درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 45245
ڈاؤنلوڈ: 2784

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45245 / ڈاؤنلوڈ: 2784
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

اٹھاونواں درس

مومنین کے امتیازات

مقدمہ:

ثواب میں اضافہ

جو ذیل کی بحثوں پر مشتمل ہے

گنا ہان صغیر ہ کی بخشش

دوسروں کے اعما ل سے استفا دہ

مقدمہ:

ہم خدا شناسی(۱) کے باب میں یہ جان چکے ہیں، کہ خدا کے ارادہ کا اصل تعلق نیکیوں اور کمالات سے ہوتا ہے،اور برائیوں اور نقائص کا تعلق ارادۂ الٰہی سے با لتبع ہوتا ہے اسی کو دیکھتے ہوئے انسان کے متعلق بھی خدا کا اصلی ارادہ اس کی ترقی و تکامل اور ابدی خوشبختی تک رسائی اور وہاں کی ابدی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے سے تعلق رکھتا ہے اور تباہکاروں اور گنہگاروں کا عذاب اور اُن کی بد بختی جو ان کے برے انتخاب کے نتیجہ میں انہیں حاصل ہوئی ہے با لتبع خدا کے حکیمانہ ارادے میں شامل ہے او ر اگر عذاب و اخروی بد بختی میں مبتلا ہونا خود انسان کے برے انتخاب کا نتیجہ نہ ہوتا، تو خدا کی بے پایان رحمت اس بات کا تقاضا کرتی ہے، کہ اس کی ایک بھی مخلوق عذاب میں مبتلا نہ ہو(۲)

لیکن یہ وہی خدا کی ہمہ گیر رحمت ہے کہ جس نے انسان کی آفرینش کا اقتضاء اس کے اختیارات و انتخاب کی خصوصیت قرار دیا ،اور ایمان و کفردونوں راستوں میں سے ہر ایک کے انتخاب اور اختیارات کا لازمہ ایک اچھے یا برے انجام تک پہنچ جانا ہے اس فرق کے ساتھ کہ نیک انجام تک پہنچ جانا، خدا کے اصلی ارادہ سے متعلق ہے اور دردناک عاقبت تک پہنچ جانا خدا کے تبعی ارادہ سے متعلق ہے اور یہی فرق اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ تکوین میں بھی اور تشریع میں بھی(یعنی خلقت میں بھی اور دستور العمل میں بھی)نیکی کے پہلو کو ترجیح دی جائے یعنی انسان فطری طور سے ایسا خلق کیا گیا ہے کہ نیک کام اس کی شخصیت کو بنانے میں گہرا اثر رکھیں اور تشریعی اعتبار سے مکلف کے لئے سہل و آسان ہو تاکہ سعادت کے راستہ کو طے کرنے اور ابدی عذاب سے نجات پانے میں سخت اور جان لیوا تکلیفوں کا سامنا نہ کرنا پڑے(۳) اور جزا وسزا کے موقع پر بھی اس کی جزا کے پلّے کو بھاری کردیا جائے اورخدا کی رحمت اس کے غضب پر سبقت کرجائے(۴) اور خدا رحمت کا یہ تقدم و رجحان بعض امور میں مجسم ہوکر سامنے ظاہر ہوجاتا ہے کہ جس کے بعض نمونے ہمیہاں پر آپ کے سامنے ذکر کررہے ہیں۔

ثوا ب میں اضا فہ

خدا وند عالم راہ سعاد ت کے طلبگا روں کے لئے مقام انعام میں سب سے پہلی جس جزاکا قائل ہوا ہے وہ یہ ہے کہ صرف عمل کے برابر ثواب اپنے بندوں کو نہیں دیتا، بلکہ اس کو بڑھا کے عطا کرتا ہے ،یہ مفہوم قرآن مجید کی بعض آیتوں میں بالکل صاف بیان کیا گیا ہے ،من جملہ سورہ نمل کی آیت نمبر (٨٩) میں ارشاد ہورہا ہے،( مَن جَائَ بَالحَسَنَةِ فَلَهُ خَیر مِنهَا ) جو کوئی بھی نیکی انجام دے گا اس سے بہتر اس کی جزا پائے گا۔

اور سورۂ شوریٰ کی آیت نمبر(٢٣)میں ارشاد ہے (وَمَن ےَقتَرِف حَسَنَةً نَزِدلَہُ فِیہَا حُسناً)، جو کوئی بھی نیک کام انجام دے گا ہم اس کی نیکی کو بڑھا دیں گے۔

اور سورۂ یونس کی آیت نمبر(٢٦) میں فرما رہا ہے(لِلَّذِ ینَ اَحسَنُوا الحُسنیٰ و زِےَادَة)، ان لوگوں کے لئے جنہوں نے نیکی کی ہے ،نیکی بھی ہے اور اضافہ بھی ہے۔

اور سورۂ نساء کی آیت نمبر(٤٠) میں اس طرح آیا ہے کہ، (اِنَّ اللّہَ لَا ےَظلِمُ مِثقَالَ ذَرَّةٍ وَاِن تِلکَ حَسَنَةً ےُضَاعِفہَا وَےُؤتِ مِن لَدُنہُ اَجراً عظیماً)،

اللہ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا انسان کے پاس نیکی ہوتی ہے تو اسے دوگنا کردیتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عطا کرتا ہے اور سورۂ انعام کی آیت نمبر(١٦٠)میں ارشاد الہی ہے:( مَن جَائَ بِا لحَسَنَةِ فَلَهُ عَشرُ اَمثَالِهَا وَمَن جَائَ بِالسَّیئَةِ فَلَا يُجزَیٰ اِلَّا مِثلَهَا وَهُم لَايُظلَمُونَ ) ، جو شخص بھی نیکی کرے گا، اسے دس گنا اجر ملے گا اور جو برائی کرے گا اسے صرف اتنی ہی سزا ملے گی اور کوئی ظلم نہ کیا جا ئے گا ۔

گناہان صغیرہ کی بخشش

سعادت کی راہ پر چلنے والوں کیلئے ایک دوسرا امتیاز یہ ہے کہ اگر مومنین بڑے گناہوں سے پرہیز کرنے لگیں تو خدا اتنا مہربان ہے کہ وہ ان کے چھوٹے گناہ بھی معاف کردیگا اور اس کے اثر کو محو کردیگا،جیسا کہ سورۂ نساء کی آیت نمبر(٣١) میں ارشاد ہورہا ہے( اِن تَجتَنِبُوا کَبائِرَ مَاتُنهَونَ عَنهُ نُکَفِّر عَنکُم سَيِّاتِکُم وَنُدخِلکُم مُدخَلاً کَرِیماً ) ،اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے کہ جن سے تمہیں روکا گیا ہے پرہیز کر لوگے تو ہم دوسرے گناہوں کی پردہ پوشی کردیں گے اور تمہیں با عزت منزل تک پہنچا دیں گے۔

واضح ر ہے کہ ایسے لوگوں کے چھوٹے گناہوں کو بخشے جانے کے لئے توبہ کی شرط نہیں ہے کیونکہ توبہ بڑے بڑے گناہوں(گناہ کبیرہ) کے بخشنے کا بھی سبب ہے۔

دوسروں کے اعمال سے استفادہ

مومنین کے لئے ایک دوسری برتری یہ ہے کہ خدا وند عالم فرشتوں اور اپنے خاص چنے ہوئے بندوں کے استغفار کو ان مومنین کے حق میں قبول کرتا ہے، اور سارے مومنین کی دعاؤں اور استغفار کو ان کے حق میں قبول کرتا ہے،اور یہاں تک کہ ان اعمال کے ثواب جو دوسرے لوگ کسی مومن کے لئے ہدیہ کرتے ہیں اس کو بھی ان مومنین تک پہنچاتا ہے ،یہ مطالب آیات اور روایات میں بہت کثرت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں، لیکن چونکہ یہ موضوع شفاعت کے مسئلے سے بلا واسطہ رابطہ ر کھتا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ قدر تفصیل سے اس موضوع پر روشنی ڈالیں اس لئے ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔

سوالات

١۔رحمت الٰہی کے سبقت کرنے کا راز کیا ہے؟

٢۔تکوین وتشریع میں اس سبقت کے مجسم ظاہر ہونے کو بیان کریں؟

٣۔اس کے موارد کو انسان کی جزا وسزا میں وضاحت کے ساتھ بیان کریں؟

____________________

١۔ درس نمبر ١١ خدا شناسی کی طر ف رجو ع کریں ۔

٢۔ہم دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں ،(فبا لیقین اقطع لو لا ما حکمت به من تعذیب جا حدیک و قضیت به من اخلاد معا ندیک لجعلت النارکلها بر داً و سلا ماّ و ما کا نت لاحد فیها مقراً ولا مقاما ً۔

۳۔ (یرید الله بکم الیسر ولا یر ید بکم العسر ) بقرہ ١٥٨، وماجعل علیکم فی الدین من حرج ۔

حج ٧٨،

۴۔ سبقت رحمتہ غضبہ

انسٹھو اں درس

شفا عت

مقدمہ:

جو ذیل کی بحثو ں پر مشتمل ہے

شفا عت کا مفہوم

شفا عت کے اصول

مقدمہ:

من جملہ ان خصو صیا ت میں سے ایک ایسی خصوصیت کہ جس کو خدا وند عا لم نے مو منین سے مخصوص کر دیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کو ئی مو من شخص مر تے دم تک اپنے ایما ن کی حفا ظت کر لے جا ئے اور ایسے گنا ہو ں کا ارتکا ب نہ کر ے، جو اس کی تو فیقات کے سلب ہو جا نے کا با عث بنے اور اس کی عا قبت کی بد بختی شک و شبہ یا انکا ر جحو د کی منز ل تک پہنچا دے، اور ایک جملہ میں یوں خلاصہ کر دیا جائے کہ اگر ایمان کے سا تھ اس دنیا سے اٹھا ئے تو وہ ہر گز ابدی عذا ب میں مبتلا نہیں ہو گا اس لئے کہ اس کے چھوٹے گناہ ، بڑے گنا ہوں سے پرہیز کرنے کی وجہ سے بخش دئے جائیں گے، اور اُس کے بڑے گنا ہ تو بہ و استغفار کے وسیلہ سے معا ف کر دئے جا ئیں گے، اور اگر اُسے ایسی تو بہ کی تو فیق حا صل نہ ہو سکی، تو دنیا کی مصیبتیں اور پر یشا نیاں اُس کے گنا ہو ں کے بو جھ کو ہلکا کر دیں گی نیز بر زخ اور قیا مت کی ابتدا ئی سختیا ں اس کے اعما ل کے نقا ئص اور آلو دگیوں کو دو ر کر دیں گی اور اگر اس کے با وجود اسکے گنا ہو ں کی آلو دگی پا ک نہ ہو سکی تو شفا عت کے وسیلہ سے جو اولیا ء خدا خصو صاً حضو ر سر ور کا ئنا ت اور ان کے اہل بیت (ع) جو خدا کی وسیع و عظیم رحمت کی جلو ہ نما ئی کرتے ہیں،کے ذریعہ

جہنم کے عذا ب سے نجا ت پا جا ئیں گے(۱) اور بے شما ر رو ایا ت کی رو شنی میں وہ مقام محمو د(۲) جس کا وعدہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیا گیا ہے وہ اسی مقام شفا عت کا نام ہے اور خو د یہ آیہ شر یفہ (وَ لَسَوفَ یُعطِیکَ رَبُّّکَ فَتَرضَیٰ)(۳) اور تمھا ر ا پر ور دگا ر تمھیں اتنا عطا کر دے گا کہ تم خو ش ہو جا ئو گے حضور کی شفا عت کے ذریعہ الہٰی بخشش کی طر ف اشا رہ ہے جو مستحق افرا د کے شا مل حا ل ہو گی ۔

اس بنا پر گنہگا ر مو منین کی سب سے بڑی اور آخر ی امید اور آسراشفا عت ہے لیکن اس کے با وجود خدا کے عذاب سے امان کا یقین نہیں کر لینا چا ہیے بلکہ ہمیشہ یہ خو ف دل میںجاگتا رہے کہ خدا نخوا ستہ ا س سے کو ئی ایسا فعل سر زد ہو جا ئے جو مر تے دم تک کبھی بھی اس کی عا قبت کی بر با دی یا ایمان کے سلب ہو جا نے کا سبب بن جائے ،اور خبر دا ر کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی محبت ان کے دلو ں میں اس حد تک رسوخ کر جا ئے کہ (معا ذ اللہ ) وہ اللہ کی دشمنی کے سا تھ اس دنیا سے رخصت ہو اس لئے وہ لو گ یہ دیکھ رہے ہیں کہ خدا ہے جو ان کے اور ان کی محبوب اور معشو ق اشیا ء کے در میان مو ت کے ذریعہ جدا ئی ڈا ل دیتا ہے ۔

شفا عت کا مفہو م

شفا عت ،ما دہ شفع سے لیا گیا ہے جو جوڑے کے معنی میں ہے اور عر ف عام میں اس کے یہ معنی ہیں کہ کو ئی با عزت انسان کسی بزر گ شخصیت سے کسی مجر م کی سزا سے چشم پو شی یا کسی خد مت گذار کی اجر ت میں اضا فہ کی در خو ا ست کر ے اور شا ید ایسے مقا مات پر لفظ شفا عت کو استعما ل

کر نے کا نکتہ یہ ہو کہ مجر م انسان خو بخو د بخشے جا نے کا مستحق نہیں ہو تا، یا خد مت کا رخو د بہ خو د اجر ت میں اضا فہ کا استحقا ق نہیں رکھتا لیکن سفا رش کر نے وا لے ( شفیع ) کی در خو است کا منسلک ہو جا نا اسے اس کا مستحق بنا دیتا ہے عام حا لا ت میں کو ئی کسی سفا رش کر نے و الے کی سفا رش کو اس لئے قبو ل کر لیتا ہے وہ اس با ت سے ڈر تا ہے کہ اگر اس کی سفا رش کو قبو ل نہ کر ے گا تو وہ ناراض ہو جا ئے گا اور اس کا رنجید ہ خا طر ہو نا اس کی الفت یا خد مت کی لذ ت سے محر ومی کا سبب بنے گا، یا ممکن ہے کہ سفا رش کر نے وا لے کی جانب سے نقصا ن پہنچنے کا با عث ہو وہ مشرکین جو اس دنیا کو پیدا کر نے وا لے خدا کے لئے انسانی او صا ف کے قا ئل تھے، جیسے شر یک حیا ت ، مونس و مدد گا ر دو ست ہم مشغلہ سا تھی کی محبت کی ضر ورت یا اپنے ر قیب اور اپنے برابر کی شخصیت سے خو ف وغیر ہ، وہ خدا کے لئے ان سب صفا ت کے اس لئے قا ئل تھے، کہ ا ن کی تو بہ ان لو گو ں کی طرف مبذول ہو جائے اور وہ اس کے غضب سے محفو ظ رہیں، اور اسی لئے وہ لو گ بتوں اور مجسمو ں کے مقابلہ میں فر شتوں اور جنا توں کی پر ستش کرتے تھے اور کہتے تھے ۔( هٰؤُ لَا ئِ شفعاؤنا عِندَ اللَّهِ ) )(۴) یہ سب خدا کے نزدیک ہما ری

شفا عت کر نے وا لے ہیں اور کہتے تھے :

( مَا نَعبُدُ هُم اِلَّا لِیُقَرِّ بُونَا اِلَی الٰلّهِ زُلفَیٰ ) )(۵) ہم ان کی پر ستش صر ف اس لئے کر تے ہیں کہ ہمیں اللہ سے قر یب کر دیں گے ۔

اور قر آن مجید ان لو گو ں کے جا ہلا نہ خیا لا ت کو اس طر ح با طل کر تے ہوئے فر ما تا ہے :

( لَیسَ لَهَا مِن دُونِ اللّهِ وَلِّ وَلَا شَفِیع ) )(۶) لیکن غو ر و فکر کا مقام ہے کہ ایسے شفا عت کر نے و الو ں اور ایسی شفا عت کی نفی کر نے کے معنی مطلقاً شفا عت کا انکا ر کر نا نہیں ہے، خو د قر آن مجید میں آیا ت مو جود ہیں جو شفا عت کو ( خدا کی اجا زت اور اس کے اذن سے ثا بت کر تی ہیں )

( شفا عت با ذن اللہ ) اور وہ آیا ت شفا عت کر نے و ا لو ں اور جنکی شفا عت کی جا ئے گی ان کی شرائط کو بھی بیان کر رہی ہیں اور خدا کی جا نب سے اجا زت یا فتہ شفا عت کر نے و الوں کی شفا عت کا قبو ل ہو نا، کسی خو ف یا ضرو رت کی وجہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا را ستہ ہے جسے خدا وند عالم نے ان لو گو ں کے لئے کھو لا ہے، جن کے اند ر رحمت الہٰی ،کی لیا قت کم پا ئی جا تی ہے اور اس کے وا سطے کچھ شر طیں اور اصول قرا ر د یئے ہیں اور در حقیقت صحیح شفا عت پر عقید ہ ،اور شر ک آمیز شفا عت پر عقیدہ کے در میان وہی فر ق ہے جو فر ق خدا کی جا نب سے حاکمیت اور تدبیر ، اور خود مختار حاکمیت و تدبیر کے درمیان میں ہے جو خدا شنا سی کے باب میں بیان ہو چکی ہے(۷) کبھی کبھی شفا عت کا لفظ اس سے بھی زیا دہ و سیع معنیٰ میں استعما ل ہو تا ہے اور انسان کے اند ر دوسرے کے ذریعہ اچھا اثر ظا ہر ہو نے کو بھی شا مل ہے جیسے ما ں با پ اپنی اولادکے متعلق یا اس کے بر عکس اسی طرح معلم اور ر ہنما اپنے شا گر دوں کے متعلق اور یہا ں تک کہ مو ذن ان لو گو ں کے متعلق جو اس کی آوا ز کو سن کر نما ز کو یا د کر تے ہوئے مسجد کی طرف چل پڑتے ہیں شفا عت کر یں گے اور در حقیقت ہر نیک اثر جو اس دنیا میں انجام دیا گیا ہے وہ شفا عت اور مدد کی شکل قیامت کے دن ظا ہر ہوگا ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ گنہگا ر وں کی توبہ و استغفا ر اسی دنیا میں ان کے لئے ایک طر ح کی شفا عت ہے اور یہا ں تک کہ دوسرو ں کے حق میں دعا کر نا اور خد ا سے ان کی حا جتوں کو پور ا ہو نے کی در خو است کر نا در حقیقت خدا کے نزدیک شفا عت شما ر کی جا تی ہے ، کیو نکہ یہ سا ری چیزیں خدا کے نز دیک کسی انسان تک نیکی پہنچا نے یا کسی سے شر کو دور کر نے لئے واستہ ہے ۔

شفا عت کے اصو ل

جیسا کہ اشا رہ کیا جا چکا ہے کہ شفا عت کر نے یا شفاعت پا نے کے لئے بنیا دی شر ط خد کی اجا زت ہے، جیسا کہ سو رہ بقرہ کی آیت نمبر ٥٥ ٢،میں ارشاد ہو ا ہے( مَن ذَالَّذِی یَشفَعُ عِندَهُ اِلَّا بِاِذنِهِ ) )کو ن ہے جو اس کی با رگا ہ میں اس کی اجازت کے بغیر سفا رش کر سکے ،اور سو رہ یو نس کی آیت نمبر ٣میں یو ں ارشا د ہے( مَا مِن شَفِیعٍ اِلَّا مِن بَعدِ اِذنِهِ ) کو ئی سفا رش نہیں کر سکتا مگر اس کی

اجا زت کے بعد اور سو رہ طہٰ کی آ یت نمبر ١٠٩ میں بھی ارشا د ہو رہا ہے :

(( یَومَئِذٍ لَا تَنفَعُ الشَّفَا عَةُ اِلَّا لِمَن اَذِنَ لَهُ الَّرحمٰنُ وَ رَضِیَ لَهُ قَولاً ) )

اس دن کسی کی سفا رش کام نہ آئے گی ،سوا ئے ان کے جنھیں خدا نے اجاز ت دیدی ہو اور وہ ان کی بات سے را ضی ہو اور سو رہ سبا ء کی آیت نمبر ٢٣ میں فر ما تا ہے :

( وَلَا تَنفَعُ الشَّفَا عَةُ عِندَهُ اِلَّا لِمَن اَذِنَ لَهُ ) اس کے نزدیک کسی کی سفا رش کام نہ آئے گی مگر اس کی جس کو اجاز ت دی گئی ہو ان آیات سے اجما لی طور سے خدا کی اجازت ثا بت ہو تی

ہے لیکن اجا زت یا فتہ افرا د کی خصو صیت کا اند ا زہ نہیں ہو تا ، لیکن دوسر ی آیا ت کے ذ ریعہ طر فین ( شفا عت کرنے وا لے اور شفا عت پا نے وا لے ) کی شر طو ں کو واضح کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سورہ زخرف کی آیت نمبر ٨٦ میں ہے :

( وَلا یَملِکُ الَّذِینَ یَد عُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَن شَهِدَ بِا لحَقِّ وَ هُم یَعلَمُونَ ) اور وہ لو گ جو خدا کے علا وہ کسی اور کو آواز دیتے ہیں شفا عت کا حق نہیں رکھتے ( اور کسی کو بھی شفا عت کا حق نہیں ) مگر وہ جو حق کی گو اہی دے اور علم بھی رکھتا ہو، شا ید ( مَن شَھِدَ بِا لحَق) سے مرا د اعما ل کے اوپر گو اہ فرشتے ہو ں جو خدا کی تعلیم کے ذریعہ بندوں کے اعما ل اور نیتوں سے وا قف رہتے ہیں اور ان کی رفتا ر و کر دا ر کی قدر و قیمت اور کیفیت پر شہا دت دے سکتے ہیں ،جیسا کہ حکم اور مو ضو ع کے تنا سب سے استفا دہ کیا جا سکتا ہے کہ سفا رش کر نے والو ں کے پا س اتنا علم ہو نا چا ہیے کہ جو شفا عت پا نے وا لوں کی صلا حیت کی تشخیص دے سکیں ۔

اور یقینی طور سے ان دو نوں شرا ئط کے حا مل وہ معصو مین (ع)ہیں ،دوسری طر ف سے بعض آیا ت سے استفا دہ ہو تا ہے کہ شفا عت پا نے وا لے مر ضی خدا کے حق دار ہو ں جیسا کہ سور ہ انبیا ء کی آیت نمبر ٢٨میں ارشاد ہے :( وَ لَا یَشفَعُونَ اِلَّا لِمَن اِر تَضیٰ ) )سفا رش نہیں کر سکتے مگر یہ کہ خدا اس کو پسند کر ے اور سو رہ نجم کی آیت نمبر ٢٦ میں ارشاد ہے : (و( َکَم مِن مَلَکٍ فِی السَّموات لَا تُغِن شَفَاعتُهُم شَیًا اِلَّا مِن بَعدِ اَن یَأ ذَنَ اللّهُ لِمَن َیشَاء وَ یَر ضی ) ٰ) اور آسما نوں میں کتنے ہی ایسے فر شتے ہیں جن کی سفارش کسی کے کا م نہیں آسکتی، جب تک خدا جس کے با رے میں چا ہے اور پسند نہ کر ے اجا زت نہ دیدے ۔

صا ف ظا ہر ہے کہ رضائے پر وردگا ر کی منز ل میں ہو نے سے مر اد یہ نہیں ہے کہ اس کے سا رے اعما ل پسندیدہ ہو ں ورنہ شفا عت کی کو ئی ضرو رت نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ خو د شخص دین و ایمان کے لحاظ سے مر ضی خدا کے مطا بق ہو جیسا کہ رو ایا ت میں اسی عنوان سے تفسیر ہو ئی ہے ۔

دوسری طر ف چند آیتوں میں ان لو گو ں کی خصلت جن کی سفا رش نہیں ہو سکتی بیان کی گئی ہے، جیسے سو رہ شعراء کی آیت نمبر ١٠٠ میں مشر کین کے قول کو نقل کر رہا ہے( فَمَا لَنَا مِن شَا فِعِین ) اور سورہ مدثر کی آیت نمبر ٤٠سے ٤٨ تک آیا ہے کہ مجر مو ں کے دو زخ میں جا نے کے سبب کے با رے میں سوا ل کیا جا ئے گا تو وہ لو گ جو اب میںتر ک ِنما ز(۸) بیکسو ں کی مدد نہ کر نے روز قیا مت کے جھٹلا نے کی خصلت کو گنوائیں گے اس کے بعد ارشا د ہے( فَمَا تَنفَعهُم شَفا عَة الشَا فِعِینَ ) ) اس آیت سے استفا دہ ہو تا ہے کہ وہ مشرکین او ر قیا مت کا ا نکا ر کر نے وا لے جو خدا کی عبا دت نہیں کر تے اور اس کے محتا ج بند وں کی مدد نہیں کر تے ،اور صحیح اصول و قوا نین کے پا بند نہیں ہیں ۔

شفا عت ہر گز ان کے شا مل حا ل نہیں ہو گی او ر اس با ت پر غور کر تے ہو ئے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا استغفا ر بھی اس دنیا میں ایک طر ح کی شفا عت ہے اور ان کا استغفا ر ان لو گو ں کے حق میں جو ا س بات کے لئے حا ضر نہیں ہیں، آپ سے استغفا ر و شفا عت کی در خوا ست کر یںشامل نہیں ہو گا(۹) اس سے اس با ت کا اندا زہ ہو تا ہے کہ شفا عت کا انکا ر کر نے وا لا بھی شفا عت کا حق دار نہیں ہے جیسا کہ یہی مضمو ن احا دیث میں ذکر ہو ا ہے(۱۰)

حا صل کلا م یہ ہے کہ مطلقا ً اور اصلی سفا رش کر نے وا لے کے لئے ضر وری ہے کہ خد ا کی اجا زت کے علا وہ خو د بھی معصیت کا ر نہ ہو اور دوسروں کے گناہ اور اطا عت کے مر ا تب کو سمجھنے کی قدر ت رکھتا ہو نیز سچے پیرو کار بھی ان کے زیر سا یہ شفا عت کے کمترین مر تبہ کے ما لک ہو تے ہیں ،جیسا کہ ایسے افراد شہدا ء اور صد یقین کے زمر ہ میں محشور کئے جا ئیں گے(۱۱) اوردوسری طرف صر ف وہ لو گ شفا عت پا نے کا حق رکھتے ہیں جو خدا کی اجا زت کے علا وہ خدا و رسو ل اور قیامت اور وہ چیزیں جو خدا نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نا زل کی ہیں جیسے شفا عت کی حقا نیت پر ایمان رکھنا، نیز اس اعتقاد پر آخر دم تک باقی رہنا ہے ۔

جو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایما ن لا ئے خدا کے نزدیک وہی لو گ صدیقین اور شہدا ء ہیں ،

سو الا ت:

١۔ شفا عت کے معنی اور اس کے استعما ل کے موارد کو تفصیل سے بیا ن کر یں ؟

٢۔صحیح شفا عت اور شر ک آمیز شفا عت کے درمیان فر ق بیا ن کیجئے ؟

٣شفا عت کر نے و لے کے شرا ئط کی وضا حت کیجئے ؟

٤۔شفا عت پا نے وا لے کے شرا ئط کی وضا حت کیجئے ؟

____________________

١۔ ( ادّ خرت شفا عتی لا ھل الکبا ئر من امتی ) میں نے اپنی شفا عت اپنے امت کے گنہگا روں کے لئے ذخیر ہ کیا ہے ، بحا ر لانوا ر ج ٨ ص ٣٧ ۔٤٠،

٢۔ اسرا ء ٧٩،

٣۔ ضحی ٥

۴۔ یو نس ١٨ ، روم ١٣ ، انعام ٩٤، زمر ٤٤ ، وغیرہ

۵۔ زمر ٣

۶۔ انعام ٧٠، ٥١، سجدہ ٤، زمر ٤٤،

۷۔ رجوع کریں،باب خدا شنا سی درس نمبر ١٦،

۸۔ امام صا دق اپنی زند گی کے آخر ی لمحا ت میں فر ما یا:(ان ّ شفاعتنا لا تنا ل مستخفا با لصلوٰة ) ہما ری شفاعت اس انسان تک نہیں پہنچ سکتی جو نما ز کو ہلکا سمجھے ۔ بحا ر الانوا ر ج٤ ص ٢

۹۔ منا فقون ٥۔٦

۱۰۔ (عن النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مَن لم یؤمن بشفاعت فلا اناله الله شفاعت )جو میری شفا عت پر ایما ن نہیں رکھتا خدا میری شفا عت کو اس کے شا مل حا ل نہیں کر ے گا ، بحا ر لانوا ر ج٨ ص ٥٨ ،

۱۱(وا لذین آمنوا با الله و رسوله او لٰئک هم الصدقون والشهد اء عند ربهم )

سا ٹھو اں درس

چند شبھات کا حل

شفا عت کا انکا ر کر نے وا لی آیتو ں کا جا ئز ہ۔

خدا پر شفا عت کر نے وا لو ں کا کو ئی اثر نہیں ہو تا۔

شفا عت کر نے وا لے خدا سے زیا دہ مہر بان نہیں ہیں۔

شفا عت خدا کی عدالت کے منا فی نہیں ہے ۔

شفا عت خد ا کی سنت کی تبدیلی کا سبب نہیں ۔

شفا عت کا وعدہ لو گو ں کی گستا خی اور جسا رت کا با عث نہیں۔

شفا عت کے استحقا ق کے شرا ئط کا حا صل کر نا سعا دت تک پہنچنے کی کو شش۔

شفا عت کے متعلق بہت سے اعتراضا ت اور شبہا ت ذکر کئے گئے ہیں کہ جن میں سے بعض اہم شبہا ت کا ذکر ہم اس در س میں کر نا چا ہتے ہیں

شبہ (١)

سب سے پہلا شبہ یہ ہے کہ قر آن مجید کی متعدد آیتیں اس با ت پر دلا لت کر تی ہیں، کہ قیا مت کے رو ز کسی کی شفا عت کو قبو ل نہ کیا جا ئے گا، جیسا کہ سو رہ بقر ہ کی آیت نمبر ٤٨ میں ار شا د ہو رہا ہے (( وَاتَقُوا یَوماً لَا تَجزِی نَفسٍ عَن نَفسٍ شیئاً وَ لَا یُقبَلُ مِنهَا شَفا عَة وَ لَا یُؤخَذُ مِنهَا عَدل وَلَا هُم یُنصَرُو نَ ) اس دن سے ڈرو کہ جب کو ئی کسی کے کام نہیںآئیگا اور نہ ہی کسی کی سفا رش قبو ل کی جا ئے گی اور نہ ہی کسی سے عو ض اور بدلہ لیا جا ئے گا، اور نہ اس کی کو ئی مدد کی جا ئے گا ۔

جو اب :

اس کا جو اب یہ ہے کہ ایسی آ یا ت بے اصو ل اور استقلا لی ( خو د مختا ر ) شفا عتو ں کی نفی میں ہے کہ بعض لو گ جس کا اعتقاد رکھتے ہیں، اس کے علا وہ مذکو ر ہ آیا ت عام ہیں اور یہ ان آیا ت کے ذ ریعہ جو شفا عت کے قبو ل کئے جا نے پر دلا لت کر تی ہیں تخصیص پا گئی ہے جیسا کہ گذشتہ درس میں ان کی طر ف اشا رہ کیا ہے ۔

شبہ (٢)

شفا عت کے صحیح ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ خدا وند عالم شفا عت کر نے و الو ں کے زیر اثر آگیا ہے یعنی ان لو گو ں کی شفا عت خدا کے بخش دیئے جانے کا سبب بن گئی جبکہ وہ خدا فعل ہے

جو اب :

شفا عت کے قبو ل ہو نے کا معنی زیر اثر آنا نہیں ( متا ثر ) ہے جیسا کہ دعا اور تو بہ کا قبو ل ہو نا ایسا غلط معنی نہیں رکھتا کیو نکہ ان سا رے مقا ما ت پر بند وں کے کام رحمت الہٰی کے قبو ل کر نے کی آما دگی کا سبب اور ذ ریعہ ہیں اور اس اصطلا ح ( مقولے )کے لحا ظ سے کہ قبو ل کر نے وا لے کی قا بلیت شر ط ہے نہ کہ انجام دینے وا لے کی فا علیت ۔

شبہ(٣)

شفا عت کا لا زمہ یہ ہے کہ شفا عت کر نے وا لے خدا سے بھی زیا دہ مہر با ن ہو گئے ہیں ، کیو نکہ ہما را فر ض یہ ہے کہ اگر ان کی شفا عت نہ ہو ئی تو گنہگا ر عذا ب میں مبتلا ہو جا تا یا اس کا عذ ا ب دا ئمی ہوجا تا ۔

جو اب :

شفا عت کر نے وا لو ں کی ہمدر دی یا مہر با نی خدا کی بے پایا رحمت کی ایک جھلک ہے یا یوں کہا جائے کہ شفا عت ایک ایسا راستہ ہے ،جسے خو د پر ور د گا ر عالم نے اپنے گنہگا ر بند وں کے لئے قر ار دیا ہے اور حقیقت میں اس کی رحمت کے مجسم اور ظاہر ہو نے کا سب سے اعلیٰ نمو نہ ہے جو اس کے نیک اور منتخب بند وں کے ذریعہ ظا ہر ہو تا ہے، اور اسی طر ح تو بہ اور دعا بھی دوسرے وسیلے ہیں ،کہ جنھیں خدا نے مرا دوں کے پو ری ہو نے اور گنا ہو ںکے بخشے جا نے کے لئے قر ا رد یا ہے ۔

شبہ (٤)

ایک اور اعترا ض یہ ہے کہ اگر گنہگا ر و ں کے عذاب کے متعلق خدا کا حکم اس کی عدا لت کا تقاضا ہو تا تو ان لو گو ں کے لئے شفا عت کا قبو ل کر لینا اس کی عدا لت کے خلا ف ہو گا ۔

جو اب :

جتنے بھی احکا م الہٰی ہیں چا ہے شفا عت سے پہلے عذا ب کا حکم یا شفا عت کے بعد عذا ب سے نجا ت کا حکم، اس کی عدل و حکمت کے مطا بق ہے اور دو نوں حکمو ں کے عا دلا نہ اور حکیما نہ ہو نے میں دو ضدوں کے جمع ہونے والی نسبت بھی نہیں ہے اس لئے کہ اس کا مو ضو ع الگ ہے اس کی وضا حت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ عذ اب کا حکم ارتکا ب گنا ہ کا تقا ضا ہے ان اسبا ب سے قطع نظر کہ جو گنہگا ر کے حق شفا عت کے قبو ل کا مو جب ہے اور عذا ب سے نجا ت کا مذکو رہ حکم اسبا ب کے ظہو ر کا سبب ہے اور حکم کا بد لنامو ضو ع کی قید کے بد لنے کے تا بع ہے ،بہت فر ا وانی کے سا تھ جس کی مثا ل احکا م اور تکوینی مقدرا ت اور تشریعی احکا م و قوا نین کے اندر مل جا ئیں گی اور اسی طر ح اپنے اپنے زما نے کے اعتبا ر سے حکم منسو خ اور حکم نا سخ کے عا دلانہ ہو نے میں کو ئی منا فا ت نہیں ہے ، نیز دعا اور صدقہ دینے سے مصیبتوں کے بر طر ف ہو نے کے حکیما نہ ہو نے میں کو ئی منا فا ت نہیں ہے اور شفا عت کے بعد گنا ہوں کے بخشے جا نے کا حکم، شفا عت کے تحقق سے پہلے عذاب کے حکم کے منا فی نہیں ہے ۔

شبہ(٥):

ایک اور اشکا ل یہ ہوتا ہے کہ خد ا وند عالم نے شیطان کی پیر وی کو دو زخ کے عذا ب میں مبتلا ہو نے کا سبب جا نا ہے: جیسا کہ سو رہ حجر کی آیت نمبر ٤٢،٤٣ میں ارشا د فر ما تا ہے( اِنَّ عِبَا دِ لَیسَ لَکَ عَلَیهِم سُلطَان اِلَّا مَنِاتَّبَعَکَ مِنَ الغَاوِین٭َ وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوعِدُهُم اَجمَعِینَ ) )بیشک تو ( اے ابلیس! ) میرے بند وں پر مسلط نہیں ہو سکتا ،مگر وہ گمرا ہ لو گ جو تیری پیر وی کر یں اور ان کی ہمیشہ کی جگہ جہنم ہے ۔

اور حقیقت میں گنہگا رو ں کو قیا مت میں عذا ب میں گر فتا ر کر نا، خدا کی سنت ہے اور ہم یہ بھی جا نتے ہیں سنت خدا، تغیر و تبدیلی نہیں ہو سکتی ،جیسا کہ سو رہ فا طر کی آیت نمبر ٤٣ میں فر ما تا ہے (( فَلَن تَجدَ لِسَنَّةِ اللّٰهِ تَبدِیلًا وَ لَن تَجدَ لِسُنَّةُ اللّٰهِ تَحوِ یلاً ) )

تم ہر گز سنت الہٰی میں تبدیلی نہیں پا ئو گے اور ہر گز سنت پر ور دگا ر میں تغیر نہیں پا سکتے لہٰذا کیسے ممکن ہے کہ یہ سنت شفا عت کے ذریعہ ٹو ٹ جا ئے ؟

جوا ب:

اس کا جوا ب یہ ہے کہ وا جد الشرا ئط گنہگا ر وں کے با رے میں شفا عت کا قبو ل کر نا، خد ا کی نا قابل تبدیل سنتوں میں سے ایک ہے ،اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدا وند عالم کی سنت، حقیقی معیا ر اور ملاک کے تابع ہے اور کو ئی بھی سنت جس کے سا رے تقا ضے، اور وجو دی و عدمی شرا ئط پا ئے جا ئیں گے وہ تبدیلی کو قبو ل نہیں کر سکتی، لیکن وہ عبا ر تیں جوا س سنت پر دلا لت کر تی ہیں وہ پوری طرح سے مو ضو ع اور اس کے تمام شرائط و قیود کو بیا ن نہیں کر رہی ہیں، اس رو سے ایسے مو را د پا ئے جا تے ہیں کہ جہاں ظا ہر ی طور سے آیات چند مختلف سنتوں کو شا مل ہے جب کہ حقیقت میں آیت کا مصدا ق

اخص اور اقوی ملاک کا تابع ہے لہٰذا ہر سنت اپنے مو ضو ع کی واقعی قیو د و شرا ئط کو دیکھتے ہو ئے ( نہ صر ف وہ قید یں اور شر طیں جو عبا رت میں ائیں ہیں ) ثا بت اور غیر قا بل تغیر ہے انھیں میں سے ایک سنت کا نام شفا عت ہے جو خا ص گنہگار وں کے لئے جن کے اند ر معین شرا ئط پا ئے جا تے ہو ں اور معین اصو ل و قو انین ان کے شا مل حا ل ہے ثا بت اور ناقا بل تبدیل ہے ۔

شبہ(٦)

شفا عت کا وعدہ، لو گو ں کو گنا ہ کے مرتکب ہو نے اور بے راہ روی میں گستاخ اور جری بنا دیتا ہے ۔

جو اب :

اس اعتراض کا جو اب تو بہ قبول ہو نے اور گنا ہوں کے ختم ہو جا نے کے سلسلے میں بھی پیش کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ شفا عت اور مغفرت کا شا مل حا ل ہو نا، کچھ شرا ئط کے اوپر مو قو ف ہے کہ گنہگا رانسان ان شر ائط کے حصو ل کا یقین نہیں حا صل کر سکتا اور شفا عت پا نے کے من جملہ شرا ئط یہ ہیں کہ انسان اپنے ایمان کو تا دم مر گ بچا لے جا ئے اورہم یہ جا نتے ہیں کہ کو ئی بھی انسان ایسی شرط کے پو رے ہو نے کا یقین نہیں کر سکتا دوسری طر ف سے اگر کو ئی انسان کسی گنا ہ کا مر تکب ہو گیا اور اسے اپنے اس گنا ہ کی بخشش کی کو ئی امید ہو تو وہ ما یوسی اور نا امیدی میں گر فتا ر ہو جا ئیگا اور ما یو سی اس کے اند ر گنا ہ کو تر ک کر نے کے حو صلہ کو ضعیف کر د ے گی نیز اسے آئند ہ اسی غلط را ستے پر چلنے کی تر غیب دلا دے گی اسی لئے الہٰی مر بی کی روشن تر بیت یہ ہے کہ ہمیشہ لو گو ں کو خو ف اور امید کے در میان ورکے رکھے یعنی رحمت الہٰی اتنا امید وار نہ بنا د ے کہ خد ا کے یہا ں سے اطمینا ن حا صل کر لیں ،اور عذا ب الہٰی سے بھی اتنا نہ ڈر ا د ے کہ رحمت خدا سے ما یوس ہوجا ئیں اور ہم یہ جا نتے ہیں یہ دو نوں چیزیں گنا ہا ن کبیرہ ہیں ۔

شبہ(٧) :

ایک اور اعتراض یہ ہے کہ عذاب سے نجا ت پا نے میں شفا عت کی تا ثیر کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کا کام (شفا عت کر نے والے) سعادت تک پہچا نے اور بد بختی سے نجا ت پا نے میں اثر رکھتا ہے در آں حا لیکہ اس آیہ شر یفہ کے لحا ظ سے (وَاَن لَیسَ لِلاِ نسَانِ اِلَّا مَا سَعیٰ)صرف شخص کی اپنی کو شش ہے جو اسے سعا دت تک پہنچاتی ہے۔

جو اب:

انسان کی سعی اور کو شش منز ل مقصو د تک پہچنے کے لئے کبھی تو بطور مستقیم ہو ئی ہے، اور یہ کو شش راستہ کے آخری حصہ تک جاری رہتی ہے اور کبھی غیر مستقیم ہے جو مقد ما ت اور واسطوں کو فرہم کر نے کے ذریعہ ہو تی ہے، شفا عت پا نے والا شخص بھی سعا دت تک پہچنے کے مقد ما ت اور واسطوں کو حاصل کر نے کی کو شش کر تا ہے ،اس لئے کہ ایمان لا نا اور شفا عت کے استحقاق کے شرا ئط کا حا صل کر نا، سعا دت تک پہچنے کی را ہ میں سعی و کو شش شما ر کی جا تی ہے، چا ہے یہ کو شش نا قص ہی کیوں نہ ہو، اسی لئے کچھ مدت تک بر زخ کی مصیبتوں اور پر یشا نیوں اور عر صہ قیامت کی ابتدا ئی سختیوں میں گر فتا ر ہو نا پڑتا ہے لیکن بہر حا ل خود اس نے سعا دت کی جڑ یعنی ایمان کو اپنے دل کے اند ر مضبو ط کرتے ہوئے اس کو نیک اعما ل کے ذ ریعہ اس طر ح آبیاری کر تا رہتا ہے کہ زندگی کے آخری لمحا ت تک خشک نہ ہو نے پا ئے لہٰذا اس کی آخری سعا دت خو د اسی کی سعی و کوشش کا نتیجہ ہے اگر چہ شفا عت کر نے وا لے بھی اس درخت کے بار آور ہو نے میں اثر رکھتے ہیں ،جس طرح دنیا میں بھی بعض دوسرے افر اد انسا نوں کی ہد ایت اور ان کی تر بیت میں مو ثر ہیں، اور ان کی تا ثیر خو د شخص کی سعی و کوشش کی نفی کے معنی میں نہیں ہے ۔

سو الا ت :

١۔ شفا عت کی نفی کے اوپر دلا لت کر نے والی آیتو ں کے ہوتے ہوئے، شفاعت کے متحقق ہونے کا کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے ؟

٢۔ آیا شفا عت کا لا زمہ امور خدا وند عالم میں دوسروں کا اثر اندازہونا نہیں ہے ؟

٣۔ کیا شفا عت کا لا زمہ یہ نہیں ہے کہ دایہ ، ماں سے زیادہ مہربان ہو ؟

٤۔ شفا عت کا عدالت خدا سے کیا را بطہ ہے وضا حت کیجئے ؟

٥۔کیا شفا عت خد ا کی سنت کی تبدیلی کا با عث نہیں ہے ؟

٦ کیا شفا عت کا وعدہ گنہگا ر وں کی گستا خی اور جسور ہونے کا سبب نہیں ہے ؟

٧۔ وضا حت کیجئے کہ شفا عت ، انسان سعا دت کے لئے خود انسان کی سعی و کو شش کے

منا فی نہیں ہے ؟

٭٭٭٭٭