درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 45243
ڈاؤنلوڈ: 2781

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45243 / ڈاؤنلوڈ: 2781
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

چھبیسواں درس

چند شبہات کا حل

معصوم جزاء کا کیونکر مستحق ہے؟

کیوں معصومین گناہ کا اقرار کرتے تھے؟

شیطان کا انبیاء (ع) کے اعمال میں تصرف کرنا ان کے معصوم

ہونے کے ساتھ کیسے سازگار ہے؟

حضرت آد م ـ کی طرف نسیان اور عصیان کی نسبت ۔

بعض انبیاء (ع)کی طرف جھوٹ کی نسبت ۔

حضرت موسیٰ ـکے ذریعہ قبطی کا قتل۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی رسالت میں شک کرنے سے نہی۔

چند شبہات کا حل۔

انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے سلسلہ میں چند شبہات پیش کئے گئے ہیں کہ جن کے جوابات ہم اسی درس میں بیان کریں گے۔

پہلا شبہ یہ ہے

کہ اگر خدا نے انبیا ء علیہم السلام کو گناہوں کے ارتکاب سے روک رکھا ہے جس کا لازمہ وظائف کو انجام دینا بھی ہے تو پھر اس صورت میں انبیاء علیہم السلام کے لئے اختیاری امتیاز باقی نہیں رہتا، اور گناہوں سے بچنے کی جزا اور وظائف کو انجام دینے کی صورت میں کسی بھی پاداش کے مستحق نہیں رہ جاتے، اس لئے کہ اگر خدا انبیاء کے علاوہ کسی اور کو معصوم قرار دیتا تو وہ بھی انھیں کی طرح ہوتے۔

اسی شبہ کا جوا ب

گذشتہ بیانات کی روشنی میں آشکار ہے جس کا ملازمہ یہ ہے کہ معصوم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وظائف کو انجام دینے کے لئے اور گناہوں سے پرہیز کرنے کے لئے ان پر جبر کیا گیا ہو جیسا کہ گذشتہ درس میں یہ مطلب روشن ہوچکا ہے، اورخدا کا انھیں معصوم رکھنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے اختیاری افعال کی نسبت چھین لی جائے اگر چہ تمام موجودات نہایتاً خدا کے ارادۂ تکوینی کے دائرے میں ہیں، چنانچہ جب خدا کی جانب سے کوئی خاص وضاحت ہو تو امو رکو اس کی طرف نسبت دینا ایک جدا صورت ہے، لیکن خدا کا ارادہ، ارادہ انسان کے طول میں ہے نہ کہ اُس کے عرض میں (یعنی انسان کا ارادہ وہی خدا کا ارادہ ہے نہ یہ کہ خدا کاا رادہ اور انسان کا ارادہ دو مستقل امر ہوں) اور نہ ہی انسان کا رادہ خدا کے ارادہ کاجانشین ہے۔

اور معصومین کی بہ نسبت خدا کی خاص عنایت ہے تو جس طرح خاص اسباب و شرائط سنگین ذمہ داریوں کا سبب بنتے ہیں، اسی طرح یہ خاص توجہ بھی سنگین ذمہ داریوں کا سبب ہے ،جس طرح وظائف کو انجام دینے کی جزا زیادہ ہوگی اسی طرح اس کی مخالفت کی سزا بھی زیادہ ہوگی، اسی طرح جزا و سزا کے درمیان اعتدال برقرار ہوجاتا ہے، اگرچہ ایک معصوم کبھی بھی اپنے اختیار سے کسی سزا کا مستحق نہیں ہو سکتا اور ا یسے اعتدال کی مثالیں اُن تمام لوگوں میں دیکھی جا سکتی ہیں کہ جو خاص نعمتوں سے سرفراز ہیں جیسا کہ علماء اور خاندان رسالت(۱) سے وابستہ حضرات کی ذمہ دار یاں زیادہ ہیں لہٰذا جزا یا سزا بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی(۲) اسی وجہ سے جو جتنا بلند ہوتا ہے اس کے سقوط کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔

دوسراشبہ یہ ہے

کہ معصومین اور انبیاء علیہم السلام کی طرف سے جو دعائوں میں وارد ہوئے ہیں ان میں ان حضرات نے اپنے آپ کو گنہگار کہا ہے اور اپنے گناہوں سے استغفار کرتے تھے پس ایسے اعترافات کے ہوتے ہوئے کیسے ان کے معصوم ہونے کو تسلیم کیا جاسکتا ہے؟

اس شبہ کا جواب یہ ہے

کہ حضرات معصومین علیہم السلام جو درجات کے اختلاف کے ساتھ کمال و قرب کے عظیم مقامات پر فائز تھے اپنے لئے دوسروں کے وظائف سے کہیں عظیم وظائف کے قائل تھے بلکہ معبود کے علاوہ کسی غیر کی طرف معمولی توجہ کو بھی عظیم گناہ شمار کرتے تھے اسی وجہ سے ہمیشہ استغفار کیا کرتے تھے اور جیسا کہ یہاں ذکر کیاجاچکا ہے کہ انبیاء (ع)کی عصمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ حضرات ان امور کے ارتکاب سے محفوظ ہیں جنھیں گناہ کا نام دیا جا تا ہے بلکہ ان کے معصوم ہونے کا مطلب واجبی تکالیف کی مخالفت اور محرمات فقہی کے مرتکب ہونے سے محفوظ رہنے کا نام ہے۔

تیسرا شبہ یہ ہے

کہ انبیاء (ع) کی عصمت پر قرآنی دلائل میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ وہ مخلصین میں سے ہیں اور شیطان کو انھیں گمراہ کرنے کی بھی کوئی طمع نہیں ہے، حالانکہ خود قرآن سے بعض مقامات پر انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ میں شیطان کی طرف سے کئے گئے تصرفات کو بیان کیا گیا ہے :

( یَا بَنِی آدَمَ لَا یَفتِنَنَّکُمُ الشَّیطَانُ کَمَا اَخرَجَ َبَوَیکُم منَ الجَنَّةِ ) (۳)

اس آیت میں شیطان کا آدم و حوا علیہما السلام کو دھوکا دینا اور ان کا بہشت سے نکل جانے کو قرآن شیطان کی طرف نسبت دے رہا ہے، اور سورۂ ص کی آیت (٤١) میں جناب ایوب علیہ السلام کی زبانی نقل فرماتا ہے :

( اِذ نَادَیٰ رَبَّهُ َنّ مَسَّنَِ الشَّیطَانُ بِنُصبٍ و عَذَابٍ )

جب ایوب علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے فریاد کی کہ مجھے شیطان نے بہت تکلیف و اذیت پہنچا رکھی ہے۔

اس کے علاوہ سورۂ حج کی آیت (٥٢) میں شیطان کی طرف انبیاء علیہم السلام پر القائات کو ثابت کرتا ہے، جیسا کہ فرماتا ہے:( وَمَا اَرسَلنَا مِن قَبلِکَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبٍِّ اِلَّا اِذَا تَمَنّیٰ اَلقَی الشَّیطَانُ فِ اُمنِیَّتِهِ )

اور اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم نے تو آپ سے پہلے جب کبھی کوئی رسول اور نبی بھیجا تو یہ ہوا، جس وقت اس نے تبلیغ دین کی آرزو کی تو شیطان نے ا ن کی آرزو میں خلل ڈالا ، اور لوگوں کو گمراہ کیا۔

اس شبہ کا جواب یہ ہے

کہ ان تمام آیات میں شیطان کے تصرف کے نتیجہ میں انبیاء (ع)کا واجبی تکالیف سے مخالفت کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے اور سورۂ اعراف کی (٢٧) آیت میں شجرہ منہیہ کے سلسلہ میںجس وسوسہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، اس میں اس درخت سے نہ کھانے کی کوئی تحریم نہیں تھی، بلکہ جناب آدم و حوا سے اتنا کہہ دیا گیا تھا کہ اگر اس درخت سے ،کھائو گے تو جنت سے نکال کرزمین کی طرف بھیج دئے جائو گے، اور شیطانی وسوسہ اس امر سے مخالفت کا سبب بنا، اس کے علاوہ وہ جس عالم میں تھے وہ عام تکلیف (ارشادی) تھی وہاں کوئی شریعت نہیں تھی کہ جس کے وہ پابند ہوتے، اور سورۂ ص کی (٤١) آیت میں ان مصیبتوں کی طرف اشارہ ہے کہ جو شیطان کی وجہ سے جناب ایوب ـپر نازل ہوئی تھیں، اور آپ کے متعلق کسی بھی امر کے مخالفت کی طرف کوئی معمولی اشارہ بھی نہیں ہے، اور سورۂ حج کی (٥٢) آیت میں ان رکاوٹوں کی طرف اشارہ ہے کہ جو انبیاء علیہم السلام کے اہداف میں شیطان ایجاد کرتا تھا، اور ان کی تکلیف کا باعث بنتا تھا، یہاں تک کہ خدا اس کے مکر کو باطل کردیتا ہے اور اپنے دین کو قائم کردیتا ہے۔

چوتھا شبہ یہ ہے

کہ قرآن کے سورۂ طہ کی (١٢١)آیت میں نسبت عصیان اور اسی طرح اسی سورۂ کی آیت (١١٥) میں نسیان کی نسبت جناب آدم کی طرف دی جارہی ہے، لہٰذا ایسی نسبتیں ان کی عصمت سے کیسے سازگار ہیں؟

اس شبہ کا جواب یہ ہے

کہ گذشتہ بیان سے واضح ہے کہ یہ عصیان اور نسیان واجبی تکالیف میں سے نہیں تھے کہ گناہ حساب کئے جائے۔

پانچواں شبہ یہ ہے

کہ قرآن کے بعض مقامات پر جھوٹ کی نسبت انبیاء علیہم السلام کی طرف دی گئی ہے جیسا کہ سورۂ صافات کی آیت (٨٩) میں جناب ابراہیم علیہ السلام کی زبانی فرماتا ہے:( فَقَالَ اِنِّ سَقِیم ) انھوں نے کہا کہ میں بیمار ہوں۔

حالانکہ جب جناب ابراہیم نے یہ جملہ کہا مریض نہ تھے اور اسی طرح آپ ہی کی زبانی سورۂ انبیاء کی آیت (٦٣) میں فرماتا ہے :( قَالَ بَل فَعَلَهُ کَبِیرُهُم )

بلکہ ان بتوں کو اُن کے بڑے خدا نے توڑا ہے۔

حالانکہ خود جناب ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو منہدم کیا تھا، اور اسی طرح سورۂ یوسف کی آیت (٧٠) میں فرماتا ہے :

( ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّن اَیَّتُهَا العِیرُ اِنَّکُم لَسَارِقُونَ )

پھر ایک منادی للکار کے بولا کہ اے قافلہ والو یقیناً تم ہی لوگ چور ہو۔

ان شبہات کا جواب یہ ہے

کہ بعض روایتوں کے مطابق یہ سب ''توریہ'' سے ہے اہم ترین مصلحتوں کے لئے بولا جاتا ہے اور اس مطلب کو خود قرآن کی آیتوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ جناب یوسف کی داستان میں فرماتا ہے:

(کذلک کدنا لیوسف)

بہر حال ایسے جھوٹ عصیان اورگناہ حساب نہیں کئے جاتے۔

چھٹا شبہ یہ ہے

کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی داستان میں آیا ہے کہ جناب موسیٰ ـ نے اُس قبطی کو مار ڈالا جو ایک بنی اسرائیل کے ساتھ جھگڑ رہا تھا، اسی وجہ سے آپ مصر سے فرار کرگئے ،اور جب خدا نے آپ کو فرعون کی جانب مبعوث کیا تو آپ نے بارگاہ خدا میں عرض کی :

( وَلَهُم عَلََّ ذَنب فَاَخَافُ اَن یَّقتُلُون ) (۴)

اس کے علاوہ ان کے لئے میری گردن پر ایک جرم ہے مجھے خوف ہے کہ وہ مجھے قصاصاً قتل نہ کر دیں ۔

اور جب فرعون نے اس قتل کی نسبت آپ کی طرف دی تو فرمایا :

(( قَالَ فَعَلتَُهَا اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّالِینَ ) (۵)

ہاں میں نے اس کام کو انجام دیا جب میں حالت غفلت میں تھا۔

یہ داستان کس طرح انبیا ء علیہم السلام کی عصمت بلکہ بعثت سے پہلے معصوم ہونے سے سازگار ہے۔

اس شبہ کا جواب یہ

ہے کہ قبطی کا قتل عمدی نہیں تھا بلکہ ایک مشتی کی وجہ سے تھا کہ جسے صرف دور کرنے کے لئے مارا تھا، اس کے علاوہ (ولھم عَلَّ ذَنب) کا جملہ فرعونیوں کے گمان کے مطابق ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مجھے گنہگار سمجھتے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھے قصاص میں قتل نہ کر ڈالیں اور (وانا من الضّالین )کا جملہ فرعون سے ہم کلامی کے دوران کہا ہے کہ میں اس بعثت سے پہلے ایسے براہین سے بے خبر تھا اور اب دلیل قاطع کے ساتھ مبعوث ہوا ہوں یا ضلال کا مطلب یہ ہے، کہ میں اس عمل کے انجام سے بے خبر تھا، بہر حال کسی بھی صورت میں جناب موسیٰ کا واجبی تکالیف سے مخا لفت ،ان جملوں سے ثابت نہیں ہوتی۔

ساتواں شبہ یہ ہے

کہ سورۂ یونس کی آیت (٩٤) میں خدا اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے :( فَاِن کُنتَ فِ شَکٍّ مِّمَّا اَنزَلنَا اِلَیکَ فَسئَلِ الَّذِینَ یَقرَئُ ونَ الکِتَابَ مِن قَبلِکَ لَقَد جَائَکَ الحَقُّ مِن رَبِّکَ فَلَا تَکُونَنَّ مِنَ المُمتَرِینَ )

پس جو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے اگر اس کے بارے میں تم کو کچھ شک ہو تو جو لوگ تم سے پہلے کتاب خدا پڑھا کرتے ہیں ان سے پوچھ کر دیکھو تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے کتاب آچکی ہے تم ہر گز شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔

اسی طرح سورۂ بقرہ کی آیت (١٤٧)، سورۂ آل عمران کی آیت (٦٠) سورۂ انعام کی آیت /١١٤، سورۂ ہود کی آیت (١٧) اور سورۂ سجدہ کی آیت (٢٣) میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شک و تردید سے منع فرماتا ہے، پس کس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ وحی کو درک کرنا غیر قابل شک ہے۔

اس شبہ کا جواب یہ ہے

کہ یہ آیات اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ آپ نے کوئی شک کیا ہو بلکہ صرف اس مطلب کو بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت کی رسالت اور قرآن کریم کی حقانیت میںکوئی شک و تردید نہیں ہے، در اصل ایسے بیانات '' ایاک أعنی واسعَیِ یا جارة''میں سے ہے۔

آٹھواں شبہ یہ ہے

کہ قرآن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف بعض گناہوں کی نسبت دی گئی ہے جنھیں خدا نے بخش دیا جیسا کہ فرماتا ہے:

( لَّیَغفِرَلَکَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِکَ وَمَا تأَ خَّرَ ) (۶)

تاکہ خدا تمہاری اُمت کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے

ا س شبہ کا جواب یہ ہے

کہ ان آیتوں میں (ذنب) سے مراد وہ گناہ یں جنھیں مکہ کے مشرکین ہجرت سے پہلے اور اس کے بعد قائل تھے کہ آپ نے اُن کے خدائوں کی توہین کی ہے اور مغفرت سے مرا د ، اُن آثار کو دفع کرنا ہے کہ جن کے مترتب ہونے کا امکان تھا، اور اس مطلب پر دلیل، فتح مکہ کو معاف کردینے کی علت شمار کی ہے جیسا کہ فرماتاہے:

(( اِنَّا فَتَحنَا لَکَ فَتحًا مُّبِیناً ) )(۷)

اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! یہ حدیبیہ کی صلح نہیں بلکہ ہم نے حقیقتا تم کو کھلم کھلا فتح عطا کی ۔

اب یہ امر واضح ہوگیا ہے کہ اگر اس گناہ سے مراد اصطلاحی گناہ ہوتا تو بخشش کی علت میں فتح مکہ کو بیان کرنے کوئی وجہ نہ تھی ۔

نواں شبہ یہ ہے

کہ قرآن کریم : جناب زید کی مطلّقہ سے آنحضرت کے شادی کرنے کی داستان کی طرف اشارہ کر رہا ہے ، جب کہ زید پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منہ بولے فرزند تھے ۔

( وَتَخشَی النَّاسَ وَاللَّهُ اَحَقُّ أَن تَخشَاهُ ) (۸)

اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ خدا کا زیادہ حق تھا کہ تم اُس سے ڈرو۔ ایسی تعبیر مقام عصمت سے کیسے سازگار ہے

اس شبہ کا جواب یہ ہے

کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو صر ف اور صرف اس بات کا ڈر تھا، کہ کہیںخدا کے اس دستور پرعمل کرنے اور جاہلیت کی رسومات میں سے ایک (گود لئے بچوں کو حقیقی بچوں جیسا سمجھنا) رسم توڑنے کی وجہ سے تھا کہ کہیں مسلمان ضعف ایمان کی وجہ سے ا ُس عمل کو نفسانی خواہشات کا نتیجہ نہ سمجھ بیٹھیںاور اُن کے دین سے نکل جانے کا باعث نہ بنے خدا اِس آیت میں اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو باخبر کرتا ہے کہ ارادہ الھی کے ساتھ اُس سنت شکنی کی مصلحت یعنی ایسی رسومات سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا اس طرح کے غلط تصور سے زیادہ سزاوار ہے لہذا اس آیت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کسی بھی قسم کی کوئی سرزنش نہیں کی گئی ہے۔

دسواں شبہ یہ ہے

کہ قرآن نے دو مقام پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عتاب ( ملامت و سرزنش ) کی ہے، ان میں سے پہلا مقام یہ ہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بعض افراد کو جنگ میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دی تو خدا نے فرمایا : (( عَفَا اللَّهُ عَنکَ لِمَ اَذِنتَ لَهُم ) (۹)

اے رسول! خدا تم سے در گذر فرمائے تم نے اُنھیںپیچھے رہ جانے کی اجازت ہی کیوں دی اور بعض حلال امور میں اپنی بعض ازواج کی جلب رضایت کے لئے فرمایا:

(( یَاَ یُّهَا النَّبُِّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللَّهُ لَکَ تَبتَغِ مَرضَاتَ اَزوَاجِکَ ) (۱۰)

اے رسول !جو چیز خدا نے تمہارے لئے حلال کی ہے تم اس سے اپنی بیویوں کی خوشنودی کے لئے کیوں کنارہ کشی کر تے ہوایسے عتاب آپ کی عصمت سے کیسے سازگار ہیں؟

اس شبہ کا جواب یہ ہے

کہ ایسے بیانات در اصل عتاب کی شکل میں پیغمبر کی مدح میں ہیں جو آنحضرت کی بے نہایت عطوفت اور مہربانی پر دلالت کرتے ہیں یہاں تک کہ آپ نے منافقوں کو بھی ناامید نہیںکیا،اور ان کے اسرار کو فاش نہیں کیا نیز اپنی ازواج کی خواہشوں کو اپنی خواہش پر مقدم رکھا، اور ایک مباح فعل کو قسم کے ذریعہ اپنے اوپر حرام کرلیا تھااور پیغمبر کا ایسا کرنا ( معاذاللہ) اس لئے نہیں تھا کہ حکم خدا کو بدل دیں، اور لوگوں کے لئے حلال کو حرام کردیں۔

در اصل یہ آیات ان آیات سے نہایت مشابہ ہیں کہ جس میں منافقوں کی ہدایت کے لئے آپ کی دلسوزی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

(( لَعَلَّکَ بَاخِع نَّفسَکَ َلَّا یَکُونُوا مُؤمِنِینَ ) (۱۱)

اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شاید اس فکر میں تم اپنی جان ہلاک کر ڈالو گے کہ یہ کفار ، مومن کیوں نہیں ہو جاتے ۔

یا ان آیات سے مشابہ ہیں کہ جو عبادت کی خاطر زحمتوں کے تحمل کرنے کی طرف اشارہ کرتی ہیں( طهَ٭ مَا أَنزَلنَا عَلَیکَ القُرآنَ لِتَشقیٰ ) (۱۲)

اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم نے تم پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا، کہ تم اس قدر مشقت اٹھاء وبہر حال یہ مقامات عصمت کے خلاف نہیں ہیں۔

سوالات

١۔ ایک معصوم کو دوسروں پر کیسے امتیازی اختیارات حاصل ہیں؟ وہ اعمال جو عصمت الٰہی کی بنا پر انجام دیئے جائیں اور کس جزا کے مستحق ہیں ؟

٢۔ کیوں انبیاء اور اولیاء (ع) اپنے آپ کو گنہگار سمجھتے اور استغفار کرتے تھے؟

٣۔انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ میں شیطان کے تصرفات ان کی عصمت سے کیسے سازگار ہیں؟

٤۔ قرآن میں حضرت آدم علیہ السلام کی طرف جس نسیان اور عصیان کی نسبت دی گئی ہے وہ آپ کی عصمت سے کیسے سازگار ہے؟

٥۔ اگر سارے انبیاء (ع) معصوم ہیں تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور جناب یوسف علیہ السلام نے کیوں جھوٹ بو لے؟

٦۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ میں موجودہ شبہ اور اس کے جواب کو ذکر کریں؟

٧۔ اگر وحی کے ادراک میں کوئی خطا واقع نہیں ہوسکتی تو پھر کیوں خدا باربار اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوآپ کی رسالت میں شک و تردید سے منع کردیا ہے؟

٨۔ سورۂ فتح میں آنحضرت کی طرف جس گناہ کی نسبت دی گئی ہے وہ کیونکر آپ کی عصمت سے سازگار ہے؟

٩۔ جناب زید کی داستان کے متعلق شبہات اور جوابات بیان کریں؟

١٠۔ حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہ نسبت قرآن میں جو عتاب وارد ہوا ہے وہ کیا ہے؟ اور اس کا جواب کیا ہے ؟

____________________

(١)قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے :(یَا نِسَائَ النَّبِیِّ لَستُنَّ کَأَحدٍ مِّنَ النِسَائِ )

سورۂ احزاب ۔آیت /٣٢٣٠.

(٢)جیسا کہ روایت میں وارد ہوا ہے'یَغفَرُ للِجَاهِل سَبعُونَ ذَنباً قَبلَ اَن یُغفَرَ للِعالِمِ ذَنب وَاحِد'' .

(۳) سورہ اعراف ۔ آیت/ ٢٧

(۴)سورۂ شعرائ۔ آیت /١٤

(۵)سورۂ شعراء آیت ٢٠.

(۶) سورۂ فتح ۔آیت/ ٢

(۷) سورہ فتح ۔آیت /١.

(۸) سورۂ احزاب ۔آیت ٣٧

(۹) سورہ توبہ۔ آیت /٤٣

(۱۰) سورۂ تحریم۔ آیت/ ١

(۱۱) سورۂ شعرائ۔ آیت/ ٣

(۱۲)سورۂ طہ۔ آیت/ ١،٢

ستائیسواں درس

معجزہ

نبوت کو ثابت کرنے کے راستے

معجز ہ کی تعریف

خارق عادت امور

الٰہی خارق عادت امور

انبیاء (ع)کے معجزات کی خصوصیات

نبوت کو ثابت کرنے کے را ستے۔

نبوت کے بنیادی مسائل میں سے ایک تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ سچے پیغمبروں کے د عوے کی صداقت اور جھوٹے نبیوں کے د عوے کا بطلان کیسے ثابت ہو؟

اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر کوئی فرد گناہوں میں آلود ہ ہو، کہ جس کی قباحت کو عقل بھی بخوبی درک کرتی ہے، ایسا شخص کسی بھی صورت میں قابل اعتماد نہیں ہوسکتا، خصوصاً اُس وقت یہ اعتماد محال ہوجاتا ہے، کہ جب وہ عقل کے خلاف کسی امر کی طرف دعوت دنے یا اُس کی باتوں میں تناقض و اختلاف پایا جاتا ہو۔

اس کے علاوہ اس امر کا بھی امکان ہے کہ اس شخص کے گذشتہ حالات ایسے ہوں کہ بے غرض افراد اس کی باتوں پر اعتماد کرلیں ،خصوصاً جب عقل بھی اُس کی باتوں کی تصدیق کر رہی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک فرد کی پیغمبری کسی دوسرے رسول کی پیشینگوئی کے ذریعہ ثابت ہوجائے اور وہ بھی اس طرح ثابت ہوجائے کہ حقیقت کے طلبگاروں کے لئے شک و تردید کا مقام باقی نہ رہ جائے۔

لیکن جب لوگوں کے پاس اطمینان بخش قرائن نہ ہوں، نیز اُن کے پاس کسی نبی کی بشارت یا تائید بھی موجود نہ ہو، تو انھیں نبوت کے اثبات کے لئے دوسر ے را ستے اختیار کرنے پڑ یں گے ، لہٰذا خدا نے اِس مشکل کو حل کرتے ہوئے اپنے رسولوں کو معجزے عطا کئے تاکہ یہ معجزے اُن کے د عوے کو ثابت کرنے میں اُن کی مدد کر یں اِسی وجہ سے اُنھیں آیات کے(۱) نام سے یاد کیا گیا ہے۔

نتیجہ۔ کسی نبی کے د عوے کو ثابت کرنے کے لئے تین راستے ہیں۔

١۔اطمینان بخش قرائن کے ذریعہ، لیکن یہ صرف ان نبیوں کے متعلق صحیح ہے جنہوں نے لوگوں کے درمیان سالہا سال زندگی گذاری ہو، اور ایک عظیم شخصیت کے مالک ہوں لیکن اگر کوئی نبی ایام جوانی یا اپنی شخصیت کی پہچان سے پہلے وہ مبعوث بہ رسالت ہو جائے تو اُس نبی کے د عوے کو اس راہ کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔

٢۔گذشتہ نبی نے، آنے والے نبی کی خبر دی ہو، یہ راستہ بھی انھیں لوگوں سے مخصوص ہے کہ جنھوں نے اُس سے پہلے کسی نبی کی معرفت حاصل کرلی ہو اور اس کی جانب سے آنے والے نبی کی تائید یا بشارت سنی ہو۔

٣۔ معجزہ، یہ راستہ نہایت مفید اور تمام مقامات پر مفید ہے، لہٰذ اس کے بارے میں مزید وضاحت پیش کرتے ہیں۔

معجزہ کی تعریف۔

معجزہ یعنی ایک ایسا غیر عادی عمل، جو ارادہ خداوند کے مطابق نبوت کا دعوی کرنے والے شخص کی جانب سے صادر ہو اور اُس کے دعوے کو ثابت کرے۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ یہ تعریف تین مطالب پر مشتمل ہے۔

الف: غیر عادی امور کا وجود ،جو عادی اسباب کے ذریعہ وجود میں نہیں آتے۔

ب: غیر عادی امور میں سے بعض ارادہ ٔ الٰہی اور اُس کی اجازت سے واقع ہوتے ہیں۔

ج: ایسے غیر عادی امور کسی پیغمبر کے دعوے کی صداقت کی علامت بن سکتے ہیں اسی وجہ سے اصطلاح میں اس کو ''معجزہ'' کہا جاتا ہے۔

خارق عادت امور۔

جو موجودات بھی اس کائنات میں وجود میں آتے ہیں عموماً وہ سب کے سب کسی نہ کسی اسباب و علل کا نتیجہ ہوتے ہیں جنھیں آزمائشات کے ذریعہ پہچانا جا سکتا ہے جیسے کہ فیزیک، بیا لوجی ، کیمسٹری اور روحی علوم میں ترکیبات کے نتیجہ میں وجود میں آنے والے موجودات کی جزئیات کا علم ہو جاتا ہے لیکن بعض نادر مواقع میں وجود میں آنے والے بعض موجودات کاوجود میں آنا، بالکل متفاوت ہوتا ہے، جس کے تمام اسباب و علل کو حسی آزمائشات کے ذریعہ معلوم نہیں کیا جاسکتا، بلکہ صرف کچھ ایسے شواہد مل جاتے ہیں کہ جو اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ اس طرح کے موجودات کے پائے جانے میں کوئی دوسری علت کا ر فرما ہے ، جیسے کہ مرتاضوں (کے دریافت کرنے والوں) کے حیرت انگیز کام مختلف علوم کے ماہرین کا کہناہے کہ ایسے امور مادی اور تجربی قوانین کے تحت وجود میں نہیں آتے، لہٰذا اسے وہ ''خارق عادت '' کا نام دیتے ہیں۔

الٰہی خارق عادت امور۔

غیر عادی امور کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے خارق عادت امور کی ایک قسم، ایسے اسباب و علل پر مشتمل ہوتی ہے جو عادی تو نہیں لیکن بشر کے اختیار میں ضرور ہیں، جسے تعلیم اور تمرین کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے جیسے کہ مرتاضوں کے غیر عادی امور ، خارق عادت امور کی دوسری قسم: صرف اذن پروردگار سے واقع ہوتی ہے کہ جس کے اختیارات کبھی بھی اُن لوگوں کے سپرد نہیں کئے جاتے جواِس سے مر بو ط نہ ہوں، اِسی وجہ اس کی دو خصوصیات پیش کی گئی ہیں ،ایک تو یہ کہ ،یہ اس قابل نہیں کہ اس کو سیکھا اور سکھایا جا سکے،دوسرے یہ کہ کسی طاقت و قوت سے مرغوب نہیں ہوتے ، ایسے غیر عا دی امور اُس کے خاص بندوں سے مخصوص ہیں، جسے کبھی بھی ہوس باز اور گمرا ہ افراد کے سپردنہیںکیا جا سکتا، لیکن یہ صرف انبیاء (ع)سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ اولیاء الٰہی بھی اس سے سرفراز ہوتے ہیں ، اِسی وجہ سے علم کلام میں تمام خارق عادت امو ر کو معجزہ نہیں کہاجاتا ، لھذا وہ خارق عادت امور جو انبیاء (ع) کے علاوہ اولیاء کرام سے صادر ہوتے ہیں انھیں کرامت کہا جاتا ہے، اِسی طرح غیر عادی علوم بھی وحی نبوت سے مخصوص نہیں ہیں، لہٰذا جب ایسے علوم انبیاء (ع)کے علاوہ دوسروں کو عطا کئے جاتے ہیں تو اُسے الہام یا تحدیث یا انہیں جیسا دوسرا نا م دیا جاتا ہے۔

اس بحث کے ضمن میں خارق عادت امور (الٰہی اور غیر الٰہی) دو نوعیت سے جانے جا سکتے ہیں ، یعنی اگر خارق عادت امور کو انجام دینا قابل تعلیم و تعلم ہوتا ،یا کسی دوسرے میں اتنی طاقت ہوتی کہ اِن کے درمیان موانع یا خلل ایجاد کردے یا اِس کے اثر کو باطل کردے تو کسی بھی صورت میں یہ خدا کی جانب سے خارق العادہ امور کے حامل نہیں ہوسکتے تھے، جب کہ کسی شخص کی بد اخلاقی اور تباہ کاری کو خدا سے رابطہ نہ ہونے کی دلیل اور اُس کے امور کے نفسانی یا شیطانی ہونے کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔

اس مقام پر مناسب ہے کہ ایک دوسرے نکتہ کی طرف اشارہ کر دیا جائے کہ خارق العادہ

امور کا فاعل، خدا کو قرار دیا جا سکتا ہے (اگر چہ تمام مخلوقات منجملہ عادی موجودات کی فاعلیت کی نسبت بھی اُسی کی طرف ہے) اس اعتبار سے اس کا محقق ہونا خدا کے اذن خاص پر موقوف ہے(۲) اور اُنھیں واسطوں سے فرشتہ یا انبیاء (ع) کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے اِس لحاظ سے اس کی حثیت یا واسطہ یا فاعل قریب کی ہے ، جس طرح سے کہ قرآن میں مردوں کو زندہ کرنا، بیماروں کو شفاء دینا اور پرندوں کے خلق کرنے کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف نسبت دی گئی ہے،(۳) لہٰذا اِن دونوں نسبتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے اس لئے کہ خدا کی فاعلیت بندوں کی فاعلیت کے طول میں ہے۔

انبیاء (ع) کے معجزات کی خصوصیات۔

معجزہ کی تعریف میں جس تیسرے مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء (ع)کے معجزے ان کے د عوے کے صحیح ہونے کی علامت ہیں، اِسی وجہ سے جب کسی خارق عادت امر کہ جسے علم کلام میں معجزہ کہا جاتا ہے خدا کی اجازت پر منحصر ہونے کے علاوہ پیغمبرں کی پیغمبری کی دلیل ہوتے ہوئے اُس کے مفہوم میں معمولی تبدیلی کے ساتھ اُن خارق عادت امور کو بھی شامل ہوجاتا ہے جسے امامت کو ثابت کرنے کے لئے انجام دیا جاتا ہے، اور اِس طرح کرامت کی اصطلاح اُن خارق عادت امور سے مخصوص ہوجاتی ہے جو اوصیائِ الٰہی سے صادر ہوتے ہیں، جو ایسے غیر عادی امور کے مقابلہ میں ہے جس کا انحصار نفس اورشیطان پر ہو جیسے سحر، کہانت اور مرتاضوں کے افعال ،یہ قسم قابل

تعلیم و تعلم ہے اور طاقتور عوامل کے مقابلہ میں مغلوب بھی ہوسکتے ہے اور اُ س کا خدا کی جانب سے نہ ہونے کے سبب اُن کے انجام دینے والوں کو گنہگار اور فاسد عقیدے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔

اس مقام پر جس نکتہ کی طرف توجہ لازم ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء (ع)کے معجزات جس چیز کو براہ راست ثابت کرتے ہیں، وہ انبیاء (ع) کی نبوت کا دعوی ہے ، لیکن رسالت کے پیغامات کا صحیح ہونا اور اُن کے احکامات کی پیروی کرنا بھی براہ راست اس سے ثابت ہوجاتا ہے، یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق انبیاء علیہم السلام کی نبوت عقلی دلیل اور اُن کے پیغامات تعبدی دلائل کے ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔(۴)

سوالات

١۔ سچے پیغمبروں کو کن راستوں سے پہچانا جاسکتا ہے اور ان راستوں میں کیا فرق ہے؟

٢۔ جھوٹے نبیوں کی پہچان کیا ہے؟

٣۔ معجزہ کی تعریف کریں؟

٤۔ خارق لعادت امور کیا ہیں۔؟

٥۔ الٰہی خارق العادہ امور اور غیر الٰہی خارق العادہ امور میں کیا فرق ہے؟

٦۔ الٰہی خارق عادت امور کو کن راہوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے؟

٧۔ الٰہی خارق عادت امور کے درمیان انبیاء (ع) کے معجزات کی خصوصیات کیا ہیں؟

٨۔ معجزہ اور کرامت کی اصطلاح کو بیان کریں؟

٩۔ معجزہ خدا کا کام ہے یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا؟

١٠۔ معجزہ پیغمبروں کے سچے ہونے کی دلیل ہے یا اُن کے پیغامات کے صحیح ہونے کی؟

____________________

(١)کلمہ آیات مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے جیسے علم و قدرت، حکمت ، موجودات خواہ وہ عادی ہوں یا غیر عادی۔

(۲)سورۂ رعد۔ آیت /٣٧. سورۂ غافر۔ آیت /٧٨

(۳)سورۂ آل عمران۔ آیت/ ٤٩. سورۂ مائدہ۔ آیت/ ١١٠

(۴)اسی کتاب کے چوتھے اور چوبیسویں درس کی طرف رجوع کیا جائے.