اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات0%

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

مؤلف: محمد مسجد جامعی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26777
ڈاؤنلوڈ: 2865

تبصرے:

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26777 / ڈاؤنلوڈ: 2865
سائز سائز سائز
اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

مؤلف:
اردو

تیسری فصل

حکومت اور حاکم

گذشتہ فصل میں مختصر طور سے بیان ہو چکا ہے کہ صدر اسلام کی تاریخ کس طرح وجود میں آئی اور بعد میں کن زاویہ نگاہ سے غور و خوض کیا گیا، اس نظریے نے اہل سنت کے فقہ و کلام اور ان کے سیاسی عمارت اور نظریات پر کیا اثر چھوڑا۔ لیکن ہم جدید بحث و گفتگو کے آغاز سے پہلے، ایک مختصر مقدمہ بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اگرچہ بنیادی طور سے کافی حدتک اشتراک پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ان دونوں کے فقہی اور کلامی مسائل بھی الگ الگ ہیں اور دو مذاہب کے پیروکاروں کے مذہبی رجحانات اور معاشرتی مسائل بھی جدا جدا ہیں۔ اس بات کو واضح کرنے کے لئے کہ ان دونوں مذاہب کے دینی نظریات کس طرح وجود میں آئے اور کن عوامل و اسباب اور مراکز سے متاثر ہوئے ہیںاور اس بات کا جاننا بھی ضروری ہے کہ دونوں نظاموں کی حقیقت کیا ہے؟ اور تاریخی لحاظ سے یہ کیسے وجود میں آئے ہیں؟ اس مقام پر جو بات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے (جاننا پڑے گا) کہ ان دونوں مکاتب فکر کی سیاسی بنیادیں کن اصولوں پر استوار ہیںاور کن اسباب وعوامل سے متأثر ہیں؟۔ کیونکہ ان دونوں مکتبوں کی سیاسی، معاشرتی تحریک یہاں تک کہ فکری اور ثقافتی تحریکیں خواہ مخواہ انھیں خصوصیات کے زیر اثر ہیں، جب تک ان خصوصیات کو نہیں پہچانا جائے گا، اس کے نتائج اور اثرات کی چھان بین نہیں کی جا سکتی اور اس وقت تک ان دونوں فرقوں کی دینی تحریکوں کو صحیح طریقہ سے نہیں پہچانا جاسکتا۔ چاہے گذشتہ زمانہ کی تحریکیں ہوں، یا دور حاضر کی تحریکیں۔

ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ وہ اہم ترین اصول جس نے ان دونوں فرقوں کے سیاسی نظریات کو جنم دیا، ان کی فہم اور تفسیر و توضیح کا سرچشمہ صدر اسلام کی تاریخ ہے۔ اس تاریخ کے متعلق اہل سنت کی فہم اس کی حقیقت سے بالکل جدا ہے۔

دوسری اصل: حاکم کے سلسلہ میں اہل سنت کیاعقائد کی کیفیت اس لحاظ سے کہ وہ حاکم ہے۔ یعنی ان مسائل سے قطع نظر جو صدر اسلام میں پیش آئے اور اہل سنت نے اس سے جو سمجھا ہے، لہٰذا ہمیں دیکھنا چاہئے کہ حاکم کے متعلق اہل سنت کا نظریہ کیا ہے؟ اور اس نظریہ نے ان کے سیاسی نظریات پر کیا اثر چھوڑا ہے یا کیا اثر ڈال سکتا ہے۔ آخرکار تیسری اصل یہ ہے: جو چیز اہل سنت کے علما، فقہا اور متکلمین کی نظر میں حاکمیت اور اس کی مشروعیت کے متعلق اہمیت کی حامل ہے وہ امنیت ہے نہ کہ عدالت۔ (یعنی حاکم کے لئے عادل ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف امن قائم کرنا ضروری ہے) وہ لوگ (اہل سنت) امنیت اور ایسی قدرت کے متعلق جو امنیت کی ضمانت لے سکے حساس تھے نہ کہ عدالت یا مثلاً شرعی قوانین اور قواعد و ضوابط اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اس طرح سے اجرا کرنا جیسے خود حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں تھی۔ شیعوں کا موقف اور زاویہ نظر آخری ان دو مسائل میں اہل سنت کے نظریے سے بالکل مختلف ہے۔ اس اختلاف کے نتیجہ اور عکس العمل کو ان دونوں فرقوں کے پیروکاروں کی دینی اور معاشرتی تحریکوں کی تاریخ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ لوگوں (عوام الناس) کی عدالت دوستی اور عدالت خواہی ہی تھی جو سیاسی اور معاشرتی تحریکوں کا سرچشمہ ہے، اتفاق سے شیعہ حضرات اپنی ابتدائی تاریخ سے ہی مفہوم عدالت اور دینی قوانین وضوابط کے اجرا کے بارے میں پابند اور حساس اور اس پر زور دیتے چلے آئے ہیں۔ اور قیام عدالت اور دینی قوانین کی پابندی اور ان دونوں مسائل سے دفاع اور اس کے وجود عطا کرنے کو اپنا فریضہ سمجھتے آئیں ہیں۔ جب کہ اہل سنت کی نظر میں عدالت کا مسئلہ اہمیت کے دوسرے اور یا پھر تیسرے درجہ کی اہمیت کا حامل ہے۔ جو چیز ان کی نظروں میں اہمیت کی حامل رہی ہے اور اب بھی ہے وہ اقتدار اور نظام ہے البتہ اس کے ذریعہ امنیت بھی برقرار کی جاتی رہی ہے۔ اس مقام پر ہم الگ الگ تمام مسائل پر گفتگو کریں گے۔

خلافت کی اہمیت

گذشتہ فصل میں بیان کرچکے ہیں کہ اہل سنت کے اس نظریہ کی پیدائش میں سب سے پہلا اور بنیادی سبب صدر اسلام کی تاریخ میں معاویہ کے اقدامات تھے۔

حضرت علی ابن ابی طالب کی شخصیت اور آپ کی قدر و منزلت سے(۱) اس کی رقابت اور دشمنی اور آپ کے چاہنے والوں کو گوشہ نشین کرنے کی کوششوں کو بروئے کار لانا کہ سب کے سب معاویہ کے نظریاتی مخالف تھے، اس (معاویہ) کو اس بات نے اس پر ابھارا کہ وہ اپنے تمام والیوں اور کارندوں کو حکم دے کہ وہ آپ کو کھلم کھلا برا بھلا کہیں، (گالیاں تک دیں) سرعام آپ پر تبرّا کریں اور جیسی حدیثیں حضرت امیرـ کی فضیلت کے متعلق موجود تھیں، وہی کو دوسروں کے لئے بھی گڑھی جائیں اور انہیں کو رواج دیا جائے اور ان لوگوں نے یہ کام انجام بھی دیا۔

بے شمار دلیلوں اور وجوہات کے سبب حضرت امیرـ پر وہ سب و شتم اور لعن و طعن کا سلسلہ دیرپا نہ رہ سکا اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ جس کی اہم ترین دلیلوں میں سے وہ فضائل تھے جسے دوسروں کے لئے گڑھا گیا تھا۔ کس طرح ممکن تھا کہ دوسرے افراد ایسے فضائل وکمالات کے حامل ہوتے اور حضرت علیـ جو کم از کم انھیں کے جیسے ایک افراد اور انھیں کی طرح ایک خلیفہ ہوتے ہوئے بھی ان کے یہاں یہ سب فضائل اور کمالات مفقود تھے جس کی وجہ سے ان کی مخالفت کی جائے اور مورد لعن وطعن قرار پائیں اور ان کو گالیاں دی جائیں۔(۲) اگر فرض کرلیا جائے کہ لوگوں میں ایسے عقائد کو قبول کروانے پر قادر تھے، تو ایسی صورت میں عام لوگوں کا عقیدہ خوارج کے مانند ہوجاتا اور اس کے نتیجہ میں خوارج ان سے نزدیک ہوجاتیاور یہ چیز بھی خود نظام حاکم کے نزدیک نفرت اور خوف و ہراس کا باعث ہوتی، چاہے موجودہ نظام بنی امیہ کا ہوتا یا بنی عباس کا ہوتا، کیوں کہ خوارج ان (بنی عباس اور بنی امیہ) کے سرسخت دشمنوں میں سے تھے۔ لیکن دوسرے اقدام نے اپنا گہرا اثر چھوڑا اور صدر اسلام کی تاریخ اور مسلمانوں کی شان اور اہمیت کو اعلیٰ درجہ تک پہنچاکر اس کو اسلام کے برابر کردیا۔ البتہ معاویہ کے نقشوں کے علاوہ، اس سلسلہ میں دوسرے اسباب وعوامل بھی دخالت رکھتے تھے جو ایسے عقیدے کے استحکام واستقرار میں مددگار ثابت ہوتے جن کی طرف میں درج ذیل عبارت میں اشارہ کررہا ہوں۔

خلفائے راشدین (ابوبکر، عمر، عثمان وحضرت علیـ) کے بعد والے خلفا چاہے اموی ہوں یا عباسی اور چاہے ان کے علاوہ ،وہ تمام افراد جو تاریخ اسلام میں خلیفہ کے عنوان سے سامنے آئے اور ان کی خلافتوں کو لوگوں کے درمیان قبول کیا گیا ہو، مصر کے خلفائے مملوک کی طرح، عثمانی حکومت کے دورہ کے سلاطین، اپنی منزلت اور مقام کو منوانے کے لئے محتاج تھے کہ وہ اپنے لئے دینی شان وحیثیت کے قائل ہوں اور اسے لوگوں سے منوائیں۔ اور اس بات کے لئے بہترین وسیلہ یہ تھا کہ وہ اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ وہ اس منصب کے لئے ایسی حیثیت اور مقام ومنزلت پیدا کرنا چاہتے تھے۔ جس گدی پر وہ خلیفہ بن کر براجمان تھے۔ تاکہ اس کے ذریعہ اپنے لئے جواز اور قانونیت ثابت کرلیں اور اس کا لازمہ یہ تھا کہ اپنی قدرت بھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلفا کی قدر و منزلت کو اونچا کیا جائے اور خلافت کو ایک الٰہی اور دینی امر بناکر پیش کیا جائے اور خلفا کے ماننے والوں (طرفداروں)اور خلافت کو مقدس ثابت کریں۔ کلی طورپر اس زمانے کی تاریخ اور اس کے لوگوں کو ایک خاص دینی اہمیت اور تقدس سے نوازیں۔ کیونکہ اس کے ذریعہ اپنے منصب خلافت کو ایک خاص حیثیت بلکہ ضرورت دین بناکر سامنے لائیں اور یہ عظمت خود ان کی شان ومنزلت کو بھی شامل ہو جائے گی، اس لئے کہ اس کے سہارے خلیفہ یا حاکم بنے تھے۔(۳)

در حقیقت اموی خلفا اس بات پر زیادہ مائل تھے کہ وہ خلیفہ کے عنوان سے پہچانے جائیں۔ کیونکہ نہ تو ان کو اس کی کوئی خاص ضرورت تھی اور نہ ہی ان کی ابتدائی اور جاہلیت کے زمانے کی فطرت اور لاپرواہی اور لاابالی گری سے سازگار تھی۔ لیکن خلفا بنی عباس، خلافت اور حکومت کا سہارا لئے بغیر باقی نہیں رہ سکتے تھے۔ مسلسل پانچ صدیوں تک ان حکومت کا باقی رہنا اگرچہ بہت سے حصوں میں ان کی حکومت وخلافت صرف ظاہری تھی، لیکن بہرحال اسی دینی خلافت کے عنوان ہی کی مرہون منت تھی جو چل رہی تھی۔ بنی عباس نے ان مسائل اور بدعتوں جس کی معاویہ نے مختلف دلائل کے تحت بنیاد ڈالی اور وہ اس کا بانی تھا انہیں کو بے حد اچھالا۔ باوجود اس کے کہ بنی عباس کے دور میں معاویہ کی بہت سی کلی سیاستوں اور بنی امیہ کا یکسر انکار کیا گیا، لیکن دراصل یہ ایک استثنائی موارد میں سے تھا جس کی تائید و تصدیق کردی گئی۔ کیونکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آنے والے خلفا کا ا لٰہی اور مقدس ہونا خلافت کے نظام اور خلیفہ کے تقدس کو ثابت کرنے اور اس کے ذمہ دار کیلئے مددگار تھا۔(۴)

دوسر اسبب جو ایسے موقف کی تقویت اور مدد کررہا تھا، وہ شیعوں اور خوارج سے مقابلہ کی وجہ سے تھا۔ پہلی دو صدیوں بلکہ تین صدیوں تک چاہے اموی خلفا ہوں یا عباسی زیادہ اہمیت کے حامل مخالفین شیعہ تھے۔ اور یہ دونوں گروہ صدر اسلام کی تاریخ کے متعلق تنقیدی نظریہ رکھتے تھے۔ شیعوں کا نظریہ تو معلوم ہی ہے کہ دوسرے دوروں کی طرح صدر اسلام کو بھی جانتے تھے اور ان کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں تھے، لیکن خوارج خلفا راشدین کے پہلے حصہ سے لے کر عثمان کے درمیانی زمانہ تک کی تائید کرتے تھیاور دوسرے حصہ کو اپنے نظریہ کے لحاظ سے شرک اور دین سے خروج کی تاریخ سمجھتے تھے۔ مزید یہ کہ خوارج کا پہلے حصہ سے ان کی اپنی سمجھ سے بالکل دوسرے لوگوں کے فہم کی طرح نہیں تھی اور ان لوگوں کی بہ نسبت کچھ مختلف تھے۔ وہ لوگ (خوارج) خشک ذہنیت کے مالک افراد تھے جو کبھی کسی فرد، شخص یا زمانہ کو تقدس کی نگاہ سے دیکھنے پر تیار نہیں تھے۔ بلکہ وہ صرف اس زمانہ کو جوان کی رائے کے موافق تھا، یعنی اس دور پر کفر کا فتویٰ نہیں دیتے تھے ،اسے قبول کرتے تھے۔(۵)

بہرحال عام مسلمانوں کی نگاہ میں ان دونوں گروہوں سے مقابلہ کرنے کی وجہوں میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں گروہ اس بات کا اقرار کریں کہ صدر اسلام کی تاریخ کی حقانیت ان کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے، اس ہدف تک پہنچنے کے لئے سب سے بہترین طریقہ یہ تھا کہ جتنا ممکن ہو اس دور کی تعریف اور تحسین کریں۔ اس دور کی الٰہی اور دینی قدر وقیمت عام لوگوں کے نزدیک جتنی زیادہ ہوتی جائے گی، مخالفین اتنا ہی خلع سلاح (نہتھے) ہوتے چلے جائیں گے۔ اس دور کے خلفا کا ایک اہم ترین اور دھوکہ دھڑی والے حربوں میں سے ایک یہ تھا کہ وہ لوگ اپنے مخالفین سے کہا کرتے تھے کہ تم ہمیں ناحق سمجھتے ہو اور ہم سے مقابلہ کرنے کے لئے کمربستہ ہو خود تم ہی لوگ مشروعیت نہیں رکھتے ہو۔ یعنی خود تمہاری بھی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ کیونکہ صدر اسلام اور اس دور کی شخصیتیں تمہارے لئے مورد احترام اور اعتقاد نہیں ہیں(۶) خاص طورپر اتفاقاً یہ تہمت شیعوں کے اوپر زیادہ سخت مؤثر تھی اور ایک زمانہ تک بہترین حربہ کے عنوان سے شیعوں کے خلاف استعمال کی جاتی تھی۔ گذشتہ تاریخ میں ایسی بیشمار مثالیں مل سکتی ہیں جواس حربہ کے ذریعہ مخالفین کی تحریک کو نطفہ میں (شروع میں) ہی اس کا گلا گھونٹ کر ان کو نیست و نابود کردیا اور ان کا شیرازہ بکھر گیا۔ اگرچہ ابھی تک یہ حربہ کند نہیں ہوا اور خاص طور سے آج بھی سعودی اور ان کے ہم خیالوں کے ذریعہ یہ حربہ وسیع پیمانہ پر استعمال کیا جارہا ہے۔ وہ لوگ (سعودی) اپنی شیطانی چال کے ذریعہ صدر اسلام کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جس کے مقابلہ میں ہر طرح کے تنقیدی موقف کو باطل اور محکوم کر دے تے ہیں اور اپنی پوری طاقت وقدرت کے ذریعہ آگ کو شعلہ ور بنانے میں ہوا کا کام کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ شیعہ کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائیں اور ان کو لوگوں کی نظر میں بُرا بناکر گوشہ نشین کردیں اور اسی طرح ہر اصلاح طلب تحریک کو بھی اسی عنوان کے تحت کچل دیں۔ اس لئے کہ عموماً اصلاح طلب اور انقلابی تحریکیں اہل سنت کی نگاہ میں صدر اسلام کی تاریخ کے مقابلہ میں تنقیدی موقف کے حامل ہیں بلکہ اصولی طورپر خود تاریخ اسلام کے ہی خلاف تنقیدی موقف کے حامل ہیں اور جب اصل نظریہ اور طرز فکر ہی مورد سوال واقع ہوجائے گا تو لامحالہ اس (نظریہ) کے قائلین بھی مورد تردید قرار پائیں گے اور ان کے مخالفین کا اصلی ہدف اور مقصد بھی یہی ہے۔(۷)

درحقیقت یہ دو اہم اور سیاسی اسباب تھے جو صدر اسلام کے الٰہی اور دینی پہلو کی زیادہ سے زیادہ تقویت کرنے میں مددگار تھے۔ معاویہ کے بعد کے، خلفا، بھی مختلف انداز میں مختلف عنوان کے تحت ان اسباب کے محتاج تھے اور اس بات پر تاکید کرتے تھے۔ یہ ضرورت بھی اس وقت تک باقی تھی، جب تک ان کی خلافت برقرار تھی۔ یعنی عملی طور پر موجودہ صدی کی ابتدا تک اس کے بعد بھی آنے والی حکومتوں کے حاکم جو خود اپنے آپ کو اپنے زعم ناقص میں سلف صالح کا پیرو سمجھتے تھے وہ لوگ بھی اس کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔

صدر اسلام کا تقدس پانا

البتہ اس دوران دوسرے اقدامات بھی انجام پائے جس کے نتیجہ میں ان حوادث میں مزید شدت پیدا ہوگئی اور اس میں بھی معاویہ ہی اساسی کردار کا حامل تھا۔ معاویہ نے اپنے حق اور اپنی حکومت کی حقانیت اور مشروعیت کا دفاع کرنے کے لئے دوسری گندی اور دھوکہ دھڑی کی سیاست کا سہارا لیا، جس میں اس کو بہت زیادہ کامیابی حاصل ہوئی اور اس نے مسلمانوں کے نزدیک صدر اسلام کی تاریخ کے چہرے پر تقدس کے نقاب اوڑھانے میں بھرپور مددگار تھی۔ وہ چاہتا تھا خود اپنے اور اپنی حقانیت اور پہلے والے خلفا اور ان کی حقانیت، خاص طور سے ابوبکر اور اپنے درمیان تعلق برقرار کرے۔ لیکن جب تک حضرت علیـ زندہ رہے، نہ تو یہ حربہ کامیاب ہوسکا اور نہ ہی حضرت امیرالمومنین علیـ نے اس سے سوء استفادہ کی ہی اجازت دی، آپ کی بے نظیر شخصیت، آپ کی موقعیت (قدر و منزلت) اور آپ کا منحصر بہ فرد ماضی اور آپ کا مسلمانوں کی اکثریت آرا ان کے اتفاق سے خلافت اور امامت کی مسند پر رونق افروز ہونا، ایسے وسیلہ سے سوء استفادہ کرنے میں ایک بہت بڑا مانع اور رکاوٹ تھی۔ لیکن جب امام علیـ کی شہادت ہوگئی اور امام حسنـ نے حکومت کو سنبھالا تو ان حربوں سے غلط استفادہ ممکن اور آسان ہوگیا۔ بہتر یہ ہوگا کہ اس حربہ سے سوء استفادہ کی کیفیت کو خود معاویہ ہی کی زبانی سنیں۔

معاویہ نے حضرت امام حسن علیہ السلام کے اس خط کے جواب میں جس میں صلح اور جنگ سے خلاحی کے مسئلہ کو بیان کیا گیا تھا، اس نے اس طرح لکھا ''...حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اس امت نے جس وقت آپ کی فضیلت اور حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آپ کی قرابت اور درخشاں ماضی اور اسلام و مسلمانوں کے درمیان آپ کی قدر و منزلت کو جانتے ہوئے اس سلسلہ میں اختلاف کیا تو کیا اس وقت وہ لوگ ان سب باتوں سے بے خبر تھے؟ ان لوگوں نے مصلحت اس میں جانی کہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قرابت داری کی بناپر، قریش خاندان کے افراد حکومت و خلافت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ قریش وانصار کے بزرگوں اور ان کے علاوہ بھی دوسرے لوگوں نے بھی کہا کہ خلافت کی ذمہ داری کو قریش کی ایسی شخصیت کے سپرد کریں جو اسلام قبول کرنے کے اعتبار سے قدیم تر ہو خداکی بہ نسبت اس کا علم اور اس سے اس کی دوستی زیادہ اور گہری ہو اور اس کے امر میں سب سے قوی اور مقتدر ہو، لوگوں نے ابوبکر کو چن لیا اور یہ کام (انتخاب) صاحبان عقل ودین وفضیلت اور اس امت کے آگاہ ترین لوگوں کی رائے سے انجام پایا... اور اگر تمہارے درمیان مسلمان لوگ کسی کو ان صفات کا حامل پاتے تو شروع سے ہی اپنی رائے سے نہ پلٹتے۔ لہٰذا انہوں نے اپنی نظر میں اسلام اور مسلمانوں کے حق میں جو بہتر سمجھا، اسی پر عمل کیا... اور ہماری تمہاری کہانی بھی حضورکی رحلت کے بعد تمہاری اور ابوبکر کی داستان کی طرح ہے۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اگر میں اس بات کو جانتا کہ تم مجھ سے زیادہ اس امت کے امور کو سنبھالنے کی قدرت رکھتے ہو تو میں ہر اس چیز کو جس کی طرف مجھے دعوت دے رہے ہو قبول کرلیتا۔ لیکن تم خود بھی اس بات کو جانتے ہو کہ میری حکومت کی مدت اور میرا تجربہ تم سے زیادہ ہے۔ میں تم سے زیادہ سیّاس اور تم سے زیادہ سن رسیدہ ہوں لہٰذا تمہارے لئے بہتر یہ ہوگا کہ جس بات کی تم مجھے دعوت دے رہے ہو اس میں تم میری بات مانو اور میری اطاعت اور میرے حکم کی پیروی کرو...''(۸)

معاویہ اس بیان کے ضمن میں اس بات کی کوشش کررہا تھا کہ انہیں گذشتہ دلائل کا سہارا لے کر اپنے آپ کو قانون مند اور اس سے اپنی مشروعیت ثابت کرے جن دلائل کے سہارے ابوبکر نے اپنے آپ کو مشروع اور قانونی ثابت کیا تھا اور اس طرح تظاہر کرتا تھا کہ اس کی داستان بھی ابوبکر کی ہی داستان ہے اور یہ کہے کہ جن معیار کے تحت ابوبکر نے مقبولیت اور مشروعیت حاصل کی ہے اس نے بھی بالکل اسی کی طرح مشروعیت اور قانونیت حاصل کی ہے۔ اور حتی کہ امام حسنـ کو بھی اس کے مقابلہ میں سر تسلیم خم کردینا چاہئے۔

محمود صبحی اس سلسلہ میں یوں بیان تحریر فرماتے ہیں: ''معاویہ کا یہ خط عام طور سے مسئلہ خلافت، خاص طور سے بیعت ابوبکر کے سلسلے میں اہل سنت و جماعت کے عقیدم اور نظریہ کی سب سے پہلی کلامی تفسیر ہے۔ معاویہ نے اقتدار پاتے ہی، کلامی اور عقیدتی کامیابی حاصل کرلی۔ اور اس طریقہ سے تمام سنی مسلمانوں کے عقائد کا بیان کرنے والا بن جائے... اس نے اس فرصت سے فائدہ اٹھایا، تاکہ خلفا اور بزرگان اصحاب کے دفاع کی ذمہ داری کا خود بہ نفس نفیس عہدہ دار ہوجائے اور اس طریقہ سے مسئلہ خلافت میں اپنے دعوی کو شرعی رنگ دے دیا اور بڑی ہی چالاکی کے ساتھ ابوبکر کی بیعت سے دفاع کے قالب میں اپنے دعویٰ کو پیش کردیا۔ اس تفسیر اور تحلیل کی رو سے اس نے خلافت کو غصب نہیں کیا اور خود زبردستی امت کے اوپر نہیں لادا تھا۔ بلکہ اس کی موقعیت اور حیثیت ابوبکر کی موقعیت اور حیثیت کی طرح تھی۔ وہ امور مملکت کو چلانے میں دوسروں سے قوی تر اور دیگر میدانوں میں دوسروں سے زیادہ سیاسی سوجھ بوجھ کا مالک اور دوسروں سے زیادہ تجربہ کار اور عمر میں بھی سب سے زیادہ سن رسیدہ تھا۔ اس طرح حضرت امام علی علیہ السلام کے دور میں عثمان کے خون کا انتقام لینے پر مبنی معاویہ کا دعویٰ زیادہ خطرناک، موثر، مقبول تر نظریہ میں تبدیل ہوگیا جو اس کے خلافت تک پہنچنے کی ہوس کے لئے اپنے منشأ کے مطابق جواب دہ تھا اور خلافت کو معاویہ کے حق میں ثابت کرتا تھا۔''(۹)

نتیجہ یہ کہ ان عوامل اور اسباب کے علاوہ جن کو پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ جن اسباب نے معاویہ کو اس بات پر ابھارا کہ وہ اپنے مخالفوں اور ان میں سر فہرست شیعوں کے حوصلوں کو پست کرنے اور لوگوں کے ذہنوں میں حضرت علی علیہ السلام کی قدر ومنزلت گھٹانے اور گرانے کے لئے صدر اسلام کی تاریخ اور اس کی شخصیتوں کو دینی قدر و منزلت سے نوازے، دوسرے اسباب بھی پائے جاتے تھے جو معاویہ کو اس کام کے لئے رغبت دلاتے تھے۔ اسے امام اور آپ کے شیعوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے، چاہے آپ کی زندگی میں یا اس کے بعد اس تاریخی دور کا سہارا لئے بغیر اپنی مراد کو نہیں پاسکتا تھا۔ اسے کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ اس کا محتاج تھا اور مختلف عنوانوں کے تحت اس سے فائدہ اٹھاتا تھا۔ ان اسباب سے اس طرح فائدہ اٹھانا جس کو بعد میں اہل سنت کے فقہی اور کلامی عمارت، خصوصاً امامت اور خلافت کے مسئلہ میں، ایک بلند مقام حاصل کرلیا تھا۔ بے شک اگرامام علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور شخص معاویہ کا اصلی رقیب ہوتا، یا امام علیہ لسلام کے سامنے معاویہ کے علاوہ کوئی اور شخص اپنی ان خصوصیتوں کے ساتھ ہوتا، تو نہ صرف یہ کہ زمانہ کی تاریخ کسی اور شکل میں سامنے آتی، تقریباً یقینی طور سے جس میں اس زمانے کمے اہل سنت کی فقہی اور کلامی عمارت اور اس کی آج کی عمارت میں بہت بڑا فرق پیدا ہوجاتا۔

البتہ مذکورہ اسباب کے علاوہ جو اکثر سیاسی تھے دوسرے دو دینی اسباب بھی پائے جاتے تھے جو ان حوادث کی مدد کرتے تھیاور ذیل عبارت میں ہم ان کی طرف اشارہ کریں گے۔

جدید مسائل

پہلا سبب دین کے مختلف مسائل چاہے وہ فقہی مسائل ہوں یا کہ کلامی اور خصوصاً فقہی مسائل کے جواب دینے کی ضرورت تھی کہ مسلمان پہلی صدی کے آخر بلکہ پہلی صدی کے وسط سے ہی ان مسائل سے دوچار ہوئے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں اس کو صریح اور واضح جوابات نہیں مل پاتے تھے۔ وہ لوگ مجبور تھے کہ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے چارہ جوئی کی فکر میں پڑیں، اس کا ایک بہترین راہ حل یہ تھا کہ صدر اسلام کی تاریخ کو دین کے مساوی کردیں اور ان مسائل کے جوابات کو صرف سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہی اخذ نہ کریں بلکہ اس دور سے بھی حاصل کریں اور یہ ایک فطری عمل ہوگا۔

حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں اسلامی معاشرہ، ایک محدود معاشرہ تھا۔ ضروریات بھی کم تھیں اور روز مرہ پیش آنے والے مسائل بھی کم تھے۔ جب بھی کوئی جدید مسئلہ پیش آتا تو اسے بغیر کسی واسطہ کے حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں سوال کرلیتے تھے۔ لیکن یہ حالات اسلام کی تیزی سے ترقی کے سبب تبدیل ہوگئے اور خصوصاً ابتدائی اہم فتوحات اور دینی جوش وجذبہ کے تھم جانے اور اسلامی معاشرہ پہلی صدی کے وسط سے پرسکون ہونے کے پھر سے بعد بدل گئے۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ معاشرہ کمی اور کیفی (عدد اور کیفیت کے) اعتبار سے ترقی کرچکا تھا۔ بلکہ کیفیتی پیچیدگی جو کمی (افراد کی کثرت والی) ترقی کی وجہ سے وجود میں آئی تھی کئی گنا زیادہ تھی اور روز بہ روز پیچیدہ تر ہوتی جارہی تھی۔ ملتیں، ثقافتیں، فلسفے، مذاہب اور مختلف فرقے اور ادیان نئی قدرت کے ماتحت تھے جس پر دینی رنگ چڑھا ہوا تھا، دینی دعوت بھی تھی اسی اعتبار سے وہ وجود میں آئے ایسے معاشرے نئے نئے بہت زیادہ مسائل بھی اپنے ساتھ لیکر آئے جو جواب کے طالب تھے۔ ایسے جوابات جو واضح وروشن اور عملی ہوں صرف نظری نہ ہوں کیوں کہ ضروری تھا کہ معاشرہ کو انھیں جوابات کی بنیاد پر چلایا جائے۔ درحقیقت یہ جوابات ایسے قوانین تھے جو معاشرہ کو نظم وضبط عطا کرتے تھے۔

یہاں پر پریشانی یہ تھی کہ ان جدید مسائل کے کچھ ہی حصے کا جواب سنت پیغمبر میں صریح اور مستقیم طورپر دیا گیا تھا۔(۱۰) یہ سوالات جدید موضوعات سے متعلق تھے جو اس زمانہ میں نہ تو نظری اعتبار سے ہی وجود رکھتے تھے اور نہ ہی عملی لحاظ سے۔ لیکن اب (جدید زمانہ میں) نظری لحاظ سے بھی اور عملی لحاظ سے بھی جواب کے خواہاں تھے۔ اسی پس وپیش میں مسلمان مجبور ہوگئے کہ حیات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دور سے زیادہ طولانی زمانے کے لئے اور ایک عرصہ دراز کے لئے دینی رسمیت کے قائل ہوجائیں اور یہی وہ خلفاے راشدین کا دور تھا۔

بے طرف اور حقیقت بین نظریہ کی بنیاد پر یہ کہنا چاہیے کہ حق انھیں لوگوں کے ساتھ تھا، اگر یہ طے ہو کہ تاریخ اسلام کے ایک حصہ کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دور سے ظاہری شباہت کی بناپر قانونی سمجھا جائے، بیشک یہ وہی دور تھا۔ خاص طور سے جس پر اکثر مسلمانوں کا اتفاق بھی ہے اور ان کے نزدیک مورد احترام بھی اور ان کے بعد جتنے بھی دور گزرے ہیں ان کے اندر یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی تھی۔ جس کے نتیجہ میں اس دور کو استمرار سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمجھایا گیا اور ان بے شمار پیش آنے والے سوالوں کے جوابات کیلئے اٹھ کھڑا ہوا۔ خصوصاً اس زمانہ میں جب اجتہاد فقہی، اس کے ارکان اور وہ روش وجود میں نہیں آئی تھی جیسا کہ بعد میں پھولا پھلا، لہٰذا ہر موقع پر مجبور تھے کہ نص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رجوع کریں۔(۱۱)

لیکن شیعہ بنیادی طور پر ان مشکلات سے دوچار نہ تھے۔ ان کے عقائد میں ائمہ معصومین (ع) کا قول و فعل اور تقریر (کسی کام کے سامنے معصوم کا خاموش رہنا) وہی سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھی اس عقیدہ کو نہ تو کسی تاریخی ضرورت نے شیعوں پر تحمیل کیا تھا اور نہ ہی کسی دوسرے سبب نے۔ بلکہ اصل امامت پر ان کے فطری اور منطقی اعتقاد کا نتیجہ تھا،جس معنی میں وہ سمجھتے اور تفسیر کرتے تھے، ویسے ہی تھا۔ اس طرح سے ان کی نظر میں ۲۶۰ ہجری قمری تک جو امام حسن عسکریـ کی رحلت کا سال تھا، ایک معتبر اور شرعی سنت کے اعتبار سے چلتا رہا۔ یہ غنی اور بہت ہی متنوع میراث جو مختلف مسائل کے جوابات کا ماحصل تھی جو ۲۷۳ سال تک زمانہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لے کر ائمہ(ع) کی امامت کے زمانے کے علاوہ غیبت صغریٰ کے آغاز تک لوگوں کے درمیان رائے تھی، نیز اصل اجتہاد اور اس کی حدبندی اور اس کے مبانی (معیار و ملاک) کی تعیین پر شیعوں کی تاکید بھی تھی، اصولاً اہل سنت کے نزدیک جن موضوعات کی بہت سخت احتیاج تھی اس ضرورت کے احساس کو بالکل ختم کردیا تھا۔

نفسیاتی جاذبے و قلبی کشش

دوسرا سبب ایک نفسیاتی اور دینی سبب تھا، اصولاً انسان جذباتی اور نفسیاتی لحاظ سے ایک ایسے وجود کا نام ہے جو ان تمام چیزوں کو دوست رکھتا ہے اور اس کی طرف لگاؤ رکھتا ہے جو کسی نہ کسی طرح ایسی شے یا فرد سے وابستہ ہو جسے وہ چاہتا ہے۔ چاہے وہ وابستگی حقیقی اور و اقعی ہو یا صرف وہمی اور غیر واقعی کی حدتک ہو، (یعنی حقیقت و واقعیت سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو) لیکن صرف یہی کافی ہے کہ وہ وابستگی کا تصور کرے۔ قدیم زمانہ میں یہ سبب آج کل سے کہیں زیادہ قوی اور موثر تھا۔ آج کا انسان گذشتہ انسانوں سے زیادہ فکری اور نفسیاتی پراگندگی اور پریشانی کا شکار ہے۔ جس کے نتیجہ میں اس کی دوستی اور چاہت کی پائداری اور گہرائی بھی کم ہوگئی ہے۔ لیکن گذشتہ زمانے میں اگر کوئی کسی شے یا شخص کو دوست رکھتا تھا تو وہ اپنے تمام وجود کے ساتھ اس میں جذب ہو جاتا تھا اور جتنا زیادہ جذب کرنے یا جذب ہونے کی کیفیت قوی تر اور عمیق ہوتی تھی اس شے یا شخص سے وابستہ دوسری اشیا سے تعلق بھی اتنا ہی گہرا اور زیادہ ہوجاتا تھا اور اپنے محبوب کے لئے جن خصوصیات کا قائل ہوتا تھا خود اس سے وابستہ شے اور افراد کے اندر بھی انھیں خصوصیات کا قائل ہوتا تھا۔

حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پوری تاریخ اسلام میں سب سے زیادہ محبوب اور مقدس ترین شخص تھے۔ خوبصورت ترین اور عارفانہ ترین تو صیف و تعریف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلہ میں بیان ہوئی ہیں۔ اس میدان میں صوفیوں کے خواص سب سے آگے نکل گئے، فطرتاً اور نتیجتاً ایسی جذاب شخصیت کی مقناطیسی کشش آپ کے چاہنے والوں کے ذہن کے لحاظ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حاشیہ نشینوں میں بھی سرایت کرگئی اور یہ کارروائی فطری اور انسانی رد عمل ہے۔ اصلاً یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت کے مقناطیسی مدار میں جذب ہوجائے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وابستہ اور منسلک افراد کو دوست نہ رکھے۔ اس مقام پر مسئلہ یہ نہ تھا کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وابستہ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متعلق رہنے والے کون لوگ تھے اور ان کی زندگی کیسی تھی؟ بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ وہ افراد پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حاشیہ نشین اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب ہیں۔

صوفی حضرات بلکہ عام مسلمانوں نے پوری تاریخ اسلام میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اطرافیوں اور صدر اسلام کو بھی اسی نگاہ سے دیکھا ہے۔ ان لوگوں کی نظر میں وہ بہترین دور تھا کیونکہ اس دور میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس موجود تھے اور وہ لوگ بہترین افراد میں سے تھے، کیونکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اردگرد رہ کر اپنی زندگی بسر کررہے تھے اور اسی طرح سے اپنی زندگی گذاررہے تھے۔ البتہ اگر چہ یہ بات حق ہے لیکن اس کے حدود اور مفہوم کو واضح ہونا چاہئے۔ یہ سچ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دور نے اس وجہ سے عزت اور شرافت حاصل کرلی تھی، کہ آپ اس دور میں زندگی بسر کر رہے تھیاور سچ ہے کہ آپ کے حاشیہ نشین اس وجہ سے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے، سعادت و بزرگی کی توفیق سے سر فراز ہوئے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ سے نزدیک والے ہر زمانہ میں لازمی طور سے زیادہ شرافت پائی جائے گی، تاکہ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے کہ صحابۂ کرام کا زمانہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ سے نزدیک ہونے کی وجہ سے دوسرے زمانوں سے بہتر ہو گیا ہے اور مثلاً اسلام کو اسی صحابہ کے زمانے کے ذریعہ پہچانا جائے!اور یا صحابہ کا بزم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حاضری کی تو فیق حاصل کرلینے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ اپنی عملی زندگی میں پابند دین اور متعھد مسلمان کی حیثیت کے حامل تھے۔(۱۲)

بہرحال یہی روحی نظام اور نفسیاتی حالت سبب بنی کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تقدس صحابہ اور زمانہ صحابہ تک سرایت کرجائے اور سب کے سب ایک قسم کے الٰہی تقدس کے ہالہ میں چھپ جائیں۔ اس نے خود اپنے طور پر بھی ان مسائل اور حوادث کی مدد کی ہے جس کا مقصد صدر اسلام کو دینی مقام و منزلت عطا کرنا تھا۔ یہ کہ شیعہ حضرات کیوں اس فطری حالت اور روحی نظام سے متاثر نہیں ہوئے اس پر خاص دلیل پائی جاتی ہے۔ وہ لوگ (شیعہ)دوسرے مسلمانوں کی طرح ہمیشہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے والہانہ عشق و محبت میں سرشار تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہترین اور برترین انسان جانتے تھے، لیکن شیعوں کے نزدیک بہت معتبر احادیث کی بنا پر جو ان کے نزدیک صحیح اور تمام ہیں... نہ کہ تمام اصحاب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں جو خاص گروہ سے اظہار محبت و مودت کرتے تھے۔ اگر ایسی حدیثیں موجود نہ ہوتیں تو شیعہ حضرات بھی دوسروں کی طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معنوی شان و تقدس کو دوسروں تک پہنچا دیتے کیونکہ انسان کی فطرت اسی بات کا تقاضا کرتی ہے۔

اس مقام پرمناسب ہے کہ ایک نمونہ ذکر کریں اور یہ کہ بعد کے زمانہ میں آنے والے مسلمانوں کی نظر میں، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور کو درک کرنے نے کیا قدر و قیمت حاصل کی اور کس طرح افراد کی دینی اور معنوی صلاحیت کے پرکھنے کے لئے سب سے اہم ترین اور اطمینان بخش ترین ضابطہ اور میزان بن گیا۔

ابن حجر، ابن عبد البر کے نظریے پر تنقید کرتے ہوئے جو اس بات کا معتقد تھا کہ ممکن ہے آیندہ آنے والے زمانوں میں لوگوں کے درمیان کچھ ایسے افراد بھی ہوں جو صحابہ سے افضل ہوں، جس کی دلیل یہ حدیث ہے: ''میری امت بارش کی طرح ہے اور یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کی ابتدا بہتر ہے یا انتہا'' اور دوسری حدیثیں جو اس بات کی تائید کرتی ہیں، (ان کی تنقید میں) وہ (احادیث) اس طرح بیان کرتی ہیں: ''یہ ایک بہت ہی شاذ و نادر نظریہ ہے اور یہ حدیثیں اس مطلب پر دلالت نہیں کررہی ہیں۔'' اور پھر اس وقت وہ (ابن حجر) ان مطالب کے ذریعے کہ جنھیں ابن مبارک سے نقل کیا ہے اپنے نظریئے کی یوں تائید کر رہا ہے: ''عبداللہ ابن مبارک نے بھی جو کہ علم و فیض اور معرفت کے اعلی درجہ پر فائز تھا اس نکتہ کی تائید کرتا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ معاویہاور عمر ابن عبد العزیز میں سے کون افضل ہے؟ تو اس نے جواب میں کہا: خدا کی قسم رسول کے ساتھ میدان جنگ میں معاویہ کے گھوڑے کی ناک میں داخل ہونے والا غبار عمر ابن عبد العزیز جیسے سو لوگوں سے بہتر ہے۔ اور و ہ اس طریقہ سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دیدار اور آپ کی ہمراہی کا شرف اور انسان پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر کا پڑجانا اتنی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ نہ تو کوئی عمل اس کے برابر ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی شرافت اس کا مقابلہ کر سکتی ہے۔''(۱۳)

بے شک اس کے درمیان سیاست کا بھی کافی عمل دخل رہا ہے۔ لیکن ماننا پڑے گا کہ مسلمانوں نے اسی طرز تفکر کے ساتھ ترقی کی اور اس کی بنیاد پر ان کی شخصیت اور ذہنیت پھولی پھلی اور پروان چڑھی یہاں تک کہ گویا مسلمان اخلاقی، روحی، فطری اور دینی لحاظ سے ایک ایسے نظریہ کے محتاج تھے۔ اس کے علاوہ اندرونی طور سے تعارض و تضاد سے دوچار تھا، ایسے مجموعہ میں ساز گاری پیدا کرکے ایک مکمل کلامی نظام کو پیش کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

اصولاً ہر صاحب ایمان اور معتقد انسان، دینی مسائل سے لیکر دوسرے مسائل تک، جس چیز پر اس کا ایمان و عقیدہ ہو اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے معتقدات (عقائد) کو ایک ایسے مجموعہ میں پائے جس میں پورے طریقہ سے ارتباط اور ھما ھنگی پائی جاتی ہواور ہر طرح کے تضاد سے خالی ہو۔ اسے حاصل کرے یہ اس کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اپنے اعتقادات کو دوسروں کے سامنے پیش کرنے یا اپنے عقائد سے دفاع کرنے کے لئے ایسے اقدام پر مجبور ہے، خود اس کی اپنی داخلی ضرورت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ ایسی کوشش اور عمل کے بغیر لاجواب رہ جائے گا۔ اپنے عقائد کی بہ نسبت انسان کا قلبی سکون ان کے درمیان ہماہنگی اور سازگاری کا مرہون منت ہے۔ انسان کی فطری اور عملی کوششوں کا اچھا خاصا حصہ چاہے دین سے متعلق ہو یا فکر و علم سے، اپنے عقائد کو ہماہنگ اور منسجم کرنے اور اس میں یک سوئی پیدا کرنے میں صرف ہوتا ہے اور یہ عموماً اندرونی ضرورت کے تقاضا کے تحت ہوتا ہے۔

ایسی کوشش کے چند نمونوں کو جو صحابہ اور صدر اسلام کی شخصیتوں کی طرف پلٹتا ہے، اس نظریہ میں تلاش کیا جاسکتا ہے: ''اس امت میں اور اس کے علاوہ دوسری امتوں میں پیغمبروں کے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں اور ان کے بعد عمر اور ان کے بعد عثمان پھر ان کے بعد حضرت علیـ ہیں۔'' یہ کلام خود پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے سنا گیا ہے اور اس کا انکار نہیں کرنا چاہئے۔ پھر ان حضرات کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر اور افضل،طلحہ، زبیر، سعد ابن ابی وقاص اور سعد بن زید اور عبدالرحمن بن عوف اور ابو عبیدہ جراح وغیرہ سب کے سب منصب خلافت تک پہنچنے کے لئے منا سب اور شائستہ افراد تھے۔ سب میں منصب خلافت کی صلاحیت پائی جاتی تھی۔ پھر ان حضرات کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر اصحاب پیغمبر ہیں، وہ صدی جس میں حضرت ختمی مرتبت مبعوث ہوئے، پہلے والے مہاجرین جنہوں نے حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کی، انصا اور وہ حضرات جنہوں نے مسجد الاقصی (یعنی بیت المقدس اور خانہ کعبہ) کی طرف نماز ادا کی۔ پھر ان لوگوں کے بعد لوگوں میں سب سے افضل وہ لوگ ہیں جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہتے تھے اور آپ کی بزم میں حاضر ہوتے تھے۔ چاہے ایک روز یا ایک ماہ یا ایک سال یا اس سے کچھ کم یا زیادہ حضور کے ہمراہ رہے ہوں۔ ہم ان کی مغفرت کے لئے دست بدعا ہیں اور ان کے فضائل کو نقل کرتے ہیں اور ان کی لغزشوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی نیکی کے علاوہ کسی اور چیز سے یاد نہیں کرتے...۔''(۱۴)

نتیجہ یہ کہ مذکورہ اسباب و عوامل اور دوسرے اسباب سب مل کر سبب بنے کہ اہل سنت کے نزدیک صدر اسلام اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور خلفائے راشدین دینی اور قدسی (پاکیزہ) قدر و منزلت حاصل کرلیں۔ ان لوگوں (اہل سنت) کے درمیان کوئی بھی ایسی شخصیت نہیں ملتی جو ان تمام مقامات میں شک و تردید کا شکار ہو۔ یہ ایک ایسی اصل اور قاعدہ ہے جس پر سب کا اتفاق اور اجماع ہے اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اس کی روشنی میں اسلام کو درک اور اس کی تفسیر کرتے ہیں یہاں تک کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان مواقع سے قطع نظر اسلام کے متعلق ان لوگوں کی فہم و ادراک کی کیفیت کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کے کلی مسائل فقہ و تفسیر اور تاریخ سے لے کر کلام، فلسفہ، خدا وند عالم کی معرفت اور شناخت (عرفان) تک اور خاص طور سے اس کے سیاسی اور دینی مسائل، اسلام سے متعلق اہل سنت کے فہم و ادراک کی کیفیت اور شیعوں کے فہم و ادراک کی کیفیت کے درمیان فرق اس آخری مسئلہ میں پایا جاتا ہے۔

اگر بغور دقت کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہی وہ مقام ہے جہاں شیعہ اور اہل سنت ایک دوسرے کو کم سمجھ سکتے ہیں۔ وہ لوگ چونکہ اس نقطہ کی طرف توجہ نہیں رکھتے کہ ان کیاعقائد و نظریات دو بنیادوں اور دو جدا جدا، فکری وفلسفی کلامی اور تاریخی نظام پر استوار ہیں اس کا اشارہ نہیں کیا ہے، جس کے نتیجہ میں بحث و گفتگو اور افہام و تفہیم کے مرحلہ میں مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک فرقہ، دوسرے کے عقائد کو اپنے دینی نظریہ کے معیار پر دیکھتا ہے، لہٰذا اس کو درک کرنے اور سمجھنے سے قاصر رہتا ہے اور اس سے ان کے اصول اور میزان کے خلاف توقع رکھتا ہے۔یہ ایک نظری مشکل نہیں ہے بلکہ ایک محسوس حقیقت ہے۔ اور جب تک شیعہ اور اہل سنت ایک دوسرے کی فکری اور اعتقادی نظام کی خصوصیات اور یہ کہ کون سی ضروریات اور تصورات سے وجود میں آتی ہیں ان کا پتہ نہ لگالیں تب تک وہ افہام و تفہیم، گفتگو اور ایک دوسرے کی کارساز اور مفید مدد پر قادر نہیں ہوسکتے۔ جیسا کہ عرض کرچکے ہیں کہ یہ سخن دینی و سیاسی مسائل میں بدرجہ ہا زیادہ صحیح ہے اور یہی وجہ تھی کہ ہم نے اسے زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔(۱۵)

اب ہم یہ دیکھیں کہ ایسے اعتقاد کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اور اس کا انجام کیا ہو گا؟ یعنی اس کے روحی اور اعتقادی، معاشرتی اور سیاسی نتائج کیسے ہیں؟ یہاں پر ہم اس کے دو اہم نتائج کو جو ہماری اس گفتگو میں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں بیان کررہے ہیں۔