دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 36953
ڈاؤنلوڈ: 2041

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36953 / ڈاؤنلوڈ: 2041
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

غصب

جو شخص کسی کے مال کو زبردستی اس سے چھین کر،مالکیت کے اسباب میں سے کسی سبب کے بغیراسے اپنامال قراردے یاکسی دوسرے کے مال پرزبردستی قبضہ کرکے استفادہ کرے ،اگرچہ اسے اپنا مال قرارنہ دے ،اس عمل کو شرعاً''غصب''کہتے ہیں ۔

لہذا،تسلط جمانے کے کسی جائز سبب جیسے :بیع ،اجارہ اور اجازت کے بغیرکسی دوسرے کے مال پرقبضہ جمانے کو غصب کہتے ہیں ۔یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ غصب، ایک نامناسب کام ہے جو مالکیت کی خصوصیت کی بنیاد کو پامال کرتا ہے۔جس قدرمالکیت کی خصوصیت کی بنیادمعاشرے کے زندہ اورپائیدار رہنے میں موثرہے اسی قدرغصب معاشرے کو برباد کرکے اس کی ترقی کو روکتا ہے ۔

اگریہ طے پاجائے کہ معاشرے کے اثرو رسوخ رکھنے والے افراد قانون کی اجازت کے بغیرکمزوروں اوراپنے ماتحتوں کی کمائی پر قبضہ جمائیں توخصوصیت اورمالکیت اپنے اعتبارکو کھودے گی۔ہرایک اپنے سے کمزورلوگوں کے خصوصی حقوق کے بارے میں اسی طرز فکر پر عمل کرے گااورماتحت اورکمزورلوگ بھی اپنی محنت و مشقت کی کمائی کی حفاظت کے لئے ہرممکن اقدام کرکے عزت وشرافت فروشی پر مجبور ہوں گے۔اور نتیجہ میں انسانی معاشرہ غلاموں کے خریدو فروخت کے ایک بازار میں تبدیل ہو کر رہ جائے گا اورقوانین و ضوابط اپنے اعتبار سے گر جائیں گے اور ان کی جگہ پر ظلم وستم جانشین ہوگا ۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے غاصب کے لئے سخت قوانین وضع کئے ہیں اورغصب کو گناہ کبیرہ شمار کیا ہے۔

قرآن وسنت کی نص کے مطابق،شرک کے علاوہ ہرقسم کے گناہ کو خدا کی طرف سے بخش دئے جانے کا احتمال ہے ۔اورہرگناہ حتی شرک بھی توبہ کے ذریعہ قابل عفو وبخشش ہے ۔لیکن جس کی زندگی کے ریکارڈمیں دوسروں کے حقوق کے بارے میں غصب اورظلم وستم درج ہو،تواس کے لئے کسی بھی صورت میں حقدار سے بخشش حاصل کئے بغیر خدا کی پوچھ گچھ اورسزا سے بچنے کی اُمید نہیں ہے ۔

غصب کے بعض احکام

١۔ غاصب پر واجب فوری ہے کہ غصب کیاگیا مال ،مالک کو لوٹادے ،اوراگروہ زندہ نہ ہوتواسے اس کے وارثوں کے حوالہ کردے ،اگرچہ اس مال کا واپس کرنا غاصب کے لئے کافی نقصان کاسبب بنے ۔مثال کے طور پر کسی کاپتھریا لوہے کا ایک ٹکڑاغصب کر کے اپنے مکان کی بناء میں نصب کرے جواس کے لاکھوں برابرقیمت پر تعمیرہوئی ہو ،تو مکان کوگراکر اس پتھر اورلوہے کے ٹکڑے کو نکال کراس کے مالک کو لوٹادے ،مگر یہ کہ اس کا مالک اس کی قیمت حاصل کرنے پر راضی ہو جائے ۔یااس کے مانند کسی نے دس من گندم غصب کرکے دس خروارجوسے مخلوط کیا ہو ،اگر گندم کامالک اس کی قیمت لینے پرراضی نہ ہو جائے تواسے عین گندم کو جوسے جداکرکے مالک کو واپس کرنا چاہئے ۔

٢۔اگرغصب کئے گئے مال میں کوئی نقص پیدا ہوجائے ،توعین مال کو واپس کرنے کے علاوہ نقصان کی تلافی بھی کرنا چاہئے ۔

٣۔اگرغضب کیاگیا مال تلف ہو جائے تواس کی قیمت اداکی جانی چاہئے۔

٤۔اگرغاصب ، غصب کئے گئے مال کے کسی حصہ کو ضائع کردے ، تو چاہے اس نے خوداس سے استفادہ نہ کیا ہو تو بھی وہ اس مال کے منافع کا ضامن ہے،جیسے،کسی نے کرایہ کی گاڑی کو غصب کرکے کئی دن تک اسے گیرج میں رکھاہو ۔

اسی طرح اگرغاصب ،غصب کئے گئے مال میں اضافہ کردے،جیسے ایک بھیڑکو غصب کرنے کے بعداسے اچھی گھاس کھلا کرفربہ بنادے تواس اضافہ میں کوئی حق نہیں رکھتا ہے البتہ اگرمذکورہ اضافہ منفصل ہو،یعنی ایک زمین کوغصب کرکے اس میں کا شتکاری کرکے زراعت حاصل کرے توغصب کیاہوامال اجرت کے ساتھ مالک کولوٹادے اورزراعت غاصب کی ہوگی ۔

لُقطہ

جوبھی مال پایا جائے اوراسکا مالک معلوم نہ ہواسے ''لُقطہ''کہتے ہیں :

١۔جومال پایا جائے اوراس کا مالک معلوم نہ ہو،اگراس کی قیمت ایک مثقال(۱) چاندی سے کم ہو،تواسے اٹھاکر خرچ کیا جاسکتا ہے اوراگراس کی قیمت ایک مثقال چاندی سے زیادہ ہو تواسے نہیں اٹھاناچاہئے اوراٹھانے کی صورت میں عادی راہوں سے ایک سال تک اس کے مالک کو ڈھونڈنا چاہئے اورمالک کو ڈھونڈلینے کی صورت میں اس کے حوالہ کرنا چاہئے اوراس کامالک نہ ملاتواس مال کواسکی طرف سے کسی فقیر کوصدقہ دینا چاہئے ۔

٢۔اگرکسی مال کوایک ایسی ویران جگہ میں پایاجائے جس کے باشندے نابود ہوچکے ہوں یاغاراور اس بنجر زمین میں پایاجائے کہ جس کا کوئی مالک نہ ہو۔ تو پایاگیا مال پانے والے کا ہے ،اوراگرمال ایسی زمین میں ملے جو کسی کی ملکیت ہو تو اس کے گزشتہ مالکوں سے دریافت کیا جانا چاہئے ،اگرانہوں نے اس کو چھپایاہو توعلامت ونشانی بتانے کی صورت میں دیا جائے ورنہ یہ مال پانے والے کا ہے ۔

بنجر زمینوں کوآباد کرن

ایسی زمین کوآباد کرنا جس سے استفادہ نہیں ہوتاتھا (خواہ وہ زمین کبھی آبادنہیں تھی ،یاکبھی آبادتھی لیکن وہاں کے باشندوں کے معدوم ہونے کی وجہ سے غیرآ باداوربے فائدہ رہی ہو یامرغ زاروں یانرسل زاروں کے مانند)۔بہر حال زمینوں کوآباد کرنااسلام میں نیک کام شمارہوتا ہے اور مالکیت کاسبب بننے کے علاوہ اخروی ثواب بھی رکھتا ہے۔

پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ :

''جو کوئی شخض کسی بنجرزمین کوآباد کرے ،وہ زمین اس کی ہے۔''(۲)

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ:

''اگر کوئی گروہ کسی بنجر زمین کوآباد کرے ،تووہ اولویت کاحق رکھتا ہے اوروہ اس زمیں کا مالک ہے ۔''(۳)

اسلام میں بنجر زمینوں کا مالک خدا،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورامام ہے ( اسلامی حکومت سے مربوط ہیں)اورانفال میں شمار ہوتی ہیں ۔بنجرزمینوں کو مندرجہ ذیل شرائط سے آبادکرکے ان کامالک بن سکتے ہیں ،اوراگرکئی افرادملکیت کاقصد کریں توجو پیش قدمی کرے گا وہ اولویت کاحق رکھتاہے:

١۔امام یاان کے نائب کی اجازت سے۔

٢۔کسی دوسرے شخص نے پہلے اس کی پتھروں سے نشاندہی یاحدبندی نہ کی ہو۔

٣۔دوسروں کی ملکیت کے حدود سے متصل نہ ہو،جیسے نہر کے اطراف کنویں کے پشتے میں اورکھیت کی سرحد سے ملی نہ ہو۔

٤۔خالی زمین ،جیسے خراب شدہ مسجدیا اوقاف ، عام مسلمانوں کی زمین جیسے کوچے اورسڑکیں نہ ہوں۔

نوٹ

تعمیر اور آباد کرنا ایک عرفی مفہوم ہے ،اس لئے جب عرف کہے:''ایک شخص نے فلاں زمین آ باد کی ہے'' مالکیت تحقق پاتی ہے ۔البتہ آباد کرنا بھی مختلف مقاصدکے پیش نظر مختلف ہے ۔چنانچہ کھیتی باڑی میں ہل چلانے سے آباد کرنا عمل میں آ تا ہے اور عمارت بنانے میں دیواربنانے سے ثابت ہوتا ہے ،یہاں تک کہ حاضرلوگوں میں سے ہرایک کھدائی اوراستخراج کے بغیر اس سے استفادہ کرسکتا ہے،ہرایک کے لئے جائزہے کہ ضرورت کے مطابق اس سے استفادہ کرے اور اگران کااستفادہ کرنا کھدائی اوراستخراج اوردیگر فنی کاموں پر منحصرہو ،جیسے سونا اورتانباوغیرہ تو جو محنت ومشقت سے کھدائی وغیرہ کرکے استخراج کرے وہی مالک ہوگا۔

بڑی نہریں مسلمانوں میں مشترک ہیں اسی طرح دریا اور برف وباران کاپانی جو پہاڑوں سے بہہ کر نیچے آتا ہے ،جو بھی ان کے نزدیک اورآگے ہو وہ دوسروں پر مقدم ہے ۔

تخصیص اور مالکیت کی اصل

یہی عقیدہ کہ انسان زمین کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے ،اسے اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اس کے مظاہر سے آ سانی کے ساتھ استفادہ کرے ۔مثلاًاس کازلال پانی پئے ،میٹھے میوے اورحیوانوں کا گوشت کھا ئے ،پہاڑوں کے درّوں میں درختوں کے سائے میں آ رام کرے ،یاصنعت ۔یعنی مادہ پرانجام دی سر گرمیوں کواپنی مرضی کے مطابق استعمال میں لائے ۔

البتہ اگرصرف چند افراد زمین پرایسی زندگی گزارتے کہ آ پس میں کوئی ٹکراو نہ ہوتا توہرگز کوئی مشکل پیش نہ آتی ،لیکن افراد کا جمع ہونا اور ان کا باہم زندگی گزارنا جوانسان کی اجتماعی شہری زندگی کی بنیاد ہے ،کہ ہرفرد زمین اوراس کے مظاہرکو اپنی ملکیت سمجھ لے تو،قدرتی طورپر لوگوں کے درمیان ٹکرائواورشدید تصادم کاسبب بن جائے گا ،جب ہر شخص اپنی ضرورت کو پورا کرنے کی تلاش وکوشش کرے گا،تودوسرے اسے اپنی آزادی وآسائش میں مخل سمجھتے ہوئے اس کے لئے رکاوٹ ایجاد کریں گے،کیونکہ انسان اپنی زندگی کو ہرقیمت پر جاری رکھنے کے لئے مجبور ہے۔

اس لئے پہلے''اصل تخصیص'' کے نام پر ایک اصل وقانون وضع کیاگیا،تاکہ اجتماعی ٹکرائواورتصادم کو روکا جائے ۔اس اصل کوقابل احترام سمجھا گیا ہے ۔اس اصل و قانون کے مطابق،انسان جس چیز کواپنی سعی وکوشش سے حاصل کرے وہ ا س کا مالک ہے اوردوسروں کواس پر طمع ولالچ کرکے اس کے لئے رکاوٹ پیدا کرنے کاحق نہیں ہے۔ اس کے بعد''اصل مالکیت''کے نام پرایک اوراصل وضع کرکے اسے قابل احترام سمجھا گیا ہے کہ اس کے مطابق انسان اپنی کوششوں سے حاصل کی گئی چیزوں پراپنی مرضی سے تصرف کرسکتا ہے ۔

یہ اصل حقیقت میں ''اصل تخصیص'' کو مکمل کرنے والی ہے ۔کیونکہ''اصل تخصیص''دوسروں کی خلل اندازی کوروکتی ہے اوریہ اصل اس چیز کی مالکیت کے لئے ہر قسم کے تصرف کو جائز بنادیتی ہے ۔

اسلام نے مالکیت کی اصل کومحترم جاناہے اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی معروف حدیث (الناس مسلطون علی اموالهم )(۴) میں مالک کے اپنے مال پرمکمل تسلط کی تائید فرمائی ہے ۔

اس قانون کے مطابق انسان جس طرح چاہے اپنے مال کو استعمال کرسکتا ہے ،اس کی حفاظت کرسکتا ہے ،کھاسکتا ہے ،پی سکتا ہے ،بخش سکتا ہے ،بیچ سکتا ہے اوراسی طرح دوسرے جائز تصرفات انجام دے سکتا ہے ،لیکن جوتصرفات ممنوع اور معاشرہ کی مصلحت کے خلاف ہیں مالک کوان کاہرگزاختیارنہیں ہے ۔

مالک اپنے مال پروہ تصرف نہیں کرسکتا ہے جواسلام ومسلمین کے نقصان میں ہو یااسراف اور فضول خرچی سے اپنے مال کونابود نہیں کرسکتا ہے،یا اپنے سونے اورچاندی کے سکّوں کوجاری نہ رکھ کر خزانہ کے طورپر جمع نہیں کرسکتا ہے ۔

اصل مالکیت ،اہم ترین اصل ہے جوانسان کواپنی آرزوتک پہنچاتی ہے اورقوانین کی رعایت کے سایہ میں انفرادی آزادی کوامکان کی آخری حد تک فراہم کرتی ہے ۔

جتنامال کی نسبت انسان کاتسلط یا اس کے کار وکوشش کے بارے میں اسکا اختیارکم ہوجائے گااتنی اس کی آزادی سلب ہو جائے گی اور اس کا استقلال نابود ہوجائے گا اور اگراصل تسلط بالکل نابودہو جائے ،توحقیقت میں ایک زندہ مخلوق سے اس کی اصل آزادی چھین لی جائے گی۔

اصل مالکیت کے دوتتمے

مالک کا اپنی ملکیت پر مکمل تسلط اور اس کے ہر جائز تصرف میں مطلوب آزادی ،ممکن ہے دوراستوں سے خطرہ میں پڑ جائے :

١۔دوسروں کی طرف سے تجاوز کی وجہ سے،جیسے کوئی اس کی ملکیت پر قبضہ کرکے اس کے لئے استفادہ کے راستہ کو مسدود کر دے۔

٢۔اس راستہ سے کہ دوسرے ایسا کام انجام دیں جس سے مالک کونقصان پہنچے۔

دین اسلام نے مذکورہ خطرات کو روکنے کے لئے دومزیداصلوں کووضع کیا ہے کہ اصل مالکیت خودبخودحاصل ہوتی ہے کہ حقیقت میں یہ دواصلیں اسکے نفاذاورحفاظت کی ضامن ہیں :

الف:اصل ضمان :اسلام اس اصل کے مطابق حکم دیتا ہے کہ جو بھی دوسرے کے مال کوپائے ،وہ اسکاضامن ہے ،یعنی اس کو وہ مال مالک کو لوٹادیناچاہئے اوراگر ضائع ہوجائے تو اسکے مانند یاقیمت اداکرے اس حکم کی دلیل ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حد یث ہے:

''علی الید مااخذت حتی تؤد''

ب:قائدہ لاضرر: اس قائدہ کو حدیث نبوی (لاضررولاضرار فی الاسلام)سے استدلال کیا جاتاہے ۔اس قائدے کے مطابق اگر اسلام کا کوئی بھی حکم جاری کرنے میں کسی شخص کوبعض مواقع پرمالی یاجانی نقصان پہنچائے،تو وہ حکم اس مورد میں ، جاری نہیں ہوگا۔

جن چیزوںکو ملکیت بنایاجاسکتا ہے

دین مقدس اسلام میں ان چیزوںکوملکیت بنایا جاسکتیں ہے :

١۔قابل توجہ فائدہ ہو،مثال کے طور پرحشرات قابل ملکیت نہیں ہیں ۔

٢۔مذکورہ فائدہ حلال ہو،اس بناء پرجوئے کے وسائل،موسیقی کے آلات اوران کے مانند،جن کاحلال فائدہ نہیں ہے،کسی کی ملکیت نہیں ہوسکتے۔

١۔احکام ضمان کے دوحکم:

الف:اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی ملکیت کوغصب کرے،یعنی مالک کی اجازت کے بغیر اسے اپنے قبضہ میں لے لے یا مالک کو اپنی ملکیت میں تصرف کرنے نہ دے ،اسلام کے حکم کے مطابق فوراًاسے مالک کوواپس کرے اوراگر یہ ملکیت ضائع ہو جائے تو اسکے مانند یا اس کی قیمت اداکرے اور اگر غصب کرنے کی وجہ سے مال کے مالک کو کوئی نقصان پہنچے توغاصب اس کاذمہ دار ہے ۔

ب:اگر کوئی شخص مالک کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں تصرف کرے ،لیکن مالک کو بھی تصرف کرنے میں رکاوٹ نہ ڈالے۔تو خود مال اگرتلف ہوجا ئے تو اس کے مانندیاقیمت مالک کودے، ضمان کے احکام ومسائل بہت زیادہ ہیں ،تفصیلات جاننے کیلئے فقہی کتابوںکی طرف رجوع کریں ۔

٣۔مذکورہ حلال فائدہ کسی فردیاچندافراد کی تخصیص کے قابل ہو ۔اس بناء پرمساجد،عام سڑکیں اور ان کے مانند چیزیں ،جو معاشرے کے تمام لوگوں سے مربوط ہوتی ہیں ،کسی خاص شخص کی ملکیت نہیں بن سکتی ہیں ۔

جن چیزوں سے انسان مالک بن سکتا ہے

ما لک بننے کے لئے،انسانی معاشرے میں بہت سے وسائل موجود ہیں ،لیکن ان میں سے بعض جیسے جوا ،شرط لگانا،سودخواری اور رشوت ،چونکہ معاشرے کیلئے مضر ہیں ،اس لئے اسلام نے ممنوع فرمایا ہے ۔لیکن دوسرے وسائل مانند:بیع،اجارہ ،ھبہ اورجعالہ، جومعاشرے کے لئے مفید ہیں ،ان میں کچھ اصلاح کر کے انھیں قبول کیاہے اور کلّی طورپر اسلام کی نظر میں مالک بننے کے دو وسیلے ہیں :

١۔وہ جس کے انجام دینے میں کوئی لازم ہو جیسے :خرید وفروخت کہ اس کوانجام دینے کے لئے عقدبیع پڑھنایا لین دین کا ہونا ضروری ہے۔

٢۔وہ جس میں کسی عمل کی ضرورت نہیںہے ،جیسے:وفات کہ اس کے ذریعہ مالک کا مال وارثوں کو منتقل ہو تا ہے اور اس میں کسی لفظ یاعمل کی ضرورت نہیں ہے ۔

میراث اورنکاح کے احکام کی اہمیت کے پیش نظر ہم ان سے مربوط کلی مسائل بیان کرتے ہیں۔

____________________

١۔تقریباًساڑھے تین گرام۔

۲،۳۔میزان الحکمة،ج١،ص٩٤ ۔

۴۔عوالی اللئالی،ج١،ص٤٥٧ ۔

کھانا پینا

دین مقدس اسلام میں ،ہر وہ چیزجو کھانے اورپینے کے قابل ہو،حلال ہے لیکن چند استثنائی چیزوں کے علاوہ ،کہ ان میں سے بعض قرآن مجید میں اوربعض احادیث پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیان ہوئی ہیں۔

مذکورہ استثنائی چیزیں جن کا کھانا اور پینا حرام ہے ،دوقسم کی ہیں :

جان دار اور بے جان ۔

پہلی قسم :حیوانات

حیوانات تین قسم کے ہیں :دریائی ،خشکی ،اورپرند ے۔

الف۔ دریائی حیوانات:

پانی میں رہنے و الے حیوانوں میں صرف آبی پرندے اور چھلکے دار مچھلیاں حلال گوشت ہیں اور باقی جیسے سانپ مچھلی ،سگ مچھلی ،مگرمچھ ،سمندری کتا اورسور وغیرہ حرام ہیں ۔

ب۔خشکی کے حیوانات:

خشکی کے حیوانات دوقسم کے ہیں :(پالتواورجنگلی)

پالتو جانوروں میں ،بھیڑ،بکری ،گائے اوراونٹ حلال گوشت ہیں ۔اسی طرح گھوڑا،خچر اورگدھاحلال ہیں ،لیکن ان کاگوشت کھانا مکروہ ہے اور ان کے علاوہ جیسے کتااو بلی حرام ہیں ۔

جنگلی حہوانوںمیں گائے،مینڈھا،جنگلی بکری ،جنگلی گدھااورہرن حلال گوشت ہیں اورباقی درندے اور ناخن دار حیوانات ،جیسے :شیر ،چیتا ،بھیڑیا ،لومڑی ،گیڈر اور خرگوش ،حرام گوشت ہیں۔

ج۔پرندے:

پرندوں میں سے جن کے پوٹا اور ،سنگ دانہ ہو یا اڑتے وقت پر مارتے ہوں اورناخن نہ رکھتے ہوں ، جیسے پالتومرغی ،کبوتر ،فاختہ ،اورتیترحلال گوشت ہیں اور باقی حرام گوشت ہیں اورٹڈی کی ایک خاص قسم حلال گوشت ہے ان کی تفصیلات کے لئے توضیح المسائل کی طرف رجوع کیا جائے۔

نوٹ

گوشت کے حلال ہونے کے بارے میں جن حیوانوں کانام لیاگیا ،اس میں تزکیہ کی شرط ہے یعنی توضیح المسائل میں دی گئی تفصیل اور طریقہ سے ذبح کرنا۔

دوسری قسم :بے جان اشیائ

بے جان چیزیں دوقسم کی ہیں :

الف۔جامد(ٹھوس)

ب۔سیال چیزیں

الف :جامد چیزیں

١۔ہر حیوان کامردارخواہ حرام گوشت ہو یاحلال گوشت،اس کا کھاناحرام ہے ۔

اسی طرح نجس چیزیں ،جیسے:حرام گوشت حیوانوں کا فضلہ اور وہ کھانے کی چیزیں جونجاست کے ملنے سے نجس ہوگئی ہوں کا کھانا حرام ہے۔

٢۔مٹی

٣۔مہلک زہر

٤۔وہ چیزیں جن سے انسان فطری طورپرمتنفرہو،جیسے حلال گوشت حیوان کافضلہ اور اس کی ناک کاپانی اورجوکچھ اس کی انتڑیوںسے نکلتا ہے ۔اسی طرح حلال گوشت حیوان کے بدن کے اجزاء میں سے پندرہ چیزیں حرام ہیں (تفصیل کے لئے توضیح المسائل کی طرف رجوع کیا جائے)

ب: سیال چیزیں

١۔مست کر نے والی ہر رقیق چیز،اگرچہ کم ہی ہو اس کاپینا حرام ہے۔

٢۔حرام گوشت حیوانات کادودھ ،جیسے سور ،بلی اور کتّا۔

٣۔خون جہندہ رکھنے والے حیوان کاخون ۔

٤۔نجس مائعات،جیسے خون جہندہ رکھنے والے حیوانوںکا پیشاب اور منی وغیرہ ۔

٥۔وہ مائعات جن میں نجاستوں میں سے کوئی ایک مل گئی ہو۔

نوٹ

کھانے پینے کی حرام چیزیںاس وقت حرام ہیں جب اضطرارنہ ہو اوراضطرار کی صورت میں (جیسے:اگرکوئی شخص حرام غذا نہ کھائے تو بھوک سے مر جائے گا ، بیمارپڑنے یابیماری کے شدید ہونے سے ڈرتا ہو یاکمزور ہوکر سفر میں اپنے ہمسفروں سے پیچھے رہ کر ہلاک ہوجائے گا)کھانے پینے کی حرام چیزوںمیں سے اس قدر کھانا جائز ہے ،کہ اس کااضطرار دور ہوجائے .لیکن جوچوری کے لئے یا اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کے لئے وطن سے باہر آکرمضطر ہوجائے تو اس کیلئے جائز نہیںہے ۔

ایک اہم یاد دہانی

حفظان صحت کی رعایت ،انسان کے بنیادی فرائض میں سے ہے کہ ہرانسان خداداد شعور کے ذریعہ تھوڑی توجہ سے اس کے بارے میں معلوم کرسکتا ہے ۔

حفظان صحت پر مختلف قسم کے کھانے پینے کی چیزوں کے اثرات بھی بالکل واضح ہیں ۔اس کے علاوہ یہ چیزیں انسان کی روح واخلاق اور اسی طرح اس کے اجتماعی میل ملاپ پر بھی قابل توجہ اثرات ڈالتی ہیں ۔

ہمیں ہر گزاس میں شک وشبہ نہیں ہے کہ مست انسان کی نفسیاتی حالت اور اس انسان کی حالت ایک جیسی نہیں ہوتی جو ہوش میں ہے۔ اور ان کی اجتماعی گردش بھی ایک جیسی نہیں ہے ۔

یا اگر کوئی شخص مثلاًنفرت آمیزچیزوں کو کھانے کی عادت کرے ،اور اس عادت سے جواثراس کی انفرادی اوراجتماعی زندگی میں پیدا ہوگا ،وہ عام افرادکے لئے قابل برداشت نہیں ہے ۔

یہاں پر انسان اپنی خدادادفطرت سے سمجھتا ہے کہ اسے اپنے کھانے پینے میں کم وبیش محدودیت کا قائل ہوناچاہئے ،ہر کھانے والی چیز کو نہ کھالے اور ہر پینے والی چیز کو نہ پی لے ۔آخر کارہرنگلنے والی چیز کونہ نگل لے۔

خدائے متعال نے اپنے کلام پاک کی نص کے مطابق زمین پرموجود ہرچیز کوانسان کے لئے خلق کیا ہے اور خدائی متعال خود ،انسان اورانسان کی ضروریات زندگی کی چیزوں کامحتاج نہیں ہے اوراپنی مخلو قات کے فائدہ ونقصان کے بارے میں سب سے زیادہ دانااور بیناہے۔انسان کی خیروسعادت کے لئے کھانے اور پینے کی چیزوں میں سے بعض کوحلال اوربعض کو حرام قراردیا ہے ۔

بعض ان محرمات کوحرام قراردینے کا فلسفہ ،سادہ اوربے لاگ سوچ رکھنے والوں کے لئے واضح ہے اوربعض حکمتیں علمی بحثوں کے ذریعہ تدریجا ًواضح ہوئی ہیں اور جن چیزوں کے حرام ہونے کافلسفہ ہمیں ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا ہے،ان کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہرگزہمارے لئے واضح نہیں ہوں گی اور اگرواضح بھی نہ ہو ں تب بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ان میں کوئی فلسفہ نہیں ہے۔بلکہ اس کے پیش نظرکہ قوانین کا سرچشمہ خدائے متعال کا بے انتہا علم ہے ،اس لئے کہنا چاہئے کہ اس میں بہترین اورموثر ترین حکمت ومصلحت ہوگی اگرچہ ہم اپنی تنگ نظری اورمحدود علم کی وجہ سے اس کودرک کرنے سے عاجزاوربے بس ہیں ۔

میراث کے کلی مسائل

عالم طبیعت میں میراث کاموضوع،ایک کلی قانون ہے جوتخلیق کی توجہ کامرکز رہاہے اورہر ایک نسل اپنے اسلاف کی ذاتی خصوصیتوں کو میراث کے طور پر حاصل کرتی ہے ،''گندم ازگندم برویدجوازجو''۔

انسان بھی کسی حدتک اپنے اجدادکے اخلاق،صفات اور ان کے وجودی اوصاف کو میراث میں حاصل کرتے ہیں اسی ذاتی میل میلاپ اور ہما ہنگی کا سبب ہے کہ انسان عام حالت میں اپنے رشتہ داروں کی نسبت ایک خاص دلچسپی کو محسوس کرتا ہے اوربالخصوص اپنی اولادکو اپنا جانشین سمجھ کران کی بقاکو بالکل اپنی بقاجانتا ہے اور قدرتی طورپرجو کچھ اس کی ملکیت ہے،جسے اس نے محنت وزحمت اور کام وکوشش کرکے حاصل کیا ہے اوراپنے لئے مخصوص کر رکھا ہے ،اسے اپنی اولاد کی ملکیت جانتا ہے بلکہ اپنے رشتہ داروں کی ملکیت جانتا ہے ۔

اسلام بھی اسی فطری درک واحساس کے لحاظ اوراحترام کے پیش نظر انسان کے مال کواس کے مرنے کے بعد اس کے زندہ رشتہ داروں سے متعلق جانتا ہے اور میاں بیوی کوبھی جونسب اور ایک دوسرے کی زندگی میں شریک ہونے کے بانی ہیں رشتہ داروں میں شامل کرتا ہے ۔پہلے طبقہ کونسبی وارث اوردوسرے طبقہ کوسببی وارث جانتا ہے ۔

اس بناپر، مرنے والے کا مال ،اس کے نسبی اورسببی وارثوں میں ایک معین قانون کے مطابق تقسیم ہوگا ،لیکن کچھ افرادایسے ہیں جو میراث سے محروم ہیں ،یہاں پر ان میں سے دوافراد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

١۔کافرکومسلمان کی میراث نہیں مل سکتی ہے ۔اس کے علاوہ اگر کوئی کافر مرجائے اوراس کے وارثوں میں کوئی مسلمان ہوتو اس کے کافر رشتہ دارمیراث نہیں پائیں گے۔

٢۔قاتل،اگر کوئی شخص اپنے رشتہ داروں میں سے کسی کو قتل کردے تو قاتل اس کی میراث نہیں پائے گا،لیکن قاتل کی اولاد میراث سے محروم نہیں ہیں ۔

نسبی وارث(رشتہ دار)

نسبی وارث،رشتہ کے نزدیک اوردور ہونے اور رشتہ کارابطہ ہونے یانہ ہونے کے سبب ،تین طبقوں میں تقسیم ہوتے ہیں ،کہ ہرطبقہ کے ہوتے ہوئے بعد والاطبقہ میراث نہیں پائے گا اوران تین طبقوں میں سے کسی ایک کے نہ ہونے کی صورت میں ،میراث ایک خاص ضابطہ کے تحت تقسیم ہوتی ہے ،جس کابعد میں ذکر کیا جائے گا۔

خدائے متعال اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے :

( (...و اولواالار حام بعضهم اولی ببعض ) ...) (انفال٧٥)

''...بعض رشتہ داربعض دوسروں پر زیادہ اولویت رکھتے ہیں ''

نیز اپنے کلام میں آٹھ آیتوں کے ضمن میں وارثوں کے طبقوں اور ان کے حصوںکو بیان فرمایا ہے:

پہلاطبقہ

مرنے والے کے باپ،ماں ،بیٹا اوربیٹی ،جو مرنے والے کے براہ راست رشتہ دار ہیں،مرنے والے کے کوئی بیٹااوربیٹی نہ ہونے کی صورت میں ان کاحصہ ان کی اولاد کو ملے گا ،لیکن جب تک مرنے والے کی اولادمیں سے کوئی ایک بھی ہوتو مرنے والے کی اولاد کی اولاملے گی ۔ مثلاًاگرمرنے والے کے باپ ،ماں اوراس کے بیٹے کاایک بیٹااوربیٹی ہوتو،مرنے والے کے بیٹے کا حصہ مرنے والے کے بیٹے کے بیٹے اوربیٹی کو ملے گا اور ان میں تقسیم ہوگا اور اگرمرنے والے کے بیٹے کے بیٹے اوربیٹی کی کوئی اولادہوتو اسے کچھ نہیں ملے گا ۔

دوسراطبقہ

مرنے والے کے دادا،دادی ،نانا ،نانی اور بھائی اوربہن ہیں ،جو ایک واسطہ سے (باپ یاماں کے واسطہ سے) مرنے والے کے رشتہ دار ہیں ۔

اس طبقہ میں بھی بھائی یابہن کی اولاد کو،ان کے ماں باپ کاحصہ،اگر وہ مرگئے ہوں،تومرنے والے کے طورپر ملے گا۔ اور جب تک بھائی اور بہن کی کوئی اولادزندہ ہو تو اولاد کی اولادکومیراث نہیں ملتی ہے۔

نوٹ

مرنے والے کے اگرپدری بھائی بہن بھی زندہ ہوںاورپدری ومادری بھائی بہن بھی زندہ ہوں تواس کی میراث پدری بھائی بہنوں کو نہیں ملے گی ۔

تیسراطبقہ

چچا، پھوپھی ،ماموں اورخالہ ہیں ،جو دوواسطوں سے(باپ یاماں یادادا یادادی) مرنے والے کے رشتہ دارہوتے ہیں ۔اس طبقہ میں بھی اولاداپنے ماں باپ کی جگہ پر ہیں اورجب تک مرنے والے کے ماں باپ کی طرف سے ایک شخص بھی زندہ ہوتوباپ کے رشتہ داروں کو میراث نہیں ملتی ۔

میراث کے حصے

اسلام میں مذکورہ وارثوں میں سے ہر ایک کے میراث کے حصے،علم ریاضی کے مطابق نہایت توجہ اور دقت کے ساتھ منظم ومر تّب کئے گئے ہیں اورتمام حصے تین قسم کے ہیں :

١۔وہ ورثا ورء جن کی میراث کاحصہ نصف ،ایک تہائی اور اس کے مانند ہے ان کی عددی نسبت معین ہے ۔فقہ میں ان حصوں میں سے ہرایک کو ''فرض''کہتے ہیں اور یہ مجموعاًچھ ہیں :

نصف ،ایک چوتھائی ،آٹھواں حصہ ،دوتہائی ،ایک تہائی اورچھٹاحصہ۔(۱)

٢۔جولوگ رشتہ داری کی وجہ سے میراث پا تے ہیں ،لیکن ان کاحصہ نسبت کے مطابق معین نہیں ہے ۔

میراث کے فرض

١۔نصف (١٢ )یہ تین وراثوں کے لئے ہے ۔

الف:شوہر،جبکہ اسکی بیوی مرگئی ہواوراس کے کوئی اولاد نہ ہو ۔

ب:بیٹی ،اگر مرنے والے کی تنہا اولاد ہو ۔

ج:بہن ،مادری وپدری یاصرف پدری ہو،جب کہ میت کا کوئی اور وارث نہ ہو۔

٢۔ایک چوتھائی(١٤)یہ دو وارثوں کے لئے ہے :

الف:شوہر،جب کہ اس کی بیوی مرگئی ہواوراس کے اولادہو۔

ب:بیوی،جب کہ اس کاشوہرمرگیاہواوراس کے اولادنہ ہو۔

٣۔آٹھواں حصہ(١٨)یہ بیوی یا متعدد بیو یوں کی میراث ہے ،جبکہ مرنے والے کے اولاد ہو۔

٤۔دوتہائی (٢٣)یہ دووارثوں کے لئے ہے:

الف:دوبیٹیاں یااس سے زیادہ ،جبکہ مرنے والے کے کوئی بیٹانہ ہو۔

ب:دو یا اس سے زیادہ پدری ومادری بہنیں یاصرف پدری بہن ہو،جبکہ مرنے والے کے کوئی بھائی نہ ہو۔

٥۔ایک تہائی (١٣)یہ بھی دو وارثوں کے لئے ہے ۔

الف:ماں ،جبکہ مرنے والی اولاد کے اولاداورمتعدد بھائی نہ ہوں۔

ب:مادری بہن اوربھائی جبکہ ایک سے زیادہ ہوں ۔

٦۔چھٹاحصہ(١٦)اوریہ تین وارثوں کے لئے ہے:

الف:باپ،اگرمیت کی اولاد زندہ ہو۔

ب:ماں،اگرمرنے والے کی اولادزندہ ہو۔

ج:مادری بہن یابھائی جبکہ منحصر بہ فردہو۔

ماں باپ کی میراث

١۔اگرمرنے والے کاوارث صرف اس کاباپ یاماں ہوتو میت کا تمام ترکہ اس کی ماں یاباپ کی میراث ہے ۔

٢۔اگرمرنے والے کے وارث اس کے ماں باپ اوراس کی اولادہوں تو اس کے ماں باپ میں سے ہرایک ،چھٹاحصہ(١٦)لیںگے اورباقی اس کی اولادکا ہوگا۔

٣۔اگرمرنے والے کے وارث باپ اورماں ہوں ،اوراسکی کوئی اولادنہ ہوتواگرمرنے والے کے چندبھائی ہوں تو،اگر چہ اس کے بھائی میراث نہیں پاتے،لیکن اس صورت میں چھٹاحصہ (١٦)ماں کااورباقی مرنے والے کے باپ کاہوگا۔اوراگرمرنے والے کے کوئی بھائی نہ ہو تواس صورت میں ماں کاحصہ ایک تہائی (١٣)اور باپ کاحصہ دوتہائی(٢٣)ہوگا ۔

اولاد

١۔اگرمرنے والے کاوارث ایک بیٹایاایک بیٹی ہوتوتمام ترکہ اسی کا ہے اوراگرکئی بیٹے یا کئی بیٹیاںہوں تومال مساوی طورپران کے درمیان تقسیم ہوگااوراگر مرنے والے کے بیٹے اوربیٹیاںہوں توہربیٹے کوبیٹی کے دوبرابرحصہ ملے گا۔

دادا،دادی اورنانا،نانی

٢۔اگرمیت کے وارث دادااوردادی ہوں،تودوحصے دادااورایک حصہ دادی کو ملی گا۔اوراگرمیت کے وارث نانااورنانی ہوں تو ان کے درمیان میت کامال مساوی طورپرتقسیم ہوگا۔اوراگر میت کے وارث دادا،دادی اورنانا،نانی ہوںتو مال کوتین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ان میں سے دوحصے دادا ،دادی کواسطرح کہ دادا کودادی کے دوبرابردیا جائے گا۔اورایک حصہ نانااورنانی کو مساوی طورپرتقسیم کرکے دیاجائے گا۔

٣۔اگرمرنے والے کے وارث اجداداوربھائی بہن ہوں ،چنانچہ وہ بھائی یابہن مادری یاپدری یاپدری ومادری ہوں توایک تہائی اجداد کواورباقی دوتہائی بھائی بہنوںکو ملے گا۔

لیکن اگربھائی بہن میں بعض پدری ومادری اوربعض دوسرے صرف پدری ہوں تومادری بھائی یابہن کوکچھ نہیں ملیگااور باقی ماندہ دوحصے پدری ومادری یاپدری بھائی اوربہن کوملے گا ۔

چچا اور پھوپھی

١۔اگرمرنے والے کے وارث چچا یا پھوپھی ہوں توسب مال ان کو ملے گا اوراگرکئی چچایا کئی پھوپھیاںہوں تو ان میں مساوی طورپر مال تقسیم ہوگااوراگرچچااورپھوپھی ہوں اورسب پدری ومادری یاپدری یامادری ہوں تو چچا کودوحصے اورپھوپھی کوایک حصہ ملے گا اوراگربعض پدری ومادری ہوں اوربعض پدری اوربعض مادری ہوں،تواس صوت میں اگرچچااورپھوپھی مادری ہوں تو ایک تہائی (١٣)مال اوراگرزیادہ ہوں تو دوحصے اس کو ملیں گے اور باقی پدری ومادری چچااور پھوپھی کو ملے گا اورپدری چچاوپھو پھی کومیراث نہیں ملے گی ۔

٢۔اگرمرنے والے کے وارث ،پدرومادری چچایا پھوپھی اورپدری چچایاپھوپھی ہوںتوپدری چچایا پھوپھی کو میراث نہیں ملے گی اورتمام مال پدری ومادری چچاوپھوپھی کو ملے گا۔

ماموں اورخالہ

ماموں اورخالہ جبکہ سب پدری ومادری ہوں ،اگرچہ بعض لڑ کے اوربعض لڑکیاں ہوں،تو مال ان میں مساوی طور پر تقسیم ہوگااوراگربعض پدری ومادری یاپدری اوربعض مادری ہوں،تومادری ماموں اورخالہ کاحصہ ١٦ہے جو ان میں مساوی طور پرتقسیم ہوگا اورباقی مال پدری ومادری یاپدری ماموں اورخالہ کو ملے گا کہ ہرلڑ کے کو لڑکی کے دوبرابرحصہ ملے گا ۔

میاں بیوی کی میراث

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ شوہر کی میراث جبکہ اس کی بیوی کے کوئی اولادنہ ہوتونصف ہے اوراگراس(فوت شدہ)بیوی یادوسری بیوی سے اولاد ہوتوایک چوتھائی ہے۔ اوربیوی کی میراث،اگر(فوت شدہ)شوہر سے کوئی اولادنہ ہو تو ایک چوتھائی اوراگراس(فوت شدہ)شوہریادوسرے شوہرسے اولادہوتو اس کو١٨میراث ملے گی۔

لیکن جانناچاہئے کہ بیوی زمین سے میراث نہیں پاتی ،بلکہ ١٤یا١٨منقولہ اموال اوراعیان زمین ،جیسے عمارت،تعمیر اوردرختوں سے میراث پاتی ہے ،لیکن شوہربیوی کے تمام اموال سے میراث پاتاہے ۔

____________________

١۔ ترتیب وار ١٢، ١٤،١٨،٢٣،١٣اور١٦ ۔