درس عقائد

درس عقائد 10%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 49756 / ڈاؤنلوڈ: 4487
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

بیا لیسوا ں درس

مسئلہ قیامت اور مسئلہ رو ح کا با ہمی رابطہ

زندہ مو جود ات کی وحد ت کا معیا ر

انسان کے وجود میں روح کا مقام(کردار)

زندہ مو جود ا ت کی وحد ت کا معیا ر۔

تمام حیوا نو ں کی طر ح انسان کا بد ن بھی زند ہ اور متحر ک اجزا ء اور عناصر کا ایک مجمو عہ ہے کہ جس میں سے ہر ایک عنصر مسلسل تبدیلی و تغیر کا شکار ہے، اور اس کا یہ اندا ز پیدا ئش کے وقت سے لیکر زندگی کے خا تمہ تک بدلتا نہیں ہے یا یہ کہ ان عناصر اور اجزاء کی تعدا د ہمیشہ ایک حالت پر باقی ہے ۔

اس تبد یلی اور تغیرا ت کو دیکھتے ہو ئے جو حیو انا ت بلکہ خا ص طو رسے انسانوں کے بدن میں جا ری ہے یہ سوال پید ا ہو تا ہے کہ وہ کو ن سا معیا ر ہے جس کی بنیا د پر متغیر اور بدلے ہو ئے عنا صر واجزا ء کے مجمو عہ کو موجو د ِ واحد کا نام دیا جا ئے، جبکہ ممکن ہے کہ پو ری زندگی میں متعدد مر تبہ وہ اجزا ء اور عنا صر تبدیل ہو جا ئیں اور ان کی جگہ ا سی طرح کے دو سرے عنا صر آجا ئیں ؟(۱)

اس سوال کا سب سے آسان اور سا دہ جو اب جو دیا جا تا ہے وہ یہ ہے کہ زند ہ مو جودا ت میں وحد ت کا معیا ر ان اجزا ء کا ایک دوسرے سے ایک ہی زما نے میں یا الگ الگ متصل ہو نا جبکہ وہ عناصر تدریجی طو ر سے ناپدید اور ختم ہو تے رہتے ہیں اور اس جگہ دوسرے عنا صر پیدا ہوجا تے ہیں لیکن پیو ستگی اور اتصا ل کے سبب جو مسلسل تبد ل و تغیر کے ساتھ ہے مو جو د وا حد کا نام دیا جاتا ہے ۔

لیکن یہ جو اب اطمینان بخش نہیں ہے کیو ں کہ اگر ایک مکا ن فر ض کرلیں کہ جو مختلف اور متعدد اینٹو ں سے مل کر تیا ر ہو ا ہو، اور اس کی اینٹو ں کو آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے تبد یل کر تے رہیں، اس طر ح کی کچھ مد ت کے بعد پہلے کی ایک اینٹ بھی با قی نہ رہ جا ئے تو ایسی صو رت میں اس نئی اینٹوں کے مجمو عے کو وہی پہلے والا مکا ن نہیں کہا جا سکتا، اگر چہ سہل انگا ری کی بنا پراعتبار سے ایسی تعبیرا ت کا استعما ل کیا جا تا ہے بالخصوص ان لو گو ں کی جا نب سے جو اس مجمو عے کے اجزاء کی تبد یلی کی اطلا ع نہیں رکھتے ۔

گذشتہ جو ا ب کو اس طر ح مکمل کیا جا سکتا ہے کہ یہ تبدیلی اس مجمو عے کی وحدت کے لئے نقصا ن دہ نہیں ہے کہ جب ایک فطر ی اور اندرونی سبب کی بنیا دوا قع ہو جیسا کہ زند ہ مو جودا ت میں دیکھا جا تاہے ،لیکن کسی مکا ن کی اینٹو ں کی تبد یلی ایک با ہر ی اور خا رجی سبب کی بنیا د پر واقع ہو ئی ہے لہٰذا اس پو ر ی مد ت میں جس دو ران اس کے اجزاء تبدیل ہو تے ہیں اس کی طر ف حقیقی وحد ت کی نسبت نہیں دی جا سکتی ۔

یہ جوا ب اس ایک طبیعی و فطر ی سبب کے قبو ل کر نے پر مو قو ف ہے جو ان تما م تغیرا ت اور تبدیلی کے سا تھ ہمیشہ با قی رہتا ہے اور ان اجزا ء اور عناصر کے نظا م اور تر تیب کو محفو ظ رکھتا ہے ، پس دوبا رہ اس سبب کے با رے میں سوا ل پید ا ہو تا ہے کہ اس سبب کی حقیقت کیا ہے ؟ اور اس کی وحد ت کا معیار کیا ہے ؟

معر و ف فلسفی نظر یہ کے مطا بق ہر طبیعی مو جو د میں وحد ت کا معیا ر ایک امر بسیط (غیر مر کب ) اور غیر محسو س شیء ہے اور وہ طبیعت ( فطر ت ) یا صورت(۲) یعنی اجزاء اور ذرات کے بد لنے سے تبدیل نہیں ہو تے اور زند ہ مو جو دا ت کہ جو مختلف افعال انجا م دیتے ہیں جیسے غذا حا صل کر نا اور رشد و نمو کرنا ، ایجاد و تولید کرنا وغیرہ ایک عامل کی وجہ سے ہے کہ جس کو نفس کوا جاتا ہے ۔

قدیم فلسفی علما ء نفس نبا تی اور نفس حیو ا ن کوما دّی اور نفس انسانی کو مجرد عن المادہ جا نتے تھے لیکن بہت سے اسلا می حکما ء منجملہ صدر المتألھین شیر ازی نے نفس حیوا نی کو بھی تجرد اور ما دہ سے خا لی ہونے کو ایک مر تبہ جا نا ہے او ر شعو ر وارا دہ کو اسی مجر د مو جو د کی علامت شما ر کیا ہے لیکن ما تر یا یسیم کہ جو وجود کو ما دّے اور اس کی خا صتیو ں میں منحصر جا نتے ہیں وہ رو ح مجر د کا انکا ر کر تے ہیں اور جدید ما دہ پر ست انسان (مادّیین) (جیسے پو زتیو لیسم بنیا دی طور سے ہر غیر محسو س چیز کا انکا ر کرتے ہیں اور جب کسی بھی غیر محسو س چیز کو قبو ل نہیں کر تے جس کے نتیجہ میں ان کے پا س زندہ مو جو دا ت ہیں وحد ت کے معیا ر کے سلسلے میں کو ئی صحیح جو اب نہیں ہے۔

اس بنا پر کہ نبا تا ت کے اندر معیار وحدت اس کا نفس نبا تی ہوتا ہے لہٰذا نبا تی زند گی کا وجو د، مادہ مستعد میں صورت اور نفس نباتی خاص کی وجہ سے ہے ، اس طرح سے جس و قت ما دہ کی استعداد ختم ہو جا ئے گی اس وقت اس کا صورت اور نفس نبا تی ہونا بھی ختم ہو جا ئے گا اور اگر ہم یہ فر ض کرلیں کہ وہ ما دّہ دو با رہ صو رت نبا تی کو قبو ل کر نے کی صلا حیت و استعداد کو حاصل کر سکتا ہے تو ایسی صورت میں ایک جدید نفس نباتی کا اس میں اضا فہ ہو گا ،لیکن دو (پرا نے اور نئے) سبزوں ( درخت یا پو دے) کے درمیا ن مکمل شبا ہت کے با وجو د بھی حقیقی وحد ت نہیں پا ئی جا سکتی اور اگر دقیق نظر سے دیکھا جا ئے تو اس جدید سبزے کو پہلے والا سبزہ نہیں کہا جا سکتا ۔

لیکن حیو ان اور انسان کے متعلق ،چو نکہ ان دو نو ں کی رو ح مجر د ہے ( ما دّہ سے خا لی ہے ) لہٰذا بد ن کے نا بود اور ختم ہو جا نے کے بعد بھی با قی رہ سکتی ہے ،اور جب دو با رہ بدن میں دا خل ہو گی تو اپنی وحد ت کو حفظ کر سکتی ہے چنا نچہ مو ت سے پہلے بھی یہی رو ح کی وحدت شخص کی وحد ت کا معیا ر تھی اور ما د ہ کا تبدیل ہو نا شخص کے بد ل جا نے کا سبب نہیں بنتا،لیکن اگر کو ئی انسان و حیوان کے وجود کو اسی بد ن اور اسکی خا صیتو ں میں منحصر جا نے ،اور رو ح کو بھی اسی بدن کی خا صیت یا خا صیتو ں کا مجمو عہ تسلیم کرے یہا ں تک کہ اگر اس کو غیر محسو س لیکن ما دّی تصو ر کر ے، کہ جو بدن کے اعضا ء و جو ارح کے ختم ہو جا نے کے سا تھ سا تھ وہ (روح)ختم ہو جا ئے گی تو ایسا انسان قیا مت کا صحیح تصور نہیں کر سکتا،کیو نکہ اس فر ض کے سا تھ کہ بدن دو بارہ حیا ت کی استعداد پید ا کر سکتا ہے ، کیونکہ نئی خا صیتیں اس کے اند ر پیدا ہوں گی اور ایسی صو رت میں وحد ت کا حقیقی معیا ر وجود میں نہیں آسکتا، کیو نکہ فر ض یہ ہے کہ پہلے کی خا صیتیں با لکل ختم ہو چکی ہیں اور نئی خاصیتوں نے جنم لیا ہے ۔

خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ ُاس وقت موت کے بعد حیات کا صحیح تصور ممکن ہے جب روح کو بدن سے اور اس کی خاصیتوں سے ہٹ کر الگ سمجھیں اور یہاں تک اس کو ایک مادی صورت نہ سمجھیں جو بدن میں حلول کر گئی ہو اور بدن کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائے،لہذا سب سے پہلے روح کو قبول کرنا ہوگا،اس کے بعد اس کو ایک امرِ جو ہری تسلیم کرنا ہو گانہ بدن کے اعراض کے مانند کوئی شیئ،(بدن کے اوپر عارض ہونے والی کیفیات)اور اس کے بعد پھر،اس کو بدن کے ختم ہو جانے کے بعد بھی قابل بقا اور قابل استقلال ماننا ہوگا نہ کہ حلول کرنے والی شیء کی طرح(اصطلاح میں مادہ کے مطابق)کہ جو بدن کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔

انسان کے وجود میں روح کا مقام(کردار)

یہاںپر جس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ انسان کا روح اور بدن سے مرکب ہونا، پانی میں آکسیجن اور ہیڈ روجن سے مرکب ہونے کے مانند نہیں ہے کہ ان دونوں کے ایک دوسرے سے جدا ہونے کے ساتھ ساتھ خود مرکب کا وجود بھی ایک کل کے عنوان سے ختم ہوجائے بلکہ روح، انسان کا ایک اصلی عنصر ہے اور جب تک یہ عنصر باقی ہے انسان کی انسانیت بھی باقی رہے گی اور شخص کی شخصیت بھی باقی رہے گی،اسی لئے بدن کے عناصر اور اجزاء کے بدل جانے کی وجہ سے شخص کی وحدت پر کوئی برُا اثر نہیں پڑتا ،کیوں کہ انسان کی وحدت کا حقیقی معیار اس کی روح ہے قرآن حکیم اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُن منکرین قیامت کے جواب میں جو کہتے تھے کہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان اپنے بدن کے سارے اجزاء ختم ہونے کے بعد دوبارہ نئی حیات پاجائے؟

خدا وندے عالم ارشاد فرماتا ہے۔

( قُلْ يَتَوَفَّاکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ اَلَّذِْ وُکِّلَ بِکُمْ ) (۳)

کہدو (کہ تم نابود نہیں ہوگے بلکہ) فرشتہ موت تمہیں اٹھائے گا

بس ہر انسانیت اور شخصیت کا قوام اور وجود اسی چیز سے وابستہ ہے جس کو ملک الموت(اٹھا لیتا)،قبض کر لیتا ہے،نہ کہ بدن اس اجزاء کے ذریعہ جو زمین میں بکھر جاتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے،

سوا لات

١۔کیا ایک مجموعہ کے متغیر اجزاء کے اتصال کو اس کی وحدت کا معیار مانا جا سکتا ہے؟اور کیوں؟

٢۔کون سے دوسرے معیار کو ارگانیک ترکیبات کی وحدت کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے؟

٣۔موجوداتِ مرکب و با لخصوص زندہ موجودات کے بارے میں معروف فلسفی کا نظریہ کیا ہے؟

٤۔صورتِ طبیعی اور نفس میں کیا فرق ہے؟

٥۔نفسِ نباتی،اور نفسِ حیوانی وانسانی میں کیا فرق ہے ؟اور یہ فرق مسئلہ قیامت میں کیا اثر رکھ سکتا ہے؟

٦۔قیامت کا صحیح تصور کن اصول کا محتاج ہےَ

٧۔انسان کا روح و بدن کے ساتھ مرکب ہونے اور کیمیائی ترکیبات میں کیا فرق ہے؟

____________________

۱۔اس سوال سے پہلے ایک دوسرا سوال سا منے آ تاہے کہ بنیادی طور سے ثا بت اوربند مجمو عے میں وحد ت کا معیا ر کیا ہے ؟اور کیمیا ئی تر کیب کو کس معیار کے مطا بق مو جو د واحد شما ر کیا جا سکتا ہے ؟ لیکن بحث و گفتگو کے زیا دہ طولانی ہو جانے کی وجہ سے اس کو یہا ں چھیڑ نے سے پر ہیز کیا جا رہا ہے، ضرور ت مند حضرا ت آمو زش فلسفہ جلد اول درس نمبر ٢٩ کی طر ف رجو ع کر یں ۔

۲۔جا ننا چاہیے ان میں سے ہر ایک لفظ کے دوسرے اصطلا حی معنی بھی پا ئے جا تے ہیں اور یہا ں پر ان سے مراد وہی صو رت ِنو عیہ ہے ۔

۳۔سورہ سجدہ۔ آیت ۔١١

تینتا لیسواں درس

روح کا غیر محسوس ہونا (روح کا مجرد ہونا)

مقدمہ:

جو ذیل کی بحثوں پر مشتمل ہے

روح کے غیر محسوس ہونے پر عقلی دلائل

قرآنی دلائل

مقدمہ:

اس سے پہلے ہم یہ جان چکے ہیں کہ مسئلہ قیامت مسئلہ روح کے اوپر موقوف ہے، یعنی اس وقت کہا جا سکتا ہے(جو بھی مرنے کے بعد زندہ ہوگا وہ واقعاً وہی پہلا شخص ہوگا)کہ جب بدن کے ختم ہو جانے کے بعد بھی روح باقی رہے،یا یوں کہا جائے کہ ہر انسان اپنے مادی بدن کے علاوہ ایک غیر مادی جو ہر رکھتا ہے جو بدن سے الگ ہو کر مستقل رہنے کی قابلیت رکھتا ہے،اگر ایسا نہ ہو تو اسی شخص کے لئے دوبارہ حیات کا فرض کرنا عاقلانہ تصور نہیں ہوگا، لھذا قیامت کے اثبات اور اس سے متعلق مسائل اور خود قیامت کو بیان کرنے سے پہلے یہ مطلب ثابت ہو جانا چاہیے اس لئے ہم نے اس درس کو اسی موضوع سے مخصوص کردیا ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے دو طریقوں سے استدلال کریں گے ، ایک تو عقل کے ذریعہ سے اوردو سرا وحی کے ذریعہ(۱)

روح کے غیر محسوس ہو نے پر عقلی دلائل

کا فی زمانے سے فلسفیوں اور مفکروں نے روح(کہ جس کو فلسفی اصطلاح میں نفس کہا جاتاہے)(۲) کے بارے میں کافی بحث و گفتگو کی ہے ،اور خصوصاً اسلامی حکماء نے اس موضوع کو بہت ہی اہمیت دی ہے ،اپنی فلسفی کتابوں کے زیادہ حصوں کو اسی کی بحث سے مخصوص کردیا ہے اور اس کے علاوہ خود مستقل کتابیں بھی تحریر کی ہیں،اور ان لوگوں کے نظریات کو جو روح کو بدن کے اعراض میں سے ایک عرض یا مادی صورت(جوبدن کے مادہ میں ڈھل جائے) تصور کرتے ہیں بے شمار دلائل کے ذریعہ ردّ اور باطل کیا ہے،

ظاہر ہے کہ اس سے تفصیلی بحث ا س موضوع کے ذیل میں اس کتاب کے لئے مناسب نہیں ہے لہذا اس مختصر گفتگو پر اکتفا کرتے ہیں،اور کوشش کر تے ہیں کہ اس باب میں ایک واضح بیان اور محکم گفتگو پیش کریں، چنانچہ یہ بیان چند عقلی دلیلوں پر مشتمل ہے جسے ہم اس مقدمہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔

ہم اپنی جلد اور کھال کے رنگ اور اپنے بدن کی شکل و صورت کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اعضاء بدن کی نرمی اور سختی کو اپنی قوت لامسہ کے ذریعہ محسوس کرتے ہیں نیز اس کو تشخیص دیتے ہیں اور اپنے بدن کے اندرونی اجزاء کے بارے میں صرف غیر مستقیم طریقہ سے اطلاع حاصل کر تے ہیں ،لیکن ہم اپنے اندرخوف و محبت اور غصہ و ارادہ نیز اپنی فکر کو بغیر حسی اعضاء کے درک کر لیتے ہیں، اور میرا ذا تی و جود(نفس) جو قوت احساسات کا ما لک ہے نیز عطوفت و مہربانی اور نفسیاتی حالات اپنے اندر رکھتا ہے بغیر حسی اعضاء کے آگاہ ہے۔

لہذا انسان کلی طور سے دو طرح کے ادراکات کا مالک ہے ،ادراک کی پہلی قسم وہ ہے کہ جس میں حسیِ اعضاء کی ضرورت پڑتی ہے،اور ادراک کی دوسری قسم وہ ہے جس میں حسی اعضاء کی ضرورت نہیں پڑتی،

ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ان خطا ؤںاور غلطیوں کے پیش نظر جو ادراکاتِ حسی میں پائی جاتی ہیں،ممکن ہے کہ خطا کا احتمال، ادراک کی پہلی قسم سے مربوط ہے لیکن دوسری قسم میں کسی بھی طرح کے خطا و شائبہ کا امکان نہ ہو،مثال کے طور پر ممکن ہے کہ کوئی شک کرے کہ کیا آیا اس کی کھال کا رنگ واقعاً ویسا ہی ہے جیسا وہ محسوس کرتا ہے یا نہین،لیکن کوئی بھی انسان اپنی فکر اور ذہن کے بارے میں یہ شک نہیں کر سکتا کہاس کے وہاں سوچنے کی قوت ہے یا نھیں ،ارادہ کیا یا نہیں، شک پیدا ہوا یا نہیں۔

اس مفہوم کو فلسفہ میں اس تعبیر کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ علم حضوری بغیر کسی واسطے کے خود واقعیت سے متعلق ہوتا ہے اس لئے اس میں خطاء کا امکان نہیں ہے لیکن علم حصولی چونکہ ادراکی واسطے کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے لہذا ذاتی اعتبارسے قابل شک و تردید ہے(۳)

یعنی انسان کے یقینات اور اس کے حتمی علوم علم حضو ری ہیں جہ شہود کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں ، وہ علم بہ نفس یعنی احساسا ت اور عو اطف اور دوسرے نفسیا تی حا لا ت کو بھی شا مل ہیں اس بنا پر (میں ) کا وجو د جو درک کرنے والا ہے، غو ر و فکر کرنے والا شک وشبہہ کے قابل نہیں ہے جیسا کہ خو ف و محبت اور غصہ اور فکر و ارا دہ بھی قا بل شک نہیں ہے ۔

اب یہ سو ال پیدا ہو تا ہے کہ کیا یہ ( میں ) وہی ماد ی اور محسوس بد ن ہے اور کیا یہ نفسیا تی حا لا ت بھی اسی بدن کا ایک عا رضہ ہے یا ان کا وجود بدن کے وجود سے علیحدہ ہے اگر چہ اس ٫٫میں،،

اور ٫٫بدن،، کے درمیان نہا یت ہی گہرے تعلقا ت ہیں اور اپنے اکثر افعا ل کو اسی بدن کے ذریعہ انجام دیتا ہے اور اس میں اپنا اثر بھی ڈا لتا ہے اور خو د اس بدن سے متا ثر بھی ہو تا ہے ، مذکو رہ مقدمہ کے پیش نظر اس سوال کا جو ا ب بہت آسا نی سے دریافت ہوجاتا ہے کیو نکہ۔

١۔سب سے پہلے م٫٫میں،،کو علم حضو ری کے ذریعہ درک کرتے ہیں جبکہ ٫٫بدن،، کو حسی اعضا ء کے ذریعہ محسوس کیا جاتا ہے ۔

٢۔ دوسرے ٫٫میں،،ایک ایسا وجود ہے جو اپنی وحد ت اور حقیقی شخصیت کے وصف کے سا تھ دسیوں سال تک با قی رہتا ہے اور اس وحد ت و شخصیت کو ہم نا قا بل حفظ علم حضو ری کے ذریعہ درک کرتے ہیں در آ ں حا لیکہ بدن کے اجزاء با رہا تبدیل ہو تے رہتے ہیں اور سا بق اور لا حق اجزا کے در میان کو ئی بھی معیار وحد ت نہیں پا یا جا تا ۔

٣۔تیسرے ٫٫میں،، ایک بسیط اور نا قابل تجز یہ مو جود کا نام ہے مثلاً اس کو آدھے (میں ) میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا ،جبکہ بدن کے اعضا ء و جو ارح متعدد اور قا بل تجزیہ و تقسیم ہیں ۔

٤۔ چو تھے احسا س اور اراد ہ وغیر ہ کے مانند ایک بھی نفسیاتی حا لت میں ما دیا ت کی اصلی خا صیت جیسے امتدا د اور قابل تقسیم ہو نا نہیں پا ئی جا تی ،( یعنی نفسیا تی حا لت میں ما دیت کی کو ئی بھی اصلی خا صیت نہیں پا ئی جا تی ،اور ایسے غیر ما دی امو ر کو ما دہ(بدن )کے اعرا ض میں شما ر نہیں کیا جا سکتالہٰذا ان اعر اض کا مو ضو ع ایک جو ہر ہے جو غیر ما دی (مجرد ) ہے(۴) ۔

مو ت کے بعد رو ح کی بقا اور استقلا ل اور ا سکے وجود کے او پر اطمینان بخش اور د ل نشیں دلیلیں وہ سچے خو اب ہیں کہ بعض شخصیتو ں نے مر نے کے بعد خوا بوں کے ذریعہ ان حقائق کی نشاندھی کی ہے نیز اولیا ء خدا کی کر امتو ں اور یہا ں تک کہ مرتاضوں کی ریاضتوں کے ذریعہ رو ح اور اس کے غیر محسو س ہونے کو ثا بت کیا جا سکتا ہے ،اس مو ضو ع پر گفتگو کر نے کے لئے ایک مفصل اور مستقل کتا ب در کا ر ہے

قرآنی دلائل۔

قر آن کر یم کی رو سے رو ح انسانی کے وجود میں شک و شبہہ نہیںکیا جا سکتا وہ رو ح جس کو اس کی انتہا ئی شرا فت کی بنیا د پر خدا کی طر ف منسوب کیا جا تا ہے(۵)

جیسا کہ انسان کی خلقت کی کیفیت کے متعلق ار شا د ہو رہا ہے

( وَنُفِخَ فِیْهِ مِنْ رُوْحِهِ ) (۶) بدن کو بنا نے کے بعد اس میں اپنی ر وح پھو نک دی ،ایسا نہیں ہے کہ معا ذ اللہ خدا کی ذا ت سے کو ئی شے جدا ہو کر انسان کے اند ر منتقل ہو گئی ہو ۔

اور حضرت آدم کی تخلیق کے با رے میں فر ما تا ہے (نَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوْحِْ)(۷) اسی طر ح دوسری آیتو ں سے استفا دہ ہو تا ہے کہ روح بدن اوراس کی خا صیتو ں سے علیحدہ ایک دوسری شی

ہے جو بقا کی صلا حیت رکھتی ہے باہم ان کا فر وں کے قو ل کو ذکر کرنے کے بعد کہتے تھے ۔

( ئَ اِذَاْ ضَلََلنَا فیِْ الْاَرْضِ أَئِ نَّا لَفِ خَلقِِِ جَدِیْد ) )(۸) جس وقت ہم (مرگئے) اور زمین میں گم ہو گئے ( اور ہما رے بدن کے اجزاء مٹی میں بکھر گئے )کیا ہم دو با رہ پیدا کئے جا ئیں گے ۔

اس طر ح جو اب دے رہا ہے( قُلْ یَتَوَفَّا کُمْ مَلَکُ ا لْمَو ت اَلَّذِْ ُوُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ اِلیٰ رَبِّکُمْ تُْرجَعُوْنْ ) )(۹)

کہدو(تم گم نہیں ہوگے) وہ موت کا فرشتہ جو تمہارے اوپر تعینات ہے وہ تمہیں وفات دے گا اور پھر اپنے پروردگار کی طرف پلٹا دیئے جائوگے،

پس انسان کی شناخت کا معیار وہی روح ہے کہ جو موت کے فرشتے کے ذریعے قبض کی جاتی ہے،اور ہمیشہ محفوظ رہتی ہے نہ کہ وہ اجزاء بدن جو زمین میں بکھر جاتے ہیں اورختم ہو جاتے ہیں اور ،ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے۔(ا( َللّهُ یَتَوَفی الا نفس حَیْنَ مَوْ تِها وَا لَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَاْ مِهَاْ فَیُمْسِکُ التِّی قَضَیٰ عَلَیْهَا الْمَو تَ ،وَ یُرْ سِلُ الاُ خریٰ الٰی اَجَلٍ مُسَمّی ) ٰ )(۱۰)

اللہ ہی ہے جو روحوں کو(یا اشخاص) کو موت کے وقت اپنی طرف بلا لیتا ہے اور جو نہیں مرتے ہیں ان کی رو حوں کو بھی نیند کے وقت طلب کر لیتا ہے(یعنی وہ جو سو گیا ہے اس کی موت کا وقت نہیں آیا)۔

اور پھر جس کی موت کا فیصلہ کر لیتا ہے اس کی روح کو روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک مقررہ مدت کے لئے آزاد کردیتا ہے۔

اور ستمگا روں کی موت کی کیفیت کے بارے میں ارشاد فرماتاہے۔

( اِذِ الظَّالِموُنَ فِ غَمَرَاتِ اَلْمَوْتِ وَالْمَلاَئِکَةُ بَاسِطوُا أَ یْدِيْهِمْ أَخْرِجُوْا أَنْفُسَکُمْ ) )(۱۱)

اور اگر آپ دیکھتے کہ ظالمین موت کی سختیوں میں ہیں اور ملائکہ اپنے ہاتھ بڑھائے ہوئے آواز دے رہے ہیں کہ اب اپنی جانوں کو نکال دو۔(تسلیم ہو جائو)

ان آیات اور اس طرح کی دوسری آیتوں کہ جن کو اختصار کی وجہ سے ہم نے نقل نہیں کیا، استفادہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کی نفسیت اور شخصیت اس چیز کے ذریعہ ہے جس کو خدا اور ملک الموت اور روح قبض کرنے والے فرشتے اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں اور بدن کا نابود ہوجانا انسان کی روح اور اس کی حقیقت وحدت کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

نتیجہ کلام۔

سب سے پہلے،انسان کے اندر ایک شئے بنام روح پائی جاتی ہے،دوسرے یہ کہ انسان کی روح بدن سے جدا ہو کر بقا اور استقلال کی صلاحیت رکھتی ہے،نہ کہ مادی صورت اور اعراض کی طرح جو بدن کے ختم ہوجانے سے ختم ہو جائے،

تیسرے یہ کہ ہر فرد اور ہر شخص کی شناخت اور اس کا امتیاز اس کی روح سے وابستہ ہے،بلکہ یوںکہا جائے کہ ہر انسان کی حقیقت اس کی روح ہے اور بدن روح کی بہ نسبت ایک وسیلہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

سوالات

١۔علم حضوری اور علم حصولی کی تعریف کرتے ہوئے ان کے ما بین فرق کو واضح کیجئے؟

٢۔روح کے غیر محسوس ہونے کو عقلی دلیلوں سے واضح کیجئے؟

٣۔روح کے غیر محسوس(مجرد)ہونے پر دوسری کون سی دلیلوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟

٤۔اس بحث و گفتگو سے مربوط آیات کو ذکر کیجئے؟

٥۔ان آیتوں سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟

____________________

١۔ ممکن ہے یہ تو ہم پیدا ہو کہ وحی کے ذریعہ استدلا ل قیا مت اور روح کے مسائل کو ثا بت کر نے کے لئے ایک دوری استد لا ل ہے کیو نکہ اس دلیل میں جو بنو ت کی ضر ورت پر پیش کیا تھا اس اخر وی حیا ت کو جو مسئلہ رو ح پر موقوف ہے ایک اصل مو ضو ع کے عنوا ن سے نظر میں رکھا تھالہذا خو د اس اصل کو ثا بت کر نا وحی کے ذ ریعہ اور بنو ت کے ذریعہ مستلز م دو ر ہے یعنی دور لا زم آئے گا لیکن تو جہ ضر وری ہے کہ وحی کے ذریعہ استدلا ل کی صحت میں ضرو رت نبو ت کے مسئلہ کی ضرو رت نہیں ہے بلکہ اس کے وقوع پر مو قو ف ہے کہ جو معجزہ کے ذریعہ ثا بت ہو گا ( غور کیجئے ) اور چو نکہ قر آن مجید خو د بخو د معجزہ اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حقا نیت کی دلیل ہے لہٰذا اس کے ذریعہ رو ح اور قیامت کے مسا ئل کو ثا بت کر نے کے لئے استد لا ل کر نا صحیح ہے ۔

۲۔جا ننا چا ہیئے کہ نفس کی فلسفی اصطلا ح اس کے اخلا قی اصطلا ح کے علا وہ ہے جو عقل کے مقابل میں اور اس کی ضد کے عنوان سے استعما ل کی جا تی ہے

۳۔آمو زش فلسفہ ج ١ درس نمبر ١٣ کی طرف رجو ع کریں ۔

۴۔آمو زش فلسفہ جلد دوم در س نمبر ٤٤ اور ،٩٤ کی طرف رجو ع کر یں

۵۔ اصو ل کا فی۔ ج ١ ص ،١٣٤

۶۔سجدہ آیہ ٩

۷۔حجر ٢٩ ،ص ٧٢

۸ سجد ہ ۔ آیت ١٠

۹۔ سجدہ آیت ١١

۱۰۔ زمر۔ آیت ٤٢ ،

۱۱۔ انعا م ۔ آیت ٩٣،

چوّالسیوا ں درس

قیامت کا اثبات

مقدمہ:

جو مندرجہ ذیل بحثوں پر مشتمل ہے

برہان حکمت

برہان عدالت

مقدمہ

جیسا کہ ہم نے اس کتاب کے شروع ہی میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا، کہ قیامت اور آخرت میں انسان کے ہر فرد کے زندہ ہونے پر اعتقاد رکھنا تمام آسمانی ادیان کا بنیادی ترین عقیدہ ہے،اور انبیاء الٰہی علیہم السلام نے بھی اس اصل پر تاکید فرمائی ہے،اور لوگوں کے دلوں میں اس عقیدہ کو ثابت اور راسخ کرنے کے لئے بے انتہا ز حمتیں برداشت کی ہیں،اور قرآن مجید میں قیامت اور عدل پر عقیدہ رکھنے کو خدا کی توحید پر عقیدہ رکھنے کے برابر جانا گیا ہے ،اورتقریباً بیس سے زیادہ مقامات پر کلمہ ( اللّہ) اور( وَا لےَوم الاَخِر) کو ایک ساتھ استعمال کیا گیا ہے،اگرچہ دوہزار سے زیادہ آیات میں آخرت سے متعلق بحث کی گئی ہے۔

اس جز کی ابتدا میں ہم نے عاقبت شناسی کے بارے میں تحقیق کی اہمیت پر حتی المقدور روشنی ڈا ل چکے ہیں،اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ قیامت کا صحیح تصور اس روح کو قبول کرنے پر موقوف ہے جو ہر انسان کی شناخت کا معیار ہے اور اس کا وجود موت کے بعد بھی باقی رہے گا ،تاکہ یہ کہا جا سکے کہ وہی شخص جو اس دنیا سے گیا ہے دوبارہ قیامت اور آخرت میں زندہ کیا جائے گا،پھر اس کے بعد عقل و وحی کے ذریعہ اس روح کو ثابت کیا گیا ہے تاکہ انسان کی ابدی زندگی کے بارے میں گفتگو کا راستہ ہموار ہو جائے اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اس اہم اعتقادی اصل کو ثابت کرنے کی کوشش کریں۔

جس طرح مسئلہ روح کودو طریقوںعقل و نقل(آیات وروایات)کے ذریعہ ثابت کیا گیا ہے ، اسی طرح اس مسئلہ کو بھی انہیں دونوں طریقوں سے ثابت کریں گے،ہم سب سے پہلے قیامت کی ضرورت پر دو عقلی دلیلیں پیش کریں گے اور اس کے بعد بعض قرآنی ارشادات کو ضرورت اور امکان معاد کے سلسلے میں پیش کریں گے۔

برہان حکمت۔

خدا شناسی کے باب میں وضاحت کی تھی کہ خدا کی خلقت بیکار اور بے مقصد نہیں ہے بلکہ خیر و کمال سے محبت کہ جو خدا کی عین ذات ہے بالاصالة اور اس کے آثار ہیں باالتبع،کہ جس میں خیر وکمال کے بعض مراتب پائے جاتے ہیں متعلق ہوتی ہے،اسی لئے دنیا کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ خیرو کمال کا کسب کرنا اس پر مبنی ہو ،اور اس طرح سے ہم نے حکمت کی صفت کو ثابت کیا، کہ اس کا تقاضہ یہ ہے کہ مخلوقات کو ان کے مناسب کمال اور مقصد تک پہنچایا جا سکے،لیکن چونکہ مادی دنیا مزاحمتوںاور ٹکرائو کا مقام ہے، مادی موجودات کے خیر وکمالات ایک دوسرے کے معارض ہیں لہذا خدا کی حکیمانہ تدبیر کا تقاضہ یہ ہے کہ ا س کو اس انداز سے مرتب اور منظم کرے کہ مجموعی اعتبار سے زیادہ سے زیادہ خیرات اور کمالات ا س پر مرتب ہوں،بلکہ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس دنیا میں بہترین نظام پایا جائے،اسی وجہ سے مختلف قسم کے عناصر اور ان کی مقدار و کیفیت ، فعل و انفعالات نیز اس کی حرکات و سکنات اس طرح منظم اور مرتب ہیں کہ سبزوں اور درختوں اور آخر میں اس دنیا کی سب سے کامل ترین مخلوق یعنی انسان کی خلقت کا زیادہ سے زیادہ موقع فراہم ہو جائے ،اور اگر یہ مادی دنیا اس طرح پیدا کی گئی ہوتی کہ موجودات زندہ کی پیدائش اور اس کے رشد کو ناممکن بنا دیتی، تو یہ

حکمت کے خلاف کام ہوتا۔

اب ہم مزید اضافہ کرتے ہیں اس بات کے مد نظر کہ انسان کے اندر قابل بقا روح پائی جاتی ہے ،اور وہ ابدی و جاودانی کمالات کو حاصل کرسکتا ہے وہ بھی ایسے کمالات جس کا تقابل مادی کمالات سے نہیں کیا جاسکتا،اگر اس کی حیات اس د نیوی زندگی پر منحصر ہو جائے تو حکمت الٰہی کے ساتھ سازگار نہیں ہو سکتی،خاص طور سے اس بات کے پیش نظر کہ دنیاوی حیات بے شمار رنج و مصیبت اور سختیوں و پریشانیوں کے ہمراہ ہوتی ہے اور غالباًکو ئی بھی لذت بغیر رنج و مصیبت اور زحمت کے حاصل نہیں ہوتی،اس طرح حساب لگانے والے افراد ا س نتیجہ پر پہنحے ہیں کہ محدود لذتوں کو حاصل کرنے کے لئے ان سب زحمتوں اور پریشانیوں کا برداشت کرنا مفید نہیں ہے،اور انہیں محاسبات کے ذریعہ بیکاری اور بے مقصد زندگی کی طرف رجحان پیدا ہوتا ہے یہاں تک بعض لوگ زندگی سے شدید محبت رکھنے کے باوجود خود کشی کی منزل تک پہنچ جاتے ہیں در حقیقت اگر انسان کی زندگی اس کے علاوہ نہ ہوتی کہ مسلسل زحمتیں برداشت کرے، اور طبیعی و اجتماعی مشکلات سے ہمیشہ دست و گریباں رہے تاکہ چند لمحہ لذت و خوشی کے ساتھ گذارے، اور اس وقت خستگی اور تھکاوٹ کے باعث سو جائے تاکہ جس وقت اس کا جسم دوبارہ محنت کرنے اور کام کے لئے آمادہ ہو جائے(نیادن اور نئی روزی) تو پھر دو با رہ سعی و کو شش کر ے مثلاً ایک لقمہ رو ٹی حا صل کرلے اور اسے کھا نے کے ذریعہ ایک لمحہ کی لذت محسو س کرے اور اس کے علا وہ کچھ نہیں !ایسا تکلیف دہ اور رنج و ملا ل آور تسلسل کو عقل ہر گز پسند نہیں کر تی، اور نہ تو اس کے انتخا ب کا حکم ( فتوی) دیتی ہے، ایسی زندگی کی بہترین مثا ل یہ ہے کہ ایک ڈرا ئیو ر اپنی کا ر کو پٹر ول پمپ تک جا ئے اور پٹرو ل کی ٹنکی کو بھر نے کے بعد اس پٹر ول کو دوسرے پٹرول پمپ تک لیجانے میں صرف کر دے ،اور اس کام کو برابر انجام دیتا رہے یہا ں تک کہ اس کی کا ر پرا نی و بو سید ہ ہو جا ئے اور کام کر نا چھوڑ دے یا کسی اکسیڈنٹ یا دوسرے موانع کی وجہ سے تباہ ہو جائے ۔

ظاہر ہے کہ انسان کی زندگی کے متعلق ایسا نظر یہ رکھنا بے مقصد بے ہدف ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

دوسری طر ف انسان کی مہم اور بنیادی خو اہشا ت میں سے ایک بقااور جا ویدانگی ہے کہ جسے خدا ووند عا لم نے اس کی فطر ت میں قرار دیا ہے اورا یک ایسے محر ک اور قوت کے حکم میں ہے جو اسے

ابدیت کی طر ف لے جا تا ہے اور مسلسل اس کی رفتار میں اضا فہ کر تا رہتا ہے ایسے مو قع پر اگر یہ فر ض کیا جا ئے کہ ایسے محر ک اور تیز رفتا ری سے چلنے وا لے کا انجام سوا ئے اس کے کچھ نہیں ہے کہ وہ اپنی رفتا ر کی سر عت کی انتہا پر ایک مضبو ط پتھر سے ٹکر ا جا ئے اور پا ش ہا ش ہو کر ختم ہو جا ئے آیا ایسے انجام اور مقصد کے پیش نظر قو ت و سر عت و رفتا ر میں اضا فہ کر نا منا سب ہو گا ؟لہذا ایسا فطری رجحان اس وقت حکمت الہٰی کے سا تھ سا ز گا ر ہو گا کہ جب اس فا نی اور مو ت سے محکوم دنیا کے علا وہ کو ئی اور زندگی پا ئی جا ئے ۔

حا صل کلا م یہ ہے کہ اپنی انھیںدو تمہید وں کے بعد یعنی حکمت اور انسان کے لئے ابدی زندگی کے امکان سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس محدود دنیا وی زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی انسان کے لئے ہو نی چا ہیے تا کہ حکمت الہٰی کی مخالفت نہ ہو ۔

اور جا ودا نی زند گی کی طرف رجحا ن کو ایک دوسر ا مقدمہ قرار دیا جا سکتا ہے اور اس میں حکمت الہٰی کو ضمیمہ کر کے ایک دوسری دلیل بنا کر پیش کی جا سکتی ہے ۔

اسی کے ضمن میں یہ با ت بھی رو شن ہو گئی ہے کہ انسان کی ابدی زندگی میں ایک دوسرا نظا م ہو نا چا ہیئے کہ جس میں دنیا وی حیا ت کی طر ح رنج و مصیبت نہ پا ئی جا ئے ورنہ یہی دنیا وی زندگی اگر ہمیشہ کے لئے ممکن ہو جا تی ، تب بھی حکمت خدا کے سا تھ سا زگا ر نہ ہو تی ۔

برہان عدا لت۔

اس دنیا میں سا رے انسان اچھے اور بر ُے عمل کو انجام دینے میں آزاد ہیں ایک طر ف تو وہ لو گ ہیں جو اپنی پو ر ی زندگی خدا کی عبا دت اور بند گا ن ِخدا کی خد مت میں گذا ر دیتے ہیں،اور دوسری طر ف ایسے ایسے گنہگار اور بد کردا ر افراد نظر آتے ہیں جو اپنی شیطا نی خوا ہشا ت تک پہنچنے کے لئے بڑے سے بڑا ظلم اور بد سے بد تر گنا ہ کا ارتکا ب کر تے ہیں اور بنیا دی طو ر سے اس دنیا میں انسان کی خلقت کا مقصد اور اس کو مختلف متضا د رجحا نا ت اور ار ا دہ و انتخا ب سے اور مختلف عقلی و نقلی شنا ختو ں سے

ما لا مال کر دینے اور اس کی مختلف رفتا ر و کر دا ر کے لئے مو قع فر اہم کر نے اور حق و با طل اور خیر و شر کے دو ، را ہے پر لا کر کھڑا کر دینے کا مقصدو ہد ف یہ ہے کہ انسان بے شما ر امتحا نا ت اور آزمائشو ں سے گذ رے، اور اپنے کما ل کی را ہ کو اپنے ارا دہ و اختیا ر کے ذر یعہ انتخا ب کر ے، تا کہ اپنے اختیا ری اعمال کی جزا یا سزا پا سکے اور در حقیقت انسان کے لئے اس دنیا کی پو ری پو ری زند گی صر ف امتحا نا ت اور آزمائشیں اور اپنی شخصیت کو بنا نا ہے یہا ں تک کہ یہ انسان اپنی عمر کے آخر ی لمحے تک ان آزمائشا ت اور امتحا نا ت اور تکلیف کے انجام دینے سے معذور نہیں ہے ۔

لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خدا کے نیک بندے اور گنہگا ر وظا لم اس دنیا میں اپنے کئے کی جزا یا سزا نہیں پا تے اور بسا اوقات دیکھتے ہیں گنہگا ر لو گ زیا دہ نعمتو ں سے سر فراز ہیں اور خو شحا ل زندگی بسر کر رہے ہیں،اور بنیادی اعتبار سے اس دنیاوی زندگی میں بہت سے ایسے اعمال ہیں جنکی جزا یا سزا کی گنجائش نہیں،مثلاً وہ شخص جس نے ہزاروں بے گناہ انسان کو قتل کردیا ہو اسکو ایک بار سے زیادہ قصاص نہیں کیا جا سکتا اور باقی تمام جرائم و فسادات اور سارے ظلم بغیر سزا کے رہ جائیں گے،حالانکہ عدل پروردگار کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر کسی نے چھوٹے سے چھوٹا بھی اچھا یا برُا کام کیا ہے تو اس کو اس کا نتیجہ ملنا چاہیے۔

پس جیسا کہ یہ دنیا آزمائش اور امتحان کا مقام ہے ویسے ایک دوسرا مقام ہونا چاہیے جہاں جزا اور سزا ملے اور انسان کے اعمال کا نتیجہ سامنے آئے اور ہر فرد اپنے مناسب مقامات تک پہنچ جائے، تاکہ خدا کی عدالت عینی طور سے محقق ہو جائے۔

اسی بیان کے ذیل میں یہ بھی واضح ہوتا ہے آخرت ، انتخاب راہ اور تکلیف کوانجام دینے کی جگہ نہیں ہے،آئندہ انشاء اللہ اس سے بھی مفصل بحث کریں گے۔

سوالات:

١۔حکمت الٰہی کا نظام احسن سے کیا رابطہ ہے؟شرح کیجئے؟

٢۔برہان حکمت کو دو تقریروں کے ذریعہ بیان کیجئے؟

٣۔اس برہان سے اصل قیامت کے اثبات کے علاوہ اور کون سا دوسرا نکتہ سمجھ میں آتا ہے؟

٤۔اس دنیا میں انسان کی خلقت کے مقصد کی وضاحت کیجئے؟

٥۔برہان عدالت کو تفصیل کے ساتھ بیان کیجئے؟

٦۔اس برہان سے کون سا خاص نکتہ حاصل ہوتا ہے؟

ائمہ معصو مین علیہم السلام کی زندگی کا ایک مختصر جائزہ

حضرت امام علی علیہ السلام

(مسلمانوں کے پہلے امام )

حضرت امیرالمومنین علی بن ابیطالب علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم وتربیت کے پہلے کامل نمونہ تھے ۔

علی علیہ السلام نے بچپن سے ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن میں پرورش پائی تھی ،اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحہ تک ایک سایہ کے مانند ساتھ ساتھ رہے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شمع وجود کے گرد پروانہ کی طرح پرواز کرتے رہے ۔جب آخری بارآپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا ہوئے ،یہ وہ لمحہ تھا جب آپ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جسد مطہر کوآغوش میں لے کر سپرد خاک کیا۔

حضرت علی علیہ السلام ایک عالمی شخصیت ہیں ۔دعوی کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جتنی گفتگو اس عظیم شخصیت کے بارے میں ہوئی ہے ،اتنی کسی بڑے سے بڑے عالمی شخصیت کے بارے میں نہیں ہوئی ہے ۔شیعہ وسنی اور مسلم وغیر مسلم دانشوروں اور مصنفوں نے حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں ایک ہزارسے زائد کتا بیں تالیف کی ہیں ۔آپ کے بارے میں دوست ودشمن بے شمار تحقیق اور کھوج کے باوجود آپ کے ایمان میں کسی قسم کا کمزور نقطہ پیدانہیں کر سکے یاآپ کی شجاعت،عفت،معرفت،عدالت اور دوسرے تمام پسندیدہ اخلاق کے بارے میں شمّہ برابر نقص نہیں نکال سکے ،کیونکہ آپ ایک ایسے شخص تھے ،جوفضیلت وکمال کے علاوہ کسی چیز کو نہیں پہچانتے تھے اوراسی طرح آپ میں فضیلت وکمال کے علاوہ کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی ۔

تاریخ گواہ ہے کہ ،پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت سے آج تک جتنے حکّام نے اسلامی معاشرہ میں حکومت کی ان میں صرف حضرت علی علیہ السلام ایسے ہیں کہ جنہوں نے اسلامی معاشر ہ پر اپنی حکومت کے دوران پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر پوری طرح عمل کیا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روش سے ذرہ برابر منحرف نہیں ہوئے اوراسلامی قوانین اورشریعت کو کسی قسم کے دخل وتصرف کے بغیر اسی طرح نافذ کیا ،جس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں نافذ ہوئے تھے ۔

دوسرے خلیفہ کی وفات کے بعد نئے خلیفہ کو معین کرنے کے لئے خلیفہ دوم کی وصیت کے مطابق جو چھ رکنی کمیٹی بنا ئی گئی تھی ، اس میں کافی گفتگو کے بعد خلافت کا مسئلہ علی اور عثمان کے درمیان تذبذب میں پڑاعلی کو خلافت کی پیشکش کی گئی ،لیکن اس شرط پرکہ ''لوگوں میں خلیفہ اول اور دوم کی سیرت پر عمل کریں''حضرت علی نے ان شرائط کوٹھکراتے ہوئے فرمایا:''میں اپنے علم سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھوں گا۔''

اس کے بعدوہی شرائط عثمان کے سامنے رکھی گئیں ،انہوں نے قبول کیا اور خلافت حاصل کی ،اگر چہ خلافت ہاتھ میں آنے کے بعددوسری سیرت پر عمل کیا ۔

علی علیہ السلام نے راہ حق میں جن جاں نثاریوں،فداکاریوں اورعفو وبخشش کا مظاہرہ کیا ہے ان میں آپ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں بے نظیر تھے ۔اس حقیقت سے ہرگزانکار نہیں کیاجاسکتا ،کہ اگراسلام کا یہ جاں نثار اور سورمانہ ہوتا ،توکفارو مشرکین ہجرت کی رات کو،اس کے بعد بدرواحد،خندق وخیبر وحنین کی جنگوں میں نبوت کی شمع کوآسانی کے ساتھ بجھا کر حق کے پر چم کو سر نگوں کر دیتے۔

علی علیہ السلام نے جس دن سماجی زندگی میں قدم رکھا ،اسی لمحہ سے انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ، یہاں تک کہ اپنی با عظمت خلافت کے دنوں میں فقیروں اور پسماندہ ترین افراد جیسی زندگی بسر کرتے تھے ،خوراک ،لباس اور مکان کے لحاظ سے معاشرہ کے غریب ترین افراد میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں تھا اور آپ فرماتے تھے ۔

''ایک معاشرے کے حاکم کواس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے کہ ضرورت مندوں اور پریشان حال افراد کے لئے تسلی کاسبب بنے نہ ان کے لئے حسرت اور حوصلہ شکنی کا باعث ہو۔''(۱)

علی علیہ السلام اپنی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے محنت و مزدوری کرتے تھے، خاص کر کھیتی باڑی سے دلچسپی رکھتے تھے ،درخت لگا تے تھے اور نہر کھو دتے تھے ،لیکن جو کچھ اس سے کماتے تھے یا جنگوں میں جومال غنیمت حاصل کرتے تھے ،اسے فقرا اورحاجتمندوں میں تقسیم کرد یتے تھے ۔جن زمینوں کو آباد کرتے تھے انھیں یا وقف کرتے تھے یا ان کو بیج کر پیسے حاجتمندوں کو دیتے تھے ۔اپنی خلافت کے دوران ایک سال حکم دیا کہ آپ کے اوقاف کی آمدنی کو پہلے آپ کے پاس لایا جائے پھرخرچ کیا جائے۔جب مذکورہ آمدنی جمع کی گئی تو یہ سونے کے ٢٤ ہزاردینار تھے ۔

علی علیہ السلام نے اتنی جنگوں میں شرکت کی لیکن کبھی کسی ایسے دشمن سے مقابلہ نہ کیا جسے موت کے گھاٹ نہ اتار دیا ہو ۔آپ نے کبھی دشمن کو پیٹھ نہ دکھائی اور فرماتے تھے :

''اگر تمام عرب میرے مقابلہ میں آ جائیں اور مجھ سے لڑیں تو بھی میں شکست نہیں کھا ئوں گا اور مجھے کوئی پروا نہیں ہے ۔''

علی علیہ السلام ایسی شجاعت وبہادری کے مالک تھے کہ دنیا کے بہادروں کی تاریخ آپ کی مثال پیش نہ کرسکی ،اس کے باوجود آپ انتہائی مہر بان،ہمدرد،جوانمرد اور فیاض تھے۔ جنگوں میں عورتوں ،بچوںاور کمزوروں کو قتل نہیں کرتے تھے اور ان کو اسیر نہیں بناتے تھے بھاگنے والوں کا پیچھا نہیں کرتے تھے۔

جنگ صفین میں معاویہ کے لشکرنے سبقت حاصل کر کے نہرفرات پر قبضہ کرلیا اور آپ کے لشکر پر پانی بند کر دیا ،حضرت علی علیہ السلام نے ایک خونین جنگ کے بعدنہر سے دشمن کا قبضہ ہٹا دیا،اس کے بعد حکم دیا کہ دشمن کے لئے پانی کاراستہ کھلا رکھیں ۔

خلافت کے دوران کسی رکاوٹ اوردربان کے بغیر ہر ایک سے ملاقات کر تے تھے اورتنہااورپیدل راستہ چلتے تھے ،.گلی کوچوں میں گشت زنی کرتے تھے اور لوگوں کو تقوی کی رعایت کرنے کی نصیحت فرماتے تھے اور لوگوں کو ایک دوسروں پرظلم کرنے سے منع کرتے تھے ،بے چاروں اوربیوہ عورتوں کی مہر بانی اور فروتنی سے مدد فرماتے تھے ۔یتیموں اورلاوارثوں کو اپنے گھر میں پالتے تھے ،ان کی زندگی کی ضرورتوں کو ذاتی طور پر پورا کرتے تھے اوران کی تربیت بھی کرتے تھے ۔

حضرت علی علیہ السلام علم کو بے حد اہمیت دیتے تھے اورمعارف کی اشاعت کے میں خاص توجہ دیتے تھے ،اور فرماتے تھے:

''نادانی کے مانند کوئی درد نہیں ہے''(۲)

جمل کی خونین جنگ میں آپ اپنے لشکر کی صف آرائی میں مشغول تھے ،ایک عرب نے سامنے آ کر''توحید''کے معنی پوچھے۔لوگ ہر طرف سے عرب پر ٹوٹ پڑے اور اس سے کہاگیا ایسے سوالات کا یہی وقت ہے؟!حضرت نے لوگوں کو اعرابی سے ہٹاکر فرمایا :

''ہم لوگوں سے ان ہی حقائق کو زندہ کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں ''(۳)

اس کے بعد اعرابی کواپنے پاس بلایا ،اپنے لشکرکی صف آ رائی کرتے ہوئے اعرابی کو ایک دلکش بیان سے مسئلہ کی وضاحت فرمائی ۔

اس قسم کے واقعات حضرت علی علیہ السلام کے دینی نظم وضبط اور ایک حیرت انگیزخدائی طاقت کی حکایت کرتے ہیں ۔جنگ صفین کے بارے میں مزید نقل کیا گیا ہے کہ ،جب دو لشکر دو تلاطم دریائوں کے مانند آپس میں لڑرہے تھے اور ہر طرف خون کادریا بہہ رہاتھا۔ توحضرت اپنے ایک سپاہی کے پاس پہنچے،اس سے پینے کے لئے پانی مانگا۔

سپاہی نے لکڑی کا ایک پیالہ نکالااوراس میں پانی بھر کے پیش کیا ،حضرت نے اس پیالہ میں ایک شگاف مشاہدہ کیا اور فرمایا :''ایسے برتن میں پانی پینااسلام میں مکروہ ہے۔''

سپاہی نے عرض کی :اس حالت میں کہ جب ہم ہزاروںتیروں اور تلواروںکے حملہ کی زد میں ہیں اس قسم کی دقت کرنے کا موقعہ نہیں ہے !

اس سپاہی کو آپ نے جوجواب دیا،اس کا خلاصہ یہ ہے:''ہم ان ہی دینی احکام و قوانین کو نافذکر نے کے لئے لڑ رہے ہیں اور احکام چھوٹے بڑے نہیں ہوتے ہیں''

اس کے بعد حضرت نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملاکر سامنے کیا اورسپاہی نے پیالہ میں بھرا پانی آپ کے ہاتھوں میں ڈال دیا ۔

حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کے بعدایسے پہلے شخص ہیں کہ جنہون نے علمی حقائق کو فلسفی طرز تفکر ،یعنی آزاداستدلال میں بیان فرمایااور بہت علمی اصطلا حیں وضع کیں اور قرآن مجید کی غلط قرأت اورتحریف سے حفاظت کے لئے عربی زبان کے قو ا ئد ''علم نحو'' وضع کئے اور ان کو مرتب کیا ۔

آپ کی تقریروں ،خطوط اوردیگرفصیح بیانات میں ،معارف الہی،علمی،اخلاقی ،سیاسی یہاں تک کہ ریاضی کے مسائل میں جوباریک بنیی پائی جاتی ہے ، یقینا وہ حیرت انگیزہیں۔

امام علی علیہ السلام کے فضائل کا خلاصہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو چھ سال کی عمر میں حضرت ابوطالب کے یہاں سے اپنے گھر لے آئے اور ان کی پرورش اپنے ذمہ لے لی۔حضرت علی علیہ السلام اسی دن سے ایک سایہ کے مانند پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آخری بار اس وقت جدا ہوئے ،جب آپ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جسد مطہر کوسپرد خاک کیا۔

حضرت علی علیہ السلام پہلے کامل نمونہ ہیں جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعلیم وتربیت کے مکتب میں پروان چڑھے ۔آپ پہلے شخص ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ ہی سب سے آخر میں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جدا ہوئے ۔

بعثت کے پورے زمانہ میں جو خدمات حضرت علی علیہ السلام نے خدا کے دین کے لئے انجام دیئے ،دوست ودشمن گواہ ہیں کہ وہ خدمات کوئی اورانجام نہیں دے سکا ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے اسلام کی سب سے اہم جنگوں میں شرکت فرمائی اور جنگ کے تمام خونین میدانوں میں مسلمانوں کے اندربے مثال بہادری اور کامیابی کا راز آپ ہی تھے ۔چنانچہ بڑے بڑے صحابی جنگوں میں بار ہا بھاگ جاتے تھے ،لیکن آپ نے کبھی دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائی اور کوئی حریف آپ کی تلوار کی وار سے بچ نہ سکا ۔اس بے نظیر شجاعت ،جوضرب المثل بن چکی تھی ،کے باوجودآپ ہمدرداورمہر بان تھے ،کبھی اپنے زخمی دشمن کوقتل نہیں کرتے تھے اور جنگ سے بھاگنے والوں کاپیچھا نہیں کرتے تھے ۔

حضرت علی علیہ السلام ،اپنی تقریروں،کلمات قصار اور اپنے گوہربار بیانات،جویاد گار کے طورپر مسلمانوں کے پاس موجود ہیں ،کے اعتبار سے مسلمانوں میں قرآن مجید کے بلند مقاصد کے بارے میں معروف ترین شخص ہیں ۔آپ نے اسلام کے اعتقادی و علمی معارف کو کما حّقہ حاصل کر کے حدیث شریف:

''انا مدینةالعلم وعلی بابها'' (۴)

کوثابت کردیا اوراس علم کوعملی جا مہ پہنایا ۔ حضرت علی علیہ السلام کا دینداری، عفت نفس اورزھدوتقویٰ میں کوئی نظیر نہیں تھا۔آپ اپنے معاش کے لئے روزانہ محنت ومشقت کرتے تھے ، بالخصوص زراعت کو بہت پسند کرتے تھے ۔بنجر زمینوں کوآباد کرتے تھے ،نہریں کھودتے تھے ،درخت لگاتے تھے،جس جگہ کو آباد کرتے اسے مسلمانوںکے لئے وقف کر دیتے تھے یا اس کو بیچ کر پیسے فقراء میں تقسیم کر دیتے تھے اورخود نہایت زھدوقناعت کے ساتھ فقیرانہ زندگی گزارتے تھے۔ جس دن شہید ہوئے ۔باوجوداس کے کہ تمام اسلامی ممالک کے فرمانروا تھے ۔آپ کی پونجی صرف سات سودرہم تھی جنھیں آپ اپنے گھر کے لئے ایک خدمت گار پرصرف کرنا چاہتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام کی عدالت ایسی تھی کہ خداکے احکام کے نفاذاور لوگوں کے حقوق کو زندہ کرنے میں ہرگز کسی طرح کے استثناء کے قائل نہیں تھے ۔آپ ذاتی طور پرگلی کوچوں میں گشت لگاتے تھے اور لوگوں کو اسلامی قوانین کی رعایت کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔

حضرت امیرالمؤ منین کا طریقہ

چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے مسائل میں ولی ہونا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نص کے مطابق خدائے متعال کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کے لئے مخصوص تھا ،لیکن اسے انتخابی خلافت میں تبدیل کیا گیا اور اس طرح خلافت کی کرسی پر دوسرے لوگوں نے قبضہ جمایا ۔

حضرت علی علیہ السلام اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند خاص صحابیوں جیسے سلمان فارسی ،ابوذرغفاری اورمقداد اسدی نے لوگوں سے ایک اعتراض کیا لیکن انھیں مثبت جواب نہیں ملا۔

حضرت علی علیہ السلام لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے ایک مدت تک اپنے گھر میں قرآن مجیدجمع کرنے میں مصروف رہے ۔اس کے بعد کچھ خاص صحابیوںاور چنددیگرافراد کی تعلیم وتربیت میں مشغول ہوئے ۔

حضرت علی علیہ السلام کا ماضی درخشان اور بے مثال تھا ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں آپ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وزیر اور اسلامی فتوحات کی کلید تھے .علم ودانش میں ، فیصلہ دینے میں ، سخن وری اور دیگرتمام معنوی فضائل میں آپ تمام مسلمانوں پر برتری رکھتے تھے ۔اس کے باوجودخلیفہ اول کے زمانے میں اجتماعی مسائل اور عمومی کام میں آپ سے کسی قسم کا استفادہ نہیں کیاگیا ،اس لئے آپ صرف خدا کی عبادت اور چند اصحاب کی علمی وعملی تربیت میں مشغول رہتے تھے اورایک عام انسان کی طرح زندگی گزارتے تھے ۔

خلیفہ دوم کے زمانے میں بھی کسی کام کوآپ کے حوالہ نہیں کیا جاتا تھا ،لیکن کسی حدتک آپ سے رجوع کرتے تھے اور اہم مسائل میں آپ کے نظریات سے استفادہ کیا جاتا اور آپ سے مشورہ لیا جاتاتھا ۔چنانچہ خلیفہ دوم نے بارہا کہا ہے:(اگرعلی کی رہنمائی نہ ہوتی ،توعمرہلاک ہوجاتا)۔(۵)

خلیفہ سوم کے زمانہ میں لوگوں کی توجہ آپ کی طرف زیادہ ہوئی اوراس پوری ٢٥سالہ

مدت میں آپ کی تعلیم وتربیت کادائرہ دن بدن وسیع تر ہوتاگیا یہاں تک کہ مکتب ولایت سے بالواسطہ اور بلاواسطہ تربیت پانے والوں کی ایک بڑی جماعت نے خلیفہ سوم کے قتل کے فورابعد آپ کے پاس ہجوم کیا اورآپ کوخلافت قبول کرنے پر مجبور کیا ۔

حضرت امیرالمو منین نے خلافت کی باگ ڈورسنبھالتے ہی پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو۔جیسے مدتوںسے فراموش کیاگیاتھا۔پھر سے زندہ کیا۔آپ نے مساوات اوراجتماعی عدالت نافذ کرکے تمام بیجا امتیازات کوختم کردیا۔تمام لاابالی گورنروںاورفرمانرواؤں کو معزول کردیااورانکے بیت المال سے لوٹے گئے مال ودولت اور خلیفہ کی طرف سے مختلف لوگوں کوبے حساب دی گئی جاگیروں و املاک کوضبط کیا،اور دینی ضوابط اورقوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کومناسب سزائیں سنائیں ۔

اثرو رسوخ رکھنے والے لیڈروںاورناجائز منافع حاصل کرنے والوں نے جب دیکھا کہ ان کے ذاتی منافعے خطرے میں پڑ رہے ہیں،توانہوں نے مخالفت کاپرچم بلند کر کے عثمان کے خو ن کابدلہ لینے کے بہانے سے داخلی خونین جنگوں کی آگ بھڑکادی جوحضرت کی مشکلات کاسبب اوراصلاحات رکھنے میں رکاوٹ بن گئیں ۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے پانچ سالہ دور میں کمر توڑ َمشکلات کے باوجود بے شمار افراد کی تربیت کی اوراپنی تقریروں اورفصیح بیانات کے ذریعہ علمی میدان کے مختلف ہنروفنون کے گراں بہا خزانے یادگارکے طور پر چھوڑدئے ،ان میں سے ایک علم نحوکے اصولوںکا وضع کرنا ہے جو حقیقت میں عربی زبان کے قواعد وضوابط ہیں ۔

آپ کی بر جستہ شخصیت کے اوصاف ناقابل بیان ہیں ،آپ کے فضائل بے انتہا اور بے شمار ہیں ۔تاریخ ہرگز کسی ایسے شخص کو پیش نہیںکر سکتی جس نے آپ کے برابر دنیا کے دانشوروں، مصنّفوں اور متفکروں کے افکار کو اپنی طرف جذب کیا ہو۔

____________________

١۔نہج البلاغہ فیض الاسلام ،خطبہ ٢٠٠،ص٦٦٣۔

۲۔شرح غرر الحکم ،ج٢،ص٣٧٧،ح٢٨٨٢۔

۳۔ بحارالانوار،ج٣،ص٢٠٧ ،ح١۔

۴۔بحارالانوار،ج٤٠،ص٢٠١۔

۵۔بحارالانوار،ج٤٠ص٢٢٩۔

ائمہ معصو مین علیہم السلام کی زندگی کا ایک مختصر جائزہ

حضرت امام علی علیہ السلام

(مسلمانوں کے پہلے امام )

حضرت امیرالمومنین علی بن ابیطالب علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم وتربیت کے پہلے کامل نمونہ تھے ۔

علی علیہ السلام نے بچپن سے ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن میں پرورش پائی تھی ،اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحہ تک ایک سایہ کے مانند ساتھ ساتھ رہے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شمع وجود کے گرد پروانہ کی طرح پرواز کرتے رہے ۔جب آخری بارآپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا ہوئے ،یہ وہ لمحہ تھا جب آپ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جسد مطہر کوآغوش میں لے کر سپرد خاک کیا۔

حضرت علی علیہ السلام ایک عالمی شخصیت ہیں ۔دعوی کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جتنی گفتگو اس عظیم شخصیت کے بارے میں ہوئی ہے ،اتنی کسی بڑے سے بڑے عالمی شخصیت کے بارے میں نہیں ہوئی ہے ۔شیعہ وسنی اور مسلم وغیر مسلم دانشوروں اور مصنفوں نے حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں ایک ہزارسے زائد کتا بیں تالیف کی ہیں ۔آپ کے بارے میں دوست ودشمن بے شمار تحقیق اور کھوج کے باوجود آپ کے ایمان میں کسی قسم کا کمزور نقطہ پیدانہیں کر سکے یاآپ کی شجاعت،عفت،معرفت،عدالت اور دوسرے تمام پسندیدہ اخلاق کے بارے میں شمّہ برابر نقص نہیں نکال سکے ،کیونکہ آپ ایک ایسے شخص تھے ،جوفضیلت وکمال کے علاوہ کسی چیز کو نہیں پہچانتے تھے اوراسی طرح آپ میں فضیلت وکمال کے علاوہ کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی ۔

تاریخ گواہ ہے کہ ،پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت سے آج تک جتنے حکّام نے اسلامی معاشرہ میں حکومت کی ان میں صرف حضرت علی علیہ السلام ایسے ہیں کہ جنہوں نے اسلامی معاشر ہ پر اپنی حکومت کے دوران پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر پوری طرح عمل کیا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روش سے ذرہ برابر منحرف نہیں ہوئے اوراسلامی قوانین اورشریعت کو کسی قسم کے دخل وتصرف کے بغیر اسی طرح نافذ کیا ،جس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں نافذ ہوئے تھے ۔

دوسرے خلیفہ کی وفات کے بعد نئے خلیفہ کو معین کرنے کے لئے خلیفہ دوم کی وصیت کے مطابق جو چھ رکنی کمیٹی بنا ئی گئی تھی ، اس میں کافی گفتگو کے بعد خلافت کا مسئلہ علی اور عثمان کے درمیان تذبذب میں پڑاعلی کو خلافت کی پیشکش کی گئی ،لیکن اس شرط پرکہ ''لوگوں میں خلیفہ اول اور دوم کی سیرت پر عمل کریں''حضرت علی نے ان شرائط کوٹھکراتے ہوئے فرمایا:''میں اپنے علم سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھوں گا۔''

اس کے بعدوہی شرائط عثمان کے سامنے رکھی گئیں ،انہوں نے قبول کیا اور خلافت حاصل کی ،اگر چہ خلافت ہاتھ میں آنے کے بعددوسری سیرت پر عمل کیا ۔

علی علیہ السلام نے راہ حق میں جن جاں نثاریوں،فداکاریوں اورعفو وبخشش کا مظاہرہ کیا ہے ان میں آپ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں بے نظیر تھے ۔اس حقیقت سے ہرگزانکار نہیں کیاجاسکتا ،کہ اگراسلام کا یہ جاں نثار اور سورمانہ ہوتا ،توکفارو مشرکین ہجرت کی رات کو،اس کے بعد بدرواحد،خندق وخیبر وحنین کی جنگوں میں نبوت کی شمع کوآسانی کے ساتھ بجھا کر حق کے پر چم کو سر نگوں کر دیتے۔

علی علیہ السلام نے جس دن سماجی زندگی میں قدم رکھا ،اسی لمحہ سے انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ، یہاں تک کہ اپنی با عظمت خلافت کے دنوں میں فقیروں اور پسماندہ ترین افراد جیسی زندگی بسر کرتے تھے ،خوراک ،لباس اور مکان کے لحاظ سے معاشرہ کے غریب ترین افراد میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں تھا اور آپ فرماتے تھے ۔

''ایک معاشرے کے حاکم کواس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے کہ ضرورت مندوں اور پریشان حال افراد کے لئے تسلی کاسبب بنے نہ ان کے لئے حسرت اور حوصلہ شکنی کا باعث ہو۔''(۱)

علی علیہ السلام اپنی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے محنت و مزدوری کرتے تھے، خاص کر کھیتی باڑی سے دلچسپی رکھتے تھے ،درخت لگا تے تھے اور نہر کھو دتے تھے ،لیکن جو کچھ اس سے کماتے تھے یا جنگوں میں جومال غنیمت حاصل کرتے تھے ،اسے فقرا اورحاجتمندوں میں تقسیم کرد یتے تھے ۔جن زمینوں کو آباد کرتے تھے انھیں یا وقف کرتے تھے یا ان کو بیج کر پیسے حاجتمندوں کو دیتے تھے ۔اپنی خلافت کے دوران ایک سال حکم دیا کہ آپ کے اوقاف کی آمدنی کو پہلے آپ کے پاس لایا جائے پھرخرچ کیا جائے۔جب مذکورہ آمدنی جمع کی گئی تو یہ سونے کے ٢٤ ہزاردینار تھے ۔

علی علیہ السلام نے اتنی جنگوں میں شرکت کی لیکن کبھی کسی ایسے دشمن سے مقابلہ نہ کیا جسے موت کے گھاٹ نہ اتار دیا ہو ۔آپ نے کبھی دشمن کو پیٹھ نہ دکھائی اور فرماتے تھے :

''اگر تمام عرب میرے مقابلہ میں آ جائیں اور مجھ سے لڑیں تو بھی میں شکست نہیں کھا ئوں گا اور مجھے کوئی پروا نہیں ہے ۔''

علی علیہ السلام ایسی شجاعت وبہادری کے مالک تھے کہ دنیا کے بہادروں کی تاریخ آپ کی مثال پیش نہ کرسکی ،اس کے باوجود آپ انتہائی مہر بان،ہمدرد،جوانمرد اور فیاض تھے۔ جنگوں میں عورتوں ،بچوںاور کمزوروں کو قتل نہیں کرتے تھے اور ان کو اسیر نہیں بناتے تھے بھاگنے والوں کا پیچھا نہیں کرتے تھے۔

جنگ صفین میں معاویہ کے لشکرنے سبقت حاصل کر کے نہرفرات پر قبضہ کرلیا اور آپ کے لشکر پر پانی بند کر دیا ،حضرت علی علیہ السلام نے ایک خونین جنگ کے بعدنہر سے دشمن کا قبضہ ہٹا دیا،اس کے بعد حکم دیا کہ دشمن کے لئے پانی کاراستہ کھلا رکھیں ۔

خلافت کے دوران کسی رکاوٹ اوردربان کے بغیر ہر ایک سے ملاقات کر تے تھے اورتنہااورپیدل راستہ چلتے تھے ،.گلی کوچوں میں گشت زنی کرتے تھے اور لوگوں کو تقوی کی رعایت کرنے کی نصیحت فرماتے تھے اور لوگوں کو ایک دوسروں پرظلم کرنے سے منع کرتے تھے ،بے چاروں اوربیوہ عورتوں کی مہر بانی اور فروتنی سے مدد فرماتے تھے ۔یتیموں اورلاوارثوں کو اپنے گھر میں پالتے تھے ،ان کی زندگی کی ضرورتوں کو ذاتی طور پر پورا کرتے تھے اوران کی تربیت بھی کرتے تھے ۔

حضرت علی علیہ السلام علم کو بے حد اہمیت دیتے تھے اورمعارف کی اشاعت کے میں خاص توجہ دیتے تھے ،اور فرماتے تھے:

''نادانی کے مانند کوئی درد نہیں ہے''(۲)

جمل کی خونین جنگ میں آپ اپنے لشکر کی صف آرائی میں مشغول تھے ،ایک عرب نے سامنے آ کر''توحید''کے معنی پوچھے۔لوگ ہر طرف سے عرب پر ٹوٹ پڑے اور اس سے کہاگیا ایسے سوالات کا یہی وقت ہے؟!حضرت نے لوگوں کو اعرابی سے ہٹاکر فرمایا :

''ہم لوگوں سے ان ہی حقائق کو زندہ کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں ''(۳)

اس کے بعد اعرابی کواپنے پاس بلایا ،اپنے لشکرکی صف آ رائی کرتے ہوئے اعرابی کو ایک دلکش بیان سے مسئلہ کی وضاحت فرمائی ۔

اس قسم کے واقعات حضرت علی علیہ السلام کے دینی نظم وضبط اور ایک حیرت انگیزخدائی طاقت کی حکایت کرتے ہیں ۔جنگ صفین کے بارے میں مزید نقل کیا گیا ہے کہ ،جب دو لشکر دو تلاطم دریائوں کے مانند آپس میں لڑرہے تھے اور ہر طرف خون کادریا بہہ رہاتھا۔ توحضرت اپنے ایک سپاہی کے پاس پہنچے،اس سے پینے کے لئے پانی مانگا۔

سپاہی نے لکڑی کا ایک پیالہ نکالااوراس میں پانی بھر کے پیش کیا ،حضرت نے اس پیالہ میں ایک شگاف مشاہدہ کیا اور فرمایا :''ایسے برتن میں پانی پینااسلام میں مکروہ ہے۔''

سپاہی نے عرض کی :اس حالت میں کہ جب ہم ہزاروںتیروں اور تلواروںکے حملہ کی زد میں ہیں اس قسم کی دقت کرنے کا موقعہ نہیں ہے !

اس سپاہی کو آپ نے جوجواب دیا،اس کا خلاصہ یہ ہے:''ہم ان ہی دینی احکام و قوانین کو نافذکر نے کے لئے لڑ رہے ہیں اور احکام چھوٹے بڑے نہیں ہوتے ہیں''

اس کے بعد حضرت نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملاکر سامنے کیا اورسپاہی نے پیالہ میں بھرا پانی آپ کے ہاتھوں میں ڈال دیا ۔

حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کے بعدایسے پہلے شخص ہیں کہ جنہون نے علمی حقائق کو فلسفی طرز تفکر ،یعنی آزاداستدلال میں بیان فرمایااور بہت علمی اصطلا حیں وضع کیں اور قرآن مجید کی غلط قرأت اورتحریف سے حفاظت کے لئے عربی زبان کے قو ا ئد ''علم نحو'' وضع کئے اور ان کو مرتب کیا ۔

آپ کی تقریروں ،خطوط اوردیگرفصیح بیانات میں ،معارف الہی،علمی،اخلاقی ،سیاسی یہاں تک کہ ریاضی کے مسائل میں جوباریک بنیی پائی جاتی ہے ، یقینا وہ حیرت انگیزہیں۔

امام علی علیہ السلام کے فضائل کا خلاصہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو چھ سال کی عمر میں حضرت ابوطالب کے یہاں سے اپنے گھر لے آئے اور ان کی پرورش اپنے ذمہ لے لی۔حضرت علی علیہ السلام اسی دن سے ایک سایہ کے مانند پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آخری بار اس وقت جدا ہوئے ،جب آپ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جسد مطہر کوسپرد خاک کیا۔

حضرت علی علیہ السلام پہلے کامل نمونہ ہیں جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعلیم وتربیت کے مکتب میں پروان چڑھے ۔آپ پہلے شخص ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ ہی سب سے آخر میں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جدا ہوئے ۔

بعثت کے پورے زمانہ میں جو خدمات حضرت علی علیہ السلام نے خدا کے دین کے لئے انجام دیئے ،دوست ودشمن گواہ ہیں کہ وہ خدمات کوئی اورانجام نہیں دے سکا ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے اسلام کی سب سے اہم جنگوں میں شرکت فرمائی اور جنگ کے تمام خونین میدانوں میں مسلمانوں کے اندربے مثال بہادری اور کامیابی کا راز آپ ہی تھے ۔چنانچہ بڑے بڑے صحابی جنگوں میں بار ہا بھاگ جاتے تھے ،لیکن آپ نے کبھی دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائی اور کوئی حریف آپ کی تلوار کی وار سے بچ نہ سکا ۔اس بے نظیر شجاعت ،جوضرب المثل بن چکی تھی ،کے باوجودآپ ہمدرداورمہر بان تھے ،کبھی اپنے زخمی دشمن کوقتل نہیں کرتے تھے اور جنگ سے بھاگنے والوں کاپیچھا نہیں کرتے تھے ۔

حضرت علی علیہ السلام ،اپنی تقریروں،کلمات قصار اور اپنے گوہربار بیانات،جویاد گار کے طورپر مسلمانوں کے پاس موجود ہیں ،کے اعتبار سے مسلمانوں میں قرآن مجید کے بلند مقاصد کے بارے میں معروف ترین شخص ہیں ۔آپ نے اسلام کے اعتقادی و علمی معارف کو کما حّقہ حاصل کر کے حدیث شریف:

''انا مدینةالعلم وعلی بابها'' (۴)

کوثابت کردیا اوراس علم کوعملی جا مہ پہنایا ۔ حضرت علی علیہ السلام کا دینداری، عفت نفس اورزھدوتقویٰ میں کوئی نظیر نہیں تھا۔آپ اپنے معاش کے لئے روزانہ محنت ومشقت کرتے تھے ، بالخصوص زراعت کو بہت پسند کرتے تھے ۔بنجر زمینوں کوآباد کرتے تھے ،نہریں کھودتے تھے ،درخت لگاتے تھے،جس جگہ کو آباد کرتے اسے مسلمانوںکے لئے وقف کر دیتے تھے یا اس کو بیچ کر پیسے فقراء میں تقسیم کر دیتے تھے اورخود نہایت زھدوقناعت کے ساتھ فقیرانہ زندگی گزارتے تھے۔ جس دن شہید ہوئے ۔باوجوداس کے کہ تمام اسلامی ممالک کے فرمانروا تھے ۔آپ کی پونجی صرف سات سودرہم تھی جنھیں آپ اپنے گھر کے لئے ایک خدمت گار پرصرف کرنا چاہتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام کی عدالت ایسی تھی کہ خداکے احکام کے نفاذاور لوگوں کے حقوق کو زندہ کرنے میں ہرگز کسی طرح کے استثناء کے قائل نہیں تھے ۔آپ ذاتی طور پرگلی کوچوں میں گشت لگاتے تھے اور لوگوں کو اسلامی قوانین کی رعایت کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔

حضرت امیرالمؤ منین کا طریقہ

چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے مسائل میں ولی ہونا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نص کے مطابق خدائے متعال کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کے لئے مخصوص تھا ،لیکن اسے انتخابی خلافت میں تبدیل کیا گیا اور اس طرح خلافت کی کرسی پر دوسرے لوگوں نے قبضہ جمایا ۔

حضرت علی علیہ السلام اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند خاص صحابیوں جیسے سلمان فارسی ،ابوذرغفاری اورمقداد اسدی نے لوگوں سے ایک اعتراض کیا لیکن انھیں مثبت جواب نہیں ملا۔

حضرت علی علیہ السلام لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے ایک مدت تک اپنے گھر میں قرآن مجیدجمع کرنے میں مصروف رہے ۔اس کے بعد کچھ خاص صحابیوںاور چنددیگرافراد کی تعلیم وتربیت میں مشغول ہوئے ۔

حضرت علی علیہ السلام کا ماضی درخشان اور بے مثال تھا ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں آپ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وزیر اور اسلامی فتوحات کی کلید تھے .علم ودانش میں ، فیصلہ دینے میں ، سخن وری اور دیگرتمام معنوی فضائل میں آپ تمام مسلمانوں پر برتری رکھتے تھے ۔اس کے باوجودخلیفہ اول کے زمانے میں اجتماعی مسائل اور عمومی کام میں آپ سے کسی قسم کا استفادہ نہیں کیاگیا ،اس لئے آپ صرف خدا کی عبادت اور چند اصحاب کی علمی وعملی تربیت میں مشغول رہتے تھے اورایک عام انسان کی طرح زندگی گزارتے تھے ۔

خلیفہ دوم کے زمانے میں بھی کسی کام کوآپ کے حوالہ نہیں کیا جاتا تھا ،لیکن کسی حدتک آپ سے رجوع کرتے تھے اور اہم مسائل میں آپ کے نظریات سے استفادہ کیا جاتا اور آپ سے مشورہ لیا جاتاتھا ۔چنانچہ خلیفہ دوم نے بارہا کہا ہے:(اگرعلی کی رہنمائی نہ ہوتی ،توعمرہلاک ہوجاتا)۔(۵)

خلیفہ سوم کے زمانہ میں لوگوں کی توجہ آپ کی طرف زیادہ ہوئی اوراس پوری ٢٥سالہ

مدت میں آپ کی تعلیم وتربیت کادائرہ دن بدن وسیع تر ہوتاگیا یہاں تک کہ مکتب ولایت سے بالواسطہ اور بلاواسطہ تربیت پانے والوں کی ایک بڑی جماعت نے خلیفہ سوم کے قتل کے فورابعد آپ کے پاس ہجوم کیا اورآپ کوخلافت قبول کرنے پر مجبور کیا ۔

حضرت امیرالمو منین نے خلافت کی باگ ڈورسنبھالتے ہی پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو۔جیسے مدتوںسے فراموش کیاگیاتھا۔پھر سے زندہ کیا۔آپ نے مساوات اوراجتماعی عدالت نافذ کرکے تمام بیجا امتیازات کوختم کردیا۔تمام لاابالی گورنروںاورفرمانرواؤں کو معزول کردیااورانکے بیت المال سے لوٹے گئے مال ودولت اور خلیفہ کی طرف سے مختلف لوگوں کوبے حساب دی گئی جاگیروں و املاک کوضبط کیا،اور دینی ضوابط اورقوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کومناسب سزائیں سنائیں ۔

اثرو رسوخ رکھنے والے لیڈروںاورناجائز منافع حاصل کرنے والوں نے جب دیکھا کہ ان کے ذاتی منافعے خطرے میں پڑ رہے ہیں،توانہوں نے مخالفت کاپرچم بلند کر کے عثمان کے خو ن کابدلہ لینے کے بہانے سے داخلی خونین جنگوں کی آگ بھڑکادی جوحضرت کی مشکلات کاسبب اوراصلاحات رکھنے میں رکاوٹ بن گئیں ۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے پانچ سالہ دور میں کمر توڑ َمشکلات کے باوجود بے شمار افراد کی تربیت کی اوراپنی تقریروں اورفصیح بیانات کے ذریعہ علمی میدان کے مختلف ہنروفنون کے گراں بہا خزانے یادگارکے طور پر چھوڑدئے ،ان میں سے ایک علم نحوکے اصولوںکا وضع کرنا ہے جو حقیقت میں عربی زبان کے قواعد وضوابط ہیں ۔

آپ کی بر جستہ شخصیت کے اوصاف ناقابل بیان ہیں ،آپ کے فضائل بے انتہا اور بے شمار ہیں ۔تاریخ ہرگز کسی ایسے شخص کو پیش نہیںکر سکتی جس نے آپ کے برابر دنیا کے دانشوروں، مصنّفوں اور متفکروں کے افکار کو اپنی طرف جذب کیا ہو۔

____________________

١۔نہج البلاغہ فیض الاسلام ،خطبہ ٢٠٠،ص٦٦٣۔

۲۔شرح غرر الحکم ،ج٢،ص٣٧٧،ح٢٨٨٢۔

۳۔ بحارالانوار،ج٣،ص٢٠٧ ،ح١۔

۴۔بحارالانوار،ج٤٠،ص٢٠١۔

۵۔بحارالانوار،ج٤٠ص٢٢٩۔


9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29