درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 45415
ڈاؤنلوڈ: 2821

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45415 / ڈاؤنلوڈ: 2821
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

چالیسواں درس

حضرت مہدی (عج)

مقدمہ

جہانی حکومت الٰہی

وعدہ الٰہی

چند روایتیں

غَیبت اور اُس کا راز

مقدمہ

گذشتہ بحث کے ضمن میں ہم نے اُن روایتوں کو بیان ہے کیاجس میں ائمہ علیہم السلام کے اسماء درج تھے ،لیکن ان روایتوں کے علاوہ دوسری بہت سی روایتں ہیں جنھیں شیعہ اور سنی علماء نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کی ہیں ،جس میں یا تو ائمہ اطہار علیہم السلام کی تعداد کاتذکرہ ہے یا بعض روایتوں میں ان حضرات کا قریش سے ہونے کی طرف اشارہ ہے یا بعض روایتوں میں ان کی تعداد کو نقباء بنی اسرائیل کی تعداد کے مطابق ہو نے کا اشارہ ہے، اسی طرح بعض روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ ان میں نو امام، امام حسین علیہ السلام کے صلب سے ہوں گے، اوربعض روایتوں میں جنھیں شیعہ اور سنی علماء نے صحیح سندکے ساتھ نقل کیا ہے ان میں ان کے ا سماء مبارک در ج ہیں(۱) اور انھیں تمام ائمہ علیہم السلام کے ہونے کی طرف اشارہ موجود ہے جنھیں ہم یہاں بیان کرنے سے قاصر ہیں(۲)

بلکہ اس درس کو امام حجت مہد ی بن حسن علیہ السلام سے مخصوص کرتے ہیں، اور اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف مہم نکات کی طرف اشارہ کریں گے۔

جہانی حکومت الٰہی۔

ہمیں یہ نکتہ اچھی طرح معلوم ہوچکا ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کا ہدف لوگوں کو رشد تکا مل( بہ تدریج کمال تک پہونچانے) کے راستہ پر گامزن کرنا تھا ، اور یہ ھدف وحی الھیکو لوگوں کی دست رس میں قرار دینے ہی کے ذریعہ متحقق ہو سکتا ہے ، اِس ہدف کے علاوہ اُن کے اور دوسرے اہداف بھی تھے جیسے لوگوں کی عقلوں اور اُن میں بااستعداد حضرات کی روحی اور معنوی اعتبار سے تربیت کرنا وغیرہ ۔

یعنی، انبیاء علیہم السلام، خدا پرستی، عدل و داد کی حکومت ،اور الٰہی آر زوؤں کے مطابق ایک اچھے اور ہدایت یافتہ سماج کو قائم کرنا چاہتے تھے، لہٰذااُن میں سے ہر ایک نے اپنے اہداف کے حصول کے لئے قدم اٹھائے بلکہ ان میں سے بعض حکومت الٰہی کو قائم کرنے میں کامیاب بھی ہوئے،' لیکن اُن میں سے کسی کے لئے بھی جہانی حکومت قائم کرنے کے شرائط مہیا نہ ہوسکے۔

لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اُن کی تعلیمات ناقص ، یا اُن کی رہبری میں نقص تھا ، یا ہدف الٰہی محقق نہ ہوسکا، اس لئے کہ اُن کا ہدف تو صرف یہ تھا کہ انسانوں کے مختار ہوتے ہوئے کمال کی جانب حرکت کے لئے شرائط فراہم کئے جائیں۔

( لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللَّهِ حُجَّة بَعدَ الرُّسُلِ ) (۳)

تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کی خدا پر کوئی حجت باقی نہ رہ جائے۔

یعنی لوگوں پر دین حق اور الٰہی پیغمبروں کو ماننے کے لئے کوئی جبر نہیں ہے، اور یہ ہدف حاصل ہوچکا ہے۔

لیکن پھر بھی خدا نے اپنی کتابوںمیں پوری زمین پر حکومت الٰہی کے برپا ہونے کی خوشخبری دی ہے جسے دین حق کے قبول کرنے کے لئے شرائط کے فراہم ہونے کی پیشنگوئی کا نام دیا جا سکتا ہے، جو با عظمت جماعتوں اور افراد کے علاوہ غیبی مدد کے ذریع حکومت جہانی کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو برطرف کرکے عدل و انصاف کی حکومت قائم ہوگی، ستمگروں سے نالاں معاشرے او رمختلف مذاہب و حکمرانوں سے عاجز سماج کو نجات ملے گی اس ہدف کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت اور دین جاودانی کا انتہائی ہدف مانا جا سکتا ہے جیسا کہ خدا وندے عالم فرماتا ہے(( لِیُظهِرَ هُ عَلَی الدِّینِ کُلِّهِ ) (۴)

تا کہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے

چونکہ امامت، نبوت کو کامل کرنے والی اور حکمت خاتمیت کو محقق کرنے والی ہے لہٰذا اِس سے یہ نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے کہ یہ ہدف آخری امام علیہ السلام کے ہاتھوں پورا ہوگا، اور یہ وہی مطلب ہے کہ جس کی طرف اُن روایتوں میں تاکید کی گئی ہے کہ جو امام زمانہ (عج) اوراحنا لہ الفداہ کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں۔

اب اِس کے بعد اُس حکومت جہانی کے سلسلہ میں بشارت دینے والی آیتوںکی طرف اشارہ کرتے ہیںاور اُس کے بعد اِسی ضمن میں موجود روایتوں کا تذکر ہ کریں گے۔

وعدۂ الٰہی۔

خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے توریت و انجیل میں یہ بشارت دیدی ہے کہ زمین کے وارث صالح افراد ہوں گے۔

( وَلَقَد کَتَبنَا فِی الزّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِ َنَّ الاَرضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ ) (۵)

اور ہم نے یقیناً زبور میں لکھ دیا تھا کہ روئے زمین کے وارث ہمارے نیک بندہ ہوں گئے ،

ایک دوسری روایت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس مضمون کے مشابہ عبارت موجود ہے(۶) اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ وعدہ ضرور ایک دن پورا ہوگا۔

اسی طرح ایک دوسرے مقام پر داستان ِفرعون کے بعد نقل کرتا ہے

( وَنُرِیدُ اَن نَّمُنَّ عَلَی الذِّینَ استضُعِفُوا فِی الاَرضِ وَ نَجعَلَهُم اَئِمَّةً و نَجعَلَهُمُ الوَارِثِینَ ) (۷)

اور ہم تو یہ چاہتے ہیں جو لوگ روئے زمین پر کمزو کردئے گئے ہیں اُن پر احسان کریں اور ا نھیں لوگوں کو پیشوا بنائیں اور انھیں کو اِس زمین کا مالک و وارث قرار دیں۔

یہ آیت گرچہ بنی اسرائل کے سلسلہ میں ہے، فرعون کی ہلاکت کے بعد اُن کا حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن (نرید) کی تعبیر ایک سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے اسی وجہ سے بہت سی روایتوں میں اسی آیت کو حضرت مہدی ( عج) کی جہانی حکومت کے لئے دلیل بنایا گیا ہے۔(۸)

نیز قرآن نے ایک دوسرے مقام پر مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم میں سے جو بھی واقعی ایمان لائے ،اور نیک اعمال انجام دے ،وہ زمین کا خلیفہ ہوگا اور پورے امن و امان کے ساتھ خدا کی عبادت کرے گا۔

( وَ عَدَ اللَّهُ الَّذینَ آمَنُوا مِنکُم وَ عمِلُوا الصّالِحَاتِ لَیَستَخلِفَنَّهُم فِی الاَ ر ض ِ کَمَا استَخلَفَ الّذِینَ مِن قَبلِهِم وَلیُمَکِنَنَّ لَهُم دِینَهُمُ الَّذ ارتَضَیٰ لَهُم وَلَیُبَدِلَنَّهُم مِّن بَعدِ خَوفِهِم اَمنًا یَعبُدُونَنِ لَا یُشرِکُونَ ب شَئیًا وَمَن کَفَرَ بَعدَ ذَلِکَ فَاُولَئِکَ هُمُ الفَاسِقُون ) (۹)

اے ایمان والوں تم میں سے جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے ان سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو ایک نہ ایک دن روئے زمین ضرور پر اپنا نائب مقرر کرئے گا، جس طرح ان لوگوں کو نائب بنایا جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں،اور جس دین کو اس نے ان کے لئے پسند فرمایا(اسلام) اس پر انہیں ضرور ضرور پوری قدرت دے گا،اور ان کے خائف ہونے کے بعد امن سے ضرور بدل دے گا،اور وہ میری ہی عبادت کریں گے،اور کسی کو ہمارا شریک نہیں بنائیں گے، اور جو شخص بھی اس کے بعد نا شکری کرے تو ایسے ہی لوگ بدکار ہیں۔

روایات کے مطابق یہ وعدہ امام زما نہ (عج) کے ہاتھوںپورا ہوگا۔(۱۰)

اسی طرح بہت سی روایتوں میں قرآن کی مختلف آیتوں(۱۱) کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو امام مہدی (عج) کی جہانی حکومت پر دلالت کرتی ہیں جنھیں ہم یہاں بیان نہیں کرسکتے(۱۲)

چند روایتیں۔

وہ روایتیں جسے شیعہ اور سنی علماء نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کی ہیں حد تواتر سے بھی زیادہ ہیں اور وہ روایتیں جسے صرف سنی علماء نے نقل کیا ہے خود انھیں کے قول کے مطابق وہ روایتیں متواتر ہیں(۱۳) بلکہ اُنھیں علماء میں سے بعض اِس بات کے بھی قائل ہیں کہ حضرت مہدی (عج) پر

اعتقاد تمام اسلامی فرقوں میں پایا جاتا ہے،(۱۴) انھوں نے حضرت مہدی (عج) اور اُن کے ظہور کے علامات کے سلسلہ میں مختلف کتابیں بھی تحرییر کی ہیں(۱۵) ان روایتو ںمیں سے ہم چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

اہل سنت نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متعد د روایتیں نقل کی ہیں جن میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں:اگر جہان میں سے صرف ایک دن باقی رہ جائے تو خداُ سے اتنا طولانی کردیگا کہ میرے اہل بیت علیہم السلام میں سے ایک فرد کہ جس کا نام میرے ہی نام پر ہوگا عالمی حکومت قائم کرے گا، اور زمین کو اسی طرح عدل و داد سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔(۱۶)

جناب ام سلمہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل فرماتی ہیں : آپ نے فرمایا مہدی ( عج) میری عترت اور فاطمہ علیہا السلام کی اولاد سے ہے۔(۱۷)

جناب ابن عباس رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ یقیناً علی علیہ السلام میرے بعد اِس اُمت کے امام ہیں اور اس کی اولاد سے ایک قائم منتظر ،عج، ہے، لہذا جب وہ ظہور کرے گا ،تو ز مین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کردے گا کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔(۱۸)

غیبت ِاور اُس کا راز ۔

اہل بیت علیہم ا لسلام کی طرف سے امام زمانہ علیہ السلام کے سلسلہ میں جو روایات وارد ہوئی ہیں ان میں آپ کی غیبت کی طرف تاکید ہوئی ہے جیسا کہ عبد العظیم حسنی ،امام محمد تقی اور آپ اپنے جد امام علی علیہم السلام سے نقل فرماتے ہیں کہ ہمارے قائم ،عج، کی غیبت طولانی ہوگی اور شیعوں کو دیکھ رہا ہوں کہ جو بھوکے چوپایوں کی طرح جو اپنی چراگاہوں کی تلاش میں پھرتے ہیں، اسی طرح وہ ہمارے قائم (عج) کی جستجو میں سرگرداں ہوں گے اور اسے نہیں پائیں گے ، یاد رہے کہ اس وقت جو بھی اپنے ایمان پر ثابت رہے گااور حضرت کی غیبت کی وجہ سے قساوت قلب میں مبتلا نہیں ہوگا وہ روز قیامت میر ی صف میں ہوگا، ا س کے بعد فرماتے ہیں کہ جب ہمارا قائم، قیام کرے گا، اُس کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہوگی، اور کوئی ظالم حکمران اُس پر مسلط نہیںہوسکے گا) اِس ہدف کی خاطر وہ پوشیدہ طور پر متولد ہوگا اور نظروں سے اوجھل ہوجائے گا۔(۱۹)

امام سجاد علیہ السلام اپنے جد حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا کہ ہمارے قائم کی دو غیبتیں ہوں گی جن میں سے دوسری غیبت پہلی غیبت سے طولانی ہوگی اُس وقت جو یقین قوی اور معرفت صحیح کا مالک ہوگا وہ اُس کی امامت پر باقی رہے گا۔(۲۰)

راز غیبت کومعلوم کرنے کے لئے ائمہ اطہار کی حیات کا اجمالی جائزہ لینا ہوگا۔

یہ نکتہ ہر ایک کو معلوم ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد لوگوںنے ابو بکر ، پھر عمر، اُس کے بعد عثمان ،کی بیعت کی، لیکن عثمان کی طرف سے ذات پات کے فرق او ر غیر عادلانہ برتاؤ کی وجہ سے لوگوں نے اُس کے خلاف قیام کر کے اسے قتل کردیا اور پھر امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی ۔

حضرت علی علیہ السلام جبکہ خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے خلیفہ تھے لیکن جامعہ اسلامی کی خاطر خلفائ، ثلاثہ کے ادوار میں خاموش رہے فقط اس دور میں اتمام حجت کرتے رہے لیکن اسلام و مسلمین کی منفعت جہاں ہوتی تھی وہاں اپنی کوششوں سے دریغ نہیں کرتے تھے اور جب آپ نے خلافتِ ظاہری کی باگ ڈور سنبھالی تو آپ کے اقتدار کا پورا دور ، اصحاب جمل،نہروان اور معاویہ سے جنگ کرنے میں ختم ہو گیا، آخر کار خوارج میں سے ابن ملجم کے ہاتھوں شہید ہوگئے ۔

امام حسن علیہ السلام بھی معاویہ کے فرمان سے زہر کے ذریعہ شہید کردئے گئے، اور معاویہ کی موت کے بعد اس کا بیٹا یزید کہ جسے اسلام کی کوئی پروا نہ تھی تخت سلطنت پر بیٹھ گیا، اُس کے اعمال و حرکات سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کچھ ہی برسوں میں اسلام کا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہے گا، اِسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام نے قیام کے علاوہ کوئی اورچارہ نہیں دیکھا، لہٰذا اپنی مظلومانہ شہادت کے ذریعہ مسلمانوں کو بیدار اور اسلام کو فنا ہونے سے بچالیا ، لیکن اس کے باوجود حکومت عدل کی تشکیل کے لئے شرائط مہیا نہ ہوسکے، اِسی وجہ سے تمام ائمہ اطہار علیہم السلام نے عقائد و معارف احکام، تہذیب نفس اور با صلاحیت لوگوں کو تربیت کرنے میں اپنی عمریں گزار دیں، اورجہاں تک حالات اجازت دیتے تھے پوشیدہ طور پر لوگوں کو ظالموں کے خلاف ابھارتے رہے، اور انھیں حکومت اسلامی کے قائم ہونے کی امید دلاتے رہے یہاں تک کہ اسی راہ میں تمام ائمہ علیہم ا لسلام ایک ایک کر کے شہید کردئے گئے۔

بہر حال ائمہ اطہار علیہم السلام نے ڈ ھائی سو سال کی مدت میں ،جان لیوا مشکلات اور بے شمار زحمتوں کے باوجود لوگوں کو اسلام کے حقائق سے آشنا کرتے رہے ، اُن میں سے بعض نے عمومی طور پر اور بعض نے اپنے اصحاب کے لئے خصوصی طور پر تعلیم و تربیت کا آغاز کیا ، اس طرح انھوں نے معارف اسلامی کے ذریعہ ایک اسلامی سماج تشکیل دینے کی کوشش کی اور شریعت محمد یصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بقاء کی ضمانت ملی نیز ممالک اسلامی کے گوشہ و کنار میں ظالموں کے خلاف قیام ہوئے اور ایک حد تک ستمگروں کے ظلم و ستم کا خاتمہ ہوا۔

لیکن جس خبر نے ظالموں کی نیند اڑادی وہ حضرت مہدی (عج) کے ظہور کی خبر تھی جو اُن کی نابودی کی خبر دیتی تھی، اِسی وجہ سے امام حسن عسکری علیہ السلام کو شدت و سختی سے نظر بند کردیا تھا ، تا کہ اگر آپ سے کوئی فرزند پیدا ہو تو اُسے قتل کرڈالیں، اور خود امام حسن عسکری علیہ السلام کو جوانی کے عالم میں زہر سے شہید کرڈالا لیکن خدا کا یہ ارادہ تھا کہ حضرت مہدی (عج) پیدا ہوں ،اور انسانوں کو ان کے ذریعہ نجات مل سکے، اسی وجہ سے جب آپ پیدا ہوئے تو پانچ سال تک کچھ خاص افراد کے علاوہ کوئی بھی آپ کی زیارت نہیں کرسکتا تھا اورجب گیا رہویں امام کا انتقال ہوگیا ،تو لوگوںکا ارتباط آپ سے نواب اربعہ کے ذریعہ ہوتا تھا(۲۱) ، اسی طرح ایک مدت گذری گئی اور پھر نا معلوم مدت کے لئے غیبت کبریٰ کا زمانہ شروع ہوگیا، اوریہ زمانہ اُسی وقت ختم ہوگا کہ جب اسلامی معاشرہ میں حکومت جہانی کے قائم ہونے کے لئے شرائط فراہم ہوجائیں اُس وقت امام علیہ السلام خدا کے اِذن سے ظہور کریں گے۔

لہٰذا امام علیہ السلام کی غیبت کا اصلی راز ستمگروں اور ظالموں کے شر سے محفوظ رہنا ہے اِس کے علاوہ روایتو ںمیں دوسری حکمتیں بھی بیان ہوئی ہیں ، منجملہ یہ ہے کہ خدا اِس طرح لوگوں کا امتحان لینا چاہتا ہے کہ ان کے ماننے والے اپنے ایمان میں کس قدر پائدار اور ثابت قدم ہیں۔

البتہ زمانہ غیبت میں لوگ آپ کے فیوض و برکات سے محروم نہیں ہیں، بلکہ روایتوں کے مطابق آپ کے فیوض کا سلسلہ اسی طرح لوگوں کے شامل حال ہے۔(۲۲) کہ جس طرح خورشید بادلوں کی پشت سے نور افشانی کرتا ہے، اور آج بھی بہت سے نیک اور صالح افراد اپنی مشکلات اور بلائوں سے خلاصی کے لئے آپ کی خدمت میں مشرف ہوچکے ہیں اس کے علاوہ آپ کا وجود لوگوں کی امید کا سبب ہے ہ وہ آپ کے ظہور کے لئے شرائط کو مہیا کرنے کے ساتھ اپنی اصلاح کریں۔

سوالات

١۔انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا انتہائی ہدف کیا ہے؟

٢۔ یہ ہدف کیسے پورا ہوسکتا ہے؟

٣۔ کون سی آیت حکومت جہانی کے قائم ہونے کی خوشخبری دیتی ہے؟

٤۔ امام مہدی ( عج) کے سلسلہ میں اہل سنت نے جو روایتیں نقل کی ہیں ان میں سے بعض کو بیان کریں؟

٥۔اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے حضرت مہدی (عج) کے سلسلہ میں وارد ہونے والی روایتوں میں سے بعض کو بیان کریں؟

٦۔ غیبت صغریٰ اور کبریٰ نیز ان دونوں کے درمیان فرق کو واضح کریں؟

٧۔ امام زمانہ( عج) کی غیبت کا راز کیا ہے؟

٨۔ غیبت کے زمانہ میںلوگ امام زمانہ (عج) سے کیسے ملاقات کر سکتے ہیں۔؟

____________________

(١)منتخب الاثر فی الامام الثانی عشر ، طبع سوم ۔ ص١٢١٠.

(٢)بحار الانوار ، غایة المرام ، اثبات الہداة وغیرہ.

(۳) سورۂ نسائ۔ آیت ١٦٥

(۴) سورۂ توبہ۔ آیت ٣٣ سورہ فتح۔ آیت ٢٨ سورہ صف ۔ آیت٩،

بحار الانوار۔ ج٥١ ص ٥٠ ج٢٢ ص٦٠، ج ٥٨ ٥٩

(۵)سورۂ انبیائ۔ آیت ١٠٥

(۶) سورۂ اعراف۔ آیت ١٢٨

(۷) سورۂ قصص ۔آیت٥

(۸)بحارا لانوار۔ج ٥٤٥١ج ۔٣٥ ٦٤٦٣.

(۹)سورہ نور۔ آیت ٥٥

(۱۰) بحار الانوار۔ ج ٥١ ٥٨ ج٥٠ ٣٤ ٦٤

(۱۱)جیسے یہ آیات ''ویکون الدین کلّمہ للّہ '' ''لیظہرہ علی الدین کلہ'' ''بقیة اللہ خیر لکم''

(۱۲)بحار الانوار۔ ج٦٤٤٤٥١

(۱۳)صواعق ابن حجر۔ص ٩٩، نور الابصار ۔شبلنجی۔ص ١٥٥ اسعاف الراغبین۔ص ١٤٠ الفتوحات الاسلامیہ ۔ج٢ص٢١١

(۱۴) شرح ابن ابی الحدید نہج البلاغہ ج٢ ص ٥٣٥ سبائک الذہب سویدی ۔ص٧٨ غایة المامول ۔ج٥ ص٣٦٢

(۱۵) کتاب ''البیان فی اخبار صاحب الزمان '' تالیف حافظ محمد بن یوسف گنجی شافعی کتاب '''البرھان فی علامات مہدی آخر الزمان۔ تالیف متقی ہندی

(۱۶)صیح ترمذی ۔ج٢ ص ٤٦. صحیح ابو داود۔ج٢ ص ٢٠٧ مسند ابن حنبل ۔ج١ ض ٢٧٨ ینابیع المودہ۔ ص ١٨٦ ٢٥٨ ٤٤٠. ٢٨٨. ٢٩٠

(۱۷)اسعاف الراغبین١٣٤.

(۱۸) ینابیع المودہ ٤٩٤.

(۱۹)منتخب الاثر ٢٥٥.

(۲۰) منتخب الاثر ٢٥١.

(۲۱) عثمان بن سعید ، محمد بن عثمان، حسین بن روح، علی بن محمد سمری.

(۲۲) بحار الانوار۔ ج٥٢ ص٩٢

اکتا لیسواں درس

شنا خت عا قبت کی اہمیت

مقدمہ:

قیا مت پر اعتقاد کی اہمیت وضرورت

قیا مت کے مسئلہ پر قر آن کی تا کید

نتیجہ:

مقدمہ:

اس کتا ب کی ابتدا ہی میں ہم نے دین مبین اور اس کے بنیا دی عقا ید (تو حید ، نبوت ، قیامت،) کے بیا ن کے سا تھ اس بات کی تشر یح ووضاحت بیان کر دی تھی کہ انسا نی زندگی کا مفہوم، انھیں مسا ئل کے حل میں پو شید ہ ہے اور کتا ب کے پہلے حصے میں خدا شناسی ( تو حید ) کے مسا ئل اور د وسرے حصے میں راہ اور ر ہنما شنا سی (بنو ت و امامت) کے متعلق بحث گذر چکی ہے اور اب کتاب کے تیسرے حصے میں معاد (قیا مت) کے عنو ان کے تحت گفتگو کوجاری رکھتے ہیں ۔

لیکن پہلے معا د کی خصو صیت اور انسا ن کی ،انفرا دی ،اجتما عی زندگی پر پڑنے والے اثرا ت سے بحث ہو گی، اور اس کے بعد اس بات کی وضاحت کریں گے کہ معاد (قیا مت) کا خصوصی تصور نا محسوس رو ح اور اس کے زندئہ جا وید ہو نے کے سا تھ مشروط ہے، اور جس طر ح مو جود ات کی معرفت بغیر خدا ئے وحدہ'لا شریک کے نا قص ہے اسی طر ح انسان کی معرفت بھی بغیر اس اعتقاد کے کہ رو ح زندئہ جا وید ہے نا قص اور نا مکمل ہے ۔

اس بیان کے بعد قیا مت کے بنیا دی مسا ئل منا سب اندا ز سے ا س کتا ب میں بیا ن کر یں گے۔

قیا مت پر اعتقا د کی ا ہمیت وضرورت۔

زندگی کا جذبہ ،اس کی ضرو رت اور خو اہشا ت اور ضرو ریا ت زندگی کی طر ف اس کا رجحا ن اصل میں یہ تمام چیزیں صر ف کمال اور ابدی سعا دت تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں، اور اب رہی با ت کہ انسان انھیں حا صل کرنے کے لئے کس را ستہ کا انتخا ب کرے، تو اس کے لئے ضرو ری ہے کہ پہلے یہ دیکھا جا ئے کہ انسان ان اھداف کی شنا خت کیسے کرے ؟

جو اسے اس کے ھدف تک پہنچا دیں در حقیقت زندگی کے را ستے کی تعین اور اپنی رفتار و کر دار کو معین کرنے کا اصل سبب انسان کی اپنی سوجھ بو جھ اور تصو ر اور خود اپنے کما ل و سعادت اور اپنی حقیقت کو پہچان لینا ہے ،اور جو لو گ زندگی کو صر ف ما دیت اور اس سے متعلق عناصر کو اپنی حقیقت سمجھتے ہیں ،اور یہ تصور کرتے ہیں کہ یہی چند روزہ زندگی ہی سب کچھ ہے اور مو ت کے بعد صر ف عدم اور فنا ہے ،یا اخرو ی لذت او ر سعا دت ِابدی کے منکر ہیں وہ اپنی زندگی کو کچھ ایسا بنا لیتے ہیں کہ اب صرف ان کے پیش نظر یہی دنیا وی لذت اور خو ا ہش ہی ان کی سعا دت اور نیک بختی ہے لیکن جو افرا د اپنی دنیا وی زندگی کو ہی نہیں بلکہ اس کے آگے آنے وا لی زندگی کی حقیقت سے آشنا ہیں وہ اپنے اعمال و کردا ر کو آنے والی ابدی زندگی کا وسیلہ بنا تے ہیں اور ایسے بنیا دی کا م انجام دیتے ہیں جو اُن آنے وا لی اس زندگی میں مددگا ر ثا بت ہو ں یا دوسرے الفا ظ میں یو ں کہا جا ئے کہ مادی زندگی کی سختیو ں اور نا کامیو ں کے با وجود یہ لوگ ما یو س اور نا امید نہیں ہو تے، بلکہ سعا دت و کا میا بی تک پہنچنے کے لئے اپنی بھر پو ر کو شش اور تلا ش جا ری رکھتے ہیں ۔

انسانی زندگی کے یہ دو اہم رخ صر ف اس کی انفرا دی زندگی ہی پر منحصر نہیں ہیں بلکہ اجتما عی زند گی پر گہرا اثر چھوڑ تے ہیں چنا نچہ آخر ت پر ایمان اور جزا وسزا جیسی چیزیں انسان کو دوسرو ں کے حقوق کا خیا ل، ایثا ر اور احسا ن جیسے قا بل تحسین کر دا ر پر آما دہ کر تی ہیں او ر ظا ہر ہے کہ جس معا شرے یا قو م و ملت کا یہ عقیدہ ہوگا، اس کے یہا ں قا نون عدا لت پر عمل ،ظلم و ستم کا مقابلہ اور زور و زبر دستی کاکم سے کم استعما ل ہو گا ،اور واضح رہے کہ اگر یہ اعتقا د ات دنیا کی تمام قو میں اپنا شیو ہ بنا لیں تو اس دنیا کی بین الا قوامی مشکلا ت خو د بخو د حل ہو جا ئیں گی۔

لہٰذا ان تمام بیا نا ت کے پیش نظر قیا مت کی اہمیت و ضرو رت رو ز رو شن کی طر ح واضح ہو جا تی ہے بلکہ تنہا عقیدئہ تو حید ( بغیر عقید ئہ قیا مت کے ) بھی انسانی زند گی کو صحیح را ستہ دکھا نے سے قا صر ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام ادیا ن آسما نی خصوصاًدین اسلا م اورتمام پیغمبر ان الہٰی قیا مت کے عقید ہ کو بہت اہمیت دیتے تھے اور ان کی ہمیشہ یہی کو شش رہی کہ یہ عقید ہ انسا نیت کا اہم ترین رکن بن جا ئے اور لو گو ں کے دلو ں میں یہ عقید ہ را سخ ہو جا ئے ۔

آخر ت پر اعتقا د، انفرا دی اور اجتما عی زند گی کے اعتبا ر سے صرف اسی صو ر ت میں کا ر گر ثا بت ہوں گے، جب ہم یہ ما ن لیں ،کہ اس دنیا کے اعما ل اور ابدی زندگی کی سعا دت و بد بختی کے در میا ن ایک قسم کا را بطہ علیت پا یا جا تا ہے ،یا کم از کم یہ ثا بت ہو جائے، کہ وہاں کا ثوا ب و عذاب صر ف اس دنیا میں عمل کرنے کا نتیجہ ہے ( جیسے دنیوی فو ائد اور نقصا ن )اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مسئلہ آخر ت اپنی حققیت و اصلیت کھو بیٹھے گا کیو نکہ اس کے معنی یہ ہو ں گے کہ دنیوی سعا دت حا صل کر نے کے لئے اسی دنیا میں کو شش ہونی چاہیے اور اخر وی سعا دت ونجا ت کے لئے وہاں کی دنیا ہو نی چا ہیے لہٰذا ضر ور ت ہے کہ قیا مت کے اثبا ت کے سا تھ سا تھ دنیا و آخر ت کے در میان پا ئے جا نے وا لے ر ابطے اور ا بد ی خو شبختی یا بد بختی میں انسان کے اختیا ر اعما ل و کر دا ر کی تا ثیر کو بھی ثا بت کر دیا جا ئے ۔

قیا مت کے مسئلہ پر قر آن کی تا کید۔

قر ان کر یم کی ایک تہا ئی سے زیا دہ آیتیںانسان کی ابد ی زند گی سے متعلق ہیں بعض آیا ت بیان کر تی ہیں کہ آخر ت پر ایما ن رکھنالا زم ضر ور ی ہے(۱) اور بعض آیتیں انکا ر آخر ت کے نقصا نا ت

کو بیان کر تی ہیں(۲) بعض آیتیں ابدی نعمتو ں کا تذکر ہ کرتی ہیں(۳) اور بعض آیات میں ابدی عذا ب کا ذکر مو جو د ہے(۴) اور اسی طر ح سے بہت سی دوسر ی آیتو ں میں بھی نیک اور بد اعما ل اور آخر ت میں اسی بنیا د پر ہو نے وا لے ثو اب و عقا ب کا ذکر ہوا ہے ، نیز اور دوسرے طر یقو ں سے بھی قیا مت کے امکا ن اور اس کی ضرورت و اہمیت پر قر آن نے تا کید کی ہے، اور سا تھ ہی سا تھ منکر ان قیا مت کے سا منے محکم اور ٹھو س دلیلیں بھی پیش کی ہیں اور ان کے اعتر اضات کے جو ابا ت دئے ہیں چنا نچہ گمرا ہی ،انکار قیا مت اور اس سے ،فر امو شی کی بنیا دی وجہ بھی بیان فر ما ئی ہے(۵) اگر قر آن مجید میں غور کیا جا ئے تو اس سے یہ با ت صا ف ظاہر ہو تی ہے کہ پیغمبر وں کی گفتگو اور ا ن کے اقوال نیز لو گو ں سے بحث و مبا حثہ کا بیشتر حصہ قیا مت کے مو ضو ع سے متعلق ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کی کو ششیں تو حید کو ثا بت کرنے سے زیا دہ قیا مت کو ثا بت کر نے کے لئے رہی ہیں کیو نکہ اکثر افرا د قیا مت کو قبو ل کر نے میں بہت ہی شدید و سخت رہے اور اس سختی کی بھی شا ید دو وجہ بیان ہو سکتی ہے۔

١۔ پہلی وجہ جو مشتر ک ہے وہ یہ ہے کہ ہر غیبی اور نا محسو س چیزو ں کا انکا ر کر دینا ہے ۔

٢۔اور دوسر ی وجہ جو قیا مت کے مسئلہ سے مخصو ص ہے وہ یہ ہے کہ انسان کا کسی قا نو ن کا پا بند نہ ہو نا( لاا با لی ہو نا ) ہے کیو نکہ قیا مت کا قبو ل کر نا گو یا اپنی زندگی کا محدو د کر لینا اور برے اعما ل ،منجملہ ظلم و فساد و گنا ہوں سے نفرتو بیزاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی خو اہشا ت سے دست بر دا ر ہو جا ئے اور اس کے انکا ر کر دینے کی صو ر ت میں ہوا و ہو س اور شہو ت پر ستی و خو د خو اہی کے سا رے را ستے کھل جا ئیں گے قرآن مجید اسی نکتہ کی طر ف اشارہ کرتے ہو ئے ارشاد فر ما رہا ہے ۔

( اَیَحْسِبُ الْاِنْسَاَنُ اَلِّن نَجْمَعَ عِظَاَ مَهُ ٭بَلَیٰ قَاْدِرِیْنَ عَلَیٰ اَنْ نُسَوِّ یَ بَنَانَه ٭بَلْ یُرِیْدُ اْلاِنْسَاْنُ لِیَفْجَرُاَمَامَهُ ) (۶)

کیا انسا ن یہ خیا ل کر تا ہے کہ ہم اس کی ہڈیو ں کو جمع نہ کر سکیں گے ،یقیناہم اس با ت پر قا در ہیں کہ اس کی انگلیو ں کے پو ر تک درست کر لیں بلکہ انسان یہ چا ہتا ہے کہ اپنے سا منے برا ئی کر تا چلا جا ئے ۔

اور اسی قیا مت کے اس حقیقی معنی سے انکا ر وامتنا ع کو ان افرا د میں ڈھو نڈھا جا سکتا ہے جو اپنی تحریر و تقر یر یا رفتا ر و گفتا ر کے ذر یعہ اس با ت کی کو شش کر تے ہیں کہ قیا مت کو اسی دنیا کا ایک حا دثہ بنا کر لو گو ں کے سا منے پیش کر یں جس سے مر ا د یہ ہے کہ اس دنیا میں قو میں آئیں گی جن میں طبقا تی نظا م نہ ہو گا، یا جنت سے مرا د یہی زمین ہے یا آخر ت اور اس سے متعلق دوسری چیزیںصرف فر ضی اور تصوراتی یا خود ساختہ دا ستا نیں ہیں(۷)

قر آن مجید نے ایسے افرا د کو ( ا نسان نما شیطا ن ) اور ( انبیا ء کے دشمنو ں ) سے تعبیر کیا ہے جو اپنے نر م و لطیف لہجہ اور سحر آمیز باتوں کے ذریعہ لو گو ں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور لو گو ں کو صحیح عقید ہ و ایمان اور احکا م الہٰی پر عمل کرنے سے منحر ف کر دیتے ہیں ۔

( وَکَذٰلِکَ جَعَلْنْالِکُلِّ نَبِِّ عَدُوْاً شَیَاطِیْنَ الاِنْسِ وَاْلجِنِّ یُوْحِْ بِعْضِهِم اِلَیٰ بَعْض زُخْرُفَ القَوْل غُرُوْراً وَلَوْ شَاْئَ رِبُّکَ مَاْ فَعَلُوْهُ فَذَرْ هُمْ وِمَاْ یَفْتَرُوْنَ ٭ وَ لِتَصْغیٰ اِلِیْهِ اَفْئدَةُ الَّذِیْنَ لاَیُوْمِنُوْنَ بِاْ لآخِرةِ و لِیَرضَوْهُ ولْیَقترِ فُوْا مَاهُمْ مُقتَرفُوِنَ ) (۸)

اور اسی طر ح ہم نے ہر نبی کے لئے شیا طین جن و انس میں سے، انکا دشمن قرا ر دیا ہے یہ آپس میں ایک دو رسرے کو د ھوکہ دینے کے لئے مہمل با تو ں کے اشا رے کر تے ہیں اور اگر خدا چا ہ لیتا تو یہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے تھے لہٰذا اب آپ انھیں ان کے افتراء پر چھوڑ دیجئے، اور یہ اس لئے کر تے ہیں کہ جن لو گو ں کا ایما ن آخر ت پر نہیں ہے ان کی طرف مائل ہو جا ئیں اور وہ اسے پسند کر لیں اور پھر خو د بھی انھیں کی طر ف افتراء پر دا زی کر نے لگیں ۔

نتیجہ۔

انسان کو چا ہیے ایک ایسے راستہ کا انتخا ب کرے جو اسے اُس کی منزل مقصو د یعنی کما ل اور سعا دت ابد ی سے ہم کنا ر کر دے اوراس کے لئے ضر ور ی ہے کہ پہلے وہ اس با ت پر غور کر ے، کہ کیا انسان کی زند گی اُس کی مو ت کے بعد ختم ہو جا تی ہے یا اس کے بعد بھی کو ئی دوسری زندگی ہے؟ یا یہ کہ اس جہا ن سے دوسرے جہا ن میں منتقل ہو نا ایک شہرسے دوسرے شہر میں سفر کر نے جیسا ہے، کہ جس کے لئے زندگی کے تمام وسا ئل اور ضروریا ت کو وہیں حا صل کیا جا سکتا ہے ؟یا یہ کہ اس دنیا کی خا ص زندگی اُس آنے والی زندگی کی خو شی اور نا خو شی کا مقد مہ ہے اور جو کا م واعمال یہاں انجا م دئے جا ئیں اور اس کے آخر ی نتیجہ سزا یا جزا کو وہا ں حا صل کہا جا ئے جب تک یہ مسا ئل حل نہیں ہو جا تے، تب تک انسان صحیح را ستے اور مقصد کا انتخاب نہیں کر سکتا، کیو نکہ جب تک انسان کو اس کے سفر کا مقصد معلوم نہ ہو، تب تک اس تک پہنچا نے وا لے را ستے کو معین نہیں کیا جا سکتا ۔

یہ با ت بھی قا بل ذکر ہے کہ اس حیا ت ابدی کے وجود کا احتما ل جتنا بھی ضعیف اور فرضی ہی کیو ں نہ ہو پھر بھی ہو شیا راور عقلمند انسان کو اس کے سلسلے میں تحقیق اور تلا ش و جستجو پر آما دہ کر تا ہے، اس لئے کہ اس احتمال کی کو ئی حد معین نہیں ہے ۔

سوا لا ت

١۔ اپنی زندگی کو منظم بنا نے کے لئے قیا مت پر اعتقا د رکھنے اور نہ رکھنے میں کیا فر ق ہے ؟

٢۔ کس صو رت میں اخر وی زند گی پر اعتقاد رکھنا زند گی کو منظم بنا نے میں اچھا کر دا ر ادا کرسکتا ہے ؟

٣۔ قیا مت کے متعلق قر آن مجید کی تا کید کو وا ضح طو ر سے بیا ن کیجئے ؟

٤۔لو گ قیا مت کو قبو ل کر نے میں اتنی سختی سے کیو ں کا م لیتے ہیں ،شرح کیجئے ؟

٥۔ قیا مت پر اعتقا د کی تحر یف میں دلو ں کے مریض لو گو ں کی کو ششوں کے چند نمو نے اور اس کے مقا بلے میں قرآن کا مو قف کیا ہے ؟

٦۔قیا مت کے با رے میں تحقیق کی ضر ورت کو لکھتے ہو ئے اس تحقیق کی بر تر ی کو دنیا وی مسا ئل پر تحقیق کر نے پر بیان کریں ،شر ح دیں ؟

____________________

١۔بقرہ ٤،لقمان ٤،نمل٫٣

۲۔اسراء ١٠،فرقان ١١ صبا ٨،مو منون ٧٤،

۳۔ رحمٰن ٤٦، تا آخر سورہ ،واقعہ ١٥ ،٣٨ ،الدہر ١١،٢١ ،

۴۔حا قہ آیت۔ ٢٠،٢٧،ملک ٦،١١ ،واقعہ ٤٢ ،٥٦،

(۵) سورہ ص آیت٢٦ ۔سورہ سجدہ آیت١٤٠

۶۔ قیامت۔ آیت/ ٣، ٥

۵۔نمل آیت ٦٨، الحقاف آیت ١٧،

۸۔ انعام ١١٢، ١١٣،