یہ حقیقت ہے

یہ حقیقت ہے0%

یہ حقیقت ہے مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 58

یہ حقیقت ہے

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین آقای جعفر الہادی
زمرہ جات:

صفحے: 58
مشاہدے: 23490
ڈاؤنلوڈ: 1996

تبصرے:

یہ حقیقت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 58 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23490 / ڈاؤنلوڈ: 1996
سائز سائز سائز
یہ حقیقت ہے

یہ حقیقت ہے

مؤلف:
اردو

۱۳:تسلسل امامت کا عقیدہ

۱۳۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امت کو سیدھی راہ پر چلا نے والے معصوم قائد اور ولی کی ضرورت اس بات کی مقتضی اور طلبگار ہے کہ رسول کے بعد امامت اور خلافت کا منصب صرف علی پر ہی نہ ٹھہر جائے ، بلکہ قیادت کے اس سلسلے کو طویل مدت تک قائم رہنا ضروری ہے، تاکہ اسلام کی جڑیں مضبوط اور اس کی بنیادیں محفوظ ہوجائیں ، اور جو خطرات اس کے اصول اور قواعد ہی کو نہیں بلکہ ہر الٰہی عقیدے ، اور خدائی نظام کے سامنے منھ کھولے کھڑے ہیں ان سے اس کو پچایا جا سکے اور اس کے لئے تمام ائمہ(مختلف و متعدد دور میں امت کی رہبری کرکے اپنی سیرت ، تجربات اور مہارت کا) ایسا عملی نمونہ اور پروگرام پیش کر سکیںجس کی مدد سے تمام حالات میں بعد میں چلتی رہی۔

۱۴:بارہ اماموں کا عقیدہ

۱۴۔ شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی اکرم حضرت محمد بن عبد اﷲ نے اسی سبب اور اسی بلند پایہ حکمت کی بنا پر اﷲ کے حکم کی خاطر علی ـ کے بعد گیارہ امام معین فرمائے،لہٰذا حضرت علی ـ کو ملاکر کل بارہ امام ہیں ، جیساکہ ان کی تعداد کے بارے میں نبی اکرم کی حدیثوں میں وضاحت کے علاوہ تذکرہ بھی ہے کہ ان سب کا تعلق قبیلہ قریش سے ہوگاجیساکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مختلف الفاظ کے ساتھ اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے- البتہ ان کے اسماء اور خصوصیات کا تذکرہ نہیں ہے- :

''عن رسول اﷲ ؛ان الدین لایزال ماضیاًقائماًعزیزاًمنیعاًماکان فیهم اثناعشرامیراًاوخلیفةً،کلهم من قریش''

بخاری اور مسلم دونوں نے رسول خدا سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : بیشک دین اسلام اس وقت تک غالب، قائم اور مضبوط رہے گا جب تک اس میں بارہ امیر یا بارہ خلیفہ رہیں گے ، یہ سب قریش سے ہوں گے ۔

( بعض نسخوں میں بنی ہاشم بھی آیا ہے ،اور کتب صحاح ستہ کے علاوہ دوسری کتب فضائل و مناقب و شعر و ادب میں ان حضرات کے اسماء بھی مذکور ہیں .)

یہ احادیث اگر چہ ائمہ اثنا عشر( جوکہ علی علیہ السلام اور اولاد علی علیہم السلام ہیں ) کے بارے میں پر نص نہیں ہیں لیکن یہ تعداد اسی پر منطبق ہوتی ہے جو شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں ، اور اس کی کوئی تفسیر نہیں ہوسکتی مگر صرف وہی جو شیعہ کہتے ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) : خلفاء النبی؛ مؤلفہ حائری بحرانی

۲۱

۱۵:ائمہ اثنا عشر( بارہ اماموں) سے مراد

۱۵۔ شیعوں کا جعفری فرقہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ائمہ اثنا عشر( بارہ اماموں) سے مراد

حضرت علی ابن ابیطالب جو رسول کے چچا زاد بھائی اور آپ کی بیٹی فاطمہ زہرا کے شوہر ہیں۔

اور حسن اور حسین ہیں( جو علی و فاطمہ کے بیٹے اورسبط رسول اسلام ہیں)۔

زین العابدین علی بن الحسین (السجاد)۔

اس کے بعد :

امام محمد بن علی ( الباقر)

امام جعفربن محمد (الصادق)

امام موسی بن جعفر(الکاظم)

امام علی بن موسی(الرضا)

امام محمدبن علی (الجواد التقی)

امام علی بن محمد (الہادی)

امام حسن بن علی ( العسکری)

۲۲

امام محمد بن الحسن ( المہدی الموعود المنتظر) (ع)ہیں۔(۱)

____________________

(۱) بالتحقیق عرب و عجم کے( غیر شیعہ) ممتاز شعراء نے ایسے مفصل قصیدے کہے ہیں جن میں بارہ اماموں کے مکمل نام مذکور ہیں،جیسے ان شعراء کے: حصکفی، ابن طولون ، فضل بن روز بہان ، جامی ، عطار نیشاپوری ، مولوی کے قصیدے ، یہ سب مذہب امام ابوحنفیہ اور امام شافعی وغیرہ کے پیرو ہیں،یہاں ہم نمونہ کے طور پر ان میں سے دو قصیدے ذکر کررہے ہیں : پہلا قصیدہ جناب حصکفی حنفی کا ہے جن کا شمار چھٹی صدی ہجری کے علماء میں ہوتا ہے ، کہتے ہیں :

حیدرةوالحسنان بعده ::ثم علی وابنه محمداول( امام علی) حیدر اور اس کے بعد ان کے بیٹے امام حسن اور حسین ہیں .وجعفرالصادق وابن جعفر::موسی،ویتلو هعلی السید

اس کے بعد جعفر صادق اور ان کے بیٹے امام موسی کاظم ہیں ،اور ان کے بعد سید و سردار علی ہیںاعنی الرضاثم ابنه محمد :: ثم علی وابنه المسدد

جنھیں اما م رضا کے نام سے جانا جاتا ہے ،آپ کے بعد آپ کے فرزند محمد (تقی) پھر علی ،اور ان کے راست گو بیٹےالحسن التالی ویتلوتلوه :: محمد بن الحسن المعتقد

یعنی حسن ( عسکری ) ہیں ،اور ان کے فوراً بعد آپ کے بیٹے امام محمد ( مہدی آخر الزمان ) ہیں، انہی حضرات کے بارے میں عقیدہ رکھتی ہے

قوم هم ائمتی وسادتی :: اسمائهم مسرودلاتطردایک قوم؛یہی میرے امام اور سردار ہیں ، جن کے اسماء باہم ایسیپیوستہ ہیں جن میں سے کسی ایک کوبھی جھوڑا نہیں جا سکتا

هم حجج اﷲ علی عباده :: وهم الیه منهج ومقصدوہ اﷲ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں ، اوروہ اس تک پہنچنے کا راستہ اور مقصد ہیں .

هم النهارصوم لربهم ::وفی الدیاجی رکع وسجدوہ دنوں میں اپنے رب کیلئے روزے رکھتے ہیں ،رات کی تاریکیوں میں رکوع اور سجدے میں مشغول رہتے ہیں.

دوسرا قصیدہ جناب شمس الدین محمد بن طولون کا ہے جن کا دسویں صدی ہجری کے علماء میں شمار ہوتا ہے ، کہتے ہیں :

علیک با لائمة الاثنی عشر:: من آل البیت المصطفی خیرالبشرتم بارہ اماموں سے وابستہ رہو ، جو کہ مصطفے خیر البشر کی آل ہیں .

ابو تراب حسن حسین :: وبغض زین العابدین شینابو تراب (علی ) حسن ، حسین اور زین العابدین کا بغض برا ہے.

محمد الباقرکم علم دری :: والصادق ادع جعفراً بین الوریمحمد باقر جنھوں نے علم کے کتنے ہی باب کوکھولے، اورصادق ہیں جنھیں جعفر کے نام سے دنیا میں پکارو

موسی هوالکاظم وابنه علی :: لقبه بالرضا وقدره علیموسی جو کہ کاظم ہیں ، اور ان کے بیٹے علی جن کا لقب رضا ہے ، اور ان کی قدر و منزلت بلند ہے

محمد التقی قلبه معمور٭علی النقی دره منثورمحمد تقی ہیں جن کا دل اسرار الٰہی سے معمور ہے ، اور علی نقی ہیں جن کی خوبیاں چاروں طرف پھیلی ہوئیں ہیں والعسکری الحسن المط هر :: محمد الم هدی سوف یظ هر اور حسن عسکری پاک و پاکیزہ ہیں ، اور امام محمدمہدی ہیں جو عنقریب ظاہر ہوں گے دیکھئے : کتاب '' الائمة الاثنا عشر '' مؤلفہ مؤرخ دمشق شمس الدین محمد ابن طولون متوفی، ۹۵۳ ھ ، تحقیق: ڈاکٹر صلاح الدین المنجد، مطبوعہ: بیروت ، لبنان

۲۳

یہی وہ اہل بیت ہیں جنھیں رسول خدا نے بحکم خدا، امت اسلام کاقائد قرار دیا،کیونکہ یہ تمام خطاؤں اور گناہوں سے پاک اور معصوم ہیں ، یہی حضرات اپنے جدکے وسیع علم کے وارث ہیں، ان کی مودت اورپیروی کا حکم دیا گیاہے ، جیساکہ خدا نے ارشاد فرمایا :

( قُلْ لَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراًاِلَّاالْمَوَدَّةَ فیِ الْقُرْبَی ) (۱)

اے رسول !آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سیمحبت کرو ۔

( یٰااَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُوْااتَّقُوْااﷲَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ ) (۲)

اے ایماندارو! تقوی اختیار کروا ور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ۔

دیکھئے : کتب حدیث و تفسیر، اور فضائل میں فریقین کے نزدیک جو صحیح اوردوسری کتابیں ہیں

۱۶:عصمت کا عقیدہ

۱۶۔ شیعہ جعفری فرقہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ ائمہ اطہار وہ ہیں جن کے دامن پر تاریخ نہ ان کے کوئی لغزش لکھ سکی اور نہ کسی خطا کا دھبہ ثابت کر پائی ، نہ قول میں اور نہ عمل میں، انھوں نے اپنے وافر علوم کے ذریعہ امت مسلمہ کی خدمت کی ہے ، اور اپنی عمیق معرفت، سالم فکر کے ذریعہ ؛ عقیدہ و شریعت ، اخلاق و آداب ، تفسیرو تاریخ اور مستقبل کے لائحہ عمل کو صحیح جہت عطا کی ہے ، اور ہر میدان میں اسلامی ثقافت کو محفوظ کردیا ہیجیسے انھوں نے - اپنے قول اور عمل کے ذریعہ - چندایسے منفردا ور ممتاز ، نیک سیرت

____________________

(۱)سورہ ٔشوری ، آیت ۲۳.

(۲)سورہ ٔتوبہ ، آیت ۱۱۹.

۲۴

اورپاک کردارمردوںاور عورتوں کی تربیت کی ہے ، جن کے فضل و علم ، اور حسن سیرت کے سب لوگ قائل ہیں۔

اور شیعہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اگرچہ ( یہ بہت افسوس کا مقام ہے کہ ) امت اسلامیہ نے ان کو سیاسی قیادت سے دور رکھا، لیکن انھوں نے پھر بھی عقائد کے اصولوں اور شریعت کے قواعد و احکام کی حفاظت کرکے اپنی فکری اور اجتماعی ذمہ داری کو بہترین طریقہ سے ادا کی ہے ۔

چنانچہ ملت مسلمہ اگر انھیں سیاسی قیادت کا موقع دیتی جسے رسول اسلام نے خدا کے حکم سے ان کو سونپا تھا ، تو یقیناً اسلامی امت سعادت و عزت اور عظمت کاملہ حاصل کرتی،اور یہ امت متحد و متفق ، متوحد رہتی،اور کسی طرح کا شقاق ، اختلاف ، نزاع ، لڑائی ، جھگڑا ، کشت و کشتار اور ذلت و رسوائی نہ دیکھنا پڑتی ۔

اس سلسلے میں کتاب''الامام الصادق والمذاہب الاربعة ''کی تین جلدی، اور دوسری کتابیں دیکھئے۔

۱۷:اطاعت اہلبیت علیہم السلام

۱۷۔ شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مذکور ہ وجہ اور عقائد کی کتابوں میں پائی جانے والی نقلی و عقلی کثیر ادلہ کی بناپرکہ اہل بیت کی اتباع واجب ہے ، اور ان کے راستے اور طریقے کو اپنانا ضروری ہے، کیونکہ انھیں کا طریقہ وہ طریقہ ہے جسے امت کیلئے رسول نے معین فرما یا ، اور ان سے تمسک کرنے کا حدیث ثقلین (جو متواتر ہے )حکم دیتی ہے ،جیساکہ رسول خدا نے ارشاد فرمایا ہے :

''انی تارک فیکم الثقلین کتاب اﷲ وعترتی اهل بیتی ماان تمسکتم بهما لن تضلواابداً ''

جسے صحیح مسلم اور دیگر دسیوں مسلم علماء و محدثین نے ہر صدی میں نقل کیا ہے ،دیکھئے : رسالہ ٔ حدیث ثقلین ؛(مؤلفہ وشنوی )جس کی تصدیق ازہر شریف نے۳۰ سال قبل کی تھی۔

اور گزشتہ انبیاء کی حیات میں بھی خلیفہ اور وصی بنانے کا یہی معمول تھا ۔

دیکھئے : اثبات الوصیة؛ مؤلفہ مسعودی .ا و رفریقین کی دیگر کتب احادیث و تفسیر و تاریخ

۲۵

۱۸:شیعہ سب و شتم ، الزام و اتہام کا مخالف

۱۸۔جعفری شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امت اسلامیہ(اﷲ اس کو عزیز رکھے) پر یہ واجب ہے کہ وہ ان امور میں تحقیق اور بحث و مباحثہ کرے لیکن کسی پر سب و شتم ، الزام و اتہام ،اور کسی کو ڈرائے اور دھمکائے بغیر، اور تمام اسلامی فرقوں کے علماء ومفکرین پر لازم ہے کہ وہ علمی اجتماع میں شرکت کریں، اور صفاء و اخلاص کے ساتھ گفتگو کریں،اور اپنے شیعہ مسلمان بھائیوں کے ان نظریات پر غور و خوض کریں جن پروہ قرآن،صحیح متواتر سنت، تاریخی محاسبہ (دلائل)اور رسول او ر آنحضرت کے بعدکے سیاسی و سماجی پس منظر کے مطابق ، استدلال پیش کرتے ہیں۔

۱۹:اصحاب پیغمبر (ص)کے بارے میں

۱۹۔ اور شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صحابہ اور جو لوگ رسول کے ساتھ تھے چاہے وہ عورت ہوں یا مرد، انھوں نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے، نشر اسلام کی راہ میں اپنی جان و مال کی قربانی دی ہے ، لہٰذاتمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کا احترام کریں، اور ان کی گرانقدر خدمات کا اعتراف کریں۔

لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ تمام صحابہ (بطور اطلاق )عادل تھے، اور ان کے بعض اعمال یا نظریات ،تنقید او راعتراض سے مافوق ہیں،کیونکہ صحابہ بھی بشر ہیں اور ان سے بھی غلطی اور بھول چوک ہوتی ہے ، چنانچہ تاریخ میں یہ بات موجود ہے کہ ان میں سے بعض حضرات راہ مستقیم سے دور ہوگئے تھے ، یہاں تک کہ کچھ لوگ خود آنحضرت کے دور میں ہی آپ کے راستے سے دور ہوگئے ، بلکہ قرآن مجید نے اپنی بعض آیات اور سوروں میں جیسے سورہ ٔ منافقین ، احزاب ، حجرات ، تحریم ،فتح ، محمد اور توبہ میں اس بات کی تصریح کی ہے ۔

۲۶

لہٰذا ان بعض صحابہ حضرات کے اعمال پر جائز اور مہذب انداز میں تنقید کرنا ہرگز کفر کا سبب نہیں قرار پاسکتا، کیونکہ کفر و ایمان کا معیار واضح ہے ، اور ان دونوں کا محور ومرکز روشن ہے ، اور وہ توحید و رسالت اور ضروریات دین جیسے وجوب نماز ، روزہ ، حج اورحرمت خمرو میسر جیسی چیزوں کو ماننا ، اور اس کا انکار کرنا ہے ،البتہ قلم اور زبان کو بد تمیزی اور بھونڈی باتوں سے محفوظ رکھنا ضروری ہے ، کیونکہ یہ باتیں ایک مہذب مسلمان جو سیرت خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی پر عمل پیرا ہے اس کیلئے زیب نہیں دیتی ، بہرحال اس کے باوجود اکثر صحابہ صالح اور مصلح تھے ، جولائق احترام اور مستحق اکرام ہیں۔

لیکن اس کے باوجودصحابہ کو جرح وتعدیل ( عادل یاغیر عادل ثابت کرنے ) کے قواعدپراس لئے تولا جاتا ہے تاکہ صحیح اور قابل اعتماد سنت سے واقفیت حاصل ہوجائے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ رسول خدا کے جانے کے بعد آپ کی طرف بہت زیادہ کذب اور بہتان منسوب کیا گیا، (جیساکہ یہ بات تمام لوگ جانتے ہیںاور خود رسول نے اس بات کے واقع ہونے کی خبر بھی دی تھی )اور اس بات کے بارے میں دونوں فریق کے علماء حضرات نے اہم کتابیں لکھی ہیں ، جیسے سیوطی اور ابن جوزی وغیرہ،تاکہ وہ احادیث جو واقعاً رسول سے صادر ہوئیں ہیں ان کے درمیان اور جو حدیثیں گڑھ کر آپ کی طرف منسوب کی گئی ہیں ان کے د رمیان امتیاز پیدا ہوسکے ۔

۲۷

۲۰۔ شیعہ؛ امام مہدی منتظرکے وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں

۲۰۔ شیعہ؛ امام مہدی منتظرکے وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں ،کیونکہ اس بارے میں کثیر روایات رسول اسلام سے نقل ہوئیں ہیںکہ وہ اولاد فاطمہ سے ہوںگے ، اور امام حسین ـکے نویں فرزند ہیں، کیونکہ امام حسین ـ کے آٹھویں فرزند (آٹھویں پشت میں) امام حسن عسکری ہیں جن کی وفات ۲۶۰ھ میں ہوئی، اور آپ کو خدا نے صرف ایک بیٹا عنایت کیا تھا جس کا نام محمد تھا چنانچہ آپ ہی امام مہدی ہیںجن کی کنیت ابو القاسم ہے۔(۱)

____________________

(۱)عامہ کی صحاح ستہ اور ان کے علاوہ دوسری کتابوں میں موجود ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا :

''سیظهرفی آخرالزمان رجل من ذریتی اسمه اسمی، وکنیته کنیتی،یملأ الارض عدلاًوقسطاً کماملئت ظلماًوجوراً''

آخری زمانے میں میری ذریت سے ایک شخص ظاہر ہوگا جس کا نام میرا نام ہوگا ، اور اس کی کنیت میری کنیت ہوگی ، وہ زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی

۲۸

آپ کو مؤثق مسلمانوں نے دیکھا ہے، اور آپ کی ولادت ، خصوصیات اور امامت نیز آپ کی امامت پرآپ کے والدکی طرف سے نص کی خبر دی ہے ، آپ اپنی ولادت کے پانچ سال بعد لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگئے ، کیونکہ دشمنوں نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا تھا، لیکن خدا وند متعال نے آپ کو اس لئے ذخیرہ کرکے رکھا ہے تاکہ آخری زمانے میں عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت قائم کریں ، اور زمین کو ظلم و فساد سے پاک کر دیں بعد اس کے کہ وہ اس سے بھری ہوئی ہوگی ۔

اور یہ کوئی عجیب و غریب بات نہیں کہ آ پ کی عمر اس قدر طولانی کیسیہوگئی؟ کیونکہ قرآن مجید ا س وقت بھی حضرت عیسی ـ کے زندہ ہونے کی خبر د ے رہا ہے ، جبکہ ان کی ولادت کو اس وقت ۲۰۰۵ سال ہونے چاہتے ہیں، اسی طرح حضرت نوح اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال زندہ رہے اور اپنی قوم کو اﷲ کی طرف دعوت دیتے رہے، اور حضرت خضر نبی ـ بھی ابھی تک موجودہیں ،کیونکہ اﷲ تعالی ہر شۓ پر قادر ہے ، اس کی مشیت پوری ہونے والی ہے، جسے کوئی ٹال نہیں سکتا ، کیا اس نے حضرت یونس ـ کے بارے میں یہ نہیں فرمایا ہے:

( فَلَوْلَا اَنَّهُ کَاْ نَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ٭ لَلَبِثَ فِی بَطْنِه اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ) (۱)

پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے ، تو روز قیامت تک اسی کے شکم میں رہ جاتے ۔

چنانچہ اہل سنت کے اکثربزرگ اور جلیل القدر علماء امام مہدی(عج) کی ولادت اور ان کے وجود کے قائل ہیں، اور انھوںنے ان کے اوصاف و والدین کے نام کا ذکر کیا ہے ، مثلاً:

الف۔ عبد المؤمن شبلنجی اپنی کتاب'' نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار '' میں۔

ب۔ ابن حجر ہیثمی مکی شافعی نے اپنی کتاب'' الصواعق المحرقة'' میں کہتے ہیں : ابو القاسم محمد الحجة کی عمر ان کے والد کی وفات کے وقت پانچ سال کی تھی لیکن خدا نے اسی سن میں آپ کوحکمت عطا کی اور ان کا نام قائم منتظر ہے ۔

ج۔ قندوزی حنفی بلخی نے اپنی کتاب ''ینابیع المؤدة '' میں اس کا تذکرہ کیا ہے جو دورخلافت عثمانیہ ترکی میں( استانہ) سے شائع ہوئی تھی۔

د۔سید محمد صدیق حسن قنوجی بخاری نے اپنی کتاب '' الاذاعة لما کان وما یکون بین یدی الساعة ''میں اسے لکھا ہے ۔

یہ ہیں متقدمین علماء کے اقوال ، اور متاخرین میں سے ڈاکٹر مصطفی رافعی نے اپنی

____________________

(۱)سورۂ صافات، آیت۳ ۱۴، ۱۴۴.

۲۹

کتاب '' اسلامنا '' میں لکھا ہے،چنانچہ جب انھوں نے مسئلہ ٔ ولادت کی بحث کی ہے تو بڑی طول و تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے، اور اس بارے میں ان تمام ا عتراضات اور شبہات کے جواب دئے ہیںجو اس مقام پر ذکر کئے جاتے ہیں ۔

۲۱:فروع دین کے بارے میں

۲۱۔ جعفری فرقہ والے لوگ نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں ، اوراپنے مال میں سے زکات و خمس ادا کرتے ہیں ، اور مکۂ مکرمہ جاکر ایک بار بطور واجب حج بیت اﷲ الحرام کرتے ہیں، اور اس کے علاوہ بھی مستحب عمرہ و حج ادا کرتے رہتے ہیں ، اورنیکیوں کی طرف دعوت دیتے ہیں،اور برائیوں سے روکتے ہیں، اور اولیائے خدا و رسول سے محبت کرتے ہیں، اور خدا و رسول کے دشمنوں سے دشمنی کرتے ہیں ،اور اﷲ کی راہ میں ہر اس کافر و مشرک سے جہاد کرتے ہیں جو اسلام کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہو،اور ہر اس حاکم سے جنگ کرتے ہیں، جو قہر و غلبہ کے ذریعہ امت مسلمہ پر مسلط ہوگیا ہے، اور دین اسلام(جوکہ دین حنیف ہے)کی موافقت کرتے ہوئے تمام اقتصادی ،سماجی اور گھریلو مشغلوں اور سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں ، جیسے تجارت ، اجارہ ، نکاح ، طلاق ،میراث ، تربیت و پرورش، رضاعت اور حجاب وغیرہ ۔

اور ان سب چیزوں کے احکام کو اجتہاد کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں، جنھیں متقی اور پرہیزگار علماء ،کتاب،صحیح سنت اوراہل بیت(ع)سے ثابت شدہ احادیث اور عقل و اجماع کے ذریعہ استنباط کرتے ہیں ۔

۲۲:نماز اور اسے اوقات کے بارے میں

۲۲۔ اور شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام یومیہ فرائض کے اوقات معین ہیں، اور یومیہ نماز کے لئے پانچ وقت ہیں : فجر، ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء ، اور افضل یہ ہے کہ ہر نماز کو اس کے مخصوص وقت میں انجام دیا جائے ، مگر یہ کہ نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو جمع کرکے پڑھاجا سکتاہے ،کیونکہ رسول خدا نے کسی عذر ، مرض، بارش اور سفر کے بغیر ان نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا تھا ، جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں نقل ہوا ہے، اور یہ امت مسلمہ کی سہولت کیلئے کیا گیا ہے خاص طور سے ہمارے زمانے میں ایک فطری اور عام بات ہے ۔

۳۰

۲۳:آذان کے بارے میں

۲۳۔ شیعہ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح اذان دیتے ہیں ، البتہ جب جملۂ '' حی علی الفلاح''آ تا ہے تو اس کے بعد جملۂ ''حی علی خیر العمل ''بھی پڑھتے ہیں، کیونکہ رسول خدا کے دور میں یہ حصہ اذان میں کہا جاتا تھا ، لیکن بعد میں حضرت عمر نے اپنے اجتہاد کی بناپر اس کی یہ علت بتاتے ہوئے کہ چونکہ اس سے مسلمان جہاد کرنے سے رک جائیں گے اس کو اذان سے حذف کر دیا ، ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اس سے یہ سمجھ بیٹھیں گے کہ نماز ہی بہترین عمل ہے،لہٰذا جہاد کی طرف پھر کوئی رغبت نہیں کریگا، اس لئے اسے اذان سے حذف کردیا جائے تو بہتر ہے -جیساکہ علامہ قوشچی اشعری نے اپنی کتاب'' شرح تجریدالاعتقاد '' میںاور المصنف میں، کندی، کنز العمال میں، متقی ہندی.وغیرہ نے اسے نقل کیاہے-اس کے علاوہ حضرت عمرنے ایک اورجملہ کااضافہ کیاہے: ''الصلاةخیرمن النوم ''جبکہ یہ جملہ رسول اسلام کے زمانہ میں نہیں تھا ۔ (دیکھئے : کتب حدیث و تاریخ) .جبکہ عبادت اور اس کے مقدَّمات اسلام میں شارع کے امر اور اس کے اذن پر موقوف ہیں ، یعنی شریعت میں ہر عمل کیلئے قرآن اور سنت سے نص خاص یا نص عام موجود ہو، اور اگر کسی عمل کی نص نہ ہو تو وہ مردود اور بدعت ہے،جسے اسکے انجام دینے والے کے منہ پر مار دیا جائے گا ، کیونکہ عبادت میں کسی چیز کی زیادتی یا کمی ممکن نہیں ہے ، بلکہ تمام شرعی امور میں کسی کی ذاتی رائے کا کوئی دخل نہیں ہے ،البتہ شیعہ حضرات جو ''اشہدان محمداًرسول اﷲ'' کے بعد '' اشہد ان علیاً ولی اﷲ'' کہتے ہیں تو یہ ان روایات کی بنا پر ہے جو رسول خدا اور اہل بیت (ع)سے نقل کی گئی ہیں ، اور ان میں یہ تصریح موجود ہے کہ محمد رسول اﷲ کہیں ذکر نہیں ہوا ،یا باب جنت پر نہیں لکھا گیا مگر اس کے ساتھ علی ولی اﷲ ضرور تھا، اور یہ جملہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ شیعہ علی کو نبی بھی نہیں سمجھتے چہ جائیکہ وہ آپ کی ربوبیت اور الوہیت کا(العیاذ باﷲ) عقیدہ رکھتے ہوں ،لہٰذاتوحید و رسالت کی شہادت کے بعد تیسری شہادت( علی ولی اﷲ) کہنا جائز ہے ، اس امید میں کہ یہ بھی مطلوب پرور دگار ہو، البتہ اس کو جزء اور وجوب کے قصد سے انجام نہ دے، یہی شیعوں کے اکثر علماء کا فتوی ہے۔

پس یہ زیادتی بغیر قصد جزئیت کے انجام دی جائے گی ، جیسا کہ ہم نے کہا ہے،لہٰذا یہ ایسا نہیں کہ شرع میں اس کی کوئی اصل نہ ہو ،اس لئے یہ بدعت ہے۔

۳۱

۲۴:سجدہ گاہ کے بارے میں

۲۴۔ اور شیعہ زمین اورمٹی یا کنکڑ اور پتھریا زمین کے اجزاء اور نباتات وغیرہ پرسجدہ کرتے ہیں، اور دری ،قالین یا چادر اور کپڑے اور کھائی جانے والی چیزوںاور زیورات پر سجدہ نہیں ہوتا، کیونکہ اس سلسلے میں کثیر تعداد میں شیعہ و سنی کتابوں میں روایتیں وارد ہوئیں ہیں ،کیونکہ رسول خدا کاطریقہ یہ تھا کہ آپ مٹی اور زمین پر سجدہ کرتے تھے ، بلکہ آپ مسلمانوں کو حکم بھی یہی دیتے تھے ، چنانچہ ایک روز جناب بلال نے اپنے عمامے کی کورپر جلا دینے والی گرمی سے بچنے کی بناپر سجدہ کیا ، تورسول اسلام نے بلال کے عمامہ کو پیشانی سے ا لگ کردیا، اور فرمایا:

''ترِّب جبینک یا بلال ''

اے بلال! اپنی پیشانی کو زمین پر رکھو؟

اسی طرح کی روایت صہیب اور رباح کے بارے میں نقل کی گئی ہے ، جب فرمایا :

'' ترب وجهک یا صهیب ! و ترب وجهک یا رباح ''

اے صہیب اور اے رباح ! اپنی پیشانی کو زمین پر رکھو؟

دیکھئے: صحیح بخاری و کنزالعمال یاالمصنف؛ مؤلفہ عبد الرزاق الصنعانی، یا السجود علی الارض؛ مؤلفہ کاشف الغطاء

اور نبی اکرم نے اس جگہ یہ ارشاد فرمایا :(جیساکہ صحیح بخاری وغیرہ میں آیاہے۔)

''جعلت لی الارض مسجداًوطهوراً''

میرے لئے زمین کو مسجد اور طاہر و مطہر بنایا گیا ہے ۔

اور پھر مٹی پر سجدہ کرنا اور پیشانی کو زمین پر رکھنا یہی خدا کے سامنے سجدہ کرنے کا سب سے مناسب طریقہ ہے ، کیونکہ معبود کے سامنے یہی خشوع اور خضوع کا سب سے اچھا طریقہ ہے،اسی طرح خاک پر سجدہ کرنا انسان کو اس کی اصل حقیقت کی یا دلاتا ہے کہ وہ اسی سے وجود میں آیا ہے ،کیا خدا نے نہیں فرمایا :

۳۲

( مِنْهَاْخَلَقْنٰاکُمْ وَفِیْهَاْنُعِیْدُکُمْ وَمِنْهَاْ نُخْرِجُکُمْ تَاْرَةًاُخْرٰی ) (۱)

اسی زمین سے ہم نے تمھیں پیدا کیا ہے ، اور اسی میں پلٹا کر لیجائیں گے ، اور پھر دوبارہ اسی سے نکالیں گے ۔

بیشک سجدہ خضوع کی آخری حد کا نام ہے ، اور خضوع کی آخری منزل مصلے(جائے نماز) فرش ،کپڑے ، اور قیمتی جواہر پر سجدہ کرکے حاصل نہیں ہوتی ، بلکہ بدن کی اشرف ترین جگہ یعنی پیشانی کو پست ترین جگہ یعنی مٹی پر رکھے ۔(۲)

البتہ اس مٹی کوپاک ہونا چاہیئے ، اسی طہارت کی تاکید کی بناپر شیعہ لوگ اپنے ساتھ مٹی کا پاک ڈھیلا (جیسے سجدہ گاہ وغیرہ) رکھتے ہیں، اور بعض او قات یہ مٹی تبرک کے طور پر مقدسجگہ سے لیتے ہیں ، جیسے زمین کربلا ، جس میں فرزند رسول حضرت امام حسین ـ شہید کردئے گئے ، جیسا کہ بعض صحابہ مکہ کے کنکڑاور پتھر وغیرہ کو سفر میں سجدے کیلئے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔(۳)

____________________

(۱)سورۂ طہ ۵۵.

(۲)دیکھئے : المصنف ؛ صنعانی.

(۳)دیکھئے : الیواقیت والجواہر؛ شعرانی انصاری مصری، جو دسویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں.

۳۳

البتہ شیعہ نہ اس پر اصرار کرتے ہیں، اور نہ اس چیز پرہمیشہ پابند رہتے ہیں ، بلکہ وہ ہر پاک مٹی اور پتھر کے اوپر بغیر کسی اشکال اور تردد کے سجدہ کرتے ہیں ، جیسے مسجد نبوی اور مسجد الحرام کے فرش اور وہاں پر لگے ہوئے پتھر ۔

اسی طرح شیعہ نماز میں اپنے داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر نہیں رکھتے ، کیونکہ رسول اسلام نے نماز میں یہ کام انجام نہیں دیا ،اور یہ بات قطعی نص صریح سے ثابت نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ سنی مالکی حضرات بھی یہ فعل انجام نہیں دیتے ہیں۔(۱)

۲۵:وضوکے بارے میں

۲۵۔ شیعہ فرقہ وضو میں دونوں ہاتھوں کو اوپرکی جانب سے کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھوتے ہیں، اوراس کے برخلاف نہیں کرتے ، کیونکہ یہ طریقہ انھوں نے اپنے ائمہ سے اخذ کیا ہے ، اور ائمہ (ع) نے اس کو رسول خدا سے اخذ کیا ہے ، اور اہل بیت اپنے جد کی باتوں کو دوسروں سے بہتر طریقے سے جانتے ہیںکہ ان کے جد یہ کام کیسے کیا کرتے تھے ، جیساکہ رسول خدا بھی اسی طرح انجام دیتے تھے ، اور انھوں نے آیہ ٔ وضو کی یہ تفسیر کی ہے کہ ''الیٰ'' آیہ ٔ وضو:(۲)

میں''مع'' کے معنی میں آیا ہے ، جیسا کہ شافعی صغیر نے اپنی کتاب نہایة المحتاج میںیہی ذکر کیا ہے اسی طرح یہ لوگ اپنے پیروں اور سر کو دھونے کے بجائے ان کا مسح

____________________

(۱)دیکھئے : صحیح البخاری ، صحیح مسلم ، سنن بیہقی

مالکیوں کے رائے سے آگاہی کیلئے دیکھئے : بدایة المجتہد ''مؤلفہ ابن رشد قرطبی.

(۲) سورہ ٔ مائدہ ، آیت ۶.

۳۴

کرتے ہیں ، جس کاسبب ہم نے اوپر ذکر کیا ہے،اور یہی طریقہ ابن عبا س کا تھا جیسا کہ انھوں نے کہا ہے :

''الوضوغسلتان،ومسحتان ''اومغسولان وممسوحان ''

وضو صرف دو چیزوں کا دھونا ہے اور دو ہی چیزوں کا مسح کرنا ہے۔

( دیکھئے : سنن ، مسانید ، تفسیر فخر رازی ، آیہ ٔ وضو کی تفسیر کے ذیل میں ).

۲۶:متعہ (وقتی شادی)کے بارے میں

۲۶۔ شیعہ کہتے ہیں کہ متعہ (وقتی شادی) کرنا نص قرآنی کی بناپر جائز ہے، کیونکہ خدا ارشاد فرماتا ہے :

( فَمَاْاسْتَمْتَعْتُمْ بِه مِنْهُنَّ فَآتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً ) (۱)

پس جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے ان کی اجرت انھیں بطور فریضہ دے دے۔

یہی وجہ ہے کہ تمام مسلمان رسول کے زمانے میں متعہ کرتے تھے، اور تمام صحابہ عہد خلافت حضرت عمر کے نصف دور تک متعہ کرتے تھے۔

کیونکہ متعہ بھی شرعی شادی ہے جو دائمی شادی کے مندرجہ ذیل احکام میں بالکل اسی کی طرح ہے :

الف: ۔متعہ میں بھی عورت شوہر دار نہ ہونا چاہیئے ، اور صیغوں کا اسی طرح پڑھنا ضروری ہے کہ ایجاب عورت کی جانب سے اور قبول مرد کی طرف سے ہو۔

ب: ۔دائمی شادی کی طرح متعہ میں بھی عورت کو کچھ مال دینا ضروری ہے جسے

____________________

(۱)سورہ ٔ نساء ، آیت ۲۴.

۳۵

دائمی شادی میں مہر کہتے ہیں ،اور متعہ میں اجر کہتے ہیں،جیساکہ قرآنی نص کے مطابق ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ۔

ج:۔ دائمی شادی کی طرح متعہ میں بھی مرد سے جدا ہونے کی صورت میں عورت پر عدہ رکھنا ضروری ہے۔

د:۔ متعہ میں بھی مفارقت کے بعد عورت پر دائمی عقد کی طرح عدہ ضروری ہے، اسی طرح متعہ سے وجود میں آنے والی اولاد بھی دائمی شادی کی طرح متعہ کرنے والے مرد( باپ) سے ملحق ہوگی ، نیز متعہ میں بھی دائمی عقد کی طرح عورت ایک مرد سے زیادہ مردوں سے ایک وقت میں متعہ نہیں کرسکتی ۔

ھ:۔ متعہ میں دائمی عقد کی طرح باپ اور اولاد نیز اولاد اور ماں کو ایک دوسرے کی میراث ملے گی ۔

متعہ ؛دائمی شادی سے حسب ذیل چند امور میں فرق کرتا :

الف:۔متعہ میں مدت معین ہوتی ہے ، لیکن دائمی شادی میں مدت معین نہیں ہوتی ۔

ب:۔ متعہ والی عورت کا نفقہ مرد پر واجب نہیں ہے،عورت مرد سے میراث لینے کا حق نہیں رکھتی ۔

ج:۔متعہ کرنے والے زوجہ و شوہرکے درمیان میراث نہیں ہوتی ۔

د: ۔ متعہ میں طلاق کی ضرورت نہیں ہوتی ، بلکہ مقررہ مدتتمام ہونے کے بعد یا طرفین کے اتفاق سے بقیہ مدت بخشنے کے بعد خود بخود جدائی ہوجائے گی ۔

اس طرح کی شادی کی تشریع کرنے کی چندحکمت ہیں:

اولاً:جائز اور مشروط طریقہ سے عورت و مرد کی جنسی احتیاج کا راستہ فراہم کرنا ہے ، تاکہ جو لوگ بعض اسباب کی بناپر دائمی شادی نہیں کر سکتے ، یا جو لوگ زوجہ کی وفات یا کسی اور سبب کی بنا پر عورت سے محروم ہوچکے ہیں ، یا عورت ان اسباب کی بناپر مرد سے محروم ہوگئی ہو ، اور یہ لوگ زندگی کو شرافت اور راحت کے ساتھ گزارنا چاہتے ہوں تو متعہ ان کیلئے آسان راستہ ہے ۔

ثانیاً:متعہ در اصلسماجی عظیم مشکلات کو حل کرنے کیلئے تشریع کیا گیا ہے تاکہ اسلامی معاشرہ اخلاقیبرائیوں میں مبتلا نہ ہوپائے ۔

کبھی اس متعہ کے ذریعہ انسان شادی سے پہلے جائز طریقہ سے ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان سکتا ہے ،( جو ممکن ہے آئندہ کیلئے مفید اور نتیجہ بخش ہو) اور اس کے بعد انسان فعل حرام میں مبتلا ہونیسے محفوظ رہتا ہے ، اسی طرح زنا ، جنسی دباؤ اور رسوائی یا دوسرے حرام امور میں مبتلا نہ ہو ، جیسے مشت زنی ،کیونکہ جو ایک زوجہ پر صبر نہیں کر سکتا ، یا اقتصادی او رمعیشتی مشکلات کی بنا پر،یا ایک سے زیادہ عورتوں کا خرچہ نہیں چلا سکتا وغیرہ وغیرہ اور وہ حرام کام بھی نہیں کرنا چاہتا تواس کے لئے یہ آسان راستہ ہے

۳۶

بہرحال یہ شادی بھی قرآن اور حدیث سے مستند ہے ، اور صحابہ نے اس پر ایک زمانے تک عمل کیا ہے ،چنانچہ اگر یہ شادی زنا شمار کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا، رسول اور صحابہ نے زنا کو حلال سمجھا ، اور اس کے انجام دینے والے ایک زمانے تک زنا کرتے رہے !!العیاذ باﷲ.

مزید یہ کہ اس حکم کا نسخ ہونا بھی معلوم نہیں ہے، کیونکہ اس کا نسخ ہونا کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے ، اور نہ کوئی قطعی و صریح دلیل اس پر موجود ہے۔(۱)

بہر حال شیعہ اما میہ اس شادی کو نص قرآن اور سنت رسول کی بناپر مباح سمجھتے ہیں، لیکن دائمی شادی اورتشکیل خانوادہ یعنی اپنا گھر آباد کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ، کیونکہ ایسی شادی قوی اور سالم معاشرے کی اساس اور بنیاد ہے ، اور موقت شادی کی طرف زیادہ رغبت نہیں رکھتے جسے شریعت میں متعہ کہتے ہیں ،اگرچہ (جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ) یہ حلال اور جائز ہے ۔

اور اس مقام پر یہ ذکر کردینا بھی مناسب ہے کہ شیعہ امامیہ( کتاب و سنت اور تعلیم ائمہ اہل بیت (ع) پر عمل پیرا ہونے کی بناپر)عورت کے حقوق کا احترام کرتے ہیں ،اور انہیںبڑی اہمیت دیتے ہیں ،اور عورت کے مقام و مرتبہ ، ان کے حقوق بالخصوص ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے پر ،ملکیت،نکاح،طلاق، گود لینے اور پرورش کرنے،دودھ پلانے جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ ، عبادات اور معاملات کیلئے نہایت اعلی احکام ، جو ان کے ائمہ سے نقل ہوئے ہیں وہ سب ان کی فقہ میں پائے جاتے ہیں.

____________________

(۱) اس سلسلے میں ان تمام احادیث کی طرف رجوع کیا جائے جو مختلف اسلامی مذاہب کی کتب صحاح وسنن اورمعتبر مسانید میں نقل کی گئی ہیں

۳۷

۲۷:گناہان کبیرہ اورصغیرہ کےبارے میں

۲۷۔ شیعہ جعفری فرقے زنا ، لواط، سود خوری ، نفس محترمہ کا قتل ، شراب نوشی ، جوا ، بلوہ وبغاوت ، مکروفریب بازی،دھوکہ دھڑی ،ذخیرہ اندوزی ،ناپ تول میں کمی کرنا ، غصب ، چوری ، خیانت ، کینہ و کھوٹ، رقص و غنا ، اتہام ،بہتان ، تہمت ، چغل خوری ، فساد پھیلانا ، مومن کواذیت دینا ، غیبت کرنا ،گالم گلوج ، کذب و بہتان اور ان کے علاوہ تمام گناہان کبیرہ و صغیرہ کو حرام جانتے ہیں، اور ہمیشہ ا ن گناہوں سے دور رہتے ہیں اور حتی الامکان ان سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،اور ان کو پھیلنے سے روکنے کیلئے ہر ممکن وسائل بروئے کار لاتے ہیں ، جیسے تصنیف و تالیف ، کتابوں کی نشر و اشاعت کرنا ، اخلاقی اور تربیتی رسالے ، مجالس ، اجتماع اور جلسے وغیرہ قائم کرنا ، یانماز جمعہ کے خطبے اور دوسری چیزیں وغیرہ

۲۸۔ اخلاقی فضائل اور مکارم اخلاق

۲۸۔ اخلاقی فضائل اور مکارم اخلاق کی نہایت اہمیت دیتے ہیں ،اور موعظہ وغیرہ سے عشق کرتے ہیں، اور ان کے سننے کیلئے دلچسپی سے حاضر ہوتے ہیں ، اور اس کے لئے اپنے گھروں ، مسجدوں ، پارکوں اور میدانوں میںجلسے ، مجالس اور اجتماعات مناسبت یا غیر مناسبت کے مواقع پر منعقد کرتے ہیں ، اسی بنا پر عظیم فوائد و مطالب پر مشتمل وہ دعائیں پڑھتے ہیں جو اس سلسلے میں رسول اسلام اور اہل بیت عصمت و طہارت سے نقل ہوئی ہیں، جیسے دعائے کمیل ، دعائے ابو حمزہ ، دعائے سمات ، دعائے جوشن کبیر ، دعائے مکارم اخلاق ، دعائے افتتاح ، ( جوماہ رمضان میں پڑھی جاتی ہے ) وہ ان ادعیہ اور رفیع مضامین پر مشتمل مناجات کو نہایت خشوع وخضوع اور ایک خاص گریہ و زاری کے ساتھ پڑھتے ہیں ، کیونکہ یہ دعائیں نفس کو پاکیزہ بناتی ہیں اوران کے ذریعہ انسان اﷲ سے قریب ہوتا ہے ۔

یہ تمام دعائیں موسوعةا لادعیہ( معجم ادعیہ) میں جمع کی گئی ہیں، اسی طرح یہ کتب ادعیہ میں بھی موجود ہیں جو ان کے درمیان رائج ہیں۔

۳۸

۲۹:جنت البقیع

۲۹۔ اور شیعہ نبی اکرم ، اہل بیت (ع) اور آپ کی پاک ذریت جو جنت البقیع اور مدینہ منورہ میں مدفون ہیں ان کی قبروں کا احترام کرتے ہیں ، جن میں امام حسن مجتبی ، امام زین العابدین ، امام محمد باقر ، اور امام جعفر صادق (ع)ہیں۔

اور نجف اشرف میں امام علی ـ کا مرقد ہے ، اور کربلا میں امام حسین ـ اور آپ کے بھائی ،آپ کی اولاد اورآپ کے چچا کی اولاد اور آپ کے ا صحاب و انصار( جو آپ کے ساتھ یوم عاشورہ شہید ہوئے تھے)کی قبریں ہیں۔

اور سامرہ میں امام ہادی ( علی نقی)، امام حسن عسکری کے روضے ہیں، اور کاظمین میں امام جواد اور امام کاظم کے مراقد جو سب کے سب عراق میں ہیں ،اور ایران کے شہر مشہدمیں امام رضا ـ کا مرقد ہے ، اور قم و شیراز( ایران) میں ان اماموں کے بیٹوں اور بیٹیوں کے مرقد ہیں ، اور دمشق (شام) میں کربلا کی شیر دل خاتون جناب سیدہ ٔزینب کا روضہ ہے ، اور قاہرہ مصر میں مرقد سیدہ نفیسہ ہے ( یہ بھی کریمہ ٔ اہل بیت ہیں) ۔

بہر حال ان تمام روضوں اورمقبروں کااحترام کرنا رسول کے پاس و لحاظ کی بنا پرہے ، کیونکہ ہر شخص اپنی اولاد میں باقی اور محفوظ رہتا ہے ، اور کسی کی اولاد کا اکرام کرنا خوداس کا احترام کرنے کے برابر ہے ، جیساکہ قرآن کریم نے آل عمران ، آل یٰسین ، آل ابراہیم اور آل یعقوب ، کی مدح فرمائی ہے ، اور ان کی قدر و منزلت کو رفیع قرار دیا ہے حالانکہ ان میں سے بعض انبیاء بھی نہیں تھے۔

۳۹

( ذُرِّیَّةً بَعْضُهَاْ مِنْ بَعْضٍ ) (۱)

یہ ایک نسل ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے ۔

اسی لئے قرآن مجید نے ان پر اعتراض نہیں کیا، جن لوگوں نے یہ کہا تھا :

( لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْهِمْ مَسْجِداً ) (۲)

انھوں نے کہا کہ ہم ان پر مسجد بنائیں گے ۔

یعنی ہم اصحاف کہف کے مراقد پر مسجد بنائیں گے ، تاکہ ان کے پاس خدا کی عبادت کی جائے ،اور اﷲ نے ان کے عمل کو شرک نہیں کہا ، کیونکہ مسلمان مؤمن صرف اﷲ ہی کیلئے رکوع، سجدہ اور عبادت کرتا ہے ،اور وہ ان پاک ومطہر اولیاء کی ضریح کے قریب صرف اس لئے جاتاہے کیونکہ ان اولیاء کی وجہ سے وہ مکان مقدس ہوگیا ہے ،جیسے ابراہیم ـ کی بناپر مقام ابراہیم کو قداست و کرامت حاصل ہے ،

____________________

(۱)آل عمران ، آیت ۳۴.

(۲)کہف ، آیت ۲۱.

۴۰