درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 45589
ڈاؤنلوڈ: 2906

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45589 / ڈاؤنلوڈ: 2906
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

اِکیاو نو اں درس

دنیا کا آخر ت سے مقابلہ

مقدمہ:

دنیا کا فنا ہوجا نا اور اخر ت کا ہمیشہ با قی رہنا

یہ گفتگو ذیل کے مو ضوعا ت پر مشتمل ہے

آخر ت میں نعمت اور عذا ب کے ما بین جد ائی

آخر ت کا اصل ہو نا

دنیا وی زندگی کو انتخا ب کر نے کا نتیجہ

مقد مہ:

ہم نے عالم آخر ت کے با رے میں عقل اور نقل ( آیا ت و روا یا ت ) کے ذریعہ جو معلو ما ت حا صل کی ہیں، اس کی رو شنی میں دنیا و آخر ت کے درمیا ن مختلف زا ویہ سے تقا بل کر سکتے ہیں، خو ش قسمتی سے یہ تقا بل ( مو ازنہ ) خو د قر آن مجید کے اندر مو جو د ہے اور ہم قرآ نی بیانا ت کے ذریعہ دنیا و آخر ت کو صحیح طر یقہ سے تصو ر کر سکتے ہیں ۔

دنیا کا فا نی ہو نا اور آخر ت کا ابدی ہو نا ( ہمیشہ با قی رہنا )

دنیا وآخرت کے درمیان سب سے پہلا اور وا ضح تر ین اختلا ف دنیا وی زندگی کا محدود ہو نا اور اخر وی زندگی کا ہمیشہ با قی رہنا ہے ،ہر انسان کی عمر کے لئے اس دنیا میں ایک حد معین ہے کہ حد تک ہر ایک کو جلد یا د یر پہنچنا ہے حتیٰ کہ اگر کو ئی شخص سیکڑوں یا ہزا روں سا ل بھی اس دنیا میں زندگی بسر کرلے با لا خر اس کو ایک روز اس ما دی عالم کے تغیر کے سا تھکہ جب پہلا صو ر پھو نکا جا ئے گا ختم ہو جا نا ہے، جیسا کہ گذشتہ درس میں بیان کیا جا چکا ہے ۔

دوسری طر ف قر آن مجید کی تقریباً،اسی،آیتیں آخر ت کے ابدی ہو نے پر دلا لت کرتی ہیں(۱) اور ظا ہر ہے کہ محدود چا ہے جس قدر بھی طو لا نی مدت ہو لا محد ود سے مقابلہ نہیں کر سکتا، صرف عالم آخر ت بقا اور دو ام کے لحا ظ سے دنیا کے اوپر عظیم فضیلت کا حا مل ہے اور یہ ایسا مطلب ہے جو مختلف آیتوں میں آخر ت کو ( ابقیٰ)(۲) اور دنیا وی زندگی کو ( قلیل )(۳) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور دوسری آیتوں میں دنیا وی زندگی کو اس سبزہ سے تشبیہ دی گئی ہے جو چند روز سر سبز و شا داب رہنے کے بعد زردی کی طر ف ما ئل ہو تا ہے اور پھر (پژمردگی) کملا ہٹ شروع ہو جا تی ہے اور آخرت میں با لکل خشک ہو کر ختم ہو جا تا ہے(۴) اور خدا وند عالم ایک آیت میں کلی طور سے ارشا د فر ما تا ہے کہ صرف وہ شی جو خدا کے نزدیک ہے ہمیشہ با قی رہنے والی ہے(۵)

آخرت میں نعمت اور عذا ب کے ما بین جد ائی

دنیا اور آخر ت کی زندگی میں ایک دوسر ا بنیا دی فر ق یہ ہے کہ دنیا کی زندگی اور اسکی تمام خو شیا ں رنج و مشکلا ت کے سا تھ ملی جلی ہیں اور ایسا ہر گز نہیں ہے کہ کچھ لو گ ہمیشہ ہر لحا ظ سے خو شحا ل ،بے فکر ،اور آسو دہ خا طر ہو ں گے اور کچھ افراد ہمیشہ عذا ب اور پر یشا نیوں میں مبتلا ہو ں گے اور غم و مصیبت سے ود چا ر ہو ںگے بلکہ تقریباً سا رے لو گ ہر طر ح کی خوشیو ں، لذتو ں اور عیش وآرام سے ما لا مال بھی ہیں اورسا تھ ہی سا تھ رنج و مصیبت اور غم و غصہ سے بھی دست و گر یباں ہیں ۔

لیکن عالم آخر ت کے دو الگ الگ حصے ( جنت و جہنم ) پا ئے جا تے ہیں، جس میں سے پہلا حصہ وہ ہے کہ جس میں کسی قسم کی کو ئی پریشا نی عذا ب ،خو ف اور غم کا شا ئبہ بھی نہیں پا یا جا تا، جب کہ دوسرے حصے میں آگ ،درد مصیبت ،حیرت و یاس اور غم کے علا وہ کچھ اور ہا تھ آنے والا نہیں ہے کہ جو دنیا وی لذت کا اثر ہے ۔

یہ تقابل بھی خو د قر آن مجید کے اندر پا یا جا تا ہے اور آخرت کی نعمتوں اور تقرب پر ورد گا ر کی بر تری کو دنیا وی نعمتوں کے او پر صا ف لفظو ں میں بیان کیا گیا ہے(۶) جس طر ح آخر ت کے عذا ب کو دنیا وی مشکلا ت اور مصیبتوں سے سخت تر بیان کیا گیا ہے(۷)

آخرت کا اصل ہو نا ۔

دنیا و آخر ت کے در میان ایک اہم فر ق یہ ہے کہ دنیا وی زندگی آخر ت کے لئے مقد مہ ہے اور ابدی سعا دت کو حا صل کر نے کا ذریعہ ہے اور آخر ت کی زندگی آخری اور اصل زندگی ہے، اگر چہ دنیو ی حیا ت اور اس کی ما دی و معنوی نعمتیں انسان کو بہت پسند ہیں ،لیکن اس کے با وجود کہ یہ ساری نعمتیں صر ف امتحا ن کا ذریعہ ہیں اور حقیقی نشو و نما اور ترقی نیزابدی سعادت کو حا صل کر نے کے لئے ایک وسیلہ ہے لہٰذا اصل نہیں ہو سکتی اور اس کی وا قعی قدر و قیمت ایک زاد راہ اور توشہ کی سی ہے جو انسان اپنی ا بدی زندگی کے لئے آما دہ کر تا ہے(۸) اس لئے اگر کو ئی شخص آخرت کو فرا موش کر کے دنیا کے حسن وجما ل میں گر فتار ہو جا ئے، اوراس کی لذتو ں کو اپنا آخری مقصد سمجھ بیٹھے تو گو یا وہ اس کی واقعی قدر و قیمت کو نہیں پہچا ن سکا ،اور اس کے لئے فر ضی اہمیت کا قا ئل ہو گیا کیو نکہ اس نے وسیلہ کو

مقصد سمجھ لیا ہے اگر ایسا ہے تو سوا ئے فریب اور کھیل اور مشغو لیت کے اور کچھ نہیں ہے، اسے لئے قر آن مجید نے دنیا کی زندگی کو کھیل مشغو لیت اور وسیلہ فر یب کے نا م سے یا د کیا ہے(۹) اور آخر ت کی زندگی کو ایک حقیقی حیا ت جا نا ہے(۱۰) لیکن توجہ کا مقام ہے کہ وہ تما م مذ متیں جو دنیا کے سلسلے میں بیان کی گئی ہیں و ہ دنیا طلب انسا نوں اور ا س کو ھدف و مقصد بنا کے زندگی گذا ر نے وا لوں سے متعلق ہیں، ور نہ زندگانی دنیا خدا کے اُن نیک بندوں کے لئے جو اس کی حقیقت کو پہچا نتے ہیں، اور اس کو ایک وسیلہ کی حثیت سے دیکھتے ہیں ،اور اپنی زند گی کے تمام لمحا ت، ابدی سعا دت کے حصول میں صرف کرتے ہیں نہ صرف یہ کہ ان کی مذمت نہیں کی گئی بلکہ وہ غیر معمو لی قدر و قیمت کے ما لک ہیں ۔

دنیا وی زندگی کو انتخا ب کر نے کا نتیجہ ۔

عالم آخر ت کی فضیلت اور غیر قا بل تو صیف بہشتی نعمتوں اور خدا کی مرضی و خوشنودی کو دنیا وی لذتو ں کے اُ وپر ترجیح دینے میں کسی بھی شک و شبہ کی گنجا ئش نہیں ہے لہذا دنیا وی زندگی کو انتخا ب کر نا، اور اس کو آخر ت کے اُوپر تر جیح دینا، ایک غیر حکیما نہ اقدا م ہے(۱۱) کہ جس کا نتیجہ حسرت اور شر مندگی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے لہذا اس کو انتخا ب کرنااور اس کی لذتو ں پر دل و جان سے قر با ن ہو جا نا نہ یہ کہ صرف ابدی سعا دت سے محر و می کا سبب ہے بلکہ ہمیشہ کی بد بختی کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے ۔

وضا حت ۔

یہ کہ اگر انسان، ابدی سعادت کے بجا ئے دنیا کی جلد گذر جا نے وا لی لذ تو ں کا انتخا ب کرے اس طر ح کہ اس کی اخر وی زندگی کا کو ئی نقصا ن نہ ہو تو ایسا اقدا م اخر وی سعا دت کے غیر

معمو لی رجحا ن کو دیکھتے ہو ئے ایک غیر عا قلا نہ کا م ہے لیکن کیا کیا جا ئے کہ کسی کو بھی عا لم ابد یت سے مفر نہیں ہے اور وہ کہ جس نے اپنی سا ری قوّ توں کو دنیا کی زندگی کے اُوپر صرف کر د ے اور عالم آخر ت کو بھلا بیٹھے یا با لکل سرے سے اس کا انکا ر کر دے تونہ صرف یہ ہے کہ بہشتی نعمتوں سے محروم ہو گیا بلکہ ہمیشہ کے لئے جہنم کے عذاب میں گرفتار ہو جائے گا ،اور اُس کا دوگنا نقصان ہو گا(۱۲) اسی لئے قرآن مجید ایک طرف تو آخرت کی نعمتوں کی بر تری اور فضیلت کو گوش گذار اور ہو شیا ر کر رہا ہے کہ خبر دار کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیاوی زندگی تم کو دھو کا دیدے(۱۳) اور دوسری طرف دنیا سے قلبی لگا ئو اور آخر ت کو بھو ل جا نے ،جہا ن ابدی سے انکا ر یا اس کے با رے میں شک و شبہ کے نقصا نا ت کو گنوا ر ہا ہے اور اس بات کی تا کید کر رہا ہے کہ ایسے امور ہمیشہ کی شقا وت اور بد بختی کا سبب ہیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا کو تر جیح دینے وا لا صر ف آخر ت کی جزا سے محر وم رہے گا بلکہ ہمیشہ کی سزا اُس کا مقدر بن جا ئے گی(۱۴) اور اس کا راز و سبب یہ ہے کہ دنیا پر ست انسان نے خدا کی دی ہو ئی صلا حیتو ں کو ضا ئع کر دیا اور وہ درخت جو ابدی سعادت کا پھل دینے والا تھا اسکو خشک و بے پھل کر دیا ،اور اس نے حقیقی نعمت عطا کرنے والے (خدا) کے حق کا لحاظ نہیں کیا ،اور اس کی دی ہو ئی نعمتوں کو اسکی مر ضی کے خلا ف استعما ل کیا اور ایسا شخص جب اپنے بر ُے انتخا ب کے نتیجے کو دیکھے گا تو یہ آرزو کر ے گا کہ اے کا ش میں مٹی ہو جاتا ، اور ایسی بر ی عا قبت میں مبتلا نہ ہو تا(۱۵)

سو الا ت:

١۔دنیا و آخر ت کے در میان کیا فر ق ہے ؟

٢۔دنیا کی مذمت کیوں کی گئی ہے ؟وضا حت کیجئے ؟

٣۔دنیا سے لگا ئو کے کیا نقصا نا ت ہیں ؟

٤۔ آخرت پر ایما ن نہ رکھنا ابدی عذا ب کا سبب کیوں ہے؟

____________________

١۔ بہشت میں دو زخ کی جا ودا نی اور خلود سے متعلق آیتوں کی طر ف رجوع کریں

٢۔ کہف ٤٦ ، مر یم ٧٦، طہٰ ٧٣،١٣١، قصص ٦٠ ، شوریٰ ٣٦، غا فر ٣٩، اعلیٰ ١٧

٣۔ آل عمران ١٩٧، نساء ٧٧، تو بہ ٣٨ نمل ١١٧،

٤۔یو نس ٢٤، کہف ٤٥،٤٦ حدید ٢٠، نمل ٩٦،

٥۔ آل عمران ١٥ ، نساء ٧٧، انعام ٣٢، اعراف ٣٢ یو سف ١٠٩ ، نحل ٣٠ ، کہف ٤٦، مر یم ٧٦، طہٰ ٧٣، ١٣١ ، قصص ٦٠ ، شو ریٰ ٣٦، اعلٰی ١٧،

۶۔ آل عمران ١٥، نساء ٧٧، انعام ٣٢، اعراف ٣٢، یو سف ١٠٩، نحل ٣٠، کہف ٤٦ ، مر یم ٧٦ ، طہٰ ٧٣ ، ١٣١، قصص٦٠ ، شو ریٰ ٣٦، اعلیٰ ١٧ ،

۷۔ رعد ٣٤، طہٰ ١٢٧، سجدہ ٢١، زمر ٢٦ ، فصلت ١٦ ، قلم ٣٣ ، غا شیہ ٢٤،

۸۔ قصص ٧٧

۹۔ آل عمران ١٨٥، عنکبو ت ٦٤، محمد ٣٦، حدید ٢٠ ،

۱۰۔ عنکبوت ٦٤، فجر ٢٤،

۱۱۔ اعلیٰ ١٦ ، فجر ٢٤ ، ھو د ٢٢، کہف ١٠٤ ، ١٠٥ ، نمل ،٤،٥

۱۲۔ ھود / ٢٢، کھف /١٠٢ - ١٠٥، نمل/ ٤-٥

۱۳۔ بقرہ ١٠٢ ،٢٠٠ ،تو بہ ٣٨ ، روم ٣٣ فا طر ٥، شو ریٰ ٢٠ ، زخر ف ٣٤، ٣٥،

۱۴۔ اسراء ١٠ ، بقرہ ٨٦ ، انعام ١٣٠ ، یو نس ٧ ،٨،ھو د ١٥ ،١٦ ، ابراہیم ٣، نحل ٢٢، ١٠٧، مو منون ٧٤، نمل ٤،٥،٦٦ روم ٧،١٦، لقمان ٤ ،سبا ٨،٢١، زمر ٤٥، فصلت ٧، نا زعا ت ٣٨،٣٩،

۱۵۔ نبا ٤٠،

با ونواںدرس

دنیا آخر ت کی کھیتی ہے

مقدمہ :

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے

دنیا آخر ت کی کھیتی ہے ١۔ دنیا وی نعمتیں آخر ت کی سعاد ت کا سبب بن سکتی ہیں

٢۔دنیاکی نعمتیں اخر وی شقا وت ( بد بختی ) کا سبب نہیں بن سکتی ۔

٣ ۔ نتیجہ گفتگو

مقدمہ:

ہمیں یہ با ت معلوم ہو چکی ہے کہ انسانی زندگی اس جلد گذر جا نے والی دنیاوی حیات پر منحصر نہیں ہے، بلکہ دو با رہ عالم آخر ت میں زندہ ہو نا ہے اور وہاں ہمیشہ زندہ رہنا ہے اور ہم یہ بھی بیان کر چکے ہیں کہ آخر ت کی زندگی ہی عینی اور حقیقی حیا ت ہے، حد تو یہ ہے کہ دنیا وی زندگی کو خر وی حیا ت کے سا منے زندگی کہنا منا سب ہی نہیں ہے ایسا نہیں ہے کہ اخر وی زندگی کا مطلب فقط نیک و بد ہو نا یاایک فر ضی و خیا لی امرہو نا ہے ۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم دنیا و آخر ت کی زند گی کے در میان مو جو دہ را بطے کو بیان کر تے ہو ئے اس کی نوعیت واضح کریں اگر چہ گذشتہ بحثو ں میں کسی حد تک اس را بطہ کے با رے میں بیان کیا جا چکا ہے منا سب معلوم ہوتا ہے کہ مزید اور وضا حت کر دی جا ئے اور عقلی دلیلوں اور قر آنی بیانات کی رو شنی میں دنیا و آخر ت کے ما بین را بطہ کو واضح کیا جائے ۔

دنیا آخر ت کی کھیتی ہے

یہا ں پر سب سے پہلے جس با ت کی تا کید کر نا ضرو ری ہے وہ یہ ہے کہ آخرت کی خو شبختی اور بد بختی دنیا میں انجام پانے والے انسانی رفتا ر و کر دا ر کی تا بع ہے اور ہر گز ایسا نہیں ہے کہ آخر ت کی نعمتو ں کو حا صل کر نے کے لئے آخرت ہی میں کو شش کرے، اور جس کے پاس جتنی زیا دہ جسمانی اور فکری قوت پا ئی جا ئے گی وہ اتنا ہی زیا دہ نعمتوں سے سر فراز ہو گا ،یا فر یب اور دھوکا، دھڑی کے ذریعہ دوسروں کی ایجا دا ت سے غلط فا ئد ہ اٹھا ناچاہتے ہیں جیسا کہ بعض نا دان افراد کے ذہنوں میں یہ غلط تصور پا یا جا تا ہے اور وہ آخر ت کی زندگی کو دنیا سے با لکل علیحدہ اور مستقل تصور کرتے ہیں۔

قرآن کر یم بعض کفا ر کے قول کو اس طر ح نقل کر رہا ہے ۔( وَ ما اَظُنُّ السّاعَةَ قا ئِمَةً وَ لئِن رُدِدتُ اِلَیٰ رَبِّ لَاَ جِدَ نَّ خَیراً مِنهَا مُنقَلَبا ) ً )(۱)

(دنیا پر ست انسا ن نے کہا ) کہ مجھے تو اس با ت کا گمان بھی نہیں ہو تا کہ کبھی قیا مت آئے گی اور اگر آبھی گئی تو جب میں اپنے پر ور گا ر کی طرف لو ٹا یا جا ئو ں گا تو یقیناً اس دنیا سے کہیں بہتر پا ئوں

گااور دوسری جگہ ارشاد ہو رہا ہے ۔

( وَمَا اَظُنُّ السّاعَةَ قَائِمَةً وَ لَئِن رُجِعتُ اِلَیٰ رَبِّ اِنَّ لِ عِندَ هُ لَلحُسنَی ) ٰ )(۲)

قیامت کا آنا تو میرے وہم و گما ن میںنہیں ہے لیکن اگر آگئی، تو جب میں اپنے رب کی طرف لو ٹا یا جا ئو ں گا تو خدا کے نزدیک سب سے بہتر ین نعمتیں پا ئوں گا ایسے لو گو ں کا، یا تو یہ خیا ل تھا، کہ آخر ت میں بھی سعی و کو شش کے ذریعہ نعمتوں کو حا صل کیا جا سکتاہے یا تو یہ گما ن تھا، کہ دنیا میں ان لو گو ں کا ما لدا ر ہو نا، خد ا کی جانب سے ایک خا ص کر م اور احسان ہے ،بس آخر ت میں بھی خدا کے یہ احسانات اور الطاف ان کے شا مل حا ل ہو ں گے ۔

بہر حا ل اگر کو ئی انسان آخر ت کی زندگی کو دنیا وی زندگی سے با لکل الگ اور مستقل حیثیت جا نتا ہے اور دنیا میں انجام دئے ہو ئے نیک و بد اعمال کو آخر ت کی نعمتوں اور عذاب کے اوپر مو ثر تصور کرتا ہے تو گو یا ، وہ قیامت پر جو آسمانی ادیان کے اعتقادی اصول میں سے ایک ہے ایمان نہیں رکھتا، کیونکہ اس اصل کا وجود دنیا وی اعمال کی جزا و سزا کے عنوان سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کو با زار ، محل تجا رت یا کھیتی کا نام دیا گیا ہے، یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں انسان کام کرے ، زراعت کرے ، محنت و کوشش کرے تو اس کی در آمد ( اس کا فا ئدہ) وہاں (قیامت میں ) حا صل کرے گا(۳) قیا مت کے متعلق مو جودہ دلیلیں اور قر آنی بیا نا ت کا تقاضا بھی یہی ہے جس میں کسی قسم کی شر ح و تو ضیح کی ضر ورت نہیں ہے ۔

دنیا کی نعمتیں آخرت کی سعادت (خوشبختی) کا سبب نہیں

بعض دیگر افراد کا خیال یہ تھا کہ دنیا میں دو لت ،فر زند، اور دیگر تمام اسباب عیش و آرام آخر ت میں بھی راحت و سکون کا باعث ہو ں گے اور شا ید یہی وجہ ہے کہ میت کے ہمرا ہ زرو جو اہر اور قیمتی مو تیوں یہا ںتک کہ خو رد نوش کے سامان بھی دفن کر دیتے تھے ، اور یہ غلط رسم اسی تصور کا نتیجہ تھی ( ان سے مر بو ط رفتا ر سے قطع نظر)قر آن کریم اس با ت کی تا کید کر رہا ہے ما ل و فر زند خو د بخو د (قطع نظر اس سے کہ اس کے اعمال کیسے ہیں ؟) تقر ب الہٰی کا ذریعہ نہیں بن سکتے(۴) اور نہ آخر ت میں کسی کو نفع پہنچا ئیں گے(۵) اور بنیادی طور سے ایسے روا بط اور اسبا ب کو ایک دن ختم ہو نا ہے(۶) اور ہر انسان اپنا سر ما یہ اور اپنے سے متعلق تمام اشیا کو یہیں چھوڑ جا ئیگا(۷) اور با لکل تنہا خدا وند عالم کی

بار گا ہ میں جا ئیگا(۸) اور صرف خدا سے معنوی روا بط میں استحکام پا یا جا ئیگا، اسی لئے صر ف وہی مو منین جو اپنے شریک حیا ت ،اولاد، اور قرابت داروں سے ایما نی رشتہ جوڑ ے ہو ئے ہیں بہشت میں ایک سا تھ رہیں گے(۹) ۔

اس گفتگو کا ما حصل یہ ہے کہ دنیا و آخرت کے ما بین ارتباط ،دنیا وی مو جودا ت کے در میان پا ئے جا نے والے تعلقات کی طرح نہیں ہیں اور ہر گز ایسا نہیں ہے کہ جو اس دنیا میں سب سے زیا دہ قوی ،حسین، خو شحا ل اور ما لدا ر ہو گا، وہ آخرت میں بھی ویسا ہی محشو ر ہو گا ورنہ فر عون، قارون، وغیرہ آخرت میں زیادہ سعادت کے حق دار ہو ں گے ،بلکہ ممکن ہے کہ وہ لو گ جو اس دنیا میں تنگ دستی نا توا نی اور رنج و مصبت کی زندگی گذار رہے ہیں وہ پر ور گار عالم کے احکا م پر عمل کر نے کے نتیجے میں با لکل سالم قوی اور حسین و جمیل محشور ہوں اور ابدی نعمتوں سے سر فراز ہو ں ۔

بعض نا دان افراد کا خیا ل یہ ہے کہ آیہ شر یفہ

( وَ مَن کَانَ فِی هٰذِهِ اَعمیٰ فَهُوَ فِ الآخِرَةِ اَعمیٰ وَاَ ضَلَُ سَبِیلًا ) )(۱۰)

کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا وی سلا متی اور فا ئد ہ اور آخر ت کی سلا متی اور فائدے کے در میان براہ راست را بطہ پا یا جا تا ہے در آن حا لیکہ یہ لو گ اِس با ت سے غا فل ہیں کہ اس آیت میں (ا ند ھا ) سے مر اد ظا ہر ی نا بینا نہیں ہے بلکہ اس سے مر اد دل کا اندھا ہو نا ہے ،جیسا کہ دوسری آیت میں ارشا د ہوتاہے : (( فَاِ نَّهَا لا تَعمَی الا َبصَارُ وَ لَکِن تَعم القُلُو بُ الَّت فِ الصُّدُورِ ) (۱۱)

آنکھیں اندھی نہیں ہو تیں بلکہ سینوں میں مو جود دلوں میں اندھا پن پا یا جا تا ہے، اور ایک دو سرے مقام پر اس طر ح ارشاد ہے :

( وَ مَن اَعرَضَ عَن ذِکرِ یی فَاِنَّ لَهُ مَعِیشَةً ضَنکاً وَ نَحشُرُهُ یَو مَ القِیَا مَةِ اَعمی٭ٰ قالَ لِمَ حَشر تنِی اَعمیٰ وَ قَد کنُتُ بَصیراً ٭قال کَذَالِکَ اَتَتکَ آیا تُ رَبِّک فَنَسِیتَهَا وَ کَذَالِکَ الیَومَ تنسیٰ ) (۱۲)

جو میری یا د(کتاب ) سے اعراض کر یگا اس کو اپنی زندگی میں سختیوں ،پر یشا نیوں کا سامنا کر نا پڑے گا اور ہم اسے قیامت میں اندھا محشور کریں گے ( کہنے والے نے کہا ) مجھے اندھا کیوں محشور کیا گیا با وجود یکہ میں بینا تھا خد ا کہیگا جس طر ح میری نشا نیاں تجھ تک پہنچیں لیکن تو نے اسے فر اموش کر دیا اسی طر ح آج تجھے بھلا دیا گیا،بس دنیا و آخر ت کا رابطہ اس رابطے سے جدا ہے جو دنیا وی سبب و مسبب ( علت و معلول) کے در میان ہو تا ہے ۔

دنیا کی نعمتیں آخرت کی شقاوت ( بد بختی) کاسبب بھی نہیں ہو سکتیں

دوسری طرف : بعض لو گو ں کا گمان ہے کہ دنیا کی نعمتوں اور آخرت کی نعمتوں میں بر عکس رابطہ بر قرارہے یعنی وہ لو گ آخر ت کی سعادت تک پہنچ سکتے ہیں جنھوں نے دنیا کی نعمتوں سے کو ئی سرو کا ر نہیںرکھا ہے اوراس کے بر عکس یعنی وہ لو گ جو دنیا کی لذتو ں سے لطف اندوز ہیں وہ آخرت کی خوشبختی سے محروم رہیں گے اور ( ان لو گو ں نے اپنی با ت کو ثا بت کرنے کے لئے ) آیا ت و روایات کا سہا را بھی لیا ہے جو اس امر پر دلا لت کرتی ہے کہ دنیا پر ستوں کے حصے میں آخرت کا کوئی حق نہیں ہے در آں حا لیکہ یہ لوگ اس با ت سے غا فل ہیں(۱۳) ( کہ یہ ان کے مد عیٰ پر دلیل نہیں ہے )دنیا طلبی دنیا کی نعمتوں سے ا ستفا د ہ کے معنی میں نہیں ہو سکتا ،بلکہ دنیا طلب وہ ہے جو دنیا کی لذتوں کو اپنا نصب العین بنا لے اور اس کو حا صل کر نے کے لئے اپنی تمام صلا حیتوں کو بر وئے کا ر لا ئے اگر چہ ممکن ہے

اس تک نہ پہنچ سکے اور آخرت طلب وہ ہے جو دنیا کی سر مستیوں میں نہ کھو جا ئے بلکہ اس کا مقصد آخرت کی خو شگو ار زندگی ہو،اگر چہ ممکن ہے دنیاوی نعمتوں سے جی بھر کے فا ئدہ اٹھا چکا ہو جیسے حضرت

سلیمان ـ اور دیگر بہت سا رے انبیا کر ام اور اولیاء خد ا (ع) کہ جو دنیا کی بے پنا ہ نعمتوں سے ما لا مال تھے لیکن ان نعمتوں کے ذریعہ آخرت کی سعادت اور تقر ب الہٰی کو حاصل کر نے میں کوشاں رہے ۔

بس دنیا و آخرت کی نعمتوںکے در میان نہ ہی براہ راست را بطہ پا یا جا تا ہے اور نہ ہی بر عکس (بہ صورت منفی) بلکہ دنیا کی نعمتیں بھی اور مصیبتیں بھی خدا وند متعال کی حکیما نہ تدبیر کی بنیاد پر انسا نوں کے در میان تقسیم کی گئی ہیں(۱۴) اور ساری چیزیں انسا نوں کی آزما ئش کا ذریعہ ہیں(۱۵) اور دنیا کی فا نی نعمتوں سے دامن بھرا ہوا ہو نا، یا اس سے محروم ہونا خود بخود رحمت الہٰی سے دو ر ی یا نزدیکی کی علا مت نہیں ہے اور سعادت ( خو شبختی ) یا شقا وت ( بد بختی) کا سبب بھی نہیں ہے(۱۶)

نتیجہ کلا م:

اس پو ری گفتگو سے جو نتیجہ سا منے آتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا و آخرت کے در میان ہر قسم کے را بطے کا انکار کر دینا خو د قیا مت کے انکا ر کے حکم میں ہے، لیکن نہ آخرت کی نعمتوں کے در میان کو ئی رابطہ ہے اور نہ دنیا کی نعمتوں اور آخرت کے عذا ب کے در میان اور نہ اس کے بر عکس ۔

اور بطور کلی دنیا وآخر ت کے در میان را بطہ، دنیا و ی مو جودا ت کے ما بین پا ئے جا نے والے را بطے کے جیسا نہیں ہے اور اس پر فیز یکس اور بیا لو جی کے قو انین کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ،بلکہ وہ جو نعمت یا عذا ب آخرت کا سبب ہے وہ اِسی دنیا میں انسان کے اپنے اختیا ری اعمال ہیں ،لیکن اس لحاظ سے نہیں کہ قوت کا خرو ج کر نا اور مواد میں تغیرا ت پیدا کرنا بلکہ اس لحا ظ سے کہ نعمت اور عذا ب کے سبب کا سر چشمہ ایما ن اور با طنی کفر ہے ۔

اور سیکڑوں آیا تِ قر آنی سے اس مفہو م کو اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قر آن کے نزدیک آخرت کی ابدی خو شبختی تک پہنچنے کا سبب خدا روز قیا مت نیز انبیاء الہٰی پر ایمان رکھنا ہے اور خدا کے پسند ید ہ اعمال جیسے نما ز ، رو زہ ، حج و زکواة ،اور بند گا ن خدا کے سا تھ احسان ( نیکی ) اور امر بہ معر و ف ( نیکیوں کا حکم دینا ) نہی از منکر ( بر ائیوں سے روکنا ) کفا ر اور ستمگروں سے جہاد اور عدل و انصا ف کر نا ہے ۔

اور عذا ب ابدی میں مبتلا ہو نے کا سبب کفر ،شر ک، و نفاق قیا مت کا انکا ر انبیائ(ع) کو جھٹلا نا نیز گنا ہو ں کا مرتکب ہونا ، اور ظلم کر نا ہے اور بہت سا ری قر آنی آیات میں اجما لی طور سے ایما ن اور عمل صا لح(۱۷) کو آخر ت کی سعا دت کا سبب جا نا گیا ہے اور کفر و گنا ہ(۱۸) کو آخرت کی بد بختی کا با عث تصور کیا گیا ہے ۔

سوا لا ت:

١۔ دنیا و آخرت کے در میان را بطے کے انکا ر میں کیا اعتراض ہو سکتاہے ؟

٢۔ آخرت کے لئے دنیا کے کھیتی ہو نے کا کیا مطلب ہے وضا حت کیجئے ؟

٣۔دنیا اور آخرت کی نعمتوں کے در میان کو ن سی نسبت پا ئی جا تی ہے ؟

٤۔ دنیا کی نعمتوں اور آخرت کے عذا ب کے در میان کیا را بطہ ہے ؟

٥۔ دنیا کے وہ کو ن سے امو ر ہیں جن کا آخرت کی سعا دت یا شقاوت سے حقیقی رابطہ ہے ؟

____________________

١۔کہف ٣٦

٢۔ فصلت ٥٠،

۳۔قا بل توجہ با ت یہ ہے کہ قر آن مجید میں دنیا وی جزا اور سزا کا بھی ذکر مو جو د ہے لیکن مکمل جزا اور سزا آخرت سے مخصوص ہے

۴۔ سبا ٣٧، ۵۔ شعرا ء ٨٨، لقما ن ٣٣ ، آل عمران ١٠ ، ١١٦ ، مجا دلہ ١٧ ، ۶۔ بقر ہ ١٦٦، مو منون ١٠١، ۷۔ انعام ٩٤،

۸۔ مر یم ٨٠ ، ٩٥ ،

۹۔رعد ٣٣، غا فر ٨، طور ٢١،

۱۰۔ اسراء ٧٢ ، ( جو اس دنیا میں اندھا ہو گا وہ آخر ت میں اندھا اور گمرا ہ رہیگا )

۱۱۔ حج ٤٦

۱۲۔ طہٰ ١٢٤ ۔١٢٦

۱۳۔ بقرہ ٢٠٠ ، آل عمر ان ٧٧ ، اسرا ء ١٨ ، شوری ٰ ٢٠ ،احقا ف ٢٠ ،

۱۴۔ زخر ف ٣٢،

۱۵۔ انفال ٢٨ ، انبیا ء ٣٥ ،تغا بن ١٥ اعرا ف ١٦٨ ، کہف ٧ ما ئدہ ٤٨ ، انعام ١٦٥، نمل ٤٠ ، آل عمرا ن ١٨٦ ،

۱۶۔ آل عمران ١٧٩، مو منون ٥٦، فجر ١٥،١٦،

۱۷۔ بقرہ ٢٥، ٣٨، ٦٢، ٨٢، ١٠٣، ١١٢، ٢٧٧، آل عمران ١٥ ، ٥٧ ، ١١٤، ١١٥، ١٣٣، ١٧٩، ١٩٥، ١٩٨، نساء ١٣، ٥٧، ١٢٢، ١٢٤، ١٤٦، ١٥٢، ١٦٢، ١٧٣، ما ئدہ ٩،٦٥، ٦٩، انعام ٤٨، توبہ ٧٢ یو نس ٤،٩، ٦٣، ٦٤، رعد ٢٩، ابراہیم ٢٣، نحل ٩٧، کہف ٢،٢٩،٣٠، ١٠٧، طہٰ ٧٥ ، حج ١٤ ، ٢٣، ٥٠ ، ٥٦، فر قان ١٥، عنکبو ت ٧، ٩،٥٨، روم ١٥ ، لقمان ٨، سجدہ ١٩، سبا ٤، ٣٧، فا طر ٧، ص ٤٩، زمر ٢٠ ، ٣٣، ٣٥ ، غا فر ٤٠ ، فصلت ٨ شو ریٰ ٢٢، ٢٦، جا ثیہ ٣٠ ، فتح ١٧ ، حدید ١٢، ٢١، تغا بن ٩، طلا ق ١١، انشقاق ٢٥ ، بر وج ١١، تین ٦، بینہ ٧ ، ٨،

۱۸۔ بقرہ ٢٤، ٣٩، ٨١، ١٦١، ١٦٢، آل عمران ٢١، ٥٦، ٨٦،٨٨، ٩١ ، ١١٦، ١٣١،١٧٦،١٧٧،١٩٦،١٩٧،نساء ١٤، ٥٦، ١٢١، ١٤٥، ١٥١، ١٦١، ١٦٨، ١٦٩، ١٧٣، ما ئدہ ١٠، ٣٦، ٧٢، ٨٦، انعام ٤٩ ، توبہ ٣، ٦٨، یو نس ٤، ٨، رعد ٥، کہف ٣٢ ، غا فر ٦، شو ریٰ ٢٦، جا ثیہ ١١، فتح ١٣ ، ١٧ ، حدید ١٩ ، مجا دلہ ٥، تغا بن ١٠ ، ملک ٦، انشقاق ٢٢، ٢٤، غا شیہ ٢٣، ٢٤، بینہ ٦