درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 45412
ڈاؤنلوڈ: 2819

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45412 / ڈاؤنلوڈ: 2819
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

بتیسواں درس

اعجاز قرآن

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے

قرآن کا معجزہ ہونا

اعجاز قرآن کی صورتیں

فصاحت و بلاغت

صاحب قرآن کا اُمیِّ ہونا

اتفاق نظر اور عدم اختلاف

قرآن کا معجزہ ہونا۔

قرآن تنہا ایک ایسی آسمانی کتاب ہے کہ جس نے پورے دعویٰ کے ساتھ اعلان کردیا ہے کہ کسی میں بھی اس کی مثل لانے کی طاقت نہیں ہے یہاں تک کہ تمام جن و انس اکٹھا ہوجائیں، پھر بھی وہ اس کتاب کی نظیر لانے سے ناتواں ہیں(۱) بلکہ وہ اِس جیسی کتاب تو کیا، اِس کے دس سورہ(۲) بلکہ ایک ہی سورہ یہاں تک کہ تنہا ایک سطر کا جواب لانے سے، حد درجہ ناتواں ہیں۔(۳)

اس کے علاوہ نہایت تاکید کے ساتھ تمام انسانوں کو چیلنج کرتا ہے اور اِس کتاب کے جواب نہ لانے کی قدرت کو اِس کتاب او راس کتاب کے لانے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدائی ہونے کی دلیل قرار دیتاہے ۔(۴)

لہذا اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ خود اس کتاب نے اپنے معجزہ ہونے کی خبر دی ہے اور اسے لانے والے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اِس کتاب کے ابدی ہونے اور اپنی رسالت کی حقانیت پر جاودانی معجزہ قرار دیا ہے،بلکہ آج بھی چودہ صدیاں گذرجانے کے باوجود مختلف وسائل کے ذریعہ دوست و دشمن کے کانوں تک اس کے پیغامات پہنچ رہے ہیں اور اس طرح انسانوںپر حجت تمام ہورہی ہے۔

اور ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رسالت کا آغاز کیا تو سب سے پہلے آ پ کو اپنے سخت ترین دشمنوں سے مقابلہ کرنا پڑا کہ جھنوں نے اُس دین کو نابود کرنے کے لئے اپنی کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کیا، اور جب آپ کے دشمن اپنی دھمکیوں اور طمع دلانے وغیرہ سے مایوس ہوگئے تو آپ کے قتل کے لئے کمر ہمت باندھ لی، لیکن یہ بھی خدا کی جانب سے وحی کے مطابق مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کے ذریعہ باطل ہوگیا، اور آپ نے اپنی بقیہ عمر مکہ مشرکین اور دھوکے باز یہودیوں سے جنگ میں گذار دی، اور آپ کے چراغ حیات کے گل ہوتے ہوئے آج تک داخلی اور خارجی منافقین اس نورِ الٰہی کو خاموش کرنے کے درپے ہیں جنھوںنے اُسے خاموش کرنے کے لئے اپنی کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کیا اور اگر قرآن جیسی کتاب لانا، ان کے بس میں ہوتا، تو وہ ایک لمحہ کی تاخیر بھی نہ کرتے۔

آج جب دنیا کی ظالم طاقتوں نے اپنے جبری تسلّط کی راہ میں اسلام کو سب سے بڑے دشمن کے عنوان سے پہچان لیا ہے اور اس سے مقابلہ کے لئے اپنی پوری توانائی کے ساتھ جد و جہد شروع کردی ہے، تمام مالی، سیاسی، تبلیغاتی، علمی، امکانات کو اکٹھا کرلیا ہے اگر ان لوگوں میں اتنی بساط ہوتی کہ قرآن کی صرف ایک سطر کے ماند کوئی عبارت بنالیتے تو اپنے وسائل اور تبلیغات کے ذریعہ دنیا کے چپہ چپہ میں اُس کا اعلان کردیتے، اِس لئے کہ اسلام سے مقابلہ کے لئے یہ آسان ترین راستہ ہے۔

لہٰذا اگر انسان سمجھ دار اور با شعور ہو تو ایسے قرائن اور حالات کو دیکھتے ہوئے مان لے گا کہ قرآن ایک لا ثانی او رجاودانی کتاب ہے بلکہ کوئی فرد ،یا جماعت تعلیم و تدریس ،یا تمرین کے ذریعہ اس جیسی کتاب نہیں لا سکتا، یعنی یہ کتاب ایک معجزہ کی تمام خصوصیات کا (خارق عادت ہونا) الٰہی اور غیر قابل تقلید ہونا، نبوت کے دعویٰ کی حقانیت کی دلیل بننے کی مالک ہے اسی وجہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت اور دین اسلام کی حقانیت پر دلیل قاطع ہے، اور بشر کے لئے سب سے عظیم نعمت اور کیا ہوسکتی ہے کہ اُس نے اِس کتاب کو اِس طرح نازل کیا ہے کہ تا ابد معجزہ بنی رہے ،نیز اپنی صداقت کی دلیل سے سرفراز رہے وہ بھی ایسی دلیل کہ جس کی دلالت کو سمجھنے کے لئے تحصیل اور ت مہارت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہر شخص کے لئے قابل فہم ہے۔

اعجاز قرآن کی صورتیں۔

اب تک ہمیں یہ اجمالاً معلوم ہوگیا ہے کہ قرآن خدا کا کلام اور معجزہ ہے لہٰذا اِس کے بعد اُس کے معجزہ ہونے کی صورتوں کی طرف اشارہ کریں گے۔

الف ۔قرآن کی فصاحت و بلاغت۔

قرآن کے اعجاز کی پہلی صورت اس کی فصاحت و بلاغت ہے یعنی خداوند متعال نے اپنے مقصود کو بیان کرنے کے لئے خوبصورت اور پرُ معنی ترین الفاظ کے ذریعہ منظم اور بہترین ترکیب کے ساتھ پیش کیا ہے تا کہ معنی مقصود کو آسان اور بنحو اَحسن اپنے مخا طبین کو سمجھا سکے، لہٰذا ایسے الفاظ کا انتخاب اور انھیں بلند معانی کے لئے مناسب جملوں کی خوبصورت لڑیوں کی ترکیب صرف اُسی ذات کے بساط میں ہے کہ جو پوری طرح الفاظ کی خصوصیات، معانی کے دقائق، اور ان دونوں میں موجود رابطوں پرتسلط ہو، نیز معانی کی بلندیاں اور مقام و محل کی رعایت کرتے ہوئے بہترین الفاظ اور عبارتوں کا انتخاب کرنے اور ایسا وسیع احاطہ، وحی اور الہام الٰہی کے بغیر کسی بھی انسان کے لئے میسر نہیں ہے۔

قرآن کا ملکوتی طرز سخن اور لاجواب لحن نیز الفاظ ومعانی کی وسعت و گہرائی ،عربی زبان سے آشنا نیز فن فصاحت و بلاغت کے ماہر ین کے لئے قابل درک ہے ، لیکن فصاحت و بلاغت کے معجزہ ہونے کی تشخیص اُنھیں لوگوں کے بس میں ہے جو مختلف فنون میں ید طو لی سے سرفراز ہوں، قرآن کے مقابلہ میں دوسری فصیح و بلیغ عبارتوں کے علاوہ اپنی توانائیوں اور مہارتوں کو آزماچکے ہوں، اور یہ کام صرف عرب کے ماہر اور زبردست شعرا کرسکتے تھے، اِس لئے کہ عربوں کے لئے سب سے بڑا ہنر شعر گوئی تھی جو آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے دوران اپنے عرو ج پر پہنچ چکی تھی، شعرا اپنے بہترین اشعار کو ادبی تنقید وں کے بعد اُسے بہترین ہنر کے عنوان سے پیش کرتے تھے۔

بنیادی اعتبار سے حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی نبی کا معجزہ اُس زمانہ کے علم و ہنر کے تناسب و تقاضے کے مطابق ہو ، تا کہ اُس زمانہ کے لوگ اُس معجزہ کے اعجاز کو علوم بشری کے مقابلہ میں درک کرسکیں، جیسا کہ امام ہادی علیہ السلام سے جب ابن سکیت، نے سوال کیا کہ کیوں خدا نے حضرت موسی علیہ السلام کا معجزہ ، ید بیضاء ،اور عصا کو اژدھا میں تبدیل کردینا، اور اِسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کا معجزہ، بیماروں کو شفا دینا ،اور حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا معجزہ ،قرآن کو قرار دیا''؟ تو آپ (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا، ''حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ میں رائج ہنر ،سحر اور جادو تھا، اِسی وجہ سے خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ،جادو سے مشابہ قرارا دیا ،تا کہ وہ لوگ معجزہ جیسے عمل کی ناتوانی کو درک کرسکیں ،اور حضرت عیسی علیہ السلام کے دور میں طبابت اپنے عروج پر تھی لھذا خدا نے حضرت عیسی علیہ السلام کا معجزہ لا علاج بیماروں کو شفا دینا قرار دیا، تا کہ لوگ اِس معجزہ کے اعجاز کو بخوبی درک کرسکیں، لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دور میں رائج ہنر سخن سرائی اور شعر گوئی تھی، لہٰذا خدا نے قرآن کو بہترین اسلوب کے ساتھ ناز ل کیا، تا کہ قرآن کے ا عجاز کی برتری کو بخوبی درک کیا جا سکے ۔(۵)

ہاں اُس دور کے زبردست ادباء جیسے ،ولید بن مغیرہ مخزومی، عقبہ بن ربیعہ، اور طفیل بن عمرو، نے قرآن کی فصاحت و بلاغت اور بشر کے بہترین کلاموں پر اُس کی برتری کا اقرارا کیا(۶) یہاں تک کہ ایک صدی کے بعد ابن ابی العوجائ، ابن مقفع، ابو شاکر دیصانی ،اور عبد الملک بصر ی، جیسے افراد نے قرآن کے مقابلہ میں زور آزمائی کرنے کی کوشش کی اور مسلسل ایک سال تک اس کا جواب لانے میں سعی و کوشش کرتے رہے لیکن وہ جواب میں ایک حرف بھی پیش نہ کر سکے، یہاں تک کہ مجبور ہو کر قرآن کی عظمت کے مقابلہ میں گھٹنے ٹیک دئے، اور جب وہ لوگ مسجد الحرام میں اپنی ایک سال کی زحمتوں کا نتیجہ جمع کرنے کے لئے اکٹھا ہوئے تو اسی ہنگام امام صادق علیہ السلام ان لوگوں کے پاس سے گذرے اور اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( قُل لَئِنِ اجتَمَعَتِ الاِ نسُ وَ الجِنُّ عَلی اَن یَتُوا بِمِثلِ هَذَا القُرآنِ َلا یَتُونَ بِمِثلِهِ وَلَوکَانَ بَعضُهُم لِبَعضٍ ظَهِیراً ) (۷)

اے رسول!صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اِن سے کہدو کہ اگر دنیا کے سارے جن و انس اس بات پر اکٹھے ہو جائے کہ اِس قرآن کا مثل لے آئیں تو اِس کا مثل نہیں لاسکتے اگر چہاس بابت ایک دوسرے کی مدد بھی کریں۔

ب۔ قرآ ن لانے والے کا اُمیِّ ہونا۔

قرآن اپنے معمولی حجم کے باوجود فردی و اجتماعی احکام و قوانین نیز اسلامی معارف کا سمندر کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے، جنھیں جمع کرنے اور ا س سلسلہ میں تحقیق کے لئے علو م و فنون میں ماہر افراد کی ایک جماعت کی ضرورت ہے جو سالہا سال اس مسئلہ کے تحت جستجو و تحقیق کریںاور آہستہ آہستہ اِس میں موجود اسرارہ سے پردہ گشائی کریں اگر چہ اس کے تمامحقائق اور اسرار سے پردہ کشائی فقط انھیں لوگوں کے بساط میں ہے کہ جو علم الٰہی کے مالک اور خدا کی جانب سے تائید شدہ ہوں قرآن میں موجود بلند معارف کے مجموعے، اخلباقی دستورات کے باارزش خزانے، عادلانہ اور منظم قوانین، عبادتوں کے باب میں فردی و ا جتما عی احکامات کا حکمت کی بنیاد پر استوار ہونا، مفید ترین نصیحتیں ،عبرتوں سے بھر پور داستانیں، تعلیم و تربیت کے طور طر یقے، یا ایک جملہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ قرآن اُن تمام اصول و قوانین پر مشتمل ہے جو انسان کی دنیوی و آخروی سعادتوں کے لئے ضروری ہیں، جسے بہترین اسلوب کے ساتھ اس طرح جمع کردیا ہے کہ جس سے ایک سماج کے مختلف افراد اپنی استعدادکے مطابق سمجھ سکیں۔

حقائق و معارف کے ایسے مجموعہ کو جمع کرنا عادی انسانوں کی بساط کے باہر ہے لیکن جو چیز آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے وہ یہ کہ ایسی با عظمت کتاب ایک ایسے شخص کے ہاتھوں پیش کی گئی ہے جس نے نہ مکتب دیکھا، نہ قلم کو ہاتھ لگایا ، بلکہ ایسے سماج میں تربیت پائی جو تمدن سے کوسوں دور تھا، اور اس سے بھی عجیب غریب بات یہ ہے کہ بعثت سے پہلے چالیس سال تک ایسا کوئی کلام بھی اُس ذات سے سننے میں نہیں آیا، اور رسالت کے دوران جو کچھ بھی وحی کے عنوان سے پیش کیا، ایک ایسے مخصوص اسلوب و ترکیب پر مشتمل تھا جو ا سے دوسرے کلاموں کے درمیان ممتاز کردیتا تھا یہاں تک کہ خود وحی اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذاتی کلام میں فرق واضح و روشن رہتا تھا۔

قرآن اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہو ے فرماتا ہے:

( وَمَا کُنتَ تَتلُوا مِن قَبلِهِ مِن کِتٰبٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِیَمِینِکَ اِذًا لَّارتَابَ المُبطِلُونَ ) (۸)

اے رسول! قرآن سے پہلے نہ تو تم کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے تم لکھا کرتے تھے ایسا ہوتا تو یہ جھوٹے ضرور تمہاری نبوت میںشک کرتے۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتا ہے :

( قُل لَّو شَائَ اللَّهُ مَا تَلَوتُهُ عَلَیکُم وَلَااَدرَٰیکُم بِهِ فَقَد لَبِثتُ فِیکُم عُمُراً مِّن قَبلِهِ َفلََا تَعقِلُونَ ) (۹)

اگر خدا چاہتا تو میں یہ کتاب تمہارے سامنے پیش نہ کرتا اور اس سے آگاہ نہ کرتا جیسا کہ اس سے پہلے تمہارے درمیان زندگی گذاری کیا تم لوگ کچھ سمجھ سکے؟

شاید قرآن میں سورہ بقرہ کی آیت (٢٣) ''فَأتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثلِہِ'اسی اعجاز کی طرف اشارہ ہو یعنی احتمال یہ ہے کہ (مثلہ) کی ضمیر (عبدنا) کی طرف پلٹ رہی ہو۔

اگر فرض محال کو ممکن مان لیا جائے کہ ہزاروں دانشمند افراد ایک دوسرے کی مدد سے ایسی کتاب کے جواب لانے میں کامیاب ہوجائیں لیکن کسی بھی صورت میں ایک مکتب میں جانے والے اور درس نہ پرھنے والے شخص سے ایسی کتاب کا جواب لانا غیر ممکن ہے۔

لہٰذا ایک اُ مِّی شخص کے ذریعہ ایسی بے نظیر خصوصیات پر مشتمل کتاب کا ظاہر ہونا قرآن کے اعجاز کے دوسرے پہلوں کی طرف ایک اشارہ ہے۔

ج۔ اتفاق نظر اور عد م اختلاف۔

قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو (٢٣) سال کی مدت میں تلخ و شیریں حوادث ، نشیب و فراز سے بھر پور حالات کے باوجود اُس کے مطالب میں روانی او راعجاز کے پہلو برقرار ہیں۔لہٰذ ظاہر و باطن، الفاظ و معانی میں روانی قرآن کے اعجاز کی ایک دوسری صورت ہے خود قرآن میں اسی نکتہ کی طرف ایک اشارہ موجود ہے :( اَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ القُرآنَ وَلَو کَانَ مِن عِندِ غَیرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوا فِیهِ اختِلاَفاً کَثِیراً ) (۱۰) تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے اور یہ خیال نہیں کرتے کہ اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے آیا ہوتا تو ضرور اس میں ا ختلاف پاتے۔

وضاحت:

ہر انسان ہمیشہ دو قسم کی حالتوں سے دوچار ہو تا ہے،

پہلے یہ کہ برابر اس کی معلومات اور مہارتوں میں اضافہ ہوتار ہتا ہے اور یہ افزائش اُس کے کلام میں پوری طرح اثر انداز بھی ہوتی ہے اور طبیعی اعتبار سے بیس سال کے اندر نمایاں فرق آجاتا ہے۔

دوم: یہ کہ زندگی کے مختلف حوادث اور مختلف حالات جیسے یاس و امید، خوشی و غم اور اضطراب و آرام، احساسات وخیالات کی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں، لہٰذاُ اس کے حالات کا اسطرح سے متغیر ہوتے رہنا اُس کے کلام میں شدید اختلاف اور ضد و نقیضن کا سبب بنتا ہے، در اصل رفتار و گفتار میں تبدیلی روحی حالات کے متغیر ہونے کا سبب ہوتے ہیں کہ جو خود طبیعی اور اجتماعی اوضاع و احوال کے تابع ہیں۔

اب اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ قرآن کریم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اپنی لکھی ہوئی کتاب ہے تو آپ کی زندگی کے حوادث، تلخ و شیر یں حالات کی وجہ سے یہ کتاب بے شمار اختلافات اور ضد و نقیضن سے پرُ ہونی چاہیے تھی لیکن ہم ایسے اختلاف کامشاہدہ نہیں کررہے ہیں۔

لہٰذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کے مضامین میں عدمِ اختلاف اور اتحاد کا ہونا ،اُس کی فصاحت و بلاغت کا معجزہ ہے نیز اس بات کی دلیل ہے کہ اس کتاب کا سرچشمہ خداوند متعال کی ذات ہے جو بدلتے ہوئے حالات پر مسلط اور طبیعت پرحاکم ہے۔

سوالات

١۔ قرآن کس طرح اپنے معجزہ ہونے کا دعویٰ کررہا ہے وضاحت فرمائیں ؟

٢۔ اعجاز قرآن پر اجمالی دلیل کیا ہے؟

٣۔ کیا یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ اب تک کسی نے بھی اس کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا، یا اس کاجواب لائے ہوں اور ہم اس سے بے خبر ہوں؟ کیوں؟

٤۔ قرآن کی حیرت انگیز بلاغت کی تشریح کریں؟

٥۔ اعجاز قرآن اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اُ مِّی ہونے میں کیا کوئی ربط برقرا رہے؟

٦۔ قرآن میں اختلاف کا نہ ہونا کیونکر اس کے معجزہ ہونے پر دلالت کرتا ہے؟

____________________

(١)سورۂ بنی اسرا ئیل آیت/ ٨٨

(٢)سورۂ ہود آیت/ ١٣

(٣) سورۂ یونس/ ٣٨

(٤)سورۂ بقرہ آیت /٢٤٢٣

(۵)اصول کافی، ج۔١ ص٢٤.

(۶)اعلام الوریٰ ص٢٧ ٢٨ سیرہ ابن ہشام ج١ ص٤١٠.

(۷)سورۂ بنی اسرائیل آیت٨٨۔ تفسیر نور الثقلین اِسی آیت کے ضمن میں رجوع کریں.

(۸)سورۂ عنکبوت ۔ آیت٤٨

(۹)سورۂ یونس آیت ١٦

(۱۰)سورۂ نسائ۔ آیت ٨٢

تیتیسواں درس

قرآن کا تحریف سے محفوظ رہن

مقدمہ

قرآن میں کسی چیز کا اضافہ نہ ہون

قرآن سے کسی چیز کا کم نہ ہون

مقدمہ

جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کردیا ہے کہ ضرورتِ نبوت کی دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ الٰہی پیغامات صحیح و سالم انسانوںتک پہنچیں، تا کہ اس پر عمل کرتے ہوئے انسان اپنی دنیا و آخرت کی سعادتوں تک رسائی حاصل کر سکے۔

لہٰذا قرآ ن کا لوگوں تک پہنچنے تک محفوظ رہنا دوسری آسمانی کتابوں کی طرح محتاج بحث نہیں ہے لیکن ہمیںیہ کہاں سے معلوم کہ دوسری آسمانی کتابیں بشر کے اختیار میں آنے کے بعد تحریفات کا شکار ہوئیں یا ایک مد ت گذرنے کے بعد طاق نسیاں کا شکار ہوگئیں، جیسا کہ آج ہمارے درمیان حضرت ابراہیم و حضرت نوح علیہما السلام کی کتابوں کا کوئی اثر موجود نہیں ہے۔ اور حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی کتابیں اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں ہیں۔ لہٰذا اِن مطالب کے پیش نظر یہ سوال اُٹھتا ہے کہ آج ہمارے پاس جو آسمانی کتاب کے عنوان سے قرآن موجود ہے کیا یہ وہی کتاب ہے جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوئی اس میں کسی بھی قسم کی کوئی تحریف ، کمی و زیادتی نہیں ہوئی ہے؟

البتہ وہ لوگ کہ جنھیں اسلام اور مسلمین کی تاریخ کا تھوڑا ، بہت بھی علم ہے ، وہ جانتے ہیں کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے جانشین ائمہ علیہم السلام نے قرآن کی کتابت اور اُس کی آیات کے حفظ کرنے میںکیا اہتمام کیا ہے ، یہاں تک کہ تاریخ کے مطابق تنہا ایک جنگ میں قرآن کے حافظین میں سے سترافراد شہید کردئے گئے، چودہ صدیوں سے قرآن کو تواتر سے نقل کرنے اور اُس کی آیات و کلمات اور حروف کی تعداد کو شمار کرنے میں مصروف ہیں وہ اس بات سے با خبر ہیں ایسے لوگ کھبی بھی قرآن میں معمولی تحریف کا امکان بھی نہیں دے سکتے، لیکن اگر تاریخ کے ایسے قطعی قرائن سے صرف نظر کرلیا جائے تو عقلی و نقلی دلائل کے ذریعہ قرآن کے سالم رہنے کو ثابت کیا جاسکتا ہے، یعنی پہلے مرحلہ میں دلیل عقلی کی بنیاد پر قرآن میں کسی بھی چیز کے زیادہ ہونے کو ثابت کرنے کے بعد خود قرآن کی آیات کے سہار ے اُس میں سے کسی بھی چیز کے کم نہ ہونے کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔

اسی وجہ سے قرآن کے سالم رہنے کی بحث کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

قرآن میں کسی چیز کا اضافہ نہ ہونا۔

قرآن میں کسی بھی چیز کے زیادہ نہ ہونے کا مسئلہ تمام مسلمین بلکہ جہان کے تمام باخبر افراد کے نزدیک قبول شدہ ہے، بلکہ کوئی ایسا حادثہ بھی رونما نہیں ہوا کہ جس کی وجہ سے قرآن میں کسی بھی چیز کے زیادہ ہونے کا احتمال دیا جاسکے، اور اِسی اضافہ کے لئے کسی سند کا کوئی بھی وجود نہیں ہے، بلکہ عقلی دلیل کی بنیاد پر اس مسئلہ کو اس طرح باطل کیا جاسکتا ہے کہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ قرآن کے معانی میں کسی کامل معنی کا اضافہ ہوا ہے تو اُس کا مطلب یہ ہوگا قرآن کا مثل یا نظیر لانا ممکن ہے، حالانکہ اعجاز قرآن اوربشر کی ناتوانی کے پیش نظر یہ امر باطل ہے، اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ تنہا ایک کلمہ یا ایک چھو ٹی آیت کا صرف اضافہ ہوا ہے تو اسکا لازمہ یہ ہے کہ نظم سخن میں خلل وارد ہوا ہے اور قرآن اپنی اعجاز آمیز شکل و صورت سے خارج ہوگیا ہے، اور اس صورت میں قابلِ تقلید اور اُس کے مثل لانے کا امکان پیدا ہوجائے گا، اس لئے کہ قرآن، آیتوں کے اعجاز آمیز نظم، کلمات و حروف کے انتخاب پر منحصر ہے ،لہٰذا اُن میں خلل اور تغیر کے وارد ہوتے ہی وہ اپنی اصلی حالت سے خارج ہوجائے گا۔

لہذا جس دلیل کے ذریعہ قرآن کا اعجاز ثابت ہے اُسی دلیل کے ذریعہ قرآن کا اضافات سے محفوظ رہنا ثابت ہے، نیز اُسی دلیل کے ذریعہ کسی کلمہ یا جملہ کا کم ہونا اس کے کم ہوتے ہی حالت اعجاز کے ختم ہوجانے کی نفی کرتا ہے ، لیکن قرآن سے کسی کامل سورہ کے کم نہ ہونے یا قرآن سے ایک کامل مطلب کا اس طرح سے خارج ہوجانا کہ ُاس کے اعجاز میں خلل وارد نہ ہو، اس کے نہ ہونے کو ثابت کرنے کے لئے دوسرے دلائل کی ضرورت ہے۔

قرآن سے کسی چیز کا کم نہ ہونا۔

آج تک علماء اسلام خواہ سنی ہوں یا شیعہ برابر اس امر کی تاکید کرتے رہے ہیں کہ جس طرح قرآن میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوا اسی طرح اُس سے کچھ کم بھی نہیں ہوا ہے انھوں نے اپنے اِس مطلب کے لئے بے شمار دلیلیں پیش کی ہیں، لیکن احادیث کی کتابوںمیں بعض من گھڑت حدیثوں کو نقل کرنے کی وجہ سے بعض معتبر روایتوں(۱) سے غلط مفہوم کو حاصل کرتے ہوئے بعض نے اِس مطلب کا احتمال اور بعض نے قرآن سے بعض آیات کے کم ہونے کی تائید بھی کی ہے۔

قرآن کا کسی بھی قسم کی تحریف خواہ اضافہ کے معنی میں ہو یا کم ہونے کے معنی میں۔

اس سلسلہ میں تاریخ کے قطعی قرائن ہونے کے علاوہ قرآن سے ایسے مطالب کا حذف ہوجانا جو اُس کے اعجاز کو ختم کردے، دلیلِ اعجاز کے ذریعہ باطل ہے بلکہ قرآن کی ایک سورہ یا ایک آیت کے حذف ہونے سے محفوظ رہنے کو خود قرآن کریم کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ہے۔

یعنی جب یہ امر واضح ہوگیا کہ تمام قرآن خدا کا کلام ہے اور اُس میں ایک حرف کا بھی نہیں ہوا ہے لہذا اُس کی آیات کے مفاہیم نقلی و تعبدی دلائل کے عنوان سے حجت ہیں، لہٰذا قرآن کی آیت سے حاصل ہونے والے مفاہیم میں سے ایک مفہوم قرآن کا خدا کی جانب سے ہر قسم کی تحریف سے محفوظ رہنے کی ضمانت لینا ہے، جبکہ دوسری آسمانی کتابوں کی حفاظت خود اُسی اُمت کے حوالہ تھی(۲) یہی مفہوم سورۂ حجر کی آیت نمبر(٩) میں موجود ہے( 'اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِکرَ وَاِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) یہ آیت دو جملوں پر مشتمل ہے، پہلا جملہ( اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذَّکرَ ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن کو خدا نے نازل کیا ہے اور نزول کے دوران اِس میںکسی بھی قسم کا کوئی تصرف بھی نہیں ہوا ہے اور دوسرا جملہ( وَاِناَّ لَهُ لحَافِظُونَ ) )اس جملہ میں نہایت تاکید ہوئی ہے جو اِس بات پر دلالت کرتی ہے کہ خدا نے اِس میں کسی بھی قسم کی تحریف نہ ہونے کی ضمانت لے رکھی ہے

یہ آیت اگر چہ قرآن میں کسی بھی قسم کے اضافہ کی نفی کررہی ہے لیکن ایسی تحریف کے نہ ہونے پر اِس آیت سے بھی استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے اِس لئے کہ قرآن میں کسی بھی آیت کے اضافہ کے فرض میں وہ آیت خود بھی شامل ہے ،لہٰذا اِس آیت کے ذریعہ اِس فرض کو باطل کرنا صحیح نہیں ہے، اِسی وجہ سے ہم نے قرآن کے معجزہ ہونے کے ذریعہ اس فرضیہ کو باطل کیا ہے اور پھر اِسی آیت کے ذریعہ کسی آیت یا سورہ کا اس طرح سے حذف ہونا جو قرآن کے اعجاز آمیز نظم میں خلل وارد نہ کرے اس قسم کے حذف سے قرآن کے محفوظ رہنے کو بھی ثابت کردیا ہے، پس اسطرح قرآن کا تحریف (خواہ اضافہ کے ساتھ ہو یا حذف ہونے کے ساتھ) سے محفوظ رہنا عقلی اور نقلی دلائل کی ترکیب سے ثابت ہوجاتا ہے۔

اِس بحث کے آخر میں اِس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا لازم سمجھتے ہیں کہ قرآن کا تحریف سے محفوظ رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن جہاں بھی ہو کتابت یا قرائت کے اعتبار سے محفوظ یا غلط تفسیراور تحریفِ معنوی سے پوری طرح پاک ہو، یا نزول کے مطابق اس کے سورہ اور آیتیں منظم ہوں

''( بما استحفظو امن کتاب الله وکانوا علیه شهدائ' )

،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن جس مقدار میں نازل ہوا ہے اسی طرح انسانوں کے درمیان کم و زیادتی کے بغیر موجود ہے تا کہ طالبان حقیقت اپنا مقصود حاصل کرسکیں، لہٰذا قرآن کے بعض نسخوں کا ناقص یا کتابت کے اعتبار سے غلط ہوناقرائتوںکے اختلاف یا نزول قرآن کے مطابق آیات اور سورں کا منظم نہ ہونا مختلف تفسیرں اورمعنوی تحریفوں کا ہونا قرآن کا تحریف سے محفوظ رہنے کے خلاف نہیں ہے۔

سوالات

١۔ قرآن کا تحریف سے محفوظ رہنے کے مسئلہ کو بیان کریں؟

٢۔ تاریخی اعتبار سے قرآن کے تحریف سے محفوظ رہنے پر دلائل کیا ہیں؟

٣۔ قرآن کا محفوظ رہنا کس طرح ثابت کیا جاسکتا ہے؟

٤۔ قرآن میں زیادتی کے نہ ہونے کو ثابت کریں؟

٥۔کس دلیل کی بنیاد پر قرآن سے کچھ بھی کم نہیں ہوا ہے؟

٦۔ کیا انھیں دلیلوں کے ذریعہ قرآن میں اضافہ نہ ہونے کو ثابت کیا جا سکتا ہے ؟ کیوں اور کیسے؟

٧۔اس امر کی وضاحت کریں کہ قرآن کا قرائت یا کتابت کے اعتبا ر سے ناقص ہونا معنوی تحریفوں اور مختلف تفسیروں کا ہونا کیونکر قرآن کا کسی بھی قسم کی تحریف سے محفوظ رہنے کے مسئلہ کے خلاف نہیں ہے ۔؟

____________________

(١)جیسے کہ وہ روایات جو آیتوں کی تفسیر یا اس کے بیان کرنے یا غلط تفسیروں اور معنوی تحریفوں کو باطل کرنے والی ہیں، جن سے یہ سمجھا گیا ہے کہ وہ قرآن کے کلمات کے حذف ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

(۲)جیسا کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر (٤٤) میں علماء یہود و نصاریٰ کے سلسلہ میں فرماتا ہے ۔