دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 36814
ڈاؤنلوڈ: 2012

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36814 / ڈاؤنلوڈ: 2012
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

٥۔خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٥٧٠ء میں ہجرت سے ٥٣سال پہلے حجازکے ایک شریف ونجیب ترین عرب خاندان(بنی ہاشم)میں پیدا ہوئے ۔

جیسا کہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانہ میں دنیا حیرت انگیز حد تک اخلاقی گر اوٹ سے دوچارتھی اور دن بدن جہل و نادانی کے بھنور میں پھنس کر اس کی حالت بدسے بدتر ہوتی جارہی تھی اور ہر لمحہ انسانی معنویات سے دور ہوتی جارہی تھی ۔خاص کر جزیرہ نمائے عر ب ،جس کے اکثر باشندے صحرانشینںتھے اور قبیلوں کی صورت میں زندگی بسر کرتے تھے ،تمام شہری حقوق سے محروم تھے ۔وہ لوگ کچھ خرافی اور بیہودہ افکار (من جملہ اپنے ہاتھوں سے پتھر ،لکڑی اور کبھی خشک دہی کے بنائے گئے بتوں کی پرستش)میں زندگی گزارتے تھے ۔اوراپنے اسلاف کی تقلید کرنے ،لوٹ کھسوٹ اور قتل وغارت کے علاوہ کسی قسم کا فخر ومباہات نہیں رکھتے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے والد گرامی عبداللہ اس دنیا سے رحلت کر گئے اور چار سال کے بعد آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی والدہ کابھی انتقال ہو گیا۔ لہذا آپ کی پرورش کی ذمہ داری آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دادا عبدالمطلب نے سنبھالی ۔تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اپنے داداسے بھی محروم ہوگئے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا حضرت ابو طالب آپ کواپنے گھر لے گئے اور اپنے ایک بیٹے کی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پالا۔

مکہ کے عرب دوسرے عربوں کی مانند بھیڑ بکری اور اونٹ پالتے تھے اور کبھی اپنے ہمسایہ ممالک بالخصوص شام کے ساتھ تجارت بھی کرتے تھے ۔یہ لوگ ان پڑھ تھے اور اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے کوئی اہتمام نہیں کرتے تھے ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگرچہ ان کے درمیان زندگی گزاررہے تھے۔لیکن بچپن سے ہی کچھ پسندیدہ اوصاف کی وجہ سے معاشرے میں امتیازی حیثیت کے مالک تھے، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہرگز بتوں کی پرستش نہیں کرتے تھے،جھوٹ نہیں بولتے تھے ،چوری اورخیانت نہیں کرتے تھے ،برے ناپسند اور نا مناسب کام انجام دینے سے پر ہیز کرتے تھے ،عقل وشعور رکھتے تھے ،اسی لئے تھوڑے ہی عر صہ میں لوگوں کے درمیان قابل توجہ محبو بیت حاصل کرلی اور''محمد امین'' کے نام سے مشہور ہوئے،چونکہ عرب اپنی امانتوں کوآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سپرد کرتے تھے اور آپ کی امانتداری اور لیاقت کی تعریفیں کرتے تھے ۔

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تقریبََابیس سال کے تھے کہ مکہ کی ایک دولت مند عورت (خدیجہ کبریٰ)نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی تجارت کے کارندہ کی حیثیت سے معین کیا ۔آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سچائی ،اچھائی اور عقل ولیاقت کی وجہ سے اس کو تجارت میں کافی منافع ملا اور فطری طور وہ پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت سے متاثر ہوئی ،اورآخر کار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ شادی کرنے کی پیش کش کی ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اسے قبول کیا اور ان کے ساتھ شادی کی اور اس کے بعد بھی برسوں تک اپنی شریک حیات کے ساتھ تجارت میں مشغول رہے ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چالیس برس تک لوگو ں میں عام زندگی بسر کرتے تھے اور معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے ،فرق صرف اتنا تھا کہ آپ پسندیدہ اخلاق کے مالک تھے اوردسرے لوگوں کے مانندبد کرداری میں آلودہ نہیں تھے۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ظلم ،سنگدلی اور جاہ طلبی کا شائبہ تک نہیں تھا، اس وجہ سے لوگوں میں محترم اور قابل اعتماد تھے ۔ جب عربوں نے خانہ کعبہ کی مرمت کرنا چاہی اور حجرا سود کو نصب کر نے کے بارے میں عرب قبائل کے درمیان اختلاف اور جھگڑا پیدا ہوا تو انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوحَکَم قرار دیا اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے ایک عبا کو پھیلا کر حجراسودکو اس میں رکھا گیا اور قبائل کے سرداروں نے عبا کے اطراف کو پکڑ کر اٹھایااور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ہاتھوں سے حجراسود کو اس کی جگہ پر نصب فرمایااور اس طرح قبائل کے درمیان کشمکش ،لڑائی جھگڑا اور احتمالی خونریزی کا خاتمہ ہوا ۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بعثت سے پہلے اگرچہ خدائے یکتا کی پرستشکرتے تھے اوربت پرستی سے اجتناب کرتے تھے ،لیکن بت پرستی کے عقائدسے مقابلہ نہیں کرتے تھے اس لئے لوگ آپ سے کو ئی سروکار نہیںرکھتے تھے ۔اس زمانے میں دوسرے ادیان کے پیرو جیسے یہود و نصاری بھی عربوں میں محترمانہ طور پر زندگی گزارتے تھے اور اعراب ان کے لئے بھی کوئی مزاحمت ایجاد نہیں کرتے تھے ۔

بحیرا راہب کا قصہ

جن دنوں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاحضرت ابو طالب کے ہاں زندگی بسر کر رہے تھے اور ابھی بالغ نہیں ہوئے تھے ، ان دنوںحضرت ابو طالب تجارت کی غرض سے شام گئے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی اپنے ساتھ لے گئے ۔

ایک بڑا قافلہ تھا،کافی مال تجارت کے ساتھ لوگوں کی ایک بڑی تعداد تھی ،قافلہ سر زمین شام میں داخل ہو ا اورشہر بصری میں پہنچا ،ایک دَیر کے قریب پڑاو ڈالااورخیمے نصب کر کے آرام کر نے لگے ۔

ایک راہب جس کا لقب ''بحیرا'' دَیرسے باہر آیا اور قافلہ کی دعوت کی،سب نے بحیرا کی دعوت قبول کی اور دیر میں گئے ۔حضرت ابو طالب بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سامان کے پاس بیٹھا کر دوسرے لوگوں کے ساتھ بحیرا کی دعوت پر گئے۔

بحیرا نے پوچھا :کیا سب آگئے ؟

ابو طالب نے کہا :سب سے چھوٹے ایک نوجوان کے علاوہ سب لوگ آگئے ہیں ۔

بحیرانے کہا :اسے بھی لے کے آئیے ۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زیتون کے ایک درخت کے نیچے کھڑے تھے ،حضرت ابو طالب نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بلایا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی راہب کے پاس آگئے ۔

بحیرانے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایک گہری نظر ڈالنے کے بعدکہا:میرے قریب آجاو ،میں تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔اس کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک طرف لے گیا ۔ حضرت ابو طالب بھی ان کے پاس گئے۔

بحیرانے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں اور تم کو لات وعزی کی قسم دیتاہوں کہ جواب ضرور دینا ۔(لات وعزّیٰ دوبتوں کے نام ہیںکہ جن کی مکہ کے لوگ پرستش کرتے تھے)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سب سے زیادہ میں ان دونوںبتوں سے نفرت کرتا ہوں ۔

بحیرا نے کہا :تم کو خدائے یکتا کی قسم دیتا ہوں سچ کہنا ۔

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :میں ہمیشہ سچ بولتا ہوں اور کبھی جھوٹ نہیں بولتا ہوں آپ اپنا سوال کیجئے۔

بحیرا نے پو چھا :کس چیز کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہو ؟

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :تنہائی کو ۔

بحیرا نے پو چھا :کس چیز پر زیادہ نظر ڈالتے ہواور اسے دیکھنا پسند کرتے ہو۔؟

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:آسمان اور اس میں موجود ستاروں کو۔

بحیرانے پوچھا :کیا سوچ رہے ہو؟

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خاموشی اختیار کی لیکن بحیرا بغور اور سنجیدگی کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیشانی کو د یکھتارہا۔

بحیرانے کہا :کس وقت اور کس فکر میں سوتے ہو ؟

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:اس وقت جب آنکھیںآسمان پر جمائے ہوتا ہوں اور ستاروں کو دیکھتا ہوں،انھیں اپنی آغوش میں اورخود کو ان کے اوپر پاتا ہوں ۔

بحیرا نے کہا: کیاخواب بھی دیکھتے ہو ؟

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جی ہاں ،جو خوا ب میں دیکھتا ہوں ،اسے بیداری میں بھی دیکھتا ہوں۔

بحیرا نے کہا:مثلا،خواب میں کیا دیکھتے ہو ؟

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :نے خاموشی اختیار کی اور بحیرا بھی خاموش رہا ۔

تھوڑی دیر رکنے کے بعد بحیرانے پوچھا:کیا میں آپ کے دونوں شانوں کے درمیان دیکھ سکتاہوں ؟

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی جگہ سے اٹھے بغیر بولے :آئو اور دیکھ لو۔

بحیرا اپنی جگہ سے اٹھا،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آیا ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شانوں سے لباس ہٹایا ،ایک سیاہ تِل نظر آیا ،ایک نظر ڈال کرزیر لب بولا :وہی ہے!

ابو طالب نے پوچھا :کون ہے ؟کیاکہتے ہو؟

بحیرا نے کہا:ایک علامت جس کی ہماری کتابوں میں خبر دی گئی ہے ۔

ابو طالب نے پوچھا :کون سی علامت؟

بحیرا نے دریافت کیا :اس جوان سے آپ کا کیا رشتہ ہے ؟

ابوطالب چونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے بیٹے کی طرح چاہتے تھے ،اس لئے بولے:یہ میرا بیٹا ہے۔

بحیرا نے کہا :نہیں ،اس جوان کا باپ مرچکا ہونا چاہئے ۔

ابو طالب نے پوچھا :تم کیسے جانتے ہو؟جی ہاں یہ جوان میرا بھتیجا ہے !

بحیرا نے ابو طالب سے کہا :سن لو ،اس جوان کا مستقبل اتنا درخشان اورحیرت انگیز ہے ،کہ جو میں نے دیکھاہے اگر اسے دوسرے دیکھ لیںگے اور اسے پہچان لیںگے تو اسے قتل کر ڈالیں گے ،اسے دشمنوں سے مخفی رکھنا اور اس کی حفاظت کر نا ۔

ابوطالب نے کہا : بتائو وہ کون ہے ؟

بحیرا نے کہا: اس کی آنکھوں میں ایک عظیم پیغمبر کی علا مت اور اس کی پشت پر اس کی واضح نشانی ہے ۔

نسطورا راہب کا قصہ

چندبرسوں کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت خدیجہ کبریٰ کی تجارت کے کارندے کی حیثیت سے ان کا مال لیکر دوبارہ شام گئے ۔حضرت خدیجہ نے میسر ہ نامی اپنے ایک غلا م کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ بھیجا اوراس سے تاکید کی کہ مکمل طور پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرے ۔اس سفر میں بھی جب قافلہ شام کی سر زمین پر پہنچا ،تو شہر بصری کے نزدیک ایک درخت کے نیچے پڑائو ڈالا ، وہا ں قریب میں نسطورا نامی ایک راہب کی عبادت گاہ تھی ،جسے میسرہ پہلے سے جانتا تھا۔

نسطورانے میسرہ سے پوچھا:درخت کے نیچے سویاہوا کون ہے ؟

میسرہ نے کہا :قریش سے ایک مرد ہے ۔

راہب نے کہا :اس درخت کے نیچے اب تک کوئی نہیں ٹھہرا ہے اور نہ ٹھہرے گا،مگر یہ کہ خدا کے پیغمبروں میں سے ہو۔

اس کے بعدپو چھا :کیا اس کی آنکھوں میں سرخی ہے؟

میسرہ نے کہا : جی ہاں ،اس کی آنکھیں ہمیشہ اسی حالت میں ہوتی ہیں۔

راہب نے کہا : یہ وہی ہے اوروہ خدا کے پیغمبروں میں سے آخری پیغمبر ہے ،کاش میں اس دن کو دیکھتا ،جس دن وہ دعوت پر مامور ہوں گے ۔

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری پیغمبر ہیں ،جنھیں خدائے متعال نے لوگوں کی ہدایت کے لئے دنیا میں بھیجاہے ۔

چودہ سو سال پہلے ،عالم بشریت ایک ایسی حالت سے گزر رہی تھی کہ جب دین اور توحید کا صرف نام باقی تھا ۔لوگ یکتاپرستی اورخداشناسی سے بالکل دورہو چکے تھے۔ معاشرے سے انسانیت کے آداب اور عدالت ختم ہوچکی تھی۔جزیزہ نما ئے عرب ، میں خانہ خدا اوردین ابراہیم کا مرکز ہو نے کے باوجود،کعبہ شریف بت خانہ میں اوردین ابراہیم بت پرستی میں تبدیل ہو چکا تھا ۔

عر بوں کی زندگی ،قبیلوں پر مشتمل تھی ، یہاں تک کہ چند شہر جوحجاز اور یمن وغیرہ میں تھے، اسی ترتیب سے چلائے جاتے تھے ۔ دنیائے عرب بد ترین حالات سے گزر رہی تھی تہذیب و تمدن کے بجائے ان میں بے حیائی ،عیاشی ،شراب نوشی اور جوا کھیلنا رائج تھا ۔لڑکیوں کو زند ہ دفن کیا جاتا تھا ۔لوگوں کی زندگی اکثر چوری ،ڈاکہ زنی ،قتل اور مال مویشوں کو لوٹ کر چلائی جاتی تھی ۔ظلم وستم اورخونریزی کو سب سے بڑا فخر سمجھا جاتا تھا ۔

خدائے متعال نے ایسے ماحول میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا کی اصلاح اور رہبری کے لئے مبعوث فرمایا اورقرآن مجید کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کیا۔ جس میں حق شناسی کے معارف،انصاف کے نفاذ کے طریقے اور مفید نصیحتیں موجود ہیں ،اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مامور فرمایا تاکہ آسمانی سند سے لوگوں کوانسانیت اورحق پیروی کرنے کی دعوت دیں ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت سے پہلے بت پرستی کے ماحول میں زندگی بسر کرنے کے باوجود کبھی بتوں کی تعظیم میں سر تسلیم خم نہیں کیا اور ہمیشہ خدائے یکتا کی پرستش کرتے رہے ،کبھی مکہ کے نزدیک واقع غار حرامیں جاتے تھے اور لوگوں کے شوروغوغاسے دوراپنے پروردگارسے مناجات کرتے تھے ۔جب آنحضر ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی عمر شریف کے چالیس سال گزارنے کے بعدپروردگار عالم کی طرف سے مقام رسالت وپیغمبری پرمبعوث ہوئے توقرآن مجید کا پہلا سورہ (قرء باسم ربّک)آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرنازل ہوا اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کی دعوت وتبلیغ پرما مور ہوئے ۔ابتدائی مرحلہ میں جو ماموریت ذمہ د اری آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تھی وہ یہ تھی کہ دعوت کو مخفی طورپر شروع کریں ۔

سب سے پہلے جو شخص آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لایا وہ حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام تھے ،وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں زندگی بسر کرتے تھے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ان کی تر بیت فرماتے تھے ،حضرت علی کے بعدحضرت خدیجہ کبریٰ سلام اللہ علیہا نے اسلام قبول کیا۔ ایک مدت تک یہ دونوں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے رہے جبکہ اس وقت دوسرے لوگ شرک و کفر میں زندگی بسر کررہے تھے ،کچھ دنوں کے بعد تھوڑے سے لوگ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لائے ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین سال کے بعد خدا کی طرف سے حکم ہوا کہ اعلانیہ طور پر دعوت دیں اوراپنے رشتہ داروں سے اس کا آغاز کریں۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس حکم کے مطابق اپنے تمام رشتہ داروں کو جمع کیا اوران کے سامنے اپنی رسالت کا اعلان کیا اور یہ بشار ت دی کہ جوبھی ان میں سب سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کو قبول کرے گا وہی آپ کا جانشین ہوگاآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس اعلان کو تین بار دوہرایا لیکن ان میں سے کسی نے قبول نہیں کیا، بلکہ ہر بارصرف حضرت علی علیہ السلام اٹھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپیل کو قبول کیا ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی ۔ اور ان کو اپنا جا نشین بنانے کا وعدہ کیا۔آخر میں ان لوگوں نے کھڑے ہوکر ہنسی اڑاتے ہوئے حضرت ابو طالب سے مخاطب ہو کر کہا :''اس کے بعدتمہیں اپنے فرزندکی اطاعت کرنی چاہئے''پھر وہ لوگ چلے گئے۔

اسکے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلانیہ طور پر عام دعوت کا آغازکیا،لیکن لوگوں سے شدید ،سخت،عجیب اورناقابل برداشت مقابلہ کرنا پڑا ۔مکہ کے لوگ اپنے وحشیانہ مزاج اور اپنی بت پرستی کی عادت کی وجہ سے دشمنی اورضد پر اترآئے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے پیروئوں کو جسمانی اذیت پہنچانے ،مضحکہ اور توہین کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھتے تھے اور ہرروز اپنی بیوقوفی اورسختی میں اضافہ کرتے تھے۔

جتنا لوگوں کی طرف سے سختی اوردبائو بڑھتاجا رہاتھا ،اتناہی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اپنی دعوت میں صبرواستقامت،اورثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے اور اسلام کے پیروئوں میں تدریجاًاضافہ ہوتارہا لہذاکفار نے آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کولالچ دینا شروع کی کہ انہیں کافی مال ودولت دیں گے یا انھیں حاکم کے طور پر منتخب کریں گے تاکہ وہ اپنی دعوت سے دست بردار ہو جائیں یاصرف اپنے خدا کی طرف دعوت دیں اور ان کے خدائوں کو نہ چھیڑیں ۔لیکن پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجویز کو ٹھکرادیا اور اس خدا ئی فریضہ کو انجام دینے اوردعوت کو جاری رکھنے کے اپنے مستحکم عزم وارادے کا اعلان کیا ۔

کفار جب طمع و لالچ کے راستے سے ناامید ہوگئے تو انہوں نے دوبارہ اپنے دبائو میں اضافہ کیا اور مسلمانوں کو سخت جسمانی اذ یتین تکلیفیں پہنچانے لگے اور کبھی ان میں سے کچھ کو قتل کر تے تھے تاکہ انھیں اسلام سے روک سکیں ۔کفار نے قبیلئہ بنی ہاشم کے سردار حضرت ابو طالب کے لحاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے سے اجتناب کیا ،لیکن یہ لحاظ دوسری اذیتوں اور تکلیفوں کو روک نہ سکا۔

ایک مدت کے بعد مسلمانوں کا عرصئہ حیات اور تنگ ہو گیا اورظلم وستم اپنی انتہا کو پہنچ گیا حالت یہ ہو گئی تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب کوحبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دیدی تاکہ کچھ دنوں تک آرام کی سانس لے لیں ۔ایک جماعت نے حضرت علی کے بھائی حضرت جعفربن ابیطالب کی سر کردگی میں اپنے اہل وعیال کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی (جعفرپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منتخب صحابیوں میں سے تھے)۔

کفار مکہ جب مسلمانوں کی ہجرت سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے اپنے دوتجربہ کارافراد کو کافی مقدار میں تحفہ و تحائف کے ساتھ حبشہ کے بادشاہ کے پاس بھیجا،اورانہوں نے بادشاہ سے مکہ کے مہاجرین کو واپس بھیجنے کا تقاضا کیا ،لیکن جعفربن ابیطالب نے اپنے بیانات سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سر ا پا نورانی شخصیت اور اسلام کے بلند اصولوں کی حبشہ کے بادشاہ ،مسیحی پادریوں اور ملک کے حکام کے سامنے تشریح کی اور سورئہ مریم کی چند آیتوں کی تلاوت فرمائی ۔

حضرت جعفر بن ابیطالب کاحق پر مبنی یہ بیان ایسا دلچسپ و مو ثرتھا کہ بادشاہ اور مجلس میں موجود تمام لوگوں نے آنسوبہائے ۔نتیجہ میں بادشاہ نے کفار مکہ کے تقاضا کو مسترد کیا اور ان کے بھیجے ہوئے تحفوں کو واپس کر دیا اورحکم دیا کہ مسلمان مھاجرین کے آرام وآسائش کے تمام امکا نات فراہم کئے جائیں۔

کفار مکہ نے اس روئداد کے بعدآپس میں معاہدہ کیا کہ بنی ہاشم ،جو پیغمبراسلام کے رشتہ دار تھے ،اور ان کے حامیوں کے ساتھ قطع تعلق کر کے مکمل طورپر سوشل بائیکاٹ کریں، اس سلسلہ میں انہوں نے ایک عہد نامہ لکھا اور عام لوگوں سے دستخط لے کر اسے کعبہ میں رکھا ۔

بنی ہاشم،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ مکہ سے باہرجانے پر مجبور ہو ئے اور شعب ابو طالب نامی کے ایک درہ میں پناہ لی او رانتہا ئی سختی اور بھوک میں زندگی بسر کرتے تھے۔

اس مدت کے دوران کسی نے شعب ابو طالب سے باہر آنے کی جرائت تک نہیں کی، دن میں شدید گرمی اور رات کو عورتوں اور بچوں کی فر یادوں سے دست وگریبان تھے۔

کفار تین سال کے بعد عہد نامہ کے محوہونے اور بہت سے قبائل کی طرف سے ملامتوں کے نتیجہ میں اپنے معاہدہ سے دست بردار ہوئے اور بنی ہاشم کا محاصرہ ختم ہوا ،لیکن انہی دنوںپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تنہا حامی حضرت ابو طالب اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریک حیات حضرت خدیجہ کبری کا انتقال ہو گیا۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے لئے اور مشکل ہو گئی۔آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں یہ طاقت نہیں رہی کہ لوگوں کے درمیان جائیں یا خود کو کسی کے سامنے ظاہر کریں یاکسی خاص جگہ پر رہیں۔یہاں تک کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان کی کو ئی حفا ظت نہیں تھی ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طائف کی طرف سفر

جس سال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بنی ہاشم شعب ابو طالب کے محاصرہ سے باہر آئے ،وہ بعثت کا تیرھواں سال تھا ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان ہی دنوں شہرطائف کی طرف سفر کیا۔(طائف مکہ سے تقریبا سو کلو میٹر کی دوری پر ایک شہرہے)آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طائف کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دی ،لیکن اس شہر کے جاہل ہر طرف سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ آور ہوئے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برابھلا کہا ،سنگسار کیا اورآخرکار آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوشہر سے باہر نکال دیا گیا ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طائف سے مکہ لوٹے اور کچھ مدت تک مکہ میں رہے ،چونکہ وہاں پر جان کی کوئی حفاظت نہیں تھی،اس لئے لوگوںکے درمیان نہیں آتے تھے۔ کفار مکہ کے سردار اوربزرگ شمع رسالت کو گل کرنے کی خاطر مناسب فرصت کو دیکھتے ہوئے ،دار الندوہ ۔جو مجلس شوری کے مانند تھا ۔ میں جمع ہوئے اور ایک مخفیانہ مٹینگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کا آخری منصوبہ بنایا ۔

مذکورہ منصوبہ یہ تھا کہ قبائل عرب کے ہر قبیلہ سے ایک شخص کو چن لیا جائے اور تمام منتخب افراد ایک ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر پر حملہ کر کے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کر ڈالیں۔ اس منصوبہ میں تمام قبائل کو شریک کرنے کا مقصود یہ تھا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قبیلہ بنی ہاشم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خون کا بدلہ لینے کے لئے قیام نہ کر سکئے اور قتل کامنصوبہ بنانے والوں سے نہ لڑ سکے۔ اوراسی طرح بنی ہاشم میں سے ایک آدمی کو شر یک کر کے قبیلئہ بنی ہاشم کی زبان مکمل طور پر بند کردی ۔

اس فیصلے کے مطابق ،مختلف قبائل کے تقریبا چالیس افراد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل کے لئے منتخب ہوئے ، انہوں نے رات کے اندھیرے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا ،حملہ آور سحر کے وقت گھر میں داخل ہوئے تاکہ منصوبہ کوعملی جامہ پہنائیں،لیکن ارادئہ الہی ان کے ارادہ سے بلند ہے ، کہ جس سے ان کے منصوبہ پر پانی پھرگیا ۔خدائے متعال نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کئی اور کفار کے منصودبہ سے آگاہ فرمایااورحکم فرمایا کہ راتوں رات مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کریں ۔

پیغمبرا کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعہ کی روداد سے حضرت علی علیہ السلام کو آگاہ فرمایا اور حکم دیا کہ رات کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر سو جائیں اور ان سے کچھ وصیتیں کیںاور رات کے اند ھیرے میں گھر سے باہر نکلے ،راستے میں حضرت ابو بکرکودیکھا ،انھیں بھی اپنے ساتھ مدینہ لے کر گئے ۔مدینہ کے کچھ بزرگ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت سے پہلے مکہ آکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی اور آپ پر ایمان لائے تھے اور ضمنا ًایک عہدنامہ لکھا تھا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائیں تو وہ ان کی حمایت میں ایسے ہی دفاع کریں گے جیسا وہ اپنی جان و عزت کا دفاع کرتے ہیں ۔

مدینہ کے یہودیوں کی بشارت

یہودیوں کے بہت سے قبیلوںنے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوصاف اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جگہ کے بارے میں اپنی کتابوں میں پڑھاتھا اور اپنے وطن کو ترک کر کے حجاز آکر مدینہ اور اس کے اطراف میں پڑائو ڈالا تھا اورنبی امی کے ظہور کاانتظار کر رہے تھے۔چونکہ وہ لوگ دولت مند تھے ،اس لئے اعراب کبھی کبھی ان پر حملہ کر کے ان کے مال ودولت کو لوٹ لیتے تھے ۔

یہودی ہمیشہ مظلو میت کے عالم میں ان سے مخاطب ہو کر کہتے تھے : ''ہم تم لوگو ں کے ظلم وستم پریہاں تک صبر کریں گے کہ نبی امی مکہ سے ہجرت کرکے اس علاقہ میں آ جائیں، اس دن ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لاکر تم لوگوں سے انتقام لیں گے''۔

اہل مدینہ کے فورَا ایمان لانے کے اہم عوامل میں سے ایک ان ہی بشارتوں کا ان کے ذہنوں پر اثر تھا ،آخر کار وہ لوگ ایمان لے آئے۔ لیکن یہودیوں نے قومی تعصب کی بنا پر ایمان لانے سے گریز کیا ۔

نبی کی بشارتوں کی طرف قرآن مجید کااشارہ

خدائے متعال اپنے کلام پاک میں کئی جگہوں پران بشارتوں کی طرف اشارہ فرماتا ، بالخصوص اہل کتاب کے ایک گروہ کے ایمان کے بارے میں فرماتا ہے۔

( الّذین یتّبعون الرّسول النّبی الامّی الّذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التّوریة والانجیل یامرهم بالمعروف و ینهٰهم عن المنکر و یحلّ لهم الطّیبٰت ویحرّم علیهم الخبٰئث ویضع عنهم اصرهم و الاغلل التّی کانت علیهم ) ۔

(اعراف١٥٧)

''جولوگ کہ رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہو جس کاذکر اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں کہ وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوںسے روکتا ہے اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتا ہے اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان پرسے احکام کے سنگین بوجھ اور قید وبند کو اٹھادیتا ہے...''

مزید فرماتا ہے:

( ولمّا جاء هم کتب من عند اللّه مصدّق لما معهم و کانوا من قبل یستفتحون ) ...) (بقرہ٩)

''اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے کتاب آئی ہے جوان کی توریت وغیرہ کی تصدیق بھی کرنے والی ہے اور اسکے پہلے وہ دشمنوںکے مقابلہ میں اسی کے ذریعہ طلب فتح بھی کرتے تھے ۔''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدینہ میں ورود

اسلام کی ترقی کی زمین شہر یثرب جس کا بعد میں مدینہ نام رکھا گیا۔میں ہموارہوی اور اس کاسبب یہ تھا کہ اہل مدینہ داخلی جنگ۔جو برسوں سے اوس وخزرج نامی دوقبیلوں کے درمیان جاری تھی ۔سے تنگ آچکے تھے ،آخر کار وہ اس فکرمیں تھے کہ اپنے لئے ایک بادشاہ کا انتخاب کر کے اس قتل و غارت کو ختم کریں ۔

انہوں نے اس کام کے لئے،اپنے چند معروف افراد کو مکہ بھیجا تاکہ اس سلسلہ میں مکہ کے سرداروں سے گفتگو کریں ۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مکہ میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دعوت کو اعلانیہ طور پر شروع کیا تھا ۔

مدینہ کی معروف شخصیتیں جب مکہ پہنچ گئیں اور انہوں نے اپنے مقصدکو قریش کے سرداروں کے سامنے پیش کیا،تو قریش کے سرداروںنے اس عذرو بہانہ سے ان کے ساتھ صلاح ومشورہ کرنے سے پہلو تی کی کہ ایک مدت سے اس شہر میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور ہمارے مقدس خدائوں کو برا بھلا کہا ہے، اور ہمارے جوانوں کو گمراہ کیا ہے اور ہمیں فکرمند کیا ہے۔

اس بات کو سن کر اہل مدینہ ہل کر رہ گئے ،کیونکہ انہوں نے مدینہ میں یہودیوں سے بارہا یہ پیشگوئی سنی تھی کہ مکہ میں نبی امی ظہور کریں گے،لہذا ان کے دماغ میں یہ خیال پیدا ہو اکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاکر انھیں دیکھیں اور ان کی دعوت کی کیفیت سے آگاہ ہو جائیں ۔جب وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیانات اور قرآن مجید کی آیات کوسنا تو وہ ایمان لے آئے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وعدہ کیا کہ اگلے سال مدینہ کے کچھ لوگوں کے ہمراہ آکر اسلام کی ترقی کے اسباب فراہم کریں گے ۔

دوسرے سال مدینہ کے سرداروں کی ایک جماعت مکہ آئی،رات کے وقت شہر سے باہر تنہائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی اور مدینہ میں دین اسلام کو رائج کرنے کا عہد وپیمان کیا اور کہا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائیں تو وہ دشمنوں سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس طرح حفاظت ودفاع کریں گے جیسا وہ اپنے خاندان کا دفاع کرتے ہیں اس کے بعد یہ لوگ مدینہ لوٹے ،اہل مدینہ میں سے اکثر لوگوںنے اسلام قبول کیا اور اس طرح شہر مدینہ اسلام کا پہلا شہر بن گیا ۔لہذا جب انہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف لانے کی خبر سنی تو وہ بہت خوشحال ہوئے اور انتہائی بے تابی کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے استقبال کے لئے بڑھے اور آپ کاشایان شان استقبال کیا اور انتہائی خلوص نیت سے اپنی جان ومال کو اسلام کی ترقی کے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا اسی لئے ان کانام''انصار'' رکھا گیا۔ خدائے متعال اپنے کلام پاک میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے واقعہ اور انصار کی خدمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کی قدردانی کرتا ہے:

( والّذین تبو ء والدّار والایمٰن من قبلهم یحبّون من هاجر لیهم و لا یجدون فی صدورهم حاجةً ممّا اوتو ویؤثرون علی انفسهم ولو کان بهم خصاصة ) ۔ (حشر٩)

''اور جن لوگوں نے دارالہجرت اور ایمان کو ان سے پہلے اختیار کیا تھا وہ ہجرت کرنے والوں کو دوست رکھتے ہیں اور جو کچھ انھیں دیا گیا ہے اپنے دلوں میں اس کی طرف سے کوئی ضرورت نہیں محسوس کرتے ہیں اور اپنے نفس پر دوسروں کو مقدم کرتے ہیں چاہے انھیں کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو ...''