دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 36961
ڈاؤنلوڈ: 2046

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36961 / ڈاؤنلوڈ: 2046
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

دین ،قرآن مجید کی نظر میں

( ان الدّین عند اللّه الاسلام ومااختلف الّذین اوتوا الکتاب الاّٰ من بعد ما جآ ء هم العلم بغیاً بینهم و من یکفر بایٰات اللّه فا ن اللّه سریع الحساب ) (آل عمران١٩)

''دین،اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے اور اہل کتاب نے علم آنے کے بعد ہی جھگڑا شروع کیا صرف آپس کی شرارتوں کی بناپر اور جو بھی آیات الہی کا انکار کرے گاتوخدابہت جلد حساب کرنے والا ہے۔''

انبیاء نے جس دین کی طرف لوگوں کودعوت دی ہے وہ خداپرستی اور اس کے احکام کے مقابلہ میں تسلیم ہونا ہے۔ادیان کے علمائ،باوجود اس کے کہ حق کی راہ کو باطل سے تشخیص دیتے تھے ،تعصب ودشمنی کی وجہ سے حق سے منحرف ہوکرہر ایک نے ایک الگ راستہ اختیار کیا ،اور نتیجہ کے طور پر دنیا میں مختلف ادیان وجود میں آگئے ۔حقیقت میں لوگوں کے اس گروہ نے آیات الہی کی نسبت کفر اختیار کیا ہے اور خدائے متعال ان کے اعمال کی جلد ہی سزا دے گا:

( ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منه وهو فی الاخرة من الخٰاسرین ) (آل عمران ٨٥)

''اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ قیامت کے دن خسارہ والوں میں ہوگا۔''

( یا ایّها الذین ء آمنوا ادخلوا فی السّلم کافّةً ولا تتّبعوا خطوات الشیطان انه لکم عدوّمّبین ) (بقرہ٢٠٨)

''ایمان والو !تم سب مکمل طریقہ سے اسلام میں داخل ہو جائو اور شیطانی اقدامات کا اتباع نہ کرو وہ تمہاراکھلا ہوا دشمن ہے۔''

( واوفوا بعهد اللّه اذاعٰاهد تّم ولا تنقضوا الایمٰان بعد توکیدهٰا وقد جعلتم اللّه علیکم کفیلا ان اللّه یعلم ماتفعلون )

(نحل ٩١)

'' اور جب کوئی عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو اور اپنی قسموں کوان کے استحکام کے بعد ہر گز مت توڑو جب کہ تم اللہ کو کفیل اور نگران بنا چکے ہو کہ یقینا اللہ تمہارے افعال کو خوب جانتا ہے۔''

اس آیة شریفہ کا مقصد یہ ہے کہ، مسلمان جو بھی عہد و پیمان خدا یا بندوں سے کریں ،انھیں اس پر عمل کرنا چاہئے اور اسے نہ توڑیں ۔

( ادع الی سبیل ربّک بالحکمةوالموعظة الحسنة وجٰادلهم بالّتی هی احسن ان ربّک هو اعلم بمن ضلّ عن سبیله وهو اعلم بالمهتدین ) (نحل ١٢٥)

''آپ اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہتر ین طریقہ ہے کہ آپ کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بہک گیا ہے اور کون لوگ ہدایت پانے والے ہیں ۔''

مقصد یہ ہے کہ،دین کی تر قی کیلئے مسلمان کوہر ایک کے ساتھ اس کی عقل وفہم کے مطابق اس کے لئے مفید ہو ،اور اگردلیل و برہان اور نصیحت سے کسی کی راہنمائی نہ کر سکا ،تو جد ل (جو کہ مطلب کو ثابت کر نے کا ایک طریقہ ہے )کے ذریعہ اس کو حق کی طرف دعوت دے۔

( واذا قری القرآن فاستمعوا له وانصتوا لعلّکم ترحمون )

(اعراف٢٠٤)

''اور جب قرآن کی تلا وت کی جائے تو خاموش ہو کر غور سے سنو شاید تم پررحمت نازل ہوجائے ۔''

( یا ایّها الّذینء امنوا اطیعوا اللّه و اطیعوا الرّسول و اولی الامرمنکم فان تنٰازعتم فی شی ئٍ فرُدّوه الی اللّه و الرّسول ان کنتم تومنون باللّه و الیوم الاٰخر ذلک خیر واحسن تاویلا ) ( نسائ٥٩)

''ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیںمیں سے ہیں ،پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگرتم اللہ اورروزآخرت پر ایمان رکھنے والے ہو ،یہی تمہارے حق میں خیر اورانجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے۔''

مقصد یہ ہے کہ اسلامی معاشروں میں ، اختلاف دور کرنے کا وسیلہ ،قرآن مجید اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے،اور ان دودلیلوں کے ذریعہ ہر اختلاف کو حل کرنا چاہئے اوراگر کسی مسلمان نے عقل سے اختلاف دور کیا،تووہ بھی اس لئے ہے کہ قرآن مجید نے عقل کے حکم کو قبول کیا ہے ۔

( فبما رحمةٍ من اللّه لنت لهم ولو کنت فظّاً غلیظ القلب لانفضّوا من حولک فاعف عنهم واستغفر لهم و شاورهم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللّه ان اللّه یحبّ المتوکّلین )

(آل عمران ١٥٩)

''پیغمبر!یہ اللہ کی مہر بانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے ،لہذتم انھیں معاف کردو ۔ان کے لئے استغفار کرو اور ان سے جنگ کے امورمیں مشورہ کرو اور جب ارادہ کرو تو اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتاہے''

کیونکہ نیک برتائو ،خیر خواہی اور امور میں مشورہ کرنا ،انس ومحبت کا وسیلہ ہے اورمعاشرہ کے افراد کو اپنے سر پرست سے محبت کرنی چاہئے تاکہ وہ ان کے دلوں میں نفوذ کرسکے۔ خدائے متعال مسلمانوں کے سر پرست کو خوش اخلاقی اور مشورہ کا حکم دیتا ہے،اوریہ حکم اس لئے ہے کہ ممکن ہے لوگ اپنی سوچ میں غلطی کریں لہذا حکم دیتا ہے کہ مشورت کے بعد اپنے فیصلہ میں آزاد ہو اور اس لئے کہ خدا کے ارادہ سے کوئی مخالفت نہیں کر سکتا ہے ،اپنے امور میں خداپر توکل کر کے اپنے کام اسی کے سپرد کرے ۔

معاشرے میں دین کا کردار

دین،ایک بہترین روش ہے،جس سے انسانی معاشرہ کو منظم کیا جا سکتا ہے اوریہ دوسری تمام روشوںسے زیادہ لوگوں کو اجتماعی قوانین کی رعایت کرنے پرابھارتاہے، اور جب ہم ان اسباب وعلل کا مطالعہ کرتے ہیں جو ماضی میں انسانی معاشرے کے وجود میں آنے کاسبب بنے ہیں تو یہ حقیقت مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے ۔

انسان زندگی میں اپنی سعادت و کامرانی کے علاوہ کسی چیز کو نہیں چاہتا ہے اور اس کے لئے کوشش کرتا ہے ۔البتہ یہ سعادت زندگی کے تمام وسائل کی فراہمی کے بغیرممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف انسان اپنے خداداد فہم و شعور سے درک کرتاہے کہ وہ ان تمام ضرورتوںکوتنِ تنہاپورا نہیں کرسکتا کہ جن سے وہ اپنی من پسند سعادت کو حاصل کرسکے۔ واضح ہے کہ زندگی کی تمام ضرورتوں کوپورا کرنا ایک شخص کے بس کی بات نہیں ہے ، خواہ وہ کتناہی طا قتور کیوں نہ ہو ۔اس لحاظ سے انسان اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے ہی جیسے لوگوںسے مدد لینے پر مجبور ہے تا کہ اپنے ضروری اورحیات آفرین وسائل کو حاصل کر سکے،اس صورت میں کہ ہرایک ان وسا یل میں سے کسی ایک کو حاصل کرنے کی ذمہ داری کوقبول کرتاہے اوراسے فراہم کرتا ہے ،اس کے بعدتمام افراد اپنی فعالیتوں کے ماحصل کو ایک جگہ جمع کر تے ہیںاوران میں سے ہر شخص اپنی فعالیت اور حیثیت کے مطابق حصہ لیتا ہے اور اس سے اپنی زندگی کو چلاتا ہے ۔

اس طرح ،انسان اپنی سعادت کو پورا کرنے کے لئے اپنے ہم نوع انسانوں کا تعاون کرتاہے اوراُن سے تعاون لیتاہے ،یعنی مختصر یہ کہ تمام لوگ ایک دوسرے کے لئے کام کرتے ہیں اور اس کا م کے نتیجہ کوجمع کرتے ہیں اورمعاشرے کاہر فرد اپنی حیثیت اور فعالیت کے مطابق اپنا حصہ لے لیتا ہے ۔

معاشرے کو قوانین کی ضرورت

لوگوں کی محنت و مشقت کا ماحصل چونکہ ایک ہوتا ہے اورسب اس سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں اس لئے معاشرے کوکچھ قوانین کی ضرورت ہے تاکہ ان کی رعایت سے بغاوت اور لاقانونیت کو روکاجا سکے ۔واضح ہے کہ اگر معاشرے کانظام چلانے کے لئے کچھ ضوابط وقوانین نہ ہوں تو افراتفری پھیلتی ہے اور انسانی معاشرہ اپنی زندگی کوایک دن بھی جاری نہیں رکھ سکتا ۔

البتہ یہ قوانین معاشرے اقوام ، لوگوںکی فکری سطح اور حکومتی دفاتر کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں ۔ بہر حال کوئی بھی ایسا معاشرہ نہیں پایا جاسکتا جوایسے قوانین سے بے نیاز ہو کہ جن کا اکثر افراداحترام کرتے ہوں۔تاریخ بشریت میں ہرگز ایسا کوئی معاشرہ نہیں پایاگیا جس میں کسی قسم کے مشترک آداب ورسو م و قوانین وضوابط نہیں تھے۔

قوانین کے مقابلہ میں انسان کاآزاد ہونا

چونکہ انسان اپنے تمام کام اپنے اختیار سے انجام دیتاہے ،اس لئے وہ ایک طرح کی آزادی محسوس کرتا ہے اور وہ اس آزادی کو''مطلق ''یعنی بدون قیدوشرط تصور کر کے ،مکمل آزادی چاہتا ہے اور ہر قسم کی پابندی سے بھاگتاہے۔اسی وجہ سے وہ ہرطرح کی رکاوٹ ومحرو میت سے رنجیدہ ہوتا ہے اور مختصر یہ کہ وہ ہر دھمکی سے اپنے اندردباؤ اور خاص ناکامی کا احساس کرتا ہے ،اس لحاظ سے اجتماعی قوانین چاہے کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں ،چونکہ وہ ایک حد تک انسان کوپابند کرتے ہیں ،لہذا وہ اسکی حریت پسندی کے خلاف ہوں گے۔

دوسری طرف انسان یہ سوچتا ہے کہ اگر معاشر اور اس کے نظم و نسق کے تحفظ کے لئے وضع کئے گئے قوانین کے مقابلہ میں اپنی آزادی سے کسی حد تک دستبردار نہ ہو جائے تو افراتفری پھیل کر اس کی پوری آزادی و آسائش ختم ہو جائے گی ،چنانچہ اگر وہ کسی کے ہاتھ سے ایک لقمہ لے گا تو دوسرے لوگ اس کے ہاتھ سے پورا کھانا چھین لیں گے اوراگروہ کسی پر ظلم کرے گا تودوسرے بھی اس پر ظلم کریں گے۔

اس لحاظ سے اسے چاہیے کہ اپنی آزادی کے ایک حصہ کو محفوظ رکھے ،اور اس کے دوسرے حصہ سے صرف نظر کرے تو اس طرح وہ اجتماعی قوانین وضوابط کا احترام کرے گا۔

قوانین کی ترقی میں کمزوریاں

مذکورہ مطالب کے پیش نظر،انسان کی آزاد پسند ذہنیت اور اجتماعی ضوابط کے درمیان ایک قسم کا ٹکرائواورتضاد موجود ہے ۔یعنی قوانین ایک قسم کی زنجیر ہے جو اس کے پائوں میں پڑی ہے اور وہ ہمیشہ اس زنجیر کو توڑنا چاہتاہے تاکہ اس پھندے سے رہائی پائے اور یہ اجتماعی قوانین کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے جو اس کی بنیادوں کو متزلزل کر دیتاہے ۔

اسی لئے ہمیشہ قوانین اور عملی فرائض کی خلاف ورزی کرنے والوں کی سزا کے لئے کچھ اور قواعدوضوابط بنائے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو قوانین کی خلاف ورزی کرنے سے روکا جاسکے ،اس سلسلہ میں کبھی لوگوں کو قوانین کی اطاعت کرنے کی تشویق کے لئے انعا مات کی امید دلائی جاتی ہے ۔البتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ (یعنی سزا کاخوف اور جزا کاشوق) قوانین کے نفاذ میں کسی حدتک مدد کرتا ہے ۔لیکن یہ خلاف ورزی کے راستہ کو سو فیصد بند کر کے قانون کے اثر و تسلط کو مکمل طور پر تحفظ نہیں بخش سکتا، کیونکہ تعزیراتی قوانیں بھی دوسرے کارآمد قوانین کے محتاج ہونے کی وجہ سے خلاف ورزی سے محفوظ نہیں ہیں اور انسان کی آزادپسند طبیعت کی طرف سے انہیںہمیشہ خطرہ لاحق رہتاہے ۔چونکہ جو لوگ مکمل طور پر نفوذ اورطاقت رکھتے ہیں وہ کسی خوف وہراس کے بغیر کھلم کھلا مخالفت کرسکتے ہیں یانفوذ کے ذریعہ ،عدلیہ اور انتظامی محکموں کو اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔

جو لوگ نفوذ وطاقت نہیں رکھتے ہیں ،وہ بھی معاشرے کی ہدایت کرنے والوں کی غفلت یا کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر مخفیانہ طور پر خلاف ورزی کر سکتے ہیں ،یا رشوت اور سفارش کے ذریعہ یا معاشرے کے بااثر اشخاص کے ساتھ دوستی اوررشتہ داری کے ذریعہ اپنے مقصد تک پہنچ سکتے ہیں اور اس طرح معاشرے کے نظم کو عام حالات سے خارج کرکے ناکارہ بنا سکتے ہیں ۔

اس بات کابہترین ثبوت یہ ہے کہ ہم مختلف انسانی معاشروں میں اس قسم کی مخالفتوں اور قانونشکنی کے ہزاروں نمونے روزانہ مشاہدہ کرتے ہیں ۔

قانون میں خامی کااصلی سر چشمہ

اب دیکھنا چاہئے کہ اس خطرہ کا سرچشمہ کہاں ہے اورانسان کی سرکش اورآزادی پسند طبیعت کو کیسے قابو میں کیا جائے اور نتیجہ میں قانون کی مخالفت کو روکا جائے؟

اس خطرہ کا سرچشمہ۔ جو معاشرے میں فسادبرپاکرنے کا سب سے بڑا سبب ہے یہاں تک کہ قوانین بھی اسے روک نہیں سکتے ۔یہ ہے کہ عام اجتماعی طریقے ،جو قوانین کو وجود میں لاتے ہیں ، کہ جن کا تعلق افراد کے مادی مراحل سے ہے ،وہ ان کی معنویات اور باطنی فطرتوں کی کوئی اعتنا نہیں کرتے اور ان کامقصد صرف ہما ھنگی اورنظم و نسق کا تحفظ اور لوگوں کے اعمال کے درمیان توازن بر قرار رکھنا ہوتا ہے تاکہ اختلاف اور کشمکش کی نوبت نہ آئے ۔

اجتماعی قانون کا تقاضایہ ہے کہ قانون کی شقوں پر عمل کیا جائے اور معاشرے کے امور کو کنٹرول کیا جائے ۔اس قانون کا انسان کے داخلی صفات اور باطنی جذبات سے کوئی تعلق نہیں ہے ،جو ان اعمال کے محرک اور قوانین کے داخلی دشمن ہیں ۔

اس کے باوجود اگر انسان کی آزادی پسند فطرت اور دوسرے سیکڑوں جبلتوں (جیسے خودخواہی اورشہوت پرستی جومفاسد کے اصلی سبب ہیں )کی طرف توجہ نہ کی جائے تو معاشرے میں افراتفری اورلاقانونیت رائج ہوجائے گی اوراختلافات کادامن روز بروز پھیلتا جائے گا ،کیونکہ تمام قوانین کو ہمیشہ قوی باغیوں اور سر کشوں کے حملہ کاخطرہ لاحق ہوتا ہے جوانہی جبلتوں سے پیدا ہوتے ہیں اور کوئی قانون بُرے کو کنٹرول کر کے اختلافات کو نہیں روک سکتا ہے۔

تمام قوانین پردین کی ترجیح

قانون کے تحفظ کے لئے آخری طریقہ ،تعزیراتی قوانین وضع کرنا اور محا فظ مقرر کرنا ہے لیکن جیسا کہ بیان کیاگیا ، تعزیراتی قوانین اور محافظ انسان کی سر کشی اور دیگر جبلتون کو روک نہیں سکتے تاکہ اجتماعی قوانین پر عمل ہو سکے۔

دین کے پاس مذکورہ وسائل کے علاوہ مزید دوطاقتور وسیلے بھی موجود ہیں ،جن سے وہ ہر مخالف طاقت کو مغلوب کر کے اسے تہس نہس کر سکتا ہے :

١۔ہر دین دار فرددین کی راہنمائی سے اس حقیقت تک یہنچتاہے کہ اس کی زندگی اس ناپائدار اور گزرجانے والی دنیا کی چند روزہ زندگی تک محدود نہیں ہے ،بلکہ اس کے سامنے ایک ابدی اورلامحدود زندگی ہے ،جو موت سے نابود نہیں ہوتی ۔اس کی ابدی سعادت اورآسائش صرف اس میں ہے کہ وہ پرودردگار عالم کی طرف سے اس کے پیغمبروں کے توسط سے بھیجے گئے قوانین کی پیروی کرے ،کیونکہ وہ جانتاہے کہ دینی قوانین ، ایک ایسے دانا اور بینا پروردگار کی طرف سے بھیجے گئے ہیں ،جو انسان کے باطن وظاہر سے آگاہ ہے اوراپنی مخلوق سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں رہتا ۔ایک ایسادن آنے والا ہے جس دن وہ اسی انسان کو اپنے پاس بلائے گا،اس کے پنہاں اور آشکار اعمال کا حساب و کتاب لے گا اور نیک اعمال کی پاداش اور برے اعمال کی سزادے گا ۔

٢۔ہر دیندا رشخص اپنے دینی عقائد کے مطابق جانتا ہے کہ جب دینی حکم کو بجا لاتا ہے تووہ اپنے پروردگار کی اطاعت کرتا ہے ،اس کے باوجودوہ بندگی کی رسم کے مطابق کسی اجر پاداش کامستحق نہیں ہے ، لیکن پروردگار کے فضل وکرم سے اس کو نیک پاداش ملے گی ،اس لحاظ سے ہر اطاعت کو انجام دے کر اس نے حقیقت میں اپنے اختیارسے ایک معاملہ اور ایک لین دین کیاہے ۔چونکہ وہ اپنی مرضی سے اپنی آزادی کے ایک حصہ سے دست بردار ہواہے اور اس کے مقابلہ میں اپنے پروردگارکی خوشنودی و مہر بانی حا صل کی ہے ،اس لئے اسے اپنی نیکیوں کی پاداش ملے گی۔

دیندار شخض، دینی قوانین وضوابط کی پیروی کر کے اپنی پوری خوشی سے معاملہ کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے اور جو کچھ اپنے اختیار سے دیتا ہے اس کے کئی گنا نفع کماتا ہے ۔وہ ایک چیز کو بیچ کراس کے بدلے میں اس سے بہتر مال خرید لیتا ہے ۔لیکن جو شخص دین کا پابند نہیں ہو تا ،چونکہ وہ ضوابط کی رعایت اور قانون کی پیروی کو اپنے لئے ایک نقصان تصور کرتاہے اور اس کی آزادی پسند طبیعت اس کی آزادی کے ایک حصہ کو کھو دینے سے ناراض ہوتی ہے ۔وہ اس موقع کی تلاش میں ہو تا ہے کہ اس زنجیرکو توڑ کراپنی آزادی حاصل کرے ۔

نتیجہ

مذکورہ بیانات سے معلوم ہوتاہے کہ معاشرے کی زندگی کے تحفظ کے لئے دین کا اثر غیر دینی طریقوںکی نسبت زیادہ قوی اور عمیق ہے ۔

دوسروں کی کوشش

دنیا کے پسماندہ ممالک ،جو قرن اخیر میں ترقی وپیش رفت کی فکر میں ہیں ،اگر چہ انہوں نے اجتماعی حکو مت کو قبول کیا ہے ،لیکن قانون کی ضعیف شقوں کی طرف توجہ نہیں کی ہے اور دین کی طاقت سے استفادہ نہیں کیا ہے ،اس لئے ان کی دنیا تاریک ہوئی ہے اوران کی زندگی کا ماحول جنگل کے قانون میں تبدیل ہواہے ۔

ان کے مقابلہ میں ،دنیا کی ترقی یافتہ اور ہوشیار قوموں نے ،قوانین کی کمزوری سے آگاہ ہو کر ،قانون کو حتمی ناکامی سے نجات دلانے کے لئے ،کچھ کوششیں کر کے ایک دوسرا راستہ اختیار کیاہے۔

ان قوموں نے تعلیم و تربیت کے نظام کو ایسے منظم کیا ہے کہ لوگوں میں خود بخود صحیح اخلاق پید ہوںاور جب وہ عملی میدان میں قدم رکھیں ، تو قانون کو مقدس اور ناقابل مخالفت سمجھیں ۔

اس قسم کی تر بیت قانون کے عام طورپر نافذ ہونے کاسبب بنتیہے اور نتیجہ میں قابل توجہ حد تک معاشرے کی سعادت کو پورا کر کے قانون کو ناکامی سے نجات دلائی جاتی ہے۔ لیکن جاننا چاہئے کہ ایسے معاشروں میں پرورش پانے والے افکار دو قسم کے ہوتے ہیں :

١۔انسان دوستی جیسے عقائد و افکار، اپنے ماتحتوں کے ساتھ خیرخواہی اور رحم دلی ،جو حقیقت پسندی پر استوار ہوں ،بیشک ان کو آسمانی ادیان سے لیا گیاہے اور قدیم زمانے سے ( جبکہ ترقی یافتہ معاشرے وجود میں نہیں آئے تھے )دین، لوگوں کو ان افکار کی طرف دعوت دیتا رہا ہے ۔

لہذا، جو خوش بختی اور سعادت ان افکار کے ذریعہ ترقی یافتہ معاشروں میں نظر آرہی ہے، وہ دین کے برکات میں شمار ہوتی ہے ۔

٢۔بیہودہ اور افسانوی عقائد وافکار ، جن کی خرافات کے بازار کے علاوہ کہیں کوئی اہمیت نہیں ہے ،مثال کے طور پر افراد کو تلقین کی جاتی ہے کہ اگر وطن کی نجات کی راہ میں کوئی تکلیف اٹھائی یاقتل کئے گئے تو،تمہارا نام تاریخ کے صفحات میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گااگرچہ ،اس قسم کے خرافاتی تصورات کا ایک عملی نتیجہ ہوتا ہے اوریہ بھی ممکن ہے کوئی شخص اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر میدان جنگ میں جان نثاری کا ثبوت دے اور بہت سے دشمنوں کو قتل کردے،لیکن وہ فائدے کے بجائے قوم کو بہت بڑا نقصان پہنچاتا ہے ،کیونکہ یہ تفکرانسان کو خرافاتی بنا کر اس کی حقیقت پسندانہ فطرت کو بیکار بنادیتی ہے ،جو لوگ خدااور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اور موت کو نابودی اورفنا سمجھتے ہیں ،ان کی نظر میں موت کے بعد ابدی اور کامیاب زندگی کامفہوم ومعنی نہیں ہے ۔

انسان کے آرام وآسائش میں اسلام کی اہمیت

جیسا کہ ہم نے بیان کیا ،دینی قوانین ،دوسرے اجتماعی طریقوں کی بہ نسبت ممتاز ہیں۔ تمام ادیان میں اسلام کو برتری حاصل ہے۔اس لحاظ سے انسانی معاشروں کے لئے اسلام دوسرے تمام روشوں سے زیادہ مفید ہے۔اوراسلام اوردوسرے ادیان اور اجتماعی طریقوں کے موازنہ سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے ۔

اسلام کا دوسرے ادیان سے موازنہ

اسلام ،تمام ادیان کے درمیان منفرد دین ہے جوسو فیصد اجتماعی ہے۔اسلام کی تعلیمات آج کل کے عیسائی دین کے مانند نہیںہیں جو صرف لوگوں کی اخروی سعادت کو مد نظر کھتا ہے اور ان کی دینوی سعادت کے بارے میں خاموش ہے اورنہ ہی یہودیوں کے موجودہ دین کے مانند ہیں جو صرف ایک ملت کی تعلیم و تر بیت کی مقبو لیت کو مد نظر رکھتاہے ۔اسلام کی تعلیمات مجوس اوردیگر مذاہب کے مانندصرف اخلا ق واعمال سے مربوط چند موضوعات تک محدود نہیں ہیں ،بلکہ اسلام میں تمام لوگوں کے لئے دنیاوآخرت کی تعلیم و تربیت کو ہمیشہ کے لئے اور ہرزمان و مکان میں ،مد نظر رکھا گیا ہے بدیہی ہے کہ اس کے علاوہ معاشرے کی اصلاح اور لوگوں کی دنیاوآخرت کی سعادت کے لئے کوئی اور راستہ نہیں ہے :

اوّلاً:تمام انسانی معاشروں میں ۔جو اچھے روابط سے روزبروزنزدیک اور محکم تر ہو رہے ہیں ۔صرف ایک معاشرہ یا ایک ملت کی اصلاح کرناحقیقت میں ایک فضول کوشش ہے اور ایک بڑے آ لودہ تالاب یانہرکے ایک قطرہ پانی کو تصیفہ کرنے کے مانند ہے ۔

ثانیا: دوسرے معاشروں کے بارے میں غفلت کرتے ہوئے صرف ایک معاشرے کی اصلاح کرناایک ایسا امر ہے جو اصلاح طلبی کی حقیقت کے خلاف ہے۔ اسلامی تعلیمات میں کائنات اور انسان کی خلقت کے بارے میں انسان کے ذہن میں پیداہونے والے افکار ،اخلاق اورانسانی زندگی میں پائی جانے والی تمام سر گرمیاں ،کی تحقیق کی گئی ۔

لیکن اسلام میں افکار کے بارے میں ،جو عقائد حقیقت پسندانہ پہلوؤں پر مشتمل ہیں اور ان میں سر فہرست خدائے متعال کی وحدانیت ہے ،وہ اصل اوربنیاد قرار پائے ہیں۔ اوراخلاق اسلامی میں ،وہ حقیقت جسے عقل سلیم قبول کرتی ہے ،وہ توحید کی بنیاد پر استوار ہوئی ہے پھر اس کے بعد اخلاق کی بنیادپر، قواعد وضوابط اور عملی قوانین بیان کئے گئے ہیں،جس کے نتیجہ میں ہرکالے گورے،شہری و دیہاتی ،مردوعورت،چھوٹے بڑے،غلام و آقا،حاکم ورعایا،امیر وغریب اورعام وخاص کے لئے انفرادی واجتماعی فرائض بیان کئے گئے ہیں :

( ...کلمةً طیبةً کشجرة طیبةٍ اصلها ثابت وفرعها فی السّمائ ) (ابراہیم٢٤)

''... کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اوراس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے۔''

جو شخص اسلام کے بنیادی معارف،اخلاقی تعلیمات اور فقہ اسلامی پر محققانہ نظر ڈالے، گاتو وہ ایک ایسے بے کراںسمندر کا مشاہدہ کرے گا جس کی حدوداور گہرائیوںتک پہنچنے میں انسانی عقل وشعور قاصر ہے اس کے باوجوداس کا ہر جزء و دوسرے اجزاسے متصل اور متناسب ہے اور یہ سب اجزاء مل کرخدا پرستی اور انسان پروری کو تشکیل دیتے ہیں ، جیسا کہ خدا ئے متعال نے اپنے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی ہے ۔

سماج کے رسم ورواج سے اسلام کا موازنہ

جب ہم دنیا کے ترقی یافتہ معاشروںکے طور طریقوں پر سنجیدگی سے نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ ان معاشروں کی سائنسی اور صنعتی ترقی نے عقلمندوں کومتحیر کر دیا ہے،وہ طاقت وترقی کے بل بوتے پرمریخ اور چاند پرکمندڈال رہے ہیں ،ان کی ملکی تشکیلات نے انسان کوحیرت میں ڈال دیا ہے ،لیکن یہی ترقی کے راستے اپنی قابل ستائش ترقی کے باوجود ،عالم بشریت پر بدبختی وبدنصیبی ایسے مصائب کا سبب بنے ہیں ۔پچیس سال سے کم عرصہ میں دنیا کو دوبار خاک وخون میں غرق کرکے لاکھوں انسانوں کو نابود کردیا ہے اور اس وقت بھی تیسری عالمی جنگ کا فرمان ہاتھ میں لئے ہوئے عالم بشریت کو نابود کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں ۔انہی طریقوں نے اپنی پیدائش کے پہلے ہی دن سے ''انسان دوستی اور آزادی دلانے''کے نام پر دنیا کے دیگر ممالک اور ملتوں کے ماتھے پر غلامی کے داغ لگا کردنیا کے چار بڑے براعظموں کو اپنی استعماری زنجیروں میں جکڑ کرکسی قید وشرط کے بغیر براعظم یورپ کا غلام بنادیا ہے اورایک حقیر اقلیت کو کروڑوں بے گناہ انسانوں کے مال،جان ور عزت پر مسلط کر دیا ہے ۔

البتہ یہ بات ناقابل انکار ہے کہ ترقی یافتہ ملتیں اپنے ما حول میں مادی نعمتوں اور لذتوں سے سرشارہیں اور بہت سے انسانی آرزؤوں جیسے اجتماعی انصاف اور ثقافتی وصنعتی ترقی تک پہنچ چکے ہیں۔لیکن وہ اس کے ساتھ ہی بے پناہ بدبختیوں اور بے شمار تاریکیوں سے دوچار ہوئے ہیں کہ ان میں سے اہم ترین یہ ہے کہ بین الاقوامی کشمکش اور خون ریزیاں دنیا کے مستقبل کوعوامی سطح پر اور ہر لمحہ ماضی سے بدتروحوادث کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ۔

واضح ر ہے کہ یہ سب تلخ وشرین نتائج ،ان ملتوں ومعاشروں کی تہذیب وتمدن اور زندگی کے طور طریقوںکے درخت کا پھل ہیں جو بظاہر ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ۔

لیکن جاننا چاہئے کہ اس کے میٹھے پھل جن سے انسان نے بہرہ مند ہوکرمعاشرے کوباسعادت بنادیاہے،ان ملتوںکے بہت سے پسندیدہ اخلاق جیسے سچائی،صحیح کام،فرض شناسی،خیرخواہی اور فداکاری کا نتیجہ ہے ،نہ صرف قانون کا!کیونکہ یہی قوانین پسماندہ ملتوں ،جیسے ایشیااور افریقہ میں بھی موجود ہیں حالانکہ ان کی پستی اور بدبختی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

لیکن اس درخت کا تلخ پھل ۔جس سے انسان آج تک کو تلخ کام ہے وہ انسان کے لئے تاریکی اوربدبختی کاسبب بناہے اور خود ان ترقی یافتہ ملتوں کو بھی دوسروں کی طرح نابودی کی طرف کھینچ رہا ہے۔ کچھ ناپسندیدہ اخلاق ہیں،جن کاسرچشمہ:حرص،طمع، بے انصافی،بے رحمی،غرور،تکبر،ضد،اور ہٹ دھرمی ہے۔

اگرہم دین مقدس اسلام کے قوانین پر سنجیدگی سے غور کریں ،توہم متوجہ ہوں گے کہ اسلام مذکورہ صفات کے پہلے حصہ کا حکم دیتا ہے اور دوسرے حصہ سے روکتا ہے ،مختصر یہ کہ کلی طورپر تمام حق اور نیک انسان کی مصلحت کے امور کی دعوت دیتا ہے اور انھیں اپنی تربیت کی بنیاد قرار دیتا ہے اور ہر اس ناحق اوربرے کام سے روکتا ہے جو انسان کی زندگی کے آرام میں خلل ڈالتا ہے (خواہ کسی خاص قوم وملت سے مربوط ہو)

نتیجہ

مذکورہ بیانات کے نتیجہ کے طور پر مندرجہ ذیل چند نکات ذکر کئے جاتے ہیں :

١۔اسلام کا طریقہ دوسرے تمام اجتماعی طریقوں سے زیادہ پسندیدہ اورانسانیت کے لئے زیادہ مفید ہے:

( ذلک دین القیّم ولکن اکثر النّاس لا یعلمون ) (روم٣٠)

''...یقینا یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس بات سے بالکل بے خبر ہے ''

٢۔موجودہ دنیا کی تہذیب وتمدن کے واضح نقوش اور میٹھے پھل سبھی دین مقدس اسلام کی برکتیں اور اس کے آثار کی زندہ شقیں اور اصول ہیں جو مغرب والوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں ،کیونکہ اسلام ،مغر بی تمدن کے آثار کے رونما ہونے سے صدیوں پہلے لوگوں کو انہی اخلاقی اصولوں کی طرف دعوت دے رہا تھا کہ یورپ والوں نے ان پر عمل کرنے میں ہم سے پیش قدمی کی ۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام زندگی کے آخری لمحات میں لوگوں سے فرماتے تھے:

''تمہارا برتائوایسا نہ ہو کہ دوسرے لوگ قرآن مجید پر عمل کرنے میں تم سے آگے بڑھ جائیں'' ۔(۱)

٣۔اسلام کے حکم کے مطابق ''اخلاق''کو اصلی مقصد قرار دینا چاہئے اور قوانین کو اس کی بنیاد پر مرتب کرنا چاہئے ،کیونکہ پسندیدہ اخلاق کو فراموش کرنا(جو انسان کو حیوان سے ممتاز کرنے کا سبب ہے)انسان کو معنویت سے مادیت کی طرف ڈھکیل دیتا ہے اور اس کو بھیڑئیے،چیتے اور گائے جیسا درندہ بنادیتا ہے نیز اس میں گوسفند کے صفات پیدا کر دیتا ہے ۔

اسی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

''بُعِثتُ لاتِّمم مکارم الاخلاق'' (۲)

''میری بعثت کا اصلی مقصد ،لوگوں کی اخلاقی تر بیت ہے ''

طبیعی وسائل سے اسلام کی ترقی

غیرطبیعی وسائل ،کہ جن کا کوئی مادی وجود نہیں ہے، ناکام ہوتے ہیں اور جلد یا کچھ مدت بعد نا بود ہوجا تے ہیں، اسلام جیسے دین میں جو کہ بشریت پر ہمیشہ حکو مت کرنا چاہتا ہے، ان غیر طبیعی وسائل سے استفادہ کرنا صحیح نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنی ترقی میں طاقت کا سہارا نہیں لیا ہے .یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ''اسلام تلوار کا دین ہے''حقیقت میں یہ لوگ صدراسلام کی جنگوںکو ظاہری طور پردیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے فیصلہ کر دیتے ہیں ۔جودین علم وایمان کی بنیاد پر وجود میں آیا ہو ،اس کے لئے بعید ہے کہ وہ اپنی ترقی اور لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنے کے لئے تلوار کا سہارا لے لے (اسلام میں جہاد کے فلسفہ کا مطالعہ فرمائیں )اسی لئے اسلا م نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے نیرنگ ،جھوٹ اورسیاسی شعبدہ بازی کا سہارا نہیں لیاہے اورانہیں صحیح نہیں جاناہے ،کیونکہ اسلام صرف یہ چاہتا ہے کہ حق زندہ ہواور باطل نابود ہو اور حق تک پہنچنے کے لئے باطل کی راہ پر گامزن ہونا ،حق کی نابودی کا سبب بنتا ہے۔

خدائے متعال اپنے کلام میں فرماتا ہے:

'' خداظالموں ،بدکاروں اور حق کو چھپانے والوں کو اپنے مقصد میں کامیاب ہونے نہیں دیتا ''(۳)

تبلیغ اور دعوت اسلام

اسلام نے لوگوں کی ہدایت اور حق کو پھیلانے کے لئے ایک ایسے راستہ کاانتخاب کیا ہے جو انسان کی فطرت اور خلقت کے عین مطابق ہے اور وہ''تبلیغ اور دعوت کا راستہ ''ہے ،جو انسان کے لئے حقائق،حقیقت پسندانہ فطرت اور سعادت طلبی کو واضح کر کے اسے بیدار کر دیتا ہے اور آسانی کے ساتھ اسے حق کے حوالے کرتا ہے ۔

یہ روش،یعنی تبلیغ ودعوت،ایک ایسی روش ہے جسے تمام انبیاء علیہم السلام نے اختیار کیاہے۔اسلام ،جو خاتم ادیان اوربھر پور صلاحیتوں کاحامل دین، میں اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا گیا ہے اور اس راستہ کا اپنا نا مسلمانوں پر واجب کیا گیا ہے، تا کہ دین کی نشر و اشاعت میں کوتاہی نہ کریں۔

خدائے متعال اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خطاب کرتے ہوئے فرماتاہے:

'' میرا او ر میرے پیرؤں کا راستہ یہ ہے کہ وہ مکمل بصیرت کے ساتھ لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دیتے ہیں ''(۴)

تبلیغ کا طریقہ

مذکورہ آیہ شریفہ سے معلوم ہوتاہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام مکمل بصیرت سے انجام پاناچاہئے، مختصر یہ کہ مبلغ کو تبلیغ سے مربوط دینی مسائل سے آگاہ ہوناچاہئے،اور تبلیغ کے طریقہ کار، شرائط اور اس کے آداب سے پوری طرح باخبر ہونا جاہئے۔ البتہ تبلیغ کے شرائط و آداب بہت زیادہ ہیں، جیسے: خوش اخلاقی ، خندہ پیشانی، وقار و بردباری او رحق و انصاف کا احترام و غیرہ لیکن ان میں سب سے اہم علم وعمل ہے۔ کیونکہ جو شخص علم کے بغیر تبلیغ کرتاہے، چونکہ وہ حقیقت سے آگاہ نہیں ہے اس لئے باطل کی تبلیغ کرنے والوں کی طرح ، لوگوں کی حق تلفی کرنے اور انھیں گمراہ کرنے میں پروا نہیں کرتاہے اور جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتا، حقیقت میں وہ جو کچھ کہتاہے، اس کی اپنے عمل سے تردید کرتاہے اور جس چیز کی اپنی زبان سے تعریف کرتاہے، اس کی اپنے کردار سے، مذمت کرتا ہے جو شخص کسی چیز کی طرف دوسروں کودعوت دیتاہے، لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے، جو ایک ہاتھ سے کسی چیز کو کھینچتاہے اور دوسرے ہاتھ سے اسے ڈھکیلتا ہے۔

خدائے متعال اپنے کلام میں فرماتاہے:

''کیا تم، لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہواور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟''(۵)

ہمارے آٹھویں امام حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے:

''لوگوں کو اپنے گفتار و کردار سے دعوت دو، نہ صرف گفتار سے ''(۶)

____________________

١۔ نہج البلاغہ ،صبحی صالح،ص٤٢٢۔

۲۔بحار الانوار ،ج٧١،ص٣٧٣۔

۳۔بقرہ١٥٩و١٧٤۔

۴۔ یوسف١٠٨۔

۵۔ (اتامرون النّاس بالبّر و تنسون انفسکم ...) (بقرہ/ ٤٤)۔

۶۔ بحار الانوار ، ج ، ص ٣٠٨۔