اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات0%

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

مؤلف: محمد مسجد جامعی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28414
ڈاؤنلوڈ: 3758

تبصرے:

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28414 / ڈاؤنلوڈ: 3758
سائز سائز سائز
اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

مؤلف:
اردو

چوتھی فصل کے حوالے

(۱)اس طرز تفکر کے عملی نمونہ کتاب العواصم من القواصم ابن عربی اور مخصوصا محب الدین خطیب کے حواشی میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ دونوں کہ جہاں تک ان لوگوں کی خطاؤں کی توجیہ و تفسیر کرتے ہیں جو ان سے دفاع کرتے ہیں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ عملی طور پر واقعیت کو معیار قرادیتے ہیں، ان لوگوں کی نظر میں عدالت وہی ہے جو اپنی ابتدا سے تھی نہ یہ کہ کوئی عظیم مفہوم ہے کہ جسے موجودہ صورت حال سے مطابقت دے۔

آپ زیاد کی طرف سے معاویہ کے تعارف کو ملاحظہ کریں جس میں صرف اور صرف ایک سیاسی پہلو ہے اور اس کی قدرت کو دوام بخشنا منظور ہے۔ الجوہر النفیس فی سیاسة الرئیس ص۷۳۔

مثلاآپ ابن عربی جو معاویہ کا دفاع کرتا ہے کی توجیہ کا مطالعہ کریں جب کہ اسی نے ابن عدی کے قتل کا حکم دیتا ہے کہ جس پر ہر ایک نے اعتراض کیا یہاں تک کہ عائشہ نے بھی اعتراض کیا علی و بنوہ ص۲۱۹ پر ابن عربی کی توجیہ کو ملاحظہ کریں: اگر یہ مان لیاجائے کہ ابن حجر کو قتل کرنا ظلم تھا مگر یہ کہ قتل کا موجب فراہم ہوجائے تو میں کہوں گا: اصل یہ ہے کہ امام کا قتل کرنا حق ہے اور جو اس قتل کے ظلم ہونے کا قائل ہے اسے اپنے اس مدعا کو ثابت کرنا ہوگا اور اگر یہ ظلم تھا تو پھر معاویہ پرتمام گھروں میں لعنت کرنا چاہئے تھا۔ جب کہ بغداد جو عباسیوں کی خلافت کا مرکز تھا اور امویوں سے ان کی رقابت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اسی بغداد کی مسجدوں کے دروازوں پر یہ جملہ لکھے ہوا ہے آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت کے بعد بہترین لوگوں میں ابوبکر پھر عمر پھر عثمان پھر علی اور پھر خالالمؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ ص۲۱۳۔

(۲)اس طرح کے فکری نمونہ ابن تیمیہ، ابن قیم اور ابن حنبل کے نظریات اور آثار میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ السیاسة والشریعة ص۱۰و ۲۱؛ اعلام االموقعین، ج۳، ص۳۔ ۶ الاحکام السلطانیة اور نیز گذشتہ فصل کی ۵۴ویں توضیحات کو ملاحظہ کریں۔

(۳)المواقف فی علم الاصول ص۳۲۳

(۴)مزید وضاحت کے لئے من العقیدة الی الثورة نامی کتاب، ج۱، ص۳۔ ۴۱ کے مقدمہ ملاحظہ ہو۔

(۵)ملاحظہ کریں۔

Amir H.Saddiqi Caliphate and kingship ,pp .۲.۵

(۶)یہ بات شیعوں کے نزدیک بھی قابل قبول ہے، رجوع کریں الشیعة والحاکمون ص۷،۸ اسی طرح الفکر السیاسی الشیعی ص۲۶۸۔ ۲۷۱۔

(۷)بطور نمونہ مراجعہ کریں، عدالت کے سلسلہ میں امویوں کی تفسیر سے متفاوت مفہوم کے تحت غیلان دمشقی کا ارمنستان کے لوگوں کو قیام کے لئے دعوت دینا۔ ذکر باب المعتزلہ ص۱۷ و ۱۶ اسی طرح عدالت کی برقراری کے لئے ہونے والے شیعوں اور معتزلہ کے قیام انتفاضات الشیعة ص۹۷۔ ۱۱۰۔

(۸)مطلوب حاکم اور حاکم کے مطلوب نظام نیز یہ کہ عدالت کو اس کا مقام نہیں مل سکا ہے جو ہونا چاہئے لہٰذا اہل سنت کے مضبوط اور پختہ افراد کی پریشانیوں کو دریافت کرنے کے لئے مناقب الامام احمد ابن حنبل ص۴۳۸، اسی طرح طبقات الحنابلہ ج۲، ص۳۱ملاحظہ ہو اور کس طرح یہ لوگ عمر ابن عبد العزیز کی طرح متوکل جیسے فاسق و فاجر، ظالم و جابر سفاک اور ستمگر کی صرف ا س وجہ سے تعریف کرتے ہیں کہ اس نے بدعتوں کا مقابلہ کیا تھا۔

(۹)حقیقت تو یہ ہے کہ شیعوں کے عقائد کا تمام پابندیوں کے باوجود سماج میں نفوذ اہل سنت کے عقائد سے کہیں زیادہ ہے کہ جس سے صرف اور صرف موجودہ حاکمیت ہی نے فائدہ اُٹھایا ہے۔ من العقدة الی الثورة ص۱،۲۶۔

(۱۰)معتزلہ کی مذمت اور تنقیص نیز ان کے اعتقادات کو شکل دینے سے متعلق اہل سنت کی پریشانیوں کو طبقات الحنابلة ج۲، ص۳۰، ۳۱ اسی طرح کتاب الابانة عن اصول الدیانة ص۱۳، ۱۶ نامی جیسی کتابوں میں ملاحظہ کریں

(۱۱)فقہ السنة ج۱، ص۲۰۹ و ۲۱۰ المحلی ج۴، ص۲۱۳، ۲۱۴ اور اس مسئلہ کی تفصیل کو المجتہد و نھایة المقصد ج۱، ص۱۴۷، ۱۴۸ کے آغاز میں ملاحظہ کریں۔

(۱۲)اس سلسلہ میں امام باقرـ سے نماز جماعت کے بارے میں کئے گئے سوال کی کیفیت کو معلوم کرنے کے لئے وسائل الشیعہ ج۵، ص۳۸۱ حدیث نمبر۵ نیز ۸ ص۳۷۷ اسی طرح مستدرک وسائل الشیعہ ج۶، ص۴۵۷ ملاحظہ کریں۔

(۱۳)حنابلہ نماز جماعت میں شرکت کو واجب سمجھتے ہیں۔ الفقہ علی المذہب الاربعة ج۱، ص۳۷۵ نامی کتاب ملاحظہ ہو، ظاہریہ فرقہ بھی مکلفین پر نماز جماعت کو واجب سمجھتا ہے بدایة المجتہد ج۱، ۱۴۳۔

(۱۴)غیبت کے زمانے میں نماز جماعت و جمعہ کے جواز کے قائلین کی دلیلوں کی رد جامع المقاصد نامی کتاب کی ج۲، ص۷۴، ۳۸۰ ملاحظہ ہو نیز کتاب رسالة صلوة الجمعة حیدر ابن المولی محمد الذرفولی، شیخ انصاری کی تقریظ کے ہمراہ اسی طرح رسالة فی صلوة الجمعة کرکی، کو کتاب رسائل المحقق الکرکی ج۱، ص۱۱۷، ۱۴۰ ملاحظہ ہو۔

(۱۵)کنزل العمال ج۷، ص۵۸۱و ۵۸۲۔

(۱۶)ابوبکر کی پیش نمازی باعث بنی تھی کہ جس کی وجہ سے حسن بصری، ابن حزم اور اہل حدیث کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہوگئی کہ ابوبکر کی خلافت منصوصاور آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت کی سفارش اور تائید سے تھی معالم الخلافة فی الفکر السیاسی الاسلامی ص۱۳۳۔

(۱۷)مزید وضاحت کے لئے البدر الزاہر فی صلاة الجمعة والمسافر ص۶۔۸ ملاحظہ ہو۔

(۱۸)رسائل المحقق الکرکی، ج۱، ص۱۴۴

(۱۹) Shorter Encyclopaedia of Islam,p.۳۵۰

(۲۰)الامامة و السیاسة، ج۱، ص۳۴، فقہ السنة ج۱، ص۲۰۹

(۲۱) Goldziher Muslim Studies , Vol ۲nd , P, ۵۰

(۲۲)عیون الخبار، ج۲، ص۲۸۲

(۲۳)گذشتہ حوالہ، ص۲۸۱

(۲۴)اس مسئلہ پر اہل سنت اور شیعوں کا اجماع ہے کہ آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت نماز جماعت سے اعراض کرنے والوں کو سرزنش ہی نہیں بلکہ تہدید بھی کی ہے اور ڈرایا بھی ہے، کنز العمال ج۷، نماز جماعت میں شرکت کرنے کے وجوب کے باب میں، ص۵۸۲، ۵۸۱۔ نیز نماز جمعہ میں شرکت کے وجوب کے باب میں، ج۵، ص۳۷۶، ۳۷۷ نیز جامع المدارک ج۱، ص۴۸۹، کہ جو منقول ہے الشھادات وسائل الشیعة نامی کتاب سے۔

(۲۵)اس مسئلہ میں عباسیوں کی روش بھی امویوں کی جیسی تھی کہ جو کچھ نماز جماعت و جمعہ سے مربوط تھا اسے اپنی ذات سے مخصوص کرلیا تھا خلفاء عباسی کے آشکار ترین دینی مظاہر سیادت میں ایک یہ تھا کہ پنجگانہ نمازوں کے اوقات میں ان کے گھروں کے سامنے طبل بجایا جاتا تھا تاکہ اس کے ذریعہ نماز کے وقت کا اعلان کریں، یہ عمل صرف اور صرف خلفاء سے مخصوص تھا اور کسی دوسرے بلکہ ولی عہد کو بھی یہ اجازت نہیں دی جاتی تھی کہ اپنے گھر کے سامنے طبل بجائیں تاکہ اس مظہر سیادت میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا خلیفہ کا شریک نہ ہونے پائے۔ نظام الوزارة فی الدولة العباسیة محمد سفر الزہرانی کی تحریر کردہ کتاب ص۲۶ جو کہ ابن جوزی ج۷، ص۹۲ المنتظم نامی کتاب سے منقول ہے۔

(۲۶)فقہ السنہ ج۱، ص۲۷۲، مؤلف شعبی کے بقول اس طرح نقل کرتے ہیں: جب معاویہ کا پیٹ بڑا ہوگیا تو وہ نماز جمعہ کے خطبہ کو کھڑے ہونے کے بدلہ بیٹھ کر دینے لگا۔ اس مطلب کو کتاب وسائل الشیعة ج۵، ص۳۱، حدیث۱، سے مقایسہ کریں۔

(۲۷)امامت کے سلسلہ میں فاسق اور بدعتگذار کی امامت اور اس مسئلہ میں مذاہب اربعہ کے نظریات کے لئے الفقہ علی المذاہب الاربعة نامی کتاب کی ج۱، ص۴۲۹ ملاحظہ کریں۔

(۲۸)وسائل الشیعہ ج۵، فاسق کی اقتدا کی حرمت کے باب میں ملاحظہ کریں، ص۳۹۲، ۳۹۵۔

(۲۹)وسائل الشیعة ج۵، ص۳۸۱، ۳۸۲۔

(۳۰)بطور نمونہ الفصل فی الملل والاھواء والنحل، ج۴، ص۸۷، نیز اعلام الموقعین ج۱، ص۴۸۔

(۳۱)البدر الزاہر، ص۷، ۸ نیز من العقیدة الی الثورة، ج۱، ص۲۲و ۲۳، جس میں حاکم کی طرف سے نماز جمعہ و جماعت کے امام کے منصوب ہونے کی کیفیت اور ان دونوں میں متقابل روابط کی نقادانہ انداز میں تحقیق و بررسی کی گئی ہے۔

(۳۲)الائمة الاربعة ج۴، ص۱۱۹، ۱۲۰۔

(۳۳)المحلی ج۴، ص۲۱۴۔

(۳۴)المحلی ج۴، ص۲۱۳۔

(۲۵)سابق حوالہ ص۲۱۴۔

(۳۶)معجم الفقہی الحنبلی الجزء الثانی، ص۵۷۵ نیز الابانة عن اصول الدیانة ص۲۳۔

(۳۷)وسائل الشیعة ج۵، ص۳۷۲ حدیث۹۔

( ۳۸)اموی خلفاء اور ان کے عمال کا دین سے بے گانہ ہونے اور دوری کا اندازہ اس نمونہ سے ہوسکتا ہے: بعض اموی خلفاء کی جانب سے طارق مدینہ کا حاکم تھا، میں نے اسے دیکھا کہ اس نے کھانا منگوایا اور اسے منبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تناول کیا، اس کے کھانے میں ایک مغزدار ہڈی تھی، وہ ان ہڈیوں کو منبر رسول پر توڑتا اور اس کے مغز کو کھاتا۔ عیون الاخبار ج۲، ص۴۶۔ جب مدینہ کے حاکم کا یہ حال ہے تو پھر دوسرے شہروں میں منصوب والیوں اور حکام کا کیا حال ہوسکتا ہے۔

(۳۹)یہ شرکت نہ تنہا حاکم کی مشروعیت کو قبول کرنے کے معنی میں تھی بلکہ حاکم سے مربوط تمام امور کو قانونی قبول کرنے کے معنی میں بھی تھی۔ بطور نمونہ ''مدینہ کے حاکم سعید ابن مسیب کے نظریہ کو وفیات الاعیان ج۲، ص۱۱۷ پر ملاحظہ کریں۔

(۴۰)المصنف، ج۲، ص۱۴۸۔

(۴۱)السیاسة الشریعة ص۴۲۔

(۴۲)آپ اسی سلسلہ میں دین کے بھیس میں دنیا طلبی اور مفاد پرستی کے نمونہ مشاہدہ کرسکتے ہیں جو صدر اعظم سلطان سلیمان قانونی، لطفی پاشا کو امامت و خلافت کے درجہ تک لے جانا چاہتا تھا: وہ اپنے رسالہ خلاص الامة فی معرفة الائمة میں سلطان سلیمان کو ان القاب سے نوازتا ہے: امام زمان ِ، رسول خدا کا جانشین، اسلام کا مدافع، دین خدا کا قدرت مند حامی، مسلمانوں کا سلطان، کافروں کے منھ میں لگام لگانے والا، عادل پیش نماز، شریعت کے قوانین برقرار کرنے والا، نیز ایسا شخص جو برکت الہی اور اسکی سعادت سے بہرہ مند ہے اور خدا کے الطاف اور اس کی بے کراں عنایتیں اسکے ساتھ ساتھ ہیں، یہ تمام باتیں اس دنیاوی موقعیت کی تقویت تحکیم کے لئے دین سے فائدہ اُٹھانے کے عنوان سے ہے۔ ''مجلہ دانشگاہ ادبیات و علوم انسانی دانشگاہ مشھد، شمارہ مسلسل ۵۷، ۲۵۸، ص۷۔۸۔

(۴۳)الاسلام بین العلماء و الحکام، ص۱۳۳، ۱۳۸۔

(۴۴)المحلی، ج۴، ص۲۱۴۔

(۴۵)۔فقہ السنة، ج۱، ص۲۰۹، ۲۱۰۔

(۴۶)المحلی، ج۴، ص۲۱۴۔

(۴۷)وسائل الشیعة، ج۵، ص۳۸۳ ،حدیث۹۔

اس مطلب کی تائید مستدرک وسائل الشیعة ج۶، ص۴۵۶۔ اور العواصم والقواصم ج۳، ص۴۲، ۲۴۴۔ جس میں اہل سنت کے تمام اسناد ذکر کئے گئے ہیں دریافت کریں۔

(۴۸)من العقیدة الی الثورة۔ ج۱، ص۲۶۔

(۴۹)الانتفاضات الشیعة عبر التاریخ، ہاشم معروف الحسینی، ص۸۰۱و ۱۰۹، جو کتاب وعاظ السلاطین سے منقول ہے۔ جس میں سنیوں کی پائداری اور باقی رہنے کو بدون تعصب بیان کیا گیا ہے رجوع کریں، ۱۰۹و ۱۱۰۔

(۵۰)بطور نمونہ کنزالعمال، ج۷، ص۵۹۱، ۵۹۷ ملاحظہ ہو۔

(۵۱)الاقتصاد فی الاعتقاد، ص۱۹۷، ۲۰۶ نیز فاتحة العلوم ص۱۱ اسی کتاب سے ملاحظہ ہو۔

(۵۲)السیاسة الشرعیة، ص۲۳۔

(۵۳)ادب الدنیا والدین، ماوردی، ص۱۱۵۔

(۵۴)مقدمہ ابن خلدون، ص۱۸۰۔

(۵۵)طول تاریخ میں مسلمانوں اور عیسائیوں اوران کی ایک دوسرے کے دین کی تفسیر کے سلسلہ میں رقابت جو آج تک باقی ہے، اطلاع کی خاطر ''نقد تؤطئہ کتاب آیات شیطانی اور مخصوصا The Legacy Islam pp,۹-۶۲ اس کشمکش کا آج تک باقی رہنا اور مسلمانوں کی تفسیر کی بہ نسبت انتقادکے لئے ملاحظہ ہو ''پیامبر و فرعون ص۱۸۵، ۲۰۲۰ ''اسلام در جہان معاصر'' ص۱۰۶۔ ۱۲۰۔

(۵۶)الامام زید محمد ابوھرہ، ص۱۰۹، ۱۰۸۔

(۵۷)چونکہ عیسائیت اسلام کو گذشتہ ایام میں ایک الہی مذہب کے عنوان سے قبول نہیں کرتی تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں کو کافروں کے زمرہ میں سمجھتے تھیاور ان کے لئے دینی اور غیر دینی کسی بھی قسم کے حقوق کے قائل بھی نہیں تھے۔ ایک اندلس کے عیسائی کے بقول جو مسلمان ہوا تھا کہ اس نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے جو کہ، ۸۲۳، ق، ۱۴۲۰، میں لکھی تھی یوں بیان کرتا ہے کہ: اندلس کے بنونیہ نامی شہر میں ایک مسلمان جو اپنی جان بچانے اور اپنے وطن میں رہنے پر مجبور ہوگیا لہٰذا اس نے اپنے اسلام کو مخفی رکھا اور پادریوں کی جماعت میں شامل ہوگیا تھا اور خود کو نیقولا اور مرتیل کہتا تھا۔ ''مجلہ دانشگاہ ادبیات و علوم انسانی دانشگاہ مشہد، شمارہ مسلسل ۵۷، ۵۸، ص۹

مسیحیت نے جب ۱۹۵۰ء کے درمیان اپنا دوسرا اجلاس رکھا تو اس میں اسلام کو ایک الہی مذہب کے عنوان سے قبول کرلیا

The Conciliar and Post Conciliar Documents,PP,۷۳۸-۴۲

Ziauddin Sardar, Islamic Futures

لیکن آج بھی اسلام کے خلاف اپنی کینہ توزیوں سے دست بردار نہیں ہوئے ہیں، بطور نمونہ، جوزف کراف کے مقالہ کی طرف جو واشنگٹن پوسٹ ۱۹مئی ۱۹۸۱ میں ''کون پاپ کو قتل کرناچاہ رہاتھا'' کے عنوان کے تحت شائع ہوا تھا ملاحظہ ہو۔

اسی طرح JohnLoffin, The Dagger of Islam اس دشمنی کا سبب معلوم کرنے کے لئے آپ رجوع کریںاس کی طرف

Daniel; Islam and the west:The Making of an Image ,

ملاحظہ ہو PP,۱-۱۴

(۵۸)اسی مجلہ کا شمارہ، ۵۶، ص۷۵۳ ملاحظہ ہو۔

(۵۹)سابق حوالہ، ص۷۵۳۔

(۶۰)سابق مجلہ، شمارہ، ۵۷۔ ۵۸ ص۱۰ اور ۱۱۔

(۶۱)واقعیت تو یہ ہے کہ شہروں اور مخصوصا سرحدوں کی امنیت خلیفہ یا سلطان کی قدرت و طاقت کے ذریعہ پہلے زمانہ میں ایک اہم مسئلہ تھا جو بہت سے اہل سنت علما کو ان کی حمایت اور ان کی قدرت کو بڑھانے اور اسے قوت پہونچانے کے لئے ایک دینی وظیفہ کے عنوان سے اُبھارا۔ اس لئے ان کی نظر میں سلطان کی قدرت اور اس کی شان وشوکت اسلام اور مسلمین کی قدرت تھی جو اسلام کے دشمنوں غیروں اور کفار کے دخل و تصرف کرنے سے مانع تھی۔

ہارون جیسے فرد کی موقعیت اور شان و شوکت کا سبب یہی ایک عامل تھا اگرچہ وہ ایک ظالم اور جابر شخص تھا کہ جس کے ظلم کی داستان کا ہزار و یک شب والی کتاب میں ایک گوشہ ہے بیان کی گئی ہے، بلکہ بہت سارے علما اہل سنت کی نظر میں وہ مسلمانوںکی عظمت و قدرت اور قہر و سطوت کا مظہر تھا، جس کی وجہ سے ہر ایک اس کا احترام کرتا تھا اور اس کی تکریم بجالاتا تھا۔ وہ شہنشاہ روم سے مقابلہ کی طاقت رکھتا تھا۔ اور اسے اطاعت کے لئے مجبور کرسکتا تھا۔ اس واقعیت کو درج ذیل داستان سے بخوبی معلوم کیا جاسکتا ہے۔

۱۸۷ ق میں شہنشاہ روم نے ہارون کے نام ایک خط لکھا اور جو عہد نامہ روم اور ہارون کے درمیان منعقد ہوا تھا اسے فسخ کردیا، یہ عہدنامہ گذشتہ حاکم جو کہ ایک عورت تھی اس نے باندھا تھا، اس نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ اس عہدنامہ کے مطابق جو اسکے سلف کے ضعف و حماقت بلکہ عورتوں کی خصلت میں سے ہے اب تک جو کچھ بعنوان خراج دیا ہے اسے لوٹادیاجائے یا پھر جنگ کے لئے آمادہ ہوجائے۔ جب ہارون نے یہ خط پڑھا نہایت غضبناک ہوا کہ کسی میں اتنی جرأت نہ تھی جو اس کی آنکھوں کی طرف نظر اٹھاکردیکھتا یا اس سے بات کرتا، فوراً قلم و دوات منگوایا اور کہا کہ اسی خط کی پشت پر لکھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم، ہارون امیر المؤمنین کی جانب سے نقنور سگ روم کی نام! اے کافر عورت کے بچے! میں نے تیرا خط پڑھا، پس اس کا جواب ایسا ہوگا کہ تو اسے ضرور دیکھے گا نہ وہ ہوگا جو تو سنے گا۔ اور اسی روز اپنے لشکر کے ساتھ روم پر چڑھائی کردی اور ایک گھمسان کی جنگ کے بعد اس پر غالب آگیا اور شہنشاہ روم کو شکست دے کر اس پر اپنا خراج معین کردیا۔ تاریخ الخلفائ، ص۲۸۸۔ ذکر محاسن کے باب میں اور بلکہ اس کے فضائل کہ جو اس وقت کے علما کے تصورات کی عکاسی کرتے ہیں، اطلاع کی خاطر رجوع کریں سابق حوالہ کی طرف، ص۲۸۳، ۲۹۷۔

اسی طرح نقل کرتے ہیں کہ ایک روز ہارون قرآن پڑھ رہا تھا کہ اس آیت پر پہنچا ''کیا یہ ملک مصر میرا نہیں ہے، کیا یہ نہریں میرے پیروں کے نیچے جاری نہیں ہے؟ کیا تم نہیں دیکھتے۔ فرعون کے یہ جملات دیکھتے ہی اس نے یہ جملہ کہ کہا اس کم ہمت اور خسیس انسان پر لعنت ہو جو ملک مصر میں خدائی کا دعوی کرتا ہے، لہذا میں اسی مصر کو ایک ایسے والی کے حوالہ کروں گا جس نے میری خدمت ہر ایک سے کم کی ہو لہذا اس نے حمام کے مالک خصیب کو بلایا اور مصر کی امارت اس کے حوالہ کردی، خلعت و منشور کے ساتھ اسے مصر کی جانب روانہ کردیا اور خصیب ایک ایسا شخص تھا جس میں مصر کی امارت کی اہلیت تھی نیز اس کے دماغ میں نخوت اور ہمیت کا غبار تھا۔ ''اغراض السیاسة فی اعراض الریاسة، ص۳۲۰، مضحکہ خیز تو یہ ہے کہ مؤلف ہارون کے اس عمل کو اس کی طبیعت کی بلندی اور عظمت شان تصور کرتا ہے لہٰذا ایسے طرز تفکر کا سابقہ جس کا اثر کافی عمیق اور گہرا ہو طولانی رہا ہے۔

(۶۲)الائمة الاربعة، ج۴، ص۱۱۹۔

(۶۳)اغراض السیاسة فی اعراض السیاسة، ص۲۸۵۔

(۶۴)الاقتصاد فی الاعتقاد، ص۱۹۸، ۱۹۹۔

(۶۵)المواقف فی علم الکلام، ۳۹۶، ۳۹۷۔

(۶۶)اس مطلب کی وضاحت کے لئے رجوع کیا جائے مصطفی شکری کی صریح تنقیدوں کی طرف جسے کتاب ''پیغمبر و فرعون'' میں ذکر کیا ہے، ص۸۷، ۹۰۔ نیز عالمانہ تنقید کے لئے مراجعہ کریں حسن حنفی کی کتاب من العقیدة الی الثورة کے مقدمہ کی طرف، ج۱، ص۲۰، ۳۲۔

(۶۷)الاحکام السلطانیة ابویعلی، ص۲۱؛ الخلافة والامامة، ص۳۰۰۔

(۶۸)ایام المحنة میں امام حنبل اور ان کے ہم فکر ساتھیوں نے جو سختیاں جھیلی ہیں، ان کے متعلق معلومات کے لئے الائمة الاربعة ج۴، ص۱۴۰۔ ۱۸۰ نیز الخلافة والامامة، ۳۰۰۔ ۳۰۹ کی طرف رجوع کریں بلکہ حکام کی طرف سے علما نے جو سختیاں جھیلی ہیں ان کے متعلق معلومات کے لئے ہر ایک سے بہتر یہ ہے کہ کتاب الاسلام بین العلماء والحکام ص۱۲۹، ۲۱۴، نیز کتاب مناقب امام احمد ابن حنبل ابن جوزی، ص۳۹۷، ۴۲۰ کی طرف رجوع کریں۔

(۶۹)اگر یہ مان لیا جائے کہ نظام کی حفاظت در اصل حاکم کی حفاظت تنہا مصالح و مفاسد کی تشخیص دینے کا ضابطہ ہو تو ممکن ہے کہ اس کی حفاظت کے بہانہ دین اور عدالت سے انحراف اس درجہ بڑھ جائے کہ دختر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بے حرمتی بھی کی جائے ''حضرت زہراء علیہا السلام کے مکان پر حملہ کیا گیا اور آپ کی بے حرمتی کی گئی، یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے کیا گیا کہ نظام اسلام باقی رہے اور امر خلافت میں کوئی خلل واقع نہ ہو نیز کسی میں خلیفہ کی مخالفت کی جرأت نہ رہے اور مسلمانوں کے اتحاد کو ٹھیس نہ پہنچے۔'' شرح ابن ابی الحدید، ج۲۰، ص۱۶، اس نمونہ کے علاوہ دوسرے نمونے بھی بعد والے صفحات میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں، ان خلفاء کی تنقید کے باب میں جو خلق قرآن کے قائل تھے، العواصم من القواصم، ۲۴۹، ۲۵۱ ملاحظہ ہو۔

(۷۰)الخلافة والامامة، ص۳۰۱۔

(۷۱)یزید اور اس کے درباری علمائے سوء نیز ان کے اخلاف نے بعد کے زمانے میں امام حسین اور ان کے چاہنے والوں کو نے یہ کہہ کر متہم کیا کہ یہ لوگ دین سے خارج ہوگئے ہیں اور امام و خلیفہ کی مخالفت کے لئے قیام کیا ہے، لہذا ان سے جنگ کرنا چاہئے اور ان کا صفایا کردینا چاہئے۔ تاریخ طبری ص۳۴۲ پر ملاحظہ ہو

(۷۲)اعلام الموقعین، ج۳، ص۳ اور ۴۔

(۷۳)بطور نمونہ کتاب ''ہند و پاکستان'' ص۳۸، ۳۷ ملاحظہ ہو۔

(۷۴)بطور نمونہ رشید رضا کا مشہور و معروف خطبہ غرا ملاحظہ ہو جو کہ میدان منی میں شریف حسین کی خلافت سے متعلق ثورة العرب ضد الاتراک ص۳۲۰۔ ۳۲۶ نیز اسی جگہ رشید رضا کی تقریر کے بعد شریف حسین کی تقریر کا مطالعہ کریں، ص۳۴۲، نیز کتاب العواصم من القواصم پر محب الدین الخطیب کے مقدمہ کو ملاحظہ کریں جس میں اس نے اموی خلفاء کی صرف اس وجہ سے تعریف کی ہے کہ انھوں نے اپنی قدرت اور شأن و شوکت کے سہارے اسلام کی حکومت کو پھیلانے میں کوششیں کی تھیں (ص۳) اور کتاب ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین، ۲۹۹، ۳۱۹۔

(۷۵)بہترین نمونوں میں سے ایک نمونہ وہ خط ہے جسے مصر کے مشہور مجاہد اور مصنف زینب الغزالی نے یاسر عرفات کے نام لکھا تھا، اس وقت کہ جب تونس میں اسرائیلی جہازوں نے فلسطین کی آزادی بخش گروہ کے کیمپ پر حمل کیا تھا۔

(۷۶)اسلام میں مختلف فرقوںکے درمیان خونین جنگوں کی فہرست بڑی طولانی ہے،اور اس میدان میں حنابلہ کا کردار ہر ایک سے زیادہ رہا ہے،یہ صرف اس وجہ سے تھاکہ ان کے اعتقادات عوام پسند، خشک اور ایسے تشدد آمیز ذہنی دباؤ اور دفاع کرنے والے جس نے ان عقائد کو جنم دیا یہاں تک کہ اشاعرہ جو اپنے تعصب میں مشہور و معروف ہیں وہ بھی ان لوگوں کی شیطنت، خشک مزاجی اور قساوت و سنگدلی سے گلہ مند رہے ہیں۔ جیسے کہ ایک زمانہ میں چند اشعری علما اپنے زمانہ کے فرقہ اشعری کے رئیس ابو القاسم قشیری کی حمایت میں خواجہ نظام الملک کو ایک خط لکھتے ہیں اور اس میں حنابلہ کی شرارتوں کی شکایت کرتے ہیں اور اس سے اشاعرہ کی بہ نسبت حمایت کی خواہش کرتے ہیں،لیکن تعجب تو یہ ہے کہ یہ خط اس وقت لکھا گیا ہے کہ جب اشاعرہ اور شافعی کا بول بالا تھا۔ اس خط کے ذریعہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کس حد تک حنا بلہ اپنے علاوہ مذہب والوں پر سختی کرتے تھے۔''

بغداد میں عوام الناس اور کچھ حشویہ گروہ کے لوگ اور چند اوباش اور پست فطرت لوگوں نے جو اپنے آپ کو حنبلی کہتے تھے ایسی ایسی بدعتیں اور ایسی بدکرداریاں انجام دیں کہ جسے ایک ملحد بھی انجام نہیں دے سکتا تھا چہ جائیکہ کوئی موحد انجام دے اور خدا کی طرف ہر اس چیز کی نسبت دی کہ جس سے وہ عاری ہے خواہ وہ نقص ہو یا حدوث و تشبیہات۔ ان لوگوں نے گذشتہ اماموں کی بے حرمتی کی، دینداروں اور اہل حق کو طعنہ دیئے۔ مساجد، بازار، محافل اور خلوت و جلوت میں ان پر لعنت کی۔''

الملل النحل، استاد سبحانی، ص۲۷۹۔ ۲۸۲ ایسی سیکڑوں داستانوں کو طبقات الحنابلہ نامی کتاب میں دیکھا جاسکتا ہے جسے خود انھوں نے لکھا ہے اور جس میں انھوں نے اپنے علما کی سوانح حیات اور عظمت و شان بیان کی ہیاور یہ داستان ان کی شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں کا ایک نمونہ ہے: طبرستان سے بغداد کی طرف طبری کے دوسرے سفر میں ایک روز طبری مسجد جامع میں پہنچ گئے، وہاں حنبلیوں نے امام احمد ابن حنبل اور خد ا کے عرش پر بیٹھنے کے سلسلہ میں وارد ہونے والی روایت کے بارے میں طبری سے سوال کرلیا تو ا س نے جواب دیا کہ احمد ابن حنبل کی مخالفت کو اہمیت نہیں دی جاسکتی اور مشابہ بھی نہیں ہے تو حنبل نے کہا: لیکن علما نے اپنے اختلافات ہیں اسے بیان کیا ہے، تو طبری نے کہا کہ نہ میں نے اسے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے دیکھا ہے اور نہ ہی ان کے اصحاب میں کسی سے سنا ہے جو کہ معتمد شخص رہاہو، لیکن خدا کا عرش پر بیٹھنا محال ہے۔

حنبلی اور اہل حدیث نے جیسے ہی طبری کا نظریہ سنا، اس پر حملہ آور ہوئے اور اپنے قلم و دوات اس کی طرف پھینک دیئے، طبری نے بھاگ کر اپنے گھر میں پناہ لی، چونکہ حنبلیوں کی تعداد ہزاروں میں تھی لہذا ان لوگوں نے اس کے گھرکے سامنے اس قدر پتھر برسائے کہ پتھروں کا ایک ٹیلہ ہوگیا ہے۔ بغداد کے پولیس افسر نازوک نے اسی وقت ہزاروں کی فوج لیکر وہاں پہنچ گیا اور طبری کو حنبلیوں کے شر سے نجات دی اور پورے دن وہیں ٹھہرا رہا، اس کے گھر سے پتھروں کو اٹھانے کا حکم دیا، وہابیان، ص۲۷ اسی طرح آپ ملاحظہ کریں، ساتویں صدی کے مشہور مجاہد اورعظیم شخصیت عز ابن عبدالسلام کی مصیبتوں کو کہ جسے حنبلیوں کی جانب سے متحمل ہوئے تھے الاسلام بین العلماء و الحکام ص۱۹۲۔

(۷۷)یہ بالکل شیعوں کے آئمہ کی ضد میں اپنایا گیا ہے، ا ن لوگوں کی نظر میں عوام کو فاسد بنانے میں نظام حاکم کا کوئی نقش نہیں ہے اسی وجہ سے وہ لوگ جس طرح اجتماع کی اصلاح کے قائل تھے اسی طرح ہر فرد کی اصلاح کے قائل تھے۔ یہا ں تک کہ وہ موارد جس میںمسیر حق سے انحراف ہیں ذاتی شیطنت کے علاوہ دوسرے عوامل دخیل تھے اور ایسی خصوصیت کے ساتھ قدرت کسی فرد یا نظام کے ہاتھ میں تھی ایسے افراد سے مقابلہ کے لئے کوئی خاص عکس العمل کا اظہار نہیں کرتے جیساکہ امام علیـ نے اپنے بعد خوارج کے سلسلہ میں یہ وصیت کی: میرے بعد خوارج سے جنگ نہ کرنا اس لئے کہ جو حق کی جستجو میں ہو اور بھٹک جائے، اس شخص کے جیسا نہیں ہے کہ جو باطل کی تلاش میں ہو اور اسے حاصل کرلے۔ خطبہ، ۶۱ نہج البلاغة، تصحیح صبحی صالحی۔

دین اسلام اپنی ابتداء سے ہی لوگوںکو اپنی خدمت میں لینے مخصوصا جوانوں کو اپنی خدمت میں لینے میں کامیاب رہا ہے، کسی بھی دین کا ایسی خصوصیات سے سرفراز ہونا انسانی خصوصیات سے ہم آہنگی انسان کی طرف ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا اثر اور جاذبہ ہے جو ابھی تک باقی ہے اور باقی رہے گا۔ اس سلسلہ میں حجازیوں کے سامنے ابوحمزہ خارجی کی تقریر ملاحظہ کی جاسکتی ہے کہ جس پر اس کے چاہنے والوں کے جوان ہونے کی وجہ سے تنقید کی گئی تھی۔ ''... اے اہل حجاز! کیا تم میرے چاہنے والوں کے جوان ہونے پر مجھے ملامت کرتے ہو، کیا ایسا نہیں تھا کہ آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت کے اصحاب جوان تھے۔ خدا کی قسم یہ اپنی جوانی میں بھی بزرگ ہیں، جن کی آنکھیں شر سے محفوظ اور کان امر باطل کے سننے سے سنگین ہیں، جو شدت عبادت اور زندہ داری کی وجہ سے لاغر اور کمزور ہوچکے ہیں، خدا رات کی تاریکیوں میں ان پر نظر کرتا ہے اس حال میں کہ ان کی پشت قرآن کی طرف جھکی ہوئی ہے، جب ان کی نگاہیں قرآن کی ان آیات پر پڑتی ہیں کہ جن میں بہشت کی خبر دی گئی ہے تو شدت شوق سے ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ اور جب ان آیتوں سے گذرتے ہیں کہ جن میں جہنم کا تذکرہ کیا گیا ہے تو شدت خوف سے چیخ مارتے ہیں گویا وہ جہنم کی وحشتناک آواز کو سن رہے ہوں... جنگ کے ہولناک ترین لحظات میں لشکر میں پیش پیش افراد جب موت کے خوف سینہ سپر شمشیر کی چمکاور نیزہ کی کھنک دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتے ہیں تو دشمن کے خوف کو خدا کے ترس کے مقابلہ میں اسے اپنا کھلونا بنا لیتے ہیں۔ وہ لوگ ایسے حالات میں برابر آگے بڑھتے جاتے ہیں اور اپنے ہی خون سے اپنی داڑھیوں میں خضاب لگا لیتے ہیں، درندے ان کی جسموں کی طرف دوڑتے ہیں اور پرندے ان کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں، کتنی آنکھیں ہیں جو شب کی تاریکیوں میں خوف خدا میں گریاں ہوئیں وہ پرندوں کی چونچ کا نشانہ بن گئیں؟ اور وہ ہاتھ جو رات کی تاریکی میں سجدوں کے طولانی ہونے کہ وجہ سے زمین پر پڑے رہے، وہ گٹے سے جدا ہوگئے؟...'' البیان والتبیین، ج۲، ۱۰۲، ۱۰۳، اس نے اپنے جوان پیروکاروں کی جو تعریف کی ہے کہ وہ دین کی سربلندی کے علاوہ کچھ اور نہیں سوچتے اور جان و دل سے اس کی راہ میں فداکاری کے لئے آمادہ ہیں، یہ توصیفات ہر زمانہ میں صحیح ہیں۔ بطور نمونہ مجلہ النذیر عضو اخوان لمسلمین سوریہ کے مختلف شماروں کی طرف نیز ان کتابوں کا بھی مطالعہ کریں کہ جن میں اسلام کے فدائیوں کے حالات زندگی بیان کئے گئے ہیں اسی طرح ''پیغمبر و فرعون۔'' نامی کتاب بھی ملاحظہ ہو

(۷۸)مزید وضاحت کے لئے On Being a Christian : مخصوصا ص۳۱۔ ۳۴ ملاحظہ ہو

(۸۹)گیب ان خصوصیات کی درستگی کا سرچشمہ اسلام کو جانتا ہے ''اسلام کا اعتقادی نظام محکم، مثبت اور مؤکد ایک مجموعہ ہے اور یہ تمام خصوصیات قرآن، حدیثاور سنت و شریعت کی مرہون منت ہیں

(۸۰)سعودی اخوان کی اخلاقی اور دینی اور ذہنی خصوصیات اور ان کے اقدام کے سلسلہ میں تحقیق کرنا بہتر ہے جو ایک بہترین نمونہ ہے لہذا رجوع کریں کتان ''وہابیان'' ص۴۴۶۔ ۴۵۹ مثلا حافظ وھبہ جو خود نزدیک سے انھیں جانتا ہے اور ان کی جنگوں کا چشم دید گواہ ہے وہ ان کے سلسلہ میں کہتا ہے: اخوان موت سے نہیں ڈرتے۔ شہادت اور خدا سے ملاقات کے لئے موت کے منھ میں پہنچ جاتے ہیں اور جب ایک ماں اپنے بیٹے کو میدان جنگ کی طرف روانہ کرتی ہے تو اس سے کہتی ہے جاؤ کہ خدا ہم دونوں کو بہشت میں ایک دوسرے سے دوبارہ ملاقات کا موقع دے، جب وہ اپنے دشمن کی طرف حملہ کرتے ہیں تو ان کا شعار (ایاک نعبد وایاک نستعین) ہوتا ہے، میں خود ان کی بعض جنگوں کا مشاہدہ کر چکا ہوں، میں نے خود دیکھا کہ وہ کس طرح میدان جنگ کی طرف جاتے تھے، دشمن کی صفوف کو درہم برہم کرتے ہوئے انھیں شکست دینے اور انھیں قتل کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں سوچتے، ان کے دلوں میں ذرہ برابر بھی شفقت و مہربانی کا نرم گوشہ نہیں ہے ان کے ہاتھوں سے کوئی بچ نہیں سکتا جہاں بھی وہ پہنچ جائیں موت کے قاصد ہیں'' ''وہابیان'' ص۴۵۲ جو کتاب العرب فی القرن العشرین ص۳۱۴، سے منقول ہے اور جان فیلبی ان کے سلسلہ میں اس طرح بیان کرتا ہے: اخوان نے قبائل عرب سے قتل و غارت گری، عیاشی اور رہزنی کو ختم کردیا اور وہ لوگ جو کچھ بھی کرتے تھے اپنی آخرت کے لئے کرتے تھے۔ اپنے علاوہ ہر ایک کو بلکہ بقیہ تمام اسلامی فرقوں کو مشرک اور بت پرست سمجھتے تھے۔ ''وہابیان'' ص۴۴۹ جو تاریخ نجد کے ص۳۰۵۔ ۳۰۸ سے منقول ہے۔

(۸۱)حنفیوں اور شافعیوں کے درمیان رقابت جو خونین جنگوں کا باعث بنی، درج ذیل داستان کو پڑھیں: جسے ہندو شاہ نقل کرتا ہے: امام اعظم شافعی کے مذہب کا پابند تھا اور سلطان ملک شاہ نے اصفہان کے محلہ کران میں ایک علمی مدرسہ کی بنیاد رکھی، جب دستور لکھنا چاہا کہ اس مدرسہ میں کون رہے گا تو سلطان سے سوال کیاتو اس نے جواب دیا کہ اگرچہ میں ایک حنفی ہوں لیکن میں نے اسے خدا کے لئے بنایا ہے لہذا کسی ایک فرقہ سے مخصوص نہیں کرسکتا۔ کسی قوم سے مخصوص کرنا اور کسی کو محروم کردینا معقول نہیں ہے لہذا لکھ دو کہ اس میں دونوں امام کے اصحاب رہیں اور جب لکھنا چاہا تو چونکہ سلطان حنفی تھا لہذا امام حنیفہ کا نام امام شافعی کے نام سے پہلے لکھنا چاہا تو خواجہ نے منع کردیا اور ایک مدت تک حالت ایسی ہی رہی آخرکار یہ طے پایا وقف علی اصحاب الامامین الائمة صدری الاسلام مجلہ دانشکدۂ ادبیات و علوم انسانی دانشگاہ مشہد، شمارہ، ۵۶ ص۷۴۲ جو کتاب تجارب السلف ص۲۷۷۔ ۲۷۸ سے منقول ہے۔

(۸۲)شافعیوں اور حنفیوں، ماتردیوں اور اشعریوں، اہل سنت اور شیعہ و معتزلی کے درمیان شدید تعصب مسلمانوں کی کمزوری کا ایک عظیم سبب ہے۔ جو بھی مقدسی کے سفرنامہ اور یاقوت کی معجم البلدان کا مطالعہ کرے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ تعصبات کس قدر قتل و غارتگری، فتنہ و فساد، ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ کا باعث بنے ہیں۔ ظہر الاسلام، ۴، ص۱۰۲

۳۵۰ھ میں ایک طرف اہل سنت اور سوڈانی سپاہیوں میں تو دوسری طرف شیعوں میں ایک عظیم اختلاف اور کشمکش پیدا ہوئی۔ سوڈانی سپاہی سڑکوں پر جسے بھی پاتے اس سے سوال کرتے کہ تمھارا ماموں کون ہے اگر وہ جواب میں معاویہ نہیں کہتا تو اس کی بری طرح ناقابل تحمل پٹائی کرتے اور اسے گالم گلوج سے نوازتے بلکہ کبھی کبھی یہی چیز اس کی موت کا سبب بن جاتی تھی۔ اسی طرح ۴۰۸، ۴۴۴، ۴۴۵، ۴۴۹ ق، میں وحشتناک فتنہ اٹھے اور دونوں گروہوں سے ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے۔ الفکر السیاسی الشیعی، ص۲۸۰، اس کے مزید نمونوں کے حصول کے لئے اسی کتاب کا ص۲۷۹، ۳۸۱ نیز کتاب اسلام بلا مذاہب ص۲۸۵۔ ۲۸۸ ملاحظہ ہو۔

(۸۳)تمام اسلامی فرقوں میں شیعہ ہر ایک سے زیادہ اپنے دشمنوں کی جانب سے حملوں کا شکار رہا۔ اور اس کے بھی مختلف اسباب تھے منجملہ یہ کہ ابتداء اسلام میں مسلمان ائمہ اطہار کی جانب اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہونے کی وجہ سے ان سے نزدیک اور انھیں اپنا محبوب بنائے ہوئے تھے جو عباسیوں اور امویوں کے اقتدار کے لئے ایک خطرہ تھا جس کی بنیاد پر وہ کسی بھی آزار و اذیت سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ کتاب اسلام بلامذاہب' ص۲۸۵۔

(۸۴)اکثر وہ لوگ جو ہندوستان، افریقا اور دور دراز شرقی ممالک میں شیعوں کے خلاف منصوبہ بندی کرتے اور اپنی طاقتوں کا استعمال کرتے ہیں، وہ اسی فکر کے زیراثر ہیں۔ وہ اپنی گردنوں پر اسلام کی نسبت ذمہ داری کو پورا کرنے کی فکر میں ہیں لہذا جان کی حد تک اسلام اور اس کی سربلندی کی خاطر سعی و تلاش کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کے پاس اس ذمہ داری کو پورا کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے نیز جہالت کی وجہ سے وہابیوں کی زہریلی اور جھوٹ و فساد سے مملو شیعوں کے خلاف تبلیغ کی زد میں ہیں لہذا شیعوں سے مقابلہ کو اپنا فرض سمجھتے ہیں، ان سے جنگ کو اپنا ہدف اور اسے بطور صحیح انجام دینے کی کوشش میں ہیں پس انھیں ان وہابیوں سے جدا کرنا ہوگا جو اپنے منافع کی خاطر ایسا اقدام کرتے ہیں، ''افریقا: میراث گذشتہ و موقعیت آئندہ'' نامی کتاب ص۱۱۲، ۱۱۴ ملاحظہ ہو۔

(۸۵)۱۴۳ھ میں علماء اسلام نے حدیث و فقہ اور تفسیر کی کتابیں لکھنا شروع کیں، اسی دور میں ابن جریح نے مکہ میں لکھا، مالک نے مدینہ میں موطأ تحریر کی اور اوزاعی نے شام میں اسی طرح ابن ابی عروبہ اور حماد ابن سلمہ اور دوسروں نے بصرہ میں لکھنا شروع کیا، معمر یمن میں، شفیان ثوری کوفہ میں، ابن اسحاق نے کتاب مغازی تحریر کیاور ابوحنیفہ نے فقہ و رأی نامی کتابیں لکھیں اور مختلف علوم کی تدوین اور نشر و اشاعت عام ہوگئی اس طرح مختلف کتابیں عربی علوم، لغت، تاریخ، وغیرہ کے سلسلہ میں بے شمار وجود میں آئیں۔ اس دور سے پہلے علما اپنے حافظہ کے سہارے مطالب بیان فرماتے تھے اور غیر تدوین شدہ صحیح صحیفوں سے نقل کرتے تھے۔ تاریخ خلفائ، ص۲۶۱۔

اس بات کی تحقیق کرنے کے لئے کہ صدر اسلام میں احادیث بنوی کے نہ لکھنے میں کن عوامل کا ہاتھ تھا، کتاب الملل والنحل ص۵۱۔ ۷۱ نیز کتاب اضواء علی السنة المحمدیة ص۲۶۱، ملاحظہ کرسکتے ہیں اور جب یہ دور ختم ہوگیا تو اس کے بعد کے علما کتابیں لکھنے پر چندان مائل نہیں تھے لیکن جب ہشام نے زہری کو لکھنے پر مجبور کیا تو اس کے بعد سے علما نے قلم سنبھا لا اور لکھنا شروع کیا۔ سابق حوالہ ص۲۶۲۔

(۸۶)مقدمہ وسائل الشیعہ ج۱، ص۳۵، ۴۹ اور عباسیوں کی دینی سیاست کے سلسلہ میں مؤسسہ آل البیت سے چھپی کتاب کی طرف رجوع کریں۔

Goldziher ,Muslim Studies , pp ۷۵-۷۷

(۸۷)اوائل اسلام میں عباسیوں کے ابتدائی ادوار میں غیر عرب مخصوصا ایرانیوں کے نفوذ کا اس روایت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے.. منصور نے عید نوروز کے دن امام موسی بن جعفر ـ سے تقاضا کیا. کہ عمومی ملاقات کے لئے تشریف رکھیں اور زیارت کرنے والوں کے تحفوں کو قبول فرمائیں، لیکن امام نے انکار کردیا تو منصور نے جواب میں کہا کہ یہ رسم سیاسی مصلحت اور لشکریوں کو خوش آمد کہنے کے لئے ہے۔ جواہر الکلام ج۵، ص۴۲

(۸۸)اس آخری صدی میں اہل سنت کے تفکرات بالخصوص وہ تفکر جو علما اور سلاطین و خلفاء سے مربوط تھے، شدت سے تنقید کا نشانہ بنے ہیں اور تنقید کرنے والے مختلف گروہوں اور جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف اسباب کی بنیاد پر انھیں اپنی تنقیدوں کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض دینی علما ہیں جیسے شیخ کُشک، خالد محمد خالداور اخوان المسلمین سے وابستہ دوسرے علما دین مخصوصا ًسید قطب،ان لوگوں کے علاوہ بقیہ مخالف جماعتیں اور آزاد فکر حضرات ہیں، ان میں سے بعض کی تنقیدوں جو پہلے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اصلاحی، سنوارنے والی اور ہمدردانہ ہیں۔ لیکن دورے گروہ کی تنقیدیں تباہ کن، نقصان دہ، فتنہ انگیز اور بزدلانہ ہیں شیخ کشک کے نظریات کو معلوم کرنے کے لئے رجوع کرسکتے ہیں ''پیامبر و فرعون'' ص۲۱۹۔ ۲۲۰۔ خالد محمد خالد کے نظریات معلوم کرنے کے لئے رجوع کریں الشیعہ فی المیزان ص۳۷۵، ص۳۷۸ اخوان المسلمین کے طرفدار علما کے نظریات کے لئے رجوع کریں الاخوان المسلمون والجماعات الاسلامیة ص۲۶۲۔ ۲۷۰۔ دوسرے گروہ کے نظریات معلوم کرنے کے لئے الاسلام والخلافة فی العصر الحدیث ص۹۔ ۳۴ مخصوصا ً، ص۱۸۔ ۲۳ اور کتاب الاسلام واصول الحکم میں محمد عمارہ کا مقدمہ ملاحظہ ہو۔

(۸۹)۔چوتھی صدی کی ابتدا میں حکومت عباسی کی اکثر سرزمینیںمحلی حکومتوںکے تابع تھیں، ان سرزمینوں میں ظاہری رابطہ بس اتنا ہی تھا کہ صرف خلیفہ کا نام لیا جاتا تھا اور اس کا خطبہ پڑھا جاتا تھا اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا رابطہ نہیں تھا، جس کی وجہ سے عباسی حکومت بغداد اور اس کے اطراف میں محدود ہوکر رہ گئی تھی نظام الوزارة فی الدولة العباسیة ص۱۹۔

(۹۰)مثلا آپ سلجوقی بادشاہوں کا دینی سیاست کو اپنانے اور اسے اپنی سلطنت کو مضبوط بنانے کے لئے ایک وسیلہ قرار دینے کے سلسلہ میں معلومات کے لئے نظام الوزارة فی الدولة العباسیة ص۴۷۔ ۵۰ ملاحظہ ہو، ا بن اثیر ان لوگوں کی دینی سیاست کے سلسلہ میں اس طرح کہتا ہے: جب حکومت کی باگ ڈور سلجوقیوں کے ہاتھ میں آئی، اس وقت عظمت خلافت کا رنگ پھیکا پڑچکا تھا، انھوں نے اسے دوبارہ وہ عظمت بخشی مخصوصا نظام الملک نے اپنی وزارت کے دوارن اسے ایک خاص شکل میں جلوہ دیا جو التاریخ الباہر فی الدولة الاتابکیة ' ص۵۱، سے منقول ہے۔ نیز النقص ص۴۸۔ ۴۷،

اس کتاب میں ان مثبت نظریات کے ساتھ ان کے اقدامات کو نقل کرتا ہے

یہی سیاست خود عباسیوں نے بھی اپنائی تھی۔ البنداری کہتا ہے: یہاں اس کی مراد چھٹی صدی ہجری ہے، عباسیوں نے اس حد تک خلافت کی ہیبت بڑھادی کہ ''بغداد کو فتح کرنا اس کے دشمنوں کے لئے ناممکن ہوگیا جس کی وجہ سے کسی بادشاہ نے اسے فتح کرنے کے لئے اقدام نہیں کیا'' نظام الوزارة فی الدولة العباسیة، ص۶۴ جو کتاب آل سلجوقی ص۳۶۸ سے منقول ہے اور مزید وضاحت کے لئے اسی کتاب کا ص۶۲، ۶۷ بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں،

(۹۱)اعلام الموقعین، ج۱، ص۴۸، ۴۷۔ اسلامی حکومت کی عمارت کی اصلی خصوصیات کے نام پر گروی ہونے اور دینی اور اخلاقی اقدار کی حفاظت میں اس کے کردار کی اس طرح وضاحت کرتا ہے: (۱)انسان کی خلقت کا ہدف عبادت ہے۔ (۲)کامل عبادت مؤمنین کے اجتماع کی محتاج ہے۔ (۳)ایسی امت ایک حکومت کی محتاج ہے۔ (۴) حکومت کا پہلا وظیفہ عبادت کی راہ ہموار کرنا ہے۔

G. E.Von Grunebaun Islam ۱۹۶۹,p,۱۲۷

(۹۲)اجماع کی قدر اور قیمت اور اہمیت مخصوصاً صحابہ اور خلفاء راشدین کا اجماع کہ جو صبحی صالحی کی تعبیر کے مطابق تشریع اسلامی کے مصادر میں سے تیسرا مصدر ہے اور یہ کہ کیسے بہت سارے مسائل کا مستند حکومت اور خلافت بن گیا ہے ایک سند کی شکل اختیار کرگئی۔ النظم الاسلامیة ص۲۸۱۔ مؤلف کے اعتقاد کے مطابق خلافت کی ایک دلیل خود اجماع بھی ہے اور اس باب میں جو روایات وارد ہوئی ہیں وہ اس مطلب کو ثابت کرتی اور تائید ہیں جو اجماع کے ذریعہ ثابت ہوچکی ہیں۔

(۹۳)ابن تیمیہ کے اس کلام کی طرف توجہ کریں: احمد ابن حنبل اپنی مسند میں عبد اللہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں: آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت نے فرمایا: کسی بھی انسان کے لئے حلال نہیں ہے مگر یہ کہ زمین کے کسی حصہ میں کسی کو امامت کے لئے انتخاب کرلیا جائے.. آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت نے ایک شخص کی امارت اور حاکمیت کو اس چھوٹے سماج اور معاشرہ میں واجب قرار دیا تاکہ آئندہ برقرار ہونے والے بڑے بڑے اجتماع کے لئے بیداری کا باعث ہو، خدا نے امر بہ معروف اور نہی از منکر کو واجب قرار دیا اور یہ امر بغیر امامت اور قدرت کے انجام نہیں پاسکتا۔ اسی طرح تمام واجبات جیسے جہاد، اقامہ عدل، حج و جمعہ، اعیاد، مظلوم کی نصرت، اس وقت تک حدود بھی جاری نہیں ہوسکتے جب تک کہ قدرت و حکومت برقرار نہ ہوجائے۔ اسی وجہ سے یہ نقل ہوا ہے کہ بادشاہ زمین پرخدا کا سایہ ہوتاہے۔ یا یہ جملہ جو نقل ہوا ہے کہ ساٹھ سال ظالم بادشاہ کے ساتھ زندگی گذارنا ایک رات بادشاہ کے بغیر گذارنے سے بہتر ہے۔ اور تجربہ نے بھی اس بات کو ثابت کردیا ہے۔ اور پھر اپنے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے: اسی وجہ سے سلف صالح فضیل ابن عیاض اور احمد ابن حنبل اور دیگر افراد کہا کرتے تھے اگر ہمارے لئے کوئی مستجاب دعا ہوتی تو ہم سلطان کے لئے دعا کرتے۔ السیاسة الشرعیة ص۱۳۸ ۱۳۹ و نیز طبقات الحنابلہ، ۲ ص۳۶۔

(۹۴)حقیقت تو یہ ہے کہ آل بویہ اور فاطمیوں کی سیاست شیعوں کے عقائد کو بیا ن کرنے والی نہیںہے وہ اپنے ہی دور کی ایک حکومتیں تھیں الشیعة و الحاکمون ص۷۔

''... اسی وجہ سے وہ سلاطین جو اپنے آپ کو شیعہ کہتے تھے ان کا شیعوں کے عقائد سے کوئی ربط نہیں ہے اور شیعہ بھی اپنے اور سلاطین کے درمیا ن کوئی ربط نہیں دیکھتے۔ پس جو تصرفات بھی واقع ہوتے ہیںخود ان کی ذات سے مربوط ہیں، اگر قرآن و سنت کے مطابق ہے تو صحیح وگرنہ وہ گنہگار ہیں۔ اسی وجہ سے شیعہ اپنے آپ کو شیعہ سلاطین کے تصرفات سے بری سمجھتے ہیں اور چونکہ سیاست دین کے ساتھ ساتھ ہے اور ائمہ اطہار کی سیرت کے علاوہ کہیں اور مجسم نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا شیعوں کی کوئی بھی سیاسی فکر کبھی ائمہ علیہم السلام کے نظریات سے خارج نہیں ہوسکتی۔ اور اصولی طورپر شیعوں کی سیاسی فکر کو سیاسی مسائل سے جوڑکر ان کے آراء و خیالات میں معلوم کیا جاسکتا ہے، پس ایک شیعہ کی جانب سے سرزد ہونے والا عمل یا عقیدہ اگر ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت کے مطابق ہو تو وہ شیعوں کی سیاسی تفکر کا ایک حصہ ہے وگرنہ اس کا شیعوں کی سیاست سے کوئی ربط نہیں ہے۔'' الفکر السیاسی الشیعی ص۲۸۰ اور مزید وضاحت کے لئے اسی کتاب کا ص۲۶۸، ۲۷۱ ملاحظہ ہو۔

(۹۵)مصر میں جہادی تنظیم کی بنیاد رکھنے والے اہل سنت کے چار اماموں کی نسبت مصطفی شکری کی شدیداللحن تنقید کا مطالعہ کریں جو بعد میں گرفتار ہو کر پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ وہ دراصل اپنے کہ در واقع وہ اپنے اور اپنے بعد کے زمانے فقہا کو عدالت میں لاتا اور سلاطین کی مدد سے انھیں متہم کرتا ہے۔ وہ اس سوال کے جواب میں کہ کیوں ان چار اماموں نے باب اجتہاد کو بند کردیا تھا؟ تو جواب میں کہتا ہے: تاکہ وہ اور ان کے آثار کی تعریف کی جائے اور مشرکوں کے بتوں کی طرح وہ بھی پرستش کے قابل ہوجائیں، انھوں نے آپنے آپ کو خدا اور مومنین کے درمیان قرار دیا تھا اور اپنے آپ کو اسلام سے خارج کردیا تھا بلکہ وہ زیادہ تر جاہلیت اور وحشیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور پھر اس طرح اپنے سلسلۂ بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے کیا وہ لوگ جنھوں نے باب اجتہاد کو بند کرنے کے درپئے تھے آیا انھوں نے بھی ایسا ہی کیا؟ نہیں۔ انھوں نے عوام اور باقی مسلمانوں کے لئے باب اجتہاد کو بند کردیا لیکن طول تاریخ میں کسی بھی سلطان کے لئے درباری فقہا نے دوبارہ حاکمیت سے متعلق احکام کو صادر کرنے لئے باب اجتہاد کی طرف رجوع کیا اور اس طرح انھوں نے اسلام کے نام پر حرام کو حلال اور فساد کو ہوادینے کے موجب بنے۔ اگرہم حال و گذشتہ سے ایسی مثالیں پیش کردیں تو کسی میں اسے انکار کرنے کی جرأت پیدا نہیںہوسکتی۔اس لئے کہ زنا کی فقہا کی جانب سے تجویز، ربا خواری، قانون الہی کے برخلاف نامشروع قوانین کے تحت حکومتوں کو مشروعیت عطا کرنا،حتی کہ اسلام کے نام پر فحشا، شرابخواری کوتجویز کرنا واضح ہے اور پھر اپنے زمانہ میں اسی قسم کے صادر کئے فتووں کو بطور نمونہ پیش کرتا ہے۔ ''پیغمبر و فرعون'' ص۸۸، ۸۹۔

(۹۶)''نخستین رویا روئیھا ی اندیشہ گران ایران، ص۳۲۳، ۳۶۶۔

(۹۷)اہل سنت کے فقہا میں سے بعض اس حاکم کے سامنے قیام کی اجازت دیتے ہیں جسے راہ راست پر لانا شمشیر کے بغیر ممکن نہ ہو۔ اس مطلب کے لئے ابن حزم کے نظریات جسے اس نے امر بہ معروف اور نہی از منکر کے باب میںبیان کیاہے کتاب الفصل، ۴ ص۱۷۳، ۱۷۴۔ اسی طرح اما م حرمین جوینی کے نظریات شرح المقاصد نامی کتاب ج، ص۲۷۱، ۲۷۵ پر ملا حظہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسے فقہا ہمیشہ اقلیت میں رہے ہیں جیسا کہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے۔

(۹۸)ابن جوزی اپنی معروف کتاب تلبیس ابلیس، میں ابلیس کے ان تمام راستوں کو بیان کرتے ہیں کہ جس کی ذریعہ فقہا کو وسوسہ کرنے کاامکان ہے، انھیں میں سے ایک راستہ سلاطین کا تقرب ذکر کرتے ہیں اور اس باب میں اس طرح تفصیل بیان کرتے ہیں: فی الجملہ سلاطین کے دربار میں وارد ہونا ایک خطرناک فعل ہے۔ دربار میں تکریم اور انعامات، طمع اور حرص اور امر بہ معروف اور نہی از منکر سے کوتاہی شروع ہوجاتی ہے، ثفیان ثوری کہتے تھے: مجھے جس قدر سلاطین کی تکریم سے ڈر ہے اس قدران کی اہانتوں سے خوف نہیں ہے۔ اس لئے ان کے اس عمل سے میرا دل ان کی طرف مائل ہوجائے گا، گذشتہ علما ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے دوری اختیار کرتے تھے لیکن وہ اپنی ضرورت کی وجہ سے ان کے فتاوی کے ذریعہ مدد طلب کرتے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کا ایک ایسا گروہ وجود میں آیا جو زبردست دنیا پرست تھا اور ایسے علوم سیکھے جو صرف امیروں کے کام آسکتے ہیں...۔ تلبیس ابلیس ص۱۱۸و ۱۱۹۔ اس طرح کی تنقیدیںحدیث، اخلاق اور تاریخی کتابوں میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔

مثلا خود غزالی سلاطین کے مقابلہ میں علما کے اس موقف روش کے سلسلہ میں بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اور یہ تھی امر بہ معروف اور نہی از منکر کے سلسلہ میں علما کی روش اور عادت نیز سلاطین سے ان کا خوف نہ کھانا۔ اور ان کا خدا پر بھروسہ کرنا خدا انھیں حفظ کرے خدا کے حکم پر راضی تھے تاکہ خدا انھیں شہادت نصیب کرے، اس لئے کہ ان کی نیتیں خالص اور دلوں میں ان کی باتیں زیادہ مؤثر واقع ہوتی تھیں اور انھیں نرم بنادیتی تھیں، لیکن اس دور میں طمع حرص نے علما کی زبانوں کو بند کردیا ہے اور انھیں خاموش رہنے پر مجبور کردیا ہیاور جب کوئی بات کہتے ہیں تو چونکہ وہ ان کے فعل کے مخالف ہوتی ہے لہذا مؤثر واقع نہیں ہوتی، اگر وہ اپنے قول میں سچے ہوں اور ان کی نیتیں خالص ہوں تو وہ بھی ضرور کامیاب ہوں گے، عوام کا فاسد ہونا سلطان کے فساد کی وجہ سے ہے اور سلاطین کا فاسد ہونا علما کے فساد کی وجہ سے ہے اور خود علما کا فاسد ہونا جاہ و مقام کی ہوس کے غلبہ کی وجہ سے ہے، جسے دنیا کی محبت اپنا اسیر بنالے، تو وہ ایک اوباش اور پست کو راہ راست نہیں لاسکتا تو پھر ایک سلطان اور صاحبان مناصب کو کیسے راہ راست پر لاسکتا ہے۔ احیاء علوم الدین، ۷ ص۹۲۔

قابل توجہ یہاں ہے کہ غزالی صرف دو مقام پر علما کو سلاطین کے دربار میںوارد ہونے کو جائز قرار دیتا ہے جو دین میں سیاست کے ہونے کی طرف ایک اشارہ ہے: سلاطین کے پاس جانا سوائے دو امر کے جائز نہیں ہے اول یہ کہ سلطان عالم کو اکرام کے بدلہ الزام کے لئے طلب کرے اور اسے معلوم ہو کہ اگر وہ انکار کرے گا تو اسے شکنجہ کیا جائے گا یا سلطان کے پاس نہ جانے کی وجہ سے عوام کی سرکشی کا باعث ہو اور امررعیت اختلاف کا شکار ہو جائے گا ایسی صورت میں جانا واجب ہے۔ سلطان کی اطاعت کی غرض سے نہیں بلکہ لوگوں کی مصلحت اور حکومت میں فساد واقع نہ ہونے لئے سلطان کے پاس جائے۔ دوم یہ کہ کسی مسلمان یا اپنے سے ظلم کو دفع کرنے لئے جائے...، احیاء علوم الدین، چھٹا باب فیما یحل من مخالطہ السلاطین الظلمة جو کتاب الاسلام بین العلماء والحکام ص۱۱۲ سے منقول ہے نیز کتاب الفوائد ابن قیم ص۱۴۹۔ ۱۵۳ نیز،

Goldziher The Zahiris ,P,۱۶۵. Gibb, Studies on The Civlization of Islam, P. ۱۴۵ کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے۔

(۹۹)اسی سیاست کے نمونہ عثمانی خلافت کے آخری ایام میں مسجد ایا صوفیہ کے امام جمعہ شیخ عبد اللہ کے خطبہ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔ ''... یہاں اسی مطلب کو بیان کروں گا کہ جسے میں نے پہلے بیان کیا ہے، ان میں فقرا اور اپاہج لوگوں کے علاوہ وہ لوگ کہ جو اس بات کے مدعی ہیں کہ وہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وارث ہیں، اساتید، مفتی، قضاةاور دراویش، تجار، صنعتی لوگ، بلکہ تمام لوگ قرآن کے حکم کے مطابق کافر ہوچکے ہیں اور منافقوں کے زمرہ میں ہیں لہٰذا انکا قتل کرنا واجب ہے، اس لئے کہ انھوں نے جہاد کو ہزاروں آیات و شواہد کے باوجود جان و مال سے جہاد کرنا ترک کردیا ہے، واجب ہے۔ ان لوگوں کے ایمان کی تجدید دوامر پر موقوف ہے۔ اول یہ کہ جنگ میں حاضر ہوں اور دوم یہ کہ اگر صاحب مال ہیں تو نصف مال ترکی کے دارخلافہ کے حوالہ کردیں تاکہ وہ (ترک) اپنے داخلی اور خارجی دشمنوں سے انتقام لے سکیںاور اگر وہ اپنا نصف مال دارالخلافہ کے حوالہ نہ کریں تو ان کا دوبا رہ ایمان لانا کفایت نہیں کرے گا اور روز قیامت مرتد اور کفار کے ساتھ محشور کئے جائیں گے اور جہنم میں جھونک دئے جائیں گے...'' ثورة العرب ضدالاتراک ص۲۲۴ جو ''قوم جدید'' نامی کتاب کے ص۲۵ سے منقول ہے۔

(۱۰۰)معالم الخلافة فی الفکر السیاسی الاسلامی،ص۱۱۔ اس داستان کی تفصیل، عرب کا مشہور ناسیونالیسم ساطع حصری نے اپنی کتاب البلاد العربیة والدولة العثمانیة میں درج کیا ہے۔ کتاب الفکر السیاسی الشیعی ص۳۰۰ اور ۳۰۱، میں اس داستان کا ایک مختصر خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ ''سلطان سلیم نے اہل سنت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی اور خود فروش علما سے شیعوں کے کفر اور ان کے قتل کے وجوب کے سلسلہ میں فتوا حاصل کیا،۔ اور پھر یہ فرمان جاری کردیا کہ اس کی حکومت میں جہاں بھی شیعہ ہوں ان کی گردن مار دی جائے۔'' ص۳۸، حائری ساندرس کے بقول سلطان سلیم کے اقدامات کے سلسلہ میں اس طرح توضیح دیتے ہیں: سلطان سلیم جس نے آٹھ سال ۹۱۸ سے ۹۲۷ تک حکومت کی، اس مدت میں اس نے ایران پر حملہ کیا اور ۹۲۰ ق، کے بعد کردستان اور آذربائیجان کو فتح کیا اور اس کی حکومت میں جوبھی شیعہ تھا یا اسے قتل کردیا یازندان میں ڈال دیا۔ اور سنی علما نے یہ اعلان کردیا تھا کہ ایک شیعہ کو قتل کرنا ستر عیسائیوں کے قتل کرنے سے بہتر ہے اور ایک قول کے مطابق چالیس ہزار شیعہ مارے گئے۔ مجلہ دانشکدہ ادبیات و علوم انسانی دانشگاہ مشہد،شمارہ ۵۷۔ ۵۸ ص۵و۶۔

(۱۰۱)جیسے کہ سلجوقی حکام مختلف بہانوں سے شیعہ مخالف سیاست کو اپنائے ہوئے تھے نظام الوزارة فی الدولة العباسیة، ص۴۷ اور خواجہ نظام الملک شیعوں کو کافر قرار دیتے ہوئے کہتا ہے: جہاں بھی انھیں پاؤ قتل کردو یا جہاں بھی رافضی ملیں انھیں منبروں پر لے جاکر سربرہنہ کیا جائے اور ان سے یہ کہا جائے کہ تم دین کے دشمن ہو، لیکن اس کے باوجود اس دور کے جلیل القدر شیعہ متکلم عبدالجلیل قزوینی سلجوقی حکام کے دین کو وسعت بخشنے کے سلسلہ میں اس طرح کہتے ہیں: حقیقت تو یہ ہے کہ اس عالم میں زمین کے تمام حصوں میں مسلمانوں کے درمیان جو مدارس، مساجد، خانقاہیں، منابر، احیاء سنت اور بدعتوں کا قلع قمع آل سلجوق کی برکتوں اور ان کی شمشیر براں کی وجہ سے ہے۔ مجلہ دانشکدہ ادبیات و علوم انسانی دانشگاہ مشہد، شمارہ ۵۶، ۷۴۴، ۷۴۵۔ جو کتاب النقض و سیاستنامة سے منقول ہے۔ تاریخ تشیع میں ایسے ہزاروں نمونہ موجود ہیں اگرچہ اسکے برخلاف نمونہ کم پائے جاتے ہیں۔

جیسے کہ، نادرشاہ نے، ۱۷۴۱، میں سلطان عثمانی کو قانع کرنا چاہا کہ وہ شیعیت کو پانچواں مذہب قبول کرلے یہاں تک کہ اپنی بات منوانے کے لئے اسے خلیفہ اسلام لقب دینے پر راضی ہوگیا لیکن سلطان عثمانی نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔

(۱۰۲)۔اکثر مقامات پر شیعہ حکام کے علاوہ دوسرے گروہوں کی جانب سے آزار و اذیت اور لوٹ مار کا شکار رہا کرتے تھے اور ان میں ہر ایک سے زیادہ خود فروش علما کا نقش رہاہے، یہ لوگ عوام کو بہکاتے تھے اور دین سے دفاع کے نام پر شیعوں کے خلاف دوسرے فرقوں کو ابھارتے تھے۔ ابو محمد حسن بن علی بن خلف بر بہاری، بغداد کے حنبلیوں کے رئیس اور صاحب نظر تھا اور جو بھی اس کے نظریات کا مخالف ہوتا اس سے شدت کے ساتھ مقابلہ کرتا اور اپنے چاہنے والوںکو عوام کے ساتھ شدید مقابلہ کا حکم دیتا بلکہ بعض مواقع پر لوگوں کے گھروں کو غارت اور ان کی خرید و فروش میں مزاحمت کا حکم دیتا اور جو بھی اس کی باتوں کا انکار کرتا تو اسے ڈرانے اور دھمکانے کا حکم دیتا تھا۔

اسی کی حرکتوں میں سے ایک حرکت یہ بھی ہے کہ اُس نے امام حسینـپر رونااور آپ کی زیارت کے قصد سے کربلا کا سفر کرنا ممنوع قرار دے دیا بلکہ نوحہ کرنے والوں کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ اسی دور میں ایک نوحہ خوان تھا جو نہایت مشہور اور خوش آوازتھا اسی کے قصائد میں سے ایک شعر یہ بھی ہے کہ (ایھا العینان فیضا۔۔ واستھلا لا تفیضا) جسے امام حسینـ کے مرثیہ میں پڑھا کرتا تھا اور ہم نے اسے بغداد کے ایک رئیس کے مکان میں سنا تھا، اس وقت کسی میں کھلم کھلا نوحہ کرنے کی جرأت نہیں تھی مگر یہ پوشیدہ طور پر یا پھر اسے سلطان کی پناہ حاصل ہو، جب کہ نوحہ مرثیہ کے علاوہ کچھ اور نہ تھا اور سلف کے خلاف کوئی اس میں کوئی مطلب نہیں ہوتا تھا، اس کے باوجود جب بر بہاری کو اس کا علم ہوا تو اس نے حکم دیا کہ اسے جہاں پاؤ قتل کردو۔ ''وہابیان'' ص۲۶۔ اس سلسلہ میں بربہاری اور اسکے چاہنے والوں کی کارستانیوں سے زیادہ آگاہی کے لئے رجوع کیا جاسکتاہے، سابق حوالہ ص۲۶۔ ۳۳ نیز ابو الحسن اشعری کے ساتھ مناقشہ،اور اسکے عقائد و انجام کی معلومات کے لئے رجوع کرسکتے ہیں طبقات الحنابلہ ج۲، ص۱۸، ۴۵۔

(۱۰۳)حقیقت تو یہ ہے کہ ذکر کئے گئے عوامل کے علاوہ مذہبی عوامل بھی تھے کہ جس کی وجہ سے علما صفوی بادشاہوں سے نزدیک رہا کرتے تھے، اس لئے کہ صفوی خود صوفی مسلک تھے اور انھیں صوفیوں کی مدد سے قدرت کی باگ ڈور سنبھالی تھی اور یہی سبب تھا کہ جس کی وجہ سے خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عقیدتمند تھے، اس دور میں شیعہ علما نے اسی عقیدت سے فائدہ اٹھایا اور انھیں شیعیت سے نزدیک کیا، اسی مہم کی غرض سے شیخ بہائی اور انکے والد بزرگوار صفویوں سے نزدیک ہوئے۔

(۱۰۴)اس فتوی پر اصرار اور اسکے انجام سے آگاہی کیلئے مجلہ تراثنا، شمارہ ۳۸، ۴۱، نیز الفصول المہمة فی تالیف الامة ص۱۴۳، ۱۴۷ ملاحظہ ہو اور دوسرے شواہد کے لئے اسی مجلہ کی طرف رجوع کریں ص۳۲، ۶۱۔

(۱۰۵)تراثنا۔ شمارہ، ۶، ص۴۰۔

(۱۰۶)تحول اثبات، ص۱۶۱، ۱۶۵۔

(۱۰۷)علماء دین کا اس دور کے روشن فکروں سے مقابلہ جو ان کی واقعیت کی حکایت کرتا ہے، اس سلسلہ میں سید جمال سر فہرست ہیں: یہ دہریے یورپ کے دہریوں جیسے نہیںہیں اس لئے جو مغربی ممالک میں دین کو ترک کرتا ہے۔ اس میں وطن دوستی اور دشمنوں سے اپنے وطن کی حفاظت کی حمیت و غیرت باقی رہتی ہے۔ اوروہ وطن کی مصالح کی خاطر جانفشانی کرنے کے لئے آمادہ رہتا ہے۔لیکن احمد خان اور اس کے پیروکار دین کی حفاظت کی خاطر اپنے وطن کی مصلحت سے غافل اور انھیں اجنبیوں کے تسلط کے لئے آمادہ کر رہے ہیں... ان کا یہ عمل عظیم اجر اور کسی شرف کی خاطر نہیں ہے بلکہ ایک پست زندگی اور ناچیز منفعت کے لئے ہے اور اس طرح یہ مشرقی دہریے غربی دہریوں کے مقابلہ میں الحاد و کفر کے بعد پست و حقیر ہونے کے ذریعہ پہچان لئے جاتے ہیں۔ العروة الوثقی ص۵۷۲۔ ۵۷۵ جو کتاب الفکر الاسلامی الحدیث و صلتہ بالاستعمار الغربی ص۴۳ سے منقول ہے۔ المنار شمارہ ۱۳، اپریل ۱۹۲۵، ص۳۱ جو کتاب الاسلام و اصول الحکم ص۸، ۹ سے منقول ہے۔ خلافت کے سقوط کے اسباب اور مجمع کی جانب سے ہونے والی حمایتوں سے آگاہی کے لئے سابق حوالہ ص۷، ۱۴ ملاحظہ ہو.

(۱۰۸)آئیڈیالوجی وانقلاب، ص۱۵، ۱۶۴۔

(۱۰۹)سابق حوالہ ص۱۶۹، ۱۸۴۔

(۱۱۰)شیعوں کی تاریخ میں سیاسی اور معاشرتی تحولات اور انقلابات میں حماسہ عاشوراء ہمیشہ سے ممتاز رہا ہے ۔یہ بات ہمارے دور میں ایک عنوان کے تحت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ شیعی دنیا اور بالخصوص ایران میں تاریخ معاصر کے دوران افکار کی ضرورت سیاسی سرنوشت کو بدلنے کے لئے انقلابی راہ حل کی ضرورت ہمیشہ باقی رہی ہے۔

مثال کے طورپر مالک ابن انس کا موقف محمد نفس زکیہ کی بہ نسبت مجمل اور غیر واضح رہا اور قوی احتمال کی بنا پراسی نکتہ کے سبب وجود میں آیا تھا، مدینہ والے محمد کی مدد کرنا چاہتے تھے لیکن چونکہ پہلے منصور سے بیعت کر چکے تھے لہذا مالک ابن انس نے کہا کہ مجبوری میں بیعت منعقد نہیں ہوتی۔ جس کے بعد مدینہ والے محمد کے اطراف میں جمع ہوگئے، مالک کی یہ طرفداری باعث بنی کہ حاکم مدینہ کے حکم سے انھیں اس حد تک مارا گیا کہ اس کی وجہ سے ان کے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی، لیکن جب اسی مالک ابن انس سے حاکم کے خلاف خروج کے متعلق سوال کیا گیا تو جواب میںکہا: اگر یہ قیام عمر ابن عبد العزیز جیسے حاکم کے خلاف ہو تو جائز نہیںہے اور دوسری روایت کے مطابق جائز نہیں کے بجائے: خدا انھیں قتل کرے کا جملہ پایا جاتا ہے اور اگریہ قیام اسکے علاوہ کسی دوسرے حاکم کے خلاف ہو تو اسے اسی کے حال پر چھوڑدو، تاکہ خدا ایک ظالم سے ایک دوسرے ظالم کے ذریعہ انتقام لے پھر اس کے بعد دونوں ہی سے انتقام لے الفکر السیاسی الشیعی ص۳۲۱۔ علما کے حکام کے خلاف قیا م سے متعلق دوسرے شواہد کے لئے الاسلام بین العلماء والحکام، ص۱۰۴، ۲۲۲ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

جن لوگوں کا مؤلف موصوف تعارف کراتے ہیں انھیں میں سے سعید بن مسیب ہے: جب عبدالملک نے سعید سے ایک ہی وقت میں اپنے دو بیٹوں ولید اور سلیمان سے بیعت لینا چاہی تو انھوں نے بیعت کرنے سے انکار کردیا اور کہا: رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ہی وقت میں دولوگوں کی بیعت کے لئے نہی فرمائی ہے۔ عبدالملک نے سعید کو بڑے بڑے شکنجے دیئے لیکن سعید تسلیم نہیں ہوئے سلاطین کے مقابلہ میں اس طرح ڈٹے رہنا امام حسینـکا یزید کے مقابلہ میں یا جناب زید کا ہشام کے مقابلہ میں قیام کرنے میںبہت فرق ہے۔ تقریبا اہلسنت کے تمام علما ان حکام کے مقابلہ میںکہ جس کے سامنے قیام کرتے تھے اس کی حاکمیت کے نامشروع ہونے کا فتوا نہیں دیتے بس اتنا تھا کہ اس کے تقاضوں کو قبول نہیں کرتے تھے۔

(۱۱۱)بطور نمونہ الاسلام بین العلماء والحکام ص۱۱۵۔ ۱۳۲ ملاحظہ ہو لیکن اس مقام پر اہم یہ ہے کہ شیعہ اور سنی علما دینی وظیفہ کو دو دو جدا معانی میں تفسیر کرتے ہیں۔ اور ان کی تفسیروں کا یہ فرق بھی حکام سے تعلق اور اس کے ظلم و جور کے مقابلہ میں خاموش نہ رہنے سے متعلق ہے مثلا آپ امام حسینـ کے کلام میں جودینی علما کی ذمہ داریاں بیان ہوئی ہیں انھیں۔ تحف العقول ص۱۷۱، ۱۷۲۔ وہ بھی اس طرح کہ جو ابن حنبل نے وظائف بیان کئے ہیں ان سے موازنہ کریں اعلام الموقعین ۱، ص۹ جو کتاب الرد علی الزنادقة والجھمیة ابن حنبل سے ماخوذ ہے۔

(۱۱۲)الائمة الاربعة، ص۱۴۰، ۱۸۰اور مناقب الامام احمد ابن حنبل، ص۳۹۷، ۴۳۷۔

(۱۱۳)اہل سنت کے فقہاے کے درمیان یہ اجماعی مسئلہ ہے کہ حاکم کے مقابلہ میں قیام نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کے ظلم پر صبر کرنا چاہئے۔ شافعی اور ابن حنبل اسی قول کے قائل تھے الانتفاضات الشیعة عبر التاریخ ص۹۸، نسفی اپنی کتاب شرح العقائد میں اسی نظریہ کو ابوحنیفہ سے منسوب کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں: خلفاء راشدین کے بعد حکام کے درمیان فسق و فجور ظاہر ہوگیا اور سلف صالح نے بھی ان کی اطاعت کرلی اور ان کے ساتھ نماز جمعہ و جماعت پڑھی لیکن ان کے خلاف خروج نہیں کیا۔ سابق حوالہ ص۹۹ جن فقہا نے خروج کو حرام قرار دیا ہے تقریبا ہر ایک نے اسی ایک نکتہ کو اپنی دلیل بنائی ہے۔ مزید وضاحت کے لئے سابق حوالہ ص۹۷۔ ۱۰۷ نیز طبقات الحنابلہ ج۲، ص۲۲ ملاحظ ہو۔

(۱۱۴)جوانوں میں ایک انقلابی فکر کی شدت کو معلوم کرنے کے لئے مجلات النذیر۔ الثورة الاسلامیة، المنطلق۔ الدعوةاور وہ تمام مجلات جو جوانوں اور مجاہدین کی جانب سے شائع ہوتے ہیں ملاحظہ ہوں۔

(۱۱۵)ظالم حکام کی نسبت اہل سنت کے مجاہد جوانوں کے نظریا ت کو معلوم کرنے کے لئے عتیبی کی تنقیدوںکی طرف رجوع کرسکتے ہیں، کہ جس نے اول محرم ۱۴۰۰ میں خانہ کعبہ پر قبضہ کرلیا اور آل سعود کو نکال باہر کردیا تھا اور ۱۹۷۸ میں عبد العزیزین کے ذریعہ قید خانہ سے آزاد ہوا

Faith and Power.PP. ۱۸۰-۱۸۵

(۱۱۶)اسلامی معاشروں کے متمدن ہوجانے کی وجہ سے جوانوں پر جو اثر ظاہر ہوا اسے معلوم کرنے کے لئے ''پیامبر وفرعون'' ص۲۷۳، ۲۹۵ نیز اسی سلسلہ میں سعدالدین کی تحقیق بنام ایدئولوژی و انقلاب، ص۱۶۹، ۱۷۸۔ کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

(۱۱۷)پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں اسلام نے جو پوری دنیا بالخصوص مصر اور عرب کی مشکلات سے روبرو ہوا اس کا اندازہ لگانے اور کیفیت معلوم کرنے کے لئے الفکر الاسلامی الحدیث وصلتہ بالاستعمار الغربی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

(۱۱۸)اس دو دور کے آپسی فرق کو معلوم کرنے کے لئے دوران معاصر کے روشن فکر مسلمان کی فکری وعقیدتی داستان کی طرف رجوع کرسکتے ہیں جنھوں نے صداقت اور صراحت کے ساتھ اسے روشن کیا ہے العقیدة الی الثورة ص۴۶، ۴۸۔

(۱۱۹)عبد الرزاق کے استدلالی مباحث کتاب الاسلام واصول الحکم میں رجوع کرسکتے ہیں کہ جہاں اس نے خلافت کو اس عنوان کے تحت باطل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ دین کے اصول میں سے ایک اصل اور اس کے امور میں سے ایک امر ہے۔ وہ اس سلسلہ میں علما کے اجماع بالواسطہ اصل اجماع کا انکار کرتا ہے، چنانچہ اور اس کے تمام نقادوں نے اسی ایک نکتہ کو مورد توجہ قرار دیااور اس زاویہ کے تحت اس کے نظریات کو رد کرنے کی کوشش کی ہے۔ بطور نمونہ مراجعہ کریں، علماء ازہر کے ان سات اشکالات کی طرف کہ جسے انھوںنے اس کے نظریہ کے خلاف بیان کیا ہیاور پھر انھیں اشکالات کی بنیاد پر محاکمہ کیا اور جامعہ ازہر سے نکال دیا۔ کتاب الاسلام و اصول الحکم ص۱۲ پر محمد عمارہ کے مقدمہ کی طرف رجوع کریں۔ نیز کتاب سد باب الاجتہاد وماترتب علیہ عبدالکریم خطیب کی طرف رجوع کریں کہ جنھوں نے ایک دوسرے زاویہ سے عبدالرزاق ہی کے نظریات کو دہرایا ہے ان کا اصلی ہدف باب اجتہاد کو کھولنا اور اس کی مدد سے دینی بحران کو ختم کرنا اور مسلمانوں میں دینی شعور بیدار کرنا اور اسلامی سماج کو زیادہ اسلامی بنانے میں مدد کرنا تھا، سابق حوالہ، ص۷۔

(۱۲۰)عتیبی کے نظریات کے باب میں الحرکة الاسلامیة فی الجزیرة العربیة ص۱۱۹، ۱۳۰۔

(۱۲۱)بطور نمونہ یوسف قرضاوی کی دلسوز نصیحتو ں کی طرف رجوع کیاجائے جسے انھوں نے

جوانوں کے نام اپنی کتاب الصحوة الاسلایة بین الجمود والتطرف لکھی ہیاور انھیں پیغام دیا ہے کہ وہ دین کی غلط تفسیر اور اس میں زیادہ روی کو ترک کردیں اور اس کے اصول سے تجاوز نہ کریں۔

(۱۲۲)تاریخ خلفائ، ص۷۷

(۱۲۳)الاسلام و اصول الحکم، محمد عمارہ کے مقدمہ کے ہمراہ ص۹ جو المنار شمارہ ۲۳ اپریل سال ۱۹۵۲۔ ۲۹ رمضان ۱۳۴۳ق، ص۱۳۔

(۱۲۴)مجلہ دانشکدہ ادبیات وعلوم انسانی دانشگاہ مشہد، شمارہ، ۵۷، ۵۸، ص۴،۸۔

(۱۲۵) احمد شوقی جومصرکا ملک الشعراء تھا اسے عثمانیوں بلکہ ترکوں سے اسلام و اسلامیت کے پرچمدار ہونے کی وجہ سے ایک خاص ارادت تھی، اس کے دیوان''الشوقیات'' میں مختلف مناسبتوں کے تحت ترکوں اور عثمانیوں کی تعریف و تمجید ملے گی بلکہ احساسات اور جذبات سے لبریز اشعار کہے ہیں۔ مثلا اسی میں ترکوں کی تعریف کرتے ہوئے انھیں اشرف امت کا لقب دیاہے اور انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے: وہ نہ ہی (ترک جوانوں) کے افکار کی تلاش میں جائیں اور نہ ہی نفس کے مقابلہ میں ذلیل و خوار بلکہ ایک متحرک اور ثابت قدم انسان رہیں، ص۱۰۶، ۲۰۷، اسی طرح ایک مقام پر دریائی فوج کو دیکھتے ہوئے کہ جن کی کشتیوں پر اسلام کا پرچم لہرارہا تھا، وجد میں آجاتاہے اور اشعار کہتا ہے (۲۰۸، ۲۱۱) یونانیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے ترکوں کی بڑی تعریف کرتا ہے اور اس لشکر کے سردار مصطفی کمال کو ''خالد ترک ' ' کا لقب دیتا ہے (ص۴۴، ۲۵۸،) یہاں تک کہ جب شریف حسین نے خلافت کا دعوی کردیا تو اس نے سلطان عبدالمجید کے لئے ایک طولانی شعر لکھ کر روانہ کیا (سال ۴، ۱۱۹) چونکہ اسے مکہ و مدینہ کا اصلی مالک سمجھتاہے لہذا اس سے درخواست کرتاہے کہ وہاں سے شریف حسین کا خاتمہ کردے۔ (ص۱۹۴) جب اتاترک کے ذریعہ خلافت کو ساقط کردیا گیا تو اس نے اس وقت نہایت غمگین اشعار کہے جس کا مضمون اس طرح ہے ''شادی کے نغمہ نوحہ میں بدل گئے اور خوشی کے شادیانے موت کا پیغام لائے ہیں۔'' اور پھر انھیں اشعار کے ضمن میں مسلمانوں سے درخواست کرتاہے کہ اسے نصیحت کریں تاکہ وہ اپنی نیت سے منصرف ہوجائے۔ (ص۹۰۔ ۹۳) ان اشعار کو شریف حسین کی مدح میں اور ترک اور عثمانیوں کی مذمت میں کہے اشعار سے موازنہ کریں۔ ثورة العرب ضد الاتراک، ص۴۵۳ کے بعد

(۱۲۶)الاسلام و اصول الحکم، محمد عمارہ کے مقدمہ کے ہمراہ، ص۸۔

(۱۲۷)الاسلام و اصول الحکم، ص۹، جو اخبار الاہرام شمارہ ۱۲، مئی سال ۱۹۲۵، مجلہ المنار شمارہ ۲۳ اپریل ۱۹۲۵، ص۳۱ سے منقول ہے، خلافت کے ساقط ہونے کی وجہ سے جو ہنگامہ آرائی ہوئی اور پھر مذکورہ مجمع کی جانب سے حمایتوں کے نعرے بلند ہوئے، رجوع کریںسابق حوالہ کی طرف، ص۷ اور ۱۴۔

(۱۲۸)سابق حوالہ، ص۱۷ جو المنار ج۲، شمارہ ۲۱جنوری ۱۹۲۵، ص۱۰۰ سے منقول ہے۔

(۱۲۹)سابق حوالہ، ص۱۳ جو اخبار السیاسة شمارہ ۲۲ جنوری سال ۲۵ ۱۹ سے منقول ہے۔

(۱۳۰)رجوع کریں Charles D. Smiths, Islam and The Search of

Social Order in Modern Egypt. p. ۱

(۱۳۱)ان ایام میں خلافت کے منصب کے لئے بعض مسلمان حکام جیسے بادشاہ مصر ملک فؤاد کے دل میں وسوسہ ہوا۔ مقدمہ الاسلام و اصول الحکم، ص۸اور اس داستان کی تفصیل کو کتاب اسلام والخلافة فی العصر الحدیث ص۳۵،۱۴۵، کی طرف مراجعہ کر سکتے ہیں۔ اور قابل توجہ تو یہ ہے کہ رشید رضا اور اس کے ہمفکر افراد نے یمن کے امام کو جامع الشرائط ہونے کی وجہ سے خلافت کے لئے انتخاب کرلیا تھا۔ ''اندیشہ ہای سیاسی در اسلام معاصر، ص۱۳۷۔

(۱۳۲)لفظ خلافت کے مطلق ہونے سے حکومت اسلامی کی ریاست سمجھ میں آتی ہے بلکہ یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ خلافت حکومت اسلامی کے معنی میں ہے اور اس بات پر اجماع ہے کہ حکومت کے رئیس کو خلیفہ مانا جاسکتا ہے۔ معالم الخلافة فی الفکر السیاسی الاسلامی، ص۳۰۔

(۱۳۳)بطور نمونہ مراجعہ کریں الفکر الاسلامی الحدیث فی مواجھة الافکار الغربی ص۷، ۲۴۔

(۱۳۴)حسن البناء کے اس جواب کی طرف رجوع کریں کہ جو اُس نے کیا چاہتے ہو؟ کے جواب میں لکھا ہے من اصول الفکر السیاسی الاسلامی، ص۱۱۔

حکومت اسلامی کے مفہوم کے معین ہونے کی پہلی علامتیں اور اس کا آرزو میں تبدیل ہوجانا اس کے جواب میں مل سکتا ہے۔

(۱۳۵)اسلامی ممالک مخصوصا مصر اور ہند میں مغربی قوانین کے نفوذ کی تاریخ کے لئے

Islamic Surveys , A History of Islamic Law , PP. ۱۴۹-۱۶۲

(۱۳۶)۱۲۶. H.A. Gibb and HarebdBrown , Isramic sacitg amd the Weet , vmr ۱rst. pp , Islamic Society and the West, vol,۱

(۱۳۸)بطور نمونہ مرزا ملک خان کی طرف سے جتنے بھی ملاحظہ قانون اخبار میں شائع ہوئے ہیں ان کی طرف رجوع کیا جائے۔

(۱۳۹)عبد العزیز البدری، عثمانی حکومت میں نئے قوانین کے نفوذ کو اس طرح توضیح دیتے ہیں۔ ''...۱۸۵۷م میں نئے قوانین منجملہ قوانین جزا، تجارت، حقوق مدنی، آہستہ آہستہ نفوذ کرنا شروع ہوگئے۔ لیکن جب تک شیخ الاسلام نے اس کے لئے شیریعت سے مخالف نہ ہونے کا فتوا نہ دے دیا اس وقت تک جاری نہ ہوسکے۔ علماء اسلامی حکومت میں قوانین مدنی کے ورود کو جائز نہیں سمجھتے تھے جس کی وجہ سے ان لوگوں نے معاملات کے سلسلہ میں ایک مجلہ کا شائع کرنا شروع کیا جو ان قوانین بنانے والوں کی فہم کے مطابق احکار شرعیہ سے مستند تھے۔ الاسلام بین العلماء والحکام ص۱۷۔ نیز تحریر المجلة ج۱، کی طرف رجوع کریں۔

(۱۴۰) William Shepard, The Faith of a Modern, Intellectual( Muslim

(۱۴۱)سابق حوالہ، ص۴۔

(۱۴۲)اہل سنت کے درمیان تحریک اخوان المسلمین کے مؤسس حسن البنا ء ہیں جنھوںنے پہلی مرتبہ ایک سیاسی اور انقلابی تحریک کی بنیاد رکھی ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں کو اس طرح تعلیم دیتے ہیں اگر کوئی تم سے پوچھے کہ لوگوں کو کس بات کی طرف دعوت دے رہے ہو؟ تو جواب دینا کہ اس اسلام کی طرف کہ جو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوا تھا اور حکومت اس کا ایک جزء اور آزادی اس کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے۔ اگر وہ کہے کہ یہ تو سیاست ہے تو جواب دینا کہ یہ اسلام ہے اور ہم ایسی کوئی تقسیم نہیں جانتے۔ اگر وہ کہے کہ تم انقلاب کے منادی ہو تو جواب دینا کہ ہم حق و حقیقت اور صلح کے طالب ہیں، اس پر ہمارا ایمان ہے اور وہ ہمارا فخر ہے پس اگر ہمارے مقابلہ میں کھڑے ہوئے اور ہماری تبلیغ میں مانع ہوئے تو یہ یاد رہے کہ خدا نے ہمیں دفاع کی اجازت دی ہے اور پھر اس صورت میں تم لوگ ظالم ٹھہرو گے۔'' من اصول الفکر السیاسی الاسلامی، ص۱۱ جو بین الامس والیوم۔ حسن البناء کی کتاب سے منقول ہے۔

(۱۴۳)معالم فی الطریق، ۸، ۱۱۔

(۱۴۴)یہاں تک کہ ایک آزاد انساناور ایک ذمہ دار دانش ورکتاب معالم الخلافة الاسلامیة نامی کتاب کے مؤلف جس نے اس کے سلسلہ میں سلف کے نظریاتاور اس کے شرائط نیز، اس کی اطاعت اور عدم مخالفت کے تحت تنقید کرتے ہیں، وہ بھی زیادہ اس بات کے حامی نہیں ہیں کہ کوئی نظام حاکم کے سامنے قیام کرے۔ جبکہ جو اس نے خلافت کی تعریف کی ہے اس کے اسلاف اور ہمعصروں کے مقابل زیادہ منطقی اور معقول اور ترقی یافتہ ہے۔ ''شریعت کے قوانین کو پورے جہان میں جاری کرنا اور اسلام کی تبلیغ کے لئے تمام مسلمانوں پر ایک عمومی ریاست'' سابق حوالہ، ص۳۰۔ یا ایک دوسرے مقام پربھی اس طرح کہتاہے ''امت صاحب قدر ت ہیاور جب وہ خلیفہ سے بیعت کرتی ہے تاکہ وہ حکومت کی ریاست کو سنبھالے اور اسلام کی زندگی کو عملی جامہ پہنائے، تو ایسا فرد اس کی قدرت میں اس امت کا نائب ہوگا، اس لئے کہ یہ امت احکام کے جاری ہونے اور اس کے نافذ ہونے کی خواہاں ہے اور خلیفہ امت کی نیابت میں ایسا ہی کرتا ہے پس وہ شخص خلیفہ نہیں ہوسکتا جس کی بیعت لوگوں نے اپنی رضایت اور اپنے اختیار سے نہ کی ہو اور بیعت امت کی جانب سے خلیفہ کے نائب ہونے کی علامت ہے۔'' سابق حوالہ ص۳۸۔وہی مؤلف ایک دوسرے مقام پر حاکم کے خلاف خروج سے متلعق کہتا ہے: اگر قیام مسلمانوں میں خونریزی کا باعث ہو تو یہ قیام جائز نہیں ہے اس لئے کہ ملک میں فتنہ ایجاد کرنا شرعی طورپر حرام ہے۔ اور جو حرام کا موجب بنے تو اس قاعدہ کی رو سے (وسیلہ حرام حرام ہوتا ہے) حرام ہے۔ اس صورت میں اس کی اطاعت واجب ہے اور اس کے ساتھ فتنہ کو دبانے کے لئے جہاد واجب ہے۔ اور ایسی صورت میں وہ امیر ہوگا خلیفہ نہیں ہوگا مگر یہ کہ مسلمان اپنے ارادہ و اختیار سے اس کی بیعت کریں۔ سابق حوالہ، ص۱۲۶۔

(۱۴۵)ہمارے زمانے کے ایک ممتاز اہل سنت عالم دین شیخ اسعد بیوض التمیمی کہتے ہیں: حکومت اسلامی سے مراد شریعت کی تطبیق اور اسے جاری کرنا ہے۔ اس کلام کو بارہا اسی عالم سے نقل کیا گیا ہے نیز رجوع کریں کتاب تحول وثبات ص۱۲۰، ۱۲۱۔

(۱۴۶)مزید توضیح کے لئے کتاب، پیغمبر و فرعون'' ص۷۵، ۱۹۲ ملاحظہ ہو۔

(۱۴۷)اس طرح کی بہت ساری تنقیدوں کا ضمنی جواب جو کہ جدید امیدوں کا نتیجہ ہیں کہ جس نے معاشرتی، اقتصادی ،فکری وسیاسی حالات نے ان کو جنم دیا ہے، اہل سنت کے وارستہ عالموں میں سے ایک عالم دین، محمد ضیاء الدین الریس نے، اس وقت ان تنقیدوں کے جوابات دئے تھے جب یہ (اعتراضات) اس درجہ شدید نہ تھے،بڑے ہی متواضعانہ انداز میں دیا ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ ان جوابات کے مخاطب غیر مسلمان یا بد عقیدہ مسلمان ہیں۔ لیکن بہر حال اس کا جواب ان تمام لوگوں کیلئے ہے جنھوں نے پوری تاریخ میں علماء اہلسنت پر ان کے سیاسی موقف کی وجہ سے تنقیدوں کی بارش کی ہے۔ وہ خواہ مسلمان اور وفادار ہوں یا غیر مسلمان اورغیرذمہ دار ہوں۔ ''بعض مؤرخین بالخصوص مستشرقین علماء اہل سنت پر الزام لگاتے ہیں اور ان کے متعلق ایسی باتوں کی نسبت دیتے ہیں کہ نہ ہی ان کی کوئی واقعیت ہے اور نہ ہی انھیں پسند ہے۔ اس کو پیش کرتے ہیں معترضین یہ کہتے ہیں کہ وہ حکام کی جانب مائل تھے، ان کی سیاست اور راہ و روش کے موافق اور ان کے درباری امور میں ان کے مدد گار تھے۔ مثلا امویوں کے زمانہ میں حسن بصری، شعبی سعید ابن جبیر اور سعید ابن مسیب اور عباسیوں کے دور میں ابوحینفہ، مالک اور احمد ابن حنبل تھے جنھوں نے اپنے دور کے حکام اور امراء کے خلاف آواز بلند کی یہاں تک کہ وہ اصول و قواعد جن کی بنیاد پر وہ حکام صاحب قدرت بن گئے تھے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا'' النظریات السیاسیة الاسلامیة، ص۷۱ ،پر اور ایک دوسرے مقام پر سیاسی مسائل میں عدم توجہ کے اسباب بیان کرتے ہوئے ذکر کرتے ہیں ''اہل سنت والجماعت کا یہ اعتقاد تھا کہ حاکم کے خلاف ایسا قیام جس کی کامیابی کا امکان نہ ہو تو ایسا قیام فتنہ کا باعث، قتل وغارتگریاور ہرج و مرج کا موجب ہے، لہٰذا سیاست سے کنارہ کشی کو پسند کرتے تھے اور علمی مشغولیت کو ترجیح دیتے تھے جس کافائدہ زیادہ اور پایدار تھا'' سابق حوالہ ص۷۱۔ اسی مطلب کی مزید وضاحت میں کہتے ہیں ''اہلسنت نے امامت اور اس سے متعلق تمام مسائل کو خوارج، شیعہ، معتزلہ اور مرجئہ کے لئے چھوڑ دیا کہ جو اس میں غور و فکر کیا کرتے تھے۔ انھوںنے اپنا وقت اس مسئلہ کے متعلق نظریات اور عقائد کو درست کرنے سے محفوظ رکھا اور اس وقت ان مسائل کو حل کیا جب وہ اس مسئلہ سے فارغ ہوگئے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سیاست میں وہ بالکل ہی بیگانہ تھے یا اموی و عباسی سیاست سے راضی تھے'' سابق حوالہ ص۷۰ وضاحت کے لئے رجوع کریں ص۶۹، ۷۵۔

(۱۴۸)اس نکتہ بلکہ ا س لا ینحل مشکل کو ''گب'' بخوبی بیان کرتا ہے: '' اس طرح سے یہ نکتہ کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ حالاںکہ خلیفہ کو بھی قانون کی رو سے معزول کیا جاسکتا ہے لیکن جس قانون کے تحت خلیفہ کو برطرف کیا جائے اس کا کوئی وسیلہ موجود نہیںہے۔ مشکل تنہا ماوردی کی نہیں تھی بلکہ اس کے دور تک تمام اہلسنت کے درمیان فکراور تدبر کی مشکل تھی۔ اور یہ نکتہ اس مطلب کی تائید کرتا ہے کہ سنیوں کی سیاسی فکر اور اعتقادی نظریہ پردازی درحقیقت تاریخ امت اسلامی کو عقلانی بنانے کیلے ہے اور اس کے بغیر کوئی نظریہ پردازی اور اندیشہ کا وجود ہی نہیں ہے۔ مزید وضاحت کے لئے رجوع کریں نظریة الامامة عند الشیعة الامامیة ص۱۶۳۔

(۱۴۹)الفکر السیاسی الشیعی، ص۱۱۶، ۲۶۶۔

(۱۵۰)رجوع کریں سد باب الاجتہاد وما ترتب علیھا ص۵، ۸، یہ اس کتاب کا مؤلف خود علما کی جماعت سے تعلق رکھتا ہے، اس نے اس کتاب میں حقیقت کو بیان کیا ہے کہ علماء اہل سنت میں فکری و اجتہادی تحرک کے نہ ہونے کی وجہ سے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ نیز باب اجتہاد کے دوبارہ کھلنے کے سلسلہ میںامین کے نظریات۔ ملاحظہ ہوں.

William Shepard The Faith of a Modern

Muslim Intellectual

(۱۵۱)دینی تعلیمی نظام کو جدید قوانین کے قالب میں دھالنے اور اس کے نتائج کے سلسلہ میں الفکر الاسلامی الحدیث وصلتہ بالاستعمار الغربی نامی کتاب کے ص۱۷۶۔ ۱۸۱، میں عبدہ کے نظریات ملاحظہ ہوں اس قابل توجہ توصیف جس کے مطالعہ سے علماء ازہر کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے، اگر ان علما کے ہاتھوں میں کوئی کتاب آجائے اور اس میں ایسے مطالب ہوں جس کا وہ لوگ مطلب نہیں جانتے اور مصنف کی مراد کو سمجھ نہیں پاتے اور اگر اس کے کچھ مطلب کوسمجھ بھی جائیں تو اسے رد کر دیتے اور قبول نہیں کرتے ہیں اور اگر اسے قبول بھی کرلیں تو اسے اپنے علم اور خواست کے مطابق اس کی تفسیر کرتے ہیں۔بلکہ اس میں تحریف کردیتے ہیں۔ اور خالد محمد خالد کے نظریات کا کتاب الشیعہ فی المیزان ص۳۷۵۔ ۳۷۸ میں مطالعہ کریں۔ نیز کتاب وعاظ السلاطین، ص۲۹۱، ۳۰۲ اور بالخصوص اس کے نتیجہ کو معلوم کرنے کے لئے ''پیامبر و فرعون'' نامی کتاب کا ص۱۰۲، ۱۱۵۔ ملاحظہ ہو

نیز Order in Charles D. Smith Islam and The Search of Social Modern Egypt , PP ۱۰۹-۱۱۳

Fazlur Rahman Islam and Modernity, PP, ۶۳-۷۰

(۱۵۲)کتاب ''پیغمبر و فرعون'' ص۲۷۳، ۲۹۵، میں اس موضوع کے تحت بہترین نمونہ کیلئے النذیر مجلہ کے شماروں کی طرف بالخصوص، ۱۹۸۱، ۱۹۸۵، میں شائع ہوئے مجلوں کی طرف رجوع کریں۔