۔ شیعہ کہتے ہیں کہ متعہ (وقتی شادی) کرنا نص قرآنی کی بناپر جائز ہے، کیونکہ خدا ارشاد فرماتا ہے :

( فَمَاْاسْتَمْتَعْتُمْ بِه مِنْهُنَّ فَآتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً ) (۱)

پس جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے ان کی اجرت انھیں بطور فریضہ دے دے۔

یہی وجہ ہے کہ تمام مسلمان رسول کے زمانے میں متعہ کرتے تھے، اور تمام صحابہ عہد خلافت حضرت عمر کے نصف دور تک متعہ کرتے تھے۔

کیونکہ متعہ بھی شرعی شادی ہے جو دائمی شادی کے مندرجہ ذیل احکام میں بالکل اسی کی طرح ہے :

الف: ۔متعہ میں بھی عورت شوہر دار نہ ہونا چاہیئے ، اور صیغوں کا اسی طرح پڑھنا ضروری ہے کہ ایجاب عورت کی جانب سے اور قبول مرد کی طرف سے ہو۔

ب: ۔دائمی شادی کی طرح متعہ میں بھی عورت کو کچھ مال دینا ضروری ہے جسے

____________________

(۱)سورہ ٔ نساء ، آیت ۲۴.

۳۵

دائمی شادی میں مہر کہتے ہیں ،اور متعہ میں اجر کہتے ہیں،جیساکہ قرآنی نص کے مطابق ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ۔

ج:۔ دائمی شادی کی طرح متعہ میں بھی مرد سے جدا ہونے کی صورت میں عورت پر عدہ رکھنا ضروری ہے۔

د:۔ متعہ میں بھی مفارقت کے بعد عورت پر دائمی عقد کی طرح عدہ ضروری ہے، اسی طرح متعہ سے وجود میں آنے والی اولاد بھی دائمی شادی کی طرح متعہ کرنے والے مرد( باپ) سے ملحق ہوگی ، نیز متعہ میں بھی دائمی عقد کی طرح عورت ایک مرد سے زیادہ مردوں سے ایک وقت میں متعہ نہیں کرسکتی ۔

ھ:۔ متعہ میں دائمی عقد کی طرح باپ اور اولاد نیز اولاد اور ماں کو ایک دوسرے کی میراث ملے گی ۔

متعہ ؛دائمی شادی سے حسب ذیل چند امور میں فرق کرتا :

الف:۔متعہ میں مدت معین ہوتی ہے ، لیکن دائمی شادی میں مدت معین نہیں ہوتی ۔

ب:۔ متعہ والی عورت کا نفقہ مرد پر واجب نہیں ہے،عورت مرد سے میراث لینے کا حق نہیں رکھتی ۔

ج:۔متعہ کرنے والے زوجہ و شوہرکے درمیان میراث نہیں ہوتی ۔

د: ۔ متعہ میں طلاق کی ضرورت نہیں ہوتی ، بلکہ مقررہ مدتتمام ہونے کے بعد یا طرفین کے اتفاق سے بقیہ مدت بخشنے کے بعد خود بخود جدائی ہوجائے گی ۔

اس طرح کی شادی کی تشریع کرنے کی چندحکمت ہیں:

اولاً:جائز اور مشروط طریقہ سے عورت و مرد کی جنسی احتیاج کا راستہ فراہم کرنا ہے ، تاکہ جو لوگ بعض اسباب کی بناپر دائمی شادی نہیں کر سکتے ، یا جو لوگ زوجہ کی وفات یا کسی اور سبب کی بنا پر عورت سے محروم ہوچکے ہیں ، یا عورت ان اسباب کی بناپر مرد سے محروم ہوگئی ہو ، اور یہ لوگ زندگی کو شرافت اور راحت کے ساتھ گزارنا چاہتے ہوں تو متعہ ان کیلئے آسان راستہ ہے ۔

ثانیاً:متعہ در اصلسماجی عظیم مشکلات کو حل کرنے کیلئے تشریع کیا گیا ہے تاکہ اسلامی معاشرہ اخلاقیبرائیوں میں مبتلا نہ ہوپائے ۔

کبھی اس متعہ کے ذریعہ انسان شادی سے پہلے جائز طریقہ سے ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان سکتا ہے ،( جو ممکن ہے آئندہ کیلئے مفید اور نتیجہ بخش ہو) اور اس کے بعد انسان فعل حرام میں مبتلا ہونیسے محفوظ رہتا ہے ، اسی طرح زنا ، جنسی دباؤ اور رسوائی یا دوسرے حرام امور میں مبتلا نہ ہو ، جیسے مشت زنی ،کیونکہ جو ایک زوجہ پر صبر نہیں کر سکتا ، یا اقتصادی او رمعیشتی مشکلات کی بنا پر،یا ایک سے زیادہ عورتوں کا خرچہ نہیں چلا سکتا وغیرہ وغیرہ اور وہ حرام کام بھی نہیں کرنا چاہتا تواس کے لئے یہ آسان راستہ ہے

۳۶

بہرحال یہ شادی بھی قرآن اور حدیث سے مستند ہے ، اور صحابہ نے اس پر ایک زمانے تک عمل کیا ہے ،چنانچہ اگر یہ شادی زنا شمار کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا، رسول اور صحابہ نے زنا کو حلال سمجھا ، اور اس کے انجام دینے والے ایک زمانے تک زنا کرتے رہے !!العیاذ باﷲ.

مزید یہ کہ اس حکم کا نسخ ہونا بھی معلوم نہیں ہے، کیونکہ اس کا نسخ ہونا کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے ، اور نہ کوئی قطعی و صریح دلیل اس پر موجود ہے۔(۱)

بہر حال شیعہ اما میہ اس شادی کو نص قرآن اور سنت رسول کی بناپر مباح سمجھتے ہیں، لیکن دائمی شادی اورتشکیل خانوادہ یعنی اپنا گھر آباد کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ، کیونکہ ایسی شادی قوی اور سالم معاشرے کی اساس اور بنیاد ہے ، اور موقت شادی کی طرف زیادہ رغبت نہیں رکھتے جسے شریعت میں متعہ کہتے ہیں ،اگرچہ (جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ) یہ حلال اور جائز ہے ۔

اور اس مقام پر یہ ذکر کردینا بھی مناسب ہے کہ شیعہ امامیہ( کتاب و سنت اور تعلیم ائمہ اہل بیت (ع) پر عمل پیرا ہونے کی بناپر)عورت کے حقوق کا احترام کرتے ہیں ،اور انہیںبڑی اہمیت دیتے ہیں ،اور عورت کے مقام و مرتبہ ، ان کے حقوق بالخصوص ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے پر ،ملکیت،نکاح،طلاق، گود لینے اور پرورش کرنے،دودھ پلانے جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ ، عبادات اور معاملات کیلئے نہایت اعلی احکام ، جو ان کے ائمہ سے نقل ہوئے ہیں وہ سب ان کی فقہ میں پائے جاتے ہیں.

____________________

(۱) اس سلسلے میں ان تمام احادیث کی طرف رجوع کیا جائے جو مختلف اسلامی مذاہب کی کتب صحاح وسنن اورمعتبر مسانید میں نقل کی گئی ہیں

۳۷

۲۷:گناہان کبیرہ اورصغیرہ کےبارے میں

۲۷۔ شیعہ جعفری فرقے زنا ، لواط، سود خوری ، نفس محترمہ کا قتل ، شراب نوشی ، جوا ، بلوہ وبغاوت ، مکروفریب بازی،دھوکہ دھڑی ،ذخیرہ اندوزی ،ناپ تول میں کمی کرنا ، غصب ، چوری ، خیانت ، کینہ و کھوٹ، رقص و غنا ، اتہام ،بہتان ، تہمت ، چغل خوری ، فساد پھیلانا ، مومن کواذیت دینا ، غیبت کرنا ،گالم گلوج ، کذب و بہتان اور ان کے علاوہ تمام گناہان کبیرہ و صغیرہ کو حرام جانتے ہیں، اور ہمیشہ ا ن گناہوں سے دور رہتے ہیں اور حتی الامکان ان سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،اور ان کو پھیلنے سے روکنے کیلئے ہر ممکن وسائل بروئے کار لاتے ہیں ، جیسے تصنیف و تالیف ، کتابوں کی نشر و اشاعت کرنا ، اخلاقی اور تربیتی رسالے ، مجالس ، اجتماع اور جلسے وغیرہ قائم کرنا ، یانماز جمعہ کے خطبے اور دوسری چیزیں وغیرہ

۲۸۔ اخلاقی فضائل اور مکارم اخلاق

۲۸۔ اخلاقی فضائل اور مکارم اخلاق کی نہایت اہمیت دیتے ہیں ،اور موعظہ وغیرہ سے عشق کرتے ہیں، اور ان کے سننے کیلئے دلچسپی سے حاضر ہوتے ہیں ، اور اس کے لئے اپنے گھروں ، مسجدوں ، پارکوں اور میدانوں میںجلسے ، مجالس اور اجتماعات مناسبت یا غیر مناسبت کے مواقع پر منعقد کرتے ہیں ، اسی بنا پر عظیم فوائد و مطالب پر مشتمل وہ دعائیں پڑھتے ہیں جو اس سلسلے میں رسول اسلام اور اہل بیت عصمت و طہارت سے نقل ہوئی ہیں، جیسے دعائے کمیل ، دعائے ابو حمزہ ، دعائے سمات ، دعائے جوشن کبیر ، دعائے مکارم اخلاق ، دعائے افتتاح ، ( جوماہ رمضان میں پڑھی جاتی ہے ) وہ ان ادعیہ اور رفیع مضامین پر مشتمل مناجات کو نہایت خشوع وخضوع اور ایک خاص گریہ و زاری کے ساتھ پڑھتے ہیں ، کیونکہ یہ دعائیں نفس کو پاکیزہ بناتی ہیں اوران کے ذریعہ انسان اﷲ سے قریب ہوتا ہے ۔

یہ تمام دعائیں موسوعةا لادعیہ( معجم ادعیہ) میں جمع کی گئی ہیں، اسی طرح یہ کتب ادعیہ میں بھی موجود ہیں جو ان کے درمیان رائج ہیں۔

۳۸

۲۹:جنت البقیع

۲۹۔ اور شیعہ نبی اکرم ، اہل بیت (ع) اور آپ کی پاک ذریت جو جنت البقیع اور مدینہ منورہ میں مدفون ہیں ان کی قبروں کا احترام کرتے ہیں ، جن میں امام حسن مجتبی ، امام زین العابدین ، امام محمد باقر ، اور امام جعفر صادق (ع)ہیں۔

اور نجف اشرف میں امام علی ـ کا مرقد ہے ، اور کربلا میں امام حسین ـ اور آپ کے بھائی ،آپ کی اولاد اورآپ کے چچا کی اولاد اور آپ کے ا صحاب و انصار( جو آپ کے ساتھ یوم عاشورہ شہید ہوئے تھے)کی قبریں ہیں۔

اور سامرہ میں امام ہادی ( علی نقی)، امام حسن عسکری کے روضے ہیں، اور کاظمین میں امام جواد اور امام کاظم کے مراقد جو سب کے سب عراق میں ہیں ،اور ایران کے شہر مشہدمیں امام رضا ـ کا مرقد ہے ، اور قم و شیراز( ایران) میں ان اماموں کے بیٹوں اور بیٹیوں کے مرقد ہیں ، اور دمشق (شام) میں کربلا کی شیر دل خاتون جناب سیدہ ٔزینب کا روضہ ہے ، اور قاہرہ مصر میں مرقد سیدہ نفیسہ ہے ( یہ بھی کریمہ ٔ اہل بیت ہیں) ۔

بہر حال ان تمام روضوں اورمقبروں کااحترام کرنا رسول کے پاس و لحاظ کی بنا پرہے ، کیونکہ ہر شخص اپنی اولاد میں باقی اور محفوظ رہتا ہے ، اور کسی کی اولاد کا اکرام کرنا خوداس کا احترام کرنے کے برابر ہے ، جیساکہ قرآن کریم نے آل عمران ، آل یٰسین ، آل ابراہیم اور آل یعقوب ، کی مدح فرمائی ہے ، اور ان کی قدر و منزلت کو رفیع قرار دیا ہے حالانکہ ان میں سے بعض انبیاء بھی نہیں تھے۔

۳۹

( ذُرِّیَّةً بَعْضُهَاْ مِنْ بَعْضٍ ) (۱)

یہ ایک نسل ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے ۔

اسی لئے قرآن مجید نے ان پر اعتراض نہیں کیا، جن لوگوں نے یہ کہا تھا :

( لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْهِمْ مَسْجِداً ) (۲)

انھوں نے کہا کہ ہم ان پر مسجد بنائیں گے ۔

یعنی ہم اصحاف کہف کے مراقد پر مسجد بنائیں گے ، تاکہ ان کے پاس خدا کی عبادت کی جائے ،اور اﷲ نے ان کے عمل کو شرک نہیں کہا ، کیونکہ مسلمان مؤمن صرف اﷲ ہی کیلئے رکوع، سجدہ اور عبادت کرتا ہے ،اور وہ ان پاک ومطہر اولیاء کی ضریح کے قریب صرف اس لئے جاتاہے کیونکہ ان اولیاء کی وجہ سے وہ مکان مقدس ہوگیا ہے ،جیسے ابراہیم ـ کی بناپر مقام ابراہیم کو قداست و کرامت حاصل ہے ،

____________________

(۱)آل عمران ، آیت ۳۴.

(۲)کہف ، آیت ۲۱.

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58