دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 36937
ڈاؤنلوڈ: 2034

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36937 / ڈاؤنلوڈ: 2034
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

ولاء

اگرکسی مرنے والے کامذکورہ وارثوں میں سے کوئی ایک بھی نہ ہوتواس کی میراث''ولائ''کے ذریعہ انجام پائے گی ۔اور ولاء کی تین قسمیں ہیں کہ جو بالترتیب میراث حاصل کرتے ہیں :

١۔ولائے عتق

وہ یہ ہے کہ کوئی اپنے غلام کوآزاد کرے ،چنانچہ وہ غلام مر جائے اور اس کا کوئی وارث نہ ہوتو اس کامالک اورمولااسکے تمام ترکہ کاوارث بن جاتا ہے ۔

٢۔ولا ئے ضمان جریرہ

اگر کوئی شخص کسی شخص کے ساتھ عہد کرے کہ''کسی کو قتل کرنے یا زخمی کرنے کی صورت میں جو جرمانہ اس پر کیا جائے گا،وہ اسے اس شرط پر اداکرے گا کہ اگراس کے مرنے کے بعداس کا کوئی وارث نہ ہوتواس کے ترکہ کولے لے گا ''اس صورت میں وہ اس کے تمام ترکہ کاوارث بنتا ہے ۔

٣۔ولائے امامت

یہ امام کی سرپرستی ہے ۔امام،تمام مسلمانوں کا سر پرست ہے اوراگرکسی شخص کا کوئی وارث نہ ہو،تواس کاترکہ امام کواورامام کی غیبت میں ان کے نائب کو پہنچتا ہے۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ،لا وارثوں کے ترکہ کوان کے ہم شہریوں اورہمسایوں میں تقسیم فرماتے تھے۔

میراث کے احکام

١۔باپ کے رشتہ داراورماںباپ کے رشتہ دارمیراث کو کچھ فرق کے ساتھ تقسیم کرتیں ہیں ،یعنی ہرمردعورت کے دوبرابرلیتا ہے ،لیکن ماں کے رشتہ داروں میں میراث مساوی طورپر تقسیم ہوتی ہے ۔

٢۔وارثوں کے ہرطبقہ میں اولاد ،باپ اورماں کی جگہ ہوتی ہے ،یعنی اگرماں باپ نہ ہوں توان کی میراث کاحصہ ان کی اولاد لیتی ہے ،مثلاًاگرمرنے والے کے ماں باپ اوراس کی پوتی اورنواسہ ہو، توماں باپ میں سے ہرایک کو مال کا١٦حصہ ملے گا اور باقی مال تین حصوں میں تقسیم ہوتا ہے اوران میں سے دوحصے پوتے کواورایک حصہ نواسے کو ملے گا ۔

٣۔اگرمرنے والے کے ایک بیٹااورایک پوتاہوتو تمام میراث بیٹے کوملے گی اورپوتے کو کچھ نہیں ملے گا۔

٤۔اگروارثوں کے حصے اور فرض اصل ترکہ سے زیادہ ہوتو،کمی کو بیٹیاں اور باپ کے رشتہ داربرداشت کریں گے ۔مثلاًاگرمرنے والے کے وارث شوہر،باپ ،ماں اورکئی بیٹیاں ہوں توچونکہ شوہر کاحصہ ١٤ اورماںباپ میں سے ہرایک کاحصہ ١٦اور بیٹیوں کاحصہ٢٣ہے اور یہ مجموعاً١١٤ ہوتا ہے اسطرح ١٤تمام ترکہ سے یعنی عددواحدزیادہ ہوتا ہے ۔اس صورت میں شوہر ،باپ اور ماں کا پوراحصہ ادا کرنے کے بعدباقی بچے مال کو بیٹیوں میں مساوی طورپرتقسیم کیا جاناچاہئے ۔اور کمی ان سے متعلق ہوتی ہے ۔

اہل سنت اس صورت میں کمی کو ہرایک حصہ دارکے حصہ سے کم کرتے ہیں اوراسے ''عول''کہتے ہیں ۔

٥۔اگرتمام حصے اصل مال سے کم ہوں ،یعنی عددواحد کم ہو اس طرح کہ فرض اورحصوں کو ادا کرنے کے بعد کچھ مال بچے تو باقی ماندہ مال کو بیٹی یاباپ کے رشتہ داروں ،یعنی کمی کا خسارہ برداشت کرنے والے رشتہ داروں کے حصہ میں شامل کیا جاتا ہے۔ مثلاًاگرمرنے والے کی وارث ماں اورایک بیٹی ہوتوماں کاحصہ ١٣ہے اوربیٹی کاحصہ ١٢اور اس صورت میں ١٦حصہ مال باقی بچتا ہے اسے بیٹی کودیاجاتا ہے ۔لیکن اہل سنت اس بچے ہوئے مال کوباپ کے رشتہ داروں ۔جوبعدوالاطبقہ ہے۔ کو دیتے ہیں اور اسے '' تعصیب'' کہتے ہیں۔

مر د وعورت کے حصوں میں جزئی فرق

اسلام کی نظر میں مردوعورت انسانی طبیعت اورحقوق ومعنویت کے لحاظ سے مساوی ہیں۔لیکن ان دونوں صنفوں میں سے ہرایک میں اپنی مخصوص خصوصیات کی بنا پر کچھ فرق بھی ہے ۔جیسے میراث میں عورت کاحصہ مرد کے حصہ کا نصف ہے اور دوعورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے اور مرد ایک وقت میں چاربیویاں رکھ سکتا ہے لیکن عورت کو ایک شوہرسے زیادہ کاحق نہیںہے اورطلاق کا حق مرد کو ہے اورحکومت،فیصلہ اور جہادمردوں سے مخصوص ہے اور عورت کے اخراجات مرد کے ذمہ ہیں ۔

البتہ یہ جزئی فرق جواسلام میں مرداورعورت کے درمیان پایا جاتا ہے ، اس کا سبب ان کی مخصوص فطرت اورجذ بات ہیں۔کیونکہ دونوں صنفوں میں انسانیت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔

مرد اورعورت میں جو واضح فرق ہے وہ یہ ہے کہ عورت کی فطرت میں جذبات اورہمدردیاں مرد کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں ۔

یہ بات ناقابل انکار ہے کہ تمام ناموس کی طرح اس حکم کے بھی استثنائی مواقع بھی ہیں، یعنی دنیا میں ایسی عورتیں بھی پیدا ہوئی ہیں کہ ان کی عقلی توانائی بہت سے مردوں سے کہیںزیادہ تھی ،لیکن عام طور پر مردوں کی اکثریت میں عقل وفکر کی توانائی زیادہ رہی ہے اورجذبات واحساسات عورتوں میں زیادہ رہے ہیں ۔

یہ بات طولانی تجربوںاورآزمائشوں کے بعدثابت ہوئی ہے کہ اسلام میں مرد اور عورت کے حقوق میں جو فرق پایا جاتا ہے ،اس کی علت یہی فکراورجذبات اوردیگرطبیعی اسباب ہیں ۔ہم یہاں پراجمالی طور پران میں سے بعض فرق کو بیان کرتے ہیں ۔

مرد اور عورت کی میراث میں فرق

اسلامی نقطۂ نظر سے ،میراث میں عورت کاحصہ ،مرد کے حصہ کا نصف ہے۔لیکن دقیق تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کادوسرا حکم، یعنی عورت کے اخراجات کومرد برداشت کرے،اس کمی کی تلافی کرتا ہے ۔کیونکہ ہم جانتے ہیںکہ روئے زمین پرموجود تمام مال و دولت ہرزمانہ میں نسل حاضر کی ملکیت ہوتی ہے اور میراث کے ذریعہ دوسری نسل پہنچتی ہے اور وہ اس سے استفادہ کرتی ہے۔

اس لئے،مرد اورعورت کے ایک حصہ اور دوحصہ لینے(جواعداد وشمار سے تقریباًمساوی ہے)کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی پوری دولت کا دوتہائی حصہ مرد کا ہے اورایک تہائی حصہ عورت کا ہے۔

لیکن چونکہ اسلام میں عورت کے اخرا جات اور اس کی زندگی کے لوازم عدالت ومساوات کی بنا پر مرد کے ذمہ ہے ،لہذا مال کانصف حصہ مرد کو جوزیادہ دیاگیا ہے وہ عورت پر خرچ ہوتا ہے اور وہ عورت اپنے حصہ کو بھی اپنے اختیار سے خرچ کرسکتی ہے ۔

پس روئے زمین کی دولت کا دوتہائی حصہ اگر چہ ہر زمانہ میں مرد کا اور ایک تہائی حصہ عورت کا رہا ہے ،لیکن اخراجات کے لحاظ سے مسئلہ برعکس ہے ۔

پس حقیقت میں اسلام نے ملکیت کے لحاظ سے دنیا کے مال کا دوتہائی حصہ تدبیر، فکر وعقل نظام چلانے والے کے ہاتھ میں دیا ہے اور اس کاایک تہائی حصہ جذبات اوراحساسات کے سپردکیاہے ۔لیکن اخراجات کے لحاظ سے اس کا دوتہائی حصہ جذبات واحساسات کے سپرد کیا گیا ہے اور ایک تہائی حصہ فکر و عقل کے سپرد کیا گیاہے ۔

بدیہی ہے کہ مال و دولت کے سلسلہ میں عقل کی توانائی جذبات اور احساسات سے زیادہ ہے اورجذبات اوراحساسات مال کو خرچ کرنے میں عقل کی زیادہ محتاج ہیں کیوںکہ یہ ایک نہایت عادلانہ و عاقلانہ طریقہ ہے کہ دنیا کی دولت کودو مختلف طاقتوں یعنی عقل وجذبات میں تقسیم کردیا جائے تا کہ یہ دونوں طاقتیںراضی رہیں جو زندگی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں ۔

بیع

( خرید و فروخت)

بیع کیا ہے ؟

''بیع''کے معنی کسی مال کوبیچنے یاکسی مال کو دوسرے مال سے بدلنے کے ہیں،اس صورت میں کہ مال کا مالک جسے''بیچنے والا''کہتے ہیں ،اپنے مال کی ملکیت سے ان پیسوں کے عوض دست بردار ہوجاتا ہے جو کہ ،دوسرا شخص ،یعنی ''خریدار''ادا کرتا ہے۔اور''خریدار''بھی مال کے عوض بیچنے والے کو اپنے پیسے دیدیتا ہے ۔

واضح رہے کہ''بیع''ایک عقد ہے اور اپنے وجود میں طرفین (بیچنے والے اورخریدنے والے)کا محتاج ہے ۔اس لئے اس میں عقود کے عام شرائط جیسے بلوغ،عقل، قصد اوراختیار ہونا چاہئے ۔

بیع عقد لازم ہے

بیع،عقود لازمہ میں سے ہے ،یعنی عقد کے منعقد ہونے کے بعد متعاقدین ( بیچنے والے یاخریدار) میں سے کوئی اسے توڑ نہیں سکتا ۔لیکن چو نکہ کبھی بیع کے منعقد ہو جانے کے بعد غفلت یا غلطی سے بیچنے والے یا خریدار کو دھوکہ ہو جاتا ہے اور وہ قابل اعتنا نقصان سے دوچار ہوتا ہے، لہذاایسے مواقع پر بیع کا انجام عام مصلحتوں کے خلاف ہوتا ہے۔ دین اسلام نے اس خرابی سے بچنے کے لئے دواقدام کئے ہیں :

اول:''اقالہ''وہ یہ ہے کہ بیع انجام دینے والے طرفین میں سے ایک پشیمان ہوجائے اورمد مقابل سے معاملہ توڑنے کی درخواست کرے تومستحب ہے اسے قبول کرکے معاملہ کو توڑدیا جائے ۔

دوم :''خیار'' یہ ایک خاص اختیار ہے جس کے تحت معاملہ کرنے والا معاملہ کو توڑ سکتا ہے ۔

مشہور''خیارات'' حسب ذیل ہیں :

١۔خیار مجلس: جب تک عقد کی مجلس برخاست نہ ہوجائے معاملہ کے طرفین معا ملہ کو توڑ سکتے ہیں ۔

٢۔خیارغبن : یہ ہے کہ عقد کے طرفین میں سے کسی ایک نے دھوکہ کھایا ہو اورمعاملہ میں نقصان اٹھایا ہو۔مثلاًمال اس کی اصل قیمت سے کم میں بیچ دیاگیاہو یااصل قیمت سے زیادہ میں خریدا گیا ہو ۔تواس صورت میں طرفین میں سے جس کو نقصان ہوا ہے وہ فوراً معا ملہ کو توڑ سکتا ہے ۔

٣۔خیار عیب: اگر معا ملہ طے پانے کے بعد،خریدار مال میں کوئی عیب پائے تو وہ معاملہ کوتوڑ سکتا ہے ۔یا قیمت کے تفاوت کو حاصل کرسکتا ہے ۔

٤۔خیار حیوان :حیوانوں ،جیسے بھیڑ اورگھوڑے وغیرہ میں خریدار تین دن تک معاملہ توڑنے کا حق رکھتا ہے ۔

٥۔خیارشرط: اگر بیچنے والا یاخریدار یادونوں اپنے معاملہ میں کوئی شرط رکھیں ،تو وہ شرط کی خلاف ورزی کی صورت میں معاملہ کو توڑ سکتے ہیں ۔

نقد،ادھار،اور سلم

پیسہ لینے اور مال دینے کے لحاظ سے''بیع''کی چار قسمیں ہیں :

١۔معاملہ انجام پانے کے ساتھ ہی خودمال اورپیسے اداکئے جائیں تواس بیع کو''نقد''کہتے ہیں۔

٢۔معاملہ انجام پانے کے وقت مال خریدار کے حوالہ کردیاجائے لیکن اس کی قیمت تاخیرسے اداہونا قرار پائے ،تو اس معاملہ کو''ادھار'' کہتے ہیں ۔

٣۔دوسری قسم کے برعکس پیسے نقداداکئے جائیں لیکن مال کوبعد میں دیناقرارپائے تواس بیع کو''سلم ''کہتے ہیں ۔

٤۔پہلی قسم کے برعکس معاملہ طے ہونے کے بعدمال اور پیسے دونوں بعد میں ادا کرناقرارپائے تواس بیع کو''کالی بہ کالی ''کہتے ہیں ۔

مذکورہ چار قسموں میں سے بیع کی پہلی تین قسمیں صحیح اورچوتھی قسم باطل ہے۔

منابع ومآخذ کی فہرست

١۔قرآن مجید

الف:

٢۔احقاق الحق،قاضی سید نوراللہ الحسینی المرعشی التستری ،طبع، الخیام ،قم ۔

٣۔اصول کافی ،مرحوم کلینی ،دارالکتب الاسلا میہ ،تہران ۔

٤۔امالی ،شیخ مفید،دفترانتشارات اسلامی ،قم ۔

ب:

٥۔بحارالانور،علامہ مجلسی ،دار احیاء التراث العربی،بیروت،لبنان۔

ت:

٦۔تاریخ طبری ،محمدبن جریر طبری،دارالمعارف،مصر۔

٧۔تحف العقول ،ابو محمدحسن بن علی بن حسین شعبئہ حرافی،دفتر انتشارات اسلامی قم ۔

س:

٨۔سفینتہ البحار،شیخ عباس قمی ،انتشارات فراہان ،تہران۔

ش:

٩۔شرح غررالحکم ،جمال الدین محمدخوانساری،مئوسسئہ انتشارات وچاپ،تہران۔

ع:

١٠۔عوالی اللئالی،محمدبن علی بن ابراھیم احسائی،مطبعئہ سیدالشہداء علیہ السلام دانشگاہ قم،ایران۔

غ :

١١۔غایةالمرام،صمیری بحرانی،دارالھادی،قم۔

١٢۔الغدیر،علامہ امینی،دارالکتب العربی،بیروت،لبنان۔

١٣۔غررالحکم،متر جم محمدعلی انصاری،مئوسسئہ صحافی خلیج،ایران ،قم۔

ک:

١٤۔کنزالعمال،علامہ علاء الدین علی المتقی بن حسام الدین الھندی، مؤسسة الرسالة،بیروت۔

م:

١٥۔محجة البیضا،ملا محسن کاشان،دفترانتشارات اسلامی ،قم ۔

١٦۔مستدرک الوسائل ،حسین نوری طبرسی ،افست مطبعة الاسلا میہ۔

١٧۔مسنداحمدبن حنبل،مکتب اسلامی دار صادر،بیروت۔

١٨۔میزان الحکمة،محمدری شہری،مکتب العلوم الاسلا می ،قم۔

ن:

١٩۔نہج البلاغہ صبحی صالح۔

٢٠۔نہج البلاغہ فیض الاسلام۔

٢١۔نہج الفصاحہ ،مترجم ،ابوالقاسم پایندہ،سازمان انتشارات جاویدان۔

و:

٢٢۔وسا ئل الشیعہ،شیخ حرعاملی ،مکتبة الاسلامیة ،تہران۔

ی:

٢٣۔ینابیع المودہ،قندوزی، موسسئہ اعلمی۔

فہرست

حرف اول ۵

دینی معلومات ۷

نتیجہ ۸

خداکے قانون سے رابط کا اچھا اثر ۸

١۔عقائد ۹

٢۔اخلاق ۱۰

٣۔عمل ۱۰

دین کافطری ہون ۱۲

دین کے فائدے ۱۳

تاریخ ادیان کا ایک خلاصہ ۱۴

دین اسلام اور اس کی آسمانی کتاب ۱۵

دین ،قرآن مجید کی نظر میں ۱۷

معاشرے میں دین کا کردار ۱۹

معاشرے کو قوانین کی ضرورت ۱۹

قوانین کے مقابلہ میں انسان کاآزاد ہونا ۲۰

قوانین کی ترقی میں کمزوریاں ۲۰

قانون میں خامی کااصلی سر چشمہ ۲۱

تمام قوانین پردین کی ترجیح ۲۲

نتیجہ ۲۲

دوسروں کی کوشش ۲۳

انسان کے آرام وآسائش میں اسلام کی اہمیت ۲۴

اسلام کا دوسرے ادیان سے موازنہ ۲۴

سماج کے رسم ورواج سے اسلام کا موازنہ ۲۵

نتیجہ ۲۶

طبیعی وسائل سے اسلام کی ترقی ۲۷

تبلیغ اور دعوت اسلام ۲۷

تبلیغ کا طریقہ ۲۸

اسلام میں تعلیم و تربیت ۲۹

اسلامی تعلیمات کے دواہم شاہکار ۲۹

آزادی فکر اور حق پوشی ۳۰

نتیجہ ۳۱

سماجی زندگی میں اسلام کی خدمات ۳۲

افراد کے منافع کاتحفظ اوررفع اختلاف ۳۲

اسلام کا طریقہ کار اور اس کی بنیاد ۳۲

سماجی اختلافات ۳۳

عداوت و اختلاف سے اسلام کا مقا بلہ ۳۵

رفع اختلاف کے لئے ایک عام وسیلہ ۳۶

نماز،روزہ اورحج یارفع اختلافات کا وسیلہ ۳۷

عقائد ۴۰

١۔توحید ۴۰

اثبات صانع ۴۰

ابتدائے خلقت کی بحث ۴۱

معرفت خدا اور ملتیں ۴۲

انسان کی زندگی میں تجسس کا اثر ۴۳

توحید کے بارے میں قرآن مجید کا اسلوب ۴۴

مثال اورو ضاحت ۴۵

قرآن مجید کی نظر میں خداشناسی کا طریقہ ۴۷

کمال کیا ہے؟ ۴۸

توحید اور یکتائی ۴۹

وضاحت ۵۰

خدائے متعال کا وجود،قدرت اور علم ۵۰

خدا کی قدرت ۵۱

وضاحت ۵۱

خدا کا علم ۵۱

وضاحت ۵۱

خداکی رحمت ۵۲

تمام صفات کمالیہ ۵۲

وضاحت ۵۲

٢۔نبوت ۵۳

انسان کوپیغمبر کی ضرورت ۵۳

انبیاء کی تبلیغ ۵۴

معاشرے میں قوانین و قواعد کی ضرورت ۵۵

قواعدوضوابط کی تکوینی بنیاد ۵۵

زندگی کے قوانین کی طرف تکو ینی ہدایت ۵۵

نتیجہ ۵۶

انسان اور دوسری مخلو قات کی ہدایت میں فرق ۵۷

انسان اور دوسری مخلوقات میں فرق ۵۸

پیغمبر کی صفات ۶۰

انبیاء ،انسانوں کے درمیان ۶۰

صاحب شریعت انبیائ ۶۱

اولوالعزم پیغمبر اور دوسرے انبیائ ۶۱

١۔حضرت نوح علیہ السلام ۶۲

٢۔حضرت ابراہیم علیہ السلام ۶۳

٣۔حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام ۶۴

٤۔حضرت عیسی مسیح علیہ السلام ۶۵

٥۔خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۶۷

بحیرا راہب کا قصہ ۶۸

نسطورا راہب کا قصہ ۷۰

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ۷۱

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طائف کی طرف سفر ۷۴

مدینہ کے یہودیوں کی بشارت ۷۵

نبی کی بشارتوں کی طرف قرآن مجید کااشارہ ۷۵

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدینہ میں ورود ۷۶

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی جنگوںکاایک مختصرجائزہ ۷۸

١۔جنگ بدر ۷۸

٢۔جنگ احد ۷۸

٣۔جنگ خندق ۷۹

٤۔جنگ خیبر ۸۰

بادشاہوں اور سلاطین کو دعوت اسلام ۸۰

٥۔جنگ حنین ۸۱

٦۔جنگ تبوک ۸۱

اسلام کی دوسری جنگیں ۸۲

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معنوی شخصیت کاا یک جائزہ ۸۳

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیر معمولی معنوی شخصیت ۸۵

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت ۸۵

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے بارے میں چند نکات ۸۸

مسلمانوں کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت ۹۰

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت اور جانشینی کا مسئلہ ۹۰

قرآن مجید، نبوت کی سند ۹۲

قرآن مجید کی اہمیت ۹۴

قرآن مجید کا معجز ہ ۹۴

قرآن مجید کی مشرکین کو مناظرہ کی دعوت ۹۷

قرآن مجید کی تعلیمات ۱۰۰

قرآن مجید کی نظر میں علم وجہل ۱۰۰

وضاحت ۱۰۲

قرآن مجید کا احترام ۱۰۳

راہ خدا میں جہاد او رفداکاری کے متعلق قرآن کا دستور ۱۰۳

بحث کا خاتمہ ۱۰۴

٣۔ معاد یا قیامت ۱۰۵

٣۔ معاد یا قیامت ۱۰۵

ادیان و ملل کی نظر میں معاد ۱۰۵

قرآن مجیدکی نظر میں معاد ۱۰۶

موت سے قیامت تک ۱۰۷

بدن مرتا ہے نہ کہ روح ۱۰۷

اسلام کی نظر میں موت کے معنی ۱۰۸

برزخ ۱۰۸

قیامت یقینی ہے ۱۰۸

٤۔عدل ۱۱۱

٥۔امامت اور امت کی رہبری ۱۱۳

امام کی ضرورت پر ایک نقلی دلیل ۱۱۴

ولایت کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان ۱۱۵

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ جانشین کا تقرر ۱۱۶

امامت کی ضرورت پر ایک دلیل ۱۱۶

امام کی ضرورت ۱۱۷

امام کی عصمت ۱۱۸

امام کے اخلاقی فضائل ۱۱۸

امام کا علم ۱۱۸

ائمہ ھدیٰ علیہم السلام ۱۱۹

ائمہ علیہم السلام کے اسمائے گرامی ۱۱۹

ائمۂ اطہار علیہم السلام کی عام سیر ت ۱۱۹

پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت علیہم السلام ۱۲۰

اہل بیت علیہم السلام کی عام سیرت ۱۲۱

وقت کے حکّام کے ساتھ ائمہ اطہار کے اختلافات کا اصلی سبب ۱۲۳

خلاصہ اور نتیجہ ۱۲۵

اہل بیت علیہم السلام کے کردار میں ایک استشنائی نکتہ ۱۲۵

اہل بیت علیہم السلام کے فضائل ۱۲۶

ائمہ علیہم السلام کی تقرری ۱۲۸

ائمہ معصو مین علیہم السلام کی زندگی کا ایک مختصر جائزہ ۱۲۹

حضرت امام علی علیہ السلام ۱۲۹

(مسلمانوں کے پہلے امام ) ۱۲۹

امام علی علیہ السلام کے فضائل کا خلاصہ ۱۳۲

حضرت امیرالمؤ منین کا طریقہ ۱۳۳

حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ۱۳۵

(دوسرے امام) ۱۳۵

حضرت امام حسین علیہ السلام ۱۳۶

(تیسرے امام) ۱۳۶

کیاامام حسن اورامام حسین علیہما السلام کی روش مختلف تھی ؟ ۱۳۷

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ۱۴۰

(چوتھے امام) ۱۴۰

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ۱۴۱

(پانچویں امام) ۱۴۱

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام ۱۴۱

(چھٹے امام) ۱۴۱

امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہماالسلام کی تحریک ۱۴۲

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ۱۴۳

(ساتویں امام) ۱۴۳

حضرت امام رضا علیہ السلام ۱۴۳

(آٹھویں امام) ۱۴۳

حضرت امام محمدتقی علیہ السلام ۱۴۵

(نویں امام) ۱۴۵

حضرت امام علی نقی علیہ السلام ۱۴۵

(دسویںامام) ۱۴۵

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ۱۴۵

(گیارہویں امام) ۱۴۵

حضرت امام مہدی موعودعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ۱۴۶

(بارہویںامام) ۱۴۶

ائمہ دین کی روش کااخلاقی نتیجہ ۱۴۷

ائمہ معصومین علیہم السلام کے اجمالی حالات ۱۴۸

پہلے امام ۱۴۸

دوسرے امام ۱۴۸

تیسرے امام ۱۴۹

چوتھے امام ۱۴۹

پانچویں امام ۱۴۹

چھٹے امام ۱۵۰

ساتویں امام ۱۵۰

آٹھویںامام ۱۵۱

نویں امام ۱۵۱

دسویں امام ۱۵۲

گیارہویں امام ۱۵۲

بارہویں امام ۱۵۲

اخلاق واحکام کے چند سبق ۱۵۴

١۔اخلاق کے چند سبق ۱۵۴

خدا کے بارے میں انسان کافریضہ ۱۵۴

خدا پرستی ۱۵۵

اپنے بارے میں انسان کافریضہ ۱۵۶

بدن کی صفائی ۱۵۷

صفائی کاخیال ۱۵۷

کُلّی اور مسواک ۱۵۸

استنشا ق(ناک میں پانی ڈالنا) ۱۵۸

تہذیب اخلاق ۱۵۹

حصول علم ۱۵۹

اسلام کی نظرمیں طالب علم کی اہمیت ۱۶۰

معلم اورمربی کی اہمیت ۱۶۱

معلم اور شاگرد کا فریضہ ۱۶۱

ماں باپ کے بارے میں انسان کا فریضہ ۱۶۲

بزر گوں کا احترام ۱۶۳

اپنے رشتہ داروںکے بارے میں انسان کافریضہ ۱۶۳

ہمسایوں کے بارے میں انسان کافریضہ ۱۶۳

ماتحتوں اور بیچاروں کے بارے میں انسان کا فریضہ ۱۶۴