درس عقائد

درس عقائد 6%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 49744 / ڈاؤنلوڈ: 4487
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

آٹھواں درس

خدا کی صفات

مقدمہ

یہ بحث مند رجہ ذیل مو ضو عات پہ مشتمل ہے

خدا کا ازلی و ابدی ہونا

صفات سلبیہ

موجودات کو وجود بخشنے والی علت

موجودات کو وجود بخشنے والی علت کی خصوصیات

مقدمہ

گذشتہ دروس میں ہم نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ فلسفی دلائل کا نتیجہ ایک ایسے موجود کا ثابت کرنا ہے جو بعنوان (واجب الوجود) ہے اور دوسرے دلائل کے ذریعہ اس کے سلبی اور ثبوتی صفات کو ثابت کیا جاتا ہے تاکہ خدا وندعالم اپنے مخصوص صفات کے ذریعہ مخلوقات کے دائرے سے الگ ہو کر پہچانا جائے ، اس لئے کہ معرفت کے لئے صرف واجب الوجود کی حثیت سے جاننا کافی نہیں ہے، کیوں ؟ اس لئے کہ ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ خیال کرے کہ مادہ یا انرجی (قوت و طاقت) بھی واجب الوجود کا مصداق بن سکتے ہیں، لہٰذا اس کی سلبی صفات ثابت ہونا چاہیے تا کہ اس طرح یہ معلوم ہو جائے کہ واجب الوجو د کی ذات ، اُن صفات سے منزہ ہے جو مخلوقات میں پائی جاتی ہیں اور اس کی صفات مخلوقات پر صادق نہ آ سکتی اسی طرح اس کی صفات ثبوتیہ کا بھی ثابت ہونا ضروری ہے تا کہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ لائق پرستش و عبادت ہے، اور دوسرے عقائد، نبوت، معاد ا ور فروع کے اثبات کا راستہ آسان ہوجائے۔

گذشتہ برہان و دلیل سے یہ ثابت ہوگیا کہ واجب الوجود کو علت کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ وہ ممکنات کے لئے خود علت ہے، یا دوسری تعبیر کے مطابق واجب الوجود کے لئے دو صفت ثابت ہیں ایک یہ کہ وہ ہر شی سے بے نیاز ہے، اس لئے کہ اگر اس میں معمولی سے احتیاج بھی پائی گئی تو وہ جس شی کا محتاج ہوگا وہ شیء اس کی علت بن جائے گی، کیونکہ بخوبی ہمیں معلوم ہے کہ (فلسفی اصطلاح )

میں علت کے معنی یہی ہیں کہ تمام موجودات اس کے محتاج ہوں اور دوسرے یہ کہ ممکن الوجودشی اس کی طرف نسبت دیتے ہوئے معلول ہیں، اور اس کی ذات تمام اشیاء کی پیدائش کی سب سے پہلی علت ہے۔

ان دو نتیجوں کے بعد ان کے لوازمات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، صفات سلبیہ اور صفات ثبوتیہ کو پیش کریں گے، البتہ انھیں ثابت کرنے کے لئے فلسفی اور کلامی کتابوں میں متعدد دلیلیں ذکر کی گئیں ہیں، اسی لئے ہم یہاں صرف یہاں بات کو آسانی سے سمجھنے کے لئے اور سلسلہ کلام کو ربط دیتے ہوئے انھیں دلائل کو ذکر کریںگے جو گذشتہ براہین سے مربوط ہوں۔

خدا کا ازلی و ابدی ہونا۔

اگر کوئی موجود کسی دوسرے موجود کا معلول اور اس کا محتاج ہو تو پھر اس کا وجود اسی کا تابع کہلائے گا اور علت کے جاتے ہی اس کا وجود مٹ جائے گا، یا دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ کسی بھی موجود کا معدوم ہوجانا ،اس کے ممکن الوجود ہونے کی علامت ہے، اور چونکہ واجب الوجود کا وجود خود بخود ہوتا ہے اور وہ اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہیں ہوتا ہے لہٰذا وہ ہمیشہ ہمیشہ باقی بھی رہے گا۔

اس طرح واجب الوجود کے لئے دو صفتیں اور ثابت ہوتی ہیں، ایک اس کا ازلی ہونا، یعنی گذشتہ ادوار میں بھی تھا ،اور دوسرا ابدی ہونا یعنی وہ مستقبل میں بھی باقی رہے گا، اور کبھی کبھی ان دونوں اصطلاحوں کو ایک کلمہ (سرمدی) کے تحت بیان کیا جاتا ہے۔

لہذا ہر وہ موجود جس میں سابقۂ عدم یا امکان زوال ہو وہ کبھی بھی واجب الوجود نہیں ہو سکتا لہذااس طرح سے تمام مادی قضایا کے واجب الوجود ہونے کا مفروضہ باطل ہو جاتا اور اس کا باطل ہونا بہت زیادہ واضح و روشن ہے۔

صفات سلبیہ۔

واجب الوجود کے لوازمات میں سے ایک صفت بساطت اور اس کا مرکب نہ ہونا ہے، اس لئے کہ ہر مرکب شی کا اس کے اجزا کی جانب محتاج ہونا واضح ہے، جبکہ واجب الوجود ہر قسم کی احتیاج سے مبرا ہے۔

اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ واجب الوجود کے اجزا بالفعل نہیں ہیں ،بلکہ ایک لکیر کے ضمن میں دو لکیروں کا فرض کرنا ہے، تو یہ فرض بھی باطل ہے، اس لئے کہ وہ چیز جو بالقوہ اجزا کی مالک ہو وہ عقلاً تجزیہ کے قابل ہوگی، اگر چہ وہ خارج میں متحقق نہ ہو اور تجزیہ کے ممکن ہونے کا مطلب تمام امکان کا زائل ہونا ہے، چنانچہ اگر ایک میٹر لمبی لکیر کو دوحصوں میں تقسیم کردیا جائے تو اس کے بعد وہ ایک میٹر لمبی لکیر نہیں رہ سکتی، اور یہ مطلب ہمیں پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ واجب الوجود کے لئے زوال نہیں ہے۔

اور چونکہ بالفعل اجزا سے مرکب ہونا اجسام کا خاصہ ہے، لہٰذا اس سے یہ مطلب بھی واضح جاتا ہے کہ کوئی بھی جسمانی موجود واجب الوجود نہیں ہو سکتا یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق اس کے ذریعہ خدا کا مجرد ہونا اور جسمانی نہ ہونا ثابت ہوجاتا ہے، نیز یہ مطلب بھیروشن ہوجاتا ہے کہ ذات خداوند متعال کو آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا اور ظاہر ی وسائل سے محسوس نہیں کیا جاسکتا، ا س لئے کہ محسوس ہونا اجسام و جسمانیات کے خواص میں سے ہے جسمانیت کی نفی کے ذریعہ اجسام کے اپنے تمام خواص جیسے مکان و زمان سے متعلق ہونا بھی واجب الوجود سے سلب ہوجاتا ہے، اِس لئے کہ مکان اُس کے لئے متصور ہے جس میں حجم و امتداد ہو، اسی طرح ہر وہ شی جس میں زمانہ پایا جاتا ہو وہ لحظہ اور امتداد زمانہ کے لحاظ سے قابل تجزیہ ہے اور یہ بھی ایک قسم کا امتد اد اور اجزا بالقوہ کی ترکیب ہے، لہٰذا خدا کے لئے مکان و زمان کا تصور باطل ہے اور کوئی بھی مکان و زمان سے متصف موجود واجب الوجود نہیں ہوسکتا۔

سر انجام، واجب الوجود سے زمان کی نفی کے ذریعہ حرکت و تغیر اور تکامل( کمال کی طرف جانے ) کا تصور بھی باطل ہوجاتا ہے، اس لئے کہ زمان کے بغیر کوئی بھی حرکت اور تغیر غیر ممکن ہے۔

لہٰذا وہ لوگ جو خدا کے لئے مکان ،جیسے عرش کے قائل ہوئے ہیں، یا اس سے حرکت اور آسمان سے نزول کی نسبت دی ہے یااُ سے آنکھوں سے قابل دید سمجھا ہے ،یا اسے قابل تغیر اور حرکت جانا ہے، در اصل ان لوگوں نے خدا کو بخوبی درک نہیں کیا ہے۔(۱)

کلی طور پر ہر وہ مفہوم جو کسی بھی انداز میں نقص، محدودیت یا احتیاج پر دلالت کرے خدا کے لئے منتفی ہے، اور صفات سلبیہ کا مطلب بھی یہی ہے۔

موجودات کو وجود بخشنے والی علت۔

گذشتہ دلیل کے ذریعہ جو مطلب واضح ہو چکا ہے وہ یہ ہے کہ واجب الوجود ممکنات کی پیدائش کا سبب ہے، اب اس کے بعد اس مطلب کے دوسرے پہلو کے سلسلہ میں بحث کریں گے، پہلے مرحلہ میں علت کی اقسام کی ایک مختصر وضاحت کرنے کے بعد علیّت الٰہی کی خصوصیات بیان کریں گے۔

علت اپنے عام معنی میں ہر اس موجود کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی دوسرے موجود سے وابستہ اور اس کے مد مقابل ہو، یہاں تک کہ یہ شروط اور مقدمات(۲) کو بھی شامل ہے اور خدا کے علت نہ رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ کسی بھی موجود سے وابستہ نہیں ہے، یہاں تک کہ اس کے لئے کسی قسم کی شرط یا معدی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

لیکن مخلوقات کے مقابلہ میں خدا کے علت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خلقت کووجود بخشنے والا ہے، جو علیت فاعلی کی ایک خاص قسم ہے، اس مطلب کی وضاحت کے لئے ہم مجبور ہیں کہ علت کی اقسام کو اجمالاً بیان کریں ،اور اس کی تفصیلی وضاحت کو فلسفی کتابوں کے حوالہ کرتے ہیں۔

ہمیں یہ بخوبی معلوم ہے کہ ایک سبرے کے اُگنے اور بڑھنے کے لئے مناسب بیج، زمین، خاک، آب و ہوا وغیرہ کی ضرورت ہے،اوریہ بھی طبیعی ہے کہ اسے کوئی زمین میں بوئے، اور اس کی آبیاری کرے، مذکورہ علّت کی تعریف کے مطابق جو کچھ ذکر کیا گیا وہ سبزے کے رشدو نمو کی علتیں ہیں۔

ان مختلف علتوں کو مختلف نظریات اور عقائد کے تحت چند اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جیسے علتوں کا وہ مجموعہ کہ جس کا وجود معلول کے لئے ہمیشہ ہونا ضروری ہے (علت حقیقی) اور علتوں کا وہ مجموعہ کہ جس کی بقا ،معلول کی بقا کے لئے لازم نہیں ہے (جیسے سبزہ کے لئے کسان) ( علت اعدادی) یا( معدات) کہا جاتا ہے، اسی طرح جانشین پذیز علتوں کو ( علت جانشینی) اور بقیہ علتوں کو ( کلت انحصاری) کا نام دیا جاتا ہے۔

لیکن ایک علّت اور بھی ہے جو ان تمام علتوں سے متفاوت ہے جسے سبزہ کی رشد کے لئے ذکر کیا گیا ہے، جسے بعض نفسانی قضایا میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، جب انسان اپنے ذہن میں کسی کی صورت کو خلق کرتا ہے یا کسی امر کے انجام دینے کا ارادہ بناتا ہے تو ا س کے ساتھ فوراً ہی ایک نفسانی اثر بنام (صورت ذہنی) اور (ارادہ) متحقق ہوتا ہے کہ جس کا وجود، نفس کے وجود سے وابستہ ہے اسی وجہ سے ا ُسے اس کا معلول مانا جاتا ہے، لیکن معلول کی یہ قسم ایسی ہے کہ جو اپنی علت سے کسی بھی اعتبار سے مستقل و بة نیاز نہیں ہے اور وہ کبھی بھی اس سے جدا ہو کر مستقل نہیں رہ سکتی، اس کے علاوہ نفس کی فاعلیّت، صورت ذہنی یا ارادہ کی طرف نسبت دیتے ہوئے ان شرائط سے مشروط ہے کہ جس کی وجہ سے نقص، محدودیّت اور ممکن الوجود ہونا لازم آتا ہے، لہٰذا جہان کے لئے واجب الوجود کی فاعلیت قضایا ئے ذھنی کے لئے نفس کی فاعلیت سے بالا تر ہے کہ جس کی نظیر تمام فاعلوں میں نہیںملتی اس لئے کہ وہ کسی بھی احتیاج کے بغیر اپنے اس معلول کو وجود میں لاتا ہے کہ جس کی تمام ہستی اس سے وابستہ ہے۔

وجود بخشنے والی علت کی خصوصیات۔

اب تک جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس کے مطابق وجود آ)فرین علت (وجود بخشنے والی علت) کی چند خصوصیات بیان کی جاسکتی ہیں۔

١۔ علت وجود آفرین کو اپنے معلولات کے تمام کمالات سے بنحو احسن و اکمل متصف ہونا ضروری ہے تاکہ وہ ہر موجود میں اس کی ظرفیت کے مطابق اضافہ کر سکے برخلاف علت ٫٫مادی،، وعلت٫٫معدی،، کة وہ فقط اپنے معلولات میں تغیر و تحول ایجاد کرتی ہے، اس کے لئے لازم نہیں ہے وہ ان تمام کمالات کے مالک ہوں جیسے کہ خاک کے لئے یہ لازم نہیں ہے کہ اس میں سبزہ کی تمام خصوصیات ہوں،یا ماں باپ اپنی اولاد کی خصوصیات سے متصف ہوں، لیکن وجود آفرین خدا کا اپنی بساطت کے باوجود تمام کمالات وجودی سے متصف ہونا ضروری ہے۔(۳)

٢ ۔ علّت وجود آفرین اپنے معلول کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور اس کی خلقت کے ساتھ اس میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، لیکن فاعل طبیعی کاحال بالکل اس سے متفاوت ہے کہ جن کا کام صرف معلول کے میں تغیر ایجاد کرنا اور قوت و طاقت صرف کرنا ہے اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ مخلوقات کی خلقت سے واجب الوجود سے کوئی چیز کم ہوجاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ذات الٰہی میں تجزیہ پذیری ممکن ہے جبکہ اس کا باطل ہونا ثابت ہو چکا ہے۔

٣۔علت وجود آفرین ایک حقیقی علت ہے جسکا معلول کی بقا کے لئے باقی رہنا ضروری ہے لیکن علت اعدادی میں معلول کی بقا، علت کی بقا سے وابستہ نہیں ہے۔

لہٰذا جو کچھ بھی بعض اہل سنت کے متکلمین سے نقل ہوا ہے کہ عالم اپنی بقا میں خدا کا محتاج نہیں ہے، یا بعض اقوال جو غربی فلاسفہ سے نقل ہوئے ہیں کہ جہان طبیعت کی مثال ایک گھڑی کی طرح ہے ہمیشہ کے لئے اس میں چابی بھر دی گئی ہے جسے اپنی حیات کو جاری رکھنے کے لئے خدا کی ضرورت نہیں ہے یہ سب کچھ حقیقت کے بر خلاف ہے بلکہ جہان ہستی ہمیشہ ہر دور اور تمام حالات میں خدا کی محتاج ہے، اور اگر وہ( حق تعالی )ایک لحظہ کے لئے بھی افاضہ ہستی سے نظر پھیر لے، تو اس کا وجود مٹ جائیگا۔

سوالات

١۔ صفات خدا کی پہچان کیوں ضروری ہے؟

٢۔گذشتہ برہان سے کیا نتیجہ حاصل ہوتا ہے؟

٣۔ خدا کے ازلی و ابدی ہونے کو ثابت کریں؟

٤۔ کس طرح ذات خدا کے بسیط ہونے اور اجزا بالفعل و بالقوہ سے مبرا ہونے کو ثابت کیا جاسکتا ہے؟

٥۔ خدا کے جسمانی نہ ہونے کی دلیل کیا ہے؟

٦۔ کیوں خدا کو دیکھا نہیں جاسکتا؟

٧۔ کس دلیل کی بنیاد پر خدا مکان و زمان نہیں رکھتا؟

٨۔ کیا حرکت و سکون کو خدا سے نسبت دی جا سکتی ہے؟ کیوں؟

٩۔ علت کی قسمیں بیان کریں؟

١٠۔ علّت وجود آفرین کی خصوصیات کی شرح بیان کریں؟

____________________

(١)مکان رکھنا، آسمان سے نازل ہونا اور آنکھوں سے دیکھائی دینے کا عقیدہ بعض اہل سنت کا ہے، تغیر و تکامل کا نظریہ فلاسفہ غرب کی ایک جماعت کا ہے جن میں سے ھگل، برگسوں اور ویلیام جیمز ہیں، لیکن یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تغیر اور حرکت کی نفی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ساکن ہے بلکہ اس کی ذات کے ثبات کے معنی میں ہے اور ثبات، تغیر کی نقیض ہے، لیکن سکون حرکت کے مقابلہ میں عدم ملکہ ہے، اور اس چیز کے علاوہ کہ جس میں حرکت کی قابلیت ہو کسی دوسری شی کے لئے نہیں بولا جاتا

(٢)علل اعدادی کو کہا جاتا ہے۔

(۳)یہ معلوم ہونا چا ہیے کہ مخلوقات کے کمالات کے حاصل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے مفاہیم (جیسے مفہوم جسم و انسان) بھی خدا پر قابل صدق ہوں، اس لئے کہ ایسے مفاہیم محدود اور ناقص موجودات پر دلالت کرتے ہیں، اسی وجہ سے خدا پر قابل صدق نہیں ہیں کہ جو بے نہایت کمالات کا مالک ہے۔

نواں درس

صفات ذاتیہ

مقدمہ

صفات ذاتیہ اور فعلیہ

صفات ذاتیہ کا اثبات

حیات

علم

قدرت

مقدمہ

ہمیں یہ معلوم ہے کہ خدا وند عالم علت وجود آفرین کائنات ہے، جس میں تمام کمالات جمع ہیں اور موجودات میں پائی جانے والی تمام صفتیں اور کمالات اسی کی ذات سے وابستہ ہیں، لیکن بندوں میں کمالات کے افاضہ سے اس کے اندر کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، تقریب ذہن کے لئے اس مثال کا سہارا لیا جاسکتا ہے، کہ استاد اپنے شاگرد کو جو کچھ اپنے علم سے فائدہ پہنچا تا ہے اس کی وجہ سے استاد کے علم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، البتہ خدا کی جانب سے وجود اور وجودی کمالات کا افاضہ اس مثال سے کہیں زیادہ بالاتر ہے، شاید اس ضمن میں سب سے واضح تعبیر یہ ہو کہ عالم ہستی ذات مقدس الٰہی کا جلوہ ہے، جسے اس آیت کریمہ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے،

( اللّٰهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ ) .(۱)

خدا تو سارے آسمان اور زمین کا نور ہے

الٰہی کمالات کے لامتناہی ہونے کے پیشِ نظر ہر وہ مفہوم جو نقص و محدودیت سے پاک ہو اور کمال ہونے پر دلالت کرتا ہو اسے خدائے وحدہ 'لا شریک کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ قرآنی آیات اور ائمہ معصومین کی طرف سے صادر ہونے والی احادیث، ادعیہ، اور مناجاتوں میں نور، کمال، جمال، محبت اور بہجت جیسے مفاہیم استعمال ہوئے ہیں، لیکن جو کچھ فلسفہ و کلام کتابوں میں صفات الٰہی کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے، ان کی دو قسمیں ہیں، (صفات ذاتیہ اور فعلیہ) لہٰذا پہلے مرحلہ اول میں اس تقسیم کی وضاحت کے بعد ،ان میں سے اہم ترین صفات کے سلسلہ میں بحث کریں گے۔

صفات ذاتیہ اور فعلیہ۔

وہ صفات جسے خدا کی ذات سے نسبت دی جاتی ہے وہ یا تو وہ مفاہیم ہیں جو ذات احدیت میں موجود ہ کمالات سے حاصل ہوتے ہیں جیسے حیات، علم اور قدرت، یا پھر وہ مفاہیم ہیں جو عبد اور معبود کے درمیان رابطہ سے حاصل ہوتے ہیں جیسے خالقیت، رازقیت، لہٰذا پہلی قسم کو صفات ذاتیہ اور دوسری قسم کو صفات فعلیہ کہا جاتا ہے۔

صفات کی ان دو قسموں میں فرق یہ ہے کہ پہلی قسم میں، خدا ان صفات کے لئے عینی مصداق ہے لیکن دوسری قسم میں خالق و مخلوق کے درمیان موجودہ نسبت کی حکایت ہے، ذات الٰہی اور مخلوقات دو طرفہ حثیت سے پہچانے جاتے ہیں ، جیسے کہ صفت خالقیت مخلوقات کی ذات ،وجود خدا سے وابستگی کی بنا پر اخذ ہوتی ہے اور اس نسبت کی تشکیل اس کی دوطرفہ ، خدا ،و مخلوق سے ہوتی ہے خارج میں ذات مقدس الٰہی اور مخلوقات کے علاوہ کسی تیسری شیء کا کوئی وجود نہیں ہے، البتہ خداوند متعال خلقت کی قدرت سے متصف ہے لیکن (قدرت) اس کی ذاتی صفات میں سے ہے اور٫٫خلق کرنا،، ایک ایسا مفہوم ہے جو اضافی ہونے کے ساتھ مقام فعل سے ظہور میں آتا ہے، اسی وجہ سے (خالقیت) کا شمار صفات فعلیہ میں کیا جاتا ہے، مگر یہ کہ (خلق پر قادر) ہونے کے معنی لئے جائیں تو اس صورت میں اس کی بازگشت بھی صفت قدرت کی طرف ہوگی۔

حیات،و علم اور قدرت خدا کی مہم ترین صفات ذاتیہ میں سے ہیں، لیکن اگر سمیع و بصیر بہ معنی ،سنی اور دیکھی جانے والی چیزوں کا علم رکھنے والا ہو، یا سمع و ابصار کے معنی میں ہوں تو ان صفات کی باز گشت علیم و قدیر ہے اور اگر ان صفات کا مطلب بالفعل دیکھنا اور سننا ہوجو سنی اور دیکھی جانے والی اشیا اور سننے اور دیکھنے والوں کے درمیان موجودہ رابطہ سے حاصل ہوتے ہیں تو انھیں صفات فعلیہ میں سے شمار کیا جائے گا، جیسا کہ کبھی (علم ) بھی اسی عنایت کے لئے استعمال ہوتا ہے اوراسے (علم فعلی) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

بعض متکلمین نے کلام اور ارادہ کو بھی صفات ذاتیہ میں سے شمار کیا ہے کہ جن کے سلسلہ میں آئندہ بحث کی جائے گی۔

صفات ذاتیہ کا اثبات۔

قدرت و حیات اور علم الٰہی کو ثابت کرنے کے لئے سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ جب ان مفاہیم کو مخلوقات کے سلسلہ میں استعمال کیا جاتا ہے تو یہ اوصاف اس کے کمالات پر دلالت کرتے ہیں، لہذا ان صفات کی علت یعنی ذات الٰہی میں ، بطور کامل ہونا ضروری ہے، اس لئے کہ مخلوقات میں پائی جانے والی تمام صفات و کمالات خدا کی طرف سے ہیں لہذا عطا کرنے والے کے پاس ایسے اوصاف ہونا ضروری ہیں تا کہ وہ دوسروں کو عطا کر سکے، اس لئے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ حیات عطا کرنے والا خود حیات سے سرفراز نہ ہو،یا مخلوقات کو علم و قدرت عطا کرنے والاخود جاہل و ناتواں ہو لہذا مخلوقات میں مشاہدہ ہونے والے کمالات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ خدا بھی ان کمالات کا بغیر کسی کمی و کسر کے حامل ہے،یا دوسری تعبیر کے مطابق خدا لامتناہی علم و قدرت اور حیات کا مالک ہے

اب اس کے بعد ان صفات کی وضاحت کرتے ہیں۔

حیات۔

حیات کا مفہوم دو طرح کی مخلوقات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ایک سبزہ اور گھاس پھوس جن میں رشد و نمو کی صلاحیت ہوتی ہے ، دوسرے حیوان اور انسان کہ جو ارادہ اور شعور سے متصف ہیں لیکن پہلا معنی ، نقص و احتیاج کا مستلزم ہے اس لئے کہ رشد و نمو کا لازمہ یہ ہے کہ موجود اپنے آغاز میں اس کمال سے عاری ہو ،بلکہ خارجی عوامل کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے تغیرات سے آہستہ آہستہ کمالات کا مالک بن جائے، اور ایسا امر خداسے منسوب نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ صفات سلبیہ میں گذرچکا ہے۔

لیکن حیات کا دوسرا معنی ،ایک کمالی مفہوم ہے، ہر چند اس کے امکانی مصادیق نقص کے ہمراہ ہیں لیکن پھر بھی اس کے لئے لامتناہی مقام فرض کیا جاسکتا ہے، کہ جس میں کسی قسم کی کوئی محدودیت اور نقص کا شائبہ نہ ہو، جیسا کہ مفہوم وجود اور مفہوم کمال میں بھی ا یسا ہی ہے ۔

حیات اپنے اس معنی میں کہ جو علم اور فاعلیت ارادی کا ملازم ہے یقیناًوجود غیر مادی ہو گا اگر چہ حیات کو مادی امور یعنی جاندار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اصل میں وہ اروح کی صفت ہے اور بدن کا روح سے رابطہ ہونے کی وجہ سے حیات کو بدن سے متصف کیا جاتا ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ جس طرح امتداد ، شی جسمانیت کا لازمہ ہے ،حیات بھی وجود مجرد(غیر جسمانی) کا لازمہ ہے لہذا اس طرح حیات خدا پر ایک اور دلیل ایک دلیل متحقق ہو گئی اور وہ یہ ہے کہ ذات مقدس الٰہی مجرد اور غیر جسمانی ہے جیسا کہ گذشتہ دروس میں اسے ثابت کیا جاچکا ہے اور ہر موجود مجرد، حیات سے سرفراز ہے، لہذا اس طرح خدا متعال بھی ذاتاً حیات کا مالک ہے۔

علم۔

علم کا مفہوم تمام مفاہیم میں ہر ایک سے زیادہ واضح و روشن ہے، لیکن مخلوقات کے درمیان

اس کے مصادیق محدود اور ناقص ہیں،لہٰذاان خصوصیات کے ساتھ یہ خدا پر قابل اطلاق نہیں ہے لیکن جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ عقل میں اتنی توانائی ہے کہ وہ اس مفہوم ِکمالی کے لئے ایک ایسے مفہوم کا انتخاب کرئے کہ جس میں کسی قسم کی کوئی محدودیتاور نقص نہ ہو بلکہ عالم ہونا اس کی عین ذات ہو،علم خدا کے ذاتی ہونے کے یہی معنی ہیں ۔

خدا کے علم کو متعدد راستوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے، ایک وہی راستہ ہے کہ جس کی طرف تمام صفات ذاتیہ کے اثبات کے لئے اشارہ کیا جاچکا ہے، یعنی چونکہ مخلوقات کے درمیان علم پایا جاتا ہے لہٰذا خالق کی ذات میں اس کی کامل صورت کا ہونا ضروری ہے۔

دوسرا راستہ دلیل نظم کی مدد سے حاصل ہوتا ہے وہ یہ کہ ایک مجموعہ جس قدر نظم و ضبط کا حامل ہوگا اتنا ہی اس کے ناظم کے علم پر دلالت کرے گا، جس طرح سے کہ ایک علمی کتاب یا خوبصورت شعر یا کوئی نقاشی (آرٹ) وجود بخشنے والے کے ذوق اوراس کے علم و دانش پر دلالت کرتے ہیں اور کبھی بھی کوئی عاقل یہ تصور نہیں کر سکتا کہ ایک فلسفی یا کوئی علمی کتاب کسی جاہل یا نادان شخص کے ہاتھوں لکھی گئی ہوگی لہٰذا کیسے یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایسا نظم یافتہ جہان کسی جاہل موجود کا خلق کردہ ہے؟!

تیسرا راستہ نظریجو ہے مقدمات فلسفی (غیر بدیہی)کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے جیسے یہ قاعدہ کہ ہر موجود جو مستقل ہو اور مجرد عن المادہ ہو وہ علم سے متصف ہو گا جیسا کہ یہ امر اس سے مربوط کتابوں میں ثابت کیا جاچکا ہے۔

علم الٰہی کی طرف توجہ دینا خود سازی کے ٫٫باب،،میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور اسی وجہ سے قرآن کریم میں اس کی طرف بار بار اشارہ کیا گیا ہے ۔

( یَعلَمُ خَائِنَةَ الاَعیُنِ وَمَا تُخفِ الصُّدُورُ ) .(۲)

خدا خائن آنکھوں اور دل کے رازوں سے آگاہ ہے۔

قدرت۔

وہ فاعل کہ جو امور کو اپنے ارادہ سے انجام دیتا ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے امور میں صاحب ''قدرت'' ہے، لہذا قدرت یعنی فاعل مختار کا ہر اس امر کو انجام دینے کا ارادہ کہ جس کا اس سے صادر ہونے کا امکان ہے، جو فاعل جس قدر مرتبہ وجودی کی رو سے کامل ہوگا اس کی قدرت بھی اتنی ہی وسیع ہوگی، پس جو فاعل اپنے کمال میں لامتناہی ہو اس کی قدرت بھی بے نہایت ہوگی ۔

( اِنَّ اللَّهَ عَلَٰی کُلِّ شَئٍ قَدِیر ) ۔(۳)

خدا وند عالم ہر چیز پر قادر ہے۔

اس مقام پر چند نکات کی طرف اشارہ کرنا لازم ہے۔

١۔ جو امر قدرت سے متعلق ہو گا اس میں امکان تحقق کا ہونا ضروری ہے، لہذا جو شی اپنی ذات کے اعتبار سے محال ہو وہ قدرت کا متعلق نہیں بن سکتی، اور خدا کا صاحب قدرت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا اپنی مثل بھی خلق کرسکتا ہے (اس لئے کہ خدا خلق نہیں کیا جاسکتا) یا دوکا عدد دو ہوتے ہوئے تین سے بڑا ہو جائے ،یا ایک فرزند کو فرزند ہوتے ہوئے باپ سے پہلے خلق کردے۔

٢۔ ہر کام کے انجام دینے کی قدرت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ان سب کو انجام دے، بلکہ وہ جسے چاہے گا انجام دے گا، اور جسے چاہے گا انجام نہیں دے گا حکیم خدا ،حکیمانہ فعل کے علاوہ کوئی اور فعل انجام نہیں دے سکتا اگر چہ وہ غیر حکیمانہ امور کے انجام دینے پر بھی قادر ہے، انشاء اللہ آئندہ دروس میں حکمت خدا کے سلسلے میں مزید وضاحت کی جائے گی۔

٣۔ قدرت کے جو معنی بیان ہوئے ہیںاس میں اختیار کے معنی بھی ہیں، خدا جس طرح بے نہایت قدرت کا مالک ہے اسی طرح لامحدود اختیارات سے سرفراز ہے، اور کوئی خارجی عامل اسے کسی عمل کے لئے زبردستی یا اس سے قدرت کو چھین لینے کی طاقت نہیں رکھتا اس لئے کہ ہر موجود کی قدرت اور اس کا وجود خود اسی کا مرہون منت ہے،لہٰذا وہ کبھی بھی اس طاقت کے مقابلہ میں مغلوب نہیں ہوسکتا کہ جسے اس نے دوسروں کو عطا کیا ہے۔

سوالات

١۔خدا کے لئے کن مفاہیم کو استعمال کیا جاسکتا ہے؟

٢۔ صفات ذاتیہ و فعلیہ کی تعریف کریں اور ان دونوں کے درمیان کا فرق بیان کریں؟

٣۔ صفات ذاتیہ کو ثابت کرنے کے لئے ایک کلی ضابطہ کیا ہے؟

٤۔حیات کتنے،معانی میں استعمال ہوتا ہے اور کون سے معنی کا استعمال خدا کے لئے درست ہے

٥۔ حیات الٰہی پر خاص دلیل کیا ہے؟

٦۔ علم الٰہی کو ت تینوں راستوں( طریقوں) سے ثابت کریں؟

٧۔ مفہوم قدرت کو بیان کریں اور خدا کی نامحدود قدرت کو ثابت کریں؟

٨۔ کون سی چیزیں قدرت سے متعلق نہیں ہوتیں؟

٩۔ کیوں خدا ناپسند امور کو انجام نہیں دیتا ؟

١٠۔ خدا کے مختار ہونے کا مطلب کیا ہے؟

____________________

(١)سورۂ نور، آیت/٣٥.

(۲)سورۂ غافر ،آیت/ ١٩.

(۳)سورۂ بقرہ۔ آیت /٢٠، اور دوسری آیات.

ساتواں جلسہ

آزادی کے حدود

۱-اسلام کا سیاسی نظریہ اور آزادی کو محدود کرنے کا شبہ

چونکہ ہمارا اسلامی سماج،اسلامی قوانین اور ان متغیر قوانین پر کہ جو اسلامی دائرے میں وضع کئے جاتے ہیں ، ادارہ ہوتا ہے لھٰذا ہماری حکومت بھی اسلامی قوانین پر ہونی چاہیے اور قانون کو جاری کرنے والے حضرات اسلامی دائرے سے خارج نہیں ہونے چاہیے اور ہم لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اسلامی قوانین پر عمل کریں -

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ نظریہ انسان کی آزادی سے ہم آھنگ بھی ہے یا نھیں ؟ انسان اپنی زندگی کے قوانین اور ان کی کیفیت کوطے کرنے میں آزاد ہے، اگر اس سے کھا جائے کہ تمھیں اس دائرے میں چلناہے اور ان قوانین کی رعایت کرنی چاہے توکیا یہ انسان کی اصل آزادی جوانسان کی مسلمہ حقوق میں سے ہے،اس سے منافات تو نہیں رکھتا؟

ہم مندرجہ بالا سوال کو بیان کرنے سے پہلے مقدمہ کے طور پر اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں ، اور اس نکتہ سے ہم کو بعد کی گفتگو میں اس سے استفادہ کرنا ہے، اور یہ نکتہ غور طلب ہے: جس وقت عینی اور انضمامی چیزوں سے ہمارا واسطہ ہوتا ہے،تو ان کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہوتا مثال کے طور پر جب ہم طبیعی علوم میں عینی چیز یں جیسے پانی، بجلی، اٹھنا، بیٹھنا، اسی طرح ڈاکٹری امور میں آنکھ، کان، ھاتھ، پیر، معدھ،دل، جگر کا مشاہدہ کرتے ہیں ، تو ان چیزوں کو سمجھنا آسان ہے کیونکہ ہم تمام لوگ سمجھتے ہیں کہ ان الفاظ کے کیا معنی ہیں ؟ ھاں بہت کم ایسے مسائل مبہم ہوتے ہیں جن کا سمجھنا مشکل ہوتا ہے جیسے اگر پانی میں مٹی ملی ہو تو کیا پھر بھی پانی ہے یا نھیں ؟

لیکن عینی او رانضمامی چیزوں کو سمجھنے میں غالباً کوئی خاص مشکل نہیں ہوتی، لیکن اگر ہمارے سامنے انتزاعی اور کسبی چیزیں ہوں (مثلاً فلسفی مفاہیم یا انسانی علوم مثلاً علم نفسیات،جامعہ شناسی، حقوق اور علوم سیاسی وغیرہ جیسی چیزیں ) تو ان کا سمجھنا مشکل ہوتا ہے،اور کبھی کبھی کسی لفظ کے مختلف معنی ہوتے ہیں اور ایک لفظ کے متعدد معنی ہونے کی وجہ سے ان کو سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے غالباً ایسے الفاظ کے بارے بحث کے بعد بھی انسان کسی یقینی نتیجہ پر نہیں پہونچتا-

مثال کے طورپر ہم سبھی لفظ، فرہنگ(کلچر) سے آشنا ہیں اور یہ لفظ مدارس کی مختلف کلاسوں میں استعمال ہوتا ہے، اسی طرح اشعار، ادبیات اور روز مرہ کی گفتگو میں استعمال ہوتاہے، اس کے بعد بھی اگر کسی سے سوال کیا جائے کہ فرہنگ کے کیا معنی ہیں ؟ تو شاید ھزاروں میں ایک بھی ایسا شخص بھی نہ ملے جو فرہنگ کے معنی کرتے وقت کھے کہ اس لفظ کے ۵ ۰ سے ۵ ۰۰ تک معنی ہیں ! اور یہ مسلم ہے کہ جب اس مشہور اصطلاح میں اتنا ابھام پایا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس ابھام کی وجہ سے بہت سے اجتماعی مسائل بھی تحت تاثیر قرار پائیں گے، اور جب توسعہ فرہنگی (کلچر کی وسعت) کی بات کی جائے گی تو سوال کیا جائے گا توسعہ فرہنگی یعنی چیست؟ اور اس کے مصادیق کیا ہیں ؟ اور کس صورت میں اور کس طرح فرہنگ میں توسعہ ہوتا ہے اور اگر پارلیمنٹ میں توسعہ فرہنگی کیلئے بجٹ پاس کیا جاتا ہے اور اس کو خرچ کرنے کیلئے جگھیں معین کی جاتی ہےں ، ہر وز اتخا نہ میں اس لفظ کے معنی بیان کئے جاتے ہیں اور اس کے خاص موارد مشخص کئے جاتے ہین اور بعض لوگوں کو اس سے غلط فائدہ اٹھانے کا موقعہ مل جاتا ہے-

۲-آزادی کے بارے میں مختلف نظریات

ہم نے جو کچھ انتزاعی اور کسبی الفاظ کے بارے میں عرض کیا کہ جن کے خاص مصادیق بھی نہیں ہیں اور ان کی تعریف و حدو حدود بھی مشکل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی ایک انتزاعی مفہوم ہے جس کے بارے میں ہمیں بحث کرنا ہے، مثلاً اگر کوئی کھے ”آزادی“ تو سننے والے کو اچھا لگتا ہے، اور آزادی کیلئے تمام ہی مذاہب ، ملت خاص احترام کے قائل ہیں ، کیونکہ انسان فطری طور پر آزادی چاہتا ہے، اور بعینہ آزادی کی تلاش میں رہتا ہے-

اگر کسی انسان سے سوال کیا جائے کہ آپ آذاد رہنا پسند کرتے ہیں یا غلام؟ لا محالہ سبھی حضرات جواب دیں گے: آزاد رہنا، اور کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہے گا کہ کسی کا غلام بن کر رہنا پسند نہیں کرےگا، لیکن چونکہ آزادی کے کوئی واضح معنی بیان نہیں ہوتے ہیں ، جس کی بنا پر آزادی کا نعرہ لگانے والے افراد جو دینی اختلافات کا شکار ہوجاتے ہیں کوئی کچھ معنی کرتا ہے تو دوسرا کچھ معنی مراد لیتا ہے، ایک شخص جب آزادی کا مطلب بیان کرتا ہے تو دوسرا کھتا ہے ہماری نظر میں آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے جو آپ نے بیان کیا بلکہ اس کے معنی یہ ہیں جو ہم کرتے ہیں ، اسی طرح دوسرا شخص بھی یھی کھتا ہوا نظر آتا ہے کہ اس بارے میں جو کچھ اب ہماری طرف نسبت دیتے ہیں ، وہ ہماری مراد نہیں ہے-

بلکہ ہماری مراد اس کے علاوہ ہے اگر ہم آزادی کے بارے لکھی ہونی کتابوں ، مضامین اور رسالوں کا مطالعہ کریں خصوصاًوہ کتابیں جو آخری سالوں میں لکھی گئی ہیں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ مولفین اور صاحب نظر حضرات کے دھیان آزادی کا کوئی مشخص و معین معنی نہیں ہے، ایک شخص آزادی کا کچھ معنی کرتا ہے اور اسی کا دفاع بھی کرتا ہے، تو دوسرا شخص اس نظریہ کی تنقید کرتا ہوا ایک دوسرا معنی کرتا ہے، اور ظاہر میں بات ہے کہ اس قدر اختلاف کے باوجود آپس میں کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا-

لھٰذا تفاہم اور سمجھوتے کیلئے آزادی کی ایک مشترک تعریف کی جانا ضروری ہے، تاکہ بحث کسی نتیجہ پر پہونچ سکے، اگر ہم سے کوئی سوال کرے کہ آزادی اور اسلام میں سازگاری ہے یا نہیں تو ہم اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ پہلے ہمیں آزادی کو سمجھنا پڑے گا، کہ آزادی کے معنی کیا ہیں ، (اور جیسا کہ مغربی مولفین نے آزادی کے بارے میں حدوداً ۲ ۰۰ تعریف بیان کی ہیں اگرچہ ان میں سے بہت سی تعریفیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں ،صرف ایک یا دو الفاظ کی وجہ سے اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن ان مقامات پر یہ تعریفیں ایک دوسرے کے منافی(اپوزٹ) ہیں تو اس طرح کے اختلافی موارد میں کس طرح یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ آزادی اسلام سے سازگار ہے یا نھیں ؟

آزادی کی طرح ”ڈیمو کراسی“ (جمہوریت) بھی ہے یہ ایک مغربی اصطلاح ہے جس کے معنی مردم سالاری، حکومت یا لوگوں کی حکومت کئے جاتے ہیں ، لیکن پھر بھی اس کے کوئی خاص اور معین معنی موجود نہیں ہیں ، اس میں یہ معین نہیں ہے کہ ڈیمو کراسی ایک حکومت ہے یا اجتماعی زندگی کا ایک طریقہ ہے؟ کیا اس کا تعلق حکومتی اور سیاسی مسائل سے ہے ؟ معاشرہ شناسی یا مدیریت سے اس کا ربط ہے؟ یہ جامعہ شناسی سے مربوط ہے یا اس کا ربط مدیریت سے ہے، اس سلسلے میں بھی بہت بحثیں ہوچکی ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کردیا جائے کہ ایسے الفاظ کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنا بھی مشکل میں اضافہ کرتا ہے-

اس طرح لفظ ”لیبرالیسم“ بھی ہے کہ جس کا ترجمہ پہلے ”آزادی خواہی“ ہوتاتھا اور آزادی خواہی لفظ آزادی کی وجہ سے بہت جذّاب اور خاص اہمیت کا حامل تھا اور اس بنیاد پر آخری دھائیوں میں شاہ کی پہلوی حکومت ”آزادی خواہ پارٹی“ کا نام اپنائے ہوئے تھی-

لھٰذاچونکہ اس طرح کے انتزاعی مفاہیم اچھی طرح واضح نہیں ہوتے ان سے بحث کرنا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ واضح نہ ہونے کی بنا پر مطلب مشکل ہوجاتا ہے،اور قطعی طور پر ان کے معنی کی حد بیان کرنا مشکل ہوتا ہے اس طرح کے الفاظ کی کوئی خاص حد نہیں ہوتی، کبھی ان الفاظ کی حد کم ہوجاتی ہے اور کبھی بڑہ جاتی ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ ان مشکلات کی وجہ سے بحث بھی پیچیدہ ہوجاتی ہے-

لفظِ آزادی کے بارے میں ان مشکلات، ابھامات اور مختلف نظریات (جیسا کہ ۲ ۰۰ سے زائد تعریفیں بیان کی گئی ہیں ) کے پیش ِ نظر اگر ہم اسلامی لحاظ سے آزادی کو سمجھیں اور الگ الگ تعریفوں کو اسلام کے ساتھ مقایسہ کریں تو واقعاً یہ ایک مشکل و پیچیدہ کام ہے، عمومی اور مختلف لوگوں کیلئے اس بحث کو بیان کرنا تو دور کی بات ہے، لھٰذا ضروری ہے کہ بحث کو تطبیقی لحاظ سے آگے بڑھایا جائے اور دیکھیں کہ آزادی کے طرفدار حضرات آزادی سے کون سے معنی مراد لیتے ہیں ؟ اور آزادی سے کیا چاہتے ہیں ،اس وقت دیکھا جائے گا کہ جو وہ لوگ چاہتے ہیں وہ اسلامی نقطہ نظر سے ٹھیک ہے یا نھیں ؟ وہ لوگ جو آزادی چاہتے ہیں اور آزادی کی طرفداری بھی کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس ملک میں آزادی نہیں ہے ،آزادی کا کیا مطلب مراد لیتے ہیں ؟ کیا میڈیا آزاد نہیں ہے؟ کیا لوگ انفرادی آزادی نہیں رکھتے؟ یا سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی آزادی نہیں رکھتے؟ آزادی کا نعرہ لگانے والے لوگوں کو کس صورت میں آزاد سمجھتے ہیں ؟

اگر مصادیق کے بارے میں تھوڑی بحث کی جائے تو ایک واضح نتیجہ پر پہونچنا ممکن ہے ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مد مقابل کیا کھتا ہے اور کیا چاہتا ہے، اس صورت میں گفتگو کی روش مبہم نہ رہے اور دوسرے افراد بھی اس سے غلط استفادہ نہ کرسکیں گے-

۳- آزادی، مطلق نہیں ہے،اور آزادی کے دین پر مقدم ہونے کا جواب

معمولاً خود عرض اور دھوکہ باز افراد آزادی جیسی انتزاعی اور مشکل چیزوں سے اپنے اہداف و مقاصد تک پہونچنے کیلئے آزادی جیسے الفاظ سے سوء استفادہ کرتے ہیں ، اور اس طرح بیان کرتے ہیں کہ سننے والے کچھ سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت میں ان کے کھنے کا مقصد فی کچھ اور ہی ہوتا ہے، مغالطہ آمیزاور دھوکہ دینے والے الفاظ کے ذریعہ لوگوں کو فریب دیتے ہیں ، مثال کے طور پر تقریروں ، مقالوں اور اخباروں میں یہ سوال بیان کیا جاتا ہے کہ دین آزادی پر مقدم ہے یا آزادی دین پر مقدم ہے؟ کیا اصل، آزادی ہے اور دین آزادی کے تابع ہے یا اصل دین ہے اور آزادی اس کے تابع ہے؟

معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں یہ سوال ایک علمی اور دقیق سوال ہے اور یہ سمجھنا واقعاً جذّاب ہے کہ آ زادی اصل ہے یا دین اصل ہے؟ اس کا درک کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے، لیکن جب ہم بحث کرتے ہیں اور کھتے ہیں کہ دین اصل ہے تو جواب دیتے ہیں کہ اگر کوئی آزاد نہ ہو تو کوئی پھر کس طرح دین کا انتخاب کر سکتا ہے؟ لھٰذا انسان کو دین قبول کرنے میں آزاد ہونا چاہئے،، پس نتیجہ یہ ہوا کہ آزادی دین پر مقدم ہے اور جب یہ طے ہوجائے کہ آزادی دین پر مقدم ہے تو پھر یہ نتیجہ بھی آسانی سے نکل آئے گا کہ دین آزادی کو محدود نہیں کر سکتا، کیونکہ آزادی دین سے بالاتر ہے اوردین پر مقدم ہونے کا حق رکھتی ہے-

قارئین کرام جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ یہ مغالطہ آمیز استدلال ظاہراًتو ٹھیک دکھائی دیتا ہے، کیونکہ اگر کوئی انسان آزاد نہ ہوتو کس طرح دین کو انتخاب کر سکتا ہے، اس لئے انسان کو آزاد ہونا چاہیے، تاکہ اسلام کو دل سے قبول کرسکے، لھٰذا معلوم ہوتا ہے کہ آزادی دین پر مقدم ہے، اور یھی اصل ہے یھی دین کو معتبر بناتی ہے، اور بنیادی طور پر دین کی علت وجودی ہے لھٰذا اپنی پیدا کی ہوئی چیز کے ذریعہ خود ختم یا محدود نہیں ہو سکتی،آخر میں ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہر انسان کا دینی ماحول بالکل آزادی کے ساتھ ہو گا-

بعض دوسرے افراد یہ استدلال کرتے ہیں کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو کسی کا غلام نھیں ھوتا بلکہ آزادھوتاہے، لھٰذا زندگی اس کو میں آزاد ہونا چاہئے-

اس طرح یہ بھی استدلال کرتے ہیں کہ اختیار اور آزاد ارادہ رکھنا ایک بہت اہم چیز ہے، اس بنیاد پر اگر انسان اس دنیا میں آئے اور اس کے ھاتہ پیر مفلوج ہوجائیں اور زبان سے گونگا ہوجائے تو اس کی کیا قیمت ہے؟ انسان کی قدرو قیمت اس وقت ہے جب وہ آزاد ہو جہاں چاہے جائے جو کرنا چاہے اس کو انجام دے سکے، جو چاہے اپنی زبان سے کھے اور چونکہ انسان تکوینی طورپر آزاد خلق ہوا ہے تو پھر قانونی طور پربھی انسان کو آزاد ہونا چاہئیے!

یہ وہی طبیعت گرانہ مغالطہ ہے کہ جس میں ”است“ (ھے) سے ”باید“(ھونا چاہئیے) کا غلط نتیجہ نکالا گیا ہے، اگر ہم چاہیں کہ ان تمام مسائل کو دقیق اور جدی طریقہ سے بحث کریں توہم کو فلسفی اور دقیق بحث کرنے کی ضرورت پیش آئے گی، اور بہت جلدی کسی نتیجہ پر نہیں پہونچ سکتے-

جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ اگر ہم آزادی کے بارے میں بحث کریں تو پھر دسیوں تعریفوں سے تحقیق و بررسی کرنی ہوگی، اس وجہ سے مصادیق کے سلسلے میں ہی بحث کرنا مناسب ہے، اورآزادی کا نعرہ لگانے والے افراد سے کھیں کھ: اگر کوئی شخص تمھارے منہ پر ایک زور دار تھپڑ لگا کر کھے میں آزاد ہوں ؟! تو کیایہ صحیح ہے؟ ظاہر سی بات ہے کہ جواب منفی ہوگا اور اس کو کوئی قبول نہیں کرے گا، اور جواب یہ ملے گا کہ آزادی سے ہمارا مقصد یہ نہیں ہے، کیونکہ یہ تو دوسروں پر ظلم ہے لھٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی اس وقت تک مناسب ہے کہ جب تک دوسرے پر ظلم وزیادتی نہ ہو، یعنی آزادی مطلق نہیں ہے-

اور اگر اس سے یہ کھا جائے کہ کوئی شخص تمھارے خاندان اور عورتوں کے بارے میں جو کچھ چاہے کھے ، وہ تم کو مار تو نہیں رہا ہے بلکہ آپ کی بے حرمتی کررہا ہے اور تمھارے یا تمھارے اہل خانہ کے بارے میں نازیبا الفاظ کھہ رہا ہے، تو کیا یہ صحیح ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی اس بات کی اجازت نہیں دےگا،کیونکہ یہ بھی دوسروں کے حقوق کی پائمالی ہے، اور ناموس کی عزت بھی معاشرے میں محترم ہے، پس معلوم ہوا کہ عزت وناموس پر تجاوز وزیادتی ظاہری چیزوں پر منحصر نہیں ہے-

اور اگر کوئی شخص کسی اخبار میں اس کے خلاف کچھ لکھے اور مقالہ کے ذریعہ اس کی شخصیت اور آبرو کو داغدار کرے، تو اس صورت میں کیا یہ فیزیکی اور ظاہری طور پر اس کی بے حرمتی نہیں ہوئی ہے، یعنی زبان کے ذریعہ اس کی بے عزتی نہیں ہوئی ہے،کیا کوئی اس چیز کی اجازت دے سکتا ہے؟ ہر گز کوئی شخص اس بات کو قبول نہیں کر سکتا، اور اس کام کو بھی دوسروں کے حقوق کی پائمالی اور اپنے لئے بے عزتی جانتا ہے، اور اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص اس کی آبرو ریزی کرے، اور اس کے حقوق کو پائمال کرے، نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کیلئے اب تک تین قیود و شرط موجود ہیں اور اگر ان شرطوں کی رعایت نہ کی جائے تو دوسروں کے حقوق کی پامالی ہے-

۴- ہر معاشرے کی مقدسات کی رعایت ضروری ہے-

ایک دوسرا نکتہ کہ جس کے بارے میں بحث کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہر معاشرہ کی مقدسات (قابل احترام چیزیں ) الگ الگ ہیں ، اور نسبی ہوتی ہیں مثال کے طور پر بعض معاشروں میں کسی کی بھن یا بیٹی سے آزادانہ رابطہ کرنا معیوب نہیں ہوتا، جیسا کہ یورپی اور امریکائی ممالک ہیں کہ کوئی بھی شخص کسی بھی لڑکی یاعورت سے دوستی کرنا چاہے، تو چاہے اس دوستی کے نتائج کچھ بھی نکلیں کوئی مشکل نہیں ہے-

کیونکہ دونوں کی مرضی سے یہ کام ہو رہا ہے لیکن اگر کوئی شکایت کرے اور کورٹ میں جا کر اس کے خلاف مقدمہ دائر کرے کہ طاقت کے بل بوتے پر مجہ پر ظلم ہوا ہے اور میں راضی نہیں ہوں ، تو عدالت اس کی اس شکایت کو سنتی ہے لیکن صرف مرد وعورت کی دوستی کیونکہ اپنی مرضی سے ہوتی ہے ،لھٰذاکوئی عیب نہیں ہے! لھٰذا اگر کوئی شخص کسی سے کھے میری اور تمھاری بھن کی دوستی ہے اور کل رات فلاں جگہ تھے یورپی فرہنگ و کلچر میں برا نہیں سمجہا جاتا، اور کوئی اس بات پر خوش بھی ہو سکتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں یھی بات بری سمجھی جاتی ہے اور اس کو برا سمجہا جاتا ہے کسی کو ایسی باتیں کھنے کا کوئی حق نہیں ہوتا،ان باتوں سے ایک دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ ہر معاشرے میں کچھ خاص چیزیں ہوتی ہیں کہ جن کو وہ محترم اور مقدس سمجھتا ہے، درحالیکہ یھی چیزیں دوسرے معاشرے میں نہیں پائی جاتیں ، اب یہ دیکھنا ہے کہ ان مقدسات کا معیار کیا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر معاشرے کی مقدسات اس کی ثقافتی اور اجتماعی زندگی کی وجہ سے ہوتی ہیں ، اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ مقدسات معاشرے کی بنیاد، اس ماحول اور ملک کے ثقافتی معیار کی وجہ سے ہوتی ہیں لھٰذا اگر کسی معاشرے میں وہاں کی ثقافت کے وجہ سے کچھ چیزیں مقدس اور قابل احترام ہوں ، تو ان سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور ان کی بے احترامی نہیں ہونا چاہیے، اور کسی بھی معاشرے میں کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ جو چاہے کھے،جبکہ اس کو اس طرح کی باتیں کرنا چاہیے جن سے ان مقدسات کی بے احترامی نہ ہوتی ہو-

نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کیلئے بہت سی قید و شرط ہیں کہ جن کی ہر معاشرہ کے لحاظ سے رعایت کرنا چاہیے اور آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان جو چاہے کھے، اور جس طرح چاہے کرے، ھاں اگر جس ماحول میں وہ زبان کھول رہا ہے ا سمیں اگر اس کو بے احترامی نہیں سمجہا جاتا تو اس کا کہنا صحیح ہے لیکن جس معاشرے میں وہ کھہ رہا ہے اگر وہاں اس کا یہ کہنا اس معاشرے اور مذہب کے مقدسات کی توہین ہے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں ہے وہ مقدسات کے ہدف کچھ کئے، اور جو چاہے انجام دے اور کوئی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا، اگرچہ ہم نے جو کچھ بیان کیا،مغربی ممالک میں محترم اور با اہمیت نہیں سمجہا جاتا اور ہر انسان اپنی گفتار و کردار میں آزاد ہے،لیکن ہمارے معاشرے میں چونکہ اسلامی حکومت ہے مغربی ممالک سے فرق ہے اور اس طرح کی آزادی نہیں ہے کہ جو چاہے لوگوں کی طرف نسبت دے اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے فرہنگ و ماحول میں یہ چیزیں با ارزش ہیں اور ہر قوم و ملت کے مقدسات کا احترام کرنا ضروری ہے اور آزادی کے بھانہ ان کی خلاف ورزی کرنا صحیح نہیں ہے-

پس معلوم یہ ہوا کہ آزادی کا دائرہ اتنا وسیع نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ تصور کرتے ہیں اور اس قدر آزادی کو کوئی بھی عقلمند انسان قبول نہیں کر سکتا، لھٰذا آزادی کے اس طرح معنی بیان کرنے چاہئےے جس سے دوسروں کی توہین اور ان کے حقوق کی پائمالی نہ ہوتی ہو-

لھٰذا جن باتوں سے لوگوں کے مقدسات کی توہین ہوتی ہو ان کا بیان کرنا ممنوع اور ناجائز ہے، اسلامی معاشرہ میں آزادی کا بھانہ بناکرخاص طور سے جان سے زیادہ عزیز اسلامی مقدسات کی توہین کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے-

ہماری قوم و ملت نے ثابت کر دیا ہے کہ اپنے عزیزوں کی لاکھوں جانیں قربان ہوجائیں ، لیکن اسلام باقی رہے، اب اگر مغربی کلچر میں کسی بھی طریقہ سے کسی کی توہین ہو (مثلاً یہ کھا جائے کہ آپ کی ناک بہت لمبی ہے، آپ کا قیافہ برا ہے) اس کو عدالت میں جانے اور مقدمہ دائر کرنے کا حق ہے، اسی طرح اگرہمارے معاشرے میں کوئی شخص کسی چیز کے بارے میں توہین کرے، وہ بھی اس بارے میں کہ جو ماں ، باپ، بیوی اور اولاد حتی خود اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو، ظاہر ہے کہ لوگوں کو یہ اعتراض کرنے کا حق ہے کہ آزادی کا بھانہ بنا کر ہمارے مقدسات کی توہین کیوں کررہے ہو-

۵-آزادی کے نعرہ میں ناجائز غرض

جو لوگ آزادی کا دم بھرتے ہیں اور آزادی نہ ہونے کا غم مناتے ہیں اور ایران میں آزادی نہ ہونے کا مرثیہ پڑھتے ہیں ! کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ ان میں سے بعض لوگوں نے مغربی ممالک کا سفر کیا ہے یا ان کے بارے میں سنا ہے یا وہاں کی فلموں کو دیکھا ہے،جو لوگ اس طرح کی زندگی چاہتے ہیں ،لیکن ایران میں ان کو اس طرح کی زندگی بسر کرنے کی اجازت نہیں ہے ،اسلامی حکومت کھاں سے قوانین بناتی ہے؟ کیا اسلامی حکومت کے قوانین خدا،رسول اور آئمہ کی مرضی کے مطابق قوانین نھیں ھوتے ہیں ؟ وہ لوگ الٰھی احکام کو قبول نہیں کرتے، ولی فقیہ پر اعتراضوں کی بوچھار کرتے ہیں اور ولی فقیہ کے متعلق کینہ رکھتے ہیں جبکہ ولی فقیہ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کھتا:

( فَإِنَّهُمْ لاٰ یُکَذِّبُونَکَ وَلٰکِنَّ الظَّالِمِیْنَ بِاٰیَاتِ اللّٰه یَجْحَدُوْنَ ) -(۱)

”یہ لوگ تم کو نہیں جھٹلاتے بلکہ (یھ) ظالم (حقیقتاً) خدا کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں “

کیا مرجع تقلید اور فقیہ اپنی طرف سے کچھ کھتا ہے؟ وہ جو کچھ بھی کھتا ہے قرآن ، احادیث سے اخذ کرتا ہے لیکن دشمن اس چیز کو قبول نہیں کرتا، امریکہ کی معتبر یونیورسٹیوں کی کھلی فضا میں بہت سے ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ لڑکے، لڑکیاں ایک دوسرے کے سامنے ایسے ایسے کام کرتے ہیں کہ جن کے بیان کرنے سے شرم آتی ہے،وہاں کے عیاش خانوں میں کیا کیا ہوتاہے؟ تصور کریں اگر وہاں کے عیاش خانوں کی ویڈیو بنائی جائے اور اس کو اس ملت کے جوانوں کو دکھائی جائے تو اس کا کیا اثر ہوگا؟ اور ظاہر ہے کہ اگر کوئی جوان ایسی فلمیں دیکھئے گا،اور جب صبح اٹھ کر یونیورسٹی جائے گا تو پھر سکون سے نہیں رہ سکے گا، کیونکہ رات میں سویاہی نہیں ہے، اور دوسری طرف اس کی شھوت تحریک ہو جاتی ہے، اور اس کا چین و سکون غائب ہو جاتا ہے، اب اگر ایسا جوان نعرہ لگائے کہ یھاں آزادی نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو میں کرنا چاہتا ہوں ،اس کو کرنے نہیں دیا جاتا اسلام کے مقابلہ میں اسی طرح کی آزادی کو لایا جاتاہے-

اور کھا جاتا ہے کہ آزادی مقدم ہے یا اسلام؟ اس آزادی کا مطلب ہی جنسی شھوات کو پورا کرنا ہے، لھٰذا شروع ہی سے یہ کھا جائے کہ آزادی سے ہم یہ چاہتے ہیں ، ہر وہ چیز جو کچھ کفر و الحاد کے ماحول میں ہوتی ہے وہی معاشرے میں بھی جائز ہو جائے تو وہ مطمئن رہیں کہ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، کیونکہ لوگوں نے اپنے عزیزوں کی جانیں قربان کی ہیں تاکہ اسلام کارواج ہو، نہ کہ مغربی فساد اور بے ہودگی رائج ہو-

ممکن ہے کہ کوئی یہ کھے کہ ہم واقعاً مسلمان ہیں اور اس حکومت کو ووٹ دیا ہے اور ولایت فقیہ کے معتقد ہیں اور جیسی آزادی مغربی ممالک میں رائج ہے ایسی آزادی نہیں چاہتے، بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہم لکھنا چاہیں اس کو بغیر کسی روک ٹوک کے بے جھجک لکہ سکیں ہم تو آزادی بیان و قلم اور عملی آزادی کے خواہاں ہیں ،ہم کو اپنی بات کھنے کی آزادی ملنا چاہیئے-

یہ بات ظاہراً ٹھیک ہے کیونکہ حقوق بشر کے نشریات میں سے ایک حق جو تمام لوگوں کو ہے یھی آزادی بیان اور میڈیا کی آزادی ہے اور اسی طرح کی آزادی کو ڈیمو کراسی کی ایک اصل مانا گیاہے، لیکن ہم ان سے یہ کھیں گے کہ آپ اپنی رائے کا اظھار کریں کہ ہمارے ملک کے حکمران کیسے ہیں لیکن کیا واقعاً آپ کہنا چاہتے ہیں کہ فلاں شہر کا فلاں قاضی صحیح کام کرتا ہے یا نہیں یا فلاں شہر کاڈی ایم( D-M )ٹھیک کام کرتا ہے یا نھیں یا فلاں ملازم کا کردار صحیح ہے یا نھیں ؟ یا درحقیقت آپ اصل اسلام اور اسلامی مقدسات کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتے ہیں اور ان تمام چیزوں کی نفی کرنا چاہتے ہیں ؟ یا اسلامی مقدسات کی توہین کرنا چاہتے ہیں ؟

۶- آزاد گفتگو کی حد وحدود

اگر آزادی سے آپ کی مراد یہ ہے کہ جس کام کا ہوناجائز نہیں ہے اس کے بارے میں لکھنا اور کہنا جائز ہونا چاہئیے، جیسا کہ ہم نے مثال میں عرض کیا تو جب کسی شخص کو آپ کے سلسلے میں کوئی توہین آمیز کلمات کھنے کا کوئی حق نہیں ہے،یعنی وہ اتنی آزادی نہیں رکھتا لیکن جب اسلامی مقدسات کی بات آتی ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ آزادی بیان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم جو چاہیں لکھیں ہم جو چاہیں کھیں !

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی آپ کے بارے میں توہین آمیز کلمات زبان پر جاری کرے، اور اگر کوئی ایسا کرے تو آپ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور مقدمہ دائر کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں ،آپ اجازت نہیں دیتے کہ آپ کے ذاتی مسائل کو اخبار میں دیا جائے تو پھر آپ کو اس ملت کے راز فاش کرنے کا حق کھاں سے حاصل ہوگیا؟ کس طرح آپ کی نظر میں کسی ایک شخص کے راز کو فاش کرنا جائز نہیں ہے، لیکن ایک ملت کے راز کو فاش کرنا جائز ہوگیا! یعنی آپ کی نظر میں جب ایک شخص لاکھوں میں تبدیل ہو جاتا ہے ،توکیا اس کے راز کو فاش کرنا جائز ہے؟! کیا ایک معاشرے کی نسبت اپنے مقالوں میں حدود کی رعایت کرنا ضروری نہیں ہے؟ کیا کچھ بھی لکھا اور کیا جا سکتا ہے، معاشرے کے بھی کچھ حقوق ہیں ،اس کے مقدسات ہیں اور ان کا احترام باقی رہنا چاہیے اور مقدسات کو مجروح نہیں کیا جا سکتا-

جس طرح آپ اپنی توہین کر برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ،اسی طرح آپ اپنی ناموس یا آپ کے گھریلو اسرار کے بارے میں تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتے، تو پھر آپ کس طرح اجازت دیتے ہیں کہ اس عظیم معاشرے جس نے ھزاروں عزیزوں کو ان مقدسات کی حفاظت کیلئے قربان کردیا ہے اس کی توہین کی اجازت دیتے ہیں ؟!

کیا آپ کی نظر میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے، ؟اور آزادی کا بھانہ بنا کر قانون کی طرف سے کوئی حد و حدود نہیں ہونا چاہیے؟ کیا آزادی مطلق ہے؟ اور اگر آزادی مطلق ہو توکسی کے بارے میں کچھ بھی کھنے کا حق حاصل ہونا چاہئےے اور اگر اس ۶ /کروڑ والی ملت کی مقدسات مجروح ہوں اور کوئی تم پر اعتراض کرے تو آپ جواب میں کھیں : اظھار نظر کرنا آزاد ہے! اس سے بڑا مغالطہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے احترام کو مجروح کرنا جائز نہیں ہے لیکن ۶ /کروڑ والی ملت کے مقدسات کو مجروح کرنا جائز ہے، لیکن ایک عرب مسلمانوں کے مقدسات کو مجروح کرنا جائز ہے! یہ کونسی منطق اور فلسفہ ہے؟ اور صرف اس وجہ سے کہ حقوق بشر کے نشریات میں موجود ہے کہ بیان آزاد ہے مقدسات کی توہین کرنا بھی آزاد ہوجائے گا؟! آزادی کا ایک مبہم کلمہ استعمال کرتے ہیں اور ہر شخص اپنے لحاظ سے اس کی تفسیر کر کے سوء استفادہ کرتا ہے-

۷-الفاظ کے مفہوم اور مصادیق کو روشن کرنے کی ضرورت

ہم یھاں پر یہ مشورہ نھیں دیتے ہیں کہ مبہم اور غیر واضح الفاظ کو استعمال کرنے کے بجائے ان کے مصادیق پر تکیہ کریں اور کھیں کہ یہ کام جائز ہے یا نھیں ؟ مثلاً یہ کھنے کے بجائے کہ اسلام ڈیموکراسی کے موافق ہے یا نھیں ؟ کھیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں اور کون سا عمل انجام دینا چاہتے ہیں ؟ کیا آپ خدا اور اس کے احکام کو نادیدہ کرنا چاہتے ہیں اس کی اسلام اجازت نہیں دیتا، اگر ڈیموکراسی کے یہ معنی کیے جائیں کہ انسان جس طرح کے قوانین بنانا چاہے بنا سکتا ہے اگرچہ خدا کے قوانین کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں ، توچاہے پوری دنیا زور لگائے ہر گز ہم ایسی ڈیموکراسی کو قبول نہیں کر سکتے -

لیکن اگر ڈیموکراسی کے یہ معنی کئے جائیں کہ لوگ اپنی سرنوشت اور زندگی میں موثر ہیں ،کوئی شخص اپنے زور کے ذریعہ ان پر تحمیل نہیں کر سکتا، افراد بھی اسلامی قوانین اور بنیادوں کے دائرے میں چلیں ، تو اس چیز پر تو شروع انقلاب سے عمل ہو رہا ہے، اور اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ ایران کے برابر کسی بھی ملک میں لوگوں کی کا احترام نہیں کیا جاتا،تو شاید دعویٰ بے جا نہ ہوگا، اور شاید کھنے کی وجہ بھی یہ ہے کہ ہمارے پاس اس حد تک ثبوت نہیں ہیں ،لیکن پھر بھی ہمارا نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں کھیں بھی اتنی آزادی نہ ہو، لھٰذا لفظ ڈیموکراسی پر بحث و مباحثہ کرناکہ اسلام ڈیموکراسی کا موافق ہے یا مخالف ہے ؟

اس سے بہت ر یہ ہے کہ پہلے اس کے مصادیق کو معین کر لیں ، مثلاً کیا اسلام ہم جنس بازی کے آزاد ہونے کی اجازت دیتاہے ؟ چاہے تمام ہی لوگ ایسا نظریہ رکھتے ہوں ، ظاہر ہے کہ اسلام اس چیز کی اجازت نہیں دیتااگر تمام ہی لوگ اس چیز کے موافق ہی کیوں نہ ہوں اور اس بارے میں ووٹ بھی دیں ، لھٰذا اگر ڈیموکراسی اس حد تک بے لگام ہو تو پھر ہم اس کو نہیں مانتے، لیکن اگر ڈیموکراسی سے مراد یہ ہو کہ افراد انتخابی مہم میں آزاد ہیں پارلیمنٹ کے ممبران کو آزادانہ طور پر منتخب کریں ، صدر کا انتخاب آزادانہ طریقہ پر ہو اور ان کو حق ہے کہ ممبران پارلیمنٹ یا دوسرے ذمہ دار افراد کی استیضاح(۱) کرے تو ایسی آزادی ہونا چاہیے کہ الحمد للہ ہمارے یھاں یہ آزادی ہے، اور ہم بھی سو فیصد اس کی حمایت کرتے ہیں ، لھٰذا اس کے لئے الفاظ کی بحث میں جانے سے بہت ر یہ ہے کہ ان کے مصادیق کے بارے میں بحث کی جائے، کھلے عام کھیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں تاکہ اس کا جواب بھی واضح طور پر دیا جا سکے-

اور اگر الفاظ مبہم اور نا مشخص استعمال کئے جائیں گے تو ان کے جوابات بھی مبہم دئے جائےں گے، درج ذیل الفاظ جیسے آزادی، ڈیموکراسی، لیبرالیسم، جامعہ مدنی، تمدن اور فرہنگ و ثقافت مبہم ہیں کہ جن کی مختلف تفسیریں کی جا سکتی ہیں لھٰذا ان کے بارے میں بحث و مباحثہ کرنا کبھی بھی عقلمندی نہیں ہے، صاف کھیں کیا چاہتے ہیں تاکہ ہم اس کا جواب دیں کہ آیا اسلام سے ہم آھنگ ہے یا نھیں ؟

(۱) یعنی ممبر آف پارلیمنٹ کسی وزیر سے کسی سلسلہ میں توضیح مانگے اور نامطمئن جواب ملنے پر دوبارہ اس کے بارے ووٹنگ ہو اور اگر اس کے بارے میں اعتماد رائے باقی رہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کو ھٹا دیا جاتا ہے-

حوالہ

.۱سورہ انعام آیت ۳۳


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29