دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 36951
ڈاؤنلوڈ: 2037

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36951 / ڈاؤنلوڈ: 2037
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

٢۔نبوت

انسان کوپیغمبر کی ضرورت

خدائے متعال نے اپنی کامل قدرت سے جو کہ ہراعتبار سے بے نیاز ہے کائنات اور کائنات میں گوناگوں مخلو قات کو خلق کیا اور انھیں بیشمار نعمتوں سے نوازا ہے۔

انسان اورتمام دوسری جان دار وغیر جان دار مخلو قا ت کی پرورش پیدائش کے دن سے لیکر کائنات کے آخری دن تک ،خدا ہی کرتا ہے ،اور ان میں سے ہر ایک ،خاص نظم و نسق اور خاص تربیت سے ایک معلوم و معین مقصد کی طرف ہدایت پاتے ہیں اور اسی کی طرف بڑ ھتے ہیں جبکہ تمام لمحات میں وہ اپنی شایان شان عنایتوں سے نوازے جاتے ہیں ۔

اگرہم صرف اپنی زندگی کے بارے میں غور وخوض کریں ،یعنی شیرخوارگی ،بچپن ،جوانی اور بوڑھاپے کے دورپر نظر ڈالیں ،تو خدائے متعال کا وہ کامل لطف و کرم جو ہمارے شامل حال ہے، کے بارے میں ہماراضمیر گواہی دے گا ،اور جب یہ مسئلہ ہمارے لئے واضح ہو جائے گا تو یقینا ہماری عقل فیصلہ دے گی کہ خالق کائنات ،اپنی مخلوق کے لئے سب سے زیادہ مہر بان ہے ۔اسی مہربانی کی وجہ سے ہمیشہ ان کے حالات کے مطابق مصلحت کی رعایت کرتا ہے اور حکمت و مصلحت کے بغیر ہر گز ان کے فساد وتباہی کے کاموں سے راضی نہیں ہوتا ۔انسان،خدا کی ایک ایسی مخلوق ہے ۔کہ جس کی فلاح و بہبود اور سعادت اس میں ہے کہ حقیقت پسنداور نیک منش ہو ،یعنی اس میں صحیح عقائد ،پسندیدہ اخلاق اور نیک کردار ہونا چاہئے۔

ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ انسان اپنی خدا داد عقل سے اچھے اور برے کو پہچان سکتا ہے اور چاہ کو را ہ سے تشخیص دے سکتا ہے ،لیکن یہ جاننا چاہئے کہ عقل اکیلے ہی اس گرہ کو کھول کر انسان کی حقیقت پسندی اور نیکی کی طرف رہنمائی نہیں کر سکتی ،کیونکہ انسانی معاشرے میں جو مشاہدہ کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ زیادہ تر برائیاں ان لوگوں سے انجام پارہے ہیں ،جو عقل و شعور اور برے بھلے کی تمیز رکھتے ہیں ،لیکن خود پرستی ،منا فع پر ستی اور ہوس رانی کے نتیجہ میں ان کی عقل اس کے جذبات اور ہواوہوس کی تابع ہو کرگمراہی سے دوچار ہو تی ہے ۔لہذا خدائے متعال کوایک دوسرے راستہ سے یا ایک ایسے وسیلہ سے سعادت کی طرف ہماری راہنمائی کرنا چاہئے جو کبھی ہوا وہوس سے مغلوب نہ ہواور اپنی رہبری میں کبھی اشتباہ و غلطی کاشکارنہ ہو،ایسا راستہ صرف نبوت کا ہے۔

انبیاء کی تبلیغ

ہماری عقل جو فیصلہ کرتی ہے اوراس کے مطابق حکم دیتی ہے کہ انسان کے لئے ''نبوت'' کے نام کا ایک راستہ کھلا ہونا چاہئے ۔ یہ چیزعملابھی مورد تاکید قرار پاکر انجام پایا ہے۔ انسانوں میں سے (انبیائ)نامی کا ایک گروہ خدائے متعا ل کی طرف سے منتخب ہوا ہے ۔ جنہوںنے لو گوںکی ہدایت کے لئے اعتقادی کچھ عملی قوانین وضوابط پیش کئے اور ان کو صحیح راستے پر چلنے کی دعوت دی ہے

ان پیغمبروں نے اپنے دعوی کے صحیح ہونے اوراپنے دین کے سچے ہونے کومعقول طریقوں سے لوگوں کے لئے ثابت کیا ،اور اپنے تربیتی مکتب میں کچھ شائستہ افراد کی پرورش کی ۔

عقل معاش، جسے ہم عقل علمی بھی کہتے ہیں (وہ شعورجس سے ہم اپنی زندگی کو چلاتے ہیں)ہمیں یہ اجازت دیتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے فائدے کے لئے ہر قابل استفادہ چیز سے استفادہ کریں ،جیسے:فضا،ہوا،درختوں،ان کے پھل،پتوںاور لکڑیوں حیوانات،ان کے گوشت،دودھ ،اون اورکھال سے استفادہ کریں ۔اسی طرح ہم اپنی بے شمار ضرورتوں کے پیش نظر اپنے ہم نوع انسانوں کی سر گرمیوں سے بھی اپنے نفع میں استفادہ کرتے ہیں ۔

ان چیزوں کے مصرف اور استفادہ کا حکم ہمیں ہماری عقل و شعورنے دیا ہے اور اسی نے ان کے جائز ہونے کی تصدیق کی ہے ،اس لئے ہے کہ اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ بھوک کے وقت تم کیوں کھانا کھاتے ہو ؟ پیاس کے وقت کیوں پانی پیتے ہو؟یا ہوا میں کیوں سانس لیتے ہو؟تو اس کے یہ سوالات مضحکہ خیز ہوں گے۔

لیکن جب ہم اپنے ہم نوع انسان کے کام وکوشش سے استفادہ کرنے کے لئے ان سے پہلی بار رابطہ بر قرار کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ وہ بھی ہماری طرح ہیں جس طرح ہم ان کی سر گرمیوں کے نتیجہ سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ،اسی طرح وہ بھی ہماری سر گرمیوں کے نتیجہ سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ۔کیونکہ ہم اپنی سر گرمیوں کے نتیجہ کو انھیں مفت میں دینے کے لئے تیارنہیں ہیںلہذا ان کے پاس بھی جو کچھ ہے وہ اسے مفت میں دینے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ ہم اجتماعی طور پر ایک دوسرے کا تعاون کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اپنے ہم نوع انسان کی زندگی کی ضرورتوںکو پورا کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں تاکہ اس کے مقابلہ میں وہ بھی ہماری مدد کریں ۔

اسی احتیاج وضرورت کے پیش نظر،مختلف انسان آپس میں جمع ہو گئے اور ایک دوسرے کی مدد اور کام سے استفادہ کرتے ہیں ،حقیقت میں مختلف افراد کے کام اور ان کی کوششیں ایک دوسرے پر بٹ جاتی ہیں ،اور اس کے بعدہر ایک اپنی حیثیت اور اجتماعی سر گرمی کے مطابق اس سے استفادہ کرتا ہے ۔

معاشرے میں قوانین و قواعد کی ضرورت

جیسا کہ بیان کیا جاچکا کہ انسان مجبور ہوکر اجتماعی تعاون پرآمادہ ہوتا ہے ورنہ فطری طور پر وہ صرف اپنی زندگی کے نفع کاخواہان ہے ،لہذا جب بھی اسے موقع ملتا ہے وہ دوسروں کے منافع پر تجاوز کرتا ہے جبکہ اس نے اپنے منافع سے کوئی چیزدوسروں کو ا نہیں دی ہے کہ تعادل بر قراررہے ۔اسی لئے ہر معاشرے میں کچھ قوانین ومقررات کا ہونا ضروری ہے تاکہ ان کی رعایت کرنے سے ،انسان کی اجتماعی قدروقیمت محفوظ رہے،اور ان کو تجاوز کر نے سے رو کا جا سکے۔ قوانین وضوابط کو لوگوں کے اتفاق نظر یا ان کی اکثریت کی رائے سے منطور کیا جانا چاہئے تاکہ ہر فرد اپنے انفرادی واجتماعی فرائض سے آگاہ ہو جائے۔

قواعدوضوابط کی تکوینی بنیاد

قوانین وضوابط ایسے فرائض ہیں جو انسانی زندگی کی مصلحتوں کی حفاظت کے لئے وضع ہوئے ہیں ۔اس لحاظ سے ان کی قدروقیمت اجتماعی ہے نہ فطری وتکوینی ۔یعنی فطرت میں حکم فرماقوانین کا خودبخود کوئی اثر نہیں ہے ،بلکہ جب معاشرے کے لوگ انھیں جاری کر تے ہیں تو یہ جاری ہوتے ہیں ورنہ یہ ایک بے اثر افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے۔

اس کے باو جود یہ قوانین وضوابط ،فطرت وتکوین سے بے ربط بھی نہیںہیں،بلکہ ان میں تکوین کی ا صل موجود ہے ۔ فطرت اورانسان کی فطری ضرورت ان کاسرچشمہ ہے .یعنی خدائے متعال نے انسان کی خلقت کچھ اس طرح کی ہے کہ خواہ نخواہ اجتماعی افکار کے ایک سلسلہ کو وجودمیں لاکر انھیں قابل استفادہ قرار دیتا ہے اور اپنی تکوینی زندگی کو ان پر تطبیق کرتا ہے اور اپنے وجودی مقاصد تک پہنچتا ہے۔

زندگی کے قوانین کی طرف تکو ینی ہدایت

ہم جانتے ہیں کہ خدائے متعال اپنی عنایت کاملہ اور بے پناہ محبت کی بدولت اپنی ہر مخلوق کواس کے وجودی مقصد تک پہنچاتا ہے اور انسان بھی اس قانون سے مستثنی نہیں ہے ،پس خدائے متعال کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے لئے کچھ ایسے قوانین وضوابط وضع کر ے جو اس کی زندگی کی راہ ورسم کو تشکیل دے اور ان پر عمل کے ذریعہ ا نسان کی مصلحتیں اور منافع پورے ہو سکیں اوران کو حاصل کرنے کے لئے صرف عقل کافی نہیں ہے ۔کیونکہ کبھی خودعقل بھی درک کرنے میں خطا کرتی ہے اور اکثر اوقات عقل عادت ،تقلید اور وراثت میں ملی صفات سے متاثر ہوکر ہواوہوس سے مغلوب ہو کر انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے ۔جیسا کہ ہم جان چکے کہ،عقل انسان کو منافع طلبی کے قانون کی طرف رہنمائی کرتی ہے ،اور اگر انسان کبھی دوسروں کے لئے حق کا قائل ہوتا ہے اور عام قانون کی پیروی کرتا ہے،تو وہ بنابر مجبوری اور اپنے شخصی منافع کو حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے ،اسی وجہ سے اکثر لوگ جب قدرت و توانائی کے عروج پر پہنچتے ہیں تو اپنے مقابلہ میں کسی حریف اور مخالف کو کچھ نہیںسمجھتے ،ہر قانون وحکم کی سر کشی کرتے ہیں اور دوسروں کے منافع کو اپنے لئے مخصوص کر اتے ہیں اور ان کے حقوق کو پامال کرتے ہیں ۔

لہذا خدائے متعال کو چاہئے کہ لوگوں کو ان کی زندگی کی راہ و رسم کے بارے میں ایک ایسے طریقہ سے راہنمائی کرے،جو ہرقسم کی خطاولغزش سے محفوظ ہو اور وہ طریقہ (نبوت)ہے،اور وہ یہ ہے کہ خدائے متعال اپنے بعض بندوں کو راہ فکر وعقل کے علاوہ ایک اور راہ (راہ وحی )سے معارف واحکام کے ایک سلسلہ کی تعلیم دے تا کہ ان پر عمل کے ذریعہ لوگوں کی حقیقی سعادت کی طرف رہنمائی کرسکے۔

نتیجہ

مذکورہ بیان سے معلوم ہوا کہ خدائے متعال کو چاہئے کہ اپنے بعض بندوں کو غیبی تعلیم کے قوانین سے آگاہ کر کے بھیجے جو انسانی سعادت کے ضامن ہیں ۔خدا کے پیغام لانے والے انسان کو پیغمبر یا خدا کارسول کہتے ہیں ،اور خدا کی طرف سے لائے گئے پیغامات کے مجموعہ کو''دین ''کہتے ہیں ۔

یہ بھی معلوم ہواکہ خداکی طرف سے بھیجے گئے دینی معارف اور الٰہی قوانین کوصحیح طور پرتبدیلی،اور کمی بیشی کے بغیر لوگوں کے پاس پہنچنا چاہئے ۔یعنی خدا کا پیغمبروحی الہی کو حاصل کرنے میں خطا نہ کرے اوراس کی حفاظت میں بھول چوک اور لغزش سے دو چارنہ ہو اور اس کو لوگوں تک پہنچانے میں غلطی یا خیانت نہ کرے۔جیساکہ ہم نے بیان کیا کہ ضروری معارف اورزندگی کے قوانین کی طرف لوگوں کی ہدایت نظام خلقت کا جزو ہے اور یہ انسان کی تخلیق کا ایک مقصد ہے۔خلقت اپنی راہ کو طے کرنے میں ہر گزخطااور لغزش کو قبول نہیں کرتی ،مثال کے طور پر یہ ممکن نہیں ہے کہ نظام خلقت ،انسان کے تناسل سے ایک پتھر یا پودے کو وجود میں لائے یا گیہوں کے دانہ کو بونے کے بعد ایک حیوان پیدا ہو یا انسان کی آنکھ موجودہ حالت میں معدہ کا کا م انجام دے یا کان دل کا کام انجام دے۔

اس چیز سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے انبیاء کو معصوم ہونا چاہئے ۔یعنی جس کا م کو وہ خود واجب جانتے ہو ں اسے ترک نہ کریں اور جس کام کو وہ خود گناہ جانتے ہوںانہیں انجام نہ دیں ، کیونکہ ہم (انسان)اپنے ضمیر سے جانتے ہیں کہ جو اپنی بات پر عمل نہ کرے، حقیقت میں وہ اس بات کے صحیح اور سچ ہونے کا قائل نہیں ہے ۔اس صورت میں اگر پیغمبر گناہ کا مرتکب ہو جائے ،تو کوئی اس کی بات پر یقین نہیں کرے گااور تبلیغ کا مسئلہ بے اثر ہوگا اور اگر بعد میں توبہ اور اظہارندامت بھی کرتا ہے تو بھی ہمارا دل اس کی طرف سے صاف نہیں ہوگا اور ہر حالت میں تبلیغ کا مقصدفوت پر جائے گا ۔خدائے متعال فرماتا ہے :

( عالم الغیب فلا یظهر علی غیبه احداً٭الّا من ارتضی من رسول فانّه یسلک من بین یدیه ومن خلفه رصداً٭ لیعلم ان قد ابلغوا رسٰلت ربّهم ) (جن ٢٨٢٦)

''وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ۔مگر جس رسول کو پسند کر لے تواس کے آگے پیچھے نگہبان فرشتے مقرر کردیتا ہے ،تاکہ وہ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات کو پہنچا دیا ہے ۔''

انسان اور دوسری مخلو قات کی ہدایت میں فرق

توحید کی بحثوں سے واضح ہو تا ہے کہ اشیاء کی تخلیق خدا کی طرف سے ہے ،لہذا ان کی پرورش بھی اسی سے مربوط ہے۔واضح الفاظ میں یہ کہا جائے کہ کائنات کی ہر مخلوق ،اپنی پیدائش کے آغاز سے اپنی بقااور نقائص کو دور کرنے میں سر گرم عمل ہوتی ہے اورا اپنی کمیوں وضرورتوں کو یکے بعد دیگررفع کرتی ہے اور امکان کی حدتک اپنے آپ کو کامل اور بے نیاز کرتی ہے ۔اپنی بقاکے سفر میں ایک منظم حرکت کے تحت اپنے وجود کو جاری رکھتی ہے ،اس سفر کو منظم کرنے والا اور ہر منزل پر اسکا رہبر خدائے متعال ہے۔

اس نظریہ کے مطابق ایک قطعی نتیجہ نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کائنات کی ہر قسم کی مخلوق ایک خاص تکوینی پرو گرام کے تحت باقی ہے اور اس میں اپنی خاص سر گرمی ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ،کائنات کے مظاہر میں سے ہر معیّن گروہ کے لئے ، اپنی بقا کے سفر میں کچھ معیّن فرائض ہیں جو خدائے متعال کی طرف سے انھیں عطا ہوتے ہیں ۔ چنانچہ قرآن مجید اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( ربّنا الّذی عطی کلّ شی ئٍ خلقه ثمّ هدی ) (طہ٥٠)

''...ہمارارب وہ ہے جس نے ہرشے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اورپھر ہدایت بھی دی ہے ''

خلقت کے تمام اجزااس کلی حکم میں شامل ہیں اور ان میں سے ہر گز کوئی مستثنیٰ نہیں ہے آسمان کے ستارے اورہمارے پیروں تلے زمین اور ان میں موجود عناصر اور ابتدائی مظاہر کو ظاہر کرنے والی تر کیبیں اورنباتات وحیوانات ،سبھی کی یہی حالت ہے ۔اس عام ہدایت میں انسان کی حالت بھی دوسری مخلوقات کے مانند ہے ، سوائے یہ کہ انسان اور دوسری مخلوقات کے درمیان ایک فرق ہے۔

انسان اور دوسری مخلوقات میں فرق

مثال کے طور پر کرئہ زمین کو لاکھوں سال پہلے خلق کیاگیا ہے ،جو اپنی تمام پوشیدہ توانائیوں کو استعمال میں لاکرا پنے دائرہو حدود میں جب تک مخالف عوامل مانع نہیں ہوتے اس وقت تک سرگرم عمل ہے اوراپنی وضعی وانتقالی حرکت کے نتیجہ میں اپنے وجودی آثار کو ظاہر کرتا ہے اور اس طرح اپنی بقا کی ضمانت حاصل کرتا ہے اور جب تک کوئی اس سے قوی مخالف عامل رکاو ٹ نہ بنے ،اسی سر گرمی کو جاری رکھے گا ،اور اپنے فرائض کو نبھانے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرے گا ۔

بادام کا درخت گٹھلی سے باہر آنے کے وقت سے کامل درخت کی صورت اختیار کرنے تک،تغذیہ ،رشدونمو وغیرہ میں ،دوسرے الفاظ میں اپنے تکامل کے سفر کی راہ میں کچھ فرائض انجام دیتا ہے کہ اگر کوئی قوی تر مخالف عامل رکاوٹ نہ بنے تواپنے فرائض کو انجام دینے میں ہرگز کوتاہی نہیں کریگا اورکوئی کوتاہی کر بھی نہیں سکتا۔ہردوسری مخلوق کی بھی یہی حالت ہے ۔لیکن انسان ،اپنی خصوصی سر گرمیوں کو اپنے اختیار سے انجام دیتا ہے اور جو کام انجام دیتا ہے ،اس کا سرچشمہ اس کی فکر اور اس کا فیصلہ ہوتا ہے ۔ممکن ہے انسان کبھی ایک ایسے کام کو انجام دینے سے پہلو تہی کرے ،جو سو فیصدی اس کے نفع میں ہوا ور کوئی مخالف عامل بھی رکاوٹ نہ بنے اور اس کے مقابلہ میں ایک ایسے کام کوجان بوجھ کر انجام دے جس میں سوفیصدی ضرراورنقصان ہو ،مثلا کبھی دوائی کھانے سے پرہیز کرتا ہے اورکبھی جام زہر نوش کرکے خودکشی کرتا ہے ۔

البتہ واضح ہے کہ جو مخلوق مختار پیداکی گئی ہے ہو،عام ہدایت اس کے لئے جبری نہیں ہوگی۔یعنی انبیاء ،خیر وشر اورسعادت و بدبختی کی راہ کو خدائے متعال کی طرف سے لوگوں کو بیان کرتے ہیں اوردین کے پیرئوں کو ثواب کا مژدہ سناکر پروردگار کی رحمت سے امیدوار بناتے ہیں سرکشوں اورباغیوں کو خدا کے عذاب سے ڈراتے ہیں اور وہ ان میں سے ہر ایک کو اختیار کرنے میں آزادومختار ہوں گے ۔

صحیح ہے کہ انسان اپنے خیروشراور نفع ونقصان کو اجمالا عقل سے سمجھتا ہے۔لیکن یہی عقل، اکثراوقات اپنے کو گم کر کے نفسانی خواہشات کی پیروی کرتی ہے ،اور کبھی غلط راستہ پر چلتی ہے لہذاخدا کی ہدایت عقل کے علاو ہ کسی اور راستہ سے بھی انجام پانی چاہئے اور وہ اس راستہ کو خطاولغزش سے با لکل محفوظ ہونا چاہئے ۔یا دوسرے الفاظ میں خدائے متعال اپنے احکام کواجمالی طور پرعقل سے لو گوں کو سمجھاتا،اور ایک دوسر ے راستہ سے اس کی تصدیق فرماتا ۔

یہ راستہ،وہی ''نبوت''کا راستہ ہے کہ خدائے متعال اپنے سعادت بخش احکام کو وحی کے ذریعہ اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو سمجھاتا ہے اور اسے مامور کر تا ہے کہ انھیں لوگوں تک پہنچائے اور انھیں امید و خوف کے ذ ریعہ شوق دلاکراور ڈراکر ان احکام پر عمل کرنے کے لئے مجبور کرے۔خدائے متعال اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے:

( انّا وحینا لیک کما وحینا الی نوحٍ و النّبیّن من بعدهرسلاً مبشّرین ومنذرین لئلا یکون للنّاس علی اللّه حجّة بعد الرّسل ) (نسائ١٦٥١٦٣)

''ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح نوح اور ان کے بعدکے انبیاء کی طرف وحی کی تھی ...یہ سارے رسول بشارت دینے والے اورڈرانے والے اس لئے بھیجے گئے تاکہ رسولوںکے آنے کے بعد انسانوں کی حجت خداپر قایم نہ ہونے پائے ''

پیغمبر کی صفات

مذکورہ بیان سے واضح ہواکہ پیغمبر میں حسب ذیل صفات ہونی چاہئیں :

١۔اپنے فریضہ کو انجام دینے میں خطاسے محفوظ اور معصوم ہونا چاہئے اور ہر طرح کی فراموشی اور دوسری ذہنی آفتوں سے بھی محفوظ ہونا چاہئے تاکہ جو چیز اس پر وحی ہوتی ہے اس کو صحیح طورپر حاصل کر کے ،کسی لغزش وغلطی کے بغیر لوگوں تک پہنچا دے ،کیونکہ اگر ایسا نہ کیا تو الہی ہدایت اپنے مقصدتک نہیں پہنچ سکتی اور عام ہدایت کا قانون اپنی کلی حیثیت کو کھو کر انسان پر اثر انداز نہیں ہوسکتاہے۔

٢۔پیغمبر کو اپنے کردار وگفتار میں لغزش اور گناہ سے محفوظ ہونا چاہئے چونکہ گناہ کی صورت میں تبلیغ مو ثّر واقع نہیں ہوتی ،جس کے قول وفعل میں اختلاف ہو ،لوگ اس کے قول کو قابل قدر نہیں جانتے حتی اس کے کردار کو بھی جھوٹ کی دلیل سمجھ کر کہتے ہیں: (اگروہ سچ کہتا تووہ اپنی بات پر عمل کرتا)

ان دو مطالب کو ایک عبارت میں جمع کیا جاسکتا ہے :تبلیغ کے صحیح وموئثّرواقع ہونے کے لئے پیغمبرکا خطا اور معصیت سے معصوم ہونا ضروری ہے ،جیسا کہ قرآن مجید کی دلیل بھی بیان کی گئی ۔(۱)

٣۔پیغمبرکواخلاقی فضائل کا مالک ہونا چاہئے،جیسے:عفت،شجاعت،عدالت وغیرہ کیونکہ یہ سب پسندیدہ صفات شمار ہوتی ہیں اور جو ہر قسم کی معصیت سے محفوظ ہو اور دین کی مکمل طور پر اطاعت کرتا ہو اس کا دامن کبھی اخلاقی ،برائیوں سے داغدار نہیں ہو سکتا ۔

انبیاء ،انسانوں کے درمیان

تاریخ کی رو سے مسلّم ہے کہ لوگوں کے درمیان کچھ پیغمبر تھے جنہوں نے دعوت کے ذریعہ انقلاب برپا کیا ہے ،لیکن پھر بھی ان کی زندگی کے بارے میں تاریخ زیادہ واضح نہیں ہے ۔صرف حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی تاریخ میں کسی طرح کا ابہام نہیں ہے ۔اورقرآن مجید،جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آسمانی کتاب ہے اور اس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دین کے عالی مقاصد درج ہیں ،گزشتہ انبیاء کی دعوت کے موضوع کو بھی واضح کرتا ہے اور ان کے مقاصد کو بھی بیان کرتاہے ۔

قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ خدائے متعال کی طرف سے بہت سے انبیاء ر لوگوں کی طرف آئے ہیں اور انہوں نے متفقہ طور پر توحید اور دین کی دعوت کی ہے،چنانچہ فرماتاہے :

( وماارسلنا من قبلک من رّسول الّانوحی الیه انّه لااله الّا انا فاعبدون ) ( انبیائ٢٥)

''اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کی طرف وحی کرتے رہے کہ میرے علاوہ کوئی خدانہیںہے ،لہذا سب لوگ میری ہی عبادت کرو۔''

صاحب شریعت انبیائ

قرآن مجید بیان فرماتا ہے کہ خدا کے سارے نبی آسمانی کتاب کے حامل نہیںتھے اور نہ ہی مستقل شریعت لے کر آئے تھے ۔خدائے متعال فرماتا ہے:

( شرع لکم من الدّین ماوصّی به نوحاً والّذی وحینا الیک وما وصّینا به ابرهیم و موسٰی وعیسٰی ) (شوریٰ ١٣)

''اس نے تمھارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کوکی ہے اور جس کی وحی پیغمبر!تمھاری طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراہیم ،موسی اور عیسی کوبھی کی ہے ...''

اس بناپر بڑے انبیاء میں سے پانچ نبی جو صاحب شریعت اور آسمانی کتابوں کے حامل تھے،حسب ذیل ہیں :

١۔حضرت نوح علیہ السلام

٢۔حضرت ابراہیم علیہ السلام

٣۔حضرت موسی (کلیم)علیہ السلام

٤۔حضرت عیسی(مسیح)علیہ السلام

٥۔حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ان انبیاء میں سے ہر ایک کی شریعت اپنے گزشتہ نبی کی شریعت کو مکمل کرنے والی تھی ۔

اولوالعزم پیغمبر اور دوسرے انبیائ

ہم یہ بیان کر چکے کہ جو پیغمبر آسمانی کتاب اور مستقل شریعت لے کر آئے تھے وہ پانچ ہیںلیکن خدا کے رسول صرف یہی پانچ افراد نہیں تھے ،بلکہ ہر امت کا ایک نبی تھا اورخدا کی طرف سے لوگوں کے لئے بہت سے انبیاء بھیجے گئے ہیں ،کہ ان سے میں صرف بیس افراد کا نام قرآن مجید میں موجود ہے ،چنانچہ خدائے متعال فرماتاہے :

( منهم من قصصنا علیک ومنهم من لم نقصص علیک ) ۔ (غافر٧٨)

''...جن میں سے بعض کا تذکرہ آپ سے کیا ہے اور بعض کاتذکرہ بھی نہیں کیا ہے ''

( ولکلّ امّةٍ رسول ) ۔ (یونس٤٧)

''اور ہر امت کے لئے ،ایک رسول ہے۔''

( ولکلّ قومٍ هاد ) ۔ (رعد٧)

''اور ہر قوم کے لئے ایک ہدایت کر نے والا ہے...''

جی ہاں،اولواالعزم پیغمبروں میں سے ہر ایک کے بعدجتنے بھی پیغمبر آئے ہیں ،انہوں نے انسانوں کو انہی پیغمبروں کی شریعت کی طرف دعوت دی ہے اور اس طرح،بعثت ودعوت کا سلسلہ جاری رہا ،یہاں تک کہ خدائے متعال نے پیغمبراکرم حضرت محمدبن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گزشتہ پیغمبروں کے سلسلہ کو ختم کرنے اورآخری احکام وکامل ترین دینی ضوابط کو پہنچانے کے لئے مبعوث فرمایا اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آسمانی کتاب کوآخری آسمانی کتاب قرار دیا نتیجہ میں ،آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دین قیامت تک جاری رہے گااورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شر یعت ہمیشہ کے لئے زندہ رہے گی۔

١۔حضرت نوح علیہ السلام

سب سے پہلے پیغمبرجسے خدائے متعال نے شریعت اور آسمانی کتاب کے ساتھ عالم بشریت میں بھیجا،حضرت نوح علیہ السلام تھے۔

حضرت نوح علیہ السلام لوگوں کو توحید،یکتا پرستی کی تر غیب اورشرک وبت پرستی سے پر ہیز کرنے کی دعوت دیتے تھے۔چنانچہ قرآن مجید میں ان کے قصوں سے واضح ہے کہ طبقاتی اختلافات کو ختم کرنے اور ظلم وستم کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سخت جہاد ومبارزہ کرتے تھے اوراستدلال کے زریعہ جو اس زمانہ کے لوگو ں کے لئے نیا تھا ،اپنی تعلیمات پہنچاتے تھے ۔

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک طولانی مدت تک جاہل ،ضدی اور سرکش لوگوں سے دست بگریبان ہونے کے بعدایک چھوٹے گروہ کی ہدایت کی اور خدائے متعال نے ایک طوفان کے ذریعہ کفار کو ہلاک کر کے زمین کو ان کے ناپاک وجود سے پاک فرمایا۔حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے کچھ پیروؤں کے ساتھ نجات پانے کے بعد دنیا میں ایک نئے دینی معاشرہ کی بنیاد ڈالی۔

یہ معزز پیغمبر ،شریعت توحید کے بانی اور خدا کے پہلے کچھ مور ہیں ،کہ جنہوں نے ظلم وستم اور سرکشی کا مقابلہ کیا اور دین حق وحقیقت کی عظیم خدمت کی لہذا خدائے متعال کی طرف سے خاص درودوسلام کے مستحق قرار پائے اور رہتی دنیا تک زندہ وپائندہ رہیں گے:

( سلٰم علی نوحٍ فی العٰلمین ) (صافات٧٩)

''ساری خدائی میں نوح پر ہمارا سلام ''

٢۔حضرت ابراہیم علیہ السلام

حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ایک طویل عرصہ گزر چکا تھا ۔اور اس عرصہ میں اگر چہ بہت سے انبیاء جیسے حضرت ہود علیہ السلام ،حضرت صالح علیہ السلام اوران کے علاوہ دوسرے انبیاء لوگوںکی خدائے متعال اورحق کی طرف رہنمائی فرماتے رہے ،لیکن پھر بھی دن بدن شر ک وبت پرستی کا بازار گرم ہوتا جارہا تھا ،یہاں تک کہ تمام عالم میں بت پرستی پھیل گئی اورخدائے متعال نے اپنی حکمت سے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام فطری انسان کے ایک کامل نمونہ تھے۔ آپ نے پاک و بے آلائش فطرت سے حقیقت کے لئے جستجو کرکے خالق کائنات کی وحدانیت کو پایا اور اپنی زندگی کے آخری لمحات تک شرک و ظلم سے لڑتے رہے۔

جیسا کہ قرآن مجید سے ثابت ہے اور اہل بیت کی روایتیں بھی دلالت کرتی ہیں،کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بچپن شہر کے شوروغل سے دور ایک غار میں گزرا۔آپ کی ملاقات صرف کبھی کبھی اپنی والدہ سے اس وقت ہوتی تھی جب وہ آپ کے لئے کھانا پانی لے کر آتی تھیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک دن اپنی والدہ کے ساتھ غار سے باہرنکلے اور شہر تشریف لائے ۔اور اپنے چچا آزرکے پاس گئے ،وہ جو چیز بھی دیکھتے تھے وہ ان کے لئے نئی اور حیرت انگیز ہوتی تھی ۔ان کی پاکیزہ فطرت ہزاروں حیرت وتعجب کے عالم میں بڑی بے چینی و بے تابی کے ساتھ ان چیزوں کی خلقت کی طرف متوجہ تھی جن کا وہ مشاہدہ کر تے تھے اور وہ ان کی تخلیق کے اسرارتک پہنچنے کی جستجو میں تھے،جب انہوں نے ان بتوں کو دیکھا کہ جنہیں آزر اور دوسرے لوگوں نے تراشا تھا اوروہ ان کی پرستش کرتے تھے ۔ تو انکی حقیقت کے بارے میں سوال کیا لیکن ان بتوںکے رب ہونے کے بارے میں جو وضاحت کی جاتی تھی وہ اس سے مطمئن نہیں ہوتے تھے۔

جب حضرت ابراہیم نے کچھ لوگوں کو ستارئہ زہرہ ،کچھ لوگوں کو چاند اور کچھ لوگوں کو سورج کی پوجا کرتے ہوئے پایا ،جو کہ ایک مدت کے بعد ڈوب جاتے تھے،تو آپ نے ان کے رب ہونے کو قبول نہ کیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے بعد خدائے واحد کی پرستش اورشرک سے اپنی بیزاری کالوگوں میں بلا خوف اعلان کر دیا اور اب وہ بت پرستی اورشرک سے مقابلہ کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتے تھے۔بت پرستوں کے ساتھ انتھک مقابلہ کرتے اور ان کو توحید کی طرف دعوت دیتے تھے۔

آخر کارایک بت خانہ میں داخل ہوئے اوربتوںکا توڑنا ان لوگوں میں سب سے بڑا جرم شمار ہوتا تھاآپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا ۔مقدمہ کی سماعت کے بعد آپ کو آگ میں جلانے کی سزا سنادی گئی،کاروائی مکمل کر نے کے بعد آپ کوآگ میں ڈال دیا گیا ،لیکن خدائے متعال نے آپ کی حفاظت فرمائی اورآپ آگ سے صحیح وسالم باہر نکل آئے ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کچھ مدت کے بعد اپنی جائے پیدائش ملک بابل سے سر زمین شام اور فلسطین کی طرف ہجرت کی اور اس علاقہ میں اپنی دعوت کو جاری رکھا ۔

زندگی کے آخری ایام میں خدائے متعال نے آپ کو دوفرزند عطا کئے۔ان میں سے ایک حضرت اسحاق تھے جو اسرائیل کے والداوردوسرے اسماعیل تھے جو مصری عرب کے باپ ہیں ۔

حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کو شیرخواری کے ایام میں ہی خداکے حکم سے ان کی والدہ کے ہمراہ حجاز لے جاکر تہامہ کے پہاڑوں کے بیچ میں ایک بے آب وگیاہ اور باشندوں سے خالی سر زمین میں چھوڑ دیا ،اس طرح صحرانشین عربوں کو توحید کی دعوت دی۔اس کے بعد خانہ کعبہ کی سنگ بنیاد ڈا لی اور اعمال حج انجام دینے کا تشرع فرمایا کہ اسلام کے ظہور اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت تک یہ عمل عربوں میں رائج تھا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام قرآن مجید کی نص کے مطابق دین فطرت کے حامل تھے۔آپ وہ پہلے شخص ہیںکہ جس نے خدا کے دین کو اسلام اور اس کے پیروئوں کو مسلمین کہا ،اوردنیا میں ادیان توحیدیعنی یہودیت ،نصرانیت اور اسلام آپ پر منتہی ہوتے ہیں، کیونکہ ان تینوں ادیان کے پیشواحضرت موسی کلیم ،حضرت عیسی مسیح اور حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور یہ سب دعوت دینے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم پر تھے۔

٣۔حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام

حضرت موسی بن عمران علیہ السلام تیسرے اولوالعزم پیغمبر اور صاحب کتاب وشریعت ہیں۔آپ اسرائیل (یعقوب ) کی اولاد میں سے ہیں ۔

حضرت موسی علیہ السلام کی زندگی شوروغل سے بھری ہوئی تھی ۔آپ کی پیدائش کے وقت بنی اسرائیل مصر میں قبطیوںکے درمیان ذلت واسیری کی زندگی گزار رہے تھے اور فرعون(۲) کے حکم سے بچوں کے سر قلم کئے جارہے تھے۔

حضرت موسی علیہ السلام کی ماں کو خواب میں جوحکم دیاگیاتھاا س کے مطابق موسی کولکڑی کے ایک صندوق میں رکھ کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔پانی نے صندوق کوبہا کر فرعون کے محل کے قریب پہنچادیا ۔فرعون کے حکم سے صندوق کوپانی سے نکالا گیا ، جب صندوق کو کھولا گیا تواس میں ایک خوبصورت بچے کو پایا گیا۔

فرعون نے ملکہ کے اصرار پر بچے کو قتل نہیںکیا ،اور چونکہ وہ لا ولد تھا ،لہذا اسے اپنا بیٹا بنالیا اور دایہ کے حوالہ کیا گیا اتفاق سے وہی اس کی ماں تھی۔

حضرت موسی علیہ السلام ابتدائے جوانی تک فرعون کے دربار میں تھے۔اس کے بعد ایک قتل کے حادثہ کی وجہ سے فرعون سے ڈر کر،مصرسے بھاگ کر مداین چلے گئے اور وہاں پر حضرت شعیب پیغمبرعلیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور حضرت شعیب کی ایک بیٹی سے شادی کی ۔

کئی سال تک حضرت شعیب کی بھیڑبکریوں کو چراتے رہے۔ایک دن انھیں اپنے وطن کی یادآئی۔اپنے اہل و عیال اورسازوسامان کے ساتھ راہی مصرہوئے ۔اس سفر کے دوران جب رات کے وقت طور سینا پہنچے تو خدائے متعال کی طرف سے رسالت کے عہدہ پرفائز ہوئے اورآپ کومامور کیا گیا کہ فرعون کو دین توحید کی دعوت دیں اور بنی اسرائیل کو قبطیوں سے نجات دلائیں اور اپنے بھائی ہارون کو اپنا وزیر قرار دیں ۔

لیکن اپنے فریضہ کو انجام دینے اور پیغام الٰہی کو پہنچانے کے بعد فرعون،جوکہ بت پرست تھااورخود کو خدا کہتا تھا ،نے آ پ کی رسالت اوردعوت کو مسترد کردیا اور بنی اسرائیل کی آزادی کا ضامن نہیں ہوا۔

حضرت موسی علیہ السلام نے سالہا سال تک لوگوں کو توحید کی دعوت دی اور بہت سے معجزے دکھائے لیکن اس کے باوجود فرعون اور اس کی قوم ان کے ساتھ سختی اور تند مزاجی کا مظاہرہ کرتی رہی۔یہاں تک کہ حضرت موسی علیہ السلام خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کے ہمراہ رات کے اندھیرے میں مصر سے کوچ کر کے صحرائے سینا کی طرف چلے گئے۔جب وہ بحراحمر پہنچے تو فرعون کو یہ معلوم ہوگیا اور اس نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کیا ۔

حضرت موسی علیہ السلام نے معجزہ کے ذریعہ سمندر کو شگافتنہ کیا اور اپنی قوم کے ساتھ پانی سے گزرگئے ،لیکن فرعون اور اس کا لشکر غرق ہوگیا۔اس واقعہ کے بعد خدائے متعال نے حضرت موسی علیہ السلام پر توریت نازل فرمائی اور بنی اسرائیل میں کلیمی شریعت کونافذ کیا ۔

٤۔حضرت عیسی مسیح علیہ السلام

حضرت مسیح اولواالعزم اور صاحب کتاب و صاحب شریعت پیغمبروںمیں سے چوتھے پیغمبرہیں۔آپ کی پیدائش غیر معمولی تھی ۔آپ کی والدہ حضرت مریم،ایک مقدس و پارسا دوشیزہ تھیںجو بیت المقدس میں عبادت کرنے میں مشغول تھیں کہ خدا کی طرف سے روح القدس آپ پر نازل ہوئے اورحضرت مسیح کی بشارت دی پھر ان کی آستین میں پھونک مار ی کہ جس سے وہ حاملہ ہو گئیں ۔

حضرت مسیح نے پیدا ہونے کے بعد اپنی ماں پر لوگوں کی طرف سے لگائی جانے والی تہمتوں کا جواب گہوارہ میں دیا اور اپنی والدہ کا دفاع کیا اور اپنی نبوت اور کتاب کے بارے میں لوگوں کو خبر دی۔اس کے بعد جوانی میں لوگوں کو دعوت دینے میں مشغو ل ہوئے اور حضرت موسی کی شریعت میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے اسے زندہ کیا ۔آپ اپنے حواریوں کو اسلام کے مبلّغ کی حیثیت سے مختلف علاقوں میں بھیجتے تھے ۔

ایک مدت کے بعد جب ان کی دعوت پھیل گئی ،تو یہودی(آپ کی قوم)آپ کو قتل کرنے کے در پے ہو گئے ،لیکن خدائے متعال نے آپ کو نجات دی اور یہودیوں نے آپ کی جگہ پر کسی اور کوپکڑ کر سو لی پر چڑھادیا ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ خدائے متعال نے قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب کا نام ''انجیل''بیان کیا ہے ،یہ ''انجیل''ان انجیلوں کے علاوہ ہے، جو آپ کے بعدآپ کی سیرت اور دعوت کے بارے میں لکھی گئی ہیں ۔ان میں سے چارانجیلیں لوقا،مرقس،متی،اور یوحنا کی تالیف رسمی طور پر قبول کی گئی ہیں ۔

____________________

١۔جن٢٨٢٦۔

۲۔مصر میں بادشاہ کو (فرعون )کہتے تھے۔