درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 45324
ڈاؤنلوڈ: 2805

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45324 / ڈاؤنلوڈ: 2805
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

تر پنو اں در س

دنیا و آخرت کے در میان را بطہ کی قسم

مقدمہ :

جو حسب ذیل بحثو ں پر مشتل ہے

را بطہ حقیقی ہے یا فر ضی

قرا نی دلیلیں

مقدمہ :

ہم کو یہ با ت معلوم ہو چکی ہے کہ ایک طرف تو ایما ن اور عمل صا لح کے در میان اور دوسری طرف تقر ب پر ور دگا ر اور آخرت کی نعمتو ں کے در میان اور اسی طر ح سے ایک طرف تو کفر اور گنا ہ کے در میان اور دوسری طر ف خدا سے دوری اور ابدی نعمتوں سے محر ومی کے در میان منا سبت او ر براہ راست ا بطہ پا یا جا تا ہے ۔

اور اسی طر ح ایما ن و عمل صا لح اور عذاب ِآخرت کے در میان اور کفر و گنا ہ اور ابدی نعمتو ں کے در میان بر عکس نسبت پا ئی جا تی ہے ۔

اور قر آن کریم کی روشنی میں ان نسبتوں کے اصول ہو نے کے با رے میں کسی طر ح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور اُن کاانکار کر نا گو یا خو د قر آن کا انکا ر کر نا ہے ۔

لیکن اس اہم اور ضروری گفتگو کے متعلق کچھ ایسے مسا ئل سا منے آتے ہیں کہ جس کے با رے میں بحث اور وضا حت کی ضرو رت ہے، بطور مثا ل یہ کہ آیا مذ کو رہ رو ابط حقیقی ہیںیا تکوینی ؟ اور کیا یہ روا بط ، وضع و اعتبار ( معا ہدے) کے تا بع ہے ؟ ایما ن اور عمل صالح کے در میان کیا را بطہ ہے ؟ اور کفر و گنا ہ کے در میان کیا نسبت ہے ؟اور کیا خو د اعمال صا لح اور برے اعمال کے در میان موثر اور متاثرہونے کے اعتبار سے کوئی رابطہ پایا جا تا ہے یا نہیں ؟

اس در س میں ہم سب سے پہلے، مسئلہ سے متعلق گفتگو کر تے ہو ئے اس با ت کی وضا حت کر نا چا ہیں گے کہ مذکو رہ رو ابط فر ضی اور قرا ردا دی امو ر میں سے نہیں ہیں ۔

را بطہ حقیقی ہے یا قرار دادی (فر ضی)

جیسا کہ ہم نے با رہا اس امر کی طر ف اشا ر ہ کیا ہے کہ دنیا وی اعمال اور نعمتو ںیا آخرت کے عذا ب کے در میان کو ئی معمولی یا ما دی رو ابط نہیں پا ئے جا تے کہ جن کو فیزیکی یا کیمیا وی قوا نین کی بنیا د پر بیان کر تے ہو ئے اس کی تفسیر کی جا ئے، حتیٰ یہ تصور جو بعض لو گو ں کا ہے ،کہ انسانی اعمال میں جو قو ت صرف ہو تی ہے وہ ان لوگوں کے نظریہ کی بنیاد پر جو اس بات کے قا ئل ہیں ،کہ ما دہ اور قوت ایک دوسرے سے تبدیل ہو کر مجسم ہو جا تا ہے اور آخرت کی نعمتوں یا عذا بو ں کی شکل میں ظا ہر ہو تے ہیں یہ ایک غلط تصور ہے کیو نکہ ۔

١۔ایک انسان کی گفتار اور کر دار میں استعما ل ہو نے والی قوت کی مقدا ر اتنی بھی نہیں ہے کہ جو مجسم ہو نے کے بعد ایک سبب کے برابر ہو سکے، چہ جا ئے کہ جنت کی بے شما ر نعمتوں میں تبدیل ہو جا ئے

٢۔ یہ کہ ما دہ اور قوت کا ایک دوسرے میں تبدیل ہو نا کسی خا ص عوا مل و اسباب کے مطا بق ہو تا ہے جس کا اعما ل کی نیکی یا برا ئی اور فا عل ( انسان) کی نیت سے کو ئی وا سطہ نہیں ہے اور کسی بھی طبیعی ( فطری) قا نون کی بنا پر خا لص اعمال اور دکھا وے کے اعمال میں امتیا ز قائم نہیں کیا جا سکتا تا کہ یہ کہا جا سکے کہ ایک کی قوت نعمت میں تبدیل ہو گئی ہے اور دوسرے کی قوت عذاب میں بد ل گئی ہے ۔

٣۔ وہ قوت اور طا قت جو ایک مر تبہ کسی عبا دت میں کا م آچکی ہے ممکن ہے دوسری مر تبہ کسی گنا ہ میں استعما ل ہو ۔

لیکن ایسے رابطے کا انکا ر کر نا حقیقی را بطے کے مطلقاًانکا ر کے معنی میں نہیں ہے کیو نکہ حقیقی ار تبا طا ت کا دا ئرہ نا شنا ختہ اور غیر مجر ب رو ابط کو بھی شا مل ہے اور جس طر ح علوم تجربی (تجر بیا تی علوم) د نیوی اور اخروی علوم، مو جودا ت کے در میان را بطہ سببیت کو ثا بت نہیں کر سکتا اسی طر ح ان

کے در میان سببیت اور مسببیت کے را بطے کے با طل کر نے کے اُوپر بھی قا در نہیں ہیں ،اور اگر یہ فر ض کر لیا جا ئے کہ اچھے اور برُے اعما ل انسانی روح پر وا قعی اثر رکھتے ہیں اور وہی روحی اثر ہے جو آخرت کی نعمت یا عذا ب کا سبب ہے جسے دنیا کی خا رق عا دت(غیر معمو لی) مو جودا ت میں بعض نفسوں کے اثر انداز ہوتے ہیں ایسا فر ض غیر معقو ل نہیں ہو گا بلکہ فلسفہ کے خاص اصول کی مدد سے اس کو ثا بت بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کتا ب میں اس بیا ن کی گنجا ئش نہیں ہے ۔

قر آنی دلیلیں:

اگر چہ قر آنی بیا نات اکثر مقا مات پر فر ضی اور قرادادی را بطے کو ذہن سے نزدیک کر تے ہیں، جسے وہ آیا ت شر یفہ جو اجر و جزاکی تعبیر پر مشتمل ہے(۱) لیکن دوسری آیتوں سے انسان کے اعما ل اور آخرت کے ثوا ب و عقاب کے در میان فر ضی اور قرار دادی را بطہ کے علا وہ دوسرے را بطے کا بھی استفا دہ کیا جا سکتا ہے اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پہلے گروہ کی آیتوں کی تعبیر سمجھنے میں آسانی کے لئے اور اکثر لو گوں کی فکری سطح کی منا سبت سے ہے کہ جن کا ذہن ایسے مفا ہیم سے زیا دہ ما نوس ہو تا ہے ۔

اسی طر ح احا دیث شر یفہ میں بھی بے شما ر دلیلیں مو جو دہیں جو یہ بیان کر رہی ہیں کہ انسان کے اختیا ر ی اعما ل کی کئی ملکو تی اور مثا لی شکلیں جو عالم بر زخ اور قیا مت میں ظا ہر ہو ںگی ۔

اب ہم ان آیا ت شر یفہ کو جو انسان کے اعما ل اور آخر ت کے نتیجوں کے در میان حقیقی را بطے پر دلا لت کر تی ہیں سا منے رکھتے ہیں

١۔( وَ مَا تُقَدِّمُوا لِاَ نفُسِکُم مِن خَیرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ ) (۲)

ہر وہ نیکی جس کو تم نے پہلے سے بھیج دیا ہے خدا کے پا س اُسے پا ئو گے ۔

٢۔( یَومَ تَجِدُ کُلُّ نَفسٍ مَا عَمِلَت مِن خَیرٍ مُحضَراً وَ مَا عَمِلَت مِن سُوئٍ تَوَدُّ لَواَنَّ بَینَهَا وَ بَینَهُ اَمَداًبعیداً ) (۳)

اس دن جب ہر شخص اپنے انجام دئے ہو ئے ہر اعما ل خیر کو اپنے سا منے حاضر دیکھے گا، اور اپنے بر ے اعما ل کو بھی دیکھے گا تو اس با ت کی تمنا کرے گا کہ اس کے اور اعما ل کے در میان دوری اور فا صلہ ہو جائے ۔

٣۔( یَومَ یَنظُرُ المَرئُ مَا قَدَّ مَت یَدَا هُ ) (۴)

اُس دن جب انسان دیکھے گا کہ اس کے ہا تھوں نے پہلے کیا بھیجا ہے

٤۔( فَمَن یعَمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرَهُ ٭وَ مَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَرَهُ ) (۵)

بس اگر کسی ایک نے ذرہ بر ابر بھی کار خیر انجام دیا ہے تو اسے (ضر ور )دیکھے گا اور اگر کسی نے ایک ذرہ بر ابر بھی برُا کام کیا ہے تو وہ بھی اسے دیکھے گا ۔٥۔

( هَل تَجزَونَ اِلّا مَا کُنتُم تَعمَلُونَ ) (۶)

کیا وہ جزا جو تمکو دی جا ئے گی ان اعما ل کے علا وہ ہے جو تم نے ( دنیامیں ) انجا م دیا ہے ۔

٦۔( اِنَّ الَّذِینَ یَاکُلُونَ اَموَالَ الیَتَامیٰ ظُلماً ِانَّما یَاکُلُونَ فِ بُطُو نِهِم نَا راً ) (۷)

بے شک وہ لو گ جو یتیموں کا ما ل نا حق ( چھین) کر کھا تے ہیں گو یا وہ لو گ اپنے شکم کو آگ سے بھر تے ہیں ۔

ظا ہر ہے کہ قیامت کے روز انسان کے لئے اس دنیا میں انجام دئے ہو ئے اعما ل کا دیکھ لینا ،اس کی جزا یا سزا نہیں ہو سکتی بلکہ یہ اس کی ملکو تی اور مثا لی صو رتیں ہیں جو مختلف نعمتیں اور قسم قسم کے عذا ب کی شکل میں ظا ہر ہو نگی اور انسان انھیں شکلوں کے ذریعہ نعمت سے سر فرا ز ہو گا یا عذا ب میں مبتلا ہو گا جیسا کہ اس آخری ایہ شریفہ سے استفا دہ ہو تا ہے کہ یتیم کے ما ل کو کھا نے کی با طنی صو رت آگ کا کھا نا ہے اور جس وقت دنیا (قیا مت ) میںحقیقتیں کھل کر سا منے آئیں گی تب معلو م ہو گا کہ فلا ں حر ام غذا کا با طن آگ ہی تھی، اور پھر اس کے اندر جلنے کی تکلیف کو محسو س کرے گا اور پھر اس سے کہا جا ئے گا کیا یہ آگ اس حر ام ما ل کے سوا کچھ اور ہے جو تو نے کھا یا تھا ؟

سوا لا ت :

١۔ اگر یہ فر ض کر لیا جائے کہ اعما ل کے مجسم ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ قوت ( انرژی) جو کام کو انجام دینے میں کام آئی ہے وہ موا د میں تبدیل ہو تی ہے تواس میں کیا حر ج ہے ؟

٢۔انسان کے اعما ل اور اس کے آخر وی نتا ئج کے در میان کیا را بطہ ہے ؟اس را بطے کو عقلی طور سے کیسے تصور کیا جا سکتا ہے ؟

٣۔ اعما ل کے مجسم ہو نے پر کو ن سی آیا ت دلا لت کرتی ہیں اور اجر و جزا جیسی تعبیر کے استعما ل کر نے کا سبب کیا ہے ؟

٤۔کیا اعما ل کے مجسم ہو نے کی تفسیر یہ ہو سکتی ہے کہ خود اعما ل اپنی اسی دنیا وی شکل میں ظاہر ہو نگے اور کیوں ؟

____________________

۱۔ اجر کی تعبیر تقریباً نو ے (٩٠) مر تبہ اور جزا کی تعبیر اور اس کے مشتقا ت کی تعبیر ایک سو سے زیا دہ قر آن مجید میں استعما ل ہو تی ہے ۔

۲۔بقرہ ١١٠، اور سورہ مزمل آیت نمبر ٢٠ کا بھی مطا لعہ کریں

۳۔ آل عمران ٣٠

۴۔ نبا٤٠

۵۔ زلزال ٧،٨

۶۔نمل ٩٠، اور سو رہ قصص آیہ نمبر ٨٤ کی طرف رجوع کر یں۔

۷۔نساء ١٠،

چوّ نواں درس

ابدی خو شبختی یا بد بختی میں ایمان کا دخل

مقدمہ:

ایمان اور کفر کی حقیقت

جو مند رجہ ذیل مو ضو عا ت پر مشتمل ہے

ایما ن اور کفر کا نصاب (حد)

ابدی خو شبختی یا بد بختی میں ایما ن کی تا ثیر

قر آنی دلیلیں

مقدمہ:

ایک اور مسئلہ جو پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ آیا ایمان اور عمل صالح میں سے ہر ایک (الگ الگ)مستقل طور سے ابدی سعادت کا سبب ہیں،یا دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر سعادت کا سبب بنتے ہیں؟اور اسی طرح کیا کفر اور عصیان(گناہ) میں سے ہر ایک مستقل طور سے عذاب ابدی کا باعث ہیں یا دونوں باہم ایک ساتھ یہ اثر رکھتے ہیں؟اگر ان دونوں مسئلوں میں ہم دوسری حالت کو مان لیں(یعنی دونوں مل کر سعادت یا شقاوت کا سبب ہیں) تو ایسی صورت میں اگر کوئی شخص صرف ایک چیز ایمان یا عمل صالح رکھتا ہو تو اس کا انجام کیا ہوگا؟اسی کے مانند اگر کوئی انسان صرف کفر اختیار کرے یا صرف کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہو، تو اس کی عاقبت کا کیا ہوگا؟اور اگر ایک با ایمان شخص حد سے زیادہ گناہوں کا ارتکاب کرے،یا ایک کافر انسان بے شمار کا ر خیر انجام دے تو کیا ا اس کی عاقبت بخیر ہوگی یا اس کے بھی برُے انجام ہوں گے ؟اور کسی بھی صورت میں اگر کوئی انسان اپنی زندگی کے کچھ حصے ایمان اور عمل صالح کے ساتھ گذارے، اور زندگی کے کچھ حصّہ کفر اور گناہ سے آلودہ بسر کرے تو ایسے شخص کا کیا حشر ہوگا؟

یہ وہ مسائل ہیں جن کے سلسلے میں اسلام کے ظہور کی پہلی صدی سے بحث ہوتی چلی آ رہی ہے،اور خوارج جیسے گروہ کے افراد کا عقیدہ یہ ہے کہ صرف گناہ کا ارتکاب ابدی شقاوت کا ایک مستقل سبب ہے اور صرف یہی نہیں، بلکہ کفر اور ارتداد کا باعث بھی ہے،اور دوسرا گروہ جیسے مُرحبئہ کہتے ہیں ، اس گروہ کے افراد کا عقیدہ یہ ہے کہ صرف ایمان کا پایا جانا ابدی نجات کے لئے کافی ہے،اور گناہوں کا ارتکاب مومن کی سعادت کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا،

لیکن حق بات یہ ہے کہ ہر گناہ ابدی شقاوت(بد بختی)کا سبب نہیں ہوتا، اگرچہ ممکن ہے گناہوں کی زیادتی ایمان کے سلب ہونے کی وجہ بن جائے،اور دوسری طرف ایسا بھی نہیں کہ ایمان رکھنے کی صورت میں سارے گناہ بخش دئے جا ئیں، اور کوئی گناہ اپنا برُا اثر نہ رکھے۔

اس درس میں ہم سب سے پہلے ایمان اور کفر کی وضاحت کریںگے اور پھر یہ بیان کریں گے کہ ابدی سعادت اور بد بختی میں ایمان و کفر کا کیا دخل ہے اور دوسرے مسائل کو انشاء اللہ آئندہ ،درسوں میں بیان کریںگے۔

ایمان اور کفر کی حقیقت

ایمان ایک قلبی اور نفسیاتی حالت کا نام ہے جو کسی ایک مفہوم کو جاننے اور اس کی طرف میلان کے اثر سے پیدا ہوتی ہے،اور انہیں دونوں اسباب میں شدت اور ضعف کی بنا پر کمال یا نقص پیدا ہوتاہے، اور اگر انسان کسی شی کے وجود سے ،چاہے وہ غیریقینی ہی کیوں نہ ہو،آگاہ نہ ہو تو اس پر ایمان بھی نہیں لاسکتا ،لیکن فقط آگاہ ہونا ،یا اطلاع حا صل کر لینا کافی نہیں ہے، اس لئے کہ ممکن ہے جس سے آگاہی حا صل ہوئی ہے یا وہ اس کے بعض لوازمات انسان کی خواہش کے خلاف ہوں اور وہ اس کے برخلاف رجحان رکھتا ہو، اس بناء پر وہ اس کے لوازمات پر عمل کرنے کا فیصلہ نہ کرے، بلکہ اس کے خلاف عمل کرنے کا فیصلہ کرلے،جیساکہ قرآن کریم فرعونیوں کے بارے میں فرما رہا ہے،

( وَ جَحَدُوا بِهَا وَاستَقَینَتهَا اَنفُسُهُم ظُلمًا و عُلُواً ) (۱) ظلم اور منزلت طلبی کے نشہ میں آیات الٰہی کا انکار کردیا باوجودیکہ اس کا یقین کرچکے تھے اور جناب موسیٰ نے فرعون کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا،( لَقَد عَلِمتَ مَا اَنزَلَ هٰوُلائِ اِلَّا رَبُّ السَّمواتِ وَالا َرضِ ) (۲) بے شک تم جانتے ہو کہ ان آیات اور معجزات کو سوائے زمین وآسمان کے پروردگار کے کسی اور نے نہیں نازل کیا۔

باوجودیکہ وہ (فرعون)ایمان نہیں لایا تھا لوگوں سے کہتا تھا،(( مَاعَلِمتُ لَکُم مِن اِله غَیرِ ) (۳) میں تمہارے لئے اپنے علاوہ کسی کو خدا نہیں جانتا،اور صرف اس وقت جب ڈوبنے لگا ،تب اس نے کہا،(( آمَنتُ اُنَّهُ لَااِلَهَ اِلَّا الَّذِی آمَنَت بِهِ بَنُواِسرائیلَ ) (۴) میں ایمان لایا اس خدا پر جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں جس پر بنی اسرا ئیل ایمان لائے

اور اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ مجبوری میں ایمان لانا قابل قبول نہیں ہے(۵) اگرچہ اس کو ایمان کا نام دیا جائے۔

پس ایمان کا دارو مدار قلبی رجحان اور اختیار پر ہے ،علم وآگاہی کے بر خلاف کہ جو بے اختیار بھی حاصل ہوجاتا ہے،اس بناء پر ایمان ایک قلبی اور اختیاری عمل تصور کیا جا سکتا ہے، یعنی عمل کے مفہوم کو وسعت دے کر ایمان کو بھی عمل ہی کے مقولے میں شمار کیا جاسکتا ہے،لیکن لفظ،،کفر،، کبھی عدم ایمان کے عنوان سے تعبیر ہوتا ہے اور ایمان کا نہ ہونا، چاہے شک اور جہل بسیط کی وجہ سے ہو، یا جہل مرکب کے سبب ، مخالف رجحان کی وجہ سے ہو، یا عمداً انکار اور دشمنی کی وجہ سے، بہر حال کفر کہا جائے گا،اور کبھی صرف آخری قسم یعنی( انکارخدا) اور دشمنی سے مخصوص ہوجاتا ہے کہ جو ایک وجود ی امر ہے اور ایمان کی ضد شمار کیا جاتا ہے۔

ایمان اور کفر کی حد(نصاب)

قرآنی آیات کریمہ اور روایات سے جو مطلب نکلتا ہے اس کی روشنی میں کم سے کم ایمان جو ابد ی سعادت کے لئے درکار ہے وہ خدا کی وحدانیت اور اسکی اخروی جزا وسزا پر ایمان اور انبیاء علیہم السلام پر جو کچھ نازل ہوا اُس کی صحت پر ایمان لانا ہے اور پھر اس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا وند عالم کے احکام پر عمل کرنے کا اجمالی ارادہ ہے، اور کم سے کم کفر جو ابدی بدبختی کے لئے کافی ہے وہ توحید میں شک یانبوت، قیامت ،میں شک کرنا ہے یا ان چیزوں کا انکار کرنا جن کے بارے میں جانتا ہو کہ یہ انبیاء (ع)پر نازل ہوئی ہیں۔

اور کفر کا بدترین مرتبہ اور آخری حد از روئے دشمنی تمام مذکورہ حقائق کا انکار کردینا با وجودیکہ اس کی صحت کا علم رکھتا ہو اور دین حق سے جنگ وجدال کرنا ہے۔

اسی طرح شرک(توحید کا انکار) بھی کفر کے مصادیق میں ایک مصداق ہے،اور نفاق جو کفر باطنی کا نام ہے جس میں ہمیشہ دھوکا بازی پائی جاتی ہے اور اسلام کا اظہار کیا جاتا ہے،اور منافقین(نقاب پوش کافر) کا انجام سارے کفار سے برا ہوگا جیسا خود قرآن کریم کا ارشاد ہے، (( اِنَّ المُنافِقِینَ فِی الدَّرکِ الاَسفَلِ مِنَ النَّارِ ) (۶) ترجمہ :اس میں تو شک ہی نہیں کہ منافقین جہنّم کے سب سے نیچے طبقے میں ہونگے۔

ایک خاص نکتہ جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اسلام اور کفر فقہی مسائل جیسے طہارت، حلیت ذبیحہ کا حلال ہونانکاح کا جائز ہونا ، میراث وارث ہونا یا نہ ہونا ایمان کے ملازم ہے ، لیکن یہ ایمان اس ایمان اور کفر سے جو اصول دین میں موضوع بحث واقع ہوتے ہیں کوئی نسبت اور ملازمت نہیں ر کھتے اس لئے کہ ممکن ہے کہ کوئی شخص شھاد تین پ ھے(خود پیغمبر کی گواہی دے)

اورفقہی مسائل اس کے لئے ثابت ہو ں در آن حالیکہ قلبی طور سے اس کے مضامین اور لوازم توحید اور نبوت پر ایمان نہ رکھتا ہو۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی انسان اصول دین کو پہنچاننے پر قادر نہ ہو اور بعنوان مثال وہ دیوانہ اور بے عقل ہو یا سماج کے ماحول کی وجہ سے دین حق کو نہ پہچان سکے تو وہ اپنی کوتاہی کے لحاظ سے معذور مانا جائے گا، لیکن اگر کوئی شخص تمام امکانات اور شناخت کی تمام سہولتوں کے باوجود کوتاہی کرے اور شک کی حالت میں باقی رہ جائے یا بغیر کسی دلیل کے اصول اور ضروریات دین کا انکار کردے تو ایسا شخص معذور نہیں سمجھا جائے گا(اس کا عذر قبول نہ ہوگا)اور ابدی عذاب میں مبتلا ہو جائے گا۔

ابدی خوشبختی یا بد بختی میں ایمان اور کفر کا دخل

اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ انسان کا حقیقی کمال تقرب الٰہی کے زیر سایہ متحقق ہوتا ہے ،اس کے برخلاف انسان کی بد بختی خدا سے دوری کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے،لہذا،خدا وند عالم پر ایمان اور اس کی تکوینی و تشریعی ربوبیت پر ایمان ر کھنا کہ جس کا لازمہ قیامت اور نبوت پر عقیدہ رکھناہے، انسان کے حقیقی کمال کا شجر جانا جا سکتا ہے کہ جس کے شاخ و برگ خدا کے پسندیدہ اعمال ہیں اور ابدی سعادت اس کا پھل ہے جو آخرت میں ظاہر ہوگا،پس اگر کوئی انسان اپنے دل میں ایمان کے بیج کو نہ بوئے اور اس بابرکت پودے کو نہ لگائے اور اس کی پرورش نہ کرے ،بلکہ اس کے بجائے کفر اور گناہ کے زہریلے بیج کو اپنے دل کی کھیتی میں چھڑک دے تو گویا اس نے خدا کی دی ہوئی صلاحیتوں کو ضائع کردیا اور اس نے ایک ایسے درخت کو پروان چڑھایا جس کا پھل(زقّوم) دوزخی پھل ہوگا،ایسا شخص ہر گز ابدی سعا دت سے ہمکنا ر نہیں ہو سکتا ، اوراس کے نیک اعمال کا اثر اس دنیا سے آگے نہیں جا سکتا، اور اس کا راز یہ ہے کہ انسان کا ہرا ختیا ری فعل اس کی روح کو مقصد اور ہدف تک پہنچنے کے لئے ایک فاعل کا لحاظ کرنا ضروری ہے اور وہ شخص جو عالم ابدی اور تقر ب الہٰی پراعتقا د نہیں رکھتا، وہ کیسے اپنے لئے ہد ف اور مقصد معین کر سکتا ہے اور اپنی رفتا ر کو یکسوئی عطا کر سکتا ہے زیا دہ سے زیا دہ جو چیز کا فروں کے نیک اعما ل کے لئے معین کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے عذاب میں کچھ کمی کر دی جا ئے گی کیونکہ ایسے کا م خو د پر ستی اور دشمنی کی رو ح کو ضعیف وکمزور بنا دیتے ہیں ۔

قر آنی دلیلیں

قر آن کر یم نے ایک طرف انسان کی ابدی خو شبختی کے لئے ایمان کو بنیا دی حیثیت دی ہے اور دسیوں آیتوں میں عمل صا لح کو ایمان کے سا تھ ذکر کر نے کے علا وہ بعض آیتوں میں ایمان کو اخر وی سعا دت کے سلسلہ میں ، عمل خیر میں موثر ہونے کے اعتبار سے شرط کی حیثیت سے جانا ہے جیسا کہ ارشاد ہو رہا ہے (( وَ مَن یعَمَل مِنَ الصّا لِحَا تِ مِن ذَکَرٍ اَواُنثیٰ وَهُوَ مُؤ مِن فَاُ ولِئکَ یَدخُلوُن الجَنَّة ) (۷) مر د اور عو رت میں جو بھی نیک عمل انجام دے اور ایما ن بھی رکھے وہ جنت میں وا رد ہو گا ۔

دوسری طرف سے کا فروں کے لئے دوزخ اور جہنم کے عذا ب کو معین کیا ہے اور ان کے اعما ل کو تبا ہ و برباداور بے نتیجہ جا نا ہے اور ایک مقام پر ان لو گو ں کو ایسی راکھ سے تشبیہ دی ہے جس کو تندو تیز ہوا منتشر کر دیتی ہے اور اس کا کچھ اثر با قی نہیں رہتا ۔

(( مَثَلُ الَّذِینَ کَفَرُوا بِرَ بِّهِم اَعمَالُهُم کَرَمَادٍ اُشتَدَّت بِهِ الریحُ فِ یَو مٍ عَاصِفٍ لَا یَقّدِرُونَ مِمَّا کَسَبُوا عَلی شَئٍ ذلِکَ هُوَ الضَّلا لُ البَعِیدُ ) (۸)

کا فر وں کے اعما ل کی مثا ل اس راکھ کے ما نند ہے کہ جس پر ایک طو فا نی روز کی تند ہوا کا جھو کا پڑے اور اسے اڑا لے جا ئے ،کہ وہ اپنے حا صل کئے ہو ئے پر بھی کو ئی اختیا ر نہ رکھیں گے اور یہ بہت دور تک پھیلی ہوئی گمر ا ہی ہے ۔

اور دوسری جگہ ارشا د فر ما رہا ہے کہ کا فرو ں کے اعما ل کو غبا ر کی طر ح ہوا میں اڑا گے:

( وَ قَدِمنَا اِلیٰ ما عَمِلُوا مِن عَمَلٍ فَجَعلنا هُ هَبا ئً مَنثُو راً ) (۹)

( کا فروں نے جو بھی عمل انجام دیا ) ہم نے آکر ہر اس عمل کو فضا میں غبار کی طر ح منشر کر دیا

اور ایک دوسری آیت میں کافروں کے اعمال کو اس سراب سے تشبیہ د ی ہے کہ جس کو دیکھ کر پیا سا انسان اس کی طرف دوڑ تا ہے لیکن جیسے ہی وہاں پہنچتا ہے وہ پا نی نہیں ہو تا :

( وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَعمَا لُهُم کَسَرابٍ بِقِیعَةٍ یَحسَبُهُ الظّمانُ مائً حَتّی اِذَاجا ئَ هُ لَم یَجِد هُ شَیئًا وَّوَجَدَ اللّهَ عِندَهُ فَوَ فَّا هُ حِسابَهُ وَاللّهُ سَریعُ الحِسَابِ ) (۱۰)

اور جن لو گو ں نے کفر اختیار کر لیا ان کے اعما ل اس ریت کے ما نند ہیں جو چٹیل میدان میں ہو اور پیاسا اسے دیکھ کر پا نی تصو ر کرے اور جب اس کے قریب پہنچے تو کچھ نہ پا ئے بلکہ اس خدا کو

پا ئے جو اس کا پو را حسا ب کر دے کہ اللہ بہت جلد حسا ب کر نے والا ہے ۔( اَوکَظُلُمَاتٍ فِ بَحرٍ لُجّ یَغشَاهُ مَوج مِن فَو قِه سَحَابظُلُما ت بَعضُهَا فَوقَ بَعضٍ اِذَا أَخرَ جَ یَدَهُ لَم یَکَد یَراهَا وَ مَن لَم یَجعَلِ اللَّهُ لَهُ نُوراً فَمَالَهُ مِن نُورٍ ) )(۱۱)

یا ان کے اعما ل کی مثا ل اس گہرے در یا کی تا ریکیوں کی سی ہے کہ جس کو لہروں نے ڈھانپ رکھا ہو اور اس کے اُوپر تہ بہ تہ با دل بھی ہو ں کہ جب وہ اپنے ہا تھ کو نکا لے تو تا ریکی کی بنا پر کچھ نظر نہ آئے اور جن کے لئے خدا نور نہ قر ار دے اس کے لئے کو ئی نور نہیں ( کنا یہ ہے اس با ت سے کہ کا فرو ں کی حر کت تا ریکی میں ہے اور وہ کہیں نہیں پہنچ سکتے )اور دوسری آیت میں خدا کا ارشاد ہے کہ دنیا پر ستوں کے عمل کے نتیجے ،اسی دنیا میں ان کو د ے د ے جائیں گے اور آخر ت میں ان کے لئے کو ئی حق نہ ہو گا

جیسے یہ آیت شر یفہ ۔

(( مَن کَانَ یُرِیدُ الحَیا ةَ الدُّنیَا وَ زِینَتَهَا نُوَفِّ اِلَیهِم أَعمَا لَهُم فِیهَا وَ هُم فِیهَا لَا یُبخَسُونَ ٭اُولِئکَ الَّذِینَ لَیسَ لَهُم فِی الا خِرَةِ اِلَّا النَّارُ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوا فِیهَا وَبَاطِل مَا کَانُو ا یَعمَلُو نَ ) )(۱۲) جو شخص زندگا نی دنیا اور اس کی زینت کے طلب ہیں ہم اسکے اعما ل کا پورا پورا حسا ب یہیں کر دیتے ہیں اور کسی طر ح کی کمی نہیں کر تے اور یہی لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں جہنم کے علا وہ کچھ نہیں ہے اور ان کے سا رے کا رو با ر بر با د ہو گئے ہیں اور سا رے اعما ل با طل و بے اثر ہو گئے ہیں ۔

سو الا ت :

١۔ ایمان اور کفر کے متعلق خو ارج اور مر جئہ کا نظر یہ تحریرکر تے ہو ئے ان کے مقابل میں قول حق کو بیان کر یں ؟

٢۔ایمان اور کفر کی حقیقت اور علم و جہل سے اس کے را بطہ کو واضح کیجئے ؟

٣۔ ایما ن اور کفر کے نصا ب کو بیان کریں؟

٤۔ شر ک و نفا ق کی کفر سے کیا وابستگی ہے ؟

٥۔ ابدی سعا دت و شقا وت میں ایمان و کفر کی تا ثیر اور اس کے راز کو بیان کر یں ؟

٦۔فقہی اسلا م و کفر کی کلا می ایما ن و کفر سے کیا نسبت ہے ؟

٧۔ اس تا ثیر پر قر آنی دلیلیں پیش کریں ؟

____________________

١۔نمل ١٤،

٢۔ اسراء ١٠٢،

٣۔ قصص ٣٨،

٤ ۔ یو نس ٩٠،

٥۔درس نمبر ٩ نو کا ،مطا لعہ کریں

۶۔ نساء ١٤٥،

۷۔نساء ١٢٤ ، اور نحل ٩٧ ، اسرا ء ١٩، طہٰ ١١٢، انبیا ء ٩٤ ، غا فر ٤٠ کی طرف رجو ع کر یں ۔

۸۔ ابرا ہیم ١٨

۹۔ فر قان ٢٣،

۱۰۔ نور ٣٩، ۱۱۔ نور ٤٠

۱۲۔ ھو د ١٥ ،١٦ ،