دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 36946
ڈاؤنلوڈ: 2036

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36946 / ڈاؤنلوڈ: 2036
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

نیکوں کی مصاحبت

اس کے باوجود کہ انسان بہت سے لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے ، مگر وہ زندگی کے تقاضے کے مطابق مجبورہے کہ کچھ لوگوں کے ساتھ دوسروں کی نسبت زیادہ مل جل کر رہے ،یہ وہ لوگ ہیں جو''دوست'' کے نام مشہور ہیں ۔

البتہ اس دوستی کاسبب اخلاق،روش، اورپیشہ وغیرہ میں ایک قسم کی یکسانیت ہے جودویاچند افراد کے درمیان پائی جاتی ہے اور چونکہ وابستگی اورمصاحبت کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ دو ہم نشین افراد کے عادات واخلاق ایک دوسرے میں منتقل ہوتے ہیں ،لہذا انسان کونیک انسانوںکی دوستی اختیار کرنی چاہئے ،کیونکہ اس صورت میں ان کے نیک اخلاق اس میں سرایت کریں گے اس کی بے لوث اور خیرخواہانہ دوستی سے استفادہ کرے گا اوراس کی دوستی کی پائداری سے مطمئن رہے گا۔اس کے علا وہ لوگوںکی نظروں میں اس کی اجتماعی حیثیت بھی بڑھ جائے گی ۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''خیر الاصحاب من یَد لُّکَ علی الخیر''

''بہترین دوست وہ ہے جوتجھے نیک کام کی طرف راہنمائی کرے۔''

مزید فرماتا ہے :

''المرء یوزن بخلیله ''

''مرداپنے دوست کے ذریعہ تولا جاتا ہے ''(۱)

تو اول بگوباچہ کس زیستی

کہ تامن بگویم کہ توکیستی

ہمان قیمت آ شنایان تو

بود قیمت و ارزش جان تو

تم پہلے یہ بتاوکہ تم کس کے ہم نشیں ہوتاکہ میں بتاسکوں کہ تم کون ہوتیری قدروقیمت بھی وہی ہوگی جو تیرے دوست کی ہے۔

بروں کی مصاحبت

بروں اور گنہگاروںکے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بدبختی اور برے انجام کاسبب بنتاہے ۔اس مطلب کی وضاحت کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اگرہم مجرموں اور بدکرداروں جیسے چوروں اورڈاکوئوں سے ان کے انحراف وگمراہی کے سبب کے بارے میں پوچھیں تو وہ کسی شک وشبہہ کے بغیرجواب دیں گے کہ برے لوگوں کی مصاحبت اورمعاشرت نے ہمیں

اس مصیبت میں گرفتارکیا ہے ۔ہزاروں بدکرداروں میں ایک آدمی بھی ایسا نہیں ملے گا کی جس نے خودبخودناشائستہ راستہ کوانتخاب کیاہو۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''بروں کی ہم نشنی سے پرہیز کرو،کیونکہ برادوست تم کو اپنے جیسا بنادے گا، اور وہ تمہارے جیسانہیں بنے گا''(۲)

مزید فرماتے ہیں :

''ایاک ومصادقة الفاجر فانه یبیع مصادقه بالتّا فة'' (۳)

''بدکردارکی دوستی سے پرہیز کروکیونکہ وہ تم کو معمولی چیز کے مقابلہ میں بیچ دے گا.''

بابدان کم نشین کہ درمانی

خوپذیراست نفس انسانی

''بروں کی ہم نشنی کم اختیار کرو،کیونکہ انسان دوسروں کی عادت کوقبول کرنے والا ہوتا ہے ''

ماں باپ پر اولاد کے حقوق

انسان کو جوکام انجام دیناچاہئے جس کے بارے میں انجام دیتا ہو او راس کو اس کانفع ملتا ہو تو اسے ''حق'' کہتے ہیں اور جس کے لئے اسے انجام دینا چاہئے اسے ''فریضہ، حکم اور تکلیف'' کہتے ہیں۔ مثلا کوئی شخص کسی کے لئے اجرت پر کوئی کام انجام دیتا ہے،تو اجرت ادا کرنا صاحب کا رکا فرض ہے اور مزدور کا حق ہے۔ اگر صاحب کار نے اجرت ادا نہ کی تو

مزدور اس سے مطالبہ کر سکتا ہے اور اپنے حق کا دفاع کر سکتا ہے، کیونکہ انسان اس طرح خلق کیا گیا ہے کہ اس دنیا میں اس کی زندگی ابدی نہیں ہے اور خواہ نخواہ کچھ مدت کے بعد، رخت سفر باندھتا ہے، خدائے تعالے نے انسان کی نسل کو نابودی سے بچانے کے لئے تناسل وتوالد کی روش کو قرار دیا ہے اور انسان کو تناسل کے وسائل مہیا کئے ہیں اور اس کے باطنی جذبات کو اس کام کی طرف متوجہ کیا ہے۔

اسی مکمل آمادگی کا نتیجہ ہے کہ انسان فطری طور پر اپنی اولاد کو اپنے بدن کاٹکڑا سمجھتا ہے اور اس کی بقا کو اپنی بقا جانتا ہے او راس کی آسائش و کامیابی کی راہ میں ہر قسم کی تلاش و کوشش کرتا ہے اور گوناگوں رنج و الم برداشت کرتا ہے، کیونکہ وہ اس کی ذات یا شخصیت کی نابود ی کو اپنی ذات یا شخصیت کی نابودی جانتا ہے۔ حقیقت میں وہ خالق کائنات کے حکم کی تعمیل کر تاہے جو بشر کی بقا چاہتا ہے۔ لہذا ماں باپ کا فرض ہے کہ جس حکم میں ضمیر و شرع متفق ہیں اس کو اپنے فرزند کے بارے میں نافذ کریں اور اس کی اچھی پرورش کریں تا کہ وہ ایک شائستہ انسان بن جائے، اس کے لئے اسی چیز کا انتخاب کریں جس کو انسانیت کی نگاہ میں اپنے لئے انتخاب کرتے ہیں۔ یہاں پر ہم ان میں سے بعض حقوق کو بیان کرتے ہیں:

١۔ پہلے ہی دن سے جب بچہ بات یا اشارہ کو سمجھنے لگے، اس کے ضمیر میں پسندیدہ اخلاق او رشائستہ صفات کی بنیاد ڈال کر انھیں مستحکم کریں اور حتی الامکان اسے بیہودہ باتوںکے ذریعہ نہ ڈرائیں اور اسے بُرے اور عفت کے خلاف کاموں سے روکیں اور خود بھی اس کے سامنے جھوٹ بولنے ،گالیاں دینے اور برے الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کریں اور اس کے سامنے پسندیدہ کام انجام دیں تا کہ شریف او رعالی مزاج بن جائے اور اپنی طرف سے سنجیدگی،ہمت او رعدالت کامظاہرہ کریں تا کہ ان کی عدالت دوستی اورانسان پروری ''انتقال اخلاق'' کے قانون کے تحت اس میں منتقل ہوجائے اور زیادتی ، حوصلہ شکنی اور خود پرستی سے محفوظ رہے۔

٢۔ جب تک ممےّزنہ ہوجائے کھانے پینے، سونے اور اس کی دوسری ضرورتوں میں اس کاخیال رکھیں اور اس کے جسمی حفظان صحت کی رعایت کریں تا کہ وہ ایک سالم بدن اور قوی دماغ اور اچھا مزاج والابن کر تعلیم و تربیت کے لئے آمادہ ہوجائے۔

٣۔ جب بچہ میں تعلیم و تربیت کی استعداد پیدا ہو جائے( عام طو رپر یہ مرحلہ سات سال کی عمر میں آتا ہے) اسے معلم کے حوالہ کریں اور کوشش کریں کہ ایک شائستہ معلم کی تربیت میں رہے تاکہ جو کچھ اس سے سنے اس کا اس پر اچھا اثر پڑے اور وہ اس کے روح کی شرافت ، تزکیہ نفس او رتہذیب اخلاق کا سبب بنے۔

٤۔ جب بچے کی عمر اتنی ہوجائے کہ وہ عام پروگراموں یا خاندانی نشست و برخاست میں شرکت کر سکتا ہو، تو اسے اجتماعی رسومات سے آشنا کرنے کے لئے اپنے ساتھ پروگراموں میں لے جاناچاہئے اور پسندیدہ معاشرتوں کے طرز عمل سے اسے آگاہ کرنا چاہئے۔

اولاد پر ماں باپ کے حقوق

وہ آواز جو ضمیر او رشرع کے منادی کی طرف سے ماں باپ کے کانوں میں پہنچی ا ور انھیں اولاد کے بارے میں ذمہ دار بنادیا، اسی طرح ضمیر اور شرع کی آوازنے اولاد کو بھی متوجہ کیا اور اس پر فرض کردیا کہ اپنے ماں باپ کی نیکیوں کا ۔ ہاتھ، زبان یا ہر وسیلہ سے۔ شکریہ بجالائے۔

ماں باپ وہ ہیں جو خدا کے ارادہ سے اپنے فرزند کو وجود میں لائے ہیں اور اپنے آرام و سکون اس کے معنوی اور جسمانی آرام و سکون پر قربان کرکے ایک عمر راتوں کو جاگ کر اور دن میں رنج و غم برداشت کرکے اسے ایک قوی انسان بناتے ہیں۔

کتنی نامردی، پستی اور نمک حرامی ہے کہ انسان اپنے ماں باپ کو اذیت پہنچائے یا ان کے بوڑھاپے اور ناتوانی کے دنوں میں ان کی مدد نہ کرے!!

خدا کی توحید ، جو انسان کا پہلا فریضہ ہے،کے بعددوسرا فریضہ جو اسلام نے انسان کے لئے معین کیا ہے، وہ ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ ہے:

( وقضی ربُّک الاّ تعبد وا اَلّاا ایّاه و بالوالدین احساناً ) ...)

( اسرائ/ ٢٣)

''اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا...''

اسلام میں مقرر شدہ فریضے کے مطابق، فرزند کو کسی صورت میں یہ حق نہیں ہے کہ اپنے ماں باپ کو ذلیل و خوار سمجھے اور ایک ایسا کام انجام دے جو ان کی رنجید گی کا سبب بنے ، اسے ہمیشہ اپنے ماں باپ کا احترام کرنا چاہئے اوران کی نسبت فروتنی اور انکساری او راحسان و نیکی کے ساتھ پیش آنا چاہئے، خاص کر ان کی ضرورت کے وقت ان کی مدد کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔ لیکن جاننا چاہئے کہ ماں باپ کی مرضی کی رعایت کرنا صرف مستحب اور مباح کاموں میں ہے، واجبات میں ان کی مرضی کے مطابق انجام دینا لازم نہیں ہے۔

بھائیوںاور بہنوں کے باہمی حقوق

قرآن مجید میں ، رشتہ داروں کے با رے میں بارہا تا کید کی گئی ہے اور قطع رابطہ سے منع کیاگیاہے ۔ ماں باپ اور اولاد کے بعد انسان کے قریبی ترین رشتہ دار بھائی اور بہن ہیں اور ان کے درمیان اجتماعی رابطہ فطری ہے اور یہ رابطہ تمام رابطوں سے مستحکم اور بنیادی تر ہے۔ بھائی بہنوں کا فریضہ ہے،کہ ضرورت پر رشتہ کے ناطوں کونہ توڑیں اور آپس میں تعاون کرکے حتی الامکان ایک دوسرے کی مدد کریں اور ضرورت پر ایک دوسرے کی دستگیری کریں ۔ بڑے ، چھوٹوں کے ساتھ مہربانی اورہمدردی سے پیش آئیں او رچھوٹے بھی بڑوں کا احترام کریں۔

عاق والدین

خاندانی اجتماع میں اولاد کی ماں باپ سے وہی نسبت ہے جو ایک درخت میں شاخوں کی جڑ سے ہوئی ہے، چونکہ جس طرح درخت کی شاخوں کا وجود جڑ پر منحصر ہوتاہے، اسی طرح فرزند کی زندگی بنیاد ڈالنے والے اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔چنانچہ انسانی معاشرہ والدین اوراولاد کے دوگروہ سے تشکیل پاتا ہے ،اسلئے معاشرے کی اصلی بنیاد والدین ہی ہیں ۔

ماں باپ کے ساتھ برا سلوک کرنا اورانھیں اذیت وآزارپہنچانا ، نمک حرامی اورنامردی کے علاوہ انسانیت کے انحطاط اور معاشرے کی نابودی کا سبب بنتا ہے ۔ کیوںکہ اولاد کی طرف سے ماںباپ کی بے احترامی ،ماں باپ کی طرف سے بھی عدم محبت اوربے توجہی کی صورت میں ظاہر ہوگی اوردوسر ے یہ کہ جو اولاد اپنے ماں باپ کو ذلیل وخوار اور پست نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ اپنی اولاد سے اپنے سے زیادہ توقع نہیں رکھیں گے اوراپنے بوڑھا پے اورناتوانی کے دنوں میں ان کی طرف سے دستگیری اور مدد کی کوئی امید نہیں رکھیں گے اوراسطرح لا محالہ خاندان کی تشکیل سردمہری کا شکار ہوگی ،جیسا کہ آج کل بہت سے نوجوانوں میں ایسی حالت کا مشاہدہ ہوتا ہے۔

اس طرزفکر کا عام ہونا قطعی طورپر تناسل اور توالد کی راہ کو مسدود کرتا ہے،کیونکہ کوئی عقل مند اپنی گراں بہا عمرکوایک ایسے پودے کی پرورش میں صرف نہیں کرتا جس کانہ وہ پھل کھاسکے گا اورنہ اس کے سایہ میں بیٹھ سکے گا اور نہ اس کو دیکھنے میں غم واندوہ کے علاوہ اسے کوئی فائدہ ہو گا ۔ممکن ہے ہم تصور کریں کہ حکومت مختلف انعامات سے لوگوں کو خاندان کی تشکیل میں تشویق کرے اور اسطرح ،تناسل وتوالد کامسئلہ حل ہو جائے ،لیکن یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ اجتماعی رسومات میں سے اگر کوئی بھی طریقہ اور رسم فطری پشت پنا ہی (جیسے ماں باپ اور اولاد کے جذبات )نہ رکھتی ہو تو وہ پائدار نہیں ہے۔

اس کے علاوہ فطری جبلتوں میں سے کسی ایک جبلت کو چھوڑنا انسان کومعنوی لذتوں سے محروم کرتا ہے۔

عزت نفس اور کامیابی

یہ بات مسلم اوریقینی ہے کہ ہر معاشرے میں بے چارے اورنادار،مدداوردستگیری کے مستحق ہوتے ہیں ۔سرمایہ داروں کافرض ہے کہ ان کی مدد کریں اوران کے اس مسلم حق کو پامال نہ کریں اورشرع مقدس میں اسلام نے بھی اس حق کی رعایت کے سلسلہ میں تاکید و نصیحت کی ہے ،اور دولتمندوں پر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ناداروں اور بیچاروں کی مدد کریں ۔

خدائے متعال نے قرآن مجید میں خود کو نیکی کرنے والا،بخشش وعطا کرنے والا اور معاف کرنے والاکہاہے .اوراپنے بندوں کو یہ پسندیدہ صفتیں پیدا کرنے کی ترغیب وتشویق فرماتا ہے ۔

''خدائے متعال نیک کام انجام دینے والوں کے ساتھ ہے ۔''(۴)

نیز فرماتا ہے :

''جس چیز کو انفاق کرتے ہووہ خودتمہارے فائدے میں ہے ۔''(۵)

دوسری جگہ پر فرماتا ہے :

''جو کچھ انفاق کرتے ہو،وہ تمھیں پلٹادیا جاتا ہے اورتم نے کسی قسم کانقصان نہیں اٹھایا ہے''(۶)

احسان اور محتاجوں کی مدد

اجتماعی حالات اوراحسان کے فوائد کے بارے میں غور و فکر اور مطا لعہ ان آیات کے مضمون کوواضح کردیتا ہے ،کیونکہ حقیقت میں تمام اجتماعی توانائیاں سارے افراد کے لئے

کام کرتی ہیں اور جس معاشرے میں کچھ غریب و نادار فقر وتنگ دستی کی وجہ سے کام اور کوشش سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں تو ان کی تعداد کے اعتبار سے مال وثروت کی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے اور اس کے نامطلوب نتائج تمام لوگوں کواپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اورنوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ دولت منددوسروں سے زیادہ بیچارے ہوجاتے ہیں، لیکن اگر مالدار اپنی نیکی اور بخشش سے ناداروں کی دستگیری کریں توان کے حق میں بہت اچھے نتائج نکلتے ہیں کہ من جملہ ان کے:

١۔اس کام سے دوسروں کے دلوں میں اپنے بارے میں محبت پیدا کرتے ہیں اورایک گروہ کو اپناعاشق بناتے ہیں ۔

٢۔ایک ناچیز مال سے اپنے لئے زیادہ احترام حاصل کرتے ہیں ۔

٣۔تمام لوگوں کی پشت پناہی کو اپنے لئے حاصل کرتے ہیں ،کیونکہ لوگ نیکی کرنے والے کی طرف داری کرتے ہیں ۔

٤۔اس دن کے خطرے سے محفوظ رہتے ہیں کہ جس دن تمام ناداروں کی ناراضگی جمع ہوکرہرخشک وتر کوبہادے گی۔

٥۔وہی ناچیز مال جوانفاق کیا ہے ،اقتصاد کا پہیہ حرکت میں آنے کاسبب بنتا ہے اور معاشرے کے مال میں اضافہ ہو کرخود ان کی طرف پلٹتا ہے ۔

خدا کی راہ میں انفاق کرنے کی فضیلت اور اسکی طرف ترغیب اور تشویق کرنے کے بارے میں بہت سی آیات وروایات موجود ہیں ۔

تعاون

احسان ونیکی کامسئلہ جو بیان ہوچکا ،تعاون کے مختلف شعبوں میں سے ایک ہے جوانسانی معاشرے کی بنیاد ہے ،کیونکہ سماج کی حقیقت، افراد کاایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے تاکہ ایک دوسرے کی مدد سے سبھی کاکام ٹھیک ہو جائے اور سبھی کی زندگی مستحکم اورسبھی کی ضرورتیںپوری ہوجائیں ۔ لیکن یہ تصورنہیں کرناچاہئے کہ دین مقدس اسلام نے نیکی کوصرف مال کی صورت میں چاہا ہے ،بلکہ ہربیچارے کی دستگیری ،اگرمال کی ضرورت بھی نہ ہو،دین مقدس اسلام کامقصدہے اورانسانی ضمیرکا مطلوب بھی ہے ۔

ایک جاہل کو علم سکھانا،ایک اندھے کاہاتھ پکڑنا،ایک گمراہ کی راہنمائی کرنااورگرے ہوئے کی مدد کرناوغیرہ سب احسان اورنیکی کے مصادیق اور اس تعاون میں سے ہیںکہ ہم نے اجتماع کو تشکیل دینے کے پہلے دن اس کے اعتبارکی تصدیق اورتائید کی ہے اور واضح ہے کہ اگرانسان ،بعض جزئی کام انجام نہ دے تو وہ بنیادی کام بھی انجام نہیں دے گا ،اگرغیراہم اور جزئی فرائض کی رعایت نہ کرے،تو وہ کلی اور اہم فرائض کوبھی انجام نہیں دے گا ۔

خیرات اور نیکیوں کی طرف سبقت کرن

نیک کام کا پسندیدہ ہونا ان نتائج کی بنا پر ہے جواس سے حاصل ہوتے ہیں البتہ جس قدریہ نتائج وآثارعوامی تراورپائندہ تر ہوں ،اسی قدر نیکی بھی پسندیدہ تر وعالی تر ہوگی ،ایک بیمار کا علاج کرنا نیک کا م اوراحسان ہے ،لیکن ایک ہسپتال کوتعمیر کرنااور اسے چالو کرناجس میں روزانہ سیکڑوں بیماروں کاعلاج کیا جائے،اس کے ساتھ قابل موازنہ نہیںہے ۔ایک طالب علم کی تعلیم پسندیدہ ہے ،لیکن ایک ادارہ کی تاسیس کے ساتھ قابل موازنہ نہیں ہے جس میں سالانہ سیکڑوں دانشور علم حاصل کرکے فارغ ہو جائیں۔یہی وجہ ہے کہ عام اوقاف اور عوامی سطح کے خیرات و نیکیاں احسان ونیکیوں کے عالی مراتب شمار ہوتے ہیں ۔

شرع کی زبان میں ان عمومی خیرات کو''صدقہ جاریہ''سے تعبیر کیاگیا ہے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

''مرد کی سربلندی کاسبب دوچیزیں ہیں ،ایک فرزند صالح اوردوسرے صدقہ جاریہ ''

چنانچہ کتاب وسنت سے معلوم ہوتاہے کہ جب تک''صدقہ جاریہ'' باقی رہتاہے خدائے متعال ،صدقہ دینے والے کے نام ثواب لکھتا ہے ۔

یتیم کامال کھان

جس طرح لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا عقلاً وشرعاًپسندیدہ ہے اسی طرح خدا کے بندوں کے ساتھ بُرائی کرنا ناروا اورقابل مذمت کام ہے ،لیکن شرع مقدس اسلام میں ظلم کے چند مواقع کی شدت کے ساتھ نہی کی گئی ہے، کہ ان میں سے ایک ''مال یتیم میں تفریط'' ہے۔

اسلام نے یتیم کا مال کھانے کو گناہان کبیر میں شما رکیا ہے اور قرآن مجید میں صراحت سے بیان کیا گیا ہے، کہ جو یتیم کا مال کھاتا ہے، حقیقت میں وہ آگ کھاتا ہے اور اسے جلتی ہوئی آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ چنانچہ ائمہ اطہار علیہم السلام کے بیانات سے معلوم ہوتاہے کہ اس قدر تاکید کا سبب یہ ہے کہ اگر کسی بوڑھے انسان سے ظلم کیا جائے تو ممکن ہے وہ مقابلہ کرنے کے لئے اٹھ کر اپنے حق کا دفاع کرے گا، لیکن کم عمر یتیم اپنے حق کا دفاع کرنے سے عاجز ہے۔

کسی کوقتل کرن

ظلم کا ایک اور مقام جسے شرع مقدس اسلام میں بہت ناپسند و قابل مذمت سمجھاگیاہے وہ ''قتل نفس اور بے گناہ کو قتل کرنا'' ہے۔

قتل نفس گناہان کبیرہ میں سے ہے، اور خدائے متعال نے اپنے کلام میں ، ایک انسان کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے برابر جاناہے، یہ اس لئے ہے کہ انسان کو قتل کرنے والا انسانیت کے ساتھ سروکار رکھتا ہے اور انسانیت ایک آدمی اور ہزار آدمی میں یکساں ہے۔

رحمتِ خدا سے مایوسی

اسلام میں ایک خطرناک ترین گناہ ''خدا کی رحمت سے مایوسی ہے خدا ئے تعالے فرماتاہے:

( قل یٰعبادی الّذین اَسرفُوا علی انفسهم لاتقنطوا من رحمة اللّه ان اللّه یغفر الذُّنوب جمیعا انّه هو الغفور الرّحیم )

(زمر٥٣)

''پیغمبر! آپ پیغام پہنچاد یجئے کہ اے میرے بندو اجنھوں نے اپنے نفس پرزیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کا معاف کرنے والاہے اور وہ یقینا زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔''

ایک دوسری جگہ پر رحمت خداسے مایوس شخص کو قرآن کافر جانتا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کی رحمت اور بخشش سے مایوس ہوا، تو پھراس کے پاس باطنی طور پر تحریک کرنے والا محرک نہیں ہے کہ اچھے اور پسندیدہ کام انجام دے یا گناہا ن کبیرہ و صغیرہ اور بُرے کردار سے اجتناب کرے، کیونکہ ان دونوںچیزوں میں اصلی محرک عذاب خدا سے بچنے کے لئے ''رحمت و نجات کی امید'' ہے۔ اورچونکہ یہ امید اس شخص میں نہیں پائی جاتی ہے لہذایہ شخص اس کافر سے کسی قسم کا فرق نہیں رکھتا ہے جو کسی دین کا پابند نہیں ہے۔

جہاد اور دفاع سے فرارکی سزا

میدان جنگ سے بھاگنے اور دشمن کو پیٹھ دکھانے کے معنی یہ ہیں کہ ، بھاگنے والا، اپنی جان کو معاشرے کی زندگی سے زیادہ قیمتی جانتا ہے اور حقیقت میں یہ دشمن کے سامنے دینی مقدسات اور معاشرے کی جان و مال کو پیش کرنے کے مترادف ہے جو اس کی زندگی کی حیثیتیوں کو دھمکا تا ہے۔

اسی لئے جہاداوردفاع سے بھاگنے کوگناہان کبیرہ میں شمارکیاگیا ہے اور خدائے متعال اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے :

( ومَن یولّهم یومئذ دبره الامتحِّرفا لقتال اومتحّیزاالی فئةفقد باء بغضب من اللّه وماوٰه جهنم ) ...) (انفال١٦)

''اورجوآ ج کے دن پیٹھ دکھائیگا وہ غضب الہیٰ کا حقدار ہوگا اور اس کا ٹھکاناجہنم ہوگا علاوہ ان لوگوں کے جو جنگی حکمت عملی کی بناپرپیچھے ہٹ جائیں یاکسی دوسرے گروہ کی پناہ لینے کے لئے اپنی جگہ چھوڑدیں ۔''

____________________

١۔میزان الحکمة،ج٢،ص٣٢٧۔

۲۔شرح غررالحکم ،ج٢،ص٢٨٩۔

۳۔غررالحکم ،ح١٠٧،ص١٥٩۔

۴۔(عنکبوت٦٩)۔

۵۔(بقرہ٢٧٢)۔

۶۔(انفال ٦٠)۔