اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات0%

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

مؤلف: محمد مسجد جامعی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26842
ڈاؤنلوڈ: 2880

تبصرے:

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26842 / ڈاؤنلوڈ: 2880
سائز سائز سائز
اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

مؤلف:
اردو

صریح اور واضح فیصلہ کی قدرت کا نہ ہونا

ہم بیان کر چکے ہیں کہ اہل سنت کے نزدیک، صدر اسلام خوددینی مقام و منزلت رکھتا ہے، لیکن موضوع بحث یہ ہے کہ یہ دور اختلافات، کشمکش اور مقابلہ آرائیوں سے بھرا ہوا دور ہے۔ وہ بھی بزرگان اصحاب کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ عشرۂ مبشرہ کے بہت سے افراد با وجودیکہ بلاشک وشبہہ اپنی دینی منزلت کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے ایک دوسرے کے خلاف تلواریں کھینچے ہوئے تھے۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ دور اور یہ افراد باوجودیکہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوں اور قتل پر کمر بستہ ہوں، دینی لحاظ سے شائستہ اور اعلیٰ منزلوں پر بھی فائز ہوں؟ پس یہاں پر افراد کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ معیار اور ضابطہ کا مسئلہ ہے۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ حق یا باطل پر ہونے کا معیار کیا ہے؟ اور بنیادی طورپر حق اور باطل کیا ہے؟ اور انسان کیسے زندگی بسر کرے اور کون سا موقف اختیار کرے کہ جسے راہ حق پر کہا جاسکے؟ اس کے علاوہ خود باطل کی مخالفت کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے؟ اگر باطل کے خلاف آواز اٹھانا چاہئے، تو پھر باطل کو پہچاننا چاہئے اور اس کے تشخیص دینے کا معیار و ملاک کیا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک وہ لوگ کوئی اطمینان بخش جواب حاصل نہیں کرپائے لہٰذا ایسی توجیہات اور تاویلات کا سہارا لیا جن کا ذکر بہت طولانی ہے۔ لیکن حائز اہمیت یہ تھا کہ اس مشکل نے اہل سنت کی روحی اور اعتقادی عمارت پر اپنا اثر چھوڑ دیا۔ اس معنی میں کہ چونکہ ان کے پاس اس مسئلہ اور مشکل کا کوئی حل موجود نہیں تھا (اور ان کے فرضی اصول بنیادی طور پر قابل حل بھی نہیں تھے) لہٰذا انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ اسی سے ملتے جلتے نمونوں کو یوں ہی لاینحل باقی چھوڑ دیں۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ دیا جائے کہ اس مشکل کا آخری راہ حل یہ ہے کہ اس مسئلہ کا کوئی جواب نہیں ہیاور اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوکشش بھی نہیں کرنی چاہئے۔ یہاں تک کہ بعض حضرات نے اس مسئلہ کے حل کے لئے ہر طرح کی کوشش کو ممنوع اور نا جائز قرار دیا ہے۔ اصل یہ تھا کہ اس مسئلہ کے سامنے سکوت اختیار کریں اور اس سلسلہ میں جو فضائل بیان کئے گئے ہیں، اسی پر اکتفا کریں اور حتی ان روایات اور تاریخی دستا ویز کی صحت و عدم صحت کی تحقیق اور چھان بین بھی نہ کریں۔

لیکن نکتہ یہ تھا کہ اس قضیہ کے سامنے سکوت اختیار کرنا، اسی سے ملتے جلتے دوسرے مسائل کے سامنے خاموش رہنے کا سبب بنا، یہی وہ نقطہ ہے جہاں اس سکوت اور اجمال کی وجہ سے اہل سنت کی روحی اور عقیدتی عمارت پر پڑنے والے اثرات کو دیکھا جاسکتا ہے جو ان کی دینی، سیاسی، معاشرتی اور تاریخی تبدیلی کو شکل دینے میں سخت موثر ثابت ہوا۔

مثال کے طور پر اس کلام کی طرف جو ابن حنبل کے قول سے نقل ہوا ہے، توجہ کریں:

''ابن حنبل سارے صحابہ پیغمبر کی بزرگی کا قائل ا ور ان سب کا احترام کرتا تھا اور ان لوگوں کے بارے میں سوائے خیر کے اپنی زبان تک نہیں کھولتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت علیـ کی خلافت، حقانیت اور مشروعیت کے قبول کرنے کے با وجود معاویہ کے خلاف ایک حرف بھی تنقید نہیں کی۔ چنانچہ صفین اور جمل کی جنگوں کے بارے میں جب کہ ان میں بہت سارے اصحاب مار دئیے گئے تھے کچھ بھی نہیں کہا۔ اور یہ سب اس لئے تھا اور اس واسطہ کچھ نہیں کہا تا کہ صحابہ کی برائی میں ان کی زبان نہ کھلنے پائے...

ابن حنبل کی نگاہ میں سارے صحابہ برابر تھے اور ان کے بارے میں سوائے نیکی اور تعریفوں کے اور کچھ ان سے نقل نہیں ہوا ہے۔ ابن حنبل کا کہنا تھا: ''معاویہ، عمروابن عاص اور ابوموسی اشعری ان لوگوں میں سے ہیں جن کی وصف میں خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشانات ظاہر ہیں۔''(۱۶)

چنانچہ احمد بن حنبل کی کتاب السنة، کی شرح کرنے والوں میں سے ایک شخص نے اپنی شرح میں اس طرح سے بیان کیا ہے: ''جب کبھی کسی کو صحابہ کے اعمال پر تنقید اور ان پر طنز کرتے ہوئے دیکھو تو جان لو کہ وہ شخص خواہش نفس میں مبتلا ہے، اس پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ فرمان دلیل ہے کہ آپ نے فرمایا: جب بھی میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے تو ٹھہرجائو۔ کیونکہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد صحابہ لغزشوں میں پڑیں گے اور ان سے غلطیاں ہوں گی۔ لیکن اس کے باوجود ان کے بارے میں نیکی کے علاوہ کچھ نہ فرمایا اور فرمایا: میرے صحابہ کی قدر کرو اور ان کے حق میں سوائے نیکی کے اپنی زبان نہ کھولو اور ان کے اشتباہات اور غلطیوں سے متعلق روایات اور اخبار کو ہرگز نقل نہ کرو... اور جان لو اور وہ شخص جو اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعمال و کردار پر چوں چرا کرے، در حقیقت اس نے خود پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر انگلی اٹھائی اور ان کو قبر میں تکلیف پہنچائی ہے۔(۱۷)

آٹھوی صدی کے مشہور و معروف فقیہ اور متکلم ابن جَزّی اسی مفہوم کو اس سے زیادہ صراحت اور تاکید کے ساتھ بیان کر رہے ہیں: ''لیکن علی ـ اور معاویہ کے ما بین اختلاف کو نہ چھیڑو اور بہتر ہے کہ ان حضرات کے متعلق نیکی سے یاد کرو اور جو کچھ بھی پیش آیا اس کی اچھے اور مثبت پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے تفسیر و توضیح کرو کیونکہ ایسا کرنا اجتہاد کے موارد میں سے ایک مورد ہے۔لیکن حضرت علیـ اور آپ کے چاہنے والے حق پر تھے کیونکہ ا ن لوگوں نے اجتہاد کیا اور ان کا یہ اجتہاد حقیقت اور واقعیت پر تھا، لہٰذا وہ لوگ خدا کے نزدیک ماجور ہیں۔ لیکن معاویہ اور اس کے چاہنے والوں نے بھی اجتہاد کیا اور ان کا یہ اجتہاد خطا واقع ہو گیا اور حقیقت تک نہ پہنچ سکا لہٰذا وہ لوگ خدا کے نزدیک معذور ہیں۔ ہمارے اوپر واجب اور لازم ہے کہ ہم ان دونوں (علیـ اور معاویہ) اور بقیہ دوسرے بزرگ اصحاب کی تعظیم و تکریم کرتے ہوئے ان کو دوست رکھیں۔''(۱۸) ایسے بیشمار نمونے پیش کئے جاسکتے ہیں۔

بہر حال صدر اسلام کے حوادث اور واقعات کے متعلق ان کی فہم نے ان کو اس نتیجہ تک پہنچادیا، بلکہ اس عقیدہ تک کھینچ لایا کہ دو مسلمانوں میں آپس میں اختلاف و تنازع ممکن نہیں ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں، با وجودیکہ ایک شخص مطلق حق پر اور دوسرا شخص مطلق باطل پر ہو۔ خصوصاً اس نکتہ پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ بہرحال دو مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تنازع کی صورت میں، جبکہ وہ دونوں مسلمان ہوں یعنی وہ تمام شرائط اور ضوابط پائے جاتے ہوں جو ایک انسان کو مسلمان بناتے ہیں، ایسی صورت میں یقیناً ان دونوں میں سے کوئی بھی باطل پر ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ یہاں پر مسئلہ یہ نہیں ہے کہ حق کس کے ساتھ ہے، اہم یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان باطل کا کوئی وجود نہیں ہے۔ گویا وہ ضمنی طور پر اس حقیقت کا اقرار کرچکے تھے کہ اس صورت میں طرفین (دونوں مسلمانوں) کی حقانیت نسبی طور پرہے نہ کہ مطلق۔ کیونکہ جب باطل ہی نہ تھا تو لامحالہ دونوں میں سے ہر ایک کچھ نہ کچھ حق کا حامل ہوگا۔

واقعۂ عاشورا کے بالمقابل سکوت اختیار کرنا

اہل سنت کے نزدیک اس ذہنیت اور اس طرز کی جڑیں اتنی مضبوط اور گہری ہیں کہ ان میں سے بہت سے افراد واقعۂ عاشورا کے بارے میں بھی خاموش ہیں اور سکوت کی لگام کسے ہوئے ہیں۔ اور وہ لوگ جو ایسا نہیں کرتے ہیں وہ خاص وجوہات اور دلائل کے سبب ہے کہ وہ ان دلیلوں کو معتبر جانتے ہیں یعنی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ان حدیثوں کا سہارا لیتے ہیں جو امام حسینـ کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں اور اسی طرح دیگر احادیث بھی جو صریح یا اجمالی طور پر واقعۂ عاشورا کی طرف اشارہ کررہی ہیں، امام حسینـ کو بر حق اور یزید کو باطل محض جانتے ہیں۔ یعنی ان احادیث کو نظر میں رکھے بغیر گویا حتی ان موارد میں بھی فیصلہ نہیں کرسکتے اور یہ کہنے کی جرأت نہیں رکھتے کہ حق پر کون ہے اور باطل کون ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ انہیں دلیلوں کی بنا پر جو بیان ہوچکی ہیں ا لبتہ دوسری فقہی اور کلامی دلیلیں بھی اس باب میں موجود ہیں۔

زیادہ واضح انداز میں کہہ دیا جائے کہ اگر ہم ان ساری حدیثوں سے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ واقعہ عاشورا اور اہل بیت اور پنجتن پاک(ع) کی شان اور مقام و منزلت اور بنی امیہ اور یزید جیسے فرد کی مذمت پر دلالت کرتی ہیں نظر انداز کردیں تو اہل سنت کی مذہبی عمارت اپنی کلیت میں اور دینی اور اعتقادی رجحان شناسی کا ماحصل کچھ اس طرح سے ہے عاشورا جیسے صریح اور واضح واقعہ اور حادثہ پر خاموش رہے گا۔ چنانچہ خاموشی اختیار بھی کی ہے۔ خود اپنے ہی نزدیک معتبر اور قابل قبول دلیلوں اور معیار کی بنیاد پر نہ کہہ سکے کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر، وہ لوگ ایسے کیوں تھے؟

تعجب تو یہاں پر ہے کہ بعض لوگوں نے اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنے زعم ناقص میں اپنے خود ساختہ دینی اور فقہی معیار کی بنا پر امام حسینـ کو غلط ثابت کردیا اور یزید کو بری کرتے ہوئے اس کی طرفداری بھی کی ہے۔ ابوبکر بن عربی اور اس کے ہم خیال، چاہے گذشتہ دور میں ہوں یا دور حاضر میں، اسی نظریہ کے حامل ہیں۔ وہ کھلم کھلا یزید کی تعریف کرتا ہے اور یزید کے خلاف امام حسینـ کے قیام کو اشتباہ اور غلط گر دانتاہے۔ وہ اپنے بعض نظریات کے اظہار میں یوں کہتا ہے: ''انھوں نے (امام حسینـ) اپنے زمانہ کے عالم ترین انسان یعنی عبداللہ بن عباس، کی نصیحت کو قبول نہیں کیا اور شیخ صحابہ عبداللہ بن عمر کی رائے سے سرپیچی کی، انہوں نے آغاز کو انجام میں اور صداقت اور سچائی کو ٹیڑھے راستے یعنی انحراف میں تلاش کیا۔ جب کہ خلافت، فوج کی کثرت اور بزرگان قوم کی ہمراہی کے باوجود ان کے بھائی کے ہاتھ سے نکل گئی تھی، یہ کیسے ممکن تھا کہ خلافت کوفہ کے بدمعاشوں اور شریروں کے ذریعہ ان تک پلٹ آتی۔ جب کہ بزرگ اصحاب نے ان کو اس کام اور اس فکر سے منع کیا تھا۔ حسین بن علی کے لئے مناسب تھا کہ وہ اپنے جدکے اس قول پر عمل کرتے کہ آپ نے فرمایا: ''بہت جلد فتنہ و فساد اور برائی اپنا سر اٹھالے گی پس جو شخص بھی اس متحد امت کے درمیان تفرقہ اور جدائی ڈالے اس کو شمشیر کے حوالے کر دو چاہے کوئی بھی ہو۔'' لہٰذا حسین بن علی کو دریادلی اور سعۂ صدر سے کام لیتے ہوئے یزید کی بیعت کرلینا چاہئے تھا۔ یہ یزید بن معاویہ اور اس کے والی عبیداللہ بن زیاد نے امام حسینـ کو قتل نہیں کیا، بلکہ ان کو ان لوگوں نے قتل کیا جنہوں نے ان کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی اور پھر اس کے بعد آپ کو کوفہ کے شریروں اور بدمعاشوں کے حوالے کردیا۔''(۱۹)

یہاں پر اہم یہ نہیں ہے کہ ابن عربی نے کس ہدف اور مقصد کے تحت اس دینی موقف کی تنقید کی ہے، وہ بھی مخلصانہ اور دینی موقف، اختیار کیا۔ بلکہ اہم بات یہ ہے کہ اس کی گفتگو نتیجةً آرائے اہل سنت کے فقہی اور کلامی قابل قبول اصول و ضوابط سے بھرپور سازگاری رکھتی ہے۔ در حقیقت یہ امام حسینـ کی شان و منزلت اور یزید جیسے شخص کا فسق و فجور تھا کہ جو اہل سنت کے عام علما کی طرف سے اس طرح واضح وصریح اظہار رائے کی راہ میں مانع تھا۔ یا یوں کہہ دیا جائے کہ ثانوی ضروریات کی بناپر عام علما اہل سنت ابن عربی سے موافق نہ ہوسکے وگرنہ ان کے درمیان نظریاتی اختلافات نے عدم موافقت میں اتنا اثر نہیں ڈالا۔ اگر اس مسئلہ میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے تو وہ اصولی اور بنیادی نہیں ہے بلکہ ثانوی اور بعض اوقات اخلافی ہے۔(۲۰)

درست اسی سبب کے تحت علماے اہل سنت کے بہت سارے بزرگ علما نے توقف اور خاموشی اختیار کرلی۔ اب ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ یہ توقف اور خاموشی کس وجہ سے تھی۔ اس کا سبب کیا تھا؟ کیوں بہت سے علما ئے اہل سنت یزید کے خلاف حکم صادر کرتے وقت پیچھے ہٹ گئے اور توقف کیا اور ان میں کے بعض تو اس کی مخالفت کو قانونی طورپر جائز ہی نہیں جانا۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض توقف کرنے والے اور خاموشی اختیار کرنے والے اور منع کرنے والے ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو اپنے دین کو اپنی دنیا کے ہاتھوں بیچ ڈالیں اور ظالم و جائر حکمرانوں کی خوشامد کے لئے ایسے نظریات کا اظہار کریں۔ بنیادی طورپر ان میں سے بعض لوگوں نے اس وقت ایسے نظریات کا اظہار کیا جب وہ عمومی افکار اور موجودہ حاکمیت کے خلاف تھا۔ لیکن اپنے نظریہ پر ایک ذمہ داری اور شرعی فریضہ کے عنوان سے اصرار کیا۔ وہ اپنے کلامی اور فقہی معیار اور ثانوی ضرورتوں کو جو کہ ان احادیث کے معتبر جاننے سے وجود میں آئی تھیں جو امام حسینـ کی شان و منزلت اور یزید کی مذمت میں پائی جاتی ہیں ان (معیار) کے درمیان تعارض کے سبب ہیں حتی کہ وہ احادیث جس میں صریحی یا اشارہ کے طورپر واقعۂ عاشورا اور امام حسینـ کی مظلومانہ شہادت کی طرف اشارہ کرتی ہیں، سکوت اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس پس و پیش، کشمکش اور گیر ودار میں عافیت احتیاط میں ہی تھی اور احتیاط توقف اور سکوت کی نصیحت اور سفارش کررہی تھی۔(۲۱)

بہرحال بہت ہی محتاط انداز میں جواب کو اسی دینی رجحانات کی شناخت کے اندر تلاش کرنا چاہئے جو صدر اسلام کی تاریخ اورا س کی شخصیتوں کو مقدس جاننے کا بلا فصل نتیجہ ہے۔

اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ احتیاط کے مصادیق، کسی حدتک احتیاط کے مفہوم کے متعلق شیعوں اور اہل سنت کے درمیان بعض شباہتوں کے باوجود سخت اختلاف اور فرق پایا جاتا ہے چاہے وہ مفہوم احتیاط، اعتقادی ہو جو اصول اعتقادات سے متعلق ہے یا فقہی احتیاط ہو جو احکام عملیہ سے متعلق ہے آیندہ اس نکتہ کی وضاحت کی جائے گی۔

جب اصل مسلّم یہ ہوگئی کہ وہ ساری مقدس شخصیتں اور یہاں تک کہ دینی اور معنوی اہمیت کے لحاظ سے مساوی ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے جنگ و جدال اور برسرپیکار بھی رہے ہیں، لہٰذا اس اصل کا معلوم ہونا انسان کو اس کے بعد کے فیصلوں میں احتیاط کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔ ایک ایسی مفلوج اوربے حس کردینے والی احتیاط کی طرف جو واقعۂ عاشورا جیسے حادثہ کے متعلق، جس میں دونوں فریق کاملاً معلوم اور جانے پہچانے ہوئے ہیں، اس کے بارے میں فیصلہ کرنے سے قاصر ہوجائے، یہاں پر بھی توقف وسکوت سے کام لے اور طرفین کو بری کردے یہاں تک کہ ایک شرعی ذمہ داری اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عنوان سے ہی دوسروں کے لئے بھی جستجو، تلاش اور فیصلہ کرنے سے مانع ہوجائے یعنی دوسرے افراد کو بھی فیصلہ لینے سے بھی روک دے۔

مثلاً محمود صبحی اہل سنت کے درمیان جو اس کی نظر میں ایک درمیانی مبہم اور غیر واضح راہ حل کو چاہتے تھے، شہادت امام حسینـ کے اعتقادی اور کلامی نتائج کے بارے میں اس طرح بیان کررہے ہیں: ''شہادت امام حسینـ کے مقابلہ میں اہل سنت کا ردعمل بہت دشوار اور دردناک تھا۔ کیونکہ اہل سنت کے نزدیک مطلوب درمیانی راہ کو حاصل کرنے کے لئے، اس کی بنیاد پر جو اہل سنت کی خواست تھی اس طرح کی ہر کوشش کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کی بناپر امامـ کے قیام اور خلفا سے آپ کے دشمنوں کی دوستی کے مابین صائب رائے قائم کی جاسکے، یہ عاشورا کا واقعہ تھا جس نے ایسی کوشش کو ناکام بنادیا۔'' اس وقت وہ (محمود صبحی) اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے شواہد کو ذکر کرتے ہیں۔(۲۲)

ایسے تاریخی طرزفکر کی داستان پوری تاریخ اسلام میں موجود ہے اور ہمیشہ یہ داستان تھی اور دور حاضر میں بھی چھڑی ہوئی ہے اور اسی طرح ہمیشہ چھڑی رہے گی۔

پورے مذہب اہل سنت میں کوئی بزرگ عالم اور دانشور ایسا نہیں گذرا جس نے اس بارے میں کچھ نہ کچھ بیان نہ کیا ہو۔ ابن ابی الحدید اپنی کتاب کے مختلف حصوں میں جو در حقیقت ایک بہت بڑی دائرة المعارف ہے، صدر اسلام سے متعلق، ساری بحثوں کو مختلف عناوین کے تحت تمام ایسے نظریات کو نقل کرتا ہے اور آخری جلد کا اہم حصہ انھیں بحثوں پر مشتمل ہے۔ اس مقام پر مناسب ہے کہ ہم صحابہ اور اس کے بعد یزید کے سلسلہ میں غزالی کے نظریے کو نقل کریں۔ ایسے شخص کا انتخاب اس کی شخصیت کے ہمہ گیر ہونے، اس کے مرتبہ علمی، عام مقبولیت، نیز زہد و تقوی اور اس کی دنیا سے کنارہ کشی ہے تاکہ یہ گمان نہ کیا جائے کہ ایسی بات جہل اور لاعلمی کی وجہ سے یا حکام وقت کی خوشامد اور ان خدمت کی خاطر کہی ہے یا یہ کہ عام لوگوں کے نزدیک یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔(۲۳)

وہ اس سلسلہ میں کہ صحابہ کے بارے میں ہمارا عقیدہ کیسا ہونا چاہئے، اس کے بیان میں یوں کہتا ہے: ''اس راہ میں نہ افراط کی حدتک چلے جاؤ اور نہ تفریط سے کام لوبلکہ درمیانی راہ کو انتخاب کرو (اسلک طریق الاقتصاد فی الاعتقاد) اور جان لو کہ ایسی صورت میں یا تو یہ ہوگا کہ تم کسی مسلمان سے بد گمان ہوجاؤگے اور اس پر لعن و طعن کرو گے اور تمہاری یہ بد گمانی اور طعن اگر واقع کے مطابق نہ ہوسکا تو تم جھوٹے بن جاؤ گے۔ اور یا یہ ہوگا کہ کسی مسلمان کے سلسلے میں تم حسن ظن رکھو اور اپنی زبان کو اس کی برائی میں نہ کھولو اور تمہارا یہ حسن ظن اور برائی نہ کرنا واقع کے مطابق نہ ہوا اور خطا پر ہو۔ اس درمیان ایسی خطا جو کسی مسلمان کے اوپر حسن ظن کے ہمراہ ہو اس کی ملامت کی بہ نسبت نیکی سے نزدیک تر ہے۔ مثلاً اگر کوئی انسان اپنی پوری زندگی ابلیس یا ابوجہل، یا ابولہب یا کسی دوسرے شریر انسان کے اوپر لعنت کرنے سے باز رہے تو ایسے انسان کا سکوت اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا، لیکن اگر اتفاقاً کسی بے گناہ انسان کے اوپر لعن و طعن کرے تو گویا اس نے خود کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔''(۲۴)

امام الحرمین جوینی نے بھی ایسے ہی مطالب کو ذرا زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، جس کو ابن ابی الحدید اپنی کتاب کی بیسویں جلد میں نقل کرتا ہے۔

غزالی اپنی مفصل اور معتبر ترین کتاب احیاء العلوم، میں یزید کے اوپر لعنت کے جائز ہونے یا نہ ہونے کے باب میں تفصیلی بحث کرتا ہے۔ جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے: فقہی اور شرعی لحاظ سے یزید اور اس جیسے کسی بھی شخص کے اوپر لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے۔ جب تک یہ بات ثابت اور محقق نہ ہوجائے کہ یزید نے امام حسینـ کے قتل کا حکم دیا اور اس پر راضی تھا اور جب تک اس کا اسلام مسلّم اور ثابت رہے اس پر لعنت جائز نہیں ہے۔ کیونکہ احادیث نبوی اور دوسری صحیح دلیلوں کی رو سے مسلمان پر لعنت بھیجنا حرام ہے۔(۲۵)

اور یہ سب کس چیز کا نتیجہ ہے؟ انھیں نکات کا نتیجہ ہے جو پہلے بیان ہوچکے ہیں۔ اعتقادی اور روحی عمارت کا منطقی اور فطری نتیجہ ہے جس کی بنیاد پر ابتدا ہی سے یہ نظریہ وجود میں آکر پروان چڑھا تھا۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس کی حقیقت وجودی کیا ہے۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اس چیز کو پہچاننے کے لئے ہم کس فکر اور ذہنیت کا سہارا لیں۔ ایسی فکر اور ذہنیت، واقعۂ عاشورا کو بھی اپنے میزان اور معیار کے لحاظ سے دیکھتا اور پرکھتی ہے اور یہ ایک فطری تقاضا ہے۔

لطف کی بات تو یہاں پر ہے کہ ایسا نظریہ بعض علما ئے اہل سنت کے نزدیک اتنا صحیح، مقبول اور قطعی و یقینی ہے کہ واقعۂ عاشورا اور یزید کی مذمت سے متعلق احادیث کی صحت کو شک و تردید کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اور یہ بات طے شدہ ہے کہ ان علما میں سے بعض بادشاہوں کے مزدور اور زرخریدہ غلام تھیاور انہیں میں سے بعض وعاظ السلاطین (سرکاری عالم) تھے (اور آج بھی ہیں اور پوری محنت و کوشش میں لگے رہتے ہیں) لیکن بہر حال ان لوگوں کے درمیان ایسے افراد بھی تھے جو واقعاً اسی طرح سوچتے اور اسی پر عقیدہ رکھتے تھے۔(۲۶)

اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں مکتبوں کے ماننے والوں کی اعتقادی اور ذہنی ساخت و ساز (بناوٹ) کے درمیان کم از کم اس حصہ میں، کتنا فرق پایا جاتا ہے۔ ایک مکتب میں ذہنی ساخت و ساز کچھ اس طرح ہے کہ دو مسلمان فرد یا مسلمانوں کے دو گروہ کے درمیان جو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف شمشیر بکف ہیں، متضاد فیصلہ کی قدرت کو کھو بیٹھتا ہے اور دوسرے مکتب فکر میں فکری اور روحی ساخت و ساز اس طرح ہے کہ جو صرف تضاد ہی کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے۔ یعنی ایک فریق کو حق مطلق جاننے اور دوسرے فریق کو باطل مطلق سمجھے۔ یقیناً یہ فرق بہت ہی باریک اور مرکزی حیثیت کا حامل ہے معاشرتی اور سیاسی تحولات و تغیر کے لئے دو معاشرتی اور ثقافتی میدانوں کو وجود عطا کرے گا۔ ناگوار حوادث سے دوچار ہونے کی صورت میں ایک گروہ کو حسینی اور مخالف گروہ کو یزیدی جاننے والے معاشرہ میں انقلابی جوش و جذبہ یقیناً اس معاشرہ کے انقلابی جوش و جذبہ سے بہت فرق رکھتا ہے ایک ایسا معاشرہ جس کی نظر میں تاریخ اور کم از کم تاریخ اسلام نہ تو خالص یزیدی ہے اور نہ ہی خالص حسینی۔ (اگر بالفرض قبول کرلے کہ یزید باطل محض اور امام حسینـ حق مطلق تھے) یہاں پر بات یہ نہیں ہے کہ ان دونوں میں کون سا نظریہ اچھا ہے اور کون سا برا بلکہ ان دونوں میں سے ہر ایک کی خصوصیت کو بیان کرنا مقصود ہے۔ شیعوں اور اہل سنت کے درمیان مختلف فرق میں سے ایک اہم فرق یہ ہے کہ دونوں کے دینی رجحان، ذہنیتوں اور طرز فکر میں بہت بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔ مشکلات و مسائل کو بھی دوطرح سے دیکھتے ہیں۔ لہٰذا ایک دوسرے کو بہت مشکل سے سمجھ سکتے ہیں۔ کیوں کہ ایک ہی مسئلہ کے متعلق دو مختلف نظر ئے رکھتے ہیں۔ یہ دو نظریے جو بالکل دو مختلف مقدمات پر مبنی ہیں، اگر اتفاقاً کوئی سنی ان موارد میں ایک شیعہ کے فہم و ادراک کی کیفیت کو سمجھ لے اور تاریخی و سیاسی حوادث کو شیعہ ہی کی طرح سمجھ کر اس کی تحلیل کرے تو اس کا سبب یہ ہوگا کہ اس نے شیعہ کی ذہنیت اور طرز تفکر کو قبول کرلیا ہے نہ یہ کہ اپنی ذہنیت اور اپنے مکتب میں اپنے مخصوص نظریے کے ذریعہ اس میں اتنی صلاحیت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ ایک شیعہ کی طرح مسائل کو دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ بعینہ یہی بات شیعوں کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ وہ لوگ (شیعہ حضرات) ایک سنی کے مانند تاریخی اور معاشرتی حوادث کو نہیں دیکھ سکتے۔ ان کی ذہنی اور اعتقادی ساخت و ساز (بناوٹ) دو طرح کی ہے اور یہ فطری بات ہے کہ وہ مسائل اور مشکلات کو یکساں نہ دیکھ سکیں اس کی یکساں چھان بین کرکے قدر و قیمت کا اندازہ لگاسکیں۔(۲۷)

نئے تجربہ کی روشنی میں نیا ادراک

اگرچہ آج کل اہل سنت کے درمیان کچھ ایسے افراد خصوصاً ان میں کچھ جوان پائے جاتے ہیں جو شیعوں کے نزدیک بلکہ شیعوں کی طرح کا نظریہ رکھتے ہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان کی نفسیاتی، فکری اور اعتقادی ساخت و ساز (بناوٹ) ان کے مذہب کی تاریخی اور دینی میراث اور ان کے عقائد کے علاوہ دوسرے اسباب و عوامل کے زیر اثر اور انھیں سے متاثر ہیں۔ بعض اسلامی ممالک میں اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی تحولات کے اندر متضاد مسائل و حوادث کو دریافت کرنے کی صلاحیت کو پیدا کردیا ہے۔ تحولات و تغیرات میں جتنی زیادہ تیزی اورگہرائی پائی جا رہی تھی اور معاشرہ جس قدرروایتی اور پیچیدہ تھا یہ خصوصیت بھی اتنی ہی زیادہ قوی، گہری اور وسیع پیمانہ پر رہی ہے۔ اسی طرح جس ملک میں بھی مخفی انقلابی صلا حیتیں زیادہ رہی ہیں، یہ حالت بھی اتنی ہی زیادہ دیکھنے کو ملی ہے۔ کیونکہ قاعدتاً انقلابی ہونے یا انقلابی فکر رکھنے کا لازمہ یہ ہے، خاص طور سے جوانوں کے درمیان یہ ہے کہ انسان تاریخ اور موجودہ حالات کے بارے میں متضاد معلومات رکھتا ہو اور اس لحاظ سے کہ تیسری دنیا اور دنیائے اسلام کی معاشرتی، سیاسی اور فکری تحولات اورتحریکیں آخری دو تین دہائیوں میں ایسے نظریات اور رجحانات کی کافی مدد کی ہے، لہٰذا ایسی طرزفکر اور ایسے حالات بھی فراہم ہوگئے ہیں۔ فی الحال اس نکتہ کی وضاحت سے صرف نظر کرتے ہیں کہ انقلابی ہونے کا لازمہ یہ کیوں ہے ، مسائل کو متضاد طریقہ سے دریافت کرنا ہو سکتا ہے، البتہ یہ نکتہ عام لوگوں کے لحاظ سے پرکھا گیا ہے اور یہ ان افراد کے لئے نہیں ہے جو دانشور یا صاحبان فکر و نظر ہیں اور ان کی معلومات اور تجربات کی وسعت کے تحت ہے اور وہ لوگ انقلابی رجحان بھی رکھتے ہیں، لہٰذا وہ لوگ متضاد مسائل کے حصول کی قدرت رکھتے ہیں۔ یہ بحث نظری لحاظ سے بھی چھان بین کے قابل ہے اور تاریخی و معاشرتی پہلو سے بھی قابل بحث ہے۔ مثلاً گذشتہ دہائیوں کے درمیان مارکسیزم (مارکس کے نظریہ کے تحت چلنے والا نظام) کے ساتھ اہل سنت اور شیعوں کے برتاؤ کی نوعیت کیا تھی جس میں مارکس کے نظریہ کے تحت چلنے والے نظام نے اصل تضاد کو اپنے فلسفہ کا معیار قرار دیا تھا وہ کیسے تھا؟ اور اس میں کیا فرق پایا جاتا تھا اور یہ اختلافات، کن اسباب کے تحت وجود میں آئے ہیں۔ اور آخری زمانہ کے تحولات کی تاثیر و کیفیت کی چھان بین، شیعہ اور سنی مذہبی جوانوں کے درمیان جذبہ اور حوصلہ افزائی کے لئے وجود میں لایا گیا تھا۔(۲۸)

آخری موضوع کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ سنجیدہ ترین کتاب اور موجودہ صدی میں سنیوں کی انقلابی نسل کے تفکر کے لئے اہم ترین اور مؤثر ترین راہنما، کتاب معالم فی الطریق، سے کچھ مطالب کو نقل کریں۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ موجودہ صدی میں ان لوگوں (سنیوں) اور شیعوں خصوصاً انقلابی شیعوں کے نظریات اس لحاظ سے کہ حوادث اور واقعات سے متعلق متضاد فکر کو درک کرنے میں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ اس معنی میں کہ اسلام کی نقاب اور ظواہر دین کی حفاظت ایسے نقاب پوشوں اور دین کا تظاہر کرنے والوں کے غیر قانونی اور شرعی ہونے کے سلسلے میں قاطع اور صریح فیصلہ کرنے میں مانع نہیں ہے۔ لیکن وہ لوگ اس نقطہ تک مختلف مواضع کے ذریعہ پہنچے ہیں جو شیعوں کے اس نقطہ سے فرق رکھتا ہے چاہے گذشتہ دور ہو یا دور حاضر اُس کے ذریعہ اِس مطلب تک پہنچے ہیں۔ شیعوں کی نگاہ میں وہ ائمہ معصومین(ع) کی سنت کے وارث ہیں یہ مسئلہ بہت ہی سامنے کی بات ہے۔ اگر دیکھا جائے تو معصومین(ع) کی زندگی میں قاعدتاً ابتدائی مقاصد میں سے ایک ہدف یہ تھا کہ مختلف طریقوں سے دین کی ظاہری نقاب اوڑھنے والوں، دین فروش یا جاہل اور قدرت طلب لوگوں کے چہروں سے نقاب ہٹادیں۔ لیکن جو کچھ کہا گیا ہے اس کی روشنی میں، اہل سنت ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ کیونکہ ان کے اعتقادات، افکار اور ان کی ذہنیت کچھ اس طرح پروان چڑھی تھی کہ وہ لوگ ایسا عمل انجام نہیں دے سکتے تھے اور نہ ہی اس کے بارے (اسلام میں رونما ہونے والے حوادث کے بارے) میں فیصلہ کرسکتے تھے۔

لہٰذا آخری دہائیوں میں معاشرتی ، سیاسی اور فکری و دینی فشار نے اہل سنت کے متفکروں کو چارہ جوئی کے لئے آمادہ کردیا اور مذہبی اور انقلابی جوانوں کو بھی ان کی باتوں پر کان دھرنے والے اور طرفداروں بلکہ ان کے مریدوں اور پیروکاروں میں تبدیل کردیا، وہ لوگ اس بات پر مجبور ہوگئے کہ اس مشکل کو دوسری جگہ سے حل کریں اور چاہا کہ اپنے مخالف نظریہ رکھنے والے اسلاف و معاصرین کے اعتقادات و افکار اور ذہنیت سے بے خبر اور بے توجہی کا اظہار کریں اگرچہ اس نے خود ایک دوسری مشکل کھڑی کردی، لیکن بہرحال ایک نیا راستہ کھول ہی دیا۔

مندرجہ ذیل جملوں میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تحلیل وتجزیہ کی روش، چھان بین کی کیفیت، اسلام کا مفہوم، مورد نظر مقاصد اور آخرکار اس پر حاکم روح کس حدتک پوری تاریخ اہل سنت کی فقہی، کلامی اور ان کے دینی تجربہ کی میراث میں کتنا فرق ہے۔

سید قطب کی راہ گشائی

''آج ہم ایک ایسی جاہلیت کی زندگی گذار رہے ہیں جو ظہور اسلام کے دور کی جاہلیت کے مشابہ ہے بلکہ اس (دور جاہلیت) سے بھی زیادہ تاریک ہے۔ ہمارے اطراف میں جو کچھ بھی ہے، وہ زمانۂ جہالت والی ہے... لوگوں کے تصورات اور ان کے عقائد، ان کی رسم ورواج اور ان کی عادتیں، ان کی ثقافت کا سر چشمہ، ان کے ہنر و ادبیات، ان کے قوانین و ضوابط۔ یہاں تک کہ بہت سارے وہ امور جن کو ہم اسلام کی ثقافت، اسلامی مآخذ اور اسلامی افکار اور فلسفہ کے عنوان سے یاد کرتے ہیں وہ سب جاہلیت کی دین ہیں... اور یہ سب کے سب اسی جہالت کا ماحصل ہیں!۔''

''لہٰذا مجبوراً ہم کو اس جاہلیت کے معاشرہ کے تصورات اور جاہلیت کی رسم ورواج اور جاہلیت کے زمانہ کی رہبری کے دباؤ سے رہائی حاصل کرلینا چاہئے... اور خصوصاً ہم کو اپنے اندر... ہماری ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ ہم اس جاہلیت والے معاشرہ کی واقعیت کے متعلق گفتگو کرنے کے لئے بیٹھ جائیں اور اس کی دوستی کو قبول کرلیں۔ کیونکہ وہ اپنی اس صفت، صفت جاہلیت کے ساتھ قابل گفتگو ہی نہیں ہے۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں تاکہ اس کی بنیاد پر پورے معاشرہ کو تبدیل کریں۔ ہماری سب سے پہلی ذمہ داری، اس معاشرہ کی حقیقت کو بدلنا دین ہے۔ ہماری ذمہ داری اس جاہلیت کی واقعیت و حقیقت کی بنیاد کو تبدیل کر دینا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو بنیادی طور سے اسلامی راہ و روش کے مقابلہ میں کھڑی ہوگئی ہے اور زور و زبر دستی کے ذریعہ اس بات سے مانع ہے کہ ہم خدا وند عالم کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کریں اور مرضی خدا کو معیار اور میزان قرار دیں۔''(۳۰)

''اسلام دوقسم سے زیادہ معاشرہ کو نہیں پہچانتا۔ ایک جاہلیت کا معاشرہ اور دوسرا اسلامی معاشرہ۔ اسلامی سماج اور معاشرہ ایک ایسا سماج ہے جو اپنے عقیدہ اور عبادت کے تمام پہلوؤں میں شریعت و نظام، سلوک و اخلاق کو وجود بخشتاہے۔ جاہلیت کا سماج اور معاشرہ ایک ایسا سماج ہے جو اسلام پر عمل نہیں کرتا۔ نہ تو اس کے اعتقادات اور تصورات ہی اسلامی ہیں اور نہ ہی اس کے قواعدو ضوابط اور مقدسات، نہ ہی اس کا نظام اور اس کے قوانین ہی اسلامی ہیں۔ اور نہ ہی اس کے اخلاق اور کردار ہی اسلامی ہیں۔ اسلامی معاشرہ ایک ایسا معاشرہ نہیں ہے جو ایسے افراد سے مرکب ہو جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ حالانکہ شریعت ان کا قانون اور آئین نہیں ہے، چاہے جتنی ہی نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہوں اور حج کے لئے جاتے ہوں۔ اسلامی سماج ایسا سماج نہیں ہے جو خدا اور رسول کے مقرر اور بیان کردہ فرمان کے علاوہ اپنی طرف سے احکام ایجاد کرلے اور اس کو مترقی اسلام (اسلام متطور) کا نام دے دے۔''

جاہل معاشرہ ممکن ہے کہ مختلف قسم کی شکلیں اختیار کرلے ۔ ممکن ہے ایسا سماج ہو جو خدا کا انکار کرے اور تاریخ کی ڈیالکٹکی اور مادی تفسیر کرے اور اس چیز کو ''علمی سوشالیزم کا نام دے کر معاشرتی نظام کے عنوان سے وجود عطا کرے۔ اسی طرح ممکن ہے ایک ایسا معاشرہ ہو جو خدا کا انکار تو نہ کرے لیکن خدا کو صرف آسمانوں سے مخصوص کردے کہ خداوندعالم کو اس کی زمین سے محروم کردیتا ہو۔ نہ اس کے قوانین کے آگے سرتسلیم خم کرتا ہے اور نہ ہی اس کے ثابت مقدسات ہی کو مانتا ہے۔ لوگوں کو اجازت دیتا ہے کہ صومعہ، کلیسا اور مساجد میں خدا وند عالم کی عبادت کریں، لیکن ان لوگوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اپنی مادی زندگی میں دینی قوانین کی حاکمیت کو طلب کریں اور اس طریقہ سے خدا کی الوہیت کا انکار کرتا ہے اور یا اس کو ایسے ہی معطل چھوڑ دیتا ہے۔ جب کہ قرآن مجید اس بارے میں صراحت سے بیان کرتا ہے: ''صرف وہ ہے جو آسمان میں اور زمین میں معبود ہے۔'' لہٰذا دین خدا میں ایسا کوئی معاشرہ نہیں ہے کیونکہ خداوندعالم خود فرماتا ہے: ''اس نے حکم دیا ہے کہ سوائے اس کے کسی کی پرستش نہ کرو۔'' یہ ہے محکم، قیم اور استوار دین۔'' ایسا معاشرہ ہی جاہلیت کا معاشرہ ہوگا چاہے جس قدر خداوندعالم کو قبول کرتا رہے...'' صرف اسلامی معاشرہ ہی ترقی یافتہ معاشرہ ہے اور دوسرے سارے جاہلیت والے معاشرہ اپنی مختلف شکلوں میں عقب ماندہ اور پچھڑے ہوئے معاشرے ہیں۔ اس بزرگ حقیقت کا واضح ہونا بہت ضروری ہے۔''(۳۱)

اسلام جاہلیت کے ساتھ مشارکت کو ہرگز قبول نہیں کرتا۔ نہ تو تصور کے اعتبار سے اور نہ ہی ان حالات اور لوازم کے لحاظ سے جو اس تصور کے حامل ہیں.. یا اسلام یا جاہلیت، ان دونوں کے درمیان کوئی درمیانی چیز نہیں پائی جاتی جس کا نصف حصہ اسلام اور دوسرا نصف حصہ جاہلیت ہو اور اس کے باوجود اسلام اس کو قبول کرے اور اس سے راضی ہوجائے... اسلامی زاویہ نگاہ اس بارے میں بالکل واضح اور آشکار ہے کہ حق ایک ہے اور اس میں تعدد اور کثرت کی گنجائش نہیں ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ ضلالت اور گمراہی ہے۔ یہ دونوں کسی دوسرے لباس میں نہیں آسکتے اور آپس میں مل جل (مخلوط) بھی نہیں رہ سکتے ہیں۔ حکم یا تو حکم خدا ہے یا جاہلیت کا حکم ہے۔ قانون یا تو قانون خدا ہے یا قانون ہوا و ہوس۔ اس باب میں قرآن کی متواتر آیتیں موجود ہیں: ''ان کے درمیان اس چیز کے ذریعہ جس کو خداوندعالم نے نازل فرمایا ہے فیصلہ کرو اور ہوا و ہوس کی پیروی مت کرو۔ ان لوگوں سے ڈرو کہ تم کو فتنہ میں ڈال دیں گے، جو کچھ خداوندعالم نے تم پر نازل کیا ہے ان میں سے بعض کے ذریعہ...'' یہ ایسے دو امور ہیں جن کا کوئی تیسرا (ثالث) نہیں ہے۔ یا خدا اور رسول کی آواز پر لبیک کہنا یا تو اپنے نفس اور ہوا ہوس کی پیروی کرنا...۔(۳۲)

''زمین پر خدا اور اس کے قوانین کو حاکمیت عطا کرنا، انسان کی حاکمیت اور اس کے قوانین کو نیست و نابود کرنا، غاصبوں سے اقتدار کو چھین کر خداوندعالم کے حوالہ کرنا... یہ اہداف تنہا تبلیغ اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ حاصل نہیں ہوسکتے، اس لئے کہ ظالم اور جبار اور حکومت کے لالچی حکمران اور حاکمیت خدا کے غاصب تبلیغ اور ارشاد کے ذریعہ اقتدار کو حوالہ نہیں کرنے والے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو انبیائے کرام نہایت ہی آسانی سے دین خدا کو روئے زمین پر استوار اور برقرار کردیتے اور یہ اس چیز کے بالکل برعکس ہے جس کی تاریخ نشان دہی کرتی ہے۔ اس دین کی تاریخ بھی دوسرے گذشتہ ادیان کے مانند ہے۔

روئے زمین پر ''انسان'' کی آزادی کا عمومی اعلان ہر اس قدرت سے جو کہ قدرت الٰہی سے جدا ہے اور یہ کہ الوہیت و ربوبیت صرف پروردگارعالم کی ذات سے مخصوص ہے، یہ ایک نظری، فلسفی اور اثر قبول کرنے والا اعلان نہیں ہے۔ ایک واقعی، محرک اور مہمیز کرنے والا اعلان ہے۔ ایک ایسا اعلان ہے جو روئے زمین پر قانون الٰہی کو وجود بخشنا چاہتا ہے اور عملی طور پر انسانوں کو بعض انسانوں کی بندگی سے آزادی دلاکر خدا کی بندگی میں داخل کردے...۔ لہٰذا قہراً'' بیان'' کے ساتھ ''تحرک'' کا ہونا ضروری ہے تاکہ اس کے ذریعہ ''واقعیت'' کے ساتھ زندگی کے تمام گوشوں میں مقابلہ کرے۔(۳۳)

مندرجہ بالا جملات سید قطب کی کتاب سے لئے گئے ہیں اگرچہ ان کے طولانی ہونے کے باوجود، اس بحث اور دوسری بحثوں کو زیادہ واضح ہونے کے لئے اہمیت کے پیش نظر اسے ہم نے یہاں ذکر کیا ہے۔ واقعیت یہ ہے کہ موجودہ اسلامی تحریک اور اہل سنت کے نزدیک ان کے اعتقادی، فکری اور سیاسی معیاروں کو اس وقت تک نہیں پہچانا جاسکتا جب تک کہ اس کتاب کی پوری طرح شناخت کرکے اس کو سمجھ نہ لیا جا ئے ۔ قابل توجہ یہ ہے کہ حتیٰ سید قطب کے انقلابی ہم فکروں اور مبارزہ طلب لوگوں کے علاوہ وہ لوگ بھی جن کا سید قطب سے کوئی رابطہ نہیں ہے وہ بھی اس کتاب سے ایک طرح سے متأثر ہیں۔ ان لوگوں نے اس جگہ سے ابتدا کی ہے جہاں سے سید قطب نے آغاز کیا تھا اور کم وبیش اسی روش اور سیاق کو اپنایا جسے سید قطب نے اختیار کیا تھا۔ سید قطب اور ان لوگوں کے درمیان زیادہ فرق مآخذ اور اس کی حجیت قبول کرنے میں ہے نہ یہ کہ کسی اور سبب کے تحت ہے۔

سید قطب کے افکار کی اہمیت

اس بات کا بنیادی سبب نہ تو سید قطب کی عظمت ہے اور نہ ہی ان کی مستحکم اور مخدوش نہ ہونے والی فکر کی عظمت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ ایک خلاق فکر کے حامل، مخلص اور اصیل انسان تھے۔ اس مقام پر مسئلہ یہ ہے کہ سید قطب کی شخصیت اور فکر کی مقبولیت سے زیادہ اس نکتہ میں پوشیدہ ہے کہ اب تک ان کے علاوہ کسی نے اسلامی سیاسی انقلابی فکر کو صدر اسلام کے تقدس کی نفی کے بغیر (خلفا ئے راشدین کا دور مراد ہے اس لئے کہ انھوں نے معاویہ، امویوں اور اس کے بعد کے ادوار پر شدت سے تنقید کی ہے بلکہ بعض مواقع پر عثمان کو بھی اپنی تنقیدوں کا نشانہ بنایا ہے) ایک جدید مقام سے پیش کرے۔ انھوں نے ایک ایسے راستہ کی بنیاد رکھی تھی کہ دوسرے لوگ جب تک کوئی کسی نئے راستہ کی بنیاد نہیں پڑتی اس وقت تک اسی کے بنائے ہوئے راستہ پر چلنے پر مجبور ہیں۔(۳۴)

جب سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے اس وقت سے آج تک بے شمار افراد اپنے مختلف دینی یا غیر دینی اغراض کی بنیاد پر، اس کتاب کو اپنی تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں، لیکن ان سب چیزوں کے باوجود آج تک یہ کتاب جوانوں کے لئے ایک موثق ترین اور بھروسہ مند

اسلامی ماخذ کے عنوان سے باقی ہے، جس نے ان آخری دہائیوں میں انقلاب کی طرف مائل کرنے کے لئے مسلحانہ کوششوں کو آگے بڑھایا اس کے باوجود جوانوں نے اپنے سوالوں کا جواب بھی اسی میں ڈھونڈھ نکالا۔ جوانوں کا سید قطب مخصوصاً ان کی کتاب کا عظیم استقبال ان کی تاریخ میں اسلامی افکار کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس قسم کے افکار کی ضرورت یہ ہے ایک واقعی اور سنجیدہ نیاز رہی ہے۔ جسے جواب کی ضرورت ہے اور ایسی صورت حال میں جب کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اپنی بات نہیں پیش کررہا ہے تو پھر یہ امر فطری اور واقعی ہے کہ وہ لوگوں کی توجہات کا مرکز بن جائے۔

اس کے علاوہ سید قطب یا کوئی دوسرا متفکر جو کسی اور عقیدہ کا ماننے والا ہوتا کیونکر ایسے مستحکم اور مضبوط باندھ میں سوراخ کرنے پر قادر ہوتا اور ایسے مجموعہ کے اصول (بنیادین) بلکہ اس کے اجزا بالو اسطہ یا بلا واسطہ طور پر اپنے مطلوبہ جواب سے متضاد ہوتے ہوئے اس میں اپنے جواب کا ضرورت مند تھا کہ اپنا جواب طلب کرے۔ اگر یہ طے کرلیا جائے کہ وہ باندھ ( Dame ) اپنے اسی استحکام پر باقی رہے اور تاریخی تنقیدوں کو مسمار نہ کرے پھر اس صورت میں سید قطب کی بتائی ہوئی روش سے متمسک ہونے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں بچتا ہے، یا اسی روش سے مشابہ دوسرے راستے اس کے جواب دہ ہوسکتے ہیں۔

اکثر مسلمان نقادوں نے سید قطب پر اس وجہ سے تنقید کی ہے کہ انھوں (سید قطب) نے مسلمانوں کو جاہلیت کے سماج کا نام دیا ہے اور اسے دارالحرب کے مثل جانا ہے، اسی بات پر تنقید کی ہے۔ لیکن کسی نے بھی اس مطلب کی طرف غور وخوض نہیں کیا ہے کہ انھوں نے کس فکری اور اعتقادی دبائو یا نسل موجود کی کن ضرورتوں کے تحت یہ اس لئے سبقت کی ہے اور کس قول کا پیش خیمہ کیا ہے۔ سید قطب اور اس کے ہم فکروں اور پیروکاروں کی نظر میں اصل ہدف اپنے جواب کی تلاش تھی، البتہ یہ تلاش ابھی بھی باقی ہے، لہٰذا اس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ اس راستہ کے علاوہ کس راستہ کو اپنے جواب کی خاطر اختیار کرتے کہ اپنے مقصود کو حاصل کرلیتے؟ اس کا اصل ہدف یہ تھا کہ وہ اسلامی تحریک میں پیش پیش لوگوں کے لئے دستورالعمل تحریر کرے اور انھیں یہ کہے کہ وہ اپنے کام کی ابتدا کس طرح کریں اور کس طرح پوری زمین پر جاہلیت کے بچھے ہوئے جال سے مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوں۔ ایسے پیش گام لوگ جنھیں اس راہ کی نشانیوں کی ضرورت ہے (معالم فی الطریق) ایسی نشانیاں جن کی مدد سے اپنی ذمہ داری اور اپنے ہدف کو نیز اس سفر کے نقطۂ آغاز کو پہچان سکیں... اور انھیں بخوبی معلوم ہوجائے کہ کس مقام پر لوگوں کے ساتھ رہیں اور کس مقام پر ان لوگوں سے جدا ہو جائیں۔ موجودہ جاہلیت کی خصوصیت سے آشنائی حاصل کریں اور یہ بھی جان لیں کہ اپنے زمانہ کے جاہلیت زدہ لوگوں سے کس زبان میں بات کریں اور کن مسائل میں انھیں اپنا مخاطب قرار دیں ...۔''(۳۵)

بغیر کسی تعصب کے ایک غائرانہ تجزیہ میں یہ کہا جانا چاہئے کہ سید قطب تمام اعتقادی رکاوٹوں اور ان تمام دبائو اور ضرورتوں جن کے تحت وہ زندگی گزار رہے تھیاور فکر کررہے تھے پھر بھی مجموعی طورپر کامیاب رہے۔ ان پر تنقید کرنے والوں نے ان کے موجودہ اعتقادی پابندیوں اور رکاوٹوں کو مد نظر نہیں رکھے تھے یا ان پر پڑنے والے دبائو اور ضرورتوں کو جن سے وہ روبرو تھے اس کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔

البتہ اس مقام پر سید قطب کے نظریات کی تحقیق اور چھان بین مراد نہیں ہے بلکہ ہم اس نکتہ کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اہل سنت کی فقہ، کلام اور فکری واعتقادی عمارت جن پر قائم ہے شدید سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی حوادث کے مقابلہ میں کس طرح اور کن نکات کا ملاحظہ کرکے ردعمل ظاہر کرتے ہیں؟ اس بات سے کہ سید قطب اپنی دینی پابندی کے ساتھ ساتھ ایک انقلابی عہد کے پابند ہیں وہ اس کے ایک زندہ نمونہ ہیں ہم نے ان کے نظریات کے بعض حصوں کے سلسلہ میں یہاں پر تحقیق ا ور چھان بین کی ہے اور یہ کہ انھوں نے کہاں سے اپنے اسلامی (انقلابی)فکر کا آغاز کیا۔ انھوں نے اسلامی سماج پر مسلط نظام کی دینی لزوم اور وجوب کی ضرورت کے تحت ان کی نفی کوا ثبات کرنے کے لئے مجبور ہوگئے کہ وہ اسی نقطہ سے اپنی فعالیت کو شروع کریں اور اپنے نظریہ کو اس پر تکیہ کرتے ہوئے آگے بڑھائیں۔(۳۶)

تاریخی تنقیدوں کی خطا

اور دوسرے نتائج جو پہلے والے نتائج سے مشابہ اور مشترک ہیں، البتہ تاریخ میں اس کی کیفیت تاثیر اور موجودہ صورتحال پہلی صورت سے مختلف ہے لہٰذا ہم اس کی بحث مستقل اور جداگانہ کریں گے۔

صدر اسلام کی خدا داد قدر ومنزلت اور دینی اعتبار کا بے شمار داخلی تضاد کے باوجود قبول کرنے کا منطقی اور فطری نتیجہ تاریخی تنقید کی خطا ہی تھی کہ بغیر کسی تحقیق اور جستجو کے اس بات کو قبول کرلیا جائے کہ صدر اسلام کے مسلمان مایۂ ناز، محترم اور اچھے لوگ تھے اور ہر ایک نے اپنے فریضہ پر عمل بھی کیا ہے لہٰذا صاحب اجر اور جنتی ہیں اور ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہم ان کے امور میں چوں چرا کریں۔ ایسے اعتقاد کا بلاواسطہ نتیجہ اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقابلہ میں روحی ونفسانی نیز ان کا اپنے اعتقاد کی طرفداری اور اس کا تحفظ تھا۔ لیکن جب یہ تصور پیدا ہوا تو صحابہ اور ان کے عصر سے محدود نہیں رہ گیا بلکہ پوری تاریخ اسلام کو اپنے احاطہ میں لے لیا جب کہ یہ تصور صحابہ کی دینی صلاحیتوں کی تحقیق کے بالکل مخالف تھا کہ آیا وہ لوگ حق پر تھے یا باطل پر نیز انھوں نے باطل کی ترویج کی ہے یا حق کی یہی وجہ ہے جس کی بناپر ہم نے اسے ایک تاریخی دینی تنقید سے تعبیر کیا ہے۔

لیکن ایک شیعہ ایسی مشکل سے دوچار نہیں تھا۔ جس طرح وہ صدر اسلام کی تاریخ کے متعلق تنقیدی نظر رکھتا تھا، اسی طرح وہ اسلام کی پوری تاریخ کے سلسلہ میں نقادانہ نظر کا مالک تھا جس طرح صدر اسلام میں اسلام سے منحرف ہونے والوں پر تنقیدیں کیا کرتا تھا، اسی طرح ان کے بعد منحرف ہونے والوں پر شدید تنقید کرتا تھا، لہٰذا اس کے لئے یزید، مروان، عبدالملک، ہشام، منصور، ہارون، متوکل یا حجاج، ابن زیاد، یہاں تک کہ فقہا و محدثین اور علما ئے سوء کوان کے منحرف اعمال کی وجہ سے ان پر شدید تنقیدیں کرنا، اس کے لئے کوئی مشکل کام نہ تھا۔ اس مقام پر قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس کے نزدیک یہ مسئلہ اس سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر آسان تھا۔ اس لئے کہ ان لوگوں کے نزدیک حق وباطل کا معیار ہے لہٰذا وہ لوگ بڑی ہی آسانی سے شیعوں کو بھی اسی معیار اور میزان پر پرکھ سکتے ہیں۔ یہاں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ صاحبان قدرت جیسے یزید، منصور اور متوکل پر تنقیدیں کی جائیں، بلکہ زیادہ اہمیت کا حامل یہ ہے کہ تمام بادشاہوں شاہ عباس جیسی شخصیت بھی تنقید کا نشانہ بنی، بلکہ یہ شاہ عباس ہی نہیں تھا جس پر تنقیدیں ہوئیں بلکہ تمام شیعہ حکام خواہ وہ صفوی ہوں یا دیلمیوں میں سے ہوں، یا افشاری، یا زندیہ، یا قاجاریہ سلسلہ کے ہر ایک پر تنقیدیں ہوئی ہیں۔

البتہ جیساکہ کہا جاچکا ہے کہ ان مواقع پر ان دو جماعتوں کی صدر اسلام کے متعلق باہمی سمجھ اس فیصلہ کو معین کرنے کا واحد سبب نہیں ہے۔ لیکن ان میں سے اہم ترین اور مؤثر ترین اسباب میں سے ایک سبب کی حیثیت ضرور رکھتا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک سنی شاہ عباس جیسے ایک سنی بادشاہ پر دینی رجحانات کے تحت اس پر تنقید کرے اور اساسی نکتہ بھی یہیں پر ہے۔ آج کل سماج میں آزادی ہے، ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے کہے اور کرے اور جو نظریہ دینا چاہے اسے بیان کرسکتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک صاحب قلم اور ایک طالب علم ( Student ) تمام دینی مقدسات کے سلسلہ میں اعتراض کرسکتا ہے۔ لیکن ایک متدین اور دیندار آزاد ہونے کے باوجود اپنی دینداری اور اس پر پابند ہونے کے لحاظ سے اپنی حد سے تجاوز نہیں کرسکتا اور اعتقادات کے مطابق شرعی قوانین سے زیادہ اور کسی معتبر دلیل اور حجت شرعی کے اس میں کوئی شک نہیں کرسکتا۔ بہرحال ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی متدین اور سنی عقیدہ کا حامل کبھی بھی شاہ عباس جیسے حاکم یا اس سے کم تر کسی سنی حاکم کے سامنے اس پر آشکارا تنقید نہیں کرسکتا۔ اس لئے کہ یہ رد عمل ان کے کلامی، فقہی اور متفق علیہ اجماع کے خلاف ہے۔(۳۷)

جو کچھ ہم نے بیان کیا اس کے بے شمار برے آثار اور نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں صرف فقہی اورکلامی ثمرہ کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے سیاسی، معاشرتی، ثقافتی اور اس کے تاریخی نتائج مخصوصاً دور حاضر میں اہمیت کا حامل اور ایک عنوان سے سرنوشت ساز ہے۔ ہمارے اور ان کے نزدیک تاریخ کا مفہوم، خواہ وہ تاریخ مذہبی ہو یا ملی یا قومی اور خاندانی ہو، مختلف ہے۔ تاریخ خود اپنی تاریخی حیثیت سے؛ البتہ یہاں پر تاریخ سے مراد تاریخ اسلام ہے، ان لوگوں کے نزدیک بنیادی طورپر ایک خاص اہمیت اور عظمت کی حامل ہے جس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی اور اس کا نظر انداز کرنا صحیح بھی نہیں ہے۔ لیکن شیعوں کے نزدیک ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ تاریخ کی بہ نسبت ایک سنی کی نگاہ، شیعہ زاویۂ نگاہ کے بالکل برخلاف ہے، تاریخ اسلام اگر مقدس تاریخ نہ بھی ہو، تب بھی قابل تنقید و اعتراض بھی نہیں ہے۔ اگرچہ اہل سنت کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ اپنے گذشتہ کو مقدس اور قابل افتخار سمجھتے رہے ہیں، اگر ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں جواپنے گذشتہ کو ایسا نہ سمجھیں تو کم سے کم اتنا ضرور ہے کہ وہ دینی اعتبار سے تنقید نہیں کرتے اور اس کو مظالم کی داستان، تجاوز، ہوسرانی اور خلفا و سلاطین اور حکام کی بے دینی کی تاریخ کا نام نہیں دیتے۔(۳۸)

بہرحال اہل سنت کی نظر اور انسانی اعتقاد کے جھروکوں سے ان کا گذشتہ یعنی تاریخ ماضی اگر قابل احترام اور فخر کا باعث نہ بھی ہو تب بھی قابل مذمت بھی نہیں ہے، اسی اعتبار سے اہل سنت کے نزدیک تاریخی شعور ہمارے تاریخی شعور کی بہ نسبت کافی قوی ہے۔ جو لوگ پہلے سے ہی تاریخ پر تنقید کرتے آئے ہیں وہ کسی بھی حال میں اس کی اہمیت کے قائل نہیں ہوسکتے۔ وہ لوگ اس لحاظ سے کہ اپنے دینی چاشنی کی بنیاد پر گذشتہ تاریخ کے ضعیف پہلوؤں پر نظر نہیں کرتے، لہٰذا اسے پرافتخار اور پرشکوہ حوادث اور واقعات کا مجموعہ سمجھتے ہیں یہ تاریخ، ان کے دین کی تاریخ ہے۔ عظمتوں اور ان کی سربلندیوں کی تاریخ ہے۔ ان کے فتوحات اور جہاد کی تاریخ فتوت (بہادری) اور جوانمردی کی تاریخ، علما اور اس کے دانشوروں کی تاریخ، ہنرمندوں اور شعرا کی تاریخ، باعظمت ثقافت اور تمدن کی تاریخ، شان وشوکت اور اقتدار والے خلفا اور سلاطین کی تاریخ، یہاں تک کہ (ہزار ویک شب) افسانوں کی تاریخ ہے۔ وہ لوگ جو اسلام کی شان وشوکت اور قدرت وسطوت اور اسلام اور مسلمین کے معاشرہ کے لئے نمونہ تھے۔(۳۹) لیکن شیعہ لوگ اپنے نفسیاتی سابقہ کی بنیاد پر تعمیری نکات کو نہیں بلکہ منفی پہلو کو دیکھتے ہیں اور فطری طورپر نہ صرف یہ کہ اس کو پسند نہیں کرتے بلکہ کسی نہ کسی سبب سے اس سے اپنا دامن بچالیتے ہیں۔ (یہ بات حتیٰ خود ان کی تاریخ کے بارے میں یعنی سلاطین کی تاریخ اور شیعی سلسلوں میں بھی صحیح ہے) ان کی نظر میں یہ تاریخ ظلم وستم کی تاریخ ہے قتل و خونریزی کی تاریخ، استبداد و جباریت کی تاریخ، دین فروشی اور بے دینی کی تاریخ ہے۔ ریا اور دکھاوے کی تاریخ ہے، تملق اور چاپلوسی کی تاریخ ہے اور آخرکار ایسے گمنامی کے قربانیوں کی تاریخ ہے جو شہ سواروں کے سموں میں پامال ہو کر صاحبان قدرت اور مال جمع کرنے والوں کے فلک بوس قلعوں اور محلوں کے نیچے دفن ہوگئے ہیں۔ ایک تاریخ کو اس کے شکوہ وجلال کے آئینہ میں دیکھتا ہے اور دوسرا اس کی دینداری اور عدالت کے آئینہ میں اور کم از کم یہ ضرور ہے کہ ہم یہ کہیں کہ ہر ایک نے اپنے ضمیر میں حق یا ناحق ایسا ضابطہ بنا رکھا ہے اور اس بات کی کوشش کرتا ہے تاکہ ان چیزوں میں جس کے بارے میں وہ خود حساس ہے اس کو بڑھا چڑھا کر ماضی کو ویسے پیش کرے جیسے خود وہ چاہ رہا ہے۔(۴۰)

اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ دونوں تصویریں کس حد تک مختلف اور جدا ہیں۔ یہاں ہماری بحث اس بارے میں نہیں ہے کہ کون حق پر ہے یا واقعیت سے زیادہ نزدیک یا پھر دونوں ہی برابر اور واقعیت اور حقیقت سے دور ہیں۔ ہماری بحث اس سلسلہ میں ہے کہ ان دونوں نظریات کے مطابق مختلف نتائج اور اثرات ظاہر ہوں گے جن میں سے اہم ترین یہ ہے کہ اہل سنت کی تاریخ میں دوام و بقا اور استقرار شیعوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہے۔ یہاں پر تاریخ سے مراد شیعوں کی مستقل اورمقتدر افراد کے سلسلہ کی تاریخ ہے۔ (ان کی نظر میں کبھی بھی گذشتہ کا انکار نہیں کیا جاسکتا جب کہ شیعوں میں عموما ایسا ہی ہے ان کے نزدیک حال استمرار گذشتہ ہے۔ یہاں پر اس کی نفی ہے بلکہ موجودہ شدید ترین انقلابی تحریکوں کے درمیان) موجودہ اسلام میں کوئی ایسی تحریک مل ہی نہیں سکتی جس نے اپنے کام کی بنیاد گذشتہ کے بالکل نفی پر رکھی ہو۔ لیکن یہاں پر (شیعوں کے نزدیک) مشکل سے ایسی کوئی تحریک ملے گی کہ جس کا مقصد گذشتہ کی نفی نہ ہو۔(۴۱)

ان دو طرح کے نظریات پر مرتب ہونے والے جامع اور کامل نتائج اور اثرات وہ ہیں کہ انھیں بیان کرنے کے لئے ایک مستقل کتاب تحریر کرنے کی ضررت ہے۔ اس لئے کہ یہ موضوع آج کے اہم ترین مسائل سے متعلق ہے جیسے ملیت اور اسلامی پہچان، ثقافتی استقلال، پشت پناہی اور تاریخی میراث مستقل شناخت اور معاشرتی تحولات، یہ سب کے سب آج کے مسلمانوں کے لئے بھی بہت ہی اساسی اور روز مرہ کے پیش آنے والے ضروری ترین مسائل میں سے ہیں، ان سے متعلق ہے اور ان سوالات کے جواب کو دریافت کرنے کے لئے مذکورہ موضوع کے سلسلہ میں بطور دقیق تحقیق اور چھان بین کی ضرورت ہے۔

البتہ اس مقام پر بھی اس سے پہلے والے مورد کی طرح وہی تغیرات وجود میں آئے ہیں۔ اگرچہ بہت سے اہل سنت یہاں تک کہ دور حاضر میں بھی اپنے ماضی کے سلسلہ میں ایسی ہی نظر رکھتے ہیں، لیکن وہ لوگ جو اسے تنقیدی نگاہوں سے دیکھتے ہیں ان کی بھی تعداد کم نہیں ہے۔ نئی زندگی کی ضرورتوں کا دباؤ، عقل مندی اور تنقیدی رجحان میں وسعت ایسے عقائد سے کہیں زیادہ قوی تر اور سرنوشت ساز ہیں۔

یہ کہ ابھی تک یہ ضرورتیں کیوں اس نظریہ کو مؤثر انداز میں بدلنے میں ناکام رہی ہیں تو یہ عصر حاضر کی ضرورتوں کا نتیجہ ہے، جو خود عصرنو کی پیداوار ہیں۔ ایک ایسا عصر اور زمانہ جس میں ہر ایک اپنی اور اپنی تاریخی میراث اور ثقافتی حقیقت کی تعریف اور اس کے حدود اربعہ کو معین کرنے کے لئے مجبور تھا، مسلمان بالخصوص عرب دنیا والے اپنی حقیقت کو پہچنواننے پر مجبور ہوگئے۔ وہ اس بات پر مجبور ہوگئے کہ اپنی تاریخ، ثقافت اور میراث کو دوبارہ پہچان لیں۔ تاکہ اسے لوگوں کو پہچنواسکیں۔ وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ اسی پر اعتماد کریں اور اس سے تمسک کے ذریعہ فرنگیوں (انگریزوں) کی دائمی اور موذیانہ تحقیر کے مقابلہ کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں۔ فطری طورپر ایسے سخت حالات میں وہ نہ تنہا مجبور تھے کہ اپنے افتخار آفریں تمدن و ثقافت کے عناصر پر زور دیں اور ضعیف و کمزور پہلوؤں سے چشم پوشی کرلیں، بلکہ اہم بات تو یہ تھی کہ اس کے قوی پہلوؤں کے علاوہ اور کچھ بھی نہ دیکھیں۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ ضعیف پہلوؤں کو چھپائیں، بنیادی طورپر ایسے پہلو ان کی توجہات کو اپنی طرف جذب نہیں کرتے تھے۔ پس اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ اگر یہ ضرورت نہ ہوتی تو ماضی کی یادگار یعنی یہ قدیمی طرز فکر یا بالکل ختم ہوجاتے یا جو مقام اسے آج حاصل ہے، اس سے کہیں پست مقام کا حامل ہوتا اور دنیائے عرب فکر اور ثقافت کے اعتبار سے جن حالات میں آج جی رہی ہے اس کی حالت اس سے کہیں مختلف ہوتی۔(۴۲)

عبد الرزاق کا تاریخی تصور

یہاں پر مناسب ہے کہ ہم عبدالرزاق کی کتاب الاسلام و اصول الحکم، سے اس عبارت کو نقل کریں جس میں انہوں نے گذشتہ زمانہ پر تنقید کی ہے چاہے وہ صدر اسلام کا زمانہ ہو یا اس کے بعد کے خلفا کا دور ہو۔ اگرچہ، جو حالات سید قطب کو حاصل تھے ویسے عبدالرزاق کو حاصل نہیں ہوئے تھے۔ لیکن بہرحال وہ پہلے روشن فکر انسان ہیں جنھوں نے اس وادی میں قدم رکھا اور اس سلسلہ میں ہر ایک سے زیادہ مؤثر واقع ہوئے۔ اس مورد میں وہ مؤثر ترین اور پرنفوذرترین شخصیات میں سے ہیں اگرچہ عبد الرزاق کی شہرت ان کی فکر کے مقابلہ میں بعض دلائل کے تحت کہیں زیادہ کم ہے۔

اس مسئلہ کے بھی سیاسی اور معاشرتی اسباب و علل ہیں۔ ناصر اور اس سے پہلے کے ادوار میں مصر کی سیاست، بلکہ اس دوران میںپوری دنیائے عرب میں اور دور حاضر میں بھی عربی تعصب پر قائم تھی۔ جس کی ترویج اور تبلیغ کی جارہی ہے۔ ناصر کے چاہنے والے اور سیاست عرب کے مخالفین نے صرف، اس وجہ سے عبدالرزاق کا استقبال کیا کہ انھوں نے عرب کی بعض قدیمی اور خود ان کی لفظوں میں تنزلی پر گامزن کرنے والی سنتوں سے مقابلہ کے لئے قدم اٹھایا تھا، لیکن تاریخ اور گذشتہ میراث پر اس کی تنقیدوں سے وہ لوگ ناخوش تھے۔ ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ تاریخ کو زیادہ سے زیادہ باشکوہ اور باعظمت اور انسانی اقدار پر دکھائیں اور اس اعتبار سے وہ عبدالرزاق اور اس کے حامیوں کے مخالف تھے۔(۴۳)

معاشرتی لحاظ سے بھی عبدالرزاق کو اپنے دور میں نفوذ اور آگے بڑھنے کا کوئی خاص موقع فراہم نہیں ہوسکا۔ وہ اپنی کتاب کی وجہ سے دینداروں کے غیض و غضب کا نشانہ بنے جو اس وقت کی اکثریت میں تھے۔ یہاں تک کہ انقلابی نئی نسلیں جو نہایت شدت کے ساتھ مذہبی لوگوں کے افکار و عقائد کے مخالف تھے اور دور حاضر کے دینداروںکے خلاف کتاب تحریر کرڈالی اس (عبدالرزاق) سے نفرت کرتے تھے۔ اس لئے کہ اس کا یہ عقیدہ تھا کہ دین سیاست سے جدا ہے اور جدا رہنا بھی چاہئے اور اس صورت کے علاوہ یہ سیاست ہے جو دین کو اپنی خدمت میں لے گی اور اس کے بر خلاف ممکن نہیں ہے یعنی دین سیاست کو اپنی خدمت میں نہیں لے سکتا، لہٰذا ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا رہنا چاہئے۔ ایسا نظریہ جوانوں کے عقائد اور ان کی چاہتوں کے خلاف تھا اور اس دور کی ضروریات اور واقعیات کے بھی متضاد تھا۔(۴۴)

یہی وہ اسباب ہیں جس کی وجہ سے انھیں معاشرتی اور فکری مقام نہ مل سکا۔ لیکن بہرحال اہم یہ نہیں ہے کہ اس کی شخصیت کس حد تک بانفوذ تھی اور اس حد تک ان کی شخصیت با نفوذ کیوں تھی۔ اہم تو یہ ہے کہ انھوں نے ایسے نظریات پیش کئے جو صحت اور درست ہونے کے لحاظ سے بھی اس کا اہم حصہ اور ہماہنگی اور اتفاق کے لحاظ سے بھی جدید ضرورتوں کے مدنظر نفوذ اور وسعت کے امکانات کہیں زیادہ تھے، ایسے نفوذ جو آئندہ زمانہ میں اور زیادہ فیصلہ کن ہونگے۔ جیسے جیسے عربوں کے درمیان اپنے ماضی کو پرافتخار دکھانے کی حس کم ہوتی جائے گی، ویسے ویسے اس کی اور اس کے ہم فکروں کے افکار کا استقبال بڑھتا جائے گا۔

جو کچھ بھی عبدالرزاق اور ان کی کتاب کے سلسلہ میں بیان کیا گیا ہے، وہ صرف تاریخی نظریات اور ان کی حیثیت کو واضح کرنے کے لئے تھا، نہ کہ اس سے زیادہ۔ (اس کے بیان سے) ہدف یہ ہے کہ اس کے بیان میں غورو فکر کرکے اہل سنت کی تاریخ میں تنقید کی فکر سے متعلق جو ان کی عقائدی بنیادوں کی طرف پلٹتی ہے، اسے واضح ہو جانا چاہئے۔

''بغیر کسی شک و شبہ کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ خلافت کے ہمراہ ہمیشہ قہر و غلبہ رہا ہے۔ کسی بھی خلیفہ کا نام تاریخ نے نہیں لکھا مگر یہ کہ اسے ایک خوف ناک مسلح فوج نے اپنے احاطہ میں نہ لے رکھا ہو۔ غضبناک قدرت اس کے سر پر سایہ فگن ہے اور برہنہ تلواریں جو اس کی حفاظت کررہی ہیں۔ حتیٰ یہ کہنا بھی بعید نہیں ہے کہ خلافت کے ہر سلسلہ میں قہر و غلبہ کی مہر نظر آتی ہے۔ ہاں! جسے تخت خلافت کہا جاتا ہے وہ قائم نہ ہوا مگر یہ کہ انسانوں کے سروں پر اور خلافت مستقر نہ ہوئی مگر انھیں انسانوں کی گردنوں پر۔ جسے تاج کا نام دیا جاتا ہے وہ زندہ نہیں ہے سوائے لوگوں کی جان لینے کے ذریعہ اقتدار کا مالک بھی نہیں ہے مگر یہ کہ دوسروں سے اچک لے اور کسی عظمت اور کرامت کا مالک نہیں ہے مگر یہ کہ اس عظمت اور کرامت کو دوسروں سے حاصل کیا ہو (بالکل اسی طرح جب شب طولانی ہوجاتی ہے تو دن کو چھوٹا بنادیتی ہے) اور اس کا جلوہ بھی برق شمشیر اور جنگوں کو بھڑکانے سے باقی ہیں۔''(۴۵)

''ملک کی حفاظت کی غیرت، بادشاہ کو اس بات پر ابھارتی تھی کہ وہ چیز جو اس کی حکومت کو لرزا دے یا اس کی حرمت اور عظمت کو ختم کردے یا اس کے (احترام) تقدس کو گھٹادے، اس کی حمایت کرے۔ لہٰذا یہ امر فطری تھا کہ حاکم اس شخص کے مقابلہ میں خونخوار، وحشی قاتل اور شیطان بن جائے جو اس کی اطاعت سے سر پیچی کرے۔ اسی طرح سے امر بھی فطری تھا کہ وہ ہر اس علمی بحث اور مباحثہ کا جانی دشمن بن جائے اور ایسی بحثیں جو اس کے گمان میں اس کی حکومت کے لئے خطرہ بن جائیں۔ اس کی جانب سے کسی خطرہ کے لاحق ہونے کا خوف ہو چاہے وہ خطرہ کتنا ہی بعید کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ علم اور تعلیم و تربیت کے مراکز کی آزادی پر سلطنت کی طرف سے ہمیشہ دباؤ لگایا گیا ہے...''(۴۶)

''جس واقعیت کو عقل بھی محسوس کرتی ہے اور تاریخ بھی اس پر بھی گواہی دیتی ہے وہ تاریخ ماضی کی ہو یا حال کی، کوئی تاریخ بھی ہو وہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ شعائر کی حفاظت اور دینی مظاہر کی ترویج اس حکومت پر موقوف نہیں ہے کہ جسے فقہا خلافت کا نام دیتے ہیں اور نہ ہی وہ لوگ جن کو عوام الناس اپنا خلیفہ جانتے ہیں۔ واقعیت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس دنیا کی مصلحت پر بھی موقوف نہیں ہے... بلکہ ہم کو اس سے زیادہ کہنا چاہئے۔ خلافت ہمیشہ سے اسلام اور مسلمین کے لئے نحس رہی ہے اور اب بھی ہے اور ہر شرو فساد کا مصدر بنی رہی ہے...۔''(۴۷)

''جیساکہ آپ کو معلوم ہے کہ اسلام ایک عظیم دعوت تھی جسے خدا وند عالم نے انسانوں کی سعادت اور دنیا والوں کی فلاح و کامیابی کے لئے بھیجا تھا ۔وہ خواہ شرقی ہوں یا غربی، عرب ہوں یا عجم، عورت ہو یا مرد، فقیر ہو یا غنی، عالم ہوں یا جاہل۔ ہر ایک کے لئے خداوندعالم نے دین واحد کا انتخاب کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ بشر سے ارتباط برقرار کرسکے۔ دنیا کے تمام گوشوں کو شامل ہو اسلام کی کوئی دعوت عربی نہیں اور نہ ہی عربی اتحاد یا عربی دین ہے۔ اسلام نے ایک امت کو دوسری امت پر یا ایک زبان کو دوسری زبان پر یا ایک سرزمین کو دوسری سرزمین پر یا ایک زمانہ کو دوسرے زمانہ پر یا ایک نسل کو دوسری نسل پر جز تقویا کسی اور چیز کے ذریعہ برتری نہیں بخشی۔''(۴۸)

''اگر ابوبکر کی بیعت اور اس کی خلافت کے مقدمات کے سلسلہ میں غور کریں تو یہ معلوم ہوجائے گا کہ ابوبکر کی بیعت ایک سیاسی بیعت تھی اور اپنے زمانہ کی تمام حکومتی خصویات کی حامل تھی اور دوسری حکومتوں کی طرح شمشیر اور قدرت پر اعتماد کرکے قائم ہوئی تھی۔''(۴۹)

''شاید بعض وہ لوگ جن سے ابوبکر نے جنگ کی اس کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے زکات نہیں دی تھی اور وہ اس وجہ سے دین سے بھی منھ موڑ کر کافروں کے گروہ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے کہ ان لوگوں نے بعض دوسری اسلامی شخصیتوں کی طرح ابوبکر کو قبول نہیں کیا تھا اور اس صورت میں یہ امر فطری تھا کہ وہ لوگ اس کو زکات ادا نہ کریں۔ اس لئے کہ اسے قانونی نہیں جانتے تھے اور اس کی اطاعت کے لئے سرتسلیم خم نہیں کیا تھا۔ جب بھی کوئی انسان ابوبکر کے خلاف قیام کرنے والوں کے سلسلہ میں گہرا مطالعہ اور چھان بین کرتا ہے، جنھیں مرتد کا نام دیا گیا، بیٹھ جائے اور جنگوں کے بھڑکنے کے سلسلہ میں غور کرتا ہے جنھیں جنگ ''ردہ'' کا لقب دیا گیا، وہ غور و فکر کرکے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ تاریخ کس قدر تاریک اور ظالم ہے۔ لیکن ہمیشہ نور حقیقت اپنی دمک سے تاریخ کے گھٹاٹوپ اندھیروں کو روشنی بخشتا ہے۔ آخرکار ایک دن وہ آئے گا کہ علما کی توجہات اس کی طرف مرکوز ہوجائیں گی۔ یہی صحیح ہے کہ اسی ذریعہ سے راہ حقیقت کو پالیں۔''(۵۰)

''صدر اسلام سے مسلمانوں کے درمیان یہ گمان رائج ہوگیا کہ خلافت ایک دینی منصب اور رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے نیابت ہے۔ یہ تصور بادشاہوں کے نفع میں تھا کہ ایسے غلط تفکر کا رواج دیں تاکہ اس طرح اپنے تخت و تاج کی حفاظت کے لئے سپر بنالیں اور اس کے ذریعہ خروج کرنے والوں کی حمایت کریں اور ابھی بھی مختلف راستوں سے اس کام کو انجام دے رہے ہیں (کس قدر زیادہ ہیں اگر کوئی اس سلسلہ میں غور کرے تو یہ راہیں کس قدر زیادہ ہیں) تاکہ اس طرح لوگوں میں یہ اعتقاد راسخ کردیں کہ خلفا کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی خد اکی نافرمانی ہے۔ لیکن بعد میں آنے والے خلفا تنہا اس پر قانع نہ تھے اور جس چیز کی ابوبکر رضایت دے دی تھی اس پر بھی قناعت نہیں کی اور جن چیزوں سے وہ (ابوبکر) ناراض ہوئے انھوں نے اس پر اپنی ناراضگی نہیں جتائی بلکہ انھوں نے سلطان اور باد شاہ کو زمین پر خدا کا خلیفہ قرار دیا... اس کے بعد خلافت دوسرے دینی مباحث میں شامل ہوگئی اور عقیدۂ توحید کا ایک جزء بن گئی۔ مسلمان اس کو خدا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صفات کے ساتھ ساتھ حاصل کررہے تھے۔ اس کی تلقین کی جاتی تھی، بالکل اسی طرح جیسے شہادتین اس کے لئے تلقین کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی بہ نسبت بادشاہوں کے جرائم اور ان کے ظلم و ستم تھے۔ انھیں گمراہ کرکے اندھا بنادیا۔ دین کے نام پر نئے راستوں کو ان سے مخفی رکھا اور دین کے نام پر انھیں دھوکے میں رکھا اور ان کی عقلوں کو محدود کردیا... یہاں تک کہ ان کے دینی شعور کو بھی محدود کردیا۔ ان کی آنکھوں کو بند کردیا اور انھیں علم کے دوسرے ابواب جو ایک طرح سے مسئلہ خلافت سے متعلق تھے ان سے محروم کردیا گیا...''(۵۱)

''کیا خلافت اور قدرت کی طغیانی کے علاوہ کوئی اور سبب تھا جس کی وجہ سے یزید نے امام حسینـ کے پاک و پاکیزہ خون کو ناحق بہا دیا اور رسول خدا کی اکلوتی بیٹی کے آنکھ کے تارے کو شھید کر ڈالا۔ کیا یہی اسباب نہ تھے جس کی وجہ سے یزید نے اولین خلافت کے سب سے پہلے مرکز مدینہ رسول پر اپنا قبضہ جماکر اس کی بے حرمتی اور اس کی ہتک حرمت کی۔ کیا یہی اسباب نہ تھے جس کی وجہ سے عبدالملک نے خانہ کعبہ کی بے حرمتی کی۔ کیا یہی اسباب موجب نہ تھے جس کی بناپر ابوالعباس سفاح اور خونخوار بنا؟... اور اسی طرح عباسی خلفا قتل کے خطرے سے دوچار ہوگئے اور ان میں سے بعض نے بعض کے خلاف بغاوت اور سرکشی پر تل گئے...''(۵۲)

ان دلائل کی بنیاد پر جن میں سے بعض کی طرف ہم نے اشارہ کیا، ایسی تحلیل اور نظریہ گذشتہ زمانہ میں نہیں دیکھی جاسکتی۔ یہ آخری صدی کے تحولات اور اس کی ضرورتوں کا نتیجہ ہے اور جیسا کہ آپ مشاہدہ کررہے ہیں یہ شیعوں کی تاریخی فہم و شعور کی تحلیل اور تجزیہ کے طریقہ سے بہت زیادہ نزدیک ہوگیا ہے۔ ایک ایسی تحریک جو اپنے بہت سارے اور طرح طرح کے موانع اور رکاوٹوں کے باوجود بہرحال آگے بڑھ کر رہے گی۔(۵۳)

یہاں پر بحث کا پہلا حصہ کامل ہوگیا۔ یعنی صدر اسلام کے متعلق شیعوں اور سنیوں کے فہم مختلف کیوں ہیںاور یہ فرق کیوں اور کیسے وجود میں آیا؟ اور کن اسباب و عوامل کے تحت وجود میں آیا اور مجموعی طورپر ان دونوں گروہوں کے دینی افکار اور ذہنیت میں کیسے نتائج اور اثرات چھوڑے؟ اور کس طرح ان دونوں کی فکری، نفسیاتی اور اعتقادی عمارت کو متأثر کیا؟ ہم نے جس حدتک ضرورت سمجھی بیان کردیا ہے۔ یہ ان دونوں گروہوں کی سیاسی فکر کی پہلی بنیاد تھی۔ اب اس کے بعد دوسری اصل کے سلسلہ میںبحث کریں گے کہ حاکم کے متعلق ان دونوں کے نظریات حاکم بعنوان حاکم کیا ہیں؟