دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 36958
ڈاؤنلوڈ: 2045

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36958 / ڈاؤنلوڈ: 2045
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

نماز

خدائے متعال فرماتا ہے :

( ماسلککم فی سقر،قالوا لم نک من المصلّین )

(مدثر٤٣٤٢)

''جب اہل جہنم سے پوچھا جائے گاآخرتمھیں کس چیز نے جہنم میں پہنچادیا ہے ؟تووہ کہیں گے ہم نمازگزارنہیں تھے ۔''

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

''نماز دین کاستون ہے ،اگر بارگاہ الہٰی میں یہ قبول ہو جائے گی تودوسری عبادتیں بھی قبول ہوں گی اوراگر یہ قبول نہ ہوئی ،تودوسری عبادتیں بھی قبول نہیں ہوں گی''

جس طرح ایک انسان ،دن رات میں پانچ بارایک نہر میں نہائے تواس کے بدن میں کسی قسم کا میل کچیل باقی نہیں رہے گا ،اسی طرح پانچ وقت کی نمازیں بھی انسان کوگناہوں سے پاک کرتی ہیں ،جاننا چاہئے کہ جو نماز پڑھتا ہے لیکن اسے اہمیت نہیں دیتا،وہ اس شخص کے مانندہے ،جو اصلاًنمازنہیں پڑھتا ہے ۔خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے :

( فویل للمصلّین،الّذین هم عن صلاتهم ساهون ) (ماعون ٥٤)

''تو تباہی ہے ان نمازیوں کے لئے جواپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں۔''

ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے ،اور دیکھاکہ ایک شخص نمازپڑھ رہا ہے ،لیکن رکوع وسجود کو مکمل طورپر بجا نہیں لارہا ہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

''یہ شخص جس طرح نماز پڑھ رہا ہے اگر اسی حالت میں اس دنیا سے گزر گیا تو مسلمان کی حیثیت سے دنیاسے نہیں گیا ہے ۔''

اس بناپرنما ز کو خضوع و خشوع کی حالت میں پڑھنا چاہئے اور نماز پڑھتے وقت اس بات کا خیال رکھے کہ کس ذات سے محو گفتگوہے او ر رکوع و سجود اور دوسرے تمام اعمال کو صحیح طور پر انجام دے تا کہ نماز کے عالی نتائج سے بہرہ مند ہوجائے۔ خدائے متعال قرآن مجید میں نماز کے بارے میں فرماتاہے:

( انَّ الصَّلوة تنهیٰ عن الفحشاء و المنکر ) ...) (عنکبوت٤٥)

''...نماز ہر برائی اور بدکار ی سے روکتی ہے...''

یقینا ایسا ہی ہے، کیونکہ نماز کے آداب اس طرح ہیں کہ اگر نماز گزاران کا لحاظ رکھے تو کبھی برائی کے پیچھے نہیں جائے گا۔ مثلا آداب نماز میں سے ایک یہ ہے کہ نماز گزار کی جگہ او رلباس غصبی نہ ہوں، اگر اس کے لباس میں حتی ایک دھاگابھی غصبی ہو تواس کی نماز صحیح نہیں ہے۔ تو جو نماز گزار اس حد تک حرام سے پرہیز کرنے پر مجبور ہے تو ممکن نہیں ہے کہ وہ حرام مال کو استعمال کرے یاکسی کا حق ضائع کرے!

نیز نماز اس صورت میں قبول ہوتی ہے کہ انسان ، حرص، حسد اور دوسری بری صفتوں سے دور رہے اور مسلّم ہے کہ تمام برائیوں کا سرچشمہ یہی بری اور ناشائستہ صفتیں ہیں اورنماز ی جب اپنے آپ کو ان صفتوں سے دور رکھے گا، تووہ یقینا تمام برائیوں سے دور رہے گا۔

اگر بعض لو گ نماز پڑھنے کے با وجود ناپسند کاموں کے مرتکب ہوتے ہیں، تو اس کاسبب یہ ہے کہ وہ نماز کے ضروری احکام کے مطابق عمل نہیں کرتے اور نتیجہ میں ان کی نماز قبول نہیں ہوتی ہے اور وہ اس کے عالی نتائج سے محروم رہتے ہیں۔

دین اسلام کے شارع مقدس نے نمازکو اس قدر اہمیت دی ہے کہ ، ہر حال میں حتی جان کنی کی حالت میں بھی انسان پر نماز کو واجب قرار دیا ہے، اگر وہ نماز کو زبان پر جاری نہیں کرسکتا ہے تو دل پرجاری کرنا چاہئے او راگر جنگ ، دشمن کے خوف یا اضطرار اور مجبور ی کی وجہ سے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز نہ پڑھ سکے تو اس کے لئے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا واجب نہیں ہے اور جس طرف بھی ممکن ہو نماز پڑھے۔

واجب نمازیں

واجب نمازیں چھ ہیں:

١۔ پنجگانہ نمازیں(۱)

٢۔ نماز آیات

٣۔ نماز میت

٤۔ واجب طواف کی نماز

٥۔ ماں باپ کی قضا نمازیں جو بڑے بیٹے پرو اجب ہوتی ہیں۔

٦۔ وہ نمازیں جو اجارہ، نذر، قسم اور عہد کی وجہ سے واجب ہوتی ہیں۔

مقدمات نماز

نماز بجالانے، یعنی پروردگار عالم کی خدمت میں حاضر ہونے اور ذات مقدس الہٰی کی اظہار بندگی او رپرستش ، کے لئے کچھ مقدمات ضروری ہیں ۔ جب تک یہ مقدما ت فراہم نہ ہو جائیں نماز صحیح نہیں ہے اور یہ مقدمات حسب ذیل ہیں:

١۔ طہارت

٢۔ وقت

٣۔ لباس

٤۔ مکان

٥۔ قبلہ

ان مقدمات کی تفصیل درج ذیل ہے:

١۔ طہارت

نماز ی کونماز کی حالت میں با طہارت ہوناچاہئے، اپنے فریضہ کے مطابق نماز کو با وضو یا غسل یا تیمم کے ذریعہ بجالائے اور اس کا بدن ا ور لباس نجاست سے آلودہ نہ ہوں۔

٢۔ وقت

نماز ظہر و عصر میں سے ہر ایک کا ایک مخصوص وقت او ر مشترک وقت ہے، نماز ظہر کا مخصوص وقت اول ظہر(۲) سے نماز ظہر پڑھنے کا وقت گزرنے تک ہے۔ اگر کوئی شخص اس وقت میں سہواً بھی نماز عصر پڑھے، تو اس کی نماز باطل ہے۔

نماز عصر کا مخصوص وقت، اس وقت ہوتا ہے جب مغرب سے پہلے صرف نماز عصر پڑھنے کے برابر وقت بچاہو۔ اگر کسی نے اس وقت تک ظہر کی نماز نہ پڑھی ہو تو اس کی نماز ظہر قضا ہو جائے گی۔ اسی طرح نماز ظہر کے مخصوص وقت اور نماز عصر کے مخصوص وقت کے درمیان کا وقت نماز ظہر وعصر کامشترک وقت ہے ۔اگر کوئی شخص غلطی سے اس و قت کے اندر نماز عصر کو نماز ظہرسے پہلے پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اسے ظہر کی نماز اس کے بعد پڑھنی چاہئے۔

نماز مغرب کا مخصوص وقت(۳) اول مغرب سے تین رکعت نماز پڑھنے کے وقت کے برابر ہے۔نمازعشاکا مخصوص وقت وہ وقت ہے جب نصف شب(۴) سے پہلے نمازعشاپڑھنے کے برابر وقت بچا ہو ۔اگرکسی نے اس وقت تک نماز مغرب نہیں پڑھی ہے تو اسے پہلے نماز عشا پڑھنی چاہئے پھر اس کے بعدنماز مغرب پڑھے۔

نماز مغرب کے مخصوص وقت اور نماز عشاء کے مخصوص وقت کے درمیان نماز مغرب و عشا کا مشترک وقت ہے۔ اگر کوئی شخص اس وقت میں غلطی سے نماز مغرب سے پہلے نماز عشا کو پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اسے نماز مغرب کو اس کے بعد بجالاناچاہئے۔

نماز صبح کا وقت اول فجر(۵) صادق سے سورج نکلنے تک ہے۔

٣۔ لباس

نمازی کے لباس میں چند چیزیں شرط ہیں:

١۔ لباس مباح ہو، یعنی نمازی کا اپنا لباس ہو یا اگر اپنا لباس نہ ہو تو اس لباس کا مالک اس میں نماز پڑھنے پر راضی ہو۔

٢۔ لباس نجس نہ ہو۔ ٣۔ مردار کی کھال کا نہ ہو، خواہ حلال گوشت حیوان کی کھال ہو یا حرام گوشت کی۔

٤۔ حرام گوشت حیوان کے اون یا بالوں کا نہ ہو۔ لیکن سمور کے کھال سے بنے ہوئے لباس میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔

٥۔ اگر نماز ی مرد ہے تو ریشمی اور زرباف لباس نہیں ہونا چاہئے اور خود کو بھی سونے سے زینت نہ کرے۔ نمازکے علاوہ بھی مر دوں کے لئے ریشمی لباس پہننا او رسونے سے زینت کرناحرام ہے۔

٤۔مکان

نمازی کے مکان۔ یعنی وہ جگہ جہاں پر وہ نماز پڑھتا ہے۔ کے کچھ شرائط ہیں:

١۔ مباح ہو۔

٢۔ ساکن ہو۔ اگر ایک ایسی جگہ جو متحرک ہو، جیسے گاڑی میں اور متحرک کشتی میں نماز پڑھنے پر مجبور ہو تو کوئی حرج نہیں ہے، البتہ گاڑی وغیرہ قبلہ کے مخالف سمت میں چل رہی ہوں تو نماز ی کو قبلہ کی طرف گھومنا چاہئے۔

٣۔ اگر مکان نجس ہو تو اس قدر ترنہ ہو کہ اس کی رطوبت نماز ی کے بدن یا لباس تک پہنچ جائے۔ لیکن پیشانی رکھنے کی جگہ اگر نجس ہو تو خشک ہونے کی صورت میں بھی نماز باطل ہے۔

٤۔ پیشانی رکھنے کی جگہ گھٹنوں کی جگہ سے ، ملی ہوئی چار انگلیوں سے زیادہ پست یا بلند نہیں ہونی چاہئے۔

٥۔ قبلہ

خانہ کعبہ ،جو مکہ مکرمہ میں ہے، قبلہ ہے اور اسی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنی چاہئے۔ البتہ جو لوگ دور ہیں وہ اگر اس طرح کھڑے ہو جائیں یا بیٹھ جائیں کہ کہا جائے کہ قبلہ کی طرف رخ کئے ہوئے ہیں ، تو کافی ہے، اسی طرح دوسری چیزیں جیسے حیوانات کا ذبح کرنا بھی قبلہ کی طرف رخ کرکے انجام دیا جاناچاہئے۔

جو شخص بیٹھ کر بھی نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو اسے دائیں پہلو پر ایسے لیٹ کرنماز پڑھنا چاہئے کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلہ کی طرف ہو،اور اگر ممکن نہ ہو تو بائیں پہلو پر اس طرح لیٹے کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلہ کی طرف ہواور اگریہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے پشت پر اس طرح لیٹنا چاہئے کہ اس کے پاؤں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ اگر انسان تحقیق کے بعد نہ سمجھ سکے کہ قبلہ کس طرف ہے تو اسے مسلمانوں کے محرابوں ، قبروں یا دوسرے راستوں سے پیدا ہوئے گمان کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔

واجبات نماز

واجبات نماز یعنی وہ چیزیں جو نماز میں واجب ہیں، گیارہ ہیں:

١۔ نیت

٢۔ تکبیرة الاحرام

٣۔ قیام

٤۔ قرات

٥۔ رکوع

٦۔ سجود

٧۔ تشہد

٨۔ سلام

٩۔ ترتیب، یعنی نماز کے اجزاء کو معین شدہ دستور کے مطابق پڑھے، آگے پیچھے نہ کرے۔

١٠۔ طمانیت، یعنی نماز کو وقار اور آرام سے پڑھے۔

١١۔ موالات: یعنی نماز کے اجزاء کو پے در پے بجالائے اور ان کے درمیان فاصلہ نہ ڈالے۔

مذکورہ گیارہ چیزوں میں سے پانچ چیزیں ارکان ہیں کہ اگر عمداً یا سہواً کم و زیاد ہو جائیں، تو نماز باطل ہے اور باقی چیزیں رکن نہیں ہیں، صرف اس صو رت میں نماز باطل ہوگی کہ ان میں عمداً کمی وزیاد تی کی جائے۔

ارکان نماز

ارکان نماز حسب ذیل ہیں:

١۔ نیت

٢۔ تکبیرة الاحرام

٣۔ قیام ۔ تکبیرة الاحرام کے وقت پر قیام اور متصل بہ رکوع

٤۔رکوع

٥۔دوسجدے

١۔نیت

''نیت''سے مراد یہ ہے کہ انسان نماز کو قصد قربت سے، یعنی خدائے متعال کے حکم کو بجا لانے کے لئے انجام دے ۔ضروری نہیں ہے کہ نیت کو دل سے گزارے یا مثلاًزبان سے کہے :

'' میں چار رکعت نماز ظہر پڑھتا ہوں قربةً الی اللّہ ''

٢۔تکبیر ة الاحرام

اذان واقامت کہنے کے بعد، نیت کے ساتھ''اللّٰہ اکبر''کہنے سے نماز شروع ہوتی ہے اور چونکہ اس تکبیر کے کہنے سے کچھ چیزیں جیسے کھانا،پینا ،ہنسنااور قبلہ کی طرف پشت کرنا،حرام ہو جاتی ہیں،اس لئے اسے تکبیرةالاحرام کہتے ہیں۔اور مستحب ہے کہ تکبیرةالاحرام کہتے وقت ہاتھوں کو بلندکریں،اس عمل سے خدائے متعال کی بزرگی کو مدنظر رکھ کر غیر خدا کو حقیرسمجھ کر چھوڑ دیں ۔

٣۔قیام

تکبیرة الاحرام کہتے وقت میں قیام اورقیام متصل بہ رکوع ،رکن ہے ،لیکن حمد اورسورہ پڑھتے وقت قیام اور رکوع کے بعدوالا قیام رکن نہیں ہے .اس بناء پر اگر کوئی شخص رکوع کو بھول جائے اور سجدے میں پہنچنے سے پہلے اسے یاد آجائے اسے کھڑاہونے کے بعدرکوع میں جانا چاہئے ، لیکن اگرجھکے ہوئے رکوع کی حالت میں ہی سجدہ کی طرف پلٹے،تو چونکہ قیام متصل بہ رکوع انجام نہں پایا ہے اس لئے اسکی نماز باطل ہے ۔

٤۔رکو ع

نمازی کو قرائت کے بعداس قدر جھکنا چاہئے کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں اور اس عمل کو رکوع کہتے ہیں ۔رکوع میں ایک مرتبہ ''سبحان ربّی العظیم وبحمدہ ''یا تین مرتبہ'' سبحان اللہ'' کہنا چاہئے ۔رکوع کے بعدمکمل طور پر کھڑا ہونا چاہئے اس کے بعدسجدے میں جانا چاہئے ۔

٥۔سجدہ

''سجدہ'' یہ ہے کہ پیشانی ،دونوں ہتھیلیاں ،دونوں گھٹنے اور دونوں پائوں کے انگوٹھوں کے سرے کو زمین پر رکھے اورایک مرتبہ'' سبحان ربّی الاعلی و بحمدہ '' یا'' سبحان اللّہ'' تین مرتبہ پڑھے۔اس کے بعد بیٹھے اورسجدہ میں جاکر مذکورہ ذکر پڑ ھے۔

جس چیزپرپیشانی رکھتاہے وہ زمین یازمین سے اگنے والی چیز ہونی چاہئے،کھانے پینے،پوشاک اورمعدنی چیزوں پر سجدہ جائز نہیں ہے ۔

تشہد وسلام

اگرنمازدورکعتی ہے، تو دو سجدے بجالانے کے بعد کھڑا ہو جائے اور حمد و سورہ کے بعد قنوت(۶) بجالائے پھر رکوع اور دو سجدوں کے بعد تشہد(۷) پڑ ھے پھر سلام(۸) پڑھ کر نماز تمام کرے۔

اگر نماز تین رکعتی ہوتو تشہد کے بعد اٹھے اور صرف ایک بار حمدیا تین مرتبہ سبحان اللّہ و الحمد لِلّٰہ و لا الہ اِلاَّ اللّٰہ و اللّٰہ اکبر پڑھے، پھر رکوع ، دو سجدے، تشہد اور سلام پڑھے۔

اور اگر نماز چار رکعتی ہے تو چو تھی رکعت کو تیسری رکعت کی طرح بجالا کر، تشہد کے بعد سلام پڑھے ۔

____________________

۱۔ یومیہ نمازوں سے مراد: صبح کی دو رکعتیں، ظہر و عصر کی چار چار رکعتیں، مغرب کی تین رکعتیں اور عشا کی چاررکعتیں ہیں۔

۲۔ اگر ایک لکڑی یا اس کے مانند کوئی چیز سیدھی زمین میں نصب کی جائے تو، سورج چڑھنے پر اس کا سایہ مغرب کی طرف پڑے گا جس قدر سورج او پرچڑھے گا، یہ سایہ کم ہوتاجائے گا اور اول ظہر میں اس کی کمی آخری مرحلہ پر پہنچ جائے گی، جب ظہر کا وقت گزرے گا تو سایہ مشرق کی طرف پلٹ جاتا ہے او رسورج جس قدر مغرب کی طرف بڑھے گا سایہ زیادہ ہوتا جائے گا۔ اس بنا پر جب سایہ کم ہوتے ہوئے کمی کے آخری درجہ پر پہنچ جائے اور پھرسے بڑھنا شروع ہوجائے تو معلوم ہو تاہے کہ ظہر کا وقت ہے۔ لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض شہروں جیسے مکہ مکرمہ میں ظہر کے وقت سایہ بالکل غائب ہوتاہے، ایسے شہروں میں سایہ کے دوبارہ نمودار ہونے پر ظہر کا وقت ہوتاہے۔

۳۔ سورج ڈوبنے کے تقریباً پندرہ منٹ بعد مغرب ہوتی ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ سورج ڈوبنے کے بعد مشرق کی طرف رونماہونے والی سرخی غائب ہو جائے۔

۴۔ نصف شب ،شرعی ظہر کے بعدگیارہ گھنٹے اور پندرہ منٹ گزرنے کے بعد ہو تی ہے۔

۵۔ فجر کی اذان کے قریب مشرق کی طرف ایک سفیدی اوپر کی طرف بڑھتی ہے اسے فجر اول یا فجر کاذب کہتے ہیں۔ جب یہ سفیدی پھیل جاتی ہے، تو فجر دوم یعنی فجر صادق ہے اور صبح کی اذان کا وقت ہے ۔

۶۔ حمد وسورہ کے بعد ہاتھوں کو اپنے چہرے کے روبرو بلند کرکے قنوت میں جو بھی ذکر چاہے کہے، مثلاً :''ربنا آتنا فی الدنیا حسنة و فی الاخرة حسنة و قنا عذاب النار''

۷۔ تشہد سے مراد یہ ہے کہ ان جملات کو کہے :''اشهد ان لا اله الا الله و حده لا شریک له واشهد ان محمد اً عبده و رسوله، اللهم صل علی محمد وآل محمد''

۸۔ سلام کو اسطرح بجالائے:السلام علیک ایّها النَّبی و رحمة اللّٰه و برکاته، السَّلام علیناو علی عباد اللّٰه الصّالحین، السلام علیکم و رحمة الله و برکاته .

نماز آیات

چارچیزوں کی وجہ سے نماز آیات واجب ہوتی ہے:

١۔ سورج گہن

٢۔ چاندگہن۔ چاہے کچھ حصے کو گہن لگا ہواو رکوئی اس سے خوفزدہ بھی نہ ہو۔

٣۔ زلزلہ۔ اگر چہ کوئی نہ ڈرے۔

٤۔ بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک اور سیاہ وسرخ آندھی وغیرہ، اس صورت میں کہ اکثر لوگ ڈر جائیں۔

نماز آیات پڑھنے کا طریقہ

نماز آیات دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں پانچ رکوع ہیں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان نیت کے بعد تکبیر کہے اور حمد او رایک مکمل سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے، پھر رکوع سے کھڑا ہوجائے، اور دوبارہ حمد اور ایک سورہ پڑھے پھر رکوع بجالائے یہاں تک کہ پانچ مرتبہ رکوع بجالائے اور پانچویں رکوع سے اٹھنے کے بعد دو سجدے بجالائے پھر کھڑے ہو کر دوسری رکعت کو پہلی رکعت کے مانند بجالاکر تشہد اور سلام کے بعد نماز تمام کرے۔

نماز آیات کا دوسرا طریقہ :

انسان نیت اور تکبیر اور سورہ حمد پڑھنے کے بعد ایک سورہ کی آیات کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے اس کے ایک حصہ کو پڑھ کررکوع میں جائے، رکوع سے اٹھ کر سورہ حمد پڑھے بغیر سورہ کا دوسرا حصہ پڑھے اور پھر رکوع بجالائے اور اسی طرح پانچویں رکوع سے پہلے سورہ کو ختم کرکے پھر رکوع بجالائے اس کے بعد دوسجدے بجالائے پھر دوسری رکعت کو پہلی رکعت کے مانند بجالاکے نماز کو ختم کرے۔

مسافر کی نماز

مسافر کو چھ شرائط کے ساتھ چاررکعتی نماز کو دو رکعت پڑھنا چاہئے:

١۔ اس کا سفر آٹھ فرسخ سے کم نہ ہو یا چار فرسخ جائے او رچارفرسخ واپس آئے۔

٢۔ ابتداء سے آٹھ فرسخ سفر کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔

٣۔ راستہ میں اپنے قصد کو نہ توڑے۔

٤۔ اس کا سفر گناہ کے لئے نہ ہو۔

٥۔ سفر اس کاپیشہ نہ ہو۔

پس اگر کسی کا پیشہ سفر ہو ( جیسے ڈرائیور) تو اسے نماز پوری پڑھنی چاہئے مگر یہ کہ دس روز اپنے گھر میں رہے، تو اس صورت میں تین با ر سفر کر نے پر نماز قصر پڑھے۔

٦۔ حد ترخص تک پہنچ جائے، یعنی اپنے وطن یادس دن تک قیام کی جگہ سے اس قدر دورچلاجائے کہ شہر کی دیواروں کونہ دیکھ سکے او راس شہر کی اذان کونہ سن سکے۔

نماز جماعت

مستحب ہے کہ مسلمان پنجگانہ نمازوں کو جماعت کی صورت میں پڑھے اور نماز جماعت کا ثواب فرادیٰ پڑھی جانے والی نماز کے کئی ہزار گناہے۔

نماز جماعت کی شرائط

١۔ امام جماعت بالغ، مؤمن، عادل اور حلال زادہ ہوناچاہئے ، نماز کو صحیح پڑھتاہو اور اگر ماموم مرد ہے تو امام کو بھی مرد ہوناچاہئے۔

٢۔ امام اور ماموم کے درمیان پردہ یا کوئی اور چیزحائل نہ ہو جو امام کو دیکھنے میں رکاوٹ بنے، لیکن اگر ماموم عورت ہو تو اس صورت میں پردہ یا اس کے مانند کسی چیز کے ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

٣۔ اما م کی جگہ ماموم کی جگہ سے بلندنہ ہو، لیکن اگر بہت کم (چارانگلیوں کے برابر یا اس سے کم ) بلند ہو تو کوہی حرج نہیں ہے۔

٤۔ ماموم کو اما م سے تھوڑا پیچھے یا اس کے برابر ہوناچاہئے۔

نماز جماعت کے احکام

١۔ ماموم حمد و سورہ کے علاوہ ساری چیزیں خود پڑھے، لیکن اگراس کی پہلی یادوسری رکعت ہو اور امام کی تیسری یا چوتھی رکعت ہوتو اسے حمد و سورہ کوبھی پڑھنا چاہئے اور اگرسورہ پڑھنے کی وجہ سے امام کے ساتھ رکوع میں نہ پہنچ سکے تو صرف حمد پڑھ کر خود کو رکوع میں امام کے ساتھ پہنچادے اور اگر نہ پہنچ سکاتو نماز کو فرادی کی نیت سے پڑھے۔

٢۔ ماموم کو رکوع، سجود اور نماز کے دوسرے افعال امام کے ساتھ یا اس سے تھوڑابعد انجام دینا چاہئے،لیکن تکبیرة الاحرام کو قطعاً امام کے بعد کہے۔

٣۔ اگر امام رکوع میں ہو اور اس کی اقتد ا ء کرے اور رکوع میں پہنچ جائے، تو اس کی نماز صحیح ہے اور ایک رکعت حساب ہوگی۔

روزہ

دین مقدس اسلام کے فروع دین میں سے ایک ''روزہ'' ہے۔ ہرمکلف پر واجب ہے کہ وہ رمضان المبارک میں روزہ رکھے ۔یعنی پروردگار عالم کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے صبح کی اذان سے مغرب تک ،روزہ کو باطل کرنے والی چیزوں (مفطرات روزہ) سے پرہیز کرے۔

روزہ کو باطل کرنے والی چیزیں

چند چیزیں روزہ کو باطل کرتی ہیں ،وہ حسب ذیل ہیں :

١۔کھانااورپینا،اگرچہ اس چیز کاکھانااورپینا معمول نہ ہو،جیسے مٹی اور درخت رس۔

٢۔خدا،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشینوں (ائمہ ھدی) کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا۔

٣۔غلیظ غبار کوحلق تک پہنچانا ۔

٤۔پورے سر کوپانی میں ڈبودینا ۔

٥۔قے کرنااگرعمداً ہو۔

دوسرے مفطرات روزہ کے بارے میں مراجع کی توضیح المسائل کی طرف رجوع کیا جائے۔

اسلام میں جہاد

جہاد کے کلی مسائل

ہرمخلوق کا اپنی ذات کادفاع کرنا اوراسی طرح اپنے منافع کادفاع کرناایک عام قانون ہے جوعالم خلقت میں بلا چون وچراثابت ہے۔

انسان بھی اپنی حیثیت سے اپنی ہستی اور منافع کادفاع کرتا ہے اوردوسروں کے ماننددفاع کی توانائیوں سے مسلح ہے تاکہ اپنے دشمن سے مقابلہ کرسکے ۔انسان اپنی خدادادجبّلت اورفطرت سے قائل ہے کہ اسے اپنادفاع کرناچاہئے اوراپنے اس دشمن کونابودکرد ینا چاہے جوکسی بھی وسیلہ سے اس کو نابود کرنے سے باز نہیں آرہا ہے۔اسی طرح اگر کوئی شخص اس کے حیاتی منافع پرقبضہ کرنا چاہے تواسے دفاع کی غرض سے اٹھنا چاہئے اور ہر ممکن طریقے سے اس کو روکنا چاہئے ۔

یہ فطری موضوع جوایک انسان کی فطرت میں ثابت اورپائدارہے ،اسی طرح انسانی معاشروں میں بھی ثابت ومستحکم ہے۔یعنی جودشمن معاشرے کے افراد یامعاشرے کی آزادی کے لئے خطرہ ہو،وہ اس معاشرے کی نظرمیں سزائے موت کا مستحق ہے اور جب سے انسان اور انسانی معاشرے ہیں یہ فکران میں ثابت اوربرقرار ہے کہ ہرفرداورمعاشرہ اپنے جانی دشمن کے بارے میں ہرقسم کا فیصلہ کرسکتا ہے اورردعمل دکھا سکتا ہے ۔

اسلام بھی ۔جوایک اجتماعی دین ہے اور توحید کی بنیاد پر استوار ہے ۔حق اور عدالت کے سامنے تسلیم نہ ہونے والوں کواپنا جانی دشمن جانتا ہے اورانھیں نظام بشریت میں مخل جان کران کے لئے کسی قسم کی قدر وقیمت اوراحترام کا قائل نہیں ہے اور چونکہ خود کو عالمی دین جانتا ہے اس لئے اپنے پیروئوں کے لئے کسی ملک اور سرحدوں کی محدودیت کا قائل نہیںہے اور جو بھی شرک کے عقیدہ میں مبتلا ہو اور واضح منطق اور حکیمانہ پند و نصیحت کو قبول نہ کرتا ہو اور حق اوراحکام الہیٰ کے سامنے ہتھیار نہ ڈالتا ہو ،تو اسلام اس کے ساتھ جنگ کرتا ہے تاکہ وہ حق وعدالت کے سامنے ہتھیار ڈال دے ۔

مختصر یہ کہ جہاد کے سلسلہ میں اسلام کے قوانین بھی یہی ہیں اور وہ مکمل طور پراس روش کے مطابق ہیں جوہرانسانی معاشرہ کی اپنی فطرت کے مطابق اپنے جانی دشمنوں کے بارے میں ہے ۔

اسلام ،بدخواہ دشمنوں کے پروپیگنڈوں کے باوجود،تلوار کا دین نہیں ہے،کیونکہ اسلام کی روش سلاطین کی روش نہیں ہے کہ جن کی دلیل ومنطق صرف تلواراورسیاسی حربے ہوتے ہیں ، بلکہ اسلام ایک ایسا دین ہے،جس کابانی خدائے متعال ہے ،جواپنے آسمانی کلام میں لوگوں کے ساتھ منطق وعقل کی بنیاد پر بات کرتا ہے اوراپنی مخلوقات کو اس دین کی طرف دعوت دیتا ہے جوان کی فطرت کے مطابق ہے۔

جس دین کی عمومی تحےّت،سلام ہواور اس کا عمومی پروگرام قرآن مجید کے نص کے مطابق''والصلح خیر''(۱) ہو،وہ ہرگز تلوارکا دین نہیں ہوسکتا۔

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ،جب اسلام کی نورانیت نے تمام حجازکو منور کررکھاتھا اور مسلمان اہم جنگوں اورسخت مقابلوں میں مبتلا تھے ، تو اس وقت قتل ہونے والے مسلمانوں کی تعداد دوسوسے زیادہ نہ تھی اور قتل ہونے والے کفار کی تعداد ایک ہزارتک نہیں پہنچی تھی ۔کتنی بے انصافی ہے کہ ایسے دین کوتلوارکادین کہا جائے ۔

اسلام میں جنگ کے مواقع

اسلام ،جن کے ساتھ جنگ کرتا ہے ،وہ حسب ذیل چند گروہ ہیں :

١۔مشرکین :

مشرکین یعنی وہ لوگ جو توحید،نبوت اورمعاد کے قائل نہیں ہیں ۔ان کو پہلے اسلام لانے کی دعوت دیتا ہے تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ اور بہانہ باقی نہ رہے،دین کے حقائق کو ان کیلئے واضح کرکے تشریح کرتا ہے ،پس اگرانہوں نے قبول کیا تودوسرے مسلمانوں کے بھائی اور نفع ونقصان میں برا بر ہوںگے ،اور اگر قبول نہ کیا اور حق وحقیقت کے واضح ہونے کے باوجودتسلیم نہ ہوئے تو اسلام ان کے مقابلہ میں اپنادینی فریضہ''جہاد''کو انجام دیتا ہے ۔

٢۔اہل کتاب:

اہل کتاب''یہود ،عیسائی اورمجوسی ہیں''اسلام ان کوصاحب دین اورصاحب کتاب آسمانی جانتا ہے۔یہ لوگ توحید ، نبو ت مطلقہ اورمعاد کے قائل ہیں ان لوگوں کے ساتھ بھی مشرکین جیسا سلوک کرنا چاہئے ،لیکن چونکہ اصل توحید پر عقیدہ رکھتے ہیں ،لہذاجز یہ ادا کرکے اسلام کی پناہ میں آسکتے ہیں ،یعنی اسلام کی سرپرستی کو قبول کریں اوراپنی آزادی کی حفاظت کریں اوراپنے دینی احکام پر عمل کر یں ۔تو دوسرے مسلمانوں کی طرح ان کی جان ،مال اورعزت محترم ہوگی اور اسکے عوض میں اسلامی معاشر ہ کوکچھ مال ادا کریں گے ،لیکن ان کو اسلام کے خلاف پروپیگنڈے،دین کے دشمنوں کی مدد اوردوسرے ایسے کام انجام نہیں دینا چاہئے جو مسلمانوں کے نقصان میں ہو ۔

٣۔بغاوت اورفساد برپا کرنے والے :

بغاوت اور فسار برپا کرنے والے یعنی وہ مسلمان جواسلام ومسلمین کے خلاف مسلحانہ بغاوت کرکے خونریزی کریں ،اسلامی معاشرہ ان کے ساتھ جنگ کرتا ہے تاکہ وہ ہتھیارڈال کرفساد اوربغاوت سے ہاتھ کھینچ لیں ۔

٤۔دین کے دشمن:

دین کے دشمن جودین کی بنیاد کو ویران کرنے یاحکومت اسلامی کو نابودکرنے کے لئے حملہ کریں ،تو تمام مسلمانوں پرواجب ہے کہ دفاع کریں اوران کے ساتھ کافرحربی کاسلوک کریں ۔

اگراسلام ا ورمسلمین کی مصلحت کاتقاضاہو تواسلامی معاشرہ اسلام کے دشمنوں کے ساتھ و قتی طور پر جنگ بندی کا معاہدہ کرسکتا ہے ،لیکن یہ حق نہیں ہے کہ ان کے ساتھ ایسا دوستانہ رابطہ برقرار کرے کہ ان کے گفتاروکردارمسلمانوں کے افکارواعمال پر منفی اثرڈال کرانھیں خراب کر دیں ۔

جہاد کے بارے میں اسلام کا عام طریقہ

اسلامی معاشرہ پر فرض ہے کہ اگر جہادکے شرائط موجودہوں تو،اُن کفارسے راہ خدا میں جنگ کریں جن کی سرحد ملی ہوئی ہے، اورہرمسلمان بالغ،عاقل،صحت منداورجس کے ہاتھ پائوں اورآنکھ صحیح و سالم نہ ہوں،پرجہادواجب کفائی ہے۔

اسلام کے لشکرپر فرض ہے کہ جب دشمن کے ساتھ مقابلہ پر آئے ،تودینی حقائق کو ان کے لئے اس طرح بیان اورواضح کرے کہ کوئی ابہام باقی نہ رہے اوران کو حق کی طرف دعوت دے اورصرف اس صورت میں جنگ کا اقدام کرے کہ حق کے واضح ہونے کے بعدبھی وہ دین کوقبول نہ کریں ۔

اسلام کے سپاہی کو دشمنوں پرپانی بندنہیں کرنا چاہئے اوردشمن پر شب خون نہیں مارناچاہئے دشمن کی عورتوں ،بچوں ،ناتواں بوڑھوں اوردفاع کی قدرت نہ رکھنے والوں کو قتل نہیں کرناچاہئے ،دشمن کے برابر یادوگنا ہونے کی صورت میں میدان جنگ سے فرارنہ کرے۔

اگرہم اسلام کے جنگی طریقہ کو ترقی یافتہ ملتوںکے جنگی طریقوںسے مواز نہ کریں، جوہرخشک وتر کوجلادیتے ہیں اورکسی کمزوراوربیچارہ کے حال پررحم نہیںکرتے،تو واضح ہو جائے گا کہ اسلام کس قدرانسانیت کے اصول کاپابند ہے ۔

حکومت،قضاوت اورجہاد کیوں مردوں سے مخصوص ہے ؟

معاشرے کے حساس ترین اجتماعی امور کہ ،جن کی باگ ڈورصرف عقل واستدلال کے سپردکی جانی چاہئے اوران میں جذبات واحساسات کی کسی صورت میں مداخلت نہیں ہونی چاہئے ، وہ حکومت،قضاوت اور جنگ کے شعبے ہیں ۔ کیوںکہ مملکت کے امور کو چلانے اور ،معاشرے میں پیداہونے والی دشمنیوں کو حل کرنے میں ہزاروں ناقابل برداشت واقعات اور طرح طرح کی چہ می گوئیوں اور جان ، مال،عزت و ابرو کی دھمکیوں جیسے گوناگوں مسائل سے دوچار ہوناپڑتا ہے کہ جس کو نہایت قوی اور مستقل مزاج افراد کے علاوہ کوئی طاقت برداشت نہیں کرسکتی کہ اوران تمام مسائل سے چشم پوشی کرکے صبر نہیں کیا جاسکتاہے،اورگوناگوںمخالفتوں کے درمیان اجتماعی عدالت کو نافذنہیں کیا جاسکتا ہے ،جو اس عہدہ کاحامل ہو اسے دوست ودشمن ،برُے اوربھلے،چاپلوس اوربد گو ئی کرنے والے اورعالم وجاہل کوایک نظرسے دیکھناچاہئے اوراپنے خواہشات نفساتی کے برعکس حکومت کرنی چاہئے اور فیصلہ دینا چاہئے ۔بدیہی ہے کہ جس کے وجودمیں جذبات کاغلبہ ہو تا ہے وہ اس کام کو انجام دینے کی توانائیاں نہیں رکھتا ہے ۔جب جذبات حکومت اورقضاوت سے عاجز ہوں گے تو جنگ کے شعبہ میں بدرجہ اولیٰ نامناسب ہوں گے کیونکہ دوسرے اجتماعی امورکے برعکس جنگ میں ہرخشک وتر کو جلا دیتے ہیں جنگی سپاہی اوردشمن کے شیر خوار بچے کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ اسلام کا جنگی طریقہ عدالت کی بنیاد پر استوار ہے، البتہ اس قسم کی کا طریقہ جذبات کے غلبہ سے عمل میں نہیں لایا جاسکتا ہے، کیونکہ اگر جنگ کے وقت جذبات اور ہمدردی کی بناپر قطب موافق کی طرف مائل ہوا تو ضرورت سے زیادہ نرمی اختیار کرکے شکست کھائے گا اور اگر قطب مخالف کی طرف مائل ہوا، تو حد سے تجاوز کرکے، گنہگاراور بے گناہ کویکسان سمجھ کر انسانی اصول و ضوابط کو پامال کرے گا۔

اس سلسلہ میں اسلام کے نظریہ کی حقانیت کی بہترین دلیل یہ ہے کہ مغربی ممالک نے مدتوں سے عورتوں کو معاشرے میں مردوں کے دوش بدوش قرار دیا ہے اور تعلیم و تربیت سے ان کی نشو نما کرتے ہیں او راب تک حکومت کے عہدوں ، عدلیہ کے عالی مقامات اور جنگی سرداروں کے عہدوں پر مردوں کے مقابلہ میں عورتوں نے کوئی قابل توجہ ترقی نہیں کی ہے۔ البتہ خانہ داری او ربچوں کی تربیت کے کاموں میں ، کہ جن کا سرچشمہ جذبات اور ہمدردی سے ہمیشہ پیش قدم رہی ہیں۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے ایک مختصر جملہ میں معاشرے میں عورت کی حیثیت و منزلت کو یوں بیان فرمایا ہے:

''فانّ المرة ریحانة و لیست بقہرمانة''(۲)

''بیشک عورت ایک خوشبودار پھول ہے نہ سورما''

اور یہ ایک بہترین جملہ ہے جو اسلامی معاشرے میں عورت کی اجتماعی منزلت کی نشاندہی کرتاہے۔

پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ عورتوں کے بارے میں نصیحت فرماتے تھے، یہاں تک کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جو آخری کلمہ فرمایا اور اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاموش ہوگئے وہ یہ تھا:

''اللّہ اللّہ فی النسائ''(۳)

امربالمعروف اور نہی عن المنکر اور مختلف قسم کی سزائیں

اسلام کی حیات و بقا سے مربوط ضرورتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے قوانین کی مخالفتوں کو روکاجائے۔ اس ضرورت کو دور کرنے کے لئے دو امور سے استفادہ کیا گیا ہے:

١۔ سزا کے لئے قوانین کاوضع کرنا،جن کو اسلامی حکومت کے ذریعہ نافذ ہونا چاہئے اور اس طرح شرعی احکام کی مخالفت کو روکا جاسکتا ہے۔

٢۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر،اسلام نے اپنے تمام پیرؤں پرواجب کیا ہے کہ جب دیکھیں کہ کسی قانون پر عمل نہیں ہورہاہے، تو وہ آرام سے نہ بیٹھیں بلکہ خلاف ورزی کرنے والے کو اطاعت پر مجبور کریں اور اسے نافرمانی کرنے سے روکیں۔

مسلمانوں کے عام افراد، بادشاہ و رعایا، طاقتو ر و کمزور، مرد و عورت اور چھوٹے بڑے سب اس دینی فریضہ کو نافذ کرنے پرمامور ہیں اورخاص شرائط کے ساتھ اس کام (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کو انجام دیناچاہئے۔ یہ اسلام کے شاہکاروں میں سے ایک شاہکار ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کو روکنے کے لئے ، دنیا کے مختلف کورٹ کچہری اور تھانوںسے بہتر اور قوی تر ہے۔

____________________

١۔ نسائ١٢٧۔

۲۔ وسائل الشیعہ ، ج ١٤، ص ١٢٠، باب ٨٧۔

۳۔ بحار الانوار، ج ٣٢، ص ٥٣٠۔