درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 45409
ڈاؤنلوڈ: 2818

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45409 / ڈاؤنلوڈ: 2818
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

دسواں درس

صفات فعلیہ

مقدمہ

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے۔

خالقیت

ربوبیت

الوہیت

مقدمہ

جیسا کہ گذشتہ دروس میں بیان کیا جاچکا ہے کہ صفات فعلیہ یعنی وہ مفاہیم جو ذات الٰہی اور اس کی مخلوقات کے درمیان پائے جانے والے رابطہ سے حاصل ہوتے ہیں کہ جن میں طرفین خالق و مخلوق ہیں، جیسے کہ خلق کرنے کا مفہوم مخلوقات کا، خدائے متعال سے وا بستہ ہونے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے،لہذاس اگر اس رابطہ کا لحاظ نہ کیا جائے تو یہ مفہوم حاصل نہیں ہوسکتا۔

خالق و مخلوق کے درمیان لحاظ کیا جانے والا رابطہ غیر محصور ہے، لیکن پھر بھی اس کی دو قسمیں کی جا سکتی ہیں، پہلی قسم وہ روابط ہیں جو مستقیماً خالق و مخلوق کے درمیان ملاحظہ کئے جاتے ہیں جیسے ایجاد، خلق اور ابداع وغیرہ، اور دوسری قسم ان روابط کی ہے جو چنددوسرے روابط کے ذریعہ وجود میں آتے ہیں جیسے کہ رزق، اس لئے کہ پہلے مرحلہ میں روزی سے فائدہ اٹھانے والا جن چیزوں کو بہ عنوان رزق استعمال کرتا ہے اسے ملاحظہ کیا جائے، اور پھر اسے مہیا اور عطا کرنے والے کو مد نظر رکھا جائے، یا پھر ایک ایسے رابطہ کو ملاحظہ کیا جائے جو خالق و مخلوق کے درمیان پائے جانے والے چند روابط پر مترتب ہوتے ہوں جیسے مغفرت کہ جو، ربوبیت تشریعی الٰہی اور خدا کی جانب سے احکامات کے صادر ہونے اور پھر بندہ کے عصیان( گناہ) کرنے پر منحصر ہے۔

نتیجہ: صفات فعلیہ کو حاصل کرنے کے لئے خالق و مخلوق کے درمیان مقایسہ اور خالق و مخلوق کے درمیان موجود ہ رابطہ کا لحاظ کرنا ہوگا تا کہ ان روابط کے ذریعہ ایک مستقل مفہوم وجود میں آئے اِس وجہ سے ذات مقدس الٰہی خود بخود اور اُن روابط کے لحاظ کئے بغیر صفات فعلیہ سے متصف نہیں ہو سکتی لہذا صفات ذاتیہ اور صفات فعلیہ کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے۔

البتہ جسیا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہ امکان ہے کہ اگر صفات فعلیہ کو ان کے مبادی اور منشا کے تحت ملاحظہ کیا جائے تو اس صورت میں ان سب کو صفات ذاتیہ کی طرف لوٹانا ہوگا، جیسا کہ اگر خالق یا خلاق کو اس معنی میں لیا جائے کہ جس میں خلق کی قدرت ہو تو اس کی باز گشت صفت ٫٫قدیر،، کی طرف ہوگی یا اگر صفت ٫٫سمیع ،، اور بصیر کو مبصرات و مسموعات کے جاننے والے کے معنی میں لیا جائے تو اس کی باز گشت ''علیم'' کی طرف ہوگی۔

اسی طرح وہ بعض مفاہیم جنھیں صفات ذاتیہ میں شمار کیا جاتا ہے انھیں ایک اضافی اور فعلی معنی میں ملاحظہ کیا جائے تو اس صورت میں ان کا شمار صفات فعلیہ میں ہوگا جیسے کہ مفہو م علم قرآن میں متعدد مقامات پر بطور صفات فعلی استعمال ہوا ہے(۱)

وہ مہم نکتہ جسے یہاں بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جب خدائے متعال اور مادی موجودات کے درمیان رابطہ تصور کیا جاتاہے اور اس طرح خدا کے لئے صفات فعلی حاصل ہوتے ہیں تو یہ صفات اس رابطہ کے طرف موجودات مادی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے قید زمانی و مکانی سے منسوب ہوتے ہیں اگرچہ اس رابطہ کی پہلی طرف یعنی خدا ایسے قیود اور حدود سے منزہ ہے۔

جیسے کہ رزق خدا سے لطف اندوز ہونے والے کا عمل ایک خاص زمان و مکان میں واقع ہوتا ہے لہٰذا یہ قید روزی سے مستفیض ہونے والے سے متعلق ہوگی نہ روزی عطا کرنے والے سے اس لئے کہ ذات الٰہی ہر قسم کے زمان و مکان سے مستغنی ہے۔

یہ نکتہ ایک ایسا وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعہ ان صفات اور افعال الٰہی کو حل کیا جا سکتا ہے کہ جن کی وجہ سے متکلمین کے درمیان شدید اختلاف ہے۔

خالقیت۔

واجب الوجود کے اثبات کے بعد ممکن الوجود کی خلقت کی پہلی علت کے عنوان سے اور اس مطلب کے پیش نظر کہ تمام ممکن الوجود اپنی ہستی میں اس کے محتاج ہیں واجب الوجود کے لئے صفت خا لقیت اور ممکن الوجود کے لئے مخلوقیت کا مفہوم حاصل ہوتا ہے مفہوم خالق جو اس رابطہ کے ذریعہ وجود میں آتا ہے علت وجود آفرین اور موجد ( ایجاد کرنے والا) سے مساوی ہے اور تمام ممکن الوجود اور ضرورت مند موجودات اس رابطہ کے ایک طرف ہونے کی وجہ سے صفت مخلوقیت سے متصف ہوتے ہیں۔

لیکن کبھی کلمہ ''خلق'' محدود معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور تنہا وہی موجودات اس رابطہ کے طرف قرار پاتے ہیں کہ جو مادہ اولیہ سے خلق ہوئے ہیں اور ان کے مقابل میں مفہوم ''ابداع'' ( ایجاد کرنا) ان موجودات کے لئے استعمال ہوتا ہے کہ جو مادہ اول سے مسبوق نہ ہو ( جیسے مادہ اولیہ اور مجردات) اس طرح ایجاد کو خلق و ابداع میں تقسم کیا جاتا ہے ۔

بہر حال خدا کے خلق کرنے کا مطلب اشیا میں انسانوں کے تصرف اور انھیں بنانے کی طرح نہیں ہے کہ جس میں حرکت اور اعضاء بدن کے استعمال کی ضرورت پڑتی ہے، اور حرکت کوبعنوان ''فعل'' اور اس کے قضایا کو بعنوان ''نتیجہ فعل'' یاد کیا جاتا ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ''خلق کرنا'' یعنی ٫٫ فعل،، ایک شیء اور خلق کیا ہوا یعنی ٫٫مخلوق،، ایک دوسری شیء ہو اس لئے کہ خدا ، موجودات جسمانی کے خواص سے منزہ ہے اگر خدا کے خلق کرنے کو مصداق عینی زائد فرض کر لیا جائے اس کی خلق کی ہوئی ذات پر ، تو پھر اسے ایک ممکن الوجود اور خدا کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق شمار کیا جائیگا ، اور اس کے خلق کرنے گفتگو تکرار ہو گی بلکہ جیسا کہ صفات فعلیہ کی تعریف میں بیان ہوا کہ یہ صفات وہ مفاہیم ہیں کہ جو صفات خداو خلق کے درمیان موجود نسبتوں کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں اور نسبتوں کا قیام عقل کی بنیاد پر ہے

ربوبیت۔

خالق و مخلوقات کے درمیان جن روابط کا لحاظ کیا جاتا ہے وہ یہ کہ مخلوقات اپنی آفرینش میں خدا کے محتاج ہونے کے علاوہ اپنی زندگی کے تمام مراحل میں اس سے وابستہ ہیں اور کسی بھی قسم کے استقلال سے عاری ہیں وہ جس طرح چاہے ان کے امور میں تصرف اور ان کے امور کی تدبیر کر ے۔

جب اس رابطہ کو بصورت کلی تسلیم کرلیا گیا تو اس سے مفہوم ربوبیت اخذ ہو نا لازم ہے کہ جس کا لازمہ امور کی تدبیر کرناہے، اور اس کے بے شمار مصادیق ہیں جیسے حفاظت کرنا، زندہ کرنا، مار ڈالنا ، روزی عطا کرنا، کمال عطا کرنا، راہنمائی کرنا، امرو نہی کرنا وغیرہ۔

ربوبیت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ربوبیت تکوینی یعنی تمام موجودات کی احتیاجات کو بر طرف کرنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا، یعنی کہنا بہتر ہے کہ وہ پورے جہان کا چلانے والا ہے، لیکن ربوبیت تشریعی صرف باشعور اور مختار موجودات سے مخصوص ہے، جیسے انبیاء کو مبعوث کرنا، آسمانی کتابوں کو نازل کرنا، وظائف کی تعین اور احکام و قوانین کے بیان کرنے جیسے امور کو شامل ہے۔

نتیجہ۔ ربوبیت مطلق الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ مخلوقات اپنے تمام مراحل وجود میں خدا سے وابستہ ہیں، اور مخلوقات کی آپسی وا بستگی کا سرا بھی واجب الوجود تک پہنچتا ہے، وہ وہی ہے جو اپنی بعض مخلوقات کے ذریعہ بعض کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ، اور دوسری پیدا کی ہوئی اشیا کو اپنی مخلوقات کے لئے غذا بناتا ہے، اور اپنی باشعور مخلوقات کو باطنی عوامل(عقل اور حواس خمسہ) اور ظاہری عوامل (انبیائ، آسمانی کتب) کے ذریعہ ہدایت کرتا ہے اور مکلفین کے لئے احکام و قوانین وضع کرتا ہے۔

ربوبیت بھی خالقیت کی طرح ایک اضافی اور نسبتی مفہوم ہے، بس فرق اتنا ہے کہ مختلف موارد اور مقامات پر مخلوقات کے درمیان خاص اضافات و روابط ملاحظہ کئے جاتے ہیں، جیسا کہ مفہوم رزاقیت کے سلسلہ میں گذر چکا ہے۔

مفہوم خالقیت اور ربوبیت میں جب خوب غور و فکر کیا جائے تو ان کے درمیان نسبت اور اضافت سے یہ معلوم ہو جاتا ہے، کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے متلازم ہیں، اس اعتبار سے محال ہے کہ جہان کا ٫٫رب،، اس جہان کے خالق کے علاوہ کوئی اور ہو، بلکہ وہی خدا ،جو مخلوقات کومختلف خصوصیات اور ایک دوسرے سے مرتبط و وابستہ خلق کیا ہے وہی ان کی حفاظت کرنے والا ہے، حقیقت میں ، ربوبیت و تدبیر کا معنی و مفہوم مخلوقات کی تخلیقی کیفیت ، اور ان کے آپسی ارتباطات و تعلقات سے اخذ ہوتا ہے ۔

الوہیت۔

مفہوم ''الہ'' اور ''الوہیت'' کے سلسلہ میں صاحبان نظر کے درمیان شدید اختلاف ہے کہ جسے تفاسیر کی کتابوںمیں بیان کیا گیا ہے لیکن جو بات ہمارے نزدیک قابل اہمیت ہے وہ یہ کہ ٫٫الہ،، بہ معنی لائق عبادت ہونا(عبادت و اطاعت کے لحاظ سے شائستہ و سزا وار ہونا ) جیسے کہ '' کتاب'' وہ چیز جو لکھے جانے کے قابل ہو۔

اس معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے الوہیت ایک ایسی صفت ہے کہ جس کے لئے اطاعت و عباد ت کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا اگر چہ گمراہوں نے ،اپنے لئے باطل خدائوںکا انتخاب کرلیا ہے، لیکن جو ٫٫ ذات،، عبادت و اطاعت کیلئے شا ئیستہ و سزا وار ہو وہی ٫٫ذات،، خالق و رب قرار پائے گی، اور یہ ایک اعتقادی حصار ہے کہ جسے ہر شخص کے لئے ماننا ضروری ہے یعنی خدا کو واجب الوجود خالق اور صاحب اختیار ماننے کے علاوہ اسے اطاعت و عبادت کے لائق سمجھے اسی وجہ سے اس مفہوم کو اسلام کا شعار مانا گیا ہے (لا اله الا الله

سوالات

١۔ صفات ذاتیہ اور فعلیہ کے ارتباط اور ان دونوں کا ایک ہی مفہوم میں جمع ہونے کی کیفیت بیان کریں؟

٢۔کس اعتبار سے صفات فعلیہ، زمانی و مکانی قیود میں مقید ہوجاتے ہیں؟

٣۔ مفہوم خالقیّت کی شرح پیش کریں اور ایجاد و ابداع کے ساتھ اس کے فرق کو بیان کریں؟

٤۔ کیوں خلق کرنے کے مفہوم کو مصداق عینی کے اعتبار سے زائد بر ذات مخلوق، تصور نہیں کیا جا سکتا؟

٥۔ مفہوم ربوبیّت کو بیان کریں؟

٦۔اقسام ربوبیّت کی تشریح کریں؟

٧۔ خالقیّت اور ربوبیّت کے تلازم کو بیان کریں؟

٨۔ مفہوم الوہیّت کا خا لقیّت ا و ربوبیّت کے ساتھ جو تلازم ہے اسے بیان کریں؟

____________________

(١) سورہ بقرہ۔ آیت / ١٨٧،٢٣٥ سورہ انفا ل ۔آیت/ ٦٦ سورۂ فتح ۔ آیت/ ١٨ ،٧ ٢ سورہ آل عمران ۔آیت /١٤٠ ،١٤٢

گیارہواں درس

بقیہ صفات فعلیہ

مقدمہ

ارادہ

کلام کاصادق ہون

مقدمہ

علم کلام میں متکلمین کے درمیان ارادۂ الٰہی اختلافی مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے جسے مختلف

پہلوئوں سے زیر بحث قرار دیا گیا ہے، کیا ارادہ کا تعلق صفات ذاتی سے ہے یا صفات فعلی سے ؟ کیا قدیم ہے یا حادث؟ کیا واحد ہے یا متعدد؟ وغیرہ...یہ تمام بحثیں فلسفہ میں ارادہ اور ارادہ الٰہی کے خصوصیات سے ہونے والی بحثوں سے جدا ہے لہٰذا یہ بات روشن ہے کہ ایسی بحث کو اس کتاب میں ذکر کرنا مناسب نہیں ہے اسی وجہ سے پہلے ہم مفہوم ارادہ کی ایک مختصر وضاحت پیش کریں گے اورپھر ارداۂ الٰہی کے تحت بحث کا آغاز کریں گے۔

ارادہ۔

کلمہ ''ارادہ'' عرف میں کم از کم دو معنی میں استعمال ہوتا ہے، ایک محبت کرنا اور دوسر ے کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کرنا۔

پہلا معنی دوسرے معنی کی بہ نسبت وسیع ہے اس لئے کہ یہ اشیاء خارجی(۱) اور دوسروں کے افعال کے ساتھ اپنے افعال کو پسند کرنے کو شامل بھی ہوتا ہے لیکن دوسرا معنی صرف شخص کے ذاتی افعال کو شامل ہوتا ہے۔

لیکن ارداہ اپنے پہلے معنی کے مطابق (محبت) اگر چہ انسان کے لئے ایک نفسانی کیفیت ہے، لیکن عقل عیب و نقص کو بر طرف کر کے ایک عام مفہوم حاصل کر سکتی ہے کہ جسے جوہری موجودات کے ساتھ خدا پر بھی اطلاق کیا جا سکے، جیسا کہ علم کے ساتھ یہی ہوا ہے اسی جہ سے حب( محبت) کو صفات ذاتیہ میں شمار کیا جا سکتا ہے جو کہ (خود اپنی ذات سے محبت الٰہی پر قابل) اطلاق ہے، لہذا اگر ارادہ الٰہی کا مطلب حب کمال ہو تو یہ پہلے مرحلہ میں لا متناہی کمال الٰہی سے متعلق ہوتا ہے اور یہ بقیہ مراحل میں تمام موجودات کے کمالات پر صادق آتا ہے اس لئے کہ یہ اسی کے کمال کے آثار ہیں اس بنا پر اسے صفات ذاتیہ کا حصہ، قدیم، واحد اور عین ذات مقدس الٰہی مانا جاسکتا ہے۔

لیکن ارادہ بہ معنی کسی بھی امر کو انجام دینے کا قصد کرنا بغیر کسی شک کے صفات فعلیہ میں داخل ہے (جو امر حادث سے متعلق ہونے کی وجہ سے قیود زمان میں مقید ہے جیسا کہ قرآن میں وارد ہوا ہے کہ (اِنَّمَا اَمرُہُ اِذَا اَرَادَ شَیئًا اَن یَقُولَ لَہُ کُن فَیَکُونُ)(۲)

ترجمہ۔اس کی شان تو یہ ہے کہ جب کسی چیز کو (پیدا کرنا) چاہتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے ،کہ ہو جا ،تو فوراً ہو جاتی ہے

لیکن خدائے متعال کا صفات فعلیہ سے متصف ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ذات الٰہی میں کوئی تبدیلی واقع ہو یا کوئی صورت عرضی اس کے وجود میں ظاہر ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذات الٰہی اور اس کی مخلوقات کے درمیان شرائط اور ایک خاص نظریہ کے تحت ایک نسبت لحاظ کیا گیا ہو اور ایک خاص، مفہوم ا ضافی کو صفات فعلیہ عنوان سے اخذ کیا گیا ہومفہوم ارادہ کے تحت اس رابطہ کو پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ ہر مخلوق چونکہ صاحب کمال ہے اور اس کی خلقت میں مصلحت و حکمت کار فرما ہے

اس لئے خلق ہوئی ہے، لہذا اس کا ایک خاص زمان و مکان اور کیفیت میں واقع ہونا، علم خدااور محبت الٰہی سے متعلق ہے کہ جس کو اس نے اپنے ارادے سے پیدا کیا ہے نہ یہ کہ کسی نے اس کو مجبور کیا ہے، جب اس رابطہ کا لحاظ کیا جاتا ہے تو ایک مفہوم اضافی اور نسبتی بنام ''ارادہ'' حاصل ہوتا ہے، جو شی محدود سے تعلق کے اعتبار سے کچھ حدود و قیود کا حامل ہے اور یہ وہی مفہوم اضافی ہے جو حدوث و کثرت سے متصف ہے اس لئے کہ اضافت تابع طرفین ہے اور ان دونوں طر فوں میں سے کسی ایک کا حدوث اور کثرت سے متصف ہونا اوصاف کا ، اضافت کی طرف سرایت کرنے کے لئے کافی ہے۔

حکمت۔

جو وضاحت ارادۂ الٰہی کے تحت پیش کی گئی اس کے مطابق یہ بات روشن ہو گئی کہ یہ ارادہ یونہی، کسی بھی شی کے ایجاد سے متعلق نہیں ہوتا، بلکہ جو شی بھی ارادۂ الٰہی کے متعلق بنتی ہے، اس میں خیر اور کمال کی حکمت پائی جاتی ہے۔

اورچونکہ مادیات کا تزاحم بعض کا بعض دوسرے کے ذریعہ نقصان کا موجب ہوتا ہے محبت الٰہی کا کمال کے سلسلہ میں تقاضا یہ ہے کہ ان سب کی پیدائش اس طرح ہو کہ انھیں زیادہ سے زیادہ خیر و کمال مل سکے، ایسے روابط کو میزان پر قرار دینے سے مفہوم ''مصلحت'' سمجھ میں آتا ہے، وگرنہ مصلحت مخلوقات کے پائے جانے کے سلسلہ میں کوئی مستقل امر نہیں ہے کہ جو ان کی پیدائش میں براہ راست اثر انداز ہو ، چہ جائے کہ وہ ا رادہ الھی میں اثر گذار ہو۔

نتیجہ:

افعال الٰہی اس کے صفات ذاتیہ ، جیسے علم و قدرت خیر و کمال سے محبت ، جیسی چیزوں سے مترشح ہوتا ہے اور ہمیشہ ، کسی مصلحت کے پائے جانے ہی کی صورت میں متحقق ہوتا ہے ، تا کہ زیادہ سے زیادہ کمال و خیر حاصل ہو سکے، لہٰذا ایسے ارادہ کو ''ارادۂ حکیمانہ'' کا نام دیا جاتا ہے اور یہیں سے مقام فعل میں خدا کے لئے ایک دوسر ی صفت بنام ''حکیم ہونا'' سمجھ میں آتا ہے، اور بقیہ صفات فعلیہ کی طر ح اس کی بھی با ز گشت صفات ذاتیہ کی طرف ہوتی ہے ۔

البتہ یہ بات روشن ہے کہ مصلحت کی خاطر کسی امر کو انجام دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مصلحت خدا کے لئے علت غائی ہو، بلکہ وہ ایک فرعی ہدف ہے لیکن امور کو انجام دینے میں علت غائی ،وہی اس کا ذاتی ، ولا امتناہی کمال سے محبت کرنا ہے جو ضمناً اس کے آثار یعنی موجودات کے کمالات سے متعلق ہے، لہذا اس مقام پر یہ کہنا درست ہے کہ افعال الٰہی کے لئے علت وہی علت فاعلی ہے، اور خدا زائد بر ذات کسی ہدف کا حامل نہیں ہے، لیکن یہ مطلب اس بات کا منافی نہیں ہے کہ موجودات کا کمال اور خیر ایک فرعی ہدف ہے، اور اسی کو قرآن نے بھی بیان کیا ہے اس لئے کہ قرآن کریم نے افعال الٰہی کے لئے ایسی علتوں کو بیان کیا ہے کہ جن میں سے ہر ایک کی باز گشت ،مخلوقات کے خیر و کمال کی طرف ہے، جیسے کہ امتحان و آزمائش، بہترین امور کا انتخاب کرنا، خدا کی بندگی کرنا،اوررحمت خاص سے متنعم ہونا(۳) انسان کی خلقت کے اہداف میں سے ہے کہ جن میں سے ہر ایک بالترتیب دوسرے والے کے لئے مقدمہ ہے۔

کلام الٰہی۔

خدا کی ذات سے نسبت دئے جانے والے مفاہیم میں سے ایک مفہوم، تکلم ہے اور ہمیشہ کلام الٰہی کے سلسلہ میں متکلمین کے درمیان بحث ہوتی رہی ہے، یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ''علم کلام'' کا کلام نام سے شہرت پانا اس وجہ سے ہے کہ اس علم کے اصحاب(علماء متکلمین) کلام الٰہی کے

تحت بحث کرتے ہیں، اشاعرہ اسے صفات ذاتیہ میں سے اور معتزلہ صفات فعلیہ میں سے شمار کرتے

ہیں، ان دو گروہوں کے درمیان شدید اختلاف کا باعث یہی مسئلہ قرار پایا قرآن مجید ، کلام الھی ہے ، ایسی صورت میں یہ مخلوق (حادث) ہے یا غیر مخلوق (یعنی قدیم) اس سلسلہ میں بڑی بحثیں ہوئی ہیں، بسا اوقات اسی موضوع کی وجہ سے ایک دوسرے کو کافر کہا گیا۔

صفات ذاتیہ اور فعلیہ کی بیان کی گئی تعریفوں کے پیش نظر یہ اس مسئلہ کو بہ آسانی درک کیا جا سکتا ہے کہ تکلم فعل کی صفات میں سے ہے کہ جسے وجود بخشنے کے لئے ایک مخاطب کی ضرورت ہے تا کہ کہنے والے کے مقصود کو آواز یا مکتوب یا اپنے ذہن میں کسی مفہوم یا کسی اور راستہ کے ذریعہ درک کیا جا سکے، در حقیقت یہ مفہوم اس رابطہ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے جو خدا کسی حقیقت کو اپنے بندہ کے لئے آشکار کرنا چاہتا ہے اور بندہ میں اس حقیقت کے درک کرنے کی طاقت پائی جاتی ہے مگر یہ کہ تکلم کے لئے کوئی دوسرے معنی فرض کر لئے جائیں جیسے تکلم پر قادر ہونا یا تکلم کے معنی و مفہوم جاننا تو پھر اس صورت میں اس صفت کی باز گشت بھی صفات ذاتیہ کی طرف ہوگی، جیسا کہ اس طرح کی باتیں صفات فعلیہ میں گذرچکی ہیں۔

لیکن قرآن خطوط یا الفاظ یا ذہنوں میں موجودہ مفاہیم یا ایک نورانی حقیقت اور مخلوقات سے مجرد کے معنی سے عبارت ہے ،مگر یہ کہ کوئی علم الٰہی کو بعنوان حقیقت قرآن سمجھے تو اس صورت میں اس کی باز گشت صفت ذاتی ''علم'' کی طرف ہوگی لیکن ایسی تاویلیں عرف کے محاوروں کے خلاف ہیں لہٰذا ان سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔

صدق۔

کلام الٰہی، اگر امرو نہی کی صورت میں بہ طور انشا ہو تو یہ بندوں کے عملی وظائف کو معین کرتا ہے اور اس میں کسی قسم کے صدق و کذب سے متصف کرنے کا کوئی مقام نہیں ہے لیکن اگر کلام الٰہی حقائق یا گذشتہ اور آئندہ حوادث کے سلسلہ میں بصورت اخبار ہو تو صدق سے متصف ہے جیسا کہ

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔( وَمَن اَصدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِیثًا ) ).(۴)

اور خدا سے بڑھ کر بات میں سچا کون ہو گا ؟ اور اس صورت میں کوئی بھی انھیں قبول نہ کرنے پر کسی بھی قسم کا عذر پیش نہیں کرسکتا۔

یہ صفت جہان بینی کے فرعی مسائل آئیڈیالوجی کے بہت سے مسائل کو ثابت کرنے کے

لئے ایک قسم کے استدلال (نقلی اور تعبدی) سے متصف ہے۔

اس صفت کو ثابت کرنے کے لئے جو عقلی دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں وہ یہ ہیں کہ کلام الٰہی ربوبیت الٰہی کی شان،جہان و انسان کی تدبیر، مخلوقات کی ہدایت اور علم و حکمت کی بنیادپر صحیح شناخت کو مخا طبین کے لئے فراہم کرنے کا ایک وسیلہ ہے اور اگر واقع سے کسی قسم کی مخالفت کا امکان ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہ ہوگا اس لئے کہ نقض غرض کی وجہ سے حکمت الٰہی کے خلاف تصور کیا جائے گا۔

سوالات

١۔ارادہ الٰہی کس معنی میں صفات ذاتیہ اور کس معنی میں صفات فعلیہ میں شمار ہو گا ؟

٢۔مفہوم ارادہ کو بعنوان صفت فعلی جلوہ دینے کے لئے خالق و مخلوق کے درمیان کس رابط کا لحاظ کرنا ضروری ہے؟

٣۔ارادۂ الٰہی کس طرح حدوث و کثرت سے متصف ہے؟

٤۔حکمت الٰہی کو بیان کریں؟

٥۔مفہوم مصلحت کس طرح حاصل ہوتا ہے؟

٦۔ کس معنی میں مخلوقات کی مصلحت،خیر اور اس کے کمال کو خلقت کا ہدف مانا جائے؟

٧۔کلام الٰہی کی شرح پیش کریں؟

٨۔خداوند متعال کے صادق ہونے پر عقلی دلیل بیان کریں؟

____________________

(١)جیسے کہ یہ آیۂ شریفہ (تریدون عرض الدنیا واللّه یرید الآخرة ) سورۂ انفال۔ آیت /٦٧

(۲)سورہ یس ،آیت/ ٨٢.

(۳) ر جوع کریں، سورۂ ہود آیت ٧ سورہ ملک آیت ٢ سورہ کہف آیت ٧ سورہ ذاریات آیت ٥٧ سورہ ہود آیت ١٠٨ سورہ جاثیہ آیت ٢٣ سورۂ آل عمران آیت ١٥ سورہ توبہ آیت ٧٢.

(۴)سورہ نسائ، آیت/٨٧

بارہواں درس

انحراف کے اسباب کی تحقیق

مقدمہ

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے۔

انحراف کے اسباب

روحی اسباب

اجتماعی اسباب

فکری اسباب

انحرافی اسباب کا سد باب

مقدمہ:

پہلے درس میں اس مطلب کو واضح کردیا گیا ہے کہ جہان بینی (خدا کی معرفت )کو بہ اعتبار کلی دو حصوں (الٰہی اور مادی) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، اور ان کے درمیان مہم ترین اختلاف قادر و علیم پروردگار کے وجود کا مسئلہ ہے کہ جسے ثابت کرنے کے لئے ایک طرف الٰہی جہان بینی ایک بنیادی اصل کے عنوان سے تاکید کرتی ہے اور مادی جہان بینی اس کا سرے سے انکار کرتی ہے۔

گذشتہ دروس میں اس کتاب کی گنجائش کے مطابق وجود خدا کے اثبات، صفات ثبوتیہ اور سلبیہ ،صفات ذاتیہ و فعلیہ کے تحت گفتگو کی جا چکی ہے اب اس کے بعد اس اعتقاد کے استحکام نیز مادی جہان بینی کے نقد کے لئے ،ایک مختصر بحث کا آغاز کرتے ہیں تا کہ الٰہی جہان بینی کے مقصود کے اثبات کے علاوہ مادی جہان بینی کا بطلان ثابت ہوجائے۔

لہٰذا پہلے ہم توحید سے، انحراف اور الحاد کی جانب میلان کے اسباب بیان کریں گے اور پھر مادی جہان بینی کے اہم ترین نقطہ ضعف کی جانب اشارہ کریں گے۔

انحراف کے اسباب۔

الحاد کی داستان تاریخ بشر میں بہت قدیمی ہے، اگر چہ ہمیشہ انسانی معاشرے میں، جہاں تک تاریخ نے بیان کیا ہے۔ خدا پر اعتقاد اور ایمان رکھنے والوں کی مثالیں زمانہ قدیم سے بے شمار ہیں، لیکن اس کے باوجود انھیں لوگوں کے درمیان ملحد گروہوں کی ٹولیاں بھی نظر آتی ہیں، لیکن اٹھارہویں صدی سییورپ میں بے دینی اور الحاد کا ایک مستقل رواج شروع ہوا اور آہستہ آہستہ پورے جہان میں یہ مرض پھیل گیا۔

اگر چہ یہ طرز تفکر کلیسا اور مسیحیت کی ضد میں اٹھا تھا لیکن اس کی موجوں نے تمام ادیان و مذاہب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور مغرب سے صنعت و ٹکنالوجی کے ہمراہ بے دینی کا یہ نظریہ دوسری سرزمینوں کی طرف بڑھتا چلا گیا،اوراس آخری صدی میں اس فکر نے ،افکار اقتصادی، اجتماعی اور مارکسیسم کے سایہ میں تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس طرح انسانیت کے لئے ایک خطرناک صورت پیدا ہو گئی۔

اس منحرف عقیدہ کی پیدائش اور اس کے رواج پانے میں بے شمار اسباب و عوامل کار فرماہیں، اگر ہم ان سب عوامل کی تحقیق کرنا چاہیں ،تو تنہا انھیں کے لئے مستقل کتاب کی ضرورت ہے(۱) لیکن بطور کلی ان عوامل میں سے صرف تین کی جانب اشار ہ کریں گے۔

١۔روحی اسباب

بے دینی اور الحاد کی جانب بڑھتے ہوئے رجحانات کے اسباب ممکن ہے،لوگوں کے اندر موجود ہوں لیکن انسان اس کی طرف متوجہ نہ ہو جن میں سے اہم ترین راحت طلبی ، عیش پرستی بے قید و بند ، غیر ذمہ دارانہ زندگی گزارنا ہے۔

یعنی ایک طرف تحقیق کی زحمت( خصوصاً ان امور کے سلسلہ میں کہ جس میں مادی لذت کا وجود نہیں ہے) اس امر سے مانع ہے کہ سست اور کاہل افراد تحقیق کے لئے آمادہ ہوں، اور دوسری طرف حیوانی آزادی سے لگائو، اور بغیر مسولیت و پابندی کے زندگی گذارنے کی تمنا ان کو الٰہی جہان بینی کی طرف مائل ہونے سے روک دیتی ہے ، اس لئے کہ الٰہی افکار کے قبول کرنے اور حکیم پروردگار پر ایمان رکھنے کہ جس کے ضمن میں متعدد عقائد جنم لیتے ہیں، ان سب کا لازمہ، تمام اختیاری افعال میں انسان کی مسئولیت پذیری ہے، اور ایسی مسئولیت کا تقاضا یہ ہے کہ بعض مقامات پر اپنی بعض خواہشات سے چشم پوشی کی جائے، اور ذمہ داریوں کو قبول کر لیا جائے، جبکہ عیاشی کے ساتھ ان ذمہ داریوں کا قبول کرنا سازگار نہیں ہے، اسی وجہ سے یہ حیوانی خواہش لاشعوری طور پر اس امر کا سبب بنتی ہے ان تمام مسئولیتوں (ذمہ داریوں)کو قبول نہ کیا جائے اور سرے سے خداوند عالم کے وجود ہی سے انکار کرد یا جائے ۔

الحاد اور بے دینی کی جانب میلانات کے اور دوسرے نفسیاتی عوامل بھی ہیں ، جو بقیہ عوامل کے تعاقب میں ظاہر ہوتے ہیں۔

٢۔اجتماعی اسباب۔

بعض معاشروں میں پیش آنے والے وہ غیر مطلوب حالات کہ جن کی پیدائش میں دینی رہبروں کا خاص کردار ہوتا ہے، ایسے حالات میں بہت سے لوگ جو تفکر عقلی کے اعتبار سے ضعیف ہوتے ہیں اور مسائل کے تجزیہ و تحلیل پر پوری طرح قادر نہیں ہوتے،اورحوادثات کے اسباب سمجھنے میں بھی ضعیف ہیں ،حوادثات کو دین اور اس کے رہبروں کی دخالت کا نتیجہ سمجھتے ہیں، اور یہ اعتقاد پیدا کرلیتے ہیں ،کہ دینی اعتقادا ت ہی ایسے نا مطلوب حالات کو وجود میں لانے کا اصلی سبب ہیں، اسی بنا پر وہ دین و مذہب سے بیزار ہوجاتے ہیں ایسے نمو نے یورپ کے اجتماعی زندگی جو عہد رنسانس میں پیش آئے ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں، کلیسا کے سایہ میں مذہبی، حقوقی اور سیاسی عنوانات کے تحت پادریوں کی ناشائستہ حرکات مسیحیت سے بیزاری بلکہ دین و دینداری سے بطور کلی قطع تعلق ہونے کا سبب بننے۔

دینی رہبروں کے لئے ایسے اسباب کا جاننا نہایت ضروری ہے، تا کہ وہ اپنے مقام کی حساسیت اور اپنی ذمہ داری کی عظمت کو درک کر سکیں، اور انھیں بخوبی معلوم ہوجائے کہ ان کی معمولی ایک غفلت پورے معاشرے کی بد بختی اور گمراہی کا سبب بن سکتی ہے۔

٣۔ فکری اسباب۔

یعنی وہ شبہات جو ایک شخص کے ذہن میں آتے ہیں یا دوسروں کی زبانی سنتا ہے، استدلال اور قوت عاقلہ کے ضعیف ہونے کی وجہ سے انھیں دفع کرنے کی قوت نہیں رکھتا اور کم وبیش وہ ان شبہات سے متاثر ہو جاتا ہے ، یا کم از کم اس کا ذہن مضطرب و پریشان ہوجاتاہے جو (جہان بینی الھی )کے سلسلہ میں یقین و اطمنان پیدا کرنے سے مانع ہے ۔

ان عوامل کو بھی دو فرعی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جیسے وہ شبہات جو حس گرائی پر مبنی ہیں ،

وہ شبہات جو عقیدہ کے فاسد ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں وہ شبہات جو کمزور طریقہ استدلال ، اور غلط تنبہوں کا نتیجہ ہوتے ہیں ، وہ شبہات جو ناگوار حوادث کی وجہ سے ذہنوں میں خطور کرتے ہیں کہ جن کے لئے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ حکمت خدا وند اور عدل الٰہی کے خلاف ہیں ،اسی طرح وہ علمی تحیوریاں جو عقائد دینی کے خلاف ہیں ، اور ان کی وجہ سے شبہہ پیدا ہوتا ہے ، نیز وہ شبہات جو مقررات و احکام دینی سے وابستہ ہیں ، بالخصوص مسائل حقوقی و سیاسی کے شعبہ میں ۔

اور کھبی کبھی دو یا چند عوامل مجموعاً طور پر شک و تردید یا انکار اور الحاد کا سبب ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں شخص نفسانی مرض (فکری وسواس ) میں گرفتار ہوجاتا ہے اور پھر کسی بھی دلیل وبرھان کے قبول کرنے سے انکار کرنے لگتا ہے، اس مرض میں مبتلا انسان، اپنے ہی عمل کی صحت میںشک کر نے لگتا ہے، اور اس کے صحیح ہونے کا اطمینان نہیں کرپاتا، دسیوں بار اپنا ہاتھ دھوتا ہے لیکن پھر بھی اس کی طہارت میں شک کرتا ہے جبکہ وہ پہلی ہی مرتبہ میں پاک ہوچکا ہے یا وہ سرے سے نجس ہی نہیں ہے۔

انحرافی اسباب کا سد باب۔

انحراف کے اسباب کے مختلف ہونے کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک خاص روش، موقع و محل اور مخصوص شرائط کی ضرورت ہے، جیسے روحی و اخلاقی اسباب کا علاج صحیح تربیت اوراس راستہ میں موجود موا نع کو بر طرف کرنے کے ذریعہ کیا جائے جیسا کہ ہم نے پہلے، دوسرے اور تیسرے درس میں٫٫ دین میں تحقیق کی ضرورت اور اس سے سہل انگاری کے نقصانات میں،، بیان کرچکے ہیں۔

اسی طرح اجتماعی اسباب کے برے اثرات کو روکنے کے لئے ایسے اسباب و عوامل کی روک ، تھام کے علاوہ دینداروں کے اخلاق و کردار کے ناشائیستہ ہونے اور دین کے صحیح نہ ہونے کے درمیان فرق کرنا ہوگا، بہر حال روحی و اجتماعی عوامل کی طرف توجہ دینے کی وجہ سے کم از کم ایسے منحرف کرنے والے اسباب کی تاثیر سے انسان محفوظ رہتا ہے۔

اسی طرح فکر ی اسباب کی بری تاثیر سے محفوظ رہنے کے لئے مناسب طریقہ اختیار کرنا ہوگا لہٰذا فاسد عقائد کو صحیح عقائد سے جدا کرنا ہوگا،اوردینی عقائد کو ثابت کرنے کے لئے غیر منطقی اور ضعیف استدلالوں سے پرہیز کرنا ہوگا اور یہ بھی آشکار کرنا ہوگا کہ دلیل کا ضعیف ہونا، مدعی کے نادرست ہونے کی دلیل نہیں ہے۔

اب یہ بات روشن ہے کہ انحراف کے تمام عوامل کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو اور ان میں سے ہر

ایک سے مقابلہ کے لئے مناسب راہ کا بیان کرنا ہماری بحث کے دائرے سے خارج ہے، اسی وجہ سے الحاد کی طرف میلانات کے فکری اسباب اور اس ضمن میں موجود شبہات کے جواب پر اکتفا کر تے ہیں

سوالات

١۔مادی جہان بینی پر تنقید اور اس کے ضمن میں تحقیق کرنے کا فائدہ کیا ہے؟

٢۔قرن اخیر میں الحاد کی طرف بڑھتے ہوئے رجحانات کیوں پیدا ہوئے ؟

٣۔ دین سے منحرف ہونے کے روحی اسباب کیا ہیں؟

٤۔ دین سے انحراف کے اجتماعی عوامل کیا ہیں؟

٥۔ فکری اسباب اور اس کی فروعات کو بیان کریں؟

٦۔ فکری وسواس کیسے وجود میں آتے ہیں؟

٧۔ انحراف کے اسباب سے مقابلہ کرنے کا راستہ کیا ہے؟

____________________

(١)استاد شہید مطہر ی نے اپنی کتاب (علل گرائش مادی گری) میں بعض اسباب و عوامل کا تذکرہ کیا ہے ،اور اس پر روشنی ڈالی ہے۔