درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 44976
ڈاؤنلوڈ: 2661

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44976 / ڈاؤنلوڈ: 2661
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

تیرہواں درس

چند شبہات کا حل

موجود نا محسوس پر اعتقاد

خدا پر ا یمان رکھنے کے سلسلہ میں جہل ا ور خوف کا کردار

کیا قاعدہ علیت ایک کلی قا عدہ ہے؟

علوم تجربی کے نتائج

نا محسوس مو جودپر اعتقاد

خدا شناسی کے ضمن میں ایک معمولی شبہ یہ ہے کس طرح ایک ایسے موجود پر ایمان لایا جا سکتا ہے کہ جو قابل درک نہیں ہے اور نہ ہی اسے حس کیا جاسکتا؟

یہ شبہ ہمیشہ ان لوگوں کے ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ جو قوی فکر کے مالک نہیں ہیں، لیکن ایسے دانشور بھی ہیں کہ جنھوں نے اپنے ا تفکر کی بنیا د ''اصالت حس'' پر قائم کی ہے اور نا محسوس موجود سے انکار ہے یا کم از کم اسے یقینی معرفت سے بعید سمجھا ہے۔

اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ ادراکات حسی کو جسم و جسمانیات سے بدن کو مس کرنے کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اورہمارے حواس میں سے ہر حس اپنی موقعیت اور خاص شرائط کے تحت مادی موجودات کو درک کرتی ہے اور جس طرح آنکھ سے سننے یا کان سے دیکھنے کی توقع باطل ہے اسی طرح یہ انتظار بھی باطل ہے کہ ہمارے حواس تمام موجودات کو درک کرلیںگے۔

ا یک تو یہ کہ مادی موجودات کے درمیان ا یسی بھی چیزیں موجود ہیں جو حس کے دائرے سے باہر ہیں جس طرح کہ ہمارے حواس ( ULTRA-VIOLET (اور ( INFRA - RED )کے انوار اور الکٹرومنٹک وغیرہ امواج کو درک کرنے سے عاجز ہے۔

دوسرا یہ کہ ہم بہت سے حقائق کو ظاہری حواس کے علاوہ دوسری راہوں سے درک کرتے ہیں، اور ان کے وجود کا یقینی ا عتقاد حاصل کرلیتے ہیں جبکہ وہ حس کی قدرت سے باہرہیں، جیسے کہ ہم خود اپنے ڈر، ارادہ، محبت اور دوسری صفات سے آگاہ ہیں، اور ان کے وجود پر پورا ایمان بھی رکھتے ہیں، حالانکہ یہ روحی آثار خود روح کی طرح حس کے دائرے سے باہر ہیں، اس کے علاوہ خود ادراک ایک غیر عادی اور نامحسوس امر ہے۔

لہذا حواس کے ذریعہ کسی چیز کا درک نہ ہونا نہ تنہا اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ اسے بعید بھی نہیں کہا جا سکتا۔

خدا پر ایمان رکھنے کے سلسلہ میں جہل اور خوف کاکردار۔

جامعہ شناسوں کی طرف سے دوسرا شبہ جو پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ خدا پر اعتقاد رکھنا ، خوف و خطر کی وجہ سے ہے بجلی یا زلزلہ یا اسی طرح کے اور دوسرے خطرات کی وجہ سے یہ تصور وجود میں آیا ہے در اصل بشر نے اپنی روحی اطمینان کی خاطر (العیاذ باللہ) ایک خیالی موجود بنام ''اللہ'' کو مانا ہے اور اس کی عبادت میں مشغول ہے، اسی وجہ سے خطرات کے مقابلہ میں محافظت کا امکان جس قدر بڑ ھتی جاتی ہے یا خطرات ، حوادثات کے اسباب و علل جیسے جیسے آشکار ہوتے جاتے ہیں ویسے اسی اعتبار سے خدا پر ایمان ضعیف ہوتا جاتا ہے۔

مارکسیسم نے اس شبہ کو اپنی کتابوں میں بعنوان''علم جامعہ شناسی'' کے نتائج کے تحت بڑی آب و تا ب کے ساتھ بیان کیاہے جسے غیر مطلع لوگوں کو دھوکا دینے کا ایک بہترین وسیلہ تصور کیا جاتا ہے

اس شبہ کے جواب میں یہ کہنا بہتر ہے کہ سب سے پہلے یہ شبہ تنہا ایک مفرو ضہ ہے جسے بعض جامعہ شناسوں نے پیش کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے پر کسی بھی علمی دلیل کا وجود نہیں ہے۔

دو سرے ، اس زمانہ میں بہت بڑے بڑے مفکرین تھے جو ہر ایک سے ز ائد حوادثات کے

علل و اسباب سے آگاہ تھے اور خدائے حکیم پر مضبوط عقیدہ رکھتے تھے اور اب بھی اسی عقیدہ

باقی ہیں،(۱) ایسا ہر گز نہیں ہے کہ خدا پر ایمان رکھنا خوف وجہل کا نتیجہ ہے۔

تیسرے ، اگر بعض حوادثات سے خوف یا اس کے و اسباب سے نا آگاہی ہی خدا پر اایمان رکھنے کا سبب ہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وجود خدا خوف و جہل کا نتیجہ ہے جس طرح سے کہ بہت سے روحی اثرات جیسے لذت طلبی اور شہرت طلبی وغیرہ... علمی و فنی اور فلسفی انکشافات کا سبب ہے، لیکن یہ ان کے اعتبار کو خدشہ دار نہیں کرتا۔

چوتھے: اگر بعض لوگوں نے خدا کو، اس عنوان سے پہچانا ہے کہ وہ مجہول العلة حوادثات کو وجود

بخشنے والاہے یہاں تک کہ اگر علل و اسباب کے آشکار ہونے کی وجہ سے ان کے ایمان میں کمی واقع ہوگئی ہے تو یہ خدا پر اعتقاد کے معتبر نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی بلکہ یہ سب کچھ ان کے ایمان کے ضعیف ہونے کی علامت ہے، اس لئے کہ جہانی حوادثات کی بہ نسبت خدا کا علت قرار دیا جانا ، اسکی طبیعی علتوں کے اثر انداز ہونے کی سنخیت کے اعتبار سے علت خدا کے عرض میں واقع نہیں ہے بلکہ ایک ایسی علت ہے جو ہر ایک کو شامل ہوتی ہے، اور تمام مادی وغیرمادی علتوں کے پہچاننے یا نہ پہچاننے میں اس کے طول میں موثر ہے،اور اس کی نفی و اثبات کے لئے کسی بھی قسم کی تاثیر سے عاری ہے۔(۲)

کیا قاعدہ علیت ایک قاعدہ کلی ہے۔

شبہات میں سے ایک شبہ جسے غربی دانشمندوں نے بیان کیا ہے یہ ہے کہ اگر اصل علیت کلیت سے متصف ہے تو پھر خدا کے لئے بھی علت کا ہونا ضروری ہے، حالانکہ اس کے لئے فرض یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی علت نہیں ہے لہذا بے علت خدا کو ماننا قانون علیت کا نقض کرنا اور عدم کلیت

پر دلیل ہے، اور اگر قاعدہ علیت کی کلیت کو نہ مانیں تو پھر واجب الوجود کو ثابت کرنے کے لئے اس قاعدہ و قانون سے استفادہ نہیں کر سکتے، اس لئے کہ یہ ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ اصل مادہ یا انرجی خود بخود علت کے بغیر وجود میں آگیا ہو ، اور اس میں ہونے والے تغیرات کی وجہ سے تمام موجودات ظہور میں آئے ہیں۔

یہ شبہ بھی جیسا کہ ساتویں درس میں اشارہ کیا جاچکا ہے، قاعدہ علیت کے تحت کی گئی غلط تفسیر کا نتیجہ ہے، یعنی ان لوگوں نے یہ تصور کرلیا ہے کہ اس قاعدہ کا مفاد یہ ہے کہ (ہر شی موجود علت کی محتاج ہے) جبکہ اس کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ (ہر ممکن الوجود یا وابستہ موجودعلت کا محتاج ہے) یہ ایک استثنا نا پذیر قاعدہ کلی ہے، لیکن یہ فرضیہ کہ اصل مادہ یا انرجی علت کے بغیر وجود میں آجائے اور اس میں ہونے والے تغیرات کی وجہ سے یہ جہان خلق ہو جائے، اشکالات و اعتراضات سے خارج نہیں ہے، جسے ہم آئندہ دروس میں بیان کریں گے۔

علوم اجتماعی کے نتائج۔

ایک شبہ یہ ہے کہ جہان و انسان کے پیدا کرنے والے وجود پر اعتقاد رکھنا جدید علوم کی رو سے سازگار نہیں ہے مثلاً کمیسٹری میں یہ بات مسلم ہے کہ مادہ اور انرجی ہمیشہ ثابت ہیں لہٰذا کوئی بھی شی عدم سے وجود میں نہیں آتی اور کوئی موجود بھی پوری طرح فنا نہیں ہوتا حالانکہ خدا پر عقیدہ رکھنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ اس نے مخلوقات کو عدم سے ،ہستی کی صورت میں وجود بخشا ہے۔

اسی طرح بیالوجی میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ زندہ موجودات بے جان موجودات سے متولد ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ انھیں کمال حاصل ہوتا ہے، یہاں تک کہ انسان وجود میں آتا ہے حالانکہ خدا پر ایمان رکھنے والوں کا عقید ہ ہے کہ اس نے ہر ایک کو جداگانہ خلق کیا ہے۔

جواب میں یہ کہنا بہتر ہے کہ پہلے یہ کہ ماد ہ ا ورانرجی کی بقا کا قانون ایک علمی اور تجربی قانون کے عنوان سے تنہا ان موجودات کے لئے ثابت ہے کہ جو قابل تجزیہ ہیں، لہٰذا اس کے ذریعہ اس فلسفی مسئلہ کو حل نہیں کیا جاسکتا، کہ مادہ یا انرجی ازلی و ابدی ہیں یا نہیں؟

دوسرے یہ کہ مجموعی اعتبار سے مادہ، انرجی کا ثابت ہونا اور اس کی ہمیشگی سے تعلق رکھنا کسی خالق سے بے نیازی کی دلیل نہیں ہے بلکہ دنیاء جہان کی عمر جس قدر بھی طولانی ہوگی ا س خالق کی ضرورت اتنی ہی زیادہ ہوگی، اس لئے کہ معلول کے لئے علت کی احتیاج کا معیار اس کی ذاتی وابستگی اور اس کا ممکن ہونا ہے نہ یہ کہ وہ حادث ہے اور محدودیت (قید) زمانی سے متصف ہے۔

ایک دوسری تعبیر کے مطابق مادہ اور انرجی جہان کی علت مادی کو تشکیل دیتے ہیں، نہ علت فاعلی کو بلکہ وہ خود علت فاعلی کے محتاج ہیں۔

تیسرے ،مادہ و انرجی کے ثابت ہونے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ نئے موجودات وجود میں نہ آئیں اور ان میں کمی یا زیادتی واقع نہ ہو، بلکہ بعض موجودات جیسے روح، عقل ارادہ وغیرہ مادہ اور انرجی کی قسم سے نہیں ہیں، کہ جس کی کمی یا زیادتی، مادہ اور انرجی کے قانون بقا سے منافات ر کھے ۔

چوتھے : فرضیہ تکامل جسے ابھی تک پوری طرح علمی حلقے میں اعتبار نہیں ملا ہے اور جسے بہت سے مفکرین نے رد کیا ہے، خدا پر اعتقاد رکھنے سے منافات نہیں رکھتا، اور حد اکثر زندہ موجودات کے درمیان صرف علت اعدادی کو ثابت کرتا ہے نہ یہ کہ خدا سے ا س کے رابطہ کی نفی کرتا ہے ، جس کی دلیل یہ ہے کہ اسی فرضیہ کے بہت سے طرفدار آج بھی اور گذشتہ ادوار میں جہان و انسان کے پیدا کرنے والے پر ایمان رکھتے تھے اور رکھتے آئے ہیں۔

سوالات

١۔حس گرائی اور نامحسوس امور کے انکار پر کیا اشکالات ہیں؟

٢۔وہ اشکالات کیا ہیں جو بعض ماہر سماجیات کے فرضیہ پر وارد ہوئے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ وجود خدا کا نظریہ انسان کے خوف و جہل کا نتیجہ ہے ؟

٣۔کیا وجود خدا پر ایمان رکھنے کا عقیدہ علیت کی کلیت سے منافات رکھتاہے؟ کیوں؟

٤۔ کیا مادہ اور انرجی کی بقا کا قانون پروردگار عالم پر اعتقاد رکھنے منافات رکھتا ہے؟ کیوں؟

٥۔ کیا فرضیہ تکامل وجود خدا پر ایمان رکھنے کے عقیدہ کو باطل قرار دیتا ہے ؟ کیوں؟

____________________

(١) جیسے انشٹن، کرسی وریس والکسیس کارل اور دوسرے برجستہ مفکرین کہ جنھوں نے وجود کے اثبات کے لئے مقالہ تحریر کئے جن میں سے بعض مقالے جات کو کتاب ''اثبات وجود خدا'' میں جمع کیا گیا ہے۔

(٢)آئندہ دروس میں مزید وضاحت آئے گی ۔

چودہواں درس

مادی جہان بینی اور اس پر تنقید

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے۔

مادی جہان بینی کے اصول

اصل اول

اصل دوم

اصل سوم

اصل چہام

مادی جہان بینی کے اصول

مادی جہان بینی کے لئے درج ذیل اصول فرض کئے جا سکتے ہیں

پہلی اصل: ہستی جو مادہ(۱) اور مادیات کے ہم پلّہ و مساوی ہے اور اسی چیز کو موجود کا نام دیا جا سکتا ہے کہ جو یا تو مادہ اور حجم سے متصف ہونے کے علاوہ ابعادثلاثہ (طول، عرض، عمق) سے متصف ہو، یا مادہ کے خواص میں سے اس کا شمار ہو اور اسی ضمن میں مادہ بھی قابل تقسیم اور کمیت کا حامل ہے لہذااسی اصل کی بنیاد پر خدا کے وجود کا ایک غیر مادی اور طبیعت سے بلند موجود ہونے کے عنوان سے انکار کردیا جاتا ہے۔

دوسری اصل: مادہ ازلی و ابدی نیز نا قابل خلق ہے اور کسی علت کا محتاج بھی نہیں ہے اور اصطلاح فلسفی کے مطابق ''واجب الوجود'' ہے۔

تیسری اصل: اس جہان کے لئے علت غائی اور کسی ہدف کا تصور نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ کسی با شعور فاعل کا وجود نہیں ہے کہ جس کے لئے ہدف کا تصور کیا جائے۔

چوتھی اصل: اس جہان کے موجودات، (اصل مادہ کے علاوہ) مادہ کے ذرات کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں، اسی وجہ سے گذشتہ موجودات کو آنے والے موجودات کے لئے شرط اور علت اعدادی مانا جا تا ہے، اور مادیات کے درمیان اکثر ایک قسم کی فاعل طبیعی کو قبول کیا جا تا ہے، جیسے کہ درخت کے پھل کے لئے فاعل طبیعی یا بیالوجی اورکمیسٹری کے اثرات کو خود ا سی کی طرف نسبت دی گی ہے، پھر کسی بھی موجود کے لئے فاعل الٰہی اور ہستی بخش کی ضرورت نہیں ہے۔

مذکورہ اصول کے علاوہ اصل پنجم کا اضافہ کیا گیا ہے جو معرفت شناسی سے مر بوط ہے بلکہ ایک طرح سے تمام اصول پر مقدم ہے اور وہ یہ ہے کہ صرف اسی شناخت کو معتبر مانا جا سکتا ہے کہ جو تجربہ حسی کے نتیجہ میں حاصل ہو ، اور چونکہ حسی تجربہ صرف مادہ اور مادیات کے وجود کو ثابت کرتے ہیں لہٰذا کسی بھی شی کا وجود غیر قابل قبول ہے۔

لیکن اس اصل پنجم کا باطل ہونا گذشتہ درس میں بیان کیا جا چکا ہے(۲) جسے دوبارہ بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ بقیہ چار اصول کے سلسلہ میں گفتگو جاری رہے گی۔

پہلی اصل ۔

مادی جہان بینی میں اس اصل کا شمار بنیادی اصول میں کیا جاتا ہے لیکن یہ اصل بے بنیاد دعوے کے علاوہ کچھ نہیں ہے،اورماوراء طبیعت کے انکار کے لئے کسی بھی قسم کے برہان و دلیل قائم نہیںکی جا سکتی، بالخصوص ماٹریالسٹی معرفت شناسی کے ذریعہ کہ جس کی بنیاد اصالت حس و تجربہ پر قائم ہے، ماوراء طبیعت کی نفی پر دلیل لانا غیر ممکن ہے، اس لئے کہ یہ بات بخوبی روشن ہے کہ کوئی بھی٫٫ حس تجربی،، اپنے حدود یعنی مادہ اور مادیات سے ہٹ کر کسی شی کی نفی یا اثبات کا فریضہ ا نجام نہیں دے سکتی

، حس گرائی کی منطق کی بنا پر حد اکثر جو مطلب ثابت کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ٫٫ حس تجربی،، سے ماوراء طبیعت کو ثابت نہیں کیا جاسکتا، لہذا اس صورت میں کم از کم اس کے موجود ہونے کا احتمال باقی ر ہ جاتا ہے، اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ انسان بہت سے غیر مادی موجودات کوجو مادہ کی خصوصیات کی حامل نہیں ہیں منجملہ روح کو، اپنے علم حضوری کے ذریعہ درک کرلیتا ہے، اس کے علاوہ بھی مجردات کے اثبات میں بے شمار دلیلیں فلسفی کتابوں میں ذکر کی گئیں ہیں۔(۳)

موجود مجرد یعنی روح کے شواہد میں سے رویائے صادقہ، مر تاضوں کے خار ق عادات امور اور انبیائ، ائمہ علیہم السلام اور اولیا الٰہی کے معجزات و کرامات ہیں(۴) بہر حال خدا کے وجود اور اس کے جسمانی نہ ہونے پر جو دلائل قائم کئے گئے ہیں اس اصل کے بطلان کے لئے کافی ہیں۔(۵)

دوسری اصل ۔

اسی اصل میں مادہ کے ازلی اور ابدی ہونے پر تاکید اور پھر یہ نتیجہ حاصل کیا گیا ہے کہ وہ خلق کئے جانے سے مستغنی ہے۔

لیکن مادہ کا ازلی اور ابدی ہونا، علمی اور تجربی دلائل کے ذریعہ یہ با ت قابل اثبات نہیں ہے اس لئے کہ تجربہ کا دائرہ محدود ہے اس لئے کہ کوئی بھی تجربہ زمان و مکان کے اعتبار سے جہان کے بے نہایت ہونے کو ثابت نہیں کر تا۔

اور مادہ کا ازلی ہونا اس بات کا لازمہ نہیں ہے کہ وہ خالق سے بے نیاز ہے جس طرح سے کہ ایک ازلی مکینکی حرکت کا فرض، ازلی قوتِ محرک کا لازمہ ہے نہ یہ کہ وہ قوت محرک سے بے نیاز ہے

مادہ کا خلق ہونے سے مستغنی ہونا ،واجب الوجود ہونے کے مساوی ہے، اور ہم نےآٹھویں در س میں اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ مادہ کا واجب الوجود ہونا محال ہے۔

تیسری اصل

تیسری اصل جہان کے ہد ف مند ہونے کا انکار ہے جس کے نتیجہ میں خالق کے منکر ہونے کا لازمہ پیش آتا ہے، لہٰذا خدا کے وجود کے ثابت ہونے کے ساتھ یہ اصل بھی باطل ہوجاتی ہے، اس کے علاوہ یہ سوال باقی ہے کہ ایک عقلمند انسان اس منظم جہان کو دیکھتے ہوئے کس طرح ا س کے بے ھدف ہونے کو مان سکتا ہے جبکہ اس میںنہایت نظم و ضبط کے علاوہ بے شمار آثار و فوائد رونما ہیں۔

چوتھی اصل ۔

چوتھی اصل مادی موجودات میں علیت کو منحصر سمجھنا ہے، لیکن اس اصل پر بے شمار ا عتراضات ہیں جن میں سے مہم ترین ا عتراضات درج ذیل ہیں۔

پہلے یہ کہ اس اصل کی بنیاد پر اس جہان بینی میں کسی نئے موجود کا وجود میں آنا غیر ممکن ہے، حالانکہ ہم برابر عالم انسان اور حیوانات میں نئے موجودات کی پیدائش کے شاہد ہیں، کہ جن میں سے مہم ترین حیات، شعور، عواطف، احساسات اور افکار ہیں۔

ماٹریالیسٹوں کا کہنا ہے کہ یہ موجودات مادہ کے خواص کے علاوہ کچھ اور نہیں ہیں۔

تو ان کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کے امتداد اور تقسیم پذیری مادہ اور مادیات کی خصوصیات میں سے ہے جبکہ یہ خصوصیات ان کے وجود میں نہیں پائی جاتیں۔

اور وہ موجودات جنھیں مادہ کے خواص کے نام سے یاد کیا جاتا ہے بے شک یہ خواص بے جان مادہ میں نہیں پائے جاتے یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق مادہ ایک مدت تک ان خواص سے عاری ہے اور ایک مدت کے بعد وہ ان سے متصف ہوجاتا ہے ، پس وہ موجودات جنھیں خواص مادہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اسے بھی کسی خالق کی ضرور ت ہو گی جو اسے مادہ کی صورت میں وجود بخشے اور یہ وہی

علّت ہے کہ جسے علت ایجادی اور ہستی بخش کہتے ہیں۔

اس قول کے تحت ایک دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس قول کی بنیاد پر تمام موجودات کا وجود میں آنا جبری ہے، اس لئے کہ مادہ کی تأثیر اور اس کے تأ ثرات میں انتخاب و اختیار کا کوئی وجود نہیں ہے، اور اختیار سے انکار خلاف وجدان ہونے کے علاوہ تمام معنوی و اخلا قی اقدارکے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی ذمہ داریوں سے انکار کا ہے اور ظاہر ہے کہ معنوی اقدار اور ذمہ داری سے انکار کے نتیجہ میں انسانی زندگی میں کس طرح کے اثرات مرتب ہوں گے ؟! (وہ سب عیاں ہیں ) آخر کار، مادہ کے واجب الوجود نہ ہونے کی صورت میں جیسا کہ ثابت ہو چکا ہے، کسی نہ کسی علّت کی ضرورت ہو گی ،اور یہ علت کبھی بھی علت طبیعی اور علت اعدادی نہیں ہوسکتی، اس لئے کہ روابط تنہا مادیات میں ایک دوسرے کے ساتھ متصور ہیں، لیکن تمام مادہ کا، علت کے ساتھ اس طرخ کے رابطہ ہونے کا تصور نہیں کیا جا سکتا،لہذا جو علت بھی مادہ کو وجود بخشے گی وہ علت ایجادی اور ماوراء مادی ہوگی ۔

سوالات

١۔مادی جہان بینی کے اصول بیان کریں؟

٢۔مادہ اور مادی شی کی تعریف کریں؟

٣۔ پہلی اصل پر ہونے والے اشکالات کو بیان کریں؟

٤۔ دوسری اصل پر ہونے والے اشکالات کو بیان کریں؟

٥۔ تیسری اصل پر تنقید کریں؟

٦۔ چوتھی اصل پر ہونے والے اشکالات کو بیان کریں؟

____________________

(١)مفہوم مادہ اور اس کی تعریف سے زیادہ آشنا ئی کے لئے ٫٫پاسداری از سنگرہائی آئیڈیا لوجیک،، جہان بینی مادی ص ٢٩٧٢٩٢ اور آموزش فلسفہ ج٢ ص٤١اکتالیسویں درس کی طرف رجوع کریں۔

(۲)اس سلسلہ میں مزید اطلاح کے لئے آئیڈیا لوجی تطبیقی کے آٹھویں درس سے سولہویں درس تک، اور آموزش فلسفہ کے تیرہویں درس سے اٹھارہویں درس تک کا مطالعہ کیا جائے۔

(۳)نمونہ کے لئے آموزش فلسفہ ج٢ چوالیسویں درس سے انچاسویں درس کا مطالعہ کریں ۔

(۴)کتاب (نقدی فشردہ بر اصول مارکسیسم) میں دوسرے درس کی طرف رجوع کریں۔

(۵)اسی کتاب کے ساتویں اور آٹھویں درس کا مطالعہ کیا جائے اسی طرح کتاب آموزش فلسفہ کے باسٹھویں اور ترسٹھویں درس کا مطالہ کیا جائے۔

پندرہواں درس

ماٹریالیسم ڈیالٹیک اور اس پرتنقید

مکینکی اور ڈیالٹیکی ماٹریا لیسم

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے

قاعدہ تضاد اور اس پرتنقید

قاعدہ جہش اور اس پرتنقید

قاعدہ نفی نفی اور اس پرتنقید

مکینکی اورڈیالٹیکی ماٹریالیسم

ماٹریا لیسم کی مختلف شاخیں ہیں ،کہ جن میں سے ہر ایک اپنے اندار میں کائنات اور اس کی اشیا کی پیدائش کو بیان کرتا ہے لیکن عصر جدید کے آغاز میں ان لوگوں نے جہان کے موجودات کی پیدائش کو مکینکی حرکت کی بنیاد پر مفاہیم فیزیک نیوٹنی کے ذریعہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے، اور ہر اس حرکت کو قوتِ محرّکہ کا معلول سمجھا ہے کہ جو خارج سے جسم متحرک میں داخل ہوئی ہے، ایک اور تعبیر کے مطابق وہ لوگ اس جہان کو ایک عظیم گاڑی کی طرح تصور کرتے ہیں کہ جس میں قوت محرک ایک حصہ سے دوسرے حصہ میں منتقل ہوتی ہے اور اس طرح یہ عظیم گاڑی حرکت میں آجاتی ہے۔

یہ فرضیہ (ماٹریالیسم مکینکی) کے نام سے مشہور ہوا ہے مختلف جہت سے اس نظریہ کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ، مخالفین کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ،منجملہ یہ کہ اگر ہر حرکت ،قوت خارجی کا معلول ہے تو اس صورت میں جہان کے مادۂ اول کے لئے بھی ،کسی قوت کو فرض کرنا ہوگا کہ جو خارج سے اس کے جسم میں داخل ہوئی ہو اور اس امر کا لاز می نتیجہ یہ ہو گا ،ماوراء مادہ ایک قوت کوقبول کرنا ہو گا ہ جو کم از کم عالم مادہ میں پہلی حرکت کا عامل بنی ہو۔

دوسرا نقطہ ضعف یہ ہے کہ مکینکی قوت کے ذریعہ صرف وضعی اورا نتقالی حرکات کی توجیہ کی جا سکتی ہے حالانکہ تمام موجودات جہان کو مکانی تغیرات میں منحصر نہیں سمجھا جا سکتا، لہٰذا موجودات جہان کی پیدائش میں کسی اور موجود کو عامل ماننا پڑے گا۔

ان اعتراضات کے سامنے مکینکی ماٹریالیسم کی ناتوانی سبب بنی ،کہ وہ لوگ اس جہان کی پیدائش کے لئے کسی دوسرے عامل کی تلاش شروع کریں لہذا انھوں نے بعض حرکات کو بصورت ڈینامیکی تفسیر کی ، اور مادہ کے لئے ایک قسم کی خود تحرکی کا نظریہ تسلیم کر لیا ۔

مکتب ماٹریا لیسم دیالٹیک کے نظریہ کی بنیا د رکھنے والے منجملہ (مارکس و انگلس ہگل) ہیں کے انھوں نے مادی موجودات کے باطنی تضاد کو عامل حرکت کے عنوان سے پہچنوانے کی کوشش کی ہے، اور اصول مادہ کا ابدی اور خلق ہونے سے مبرا ہونا، موجودات کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا اور اجتماعی حرکت کو قبول کرنے کے علاوہ اپنے فرضیہ کو ثابت کرنے کے لئے جدید اصول پیش کئے ۔

(١) فاعدہ تضاد (٢) کمی تغیرات کو کیفی تغیرات میں تبدیل کرنا (٣) قاعدہ نفی نفی یا (طبیعت میں تحقیق و جستجو کا قانون) اب اس کے بعد ہم ان تینوں اصل کو بیان کریں گے اور اس پر ہونے والے اعتراض کو ذکر کریں گے۔

٫٫قاعدہ تضاد،، ماٹریالیسم ڈیالٹیک کے مطابق ہر موجود دو ضدوں سے مرکب ہے (فعال و غیر فعال ) ( THESE ANTI THESE ) موجودات میںتضاد کا پایا جاناحرکت کا سبب ہے، یہاں تک کہ غیرفعال غالب ہوجاتا ہے اور ایک دوسرا موجود جو (انقلاب) ( CENTTHESE ) کے نام سے وجود میں آتا ہے، جیسے انڈا جو اپنے آغاز میں ایک نطفہ ہوتا ہے کہ جو آہستہ آہستہ رشد کرتا ہے اور ایک مدت کے بعد ایک بچہ جو بہ صورت انقلاب ( CENTTHESE ) ہے وجود میں آتا ہے۔

فیزیک میں مثبت اور منفی ،تضاد کا ایک نمونہ ہے جس طرح سے کہ جمع و تفریق ابتدائی ریاضیات میں تضاد کا ایک نمونہ ہے، اور کامل ریاضی میں جمع اور تفریق تضاد کا ایک نمونہ ہے یہ کیفیت موجودات اجتماعی اور تاریخی میں بھی قابل مشاہدہ ہے مثلاً دولت مندوں کے مقابلہ میں فقراء غیر فعال

( ANTI THESE ) ہیں جو آہستہ آہستہ رشد کرتے ہیں اور دولتمندوں کے مقابلہ میں کامیاب ہوجاتے ہیںاس طرح دولتمندوں کے مقابلہ میں انقلاب ( CENTTHESE ) فقراء کی جماعت بصورت سوسیالسٹی اور کمیونسٹی وجود میں آجاتی ہے۔

تنقید۔

آغاز سخن میں اس نکتہ کی طرف توجہ رہے کہ دو مادی موجودکا اس طرح اکٹھا ہونا کہ ایک دوسرے کی تضعیف کا سبب بنے ، یا ایک دوسرے کی نابودی کا درپے ہو، اس مطلب کو ہر ایک نے قبول کیا ہے جیسا کہ اس کی مثال آگ اور پانی کے اکٹھا ہونے کی صورت میں دی جاتی ہے لیکن یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے اور اسے تمام موجودات پر صادق آنے وا لے قاعدہ کے عنوان سے نہیں مانا جا سکتا، اس لئے کہ اس ضمن میں سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔

دوسرے یہ کہ بعض مادی موجودات میں تضاد کا پایا جانا ، اس تناقض و تضاد سے کہ جو منطق و فلسفہ کی کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں ، اور جن کا محال ہونا بدہی ہے کسی بھی حال میں کوئی ربط نہیں ہے، اس لئے کہ (موضوعِ واحد)میں اجتماعِ ضدین کو محال سمجھا گیا ہے اور جو مثالیں بیان کی گئیں ہیں ان میں موضوعِ واحد نہیں ہے،اور مارکسسٹوں نے ضدین کے تحت جو مثالیں (اجتماع جمع و تفریق میں) پیش کی ہیں ان کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اسی طرح ان پیشنگوئیوں کو ذکر کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے جو نظام سرما یہ داری سے متصف ممالک میں حکو مت و کارگر کے قیام میں بیان کی گئی ہیں۔

تیسرے یہ کہ اگر ہر موجود دو ضدوں کا مجموعہ ہو تو ان میں فعاّل اور غیر فعّال کے لئے بھی ایک دوسری ترکیب کو فرض کرنا پڑے گا، اس لئے کہ وہ بھی ایک موجود ہیں، اور اصل مذکور کی بنیاد پر ان کا بھی دو ضدوں سے مرکب ہونا ضروری ہے، اس طرح ہر محدود موجود کا بے نہایت اضداد سے مرکب ہونا لازم آتا ہے۔

لیکن وہ باطنی تضاد جسے عاملِ حرکت کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے اور اس طرح مکینکی ماٹریالیسم کے نقطہ ضعف کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس پر ہونے والے اعتراضات میں سے ایک معمولی ا عتراض یہ ہے کہ اس فرضیہ کے لئے کسی بھی علمی دلیل کا وجود نہیں ہے اس کے علاوہ خارجی قوت کے ذریعہ وجود میں آنے والی مکینکی حرکت سے کسی بھی حال میں انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن فوٹبال کی حرکت کو اس کے داخلی تضاد کا نتیجہ سمجھنا باطل ہے۔

قاعدہ جہش۔

چونکہ جہان میں ہونے وا لے تغیرات تدریجی اور ایک سمت میں رواں نہیں ہیں، اور بعض اوقات ایسے موجودات میں وجود پائے جاتے ہیں کہ جو گذشتہ موجودات سے کسی بھی صورت میں مشابہ نہیں ہوتے اور انھیں گذشتہ حرکت کی ایک کڑی نہیں مان سکتے لہٰذا مارکسسٹوں نے ایک دوسری اصل بنام ''جہش'' یا بنام (تغیرات کمی (مقداری )سے تغیرات کیفی میں منتقل ہو جانا) کا سہارا لیا اور اس طرح بیان کرنے کی کوشش کی، کہ تغیرات کمی جب ایک معین حد تک پہنچ جاتی ہے تو وہ تغیری کیفی کی پیدائش کا سبب بن جاتی ہے جس طرح سے کہ جب پانی کی حرارت ایک معین مقدار تک پہنچ جائے تو وہ پانی بخار میںتبدیل ہو جاتا ہے یا جب ایک دھات حرارت میں اپنی معین مقدار کو پہنچ جائے تو وہ پگھل جاتی ہے اسی طرح جب سماج میں اختلافات شدید ہوجا ئے تو انقلاب وجود میں آجاتا ہے۔

تنقید۔

پہلے تو یہ کہ کسی بھی حال میں کمیت کیفیت میں نہیں بدلتی، ہاں اتنا ضرور ہے کہ کسی خاص موجود کی پیدائش میں ایک معین کمیّت کے وجود کی ضرورت ہے، جیسے پانی کا درجہ حرارت،بخار میں تبد یل جہیں ہوتا بلکہ پانی کے بخار میں تبدیل ہونے کے لئے ایک معین مقدار میں حرارت کا پایا جانا ضروری ہے۔

دوسرے یہ کہ ،ضروری نہیں ہے کہ یہ کمیت لازم ، سابقہ کمیت میں بالتدریج اضافہ کی وجہ سے ہے ، بلکہ سابقہ کمیّت میں کمی واقع ہونے کے سبب جدید کمیت کے وجود میں آنے کا امکان ہے، جیسے کہ بخار کا پانی میں تبدیل ہونا حرارت کے کم ہونے پر مشروط ہے۔

تیسرے یہ کہ کیفی تغیرات ہمیشہ ناگہانی نہیں ہیں، بلکہ بہت سے مقامات پر تدریجی ہوتے ہیں، جیسا کہ موم اور شیشہ کا پگھلنا تدریجی ہے۔

ہاں جس حقیقت کو یہاںمانا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ بعض طبیعی موجودات کے متحقق ہونے کے لئے ایک کمیت کا ہونا ضروری ہے، لیکن کمیت کا کیفیت میں تبدیل ، کمیت میں تدریجی ا عتبار سے اضافہ کا لازم ہونا اور تمام کیفی تغیرات کے لئے ا یسی کلیت کو تسلیم کرلینا ، کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں، لہذا قانون جہان شمول بنام (تغیرات کمی سے تغیرات کیفی میں منتقل ہوجانے )کا کوئی وجود نہیں ہے۔

قاعدہ نفی نفی۔

قاعدہ نفی نفی کا مطلب کہ جسے کبھی قانون تکامل ضدین یا جستجو طبیعت کا نام دیا جاتا ہے یہ ہے دیالتکی تحولات اور تغیرات میں ہمیشہ فعال ( THESE )کے ذریعہ غیر فعال ( ANTI THESE ) کی نفی کی جاتی ہے اور خود بخود غیر فعال انقلاب ( CENTTHESE ANTI THESE ) کے ذریعہ منتفی ہو جاتا ہے، جیسا کہ گھاس دانہ کی نفی کرتی ہے اور خود وہ گھاس نئے دانوں کے وجود میں آجانے کی وجہ سے منتفی ہو جاتی ہے ، اسی طرح نطفہ انڈے کی نفی کرتا ہے اور وہ خود چوزہ کے ذریعہ منتفی ہوجاتا ہے، یعنی ہر آنے والاوجود گذشتہ موجود کی بہ نسبت کامل تر ہوتا ہے اور اس اصل قاعدہ کی اہمیت اسی نکتہ میں پوشیدہ ہے کہ یہ (تغیرات کی کیفیت کو آشکار کرتی ہے، اور تغیرات کو کمال کی جانب رواں دواں ہونے کی طرف تاکید کرتی ہے۔

تنقید۔

اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر تغیر و تحول کے بعد سابقہ حالت متغیر ہو جاتی ہے اور ایک جدید شکل اختیار کرلیتی ہے اور اگر قاعدہ نفی نفی کو اسی معنی میں لیا جائے تو پھر اس کے معنی لوازم تغیر کے بیان کرنے کہ علاوہ کچھ اور نہیں ہیں لیکن اس اصل کے لئے جن تفسیروں کو ذکر کیاگیا ہے وہ جہت حرکت اور اس کے تکاملی(بہ تدریج کامل) ہونے کو بیان کرنے والی ہیں لہذا اس کے مطابق یہ کہنا بہتر ہے کہ جہان کے تمام تغیرات کا مطلب یہ ہے کہ ہر ہونے والا وجود گذشتہ موجود سے کامل ہونا چائیے، لیکن یہ امر قابل قبول نہیں ہے ، کیا ٫٫ یو رنیسم ،، شعاعوں کے اثر سے سرب میں تبدیل ہونے کی وجہ سے کامل ہو جاتی ہے ؟ کیا پانی بخار میں بدل جانے کے بعد تکامل یافتہ ہو جاتا ہے ؟ یا بخار کے پانی میں بدل جانے کی وجہ سے اسے کمال مل جاتا ہے ؟کیا جو درخت خشک ہوجاتے ہیں اور ثمر دینے کی قوت کھو ب بیٹھتے ہیں وہ راہ کمال کی طرف گامزن ہیں ؟ ان تمام شواہد کے ہوتے ہوئے صرف بعض موجودات کے سلسلہ میں قانون تکامل کو مانا جاسکتا ہے، لیکن تمام موجودات کے لئے ایک کلی قانون ہونے کے عنوان سے اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

آخر کار اس امر کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ اگر بالفرض ان تمام اصول (قو اعد ) کا کلی ہونا مان لیا جائے تو یہ علوم طبیعی میں ثابت شدہ قوانین موجودات کی پیدائش کی کیفیت ہی کو بیان کرسکتے ہیں، لیکن جہان میں قانون کلی کے ثابت ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ موجودات علت جھان آفرین سے بے نیاز ہوں، اور جیسے کہ ہم سابق میں بیان کر چکے ہیں کہ مادہ اور مادیات ممکن الوجود ہیں، لہٰذا ان کا واجب الوجود کا محتاج ہونا ضروری ہے۔

سوالات

١۔ ماٹریالیسم ڈیالٹیکی اور مکینکی کے درمیان موجود فرق کی وضاحت کریں؟

٢۔ قاعدہ تضاد کی شرح پیش کریں اور اس پر ہونے والے اشکالات ذکر کریں؟

٣۔ قاعدہ جہش اور اس پر ہونے والے اشکالات ذکر کریں؟

٤۔ قاعدہ نفی نفی کو بیان کرتے ہوئے اس پر تنقید کریں؟

٥۔ کیا ان قواعد کے کلی ہونے کی صورت میں انکا جہان کے خالق سے بے نیاز ہونا ثابت ہوتا ہے؟ کیوں؟