دینی تعلیم

دینی تعلیم8%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40963 / ڈاؤنلوڈ: 3166
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

دینی تعلیم

محمد حسین طباطبائی

(مفسر تفسیر المیزان)

مرتّبہ: سید مہدی آیت اللّہی

مترجم: سید قلبی حسین رضوی

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

پروردگار عالم نے ارشاد فرمایا:

( اِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْراً )

(سورۂ احزاب : آیت ٣٣)

اے اہلبیت اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم سے رجس اور گندگی کو دور رکھے اور تمہیں اسی طرح پاک رکھے جوپاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ آیۂ مبارکہ پنجتن اصحاب کساء کی شان میں نازل ہوئی ہے اور '' اہل بیت'' سے مراد وہی حضرات ہیں اور وہ : محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علی ، فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام ہیں۔نمونہ کے طور پر ان کتابوں کی طرف رجوع کریں:مسند احمد بن حنبل(وفات ٢٤١ ھ ):ج١، ص٣٣١،ج٤،ص١٠٧، ج٦،ص٢٩٢ و ٣٠٤؛ صحیح مسلم(وفات٢٦١ ھ) : ج٧،ص١٣٠؛ سنن ترمذی(وفات ٢٧٩ ھ ): ج٥،ص٣٦١ و...؛ الذریة الطاہرة النبویة دولابی(وفات: ٣١٠ ھ ): ص١٠٨؛ السنن الکبریٰ نسائی(وفات ٣٠٣ ھ ): ج٥ ،ص١٠٨ و ١١٣؛ المستدرک علی الصحیحین حاکم نیشاپوری(وفات: ٤٠٥ ھ ):ج٢، ص ٤١٦، ج٣،ص١٣٣و ١٤٧ و ١١٣؛ البرہان زرکشی(وفات ٧٩٤ ھ ) ص١٩٧؛ فتح الباری شرح صحیح البخاری ابن حجر عسقلانی(وفات ٨٥٢ ھ):ج٧،ص١٠٤؛ اصول الکافی کلینی(وفات ٣٢٨ ھ ): ج١،ص ٢٨٧ ؛ الامامة و التبصرة ابن بابویہ (وفات ٣٢٩ ھ): ص٤٧، ح٢٩؛ دعائم الاسلام مغربی(وفات ٣٦٣ ھ):ص٣٥ و ٣٧؛ الخصال شیخ صدوق(وفات ٣٨١ ھ):ص٤٠٣ و ٥٥٠؛ الامالی شیخ طوسی(وفات ٤٦٠ ھ):ح ٤٣٨،٤٨٢ و ٧٨٣ نیز مندرجہ ذیل کتابوں میں اس آیت کی تفسیر کی طر ف مراجعہ کریں: جامع البیان طبری(وفات ٣١٠ ھ)؛ احکام القرآن جصاص(وفات ٣٧٠ ھ )؛ اسباب النزول واحدی(وفات ٤٦٨ ھ)؛ زاد المسیر ابن جوزی(وفات٥٩٧ ھ)؛ الجامع لاحکام القرآن قرطبی(وفات ٦٧١ ھ)؛ تفسیر ابن کثیر (وفات ٧٧٤ ھ)؛ تفسیر ثعالبی (وفات٨٢٥ ھ)؛ الدر المنثور سیوطی(وفات ٩١١ ھ)؛ فتح القدیر شوکانی(وفات ١٢٥٠ ھ)؛ تفسیر عیاشی(وفات ٣٢٠ ھ)؛ تفسیر قمی(وفات:٣٢٩ ھ)؛ تفسیر فرات کوفی (وفات ٣٥٢ ھ) آیۂ اولوا الامر کے ذیل میں ؛ مجمع البیان طبرسی(وفات ٥٦٠ ھ) اور بہت سی دوسری کتابیں۔

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہوتاہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ ونکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کا فور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کاسورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الہی پیغامات، ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عر صے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماندپڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہب عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام او ر ان کے پیروؤں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اورناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کاشکار ہوکراپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکارو نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگیں تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن او رمکتب اہل بیت علیہ السلام کی طرف اٹھی او رگڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکر و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اوردوستداران اسلام سے اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں، یہ زمانہ عملی اور فکری مقابلے کازمانہ ہے اورجو مکتب بھی تبلیغ او رنشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیاتک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کو نسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیروؤں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایاہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر اندازسے اپنا فریضہ ادا کرے، تا کہ موجود دنیا ئے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف وشفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق وانسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خون خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین ومصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنی خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، علامہ طباطبائی کی گرانقدر کتاب ''دینی تعلیم'' کو مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیاہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیںاور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں او رمعاونیں کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنی جہاد رضائے مولی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

دینی معلومات

لفظ ''دین'' کثیر الاستعمال الفاظ میں سے ایک ہے ۔عام طور پر دیندار اسے کہتے ہیں جو کائنات کے لئے ایک خداکا قائل ہو اور اس کی خوشنودی کے لئے خاص قسم کے اعمال بجا لاتاہو۔

ممکن ہے ہر معاشرے اور ملت میں ، قانون کے مطابق معاشرہ کے ہر فرد کے لئے فرائض معین ہوئے ہوں ،اور ان پر لوگ عمل کرتے ہوں، تو یہ تصور کیا جائے کہ وہاں پھر''دین'' کی ضرورت نہیں ہے ،لیکن اسلام کے احکا م اور ضوابط پر سنجیدگی سے غور کرنے سے اس معنی کے خلاف ثابت ہو تا ہے ،کیونکہ دین اسلام صرف خدا کی عبادت و ستائش تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس میں انسا ن کے تمام انفرادی و اجتماعی مسائل کے لئے جامع قواعد و ضوابط اور مخصوص قوانین وضع کئے گئے ہیں اور بشریت کی وسیع دنیا کے بارے میں حیرت انگیز صورت میں تحقیق کی گئی ہے۔اور انسان کی ہر انفرادی و اجتماعی حرکت و سکون کے لئے مناسب قوانین وضع کئے گئے ہیں ۔ایسے دین کو تکلفاتی اور رسمی دین سے تشبیہ یا نسبت نہیں دی جاسکتی ہے ۔

خدائے متعال نے قرآن مجید میں دین اسلام کو مذکورہ بیان شدہ کیفیت میں تو صیف فرمائی ہے اور اس کے علاوہ یہودیت و نصرانیت کوکہ جن کی آسمانی کتا بیں توریت و انجیل ہیں اور ان میں اجتماعی احکام وقواعدوضوابط ہیں ۔اسی صورت میں بیان فر مایا ہے، چنانچہ فر ماتا ہے:

( وکیف یُحکّمو نکَ وعندهم التّورٰة فیها حکم اللّه انّا انزلنا التورٰة فیها هدیَ وّ نور یحکم بها النبیّون الّذین اسلموا للّذین هادوا والرّبّنیون والاحبار.وقفینا علی أثارهم بعیسیٰ ابن مریم وء اتینه الانجیل فیه هدی وّنور و مصدقاً لما بین یدیه من التورٰة و هدی وّ موعظة للمتّقین و لیحکم اهل الانجیل بما انزل اللّه فیه و انزلنا الیک الکتٰب بالحق مصد قاً لما بین یدیه من الکتب ومهیمنا علیه فاحکم بینهم بما انزل اللّه ) (مائدہ٤٣۔٤٨)

'' اوریہ کس طرح آپ سے فیصلہ کرائیں گے جب کہ ان کے پاس توریت موجود ہے جس میں حکم خدا بھی ہے... بیشک ہم نے توریت کو نازل کیاجس میں ہدایت اور نور ہے اور اس کے ذریعہ اطاعت گزار انبیاء یہودیوں کے لئے فیصلہ کرتے ہیں اور اللہ والے علماء یہود... اور ہم نے انھیں انبیاء کے نقش قدم پر عیسی بن مریم کو چلا یا۔...اور ہم نے انھیں انجیل دیدی جس میں ہدایت اور نور تھا اور وہ اپنے سامنے کی توریت کی تصدیق کر نے والی اور ہدایت تھی اور صاحبان تقوی کے لئے سامان نصیحت تھی اہل انجیل کو چاہئے کہ خدانے جو حکم نازل کیا ہے اس کے مطابق فیصلہ کریں ۔...اور اے پیغمبر!ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے جو اپنے پہلے کی توریت اور انجیل کی مصداق اور محافظ ہے لہذا آپ ان کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق فیصلہ کریں ''

توریت اور انجیل۔ جو اس وقت یہودو نصاری کے ہاتھ میں ہیں۔ بھی اسی مطلب کی تائید کرتی ہیں،کیونکہ توریت میں بہت سے قوانین اور تعزیراتی ضوابط موجود ہیں اورظاہری طور پرانجیل بھی توریت کی شریعت کی تائید وتصدیق کرتی ہے۔

نتیجہ

مذکورہ بیان سے واضح ہوتا ہے کہ''قرآن مجید کی اصطلاح میں دین '' کہ وہی زندگی کی روش ہے،اور اس سے انسان پہلو تہی نہیںکرسکتا ۔دین اور ایک اجتماعی قانون کے درمیان جو فرق پایا جا تا ہے وہ یہ ہے کہ دین خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور اجتماعی قانون لو گوں کے افکار کی پیداوار ہو تا ہے ۔دوسرے الفاظ میں دین لوگوں کی اجتماعی زندگی اور خدائے متعال کی پر ستش اور اس کی فرمانبرداری کے درمیان ایک ربط پیداکرتا ہے ،لیکن اجتماعی قانون میں اس رابط کی کوئی اہمیت نہیں ہو تی ہے۔

خداکے قانون سے رابط کا اچھا اثر

''دین''انسان کی اجتماعی زندگی اور خدائے متعال کی پر ستش کے درمیان رابطہ پیدا کرنے کے نتیجہ میں انسان کے تمام انفرادی و اجتماعی اعمال کو خدائی ذمہ داری قرار دے کر اس کو خدا کے لئے جواب دہ جانتاہے ۔چو نکہ خدائے متعال اپنی لامحدود قدرت اوربے پناہ علم کی بناپر ہر جہت سے انسان پر احاطہ رکھتا ہے اور اس کے دل ودماغ کے تمام اسرارو افکارسے مکمل طور پر آگاہ ہے اور اس سے کوئی چیز پو شیدہ نہیں ہے، اسی لئے دین نے بشری قانون کی طرح امور کے نظم و نسق کو باقی رکھنے کے لئے محافظ اور نگہبان مقرر کئے ہیں اور مخالفت وسرکشی کر نے والوں کی سزاکے لئے قوانین وضع کر کے بشری قانون کی نسبت ایک اور امتیاز حاصل کیاہے اور وہ یہ کہ :دین،انسان کی حیرت اور ہوشیار ی کی باگ ڈور کو ایک باطنی و ابدی محافظ کے ہاتھ میں دیتا ہے۔کیو ںکہ دین سے نہ غفلت ہوتی ہے اور نہ خطا اور اس کی جزا اور سزا سے کوئی بچ نہیں سکتا ۔خدائے متعال فرماتا ہے:

( وهو معکم این ما کنتم ) (حدید٤)

''اور تم جہاں بھی ہو ،وہ تمہارے ساتھ ہے''

( واللّه بمایعملون محیط ) (انفال٤٧)

''اور اللہ ان کے کام کااحاطہ کئے ہوئے ہے''

( وانکلا لما لیوفینهم ربّک اعمالهم ) ( ہود١١١)

''اور یقینا تمہارا پروردگار سب کے اعمال کاپوراپورا بدلہ دے گا۔''

اگرہم قانون کے دائرہ میں زندگی کر نے والے کے حالات کادین کے دائرہ میں زندگی کرنے والے کے حالات سے مواز نہ کریں گے تو دین کی برتری واضح اور روشن ہو جائے گی ۔کیونکہ جس معاشرے کے تمام افراد متدین ہوں اور اپنے دینی فرائض کو انجام دیں، ہر حالت میں خدائے متعال کو اپنے کاموں میں حاضر وناظر جانیں ،تو وہ ایک دوسرے سے بد ظن نہیںہوتے ہیں ۔

اس لئے ایسے ماحول میں زندگی کر نے والے عوام الناس،ایک دوسرے کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہتے ہیں اور نہایت ہی آرام و مسرت کی زندگی گزارتے ہیں اور انھیں کوابدی سعادت نصیب ہوتی ہے۔لیکن جس ماحول میں صرف بشری قانون کی حکمرانی ہوتی ہے وہاں پر،جب تک لوگ اپنے کام پرکسی کو نگراں محسوس کرتے ہیں اس وقت تک وہ کام میں کوتاہی نہیں کرتے ،ورنہ ممکن ہیکہ وہ ہر طرح کی کوتاہی کے مر تکب ہو ں ۔

جی ہاں ،اخلاق کے پابند معاشرے میں ،جو دلی سکون پایا جاتا ہے،وہ اسی دین کا مرہون منت ہوتاہے نہ کہ قانون کا ۔

دوسرے الفاظ میں ،دین،ایسے عملی و اخلاقی عقائد وضوابط کا مجموعہ ہے ،جسے انبیاء خدا کی طرف سے انسان کی راہنمائی اورہدایت کے لئے لائے ہیں ۔ان عقائد کو جاننا اور ان احکام پر عمل کرنا انسان کے لئے دونوں جہاںمیں سعادت کا سبب بنتا ہے ۔

اگر ہم دیندار ہوں اور خداو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احکام کی اطاعت کریں تو اس ناپائدار دنیا میں بھی خوش قسمت اوردوسری دنیا کی ابدی اور لامحدود زندگی میں بھی سعادت مند ہوں گے۔

وضاحت:ہم جانتے ہیں کہ سعادت مند وہ شخص ہے جس نے اپنی زندگی اشتباہ اور گمراہی میں نہ گزاری ہو ،اس کے اخلاق پسندیدہ ہوں اور نیک کام انجام دیتا ہو۔خدا کا دین ہمیں اسی سعادت اور خوش بختی کی طرف ہدایت کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ:

اولاً:جن صحیح عقائد کو ہم نے اپنی عقل وشعور سے درک کیا ہے ،انھیں مقدس و محترم جانیں ۔

ثانیا ً: ہم پسندیدہ اخلاق کے مالک ہوںاور حتی الامکان اچھے اور شائستہ کام انجام دیں، اس بناء پر دین تین حصوں میں تقسیم ہو تا ہے :

١۔عقائد

٢۔اخلاق

٣۔عمل

١۔عقائد

اگر ہم اپنی عقل وشعور کی طرف رجوع کریں تودیکھیں گے کہ اس عظیم اور وسیع کائنات کی ہستی،اس حیرت انگیز نظا م کے ساتھ ، خودبخود وجود میں آنا ۔ اور اس کا اول سے آخر تک کانظم و نسق،کسی منتظم کے بغیر ہونا ممکن نہیں ہے۔یقینا کوئی خالق ہے،جس نے اپنے لامحدودعلم وقدرت سے اس عظیم کائنات کوپیدا کیا ہے اور تمام امور میں پائے جانے والے ثابت وناقابل تغیر قوانین کے ذریعہ کائنات کے نظام کوانتہائی عدل وانصاف کے ساتھ چلایاہے ۔کوئی بھی چیز عبث خلق نہیں کی گئی ہے اور کوئی بھی مخلوق خدائی قوانین سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔

لہذا یہ باور نہیں کیا جاسکتا ہے کہ،ایسا مہر بان خدا،جو اپنی مخلوق پر اس قدر مہربان ہے،انسانی معاشرے کوانسان جو زیادہ ترنفسانی خواہشات کا اسیر بن کر،گمراہی اور بدبختی سے دوچار ہو تا ہے ۔کی عقل کے رحم وکرم پر چھوڑدے ۔

اس بناپر،معصوم انبیاء کے ذریعہ بشرکے لئے ایسے قواعد وضوابط کابھیجنا ضروری ہے تاکہ ان پر عمل کر کے انسان سعادت و خوش بختی تک پہنچ جائے ۔

چونکہ پروردگار کے احکام کی اطاعت کی جزا اس دنیا کی زندگی میں مکمل طور پر ظاہر نہیں ہو سکتی ،لہذا ایک دددوسرے جہان کا ہونا ضروری ہے کہ جہاں پرلوگوں کا حساب و کتاب ہو، اگر کسی نے نیک کام انجام دیا ہے تو اسے اس کی جزا ملے اور اگر کسی سے کوئی برا کام سرزد ہوا ہو تو اسے اس کی سزا ملے ۔

دین ،لوگوں کو ان اعتقادات اوردیگر تمام حقیقی عقائد ۔جن کو ہم بعد میں تفیصل سے بیان کریں گے ۔کی طرف تشویق کر تاہے اور انھیں جہل وبے خبری سے پرہیز کرنے کی تاکید کرتا ہے۔

٢۔اخلاق

دین،کا ہم سے مطالبہ یہ ہے کہ زندگی میں پسندیدہ صفات اختیار کریں اور اپنے آپ کو قابل ستائش اورنیک خصلتوں سے آراستہ کریں ۔ہم فرض شناس،خیر خواہ، انسان دوست، مہر بان ،خوش اخلاق اور انصاف پسند بن کر حق کا دفاع کریں ۔اپنے حدوداور حقوق سے آگے نہ بڑھیںاور لوگوں کے مال ،عزت ،آ برو او رجان پر تجاوز نہ کریں ۔علم ودانش حاصل کرنے میں کسی بھی قسم کے ایثار اور فدا کار ی سے دریغ نہ کریں، خلاصہ یہ کہ اپنی زندگی کے تمام امور میں عدل وانصاف اور اعتدال کو اپنا شیوہ قرار دیں ۔

٣۔عمل

دین ،ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں وہ کام انجاں دیں جن میں ہماری اپنی اور اپنے معاشرے کی خیر وصلاح ہو ۔اورفساد وتباہی مچانے والے کاموں سے پرہیز کریں۔ اس کے علاوہ دین ہمیں یہ بھی حکم دیتا ہے کہ خدائے متعال کی عبادت وپرستش کے عنوان سے کچھ اعمال جیسے نماز، روزہ وغیرہ ۔جو بندگی اور فرمانبرداری کی نشانی ہے۔کو بجا لائیں۔

یہ وہ قواعد وضوابط اور احکام ہیں ،جنھیں دین لے کر آیا ہے اور ہمیں ان کی طرف دعوت دیتا ہے ۔چنانچہ واضح ہے کہ ان ضوابط اور احکام میں سے کچھ کا تعلق عقیدہ سے کچھ کا اخلاق سے اور کچھ کا عمل سے ہے ، جیسا کہ بیان ہوچکا ہے کہ ان کو قبول کرنا اور ان پر عمل کرنا ہی انسان کے لئے سعادت و خوش بختی ہے ،کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انسان کے لئے سعادت حاصل کرنا ممکن نہیں ہے مگر یہ کہ حقیقت شناس ہو اور پسندیدہ اخلاق و اعمال پر مبنی زندگی بسر کرے۔

دین کافطری ہون

انسان اپنی فطرت اورخداداد طینت کے لحاظ سے دین کاخواہاں ہے ،کیو نکہ انسان اپنی زندگی کے سفر میں سعادت حاصل کرنے کے لئے مسلسل ہاتھ پائوں مارتا ہے اور اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ان اسباب ووسائل سے استفادہ کرتاہے جواس کے مقاصد میں مؤثر ہیں ،بیشک وہ ہمیشہ ایسے سبب کی تلاش میں ہوتاہے جو مؤثر ہو اور وہ ناکام نہ ہو ۔دوسری طرف ہم عالم طبیعت میں کوئی ایسا سبب نہیں پاتے ہیں جس کا اثر دائمی ہو اور وہ کبھی رکاوٹوں کے مقا بلہ میں نا کام نہ ہو۔

انسان فطرت کے مطابق اپنی سعادت کے لئے ایک ایسا سبب چاہتا ہے جو ناکام نہ ہو اور ایک ایسا پشت پناہ بھی چایتا ہے کہ جو کبھی ساتھ نہ چھوڑے تاکہ اپنی زندگی کو اس سے منسلک کر دے اور باطنی آرام وسکون حاصل کر سکے ،حقیقت میں دین بھی یہی چاہتاہے۔ کیونکہ صرف خدائے متعال ہے جو اپنے ارادہ میں ہر گز مغلوب و ناکام نہیں ہو تا ہے اور عذر و قصور اس کے لئے قابل تصور نہیں ہے، اور خدائے متعال سے مربوط زندگی کے طریقوں کا نام ہی ''دین اسلام ہے''۔

اس بنا ء پریہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی فطری خواہش ،دین کے تین بنیادی اصو لوں توحید،نبوت اور معاد کو ثابت کرنے کے بہترین دلائل میں سے ایک ہے،کیونکہ فطری ادراک دوستی اور دشمنی کے مفہوم کو مخلوط نہیں کر تاہے اورتشنگی کو سیراب نہیں سمجھتا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ بعض اوقات انسان یہ تمنا کرتا ہے کہ پرندے کے مانند اس کے بھی پر ہوتے تا کہ پر واز کر تا یاایک ستارہ کے مانند آسمان پر ہو تااور طلوع وغروب کرتا ،لیکن ان کی حقیقت محض ایک تصور ہے یہ اور بات ہے کہ انسان دل کی گہرائیوں سے اپنی سعادت، مطلق راحت وسکون یا انسانی تقاضوں کی بناپر وہ سنجیدہ زندگی کی خاطر ایک پناہ گاہ کی تلاش میں ہے اور ہر گز اس سے منہ نہیں موڑ تا ہے۔

اگر کائنات میں ناقابل مغلوب سبب (خدا)نہ ہو تا تو انسان اپنی بے آلائش طبیعت سے اس کی فکر میں نہیں پڑ تا اور اگر مطلق وآرام (جوآخرت کا سکون وآرام ہے)کا وجود نہ ہوتاتو انسان فطری طورپر اس کو پانے کی فکر ہی نہ کرتا اور اگر دینی طریقہ(جو نبوت کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے ) حق نہ ہو تا ،تو انسان کے باطن میں اس کی تصویر بھی نہ ہو تی ۔

انسان مختلف قسم کی جسمانی و روحانی ،مادی ومعنوی ضرورتیں رکھتا ہے کہ جس کو اجتماعی زندگی کے ذریعہ دور کیا جا سکتا ہے اور انسانی معاشر ے کا ہر فرد عام و سائل کو استعمال کر کے،کسی رکاوٹ کے بغیر ،اس دنیا کی چند روزہ زندگی کو آرام وآسائش میں گزارتا ہے اور دوسری دنیا کے لئے زادراہ حاصل کرتا ہے،پس انسانی معاشرے میں ایک ایسا قانون نافذ ہونا چاہئے جو خالق کائنات کے ارادہ کے مطابق اور فطرت و خلقت سے ہم آہنگ ہو۔ اس قانون کے مطابق ہر ایک کو اپنی جگہ پر قرار پانا چاہئے اور معاشرے میں اپنی قدرو منزلت کے مطابق اس سے استفادہ کرے اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرنے سے پرہیز کرے آخر کارمعاشرے کے تمام لوگ خدائے متعال کے ارادہ کے سامنے تسلیم ہو جائیں اور سب آپس میں بھائی بھائی اور حق وانصاف کے مقا بلہ میں برا بر ہو جائیں ۔

دین کے فائدے

مذکورہ بیانات سے ثابت ہوگیا کہ فرداور معاشرے کی اصلاح میں دین ایک گہرا اثر رکھتاہے بلکہ یہ سعادت ونیک بختی کا منفرد وسیلہ ہے ۔جو معاشرہ دین کا پابند نہ ہو وہ حقیقت پسندی اورجدت فکرسے محروم ہے ،ایسے معاشرے کے لوگ اپنی قیمتی زندگی کو گمراہی اور ظاہر داری میں گزارتے ہیں ،عقل کو پامال کر کے حیوانوں کی طرح تنگ نظری اور بیوقوفی میں زندگی گزارتے ہیں اور اخلاقی انحطاط اورکردار کی پستی کا شکار ہوتے ہیں اور اس طرح انسانی خصو صیات و امتیازات سے محروم ہوجاتے ہیں ۔

اس قسم کا معاشرہ ،علاوہ اس کے کہ ابدی اور انتہائی کمال وسعادت تک نہیں پہنچتا ہے،اس دنیا کی ،اپنی مختصر اورناپائدار زندگی میں بھی انحرافات اور گمراہیوں کے منحوس نتائج سے دوچار ہو تا ہے اور کسی نہ کسی وقت اپنی غفلت کے برے نتائج کو بھگتے گا اور واضح طورپر اسے معلوم ہو گا کہ سعادت کا راستہ دین ہی تھا اورسر انجام اپنے کردارسے پشیمان ہو گا۔ خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے :

( قد افلح من زکّها٭وقد خاب من دسّها ) (شمس٩۔١٠)

''بیشک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنالیا.اوروہ نامرادرہا جس نے اسے آلودہ کرلیا ''

البتہ جاننا چاہئے کہ جس چیز سے انسان کی سعادت اورفردو معاشرے کی خوش بختی وابستہ ہے ،وہ دینی ضوابط پر عمل کرنا ہے ۔صرف نام سے کام نہیں چلتا،کیونکہ جس چیز کی اہمیت و قیمت ہے وہ خود حقیقت ہے نہ حقیقت کا دعویٰ۔جوشخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے لیکن اس کا باطن تاریک ہے اوروہ اخلاقی طور پر گراہوا اور بد کردار ہے،اس کے باوجود سعادت کے فرشتہ کا منتظر ہے،تو اسکی مثال اس بیماری کی جیسی ہے جو طبیب کے نسخہ کو جیب میں رکھ کر صحت یابی کی تو قع رکھتا ہے، یقینا ایسا انسان اس فکر کے ساتھ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا ہے ۔خدائے متعال اپنے کلام میں فرماتا ہے:

( انّ الذّین ء امنوا والّذین هادوا والنّصٰارٰی والصّٰائبین من اٰمن باللّه و الیوم الاخر و عمل صٰالحاً فلهم اجرهم عند ربّهم ) (بقرہ٦٢)

''جو لوگ بظاہر ایمان لائے یا یہودی ،نصاریٰ اور صابیئن(۱) ہیں ان میں سے جو واقعی اللہ اور آخرت پر ایمان لائے گا اس کے لئے پروردگار کے یہاں اجر وثواب ہے ...''

ممکن ہے اس آیہ شریفہ کے مضمون سے یہ تصور کیا جائے کہ جولوگ خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دئے ہوں ،اگر چہ انہوں نے تمام پیغمبروں یا بعض پیغمبروںکو قبول بھی نہ کیا ہو ،تب بھی وہ نجات پائیں گے ۔لیکن جاننا چاہئے کہ سورہ نساء کی آیت نمبر ١٥٠ اور١٥١ میں پروردگار عالم ان لوگوں کو کافر جانتاہے جو تمام پیغمبروں یا بعض پیغمبروں پر ایمان نہ رکھتے ہوں ۔

تاریخ ادیان کا ایک خلاصہ

ادیان کے وجود میں آنے کے بارے میں اجمالی تحقیق ، مطمئن ترین راہ ۔جس پر دینی نقطہ نگاہ سے اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید ہی کا بیان ہے، کیونکہ یہ ہر قسم کی خطا،اشتباہ، تعصب اور خود غرضی سے منزہ و پاک ہے۔

( انّ الدّین عند اللّه الا سلام ) (آل عمران ١٩)

''دین خدا ، دین اسلام ہی ہے''

جوانسان کی پیدائش کے پہلے ہی دن سے اس کے ساتھ تھا ،جیسا کہ قرآن مجید میں تاکید ہوئی ہے کہ،بشرکی موجودہ نسل کی ابتداء میں دو شخص ایک مرد اور ایک عورت تھے ۔مرد کا نام''آدم '' اور اس کی بیوی کا نام ''حوا''تھا ۔ حضرت آدم پیغمبر تھے اور ان پر وحی نازل ہوتی تھی ۔حضرت آدم کا دین بہت سادہ اور چند کلیات پر مشتمل تھا ،جیسے ،لوگوں کو خداکو یادکر نا چاہئے اورآپس میں ، خاص کراپنے والدین کے ساتھ احسان ونیکی کرنا چاہئے،فساد ،قتل اور برے کاموں سے پر ہیز کرناچاہے۔

آدم اور اُن کی بیوی کے بعد ،ان کی اولاد انتہائی سادگی اوراتفاق واتحاد کے ساتھ زندگی گزارتی تھی ،چونکہ دن بدن ان کی آبادی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا ،لہذا رفتہ رفتہ انہوں نے اجتماعی زندگی اختیار کرلی۔

اس طرح وہ بتدریج زندگی کے طورطریقوں کو سیکھتے تھے اور تہذیب و تمدن سے قریب ہوتے تھے ۔چونکہ آبادی بڑھتی گئی اس لئے وہ مختلف قبیلوںمیں تقسیم ہو گئے اورہر قبیلہ میں کوئی نہ کوئی بزر گ پیدا ہوتاتھااورقبیلہ کے لوگ اس کااحترام کرتے تھے،یہاں تک کہ اس کے مرنے کے بعد اس کا مجسمہ بنا کر اس کا احترام و ستائش کرتے تھے ۔اسی زمانہ سے لوگوں میں بت پرستی کا رواج پیدا ہوا ،چنانچہ ائمہ علیہم السلام کی روایتوں میں آیا ہے کہ بت پرستی اسی طرح شروع ہوئی ہے اور بت پرستی کی تاریخ بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے۔رفتہ رفتہ طاقتور افراد کمزوروں اور ضعیفوں پر زیادتی کرنے لگے اوراسطرح لوگوں میں اختلاف پیدا ہوتاچلاگیا ۔ اوریہ اتفاقی طور پر پیداہونے والے اختلافات ان کی زندگی میں گوناگوں کشمکش اور لڑائی جھگڑے پیداکرنے کا سبب بنے۔

یہ اختلافات ۔جو انسان کو سعادت کی راہ سے منحرف کر کے بدبختی اور ہلا کت کی طرف لے جاتے تھے ۔اس امر کاسبب بنے کہ خدائے مہر بان نے کچھ انبیاء کو منتخب کرکے آسمانی کتاب کے ساتھ بھیجا تا کہ انسان کے اختلافات کو دور کریں ،چنانچہ خدائے متعال اپنے کلام میں فر ماتا ہے:

( کان النّاس امّة واحدة فبعث اللّه النبیّن مبشّرین و منذرین وانزل معهم الکتٰب بالحق لیحکم بین النّاس فیما اختلفوا فیه ) (بقرہ٢١٣)

''(فطری اعتبار سے)سارے انسان ایک قوم تھے ۔پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ بر حق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں''

دین اسلام اور اس کی آسمانی کتاب

دین اسلام ، ایک عالمی اور ابدی دین ہے۔اس میں اعتقادی ،اخلاقی اور عملی ضوابط کے امورکا ایک سلسلہ ہے جن پر عمل پیرا ہونے سے انسان دنیا وآخرت کی سعادت وخوش بختی حاصل کرتا ہے ۔

دین اسلام کے قواعد وضوابط ۔جو خالق کائنات کی طرف سے بھیجے گئے ہیں ۔ایسے ہیں کہ اگر انسانی معاشرے کا کوئی فرد یاانسانی معاشروں میں سے کوئی معاشرہ ان پر عمل کرے تو اس کے لئے زندگی کے بہترین شرائط اور ترقی یافتہ ترین انسانی کمال حاصل ہو سکتے ہیں ۔

دین اسلام،کے نیک آثارہر فرداورہر معاشرے کے لئے مساوی ہیں اور چھوٹے بڑے،عالم و جاہل،مردوعورت،سفید فام و سیاہ فام اور مشرقی ومغربی، بلا استثناء اس مقدس دین کے فوائداور خوبیوں سے فیضیاب ہو سکتا ہے ،اوراپنی ضرورتوںکو اچھی طرح پورا کرسکتاہے ۔

دین اسلام نے اپنے معارف و ضوابط کوفطرت کی بنیاد پراستوا رکیا ہے اور انسان کی ضرورتوں کو مدنظر رکھا ہے ،اور ان کوپورا کرتا ہے اور انسان کی فطرت اور ساخت بھی مختلف افراد،نسلوں اور متعدد زمانوں میں یکسان ہے ،اس لحاظ سے واضح ہے کہ انسانی معاشرہ مشرق سے لے کرمغرب تک ایک ہی قسم کا خاندان ہے اور وہ انسانی ساخت کے اصول وارکان میں آپس میں شریک ہیں اور مختلف افراداور نسلوں کی ضرورتیںبھی مشابہ ہیں اور بشر کی آنے والے نسلیں بھی اسی خاندان کی اولاد ہیں اور یقیناانہی کے وارث ہیںاوراُن کی ضرورتیںانہی کی ضرورتیں جیسی ہوںگی۔

نتیجہ کے طور پر،اسلام ایک ایسا دین ہے جوانسان کی واقعی اور فطری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اورسبھی کے لئے کافی اور ابدی ہے۔

اسی لئے خدائے متعال نے اسلام کودین فطرت کا نام دیا ہے اور لوگوں کو انسانی فطرت کو زندہ رکھنے کی دعوت دیتا ہے اور دین کے بزرگوں نے فرمایا ہے:

''اسلام ایک آسان دین ہے جو انسان پر میں سختی نہیں کرتا ۔''

خدائے متعال نے دین اسلام کوفطرت کی بنیاد پر بنایا ہے لہذا اس کی کلیات سبھی کے لئے قابل فہم ودرک ہیں ،لیکن پھر بھی اس نے اس کے اصلی معارف وضوابط کی بنیادوں کو پیغمبراکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب ''قرآن مجید'' میں فرمایاہے۔ دین مقدس اسلام،آخری آسمانی دین ہے اس لئے یہ مکمل ترین دین ہے ۔اس دین کے آنے کے بعدگذشتہ دین منسوخ ہوگئے ،کیونکہ کامل دین کے ہوتے ہوئے ناقص دین کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ دین اسلام ہمارے پیغمبرحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ بشر کے لئے بھیجا گیا ہے۔نجات اورسعادت کا یہ دروازہ دنیا کے لوگوں کے لئے اس وقت کھولاگیا جب انسانی معاشر ہ اپنی فکری ناتوانی کے دور سے گزر رہاتھااور انسانیت کے کمال کو حاصل کرنے کے لئے مکمل طور پرآمادہ ہوچکا تھا اور الٰہی معارف اور اس کے بلند مطالب کو حاصل کرنے کی لیاقت پیدا کر چکا تھا۔اسی لئے اسلام حقیقت پسندانسان کے لئے قابل فہم حقائق ومعارف اورپسندیدہ اخلاق لیکر آیا۔جو انسان کا امتیاز ہے،اور انسان کی زندگی کے انفرادی و اجتماعی کاموں کو منظم کرنے والے ضوابط، لائے اور ان پر عمل کرنیکی نصیحت کی ۔

ہم سب جانتے ہیں کہ دین اسلام کے معارف کلی طورپر تین حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں : ''اصول دین ،اخلاق اورفروع فقہی '' نیز واضح رہے کہ اصول دین ،یعنی دین کی اصلی بنیادیں ،تین ہیںاور اگرانسان میں ان میں سے کوئی ایک نہ پائی جائے تو وہ دین سے خارج ہو جاتا ہے:

١۔توحید،یعنی خداکی وحدانیت پر عقیدہ رکھنا۔

٢۔انبیاء کی نبوت پر عقیدہ رکھنا،جن کے آخری پیغمبرحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ٣۔معاد پر ایمان ،یعنی یہ عقیدہ ہوکہ،خدائے متعال مرنے کے بعدسبھی کوزندہ کرے گاان کے اعمال کاحساب لے گا ۔نیک لوگوں کو نیکی کی جزااور برے لوگوں کوسزادے گا۔مذکورہ تین اصولوں میں مزیددواصول اضافہ کئے جاتے ہیںجو مذہب شیعہ کے مخصوص عقائدہیں کہ جن کے نہ پائے جانے پر انسان شیعہ مذہب سے خارج ہوتا ہے ،اگر چہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا اور وہ دو یہ ہیں :

١۔امامت

٢۔عدل

____________________

١۔جنہوں نے مجوسی مذہب سے یہودی مذہب کی طرف تمائل پیدا کر کے مجو سیت اور یہو دیت سے ایک در میانی دین ایجاد کیا،انھیں صابئین کہتے ہیں ۔

دین ،قرآن مجید کی نظر میں

( ان الدّین عند اللّه الاسلام ومااختلف الّذین اوتوا الکتاب الاّٰ من بعد ما جآ ء هم العلم بغیاً بینهم و من یکفر بایٰات اللّه فا ن اللّه سریع الحساب ) (آل عمران١٩)

''دین،اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے اور اہل کتاب نے علم آنے کے بعد ہی جھگڑا شروع کیا صرف آپس کی شرارتوں کی بناپر اور جو بھی آیات الہی کا انکار کرے گاتوخدابہت جلد حساب کرنے والا ہے۔''

انبیاء نے جس دین کی طرف لوگوں کودعوت دی ہے وہ خداپرستی اور اس کے احکام کے مقابلہ میں تسلیم ہونا ہے۔ادیان کے علمائ،باوجود اس کے کہ حق کی راہ کو باطل سے تشخیص دیتے تھے ،تعصب ودشمنی کی وجہ سے حق سے منحرف ہوکرہر ایک نے ایک الگ راستہ اختیار کیا ،اور نتیجہ کے طور پر دنیا میں مختلف ادیان وجود میں آگئے ۔حقیقت میں لوگوں کے اس گروہ نے آیات الہی کی نسبت کفر اختیار کیا ہے اور خدائے متعال ان کے اعمال کی جلد ہی سزا دے گا:

( ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منه وهو فی الاخرة من الخٰاسرین ) (آل عمران ٨٥)

''اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ قیامت کے دن خسارہ والوں میں ہوگا۔''

( یا ایّها الذین ء آمنوا ادخلوا فی السّلم کافّةً ولا تتّبعوا خطوات الشیطان انه لکم عدوّمّبین ) (بقرہ٢٠٨)

''ایمان والو !تم سب مکمل طریقہ سے اسلام میں داخل ہو جائو اور شیطانی اقدامات کا اتباع نہ کرو وہ تمہاراکھلا ہوا دشمن ہے۔''

( واوفوا بعهد اللّه اذاعٰاهد تّم ولا تنقضوا الایمٰان بعد توکیدهٰا وقد جعلتم اللّه علیکم کفیلا ان اللّه یعلم ماتفعلون )

(نحل ٩١)

'' اور جب کوئی عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو اور اپنی قسموں کوان کے استحکام کے بعد ہر گز مت توڑو جب کہ تم اللہ کو کفیل اور نگران بنا چکے ہو کہ یقینا اللہ تمہارے افعال کو خوب جانتا ہے۔''

اس آیة شریفہ کا مقصد یہ ہے کہ، مسلمان جو بھی عہد و پیمان خدا یا بندوں سے کریں ،انھیں اس پر عمل کرنا چاہئے اور اسے نہ توڑیں ۔

( ادع الی سبیل ربّک بالحکمةوالموعظة الحسنة وجٰادلهم بالّتی هی احسن ان ربّک هو اعلم بمن ضلّ عن سبیله وهو اعلم بالمهتدین ) (نحل ١٢٥)

''آپ اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہتر ین طریقہ ہے کہ آپ کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بہک گیا ہے اور کون لوگ ہدایت پانے والے ہیں ۔''

مقصد یہ ہے کہ،دین کی تر قی کیلئے مسلمان کوہر ایک کے ساتھ اس کی عقل وفہم کے مطابق اس کے لئے مفید ہو ،اور اگردلیل و برہان اور نصیحت سے کسی کی راہنمائی نہ کر سکا ،تو جد ل (جو کہ مطلب کو ثابت کر نے کا ایک طریقہ ہے )کے ذریعہ اس کو حق کی طرف دعوت دے۔

( واذا قری القرآن فاستمعوا له وانصتوا لعلّکم ترحمون )

(اعراف٢٠٤)

''اور جب قرآن کی تلا وت کی جائے تو خاموش ہو کر غور سے سنو شاید تم پررحمت نازل ہوجائے ۔''

( یا ایّها الّذینء امنوا اطیعوا اللّه و اطیعوا الرّسول و اولی الامرمنکم فان تنٰازعتم فی شی ئٍ فرُدّوه الی اللّه و الرّسول ان کنتم تومنون باللّه و الیوم الاٰخر ذلک خیر واحسن تاویلا ) ( نسائ٥٩)

''ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیںمیں سے ہیں ،پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگرتم اللہ اورروزآخرت پر ایمان رکھنے والے ہو ،یہی تمہارے حق میں خیر اورانجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے۔''

مقصد یہ ہے کہ اسلامی معاشروں میں ، اختلاف دور کرنے کا وسیلہ ،قرآن مجید اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے،اور ان دودلیلوں کے ذریعہ ہر اختلاف کو حل کرنا چاہئے اوراگر کسی مسلمان نے عقل سے اختلاف دور کیا،تووہ بھی اس لئے ہے کہ قرآن مجید نے عقل کے حکم کو قبول کیا ہے ۔

( فبما رحمةٍ من اللّه لنت لهم ولو کنت فظّاً غلیظ القلب لانفضّوا من حولک فاعف عنهم واستغفر لهم و شاورهم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللّه ان اللّه یحبّ المتوکّلین )

(آل عمران ١٥٩)

''پیغمبر!یہ اللہ کی مہر بانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے ،لہذتم انھیں معاف کردو ۔ان کے لئے استغفار کرو اور ان سے جنگ کے امورمیں مشورہ کرو اور جب ارادہ کرو تو اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتاہے''

کیونکہ نیک برتائو ،خیر خواہی اور امور میں مشورہ کرنا ،انس ومحبت کا وسیلہ ہے اورمعاشرہ کے افراد کو اپنے سر پرست سے محبت کرنی چاہئے تاکہ وہ ان کے دلوں میں نفوذ کرسکے۔ خدائے متعال مسلمانوں کے سر پرست کو خوش اخلاقی اور مشورہ کا حکم دیتا ہے،اوریہ حکم اس لئے ہے کہ ممکن ہے لوگ اپنی سوچ میں غلطی کریں لہذا حکم دیتا ہے کہ مشورت کے بعد اپنے فیصلہ میں آزاد ہو اور اس لئے کہ خدا کے ارادہ سے کوئی مخالفت نہیں کر سکتا ہے ،اپنے امور میں خداپر توکل کر کے اپنے کام اسی کے سپرد کرے ۔

معاشرے میں دین کا کردار

دین،ایک بہترین روش ہے،جس سے انسانی معاشرہ کو منظم کیا جا سکتا ہے اوریہ دوسری تمام روشوںسے زیادہ لوگوں کو اجتماعی قوانین کی رعایت کرنے پرابھارتاہے، اور جب ہم ان اسباب وعلل کا مطالعہ کرتے ہیں جو ماضی میں انسانی معاشرے کے وجود میں آنے کاسبب بنے ہیں تو یہ حقیقت مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے ۔

انسان زندگی میں اپنی سعادت و کامرانی کے علاوہ کسی چیز کو نہیں چاہتا ہے اور اس کے لئے کوشش کرتا ہے ۔البتہ یہ سعادت زندگی کے تمام وسائل کی فراہمی کے بغیرممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف انسان اپنے خداداد فہم و شعور سے درک کرتاہے کہ وہ ان تمام ضرورتوںکوتنِ تنہاپورا نہیں کرسکتا کہ جن سے وہ اپنی من پسند سعادت کو حاصل کرسکے۔ واضح ہے کہ زندگی کی تمام ضرورتوں کوپورا کرنا ایک شخص کے بس کی بات نہیں ہے ، خواہ وہ کتناہی طا قتور کیوں نہ ہو ۔اس لحاظ سے انسان اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے ہی جیسے لوگوںسے مدد لینے پر مجبور ہے تا کہ اپنے ضروری اورحیات آفرین وسائل کو حاصل کر سکے،اس صورت میں کہ ہرایک ان وسا یل میں سے کسی ایک کو حاصل کرنے کی ذمہ داری کوقبول کرتاہے اوراسے فراہم کرتا ہے ،اس کے بعدتمام افراد اپنی فعالیتوں کے ماحصل کو ایک جگہ جمع کر تے ہیںاوران میں سے ہر شخص اپنی فعالیت اور حیثیت کے مطابق حصہ لیتا ہے اور اس سے اپنی زندگی کو چلاتا ہے ۔

اس طرح ،انسان اپنی سعادت کو پورا کرنے کے لئے اپنے ہم نوع انسانوں کا تعاون کرتاہے اوراُن سے تعاون لیتاہے ،یعنی مختصر یہ کہ تمام لوگ ایک دوسرے کے لئے کام کرتے ہیں اور اس کا م کے نتیجہ کوجمع کرتے ہیں اورمعاشرے کاہر فرد اپنی حیثیت اور فعالیت کے مطابق اپنا حصہ لے لیتا ہے ۔

معاشرے کو قوانین کی ضرورت

لوگوں کی محنت و مشقت کا ماحصل چونکہ ایک ہوتا ہے اورسب اس سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں اس لئے معاشرے کوکچھ قوانین کی ضرورت ہے تاکہ ان کی رعایت سے بغاوت اور لاقانونیت کو روکاجا سکے ۔واضح ہے کہ اگر معاشرے کانظام چلانے کے لئے کچھ ضوابط وقوانین نہ ہوں تو افراتفری پھیلتی ہے اور انسانی معاشرہ اپنی زندگی کوایک دن بھی جاری نہیں رکھ سکتا ۔

البتہ یہ قوانین معاشرے اقوام ، لوگوںکی فکری سطح اور حکومتی دفاتر کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں ۔ بہر حال کوئی بھی ایسا معاشرہ نہیں پایا جاسکتا جوایسے قوانین سے بے نیاز ہو کہ جن کا اکثر افراداحترام کرتے ہوں۔تاریخ بشریت میں ہرگز ایسا کوئی معاشرہ نہیں پایاگیا جس میں کسی قسم کے مشترک آداب ورسو م و قوانین وضوابط نہیں تھے۔

قوانین کے مقابلہ میں انسان کاآزاد ہونا

چونکہ انسان اپنے تمام کام اپنے اختیار سے انجام دیتاہے ،اس لئے وہ ایک طرح کی آزادی محسوس کرتا ہے اور وہ اس آزادی کو''مطلق ''یعنی بدون قیدوشرط تصور کر کے ،مکمل آزادی چاہتا ہے اور ہر قسم کی پابندی سے بھاگتاہے۔اسی وجہ سے وہ ہرطرح کی رکاوٹ ومحرو میت سے رنجیدہ ہوتا ہے اور مختصر یہ کہ وہ ہر دھمکی سے اپنے اندردباؤ اور خاص ناکامی کا احساس کرتا ہے ،اس لحاظ سے اجتماعی قوانین چاہے کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں ،چونکہ وہ ایک حد تک انسان کوپابند کرتے ہیں ،لہذا وہ اسکی حریت پسندی کے خلاف ہوں گے۔

دوسری طرف انسان یہ سوچتا ہے کہ اگر معاشر اور اس کے نظم و نسق کے تحفظ کے لئے وضع کئے گئے قوانین کے مقابلہ میں اپنی آزادی سے کسی حد تک دستبردار نہ ہو جائے تو افراتفری پھیل کر اس کی پوری آزادی و آسائش ختم ہو جائے گی ،چنانچہ اگر وہ کسی کے ہاتھ سے ایک لقمہ لے گا تو دوسرے لوگ اس کے ہاتھ سے پورا کھانا چھین لیں گے اوراگروہ کسی پر ظلم کرے گا تودوسرے بھی اس پر ظلم کریں گے۔

اس لحاظ سے اسے چاہیے کہ اپنی آزادی کے ایک حصہ کو محفوظ رکھے ،اور اس کے دوسرے حصہ سے صرف نظر کرے تو اس طرح وہ اجتماعی قوانین وضوابط کا احترام کرے گا۔

قوانین کی ترقی میں کمزوریاں

مذکورہ مطالب کے پیش نظر،انسان کی آزاد پسند ذہنیت اور اجتماعی ضوابط کے درمیان ایک قسم کا ٹکرائواورتضاد موجود ہے ۔یعنی قوانین ایک قسم کی زنجیر ہے جو اس کے پائوں میں پڑی ہے اور وہ ہمیشہ اس زنجیر کو توڑنا چاہتاہے تاکہ اس پھندے سے رہائی پائے اور یہ اجتماعی قوانین کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے جو اس کی بنیادوں کو متزلزل کر دیتاہے ۔

اسی لئے ہمیشہ قوانین اور عملی فرائض کی خلاف ورزی کرنے والوں کی سزا کے لئے کچھ اور قواعدوضوابط بنائے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو قوانین کی خلاف ورزی کرنے سے روکا جاسکے ،اس سلسلہ میں کبھی لوگوں کو قوانین کی اطاعت کرنے کی تشویق کے لئے انعا مات کی امید دلائی جاتی ہے ۔البتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ (یعنی سزا کاخوف اور جزا کاشوق) قوانین کے نفاذ میں کسی حدتک مدد کرتا ہے ۔لیکن یہ خلاف ورزی کے راستہ کو سو فیصد بند کر کے قانون کے اثر و تسلط کو مکمل طور پر تحفظ نہیں بخش سکتا، کیونکہ تعزیراتی قوانیں بھی دوسرے کارآمد قوانین کے محتاج ہونے کی وجہ سے خلاف ورزی سے محفوظ نہیں ہیں اور انسان کی آزادپسند طبیعت کی طرف سے انہیںہمیشہ خطرہ لاحق رہتاہے ۔چونکہ جو لوگ مکمل طور پر نفوذ اورطاقت رکھتے ہیں وہ کسی خوف وہراس کے بغیر کھلم کھلا مخالفت کرسکتے ہیں یانفوذ کے ذریعہ ،عدلیہ اور انتظامی محکموں کو اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔

جو لوگ نفوذ وطاقت نہیں رکھتے ہیں ،وہ بھی معاشرے کی ہدایت کرنے والوں کی غفلت یا کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر مخفیانہ طور پر خلاف ورزی کر سکتے ہیں ،یا رشوت اور سفارش کے ذریعہ یا معاشرے کے بااثر اشخاص کے ساتھ دوستی اوررشتہ داری کے ذریعہ اپنے مقصد تک پہنچ سکتے ہیں اور اس طرح معاشرے کے نظم کو عام حالات سے خارج کرکے ناکارہ بنا سکتے ہیں ۔

اس بات کابہترین ثبوت یہ ہے کہ ہم مختلف انسانی معاشروں میں اس قسم کی مخالفتوں اور قانونشکنی کے ہزاروں نمونے روزانہ مشاہدہ کرتے ہیں ۔

قانون میں خامی کااصلی سر چشمہ

اب دیکھنا چاہئے کہ اس خطرہ کا سرچشمہ کہاں ہے اورانسان کی سرکش اورآزادی پسند طبیعت کو کیسے قابو میں کیا جائے اور نتیجہ میں قانون کی مخالفت کو روکا جائے؟

اس خطرہ کا سرچشمہ۔ جو معاشرے میں فسادبرپاکرنے کا سب سے بڑا سبب ہے یہاں تک کہ قوانین بھی اسے روک نہیں سکتے ۔یہ ہے کہ عام اجتماعی طریقے ،جو قوانین کو وجود میں لاتے ہیں ، کہ جن کا تعلق افراد کے مادی مراحل سے ہے ،وہ ان کی معنویات اور باطنی فطرتوں کی کوئی اعتنا نہیں کرتے اور ان کامقصد صرف ہما ھنگی اورنظم و نسق کا تحفظ اور لوگوں کے اعمال کے درمیان توازن بر قرار رکھنا ہوتا ہے تاکہ اختلاف اور کشمکش کی نوبت نہ آئے ۔

اجتماعی قانون کا تقاضایہ ہے کہ قانون کی شقوں پر عمل کیا جائے اور معاشرے کے امور کو کنٹرول کیا جائے ۔اس قانون کا انسان کے داخلی صفات اور باطنی جذبات سے کوئی تعلق نہیں ہے ،جو ان اعمال کے محرک اور قوانین کے داخلی دشمن ہیں ۔

اس کے باوجود اگر انسان کی آزادی پسند فطرت اور دوسرے سیکڑوں جبلتوں (جیسے خودخواہی اورشہوت پرستی جومفاسد کے اصلی سبب ہیں )کی طرف توجہ نہ کی جائے تو معاشرے میں افراتفری اورلاقانونیت رائج ہوجائے گی اوراختلافات کادامن روز بروز پھیلتا جائے گا ،کیونکہ تمام قوانین کو ہمیشہ قوی باغیوں اور سر کشوں کے حملہ کاخطرہ لاحق ہوتا ہے جوانہی جبلتوں سے پیدا ہوتے ہیں اور کوئی قانون بُرے کو کنٹرول کر کے اختلافات کو نہیں روک سکتا ہے۔

تمام قوانین پردین کی ترجیح

قانون کے تحفظ کے لئے آخری طریقہ ،تعزیراتی قوانین وضع کرنا اور محا فظ مقرر کرنا ہے لیکن جیسا کہ بیان کیاگیا ، تعزیراتی قوانین اور محافظ انسان کی سر کشی اور دیگر جبلتون کو روک نہیں سکتے تاکہ اجتماعی قوانین پر عمل ہو سکے۔

دین کے پاس مذکورہ وسائل کے علاوہ مزید دوطاقتور وسیلے بھی موجود ہیں ،جن سے وہ ہر مخالف طاقت کو مغلوب کر کے اسے تہس نہس کر سکتا ہے :

١۔ہر دین دار فرددین کی راہنمائی سے اس حقیقت تک یہنچتاہے کہ اس کی زندگی اس ناپائدار اور گزرجانے والی دنیا کی چند روزہ زندگی تک محدود نہیں ہے ،بلکہ اس کے سامنے ایک ابدی اورلامحدود زندگی ہے ،جو موت سے نابود نہیں ہوتی ۔اس کی ابدی سعادت اورآسائش صرف اس میں ہے کہ وہ پرودردگار عالم کی طرف سے اس کے پیغمبروں کے توسط سے بھیجے گئے قوانین کی پیروی کرے ،کیونکہ وہ جانتاہے کہ دینی قوانین ، ایک ایسے دانا اور بینا پروردگار کی طرف سے بھیجے گئے ہیں ،جو انسان کے باطن وظاہر سے آگاہ ہے اوراپنی مخلوق سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں رہتا ۔ایک ایسادن آنے والا ہے جس دن وہ اسی انسان کو اپنے پاس بلائے گا،اس کے پنہاں اور آشکار اعمال کا حساب و کتاب لے گا اور نیک اعمال کی پاداش اور برے اعمال کی سزادے گا ۔

٢۔ہر دیندا رشخص اپنے دینی عقائد کے مطابق جانتا ہے کہ جب دینی حکم کو بجا لاتا ہے تووہ اپنے پروردگار کی اطاعت کرتا ہے ،اس کے باوجودوہ بندگی کی رسم کے مطابق کسی اجر پاداش کامستحق نہیں ہے ، لیکن پروردگار کے فضل وکرم سے اس کو نیک پاداش ملے گی ،اس لحاظ سے ہر اطاعت کو انجام دے کر اس نے حقیقت میں اپنے اختیارسے ایک معاملہ اور ایک لین دین کیاہے ۔چونکہ وہ اپنی مرضی سے اپنی آزادی کے ایک حصہ سے دست بردار ہواہے اور اس کے مقابلہ میں اپنے پروردگارکی خوشنودی و مہر بانی حا صل کی ہے ،اس لئے اسے اپنی نیکیوں کی پاداش ملے گی۔

دیندار شخض، دینی قوانین وضوابط کی پیروی کر کے اپنی پوری خوشی سے معاملہ کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے اور جو کچھ اپنے اختیار سے دیتا ہے اس کے کئی گنا نفع کماتا ہے ۔وہ ایک چیز کو بیچ کراس کے بدلے میں اس سے بہتر مال خرید لیتا ہے ۔لیکن جو شخص دین کا پابند نہیں ہو تا ،چونکہ وہ ضوابط کی رعایت اور قانون کی پیروی کو اپنے لئے ایک نقصان تصور کرتاہے اور اس کی آزادی پسند طبیعت اس کی آزادی کے ایک حصہ کو کھو دینے سے ناراض ہوتی ہے ۔وہ اس موقع کی تلاش میں ہو تا ہے کہ اس زنجیرکو توڑ کراپنی آزادی حاصل کرے ۔

نتیجہ

مذکورہ بیانات سے معلوم ہوتاہے کہ معاشرے کی زندگی کے تحفظ کے لئے دین کا اثر غیر دینی طریقوںکی نسبت زیادہ قوی اور عمیق ہے ۔

دوسروں کی کوشش

دنیا کے پسماندہ ممالک ،جو قرن اخیر میں ترقی وپیش رفت کی فکر میں ہیں ،اگر چہ انہوں نے اجتماعی حکو مت کو قبول کیا ہے ،لیکن قانون کی ضعیف شقوں کی طرف توجہ نہیں کی ہے اور دین کی طاقت سے استفادہ نہیں کیا ہے ،اس لئے ان کی دنیا تاریک ہوئی ہے اوران کی زندگی کا ماحول جنگل کے قانون میں تبدیل ہواہے ۔

ان کے مقابلہ میں ،دنیا کی ترقی یافتہ اور ہوشیار قوموں نے ،قوانین کی کمزوری سے آگاہ ہو کر ،قانون کو حتمی ناکامی سے نجات دلانے کے لئے ،کچھ کوششیں کر کے ایک دوسرا راستہ اختیار کیاہے۔

ان قوموں نے تعلیم و تربیت کے نظام کو ایسے منظم کیا ہے کہ لوگوں میں خود بخود صحیح اخلاق پید ہوںاور جب وہ عملی میدان میں قدم رکھیں ، تو قانون کو مقدس اور ناقابل مخالفت سمجھیں ۔

اس قسم کی تر بیت قانون کے عام طورپر نافذ ہونے کاسبب بنتیہے اور نتیجہ میں قابل توجہ حد تک معاشرے کی سعادت کو پورا کر کے قانون کو ناکامی سے نجات دلائی جاتی ہے۔ لیکن جاننا چاہئے کہ ایسے معاشروں میں پرورش پانے والے افکار دو قسم کے ہوتے ہیں :

١۔انسان دوستی جیسے عقائد و افکار، اپنے ماتحتوں کے ساتھ خیرخواہی اور رحم دلی ،جو حقیقت پسندی پر استوار ہوں ،بیشک ان کو آسمانی ادیان سے لیا گیاہے اور قدیم زمانے سے ( جبکہ ترقی یافتہ معاشرے وجود میں نہیں آئے تھے )دین، لوگوں کو ان افکار کی طرف دعوت دیتا رہا ہے ۔

لہذا، جو خوش بختی اور سعادت ان افکار کے ذریعہ ترقی یافتہ معاشروں میں نظر آرہی ہے، وہ دین کے برکات میں شمار ہوتی ہے ۔

٢۔بیہودہ اور افسانوی عقائد وافکار ، جن کی خرافات کے بازار کے علاوہ کہیں کوئی اہمیت نہیں ہے ،مثال کے طور پر افراد کو تلقین کی جاتی ہے کہ اگر وطن کی نجات کی راہ میں کوئی تکلیف اٹھائی یاقتل کئے گئے تو،تمہارا نام تاریخ کے صفحات میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گااگرچہ ،اس قسم کے خرافاتی تصورات کا ایک عملی نتیجہ ہوتا ہے اوریہ بھی ممکن ہے کوئی شخص اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر میدان جنگ میں جان نثاری کا ثبوت دے اور بہت سے دشمنوں کو قتل کردے،لیکن وہ فائدے کے بجائے قوم کو بہت بڑا نقصان پہنچاتا ہے ،کیونکہ یہ تفکرانسان کو خرافاتی بنا کر اس کی حقیقت پسندانہ فطرت کو بیکار بنادیتی ہے ،جو لوگ خدااور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اور موت کو نابودی اورفنا سمجھتے ہیں ،ان کی نظر میں موت کے بعد ابدی اور کامیاب زندگی کامفہوم ومعنی نہیں ہے ۔

انسان کے آرام وآسائش میں اسلام کی اہمیت

جیسا کہ ہم نے بیان کیا ،دینی قوانین ،دوسرے اجتماعی طریقوں کی بہ نسبت ممتاز ہیں۔ تمام ادیان میں اسلام کو برتری حاصل ہے۔اس لحاظ سے انسانی معاشروں کے لئے اسلام دوسرے تمام روشوں سے زیادہ مفید ہے۔اوراسلام اوردوسرے ادیان اور اجتماعی طریقوں کے موازنہ سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے ۔

اسلام کا دوسرے ادیان سے موازنہ

اسلام ،تمام ادیان کے درمیان منفرد دین ہے جوسو فیصد اجتماعی ہے۔اسلام کی تعلیمات آج کل کے عیسائی دین کے مانند نہیںہیں جو صرف لوگوں کی اخروی سعادت کو مد نظر کھتا ہے اور ان کی دینوی سعادت کے بارے میں خاموش ہے اورنہ ہی یہودیوں کے موجودہ دین کے مانند ہیں جو صرف ایک ملت کی تعلیم و تر بیت کی مقبو لیت کو مد نظر رکھتاہے ۔اسلام کی تعلیمات مجوس اوردیگر مذاہب کے مانندصرف اخلا ق واعمال سے مربوط چند موضوعات تک محدود نہیں ہیں ،بلکہ اسلام میں تمام لوگوں کے لئے دنیاوآخرت کی تعلیم و تربیت کو ہمیشہ کے لئے اور ہرزمان و مکان میں ،مد نظر رکھا گیا ہے بدیہی ہے کہ اس کے علاوہ معاشرے کی اصلاح اور لوگوں کی دنیاوآخرت کی سعادت کے لئے کوئی اور راستہ نہیں ہے :

اوّلاً:تمام انسانی معاشروں میں ۔جو اچھے روابط سے روزبروزنزدیک اور محکم تر ہو رہے ہیں ۔صرف ایک معاشرہ یا ایک ملت کی اصلاح کرناحقیقت میں ایک فضول کوشش ہے اور ایک بڑے آ لودہ تالاب یانہرکے ایک قطرہ پانی کو تصیفہ کرنے کے مانند ہے ۔

ثانیا: دوسرے معاشروں کے بارے میں غفلت کرتے ہوئے صرف ایک معاشرے کی اصلاح کرناایک ایسا امر ہے جو اصلاح طلبی کی حقیقت کے خلاف ہے۔ اسلامی تعلیمات میں کائنات اور انسان کی خلقت کے بارے میں انسان کے ذہن میں پیداہونے والے افکار ،اخلاق اورانسانی زندگی میں پائی جانے والی تمام سر گرمیاں ،کی تحقیق کی گئی ۔

لیکن اسلام میں افکار کے بارے میں ،جو عقائد حقیقت پسندانہ پہلوؤں پر مشتمل ہیں اور ان میں سر فہرست خدائے متعال کی وحدانیت ہے ،وہ اصل اوربنیاد قرار پائے ہیں۔ اوراخلاق اسلامی میں ،وہ حقیقت جسے عقل سلیم قبول کرتی ہے ،وہ توحید کی بنیاد پر استوار ہوئی ہے پھر اس کے بعد اخلاق کی بنیادپر، قواعد وضوابط اور عملی قوانین بیان کئے گئے ہیں،جس کے نتیجہ میں ہرکالے گورے،شہری و دیہاتی ،مردوعورت،چھوٹے بڑے،غلام و آقا،حاکم ورعایا،امیر وغریب اورعام وخاص کے لئے انفرادی واجتماعی فرائض بیان کئے گئے ہیں :

( ...کلمةً طیبةً کشجرة طیبةٍ اصلها ثابت وفرعها فی السّمائ ) (ابراہیم٢٤)

''... کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اوراس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے۔''

جو شخص اسلام کے بنیادی معارف،اخلاقی تعلیمات اور فقہ اسلامی پر محققانہ نظر ڈالے، گاتو وہ ایک ایسے بے کراںسمندر کا مشاہدہ کرے گا جس کی حدوداور گہرائیوںتک پہنچنے میں انسانی عقل وشعور قاصر ہے اس کے باوجوداس کا ہر جزء و دوسرے اجزاسے متصل اور متناسب ہے اور یہ سب اجزاء مل کرخدا پرستی اور انسان پروری کو تشکیل دیتے ہیں ، جیسا کہ خدا ئے متعال نے اپنے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی ہے ۔

سماج کے رسم ورواج سے اسلام کا موازنہ

جب ہم دنیا کے ترقی یافتہ معاشروںکے طور طریقوں پر سنجیدگی سے نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ ان معاشروں کی سائنسی اور صنعتی ترقی نے عقلمندوں کومتحیر کر دیا ہے،وہ طاقت وترقی کے بل بوتے پرمریخ اور چاند پرکمندڈال رہے ہیں ،ان کی ملکی تشکیلات نے انسان کوحیرت میں ڈال دیا ہے ،لیکن یہی ترقی کے راستے اپنی قابل ستائش ترقی کے باوجود ،عالم بشریت پر بدبختی وبدنصیبی ایسے مصائب کا سبب بنے ہیں ۔پچیس سال سے کم عرصہ میں دنیا کو دوبار خاک وخون میں غرق کرکے لاکھوں انسانوں کو نابود کردیا ہے اور اس وقت بھی تیسری عالمی جنگ کا فرمان ہاتھ میں لئے ہوئے عالم بشریت کو نابود کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں ۔انہی طریقوں نے اپنی پیدائش کے پہلے ہی دن سے ''انسان دوستی اور آزادی دلانے''کے نام پر دنیا کے دیگر ممالک اور ملتوں کے ماتھے پر غلامی کے داغ لگا کردنیا کے چار بڑے براعظموں کو اپنی استعماری زنجیروں میں جکڑ کرکسی قید وشرط کے بغیر براعظم یورپ کا غلام بنادیا ہے اورایک حقیر اقلیت کو کروڑوں بے گناہ انسانوں کے مال،جان ور عزت پر مسلط کر دیا ہے ۔

البتہ یہ بات ناقابل انکار ہے کہ ترقی یافتہ ملتیں اپنے ما حول میں مادی نعمتوں اور لذتوں سے سرشارہیں اور بہت سے انسانی آرزؤوں جیسے اجتماعی انصاف اور ثقافتی وصنعتی ترقی تک پہنچ چکے ہیں۔لیکن وہ اس کے ساتھ ہی بے پناہ بدبختیوں اور بے شمار تاریکیوں سے دوچار ہوئے ہیں کہ ان میں سے اہم ترین یہ ہے کہ بین الاقوامی کشمکش اور خون ریزیاں دنیا کے مستقبل کوعوامی سطح پر اور ہر لمحہ ماضی سے بدتروحوادث کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ۔

واضح ر ہے کہ یہ سب تلخ وشرین نتائج ،ان ملتوں ومعاشروں کی تہذیب وتمدن اور زندگی کے طور طریقوںکے درخت کا پھل ہیں جو بظاہر ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ۔

لیکن جاننا چاہئے کہ اس کے میٹھے پھل جن سے انسان نے بہرہ مند ہوکرمعاشرے کوباسعادت بنادیاہے،ان ملتوںکے بہت سے پسندیدہ اخلاق جیسے سچائی،صحیح کام،فرض شناسی،خیرخواہی اور فداکاری کا نتیجہ ہے ،نہ صرف قانون کا!کیونکہ یہی قوانین پسماندہ ملتوں ،جیسے ایشیااور افریقہ میں بھی موجود ہیں حالانکہ ان کی پستی اور بدبختی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

لیکن اس درخت کا تلخ پھل ۔جس سے انسان آج تک کو تلخ کام ہے وہ انسان کے لئے تاریکی اوربدبختی کاسبب بناہے اور خود ان ترقی یافتہ ملتوں کو بھی دوسروں کی طرح نابودی کی طرف کھینچ رہا ہے۔ کچھ ناپسندیدہ اخلاق ہیں،جن کاسرچشمہ:حرص،طمع، بے انصافی،بے رحمی،غرور،تکبر،ضد،اور ہٹ دھرمی ہے۔

اگرہم دین مقدس اسلام کے قوانین پر سنجیدگی سے غور کریں ،توہم متوجہ ہوں گے کہ اسلام مذکورہ صفات کے پہلے حصہ کا حکم دیتا ہے اور دوسرے حصہ سے روکتا ہے ،مختصر یہ کہ کلی طورپر تمام حق اور نیک انسان کی مصلحت کے امور کی دعوت دیتا ہے اور انھیں اپنی تربیت کی بنیاد قرار دیتا ہے اور ہر اس ناحق اوربرے کام سے روکتا ہے جو انسان کی زندگی کے آرام میں خلل ڈالتا ہے (خواہ کسی خاص قوم وملت سے مربوط ہو)

نتیجہ

مذکورہ بیانات کے نتیجہ کے طور پر مندرجہ ذیل چند نکات ذکر کئے جاتے ہیں :

١۔اسلام کا طریقہ دوسرے تمام اجتماعی طریقوں سے زیادہ پسندیدہ اورانسانیت کے لئے زیادہ مفید ہے:

( ذلک دین القیّم ولکن اکثر النّاس لا یعلمون ) (روم٣٠)

''...یقینا یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس بات سے بالکل بے خبر ہے ''

٢۔موجودہ دنیا کی تہذیب وتمدن کے واضح نقوش اور میٹھے پھل سبھی دین مقدس اسلام کی برکتیں اور اس کے آثار کی زندہ شقیں اور اصول ہیں جو مغرب والوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں ،کیونکہ اسلام ،مغر بی تمدن کے آثار کے رونما ہونے سے صدیوں پہلے لوگوں کو انہی اخلاقی اصولوں کی طرف دعوت دے رہا تھا کہ یورپ والوں نے ان پر عمل کرنے میں ہم سے پیش قدمی کی ۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام زندگی کے آخری لمحات میں لوگوں سے فرماتے تھے:

''تمہارا برتائوایسا نہ ہو کہ دوسرے لوگ قرآن مجید پر عمل کرنے میں تم سے آگے بڑھ جائیں'' ۔(۱)

٣۔اسلام کے حکم کے مطابق ''اخلاق''کو اصلی مقصد قرار دینا چاہئے اور قوانین کو اس کی بنیاد پر مرتب کرنا چاہئے ،کیونکہ پسندیدہ اخلاق کو فراموش کرنا(جو انسان کو حیوان سے ممتاز کرنے کا سبب ہے)انسان کو معنویت سے مادیت کی طرف ڈھکیل دیتا ہے اور اس کو بھیڑئیے،چیتے اور گائے جیسا درندہ بنادیتا ہے نیز اس میں گوسفند کے صفات پیدا کر دیتا ہے ۔

اسی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

''بُعِثتُ لاتِّمم مکارم الاخلاق'' (۲)

''میری بعثت کا اصلی مقصد ،لوگوں کی اخلاقی تر بیت ہے ''

طبیعی وسائل سے اسلام کی ترقی

غیرطبیعی وسائل ،کہ جن کا کوئی مادی وجود نہیں ہے، ناکام ہوتے ہیں اور جلد یا کچھ مدت بعد نا بود ہوجا تے ہیں، اسلام جیسے دین میں جو کہ بشریت پر ہمیشہ حکو مت کرنا چاہتا ہے، ان غیر طبیعی وسائل سے استفادہ کرنا صحیح نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنی ترقی میں طاقت کا سہارا نہیں لیا ہے .یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ''اسلام تلوار کا دین ہے''حقیقت میں یہ لوگ صدراسلام کی جنگوںکو ظاہری طور پردیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے فیصلہ کر دیتے ہیں ۔جودین علم وایمان کی بنیاد پر وجود میں آیا ہو ،اس کے لئے بعید ہے کہ وہ اپنی ترقی اور لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنے کے لئے تلوار کا سہارا لے لے (اسلام میں جہاد کے فلسفہ کا مطالعہ فرمائیں )اسی لئے اسلا م نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے نیرنگ ،جھوٹ اورسیاسی شعبدہ بازی کا سہارا نہیں لیاہے اورانہیں صحیح نہیں جاناہے ،کیونکہ اسلام صرف یہ چاہتا ہے کہ حق زندہ ہواور باطل نابود ہو اور حق تک پہنچنے کے لئے باطل کی راہ پر گامزن ہونا ،حق کی نابودی کا سبب بنتا ہے۔

خدائے متعال اپنے کلام میں فرماتا ہے:

'' خداظالموں ،بدکاروں اور حق کو چھپانے والوں کو اپنے مقصد میں کامیاب ہونے نہیں دیتا ''(۳)

تبلیغ اور دعوت اسلام

اسلام نے لوگوں کی ہدایت اور حق کو پھیلانے کے لئے ایک ایسے راستہ کاانتخاب کیا ہے جو انسان کی فطرت اور خلقت کے عین مطابق ہے اور وہ''تبلیغ اور دعوت کا راستہ ''ہے ،جو انسان کے لئے حقائق،حقیقت پسندانہ فطرت اور سعادت طلبی کو واضح کر کے اسے بیدار کر دیتا ہے اور آسانی کے ساتھ اسے حق کے حوالے کرتا ہے ۔

یہ روش،یعنی تبلیغ ودعوت،ایک ایسی روش ہے جسے تمام انبیاء علیہم السلام نے اختیار کیاہے۔اسلام ،جو خاتم ادیان اوربھر پور صلاحیتوں کاحامل دین، میں اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا گیا ہے اور اس راستہ کا اپنا نا مسلمانوں پر واجب کیا گیا ہے، تا کہ دین کی نشر و اشاعت میں کوتاہی نہ کریں۔

خدائے متعال اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خطاب کرتے ہوئے فرماتاہے:

'' میرا او ر میرے پیرؤں کا راستہ یہ ہے کہ وہ مکمل بصیرت کے ساتھ لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دیتے ہیں ''(۴)

تبلیغ کا طریقہ

مذکورہ آیہ شریفہ سے معلوم ہوتاہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام مکمل بصیرت سے انجام پاناچاہئے، مختصر یہ کہ مبلغ کو تبلیغ سے مربوط دینی مسائل سے آگاہ ہوناچاہئے،اور تبلیغ کے طریقہ کار، شرائط اور اس کے آداب سے پوری طرح باخبر ہونا جاہئے۔ البتہ تبلیغ کے شرائط و آداب بہت زیادہ ہیں، جیسے: خوش اخلاقی ، خندہ پیشانی، وقار و بردباری او رحق و انصاف کا احترام و غیرہ لیکن ان میں سب سے اہم علم وعمل ہے۔ کیونکہ جو شخص علم کے بغیر تبلیغ کرتاہے، چونکہ وہ حقیقت سے آگاہ نہیں ہے اس لئے باطل کی تبلیغ کرنے والوں کی طرح ، لوگوں کی حق تلفی کرنے اور انھیں گمراہ کرنے میں پروا نہیں کرتاہے اور جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتا، حقیقت میں وہ جو کچھ کہتاہے، اس کی اپنے عمل سے تردید کرتاہے اور جس چیز کی اپنی زبان سے تعریف کرتاہے، اس کی اپنے کردار سے، مذمت کرتا ہے جو شخص کسی چیز کی طرف دوسروں کودعوت دیتاہے، لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے، جو ایک ہاتھ سے کسی چیز کو کھینچتاہے اور دوسرے ہاتھ سے اسے ڈھکیلتا ہے۔

خدائے متعال اپنے کلام میں فرماتاہے:

''کیا تم، لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہواور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟''(۵)

ہمارے آٹھویں امام حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے:

''لوگوں کو اپنے گفتار و کردار سے دعوت دو، نہ صرف گفتار سے ''(۶)

____________________

١۔ نہج البلاغہ ،صبحی صالح،ص٤٢٢۔

۲۔بحار الانوار ،ج٧١،ص٣٧٣۔

۳۔بقرہ١٥٩و١٧٤۔

۴۔ یوسف١٠٨۔

۵۔ (اتامرون النّاس بالبّر و تنسون انفسکم ...) (بقرہ/ ٤٤)۔

۶۔ بحار الانوار ، ج ، ص ٣٠٨۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25