دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 36588
ڈاؤنلوڈ: 1942

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36588 / ڈاؤنلوڈ: 1942
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی جنگوںکاایک مختصرجائزہ

١۔جنگ بدر

آخر کار ٢ھ میں مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان پہلی جنگ سرزمین بدر میں ہوئی۔اس جنگ میں کفار کے سپاہیوں کی تعدادتقریبا ایک ہزار تھی جو جنگی سازوسامان اور اسلحہ سے مکمل طور پر لیس تھے اور مسلمانوں کے پاس ان کی نسبت ایک تہائی افراد تھے جو اچھی طرح سے مسلح بھی نہیں تھے۔لیکن خدائے متعال کی عنایتوں سے اس جنگ میں مسلمانوں کو شاندار فتح حاصل ہوئی اور کفار کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اس جنگ میں کفار کے ستر افراد مارے گئے،ان میں سے تقریبا نصف حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے قتل ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کے سترآدمی اسیر کر لئے گئے اور باقی افراد تمام جنگی سازوسامان چھوڑ کر بھاگ گئے ۔

٢۔جنگ احد

٣ ہجری میں کفار مکہ نے ابوسفیان کی سرکردگی میں تین ہزار افراد کے ساتھ مدینہ پر حملہ کیا اور احد کے بیابان میں ان کا مسلمانوں کے ساتھ آمناسامنا ہوا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس جنگ میں سات سو مسلمانوں کے ہمراہ کفار کے سامنے صف آرائی کی۔جنگ کی ابتداء میں مسلمانوں کا پلہ بھاری تھا ،لیکن کئی گھنٹوں کے بعد بعض مسلمانوں کی کوتاہی کی وجہ سے لشکر اسلام کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور کفار نے ہر طرف سے مسلمانو ںپر تلواروں سے وارکیا ۔

اس جنگ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچاحضرت حمزہ تقریبا ستر اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،جن میں اکثر انصار تھے،کے ساتھ شہید ہوئے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی مبارک زخمی ہوئی اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے کے دانتوں میں سے ایک دانت ٹوٹ گیا ۔ایک کافرنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شانہ مبارک پر ایک ضرب لگاکر آوازدی :''میں نے محمد کو قتل کردیا''اس کے نتیجہ میں لشکر اسلام پراگندہ ہوا ۔

صرف حضرت علی علیہ السلام چند افراد کے ہمراہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے ثابت قدم رہے اورحضرت علی علیہ السلام کے علاوہ سب شہید ہوئے حضرت علی علیہ السلام نے آخر تک مقابلہ کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کیا ۔

آخری وقت ،اسلام کے فراری فوجی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد دوبارہ جمع ہوئے ،لیکن دشمن کے لشکر نے اس قدر کامیابی کو غنیمت سمجھ کر جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا اور مکہ روانہ ہوے ۔

لشکر کفار چند فرسخ طے کرنے کے بعد اس بات پر غور کرنے کے بعد سخت پشیمان ہوئے کہ انہوں نے جنگ کو آخری فتح تک کیوں جاری نہ رکھا تاکہ مسلمانوں کی عورتوںاور بچوں کو اسیر کر کے ان کے اموال کو لوٹ لیتے ۔اس لئے مدینہ پر دوبارہ حملہ کرنے کے لئے آپس میں مشورہ کررہے تھے۔لیکن انھیں یہ خبر ملی کہ لشکر اسلام جنگ کو جاری رکھنے کے لئے ان کے پیچھے آرہا ہے ۔وہ اس خبر کو سن کر مرعوب ہوئے اور پھر سے مدینہ لوٹنے کا ارادہ ترک کر کے تیزی کے ساتھ مکہ کی طرف بڑھ گئے ۔

حقیقت بھی یہی تھی ،کیوںکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خد اکے حکم سے مصیبت زدہ لوگوں کا ایک مسلح لشکر تیار کر کے حضرت علی علیہ السلام کی سر پرستی میں ان کے پیچھے روانہ کیا تھا۔

اس جنگ میں اگر چہ مسلمانو ں کو زبر دست نقصان اٹھانا پڑا لیکن حقیقت میں یہ اسلام کے نفع میں ختم ہوئی خصوصاََ اس لحاظ سے کہ دونوں طرف نے جب جنگ بندی کے معاہدہ پر اتفاق کیا تو اسی وقت طے پایا تھا کہ اگلے سال اسی وقت بدر میں پھر سے جنگ لڑیں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کے ایک گروہ کے ساتھ وعدہ کے مطابق وقت پر بدر میں حاضر ہوگئے ،لیکن کفار وہاں نہ پہنچے ۔

اس جنگ کے بعد مسلمانوں نے اپنے حالات کو بہتربنایا اور جزیرہ نما ئے عرب میں مکہ اور طائف کے علاوہ تمام علاقوں میں پیش قدمی کی۔

٣۔جنگ خندق

تیسری جنگ جو عرب کفار نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ لڑی ،اورجو اہل مکہ کی رہبری میں آخری اور ایک زبردست جنگ تھی ،اسے ''جنگ خندق'' یا''جنگ احزاب ''کہتے ہیں ۔

جنگ احد کے بعد مکہ کے سردار ابوسفیان کی سر کردگی میں اس فکر میں تھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آخری اور کاری ضرب لگا کر نور اسلام کو ہمیشہ کے لئے بجھادیں۔ اس کام کے لئے عرب قبائل کوابھارا اور اپنے تعاون اور مدد کے لئے دعوت دی ۔ طوا ئف کے یہو دی بھی اسلام کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنے کے باوجود چوری چھپے اس آگ کو ہوادے رہے تھے اورآخر کار اپنے عہد وپیمان کو توڑ کر کفار کے ساتھ تعاون کرنے کاکھل کر معاہدہ کیا ۔

جس کے نتیجہ میں ٥ھ میں قریش ،عربوں کے مختلف قبائل اور طوائف کے یہودیوں پر مشتمل ایک بڑااور سنگین لشکر تمام جنگی سازو سامان سے لیس ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے ہی دشمن کے اس منصوبے سے آگاہ ہو چکے تھے۔اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا ۔ایک طویل گفتگواور صلاح ومشورہ کے بعد،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک معزز صحابی سلمان فارسی کی تجویز پر شہر مدینہ کے اردگرد ایک خندق کھودی گئی اور لشکر اسلام نے شہر کے اندر پناہ لی ۔دشمن کی فوجیں جب مد ینہ پہنچیں تو انھیں مدینہ کے اندر داخل ہونے کا راستہ نہیںملا ،مجبور ہو کر انہوں نے شہر مدینہ کو اپنے محاصرہ میں لے لیا اور اسی صورت میں جنگ شروع کی ۔جنگ اور محاصرہ کچھ طولانی ہوگیا ۔اسی جنگ میں عرب کا نامور شجاع اور شہسوارعمروبن عبدود،حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوا ۔آخر کارطوفان ،سردی، محاصرہ کے طولانی ہونے ،عربوں کی خستگی اور یہودواعراب کے درمیان اختلاف کے نتیجہ میں محاصرہ ختم ہوا اور کفار کا لشکرمدینہ سے چلا گیا ۔

٤۔جنگ خیبر

جنگ خندق کے بعد،جس کے اصلی محرک یہو دی تھے ،جنہوں نے کفارعرب کا تعاون کر کے اعلانیہ طورپر اسلام کے ساتھ اپنے معاہدہ کو توڑ دیا تھا ،پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا کے حکم سے مدینہ میں موجودیہودی کے قبائل کی گوشمالی اور تنبیہ کرنے کے لئے ان کے ساتھ چند جنگیں لڑیں اور یہ سب جنگیں مسلمانوں کی فتحیابی پر ختم ہوئیں ۔ان میں سب سے اہم''جنگ خیبر''تھی ۔خیبر کے یہو دیوں کے قبضہ میں چند مستحکم اورمضبوط قلعے تھے اور انکے پاس جنگجوئوں کی ایک بڑی تعداد تھی ،جوجنگی سازوسامان سے لیس تھے ۔

اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام نے یہودیوں کے نامور پہلوان''مرحب ''کو قتل کر کے یہودیوں کے لشکر کو تہس نہس کر دیا اور اس کے بعدقلعہ پر حملہ کیا اور قلعہ کے صدردروازے کو اکھاڑدیا اور اسطرح اسلام کا لشکر قلعہ کے اندر داخل ہوا اورفتح وظفر کے پرچم کو قلعہ پر لہرادیا ۔اسی جنگ میں ،جو ٥ھ میں ختم ہوئی حجاز کے یہودیوں کاخاتمہ ہوا ۔

بادشاہوں اور سلاطین کو دعوت اسلام

٦ھمیں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی بادشاہوں ،سلاطین اورفرمانروائوں، جیسے:شاہ ایران،قیصر روم،سلطان مصراور حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے نام چند خطوط تحریر فر مائے اور انھیں اسلام کی دعوت دی ۔نصرانیوں اور مجوسیوں کے ایک گروہ نے جزیہ دے کر امن سے رہنے کا وعدہ کیا اور اسطرح اسلام کے ذمہ میں آگئے ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کفار مکہ سے جنگ نہ کرنے کا ایک معاہدہ کیا ۔اس معاہدہ کے جملہ شرائط میں یہ شرط بھی تھی کہ مکہ میں موجودمسلمانوں کو کسی قسم کی اذیت نہ پہنچائی جائے اور اسلام کے دشمنوں کی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں مدد نہ کی جائے ۔

لیکن کفار مکہ نے کچھ مدت کے بعد اس معاہدہ کو توڑ دیا ،جس کے نتیجہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کو فتح کرنے کا فیصلہ کیااور ٦ھ میں دس ہزارکے ایک لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ کیا۔ مکہ کسی جنگ،خونریزی اور مزاحمت کے بغیر فتح کیا اورخانہ کعبہ کو بتوں سے صاف کیا ۔

عام معافی کا اعلان فرمایا ۔مکہ کے سرداروں کو۔جنہوں نے بیس سال کے عرصہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کافی دشمنی کی تھی اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اورآپ کے اصحاب کے ساتھ نارواسلوک کیا تھا۔اپنے پاس بلایا اور کسی قسم کی شدت ،برے سلوک اور سختی کے بغیر نہایت مہر بانی اور لطف و کرم سے انھیں معاف فرمایا ۔

٥۔جنگ حنین

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کو فتح کرنے کے بعد ،اس کے اطراف منجملہ شہر طائف کو فتح کر نے کے لئے اقدام کیا اور اس سلسلہ میں عربوں سے متعدد جنگیں لڑیں کہ ان میں سے ایک ''جنگ حنین ''ہے۔

''جنگ حنین''،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہم جنگوں میں سے ہے۔یہ جنگ فتح مکہ کے کچھ ہی دنوں بعد حنین،میں قبیلہ ھوازن سے ہوی ۔لشکر اسلام نے دوہزارسپاہوں سے ھوازن کے کئی ہزار سواروں کا مقابلہ کیا اور ان کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ ہوی۔

ھوازن،نے جنگ کے آغاز میں مسلمانوں کو بری طرح شکست دیدی،یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام ،کہ جن کے ہاتھ میں اسلام کا پرچم تھا ،جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آگے آگے لڑرہے تھے اور چند گنے چنے افرادکے علاوہ سب بھاگ گئے ۔لیکن کچھ دیر کے بعد ہی پہلے انصاراورپھر دوسرے مسلمان دوبارہ میدان کارزار کی طرف واپس لو ٹے اور ایک شدیداور سخت جنگ لڑی اور دشمن کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ۔

اس جنگ میں دشمن کے پانچ ہزار سپاہی لشکر اسلام کے ہاتھوں اسیر ہو ئے ،لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر مسلمانوں نے تمام اسیروں کو آزاد کردیا ،صرف چند افراد ناراض تھے کہ آنحضرت نے ان کے حصے میں آئے افراد کو پیسے دیکر خرید لیا اور پھر انہیںآزاد کر دیا ۔

٦۔جنگ تبوک

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ٩ ہجری میں قیصر روم سے جنگ کرنے کی غرض سے تبوک پر لشکر کشی کی( تبوک شام او رحجازکی سرحدپر ایک جگہ ہے) کیونکہ افواج پھیلی تھی کہ قیصر روم نے اس جگہ پر رومیوں اور اعراب کے ایک لشکر کو تشکیل دیا ہے ۔ جنگ موتہ بھی اس کے بعد رومیوں کے ساتھ وہیں پر لڑی گئی جس کے نتیجہ میں جعفر بن ابیطالب ، زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ جیسے اسلامی فوج کے سردار شہید ہوئے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تیس ہزار سپاہیوں کے ساتھ تبوک پر حملہ کیا لیکن اسلامی لشکر کے پہنچنے پر وہاں موجود افراد بھاگ گئے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین دن تبوک میں ٹھہرے ۔ اس کے اطراف کی پاک سازی کرنے کے بعد واپس مدینہ لوٹے۔

اسلام کی دوسری جنگیں

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مذکورہ جنگوں کے علاوہ مدینہ منورہ میں اپنے دس سالہ قیام کے دوران تقریبا اَسّی چھوٹی بڑی جنگیں لڑی ہیں، جن میں سے ایک چوتھائی جنگوں میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بذات خود شرکت فرمائی۔

آنحصرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جن جنگوں میں شر کت فرمائی ،دوسرے کمانڈروں کے بر خلاف کہ وہ پناہ گاہ میں بیٹھ کر فرمان جاری کر تے ہیں ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بذات خودسپاہیوں کے شانہ بہ شانہ لڑتے تھے ،لیکن کسی کو ذاتی طور پرقتل کرنے کا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے کبھی اتفاق پیش نہیں آیا ۔