اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات0%

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

مؤلف: محمد مسجد جامعی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26827
ڈاؤنلوڈ: 2877

تبصرے:

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26827 / ڈاؤنلوڈ: 2877
سائز سائز سائز
اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

مؤلف:
اردو

چوتھی فصل

قدرت اور عدالت

ہم نے گذشتہ بحثوں میں اہل تسنن اور اہل تشیع کے سیاسی اصول میں سے دو اہم اصلول کے سلسلہ میں بحث کی اور یہ کہ ان دونوں میں نظریاتی اعتبار سے کیا فرق ہے اور عملی طور پر تاریخ اور روحی اور معاشرتی عمارت کے لحاظ سے ان لوگوں نے اپنے ماننے والوں کو کس طرح ان کی پرورش کی ہے؟ ہم اس فصل میں تیسری اصل کے سلسلہ میں بحث اور چھان بین کریں گے اور پھر اصلی بحث یعنی تشیع و تسنن کے معیار تاریخ کو معاصر میں بیان کرکے ان دونوں کے درمیان فرق کو بیان کریں گے۔

جیساکہ گذشتہ فصل میں اس مطلب کو واضح کیا گیا ہے کہ اہل سنت کے سیاسی فکر کے جنم لینے میں جو عامل بنیادی حیثیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ قدرت کے تحفظ اور ایسی طاقت جو امنیت اور تحفظ کے ایجاد کرنے پر قادر ہے اس کے بارے میں حساس ہیں۔ حالنکہ اہل تشیع عدالت اور پیغمبر کی سنت کو ہو بہ ہو اسی انداز میں لاگو کرنے میں جس طرح آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت کے دور حیات میں جاری و ساری تھی نہ وہ عدالت جس کی بعد میں تفسیر یا تعبیر کردی گئی ہے، اس سلسلہ میں اپنی احساسی ت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جو چیز اہمیت بلکہ لازم اور قابل احترام اور تقدس کی حامل ہے ایک طرح سے محض ایک شجاع قوی، باعظمت ہونے اور شان و شوکت کے حامل ہونے سے تعبیر کی گئی ہے جس کے سایہ میں امنیت اور تحفظ حاصل ہوتا ہے خواہ وہ امنیت اندرونی سرکشوں، باغیوں اور اشرار کے مقابل اورہو خواہ خارجی حملہ آورں اور تجاوز گروں کے مقابل ہو وہ پوری ہو جاتی ہے اگرچہ یہ بات ایک حدتک شیعوں کے نزدیک تائید شدہ ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمامی اقدار اور عظمت کو اسے دے دے اور اسے بلا قید و شرط درست مان لیا جائے۔ اس لئے کہ مطلق قدرت نہ تو شیعوں کے کلامی اور فقہی اصول اور معیار کے مطابق ہے اور نہ ہی ائمہ اطہار (ع) کی سیرت اور روش اس کی تائید کرتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اصل اہل تسنن کے درمیان کیوں اور کیسے وجود میں آئی اور کن اسباب و عوامل سے اثر انداز ہوئی ہے۔

مختصر طورپر ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ اس دوران تین اہم عامل اس میں دخیل رہے ہیں پہلا عامل مفہوم عدالت ہے، یہ مفہوم ان لوگوں کے درمیان شیعوں کے نزدیک پائے جانے والے عدالت کے فقہی و کلامی اور فلسفی مفہوم سے متفاوت ہے۔ دوسرا عامل قدیم زمانہ میں حکومتوں کے فرائض ہیں اور آخرکار تیسرا عامل تاریخی واقعیتوں اور ضرورتوں سے متعلق ہے کہ ہم ان میں سے ہر ایک کے سلسلہ میں مفصل بحث کریں گے۔

مفہوم عدالت

شیعوں اور سنیوںکے نزدیک اس کی وضاحت کرنے سے کہیں زیادہ عدالت کے مفہوم میں اختلاف ہے۔ واضح و روشن ہے اگرچہ معتزلی، مفہوم۔ عدالت کو درک کرنے کے لحاظ سے شیعوں سے نزدیک ہیں اور بعض موارد میں ایک ہی جیسے تھے، لیکن اشاعرہ نے جس مفہوم کو اخذ کیا ہے اس میں شیعوں سے بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے اور بعد میں یہی مکتب رائج ہوگیا اور اہل سنت کے اعتقادی اور فقہی مسائل اس کے زیراثر پھولے پھلے اور پروان چڑھے ۔

لیکن اس درمیان اہمیت کا حامل یہ تھا کہ عدالت کی جس تفسیر کو اشاعرہ نے پیش کیا وہ اصولاً اس طرح سے تھی کہ مفہوم عدالت کی قدروقیمت گھٹارہی تھی۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ لوگ اسے اہم اور حائز اہمیت سمجھتے تھے لیکن اس کی دوسری تفسیر کر رہی تھے، بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ وہ اول ہی سے مفہوم عدالت کی اس طرح تفسیر کرتے تھے کہ جس کی وجہ سے اپنی اہمیت کوختم کردیاتھا اور شاید ان کا مقصود بھی یہی رہا ہو۔انھوں نے جب حُسن و قُبح عقلی کا انکار کردیا در حقیقت انھوں نے عدالت کے مفہوم کو اس حدتک گرادیا کہ وہ ہر ظالمانہ اور جبارانہ عمل سے تطبیق دینے کے لائق ہو گا۔ بعبارت دیگر عدالت کی فکر اور آرزو جو بھی رہی ہے اپنی واقعیت کی حد سے نیچے آگئی اور قضاوت کا معیار، موجودہ حقیقت بن گیا نہ کہ اس بلند و بر تر اور وسیع مفہوم اور اس کے بارے میں قضاوت اور فیصلہ کیا جائے اور جب ایسا ہو ہی گیا تو اب کوئی ضرورت نہ تھی کہ اسے اس کے برترمفہوم سے مطابقت دی جائے یا مطابقت نہ دی جائے، جب حُسن و قُبح عقلی کو نظر انداز کردیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقتاً عدالت کے مفہوم اور اس کی ماہیت سے چشم پوشی کرلی گئی ہے اور نہ یہ کہ اس نفی کی بنیاد پر اس کے لئے کوئی دوسری نئی تعریف پیش کی گئی ہے۔(۱)

عدالت کی ایسی تفسیر موجودہ واقعیت سے بالاتر ہر قسم کی آرزو کو رد کرنے کا بہترین ذریعہ ہے عملی طور پر ایسا وقوع پذیر بھی ہوچکا ہے۔ اس مقام پر ہماری بحث یہ نہیں ہے کہ عدالت کیا ہے یا اس کی رعایت ہوتی ہے یا نہیں؟ اصولی طورپر موجودہ صورت حال سے بہتر کوئی صورت باقی نہیں رہ گئی ہے تاکہ اس کی بنیاد پر عدالت کی تعریف اور موجودہ صورت حال کی چھان بین کی جاسکے۔(۲)

کتاب المواقف کے مشہور مؤلف جو اشعری مذہب کے ایک عظیم عقلی رجحان کے مالک اور با ہوش متکلم ہیں وہ حسن و قبح عقلی کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: ہر وہ شیٔ قبیح ہے جسے شریعت اسلامی قبیح قرار دے اور حسن اس کے بر خلاف ہے۔ عقل کے پاس اختیار حسن و قبح کو پہچاننے کے لئے کوئی معیار نہیں ہے اور یہ دونوں کسی دوسرے واقعی اور حقیقی امر انسان کے فعل کی طرف نہیںپلٹ تے ہیں تا کہ شریعت اس سے پردہ ہٹائے بلکہ یہ شریعت اسلامی ہے جو حسن و قبح کو وجود میں لاتی اور اس کی تعریف و توضیح کرتی ہے اور اگر مسئلہ برعکس ہو جائے یعنی جو چیز قبیح اور بری ہے اسے حسن اور خوباور خوب اور حسن کو قبیح اور زشت شمار کرے تو یہ کوئی محال بات نہیں ہے اور نتیجہ بھی برعکس ہوجائے گا۔

لیکن معتزلیوں کا کہنا ہے کہ حسن و قبح کی تشخیص کا معیار عقل ہے اور ایک انسان کا عمل بذاتہ یا اچھا ہے یا برا اور شریعت انھیں واقعیات کو کشف اور آشکارکرتی ہے، اب اس صورت میں نا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے کہ مسئلہ برعکس ہو جائے۔ اس لئے کہ خوبی و بدی ہمیشہ واقعی اور حقیقی امر کی طرف پلٹتی ہے نہ کہ فرضی اور اعتباری امور میں۔(۳)

جیسا کہ ہم نے بیان کیا خوب و بد کی ایسی تفسیر اور اس کے معیارمفہوم عدالت کے لئے کوئی گنجائش اور بنیادی طور پر عقل کا بھی کوئی مقام باقی نہیں رہ جا ئے گا اور سب سے زیادہ حائز احادیث اور دینی نصوص کے صحت و سقم کو تشخیص دینے والے عقلانی معیاروں اور موازین، خاص طور سے احادیث کے عقلی معیار کی نابودی کا باعث بھی ہوگا اور اس طرح کسی بھی ظلم وستم کو قبول کرنے کے لئے فکری، دینی، اعتقادی اہمیت اور نفسیاتی راہ ہموار کرنے کا باعث ہے وہ بھی دینی اور شرعی قبولیت کا باعث ہوگی، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر ظالمانہ اور فاسقانہ عمل کے لئے حالت فراہم کردے گا۔ اس طرح سے حکام اور علمائے سوء کو قانونی حیثیت حاصل ہوجائے گی اور انہیں بہترین پشت پناہ مل جائے گا تاکہ وہ اپنی خلاف و رزیوں اور مظالم کو دینی رنگ دیکر اپنی من مانی کریں اور جو چیز چاہیں اسے حاصل کرلیں گے اور زیاد اہمیت کا حامل یہ کہ دین بھی اس قابلیت کو پالے گا تاکہ وہ اس طرح اس سے سوئے استفادہ کرسکیں۔(۴)

معاشرہ کے قوی اور مقتدر افراد کا دین کے نام پر ناجائز استفادہ کرنا یہ بہانہ بناتے ہوئے کہ عقل خطا کرسکتی ہے، ان کے ہمراہ رہا ہے۔ جب عقل اپنی تمامتوانائیوں اور حدو داربعہ سے گریزاں ہو کر میدان چھوڑ دے، خصوصاً دینی مفاہیم میں تو ظلم و بربریت اور خرافات اس کی جگہ حاکم ہوجائیں گی اور ایسے واقعات دین سے سوئے استفادہ کرنے والوں کا ہمیشہ سے مطلوب رہے ہیں۔ اور اسی اعتبار سے جب حساس ترین اور سب سے زیادہ اہمیت کے حامل دینی مباحث میں سے ایک، مسئلہ عدالت، اگر غلط قرار دے دیا جائے تو خوا مخواہ ایسے نتایئج حاصل ہونگے۔

دو مختلف تفسیروں کے نتائج

اس مقام پر اس نکتہ کو اضافہ کرنا بھی ضروری ہے کہ عدالت کے مسئلہ میں معتزلہ، شیعہ اور اشاعرہ کا مفہوم عدالت میں اختلاف موجب نہیں بنا کہ وہ پوری تاریخ میں اپنے معاشرتی اور سیاسی نظام کی اساسی بنیاد ڈالیں بلکہ یہ دونوں گروہ کم و بیش عمل میں یکساں رہے ہیں اور اصل عدالت کا عقیدہ رکھنا سیاسی اور معاشرتی عدالت کو اپنے ہمراہ نہیں لایا۔ مامون و معتصم اور واثق کے دربار میں موجود معتزلیوں اور قبل و بعد کے اشعریوں اور اشعری رجحان رکھنے والوں کے درمیان کوئی بنیادی فرق نہیں تھا، اگرچہ مذکورہ خلفا اور خصوصاً مامون، کہ اس کے قبل و بعد کے دوسرے خلفا کے مقابلہ میں اس کی روش میں محسوس فرق پایا جاتا تھا اور اس کا ایسا ہونا اس کی فکری آزادی اور علمی شخصیت ہونے کی وجہ سے تھا نہ یہ کہ اس قریبی معتزلی مصاحیین کی یاد آوری اور توجہات اس بات کی باعث ہو ئی ہیں۔(۵)

شیعہ بھی کافی حد تک اس حکم میں شامل ہیں اور اس واقعیت کو بمشکل قبول کیا جا سکتا ہے کہ طول تاریخ میں شیعہ سلاطین سنی سلاطین کے مقابلہ میں بیشتر عدالت کے حامل رہے ہیں۔(۶) اسلامی شرق میں سلاطین کی عدالت دوستی اور عدالت کا وسیع کرنا جہاں سماجی امور کو ادارہ کرنے کے لئے سیاسی اور معاشرتی کمیٹیوں کا مصالح اور اقتضاکی بنا پر فقدان تھا اور ان کے ذاتی فیصلوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی اور تمام چیزوں سے زیادہ جہاں وہ حکومت کرتے تھے اس میں اندرونی خواہشات اور ذاتی رجحان کو عمل دخل تھا۔

لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود، اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ دونوں یعنی معتزلی اور بالخصوص اشاعرہ اور شیعہ اپنے معاشرتی اقدام کے مرحلہ میں ایک نظام حاکم کو درست کرنے کے لئے یا اس کو ختم کرکے ایک عادلانہ نظام کی بنیاد ڈالنا دو قسم کا تھا اور دو طرح سے عمل کیا ہے۔ بعبارت دیگر جس طرح سے ان دونوں نے تفسیر کی بھی اس کے مطابق عدالت کے عقیدہ رکھنے کا نتیجہ حاکم کے سامنے استقامت اور پائیداری سے معلوم ہوجائے گا۔ سب سے اہم ترین عوامل میں سے ایک عامل جو شیعوں اور معتزلیوں کو جبردوست، جبر کی ترویج کرنے والے جباروں کے مقابل استقامت اور پائیداری کی دعوت دیتا ہے وہ ان لوگوں کا مسئلہ عدالت کا درک کرنا ہے۔(۷) اور چونکہ ایسی تفسیر سرے سے ہی اشعریوں کی توجہ اور اعتقاد کا مرکز نہیں تھی لہٰذا معنیٰ ہی نہیں رکھتا کہ اس کے سہارے سلطان کے سامنے وہ قیام کرتے۔ وہ لوگ حسن و قبح عقلی کا انکار کرتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک موجودہ واقعیت سے بالاتر تشخیص دینے کے لئے جو معیار ہونا چاہیئے تھا وہ معیار بھی موجود نہیں تھا۔

اسی وجہ سے معتزلیوں اور خاص طور سے شیعوں کے نزدیک بہت زیادہ عدالت طلب تحریکوں کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس سے مشابہ نمونے اشعریوں، اہل حدیث اور سلفیوں کی تاریخ میں مشاہدہ نہیں ہوتا۔ جو چیز عملی طور سے ان لوگوں کے درمیان موجود رہا ہے اور اب بھی ہے ان کے بقول وہ ایسی تحریکیں تھیں جو بدعتوں کو ختم کرنے اور سنت کو باقی رکھنے اور اس کے دفاع کے عنوان سے رہی ہیں۔(۸)

البتہ ان دونوں کا مفہوم عدالت کے بارے میں مختلف تفسیر یا ادراک تنہا عامل موجب نہیں ہوا ہے۔ بلکہ اس عامل کے علاوہ دوسرے عوامل بھی موجود تھے لیکن بلا شک و شبہہ فہم بہت ہی اہم حصہ کا حامل ہے اور اسی اہمیت کا حامل رہے گا۔ بعبارت دیگر اگرچہ اصل عدالت کا عقیدہ عملی طور پر سیاسی اور معاشرتی عدالت کا تحفہ نہ لاپایا لیکن تنہا اسے قبول کر لینا عدالت خواہی کو وجود میں لانے کے لئے بہترین سبب تھا۔

اسلام کی پوری تاریخ میں عدالت اور آزادی خواہی کی تحریکوں کی داستان خود اس نکتہ کی بہترین مؤید ہے۔ اور ایسے قیام کااہل حدیث اور اشعری مسلک میں نام و نشان بھی نہیں ملتاجبکہ تشیع اور معتزلہ کے یہاں ایسی تحریکوں کے بے شمار شواہد پائے جاتے ہیں۔ اور یہ رابطے اس قدر اطمینان بخش اور قوی تھے کہ ایسے زمانوں میں جب بعض اسباب کے تحت ایسے رجحانات وجود میں آئے تو معتزلہ کی فکر کے استقبال اور خاص طور سے شیعی افکار کے حالات فراہم ہوگئے۔ اگرچہ شیعی افکار اور عقائد بعض مختلف دلائل کے سبب عدالت کے اصل اعتقاد سے کہیں زیادہ قابل قبول ہوا، لیکن ہر صورت میں اس اصل پر عقیدہ رکھنا اساسی اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

اور یہی وہ تنہا عامل تھا کہ جس کی وجہ سے معتزلہ اور مخصوصا شیعہ حکام اور صاحبان اقتدار اور وہ علما اور جو مبلغین ان سے وابستہ تھے ان کی جانب سے ہونے والے حملوں کا شکار رہے ہیں۔ ایک سماج میں حاکم استبداد خود ہی عدالت خواہی اور حریت طلبی کو فروغ دینے کا اصلی موجب تھا۔ لیکن چونکہ یہ اسلامی فکر، حاکم وقت کے ہاتھوں رواج پارہی تھی اور چہ بسا پروان چڑھ رہی تھی اصل مفہوم عدالت پر عقیدہ نہ رکھنے کی بناپر اس کی ضرورت کو پورا کرنے میں قاصر تھے، لہٰذا انقلابی لوگ اس بات پر مجبور تھے کہ ان مذاہب کی پناہ لیں جو عدالت خواہی کے حامی اور اس کی تشویق کرتے تھے(۹) اور چونکہ معتزلہ اور شیعہ ایسے تھے لہٰذا ان کے بدنام کرنے کے لئے بہت زیادہ کوشش کی گئی اور ان سے منحرف کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ البتہ ان کی یہ کوششیں بے نتیجہ بھی نہیں تھی، اس لئے کہ آج معتزلہ اور شیعیت کی نسبت جو بھی بدگمانیاں اہل سنت کے نزدیک ہیں وہ سب اسی غلط پروپیگنڈوں اور سوئے تبلیغات کا نتیجہ تھیں۔(۱۰)

ابھی تک جو بحث کی گئی ہے عدالت کے کلامی مفہوم کے بارے میں تھی۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کا فقہی مفہوم کیا تھا؟ اور اس کے کیا آثار رونما ہوئے؟ اس مقام پر اس کے پہلے مورد کے برخلاف، معتزلی بھی غیر معتزلی کی طرح ہیں اختلاف صرف شیعہ اور غیر شیعہ کے درمیان ہے۔

عدالت کا فقہی مفہوم

واقعیت تو یہ ہے کہ عدالت کا یہ مفہوم اہل سنت اور اہل تشیع کے نزدیک فقہی لحاظ سے زیادہ فرق نہیں ہے صرف بنیادی اختلاف ان موارد میںہے کہ جہاں عدالت کو اساسی شرط مانا گیا ہے کہ اس میں سب سے اہم اور فیصلہ کن امام جماعت، امام جمعہ اور حاکم میں ہے۔ شیعوں کے نزدیک ان تمام موارد میں عدالت کو شرط مانا گیا ہے لیکن اہل سنت امام جمعہ و جماعت کے بارے میں اس شرط کے قائل نہیں ہیں اور صرف ان میں سے بعض افراد فاسق اور بدعت گذار کی امامت کو مکروہ قرار دیتے ہیں۔(۱۱) جیساکہ ان میں سے اکثر حاکم میں بھی عدالت کو شرط نہیں مانتے ہیں۔

وہ چیز جو اس بحث میں قابل اہمیت ہے، امام جمعہ اور جماعت کا عادل ہونا ہے۔ اس لئے کہ حاکم کے عادل ہونے کا مسئلہ خود ان لوگوں کے نزدیک ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ لیکن اب دیکھنا تو یہ ہے کہ یہ اختلاف کن نتائج کو اپنے ہمراہ لئے ہے؟

اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے ایک نکتہ کے سلسلہ میں یاد دہانی نہایت ضروری ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ صدر اسلام میں نماز جماعت اور نماز جمعہ کو کیا حیثیت اور مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ اس دور میں سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے نماز جمعہ و جماعت آج سے کہیں زیادہ قابل اہمیت تھی۔ یہ دونوں اور مخصوصاً نماز جمعہ اسلامی ہونے کا راز، اس کے اتحاد اور آخرکار معاشرہ میں ثبات و امنیت کی علامت تھی۔ اس میں شریک ہونے والوں کے افکار و عقیدہ کی سلامتی اور تمام مسلمانوں کے اجماع اور اتفاق کی بناپر عدم انحراف کی پہچان تھی۔(۱۲) یعنی اس بات کی علامت تھا کہ سماج اور معاشرہ حاکم وقت کے فرمان کو قبول کرتا ہے اور اس کے سامنے تسلیم ہے۔ اسی نماز کے ذریعہ حکام، سلاطین اور خلفا کو قانونی حیثیت کو حاصل کرلیتے تھے اور ان کی قدرت اور حیثیت کو استحکام اور پختگی حاصل ہوتی تھی۔

اس دور میں شہروں کی وسعتیں آج کی طرح نہ تھیں، بلکہ ایک چھوٹا سا شہر ہوا کرتا تھا اور اس میں مختصر سی آبادی ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے اس شہر کے رہنے والے تمام لوگ خاص طور سے مرد حضرات نماز جماعت میں شرکت کو ضروری سمجھتے تھے۔ بعض مواقع پر نماز میں شرکت کو واجب امر کی حیثیت رکھتی تھی۔(۱۳) نماز جماعت کو اہل سنت کے بعض فقہا اور نماز جمعہ کو تمام فقہا واجب سمجھتے ہیں۔ مذہب امامیہ کے فقہا کے نزدیک بھی جبکہ امامـ موجود ہوں، نماز جمعہ میں شرکت واجب ہے۔ بلکہ بعض فقہائے امامیہ امام معصوم کی غیبت میں بھی اگر اس کے تمام شرائط پورے ہورہے ہوں تو اس کے قائم کو واجب قرار دیتے ہیں، یہی وہ اسباب ہیں، جس کی وجہ سے یہ دونوں نمازیں فطری طورپر حددرجہ سیاسی اہمیت کی حامل ہوگئیں اس حدتک کہ یہ اسلام کی پہچان اور سماجی اتحاد کا باعث ہوگئیں۔(۱۴)

مذکورہ بالا نکات اور اس کی حساسیت پر توجہ دیتے ہوئے ایسی صورت میں معاشرہ کے برجستہ ترین افراد کے علاوہ خواہ ظاہری اعتبار سے افضل کیوں نہ ہوں، ایسی نماز کی امامت کو کس فرد کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔ ایسی نماز کی امامت کو جو مؤمنین کی جماعت کا آئینہ دار اور معاشرہ کی وحدت کا رمز نیز اس کے ثبات کا موجب ہے، ایسے فرد کے علاوہ ان امور کو کسی اور کے حوالہ کرنا معنی نہیں رکھتا تھا عوام بھی اس کے علاوہ کوئی اور توقع نہیں رکھتے تھے۔ اس سے قطع نظر فقہی معیار بھی اسی مطلب کی تائید اور حمایت کرتے تھے۔ بلکہ اس مقام پر یہ کہنا بہتر ہے کہ عوام الناس نماز جمعہ و جماعت اور اس کی امامت ظواہر شریعت کے موافق اور مطابق جانتی ہے۔(۱۵) شارع برجستہ ترین افراد کو اس عہدہ کو دینے کا خواہاں تھا اگرچہ بعد میں سیاسی اور اجتماعی مجبوریوں اور ناجائز دباؤ کی وجہ سے برجستگی اور ممتاز ہونے کا مفہوم اور مصداق بدل دیا گیا۔

آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت کے دور میں ان دو (جمعہ و جماعت) نمازوں کی امامت خود مدینہ میں اور دوسرے علاقو میاا جہاں پر آپ موجود رہے تھے میں آپ کے ذمہ تھی اور آپ کی غیبت میں وہ فرد ان دو نمازوں کی جماعت کا عہدہ دار ہوتا تھا جسے آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت نے نمائندہ، جانشین، امیر اور حاکم کے عنوان سے معین فرمایا تھا۔ جب آپ کی وفات ہوگئی تو ان دو نمازوں کی امامت خلیفہ اول کے ذمہ تھی نیز اس خلافت کے ابتدائی ایام میں ان دونمازوں نے اس خلافت کو مستحکم اور قبولیت اور ثبات بخشنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔(۱۶) یہ روش خلفائے راشدین کی خلافت کے آخر تک بر قرار رہی اور جب امویوں کا دور آیا تو بھی اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔(۱۷)

مثال کے طورپر محقق کرکی نماز جمعہ قائم کرنے یا امام جمعہ کے نصب ہونے کے لئے امام معصوم یا نائب خاص یا نائب عام کی اجازت کو لازم قرار دیتے ہیں، آپ فرماتے ہیں:... اس مسئلہ میں اجماع سے پہلے مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے دور میں ائمہ جماعت اور قضات کو معین فرماتے تھے۔ اسی روش کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد خلفا نے جاری رکھا لہٰذا کسی کو یہ حق نہیں بنتا کہ وہ امام یا نائب امام کی اجازت کے بغیر قاضی بن جائے اور اسی طرح سے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اپنے آپ کو امام جمعہ قرار دے لے۔ اور یہ قیاس نہیں ہے، بلکہ یہ ایک دائمی استدلال ہے اور اس کی مخالفت اجماع کی خلاف ورزی ہے۔(۱۸)

اور پدرسن کچھ اس طرح نقل کرتا ہے:

''اسلام کی ابتدا ہی سے نماز کی امامت حاکم کے ہی ہاتھ میں تھی۔ وہی جنگ میں سپہ سالار حکومت کا رئیس ، تمام نمازوں میں امام جماعت ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح دوسرے شہروں میں منصوب والیوں کی روش تھی کہ وہ خود نمازوں کی امامت اور خراج لیا کرتے تھے۔ نماز کی امامت اور مخصوصا نماز جمعہ کی امامت اور اسکے خطبہ دنیا حاکم کے ذمہ ہوتا تھا۔ اس کے نہ ہونے کی صورت میں فوج کا کمانڈر اس کے کاموں کا عہدہ دار ہوا کرتا تھا ۔لیکن یہ روش عباسیوں کے دور میں بدل گئی اور اس کے بعد نمازوں کی سلسلہ وار امامت حاکم کے ہاتھ میں نہیں رہی۔''(۱۹)

جو روش خلفا راشدین کے دور میں تھی وہ بہت زیادہ مشکل ساز نہیں تھی۔ پہلے والے دوخلیفہ اور ان کے منصوبین شرع کے ظاہری احکام کی رعایت کرتے تھے۔ اگرچہ عثمان کے دور میں مخصوصا نصف دوم میں، حالت بد ل گئی اور ولید بن عقبہ جیسے افراد والی بنادئے گئے، کوفہ میں منصوب والی شراب کے نشہ میں نماز کے لئے کھڑا ہو گیا اور نماز صبح کو دو رکعت کے بدلے چار رکعت پڑھ دیا اور شراب نوشی میں افراط کی وجہ سے وہیں مسجد کے محراب میںقے کر کے آلودہ کردیا(۲۰) لیکن یہ موارد (حوادث) بہت زیادہ ایسے نہیں تھے کہ جنھیں نظر انداز کیا جاسکے اس دور کے بعد امام علی ـ کا دور تو مکمل آشکار ہے اور اساسی طور پر اس لحاظ سے اس دور میں کوئی مشکل نہیں تھی اور آپ کے زمانے میں ایسی مشکلات ہو بھی نہیں سکتی تھیں۔

بلکہ یہ مشکلات امویوں کے دور سے شروع ہوئیں اور روز بروز سنجیدہ ہو تی گئیںاور ایک لا ینحل مشکل کی صورت اختیار کرلی اور انہیں واقعات کے ساتھ ساتھ عدالت ِامام جمعہ و جماعت واقعیت اور ضرورت کے زیر اثر قرار پاگئی اور۔ وقت کی مصلحتوںکا شکار ہوگئی اور اس بعد اس کی مختلف تفسرین اور عذر اشیاں ہونے لگتیںاور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اآہستہ آہستہ تنزلی پر گامزن ہو گئی کہ اصولاً عدالت کے بارے میں غفلت برتی گئی اور بعد میںسے پوری طرح بھلادیا گیا۔

آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت :اور خلفائے راشدین کے دور کی میراث کا تقاضا یہ تھا کہ آنے والے خلفا اور ان کے حکام ان والی لوگ، ان کے نمایندے اور اس کے نماز جمعہ و جماعت کی امامت کو خود انجام دیتے رہے ہیں۔اموی خلفا اس سے کم پر راضی نہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے جو کچھ انجام دیا وہ اس وجہ سے انجام نہیں دیاکہ وہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت اور خلفا راشدین کے طور و طریقہ کو لا گو کر رہے تھے بلکہ وہ تو تنہا اس واسطے تھا کہ اس کو چھوڑ دینا حکومت اور ان کی مشروعیت اور قانونی حیژیت پانے کے مغایر اور مخالف تھا وہ لوگ قدرت اور حکومت چاہتے تھے اور یہ اسی اور یہ چیزیں اسی وقت مل سکتی تھیں جب حاکم اور صاحب قدر نماز جمعہ و جماعت کو برپا کریں اور اسکی امامت کو انجام دیں، چونکہ ایسا تھا لہٰذا وہ (اموی حکام ) ان دو نمازوں کی امامت کے فرائض کو خدہی انجام دیتے تھے۔

اس دور میں یہ ایک ضرورت بھی تھی اگر ہم اس دور کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اموی نماز و جماعت کی امامت اور خاص طور سے جمعہ کی امامت کے فرائض کو انجام دینے کی طرف بہت مائل نہیں تھے۔ اس لئے کہ امام جمعہ اس بات کے لئے مجبور تھا کہ وہ خود نماز جمعہ کا خطبہ دے اور یہ بات ان کے لئے دشوار تھی۔اس سلسلہ میں گلڈ زیہراس نکتہ کے ضمن میں کہتا ہے:'' اموی خلفا کے لئے خطبہ دینا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن وہ خطبہ دینے کے لئے مجبور تھے تاکہ وہ اس طرح سے لوگو کواپنی ریاست اور امور داری کی تلقین اور یاد دہانی کراسکیں۔ عبدالملک سے جب سوال کیا گیا کہ کیوں اتنی جلدی تمھاری داڑھی سفید ہوگئی ہے ؟تو اس نے جواب میں کہا:'' میری داڑھی سفید کیوں نہ ہو جائے حالا نکہ ہفتہ میں ایک بار خطبہ دینے اور اپنی فکر کو دوسروں کی قضاوت کے لئے پیش کرنے پر مجبور ہوں...۔(۲۱)

خطبہ دینا تنہا اموی خلفا کے لئے سخت نہیں تھا۔ بلکہ ان کی طرف سے منصوب والیوں کے لئے بھی محبوب نہیں تھا۔ یہاں تک کہ خطابت میں مشہور، عبید اللہ ابن زیاد اسے اپنی امارت کی نعمت کے لئے منحوس مانتا تھا۔(۲۲) ایک دوسرا والی لوگوں کے سامنے اس طرح اقرار کرتا ہے:'' امامت سے پہلے جمعہ میرے لئے دنوں میں بہترین دن تھا لیکن یہی اب میرے نزدیک بدترین دنوں میں سے ایک دن ہے اس لئے کہ اس میںخطبہ دینے کے لئے مجبور ہوتا ہوں۔''(۲۳)

دوسری طرف مسئلہ یہ تھا کہ خود مسلمین جماعتوں اور جمعہ میں شریک ہونے پر مجبور تھے۔ گذشتہ بزرگوں کی سیرت بھی اس بات کی مقتضی تھی اور دینی نصوص بھی اس کی سفارش کررہی تھیں۔ بلکہ یہ شرعی فرائض میں سے ایک فریضہ تھا۔ لیکن اس مقام پر اس مطلب کااضافہ کرنا ضروری ہے کے اسلام کے آغاز میں حتیٰ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات میں ،لوگوں سے نمازجمعہ و جماعت میں شرکت کا مطالبہ کیا جاتا تھا تاکہ جماعتوں اور جمعے میں شرکت کریں اور اس امر سے گریز کرنے والوں کو سخت سزا دی جاتی تھی۔(۲۴) یہاں مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ایک فرد نماز جماعت اور جمعہ مخصوصا نماز جمعہ میں شریک نہ ہو نا ایک واجب کا چھوڑ دیناہے بلکہ اہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ ان نماز وں کو چھوڑ ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کو ان نمازوں میں شریک ہونے پر مجبور کیا جاتا تھا، اس لئے اس کا نماز میں شریک نہ ہونا لوگوں کی طرف سے بعض یا تمام موا رد میں دین کو چھوڑ دینے کے معنی میں تھا، یا موجودہ حاکمیت کے انکار یا کم از کم اس کو قانونی اور جائز نہ سمجھنے اور واجب الاطاعة نہ ماننے کے مترادف تھا۔ اور کوئی بھی اموی حاکم مخصوصا اموی ظالم حکام کے لئے قابل تحمل نہیں تھا۔(۲۵)

شرط عدالت کا انکار

ان حالات اور مجبوریوں کے ہوتے ہوئے ان کے پاس اس کے، علاوہ کوئی اور چارۂ کارہی نہیں تھا کہ وہ (اموی حکام)نماز جمعہ و جماعت میں امام کی عدالت کا انکار کردیں۔ امویوں خاندان کی سب سے زیادہ پابند فردعمر بن عبد العزیز کے علاوہ کہ وہ کاملاً ایک استثنائی انسان تھا، ایک عنوان سے خود معاویہ تھا۔ اس کی رفتار اس چیز سے جس کی رعایت شرع کی نظر اور گذشتہ خلفا کی روش میں کم سے کم ضروری اور قابل عمل تھی ،دونوں میں بڑا فرق تھا (کہیں سے دیندار نہیں لگ رہے تھے۔) اس نے آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت اور خلفا راشدین کے دور میں رائج نماز جمعہ کو ایک دوسرے انداز میں ادا کی۔( وہ پہلا شخص ہے کہ جس نے نماز جمعہ کے خطبہ کو بیٹھ کر پڑھا۔)(۲۶) اس کے بعد خلفا اور حکمرانوں کی حالت اس سے کہیںبد تر ہوگئی گویا وہ پوری طرح دین سے بیگانہ ہوچکے ہیں۔ ان کی فکریں شہوت رانی اور ریاست کے علاوہ کچھ اور نہیں سوچتی تھیں۔ قدرت انھیں لوگوں کے ہاتھ میں تھی اور نماز جماعت اور جمعہ کی امامت بھی خود وہی لوگ کیا کرتے تھے اور عوام لوگ بھی نماز میں ان کی اقتدا کرنے پر مجبور تھے۔ اب یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ ان کی اقتدا میں پڑھی جانے والی نمازیں کفایت کریں گی یا نہیں؟ اور یہ خود مسئلہ اس کی فرع بھی کہ ان نمازوں کی امامت کرنے والا انسان جامع الشرائط بھی ہے یا نہیں ؟اور اصولی طورپر وہ شرائط کیا ہیں ؟ عدالت اور گناہوں سے پرہیز یا لااقل عدم تکرار اس کی شرائط میں سے ہے یا نہیں؟ کیا اس بات کا امکان پایاجاتا ہے کہ اس فاسق و فاجر اور جائر فرد کو امام جماعت بنا دیا جائے؟ جو کسی بھی ظلم کے کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتا، یا ایسے فرد کو امام جماعت نہیں بنایا جاسکتا؟ اس کی پہلی صورت میں کیا اس امام کی اقتدا کرنے والوں کی نماز صحیح ہوگی یا نہیں؟

لہٰذا ان سب کا اصلی راہ حل یہ تھا کہ اس میں امام کی عدالت کا ہی سرِے سے انکار کردیا جائے۔ البتہ اگرامویوں کے آتے ہی یہ تغیر آجاتا تو پھر حاکمیت اور حاکم کی مشروعیت اور امام جمعہ و جماعت میں کوئی تلازم باقی نہ رہ جاتا اور قوی احتمال کی بناپر اس مقام پر بھی عدالت دوسرے مواردکی طرح جیسے قاضی اور گواہ وغیرہ کے لئے بھی قابل انکار نہ ہوتی۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا لہٰذا ان لوگوں نے امام جمعہ و جماعت کے منصوص شرائط میں اس حدتک توجیہ و تفسیر کی کہ عملی طورپر شرط عدالت کی شرط کا انکار کردیا جائے یا فاسق و فاجر کی اقتدا فقط کراہت کی حدتک پہنچ جائے۔(۲۷)

البتہ شیعوںکو ایسی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وہ امویوں کو بالکل غاصب اور ناجائز سمجھتے تھے۔ لہٰذا اس وقت پیش آنے والے واقعات اور حالات کو قبول کرنے یا نہ کرنے میں کسی مشکل سے روبرو نہیں ہوئے اور بالتبع کسی توجیہ و تفسیر کو قبول کرنے کے لئے مجبور نہیں تھے۔ اس نصوص کے علاوہ ائمہ معصومین (ع) کی جانب سے جو احادیث ان تک پہونچی تھیں، ان میں واضح طورپر امام جمعہ اور جماعت کی شرائط میں سے ایک شرط خود عدالت تھی۔(۲۸) البتہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ گذشتہ ادوار میں شیعہ حضرات بالکل نماز جمعہ و جماعت میں شرکت نہیں کرتے تھے ۔ وہ بھی ان نمازوں میں شرکت کرتے تھے اور عمومی طورپر اسے کافی بھی سمجھتے تھے ۔ یہاں تک کہ ایسے حالات میں ایسی نمازوں میں شرکت کرنا نہ صرف یہ کہ قابل قبول بھی بلکہ عظیم ثواب کی حامل تھی۔(۲۹) لیکن ان ثواب و جزا کے اپنے خاص دلائل اور براہین تھے اور اس کا سبب یہ ہرگز نہ تھا کہ وہ عدالت کی شرط کو امام جمعہ و جماعت کے لئے ضروری نہیں سمجھتے تھے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ سنیوںکی طرف سے شرط عدالت کو قبول نہ کرنے اور شیعوں کی طرف سے اس شرط کو قبول کرنے میں ان سب سے زیادہ جو پہلے ظاہری طور سے فرق نظر آتا ہے اس سے کہیں گہرا فرق ان کے کلامی و فقہی اور اسی طرح ان کے شرعی و اعتقادی حساسیت کی ساخت میں دخیل ہے۔ اس لئے کہ اس شرط کا قبول نہ کرنا موجودہ صورت کو کسی بھی حال میں قبول کر لینے کے مترادف تھا ۔اگرچہ اس درمیان کچھ دوسرے عوامل بھی موجود رہے ہیں لیکن یہ عامل ان تمام عوامل میں مؤثر ترین اور اہم ترین اور بہت ہی زیادہ فیصلہ کن عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔

اگرچہ اہل سنت کی فقہی ا ور کلامی بنا کچھ اس طرح ہے کہ وہ حاکم کو اولواالامر کے مصادیق میں سے جانتی ہے اور اسے واجب الاطاعت سمجھتی ہے(۳۰) آیا طول تاریخ میں اہل سنت نے تمام حکام کی مشروعیت اور ولایت کو اسی علت کی وجہ سے قبول کیا ہے؟ عوام کی درمیانی فکری اور ثقافتی سطح سے بالاتر مباحث کلامی اور فقہی مسائل کہیں زیادہ پیچیدہ تھے اور ہیں ان مباحث سے آشنائی کے ذریعہ ان لوگوں نے حاکموں کے سامنے سر نہیں جھکائے۔ اصولا ایسے مباحث ان کے دین و فہم میں ان کا کوئی مقام نہیں تھا ان کا فہم و ادراک اس سے آسان اور محدودتر تھا کہ وہ اسے اپنے اندر جگہ دے سکے۔

شرطِ عدالت کے انکار کی اہمیت

یا ایک دوسری تعبیرکے مطابق تنہا مشکل یہ نہیںہے کہ اہل سنت کی فقہ و کلام کی فطری اور منطقی بنا کی اقتضا صرف یہ نہیں ہے اور اصولی طورپر ہر دین و مذہب کے پابند لوگوں تقاضا کیا ہے؟ زیادہ اہمیت کا حامل مسئلہ یہ ہے کہ اس وسیع مجموعہ میں سے کون سا حصہ ان کے ذہن و فکر اور ایمان و اعتقاد میں پایا جارہا ہے یعنی عوام لوگوں کا اس مجموعہ سے متعلق ا دراک کیا ہے؟ اور اس کی حدیں کیا ہیں؟ اور ان میں مختلف اجزا کا ایک دوسرے سے رابطہ کیسا ہے؟ اس مرحلہ میں جو چیز پایدار اور مؤثر ہے وہ یہی ا دراک و فہم ہے، یہی چیز ہے جو تاریخی میدان اور معاشرہ میں کردار ادا کرتی ہے۔ اگرچہ یہ دینی شعور و ادراک ہر زمان و مکان میں موجودہ حالات کے تحت بدلتے رہتے ہیں، لیکن مجموعی طور سے تبدیلیوں میں،ایک ثابت عوامل پائے جاتے ہیں جو دین کی استوار بنیادوں اور اصول سے متأثر ہوتے ہیں۔

ایک مسلمان کے نزدیک محسوس ترین اور زیادہ سے زیادہ قابل فہم ایمان کا نمونہ نماز رہی ہے اور اب بھی ہے۔ اس واقعیت کے پیش نظر کہ صدر اسلام میں مسلمان ہمیشہ نماز جماعت میں شریک ہوا کرتے تھے اور نماز جمعہ میں شرکت کرتے تھے اور یہ نکتہ بھی کہ نماز ہمیشہ خلفا، حاکموں اور ان کے نمایندوںکی امامت میں ہوا کرتی تھی اور لوگوں کی نظر میں یہ امامت حاکمیت اور خلیفہ کی مشروعیت کی علامت تھی۔ کیا واقعیت یہ نہیں ہے کہ شرط عدالت کو قبول نہ کرنا، موجودہ صورت اور اس کی مشروعیت کو قبول کرنے میں ہر عامل سے زیادہ مؤثر رہی ہے۔

یہ نکتہ بالخصوص ابتدائی صدیوںکے لئے زیادہ صحیح ہے۔ اس لئے کہ اس دور میں خود مسلمان نماز جمعہ و جماعت میں شریک ہونا اپنا لازمی فریضہ سمجھتے تھے اور خود حکام اس کی بہ نسبت نہایت حساس تھے اور حتی لوگ معاشرہ کے تمامی لوگوں کے ساتھ زور و شور سے نماز جمعہ اور دوسری جماعتوں میں شرکت کرتے تھیاور ان دو نمازوں مخصوصا نماز جمعہ کی امامت، حکام کے سپرد تھی۔ لیکن زمانے کے ھذرنے کے ساتھ ساتھ یہ حساسیت بعض وجودہات کی بنیاد پر شدت سے کم ہوتی گئی اور وہ نمازیں حکام کے علاوہ دوسروں کے ذریعہ ادا ہونے لگی، البتہ عموماً بلکہ مکمل طور سے جو بلا واسطہ یا بالواسطہ، انھیں کی طرف سے منصوب ہوتے تھے، قائم کی جارہی تھی ۔(۳۱) لیکن بہر صورت اس واقعہ سے پیدا ہونے والے اثرات، خاص طور سے اس کمی کے وجود میں آنے سے پہلے ہی، مسلمانوں کی ، فقہی اور کلامی بنیاد اور ان کی دینی اور نفسیاتی بناوٹ کو متأثر کر دیا۔

یہاں اہم مسئلہ یہ نہیں تھا کہ حاکم کی امامت کو قبول کرلینے سے، اس کی حاکمیت کو قبول کرلیا جاتا تھا۔ بلکہ یہاں پر زیادہ اہمیت کی حامل یہ فکر تھی کہ جس کی بنیاد پر، ظالم و جابر اور فاسق و فاجر کی امامت کو جائز قرار دے رہی تھی جو زندگی کے مختلف امور میں سرایت کر گئی اور جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے حاکموں کی اقتدا میں نماز ادا کرنا نہ تنہا صحیح تھی بلکہ ان کو صدقات اور زکات اور ان کے ہمراہ جہاد اور حج بھی درست ہے۔ اس حدتک کہ ابن حنبل جیسا زاہد اور محتاطانسان یہ کہنے پر مجبور ہوگیا:'' جہاد حاکموں کے ساتھ تا روز قیامت خواہ وہ عادل ہوں یا فاسق صحیح ہے اور اسی طرح سے غنائم کی تقسیم اور حدود الٰہی کو جاری کرنا بھی ان کی طرف سے صحیح ہے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ انھیں طعنہ دے اور ان (حکام) مقابلہ میں کھڑا ہوجائے۔ انھیں صدقات دینا جائز اور نافذ ہے لہٰذا جو شخص انھیں صدقے دے خواہ وہ اچھے ہوں یا برے، وہ بری الذمہ ہوجائے گا۔ ان کے ساتھ نماز جمعہ پڑھنا جائز ہے اور جو ان کی اقتدا میں پڑھنے کے بعد دوبارہ اس کا اعادہ کرے تو وہ سلف صالح اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کا تارک اور بدعت گذار ہوگا۔ اگر کوئی امیروں کی اقتدا میں نماز پڑھنے اور اس کی صحت کا عقیدہ نہ رکھتا ہو خواہ وہ عادل ہوں یا عادل نہ ہوں مجزی ہے گویا وہ ایسا ہے کہ اس نے نماز جمعہ کی فضیلت کو بالکل درک نہیں کیا ہے۔ سنت تو یہ ہے کہ ان کی اقتدا میں دو رکعت نماز بجا لائی جائے اور اس پر ایمان رکھے کہ یہ نماز تام و تمام ہوگی اور اس سلسلہ میں معمولی سا بھی روا نہیں ہے۔(۳۲)

اب اس نکتہ کی بررسی کرنا ہے کہ یہ فکر کیا تھی اور کہاں سے پیدا ہوئی۔ اس فکر کی جڑ کہاں سے ہے: جس کے سہارے مذکورہ امور پر صحت کی مہر لگائی جاتی تھی، اس نکتہ میں پوشیدہ ہے کہ بعض امور جیسے نماز، جہاد اور زکواة جو خود مطلوب ہیں اور انھیں انجام دینے کے لئے شارع نے حکم دیا ہے۔ اس مقام پر ان کا بجالانا اہم ہے نہ یہ کہ انھیں کیسے انجام دیا جائے۔ اہم تو یہ ہے کہ مکلف ان امور کو انھیں ضوابط کے مطابق انجام دے جنھیں شارع نے مقرر کیا ہے۔ لیکن یہ اعمال کس کی ہمراہی میں انجام پذیر ہوں، یہ کوئی اہم بات نہیں ہے۔

اہم تو یہ ہے کہ نماز جمعہ و جماعت قائم ہو اور مسلمان لوگ اس میں شرکت کریں، اہم یہ نہیں ہے کہ اس کی امامت کون کر رہاہے۔ اہم تو یہ ہے کہ جہاد کا فریضہ ترک نہ ہو۔ لیکن یہ جہاد کس شخص کی سپہ سالاری میں کیا جائے یہ اتنی اہمیت نہیں رکھتا ہے اہم تو یہ ہے کہ صدقات و زکوة ایک شرعی فریضہ ہونے کی وجہ سے ادا کیا جائے ،لیکن یہ کہ اسے کس کے حوالہ کیا جائے اور کہاں مصرف کیا جائے یہ مورد توجہ نہیں ہے۔ رقوم شرعیہ کے لینے والے خواہ عادل ہوں یا عادل نہ ہوں، بلکہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہوں انہیں ادا کیا جائے!۔

اسی نکتہ کو حسن بصری اس مقام پر بیان کرتے ہیں، جہاں کوئی شخص کسی منافق کی امامت میں نماز پڑھ لے، اس طرح وضاحت کرتے ہیں: ''کسی مومن شخص کے کسی منافق کی امامت میں نماز پڑھنے سے اس کی نماز کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور مومن کی اقتدا میں کسی منافق کا نماز ادا کرنا اسے کوئی فائدہ نہیں پہونچائے گا۔(۳۳) لیکن اس سے کہیں زیادہ صریح انداز میں عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: ''نماز ایک حسنہ ہے۔ لہٰذا میرے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میری نماز میں کون شریک ہو۔(۳۴)

اس سلسلہ میں ابن حزم فرماتے ہیں:'' میں اصحاب رسول میں کسی صحابی کو نہیں پہچانتا کہ جو اپنی نماز کو مختار، عبیدا للہ ابن زیاد، حجاج اور نہ اس سے زیادہ کسی فاسق کی امامت میں پڑھنے سے انکار کیا ہو''۔ خدا وند عالم فرماتا ہے:'' نیکیوں اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور معصیت اور دشمنی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو''۔ اوریہ مسلم ہے کہ مساجد میں نماز اور اس کے اقامہ سے بہتر کوئی خوبی نہیں ہے، پس جو بھی اس کی نیکی کی طرف دعوت دے تو اس نیک امر میں اس کی اجابت کرنا واجب ہے۔ نماز کو ترک کرنے اور مساجد کو بند کردینے سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہے۔ پس ہمارے اوپر حرام ہے کہ ہم اس میں کسی کی مدد کریں اور یہی حکم روزہ، جہاد اور حج کا ہے۔ پس اگر کوئی ان کی طرف ہمیں دعوت دے تو ہم اس نیک امر میں اس کے ساتھ ہوں گے اور اجر کوئی ہمیں برائیوں کی طرف دعوت دے تو اس کی اجابت نہ کرتے ہوئے اس کی مدد نہ کریں گے۔ یہ نظریہ ابوحنیفہ، شافعی اور ابو سلیمان کا ہے۔(۳۵)

اور ابن قدامہ جو حنبلی فقہ کے بزرگ فقہا میں سے ہیں وہ بھی فرماتے ہیں:'' ایک مسلمان شخص پر واجب ہے کہ وہ نماز جمعہ اور عیدین میں شریک ہو اگرچہ ان نمازوں کا امام فاسق و فاجر اور بدعت گذار ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے کہ یہ ا سلام کے ظاہری شعائر میں سے ہیں کہ جسے اولیائے مسلمین قائم کئے ہوئے ہیں۔ پس ان کی امامت میں ان نمازوں کانہ پڑھنا ان کی تعطیل اور ختم کردینے کا پیش خیمہ ہے۔(۳۶)